۳۱ ۔فصل صوفیہ کے بعض خاص دعوؤں کے بیان میں

اگر کوئی آدمی کہے کہ میں ایسی قدرت رکھتا ہوں۔کہ اڑ کر ستاروں میں پہنچوں اور آ جاؤں تو ہم اس کو کیا کہیں گے۔صرف یہ کہ حضرت اڑ کر دکھلاؤ۔

 صوفیہ کےپاس پانچ دعوے اسی قسم کے  ہیں۔جن سے وہ احمقوں کو دھوکا دیتا ہیں۔اور جب کبھی ان دعوؤں کا ذکر آتا ہے۔تو کہتے ہیں کہ ہم  میں جو کاملین ہیں وہ ایسے کام کر سکتے ہیں۔لیکن کسی کامل کا نام اور پتہ نشان نہیں دیتے۔کہ وہ کون ہےاور کہاں ہے؟پس اب کیا کیا جائے گا؟کچھ نہیں  دعوؤں کی طرف دیکھناہوگا کہ کیا دعوے ہیں۔اور جب ہم ان کے دعوؤں کو دیکھیں گے۔تو صاف عقل سے معلوم ہو جائے گا۔کہ بعض باتیں ممکن ہیں لیکن ولایت اور قربت الٰہی کا نشان  نہیں ہیں۔اور بعض باتیں ہیں جو بالکل باطل نہیں ہیں۔ان کا ماننا بے وقوفی ہے۔

  •  وہ کہتے ہیں ہم سلب امراض کرتے ہیں۔اور طریقہ یوں بتلاتے ہیں۔کہ بیمار کو سامنے بیٹھا دیں۔اور اپنے سانس کولمبا اندر کی طرف کھینچیں اورخیال کریں کہ  ہم نے بیمار کی بیماری کو اپنے اندر کھینچ لیا ہے۔پھر باہر کا سانس لیں اور خیال کریں کہ ہم نے اس کو باہر زمین پر پھینک دیا ہے۔اسی طرح دیر تک کرتے رہیں۔وہ بیمار اچھا ہو کر چلا جائے گا۔اس بارے میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں  کہ وہ کونسا پیر آپ لوگوں میں ہے۔جوا یسا کرتا ہے۔اور یہ بھی کہتے ہیں کہ مسمریزم والے بھی ایسےعمل کے مدعی ہیں۔وہ تو بڑے ولی اللہ ہوں گےکیا یہ ولی اللہ کا نشان ہےیاترکیب ہے؟
  •  وہ  کہتے ہیں کہ ہم دلوں کا حال جان سکتے ہیں طریقہ یوں بتلاتے ہیں صوفی کو اپنی کیفیت سے خالی  ہوکر خدا کی علمی صفت میں مستغرق ہونا چاہیےاور باعاجزی کہنا کہ یا علیم یا خبیر اس شخص کا حال مجھے بتلادے پس جوکچھ اس وقت دل میں آئے وہی حال اس شخص کا ہے۔خدا سےکہنا کہ تو بتلادے کہ یہ تو مناسب  کام ہے۔لیکن خدا ان کوبتلا دیتا ہے۔اس کا ثبوت کیونکر ہو؟اس کا ثبوت اس طرح ہو سکتا ہےکہ کوئی صوفی اٹھےاور خدا سے ہمارے دل کی بات پوچھ کر ہمیں سنائے۔اس وقت ہم کہیں گے کہ غلط ہے یا صحیح۔
  •  وہ کہتے ہیں کہ ہمیں مکاشفے اور الہام ہوتے ہیں۔آج کل مرزاغلام  احمد صاحب کو الہام ہو ر ہے ہیں۔اور صوفی صاحبان کہتے  ہیں کہ ہاں صاحب ہوتا ہو گا۔فلاں فلاں پیروں کوفلاں فلاں وقت ہوا تھا۔یا نہیں۔دہرنیچریوں کوان کے خلاف الہام  ہو رہا ہے۔آسودہ حال اور پیٹ بھرے آدمیوں کو ایسی باتیں بہت سوجھتی ہیں۔اس بارے میں اتنا کہنا کافی ہے۔کہ گزشتہ زمانے میں جو پیغمبروں کو الہام ہوئے ہیں۔ ان کی ایک  خاص صورت ہےاور خاص وجہ یہ تھی کہ خدا کو اپنی مرضی بندگان پر ظاہر پر کرنا منظور تھا۔سو اس نے کیا۔اور صورت یہ تھی کہ ایسے دلائل قدرتیہ کے ساتھ وہ الہات پیش ہوئے کہ عقل کی مجبوری سےان کا ماننا لازم ہے ان صوفیہ کے الہا مات اور مکاشفات کی وجوہات اور صورتیں اس لائق نہیں ہیں۔کہ ان کا خدا کی طرف سے ہوناثابت ہو وہ تو ہمات اور ذہنی خیالات  ہیں۔اور میں کیا کہو ؟مگر یہ کہ اگر وہ الہامات خدا کی طرف سے ہیں تو ان میں جمع کرکے قرآن کے ساتھ مجلد کرو کہ مسلمان لوگ نماز میں پڑھا کریں۔
  •  وہ کہتے ہیں کہ ہم صرف توجہ سے آدمی کو نیک اطوار بنا دیتے ہیں۔

اس کا طریقہ یوں لکھا ہے کہ بھلا آدمی بنانا منظور ہےاسے سامنے لا کر بٹھاؤاوراگر وہ حاضر نہ ہو تواس کا تصور کرو اور بوسیلہ خیال کے اس کے دل میں توبہ ڈالواور شوق پھینکو پس وہ توبہ کرکے نیک ہو جائے گا۔

میں کہتا ہوں کہ حضرت محمد صاحب سے تو ہرگز نہ ہوا۔بہت چاہا کہ ابو جہل چچا مسلمان ہو جائےپر وہ ایمان نہ لایا اور تمام سچے پیغمبروں سے بھی یہ نہ ہوااورتمام گزشتہ صوفی بزرگوں سے بھی ایسا نہ ہوا۔بعض رشتے داروں کے لیے سر پٹ کر رہ گئےخیر اب اگر کوئی کامل صوفی دنیا میں ہے تووہ اٹھے اور ہم مسیحیوں اور ہندووں کی زندگی میں اپنے اسلام یا تصوف کو پھینکے۔لوگوں کے حق میں  دعائے خیر سے توکبھی کبھی کچھ فائدہ دیکھا گیا ہےلیکن پھینکنا کچھ بات نہیں ہے۔وہی وہم ہے۔

  •  وہ کہتے ہیں کہ صوفی لوگ خلع دُلبس کرسکتے ہیں۔

خلع کے معنی ہیں چھوڑنالبس کے معنی ہیں پہننامراد یہ ہے کہ صوفی لوگ اپنے بدن کو چھوڑ کر کسی غیر کے بدن میں اپنی روح کو لے جا سکتے ہیں۔اس کا طریقہ یوں ہے کہ میں اپنی روح کو پیروں کی انگلیوں سے شروع کرکے کھینچو اور تمام بدن میں سےاکٹھا کرتے ہو ئے دماغ میں لئے جاؤجب ساری روح وہاں اکٹھی ہو جائےتب  منہ یا ناک کی راہ سے نکالواور کسی غیر مردہ بدن جو کہ سامنے پڑا ہو داخل کرو پس تمہارا بدن مر جائے گا۔اور وہ ،مردہ بدن جی اٹھے گااور تم جانوں کہ میں اس میں آگیا ہوں۔یہ پرانےزمانے کی جھوٹی باتوں میں سے ایک بات ہے۔ لیکن صوفیہ کو اس پر یقین ہے۔معلوم نہیں کہ علم الیقین یا حق الیقین یا  عین الیقین ہے؟