۲ ۔فصل اسلام اور تصوف کے بیان میں

سوال یہ ہے کہ آیا علم تصوف  علوم اسلام میں داخل  ہے یانہیں اور کہ  صوفی آدمی مسلمان ہے یا نہیں۔اسلام کےمعنی اپنی حدِ یثوں میں  محمد صاحب نے یوں بتلائے ہیں خدا کو ایک اور محمد صاحب کو نبی ماننا ، نماز، روزہ ،حج اور زکواۃٰ ادا  کرنا اسلام ہےاورعقلاً بہ وسعت یوں کہہ سکتے ہیں کہ جو کچھ محمد صاحب نے تمام مجموعہ قرآن اور اس کے موافق حدیثوں میں سکھلایا ہے کہ وہی ان کا اسلام ہے۔چنانچہ جو کچھ ویدومیں لکھا ہےوہی ویدانت ہے۔ اور جو کچھ انجیل مقدس میں مذکور ہے وہی عیسایت ہے۔پس اگر  علمِ تصوف  قرآن و حدیث سے باستنباط صحیح مستنبط  ہےتو وہ علومِ اسلام میں سے ہے۔اور ہر صوفی آدمی مسلمان ہے اور اگر وہ قرآن و حدیث سے نہیں ہےکوئی خارجی بات ہے جو صوفیہ نے کہیں سے نکالی ہے۔تو وہ علومِ اسلام میں سے نہیں اور نہ صوفی آدمی مسلمان ہے۔کیونکہ اس کے عقائد تصوف کے ہیں نہ کہ اسلام کے  اور جو محمد صاحب کو مانتا ہے۔بطور صلح کل کے مانتا ہے نہ کہ بطور اسلام کے۔

اب اسبات کا فیصلہ کون کر سکتا ہے؟اولاً چاہیے کہ معتبر محمدی عالم اس کا فیصلہ کریں کہ وہ تصوف کو اپنے اسلام کاجز سمجھتے ہیں یا نہیں ثایناً ہم خود فکر کرسکتے ہیں کہ تصوف اسلام میں سے نکلا ہےیا باہر سے آیا ہے۔سب سے زیادہ معتبر کتاب اسلام کے تفسیر اتقان ہے۔اس کی نوع ۷۸ میں لکھا ہے کہ ( واماکلام الصوفیۃ فی القرآن فلنس بنمفسیر ۔یعنی صوفیا کا کلام جو قرآن کی بعض آیات کے معنی میں ہوتا ہے۔وہ قرآن کی تفسیر میں نہیں ہے۔یعنی ان کا اپنا تجویز کیا ہوامضمون ہوتا ہے۔جو کہ محمد صاحب کی مراد نہیں ہے)۔ پھر لکھا ہے کہ ( النصوص علےظواہر ہا والعدول عنہا الی معا نِ ید عیہا اہل الباطن الحاد  ) یعنی وہ جو صاف صاف قرآنی آیات ہیں۔وہ اپنے ظاہری معنے پر ہیں۔ان ظاہری معنی سے اس طرف جھکنا جن کے مدعی اہل ِ باطن یعنی صوفی ہیں الحاد یعنی کفر ہیں۔

 اب ناظرین کو معلوم کرنا چاہیے کہ تصوف کس چیز کا نام ہے؟اکثر کتبِ تصوف دیکھنے سے معلوم ہو ا ہے کہ ان میں دو قسم کی باتیں مذکور ہیں۔

اول اسلام کی باتیں ہیں مثلاً ایمان،نمازروزہ خلوص جو کہ محمدیت ہے۔ان لوگوں نے اپنی کتابوں میں نقل کی ہے۔یہ سب کچھ ہرگز تصوف نہیں ہےیہ تو اسلام ہے اور اس کا بطلان ہدایت المسلمین اور تواریخ محمدی و تعلیم محمدی وغیرہ میں بندہ نے کافی طورپرد کہلا دیا  ہے۔

دوئم خاص باتیں صوفیہ کی ہیں کچھ عقائد ہیں کچھ خیالات ہیں کچھ اطوارِ ریاضت ہیں جن کا ثبوٹ نہ قرآن سے ہے نہ معتبر حدیثوں سےبلکہ صوفیہ نےان اپنی تجویزوں سے اور کچھ بت پرست قوموں سے لے کر جمع کی ہیں۔اسی کانام علمِ تصوف یاسلوک ہےاور میری بحث اس کتاب میں انہی باتوں سے ہے۔اوروہ تصوف کی باتیں ہمیشہ اسلام سے الگ نظر آتی ہیں۔اور کہا جاتا ہے کہ یہ مسئلہ تصوف کا ہے اور یہ اسلام کا ہے۔

 اب صوفیوں سے کوئی پوچھے کہ کیا تم اپنے تصوفی خیالات کو قرآن و حدیث کی معتبر تفسیروں سے ثابت کر سکتے  ہوکہ آپ لوگ مسلمان سمجھے جائیں اورآپ کے ولیوں کی ولایت اسلام کی برکت سمجھی جائے۔اور آپ تو ہرگز ثابت نہیں کرسکتے کہ تب وہی بات جلال الدین سیوطی کے  خیالاتِ تصوف کی نسبت درست ہوگی۔کہ الحادُاور جب تصوفی خیالات الحادٹھہرے تو پھر صوفی کیا ہواملحد ہوا کہ نہیں اور ملحد سے بالفرض کرامتیں بھی ظاہر ہوں توالحاد کی حقیقت ثابت ہو گی نا کہ اسلام کی۔

 محمدیوں میں جو ۷۲ فرقے مشہور ہیں وہ سب کے سب غالباً تصوف کو ناچیز جانتے ہیں۔اور شعیہ تو اس کے بہت ہی مخالف ہیں۔ لیکن سنیوں میں سے بعض ہیں جو تصوف کی قدر کرتے ہیں۔بلکہ اپنے شاگردوں کو علومِ اسلام سکھلانے کے پیچھے سے تصوف کی طرف سے ہدایت کرتے ہیں اور وہ کامل صوفی  کی تلاش میں ہمیشہ رہتے ہیں کیونکہ اسلام میں ان کی تسلی نہیں ہوتی تصوفی خیالات کے وسیلےسے خدا کے نزدیک جانا چاہتے ہیں۔

کیاخوب بات ہے کہ محمد صاحب نے اسلام نکالاصوفیوں نے تصوف نکالا اسلام کے وسیلے سے کوئی ولی اللہ نہ ہواتصوف کے وسیلے سے ولی اللہ ہو گئے۔تب تصوف اسلام سے بڑا اور صوفی محمد صاحب سے بڑے ہادی ٹھہرے پھر وہ کہتےہیں کہ ہم محمد صاحب کے پیروں ہیں اوروہ ہمارے  پیشوا ہیں لیکن اس پیشوائی کا ثبوت اس وقت ہو سکتا ہے تصوف قرآن سے ثابت ہو جاتا ہے تصوف تو ویدوں سے ثابت ہوتا ہے۔نہ کہ قرآن سے پس ان کے پیشوا ویدوں  کے مصنف ہوں گے نہ کہ  محمد صاحب کے۔ایک محمدی بزرگ نے  یوں کہا ہے کہ

علمِ دین فقہ ہست و تفسیر و حدیث   ہرکہ خواند غیر ازین گرد وخبیث

یہ شعر اور جلال الدین کا قول بالا تصوف کو محمدی دین سے بے عزتی کے ساتھ باہر نکالتا ہے۔ مگر بعض محمدی مولویوں نے جو تصوف پر فریفتہ ہیں بہ تکلف تصوف کو اسلام  میں داخل کیا ہے۔کہ اس کو اسلام کا لب لباب سمجھا ہے اور  یہ ان کی غلطی ہے۔

 مشکوۃ کتاب الایمان جو پہلی حدیث ہے اس میں لکھاہے کہ

فَأَخْبِرْنِي عَنِ الإحْسَانِ، قَالَ: أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ جبرائیل نے حضرت سے پوچھاکہ احسان کیا چیز ہے فرمایا یہ کہ تو خدا کی ایسی عبادت کرےگویا تو اس کو دیکھتا ہے۔اور اگر ایسا نہ کرسکے تو ایسا کہ وہ تجھے وہ دیکھتا ہے۔ مطلب یہ کہ دلی حضوری سے عبادت کرنا احسان ہے۔

مظاہرالحق جلد اول صفحہ ۲۶ میں لکھا ہےکہ احسان اشارہ ہے۔اصل تصوف پر کہ توجہ الی اللہ سے مراد ہے کہ  اور فقہ  بغیر تصوف کے تمام نہیں ہوتی۔

 یہاں اس  مصنف نے دھوکا کھایا کہ چترائی کا کلام کیا ہےکہ  تصوف محمدی فقہ کا تکملہ ہو کےاسلام کے علوم میں جگہ پائے۔اس لیے ناظرین کو معلوم ہو جائے کہ لفظ تصوف بمعنی صفائی قلب اور بات ہے۔اور علم تصوف کو اصطالاحاً مجموعہ قواعدصوفیہ کانام ہےاور بات ہے کہ بغیر اس مجموعہ قواعد  کے اگر کوئی دلی حضوری سے عبادت کرسکتا ہے پھر اس علمِ تصوف پر لفظ احسان سے کیونکر اشارہ ہو گا۔

 میں تو خوش ہوں کہ تصوف اسلام کا ایک حصہ یالب لباب ثابت ہو۔تاکہ تعلیم محمدی اور بھی زیادہ حقیر ہو جائے۔لیکن انصاف کے سبب سے کہتا ہوں کہ سارا علم تصوف ہرگز قرآن و حدیث سے  نہیں نکلا ۔نادانی کی باتیں باہر سے صوفیہ نے لے کر جمع کی ہیں۔کیونکہ اسلام سے دل کی سیری نہ ہوئی تھی اور روح کی بھوک پیاس نہ بھجی تھی تب بھوکے پیاسوں نے ادھر ادھر تاکا کہ کہیں سے کچھ پائیں۔لیکن جو کچھ بت پرستوں سے پایا اور کھایا وہ زہر قاتل تھا۔کہ ان کی روحیں ہلاک ہو  گئیں اور وہ ہمہ اوست کے غار میں اترگئے۔

نجات اور تسلی زندگی اور خوشی صرف خدا تعالیٰ کے کلام سے حاصل ہوتی ہےاور وہ کلام ان صوفیوں کے پاس نہ تھا۔اس لیے وہ انجام بخیر نہ ہوا۔اپنے گناہوں میں دھنسے ہوئے اس جہاں سے چلے گئے اور روتے ہوئے گئےاور وغدغہ میں گئےکہ بچیں گے یا نہ بچیں گے۔خدا کے بندے بائبل شریف کے مومنین ہمیشہ بوسیلہ کلام اللہ کے تسلی اور مغفرت پا کر مرتے ہیں اور مسیح نے فرمایا ہے کہ (جو کوئی میرے پاس آتا ہےکبھی بھوکااور پیاسا نہ ہوگا)۔ یہاں روح کی بھوک اور پیاس کا ذکر ہے۔ہم جتنے ایمان سے مسیح کے  پاس آئے ہیں  ہم نے تسلی او ر چین حاصل کیا ہے۔ہم الٰہی قربت اور مغفرت  وغیرہ کے لیے ادھر ادھر ہرگز نہیں تاکتے۔ہم سیر ہو گئے ہیں اوریہ  خدا کے  کلام کا خاصہ ہےکہ مومن کو سیر کرے۔یہ کام قرآن سے اور تصوف سے اور دنیا کی کتاب سے اور کسی ریاضت و عمل اور وظیفہ سے نہیں ہوسکتا ۔صرف مسیح سے ہوتا ہے کیونکہ وہ ازلی کلمہ ہے۔