۱۱
گناہ کا داخلہ

داؤد بادشاہ کہتا ہے:

” اے میری جان! خداوند کو مبارک کہہ اور اُس کی کسی نعمت کو فراموش نہ کر ... اے خداوندکے فرشتو! اُس کو مبارک کہو۔ تم جو زور میں بڑھ کر ہو اور اُس کے کلام کی آواز سن کر اُس پر عمل کرتے ہو۔ اے خداوند کے لشکرو! سب اُس کو مبارک کہو۔ تم جو اُس کے خادم ہو اور اُس کی مرضی بجا لاتے ہو۔ اے خداوند کی مخلوقات! سب اُس کو مبارک کہو، تم جو اُس کے تسلط کے سب مقاموں میں ہو... “ (زبور ١٠٣ : ٢، ٢٠ ۔ ٢٢ )۔

انسانوں کو بنانے سے پہلے خدا نے روحانی ہستیوں کا بے شمار لشکر خلق کیا تھا جنہیں ” فرشتے “ کہا جاتا ہے۔ خدا نے اُنہیں اپنی حمدوستائش کرنے کے لئے بنایا تھا۔ یہ سب اُس کے ” آسمانی لشکر “ ہیں۔ وہ اِس مقصد سے بنائے گئے کہ اپنے خالق اور مالک کو جانیں، اُس سے شادمان ہوں، ہمیشہ تک اُس کی خدمت اور عبادت کریں اور اُس کی ستائش کریں۔ خدا نے فرشتوں کو اِس لئے خلق نہیں کیا کہ وہ جانوروں کی طرح ہوں جو اپنی جبلت کے مطابق سب کچھ کرتے ہیں۔ جیسے انسانوں کو ویسے ہی فرشتوں کو بھی خدا نے اخلاقی ذمہ داری کا احساس بخشا کہ وہ اپنے لئے فیصلہ کریں کہ ہم خدا کے حکم کی تعمیل کریں گے یا نہیں، اُس کی مرضی بجا لائیں گے یا نہیں اور اُس کی حمد و ستائش کریں گے یا نہیں۔

روشن ہستی

سب سے طاقتور اور معزز روحانی ہستی کا نام ” لوسیفر “ تھا۔  اِس نام کا مطلب ہے ” روشن یا چمک دار۔ “ اِس چمک دار فرشتے کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ ” خاتم الکمال، دانش سے معمور اور حسن میں کامل ہے “(حزقی ایل ٢٨ : ١٢ )۔ اور یہ بھی کہ ” اے صبح کے روشن ستارے تُو کیونکر آسمان پر سے گر پڑا! اےقوموں کو پست کرنے والے تُو کیونکر زمین پر پٹکا گیا؟ “ (یسعیاہ ١٤ : ١٢ )۔

عبرانی متن میں یہ نام ” لوسیفر “ جس کا مطلب ہے ” روشنی کا حامل “ موجود نہیں ہے۔ یہ عبرانی زبان کے لفظ ” ہلیل “ ( helel ) کا لاطینی میں ترجمہ ہے جس کا مطلب ہے ” چمک دار ہستی “ ۔ یسعیاہ باب ١٤ اور حزقی ایل باب ٢٨ دہری وضاحت کے اصول کی مثال پیش کرتے ہیں۔ سطحی طور پر تو یہ عبارتیں دنیاوی بادشاہوں کا بیان کرتی ہیں۔ یسعیاہ کا اشارہ ” بابل کے بادشاہ “ کی  طرف ہے اور حزقی ایل ” صور کے حکمران “ کی بات کرتا ہے۔ تاہم دونوں عبارتوں میں ایسے بیانات موجود ہیں جن کا اطلاق محض انسانوں پر نہیں ہو سکتا۔ انہیں پاک کلام کے دوسرے حوالوں کی روشنی میں دیکھا جائے (لوقا ١٠ : ١٨ ؛ ایوب ١: ٦ ۔ ١٢ ؛ مکاشفہ ١٢ : ١٠ ؛ ١۔پطرس ٥ : ٨ وغیرہ) تو واضح ہو جاتا ہے کہ یہ عبارتیں شیطان کے تنزل یعنی گرائے جانے کی تفصیل بیان کرتی ہیں، جس نے اِن شریر بادشاہوں کو اُکسایا اور اُبھارا۔

خدا  نے پوری تفصیل تو ظاہر نہیں کی مگر یہ معلوم ہو گیا ہے کہ شرارت، بُرائی یا گناہ اور ادھورا پن اِسی شاندار ملکوتی ہستی (فرشتہ) کے ذریعے سے کائنات میں داخل ہوا تھا۔

خدا لوسیفر کے بارے میں کہتا ہے:

        ” تُو اپنی پیدائش ہی کے روز سے اپنی راہ و رسم میں کامل تھا جب تک کہ تجھ میں ناراستی نہ پائی گئی ... تیرا دل تیرے حسن پر گھمنڈ کرتا تھا ... “ (حزقی ایل ٢٨ : ١٥ ، ١٧ )۔ ” تُو تو اپنے دل میں کہتا تھا

مَیں آسمان پر چڑھ جاؤں گا۔

مَیں اپنے تخت کو خدا کے ستاروں سے بھی اونچا کروں گا اور

مَیں شمالی اطراف میں جماعت کے پہاڑ پر بیٹھوں گا۔

مَیں بادلوں سے بھی اوپر چڑھ جاؤں گا۔

مَیں خدا تعالی' کی مانند ہوں گا “ (یسعیاہ ١٤ : ١٣ ،١٤ )۔

خدا کی حمد و ستائش اور فرماں برداری کرنے کی بجاۓ لوسیفر نے پانچ بار کہا ” مَیں ... گا۔ “ وہ خدا تعالی' کی مانند ہونا چاہتا تھا۔

اُس کے حسن و جمال اور ذہانت اور عقل نے اُسے اندھا کر دیا۔ وہ بھول گیا کہ جو کچھ میرے پاس ہے وہ سب کچھ دینے والا ” کون “ ہے۔ یہ فرشتہ خود فریبی میں مبتلا ہو کر سوچنے لگا کہ مَیں خدا سے زیادہ عقل مند ہوں۔ وہ چاہتا تھا کہ فرشتوں کا لشکر خدا کے بجائے میری حمد و ستائش کرے، حالانکہ حمد و ستائش کے لائق  اور اِس کا حق دار صرف خدا ہے۔

لوسیفر نے آسمان کے ایک تہائی فرشتوں کو بھی قائل کر لیا کہ اِس بغاوت میں اُس کے ساتھ شامل ہو جائیں (مکاشفہ ١٢ :٤ )۔

اِس چمک دار (روشن) ہستی نے منصوبہ بنایا کہ خدا کے تسلط کو اُلٹ کر آسمان کے تخت پر خود بیٹھ جاۓ۔

یوں گناہ خدا کی کائنات میں داخل ہو گیا۔

گناہ کیا ہے؟

پاک کلام نے گناہ کا بیان یوں کیا ہے:

  • ” گناہ شرع کی مخالفت ہی ہے “ (١۔یوحنا ٣: ٤)۔
  • ” ہر طرح کی ناراستی گناہ ہے “ (١۔یوحنا ٥: ١٧ )۔
  •   بھلائی کو جاننا ... مگر بھلائی نہ کرنا گناہ ہے۔ (یعقوب ٤: ١٧ )۔
  •   گناہ ہر طرح کا لالچ یعنی بُری خواہشیں پیدا کرتا ہے (رومیوں ٧: ٨ )۔
  • خدا کے جلال سے محروم ہونا گناہ ہے (رومیوں ٣: ٢٣ )۔

” خدا کے جلال “ سے مراد ہے اُس کی کامل پاکیزگی، قدوسیت اور بے نقص کاملیت۔ ” محروم ہونا “ کا مطلب ہے ” نشانہ خطا ہونا، راست بازی کے مطلوبہ معیار تک نہ پہنچنا۔

خدا کی مقدّس ذات اور کامل مرضی کے مطابق زندگی بسر نہ کرنا گناہ ہے۔

جب بھی کوئی ابدی ہستی، کوئی فرشتہ یا انسان، اپنے آپ کو بڑا بناتا ہے اور خدا کو بزرگی دینے اور اُس کی راہ پر چلنے کے بجاۓ ” اپنی راہ کو پھرتا “ ہے (یسعیاہ ٥٣ : ٦) تو یہ گناہ کی خالص اور صاف شکل ہوتی ہے۔

خدا کے بغیر، خدا سے ہٹ کر سوچنا اور عمل کرنا گناہ ہے۔

یہ راستہ تھا جو لوسیفر اور اُس کے حمایتی فرشتوں نے چنا۔ اپنے خالق پر انحصار کرنے کے بجاۓ اُنہوں نے اپنے دل میں غرور کیا اور اپنی ہی راہ کو پھرے۔

” ہر ایک سے جس کے دل میں غرور ہے خداوند کو نفرت ہے۔ یقیناً وہ بے سزا نہ چھوٹے گا “ (امثال ١٦ : ٥ )۔

  نفرت بڑا سخت لفظ ہے۔ اِس کا مطلب گھن، کراہت، حد درجہ کی نفرت، بیزاری، وہ شدید منفی احساس جو خدا کو بت پرستی کے خلاف ہوتا ہے۔ خدا کو خود پرستی سے نفرت ہے۔

خدا کے حضور میں گناہ ایسی بدبو ہے جس سے متلی ہونے لگتی ہے، بالکل اُسی طرح جیسے گلی سڑی لاش کی بدبو آپ کو محسوس ہوتی ہے۔ خدا کو فقط ایک گناہ ایسا ناقابلِ قبول ہوتا ہے جیسے آپ کو اپنی چاۓ کی پیالی میں ایک بوند زہر۔ ہم اپنے گھر میں گلی سڑی لاش یا اپنی چاۓ میں ایک بوند زہر کو برداشت نہیں کر سکتے؟

ایسی چیزیں ہماری طبیعت، ہمارے مزاج، ہماری فطرت کے خلاف ہیں۔

گناہ خدا کی طبیعت اور مزاج کے خلاف ہے۔

” اے خداوند میرے خدا! اے میرے قدوس! کیا تُو ازل سے نہیں ہے؟ ... تیری آنکھیں ایسی پاک ہیں کہ تُو بدی کو دیکھ نہیں سکتا اور کج رفتاری پر نگاہ نہیں کر سکتا... “ (حبقوق ١: ١٢، ١٣ )۔

شیطان، شیاطین (بدروحیں) اور جہنم

چونکہ لوسیفر نے خدا کے جلال پر ڈاکا ڈالنا اور اُس کے اختیار پر غاصبانہ قبضہ کرنا چاہا اِس لئے خدا نے اُسے آسمانوں کے آسمان میں اُس کی جگہ سے نکال دیا۔ اُس کے ساتھ اُن فرشتوں کو بھی نکال دیا جو اُس کا ساتھ دے رہے تھے۔ لوسیفر کا نام بدل کر شیطان رکھ دیا گیا جس کا مطلب ہے ” مخالف “ یا ” حریف “ ۔ اُس کا نام ابلیس بھی ہے جس کا مطلب ہے ” الزام لگانے والا “ ۔ گنہگار فرشتے یعنی جو فرشتے گراۓ گۓ تھے وہ ” بدروحیں “ یا ” شیاطین “ کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ اردو زبان میں یہ نام سیدھا سادہ مفہوم رکھتے ہیں، لیکن اصل زبان یعنی عبرانی میں جو نام استعمال ہوا ہے اُس کے ایک معنی ہیں ” جاننے والے “ ۔

ابلیس اور اُس کے ساتھی شیاطین جانتے ہیں کہ خدا کون ہے اور اُس کے سامنے کانپتے ہیں۔ اِس کے باوجود وہ اُسے نیچا دکھانے اور شکست دینے کی پوری پوری کوشش کرتے رہتے ہیں۔

لیکن وہ ہرگز کامیاب نہ ہوں گے۔

بائبل مقدس نے بتا دیا ہے کہ خدا نے ایک دن مقرر کر رکھا ہے جب شیطان اور اُس کے ساتھی شیاطین ” ہمیشہ کی آگ میں “ ڈالے جائیں گے جو ” اِبلیس اور اُس کے فرشتوں کے لئے تیار کی گئی ہے “ (متی ٢٥ : ٤١ )۔ یہ ” ہمیشہ کی آگ “ ایک اصلی جگہ ہے جہاں خدا اُن ساری چیزوں کو جو اُس کی پاک ذات کے ساتھ موافقت نہیں رکھتیں ہمیشہ کے لئے بند کر دے گا۔

نئے عہدنامے میں یونانی زبان کا ایک لفظ ہے جو سزا کی اُس جگہ کا بیان کرتا ہے جہاں شیطان کا ساتھ دینے والوں کو ڈال دیا جائے گا۔ یہ لفظ ہے جی ہِنّا ( gehenna )  جس کا ترجمہ جہنم کہا جاتا ہے (متی ٥: ٢٩ ؛ ١٠ : ٢٨ ؛ ٢٣ : ٣٣ ؛ مرقس ٩ : ٤٣ ۔ ٤٥ )۔ اِس لفظ کے لغوی معنی ہیں ” کوڑے کا جلتا ہوا ڈھیر۔ “

سینیگال میں ہماری رہائش گاہ کے قریب ہی کوڑا کرکٹ پھینکنے کی جگہ تھی۔ وہاں کوڑے کا ڈھیر اکثر سُلگتا اور جلتا رہتا تھا کیونکہ آس پاس رہنے والے لوگ بدبو اور تعفن سے بچنے کے لئے آگ لگا دیتے تھے کہ سب کچھ جل جائے۔ ہر نکمی اور بے کار چیز آگ میں پھینک دی جاتی تھی۔

” جہنم “ خدا کی کوڑا کرکٹ پھینکنے کی جگہ ہے۔ خدا نے اُن مُردوں کو جو اپنے گناہوں میں مرتے ہیں فی الحال وہاں رکھا ہوا ہے۔ وہ دن آنے والا ہے جب شیطان، اُس کے شیاطین (فرشتے) اور جہنم میں رکھے ہوئے سب لوگ عذاب کی آخری جگہ میں ڈالے جائیں گے۔ یہ جگہ ہے ” آگ اور گندھک کی جھیل “ (مکاشفہ ٢٠ : ١٠ ۔١٥ )۔

گناہ  خدا کی کائنات کو ہمیشہ تک خراب اور گندہ نہیں کرتا رہے گا۔

شیطان کا نصب العین

شیطان اور اُس کے شیاطین (بدروحیں) فی الحال آگ کی جھیل میں نہیں ہیں، بلکہ وہ اِس دنیا میں اپنا کام کرنے میں مصروف ہیں۔ بائبل مقدس شیطان کا بیان یوں کرتی ہے کہ وہ ” ہوا کی عمل داری کا حاکم ہے۔ “ وہ ایک ” روح ہے جو اَب نافرمانی کے فرزندوں میں تاثیر کرتی ہے “ (افسیوں ٢:٢)۔

یہ بات سمجھنا اور یاد رکھنا ضروری ہے کہ شیطان اگرچہ طاقتور ہے، لیکن وہ لامحدود طاقت نہیں رکھتا۔ وہ مخلوق ہستی اور مزید یہ کہ وہ برگشتہ ہے۔ شیطان کا خداوند خدا سے کوئ مقابلہ نہیں۔ شیطان کو ” اِس جہان کا خدا “ کہا گیا ہے۔ اُس کا نصب العین یہ ہے کہ لوگوں کو واحد حقیقی خدا کو جاننے سے روکے اور وہ مقصد پورا نہ کرنے دے جس کے لئے وہ خلق کئے گئے ہیں۔

” اگر ہماری خوش خبری (نجات کے لئے خدا کی اچھی خبر) پر پردہ پڑا ہے تو ہلاک ہونے والوں ہی کے واسطے پڑا ہے، یعنی اُن بے ایمانوں کے واسطے جن کی عقلوں کو اِس جہان کے خدا نے اندھا کر دیا ہے تاکہ مسیح جو خدا کی صورت ہے اُس کے جلال کی خوش خبری کی روشنی اُن پر نہ پڑے “ (٢۔کرنتھیوں ٤: ٣، ٤ )۔

شیطان کا نصب العین کیا ہے؟ وہ عقلوں کو اندھا کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ لوگ خدا کا پیغام سن اور سمجھ نہ سکیں۔ وہ خدا کے خلاف جنگ کر رہا ہے۔ شیطان یہ جنگ جیت نہیں سکتا، مگر وہ پوری کوشش کرتا ہے کہ جتنے لوگوں کو ممکن ہو اپنے ساتھ جہنم میں لے جائے۔ وہ اُمید رکھتا ہے کہ آپ کو بھی اُن میں شامل کر لے گا۔

شیطان جانتا تھا کہ آدم اور حوا کو خدا کا جلال ظاہر کرنے اور خوشی کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ اِس لئے شیطان نے اُس رفاقت کو بگاڑنے اور ختم کرنے کی سازش کی جو خدا اور انسان کے درمیان موجود تھی۔ بے شک خداوند خدا ” دلوں کے بھید جانتا ہے “ (زبور ٤٤ : ٢١ )۔ وہ ابلیس کے سارے منصوبے اور چالوں کو جانتا تھا اور یہ بھی کہ کیا ہونے والا ہے۔

خدا کا اپنا بھی ایک منصوبہ تھا۔

ایک اُصول

خدا نے انسان کو آزادی دی تھی کہ چاہے تو اپنے خالق سے محبت رکھے یا نہ رکھے، اُس کی حمد و ستائش کرے یا نہ کرے، اُس کا حکم مانے یا نہ مانے۔ سچی محبت جبراً نہیں کرائی جا سکتی، نہ مشین کے پُرزے کی طرح پہلے سے دل میں ڈالی جا سکتی ہے۔ محبت میں انسان کی عقل، دل اور مرضی شامل ہوتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ خدا اپنی پوری کائنات کا مطلق العنان بادشاہ ہے، مگر یہ بات بھی درست ہے کہ اُس نے انسان کو ابدی نتائج کی حامل باتوں کے انتخاب کا بھی ذمہ دار بنایا ہے۔

عورت کو پیدا کرنے سے پہلے خدا نے آدم (مرد) کو ایک حکم دیا تھا۔ چونکہ آدم (مرد) کو انسانی نسل کا سردار ہونا تھا اِس لئے خدا نے اُس کے سامنے ایک آزمائش رکھی۔

” ... اور خداوند خدا نے آدم کو حکم دیا اور کہا کہ تُو باغ کے ہر درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے، لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا “ (پیدائش ٢: ١٦ ، ١٧ )۔

غور کریں کہ خدا کی ہدایات بالکل سادہ اور صاف تھیں۔ آدم باغ کے سارے درختوں کے لذیذ پھل بے روک ٹوک کھا سکتا تھا، سوائے ایک درخت کے۔ خدا نے آدم کو بتا دیا کہ نافرمانی کرے گا تو کیا ہو گا، ” جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا۔ “

اِس لکیر، اِس حد سے آگے بڑھنا، اِسے پار کرنا خلاف ورزی ہو گا۔ اِسی کو گناہ کہتے ہیں۔ خلاف ورزی ” گناہ “ کے لئے ایک اَور اصطلاح یا لفظ ہے۔ جہاں تک لوسیفر کا معاملہ ہے، کائنات کے خداوند کے خلاف بغاوت کرنے کے نتائج بہت خطرناک ہوں گے۔

پہلا انسان (آدم) اگرچہ کامل تھا لیکن وہ کامل طور سے بالغ نہ تھا۔ اِس ایک اصول کے ساتھ انسان (آدم) کو موقع دیا گیا کہ اپنے خالق کے ساتھ رفاقت اور رشتے میں ترقی کرے۔ خدا چاہتا تھا کہ آدم ایک شکرگزار اور محبت بھرے دل سے میرا حکم مانے، میری فرماں برداری کرنے کا فیصلہ کرے۔ خدا نے انسان کے لئے جو کچھ کیا تھا اُسے مدنظر رکھتے ہوئے ایسا کرنا، یہ حکم ماننا آسان ہونا چاہئے تھا۔

ذرا غور کریں۔ خدا نے آدم کو بدن، جان اور روح دیئے تھے۔ اُس نے آدم کو یہ برکت دی تھی کہ اپنے خالق کی پاک اور محبت بھری ذات کو منعکس کرے۔ یہ بہت بڑا اعزاز تھا۔ خدا نے اُسے ایک شاندار باغ میں رکھا تھا اور اُسے ہر سہولت فراہم کر دی تھی کہ اُس کی زندگی سراپا خوشی اور آسودگی ہو۔ خدا نے اُسے ذمہ دارانہ انتخاب کرنے کی استعداد اور آزادی بھی عطا کی تھی۔ خدا نے اُسے ایک دلربا اور خوبصورت بیوی بھی دی تھی اور اِس دنیا کی نگہداشت بھی اُن کو سونپ دی تھی۔ سب سے اعلی' بات یہ تھی کہ خدا خود باغ میں آتا تھا اور آدم اور حوا کے ساتھ سیر کرتا اور باتیں کرتا تھا۔ خدا نے اُنہیں موقع دیا تھا کہ اپنے خالق اور مالک کو جانیں — دنیا ہر لحاظ سے کامل تھی۔

پھر ایک دن سانپ نے آ شکل دکھائی۔

” کیا واقعی خدا نے کہا ہے؟ “

پیدائش کی کتاب کے تیسرے باب میں انسانی تاریخ کا سب سے زیادہ المناک اور دُور رس نتائج کا حامل واقعہ درج ہے۔

ایک دن جب آدم اور حوا ممنوعہ درخت کے آس پاس ہی تھے کہ شیطان سانپ کے مکار بھیس میں اُن کو دکھائی دیا۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ شیطان ہی تھا کیونکہ ایک موقعے پر بائبل مقدس نے اُس کی شناخت کرائی ہے ” ...وہ بڑا اژدہا یعنی وہی پرانا سانپ جو ابلیس اور شیطان کہلاتا ہے اور سارے جہان کو گمراہ کر دیتا ہے... “ (مکاشفہ ١٢ : ٩)۔

خدا نے بنی نوع انسان کے لئے ایک منصوبہ بنایا تھا۔ اِسی طرح شیطان نے بھی ایک منصوبہ بنایا۔

” اور سانپ کل دشتی جانوروں سے جن کو خداوند خدا نے بنایا تھا چالاک تھا۔ اور اُس نے عورت سے کہا کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تم نہ کھانا؟ “ (پیدائش ٣: ١)۔

شیطان نے مرد سے نہیں بلکہ عورت سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ کیا آپ نے غور کیا کہ اُس نے عورت سے پہلے کیا بات کہی؟

            ” کیا واقعی خدا نے کہا ہے...؟ “

شیطان چاہتا تھا کہ حوا خدا کی بات کا یقین نہ کرے۔ وہ چاہتا تھا کہ حوا خدا کی حکمت اور اُس کے اختیار پر اعتراض کرے۔ اُس نے حوا کا حوصلہ بڑھایا کہ اپنے خالق کو چیلنج کرے جیسے خود اُسے لوسیفر نے کہا تھا۔ آج تک ابلیس سچائی کے خلاف لڑ رہا ہے کیونکہ سچائی اُس نہتا کر دیتی ہے۔ اُسے غیر معتبر ثابت کرتی ہے اور سچائی سے اُس کی بدنامی اور رُسوائی ہوتی ہے۔ جیسے روشنی تاریکی کو دُور کر دیتی ہے، اُسی طرح خدا کا کلام شیطان کے فریب کو ظاہر اور دُور کر دیتا ہے۔

شیطان نے حوا کے دل میں خدا کی بھلائی اور نیکی کے بارے میں شک پیدا کر کے خدا کی ذات اور صفات پر بھی حملہ کیا۔

            ” کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تم نہ کھانا؟ “

شیطان نے خدا کی بات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا۔ خدا کی بات کا مطلب بدل دیا۔ گویا اُن کا فراخ دل اور فیاض خالق جس نے اُنہیں زندگی دی اور سوائے ایک درخت کے سارے درختوں کے پھل کھانے کی آزادی دی وہ اُنہیں قطعی اور انتہائی بھلائی سے محروم رکھنا چاہتا ہے۔

” تم ہرگز نہ مرو گے! “

” عورت نے سانپ سے کہا کہ باغ کے درختوں کا پھل تو ہم کھاتے ہیں، پر جو درخت باغ کے بیچ میں ہے اُس کے پھل کی بابت خدا نے کہا ہے کہ تم نہ تو اُسے کھانا اور نہ چھونا ورنہ مر جاؤ گے۔ “

” تب سانپ نے عورت سے کہا کہ تم ہرگز نہ مرو گے، بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تم اُسے کھاؤ گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جاؤ گے “ (پیدائش ٣: ٢۔ ٥)۔

شیطان چاہتا تھا کہ حوا صرف خدا کی بات پر  ہی شک نہ کرے بلکہ خدا کی راستی پر بھی شک کرے اور سوچے کہ اگر مَیں نے ممنوعہ پھل کھا لیا تو خدا واقعی سزائے موت نہیں دے دے گا۔

خدا نے تو بالکل واضح کر دیا تھا:

” جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا! “ (پیدائش ٢: ١٧ )

شیطان نے اُس کی تردید کی اور کہا ” تم ہرگز نہ مرو گے۔ “

شیطان کا بنیادی طریقہ کار نہیں بدلا ہے۔ وہ خدا کے پیغام کو توڑتا مروڑتا اور اِس کی تردید کرتا رہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم خدا کے کلام، اُس کی بھلائی اور راستی پر شک کریں۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم خدا کا بالکل اعتبار نہ کریں، اور سمجھیں کہ خدا وہ ہے ہی نہیں جو ہونے کا دعوی' کرتا ہے۔

نہایت مذہب پرست ابلیس

شیطان کو دین دار یا مذہب پرست بننا بہت پسند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں دس ہزار سے زیادہ مختلف مذاہب ہیں۔ غور کریں کہ شیطان خدا کی طرف سے بولنے کا کیسا فریب کرتا ہے اور حوا سے کہتا ہے ” خدا جانتا ہے کہ جس دن تم اُسے کھاؤ گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی۔ “

شیطان خدا کا بہروپ بھرنا بھی بہت پسند کرتا ہے۔ وہ خدا کی سچائی میں اپنے جھوٹ کی ملاوٹ کرنے کا ماہر ہے۔ وہ زبردست جعل ساز، بہروپیا اور نقال ہے۔ اِس دنیا میں جو نہایت بے تکے اور اُوٹ پٹانگ عقیدے یا مذہبی نظام ہیں اُن میں بھی سچائی کا تھوڑا سا رنگ موجود ہے، اِسی لئے تو لوگ اُن پر ایمان لے آتے ہیں۔ ہم عربی کی ضرب المثل پھر یاد دلاتے ہیں، ” خبردار بعض جھوٹے بھی سچ بولتے ہیں۔ “

ایک جعلی مذہب شروع کرنے کی اپںی پہلی کوشش میں شیطان نے حوا سے کہا ” تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جاؤ گے “ تو اُس نے جھوٹ بولا کیونکہ جو کوئی گناہ کرتا ہے وہ خدا کی مانند نہیں بلکہ شیطان کی مانند بن جاتا ہے جو خدا کے اختیار کو غصب کرنا چاہتا ہے۔ البتہ جب شیطان نے کہا ” تم نیک و بد کو جاننے والے بن جاؤ گے “ تو یہ سچ بولا، لیکن اُس نے اُنہیں اُس تلخی، دکھ اور موت کے بارے میں نہ بتایا جو اِس علم کے ساتھ ساتھ آئیں گے۔

غور کریں کہ شیطان نے ” خداوند “ کے بارے میں بات کرتے ہوئے خدا کا اصل یا ذاتی نام استعمال کیا۔ شیطان اِس بات سے بہت راضی رہتا ہے کہ آپ واحد خدا پر ایمان تو رکھیں، لیکن اُسے کہیں دُور اور ناقابلِ ادراک مانیں۔

” تُو اِس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ خدا ایک ہی ہے۔ خیر، اچھا کرتا ہے۔ شیاطین بھی ایمان رکھتے اور تھرتھراتے ہیں “ (یعقوب ٢: ١٩ )۔

ابلیس اور اُس کے شیاطین (فرشتے) سب توحید پرست ہیں اور قادرِ مطلق خدا کے حضور تھرتھراتے ہیں۔ اِس نکتے پر تفصیلی بات چند ابواب کے بعد ہو گی اور آپ ہکا بکا رہ جائیں گے۔ شیطان اور برگشتہ فرشتے جانتے ہیں کہ حقیقی خدا صرف ایک ہی ہے، لیکن، وائے افسوس کہ اُس سے سخت عداوت رکھتے اور نفرت کرتے ہیں!

وہ نہیں چاہتے کہ آپ اپنے خالق مالک کو جانیں، اُس سے محبت رکھیں، اُسے سجدہ کریں، اُس کی عبادت کریں اور اُس کی فرماں برداری کریں۔

فیصلہ

اب وہ لمحہ آ گیا تھا کہ آدم اور حوا فیصلہ کریں کہ ہم اپنے محبت کرنے والے خداوند کی بات مانیں یا اپنے سب سے بڑے اور جانی دشمن کی بات مانیں۔

فتح پانے کا گُر تو سامنے تھا — خالق کی حکمت پر اعتماد کریں۔ کیسا آسان! آدم اور حوا کو صرف اِتنا ہی کرنا تھا کہ اپنے خدا کے الہامی اور بے خطا کلام کو دہرا دیتے اور کہتے ” خداوند خدا نے ہمیں حکم دیا ہے 'تُو ... نیک و بد کی پہچان کے درخت کا (پھل) کبھی نہ کھانا'۔ ہم اِس کا پھل نہیں کھائیں گے۔ “ بس!

آدم اور حوا اپنے خدا کی بے تبدیل بات — بے تبدیل کلام — پر ثابت قدم رہتے تو آزمانے والا بھاگ جاتا۔ لیکن اُنہوں نے ایسا نہ کیا۔

” عورت نے جو دیکھا کہ وہ درخت کھانے کے لئے اچھا ہے اور آنکھوں کو خوش نما معلوم ہوتا ہے اور عقل بخشنے کے لئے خوب ہے تو اُس کے پھل میں سے لیا اور کھایا اور اپنے شوہر کو بھی دیا “ (پیدائش ٣: ٦)۔

            عورت نے کھایا — مرد نے کھایا۔

اپنے پاک اور محبت کرنے والے خالق کی مرضی اور حکم کی اطاعت کرنے کے بجاۓ اُنہوں نے خدا کے دشمن کی اطاعت کی۔ وہ خلاف ورزی کر کے ممنوعہ علاقے میں چلے گۓ۔

آدم نے ممنوعہ پھل چکھا تو نتائج فوراً سامنے آ گۓ۔

” تب دونوں کی آنکھیں کھل گئیں اور اُن کو معلوم ہوا کہ وہ ننگے ہیں اور اُنہوں نے انجیر کے پتوں کو سی کر اپنے لئے لنگیاں بنائیں۔ اور اُنہوں نے خداوند خدا کی آواز جو ٹھنڈے وقت باغ میں پھرتا تھا سنی۔ اور آدم اور اُس کی بیوی نے آپ کو خداوند خدا کے حضور سے باغ کے درختوں میں چھپایا “ (پیدائش ٣: ٧ ، ٨)۔

اب فرق ملاحظہ کریں۔ جب خداوند اُن سے ملنے آیا تو خوش ہونے کے بجائے اُن پر خوف اور شرمندگی طاری ہو گئی۔

یہ انسان جو خدا سے گہرا تعلق اور بے تکلف رفاقت رکھتے تھے کس بات نے اُنہیں مجبور کیا کہ اپنے محبت کرنے والے خداوند سے دُور بھاگیں؟ اُنہوں نے کیوں سوچا اور تصور کیا کہ ہم اپنے سب کچھ دیکھنے والے خالق سے چھپ سکتے ہیں؟ ہمارے پہلے والدین نے کیوں محسوس کیا کہ ہمیں اپنے بدنوں کو پتوں سے ڈھانپنے اور چھپانے کی ضرورت ہے؟

اُنہوں نے گناہ کیا تھا۔