۱۹ ۔ فصل بیعت یعنی پیری مریدی کے بیان میں

بیعت کی اصل یہ ہےکہ ۱۰ ہجری میں جب محمد صاحب مکہ میں آئے اور بت پرست قریشیوں کا غلبہ تھااور یہ غلط بات مشہور ہو گئی تھی  کہ عثمان قریش کے ہاتھ سے مارے گئے ہیں۔ تو حضرت نے ہمراہی مسلمانوں کو جمع کرکے اس ارادے سے کہ وہ بہاورانہ لڑیں گے۔ایک ایک کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر گویا قسم لی تھی کہ وہ بے وفائی نہ کریں گےاس کا ذکر سورہ فتح کے پہلے رکوع میں ہے۔پیچھے یہ بیعت کادستور مسلمانوں میں جاری ہو گیا۔علمہ محمدیہ اور احکام اس کو عمل میں لانے لگے۔صوفیہ نے اس دستور کو اپنی طرف کھینچ لیااور پیری مریدی میں جاری کیا یہ عہد بندی کا دستور ہےجو دنیا کے اقوام میں اور شکلوں میں چلا آتا ہے۔

 بیعت لفظ بیع سے ہےفروخت کرنا  گویا وہ خود کو پیر کے ہاتھوں فروخت کرتے ہیں۔کہ بالکل تیری تابعداری کریں گے۔ہم مسیحی بھی مسیح کے ہاتھوں فروخت ہوئے ہیں۔اس قیمت پر جو اس نے ہماری جانوں  کے لیے اپنے کفارے میں دی ہے۔لیکن صوفی لوگ پیروں کے ہاتھو ں مفت فروخت ہوتے ہیں۔اور انہوں نے ان کے لیے کچھ نہیں کیا۔صرف اس امید پر کہ کوئی خفیہ تعلیم تصوف کی شاید  کبھی بتلائیں گے۔

 پیر یا شیخ بڈھاآدمی ہے جو پچاس برس سے گزر گیاہوا صطلاح صوفیہ میں پیر وہ آدمی ہے جو شریعت طریقت حقیقت کی باتوں میں پورا ماہر ہو اور جانوں کے امراض سے واقف اور شفا بخشنے پر قادر ہو۔اس اصطلاح کے موافق صوفیہ میں ایک پیر بھی نہ ملے گاتو یہی وہ فرض کرتے ہیں کہ فلاں شخص ایسا ہے کہ ایسا شخص تو صرف ایک ہےیعنی یسوع مسیح جو خدا کی مرضی سے کامل  واقف ہےاور ہماری جانوں کے امراض سے خبردار ہے اور شفا بخشنے پر قادر ہے۔

 قطب بختیارا دشی کاکی فرماتے ہیں کہ پیر وہ ہے کہ جو اپنی باطنی  نگاہ  کی قوت سے دنیا وغیرہ کا زنگار اپنےمرید کے دل پر سے دور کردے تاکہ کچھ قدرت وغیرہ نہ رہے۔

 سید محمد سینی گیسودراز کہتے ہیں کہ پیر وہ ہے جس کو کشف قبور و کشف ارواح  ہوا کرتاہو۔اور جس کی ملاقات ارواح انبیا سے ہوا کرتی ہواور افعال  صفات الہیہ کی تجلی اور ذات باری تعالیٰ ظہور حاصل ہو یہ سب باتیں صرف مسیح میں ہیں اور کسی میں نہیں مجمع السلوک میں لکھا ہے کہ پیر وہی ہے جو شرع پر مستقم ہو۔اور کچھ ہو نہ ہو شرع الہٰی پر کامل طور پر چلنے والا اور اس کو مکمل کرنے والاصرف یسوع مسیح ہےاور کوئی نہیں۔

اس لیے ہم مسیحی کسی پیر مرشد کی تلاشش میں ہرگز نہیں رہتےہم سب کا ایک ہی پیر مرشد ہے یعنی یسوع مسیح جو ہر جگہ حاضر و ناظر ہے۔اور قادر  خدا اور کامل انسان ہے۔ہمارے درمیان بعض ایسے بزرگ مسیحی بھی ہیں جو یقیناً خدا کے دوست ہیں۔اور ہر وقت خدا کی حضوری میں رہتے ہیں اور بابرکت ہیں۔ہم مسیحی ان کی عزت کرتے اور انہیں بزرگ سمجھتے ہیں اور ان کے نیک نمونے اور چال چلن  میں اور عبادات میں دیکھتے  اور سیکھتے ہیں۔اور ان کی تعلمات سے فائدہ اٹھاتے اوران کو  اپنے لیے خدا کی بڑی بخشش سمجھتے ہیں۔لیکن ہم کسی کو اپنا پیر و مرشد نہیں بناتے وہ اور ہم سب پیر بھائی ہیں کیونکہ اپنی روحوں کو سوائے مسیح خداوند کے کسی اور آدمی  کے ہاتھ میں  سوپنا عقلاً نقلاً ناجائز ہے۔

 پھر صوفی کہتے ہیں کہ مرید کو پیر کی نسبت اعتقاد میں مضبوط ہونا اور اطاعت بلا حجت کرنا چاہیے۔ورنہ کامیاب نہ ہو گا۔چنانچہ وہ کہتے کہ پیر من خس است و اعتقاد و من بس است یہ قول تجربہ اور عقل اور کلام اللہ کے خلاف ہے۔اگر خوبی صرف اعتقاد  میں ہے تو خوبی ہم میں ہوئی نہ کہ پیر میں کیونکہ اعتقاد ہمارا فعل ہے۔ہم خوب جانتے ہیں کہ خوبی صرف خدا میں ہے۔نہ کسی آدمی میں نہ کسی آدمی کے فعل میں۔ہاں اعتقاد گویا ایک ہاتھ ہے جو بھیک مانگنے کے لیے خدا کےآگے پھلایا جاتا ہے۔اگر ہم آگ کی نسبت اعتقاد کریں  کہ وہ سرد ہے۔یا سانپ کی مانند کہ کہ وہ گوگا پیر ہے۔تو یہاں سے کیا نکلتا ہے  جلنا اور بت پرستوں نے بتوں پر اعتقاد کرکے کیا نکالا یہ کہ خود پتھر ہو گئے۔پس اعتقاد نے ان کے لیے وہی چیز نکالی جو وہاں تھی صوفیہ نے مردوں اور قبروں پر ایمان باندھا وہاں سے کیا پایا؟یہ کہ دلوں میں زیادہ مردگی چھا گئی تمیزیں سن ہوگئیں۔

 ہاں اگر وہ زندہ خدا پر اور اس کے کلام پر بھروسہ یا اعتقاد کرتے اورتو زندگی اور روشنی روحوں میں آجاتی۔جیسے حقیقی مسیحیوں کے دلوں  میں آگئی ہے۔کیونکہ جس چیز پر دل ٹکتا ہے وہ اسی چیز کا اثر دل میں ہوتا ہے۔اور وہ جو کہتے ہیں کہ پیر کی اطاعت ہر امر  میں  بلا حجت کرنا چاہیےاور یہ شعر سناتے ہیں کہ

بمے سجادہ رنگین کن گرت پیر مغان گوید
کہ سالک بے خبر بنود زراو رسم منزلہا

 اس بارے میں ہم یوں کہتے ہیں کہ صرف پیغمبروں کی اطاعت بلاحجت فرض ہےکیونکہ وہ خدا کی طرف سے ہادی اور معلم ہیں۔سوائے پیغمبروں کے اورکسی کی اطاعت بلا سمجھے ناجائز ہے۔کسی پیر فقیر اور پنڈت اور مولوی اورکسی پادری کا یہ منصب نہیں ہے کہ اس کی اطاعت بلا حجت کی  جائے جب وہ کچھ کہے گا تو ہم سوچیں گے کہ خدا کے کلام کے موافق کہتا ہے کہ یا نہیں اگر نہیں تو اس کی ہرگز نہ مانیں گے کیو نکہ  ہم خدا کےفرمانبردار ہیں نہ کہ کسی  آدمی کےاور ہم نے خداسے بیعت کی ہے۔نہ کہ کسی پیر سے۔