۲۴ ۔فصل چلہ کشی کے بیان میں

صوفی لوگ  کبھی کبھی چلہ کشی بھی کرتے ہیں یعنی چالیس دن تک بظاہر دنیا سے الگ ہو کر کسی اپنے خاص طور کے ساتھ کوئی وظیفہ پڑھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس وظیفہ کی زکواۃ دے کر اسے اپنے قابوں میں لائیں گئے۔ 

  اور اس چلہ کشی  کے لیےموسیٰ کا چالیس دن تک پہاڑ پر رہنا اور خداوند مسیح کا دن رات کا روزہ اور جنگل میں رہنا اور محمد صاحب کا غارِ حرا میں  رہنا بطور سند کے پیش کرتے ہیں۔

 میں اس بارے میں یوں کہتا ہوں کہ البتہ کبھی کبھی اکیلا ہو کر خدا سے رفاقت کرنا اور دعا کے وسیلے سے ہم کلام ہونا کلام اللہ کے مطابق بزرگوں کاشیوا ہوا ہے لیکن اس پاک اصل کو پکڑ کر صوفیہ کے طور میں لانا اور قصیدہ غوثیہ یا حزب البحر وغیرہ کی فرضی زکواۃ میں وقت برباد کرنا کلام اللہ کے مناسب نہیں ہے اوراس سے روحانی فائدہ کچھ نہیں ہوتا۔

 جس قدر بزرگ صوفی میری اس تحریر کو پڑھیں گے میں ان سے یوں عرض کرتا ہوں کہ آپ لوگوں نے ضرور کچھ چلے بھی کیے ہوں گے۔ خدا کے سامنے اپنی  اپنی تمیزوں کو جواب دوکہ تم نے چلوں کے وسیلے سے کیا پایا ہے؟صرف یہ کہ مریدوں  نے اورآس پاس کے جاہل لوگوں نے آپ کو بزرگ پیر سمجھا اور آپ کی د نیاوی دکانداری  کی آمدگرم ہو گئی۔بعض خانقاہوں کی طرف دیکھو کہ وہ سجادہ نشین جنہیں تم جانتے ہو کہ زنا کار اور شراب خور  اور رشوت دوست اورپورے دنیا دار ہیں۔جب کہ ان کے دادا صاحب کا عرس نزدیک آتا ہے چلہ کرتے ہیں۔کسی مکان میں الگ ہو بیٹھتے ہیں۔صرف ہم راز وہاں آتے جاتے ہیں۔تسبیح ہاتھ میں اور حقہ میں رہتا ہے۔اور دل میں یہ خیال رہتا ہے کہ اس عرس میں کتنی آمد اور خرچ کیا ہو گا۔پھرعرس کے دن چلہ سے باہر آتے ہیں اور عوام الناس پیر پوجنے کو باہر کھڑے رہتےہیں اور بڑی دھوم مچتی ہے کہ حضرت پیر جی صاحب چلہ میں سے باہر آتے ہیں۔فوراً ان کو ہاتھ لگا کر آنکھوں کو لگانا چاہیےوہ برکتوں سے بھرے ہوئے باہر آتے ہیں۔

 اور بعض وہ صوفی ہیں  ایسے نہیں مگر مثلِ ہندو جوگیوں کے جنگلوں میں سے چلےاور ریاضتیں کرتے ہیں۔کیا تمہارا دلی انصاف کہتا ہے کہ انکے یہ افعال اور خیالات پیغمبروں کے کاموں کے برابر  ہیں؟صرف لفظ چلہ تو وہاں سےلیااور جو کچھ اس میں ہوتا ہےوہ بت پرستوں سے  لیکر اس میں داخل کیا۔ پھر کہتے  کہ جیسے پیغمبروں نے کیا ہم ویسے کرتے ہیں۔کیا تمہارے دلوں میں خدا  کا خوف نہیں ہے۔یہ تو وہی بات ہوئی کہ جسم انسان اور روح شیطان کی۔

 اب میں  تمہیں ایک پاک چلہ کا طریقہ بتلاتا ہوں جیسے سچے بندگان ِ خدا نے  بھی کیا ہے ۔اگر اس کو عمل میں لا ؤ تو دیکھنا کہ کیسی برکت اللہ سے پاؤ گے۔چالیس روز تک ہر روز ایک آدھا گھنٹہ پاک نیت سے خفیتہً خلوت میں جا کر خدا سے جو حاضر وناظر ہے۔اپنی اردوو زبان میں بات کیا کرواور اس سے کہو کہ اے ہمارے خالق مالک ہم گناہگاروں پر رحم کرہمارے گناہوں کو معاف کردے ہمیں اپنی راہ راست دکھا۔سب رکاٹوں کو جو تیرے پاس آنے سے روکتی ہیں۔دفع کر ہمیں  اپنا  خاص بندہ بنا لے وغیرہ ۔جہاں تک چاہوں باتیں کرو ۔لیکن اس چلہ کے ساتھ کچھ پرہیز  بھی درکار ہے۔نہ صرف چالیس دنوں تک بلکہ ساری عمر بھر اور وہ یہ ہے کہ خدا کے ان دس حکموں پر بہت  لحاظ رہے۔جوکتاب خروج کے ۲۰ باب میں مرقوم ہیں اور خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت کی انگلی سےایک لوح پر  لکھ کر موسیٰ کو دئیے تھے۔بلکہ ہرایک تمیز دار انسان کی روح میں وہ خداکی طرف سے جلوہ گر ہیں اور محمدی شریعت کے موافق بھی ہیں وہ یہ ہیں۔

  •   تو میرے سوا کسی اور خدا نہ جاننا۔پس ہمہ اوست کو چھوڑنا ۔
  •   کسی مورت کی پوجا نہ کرنا۔پس قبر پرستی اور  پیر پرستی مطلق چھوڑنا ۔
  •   خدا کا نام بے جا نہ لینا۔پس اللہ اللہ کرکے اور ہو حق بک بک نہ کرنا چاہیے۔
  •   سبت کو ماننا۔ یہودی لوگ ہفتے کے دن کوسبت مانتے تھے۔مسیحی اتوار کو سبت مانتے ہیں۔محمدی لوگ جمعہ کو عزت دیتے ہیں۔لیکن وہ بھی مسیح کی صلیبی موت کا دن ہے۔
  •   والدین کی عزت کرنا۔تعظیم اور خدمت اور اطاعت واجبہ سے ناکہ غیر واجبہ سے۔
  •   خون نہ کرنا۔یہ تو خواہ مخواہ ہی مانوں گے کیونکہ خونی کو سرکار پھانسی دیتی ہےلیکن دل میں بھی کسی کی خون ریزی کا خیال نہ کرنا
  •   زنانہ کرنا۔اس گناہ کے سبب سے بڑی لعنتیں خدا سے آتی ہیں۔اور خانہ خرابیاں ہوتی ہیں۔
  •   چوری نہ کرنا۔خدا کو سب کچھ معلوم ہےاس سے ڈر کر ایسا کام ہرگز نہ کرنا۔
  •   جھوٹی گواہی نہ دینا۔نہ صرف کچہری میں درمیان کسی مقدمہ کے مگر پیروں اور قبروں کی نسبت جھوٹی کرامتیں سنانا بھی جھوٹی گواہی ہے۔
  •   غیر کی چیز کا لالچ کرنا۔اپنے حصے پر قناعت چاہیئے پس اس پرہیز گاری کے ساتھ چلہ کشی مفید ہو گی۔