دفعہ ۳

ایمان کے بیان میں

انسان کی ابتدا اور انتہا کی بابت جو بیانات بائبل میں ہیں وہ سب ایمان سے مانے جاتے ہیں آپ لوگوں میں ایمان ہے یا نہیں؟

ایمان نام ہے اُس یقین کا جو اُن نادیدہ اورمعتبر اشخاص سے شنید ہ باتوں کی نسبت ہوتا ہے جو خُدا سے علاقہ رکھتی ہیں۔ اس لئے کہ وہاں تک عقلی تحقیقات کو رسائی نہیں ہوتی۔

 ہم سمجھتے ہیں کہ سب آدمیوں کو ایمان کی ضرورت ہے اورصحیح ایمان جو لا ئق بھروسہ کےہے۔ وہ صرف بائبل شریف میں بیان ہوا ہے۔ بعض آدمی ایمانی ضرورت کے توقائل ہیں ،لیکن بائبل کے باہر کچھ اَورطرح کے ایمان رکھتے ہیں جن کے  وہ خوگر (عادی) ہوگئے ہیں۔ اُنہوں نے ایمانوں میں مقابلہ کرکے صحیح ایمان کی تلاش کبھی نہیں کی۔وہ لکیر کے فقیر ہیں اورتحقیقات کے نام سے جلتے ہیں اوراگر بہ مجبوری عقل کچھ تحقیق کرتے بھی ہیں  تو اُس جانب کو جھکتے ہیں جس میں اُن کی غرض قائم رہے۔ وہ حق کے طالب نہیں ہیں کہ راستی کی طرف جھکیں۔ بعض ایسے ہیں جو کچھ بھی ایمان نہیں رکھتے سب ایمانوں سے بیزار ہیں کیونکہ اُنہوں نے بعض ایمانوں کو جھوٹا پایا ہے۔اس لئے سب جھوٹے ایمانوں میں سچے ایمان کو بھی ملا کے کہتےہیں کہ سب ایمان غلط ہیں جو کچھ اُن کا دل چاہتا وہ کرتے ہیں۔

ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ اگر انسان میں بائبل والا ایمان نہ ہو اَورکوئی ایمان ہو یا نہ ہو وہ بے ایمان ہے اور اُس کی روح ہلاک ہوجائے گی۔

اس رسالہ کے ناظرین باایمان قسم اول اور قسم دوم کا بیان بھی قسم سوم  کے ساتھ ضرور مانتے ہیں۔لیکن وہ جو با ایمان نہیں ہیں میں اُن سے کہتاہوں کہ آ پ لوگ قسم سوم کے بیان میں ضرور غور کیجئے اورسوچئے کہ آ پ اُسی قسم کے آدمی ہیں یا نہیں۔ اتنی خود شناسی بھی مفیدہوگی اورایمان بھی اس سے پیدا ہوجائےگا پھر آپ لوگ بہت کچھ خُدا سے پاسکتے ہیں۔

تینوں قسم کے بیان اس کتاب میں رلے ملے آتے ہیں ناظرین کو خود سمجھناہوگا کہ یہ کس قسم کا بیان ہے ؟

اوریہ بھی یادر ہے کہ پہلی ا وردوسری قسم کا بیان اگرچہ ایمان سے مانا جاتا ہے اورتیسری قسم کا بیان معائینہ فکر ی سے۔ توبھی ہماری حالت موجودہ کا معائینہ ابتدائی وانتہائی بیانات کے درمیان ہوکے ایک خاص نسبت وعلاقہ ہم میں اوراُن دونوں بیانوں میں ظاہر کرتا ہے۔ اگر سنجیدگی سے بغور کچھ دیکھ سکتے ہو تو دیکھو اوریقین کرو کہ بائبل اپنے بیان میں برحق ہے ۔

دفعہ ۴

خُدا تعالیٰ جل شانہ کے بیان میں

جہاں تک موجودات خارجیہ کی کیفیت آدمیوں کو معلوم ہوئی ہے یہی دریافت ہوا ہے کہ ہرخارجی موجود قائم بالغیر ہے۔پھر وہ غیر بھی قائم بالغیر ہے اورہو نہیں سکتاکہ یہ تمام قائم بالغیروں کا سلسلہ بھلاکسی علت ’’قائم بالذات‘‘ کے قائم اورموجود ہوسکے۔ علتہ العلل قائم بالذات کا ہونا عقلاً ضرور ہے۔ اُسی کا نام اہل علم نے ’’واجب الوجود‘‘ رکھا ہے اوریہ نام ایک ماہیت کی واجب ہستی کا ہے نہ کسی خاص شخص کا۔ اُس ہستی کا ہمسر کوئی نہیں ہوسکتا ،اس لئے اُس کے ہمسر کانام اُنہو ں نے ’’ممتنع الوجود‘‘ رکھا ہے اورتمام جہان کی اشیاء مخلوقہ(خلقت) کواُنہوں نے ’’ممکن الوجود‘‘ کہا کہ اُن کی ہستی کا ہونا یا نہ ہونا امر ضروری نہیں ہے بلکہ واجب الوجود صانع (خالق)کی مرضی پر موقوف ہے اورہر چیز ایسی ہی ہے۔

دنیا کے شروع سے سب قوموں میں یہ خیال برابر چلا آتا ہے کہ ایک ہستی ہے جو از خود ازل سے ابد تک موجود ہے۔اُسی سے سب ہستیاں موجود ہوئی ہیں۔ ہر زبان میں اُس ہستی کے لئے دو چار لفظ نہایت عمدہ پائے جاتے ہیں جنہیں اُس زبان کے اہل نے اپنے محاورات میں بہ تکریم (تعظیماً)استعمال کیا ہے اور اپنی روحوں کے لئے اُن کے مفہوم کو جائے پناہ دیکھایا ہے مثلاً عبرانی میں لفظ ’’الوہیمؔ‘‘ ہے بمعنی ’’معبودان‘‘ صیغہ جمع کا ہے اوراُس ماہیت واحدہ کی نسبت استعمال ہوتا ہے۔ اورلفظ ’’یہوواؔ ہ‘‘بمعنی ’’ہستی قائم بالذات‘‘ اُس کا اسم اعظم ہے۔ایسا ہی لفظ ’’ خُدا‘‘ ہے اصل میں ’’خودآ‘‘تھا کہ اسم فاعل ترکیبی ہے بمعنی ’’خود آیندہ کہ از خود موجود است‘‘ ۔

اِس ہستی کا ثبوت ہمیشہ استدلال اِنّی سے ہوتا ہے۔جس میں معلول (اصطلاح منطق میں نتیجہ) سے علت کا سراغ لگاتے ہیں اور اس طرح اس کی صفات کا ثبوت ہوتا ہے اوردلائل اِنیہ اس مقصد پر جہان میں بکثرت موجود ہیں کیونکہ یہ بےشمار معلولات اس قسم کے دلائل پیدا کرتےہیں۔لیکن ان دلائل سے صرف اتنا ہی ثابت ہوتا ہے کہ کوئی ہستی قائم بالذات ضرور کہیں موجود ہے ،جس کا نظیر معدوم ہے اور جس میں حکؔمت، قدؔرت اوراراؔدہ ہے۔ کیونکہ ہر معلول میں یہ تین صفتیں مستعمل نظر آتی ہیں۔ لیکن اُس ہستی کا علم بالکہنہ (پکارنے یانِدا دینے کا طریق ) کسی انسان اورفرشتہ کے بھی ذہن میں نہیں سماسکتا۔ اے برتر از خیال وقیاس وگمان ووہم۔ وزہرچہ گفتہ اندشنید یم وخواندہ ایم۔اگر اُسکی ذات وصفات کا علم بالکہنہ کما ہو ہو کسی مخلوق کے ذہن میں سما سکتا تو وہ خُدا نہ  ہوتا۔مخلوقات کے احاطہ فکر ی میں خالق کا علم محدود ہوجاتا۔وہ جو کہتے ہیں کہ پہلے ہمیں سمجھا دو کہ خُدا کیا ہے؟ تب ہم ایما ن لائینگے۔ اُن کا مقصد یہ ہے کہ پہلے ہم خُدا کے ہمسر یا اُس سے بڑے ہوجائیں ،تب اسے مانیں گے۔ سوچوکہ یہ حماقت ہے کہ نہیں؟ کہ وہ لوگ لاانتہا کو اپنے ذہن کی نِہَتی ڈبیا میں بند کرنا چاہتے ہیں۔کیا ایسا ہونا کبھی ممکن ہے ؟

خُدا نے آپ کو بذریعہ ہماری عقل کے اوربذریعہ کتب الہامیہ کے ہمارےظروف کے اندازہ پر ہمارے سامنے ظاہر کیا ہے۔ اورجس قدر اُس کے فضل سے ہمارے دلی اورخیالی طرف فراخ ہوتے جاتے ہیں، اس قدر زیادہ سے زیادہ ہم اُسے پہچانتے جاتے ہیں اورمعلوم نہیں کہ کہاں تک ترقی ہماری ہوگی؟

بڑی بحث جو اہل دنیا خُدا کی بابت ہم سے کرتے ہیں  وہ وحدت اورتثلیث کے بارے میں ہے۔ جس کا مفصل بیان اِس مختصر رسالہ میں نہیں ہوسکتا۔ انشاء اللہ آئندہ کسی کتاب میں ہوجائیگا اس وقت چند فقرے اجمالاً (اِختصار کے ساتھ) یہاں لکھنا کافی ہے۔

عقل سے جہاں تک خُدا معلوم ہوسکتا ہے آدمی جانتے ہیں اور جان سکتے ہیں لیکن زیادہ ترقی اس بارےمیں عقل سے نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ خود نہ بتلائے کہ میں کیاہوں ؟ اوریہ  بات ثابت ہوچکی ہے کہ یقیناً اُس نے دنیا میں پیغمبر بھیجے اورالہام دیا جو بائبل میں ہے۔ پس ہم عقلی ہدایت سے کچھ زیادہ اس بارے میں اُس کے کلام سے سیکھتے ہیں اور زیادہ روشنی اورتسلی حاصل کرتے ہیں۔کیونکہ جو کچھ کلام سکھاتا ہے وہ عقل کے خلاف نہیں ہے ۔یا عقل کے مناسب ہے یاعقل سے بلند ہے۔ اوریہ بات ہمیں خوب معلوم ہے کہ ضرور خُدا تعالیٰ ہمارے فہم سے بلند وبالا ہے۔

خُدا واحد ہے۔یہ بات برحق ہے اورہم ایمان سے کہتے ہیں لااِلہ الاللّٰہ لیکن یہ کہنا کہ خُدا واحد ہے اس کا مطلب کیا ہے؟ غور طلب بات ہے ۔ خُدا نام ہے ایک ماہیت کا جیسے انسانیت، حیوانیت ،ملکیت وغیرہ ماہتیں ہیں۔الوہیت بھی ایک ماہیت ہے اورسب ماہیتیں قائم بالغیر اورمرکب ہیں۔وہ ماہیت غیرمرکب اورقائم بالذات ہے۔ ممتاز بے نظیر اورازلی وابدی سب ماہتیوں کی موجد اورسب کے اوپر حاکم ہے۔

لیکن اس کی وحدت کیسی ہے ؟عقل سے اس کا بیان نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ وحؔدت فردؔی اورنوؔعی اورجنسی کو وہاں دخل نہیں ،ورنہ خُدا ئی کی شان نہیں رہتی ہے اورنہ وحدت وجودی ہے جو مغایرت (اجنبیت)کو معدوم کرتی اوراپنے قائل کو بڑا مشرِک بلکہ منکرِ خُدا بناتی ہے۔ یہی کہنا پڑتا ہے کہ اس کی وحدت کچھ اورہی قسم کی ہے جو فہم سے بلند وبالا ہے۔

کلام سے ثابت ہو اکہ اس کی ماہیت واحدہ ہے اوراس میں تین اقنوم ہیں یعنی تین شخص ’’ اؔب ‘‘،’’  ابؔن‘‘، ’’روؔح القدس‘‘ اُن کے نام ہیں ۔ جو ماہیت’’ابؔ تعالیٰ‘‘ کی ہے وہی ماہیت’’ابؔن‘‘ اور’’ روحؔ القدس‘‘ کی ہےکیونکہ اُن کا جو ہر ذات ایک ہے۔ صفات بھی ایک ہیں۔ حکمت، قدرت اورارادہ ایک ہے۔ صرف تعدد شخصی ہے ،ورنہ ہر طرح سے ایک ہیں اوریہی واحد خُدا ہے۔ خُدا نے اپنی ذات کابیان اپنے کلام میں یوں ظاہر کیا ہے اورہم اُس کے فضل سے سمجھے ہیں کہ یہ حق ہے۔ اِسی کا ماننا خُدا کا ماننا اوراس کا انکار خُدا کا انکار ہے۔ یہ خیال خُدؔا نے ظاہر کیا پیغمبرؔوں سے پہنچا اوربائبل شریف میں بہ تفصیل بیان ہو ااور مومنؔین کے دلوں اورخیالوں میں زندگی اورروشنی بخش نظرآیا اور فکؔر سے دریافت ہوا کہ خُدا اِس عقیدہ کا حامی ہے۔ بلکہ ساری پاک روحانی برکتیں اورمعرفت ِ الہٰی کے اسرار اُنھیں آدمیوں کے حصہ میں ہیں جو اِس واحد فی التثلیث خُدا کو مانتے ہیں۔ تم خود سوچو کہ تمام دنیا کے اہل مذاہب میں معرفت الٰہی اورخُدا شناسی کے بارےمیں کونسا فرقہ بڑھا ہوا ہے؟ صرف عیسائی لوگ۔ اس کا سبب یہی ہے کہ حقیقی اورزندہ خُد ابھی بائبل والا خُدا ہے جو ان کی روحوں میں بوسیلہ اس ایمان کے موثر ہے اورنوربخش ہے۔ اُوراہل مذاہب جو تاریکی میں رہتے ہیں اس کا سبب یہی ہے کہ اُن کے فرضی اوروہمی یا عقلی خُدا جو فی الحقیقت ناچیز شے ہیں کچھ روشنی اورزندگی اُن میں داخل نہیں کرسکتے۔ جب سب بطلان دفع ہونے کا وقت آئےگا یہ سب لوگ بے خُدا کھڑے رہ جائیں گے اورحقیقی زندہ خُدا اہل انجیل کے ساتھ سب کو معلوم ہوجائیگا۔