۸ ۔فصل قلندروں کے بیان میں

لفظ قلندر کی اصل کلندر یا غلندر ہے معنی کندہ نا تراشیدہ لیکن بول چال میں بے شرع شہدے کو اور بندر یا ریچھ نچانے والے کو اور بازی گر کو اور مگر ے شہدے ہنگڑ چرسی وغیرہ کو بھی قلندر کہتے ہیں جیسے دہلی میں جامع مسجد کے شہدےیا بعض تکیوں میں کونڈی سونٹے لیے ہوئے بعض لنگارے نعرہ زن نظر آتے ہیں اور یاعلی مدد بولتے ہیں یہ سب قلندر ہیں۔

 صوفی سمجھتے ہیں کہ بعض قلندر ولی اللہ ہیں اور وہ شریر اور لچے نہیں لیکن ان کا مشرب قلندریہ ہے۔وہ عشق باز اور آزاد  ہیں۔وہ ہمہ اوست کا دم بھرتے ہیں اور شرع محمدی کے تابع نہیں ہوتے ان میں سے ایک قلندر کا یہ شعر ہے۔

ماز دریائیم دریائیم زماست   این سخن داندکسی کو آشنا ست

 شاہ  خضر رومی پہلا قلندر ہے جو روم سے ہندوستان میں آیا تھا۔وہ کسی کا مرید اور چیلا  نہ تھاکیونکہ قلندر لوگ کسی کے مرید نہیں ہوتےنہ کسی پیر کی پرواہ کرتے ہیں وہ سونٹے باز زبان دراز آزاد نعرہ زن ہوتے ہیں۔صوفیوں کا ان سے دم بند ہونا ہے۔

 جب یہ خضر رومی قلندر دہلی  میں آیا تواس وقت دہلی کے قطب صاحب باوہ فرید کے پیر مرشد زندہ تھے۔اس قلندر نے ارادہ کیا کہ حضرت کی خدمت میں جائے اور ان کا مرید ہوقطب صاحب نے جب یہ سنا تومریدی کا شجرہ کلہ اس کے ڈیرے ہی پر بھیج دیااور دور ہی سے رخصت کیااس کی آزاد طبع سے ڈر گئے۔

 حضرت نعمت اللہ ولی نے اپنے ایک رسالے میں لکھا ہے کہ پورا صوفی جب اپنے مقصد کو پہنچ جاتا ہے تو تب قلندر ہوتا ہے۔قلندر حق حق کرتا ہےقلندر کا علم شہود ہےقلندر کا عمل محو ہے قلندر کی راہ عشق ہے۔قلندر کا دین انا ہے۔قلندر کی دنیا توحید ہے۔

 پھر یہ قلندر لوگ ایک ہی قسم کے  نہیں ہیں۔بلکہ کئی ایک قسم کے لوگ ا ن میں شامل ہیں قلندریہ ایک مشرب ہی مشرب تصوف سے الگ اسی میں بانوا رسول شاہی مداری نوشاہی وغیرہ قسم کے فقیر شامل ہیں اور سب کے سب ارکانِ اسلام سے الگ رہتے ہیں اوران میں بعض شریف و خواندہ اشخاص بھی  ہوتے ہیں۔مثلاً ایک نجم الدین قلندر ہیں ایک محمود قلندر ہیں لکھنو میں ایک سید غلام محمود قلندر ہیں مرادآباد میں ایک شہباز قلندر ہیں سندھ میں لیکن سب قلندروں میں نامی گرامی شریف الدین بو علی قلندر ہیں۔جن کا اصلی مزار پانی پت میں ہےاور دو نقلی مزار ہیں۔ایک بوڈی کہڑے  میں اور دوسرا کرنال میں مسلمان سمجھتے ہیں کہ یہ بزرگ صاحبِ کرامات تھے۔کتاب سیر الاقطاب صفحہ ۱۹۰ میں لکھا ہے کہ یہ شخص صاحبِ علم اور پارساآدمی تھےاور امام اعظم ابو حنیفہ کوفی کی اولاد میں سے تھے۔ان کے آباوآجدادپانی پت میں رہتے تھےاور خود یہ شخص دہلی میں قطب صاحب کی  لاٹھ کے نیچے بیٹھ کر کتابوں کا درس طالب علموں کو دیا کرتے تھےکیونکہ اس زمانے میں دہلی وہاں آباد تھی جب خدا نے ان کو اپنی طرف کھینچا تو تب انہوں نے اپن سب کتابیں  دریا میں پھینک دی اور قلندر ہوکر پانی پت میں چلے آئے۔فارسی میں ان کی ایک مثنوی مشہور ہےاور اس کے مضامین عالی ہیں اور ان کے خیال کی جولانی اور نیت کی پاکیزگی کا اس سے خوب اظہار ہوتا ہے۔مگر وہ کتاب قلندر ہونے سے پہلے کی ہے۔قلندر ہو کر تو وہ بے ہوش سے ہو گئے تھے۔اسلام کو دل سے نکال دیا تھااور کتابوں کو دریا میں پھینک دیا تھاناکارہ سمجھ کر لڑکوں پر عاشق ہونے لگےتھے۔ پہلے جلال الدین پر عاشق ہوئے جو مخدوم صاحب ہیں۔پھرمبارز خان پر عاشق ہوئےجن کا مزار ان کے مزار کے اندر ہے۔میں ہرگز ہرگز اس آدمی کی نسبت بد گمان نہیں ہوں مگر سمجھتا ہوں کہ کس قسم کا جنون ہو گیا ہوگا۔

 اور وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ یہ صاحب کرامات تھے اگر فی الحقیقت ایسے ہوں تو کیا ان کی کرامتوں سے اسلام کی خوبی ظاہر ہو گی؟ہرگز نہیں بلکہ یہ ثابت ہو گا کہ جب تک کوئی مسلمان  اسلام کو نہ چھوڑے اور اس کی کتابوں کے خیالات کو دل سے نکال کر نہ پھینکے تب تک بابرکت نہیں  ہوسکتا اور تصوف کی خوبی بھی ان کی حالت سے ثابت نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ صوفی صاحبِ سلوک نہ تھےبلکہ قلندر  تھے۔وہ بحالتِ اسلام خدا کے طالب تھے۔شاید خدا نے ان پر کسی طرح سے ظاہر کیا ہو کہ اسلام کو چھوڑنا چاہیے۔تب برکت ملے گی پس انہوں نے فوراً اسلام کو چھوڑا اور ناراض ہو کر کتابوں کو  پھینک دیا۔

 یہی حال رسول شاہ نامی ایک شخص کا الور میں ہوا جس سے رسول شاہی فرقہ نکلا ہے۔اس شخص نے دینِ محمدی کو بالکل چھوڑاتب کچھ صاحبِ تاثیرہوا اور انوارالعارفین   ۳   ۶۰۳ صفحے میں اس کا مصنف کہتا ہے کہ میں اور حاجی عطا حسین جب دہلی میں آکر اس مکان میں اترے یہاں رسول شاہ کی بحالت ِ زندگی کی نشست گاہ تھی تو اس مکان کی تاثیر سے ہمارے دل میں یہ خیال آیا کہ ڈاہڑی منڈوانا چاہیےیعنہ اطاعت ِ محمدی کے چھوڑنے کا اشارہ ہمارے دلوں میں ہواپس ہم اس مکان سے توبہ توبہ کرکے بھاگے۔

 اسی رسول شاہ کا خلیفہ فدا حسین نامی شاہ عبدالعزیز صاحب کے عہد میں دہلی کے درمیان ایک مشہور بے شرع فقیر تھا۔محمدی دین کے خلاف تھا مسلمان اسے کافر کہتے تھے۔انہیں دنوں میں پانی پت کے درمیان ایک مسلمان بزرگ ذی علم سفید ریش متشرع حلیم مزاج حافظِ مانی نام رہتے تھے۔ان کی مسجد آج تک محلہ افغان میں  حافظ مانی کی مسجد مشہورہے۔میں عماد الدین لاہز اس وقت چھوٹا لڑکا تھا۔میں نے بار بار اس بزرگ حافظ کو دیکھا کہ مسجد کی اُس دیوار پر جو شمال مسجد میں سڑک کی طرف ہےبیٹھے ہوئے کسی کتاب کا مطالعہ کیا کرتے اور چپکے چپکے آنسو پونچھا کرتے تھے۔بڑے ہوکر میں نے سنا کہ مولاناروم کی مثنوی پڑھا کرتے تھےاور اس کے مضامین میں غرق ہوجاتے تھےغرض ان حافظ صاحب کو قرآن کے لفظ (ہواالظاہر) پر شک پڑ گیا اور کسی طرح ان کی تسلی نہ ہوتی تھی۔تسلی کے لیے شاہ عبدالعزیز صاحب  کے پاس  دہلی میں گئے لیکن تسلی نہ ہوئی۔آخر اس بے شرع فدا حسین نے کہلا بھیجا کہ اے بابا حافظ ادھر آ جو کچھ مولوی نہیں بتلا سکتے میں بتلاؤں گا  تب حافظ صاحب ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔اُس نے ان کو ہمہ اوست کی تعلیم دی اور شہودی بنا دیا۔حافظ صاحب کی تسلی ہو گئی۔ کیونکہ مولوی روم کی مثنوی سے یہ خمیر ذہن میں پختہ ہو رہا تھاتب فدا حسین نے کہا کہ آپ نے اپنا مطلب پا لیااب اپنے گھر کو جائیں۔حافظ صاحب نے کہا کہ میں جاؤں گا۔جب تک آپ مجھے اپنا چیلا نہ بنائیں۔فدا حسین نے کہا کہ یہ سفید دھاڑی اور دین محمدی کی صورت ہمیں برُی معلوم ہوتی ہے۔اگر ہمارا چیلا ہونا منظور ہے تو ہمارا طریقہ اختیار کروحافظ صاحب نے یہ منظور کیا اور عجیب شکل کے آدمی بن کر پانی پت واپس آئے تھے۔ یہاں کے مسلمانوں نے انہیں بہت تنگ کیا۔لیکن وہ موت تک اسی حال میں ر ہےاوروہ حجرہ جو مسجد میں کنوئیں کے پاس ہےاسی میں ہمیشہ فقیروں کے لیے بھنگ تیار رہتی تھی۔مگر حافظ جی نہیں پیتے تھےاور جو کوئی دہلی سے آتا تھا اس کو سجدہ کرتے تھے۔ایک دفعہ میرے والد دہلی سے ان کے پاس گئے تو حافظ جی نے ان کو بھی سجدہ کیا تھا۔میں نہیں جانتا کہ حافظ جی صاحب نے کیا پایا تھا، مگر اتنا جانتا ہوں کہ شرع محمد ی کو چھوڑا تھا۔تب دل میں تسلی آئی تھی۔

 اسی طرح بلے شاہ نام پنجاب میں ایک مشہور درویش گزرا ہے۔وہ بھی محمدی دین کے خلاف بولتا تھا۔اس کے پاس ایک شخص گیا کہ خدا کی راہ دریافت کرےکیونکہ وہ مشہور ولی تھااور یہ جو گیا نو مسلم تھا۔اورنگ زیب کے عہد میں ہندو سے مسلمان ہوا تھا۔جا کر کہاکہ یا حضرت مجھے خدا کی راہ بتائیں۔بلے شاہ نے کہا تھا کہ اگر خدا سے ملنا تھا تو مسلمان کیوں ہوا تھا۔ اب اگر مسلمانی کے خیالات  کو چھوڑے تو خدا  کو پا سکتا ہےاور جو باتیں بلے شاہ اسلام کی نسبت اس شخص سے کہیں تو میں اپنی اس کتاب میں بیان نہیں کرسکتا۔تہذیب کے سبب سے ہاں وہ سب باتیں ایک کتاب میں قلمبند ہیں۔جو دیوان بوٹا  سنگھ صاحب کے پاس لاہور میں دیکھی تھی ۔

 حاصل کلام یہ ہے کہ  اس قسم کے لوگ سب کے سب قلندریہ مشرب کے ہیں اور  انہی لوگوں کی کرامتیں ہندوستان میں زیادہ تر مشہور ہیں اور مسلمان لوگ بے فکری سے ان کو اپنی قوم کے  اولیا اقرار دیتے ہیں۔بالفرض ان سے اگر کوئی کرامتیں ہوئی بھی ہوں تو قلندروں کی کرامتوں سے مشرب قلندریہ کا حق ہونا ثابت ہو گااور بہنگڑوں کی کرامتوں سے بھنگ نوشی کے شان  ظاہر ہو گی نہ اسلام کی۔پس اب معلوم ہو گیا کہ مجذبوں اور قلندروں  کو اسلام سے کچھ علاقہ نہیں ہے صوفی لوگ مہربانی کرکے ان لوگوں کی بزرگی اور  کرامتوں کا ذکر ہم مسیحیوں کے سامنے نہ کیا کریں کیونکہ ان کی بزرگی سےاسلام کی خوبی ثابت نہیں ہوسکتی ہاں وہ جو اپنے آپ کو محمدی کہتے ہیں اور سالکین کہلاتے ہیں۔اگر بوسیلہ اسلام اور بوسیلہ تصوف ان میں کچھ اسلام کی خوبی ہو توہمیں دکھلائیں۔