۵ ۔فصل ولی اور ولایت کے بیان میں

 لفظ ولی مصدر ولا سے مشتق ہے۔اس کے معنی ہیں کہ محبت رکھنے والااور اس کی جمع اولیا ہے۔ولایت اسی لفظ ولاسےدوسرا مصدر ہے جس کے معنی  دوستی اور تقربِ بندہ بخدا کےہیں۔

 ہر قوم اورہر فرقے میں بعض ایسے اشخاص بھی ملتے ہیں۔جو کچھ کچھ محبت اللہ تعالیٰ سے رکھتے ہیں۔خواہ دانشمندی یا نادانی کے ساتھ لیکن وہ سب ولی اللہ نہیں سمجھے جاتے۔

 ولی اللہ میں کچھ اور بھی مطلوب ہے جس سے وہ سچا ولی اللہ سمجھا جائے۔پس کسی نے کہا کہ ولی وہی ہے جو خدا سے محبت رکھتا ہے۔یعنی دونوں میں دوستی ہو۔

 اس مضمون پر کسی نے کہا کہ یہ بھی ولی کی پوری تعریف نہیں ہے۔کیونکہ خدا کی محبت پیدائش اور رزق رسانی اور حفاظت اور دنیاوی برکت میں کافروں اور مومنین کی نسبت برابر  ظاہر ہےاور دونوں کے لوگوں میں سے بعض ہیں جو خود بھی محبت کا دم بھرتے ہیں۔پس جن میں محبت توہے کیا وہ سب ولی ہیں ؟ ہرگز نہیں۔

 مولوی عبدالغفور نفحات کے حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ ولایت کی دو قسمیں ہیں۔عامہ اور خاصہ ولایت عامہ سب مومنین اہلِ اسلام کو حاصل ہے۔خدا کی مہربانی سے خدا کے قریب ہیں ۔جس نے انہیں کفر کی تاریکی سے نکالا اور ایمان کے نور میں شامل کیا۔

 ولایت خاصہ مقربان درگاہ کے لیے مخصوص ہے۔جس کے معنی ہیں بندہ کا خدا میں فنا ہو نا۔بہ نسبت غیر چیزوں کے اور خدا میں بقا  ہونا بہ نسبت حق کے۔

 میں سمجھتا ہوں کہ یہ بیان بھی مولوی عبدالغفور کا درست نہیں ہے۔اولاً ولایت کی تعریف صحیح کرنا چاہیے پھر تقسیم جب کہ ہم ان کے بیان سے ولایت ہی کو نہیں سمجھے کہ وہ کیا چیز ہےتو ہم اس کی قسمیں کیونکر مان سکتے ہیں؟

 اور یہ جو ولایت عامہ میں محمدی مومنین کی نسبت خدا کی مہربانی کا ذکر کیا گیا ہے۔کہ اس نے انہیں کفرسے نکالااور نور ایمان میں شامل کیا۔یہ مقام بحث طلب ہےپہلے یہ فیصلہ  ہوناچاہیے کہ کفر کیا ہے اور محمدی ایمان کیا ہےاور اس میں کیا روشنی ہےجس کو وہ نور کہتےہیں اور یہ کہ  خدانے ان کواس نور میں شامل کیا ہےیا تلوار نے یایہ کہ مجبوری سے مسلمان شدہ لوگوں کے گھروں پیدا ہو کر اسلام کے نور میں شامل ہوئےاور اس شمسول کو الٰہی فعل قرار دیتے ہیں  جب تک یہ سب باتیں صاف نہ ہو جائیں ہم کیو نکر قائل ہو سکتے ہیں۔کہ خدا کی خاص مہربانی ان پر ہوئی ہے۔اور کہ یہ قربت کی ایک صورت ہے۔پس یہ ولایت عامہ توجہ کے لائق شے نہیں ہے اوراس سے دینِ  محمدی کا  کچھ جلال ظاہر نہیں ہوسکتا۔

 اور ولایت خاصہ کی جو یہ تعریف کی ہےکہ نسبت غیر چیزوں کے فنا ہونا اور بہ نسبت حق کے خدا میں بقا حاصل کرنا البتہ یہ بات فکر کی ہے کہ یہ کیا ہے؟

یہ بات بہ تبدیل عبارت نفحات میں یوں مرقوم ہے کہ ولی وہ ہے۔ جو اپنے حال کی نسبت فناہو جائےاور مشاہدہ  حق کی نسبت باقی رہےاورتمام کتب تصوف میں ایسی ہی تعریفیں ولی  کی لکھی ہیں۔جس کا حاصل یہ ہے کہ از خود فنا بخدا رسیدہ شخص ولی ہے۔لیکن فی الحقیقت ایسا شخص ولی نہیں ہو سکتا۔یعنی وہ جو اپنے حال کی نسبت فنا ہو جائےوہ تو پاگل یا دیوانہ یا مخبط الحواس ہے ۔ پھر مشاہدہ حق کی نسبت باقی رہنا اس کا ثبوت اس شخص کی نسبت کیونکر ہو سکتا ہےکیونکہ ازخود رفتگی جواُس میں  ہےوہ حواس میں تاریکی کانشان ہےاور جب اس میں تاریکی اور خلل ہے تو روح میں خدا سے دوری ثابت  ہوگی۔نہ کہ قربت کیونکہ خدا نور ہےاس کی قربت آدمی کو منور اور روشن کرتی ہے ناکہ پاگل۔

 پھر صوفیہ  کہتے ہیں کہ ولایت اور نبوت دو حالتیں ہیں باطنی حالت کانام ولایت ہےاور ظاہری  حالت ہدایت خلق کانام نبوت ہے۔اس لیے ہر نبی ضرور ولی بھی ہےلیکن ہر ولی نبی نہیں ہے۔بعض ولیوں کو نبوت کا عہدہ بھی بخشا گیا ہے۔وہ ولی نبی کہلاتے ہیں اور بہت ولی ہیں جو نبی نہیں ہیں مگر اندورنی کیفیت ان سب نبیوں اورولیوں کی یکساں ہیں۔

 میں اس بات کو مانتاہوں کہ درحقیقت ولایت ایک باطنی کیفیت ہے مگر کلام اس میں ہے کہ وہ کس قسم کی کیفیت ہے اوروہ کون سے نشان ہیں جن سے اس کیفیت کو پہچان کر کسی کو ولی قرار دے سکتے ہیں۔اس کا فیصلہ اب تک صوفیوں سے نہیں ہوااور نہ ہو سکتا ہے۔تو بھی انہوں نے بعض آدمیوں کو ناحق  ولی سمجھ لیا ہےاور ہمیشہ چند احمق آدمی مل کر کسی نہ  کسی آدمی  کوولی مشہور کردیتے ہیں۔میں  نےجہاں تک ان کی کتابوں میں فکر کیا ہے۔مجھے یہی معلوم ہوا کہ یہ صوفی نہ حقیقی نبی کو پہچانتے ہیں اور نہ ہی حقیقی ولی سے واقف ہیں۔جس قسم کے لوگ ان میں ظاہر ہوئے ہیں ان ہی کی کیفیت پر غور کرکے انہوں نے نبوت اور ولایت کا بیان کیاہے۔ ان کے پاس خدا کا کلام نہیں ہے۔ کہ انہیں روشنی بخشےاور راہ راست دکھلادے ان کے پاس صرف آدمیوں کے اقوال ہیں اور وہ بھی ناقص اقوال اور قرآن ہے جو انسان کا کلام ہےاور حدیثیں ہیں جو کہ ناکارہ باتیں ہیں نہ ان کے درمیان  کوئی نبی ِبرحق ظاہر ہوااور کوئی سچا دل پیدا ہوا ۔اس لیے وہ غلطی میں پھنسے ہوئے ہیں۔

 معلوم ہو جائے کہ سچاولی اللہ وہ شخص ہے جو صحیح توبہ اور برحق ایمان کےبعد محبت الٰہی میں ترقی کرتا اور خدا کی مرضی خدا کے کلام سے دریافت کرکے عمل میں لاتا ہےاور خدا کے حکموں کو چمٹا رہتا ہے وہ گناہ کی نسبت فنا اور راستبازی کی نسبت بقا کا رتبہ حاصل کرتا ہے۔ایسا ہی شخص خدا کا مقرب ہوتا ہے اور نشان قربت جو اولاً خود اس پر ظاہر ہوتے ہیں۔یہ ہیں کہ اس کی روح میں ایک نئی زندگی اور روشنی اور تازگی اللہ کی طرف سے آجاتی ہے اور اس کو حقیقی اطمینان حاصل ہوتا ہےثانیا  جو نشانِ قربت غیروں پرظاہر ہوتے ہیں یہ ہیں کہ اس شخص کے افعال اور اقوال اور سب حرکات و سکنات اسی نئی زندگی اور روشنی اور تازگی و اطمینان کے مناسب ظاہر ہوتے ہیں یہ ہیں اس سے لوگ پہچانتے ہیں کہ یہ مردِ خدا ہے۔

 اور یہ بھی کچھ ضروری نہیں کہ اس سے کرامتیں ظاہر ہوں۔البتہ ہو سکتا ہے کہ کبھی کوئی کرامت کا کام بھی اگر  خدا چاہے تو اس سے ظاہر ہو جائےاور یہ بھی کچھ ضرور نہیں  کہ لوگ اس کے پیچھے دوڑیں یا اس کی قبر پرستی کریں یااس کے قدم پکڑے اگر وہ ایسے کام لوگوں کو کرنےدے تو وہ خدا کا آدمی نہیں ہے۔

 ہاں اسکے بعض نیک نمونے اگرچا ہیں تو لوگ اختیار کرسکتے ہیں اور سوچ سکتے ہیں کہ اس نے خدا کی اطاعت اور خدمت کیونکر کی ہم ایسے ہی کریں۔اس نے خدا کی طرف دل لگایا ہم بھی خدا کی طرف دل و جان سے متوجہ ہوں۔خدا نے اس پر فضل کیاہم پر بھی فضل کرے گا۔

 مسیحی ولیوں کی کیفیت  اور محمدی ولیوں کی کیفیت زمین آسمان کا فرق ہے۔اگر کوئی محمدی باانصاف اس معاملے پر غور کریں تو اسے معلوم ہو جائے گا۔سچےولی اللہ صرف مسیحیوں میں گزرے ہیں اوراب زندہ موجودہیں۔