دفعہ ۱۱

ہم سب کیونکر پیدا ہوتے ہیں

اُسی قاعدہ سے جو پہلے جوڑے کی پیدائش کےبعد جاری ہوا ہے سب آدمی پیدا ہوتے ہیں۔(پیدائش۲۸:۱) خُدا نے اُس جوڑے کو پیدا کرکے برکت دی اوربرکت میں چار لفظ فرمائے تھے۔

’’پھلو اور بڑھو اورزمین کو معمور و محکوم کرو۔۔۔‘‘  (پیدائش۲۸:۱)لفظ ’’پھلو‘‘ میں خُدا نے ہم سب کو اُس جوڑے میں یاد کیا تھا اورلفظ ’’بڑھو‘‘ میں سلسلہ تولید کے اجراء کا ذکر کیاتھا اورلفظ’’ معمور‘‘ میں خُدا کی نگاہ اُس  بڑی آباد ی پر تھی جو دنیا میں اب نظر آتی ہے اورلفظ’’محکوم ‘‘میں وہ اختیارات اورتصرفات  (قبضے)یاد کیے گئے تھے۔ جو اب دنیا میں آدمیوں سے ہورہے ہیں اوربڑ ھتے جاتے ہیں اورجن کی تکمیل کا وقت چلا آتا ہے۔

 ان الفاظ پر اوردنیا کی تورایخ اورحالت پر غور کیجئے کہ وہ برکت جو خُدا نے اُس جوڑے کو دی تھی کیونکر بتدریج پوری ہوتی اورترقی کرتی چلی آئی ہے اور ان الفاظ ِبرکت میں کچھ صداقت نظر آتی ہے یا نہیں اورکہ یہ برکت کا بیان اوریہ کتاب پیدائش اُس وقت کی ہے  یا نہیں کہ جس وقت دنیا میں اندھیرا تھا، نہ اس قدر آبادی تھی اور نہ ایسی حکمت تھی ۔لیکن ایک وقت آیا کہ یہ مضمون سچ نکلا تو اوپر کا بیان بھی جس کا یہ مضمون ایک حصہ ہے کیوں نہ سچ ہوگا۔

آدمی سے آدمی پیدا ہوتا ہے اس لئے تو آدم ہماری جسمانی موجودگی کا ایک ظاہری وسیلہ ہے۔(ا۔کرنتھیوں ۴۵:۱۵)۔ جسم سے جسم پیدا ہوتا ہے اور رُوح سے رُوح پیدا ہوتی ہے (یوحنا ۶:۳) اوروالدین کی جسمانی ساخت اورکچھ نہ کچھ بلکہ بہت کچھ مزاجی اوراخلاقی کیفیت بھی اورامراض متعدیہ (متعدّی  امراض۔چھوت چھات سے پیدا ہونے والی بیماریاں)بھی اولاد میں نظر آتی ہیں جن کا انکار نہیں ہوسکتا ۔اسی لئے یہ کہاوت مشہور ہوئی ہے کہ ’’باپ پر پوُت پتا پر گھوڑا‘ بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا‘‘(ہندی مثل۔ہر شخص پر کچھ نہ کچھ خاندانی اثر ضرور ہوتا ہے)۔

 ظاہر ہے کہ والد سے رحم والدہ میں ایک قطرہ گرتا ہے۔ اُس میں ایک نقطہ ہے جو اس پیدا ہونے والے کی زندگی کا مرکز سا ہے ۔اُس میں الہٰی قدرت کا کچھ تصرف (دخل دینا۔عمل)ہوتا ہے جو انسانی سمجھ سے بلند ہے’’تو نہیں جانتا ہےکہ۔۔۔ حاملہ کے رَحِم میں ہڈیاں کیونکر بڑھتی ہیں۔۔۔‘‘ (واعظ ۵:۱۱)۔

ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یوں یوں ہوتا ہے لیکن نہیں کہہ سکتے کہ یوں کیوں ہوتا ہے؟ کلام اللہ بتاتا ہے کہ انسان کی پیدائش امراتفاقی نہیں ہے۔ خُدا کے ارادہ سے انسان رحم ماد رمیں ڈالا جاتا ہے (ایوب۱۵:۳۱) جس نے مجھے رحم میں ڈالا اُس نے اسے بھی بنایااوراُسی وقت سے الہٰی کمک اُس جنین یا بچہ کی نسبت معلوم ہوتی ہے ۔’’ خُدا وند تیرا خالق جس نےرَحِم ہی سے تجھے بنایا اورتیری مدد کر ےگا یوں فرماتا ہے۔۔۔‘‘(یسعیاہ۴:۴۴) ۔ زبور نویس داؤد لکھتا ہے ’’جب مَیں پو شیدگی میں بن رہا تھا اورزمین کے اسفل میں عجیب طور سےمُرتّب ہو رہا تھا تو میرا قالب تجھ سے چھپا  نہ تھا۔ تیری آنکھوں نے میرے بے ترتیب مادےکو دیکھا اورجو ایام میرے لئے مقرر تھے وہ سب تیری کتاب میں لکھے تھے‘‘(زبور۱۶،۱۵:۱۳۹)۔ یہ قدرتی کام مٹی میں شروع ہوتا ہے اورآدمی مٹی سے بنتا ہے ۔’’ ۔۔۔میں بھی مٹی  سے بناہوں‘‘(ایوب ۳۳: ۶)۔ آدم اورحواکے سوا سب آدمی والد کے صُلب سے پیدا ہوتے ہیں ۔ یعقوب کے چھیاسٹھ صُلبی فرزند مصر میں آئے تھے(پیدائش۲۶:۴۶)۔ اسی طرح ہر آدمی کے لئے اوپر کی طرف ایک صُلبی سلسلہ ہے جو اُس کا ’’نسب‘‘ کہلاتاہے۔ وہ نسب نامے جوانجیل متی ولوقا میں ہمارے خُداوند مسیح کے مذکور ہیں۔ وہ مریم اوریوسف کے ہیں۔ یوسف مسیح کا شرعی با پ تھا نہ جسمانی۔ مریم خداوند مسیح کی جسمانی والدہ تھی۔ مسیح کا بدن اُس کے خون سے بنا۔ لیکن وہ فقط جو اُس کے رحم میں آیا اُسی قدرت سے آیا تھاجس قدرت سے آدم بنا تھا (لوقا۳۵:۱) ۔

پس یوسف اورابرہام و داؤد وغیرہ مسیح کے شرعی باپ تھے نہ صلبی اورمریم کے ساتھ خونی مشارکت (باہم شرکت کرنا۔حصہ داری)کے سبب سے مسیح کا جسم اُن بزرگوں کا خون تھا اورمشارکت شرعی وجسمانی کے سبب سے وہ اُن کا فرزند کہلاتا ہے ۔سب آدمیوں میں ایک ہی لہو ہے اورا یک خاص قسم کا لہو ہے جو صرف آدمیوں میں ہے ۔اس کے اجزا  تمام حیوانات کے خون سے الگ قسم کے اجزا ہیں۔ اس زمانہ میں یہ ثابت ہوگیا ہے کہ آدمی کا خون خاص قسم کا ہے اب آدمی دھوکا نہیں کھا سکتا کہ جانور کے خون اورآدمی کے خون میں امتیاز نہ کرسکیں۔ یہ آد م کا خون کل دنیا کے آدمیوں میں یکساں ہے اور اُس سے بھی وحدت ابوی ظاہر ہوتی ہے۔ خُدا نے ایک ہی لہو(اَصل) سے آدمیوں کی سب قوموں کو تمام سطح زمین پر بسنے کےلئے پیدا کیا ہے (اعمال۲۶:۱۷)۔ اوریہ بھی درست بات ہے کہ خون میں جوش ہے اورموانست (محبت ۔اُنس)کا ایک یہ بھی سبب بنی آدم میں ہے اورجَدّی خون کا جوش اقرب موانست کا باعث ہے وہ کہاوت درست ہے ’’آخر لہو نے جوش مارا ‘‘۔

دفعہ ۱۲

انسان کی اصطلاحی تعریف

انسان کیا چیز ہے؟یایوں کہو کہ ہم جو بنی آدم کہلاتے ہیں ہم کیا ہیں ؟اس سوال کا جواب اہل علم یوں دیتے ہیں ’’انسان حیوان ناطق (بولنے والا جانور ) ہے‘‘ ۔انسان کی تعریف سب نے یہی کی ہے اوریہ تعریف درست اورصحیح ہےکیونکہ یہ جنس قریب اورفصل قریب سے انسان کی حدتام (مکمل) ہے اور اس سے بڑھ کر کامل تعریف اُس کی ہو نہیں سکتی۔

اب مناسب ہے کہ ہم سب اپنی جنس اورفصل پر غور کرکےآپ کو خوب پہچانیں اوراُس سے کچھ عمدہ نتائج نکالیں نہ یہ کہ عام لوگوں کی مانند اپنی تعریف کا فقرہ ہی سن کے چُپ کررہیں۔

واضح ہو کہ جب ہم اپنی اجناس)جنس کی جمع) میں غور کرتے ہیں تو ہمیں نیچے کی طرف بہت اُترنا پڑتا ہے اورجب فصول (فصل کی جمع)کی طرف دیکھتے ہیں تب اوپر چڑ ھتے آتے ہیں۔

پہلے’’ حیوان‘‘ کے مفہوم کو ٹٹو لو کہ وہ کیا ہے؟ یہ کہنا پڑےگا کہ (حیوان ایک جسم ہے نامی ؔ، حساؔس ،متحرؔک بالا رادہ ) یہ حیوان کی تعریف ہوئی اس میں جز اعظم یا جنس جسم ہے اور نامی حاس اورمتحرک بالا رادہ فصلیں ہیں انہیں چھوڑ کے جسم کو دیکھو کہ وہ کیا ہے ؟یہی کہوگے کہ (جسم ایک چیز ہے جس میں العباد ثلثہ ہیں ) یہ جسم کی تعریف ہوئی۔ العباد ثلثہ سے مراد ہے طوؔل عرض عمؔق اس سے نیچے اُترنا مجھے مناسب معلوم نہیں ہوتا کیونکہ اگر کچھ اوربھی نیچے اُتریں تو عناصر کی اورجو ہر کی بحث پیش آجاتی ہے اوریہی کہنا پڑتا ہے کہ کچھ ہے تو لیکن عقل سے صاف صاف معلوم نہیں ہوسکتا۔ امکانی خیالات کے ڈھیر لگ جاتے ہیں جن سے صرف حیرانی پیدا ہوتی ہے اورحقیقی بات انسانی فہم سے پیدا نہیں ہوتی ہے۔ یہ مقام ایک ورطہ یا گرداب ہے جس میں بہت لوگ ڈوب مرے ہیں اورگوہر مراد پاکے کوئی غوط زن نہیں نکلا۔ یہ خوف خطرہ کامقام ہے اسی جگہ پر کھڑے ہوکے کسی نے کہا کہ ہمہ اُوست ہے اورکسی نے کہا نہیں ہمہ ازاُوست ہے ۔پہلا خیال زہر قائل اوردوسرا خیال تریاق ہے جو اسی جگہ سے آدمی نکالتے ہیں۔ لہٰذا اس بحث کو طول دینا بے فائدہ دردسری ہے۔

ہم جو عیسائی(مسیحی) ہیں اس مقام پر اُس انبیائے قول کو مضبوطی سے تھام لیتے ہیں کہ خُدائے قادر نے مادہ کو بے مادہ صرف اپنے حکم کی تایثر سے موجود کیااور مادہ کا مادہ گویا وہ حکم الہٰی تھا کہ اُس نے کہا ہو جااورہوگیا کچھ نہ تھااورسب کچھ ہوگیا۔

دیکھو نیچے کی طرف اُترنے میں تنزل پر تنزل چلا آتا ہے اورتمام تنزلات کے نیچے یہی آتا ہے کہ کچھ نہ تھا۔ تو بھی اب ہم سب کچھ موجود دیکھتے ہیں اور کلام اس میں باقی رہتا ہے کہ یہ سب کچھ کہاں سے اورکیونکر ہوگیا؟ ’’کہاں ‘‘سے کاجواب توہمارے پاس صرف یہی ہے کہ نیستی سے نکلا جو انسانی خیال میں محال ہے مگروہ فطری نور جو خُدا نے ہم میں رکھا ہے یہ دکھاتا ہے کہ خُدا کی قوت کے سامنے محال نہیں ہےاورلفظ’’ کیونکر‘‘ کا جواب یہ ہے کہ قادر کی قدرت سے ہوا ۔اُس کی قدرت کے سامنے بہت سی وہ باتیں جنہیں ہم محال کہتے ہیں محال نہیں ہیں۔

پس میں جسم ہی پر اس بحث کو چھوڑتا ہوں اور یوں کہتا ہوں کہ اس طرف تحقیقات عقلیہ کا وروازہ بند ہے اورجو جو کچھ اہل خیال بولتے ہیں وہ اُن کی امکانی تجویزیں ہیں ۔پس چاہئے کہ ہم اس خیالی غار میں سے نکلیں اوراپنی ماہیت کے مفہوم میں اوپر کی طرف چڑ ھیں  جہا ں تک چڑھ سکتے ہیں اور خوب ٹٹو لیں کہ ہمارے وجود میں کیا کچھ ہے اورکہا ں تک ہمیں امید ہے؟پس معلوم ہوجائے کہ ہم سب جسم مطلق میں شامل ہوکے ٹھوس بے جان پتھروں اوراینٹوں اورخاک کے ہم جنس یا ہم رتبہ یا رشتہ دار ہیں ۔خُدائے قادر ہمیں ایک خاص شکل میں لایا اوراُس نے قدرتی تصرف سے ہم میں قوت نامیہ جس سے بڑھتے اورنشوونما کی شادابی حاصل کرتے ہیں پیدا کی ۔تب ہم جمادات کے درمیان ممتاز ہوئے اوردرختوں میں شامل ہوگئے اورجمادات ہمارے نیچے آئے تو بھی حیوانات اوپر رہے۔

یہ قوت نامیہ ہم میں کہاں سے آگئی کیا صرف جمادات میں سے نکلی ہر گز نہیں بلکہ یہ ہوا کہ ہماری جمودیت کو کوئی خارجی قوت ترتیب خاص میں لائی اورمادہ کے درمیان سے نمی اورہوا اوردھوپ نے اُسی ترتیب میں تایثر کی اوراُس خارجی قوت کی مرضی  اورارادہ کے موافق ایک خاص قوت ہم میں موجود ہوگئی جس کو قوت نامیہ کہتے ہیں۔ اس قوت کے سبب سے ہم نباتا ت کی جنس میں شامل ہوگئے اورجسم نامی ٹھہرے۔ ’’جسم نامی‘‘ کے معنی ہیں وہ جسم جس میں نمو کی قوت ہے پھر بھی بے حس وحرکت تھے صرف نموکی شان آگئی تھی۔

اس کے اوپر ایک اورچیز جس کو ’’حیات ‘‘کہتے ہیں اوراُسی کانام فارسی میں ’’جان ‘‘ہے ہم میں آگئی جس کے سبب سے ہم حساس اور متحرک بالا رادہ ہوگئے اورنباتات کی برادری میں سے نکلتے حیوانات میں شامل ہوئے۔

’’حیات ‘‘کے معنی ہیں’’ زندگی‘‘۔ حیوان وہ ہے جس میں حیات ہے ۔’’حساس ‘‘کے معنی ہیں’’ حِسّوں والا ‘‘اور’’متحرک بالا رادہ‘‘ وہ ہے جو اپنے ارادہ سے حرکت کرتا ہے ۔یہ دونوں باتیں یعنی حِسّوں والا ہونا اورحرکت کنندہ ہونا حیات کو لازم ہیں ۔یہ حیات یا جان حیوانوں میں کہاں سے اورکیونکر آگئی ہے ؟ظاہر تو ہے کہ عنصروں کی خاص ترتیب سے نکلی ہے تو بھی اُس قوت خارجی کا جو جہاں میں ہر کہیں موثر نظر آتی ہے اس حیات کے ایجاد میں صاف صاف دخل معلوم ہوتا ہے کیونکہ حیوان کی جان اوراُس کے جسم پر غور کرنے سے اوراُس کے خصائص کے دیکھنے سے موجد کے آثارِ ارادہ اُس میں نظر آتے ہیں اوروہ ارادے ہر جانور کی زندگی میں پور ے بھی ہوتے ہیں۔

 البتہ حیوانات کی جانوں میں ادراک اورتعقل نہیں ہے۔ صرف زیست کے بحال رکھنے کا اورتلاش معیشت کا تھوڑا ساشعور فطری ہے جس کو عقل حیوانی کہنا چاہئے اوروہاں تک انسان بھی حیوانوں کے برابر رہتے ہیں۔

حیوانوں میں سے ایک قسم کا حیوان انسان ہے اوراُس میں ایک خاص چیز ایسی دکھائی دیتی ہے جو اورحیوانوں میں نہیں ہے ۔اُس چیز کو اہل علم ’’نطق‘‘ کہتے ہیں۔ یہ کوئی اورہی چیز ہے جو اُس حیوان یعنی انسان کی جان کے اوپر کہیں سے اُس میں آگئی ہے اوراسی چیز کے سبب سے یہ دیگر حیوانوں میں ممتاز ہوا ہے اوراُن میں سے نکل کے اعلیٰ رتبہ کا پہنچاہے اور اُس کی تعریف حیوان ناطق ٹھہری ہے۔

دیکھو ہمارا انچلا حصہ خاک ہے اوراُس کے اوپر نمو ہے اورنمو کے اوپر جان ہے اور جان کے اوپر نطق ہے اوریہ ہمارا اوپر کا حصہ ہے یہ سب کچھ تو صاف صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا خالق ہمیں ترقی دیتا ہوا کہاں سے کہاں لایا ہے؟ اب کون کہہ سکتا ہے کہ آگے کو ترقی کا دروازہ بند ہوگیا ہے۔ شاید ہم اوربھی ترقی کرتے کرتے خالق کی حضوری میں پہنچیں گے اورخاک سے افلاک پر چڑھیں گے یا اسفل السا فلیں میں گریں گے۔