۲۶
دین دار مگر خدا سے دُور
 

آپ نے یہ ضرب المثل تو سنی ہو گی:

پیچھے مڑ کر دیکھیں تو بصارت ہمیشہ ٢٠/٢٠ ہوتی ہے۔ بصارت ناپنے کے پیمانے کے مطابق ٢٠/ ٢٠ کا مطلب ہے کہ بصارت بالکل درست ہے اور آپ کو عینک کی ضرورت نہیں۔

پیچھے مڑ کر دیکھنے کا مطلب ہے اُن باتوں کو دیکھنا جو (ماضی میں) ہو چکی ہیں۔ پیچھے مڑ کر دیکھنے میں وہ طریقہ کار دیکھ سکتے ہیں جو ہمیں یا کسی دوسرے کو اختیار کرنا چاہئے تھا۔ لیکن وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ سانپ نکل گیا لکیر پیٹنے سے کیا حاصل!

لیکن جب معاملہ ہو اُن باتوں اور  پیغام کو سمجھنے کا جو خدا نے صدیوں میں ظاہر کیا تو مُڑ کر دیکھنے سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ بڑی بڑی رکاوٹوں پر غالب آنے میں مدد ملتی ہے۔ سچائی اور جھوٹ میں، صحیح اور غلط میں اِمتیاز کر سکتے ہیں۔ اِسی لئے یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا:

”۔۔۔ مبارک ہیں تمہاری آنکھیں اِس لئے کہ دیکھتی ہیں اور تمہارے کان اِس لئے کہ  سنتے ہیں کیونکہ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ بہت سے نبیوں اور راست بازوں کو آرزو تھی کہ جو کچھ تم دیکھتے ہو دیکھیں مگر نہ دیکھا اور جو باتیں تم سنتے ہو سنیں مگر نہ سنیں“ (متی ١٣: ١٦، ١٧ )۔

ہم جو مسایاح کی پہلی آمد کے بعد کے زمانہ میں پیدا ہوۓ مبارک ہیں کیونکہ ہم پیچھے مڑ کر تاریخ کو دیکھ سکتے ہیں اور مکمل ہوۓ صحائف (بائبل مقدس) کا مطالعہ کر سکتے ہیں اور خدا کے کامل منصوبے کو صفائی سے دیکھ سکتے ہیں۔

اِس بات کو ذہن میں رکھتے ہوۓ اور اِس سفر کے دوران ہم نے پاک صحیفوں میں سے جو کچھ دیکھا اور سیکھا ہے اُسے یاد رکھتے ہوۓ آیئے ہم ایک دفعہ پھر ”شروعات کی کتاب“ (پیدائش کی کتاب کی طرف رجوع ہوں)۔

قائن اور ہابل کے واقعہ پر دوبارہ غور

پیدائش کی کتاب کا چوتھا باب بالکل صاف اور واضح ہے۔ قائن اور ہابل دونوں گناہ کے مسئلے کے ساتھ پیدا ہوۓ تھے۔ وہ جوان ہوۓ تو ہر ایک نے خدا کی پرستش کرنے کی کوشش کی لیکن صرف ایک ہی مقبول ٹھہرا۔

”خداوند نے ہابل کو اور اُس کے ہدیہ کو منظور کیا پر قائن کو اور اُس کے ہدیہ کو منظور نہ کیا“ (پیدائش ٤:٤)۔

ہم نے گنہگاروں کے نجات دہندہ یسوع کے بارے میں سن لیا ہے۔ اِس لئے اب بائبل مقدس کے مطابق پیچھے مڑ کر دیکھنے سے یہ سمجھنا آسان ہو جاۓ گا کہ ہزاروں سال پہلے خدا نے کیوں ”ہابل کو اور اُس کے ہدیہ کو منظور کیا“ اور خدا نے کیوں ”قائن کو اور اُس کے ہدیہ کو منظور نہ کیا۔“

ہابل کا ذبح کیا ہوا برّہ خدا کے برّے کی طرف اشارہ کر رہا تھا جو گنہگاروں کی خاطر اپنا خون بہاۓ گا۔ قائن کے کھیت کے پھل یسوع کی طرف اشارہ نہیں کر رہے تھے۔

ہابل آگے کو (مستقبل) دیکھتا تھا کہ جو کچھ ہو گا۔ آج ہم پیچھے کو دیکھتے ہیں جو کام یسوع نے اپنے مرنے اور جی اُٹھنے سے ہمارے لئے پورا کر دیا ہے۔

”۔۔۔ یسوع کا خون ہمیں تمام گناہ سے پاک کرتا ہے“ (١۔یوحنا ١: ٧)۔

نجات بخش ایمان

خدا نے ہابل کو بھی اُسی طرح معاف کیا جس طرح آج گنہگاروں کو معاف کرتا ہے۔ جب بھی کوئی گنہگار اپنی ناراستی کا اِقرار کرتا ہے اور خداوند اور اُس کی نجات پر بھروسا کرتا ہے تو اُسے معافی ملتی ہے اور خدا کی راست بازی کی بخشش عطا ہوتی ہے۔ ہر زمانے کے نبیوں اور ایمان داروں کے ساتھ یہی ہوا ہے۔

مثال کے طور پر جیسا کہ ہم نے پہلے دیکھا ہے ”ابرہام خداوند پر ایمان لایا اور  اِسے اُس (خدا) نے اُس (ابرہام) کے حق میں راست بازی شمار کیا“ (پیدائش ١٥ :٦ )۔ ”ابرہام خدا پر ایمان لایا“ کا مطلب ہے کہ ابرہام کو یہ یقین اور اعتبار تھا کہ جو کچھ خدا نے کہا ہے وہ سچ ہے۔ ابرہام نے خدا کی بات کا یقین کیا۔ اُس کا ایمان صرف خدا پر تھا۔

ابرہام نبی کی طرح داؤد بادشاہ بھی خدا کے وعدوں پر ایمان رکھتا تھا۔ داؤد بڑی خوشی سے لکھتا ہے ”مبارک ہے وہ جس کی خطا بخشی گئی اور جس کا گناہ ڈھانکا گیا۔ مبارک ہے وہ آدمی جس کی بدکاری کو خداوند حساب میں نہیں لاتا“ (زبور ٣٢ : ١، ٢)۔ داؤد نے یہ بھی کہا ”یقینا بھلائ اور رحمت عمر بھر میرے ساتھ ساتھ رہیں گی اور مَیں ہمیشہ خداوند کے گھر میں سکونت کروں گا۔“

(زبور ٢٣ :٦ )

جو لوگ یسوع کے اِس دنیا میں آنے سے پہلے ہو گزرے مثلاً ہابل ، ابرہام اور داؤد ، اُن کا گناہ ڈھانکا گیا کیونکہ وہ خداوند خدا اور اُس کے منصوبے پر ایمان لاۓ۔ اور جب یسوع موا تو اُن کے گناہ کا قرض حساب کی کتابوں سے ہمیشہ کے لئے منسوخ کر دیا گیا۔

آج ہم یسوع کے دنیا میں آنے کے بعد کے زمانے میں جی رہے ہیں۔ خدا کی خوش خبری یہ ہے کہ خداوند یسوع نے اپنی عوضی (کی) موت اور فاتحانہ جی اُٹھنے سے جو کچھ کیا اگر آپ اُس پر ایمان لاتے ہیں تو خدا اپنی حساب کی کتابوں سے آپ کے گناہ کا قرض مٹا دے گا۔ اور مسیح کی راست بازی آپ کے کھاتے میں لکھ دے گا اور ضمانت دے گا کہ آپ ”ہمیشہ خداوند کے گھر میں“ سکونت کریں گے۔

اگر آپ ایمان لائیں تو یہ سب کچھ __ اور اِس سے بھی زیادہ کچھ آپ کا ہو گا۔ یسوع پر ایمان لانے کا مطلب ہے کہ اُس پر اور جو کچھ اُس نے آپ کے لئے کہا ہے اُس پر پورا ایمان رکھنا۔ ایمان کے مطلب کو بہتر طور سے سمجھنے کے لئے تصور کریں کہ آپ ایک کمرہ میں داخل ہوتے ہیں جس میں بہت سی کرسیاں ہیں۔ کئی تو ٹوٹی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ بعض کمزور اور ٹوٹنے کے قریب ہیں۔ بعض بہت اچھی نظر آ رہی ہیں۔ مگر اچھی طرح معائنہ کرنے کے بعد آپ کو پتا چلتا ہے کہ اُن میں بھی کمزوریاں ہیں اور قابِل اعتبار نہیں۔ اور آپ سوچتے ہیں کہ اِس کمرہ میں ایک بھی مضبوط کرسی نہیں ہے۔ عین اُسی وقت آپ کی نظر ایک کرسی پر پڑتی ہے جو صاف نظر آتی ہے کہ مضبوط ہے اور اچھی طرح بنائی گئی ہے۔ آپ آگے بڑھ کر اُس پر بیٹھ جاتے ہیں۔ آپ نے اُس کا بھروسا کیا اور اُس پر آرام کرتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ کرسی میرا بوجھ برداشت کرے گی اور مجھے نہیں گراۓ گی۔ مجھے شرمندہ نہیں کرے گی۔

جو لوگ مسیح پر اور اُس کے مکمل کۓ ہوۓ کام پر بھروسا رکھتے ہیں وہ اُنہیں ہرگز مایوس اور شرمندہ نہیں ہونے دے گا۔

مہلک ایمان

ہمارا ایمان اِتنا ہی اچھا ہے جتنی وہ چیز یا وہ شخص اچھا ہے جس پر ہم نے ایمان رکھا ہے۔ ایمان تو سب ہی رکھتے ہیں، لیکن سب ایک ہی پر ایمان نہیں رکھتے۔

ہابل نے خدا پر، اور اُس کے معاف کرنے اور راست باز ٹھہرانے کے طریقہ پر ایمان رکھا۔ قائن نے اپنے خیال، اپنے منصوبے اور اپنی کوششوں پر ایمان رکھا۔

جو لوگ اپنے گناہ کے بارے میں خدا کی تشخیص اور طریقہ علاج کا انکار کرتے ہیں اُنہیں ہم اُس سپیرے سے تشبیہ دے سکتے ہیں جسے مَیں نے ٹی وی پر دیکھا۔ اُسے ایک ناگ نے ڈس لیا۔ لیکن اُس نے تریاق کا ٹیکہ لگوانے سے انکار کر دیا جس سے اُس کی جان بچ سکتی تھی۔ اُس کا خیال تھا کہ مَیں اِتنا طاقتور ہوں کہ سانپ کے زہر کا مقابلہ کر سکتا ہوں۔

اُس کے انتخاب __ اُس کے فیصلے نے اُس کی جان لے لی۔

پاک کلام بالکل صاف اور واضح ہے۔ خدا کی نجات کے بجاۓ اپنی کوششوں پر بھروسا کرنا ”قائن کی راہ“ پر چلنا اور ”ابد تک تاریکی“ میں رہنا ہے (یہوداہ ١: ١١ ۔ ١٣ )۔ قائن کا یہ خیال کہ کوئ شخص اپنی کوشش سے خدا کا مقبول ہو سکتا ہے ہمیشہ ہی خدا کے مخلصی کے منصوبے کا مخالف رہا ہے۔ تاہم آج بھی بہت سے لوگ ”قائن کی راہ“ سے چمٹے ہوۓ ہیں۔

انسان کا معیار

ایک دن چند خدا پرست اور دین دار یہودیوں نے یسوع سے پوچھا ”ہم کیا کریں کہ خدا کے کام انجام دیں؟ یسوع نے جواب میں اُن سے کہا خدا کا کام یہ ہے کہ جسے اُس نے بھیجا ہے اُس پر ایمان لاؤ“ (یوحنا ٦: ٢٨ ۔ ٢٩ )۔ یہ سوال پوچھنے والے لوگ ”کام کرنا“ چاہتے تھے۔ یسوع نے اُن سے کہا، ”اُس (مسیح) پر ایمان لاؤ۔“

جس اُلجھن اور کج فہمی کا اظہار اُن یہودیوں نے کیا وہ دنیا کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہے۔ میری بہن اور اُس کا شوہر پپوا نیوگنی کے پہاڑی علاقہ میں رہتے ہیں۔ وہ اور اُس کے ہم خدمت آبادیوں سے دُور رہنے والے قبائلیوں کی عملی مدد کرتے ہیں اور اُنہیں واحد حقیقی خدا اور اُس کے ابدی زندگی کے پیغام کے بارے میں سکھاتے ہیں۔ اُن کے ایک ہم خدمت کی طرف سے مجھے ایک خط ملا جس میں اُس نے ایک قبائلی آدمی کے ساتھ گفتگو کا ذکر کیا۔  یہ آدمی ”خدا کی گفتگو“ سنتا رہا تھا۔ پپوا کے لوگ بائبل مقدس کو ”خدا کی گفتگو“ کہتے ہیں۔

یسوع ”زندگی کی روٹی“ کے موضوع پر پیغام سننے کے بعد اُس آدمی نے کہا، ”یہ تو بہت ہی آسان ہے۔ مَیں ساری عمر محنت کرتا رہا ہوں کہ بہشت میں جانے کا حق کمالوں اور خدا کی نظروں میں پاک ٹھہروں۔ اور اب آپ ہمیں بتا رہے ہیں کہ ہمیں صرف یہ کرنا ہے کہ یسوع پر ایمان رکھیں؟“

مَیں نے اُس سے کہا کہ یسوع نے کیا کہا ہے،” مَیں زندگی کی روٹی ہوں“ (یوحنا ٦: ٢٥ )۔ پھر مَیں نے اُسے یوحنا ٦: ٢٩ دوبارہ پڑھنے کو کہا ”خدا کا کام یہ ہے کہ جسے اُس نے بھیجا ہے اُس پر ایمان لاؤ۔“ اُس نے یوحنا ٣: ١٦ بھی پڑھا ”۔۔۔ جو کوئی اس پر ایمان لاۓ ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پاۓ۔“ مَیں نے اُس سے پوچھا ”کیا خدا کو ہماری مدد کی ضرورت ہوتی ہے__ گویا وہ ایسا قادر نہیں کہ ہمیں بچا سکے؟“

وہ ہنس کر کہنے لگا ”ہرگز نہیں! خدا کو ہماری مدد کی ضرورت نہیں۔“

”اچھا، تو خدا کے کلام کے مطابق کیا ہمیں بہشت میں لے جانے کے لۓ خدا کو ہماری مدد کی ضرورت ہے؟“

اُس آدمی نے لمبا سانس لیا اور سوچتا ہوا چلا گیا۔

خدا کا پیغام بالکل واضح ہے۔ اِس کے باوجود دنیا بھر میں لوگ اِس تصور کو گلے سے لگاۓ ہوۓ ہیں کہ عدالت کے دن خدا ہمارے نیک اعمال اور بُرے اعمال کو بڑے سے ترازو کے پلڑوں میں ڈالے گا۔ وہ سوچتے ہیں کہ اگر نیکیوں والا پلڑا ذرا سا بھی جھک گیا مثلاً ٥١ فیصد یا زیادہ تو ہمیں بہشت میں خوش آمدید کہا جاۓ گا۔ لیکن اگر بُرے اعمال والا پلڑا ذرا سا بھی جھک گیا مثلاً ٥١ فیصد یا زیادہ تو ہمیں دوزخ میں بھیج دیا جاۓ گا۔

بُرے اعمال کے مقابلے میں نیک اعمال کا پلڑا بھاری ہونے کا یہ نظام انسان کی زمینی عدالتوں میں تو کہیں استعمال نہیں ہوتا، اور خدا کی آسمانی عدالت میں بھی استعمال نہیں ہو گا۔

اِس پر غور کریں۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ خدا آپ کی ابدی منزل کا فیصلہ آپ کے نیک اعمال اور نیت کی بنیاد پر کرے؟

شکر ہے کہ یہ ”ترازو والا نظریہ“ خدا کی کتاب (بائبل مقدس) میں نہیں ہے۔

خدا کا معیار

خدا کاملیت کا تقاضا کرتا ہے۔

صرف وہی لوگ خدا کے ساتھ سکونت کر سکتے ہیں جو اُس کی راست بازی کی بخشش کو قبول کر لیتے ہیں۔ عدالت کے دن آپ کی حساب کی کتاب میں گناہ کا ایک ننھا سا دھبا بھی پایا گیا تو آپ بہشت میں داخل نہیں ہوں گے۔

خدا کے نزدیک گناہ ایسا ہی گھنونا اور کریہہ ہے جیسے ہمارے صحن میں کوئی گلتی سڑتی لاش ہمارے نزدیک گھنونی اور کریہہ ہوتی ہے۔ کیا لاش پر عطر چھڑکنے سے اُس کی بدبو اور گھن اور نجاست دُور ہو جاۓ گی؟ اِسی طرح ہم کتنی بھی مذہبی رسمیں ادا کریں ہماری نجاست اور ناپاکی دُور نہیں ہو گی۔ یہ ”نیکیاں“ ہمیں خدا کے نزدیک مقبول نہیں بنا سکتیں۔

فقط ایک گناہ خدا کو ایسا نامنظور اور ناقابل قبول ہے جیسے ہماری چاۓ کی پیالی میں ایک قطرہ زہر ہمیں نامنظور ہوتا ہے۔ کیا چاۓ میں اَور پانی ڈالنے سے اُس کی مار ڈالنے کی صلاحیت ختم ہو جاۓ گی؟ اِسی طرح ہمارے نیک اعمال کتنے ہی زیادہ ہوں وہ ہمیں پاک صاف کر کے ابدی عذاب سے نہیں بچا سکتے۔

جہاں تک ہمارے گناہ کے قرض کو بے باق کرنے کی یا اپنے آپ کو خدا کے حضور راست باز ثابت کرنے کی بات ہے تو ہم ناچار اور بے بس ہیں۔ لیکن خداوند کا شکر ہو کہ ہم بے اُمید نہیں ہیں۔ اُس نے وہ سب کچھ مہیا کر دیا ہے جو اُس کی پاک اور کامل حضوری میں رہنے کے لئے ہمیں درکار اور ضروری ہے۔

ایمان اور اعمال

یسوع مسیح نے گناہ کی پوری سزا برداشت کر لی ہے، گناہ کی پوری قیمت چکا دی ہے۔ اب جو لوگ اُس پر ایمان لاتے ہیں خدا اُن سے کہتا ہے ”۔۔۔ کیونکہ تم کو ایمان (جو کچھ مسیح نے ہمارے واسطے کر دیا ہے اُس کا یقین کرنا) کے وسیلے سے فضل (مہربانی اور رحمت جس کے ہم حق دار نہیں) ہی سے نجات ملی ہے اور یہ تمہاری طرف سے نہیں خدا کی بخشش ہے۔ اور نہ اعمال کے سبب سے ہے تاکہ کوئی فخر نہ کرے“  (افسیوں ٢: ٨، ٩)۔

بہشت میں کوئی ڈینگیں نہیں مارے گا۔

نجات ”فضل سے“ ہے۔ نجات ”خدا کی بخشش“ ہے۔ یہ بخشش ہے جس کے ہم حق دار نہیں۔ جسے شکرگزاری کے ساتھ قبول کرنا ہے۔ یہ کوئی اپنی کارکردگی سے جیتا ہوا تمغہ نہیں ”تاکہ کوئی فخر نہ کرے۔“ لیکن المیہ یہ ہے کہ بہت سے مذہب پرست لوگ اِس مسئلے کے بارے میں پریشان خیالی یا تذبذب میں مبتلا رہتے ہیں، مشرقِ وسطی' کے اُس آدمی کی طرح جس نے یہ خط لکھا:

ای میل

”دین میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ واحد حقیقی خدا پر ایمان ہو، نیک اعمال کریں، برے کاموں سے بچیں۔ یہی ہماری نجات ہیں۔“

ابدی عذاب سے ہماری نجات اور خدا کے ساتھ سکونت کرنے کا حق اگر ہماری اپنی کوششوں پر موقوف ہے تو ہمیں کیسے معلوم ہو سکتا ہے کہ ہم نے کافی نیکیاں کر لی ہیں اور اپنے آپ کو کافی برے اعمال سے بچایا ہے جن سے ہم بہشت میں جگہ پانے کے حق دار ہو گۓ ہیں؟ ہمیں تو نجات کا کبھی یقین نہیں ہو سکتا۔

کوئی تین ہزار سال پہلے یوناہ نبی نے فرمایا تھا”نجات خداوند کی طرف سے ہے“ (یوناہ ٢: ٩)۔

اِس کے لئے خدا کی حمد ہو!

”۔۔۔ کیونکہ تم کو ایمان کے وسیلہ سے فضل ہی سے نجات ملی ہے اور یہ تمہاری طرف سے نہیں خدا کی بخشش ہے اور نہ اعمال کے سبب سے ہے تاکہ کوئی فخر نہ کرے“ (افسیوں ٢: ٨، ٩ )۔

خدا کا کلام واضح ہے۔ اپنے آپ کو گناہ کی سزا سے بچانے کے لئے اپنے آپ پر اور اپنے اعمال پر بھروسا کرنا خدا کی نجات کی بخشش کو رد کرنا ہے۔

چنانچہ نیک اعمال کرنے اور گناہ سے بچنے کی کوشش کرنے کی کیا اہمیت ہے؟ اگلی آیت ہمیں بتاتی ہے

”کیونکہ ہم اُسی کی کاری گری ہیں اور مسیح یسوع میں اُن نیک اعمال کے واسطے مخلوق ہوۓ جن کو خدا نے پہلے سے ہمارے کرنے کے لئے تیار کیا تھا“ (افسیوں ٢: ١٠ )۔

فرق بھی واضح ہے۔ ہمیں نیک اعمال کے سبب سے نجات نہیں ملتی، بلکہ نجات اِس لئے ملتی ہے کہ نیک اعمال کریں۔

”۔۔۔اپنے بزرگ خدا اور منجی ۔۔۔ جس نے اپنے آپ کو ہمارے واسطے دے دیا تاکہ فدیہ ہو کر ہمیں ہر طرح کی بے دینی سے چھڑا لے اور پاک کر کے اپنی خاص ملکیت کے لئے ایسی اُمت بناۓ جو نیک کاموں میں سرگرم ہو“ (ططس ٢: ١٣ ، ١٤ )۔

اِس کتاب کا دیباچہ ایک دیہاتی ایلڈر کے اِس بیان سے شروع ہوا تھا ”اپنے نیک کاموں کی وجہ سے آپ جنت میں جانے کے حق دار ہیں۔“

خدا کا کلام واضح کرتا ہے کہ اُس آدمی کی سوچ غلط ہے۔ کوئی شخص بھی اپنے ”نیک اعمال“ کی بنیاد پر ”جنت میں جانے کا حق دار“ نہیں ہوتا۔ البتہ جن لوگوں نے خدا کی نجات کی بڑی بخشش کو قبول کر لیا ہے وہ چاہتے ہیں کہ ہم بُرائیوں سے بچیں اور نیکی کریں تاکہ خدا کی تمجید ہو، خدا کا جلال ظاہر ہو اور دوسروں کو برکت ملے۔

پھل جڑ نہیں ہوتا

نجات ہرگز نیک کاموں سے مشروط نہیں بلکہ نیک کام نجات کا نتیجہ (پھل) ہونے چاہئیں۔ اِسی لئے یسوع نے اپنے شاگردوں کو سکھایا کہ :

” مَیں تمہیں ایک نیا حکم دیتا ہوں کہ ایک دوسرے سے محبت رکھو۔ اگر آپس میں محبت رکھو گے تو اِس سے سب جانیں گے کہ تم میرے شاگرد ہو“ (یوحنا ١٣: ٣٤ ، ٣٥ )۔

جیسے یسوع لوگوں سے محبت رکھتا اور اُن کی فکر کرتا تھا کیا دوسرے سے ویسے ہی محبت رکھنا نجات کے لئے لازمی شرط ہے؟ نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم میں سے کوئی بھی جنت میں نہ جا سکتا کیونکہ یسوع واحد ہستی ہے جو دوسروں سے کامل اور دائمی محبت رکھتا ہے۔

کیا دوسروں سے محبت رکھنا اور اُن کی فکر کرنا سچے ایمان داروں کی زندگیوں میں محبت کا روز افزوں نتیجہ ہونا چاہۓ؟ جی ہاں، بالکل! ”اِس سے سب جانیں گے کہ تم میرے شاگرد ہو۔“

خدا کے لوگ اپنے طرزِ زندگی سے اپنا ایمان دکھاتے ہیں (یعقوب ٢: ١٨ ؛ متی ٥: ١٣ ۔ ١٦ ؛ عبرانیوں باب ١١ )۔

نجات کی جڑ اور نجات کے پھل میں امتیاز کرنا بہت ضروری ہے۔ مسیح میں ایمان داروں کو شکرگزار ہونا چاہئے۔ اور نجات کی بخشش (جڑ) کے لئے شکر گزاری اور ممنونیت ظاہر کرنے کی خاطر اُن کو پاک،  محبت بھری، بے غرض اور باضابطہ زندگی (پھل) گزارنی چاہئے۔

خدا کے لوگ نیک کام اِس مقصد سے نہیں کرتے کہ اُس کی نظر میں مقبول ٹھہریں بلکہ اِس لئے کرتے ہیں کہ اُس نے اُنہیں مقبول ٹھہرایا ہے حالانکہ وہ اِس کے حق دار نہیں تھے۔

جھوٹی دین داری

قائن ”خود کرو“ مذہب کا بانی ہے۔ قربانی کے برہ کے خون کے وسیلے سے خدا کے پاس جانے کے بجاۓ وہ اپنی سوچ، اپنے نظریے اور اپنی کوشش سے اُس کے پاس آیا۔ اِس لئے قائن کی دعائیں خدا کے نزدیک گھنونی اور کراہت انگیز تھیں۔

”جو کان پھیر لیتا ہے کہ شریر کو نہ سنے اُس کی دعا بھی نفرت انگیز ہے“ (امثال ٢٨ : ٩)۔

خدا کے قانون (شریعت) کا تقاضا ہے کہ برّہ یا کسی اَور جائز قربانی کے خون سے گناہ کو ڈھانکا جاۓ۔ چونکہ قائن نے خدا کے پاس آنے کا یہ تقاضا پورا نہ کیا اِس لئے اُس کی دعا بھی ”نفرت انگیز“ تھی۔ قائن کے پاس دین داری (مذہب) تھی لیکن وہ جھوٹی دین داری تھی۔ اُس کا نذرانہ موعودہ منجی اور صلیب پر اُس کی موت کی طرف اشارہ نہیں کرتا تھا، جس کے نتیجے میں:

”۔۔۔ خداوند نے ہابل کو اور اُس کے ہدیہ کو منظور کیا پر قائن اور اُس کے ہدیہ کو منظور نہ کیا۔ اِس لئے قائن نہایت غضب ناک ہوا اور اُس کا منہ بگڑا۔ اور خداوند نے قائن سے کہا تُو کیوں غضب ناک ہوا؟ اور تیرا منہ کیوں بگڑا ہوا ہے؟ اگر تُو بھلا کرے تو کیا تُو مقبول نہ ہو گا؟“ (پیدائش ٤: ٤۔ ٧)۔

خداوند نے بڑی رحمت اور مہربانی سے قائن کے ساتھ بات کی۔ اُسے توبہ کرنے کا موقع دیا__ کہ اپنے ناراست کاموں سے باز آۓ اور خدا کے راست منصوبے کی اطاعت کرے۔ لیکن قائن غضب ناک ہی رہا۔ وہ اپنی کوشش والے دلکش مذہب کے بدلے برّے کے بھیانک خون کی طرف مائل ہونے پر آمادہ نہ ہوا۔ وہ خدا کا نام لے کر سب کچھ اپنے طریقے سے کرنا چاہتا تھا۔

اور یہ طریقہ اُسے کہاں لے گیا؟

عداوتی مذہب

”اور قائن نے اپنے بھائی ہابل کو کچھ کہا اور جب وہ دونوں کھیت میں تھے تو یوں ہوا کہ قائن نے اپنے بھائی ہابل پر حملہ کیا اور اُسے قتل کر ڈالا“ (پیدائش ٤: ٨)۔

قائن نے مستقبل کے اُن مذاہب اور سیاسی نظاموں کے لئے سٹیج لگا دیا جو اُن لوگوں کا مذاق اُڑائیں گے، اُنہیں ایذائیں دیں گے، یہاں تک کہ قتل کر دیں گے جو اُن کے آئین و قوانین اور روایات کو نہیں مانیں گے اور اُن کی پابندی نہیں کریں گے۔

قائن کی طرح آج بھی دنیا بھر میں ایسے ”مذہبی“ لوگ ہیں جو اپنے مذہب کا دفاع کرنے کے لۓ ظلم و ستم اور جبر کرنے اور قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ایسے کاموں سے وہ دنیا میں اعلان کرتے ہیں کہ ہم اپنے ایمان میں کتنے غیر محفوظ ہیں اور اپنے خدا کے بارے میں یقین نہیں رکھتے کہ وہ سب کام اپنے طریقے سے کر سکتا ہے۔

ریاستہاۓ متحدہ امریکہ میں ایک آدمی رہتا ہے جس سے ای میل کے ذریعے میری اکثر خط و کتابت ہوتی رہتی ہے۔ ایک دفعہ اُس نے لکھا:

ای میل

”آخری شخص جس نے میرے روبرو پاک نبی کے بارے میں کفر بکا اگلے ہی لمحے اُسے اپنے سامنے کے تین دانت نگلنے پڑے۔ مجھے بڑی خوشی ہے کہ اب وہ کفر بکے گا تو تتلا کر بولے گا۔

بے دین (کافر یعنی غیر مسلم) ایمان لائیں یا مریں!“

” لیکن مَیں تم سننے والوں سے کہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو۔ جو تم سے عداوت رکھیں اُن کا بھلا کرو۔ جو تم پر لعنت کریں اُن کے لئے برکت چاہو۔ جو تمہاری بے عزتی کریں اُن کے لئے دعا کرو“ (لوقا ٦: ٢٧ ،٢٨ )۔ اور صلیب پر یسوع نے اپنے مصلوب کرنے والوں کے لئے دعا مانگی ”اے باپ! اِن کو معاف کر کیونکہ یہ جانتے نہیں کہ کیا کرتے ہیں“ (لوقا ٢٣ : ٣٤ )۔

خدا نے حکومتوں پر یہ فرض عائد کیا ہے کہ اپنے لوگوں کی حفاظت کریں اور اُنہیں اختیار دیا ہے کہ ”خدا کا خادم“ ہونے کی حیثیت سے ”تلوار“ استعمال کریں، لیکن ذمہ داری کے ساتھ۔ اور جو بُرائی کرے اُسے ”خدا کے غضب کے موافق“ سزا دیں (دیکھئے رومیوں ١٣ : ١۔ ٤ ؛ پیدائش ٩: ٦)۔ لیکں خدا کی سچائی کو پھیلانے کے لئے ظلم اور جبر کا استعمال یسوع کے نمونے اور تعلیم کے بالکل خلاف ہے۔ اُس نے فرمایا کہ ”تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھ اور اپنے دشمن سے عداوت۔ لیکن مَیں تم سے یہ کہتا ہوں کہ اپنے دشمںوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کے لئے دعا کرو تاکہ تم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے بیٹے ٹھہرو کیونکہ وہ اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راست بازوں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے۔ کیونکہ اگر تم اپنے محبت رکھنے والوں ہی سے محبت رکھو تو تمہارے لئے کیا اجر ہے؟ کیا محصول لینے والے بھی ایسا نہیں کرتے؟ اور اگر تم فقط اپنے بھائیوں ہی کو سلام کرو تو کیا زیادہ کرتے ہو؟ کیا غیر قوموں کے لوگ بھی ایسا نہیں کرتے؟“ (متی ٥: ٤٣ ۔ ٤٧ )۔

اِس کے برعکس قرآن شریف کہتا ہے کہ ”جنگ کرو اہلِ کتاب میں سے اُن لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اُس کے رسول (صلعم) نے حرام قرار دیا ہے اُسے حرام نہیں کرتے اور دینِ حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ (اُن سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں“ (سورہ ٩: ٢٩ )۔

غیر تائب قائن

ہم قائن کے واقعہ کی طرف واپس آتے ہیں۔ اُس نے اپنے بھائی کو قتل کر دیا۔ مگر خدا نے اُسے موقع دیا کہ توبہ کرے اور اپنی غلط سوچ اور بُری رَوش سے باز آۓ۔

”تب خداوند نے قائن سے کہا تیرا بھائی کہاں ہے؟ اُس نے کہا مجھے معلوم نہیں۔ کیا مَیں اپنے بھائی کا محافظ ہوں؟ پھر اُس نے کہا تُو نے یہ کیا کیا؟ تیرے بھائ کا خون زمین سے مجھ کو پکارتا ہے۔ اور اب تُو زمین کی طرف سے لعنتی ہوا جس نے اپنا منہ پسارا کہ تیرے ہاتھ تیرے بھائ کا خون لے“(پیدائش ٤: ٩۔١١ )۔

”۔۔۔جو پیغام تم نے شروع سے سنا یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے سے محبت رکھیں اور قائن کی مانند نہ بنیں جو اُس شریر سے تھا اور جس نے اپنے بھائی کو قتل کیا۔ اور اُس نے کس واسطے اُسے قتل کیا؟ اِس واسطے کہ اُس کے کام بُرے تھے اور اُس کے بھائی کے کام راستی کے تھے“ (١۔یوحنا ٣: ١١، ١٢ )۔

تحریک دینے والی دو زبردست قوتیں تھیں جنہوں نے قائن کو ہابل کے قتل پر اُبھارا __ ابلیس اور حسد (متی ٢٧ : ١٨ سے موازنہ کریں)۔

قائن نے اپنے گناہ کا اعتراف کرنے سے انکار کیا اور برّے کا خون لے کر حلیمی سے خدا کے پاس آنا منظور نہ کیا، بلکہ ”قائن خداوند کے حضور سے نکل گیا“ (پیدائش ٤: ١٦ )۔

قائن نے کبھی توبہ نہ کی۔ خدا کے طریقہ کی اطاعت کرنے کے بجاۓ وہ اپنی روِش اور اپنے خیالات اور منصوبوں پر چلتا رہا۔ قائن نے ایک ترقی پذیر معاشرت کی بنیاد رکھی۔ لیکن یہ معاشرہ خدا کی سچی اطاعت گزاری سے دُور اور خالی تھا۔ قائن کی طرح اُس کی اولاد__ اُس کی نسل کے لوگ بھی خود پرستی کی زندگی بسر کرتے تھے۔ یہ انداز و اطوار اپنی تباہی و ہلاکت کے سامان خود پیدا کر لیتے ہیں۔

تشکیک پرست ہمیشہ سے سوال کرتے آۓ ہیں ”قائن نے بیوی کہاں سے کی؟“ پیدائش کی کتاب باب ٥ اِس کا جواب دیتا ہے۔ آدم اور حوا کے ہاں اَور بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ صاف ظاہر ہے کہ قائن نے اپنی کسی بہن سے شادی کی۔ اُس وقت جینیات کے لحاظ سے اِس شادی سے کوئی نقصان دہ اثرات نہیں ہو سکتے تھے۔ بعد کے زمانے میں خدا نے نہایت قریبی رشتوں کے ساتھ ایسی شادیوں کی ممانعت کر دی۔

اور ہابل قتل ہو گیا تو اُس کا کیا ہوا؟ ہابل کا بدن واپس خاک میں لوٹ گیا۔ لیکن اُس کی جان اور روح بہشت میں گئی اِس لئے کہ اُس کے ایمان کے باعث خدا نے اُس کے گناہ معاف کر دیئے اور اُسے راست باز ٹھہرایا تھا(عبرانیوں١١:٤)۔

پیدائش کی کتاب کے چوتھے باب میں لمک کا حال درج ہے۔ وہ قائن سے چھٹی پشت میں تھا۔ اپنے جدِ امجد کی طرح لمک دغاباز، شہوت پرست، انتقام لینے والا اور قاتل تھا۔ اُس کے بیٹوں نے بہت سے سائنسی علوم اور فنونِ لطیفہ ایجاد کۓ اور اُنہیں ترقی دی۔ وہ بہت سی چیزوں کے بارے میں علم رکھتے تھے، لیکن خدا کو نہیں جانتے تھے۔

لوگ نہ صرف خدا کی نجات کی راہ سے ہٹ گۓ تھے، بلکہ خدا کی طرزِ زندگی کی راہ سے بھی ہٹ گۓ تھے۔

غیر تائب بنی نوع انسان

قائن کی صرف نو پشتوں کے بعد خداوند نے بنی نوع انسان کے بارے میں یہ فتوی' دیا:

”۔۔۔ زمین پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی اور اُس کے دل کے تصور اور خیال سدا بُرے ہی ہوتے ہیں“ (پیدائش ٦: ٥ )۔

نوح نبی کے زمانے تک یہ حال ہو گیا تھا کہ زمین پر صرف نوح اور اُس کا خاندان ہی ایسے لوگ تھے جو اپنے خالق پر ایمان رکھتے تھے۔ انسان کے ہٹ دھرمی کے ساتھ خدا کے کلام کو سننے اور اُس پر دھیان دینے سے انکار کرنے کے باعث ساری دنیا پر سیلاب آیا۔ اپنے فضل سے خدا نے بچ نکلنے کی ایک راہ مہیا کی،  لیکن صرف آٹھ افراد نے اِس سے فائدہ اُٹھایا۔ صرف نوح اور اُس کی بیوی اور اُس کے بیٹے سم، حام اور یافت اور اُن تینوں کی بیویاں خدا کے پیغام پر ایمان لائیں (پیدائش باب ٦ تا ٨)۔

” ایمان ہی کے سبب سے نوح نے اُن چیزوں کی بابت جو اُس وقت تک نظر نہ آتی تھیں ہدایت پا کر خدا کے خوف سے اپنے گھرانے کے بچاؤ کے لئے کشتی بنائ جس سے اُس نے دنیا کو مجرم ٹھہرایا اور اُس راست بازی کا وارث ہوا جو ایمان سے ہے“ (عبرانیوں ١١: ٧)۔

آج بہت سے سائنس دان بائبل مقدس کے اِس بیان کا مذاق اُڑاتے ہیں کہ ساری دنیا پر سیلاب آیا تھا۔ لیکن کوئی بھی اِس بات کا انکار نہیں کرتا کہ آج کی خشک زمین کسی زمانے میں پانی میں ڈوبی ہوئ تھی اور یہ بھی کہ دنیا کے بڑے بڑے ریگستانوں اور پہاڑی سلسلوں سے لاکھوں بحری فوصل دریافت ہوۓ ہیں۔ اور نہ کوئی دھنک (قوسِ قزح) کا انکار کر سکتا ہے جو کئی دفعہ زور دار بارش کے بعد بادلوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ البتہ وہ اِس کی اہمیت اور معنی کا انکار کر سکتے ہیں کہ یہ خدا کے وعدہ کا نشان ہے کہ وہ پھر کبھی سیلاب سے ساری دنیا کو ہلاک نہیں کرے گا۔

باغی اور پریشان خیالی کا شکار

طوفانِ نوح کے بعد خدا نے نئے سرے سے آغاز کرنے کا فضل بخشا۔ مگر چند ہی پشتوں کے بعد لوگوں نے اپنے خالق اور مالک کے خلاف پھر بغاوت کی اور اپنے ہی منصوبوں اور تصورات کی پیروی کرنے لگے۔ مثال کے طور پر خدا نے انسانوں کو حکم دیا تھا کہ ”پھلو (بارور ہو) اور بڑھو اور زمین کو معمور کرو“ (پیدائش ١: ٢٨ ؛ ٩: ١)۔ لیکن انسانوں نے کیا کرنے کا فیصلہ کیا؟ اُنہوں نے اِس کے بالکل اُلٹ کرنے کا فیصلہ کیا:

” ۔۔۔ پھر وہ کہنے لگے کہ آؤ ہم اپنے واسطے ایک شہر اور ایک بُرج جس کی چوٹی آسمان تک پہنچے بنائیں اور یہاں اپنا نام کریں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم تمام روۓ زمین پر پراگندہ ہو جائیں“ (پیدائش ١١: ٤)۔

خود پسندی، خود پرستی اور بغاوت کا جذبہ دیکھئے۔ اپنے واسطے خدا کی نیک اور کامل مرضی کی پیروی کرنے کے بجاۓ اُنہوں نے اپنی عقل اور حکمت کی پیروی کرنے اور اپنے نام کی بزرگی کرنے کا منصوبہ بنایا۔ شاید اُنہوں نے سوچا کہ ایسا بُرج بنانے سے ”جس کی چوٹی آسمان تک پہنچے“ ہم کسی دوسرے ممکنہ سیلاب سے بچ جائیں گے۔ وہ اُن مذہب پرست لوگوں کی مانند تھے جو آج بھی اُمید لگاۓ بیٹھے ہیں کہ ہم اپنی کوشش سے خدا کے غضب سے بچ جائیں گے۔

خدا نے انسانوں کے ایک جگہ اکٹھے رہنے کے منصوبے کو باطل کر دیا۔ خدا جانتا تھا کہ اِس منصوبے سے بنی نوع انسان بہت جلد بگڑ جائیں گے اور تباہ ہو جائیں گے۔ یہ بات یاد رکھئے کہ انسانی تاریخ کے اِس مرحلے تک ”تمام زمین پر ایک ہی زبان اور ایک ہی بولی تھی“ (پیدائش ١١: ١ )۔ آئیے، دیکھیں کہ خدا نے کیا کیا۔

”۔۔۔ خداوند نے کہا دیکھو یہ لوگ سب ایک ہیں اور اِن سبھوں کی ایک ہی زبان ہے۔ وہ جو یہ کرنے لگے ہیں تو اب کچھ بھی جس کا وہ ارادہ کریں اُن سے باقی نہ چھوٹے گا۔ سو آؤ ہم وہاں جا کر اُن کی زبان میں اختلاف ڈالیں تاکہ وہ ایک دوسرے کی بات سمجھ نہ سکیں۔ پس خداوند نے اُن کو وہاں سے تمام رویِ زمین میں پراگندہ کیا۔۔۔“ (پیدائش ١١: ٦۔ ٩ )۔

وہ لوگ ایک دوسرے کو اپنی بات سمجھانے کے قابل نہ رہے۔ اِس لئے اُنہوں نے وہ بُرج ادھورا چھوڑ دیا اور ساری دنیا میں پراگندہ ہو گۓ، پھیل  گۓ جیسا کہ شروع سے خدا کا ارادہ تھا۔ اور زبان میں اختلاف کی وجہ سے اُس شہر کا نام بابل ہوا۔ ”بابل“ کا مطلب ہے ”مہمل گفتگو، شور و غوغا“۔

خدا کے منصوبے کو رد کرنے کا نتیجہ ہمیشہ ”ابتری یا اِنتشار“ ہوتا ہے۔

غلط فہم اکثریت

نوح کے زمانے کے لوگوں سے اور جن لوگوں نے بابل کا بُرج بنانے کی کوشش کی اُن سے ایک سبق حاصل ہوتا ہے کہ:

اکثریت غلطی پر تھی۔

اگرچہ گنہگار انسان اِس حقیقت سے مطمئن تھے کہ لاکھوں لوگ دنیا کے بارے میں ہمارے نظریے سے متفق ہیں تو بھی اُن پر خدا کا غضب نازل ہوا۔ آج بھی لوگوں کی ایک بڑی اکثریت سوچتی ہے کہ خدا اور اُس کے بارے میں ہمارا نظریہ درست ہے کیونکہ بہت سے دوسرے لوگ بھی اِسی پر ایمان رکھتے ہیں۔

برطانیہ کے ایک آدمی نے یہ ای میل بھیجی:

ای میل

”اگر آپ دوزخ سے بچنا چاہتے ہیں تو دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلتے ہوۓ دین کو اختیار کریں۔“

اگر تیزی سے ترقی کرنا یا تعداد میں زیادہ ہونا سچائی کا ثبوت ہے تو پھر قائن کی نسل کے لوگ، نوح کے زمانے کے لوگ اور بابل کے رہنے والے بھی سب سچے تھے__ لیکن وہ سچے نہیں تھے، بالکل غلطی پر تھے۔

”تنگ دروازہ سے داخل ہو کیونکہ وہ دروازہ چوڑا ہے اور وہ راستہ کشادہ ہے جو ہلاکت کو پہنچاتا ہے اور اُس سے داخل ہونے والے بہت ہیں۔ کیونکہ وہ دروازہ تنگ ہے اور وہ راستہ سُکڑا ہے جو زندگی کو پہنچاتا ہے اور اُس کے پانے والے تھوڑے ہیں“ (متی ٧: ١٣، ١٤ )۔

خدا کا نہ رُکنے والا منصوبہ

ہم پھر دنیا کے پہلے خاندان کے بارے میں بیان کی طرف آتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ہابل کے قتل کے بعد کیا ہوا:

”اور آدم پھر اپنی بیوی کے پاس گیا اور اُس کے ایک اَور بیٹا ہوا اور اُس کا نام سیت رکھا اور کہنے لگی کہ خدا نے ہابل کے عوض جس کو قائن نے قتل کیا مجھے دوسرا فرزند دیا۔ اور سیت کے ہاں بھی ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام اُس نے انوس رکھا۔ اُس وقت سے لوگ یہوواہ کا نام لے کر دعا کرنے لگے“(پیدائش ٤: ٢٥ ، ٢٦ )۔

خدا کی خواہش اور منصوبہ یہ تھا کہ ایسے لوگ ہوں جو مجھ پر بھروسا اور توکل رکھیں۔ اِس منصوبے کو روکا نہیں جا سکتا تھا۔

”سیت“ نام کا مطلب ہے ”۔۔۔ کی جگہ مقرر کیا گیا“ یا ”عوضی“۔ حوا نے جان اور سمجھ لیا کہ خدا نے ہابل کے عوض جس کو قائن نے قتل کر دیا تھا میرے لئے ”ایک اور نسل“ مقرر کی ہے۔ اور سیت کی نسل سے ”عورت کی نسل“ پیدا ہو گا جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔

کنواری مریم جو یسوع کی ماں بنی وہ سیت کی نسل سے تھی اور خدا کے وعدہ کے مطابق وہ ابرہام اور داؤد کی نسل سے بھی تھی۔ شیطان خدا کے منصوبے کو خراب کرنے کی سرتوڑ کوششیں کرتا رہا، لیکن خدا کا منصوبہ جو ”بناۓ عالم سے پیشتر“ بن چکا تھا وہ آگے بڑھتا رہا۔

کوئی چیز یا کوئی ہستی اُسے روک نہیں سکتی ، نہ روک سکی۔

یہوواہ کا نام

ہابل کی طرح سیت نے بھی خدا پر اور اُس کے معافی کے طریقے پر توکل کیا  اور ”یہوواہ کا نام لے کر دعا کی“ (پیدائش ٤: ٢٦ )۔ دنیا میں ہر زمانے میں دو قسم کے لوگ ہوتے آۓ ہیں: ایک وہ جو بابل کے لوگوں کی طرح اپنا نام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسرے وہ جو ہابل اور سیت کی طرح یہوواہ پر ایمان رکھتے اور اُس کے نام سے دعا کرتے ہیں۔

بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ خدا کے سو نام ہیں، لیکن ہمیں صرف ننانوے ناموں کا پتا ہے۔ کیا ممکن ہے کہ اُن کی فہرست میں جو نام نہیں ہے یہی ہو کہ ”یہوواہ نجات دیتا ہے“؟

وہ نام کیا ہے؟

ہاں، وہ نام ”یسوع“ ہے!

اُس نام پر اور جو کچھ اُس نے کیا ہے اُس پر توکل نہ کرنا، اُس پر ایمان نہ رکھنا، خدا کی اطاعت سے انکار کرنا ہے، خدا سے سرکشی کرنا ہے۔

آیئے مقدس پولس رسول کی دعا سنیں جو اُس نے اپنے مذہب پرست اور باغی یہودی ہم وطنوں کے لئے مانگی:

” اے بھائیو! میرے دل کی آرزو اور اُن کے لئے خدا سے میری دعا یہ ہے کہ وہ نجات پائیں۔ کیونکہ مَیں اُن کا گواہ ہوں کہ وہ خدا کے بارے میں غیرت تو رکھتے ہیں مگر سمجھ کے ساتھ نہیں، اِس لئے کہ وہ خدا کی راست بازی سے ناواقف ہو کر اور اپنی راست بازی قائم کرنے کی کوشش کر کے خدا کی راست بازی کے تابع نہ ہوۓ کیونکہ ہر ایک ایمان لانے والے کی راست بازی کے لئے مسیح شریعت کا انجام ہے۔۔۔ اگر تُو اپنی زبان سے یسوع کے خداوند ہونے کا اِقرار کرے اور اپنے دل سے ایمان لاۓ کہ خدا نے اُسے مُردوں میں سے جلایا تو نجات پاۓ گا۔۔۔ چنانچہ کتابِ مقدس یہ کہتی ہے کہ جو کوئ اُس پر ایمان لاۓ گا شرمندہ نہ ہو گا۔ کیونکہ یہودیوں اور یونانیوں میں کچھ فرق نہیں، اِس لئے کہ وہی سب کا خداوند ہے اور اپنے سب دعا کرنے والوں کے لئے فیاض ہے۔ کیونکہ جو  خداوند کا نام لے گا نجات پاۓ گا“ (رومیوں ١٠ : ١۔ ٤ ، ٩ ، ١١۔ ١٣  ؛ یوایل ٢: ٣٢ )۔

نالائق یا لائق؟

فرض کریں کہ مَیں آپ کے نام دس لاکھ روپے کا بینک کا چیک لکھتا ہوں۔ یہ چیک بہت اچھا لگے گا، لیکن بے کار ہو گا۔ کیوں؟

بینک میں میرے کھاتے میں اِتنی رقم ہی نہیں ہے۔

لیکن اگر دنیا کا امیر ترین آدمی جس کا بینک میں کھاتہ ہے وہ آپ کے نام دس لاکھ روپے کا چیک لکھے تو کیا ہو گا؟

کوئی مشکل، کوئی مسئلہ نہیں۔ اِس کے عوض پوری رقم ادا ہو گی!

جس بینک نے میرے نام کا چیک رد کیا، وہی بینک دولت مند آدمی کے نام کا چیک قبول کرے گا اور پوری رقم ادا کر دے گا!

ہماری دنیا ایسے انساںوں سے بھری پڑی ہے جو بہت سے ںاموں سے خدا کے پاس آنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن پاک خدا کے نزدیک جس نے اپنے بیٹے کو بھیجا کہ گناہ کا قرض چکا دے یہ نام لینے والے نالائق اور نااہل ہیں کیونکہ سچے دل سے نہیں لیتے۔ وہ گناہ آلود ہیں۔

جس طرح بینک میرے نام کے دس لاکھ روپے کے چیک کی ادائیگی نہیں کرے گا اُسی طرح خدا سواۓ یسوع کے نام سے اَور کسی نام سے معافی نہیں بخشے گا۔

”۔۔۔ کسی دوسرے کے وسیلہ سے نجات نہیں کیونکہ آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا جس کے وسیلہ سے ہم نجات پا سکیں“(اعمال ٤: ١٢ )۔

کیا آپ  چاہتے ہیں کہ خدا کی حساب کی کتاب سے آپ کے نام گناہ کا قرض مٹا دیا جاۓ اور خدا کی راست بازی کی دولت وہاں لکھ دی جاۓ؟ کیا آپ گناہ کی لعنت پر غالب آنا اور ابد تک اپنے خالق کے ساتھ گہری رفاقت سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں؟

تو ایک ہی نام کافی ہے۔

”جو کوئی خداوند کا نام لے گا نجات پاۓ گا“ (یوایل ٢: ٣١ )۔

”خداوند یسوع پر ایمان لا تو تُو اور تیرا گھرانا نجات پاۓ گا۔“ (اعمال ١٦ : ٣١ )

کیا آپ دل سے ایمان رکھتے ہیں کہ خداوند یسوع مسیح نے آپ کے گناہ کی سزا اُٹھانے کی خاطر دُکھ سہا، وہ مر گیا اور جی اُٹھا؟ تو ”آپ نجات پائیں گے۔“

صرف دو مذہب

ہم نے یہ سفر اِس مشاہدے کے ساتھ شروع کیا تھا کہ اِس دنیا میں دس ہزار سے زیادہ مذہب ہیں۔

حقیقت میں صرف دو ہی مذہب ہیں۔

  • ایک انسانی طریقہ ہے جو کہتا ہے کہ تم اپنے آپ کو بچاؤ۔
  • دوسرا خدا کا منصوبہ ہے جو کہتا ہے کہ تمہیں ایک نجات دہندے کی ضرورت ہے۔

جب تک آپ اپنے  آپ کو بچانے کی خود کوشش کرتے رہیں گے تو کوئی بھی مذہب اور کوئی بھی نام کافی ہو گا۔ لیکن ایک دفعہ جان اور مان لیں گے کہ آپ کو ایک نجات دہندے کی ضرورت ہے تو پھر صرف ایک ہی نام درکار ہو گا۔

اور وہ نام ہے ”یسوع“۔

”اِس شخص کی سب نبی گواہی دیتے ہیں کہ جو کوئی اُس پر ایمان لاۓ گا اُس کے نام سے گناہوں کی معافی حاصل کرے گا“ (اعمال ١٠ : ٤٣ )۔