دفعہ ۱۶

نفس ناطقہ میں کچھ علوی کرنیں چمکتی ہیں

اس شاعر نے ’’نفس ناطقہ‘‘ کو’’ فرشتہ‘‘ بتایا ہے۔ حکمااُسے ’’فطری نور‘‘ کہتے ہیں۔ کلام اللہ میں اُس  کو’’ زندگی کا دم‘‘ کہا گیا ہے۔ لیکن بعض آدمی جو بے ایمان ہیں اُس کو ترکیب امتزاجی کی کیفیت کا حاصل بتاتے ہیں ۔یہ خیال ذلیل ہے اوربے فکر ی کا خیال ہے یا غلط مقدمات کا غلط نتیجہ ہے اورآدمی کی زندگی کے دائرہ کو خراب کرڈالتا ہے۔ وہ جوکہتے ہیں کہ نفس ناطقہ ترکیب امتزاجی کا حاصل ہے اُن کی دلیلیں یہ ہیں کہ ترکیب امتزاجی کی بربادی کے ساتھ  نفس ناطقہ بھی برباد ہوجاتا ہےاورکہ جسمانی قوت کی ترقی سے اُس میں ترقی اورتنزل سے تنزل ہوتا ہے ا س لئے ترکیب مذکورہ کا حاصل ہے۔ 

میں کہتا ہوں کہ کوئی مرکب شئے اپنے اجزاکی کیفیت سے الگ کوئی صفت پیدا نہیں کرسکتی ہے۔ ترکیب امتزاجی کے اجزا عناصر ہیں اورعناصر میں ادراکؔ و اراؔدہ کی استعداد بھی نہیں ہے۔پس جو چیز اجزا  میں مطلق نہیں ہے و ہ ترکیب میں کہاں سے نکل سکتی ہے ۔رُوح حیوانی یا جان ضرور ترکیب عناصر کا حاصل ہے تو بھی بتائیے کہ اُس میں حساسی اور تحرک کون سی جز کی خاصیت ہے ۔وہ تو ایک روشنی  سے ہے جو خارج سے اُس میں آئی ہے ۔اسی طرح رُوح انسانی کی نہ بعض بلکہ تمام خصلیتں ایسی ہیں کہ مادہ سے کچھ بھی لگاؤ نہیں دکھاتیں۔ البتہ انسان کے مزاج میں اجزا مادہ کی تاثیرات دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن نفس ناطقہ میں کچھ اورہی معاملہ نظر آتا ہے ۔خیالات ذیل پر غور کیجئے۔

ا۔ مدارج اورمناصب عُلیا (اعلیٰ مرتبے)کے حاصل کرنے کی ایک خاص اِ ستعداد سب آدمیوں کی رُوحوں میں موجود ہے جس سے بعض آدمیوں نے حسب کوشش ہر ہر کام میں تعجب کی لائق ترقی بھی دکھائی ہے ایسی استعداد نہ کسی ارضی مخلوق میں ہے نہ رُوح حیوانی میں ہے نہ مادہ کے مناسب ہے۔ پھر یہ استعداد نفس ناطقہ میں کہاں سے ہے ؟اب اس استعداد کی بنیاد یا تو مادہ میں سے نکالو یامان لو کہ نفس ناطقہ کسی غیر جہان کا شخص ہے۔

۲۔سب حیوانوں کی طرف دیکھو صرف سفلی اورجسمانی صفات اُن میں ہیں۔  ہاں اتنی بات اُن میں ہے کہ حساسی اورتحرک اورکسی قدر معیشت کا ناقص ساشعور کھتےہیں اورمیں اس کو بھی بالائی چمک کہتا ہوں ۔باقی تمام صفتیں جو اُن کی جانوں میں ہیں سفلی ہیں کیونکہ اُن میں صرف وہی جان ہے جو ترکیب امتزاجی سے پیدا ہوئی ہے اور یہ ترکیب مادہ سے ہے اور مادہ اپنی تاثیریں مسلمہ اُن میں دکھارہا ہے ۔لیکن انسانی رُوح میں علویت کی خواہش کہاں سے ہے؟

۳۔حیوانات کی جانوں میں جو خواہشیں ہیں وہ سب اسی زمین کی چیزوں سے پوری ہوجاتی ہیں اورتکمیل پاتی ہیں اورجانور اپنی خوشی اسی جہان میں پوری کرلیتے ہیں۔ لیکن انسان کی رُوح میں جو خواہشیں ہیں وہ اس جہان کی چیزوں سے آسودہ اورمکمل نہیں ہوسکتی  ہیں۔ اس کا یہی سبب ہوسکتا ہے کہ نفس ناطقہ عالم بالا کا شخص ہے اوراپنے دیس کی چیزوں سے جو اُس کی طبع کے مناسب ہیں وہ آسودہ اورخوش ہوتا ہے کیونکہ ہر چیز کا میلان اُس کے کرہ کی طرف ہوتا ہے۔

مثلاً آدمی کی رُوح ابدی بقا اورحقیقی خوشی کی یقیناً طالب ہے اوریہ دونوں چیزیں یعنی ابدیت اورحقیقی خوشی اس دنیا میں کہاں ہیں ؟ہم تو سب مرنے والے ہیں نہ آگے کوئی رہا ہے نہ ہم رہیں گے ۔پھر وہ ابدی بقا کہاں ہے؟ جس کی یہ رُوح طالب ہے اوریہاں جو خوشی ہے وہ فانی اورتلخی آمیز ہے۔ پس حقیقی خوشی دنیا میں کہاں ہے جس  کی طالب رُوح ہے ؟پھر فرمائیے کہ رُوح انسانی کے درمیان ان دونو ں چیزوں کی اُمنگ کیونکر پیدا ہوگئی ہے؟ ہم نہیں کہہ سکتے کہ انسانی روح دیوانی ہے یا اُسے وہم ہوگیا ہے کیونکہ یہ امنگ اُس میں طبعی ہے نہ عارضی ۔اس لئے ہم کہتے ہیں کہ وہ علوی ہے اورعالم بالا میں حقیقی خوشی اورابدیت کے وجود کی خبر ہماری تمیز بھی ہمیں دیتی ہے۔ پس رُوح وہ چیزیں مانگتی ہے جو دنیا میں نہیں ہیں لیکن اللہ میں ہیں اوراس کا سبب یہی ہے کہ رُوح انسانی اللہ کی طرف سے ہے ، مادہ سے پیدا نہیں ہوئی ہے۔ ناظرین بہت فکر کریں اورگمراہ نہ ہوں۔ نفس پروروں کی واہیات باتوں میں پھنس کے اپنی روحوں کو برباد نہ کریں۔

۴۔عام اورخاص آدمیوں   میں سے اُن آدمیوں کی رُوحیں جنہیں اس جہان کے غبار نے دبا کے بالکل اند ھا نہیں کردیا ہے بلکہ اُن کی آنکھیں کچھ ٹمٹماتی ہیں۔ وہ سب اپنے ضروری فائدہ کےلئے بوسیلہ نیک اعمال کے یا ریاضت بدنی اورایمان واعتقاد کے کچھ ثواب جمع کرتے ہیں ۔ہندؔو ،مسلماؔن ، یہودیؔ اورعیسائی ؔ وغیرہ  تمام اہل مذاہب یہی کچھ کرتے ہیں۔ یہ بحث جدا ہے کہ کون مناسب اورکون نامناسب مشقت کھینچتا ہے لیکن کچھ نہ  کچھ مشقت یہ سب کھینچتے ہیں اس امید پر کہ بعد انتقال خُدا سے کچھ پائینگے اورکیا پائینگے وہی ابدی بقا اورخوشی مانگتے ہیں۔

لامذہبوں ،تعلیم یا فتوں کی اخلاقی وتہذیبی کوششیں بھی کچھ ایسے ہی مطلب پر معلوم ہوتی ہیں۔ کیوں ان سب کی رُوحیں آئندہ دکھوں سے تھرتھراتی ہیں ؟کیوں ان رُوحوں میں ایسا یقین ہے کہ بعد فنا اس ترکیب بدنی کے ہم باقی رہیں گے اوروہ کیوں کسی نہ کسی وسیلہ سے چھٹکارے اورآرام کے امیدوار ہیں۔ سب حیوانوں  کی ایسی کیفیت کیوں نہیں ہے ؟صرف آدمیوں ہی کی ایسی کیفیت کیوں ہے؟ اسی لئے کہ حیوانی رُوح فانی اورمادہ کی ترکیب سے ہے اوراُس میں ادراک نہیں۔ انسانی رُوح غیرفانی اورعالم بالا سے ہے اوراُس میں ادراک ہے اور وہ اس جہان میں آپ کو مسافر سمجھتی ہے اوربعد انتقال آپ کو شے باقی جانتی ہے اورجہاں جاکے باقی رہنا ہے اُسے اپنا گھر اوردیس سمجھتی ہے اور یہ رُوح کا خیال طبعی ہے اوردرست ہے۔

دفعہ ۱۷

ایک فائدہ ہے یاد رکھنے کے لائق

چند آدمی سقیم(بیمار۔خستہ) الارواح یا مغلوب دنیا یابہایم سیرت یاوہمی لوگ یا کج فہم یا بے ایمان کہ بے راہ روی کرکے ناامید ی اور نادانی کےغار میں جاپڑے ہیں۔ اگرچہ وہ بظاہر خوش پوشاک اورخوش خوراک بلکہ خوش اخلاق اورتعلیم یا فتہ اورصاحب مدارج کیوں نہ ہوں لیکن اُن کے دلوں اورخیالوں کی وہی کیفیت ہے جو اوپر کے سخت لفظوں میں پردہ ہٹا کے میں نے سنائی یا دکھائی ہے (اگر مرضی ہو تو غور کرکے اُن کی طرف تاکنا کہ وہ ایسے ہی ہیں یا نہیں )۔ ایسے لوگوں نے آئندہ کی امید کو اپنے دلوں اورخیالوں میں سے زبردستی کھینچ کھینچ کر نکالا ہے اورحیوانوں کے ساتھ اسی جہان میں برباد ہونے کے شوقین ہوئے ہیں۔ ان کی رُوحوں میں کیفیت مذکورہ بالا کا نہ ہونا رُوح انسانی کی فطری حالت کا بیان نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ اُن میں کسی انحطاط کا ظہور ہے اوررُوح کی فطری کیفیت وہی ہے جو جم ِ غیفر کی رُوحوں میں پائی جاتی ہے۔

اورمیں اس بات پر بھی توجہ نہیں کرتا جو وہ لوگ کہتے ہیں کہ وحشی آدمیوں کی رُوحوں میں ایسی علوی کرنیں کیوں نہیں چمکتی ہیں جیسی تم مذہبی تعلیم یافتوں کی رُوحوں میں ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ وہاں کچھ توہے جو بہت غور سے نظر آتا ہے مگر آپ لوگ علمی روشنی اورآسائش کے ملکوں اورمکانوں میں آرام سے بیٹھے ہوئے اُن وحشیوں کے حق میں دور سے جو چاہتے ہو سوکہتے ہو، ذرا اُن کے نزدیک جانا اوراُن کے محاورات دوستورات میں مشق کرکے اُن کی کیفیت سے آگاہ ہونا جیسے ہمارے بھائی مشنری لوگ کرتے ہیں۔ تب معلوم ہوگا کہ اُن کی رُوحوں میں بھی ایسی ہی استعداد اورطلب ہے۔

اوریہ کہنا کہ ہماری رُوحوں کی ایسی کیفیت تعلیم کے سبب سے ہے نہ کہ رُوح کی طبع کے اس لئے جائز نہیں ہے کہ تعلیمی دستور صانع(کاریگر۔خالق) نے انسان کی فطرت میں رکھا ہے۔ اگر آدمی کا بچہ تعلیم نہ پائے تو وہ کچھ نہیں سیکھتا۔پیدا ہوتے ہی بچہ کی تعلیم والدین سے شروع ہوتی ہے۔ وہ سکھاتے ہیں کہ دو دھ یوں پینا چاہئے ، یہ باپ ہے ،یہ ما ں ہے وغیرہ وغیرہ ۔یہاں تک کہ والدہ کی چھاتیوں سے شروع کرکے بڑھاپے کی موت تک انسان سیکھتا اورتعلیم پاتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ مرجاتا ہے اورتعلیم تمام نہیں ہوتی ہے۔ پس تعلیم انسان کے لئے کوئی عارضی امر نہیں ہے بلکہ اس کے کمال کا طریقہ اورامر فطری ہے ۔ جو کوئی تعلیم سے محروم ہے خواہ وحشی ہو یا شہری وہ اپنے کمال کے طریقہ سے گرا ہوا ہے ۔پس اُس کی رُوح کی طرف دیکھ کے ہم ایسا حُکم نہیں دے سکتے کہ خصائص مذکورہ امور فطری نہیں ہیں کیونکہ ایسا قیاس غلط ہے ۔ہم کو چاہئے کہ انسان کامل کی طرف دیکھیں اوروہاں سے رُوح کی شان دریافت کریں نہ کہ بچوں ، وحشیوں ،سقیم الارواح ملحدوں(بے دین) ،بدتعلیم یا فتوں ،احمق ،جاہلوں  اورجو گیوں وغیرہ کی طرف دیکھ کے نیچے گریں۔ ہم توترقی کرتے چلے آئے  ہیں اور بھی زیادہ ترقی کرینگے۔ تعلیم کو فطری طریقہ سمجھیں گے اورسب تعلیموں پر غور کرکے عمدہ تعلیم کے پابند ہوں گے اوراس طریقہ سے صیقل شدہ (صاف شفاف)ارواح میں رُوحوں کے جو ہر دریافت کریں گے اور کہیں گے کہ تمام ارواح بنی آدم میں ایسے ایسے جوہر ہیں جو علویت دکھاتے ہیں اوریوں انسان کی رُوح کا علوی جوہر ہونا ثابت ہے۔

دیکھو درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے کہ وہ اچھا اورمفید درخت ہے یا بُرا اورمضر۔ لیکن کچے اورہوا سے ٹوٹے اورگِر کے سو کھے پھلوں سے ہم پوری شناخت درخت کی حاصل نہیں کرسکتے ہیں بلکہ کامل اورپختہ پھلوں سے جو مناسب وقت پر درخت سے اُترتے ہیں درخت پہچانا جاتا ہے۔ پس رُوح انسانی کے جو ہر کامل آدمیوں میں دیکھنا چاہئے، وحشیوں اورشریروں اوربچوں میں جو ناکامل ہیں اوردرخت انسانیت کے کچے یا گرے اورسوکھے پھل ہیں کیا دریافت کرسکتے ہو ؟تو بھی جو کچھ اُن میں نظر آتا ہے وہی ہمارے مطلب پرمفید ہے۔ ناظرین کو چاہئے کہ ملحدوں کے بہکانے سے گمراہ نہ ہوں مگر خود کامل ہونے کی کوشش کریں اورکامل شخصوں کی طرف دیکھیں۔