۲۵
موت کی شکست

آدم کے بارے میں پاک کلام کہتا ہے”۔۔۔ اور تب وہ مرا“ (پیدائش ٥:٥)۔ اور اِس بیان کے ساتھ ہی اِس دنیا میں آدم کی کہانی ختم ہو جاتی ہے۔

آدم کی اولاد کا حال بھی اُس سے فرق نہیں۔ پیدائش کی کتاب کے پانچویں باب میں اُن کے یاد گار کتبے درج ہیں:

” ۔۔۔ تب وہ مرا — آیت ٨

۔۔۔ تب وہ مرا — آیت ١١

۔۔۔ تب وہ مرا — آیت ١٤

۔۔۔ تب وہ مرا — آیت ١٧

۔۔۔ تب وہ مرا — آیت ٢٠“

یہ ہے گناہ سے متاثر مردوں اور عورتوں کی تاریخ — جیتے رہے، مر گۓ اور دفن کۓ گۓ، نسل در نسل، صدی در صدی۔

لیکن مسایاح کی تاریخ قبر میں ختم نہیں ہوتی۔

خالی قبر

”اور سبت کے بعد ہفتہ کے پہلےدن  پو پھٹتے وقت مریم مگدلینی اور دوسری مریم قبر کو دیکھنے آئیں۔ اور دیکھو ایک بڑا بھونچال آیا، کیونکہ خداوند کا فرشتہ آسمان سے اُترا اور پاس آ کر پتھر  کو لڑھکا دیا اور اُ س پر بیٹھ گیا۔ اُس کی صورت بجلی کی مانند تھی اور اُس کی پوشاک برف کی مانند سفید تھی۔ اور اُس کے ڈر سے نگہبان کانپ اُٹھے اور مُردہ سے ہو گئے۔ فرشتہ نے عورتوں سے کہا تم نہ ڈرو۔ کیونکہ مَیں جانتا ہوں کہ تم یسوع کو ڈھونڈتی ہو جو مصلوب ہوا تھا۔ وہ یہاں نہیں ہے کیونکہ اپنے کہنے کے مطابق جی اُٹھا ہے۔ آؤ یہ جگہ دیکھو جہاں خداوند پڑا تھا اور جا کر اُس کے شاگردوں سے کہو کہ وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے اور دیکھو وہ تم سے پہلے گلیل کو جاتا ہے۔ وہاں تم اُسے دیکھو گے۔ دیکھو مَیں نے تم سے کہہ دیا ہے۔ اور وہ خوف اور بڑی خوشی کے ساتھ قبر سے روانہ ہو کر اُس کے شاگردوں کو خبر دینے دوڑیں۔ اور دیکھو یسوع اُن سے ملا اور اُس نے کہا سلام۔ اُنہوں نے پاس آ کر اُس کے قدم پکڑے اور اُسے سجدہ کیا۔ اِس پر یسوع نے اُن سے کہا ڈرو نہیں۔ جاؤ میرے بھائیوں کو خبر دو تاکہ گلیل کو چلے جائیں، وہاں مجھے دیکھیں گے“ (متی ٢٨ : ١۔ ١٠ )۔

موت مسایاح کو اپنے قبضے میں نہ رکھ سکی۔ چونکہ اُس کا اپنا کوئ گناہ نہ تھا اِس لئے خدا نے اُسے مُردوں میں سے زندہ کر دیا۔ اُس نے نہ صرف دنیا کے گناہ کی سزا بھگتی بلکہ اُس سزا پر غالب بھی آیا۔ اُس نے موت کو فتح کر لیا۔

شیطان اور اُس کی بدروحیں (شیاطین) کانپ اُٹھے ہوں گے۔

مذہبی راہنما غصے سے بدحواس ہو رہے تھے۔

”جب وہ (عورتیں جنہوں نے ابھی ابھی اپنے جی اُٹھے خداوند کو دیکھا تھا) جا رہی تھیں تو دیکھو پہرے والوں میں سے بعض نے آ کر تمام ماجرا سردار کاہنوں سے بیان کیا، اور اُنہوں نے بزرگوں کے ساتھ جمع ہو کر فیصلہ کیا اور سپاہیوں کو بہت سا روپیہ دے کر کہا یہ کہہ دینا کہ رات کو جب ہم سو رہے تھے تو اُس کے شاگرد آ کر اُسے چرا لے گئے۔ اور اگر یہ بات حاکم کے کان تک پہنچی تو ہم اُسے سمجھا کر تم کو خطرہ سے بچا لیں گے۔ پس اُنہوں نے روپیہ لے کر جیسا سکھایا گیا تھا ویسا ہی کیا اور یہ بات آج تک یہودیوں میں مشہور ہے“(متی ٢٨ : ١١۔ ١٥ )۔

یسوع کے دشمن جانتے تھے کہ قبر خالی ہے۔ وہ سچائی کو چھپانے کی سر توڑ کوشش کرنے لگے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ لوگوں کو خبر ہو کہ جس شخص کو ہم نے قتل کیا تھا وہ جی اُٹھا ہے۔

موت کی شکست

باغِ عدن میں خدا نے آدم کو خبردار کیا تھا کہ اگر تم نے اپنے خالق کا ایک حکم توڑا تو تُو ضرور مر جاۓ گا۔ شیطان نے اِس کا توڑ کرتے ہوۓ کہا تھا ”تم ہرگز نہ مرو گے!“ اور اُس نے آدم اور اُس کی ساری نسل کو موت، تباہی اور ہلاکت کی راہ پر ڈال دیا۔ ہزاروں سال سے موت مردوں، عورتوں اور بچوں کو اپنے بے رحم چنگل میں جکڑے ہوۓ تھی۔ خدا کے بیٹے نے موت کو للکارا، اُسے چیلنج کیا، اُسے شکست دی اور ابدی زندگی کا دروازہ کھول دیا۔

”۔۔۔ جیسے آدم میں سب مرتے ہیں ویسے ہی سب مسیح میں زندہ کۓ جائیں گے“ (١۔کرنتھیوں ١٥ : ٢٢ )۔

ابھی کل کی بات ہے کہ ہماری ایک عمر رسیدہ پڑوسن کہہ رہی تھی۔ مَیں زندگی میں ایک چیز سے ڈرتی ہوں اور وہ ہے موت۔ مَیں یہ موقع ملنے پر بہت خوش ہوا اور اُسے اُس ازلی و ابدی ہستی کے بارے میں بتایا جو موت میں سے گزرا اور زندہ ہوا اور دہشت ناک دشمن پر فتح پائی۔

”پس جس صورت میں کہ لڑکے خون اور گوشت میں شریک ہیں تو وہ خود بھی اُن کی طرح اُن میں شریک ہوا تاکہ موت کے وسیلہ سے اُس کو جسے موت پر قدرت حاصل تھی یعنی ابلیس کو تباہ کر دے۔ اور جو عمر بھر موت کے ڈر سے غلامی میں گرفتار رہے اُنہیں چھڑا لے“ (عبرانیوں ٢: ١٤ ۔ ١٥ )۔

فرض کریں کہ یسوع ہمارے گناہوں کی خاطر مر جاتا، لیکن مُردوں میں سے جی نہ اُٹھتا۔ پھر تو موت اَور بھی زیادہ ہولناک اور ڈراؤنی چیزہوتی۔

موت پر فتح پانے سے یسوع نے ثابت کر دیا کہ مَیں شیطان کے سب سے بڑے ہتھیار سے اور انسان کے سب سے زیادہ ہولناک اور ڈراؤنے دشمن سے بھی بڑا ہوں۔ چونکہ یسوع موت پر فتح مند ہوا اِس لۓ جو اُس پر ایمان رکھتے ہیں اُنہیں نہ اِس زندگی میں کسی چیز کا ڈر ہے نہ اگلی زندگی میں۔

خدا کا پیغام بے لاگ اور صاف ہے۔ اگر آپ اُس کے بیٹے پر ایمان رکھتے ہیں جس نے آپ کا عوضی ہو کر صلیب پر دکھ اُٹھایا، مر گیا، عالمِ اَرواح میں اُتر گیا اور تیسرے دن مُردوں میں سے جی اُٹھا تو وہ آپ کو گناہ کے پھندے سے رہائی دلاۓ گا اور ہمیشہ کی زندگی دے گا۔

یہ ساری دنیا کے لۓ پیغام ہے جو گناہ کی قید میں ہے:

”۔۔۔ مسیح کتابِ مقدس کے مطابق ہمارے گناہوں کے لئے موا اور دفن ہوا اور تیسرے دن کتابِ مقدس کے مطابق جی اُٹھا“ (١۔کرنتھیوں ١٥ : ٣، ٤)۔

مسیح یسوع سب ایمان لانے والوں سے کہتا ہے:

”چونکہ مَیں جیتا ہوں تم بھی جیتے رہو گے ۔۔۔ خوف نہ کر۔ مَیں اوّل اور آخر اور زندہ ہوں۔ مَیں مر گیا تھا اور دیکھو، ابدلآباد زندہ رہوں گا۔ اور موت اور عالمِ اَرواح کی کنجیاں میرے پاس ہیں“ (یوحنا ١٤ : ١٩ ؛ مکاشفہ ١: ١٧ ، ١٨ )۔

شیطان کو شکست

جب یسوع موت کی قلمرو میں داخل ہوا اور تیسرے دن باہر نکل آیا، تو جنگی اِصطلاحات کے مطابق اُس نے میدان مار لیا اور برتر جگہ پر کھڑا ہو گیا جہاں سے کبھی نہیں ہٹے گا۔ شیطان ایک شکست خوردہ دشمن ہے۔ وہ اور اُس کے شیطان بے جگری سے لڑتے رہیں لیکن ہرگز جیت نہیں سکتے۔

کیا آپ نے دیکھا کہ خدا نے وہ پیش گوئی کیسے پوری کی جس کا اعلان اُس نے باغِ عدن میں اُس دن کیا تھا جب آدم اور حوا نے گناہ کیا تھا؟ اُس نے وعدہ کیا تھا کہ عورت کی نسل (یسوع) کو سانپ (شیطان) نے زخمی کیا ہے، مگر یہی زخم شیطان کے حشر پر مہر ہیں۔

”خدا کا بیٹا اِسی لۓ ظاہر ہوا تھا کہ ابلیس کے کاموں کو مٹاۓ“ (١۔یوحنا ٣: ٨ )۔

اپنی موت، دفن اور جی اُٹھنے سے یسوع نے گناہ کی لعنت پر فتح پائ جو کہتی تھی۔

”تُو خاک ہے اور خاک میں پھر لوٹ جاۓ گا“ (پیدائش ٣: ١٩ )۔

ہزاروں سال سے موت کا بدبودار عمل آدم کی اولاد کو گلا سڑا کر خاک میں ملا رہا تھا۔ لیکن اب ایک ہستی آ گئی جس کا بدن لوٹ کر خاک میں نہیں ملا۔

اُس کا جسم قبر میں کیوں نہ سڑا؟

موت کا اُس پر  کوئی اختیار نہ تھا کیونکہ وہ بے گناہ تھا۔ کوئی ایک ہزار سال پہلے داؤد نبی نے کہہ دیا تھا،

”تُو نہ میری جان کو پاتال میں رہنے دے گا، نہ اپنے مقدّس کو سڑنے دے گا“ (زبور  ١٦ : ١٠ )۔

اُس مقدس ہستی نے — ہمارے لۓ — شیطان اور موت پر فتح پائی۔

شہادتیں

یسوع کے جی اُٹھنے کی شہادتیں بہت سی ہیں اور یقینی ہیں:

(متی باب ٢٨ ، مرقس باب ١٦ ؛ لوقا باب ٢٤ ؛ یوحنا باب ٢٠، ٢١ ؛ ١۔کرنتھیوں باب ١٥ ۔)

قبر خالی تھی۔

لاش کہیں موجود نہ تھی۔

خالی قبر سب سے پہلے عورتوں نے دیکھی، فرشتوں کا اعلان سنا، یسوع کو زندہ دیکھا، اُسے چھوا اور اُس سے باتیں کیں۔ اگر اناجیل کا بیان جھوٹ اور من گھڑت ہوتا تو کیا آپ کے خیال میں چاروں آدمی جنہوں نے یہ روئیداد لکھی وہ ہر بات میں اوّل ہونے کا اعزاز عورتوں کو دیتے؟

جی اُٹھنے کے بعد یسوع کے ظہور  بہت سے ہیں اور اِن کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ آئندہ سالوں میں سینکڑوں معتبر گواہوں نے گواہی دی کہ وہ ہمارے ساتھ چلتا پھرتا رہا اور باتیں کیں۔

انجیل مقدس میں مذکور گواہوں کے علاوہ اَور بھی بہت سے گواہ ہیں۔ ان میں سے بہتوں نے یسوع کے جی اُٹھنے کو مَن گھڑت ثابت کرنے کی کوشش کی، لیکن بالآخر اِس کے ثبوت میں کتابیں لکھیں کیونکہ زبردست شہادتوں سے اِس کی سچائی کے قائل ہو گۓ تھے۔ مثال کے طور پر فرینک موریسن مصنف — پتھر کس نے لڑھکایا؟ ( Who    Moved    the   Stone) ، جوش میکڈوویل، مصنف — شہادت، جو فیصلہ کی متقاضی ہے ( Evidence    that    Demands    a    Verdict ) اور سٹروبل لی، مصنف — مسیح کے حق میں دلیل ( The    Case    for    Christ

یسوع کے شاگردوں نے اُسے دُکھ اُٹھاتے اور مرتے دیکھا تھا۔ وہ دل شکستہ ہو گۓ۔ اُن کی اُمیدیں خاک میں مل گئیں کیونکہ اُنہوں نے غلط سوچا تھا کہ مسایاح کبھی نہیں مرے گا۔ وہ بے دل اور خوف زدہ ہو کر اپنے گھروں کو واپس چلے گۓ۔لیکن پھر ایک عجیب واقعہ ہوا۔ اُنہوں نے یسوع کو زندہ دیکھا         اب اُنہیں یاد آیا کہ یسوع نے ہم سے کہا تھا کہ مَیں مصلوب ہوں گا مگر تیسرے دن جی اُٹھوں گا۔ آخرکار نبیوں کی باتیں اُن کی سمجھ میں آ گئیں۔

یسوع نے صرف یہی نہیں کہا تھا کہ وہ (یسوع) ”تیسرے دن جی اُٹھے گا“ (متی ١٦ : ٢١ )، بلکہ یہ بھی کہا تھا کہ ”جیسے یوناہ تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسے ہی ابنِ آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا“ (متی ١٢ : ٤٠ ) — بہت سے لوگ حجت کرتے اور دلیل دیتے ہیں کہ اگر یسوع کو جمعہ کی شام کو قبر میں رکھا گیا تھا اور صرف اتوار کی صبح تک قبر میں رہا تو یہ پورے دن نہیں بنتے۔ مگر بات یہ ہے کہ جتنا عرصہ یسوع کو قبر میں رہنا تھا وہ سالم اعداد میں بتایا گیا ہے کیونکہ یہودی بول چال کا یہی طریقہ تھا کہ وہ دن کے کسی حصے کو خواہ وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو، پورا دن شمار کرتے تھے (دیکھۓ متی ٢٧ : ٦٣ ، ٦٤ ؛ پیدائش ٤٢ : ١٧، ١٨ ؛ ١۔سموئیل ٣: ١٢، ١٣ ؛ آستر ٤: ١٦ ۔ ٥ : ١)۔

یسوع کی تصلیب اور موت کے بعد اُس کے شاگرد بہت خوف زدہ اور سہمے ہوۓ تھے، مگر اُسے زندہ دیکھنے کے بعد وہ اُس کے دلیر اور نڈر گواہ بن گۓ۔ وہی پطرس جو خوفزدہ اور پریشان تھا، تھوڑے ہی دنوں بعد اُس نے یروشلیم میں اُن کے سامنے نہایت دلیری سے گواہی دی جنہوں نے یسوع کو صلیب پر چڑھانے کی سازش اور تدبیریں کی تھیں:

”۔۔۔ تم نے اُس قدوس ۔۔۔ اور زندگی کے مالک کو قتل کیا جسے خدا نے مُردوں میں سے جلایا۔۔۔ اور اب اے بھائیو! مَیں جانتا ہوں کہ تم نے یہ کام نادانی سے کیا اور ایسا ہی تمہارے سرداروں نے بھی۔ مگر جن باتوں کی خدا نے سب نبیوں کی زبانی پیشتر خبر دی تھی کہ اُس کا مسیح دُکھ اُٹھاۓ گا وہ اُس نے اِسی طرح پوری کیں۔ پس توبہ کرو اور رجوع لاؤ تاکہ تمہارے گناہ مٹاۓ جائیں“ (اعمال ٣: ١٤ ۔ ١٩ )۔

اب یسوع کے شاگردوں کو  اُس کی خاطر جس نے اُنہیں ہمیشہ کی زندگی بخشی کوئی مصیبت اور اذیت برداشت کرنا مشکل نہ رہا۔

مسیح کے شاگردوں کو (جو مسیحی بھی کہلاتے تھے، ہیں) ٹھٹھوں میں اُڑایا جاتا تھا، قید میں ڈالا جاتا تھا، بینت اور کوڑے لگاۓ جاتے تھے۔ بہتوں کو خداوند یسوع کی گواہی دینے کے باعث قتل کیا گیا۔ خود پطرس کو ایذائیں دی گئیں اور تاریخ کے مطابق آخرکار اُسے سر کے بل صلیب دی گئی۔ لیکن پطرس اور دوسرے شاگردوں نے ساری ایذاؤں کو خوشی سے قبول کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہمارے منجی اور خداوند نے موت اور عالمِ اَرواح پر فتح پائی ہے (اعمال ١١: ٢٦ ؛ ٢٦ : ٢٢۔ ٢٨ ؛ ١۔پطرس ٤: ١٦ )۔ وہ جانتے تھے کہ خدا نے ہمیں معافی، راست بازی اور ہمیشہ کی زندگی عطا کی ہے۔ اب اُنہیں موت کا کوئی ڈر نہ تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جس لمحے یہ جسمانی بدن موا ہماری ابدی روح اور جان اُسی لمحے آسمان میں خداوند کے ساتھ ہو گی (٢۔ کرنتھیوں ٥: ٨)۔

اب کوئی چیز، کوئی حالات اُنہیں ڈرا نہیں سکتے تھے۔ اُن کے پاس اِس دنیا کے لئے ایک پیغام تھا۔ اور  یہ پیغام اُنہیں اپنی جانوں سے بھی زیادہ قیمتی تھا۔

”۔۔۔ وہ عدالت سے اِس بات پر خوش ہو کر چلے گۓ کہ ہم اُس کی خاطر بے عزت ہونے کے لائق تو ٹھہرے“ (اعمال ٥: ٤١ )۔

پطرس کو قید میں ڈالا اور پیٹا گیا (اعمال باب ٥ ، مزید دیکھئے اعمال باب ١٢)۔ یسوع نے بتا دیا تھا کہ پطرس شہادت کی موت پاۓ گا (یوحنا ٢١ : ١٨، ١٩ )۔

قدیم شہر اتھینے کے لوگ تشکیک پرست تھے۔ وہ ہر بات کی تحقیق کرنے پر زور دیتے تھے۔ ایک مسیحی وہاں پہنچا تو اُس کی باتیں سن کر وہ اُس کا مذاق اُڑانے لگے۔ دیکھئے کہ اُس نے اُنہیں پیغام دیتے ہوۓ کیا کہا:

”۔۔۔ پس خدا جہالت کے وقتوں سے چشم پوشی کر کے اب سب آدمیوں کو ہر جگہ حکم دیتا ہے کہ توبہ کریں کیونکہ اُس نے ایک دن ٹھہرایا ہے جس میں وہ راستی سے دنیا کی عدالت اُس آدمی کی معرفت کرے گا جسے اُس نے مقرر کیا ہے اور اُسے مُردوں میں سے جِلا کر یہ بات سب پر ثابت کر دی ہے“ (اعمال ١٧ : ٣٠، ٣١ )۔

اُس نے جو نتیجہ پیش کیا وہ سیدھا اور صاف تھا— توبہ کرو! مت سوچو کہ تم اپنے آپ کو خدا کی یقینی عدالت سے بچا سکتے ہو! بلکہ اُس منجی پر کامل بھروسا رکھو جس نے تمہارے گناہوں کی خاطر اپنا خون بہایا اور  مُردوں میں سے جی اُٹھا۔

مثبت ثبوت

ہم کس طرح یقین کر سکتے ہیں کہ یسوع دنیا کا منجی اور منصف ہے؟ ہم نے اِس کا جواب ابھی ابھی پڑھا ہے۔ خدا نے ”اُسے مُردوں میں سے جِلا کر یہ بات سب پر ثابت کر دی ہے۔“

اَور کیا ثبوت چاہئے کہ یسوع ہی واحد منجی ہے؟ ہم اپنا ابدی انجام، اپنی آخرت کسی دوسرے کے حوالے کیوں کریں؟ اِس کے لئے کسی دوسرے پر ایمان کیوں رکھیں؟

کیسا المیہ ہے کہ دنیا اُن مردہ انسانوں کی تعظیم کرتی ہے جو زندگی بھر خدا کے بیان اور پیغام کی تردید کرتے رہے۔ جب یسوع نے موت کو مغلوب کر لیا ہے اور نبیوں کی باتوں کو پورا کر دیا ہے تو پھر کوئی شخص کیوں یہ پسند اور فیصلہ کرے کہ مَیں کسی ایسے انسان پر بھروسا رکھوں جو موت پر فتح نہیں پا سکا اور جو ساری عمر خدا کے کلام کی تکذیب اور تردید کرتا رہا؟

جیسے خدا پوری ہو چکی نبوت اور پیش گوئی سے ناقابلِ تردید ثبوت فراہم کرتا ہے کہ بائبل مقدس خدا کا کلام ہے اُسی طرح یسوع کا تیسرے دن مُردوں میں سے جی اُٹھنا ناقابلِ تردید ثبوت ہے کہ صرف وہی ہمیں ابدی موت سے بچا کر ابدی زندگی دے سکتا ہے۔

ساری قوموں کا منجی

پاک صحائف بالکل واضح اور صاف ہیں کہ یسوع کی موت اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے کا پیغام ”ساری دنیا اور سارے لوگوں“ کے لئے ہے۔ اِس حقیقت پر زور دینا چاہئے کیونکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یسوع صرف  یہودیوں کے لئے آیا۔ یہ بات قطعی جھوٹ ہے۔

بعض لوگ مثال دیتے ہیں کہ یسوع نے ایک غیر یہودی عورت سے کہا کہ ”مَیں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا“ (متی ١٥ : ٢٤ )۔ لیکن وہ لوگ یہ نہیں بتاتے کہ یسوع نے اُس عورت کی بیٹی کو شفا بھی دی۔ غیر یہودیوں کے لئے یسوع کے ترس اور رحم اور اُن کے لئے اُس کی خدمت کی مثالوں کے لئے دیکھئے متی ١٢ : ٤١، ٤٢؛ ٢١ : ٢٣ ۔ ٤٣ ؛ لوقا ٩: ٥١ ؛ ١٠ : ٣٠ ۔ ٣٤ ؛ ١٧ : ١١۔ ١٩ ؛ یوحنا باب ٤ ؛ ١۔یوحنا ٢: ١، ٢ ؛ لوقا ٢٤ : ٤٥ ۔ ٤٨ ۔

یہ بات درست ہے کہ مسایاح کی زمینی خدمت کا مرکز یہودی تھے، لیکن اُس کا اُس قوم کے پاس آنے کا مقصد ساری دنیا کو نجات مہیا کرنا تھا۔ اِس سے سات سو سال پہلے یسعیاہ نے وہ وعدہ قلم بند کیا جو خدا نے اپنے بیٹے سے کیا تھا ”۔۔۔ مَیں تجھ کو قوموں کے لئے نور بناؤں گا کہ تجھ سے میری نجات زمین کے کناروں تک پہنچے“ (یسعیاہ ٤٩ : ٦)۔

مسیح اِس دنیا میں آیا تو جانتا تھا کہ یہودی راہنما مجھے اپنا بادشاہ ماننے سے انکار کریں گے۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اُن کے اِس طرح رد کرنے کے ذریعے سے مَیں گناہ کی سزا اُٹھاؤں گا، اِس کی قیمت ادا کروں گا اور ساری دنیا کو نجات پیش کروں گا۔

”وہ دنیا میں تھا اور دنیا اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئی اور دنیا نے اُسے نہ پہچانا۔ وہ اپنے گھر آیا اور اُس کے اپنوں نے اُسے قبول نہ کیا۔ لیکن جتنوں نے اُسے قبول کیا اُس نے اُنہیں خدا کے فرزند بننے کا حق بخشا“ (یوحنا ١: ١٠، ١٢ )۔

میرے دوستو! خدا آپ سے محبت رکھتا ہے اور وہ آپ کو اِس لائق، اِتنا قیمتی سمجھتا ہے کہ اپنے بیٹے کی جان آپ کے لئے قربان کرے۔ تاہم ۔۔۔ وہ آپ کو ایمان لانے پر مجبور نہیں کرے گا۔

اُس نے یہ انتخاب — یہ فیصلہ آپ پر چھوڑ دیا ہے۔

”۔۔۔ کیونکہ خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اُس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئ اُس پر ایمان لاۓ ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پاۓ“ (یوحنا ٣: ١٦ )۔

ساری غلط فہمیاں ختم

جس دن یسوع مُردوں میں سے جی اُٹھا اُسی دن وہ دو شاگردوں کے ہمراہ چلا اور اُن سے گفتگو کی۔ وہ شاگرد ابھی تک حیران اور پریشان تھے کیونکہ اُن کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ مسایاح کے لئے کیوں ضروری تھا کہ اپنا خون بہاۓ اور پھر جی اُٹھے۔ یسوع نے اُن سے کہا کہ:

”اے نادانو اور نبیوں کی سب باتوں کو ماننے میں سست اعتقادو! کیا مسیح کو یہ دُکھ اُٹھا کر اپنے جلال میں داخل ہونا ضرور نہ تھا؟ پھر موسی' سے اور سب نبیوں سے شروع کر کے سب نوشتوں میں جتنی باتیں اُس کے حق میں لکھی ہوئی ہیں وہ اُن کو سمجھا دیں“ (لوقا ٢٤ : ٢٥ ۔ ٢٧ )۔

آخرکار اُن کی اُلجھن دُور ہوئ۔ معاملہ سمجھ میں آ گیا۔ مسایاح دنیاوی سیاسی دشمنوں کو زیر کرنے نہیں آیا تھا۔ وہ اُن سے بڑے اور ظالم اور سنگدل دشمنوں — شیطان، گناہ، موت اور دوزخ کی سرکوبی کرنے آیا تھا!

اُسی دن رات کو یسوع اپنے شاگردوں پر ظاہر ہوا جب وہ یروشلیم میں اُس بالاخانے میں بیٹھے ہوۓ تھے جہاں اُن کی رہائش تھی۔ اُس نے اُنہیں اپنے چھدے ہوۓ ہاتھ اور پاؤں دکھاۓ۔ اُن کے سامنے کچھ کھایا اور پھر اُن سے کہا:

”یہ میری وہ باتیں ہیں جو مَیں نے تم سے اُس وقت کہی تھیں جب تمہارے ساتھ تھا کہ ضرور ہے کہ جتنی باتیں موسی' کی توریت اور نبیوں کے صحیفوں اور زبور میں میری بابت لکھی ہیں وہ پوری ہوں۔ پھر اُس نے اُن کا ذہن کھولا کہ کتابِ مقدس کو سمجھیں اور اُن سے کہا یوں لکھا ہے کہ مسیح دکھ اُٹھاۓ گا اور تیسرے دن مُردوں میں سے جی اُٹھے گا اور یروشلیم سے شروع کر کے سب قوموں میں توبہ اور گناہوں کی معافی کی منادی اُس کے نام سے کی جاۓ گی۔ تم اِن باتوں کے گواہ ہو“ (لوقا ٢٤ : ٤٤ ۔ ٤٨ )۔

یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ تم ساری قوموں کے لئے ”اِن باتوں کے گواہ ہو۔“ اُن کا پیغام سیدھا اور صاف تھا کہ خداوند نے آسمان سے آ کر سارے زمانوں کے سارے انسانوں کے گناہ کی سزا برداشت کی، گناہ کی قیمت ادا کر دی اور سب کے لئے موت پر فتح پائی۔ جہاں بھی توبہ ہوتی ہے اور اُس کے ساتھ مسیح اور اُس کے فدیے کے کام پر ایمان لایا جاتا ہے وہاں خدا کامل معافی اور سچا اطمینان عطا کرتا ہے۔

آرام کی دعوت

تخلیق کے کام کے ساتویں دن کو ایک دفعہ پھر یاد کریں۔

اُس دن خداوند خدا نے کیا کیا؟ اُس نے آرام کیا (خروج ٣١ : ١٧ )۔

اُس نے کیوں آرام کیا؟ اُس نے اِس لئے آرام کیا کہ اُس کا کام ”پورا / مکمل“ ہو گیا تھا۔ ”۔۔۔ خداوند اپنے کام سے جسے وہ کرتا تھا ساتویں دن فارغ ہوا“ (پیدائش ٢: ٢، ٣ )۔

خدا کے تخلیق کے کام میں کسی اضافے کی ضرورت نہ تھی۔ وہ کام ”پورا / مکمل“ ہو گیا تھا۔ اِسی طرح خدا کے فدیے کے کام میں بھی کسی اضافے کی ضرورت نہیں۔ وہ مکمل ہو چکا ہے۔

خدا نے کائنات بنانے کا کام پورا کیا تو وہ خوش ہوا اور اُس نے آرام کیا۔ اب وہ آپ کو اور مجھے دعوت دیتا ہے کہ اُس کے نجات کے پورے کۓ ہوۓ کام سے خوش ہوں، آرام کریں ”کیونکہ جو اُس کے آرام میں داخل ہوا اُس نے بھی خدا کی طرح اپنے کاموں کو پورا کر کے آرام کیا“ (عبرانیوں ٤: ١٠ )۔

دنیا بھر کے لاکھوں مذہب پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ ”کچھ بھی پورا نہیں ہوا، سب کچھ ادھورا ہے۔ یہ کرو، وہ کرو۔ اَور زیادہ کوشش کرو۔“ مگر یسوع کہتا ہے ”اے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوۓ لوگو سب میرے پاس آؤ۔ مَیں تم کو آرام دوں گا“ (متی ١١: ٢٨ )۔

جو کچھ خدا نے آپ کے لئے کیا ہے کیا آپ اُس میں آرام پاتے اور خوش ہوتے ہیں؟

خداوند کے ساتھ چالیس دن

مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد خداوند یسوع چالیس دن تک اپنے شاگردوں کے ساتھ رہا۔ اُس نے اُنہیں خدا کی بادشاہی کے بارے میں بہت سی باتیں سکھائیں۔ وہ اُسے غور سے دیکھتے تھے۔ اُنہوں نے اُس کے جی اُٹھے بدن کو چھوا— ہمیشہ رہنے والا جلالی بدن جو زمان و مکان کے بندھنوں سے آزاد ہے۔ ایسا ہی بدن ایک دن سارے ایمان داروں کو ملے گا۔

شاگرد یسوع کے ساتھ چلے پھرے، اُس کے ساتھ کھانا کھایا اور باتیں کیں۔ اُس نے اُنہیں یاد دلایا کہ بہت جلد مَیں تمہارے پاس سے چلا جاؤں گا، لیکن میرا باپ روح القدس کو بھیجے گا۔ وہ تمہارے اندر سکونت کرے گا۔ اُس کا روح تمہاری راہنمائی کرے گا، تمہیں طاقت اور توفیق دے گا کہ ساری قوموں کو میری گواہی دے سکو۔ پھر ایک دن مَیں — یسوع — زمین پر واپس آؤں گا اور کامل راستی سے دنیا کی عدالت کروں گا۔

جی اُٹھنے کے بعد چالیسویں دن یسوع زیتون کے پہاڑ پر اپنے شاگردوں سے ملا۔ یہ پہاڑ یروشلیم کے مشرق میں ہے۔ اب وہ دن آ گیا تھا کہ یسوع ”اپنے باپ کے گھر“ کو واپس جاۓ (یوحنا ١٤ :٢ )۔

آسمان پر جانا

” یسوع نے اُن سے مل کر اُن کو حکم دیا کہ یروشلیم سے باہر نہ جاؤ بلکہ باپ کے اُس وعدہ کے پورا ہونے کے منتظر رہو جس کا ذکر تم مجھ سے سن چکے ہو کیونکہ یوحنا نے تو پانی سے بپتسمہ دیا،  مگر تم تھوڑے دنوں کے بعد روح القدس سے بپتسمہ پاؤ گے۔۔۔ جب روح القدس تم پر نازل ہو گا تو تم قوت پاؤ گے اور یروشلیم اور تمام یہودیہ اور سامریہ میں بلکہ زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہو گے۔ یہ کہہ کر وہ اُن کے دیکھتے دیکھتے اوپر اُٹھا لیا گیا اور ایک بدلی نے اُسے اُن کی نظروں سے چھپا لیا۔ اور اُس کے جاتے وقت جب وہ آسمان کی طرف غور سے دیکھ رہے تھے تو دیکھو دو مرد سفید پوشاک پہنے اُن کے پاس آ کھڑے ہوۓ۔ اور کہنے لگے اے گلیلی مردو! تم کیوں کھڑے آسمان کی طرف دیکھتے ہو؟ یہی یسوع جو تمہارے پاس سے آسمان پر اُٹھایا گیا ہے اِسی طرح پھر آۓ گا جس طرح تم نے اُسے آسمان پر جاتے دیکھا ہے“ (اعمال ١: ٤۔ ١١ )۔

آسمان پر فتح کا جشن

جیسے نبیوں نے پیش گوئ کی تھی خدا کے بیٹے نے ”عالمِ بالا کو صعود فرمایا“ (زبور ٦٨ : ١٨ ؛ ١١٠ :١ ؛ زبور ٢٤ )۔ وہ ہستی جس نے کوئی تینتیس سال پہلے آسمان کے فرشتوں کی حمد و ثنا کے بدلے انسانوں کے ٹھٹھوں کو بخوشی قبول کیا تھا اب وہ واپس اپنے گھر جا رہا تھا! لیکن اب بات بالکل فرق تھی۔ وہ جس نے انسان کو اپنی صورت اور شبیہ پر پیدا کیا تھا اب وہ خود انسان کی صورت اور شبیہ پر تھا۔

پاک کلام نے یسوع کے آسمان پر جانے کے بارے میں کوئ تفصیلات نہیں دی ہیں۔ لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ یہ پُر جلال واپسی تھی۔

ہم تصور کر سکتے ہیں کہ فرشتوں کا بے شمار لشکر پرے باندھے کھڑا ہے، آدم کی نسل سے مخلصی یافتہ انسان قطاروں میں کھڑے ہیں۔ سب دم بخود ہیں کیونکہ خداوند آسمان کے پھاٹک سے داخل ہونے کو ہے۔ وہ اُسے خدا کا بیٹا اور جلال کا خداوند کی حیثیت سے تو اچھی طرح جانتے تھے، لیکن آج اُس سے ابنِ آدم اور خدا کے برّے کی حیثیت سے ملاقات ہو گی۔

سارا آسمان خاموش ہے!

پھر نرسنگوں کی ہم آہنگ آواز سے خاموشی یک دم ٹوٹتی ہے اور ایک فرشتہ بلند آواز سے اعلان کرتا ہے ”اے پھاٹکو! اپنے سربلند کرو۔ اے ابدی دروازو! اونچے ہو جاؤ اور جلال کا بادشاہ داخل ہو گا“ (زبور ٢٤ : ٧)۔

پھاٹک پورے کھل جاتے ہیں اور فاتح، خدا کا اپنا بیٹا، کلمہ، برّہ، لڑائی میں زخم خوردہ ابنِ آدم، یسوع داخل ہوتا ہے۔ ثنا خوان ہجوم میں سے گزرتا ہوا باپ کے تخت کے پاس آتا ہے۔ مڑ کر آدم کی نسل کے مخلصی یافتہ اَن گنت ہجوم کو دیکھتا ہے اور بیٹھ جاتا ہے۔

یسوع ”عالمِ بالا پر کبریا کی دہنی طرف بیٹھا“ کیونکہ اُس نے خود ”ہمارے گناہوں کو دھو“ ڈالا ہے (عبرانیوں ١: ٣)۔ ”۔۔۔ ہر ایک کاہن تو کھڑا ہو کر ہر روز عبادت کرتا ہے اور ایک ہی طرح کی قربانیاں بار بار گزرانتا ہے جو ہرگز گناہوں کو دُور نہیں کر سکتیں، لیکن یہ شخص ہمیشہ کے لئے گناہوں کے واسطے ایک ہی قربانی گزران کر خدا کی دہنی طرف جا بیٹھا۔۔۔“ (عبرانیوں ١٠ : ١١، ١٢ ؛ مزید دیکھئے عبرانیوں ٨: ١ ؛ ١٢ : ٢ ؛ مکاشفہ ٣: ٢١ )۔

کام (مشن) پورا ہوا۔

مخلصی یافتہ لوگوں کا ہجوم اُسے سجدہ کر کے اور ہم آواز ہو کر کہتا ہے،

 ”ذبح کیا ہوا برّہ ہی قدرت۔۔۔ تمجید اور حمد کے لائق ہے۔“ (مکاشفہ ٥: ١٢)

کیسا بڑا اور شاندار جشن ہوا! اور ہو رہا ہے! اور ابد تک ہوتا رہے گا!