دفعہ ۹

اِنسان ایک خاص وقت سے دنیا میں ہے

آدم کسی خاص وقت میں موجود ہوا تھا وہ ہمیشہ سے نہ تھا۔لیکن وہ کب پیدا ہوا تھا؟ اُسے کتنے برس کا عرصہ گزرا؟ اس کے سن سال کا قطعی ثبوت ہمارے پاس نہیں ہے۔ احتمالی ثبوت ہے نہ قطعی۔اوروہ یہ ہے کہ عہد عتیق کے عبرانی نسخوں کے نسب ناموں پر فکر کرکے ہمارے بزرگ عالموں نے یوں دریافت کیا ہے کہ آدم ہمارے خُدا وند یسوع مسیح سے (۴۰۰۴)برس پہلےدنیا میں پیدا ہوا تھا اور اس تعداد کے ساتھ اس وقت (۱۸۸۹)مسیحی برس ملانے سے (۵۸۹۳)برس آدم کو ہوتے ہیں۔عموماً کلیسیاء میں یہ تعداد مسلم ہے بلکہ کلام اللہ کے حاشیہ پر بھی مرقوم ہے۔ کیونکہ پرا نے نسب ناموں کے حساب سے بھی تعداد اتنی ہے۔

 سپتو اجنت Septuagint اورتواریخ یوسیفس Josephus سے جہاں حدیثوں کی بھی رعایت ہے۔آدم سے مسیح تک (۵۵۰۰)برس کا عرصہ نکلتا ہے۔اس لئے ہم برسوں کی تعداد قطعاً معین نہیں کرسکتے اور نہ کسی تعداد پر زور دیتے ہیں کیونکہ ہمارا کوئی ایمانی مسئلہ کسی تعداد پر موقوف نہیں ہے۔ہوسکتا ہے کہ وہی حساب درست ہو جو عبرانی نسخوں سے آتا ہے۔

ہاں اس بات کا ثبوت ہم پر واجب ہے کہ جہاں کی پیدائش میں آدم خُدا تعالیٰ کی آخری مخلوق تھا اور کہ چھٹے دن میں آدم اورحوا کی پیدائش ہوئی ہے۔ ان کی پیدائش کے بعد کسی اورچیز کی پیدائش کا ذکر نہیں ہے۔ یہاں سے دوباتیں نکلتی ہیں۔

اول آنکہ وہ جوڑا آدم اور حوا کا تمام پیدائش میں آخری مخلوق تھا۔

دوم ان کی ساری جسمانی پیدائش کا مقصد وہی جوڑا تھا جس پر خالق نے پیدائش کا کام تمام کردیا تھا۔

وہ جوکہتے ہیں کہ آدمی ہمیشہ سے یوں ہیں، برابر چلے آتے ہیں غلطی پر ہیں کیونکہ ان کے لئے ابتدا ضرور ثابت ہے۔

علم ترکیب ارضی ثابت کرتاہے کہ انسان کا وجود ایک خاص وقت میں نظر آیا ہے۔وہ لاانتہا عرصہ سے نہیں ہے اورجب کہ علمی طور سے یہ بات معلوم ہوگئی تو پھر کلام اللہ پر ایمان لانے میں کیا حجت ہے ؟

ہر ابتدا  کے لئے انتہا ہے اورا نسان کے لئے ابتدا ثابت ہے پس انسان کے لئے انتہا بھی آئےگی۔ اورچونکہ انسان کی رُوح غیر فانی مخلوق ہے، اس لئے اُس کی انتہائی بھی ہے کہ وہ دوسری حالت میں جائے۔ اُسی کا نام آخرت ہے۔اُس وقت ولادت کا قاعدہ بند ہوجائیگا اور جہان کے کام تمام ہوجائیں گے۔ قدرت الہٰی کچھ اورہی رنگ دکھائے گی۔اگر مرضی ہوتو نبیوں کی بات مان لو کہ آخرت آنے والی ہے ورنہ انسان کے لئے علمی طور سے ازلیت ثابت کرو اورعلم ترکیب ارضی کو جو انسان کے لئے ابتدا ثابت کرتا ہے خاک میں دبادوجہاں وہ پہلے دباتھا یا کہو کہ ہر ابتدا  کے لئے انتہا ثابت نہیں ہے اوراپنی تمیز کو آپ ہی جواب دو۔

دفعہ ۱۰

آدم کیونکر پیدا ہوگیا

دنیا کے سب آدمی قاعدہ معمولی کے موافق والدین سے پید اہوتے ہیں اوریہ اُن کے لئے فطری قاعدہ ہے۔ چنانچہ سب حیوانات کے لئے بھی قواعد فطریہ مقرر ہیں۔اگر یہی قاعدہ شروع سے ہے تو پہلے جوڑے کے والدین کون تھے؟ اوراُن میں سے بھی ہر فرد کے لئے ایک جوڑا چاہیئے۔ دَور تو کسی طرح سے ہوہی نہیں سکتا کہ اُ س جوڑےکا وجود ہم پر موقوف ہو اورہمارا وجود اُس پر۔

اورتسلسل بھی باطل ہے اوریہ خوب ثابت ہے کہ انسان سب سے پیچھے  پیدا ہوا ہے۔پس وہ پہلا جوڑ ایقیناً قاعدہ معلومہ کے خلاف کسی اورقاعدہ سے پیدا ہوا ہوگا اوریہ قاعدہ معمولی اُس کی پیدائش کے بعد جاری ہوا ہے۔

اب حجت اس میں ہے کہ وہ جوڑا کس قاعدہ سے اورکیونکر پیدا ہوا تھا؟ اگرکوئی آدمی اپنی عقل سے کہے کہ اِس طرح سے یا اُس طرح سے ہوا ہوگا تو یہ سب اُس کے بیان عقلی امکان ہوں گے یا قوت واہمہ کے توہمات ہونگے جن سے کسی امر کا ثبوت نہیں ہوا کرتا ہے۔اور کوئی نظیر بھی دنیا کی تواریخ میں نہیں ہے کہ کوئی انسان کبھی اتفاق سے یا ترکیب بہائمی وغیرہ سے پیدا ہوکے آدمیوں کے جُھنڈ میں آملا ہو جس پر قیاس کرکے اُس پہلے جوڑ ے کو بھی ایسا ہی سمجھیں۔ حالانکہ اس وقت جو انسانی جوڑے دنیا میں موجود ہیں اُس پر غور کرنے سے اُنکی بناوٹ میں عجیب حکمت اورارادہ صانع کا پایا جاتا ہے۔ اور یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پہلا جوڑا جوان سب جوڑوں کا سانچا تھا اور کچھ اَور ہی قاعدہ سے بنا تھا۔وہ قاعدہ اپنے وقت پر ظاہر ہوکے پوشیدہ ہوگیا ہے اوریہ معمولی قاعدہ جاری کرگیا ہے۔ چنانچہ تمام دنیا وی فطری قواعد مقررہ کی جڑوں میں کچھ اَورہی قاعدے صانع کے پاس بچشم غور نظر آتے ہیں جو آدمیوں کی سمجھ سے باہر ہیں اوروہ اپنے وقتوں پر ظاہر ہوتے ہیں۔ وہ عام نہیں ہیں کہ ہر وقت نظرآیا کریں۔اُنہیں قواعد مخفیہ سے بوقت مناسب معجزات بھی ہوتے ہیں جو سچے معجز ے کہلاتے ہیں۔

کوتاہ اندیش لوگ جو خُدا کی معرفت سے بے نصیب ہیں اُنہیں چند فطر ے معلومہ قواعد میں خُدا کی ساری قوت کو منحصر سمجھ کے گمراہی کے گرداب میں ناحق ڈبکوں ڈبکوں کررہے ہیں۔

بیدار مغز آدمی گہری نگاہ سے دیکھتا ہے کہ کیا ہے؟ بائبل شریف کی صدہا باتیں اسی دنیا میں برحق ثابت ہوچکیں ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اُس جوڑے کی پیدائش کا ذکر جیسے کہ اُس میں لکھا ہے مانا نہ جائے ؟حالانکہ عقل   ِ سلیم صاف کہتی ہے کہ یہ بیان خُدا کی شان کے مناسب ہے۔

(پیدائش ۷:۲) میں لکھا ہے کہ خُدا نے آدم کو خاک سے بنایا۔ یہ اُس کے جسمی مادہ کاذکر ہے اوراس با ت کا بیان ہے کہ وہ حیوانی ترکیب سے نہیں نکلا بلکہ خُدا نے خاک کا ایک پتلا بنایا اوراُس میں خُدا نے زندگی کا دَم پھونکا۔ یہ اُس کے دوسرے جز کا ذکر ہے جس کو ’’نفس ناطقہ ‘‘کہتے ہیں جو عالم بالا سے اُس میں ڈالا گیا۔ (پیدائش ۲۷:۱) میں مرقوم ہے کہ خُدا نے اُسے اپنی صورت پر بنایا۔ ’’صورت‘‘ سے مراد یہ ہے کہ انسان کی ظاہری اورباطنی روحانی واخلاقی صورت ایسی بنائی کہ خُدا کے ساتھ ایک خاص نسبت اورمشابہت اورعلاقہ اُس کا ہوا۔

مُشبہَّ اورمُشبہّ  بِہٖ میں موافقت کلی تو کبھی نہیں ہوتی ہے ورنہ دوئی نہ ہوگی لیکن کسی قدر موافقت اورمناسبت بعض امور میں ہوا کرتی ہے۔ انسان میں اورخُدا میں پوری دوئی ہے۔ لیکن وہ ایسی صورت میں پیدا ہوا ہےکہ صفات ِالہٰی کا گو نہ مظہر اورتجلیات کا مہبط اورالہٰی مرضی واحکام کی بجا آوری کے لائق وضع میں ہے اورآزاد بھی ہے نہ مجبور اورعقل قبول کرتی ہے کہ ضرور انسان ایسی وضع میں ہے۔اگرچہ وہ صورت اُس کی بعد گناہ کے بگڑگئی ہے تو بھی شعر

ازنقش ونگار درودیوار شکستہ۔ اثار پدیداست صنا دیدعجم را۔

اوراس سے یہ بھی ثابت ہے کہ وہ اتفاقی مخلوق نہیں بلکہ ارادی ہے۔ آدم کا جسم خاک سے بنا اوررُوح اللہ نے پھونکی لیکن اُس کی زوجہ کو اُس کی پسلی سے نکالا اوراُس کی روح کا ذکر نہیں ہے کہ کہاں سے آئی؟ قیاس چاہتا ہے کہ جیسے جسم سے جسم نکلا ویسے رُوح سے رُوح پیدا کی۔ اسی لئے وہ مرد کی دبیل اوراُس سے کمزور ہے۔

اول خُدا نے زمین وآسمان کو حُکم سے پیدا کردیا اوروہ بے مادہ صرف حکم سے موجود ہوگئے ثانیاً اُس نے زمین کو حکم دے کر اُ س سے حیوانات اورنباتات نکلوائے۔ ثالثاً آدم کو خود پیدا کیا۔ رابعاً آدم میں سے حوا کو نکالا۔ خامساً تولید کا قاعدہ جاری کیا۔ پس پہلا آدمی قا ئن پیدا ہو جو معمولی قاعدہ سے ہے۔

پہلے چار قاعدے عمل میں آئے ۔تب پانچواں قاعدہ جاری ہوا اوروہ قوت جس سے یہ کچھ ہوا خُدا میں ازل سے مخفی تھی اوراب بھی اس میں مخفی اورموجود ہے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ توکیا کرتا ہے ؟یا تونے ایسا کیوں کیا؟ کس کا منہ ہے جو ایسا بولے؟ البتہ کا فر آدمی جو چاہتا ہے سو بکتا ہے اوراپنا نقصان کرتا ہے۔ لیکن خُدا کے عارف لوگ جانتے ہیں کہ اُس کے سارے کام راستی اورانصاف اورحکمت اورمحبت کے ہیں۔ کوئی سمجھے یا نہ سمجھے ہاں جنہوں نے اُس کی کتاب بائبل شریف کو اُس سے پڑھا ہے وہ غیروں کی نسبت زیادہ سمجھتے اورتسلی سے بھرے ہیں۔