دفعہ  ۱

خود شناسی کے بیان میں

Raja Bazaar in Rawalpindi
راولپنڈی میں راجہ بازار

عربی زبان میں ایک قدیم کہاوت ہے اوراہل تصوف اُس کا استعمال بہت کرتے ہیں اوروہ صحیح کہاوت ہے جو یہ ہے (مَن عرف نفسہ فقد عرف ربہُّ)یعنی ’’ جس نے اپنے آپ کو پہچانا اُس نےاپنے رب کو پہچا نا‘‘۔ ’’رب‘‘ کے معنی ہیں’’ پرورش کنندہ‘‘۔ ’’ربیب‘‘ کے معنی ہیں’’ پرورش یافتہ‘‘۔ ہم سب ربیب ہیں ہمارا کوئی رب ہے اُسی کا دوسرا نام خُدا تعالیٰ ہے اور ربوبیت وہ کام ہے جو رب اورربیب کے درمیان رب سے ہوتا ہے۔

اگر آدمی  اپنےآپ کو پہچانیں کہ ہم کون ہیں ؟اور کس حال میں ہیں؟تو اس شناخت کے وسیلہ سے خُدا کی شناخت کہ وہ کون ہے؟ اورکیسا ہے؟آسان ہوجاتی ہے۔رب کی شناخت سے مراد یہ ہے کہ اُس کی کچھ شان اورمرضی معلوم ہوجائے کہ وہ کیسا ہے؟ اورکیا چاہتا ہے؟یہ معلوم کرکے جب کوئی اُس کی مرضی کے تابع ہوتا ہے تب وہ شخص اپنی ٹھیک وضع کے منشاء میں قائم ہوکے خُدا کا مقبول اورمبارک بندہ ہوجاتا ہے۔

افسوس کی بات ہے کہ اس کہاوت کا مطلب بعض صوفیوں نے غلط سمجھا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’’اپنے نفس کا پہچا ننا رب کا پہچاننا ہے‘‘ یعنی’’ تمہارا نفس ہی تمہارا رب ہے‘‘ اوریو ں وہ ہمہ اوست کاد م بھرتے ہیں۔ یہ اُن کا خیال اس لئے غلط ہے کہ خود شناسی سے حاصل نہیں ہوتا ہے بلکہ خود فراموشی سے یہ جہالت نکلتی ہے۔

رات دن کے تجربوں سے ہمیں معلوم ہے کہ جس کسی آدمی پر خُدا کا فضل شروع ہوتا ہے۔ پہلی بات جو وہاں نظر آتی ہے یہی ہے کہ وہ شخص اپنے آپ کو پہچاننے لگا کہ میں بڑا گنہگار، سخت ناتواں ،نہایت محتاج ہوں، نادان ہوں، نکما ہوں ۔ خود شناسی خُدا شناسی کی پہلی منزل ہے جس قدر ہم معرفت ایزدی (خُدائی)میں بڑھتے جاتے ہیں اُسی قدر ہم آپ کو زیادہ پہچانتے جاتے ہیں۔آخر کار ہم بڑےعارف ہوکے یوں کہتے ہیں یقیناً ہم سب سے زیادہ خطا کار، سب سے زیادہ نادان ،سب سے زیادہ ناتواں اوربالکل رحم کے محتاج ہیں اور خُدا تعالیٰ نہایت مہربان، نہایت پاک ،بڑا دانا ،بڑا حکیم ،بڑی قدرت اورطاقت والا ہے۔اُس نے یسوع مسیح میں ہمارے لئے بڑا ہی رحم کا دروازہ کھولدیا اورہم اُس میں داخل ہوکے ضرور بچ گئے ہیں۔

کلامِ اللہ سے جو معرفت ہمیں حاصل ہوتی ہے اُس کا خلاصہ تویہی ہے جو میں نے اوپر سُنایا لیکن یہ بھید جس پر کھلتا ہے وہی اِ س کا لطف اُٹھاتا ہے اوراپنے کو ایسا او ر خُدا کو ویسا دریافت کرکے اپنی رُوح کو بڑے چین کے مقام میں پاتا اورخُدا میں خوشی مناتا ہے۔

اس بیان سے میرا یہ مطلب ہے کہ کتاب اللہ یعنی با ئبل شریف جو سارے جہان کی ہدایت کے لئے خُدا نے نبیوں سے لکھوائی ہے اُس میں بھی یہی طریقہ برتا گیا ہے کہ لوگ وسیلہ خود شناسی کے خُدا شناسی تک پہنچ جاتے ہیں اوریہ وہی بات ہے کہ جب تک کوئی اپنے آپ کو بیمارنہ جانے طبیب کے پاس نہیں آتا۔ یہ سب لوگ جو مذہبوں کی بابت جھگڑتے پھرتے ہیں بے فائدہ کام کرتے ہیں۔چاہئے کہ سب تکرار اورمباحثے چھوڑ کے ذرا اپنی طرف متوجہ ہوں اور دریافت کریں کہ ہم کون ہیں؟ اورکیسے ہیں؟ تو اُ ن کے سامنے سے بہت سی مشکلات خودبخود حل ہوجائیں گی اوروہ اپنے اندرونی امراض سے آگاہ ہوکے علا جِ مناسب کےجویاں (تلاش کرنے والے) ہوں گے اوراُس وقت اُنہیں معالج نظر آجائیگا اوروہ اُس کے پاس آکے صحت بھی پائیں گے۔

دنیا میں یہی حال ہورہا ہے کہ ہرتکراری اوربکو اورجھگڑا لوآدمی جب اپنی بکواس سے چپ کرکے اپنے گریبان میں سر ڈالتا ہے اوراپنی طرف دیکھتا ہے۔ تب اُسے معلوم ہوتا ہے کہ ہر طرف اندھیرا ہے صرف کلام اللہ میں روشنی ہے۔ بلکہ کلام اللہ کے کسی ایک ہی فقرہ کا جلال اس کی روح کو خُدا کی طرف کھینچ لاتا ہے اورزندگی کے سوتے تک پہنچا دیتا ہے۔کس کو ؟ اُس کو  جو اپنی حالت پر متوجہ ہوکے اور اپنےآپ کو بیمار دریافت کرکے صحت کا طالب ہوتا ہے۔ 

دفعہ ۲

ماخذ خیالات کتاب ہذا کے بیان میں

اس کتاب کے ماخذ خیالات کے بارےمیں چند مہینوں تک میں فکر مندرہا۔ اگرچہ میں یہ جانتا تھا کہ بائبل شریف کے سوا دنیا میں کوئی کتاب ایسی نہیں ہے کہ انسانی کیفیت کو پورا پورا بیان اُس میں ہو۔ لیکن بعض آدمی بائبل شریف پر ایمان نہیں رکھتے اوراُس کی دلیلوں پر توجہ نہیں فرماتے۔وہ ہمیشہ دنیا وی حکیموں کے عقلی خیالات کی طرف تاکا (دیکھنا )کرتے ہیں پس اُن کے لئے مجھے ایسے خیالات کی تلاش اورتنقید میں کچھ عرصہ تک رہنا پڑا اورجہاں تک اُن کے ایسے خیالات میں نے پائے اورپر کھے اُن میں میری کچھ سیری نہیں ہوئی اوربہت ہی تھوڑا ساذخیرہ تنقید کے بعد میرے ہاتھ میں رہ گیا۔اگر صرف اُسی کو اس کتاب میں لکھتا تو یہ کتاب ’’مِراۃ الانسان‘‘ نہ ہوسکتی تھی کیونکہ وہ بہت ہی تھوڑی باتیں ہیں۔

پس میرا وہ اعتقادی خیال اس وقت اوربھی زیادہ پختگی کو پہنچ گیا کہ انسان کی کیفیت اوراُس کی پوری حالت کا بیان صرف اُ س کا خالق ہی کرسکتا ہے جو انسان سے واقف ہے یہ کام بھی آدمیوں سے پورا نہیں ہوسکتا ہے۔عقلی اورعلمی روشنی سے آدمی آپ کو جیسا چاہے پہچان نہیں سکتے۔ الہٰی آسمانی الہامی روشنی جب آدمیوں پر چمکتی ہے تب وہ آپ کو پہچانتے ہیں کہ ہم کیسے ہیں ؟پس میں حکمائی خیالات کی طرف سے بہت ہٹ گیا اورکلام کی طرف متوجہ ہوا  کہ اُس کی ہدایت کے سامنے کسی حکیم کی رائے تسلی بخش چیز نہیں ہے۔

اوراس وقت میں ناظرین سے یہ بھی کہتا ہوں کہ انسان کی کیفیت اورحالت کابیان جو بائبل شریف میں ہے تین قسم پرمنقسم ہے۔

  1.  انسان کی ابتدائی حالت کابیان ہے کہ وہ کیونکر اورکس مطلب سے پیدا کیا گیا؟
  2. اُس کی انتہائی حالت کا بیان ہے کہ اُس کا انجام کیاکچھ ہوگا؟
  3. اس کی حالت موجودہ کابیان ہے کہ آدمی فی الحال کیسے ہیں ؟اُن کی حالت کیسی بگڑی ہوئی ہے اور اُن کی اصلاح کیونکر ہوسکتی ہے؟

پس ان تین  قسموں کے بیان میں سے پہلی اوردوسری قسم کا بیان حکما(حکیم کی جمع)سے کچھ نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ غیب کی خبریں ہیں جو عقل سے نہیں کھل سکتیں۔ ہاں وہ کچھ امکانی تجویزیں سنایا کرتے ہیں جن کا کچھ ثبوت نہیں ہوا کرتا۔

البتہ تیسری قسم کا بیان دنیا کے لوگ کچھ کرسکتے ہیں اور کچھ کیا بھی ہے ۔لیکن یہ بھی پورا پورا بیان اُن سے نہیں ہوا ۔جہاں تک اُن کی عقل دوڑی وہ کچھ بولے ہیں اوراس بیان کے دوسرے حصہ میں انسان کی اصلاح کیونکر ہوسکتی ہے؟ بڑے اختلاف ان لوگوں میں ہیں اوریہ سب مذہب جو دنیا میں جاری ہیں ۔یہ سب اُن کے اختلافات کی وجہ سےجاری ہیں اوراصلاح کی راہ کچھ نہ کچھ دکھاتے ہیں۔

لیکن ا س مقام پر دو سوال کرنے لازم ہیں

اول

اُن کی بیماری کیا ہے اورتُم اُس کا علاج کیا بتاتے ہو اوراُس علاج کو کیا نسبت اس بیماری سے ہے ؟

دوم

ان کے اُس علاج سے جو تم بتاتے ہو کس کس نے صحت پائی ہے؟ اُن کے نام بھی پیش کیجئے ؟

یہ دونو ںسوال دنیا کے سب جھوٹے مذہبوں کو گرادیتے ہیں اورعیسائی دین کی عظمت دکھاتے ہیں۔دنیا وی مذاہب نہ انسان کی بیماری کا حال پورا پورا سناتے ہیں نہ اُس کا علاج مناسب دیکھاتے ہیں نہ صحت یا فتوں کے نمونے پیش کرسکتے ہیں ۔اُن کے اہل ناحق لڑنے پھرتے ہیں۔

کلام اللہ جو بائبل شریف ہے اُ س میں انسان کی نسبت ماضی اورحال واستقبال کا پورا بیان لکھا ہوا ہے اورتسلی بخش ہے اوراصلاح کی راہ ایسی دکھلاتا ہے جو کیفیت بیان شدہ یا تشخیص شدہ کے مناسب ہے اوراُس سے ہزار ہا ہزار آدمی صحت یافتہ ہیں اورہم نے خود اس راہ سے صحت پائی ہے۔ پس اب فرمائیے کہ یہ کونسی عقل کا حکم ہے کہ ہم اس کلام اللہ کی طرف سے جوایسا ہے چشم پوشی کرکے اُن حکماکے اُن چند بے سروپاخیالات ہی کی طرف تکا کریں اوراُن ہی کو اعلیٰ درجہ کی دلیلیں سمجھیں اُن میں کیا عُلویت (بُلندی)گھس رہی ہے وہ تو وہم سے ہیں۔

ہاں یہ میں کہتا ہوں کہ جو کچھ ان لوگوں نے درست طور سے کہا ہے۔ ہم بہ شکر اُسے قبول کریں گے  اورتکمیل وترقی کے لئے کلام اللہ کی طرف متوجہ ہونگے اورکلام میں انسان کی حالت ِموجودہ کا جوذکر ہے اُس پر غور کریں گے ۔کہ فی الواقع انسان ایسا ہی ہے یا نہیں۔ اگر انسان ایسا نہیں ہے تو خیر جانے دو کلام کو نہ مانواوراگر وہ ایسا ہی ہے تو عیاں راچہ بیاں (ف ۔مثل ۔ظاہرا اور علانیہ چیز کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں )اپنی چشم دیداور تجربہ کی گواہی سے اس بیان کو قبول کرلو اوراصلاح کی فکرکرواوراگر اپنی اصلاح آپ کرسکتے ہو تو کرلو اورجو اُسی بدحالت میں مرنا منظور ہے تو اختیار باقی ہے اوراگر اصلاح چاہتے ہو اورخود نہیں کرسکتے تو اُس معالج کے پاس چلے آؤ جو بائبل میں ظاہر ہوا ہے اوراُس کی دوابھی کھاؤ تب دیکھو گے کہ کیا ہوگا۔