۱۴ ۔ فصل شریعت طریقت حقیقت کے بیان میں

مشرعت الما ۔ نہر کے گھاٹ کو کہتے ہیں۔پس پانی پر جانے کی راہ کو شرع یا شریعت کہتے ہیں پھر دین کی راہ کا نام شریعت پڑ گیاہےکیونکہ وہ بھی انہا رجنت پر جانے کی راہ ان کےگمان میں ہےمحمدی لوگ اسلام  کی راہ کو شریعت کہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہر پیغمبر ایک شریعت لایا ہے۔لیکن یہ ان کا  خیال غلط ہےخدا کی طرف سے صرف دنیا میں ایک ہی شریعت آئی ہےجو موسیٰ لایا ہےاور سب نبی جو پیدا ہوئےاسی کے خدمت گزار تھے اس مفصل شریعت کا خلاصہ خدا نے ہر انسان کے دل میں ید قدرت سے لکھ رکھا ہےاور وہ یہ ہے کہ سب چیزوں سے زیادہ خدا کو اور اپنی جان کے برابر بنی نوع انسان کو پیار کرناچاہیے۔اب خواہ اس کے موافق ہویا نہ ہو مگر سب کا دل اس بات کو مانتا ہےمگر صوفیہ کی بولی میں ظاہری راہ و رسوم مقررہ اسلام کانام شریعت ہے۔گویادین داری کی صورتِ ظاہری کو وہ شریعت سمجھتے ہیں۔

 طریقت یہ لفظ طریق سے ہےجس کے معنی ہیں عام راستہ ہر کہیں جانے کی راہ کو طریق کہتے ہیں اور یہ لفظ طریق سے بنا ہے۔جس کے معنی ہیں کوٹنااور طریق بمعنی مطروق ہےیعنی کوٹا ہوا۔یعنی راہ جس کو آدمی اپنے پیروں کے چلنے سے کوٹتے ہیں۔صوفی سمجھتے ہیں کہ شریعت عام راہ ہے۔اور طریقت خاص راہ ہےخداسےملنے کا۔اوروہ ان کے تصوف کی چال ہےاس صورت میں محمدی شریعت سے ان کا تصوف افضل ٹھہرا۔بعض محمدی عا لموں نے اس مشکل کے دفع کرنے کو یوں کہا ہے کہ دین کی ظاہری صورت شریعت ہےاوراس کی باطنی جان طریقت ہے۔یہ بھی ان کی غلطی ہے۔وہ دین کی باطنی جان کس کو کہتے ہیں؟آیا اس کیفیت کو جو محمدی اہلِ شرع کی باطنی کیفیت ہے یا اس کیفیت کو جوصوفیہ کے ولیوں کی باطنی کیفیت تھی یہ  تودو کیفیتیں جدا جدا صاف عقل سےنظر آتی ہیں۔  اور طریقت کا لفظ صوفیہ کا ہے۔جو انہوں نے اپنے سلوک کی چال کی نسبت استعمال کیا ہے۔اور شریعتِ محمدی سے افضل اور خدا سے ملنے  کی خاص راہ سے اس کو بتلایا ہے۔ اس لیے وہ شریعتِ محمدی کی خاص باطنی جان نہیں ہے۔بلکہ وہ جدی بات ہے۔جو صوفیہ لائے ہیں۔

 حقیقت یہ لفظ حق سے  ہےیعنی سچائی ۔کشف اللغات میں لکھا ہے کہ حقیقت نزد صوفیہ ظہور ذات حق است بے حجاب تعینات و محو کثرات موہومہ در نور ذات۔پس یہ ہمہ اوست کا مقام ہے۔جو کفر کی بات ہے۔اگر  کفر کی بات حقیقت ہے تو کافر حق پر ہیں۔افسوس کہ یہ تینوں لفظ شریعت ،طریقت اور حقیقت کیسے ذلیل اورمکروہ کردئیےاپنے داہی تباہی معنی سے۔کیونکہ اگر شریعت  صرف ظاہری راہ و رسوم کا نام ہے تو یہ ایسی  چیز ہوئی  کہ جیسے مردہ لاش ہوتی ہے۔جس میں جان نہیں ہوتی۔اور طریقت نام اس تصوفی راہ  کا جو  کہ علوم اسلام سے خارج ہے۔اور حقیقت نام ہے ہمہ اوست  کے خیال کا جو باطل خیال ہےاور طریقت سے حاصل ہوتا ہے۔اب صوفیہ کے پاس کیا خوبی رہ گئی؟شریعتِ محمدی کو مردہ سمجھ کر پھینک دو اورطریقت کو اس لیے پھینک دو کہ اس سے حقیقت یعنی حماقت حاصل ہوتی ہے۔پھر صوفی تو بالکل خالی رہ گئے۔ایک صوفی بزرگ نےکہا ہے کہ شریعت نفس انسانی سے علاقہ رکھتی ہےاور بہشت میں پہنچاتی ہے۔طریقت دل سے علاقہ رکھتی ہے اور  وہ خدا سے ملاتی ہے۔حقیقت روح سے علاقہ رکھتی اور روح کو مقام ہمہ اوست میں پہنچاتی ہے۔یعنی  خدا سے مل کر خدا ہو جاتے ہیں۔اس بیان پر  بھی وہی آیت آتی ہے جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہےمجمع السلوک میں لکھا ہے کہ

شریعت در نمازو روزہ بودن   طریقت در جہاد اندر فزودن
حقیقت روی درولدار کردن   نظر اندر جمال یار کردن

یہ بیان بظاہر عبارت تو بہت خوب ہے لیکن حاصل اس کا بھی وہی ہے۔جوصوفیہ کے اصول سے پیدا ہوتا ہے۔کہ ہمہ اوست میں جاکر دم لیتے ہیں۔ 

وہ بات اور ہے کہ جو ہم مانتے ہیں کہ رسمی شریعت مسیح میں مکمل ہو کر اپنی اصلی روحانی صورت میں آگئی ہے۔کیونکہ رسمی اور روحانی میں سایہ اور عین کی نسبت تھی لیکن یہا ں صوفیہ میں یہ تینوں جدا جدا باتیں ہیں۔اور ان میں مخالفت کی نسبت ہے کیونکہ یہ سب انسانی بناوٹیں ہیں۔     خدا کی ڈالی ہوئی بنیاد محکم ہےجو کہ بائبل اور مسیحیت ہے۔