دفعہ ۴۰

تعلقا ت ارواح مومنین باخُداوند یسوع مسیح

مومنین کو بوسیلہ ایمان اوربرگزیدگی کے خُداوند مسیح کے ساتھ ایک خاص علاقہ حاصل ہوجاتا ہے جس کے سبب سے وہ لوگ مسیح میں پیوند ہوکے خُدا کے متبنیٰ فرزند ہوجاتے ہیں اورالہٰی میراث میں شریک ہوتے ہیں ۔اسی علاقہ کے سبب سے مسیحی برکتیں ان میں آجاتی ہیں اوران کی کمزوریاں اورخطائیں دفع ہوتی ہیں ۔’’تم سب جتنوں نے مسیح میں شامل ہونے کا بپتسمہ  لیا مسیح کو پہن لیا‘‘(گلیتوں۲۷:۳) ۔’’ اورنئی انسانیت کو پہنو جو خُدا کے مطابق سچائی کی  راست بازی اور پاکیزگی میں پیدا کی گئی ہے ‘‘(افسیوں ۲۴:۴)۔’’اور نئی انسانیت کو پہن لیا ہےجو معرفت حاصل کرنے کے لئے اپنے خالق کی صورت پرنئی بنتی جاتی ہے‘‘(کلسیوں۱۰:۳) ۔’’کیونکہ ہم جیتے جی  یسوع کی خاطر ہمیشہ موت کے حوالہ کئے جاتے ہیں تاکہ یسوع  کی زندگی بھی ہمارے فانی جسم میں ظاہر ہو‘‘(۲۔ کرنتھیوں ۱۱:۴) ۔’’اورتم بھی اُس میں  باہم  تعمیر کیے  جاتےہوتاکہ رُوح میں خُداکا مسکن بنو‘‘(افسیوں۲۲:۲) ۔’’پس اے بھائیو!چونکہ ہمیں یسوع کے خون   کے سبب سے اُس نئی اور زندہ راہ سے پاک مکان میں داخل ہونے کی دلیری ہے۔ جو اُس نے پردہ  یعنی اپنے جسم  میں سے  ہوکرہمارے  واسطےمخصوص کی ہے‘‘(عبرانیوں ۲۰،۱۹:۱۰)۔’’غرض ہماری خاطر جمع ہے اور ہم  کوبدن کے وطن سے جدا ہو کرخداوند کے وطن میں  رہنا زیادہ زیادہ منظور ہے‘‘(۲۔ کرنتھیوں ۸:۵)۔ اسی طرح کے اَوربہت سے مقام کلام اللہ میں ہیں جنہیں ناظرین خوددیکھ سکتےہیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ سچے مومنین کی ارواح میں درمیان اسی دنیا کے بعلاقہ ایمان برکات ِذیل نمودار ہوتی ہیں۔ نئی  پیدائش، نئی زندگی ، نئی انسانیت خُدا کی صورت پر بنتی چلی جاتی ہے اوردل خُدا کا گھر ہوتا ہے۔ مسیح کی موت اورزندگی کی تاثیر سے گناہ کی نسبت مردہ اور راستبازی میں زندہ ہوتے ہیں اورلائق قربت اورحضوری کے ہوتے ہیں۔یہ سب کچھ مسیح کی رُوح سے اوراُس کے کفارہ کی تاثیر سے ان میں ہوتا ہے۔

ف۔ اس میں کچھ شک و شبہ نہیں ہے کہ ضرور ایسا ہوتا ہے۔ تواریخ کلیسیا سے ظاہر ہے کہ ہزار ہاہزار آدمیوں کی رُوحوں میں ایسی تاثیریں ہوئی ہیں اورہر زمانہ میں خاص بند گان ِمسیح خُدا کے گواہ ایسی تاثیروں سے بھرپور پائے جاتے ہیں۔ اب بھی موجود ہیں اور آئندہ کو بھی ملیں گے۔ اگر کوئی چاہے کہ ایسےلوگوں کو دیکھے تو حقیقی مسیحیوں کے ساتھ رفاقت اوردوستی پیدا کرکے وہ دریافت کرسکتا ہے کہ ایسی تاثیریں مسیح سے اُس کے مومنین کی ارواح میں فی الحقیقت موجود ہیں اوروہ کچھ بات نہیں ہے جو بعض مخالف بیٹھے ہوئے تعصب کی راہ سے حق کے خلاف ایسی تاثیروں کا انکار کرتے ہیں۔ ہمیں ایسے آدمی کلیسیامیں کہیں کہیں صاف نظر آتے ہیں اور ہم اپنے اند ر بھی ایسی پاک تاثیریں مسیح کی طرف سے دیکھتے ہیں اورصاف کہتے ہیں کہ کلام اللہ کا بیان حق ہے۔

یہ سب پاک تاثیریں اورتبدیلیاں جو مسیح سے مومنین میں ہوئی ہیں یہ سب مسیح کی رُوح سے ہیں جو اُن میں موثر ہے۔ اورجب کہ یہ بات ثات ہے   کہ مسیح کی رُوح نے اُن میں موثر ہوکے اُنہیں کیا سے کچھ کردیا تو ہم کیونکر قبول نہ کریں کہ آئندہ کو اُسی کی رُو ح سے ان میں کیا کچھ نہ ہوگا۔ جس رُوح سے ہماری رُوحوں میں فی الحال زندگی آئی ہے، اُسی رُوح سے ہمارے بدنوں کی قیامت بھی جلال کے لئے ہوگی۔’’اوراگر اُسی کا رُوح تم میں بسا ہوا ہےجس نےیسوع کو مردوں میں سے جلایا توجس نے مسیح  یسوع کومردوں جلایا وہ تمہارے فانی بدنوں کو بھی اپنے اُس رُوح کے وسیلہ سے زندہ کرے  گا جو تم میں بسا ہوا ہے‘‘(رومیوں ۸: ۱۱)۔ یہ ایک دم میں، ایک پل میں، پچھلا نرسنگا پھونکتے وقت ہوگا  (ا۔کرنتھیوں ۵۲:۱۵)  اورجو مسیح میں ہوکے موئے ہیں وہ پہلے جی اُٹھینگے(ا۔ تھسلنیکیوں ۴: ۱۶)۔ مسیح خداوند’’اپنی اس قوت کی تاثیر  سے۔۔۔ ہماری پست حالی  کےبدن کی شکل  بدل کراپنے جلال کےبدن کی صورت پر بنائےگا‘‘(فلپیوں ۳: ۲۱) ۔یوحنا رسول بیان کرتا ہے کہ ہم اُس کی مانند ہوں گے (۱۔ یوحنا ۲:۳)، جہاں مسیح ہے وہاں ہونگے اوراُس کا جلال دیکھیں گے (یوحنا ۱۷: ۲۴)۔

ف۔ اگر تم نے اس دنیا میں عیسائی ہوکے مسیح کی رُوح پائی ہے اوروہ روح تم میں اب موثر ہے اورتمہیں وہ رُوح خُدا کی رفاقت کا لطف اب دکھارہی ہے تو یقین کروکہ اسی رُوح سےتمہارے بدنوں کی قیامت بھی جلال کےلئے ہوگی ۔اوراگر رُوح نہیں پائی تو قیامت تو ہوگی مگر رسوائی اورذلت اورابدی دکھ کے لئے۔

اگرچہ بعد موت رُو ح اوربدن میں جدائی ہوجاتی ہے۔ رُوح بدن سے نکل کے یا ابرہام کے پاس یا شیطان کے فرزندوں کے جھنڈ میں چلی جاتی ہے اوربدن خاک میں مل جاتا ہے۔ تو بھی کلام اللہ کے بعض مقاموں سے ثابت ہے کہ رُوحوں  کوا پنے بدنوں سے ایک اضافی علاقہ باقی رہتا ہے اورآخر کو رُوح اپنے ہی بدن میں آئے گی ۔ہاں ایماندار کا بدن جلال میں اوربے ایمان کا بدن ذلت میں اُٹھے گا تو بھی وہی بدن ہوگا اوروہی صورت اُس شخص کی ہوگی جو پہلے تھی ۔جلال میں صورت سابقہ نمایاں ہوگی اورذلت میں وہی پہلی صورت دکھائی دے گی جس سے وہ پہچانا جائیگا کہ فلاں شخص ہے ۔پس جسم اوررُوح کے علاقہ کو موت معدوم نہیں کرتی ہے۔ایوب کہتا ہےمیری یہی آنکھیں اُسے دیکھیں گی نہ بیگانہ کی(ایوب ۱۹: ۲۷)۔( ۲۔ سلاطین ۱۳: ۲۱)میں دیکھو کیا لکھا ہے کہ جب وہ مردہ الیشع نبی کی قبر میں گرایاگیااورالیشع کی ہڈیوں سے لگا تو وہ جی اُٹھا اوراپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا۔

الیشع کی رُوح کو اُس کی مدفون ہڈیوں کے ساتھ علاقہ تھا تب ہی تو یہ ہو اکہ غیر مردہ اُس سے محسوس ہوکےجی اُٹھا۔ اس بات کے ثبوت کے لئے غور کیجیئے  ۔اُس لڑکے کی جان اُس میں پھر آئے(۱۔ سلاطین ۱۷: ۲۱) ، اُ ن کی لاشوں پر جو مجھ سے باغی ہوئے نظر کریں گے(یسعیاہ ۶۶: ۲۴) ،میں اُسے آخری دن میں پھر زندہ کروں گا(یوحنا ۶: ۴۰)، قبریں کھل گئیں اور بہت سے جسم ان مقدسوں کے  جو سو گئے تھے جی اٹھے (متی ۲۷: ۵۲)۔ بدن اوررُوح کے درمیان جو اضافی علاقہ ہے اس کا ذکر بہت آیتوں میں ہے۔

دفعہ۴۱

انسانی رُوح کے لباس کے بیان میں

جبکہ سچے ایماندار عیسائی کی رُوح اُس کے بدن سے نکل جاتی ہے تو خُدا تعالیٰ اُس کو اَورایک بدن دیتا ہے اور وہ بدن  جسمانی نہیں ہے بلکہ نورانی ہے اورایک لباس بھی رُوح کو عنایت ہوتا ہے جس سے اُس کی برہنگی پوشیدہ ہوتی ہے اوروہ رُوح اُس لباس میں خوبصورت نظر آتی ہے۔ہم حقیقتاً ملبس ہوں گے نہ کہ ننگے پائے جائیں گے  (۲۔ کرنتھیوں ۳:۵) ۔ آسمانی جسم بھی ہیں اورزمینی بھی ہیں، آسمانیوں کاجلال اَور ہے اور زمینیوں کا اَور ہے (۱۔کرنتھیوں ۴۰:۱۵)۔یہ فانی  جسم بقا کو اورغیر فانی کوپہنے گا(آیت ۵۳) ، سب مبدل ہوجائیں گے (آیت ۵۱)، ایک عمارت خُدا سے پائیں گے (۲۔ کرنتھیوں ۱:۵)۔  یہ رُوح کے بدن کا ذکر ہے۔  موت کا بدن چھوٹ جائیگا(رومیوں ۷: ۲۴)، جیسا وہ آسمانی ہے ویسے وہ بھی جو آسمانی ہیں (۱۔ کرنتھیوں ۱۵: ۴۸) ، جس میں ہوکے (یعنی روحانی بدن میں ہوکے ) اُس نے اُن روحوں کے پاس جو قید تھیں جاکے منادی کی(۱۔ پطرس ۳: ۱۹)۔

پھر لکھا ہے کہ وہ جلال میں ظاہر ہوئے یعنی موسیٰ اورایلیاہ (لوقا ۳۱:۹) ۔جلالی اور ٖغیر فانی بدن کی پوشاک سفید  ہوگی(لوقا ۴:۲۴؛ مکاشفہ۱۸،۴:۳)۔ خُداوند مسیح کی صورت جب تبدیل ہوگئی تھی تو اُس کا چہرہ آفتا ب سا چمکا تھا اوراُس کی پوشاک نور کی مانند سفید ہوگئی تھی (متی ۲:۱۷)۔ سموئیل نبی جب بلایا گیا تو وہ اپنی پرانی وضع کے لباس میں آیا تھا تاکہ ساؤل سےپہچانا جائے (۱۔ سموئیل ۱۴:۲۸)۔ مسیح کی راستبازی تمام مومنین سلف وخلف (سلف: آباؤاجداد۔اگلے زمانے کے لوگ،خلف:جانشین،پیچھے آنے والے) کی رُوحوں کا خوبصورت لباس ہے اوریہی شادی کا لباس ہے جو بادشاہ کی طرف سے ہمیں بخشا جاتا ہے۔ چاہئے کہ اسی دنیا میں ہم اس لباس کو رُوحوں میں پہنیں اوراس لباس کی حفاظت کریں۔ یہ لباس اب بھی خوش نما ہے اورآئندہ کو اس کا جلال خوب ظاہر ہوگا۔ فقط

تمت