دفعہ ۲۲

خوشی کے بیا ن میں

خوشی ایک شیریں کیفیت ہے جو دل پر آتی ہے۔ سب آدمی رات دن خوشی کی تلاش میں ہیں۔ وحشی بھی اوربچے بھی ،احمق بھی اوردانش مندی بھی، ایماندار اوربے ایمان بھی سب خوشی چاہتے ہیں۔ لیکن خوشی دو قسم کی ہے فانی اورغیر فانی۔ ’’فانی خوشی‘‘ فانی چیزوں میں ہے ۔یہ فریبی خوشی ہے جو چند روزہ ہے اورآخر کا ریہ خوشی مبدل نعم ہوجائے گی اورمسلوب (نابود)ہوگی ۔یہ خوشی جسمانی خواہشوں کی تکمیل میں ہے کسی قدر تو اس کی حاجت دنیا میں انسان کو ہے مگر یہ نادانی کی بات ہے کہ ہم اس کے ہورہیں۔ دانشمند کی رُوح اس خوشی سے کبھی سیر نہیں ہوتی اور نہ ہوسکتی ہے۔

’’غیرفانی خوشی‘‘ غیر فانی چیزوں میں ہے ۔یہ خُدا کے پاس ہے اور خُدا کی قربت سے حاصل ہوتی ہے۔یہ رُوح کا پھل ہےجو مسیح بخشتا ہے اور اس کا بیاں انجیل شریف میں ہے۔وہ مومنین کی رُوحوں میں موثر ہوتی ہے اورمسیح اپنے خاص بندوں کو اس خوشی سے بھر دیتا ہے۔ فانی خوشی اس غیر فانی خوشی کے سامنے ایسی حقیر ہوتی ہے کہ خُدا کے بندے ا سکے لینے کو اُسے چھوڑ دیتے ہیں اوران کا ایسا کام بیجا نہیں بلکہ بجا ہے۔ ہاں مناسب طور سے کبھی فانی خوشی کو بھی وہ عمل میں لاتے ہیں مگر اُسے مغلوب بغیر فانی رکھتے ہیں۔

لیکن وہ دنیا دار جو غیر فانی خوشی کی طرف سے اندھے ہیں۔ فانی خوشی کی تلاش اورتکمیل میں تمام زندگی بسر کرکے مرجاتے ہیں اوراُن کی خوشی اسی جہان میں فنا ہوجاتی ہے اوراُن کی روحیں بے خوشی کے اندر تک  ہائے ہائے کرتی ہوئی دُکھ میں چلی جاتی ہیں۔ ناظرین کتاب ہذا کو چاہئے کہ غیرفانی خوشی کو تلاش کریں فانی خوشی پر فریفتہ ہوکے چُپ نہ کررہیں۔

دفعہ ۲۳

جسم کے بدکاموں کے بیان میں

یہا ں جسم سے مراد رُوح حیوانی ہے کیونکہ وہ جسم کی حد میں داخل ہے ۔رُوح حیوانی کے کاموں کو خُدا کے کلام میں جسم کے کام کہاگیا ہے اوریہ ظاہر کیاگیا ہے کہ رُوح حیوانی جب بُر ے کام کرتی ہے اورنفس ناطقہ اُسے دبا کے نہیں رکھتا بلکہ اُس کی خواہشوں کا خود مطیع ہورہتا ہے  توخُدا کاغصہ اُس شخص کی طرف ہوتا ہے۔

رُوح حیوانی ایک فانی چیز ہے ۔وہ بدن کے ساتھ فنا ہوجائے گی۔ اُس پر کچھ ملامت نہیں اور نہ اسے ماخذمیں آنا ہے۔ لیکن رُوح انسانی جو باقی اورغیرفانی ہے اورجس میں ادراک اورتمیز ہے وہ کیوں ایک جانور کی مطیع ہوجاتی ہے اس لئے وہ آفتوں کی سزا وار ہے۔

اس بات کو یوں سمجھنا چاہئے کہ اگر کوئی گھوڑے کا سوا ر جو انسان ہے گھوڑے کی لگام اپنے ہاتھ میں نہ رکھے اوراپنی مرضی کے موافق جہاں چاہے اُسے نہ لے جائے بلکہ لگام ڈھیلی چھوڑ کے آپ گھوڑے کا مطیع ہوجائے کہ جدھر چاہے خود گھوڑا اُسے لے جائےتو کیا وہ بچے گا؟یا خود کش ہو کے مرے گا؟اور قصور کس کا ہوگا؟ گھوڑے کا یا اُس شخص کا جس نے اس کے ہاتھ گھوڑا بیچا تھا یا خود یہ حضرت ملامت کے لائق ہوں گے جنہوں نے اُس جانور کو قابو میں نہ رکھا؟ یہی حال جسمانی بدخواہشوں کی اطاعت سے آدمیوں کی روحوں کا ہورہا ہے۔ جسم کی اصولی بدخواہشوں کی فہرست یہ ہے۔

۱۔شہوت اُس خواہش کانام ہے جو نر اورمادہ میں میل کی خواہش کہلاتی ہے۔ اصل تو اُس کی خوب ہے کہ تناسل کی غرض سے اللہ نے یہ قوت جانوروں میں رکھی ہے اورانسان میں بھی ہے ۔جب یہ قوت انسان میں ظاہر ہوتی ہے اُس وقت کو بلوغت کا وقت کہتے ہیں اورجب آدمی بڈھا ہوجاتا ہے اورقوتیں کمزور ہوجاتی ہیں اُس وقت یہ قوت بھی منقطع ہوجاتی ہے۔

نادان ،احمق، ناتجربہ کا رجوان جو نہ خُدا سے ڈرتے اورنہ اہل تجربہ بزرگوں کی نصیحتیں سُنتے ہیں وہ اس قوت میں آکے بہت اُچھلتے ہیں ۔ا س کو دباتے نہیں بلکہ اس میں مگن ہوجاتے ہیں اوراپنی دیگر قوتوں کو اس کا مغلوب کرتے ہیں اورایسا مغلوب کرتے ہیں گویا اُن کے حواس خمسہ پر بھی شہوت چھا جاتی ہے۔ بُرے گیت گاتے،بُری باتیں خوشی سے سُنتے سناتے، بدصحبتوں کو پسند کرتے اورنفس امارہ کو مزہ دیتے پھرتے ہیں ۔شریر عورتوں کے درپے ہوتے ہیں حرامکاری پر کمرباندھتے ہیں اور سخت بےحیا ہوجاتے ہیں ۔چاروں طرف تاک جھانک کرتے پھرتے ہیں۔ گھوڑوں کی طرح ہنہناتے اورکُتوں کی طرح کتیوں کے درپے پھر تے ہیں۔ آپس میں لڑتے بھی ہیں، بند شیں بھی باندھتےہیں، نعرے مارتے ،فریب دیتے اورفریب کھاتے پھرتے ہیں۔

بڑی بڑی آفتیں بھی ان پر آجاتی ہیں اوران کی خوب خانہ خرابیاں ہوتی ہیں ۔آتشک کی بیماری اوربرص یا کوڑھ  اسی سے ہوتا ہے اورایسی سخت تکلیف ہوتی ہے کہ ان بیماریوں میں مبتلا ہوکے انسان  موت مانگتا ہے اورنہیں آتی۔ اگر کسی عیاش کو ایسی بیماریوں نہ ہوں اوروہ کچھ عرصہ تک اُچھل کو د کے بیٹھ رہے تو بھی وہ باقی عمر بھر رویا کرتا ہے ۔اس لئے کہ اُس میں سے اصلی قوت نکل جاتی ہے اوراُس کی اولاد کمزور پیدا ہوتی ہے اوراُس کے بچے آئے دن بیمار رہتے بلکہ کم عمر میں مرجاتے ہیں۔ یہ آفت باپ کی شرارت سے اولاد میں آتی ہے اوراُس سز اکے سوا جو ایسےلوگوں پر خُدا سے آنےوالی ہے یہ حرامکار لوگ ایسی دنیا میں اپنا بہت نقصان کرلیتے ہیں۔ اکثر اُن کی نسلیں منقطع ہوجاتی ہیں اوراُن کے ابا کا نسبی سلسلہ نیست ونابود ہوجاتا ہے۔

ان لوگوں میں بعض تو غریب بدکار ہیں جو بے تہذیب اورجاہل ہوتے ہیں ۔وہ زیادہ رسوا اورخوار ہوجاتے ہیں۔ بعض مہذب، ذی علم اوردولتمند بدکار ہیں اوروہ کچھ سنجیدگی اوردانائی اورثروت خفیتہ ً ایسے کام کیا کرتے ہیں اوروہ اُن غریبوں کی نسبت کچھ کم رسو اہوتے ہیں تو بھی الہٰی غضب،آتشک وکوڑھ، کمزوری نسل اورانقطاع نسب وغیرہ آفات میں سب کابرابر حصہ ہے۔ بعض دینداری کے لباس میں چھپ کے ایسے بدفعلوں کے مرتکب ہوتے ہیں وہ سب سےزیادہ بُرے ہیں۔ ایسوں کے حق میں کسی شاعر نے کیاخوب کہا ہے۔

لمبی ڈاہڑیوں پہ نہ جادِلا
یہ شکار کرتے ہیں برملا
    یہ سب آہوؤں کے ہیں مبتلا
انہیں ٹٹیوں کی آڑ میں
(ٹٹی۔آڑ،پردہ،لمبی ڈاڑھی)

خُدا کا بند وبست جو انسان کے لئے سراسر مفید ہے اس بارے میں یوں ہے کہ جوان آدمی ایک شادی کرے اوراپنی اُس بی بی کو جومناسب طور سے اُس نے پائی ہے محبت اورعزت سے رکھے اوراُسی کے ساتھ زندگی بسر کرے۔ ہاں اگر دونوں میں سے ایک مرجائے اوردوسرا پھر شادی کے لائق رہے۔ اگر وہ چاہے تو پھرا پنا بندوبست پاک طورپر کرلے تاکہ گناہ سے بچے اوراس قوت کوقابو میں رکھے۔ خُدا سے ڈر ے اور اپنے بدن کی بھی حفاظت کرے اور دانائی سے رہے ۔ایسا آدمی خُد اسے برکت پائے گا۔ دنیا میں بھی خوش رہیگا اورآخر کو اُس کا بھلا ہوگا اوراس کی اولاد بھی بہت بیماریوں سے بچی رہے گی۔تمام سچے عیسائی ایسا  ہی کرتے ہیں ۔

۲۔طمع جس کو لالچ کہتے ہیں اصل اس کی بھی خوب ہے اوروہ یہ ہے کہ آدمی اپنی حاجتوں کے رفع کرنے میں مناسب کو شش کرے اوراپنے آرام کی چیزیں تلاش کرکے جائز طورپر لے۔ اگر اُسے ہوکا(کسی چیزکی بے انتہا خواہش) لگ جائے تب وہ طامع اورلالچی ہے۔ اُس کی نگاہ انصاف اورحق پر نہیں رہتی جس قدر پاتا ہے اُس سے سیر نہیں ہوتا بلکہ خُدا کو چھوڑ کے زرپرست ہوجاتا ہے۔ ایسے آدمی کا دل ہمیشہ دکھ میں رہتا ہے۔ اگر وہ ایسا ہی مرگیا تو خُدا کے غضب کی آگ میں چلا جائیگا۔ طمع خواہش حیوانی ہے ۔نفس ناطقہ کی یہ خواہش نہیں ہے بلکہ اس کے خلاف قناعت نفس ناطقہ کی خواہش ہے جو نہایت اچھی چیز ہے۔

۳۔حسد کیا ہے؟ دوسرے شخص کے پاس کوئی اچھی چیز دیکھ کے اپنے دل میں جلنا ہے۔ یہ بھی حیوانی خواہش ہے۔ تنگ دل لوگوں میں حسد بہت ہوتا ہے کشادہ دل لوگ حاسد کم ہوتے ہیں۔ خیر خواہی اورخیر اندیشی اوربرادرانہ محبت جونفس ناطقہ کی صفتیں ہیں حسد اُن کے خلاف ہے۔

۴۔غرور یہ خیال رکھنا کہ میں بھی کچھ ہوں آپ پر فریفتہ ہونا ہے اوریہ حیوانی صفت ہے۔ ہر ایک سانڈ یہ سمجھتا ہے کہ’’ ہم چومن دیگرے نیست‘‘(فارسی مثل۔میر ی مثل دوسرا نہیں )یہی حال اہل تکبر کا ہے کہ اپنے آپ کو بڑا آدمی جانتے ہیں اوردوسرے لوگوں کو جو خاکسار ہیں حقیر سمجھتے ہیں۔ یہ غرور پیدا ہوتا ہے۔ قومی شرافت کے خیال سے اوردولتمندی کی وجہ سے اورعلمی لیاقت سے بھی بلکہ بعض دینداروں میں بھی اُن کی دینداری اُن کی جان کاوبال ہوجاتی ہے جبکہ اُن میں بجائے فروتنی کے غرور پیدا ہوتا ہے اوروہ سمجھتے ہیں کہ میں کچھ ہوں۔ سچی دینداری کا پھل یہ ہے کہ میں کچھ نہیں ہوں لیکن جھوٹی دینداری کہتی ہے کہ ہاں میں کچھ ہوں۔ بعض خُدا کے بندے قوم سے بھی شریف ہیں ،دولتمند اورصاحب علم بھی ہیں تو بھی خاکسار فروتن رہتے ہیں اورغرور کو دل میں ہرگز جگہ نہیں دیتے ہیں۔

۵۔کینہ کسی کے ساتھ دل میں پوشیدہ دشمن رکھنے کا نام ’’کینہ‘‘ ہے ۔یہ ایک آگ ہے جو آدمی کے دل میں پوشیدہ یا دبی ہوئی رہتی ہے اوراُسی کے دل کو اندر اندر جلاتی رہتی ہے۔ پھر موقع پاکے بھڑکتی ہے تاکہ اُس کو بھی جلادے جس کی نسبت یہ کینہ ہے ۔یہ بھی حیوانی صفت ہے۔ نفس ناطقہ کی خواہش یہ ہے کہ انسان کا دل سب کی طرف سے صاف ہو۔ یادر کھنا چاہے کہ کینہ ور آدمی مسیحی نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے دل سے کینہ نکل نہ جائے اوروہ لوگ جومسیحی  کہلاتے اوردلوں میں کینہ رکھتے ہیں وہ ابھی تک موت میں رہتے  ہیں۔ مسیح کی رُو ح اُن میں نہیں ہے اوروہ خدا کے سامنے مسیحی نہیں ہیں۔

۶۔غضب یعنی’’ غصہ‘‘ یہ صفت عام ہے ۔ یہ حیوانوں میں بھی ہے اورنفس ناطقہ انسانی میں بھی ہے بلکہ خُدا میں بھی ہے کہ وہ شریروں پر غصہ ہوتا ہے اوراُن کی شرارت کے سبب سے ناراض ہوکے اُن پر آفتیں نازل کیا کرتا ہے اورسب شریروں کو ابد تک اپنے غصہ کے سایہ میں رکھے گا یہی مقام دکھ کا ہے۔ مگرنادانی کا غصہ اور بے جا غصہ اورحیوانیت کے جوش کا غصہ اورزودرنجی کا غصہ اوربے حلم غصہ مکروہ بلکہ حرام اورخون ریزی کے برابر ہے۔ اُسی سے آدمی گنہگا ر ہوتا ہے۔ ہاں دانشمندی اورخیر اندیشی کے ساتھ انتظام کے لئے جو غصہ ہے وہ جائز اورمفید بھی ہے چاہئے کہ ہم سب اپنےغصوں کوبھی پر کھیں۔

۷۔دشنام دہی یعنی ’’گالیاں بکنا‘‘یا کچھ اوربُری باتیں کسی کی نسبت منہ سے نکالنا اَورکوسنانایا بد دعائیں دینا یا اپنے اُوپر آپ یاکسی غیر پر لعنت بھیجنا یہ سب کام بُرے ہیں اور آدمیوں کے دلوں پر اپنے منہ سے چوٹ مارنا ہے۔ ایسی باتوں سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اُس شخص کا دل اندر سے ناپاک ہےاور وہ بُری باتیں جو اس کے منہ سے نکلتی ہیں اُس کے ناپاک دل کی بدبو ہیں اوردِلی بدبو اُس کے منہ سےباہر آتی ہے اورسُننے والوں کے مزاج خراب کرتی ہے اوراُس آدمی کی بے دینی ظاہر ہوتی ہے ۔یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اُس شخص کے دل میں شیطان رہتا ہے۔ وہی اُس کے اندر بیٹھا ہوا ہےجوایسی بُری باتیں بولتا ہے۔خدا نے اُس کے دل کو نہیں چھوا۔ اُس کی عبادات ،نماز(دعا)اور روزہ سب واہیات ہیں۔ کچھ اثر نیکی کا اُس کے دل پر نہیں ہوا ہے۔ سچے مسیحی جن کے دل پاک ہیں ایسے کام ہرگز نہیں کرتے ۔اُن کے اندر سے صرف خوبی نکلتی ہے اورظاہر کرتی ہے کہ اُن کا دل خُدا کےساتھ ہے۔ طالبان ِحق کو معلوم ہوجائے کہ وہ جو ہندوؤں اورمُسلمانوں وغیرہ میں’’ بزرگ ‘‘کہلاتے ہیں اورمقطع شکل رکھتے اورہاتھ میں تسبیح لےکر’’ سبحان اللہ‘‘ ، ’’سبحان اللہ ‘‘پڑھا کرتے ہیں جب اُن کے ساتھ تم تنہائی میں ہوتے ہو اوراُن کے منہ سے مسیحیوں وغیرہ کو گالیاں نکالتے سُنتے ہوتو معلوم کرجاؤ کہ وہ کس قسم کے آدمی ہیں ؟اور سچے مسیحیوں سے بھی رفاقت کرکے معلوم کرنا کہ اُن کے اندر سے دشمنوں اورموذیوں کے لئے کیا نکلتا ہے،محض خیر اندیشی اوردعا ہے۔ یہ مسیحی دین کی پاک تاثیر ہے جو اُن پرہوئی ہےاوروہ جو اُن غیر مذہب کے بزرگوں کی کیفیت ہے وہ بھی اُن کے دین کی تاثیر سے ہے۔اس سے ثابت کرسکتے ہو کہ دین ِحق کی تاثیر کیسی ہے؟

۸۔قسم انسان کو خُدا کے سوا غیر شے کی قسم کھانا عقلاً وشرعاً حرام ہے ۔ وہ جو کہاکرتے ہیں کہ مجھے اپنے پیر کی قسم یا اپنے سروجان واولاد کی قسم وغیرہ یہ سب گناہ کرتے ہیں ۔بُت پرستوں سے ایسی قسموں کا رواج جاری ہوا ہے۔ وہ جو ایسی قسمیں کھاتے ہیں ظاہر کرتے ہیں کہ یہ چیزیں اُنہیں زیادہ پیاری ہیں اوراُن کے گمان میں یہ بڑی چیزیں بھی ہیں۔ لیکن فی الحقیقت خُدا بڑا ہے اوروہی سب چیزوں سے زیادہ محبوب ہونا چاہئے۔

پس خُدا کے سوا غیر چیز کی قسم کھانا بے ایمانی ہے اورخُدا کا حق غیر کو دینا ہے۔ پس حاصل کلام یہ ہے کہ صرف خُدا کی قسم کھانا چاہئے اور سوا خُدا کے اورکسی چیز کی قسم کھانا حرام اورناجائز ہے۔ لیکن خُدا کی قسم بھی بار بار کھانا اوراُسے تکیہ کلام بنار کھنا خُدا کی بے عزتی اورٹھٹھوں میں اُڑانا  ہے اور اپنےآپ کو لوگوں کی نظروں میں بے اعتبار کرنا ہے۔ سخت ضرورت کے وقت آدمی سچائی اورسنجیدگی سے خُداکی قسم کھا سکتا ہے۔ ورنہ ہر حال میں جب وہ بولتا ہے تو اُس کی ہاں اورنہیں بمنزلہ قسم کے معتبر ہونا چاہئے۔

ف۔ خُدا تعالیٰ نے بھی اپنے پاک کلام میں ابرہام وداؤدسے اپنی ذات پاک کی قسم کھا کےبات کی ہے اوروہ بڑی بھاری بات تھی ۔چنانچہ تم خود اُس بیان کو پیدائش ۱۶:۲۲؛ زبور۳:۸۹میں دیکھ سکتے ہو۔ قرآن شریف ظاہر کرتا ہے کہ خُدا نے اپنی چند مخلوق چیزوں کی قسمیں کھائی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بات خُدا کی شان سے بعید ہے کہ وہ ان مخلوق چیزوں کی قسم کھائے اوران فانی چیزوں کو اپنی بات کی صداقت میں پیش کرے۔ یہ خیال جو قرآن شریف میں ہے انسان کی تجویز ہے خُدا سے نہیں ہے۔

۹۔غیبت یعنی پیٹھ پیچھے لوگوں کے حق میں بُری باتیں بولنا یا اُن کی تحقیر کرنا ،اُن پر ہنسنا، اُن کا نقصان کرنا۔ یہ بدآدمی کاکام ہے ۔بھلے لوگ جیسے سامنے ہوتے ہیں ویسے ہی پیچھے بھی رہتے ہیں۔ یہ غیبت بڑی فساد کی صورت ہے۔ یہ کبھی مخفی نہیں رہتی۔ ظاہر ہوجاتی ہے اور اُس کے کان تک بھی جاپہنچتی ہے جس کے حق میں وہ ہوئی۔ تب اُس کا دل خراب ہوجاتا ہے اوردشمنیاں پیدا ہوتی ہیں۔ وہ جو غیبت کیاکرتا ہے دانشمندوں کی نگاہ میں حقیر ہے۔وہ خود اُس سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ اس خیال سے کہ یہ آدمی اُس شخص کی غیبت ہمارے سامنے کرتا ہے ہماری غیبت کہیں اَورجاکے کرے گا۔ یہ نالائق ہے اس سے ہوشیار رہنا چاہئے ۔پس غیبت سے کیا ہوتا ہے؟ اپنے بھائی کا نقصان ،خُدا کا گناہ اوردانشمندوں کے سامنے خود ذلیل ہونا ہے۔ اس لئے مناسب ہے کہ کوئی کسی کی غیبت نہ کرے بلکہ جو کچھ کہنا ہو اُس کے منہ پر صاف صاف کہے۔ یہ صفائی کی بات ہے اوراُس کا جواب بھی اُس سے سُنے۔ شریروں کی مجلسوں میں غیبت کرنے والے اورغیبت سننے والے لوگ اکثر جمع ہوا کرتے ہیں اور اس قسم کے بہت چرچے وہاں ہوتے ہیں ۔بعض لوگوں کو غیبت سُننے میں اوربعض کو غیبت کرنے میں مزہ آتا ہے ۔اس کا سبب یہی ہے کہ اُن کے دلوں میں شیطان رہتا ہے۔

۱۰۔نفاق اس لفظ کے معنی ہیں’’ بظاہر دوستی اوربباطن دشمنی ‘‘۔خالص دوستی کی خوشبو اورنفاقی دوستی کی بدبو ہرگز چھپی نہیں رہتی۔میں اپنے اُن دوستوں کو خوب پہچانتا ہوں جو مجھ سے خالص دوستی رکھتے ہیں اوراُن کو بھی نام بنام جانتا ہوں جو مجھ سے نفاقی محبت رکھتے ہیں اوریہ میں نے کیونکر جانا ہے صرف اسی سے کہ بعض کی دوستی میں سے خلوص کی اورپاک نیت کی خوشبو دماغ تک پہنچی ہے اوربعض کی دوستی میں سے نفاق کی بوآگئی ہے۔ تب میں بھی اُن کی طرف سے ہوشیار ہوگیا ہوں ۔اُن کے لئے دعا کرتا ہوں کہ خُدا اُن کے دلوں کو پاک کرے اوراُن کے پھندوں سے بچنے کے لئے ہروقت ہوشیار رہتا ہوں اورمیں خیال کرتا ہوں کہ اور لوگ بھی اس طرح اپنے خالص اورنفاقی دوستوں کو پہچانتے ہونگے۔ نفاقی دوست دشمنوں سے زیادہ بُرے ہیں اوربڑے نقصان کا باعث ہیں۔ چاہئے کہ کوئی آدمی اپنی روح میں نفاق کو جگہ نہ دے۔

۱۱۔ بدگمانی ،بدگوئی ،ایذارسانی ، الزام لگانا ، بےحیائی، بددیانتی ، بے ایمانی ، بسیار خوری (بسیار خور۔بہت کھانے والا،پیٹو)، باطل عقائد، بُت پرستی ، قبر پرستی ، پیر پرستی ، بے انصافی ، تعصب ،خصومت (عداوت۔دشمنی)،خود غرضی، دُزدی(چوری) ، دروغ گوئی ، دغا ، ریاکاری، شراب خوری، سُستی ، ظلم، عیاشی ،ناشکری ، نافرمانی وغیرہ۔ یہ سب کام غلبہ حیوانیت کے سبب سے ہوتے ہیں جبکہ نفس ناطقہ اپنا کام پس انداخت کرکے رُوح حیوانی کا مطیع ہوجاتا ہے۔ یہ سب جسم کےکام کہلاتے ہیں۔ یہ رُوح کے کام نہیں ہیں اور رُوح انسانی جب جسم کی تابع ہورہتی ہے توا ن سب کاموں سے وہ ملامت کے لائق ٹھہرتی ہے۔