دفعہ ۳۶

اطوار تحقیقات

دنیا میں جھوٹ اور سچائی یہ دونوں موجود ہیں بلکہ جھوٹی تعلیمات بکثرت پھیلی ہوئی ہیں۔کیا کریں کہ گمراہی سے بچیں اور غلطیوں  میں سے نکلیں؟ اُس کی راہ صرف یہی ہے کہ اولاًہم ہر طرف سے نگاہ ہٹا کے اپنے دل میں اور خیال میں سچے بنیں یعنی سچائی کے سچے طالب ہوں۔

یہاں تین الفاظ ہیں جنہیں خوب یاد رکھنا چاہیئے۔اول سچائی،دوم اس کی طلب،سوم سچی طلب۔سچائی نام ہے امر واقعی کا اور کذب کے خلاف ہےاور اپنے نمونے یا سایہ کا عین بھی ہے۔مثلاًزید جو فی الواقع اندھا ہےاگر کہیں کہ وہ آنکھوں والا ہےتو یہ جھوٹ ہےاور جو کہیں کہ وہ اندھا ہے یہ سچائی ہے۔اس طرح اگر زید کی تصویر کو کہیں کہ یہ زید ہے یہ امر واقعی نہیں ہے۔زید فی الحقیقت وہ شخص ہے جس کی وہ تصویر ہے۔عقلاًو نقلاً سچائی عمدہ شے ہےاور کذب مکروہ ہے۔انسان کی تمیز کو اور سب زندہ تمیز شخصوں کو اور خدا کو بھی سچ پیارا ہے۔سچائی خدا کی صفت ہے اور جھوٹ شیطان کی صفت ہے۔سچائی پر الہٰی رحمت کا سایہ رہتا ہے اور جھوٹ پر خدا کے غصے کی گھٹا چھائی رہتی ہے۔سچائی سےدل پاک اور کذب سے ناپاک ہوتا ہے۔پس چاہیئے کہ ہم سچ بولیں اور ہر بات میں سچا انصاف کریں اور سچے خیال اپنے ذہن میں رکھیں اور ہر بات میں سچ کے طالب رہیں اورسچ کو عزت دیں اور دلوں میں محبوب رکھیں اورخود اُس میں قائم ہوں۔

ہر کوئی منہ سے تو کہتا ہے کہ سچائی خوب چیز ہے کیونکہ انسان  کی تمیز ایسا کہتی ہے۔ لیکن ہر کوئی اُس کا طالب نہیں ہے، اُسے تلاش نہیں کرتا، ا سکے لئے دن رات ایسا مشتاق نہیں جیسا اپنی اورغرضوں کا مشتاق ہے۔ اس کایہی سبب ہے کہ سچائی اُس کی نظر وں میں کچھ قیمتی اورعزیز شے نہیں ہے۔ وہ محاور ہ کے طور پر کہتا ہے کہ سچائی خوب چیز ہے۔ ایسا آدمی سچائی کو نہ پائیگا بلکہ جھوٹ کے جال میں پھنسا ہوا مرےگا اوروہاں جائیگا جہاں جھوٹ کا باپ یعنی شیطان رہتا ہے۔ چاہئے کہ سچائی کی طلب ہم میں ہو اورسچی طلب ہو ،جھوٹی طلب سے سچائی ہاتھ نہیں آتی ہے۔ وہ جو سچائی کا طالب ہے چاہئے کہ پہلے اپنی جیب سے جھوٹ کو نکال کے دور پھینک دے تاکہ سچائی کا عاشق کامل ہوتب اس کا محبوب اُسے نظر آئیگا کہ کہاں ہے؟سچائی نظر آتی ہے، سچی آنکھوں والے کو۔ پس چار چیزوں کو جو سچائی کے خلاف ہیں اپنے اندر سے نکا ل اوردوباتوں کو عمل میں لا۔تب تو حق کو خوب پہچانے گا۔

اوّل بے جا طرفداری کو چھوڑدے، حق کا طرفدار ہو۔

دوم خود غرضی کو نکال کہ یہ شیطان کی رسی ہے جو آدمیوں کو شیطان کے پاس باندھے رکھتی ہے۔

سوم کج بحثی کا طور چھوڑ دے کہ یہ شیطان کا جال ہے جس میں صد ہا آدمی مگس(مکھی) سیرت پھنسے رہتے ہیں۔ بات کے مغز کی طرف متوجہ نہیں ہوتے بلکہ مغز کو پھینک دیتے اورپوست کوچبا یا کرتے ہیں۔

چہارم غرور نہ کر۔ مت کہہ کہ میں بڑا عالم ہوں یا بڑا خاندانی شریف یا زیادہ نیکو کارہوں۔

 یہ سب باتیں سچائی کے خلاف اور گمراہی کی دلدل ہیں۔غرور ایک نشہ سا ہے جو آدمی کے دماغ کو مکدر (کدورت آمیز۔گدلا)رکھتا ہے۔ان چار باتوں کو چھوڑ کہ جو دو باتیں تجھے عمل میں لانا لازم ہیں یہ ہیں۔

اولاً تُو اپنی روح میں خداسے جو خالق ہے سچائی کے لئے انکشاف کا طالب ہو تاکہ تجھے غیبی مدد اوپر سے ملے۔

ثانیاً اگر تو صاحب علم ہے یا کسی قدر خواندہ شخص ہےتو تُو مخالفوں اور موافقوں کی کتابوں پر متوجہ ہو ۔ اگر تو بے علم ہے اور نا خواندہ ہے تو ان دونوں قسم کےلوگوں کی باتیں بغور سُن اور جو کچھ تُو خود نہ سمجھے وہ بات جس گروہ کے لوگوں کی ہے اُسی گروہ کے لوگوں سے پوچھ کہ آپ لوگ اس بات کو کیونکر سمجھتے ہیں؟اور دوسری جانب کے سامنے ان کا بیان پیش کر اور سب کی سُن کے یا پڑھ کے اپنی تمیز سےآپ انصاف کر۔اور آہستگی اور نرمی سے ایک ایک بات کو سلجھا۔بہت سی باتوں کا ہجوم اپنے سامنے نہ آنے دے کہ تیرا دماغ برداشت نہ کر سکے گا اور تیرے سامنے غوغا ہو گا اور غوغے میں حق پوشیدہ ہو جائے گایا تُو خود دیوانہ سا ہو کے کہے گا کہ یہ تو سب جھگڑے ہیں ۔میں سب سے کنارہ ہو کے یوں یوں کروں گاتب تُو خود اپنی طرف سے ایک گمراہی کا نکالنے والا ہوگا۔اگر تُو ایک ایک بات کا فیصلہ آرام کے ساتھ کرے گا تو چند روز میں چند صداقتیں تیرے ہاتھ میں آ جائیں گی۔اور تیرے خیال میں عجیب روشنی کا باعث ہوں گی اور وہ جھگڑے کا بڑا جنجال تیرے سامنے حل ہو جائے گا۔لیکن تجھے خوب معلوم ہو جائے کہ تجھے بوسیلہ اپنی تمیز کے غور سے انصاف کرنا ہے کیونکہ یہ تمیز اللہ کی طرف سے ایک روشنی ہے۔اسی کا دوسرا نام نور فطرت ہے اور یہی پہلا ہادی انسان کے لئے خدا کی طرف سے مقرر ہے اوراُس میں تاریکی بھی چھا جاتی ہے۔ انہیں چار مکروہ چیزوں کے سبب سے جن کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے۔ جب تُونے اُن چاروں کو اپنے اندر سے نکال ڈالا ہے تو اب تیری تمیز صاف ہوگئی ہے اورسچائی کی طرف خوب ہادی ہوسکتی ہے۔ اب ہر بات کا مناسب فیصلہ تیری ہی تمیز سے ہوگا اورتو اُس فیصلہ پر بااستحکام قائم بھی رہےگا کیونکہ تو سچائی کا طالب تھا۔

ہاں اگر تو اپنی جان کو فریب دےگا اوران بد صفتوں مذکورہ بالا میں سے کوئی بدصفت چھپا کے اپنے دل میں رکھے گا۔ اس صورت میں تیر ے فیصلہ کے درمیان اُس پوشیدہ بدصفت کی کچھ بدبو ضرور نکلے گی اورتیرا ہی دل تجھے اندراندر الزام دیگا اوردیگر مبصران روشن ضمیر حق پسند تیرے فیصلہ میں تیری اس بدصفت کا خمیر  تجھے دکھائیں گے اورتوبے انصاف ہوکے عدالت الہٰی میں سزا کا سز اوار ہوگا۔ ہزاروں آدمی ہیں جواپنے آپ کو حق کا طالب کہتے ہیں مگر کذب کو بغل میں دبائے ہوئے ناپاک بحث کیا کرتے ہیں۔  وہ جو فی الحقیقت سچائی کے سچے طالب ہیں وہ ضرور سچائی کو پاتے ہیں۔

دفعہ ۳۷

کامل انسان کے بیان میں

کامل انسان وہ ہے جس کی انسانیت کے سب مدارج جسمانی اورروحانی پورے پورے اورٹھیک مناسبت میں ہوں۔ یعنی اُس کی انسانیت کے کسی حصہ میں کمی بیشی نہ ہو۔ جب کہتے ہو کہ اس تھیلی میں پورے سوروپے ہیں ۔اس کے یہی معنی ہیں کہ سوسے نہ کچھ کم ہے نہ زیادہ مگر سوا کائیاں پوری ہیں۔ لفظ ’’کامل‘‘ کے معنی ہیں’’ پورا‘‘،’’بے نقص‘‘۔کامل انسان کے لفظی معنی ہیں وہ انسان جس کی انسانیت میں کچھ نقص نہیں۔

ہمارے ملک کے کج فہم لگ جو مرشدِ کامل کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ وہ اکثر مرتاض (ریاضت کرنے والے)اور کچھ پرہیزگار لوگوں کوجب اُن سے کوئی اچنبھے کی بات دیکھتے ہیں کامل آدمی کہا کرتے ہیں بلکہ اپنی روح کو بھی ان کے سپرد کر دیتے ہیں جو وہ فرماتے ہیں یہ کرتے ہیں۔ کیونکہ انہیں کامل انسان مل گیا ہےاور ان کا پیرو مرشد ہوا ہے۔یہ نہایت نازک معاملہ ہے۔اس میں بڑی غلطیاں ہوتی ہیں ۔اکثر اندھے لوگ اس اندھے مرشد کےپیچھے چل کے اس کے ساتھ دوزخ کی غار میں جا گرتے ہیں۔پس کامل انسا ن کی تعریف بغور سمجھ کے ناظرین کو ہو شیار ہونا چاہیے۔

محمدی لوگ کہتے ہیں کہ محمد صاحب کامل انسان تھے۔میں سمجھتا ہوں کہ ان لوگوں نےکامل انسان کےمفہوم پر غور نہیں کیا ہے۔صرف شیفتگی (عشق) کے سبب سے اور اس لحاظ سے کہ وہ ان کے پیشوا ہیں۔انہوں نے حضرت کو کامل انسان کہہ دیا ہے۔اب زمانہ روشنی کا ہے اور بہت کچھ صاف صاف نظر آتا ہے ۔اس لئے ہم خوب دریافت کر کے کہیں گے کہ کامل انسان کون ہے؟کامل انسان کی وہی تعریف ہے جو اس دفعہ کی پہلی سطروں میں میں نے لکھی ہے۔اس کو حفظ رکھنا چاہیے۔اس کے موافق اگر کوئی شخص نظر آئے تو اس کو کامل انسان سمجھنا مناسب ہو گا۔

لفظ’’انسان ‘‘ پر بہت بحث ہو چکی ہے اور اس کا مفہوم یہی ہے کہ انسان ایک چیز ہےمرکب حیوانیت اور ملکیت سے  خاکی جسم اس کا خیمہ سا ہے۔پس چاہیے کہ جسمانی اعضاسب درست ہوں اور حیوانی قوتیں بھی مناسب صورت میں موجود ہوں اور صفات ملکیہ کی رُو یا نفس ناطقہ کی قوتیں یا صفتیں ہیں۔سب کی سب مناسب شکل میں اور یہ کل مجموعہ بہ تر تیب مناسب قائم ہوکے اُس اپنی خاص نسبت یا علاقہ میں جو اُس کو اپنے خالق سے اپنی وضع میں ہے وہ شخص بیداغ صورت میں قائم ہو۔وہی کامل انسان ہے۔ تو ضیح  اُس کی یوں ہے کہ جسمانی اورحیوانی اورملکی سب حصوں کے وجودی تکملہ کے بعد یہ بھی ضرور ہے کہ اُن میں نسبتیں بھی مناسب ہوں ،نہ ان کا کوئی حیوانی صفت تعدی کرکے کسی ملکی صفت میں خلل انداز ہو۔ اور یہ بھی چاہئے کہ وہ اپنی بنی نوع اوراُن سب دنیاوی خارجی اشیاء کے درمیان بھی مناسب حالت میں رہے۔ پھر اپنے خالق کی نسبت بھی ٹھیک ہو اورعین وقت پیدایش سے موت تک ہرحال میں یہ کیفیت تم اُس میں ثابت کرسکو تو وہ کامل انسان ہوگا۔

اب بتاؤ کہ دنیا میں کون ایسا شخص کبھی ظاہر ہوا ہے؟ کس کی تاریخ ایسی ہے؟ کس کو ایسا شخص بدلیل بتا سکو گے؟ صرف ہم عیسائی لوگ دلاوری کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا خُداوند یسوع مسیح ایسا ہے کیونکہ یہ سب مدارج مذکورہ اُس میں ثابت ہیں ۔پاک تحقیق سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا ہے کیونکہ ہم نے اُس کی تواریخ کے ہر ہر فقرے اورہر ہر لفظ کو بغور دیکھا اورسمجھا ہے۔ اُن نکتوں اورباریکیوں کے ساتھ جو وہاں مذکور ہیں۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ یسوع مسیح کامل انسان ہے اوریہ بیان اُس کی ماہیت انسانی کا ہے۔ الوہیت کی ماہیت اس کی جَدّی (آبائی ۔ موروثی)بات ہے اوروہ بھی پوری خُدائی ہے۔ پس وہ کامل خُدا اورکامل انسان ہے۔آدم بھی کامل انسان پیداہوا تھا اورکچھ عرصہ تک کامل رہا ۔پھروہ کمال کے رتبہ سے گناہ کے سبب گرگیا اوراُس کی نسبتوں میں خلل آگیا اورخلل کے سبب سے روحانی قوتوں میں اندھیرا چھاساگیا اورسارا کارخانہ درہم برہم ہو گیا ۔تمام اولاد میں بدی اور گمراہی پھیل گئی اور لعنت کے نشان ظاہر ہوگئے اور ہم سب کےسب نکمے اور ناقص ٹھہرے۔

البتہ کبھی کبھی بعض شخص دنیا میں ایسے بھی ظاہر ہوئے جنہیں خُدا کے کلام میں کامل کہا گیا مثلاًنوح اپنے زمانہ میں راستباز تھا(پیدائش۹:۶)،داود کا دل کامل ہوا (۱۔سلاطین۳:۱۵) ،ایوب کامل اور صادق تھا(ایوب۸:۱)۔یہ سب لوگ  حقیقی کامل نہ تھے، دیندار اور بھلے آدمی تھے۔ اضافی اور مجازی طور پر کامل تھے اور مسیحی لوگ  بھی دنیا میں ایسے ہی کامل ہوتے ہیں۔آخر کو وہ اور ہم سب اپنے کمال کو پہنچیں گے ۔ حقیقی کامل صرف یسوع مسیح ہے۔وہ دنیا میں پیدا ہو کے حکمت میں اور قد میں خدا کے اور انسان کے نزدیک مقبولیت میں ترقی کرتا گیا(لوقا۵۲:۲)۔وہی خدا کا اور اسرائیل کا قدوس ہے۔اللہ کا بے عیب برّہ ہے ۔اس نے خدا کی مرضی پر پورا پورا ایسا عمل کیا کہ خدا کی نگاہ میں اپنے  اورخدا کے درمیان کسی دقیقہ(معمولی بات) کے بھی قصور نہ آنے دیا۔اس نے آدمیوں کے حقوق بھی پورے کیے بلکہ اپنے جائز حقوق بھی چھوڑ کے آدمیوں کے لئے بے حد فضل تیار کر دیا۔اسی لئے تمام اولین اورآخرین کی نگاہ اس پر ہے۔اولین بہ ہدایت الہٰی اُدھر سے اور ہم آخرین اِدھر سے اُسی کو تکتے ہیں اور وہ سب کی نگاہوں  کا نشانہ ہے۔اور جب ہم اُسے تکتے ہیں تو اس کا عکس ہم پر پڑتا ہے اور ہم سدھرتے اور کامل ہوتے چلے جاتے ہیں۔یہاں تک کہ ہم اپنے کمال کو پہنچیں گےاور تمام نقص ہم میں سے نکل جائیں گے۔کامل انسان یعنی مسیح کے پورے قد کے اندازے تک پہنچے (افسیوں۱۳:۴)۔

پس وہ سب لوگ  جو کامل مرشد کے طالب ہیں چاہیئے کہ مسیح یسوع کو تاکیں  ۔ناقص آدمیوں کی طرف تاکنے سے کیا فائدہ ہے۔ناقص سے ناقص بنتے ہیں اورکامل سے کامل ہوتے ہیں۔ وہ جو کامل خُدا اورکامل انسان ہے اوراولین وآخرین کی نگاہوں کا نشانہ خُدا سے مقر ر ہے اوروہ اندیکھے خُدا کی صورت ہے ۔اُس کا تصور عین خُدا پرستی ہے اورغیر کا تصور جو تصور شیخ کہلاتا ہے بُت پرستی ہے۔ آدمی جب بُت پرستی کرتے ہیں تو خود مثل بُت کے ہوجاتے ہیں اورجب خُدا پرستی کرتے ہیں تو خُدا کی صورت میں بحال ہوتے چلے جاتے ہیں۔یہ صرف یسوع مسیح کی طرف تاکنے سے ہوتا ہے اوروہ تاکاجاتا ہے اپنی تواریخ میں جوکتاب انجیل میں مذکور ہے۔