۳ ۔فصل صوفی کی وجہ تسمیہ کے بیان میں

کتابوں میں اس فرقہ کی تین وجہ تسمیہ مذکور ہیں۔اول یہ کہ صوف کے معنی ہیں پشم یا اون پس وجہ پشمینہ پوشی کے یہ صوفی کہلاتے ہیں۔میرے گمان میں یہ کچھ بات نہیں ہےاس بات سےتو انگریز بڑے صوفی ہیں وہ سب ہمیشہ اونی کپڑے پہنتے ہیں۔بھیڑ بکری اور اونٹ بڑے صوفی ہیں کیونکہ صوف پوش ہیں۔یحییٰ اور الیاس پیغمبروں نے اونٹ  کے بالوں کی پوشاک استعمال کی ہےکیا وہ صوفی تھے ؟ ہرگز نہیں ۔البتہ اکثر درویشوں کا دستور رہا ہے کہ ایک کمبل یا لبادہ اون کار کھتے تھے کہ کفایت شعاری اور جسمی آرام اور بزرگانہ شکل قائم رکھنے کے لیے۔اگلے زمانے کے فقیر اکثر کمبل پوش تھے۔اوراب بھی بعض ایسے ہیں کہ کمبل پوشی کو دروشی کی سنت سمجھتے ہیں۔

انوار العارفین ۱ صفحہ ۸۲ میں لکھا ہےکہ حضرت محمد صاحب نے فرمایا کہ  (علیکم بلبس الصوف) یعنی اون پوشی کو اپنے اوپر لازم سمجھو اور ایک اور حدیث میں ہے کہ کان النبی یلبس الصوف ویر کب الحمار ۔نبی صاحبہ پشمینہ پوش رہتے۔اور گدھے کی سواری کیا کرتے تھےاور یہ بھی حدیثوں میں ہے کہ ایک سیاہ کمبل محمد صاحب نے علی کو دیا تھا۔صوفی کہتے ہیں کہ وہ فقیری کانشان تھا۔اور وہ کمبل پیروں میں دست بدست نصیر الدین محمود تک چلا آیا تھا۔آخر کو محمود اسےاپنی قبر میں لے گیا۔اس لیے اس فرقہ میں کمبل پوشی ایک مثل ایک سنت کے ہوگئی امام اعظم صاحب اور داؤد طائی اور ابراہیم ادہم اور حسن بصری اور سلیمان فارسی وغیرہ نے اور اول زمانے کے اکثر بزرگوں نے کمبل پوشی اختیار کی تھی پس ایک وجہ تسمیہ ان کی کمبل پوشی ہے۔اس وجہ سے صرف کمبل پوشوں کو صوفی کہنا چاہیے۔ ان پیر زادں کو جو غالیچوں پر بیٹھتے اور کم خواب پہنتے اور پیچوان پیتے ہیں۔وہ ناحق صوفی کہلاتے ہیں۔جب کہ کمبل پوش نہیں ہیں ۔دوسری وجہ تسمیہ صوفی کی یہ بیان ہوئی ہے کہ صوفی آنراگویند گا وارد دل خودرا وصاف دار خاطر خود ارا از خیال غیر حق ۔اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ وہ غیار حق کا خیال بھی دل اور خاطر میں نہ آنے دیں۔یعنی ہمہ دست کے خیال سے مستغرق رہےوہ صوفی ہے۔یا صوفی وہ ہےجس نےا پنے دل کو خدا کے لیے صاف کیا ہےاورصاف کرنے کے معنی ان کی اصطلاح کے مطابق یہی ہیں۔کہ کسی غیر شے کے وجود قائل نہ ر ہےاسے سب کچھ خدا نظر آئے یعنی ہمہ اوست کے درجے کو خوب پہنچا ہو۔میں سمجھتا ہوں ایسے آدمی نے اپنے دل کو زیادہ تر کدورت اگین کیا ہے کہ خالق کی عزت مخلوقات کو دی ہے۔اور خدا کو اپنے خیال میں سے نکالا ہے۔اور غیر چیزوں کو اس کی جگہ میں بٹھایا ہے۔ایسے شخص کو صاف دل کہنا غلط ہے۔اگر اس وجہ سے یہ لوگ صوفی کہلاتے ہیں تویہ وجہ خلاف واقع کے ہے۔تیسری وجہ تسمیہ صوفی کی اور ہےاور وہ میرے گمان میں زیادہ تر صحیح ہے۔چاہیے کہ سب مسیحی لوگ ان صوفیوں کو اس تیسری وجہ کے سبب سے صوفی کہیں اور وہ یہ ہے ہے کہ مکہ شہر میں ظہورِاسلام سے پہلے جب کعبہ بتوں سے بھرا ہوا تھا۔تو اس کے منتظم اور پوجاری یا خدمت گزار قوم صوفہ کے لوگ تھےاور اس وقت ان کی عزت عرب میں تھی۔وہ پیروں کے موافق تھی اور صوفہ کہلاتے تھے کہ جب اسلام ظاہرہوا تو محمدیوں میں سے بعض شخص بعض امورمیں ان بت پرستوں سے اتفاق کے سبب ان کی طرف منسوب ہو کر صوفی کہلائے شروع میں اسی سبب سے انہوں نے یہ نام پایاپھر کمبل پوشی اور صفائی وغیرہ کےچرچے ہوئے۔اور وہ اصلی پہلی مکروہ بات پو شیدہ ہوگئی۔دیکھو غیاث اللغات لفظ صوفی کے ذیل میں کیا لکھا ہے۔ (ورشرحی معتبر از شروح نوشتہ کہ صوفی منسوب کہ بصوفہ است کہ قومےبوداز اہل تجردد رایام جاہلیت کہ خدمت کعبہ میکردند د خدمت خلق برائے حق مے نموندد پس اہل تصوف منسوب بایشان شدند )۔

  پھر قاموس اور منتہی الارب افیک ہی عبارت یوں لکھی ہے ۔(وصوفہ ایضاً ابوحی من مضرو ہوالغوث بن مربن اوبن طائحتہ کا نوایحذ مون الکعبتہ ویحبیڑون الحاج فی الجاہلتہ اے  یفیفون بہم من عرفات  وکان احد ہم یقوم فیقول اجیڑی صوفہ فاذ اجازت  قال اجیڑی خندف فاذا اجازت اذن اللناس کلہم فی الا حاذۃ اوہم قوم من افنا  القبایل تجعموا فتشکبوااکتشبک الصوفۃ)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مضر کے گھرانے میں سے ایک قبیلہ کے باپ کا نام صوفہ ہے۔ اس کا دوسرا نام غوث تھااور وہ مربن اوبن طایخہ کا بیٹا تھا یہ لوگ کعبہ کی خدمت کرتےتھے۔اور ایامِ جاہلیت میں حاجیوں کو چلاتے ہیں ۔یعنی مقام  عرفات سے طوائف  کے لیےانہیں روانہ کرتے تھے۔کوئی آدمی ان کاکھڑا ہو کرکہتا  تھاکہ چل اے قوم صوفہ جب وہ چلتےتب وہ کہتا چل مٹک چال جب وہ مٹک چال چلتے تو تب تمام لوگوں چلنے کی اجازت ہوتی  تھی۔

اور صوفہ ایک گروہ کا نام بھی تھا۔جو سب قبائل میں سے معلوم النسب لوگ تھےوہ جمع ہوتے تھےاورآپس میں ایسا میل ملاپ کرتےتھے کہ جیسے قوم صوفہ مذکرہ بالا کا باہمی  میل ملاپ تھا۔پس یہ لوگ آپ کو صوفہ  کی مانند بنانے کی وجہ سے صوفہ کہلاتے تھے۔

اجیزی خندف کے معنی ہیں کہ چلو خوشی اور تکبر کی چال میں نے اس کا ترجمہ مٹک چال کیاہے۔چنانچہ اب تک وہاں تین طواف رمل ہوتی ہیں۔یعنی بانکوں کی مانند مگر محمدی لوگ یہ مٹک چال فتح مکہ کا نشان بتلاتے ہیں۔اور قدیم عرب اور مطالب سے کرتے تھے۔ خندف بمعنی مٹک چال ان کی ایک پڑدادی کانام تھا۔جو الیاس بن مضر کی زوجہ تھی اور طائحنہ کی والدہ تھی۔وہ ایک دفعہ مٹک چال جنگل میں چلی تھی۔جب خرگوش سے اووک کے اونٹ بھاگے تھے۔اس وقت سے اس کے شوہر نے ان کا نام خندف رکھ دیا تھااورطائحنہ پڑدادا ہےصوفہ غوث کا اور صوفہ غوث سے یہ تمام قوم نکلی تھی اور اپنی جدا اعلیٰ کے نام پر سب صوفہ کہلاتے تھے۔پس اس مٹک چال میں وہ اپنی دادی کی سنت پر کوئی اشارہ کہتےتھےاور یہی قوم تمام عرب کے لیے کعبہ پرستی میں پیشوا اور پوجاری تھی۔دیگر قبائل میں سے بھی وہ معلوم النسب لوگ جو قوم صوفہ کی مانند عادات بناتے تھےصوفہ کہلائے۔حاصل کلام یہ ہے کہ صوفہ غوث ایک بت پرست آدمی تھا۔اسلام سے بہت دنوں پہلےاس کی تمام اولاد کئی پشت تک صوفہ کہلائی اور دوسرے گھرانوں کے لوگ بھی جو معلوم النسب تھےصوفہ کہلائےاس لیے کہ صوفہ غوث کی اولاد کے نقشِ قدم پر میل ملاپ اور کعبہ کے بتوں کی پرستش کرتےاور سال بسال کعبہ میں جمع ہوا کرتے تھے۔

اس بیان سے جو بالکل صحیح ہےظاہر ہے کہ لفظ صوفی کی اصل وہی صوفہ غوث بت پرست آدمی ہےاس سے اولاً اسکے  اولاد صوفہ کہلائی اور ان کے اقتدار کے سبب غیر لوگ بھی صوفہ کہلائے اور اس میں کیا شبہ ہے کہ اس جہالت کے زمانے میں درمیاں اُن بت پرستوں کے صوفی لوگ ممتاز تھےوہ خدا پرست سمجھے گئے۔ اس لیے بعض دیگرقبائل کے لوگ ان کی اقتدار کرکے صوفہ ہو جاتے تھے۔وہ سمجھتے تھے کہ ان کے اطوار  خدا پرستی میں درست ہیں۔جب اسلام کا زمانہ آیااورتمام ملک عرب بزور شمشیر مسلمان کیا گیااور انہیں محمدی شریعت دی گئی۔ان سے پرانی بت پرستی کے دستور چھڑائے گئے۔تو انہیں نومسلم لوگوں میں سے اکثروں کے دلوں میں قوم صوفہ کا خمیر موجود تھا۔چنانچہ اکثر ذی علم صوفی اب تک قائل ہیں کہ ہمارا تصوف اسلام سے پہلے تھااور اسلام میں یہ طاقت نہ تھی کہ وہ خمیر اس کے ذہنوں میں سے نکالتااب وہ نومرید صوفہ لوگ کیا کر سکتے تھے۔اگر اسلام کو چھوڑیں تو مارے جائیں صوفہ کو چھوڑیں تو بگمان ذیش حقیقی خدا پرستی سے الگ ہوتے ہیں۔

 قیاس چاہتاہے کہ  اس و قت ایسے لوگوں میں بہت کانا پوسی ہوئی ہوگی اور ان ہی کی کانا پوسی کا وہ نتیجہ معلوم ہوتا ہےجو کہ آج تک صوفیہ میں مشہور ہے کہ ایک علم سینہ ہے تو دوسرا سفینہ ہے۔ایک ظاہری انتظامی شریعت ہے جو محمد صاحب قرآن وحد یث میں لائے ہیں اس کے پیرو اصحاب ظا ہر یعنی محمدی لوگ ہیں جو حقیقت سے بے بہرہ ہیں۔ تو دوسری  باطنی شریعت ہےجو صوفیہ  میں سینہ بسینہ چلی آتی ہے۔اور خدا کا وصال اسی سے ہوتا ہے۔محمدی شریعت ملکی انتظام کے لیے ہےخدا پرستی کی راہیں جدا ہیں وہ لائق آدمی کو بڑی آزمائش کے بعدصوفی لوگ بتلاتے ہیں اور  یہ لوگ اصحاب باطن ہیں۔اور کچھ عرصے کے بعداس کے ساتھ یہ بھی اڑایا کہ یہ علم سینہ محمد صاحب سے ہی پہنچا ہے تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ صوفہ غوث کی بات ہے۔اور محتسب کے کوڑے اور قاضی کے فتوے میں کچھ تخفیف ہو۔اور اصحاب ظاہر میں سے جو کچھ مادہ کے شخص ہوں صوفیہ میں شامل ہونا گمراہی نہ سمجھیں بلکہ جانیں کہ محمدصاحب کی اصل ہدایت صوفیہ کے پاس ہےمحمد صاحب علی کے کان میں ڈالی گئی تھی۔حضرت علی نے امام حسن وامام حسین اور کمیل بن زیاداور حسن بصری کو ہدایت خفیہ کی تھی کہ یہی چارا شخاص  پیر طریقیت ہیں اور ان ہی سے یہ نعمت سینہ بسنیہ پیروں میں چلی آئی ہے۔

 پس تمام ملک میں جس قدر  صوفی پیدا ہوئے۔صدہا شجرے اپنے مرشدوں سے لےکہ انہیں چار میں سے کسی پیر تک پہنچتے ہیں ۔لیکن نقشبندیہ کہتے ہیں کہ ہمارا بڑا پیر ابو بکر صدیق ہےاُن کو محمد صاحب سے علم باطن پہنچا تھا۔اور اس کےسلسلے سے ہمیں پہنچا ہے۔

 قیاس اور قول بالا سے ظاہر ہے کہ ان کا اصل مرشد وہی صوفہ غوث ہےکیونکہ قوم صوفہ کی اصل باتیں ان میں اب تک ویسے پائی جاتیں ہیں عقائد اور خیالات اور اطوارِ ریاضت وہی ہیں جو ان بت پرستوں کے تھے۔چنانچہ اس کتاب میں ان کے اطوار کا مفصل بیان ہوتا ہے۔اس وقت ناظرین کو اتنا معلوم ہو جائے کہ قاموس کی عبارت میں جو صوفہ کے کاموں کا ذکر ہے۔وہی کام بعینہ یہ صوفی کرتے ہیں۔

 وہ سال بسال کعبے کے میلے  میں جمع ہوتے تھے۔یہ سال بسال قبروں پر عرس کے لیے  جمع ہوتے ہیں۔وہ من افناء القبائل تھے ۔ صحیح ترجمہ اس عبارت کا یہی ہے کہ سب قبیلوں میں سے معلوم النسب لوگ تھےیہ سب صوفی بھی ہر گروہ میں سےمعلوم النسبت ہوتےہیں اور شجروں سے پہچانے جاتے ہیں کہ کون کس گھرانے کا مرید ہے۔اگر کوئی اجنبی صوفی آجاتا ہے تو پوچھتے ہیں آپ کس سلسلے کہ ہیں وہ کہتا ہے کہ قادریہ یا ٍچشتیہ وغیرہ ہوں۔وہ آپس میں میل ملاپ کرتے تھے یہاں بھی وہی حال ہےہزار اہلِ تماشہ عرس میں آ  ئیں۔اصل گمت صوفیوں ہی  کی ہوتی ہے۔وہ بت پوجتے تھےیہ قبروں کے قدم چومتے ہیں۔وہ کعبہ کا طواف کرتے تھے۔یہ قبروں کا  طواف کر تے ہیں۔وہ آبِ زم زم پیتے تھے یہ چرنامت چکھتے ہیں۔یعنی وہ پانی جو قبروں کے غسل اوس دوبالشت کے حوض میں جمع رہتا ہے۔جو پیر کی قبرسے پیروں کی قبروں کی طرف چونے سے بنی رہتی وہ کعبہ کے غلاف چومتے تھے یہ قبروں کے غلاف آنکھوں سے لگاتے وہ بتوں سے مدد مانگتے تھے یہ مردوں سے مانگتے ہیں۔ان کا ایک آدمی پیشوائی کرتا تھا۔ان کابھی ایک سجادہ نشین پیشوا ہوتا ہے۔اور یہ خیال جواب تک ان میں ہے۔کہ تمام ولیوں میں غوث بڑا شخص ہوتا ہے۔اس کی اصل بھی وہی صوفہ غوث ہے۔جو اُن میں جدا علی تھااور کیا  تعجب ہے کہ اس کانام یا غوث بت سے کچھ علاقہ رکھتا ہو۔جو ان بت پرستوں میں نہایت بڑا دیوتا سمجھا گیا  تھا۔اب فرمائے کہ صحیح وجہ تسمیہ کیا ہے۔