دفعہ ۳۸

انسان کے پیدا کرنے سے خُدا کا کیامطلب ہے؟

ہر موجود شے کے لئے یہ حکیم لوگ چار علتوں یا سببوں کا ذکر کرتے ہیں ۔

اول ’’ علتِ مادی‘‘ ہے مثلاً تخت کے لئے علت مادی لکڑی ہے جس سے وہ بنا ہے۔ انسان کے لئے علت مادی کیا ہے؟ یہ بتانا مشکل ہے کیونکہ انسانی جسم کے لئے توہم جلدکہہ سکتے ہیں کہ اربع عناصر اس کی علت مادی ہیں ۔لیکن اس کی رُوح کا مادہ عناصر نہیں ہیں وہ کوئی عالم بالا کی شے ہے جس کی حقیقت معلوم نہیں ہے ۔پس یہی کہنا پڑتا ہے کہ انسان کا مادہ مرکب ہے، سفلیت اورعلویت سے ۔

دوم ’’علتِ صور ی ‘‘ہے یعنی اُس شے کی صورت مثلاً تخت کی خاص صورت جو نظر آتی ہے یہ اُس کی’’ علت صوری ‘‘کہلاتی ہے ۔انسان کی بھی جو صورت دیکھتے ہو یہ اُس کی علت صوری ہے۔

سوم ’’علتِ فاعلی‘‘ جس سے وہ شے بن گئی مثلاً تخت بن گیا ہے۔ بخار سے انسان کو کس نے بنایا؟ عقل کہتی ہے کہ خُدا نے بنایا۔ تب اس کی علت فاعلی خُدا ہے۔

چہارم ’’علتِ غائی‘‘ ہے یعنی اُس شے کی وضع سے جو غرض اورمطلب ہے اس کا نام ’’علت غائی‘‘ ہے مثلاً تخت کی علت غائی یہ ہے کہ اُس پر بیٹھیں۔ انسان کی پیدائش سے کیا مطلب ہے؟ خُدا تعالیٰ تو چیزوں کے پیدا کرنے میں کسی غرض اورمطلب کا ہرگز محتاج نہیں ہے۔ توبھی صاف دیکھتے ہو کہ چیزیں موجود ہیں اوراُن کی پیدائش سے جو غرضیں ہیں وہ ان کو چسپاں ہیں، بے غرضی کوئی چیزہی نہیں۔ ہم نہیں کہتے کہ خُدا ن چیزوں کامحتاج تھا اس لئے بنایا۔ اُس نے اپنی خوشی سے انسان کو پیدا کیااور سب کچھ اُس کے فائد ہ کے لئے بنایا ہے۔

حجت اس میں ہے کہ انسان کو کیو ں پیدا کیا؟ اُس کی علت غائی کیا ہے؟ یہ تو ظاہر ہے کہ سب کچھ انسان کے لئے پیدا ہوا پھر انسان کس مطلب کے لئے پیدا ہوا؟ وہ بہت ہی بڑا اوربھاری مطلب ہوگا۔ کرہ ارضی کی پیدائش اورجوکچھ اُس میں ہے ضرور انسان کے لئے ہے ۔ہر انسان کی پیدائش جس مطلب پر ہوگی وہ مطلب سب مطلبوں کے اوپر ہوگا جس کے لئے اتنا بڑا کا رخانہ قائم کیاگیا ہے۔ بھائیو! اُس مطلب کو دریافت کرو اور اُس میں قائم ہو تاکہ تمہاری پیدائش کا مطلب تم میں پایا جائے۔

محمدصاحب نے اپنی حدیث میں یہ بتا یا ہے شاید کسی رہبان سے اُنہوں نے سُنا ہوگا کہ (کنت کنزاً مخفیاً فأحببت أن اُعرف فخلقتُ الخلق) گویا خُدا کہتا ہےکہ’’ میں پوشیدہ خزانہ تھا میں نے چا ہا کہ ظاہر ہوجاؤں پس میں نے جہان کو پیدا کردیا‘‘۔ قرآن میں محمدصاحب نے کہا ہے کہ آدم کو خُدا نے اس لئے پیدا کیا کہ اپنا خلیفہ یا نائب دنیا میں بنائے۔

 ہمہ اُوست والے کہتے ہیں کہ خود اس ساری پیدائش میں جلوہ گر ہے۔ تب اپنا تماشا آپ ہی دیکھ رہا ہے، آپ ہی مادہ ہے ،آپ ہی صورت ہے ،آپ ہی فاعل ہے، آپ ہی غایت ہے۔ یہ خیال احمق بھنگڑوں کا ہے نہ اُس کے لئے کوئی دلیل، نہ حجت۔

یہ ایسی بات ہے جسے ایک غم زدہ شاعر نے اپنے دل کا بخار نکالنے کو کہا ہے کہ

دردِدل کے واسطے پیدا کیا انسان کو     ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں

 اوراُن عقلمندوں میں سے بھی جس کے خیال میں جو کچھ آتا ہے وہ کہتاہے۔ لیکن نفس پرور اورپیٹو لوگ اپنے کاموں سے ظاہر کرتے ہیں کہ گویا وہ اپنی نفسانی خواہشوں کے پورا کرنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کھاؤ، پیو کہ کل مریں گے۔ ہماری عقل نہ  تو یہ بات مانتی ہے کہ یہ سب خُدا ہی خُدا ہے اور نہ یہ کہ ہم دکھوں کے لئے پیدا ہوئے ہیں، نہ یہ کہ شکم پروری اورعیاشی ہماری علت غائی ہے۔ کیونکہ اتنا بڑا کا رخانہ اور انسان کی یہ عجیب پیدائش اورصورت کسی ذلیل مقصد پر تو ہرگز نہیں ہے۔

اولاً کلام اللہ کی طرف دیکھو کہ انسان کی پیدائش سے وہاں خُدا کا کیا مطلب مذکور ہے؟ (پیدائش باب۱۔ ۲ ) ظاہر ہے کہ آدم کو خُدا نے اپنا ہم شکل اس لئے پیدا کیا تھا کہ وہ سب چیزوں پر حاکم اورصرف خُدا کا محکوم ہوکے ابد تک زندہ آرام میں رہے۔ لیکن اس نے باختیار خود اس غرض کو برباد کردیا، اپنی صورت بھی بگاڑی اوراپنی حکومت بھی کھوئی اورخُدا کا محکوم نہ رہ کے اپنے اوپر موت بھی لی۔ کیونکہ خُدا کا نافرمان موت کا مستحق ہے۔

ثانیاً اُس کا مل انسان یعنی یسوع مسیح کی طرف دیکھوجو دنیا میں یگا نہ ظاہر ہوا ۔اُس کی تواریخ ثابت کرتی ہے کہ وہ بیشک نادیدہ خُدا کی صورت تھا اورسب چیزوں پر اُس کی حکومت بھی تھی ۔وہ بااختیار خود ہوااوردریا ، ارواح مردم ،شاطین ،امراض اورموت وحیات وغیرہ سب چیزوں پر حاکم تھا اور خُداتعالیٰ کا بھی بے قصور ،محکوم اورتابع فرمان رہا۔ اس پر موت کا فتویٰ نہ تھا کیونکہ وہ بےگنا ہ تھا تو بھی اُس نے ہمارے لئے موت کو اپنے اوپر آنے دیا مرگیا، دفن ہوا ،تیسرے دن مردوں میں سے جی اُٹھا اورابدتک زندہ ہے اورخُدا تعالیٰ کے عرش مجید پر تخت نشین ہے۔ اُس کے سارے کام جو ہمارے لئے ہوئے ،اُس کی تمام تعلیم جو اُس نے ہمیں دی ،اس کی رُوح کی تاثیریں جو ہم پر ہوتی ہیں یہ سب کچھ اسی ایک مطلب پر ہے کہ ہمیں موت میں سے نکالے اورپاک صاف کرکے اورخُدا کا ہمشکل بنا کے صرف خُدا کا محکوم اورسب چیزوں پر حاکم ٹھہرادےتاکہ ہم ابدتک آرام میں زندہ رہیں اورکہ خُدا ہم میں سکونت کرے۔

پس انسان کی پیدائش سے مطلب اورمقصد اورعلت غائی یہی ہے کہ انسان ایسا ہو اورایسے کام کرے تب وہ خُدا کا نائب بجائے خویش(قرابتی) ہوسکتا ہے۔ یہ کیسی عمدہ اوراعلیٰ اورافضل غرض انسان کی پیدائش سے ہے جو ٹھیک اس عظیم دائرہ پیدائش کے مناسب اورہماری علت مادی اورصوری اورفاعلی کے بھی موافق ہے۔ ایسی علت غائی کا اظہار کبھی کسی دانشمند کی دانائی سے ہوا تھا ،ہر گز نہیں اور نہ ہوسکتا ہے۔ اگر کوئی آدمی ا س غلت غائی کو قبول نہ کرے اورکچھ علت غائی سنائے اُس کا بیان اس بیان سے کچھ نیچے ہی گرا ہوا ہوگا۔ کا ش کےہر کوئی اپنی اس علت غائی سے آگاہ ہوجائے اوراس مقصد کے حاصل کرنے کے لئے یسوع مسیح کے پاس چلاآئے کہ وہ اس کو بحال کریگا اوروہ مقصد حاصل کرادےگا۔

ف۔ یہ سچ ہے کہ خُدا کسی غرض کا محتاج نہیں تو بھی تمام کا رخانہ پیدائش میں ہرشے کے لئے کچھ علت غائی ہے۔ اس سے اُس کی خُدائی محتاج باغراض نہیں ہوجاتی بلکہ اس کی محبت اورقدرت اورحکمت وغیرہ صفات کا اظہار اوربیان ہوتا ہے۔

ف۔ وہ غرض جو انسان کی پیدائش سے ہے ہر فرد بشر میں ہرگز پوری نہ ہوگی کیونکہ وہ جبری غرض نہیں ہے بلکہ آزادی کے ساتھ آدمیوں میں مطلوب ہے صرف اُن کے فائدہ کے لئے۔ اگر آدمیوں میں سے کوئی شخص خود اُس غرض سے الگ ہونا پسند کرے تو اُس کا اختیار ہے اورا سی لئے لکھا ہے کہ بنی آدم میں سے ایک بقیہ نجات پائیگا۔

ف۔ وہ غرض جو ہماری پیدائش سے ہم میں مطلوب ہے اورجس سے ہم سب آدمی بہت ہی دور جاپڑے ہیں جس میں آدمیوں کو پھر بحال کرنے کے لئے یسوع مسیح خُدا وند دنیا میں آیا ہے، اسی زندگی کے درمیان عیسایوں میں مکمل نہیں ہوتی ہے ۔ہاں ہمارے اندر بوسیلہ مسیحی ایمان کے وہ غرض کچھ جلوہ گر اور اورموثر ہوتی ہے اور اس کا بیعانہ ساہم میں آجاتا ہے جس سے یقین ہوتا ہے کہ آئندہ جہان میں وہ غرض ہم میں خُداتعالیٰ پوری کریگا۔ تمام ایماندار اورمعتبر مقدس اسی امید میں دنیا سے چلے گئے کہ ہم آئندہ وقت میں اس غرض کو حاصل کریں گے۔ دیکھو کیا لکھا ہے’’پرمَیں صداقت میں تیرادیدار حاصل کروں گا۔مَیں جب جاگو ں گا تو تیری شباہت سےسیر ہوں گا‘‘(زبور۱۵:۱۷) ۔

ف۔ مسیح خُداوند بااعتبار الوہیت خُدا باپ کے برابر ہے اوربااعتبار انسانیت وہ خُدا تعالیٰ کا پورا خلیفہ اورزمین وآسمان کا پورا اختیار اُس کےہاتھ میں ہے۔ ہم سب عیسائی بوسیلہ ایمان کے اُس سے اولاً گناہوں کی معافی حاصل کرتے ہیں ۔پھر ہم آپ کومع اپنی سب خواہشوں کےاُس کا مطیع کرکے قُدوسیت کے رتبہ میں بتدریج ترقی کرتے اور خُدا کی صورت بنتے چلے جاتے ہیں اورتکمیل ہماری اُس صورت میں اُس وقت ہوگی جبکہ ہم قیامت کے فرزند ہوکے پھر نئے بدن میں مسیح سے اُٹھائے جائینگے۔ اس وقت ہم سب اُس کی مانند ہوں گے اورہماری بحالی کامل ہوگی۔

ف۔ اس مطلب کے لئے ایک خاص دن خُدا سے مقرر ہے۔ اُسی دن کا نام ’’خُدا کے فرزندں کے ظاہر ہونے کا دن ‘‘ہے ۔اُس دن وہ غرض ہم میں بوسیلہ مسیح کے پوری ہوگی اورہم ابد تک اس جلال میں رہیں گے۔ اس وقت دنیا میں اُس غرض کی تیاری بوسیلہ مسیح کے رُوح سےہم ہورہی ہے اور کچھ ایسا کام ہم میں خُدا سے ہورہا ہے جس سے ہمیں یقین ہے کہ تکملہ اس کام کا ہم میں اُس غرض کو ضرور پورا کریگا۔ اُس وقت مسیح کے سب مخالف خوار اوررسوا ہونگے اورشیطان کے ساتھ جس کے وہ دنیا میں ساتھی تھے ابدی دُکھ میں چلے جائیں گے ۔زیادہ حسرت اُنہیں اس بات پرہوگی کہ خُدا کی طرف سے اُن کی بحالی کاانتظام مسیح ہوا اوروہ بلائے بھی گئے مگراز خود نہ آکے اُنہوں نے اپنی بہتر ی کا موقع کھو دیا۔