۱۸
خدا کا ازلی منصوبہ
”خدا ازل سے اپنے سب کاموں کو جانتا ہے“ —(یسعیاہ ٤٥ : ٢١ )
”یہ وہی خداوند فرماتا ہے جو دنیا کے شروع سے اِن باتوں کی خبر دیتا آیا ہے“ —(اعمال ١٥ : ١٩ )

وقت شروع ہونے سے پہلے — ازل ہی سے خدا نے انسانوں کے لئے منصوبہ بنا رکھا تھا۔ جس دن گناہ نے انسانی خاندان یعنی بنی آدم کو آلودہ کیا خدا نے اُسی دن سے یہ منصوبہ بتانا شروع کر دیا — لیکن اشاری اور رمزی زبان میں ۔ پاک کلام اِس منصوبے کو ”خدا کا پوشیدہ مطلب“ کہتا ہے (مکاشفہ ١٠ :٧ )۔

بنی نوع انسان کے لئے خدا کا یہ منصوبہ اور مقصد آج بھی بہت سے لوگوں کے لئے ایک راز ہے، لیکن بلاوجہ، کیونکہ جو بھید ”تمام زمانوں اور پشتوں سے پوشیدہ رہا “ اب وہ ”ظاہر ہوا“ ہے (کلسیوں ١: ٢٦ )۔

نبیوں سے زیادہ اعزاز پانے والے

یہ بہت حیرت انگیز بات ہے کہ جہاں تک خدا کے منصوبے اور پیغام کو سمجھنے کا تعلق ہے ہمیں اُن نبیوں سے زیادہ اعزاز ملا ہے جنہوں نے یہ صحیفے لکھے تھے۔

ہمیں خدا کا پورا مکاشفہ عطا ہوا ہے، اُن کو عطا نہیں ہوا تھا۔

ہم خدا کی کتاب کا آخری حصہ پڑھ سکتے ہیں، وہ نہیں پڑھ سکتے تھے۔

” اِسی نجات کی بابت اُن نبیوں نے بڑی تلاش اور تحقیق کی جنہوں نے اُس فضل کے بارے میں جو تم پر ظاہر ہونے کو تھا نبوت کی۔ اُنہوں نے اِس بات کی تحقیق کی کہ مسیح کا روح جو اُن میں تھا اور پیشتر سے مسیح کے دُکھوں کی اور اُن کے بعد کے جلال کی گواہی دیتا تھا وہ کون سے اور کیسے وقت کی طرف اشارہ کرتا تھا۔ اُن پر یہ ظاہر کیا گیا کہ وہ نہ اپنی بلکہ تمہاری خدمت کے لئے یہ باتیں کہا کرتے تھے جن کی خبر اب تم کو اُن کی معرفت ملی جنہوں نے روح القدس کے وسیلہ سے جو آسمان سے بھیجا گیا تم کو خوش خبری دی اور فرشتے بھی اِن باتوں پر غور سے نظر کرنے کے مشتاق ہیں“ (١۔پطرس ١: ١٠ ۔ ١٢ )۔

خدا نے اپنا منصوبہ رَمز میں کیوں بتایا

کئی لوگ پوچھتے ہیں خدا نے برگشتہ انسانوں کو اُسی وقت کیوں نہ بتا دیا کہ مَیں نے کیا کرنے کا منصوبہ بنایا ہے؟ اُس نے اپنے پیغام پر، راز  پر پردہ کیوں ڈالا؟

یہ حقیقت ہے کہ کائنات کا خدا ہمارے سامنے وضاحتیں کرنے کا پابند نہیں ہے۔ لیکن اپنی شفقت اور مہربانی سے اُس نے ہمیں کچھ بصیرت، کچھ اِدراک دیا ہے کہ مَیں نے بنی نوع انسان کے لئے اپنا مںصوبہ رَمزیہ زبان میں کیوں بتایا ہے۔ تین وجوہات ہیں کہ خدا نے یہ منصوبہ بتدریج اور احتیاط سے کیوں بتایا۔

اوّل، ابواب پانچ اور چھے میں تفصیل سے بتایا گیا تھا کہ اپنے منصوبے کو بتدریج ظاہر کرنے سے خدا نے بنی نوع انسان کو تصدیق کرنے والی بے شمار نبوتیں، پیش گوئیاں اور نشان دیئے۔ علاوہ ازیں تصدیق کرنے کے لئے بہت سے گواہ بھی دیئے تاکہ بعد میں آنے والی پشتیں واحد حقیقی خدا کے پیغام کو یقیینی طور سے جان لیں۔

دوم، خدا نے اپنی سچائی اِس طریقے سے ظاہر کی کہ صرف وہی لوگ اِسے سمجھ سکیں جو جاں فشانی اور سرگرمی سے تحقیق کریں۔ ”خدا کا جلال راز داری میں ہے، لیکن بادشاہوں کا جلال معاملات کی تفتیش میں“ (اَمثال ٢٥ : ٢)۔ بہت سے لوگ اِسی طرح سچائی کو نہیں ڈھونڈ سکتے جیسے ایک چور پولیس کے سپاہی کو تلاش نہیں کر سکتا — وہ چاہتے نہیں (عبراںیوں ١١: ٦ ؛ یرمیاہ ٢٩ : ١٣ ؛ یسعیاہ ٢٩ : ١١ ؛ متی ١١: ٢٥ ؛ ١٣ : ١٣ ، ١٤ ؛ لوقا ٨: ٤۔ ١٥ ؛ یوحنا باب ٦ )۔ خدا کی بہت سی سچائیاں جان بوجھ کر مبہم انداز میں ظاہر کی گئی ہیں تاکہ صرف وہی لوگ سمجھ سکیں جو تحقیق و تفتیش کریں۔ خدا لوگوں کو سننے، سمجھنے اور ایمان لانے پر مجبور نہیں کرتا۔ جو ارادہ رکھتے اور آمادہ ہوتے ہیں وہ سچائی کو پالیں گے۔ جو جان بوجھ کر اندھے بن جائیں، اُنہیں کچھ نہیں ملے گا۔

سوم، خدا نے اپنا منصوبہ اِس لئے رَمزیہ انداز میں بیان کیا تاکہ شیطان اور اُس کے پیروکاروں سے پوشیدہ رہے۔

”۔۔۔ ہم خدا کی وہ پوشیدہ حکمت بھید کے طور پر بیان کرتے ہیں جو خدا نے جہان کے شروع سے پیشتر ہمارے جلال کے واسطے مقرر کی تھی جسے اِس جہان کے سرداروں میں سے کسی نے نہ سمجھا کیونکہ اگر سمجھتے تو جلال کے خداوند کو مصلوب نہ کرتے“ (١۔کرنتھیوں ٢: ٧، ٨)۔

اگر شیطان اور اُس کے حمایتی اور ساتھی خدا کے مکمل منصوبے کو جان اور سمجھ لیتے جو اُنہیں شکست دینے اور مغلوب کرنے کے لئے تھا تو وہ تدبیر اور کام نہ کرتے جو اُنہوں نے کیا۔ خدا نے اپنا منصوبہ اِس طرح تیار کیا کہ جو اُسے ناکام کرنے کی تجویزیں کریں وہی اُسے پورا کر دیں۔

اور وہ منصوبہ کیا تھا؟

فدیہ!

خدا نے وعدہ کیا تھا کہ مَیں عورت کی نسل سے ایک بے گناہ چھڑاںے والا بھیجوں گا جو آدم کی سرکش، قاںون شکن اور شریعت کی نافرمان اولاد کو ابدی ہلاکت کی سزا سے چھڑاۓ گا۔ انسانی تاریخ کے بالکل موزوں وقت پر خدا نے اپنا وعدہ پورا کیا۔

”۔۔۔ جب وقت پورا ہو گیا تو خدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا جو عورت سے پیدا ہوا اور شریعت کے ماتحت پیدا ہوا تاکہ شریعت کے ماتحتوں کو مول لے کر چھڑا لے ۔۔۔“ (گلتیوں ٤: ٤ ، ٥)۔

فدیہ دینے کا مطلب ہے مطلوبہ قیمت ادا کر کے واپس خرید لینا۔

میری پرورش کیلیفورنیا میں ہوئی۔ وہاں میرے پاس ایک کتیا تھی۔ مَیں اُسے کھانا کھلاتا، اُس کی نگہداشت کرتا اور اُس کے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔ وہ میرے پیچھے پیچھے پھرتی رہتی تھی۔ مَیں سکول سے واپس آتا تو بہت خوش ہوتی تھی۔ لیکن اُس میں ایک خامی تھی۔ وہ محلے میں گھومتی پھرتی تھی۔ لیکن ہمیشہ گھر واپس آ جاتی تھی — مگر ایک دن:

مَیں سکول سے واپس آیا ۔۔۔ لیکن میری کتیا اِستقبال کرنے کو موجود نہ تھی۔ شام اور پھر رات ہو گئی۔ سونے کا وقت ہو گیا، لیکن اُس کا کہیں پتا نہ تھا۔ اگلے دن والد صاحب نے صلاح دی کہ مقامی مال خانہ (جہاں آوارہ پالتو جانوروں اور مویشیوں کو محدود وقت کے لئے بند کر دیا جاتا ہے — جن جانوروں کا کوئی دعوے دار نہ ہو اُنہیں ٹیکہ لگا کر مار دیا جاتا ہے) سے پتا کروں۔ مَیں نے فون کیا تو وہاں ایک کتیا موجود تھی جس کا حلیہ میرے بیان کے مطابق تھا۔ اُسے ”آوارہ کتے پکڑنے والا“ پکڑ کر لے گیا تھا۔ میری کتیا اپنے آپ کو بچانے اور چھڑانے میں بے بس تھی۔ اگر کوئی اُسے چھڑانے کو نہ پہنچتا  تو اُسے اپنی آوارگی کی قیمت اپنی جان دے کر ادا کرنی پڑتی۔

مَیں مال خانے پہنچا۔ مجھے میری کتیا واپس ملنے کو تھی! لیکن دفتر میں موجود افسر نے مجھے بتایا کہ اگر مجھے اپنی کتیا واپس لینی ہے تو مجھے جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔ کتوں کا گلیوں میں آوارہ گھومنا خلافِ قانون تھا (ہے)۔ مَیں نے مطلوبہ تاوان ادا کیا اور میری کتیا آزاد کر دی گئی۔ وہ اُس خوف ناک پنجرے سے نکل کر اور اپنے نگہداشت اور پرورش کرنے والے مالک کے پاس آ کر کتنی خوش تھی! اُس کا فدیہ دیا گیا تھا!

مَیں نے اپنی سرکش کتیا کو خرید کر واپس لیا۔ لڑکپن کا یہ تجربہ ہمیں ہماری اپنی حالت کی کچھ تصویر دکھاتا ہے۔ ہم سرکش گنہگار ہیں۔ ہمارے خلاف سزاۓ موت کا حکم ہو چکا ہے اور ہم کسی طرح اپنے آپ کو چھڑا نہیں سکتے۔ خدا نے اپنے بیٹے کو دنیا میں بھیجا تاکہ فدیے کی مطلوبہ قیمت ادا کر کے ہماری خلاصی کراۓ، کیونکہ قیمت اِتنی زیادہ تھی کہ ہم میں سے کوئی بھی ادا نہ کر سکتا تھا۔

”اُن میں سے کوئی کسی طرح اپنے بھائی کا فدیہ نہیں دے سکتا، نہ خدا کو اُس کا معاوضہ دے سکتا ہے، کیونکہ اُن کی جان کا فدیہ گراں بہا ہے۔۔۔ لیکن خدا میری جان کو پاتال کے اختیار سے چھڑا لے گا۔۔۔“ (زبور ٤٩ : ٧، ١٥ )۔

چنانچہ ہمارے فدیے کی قیمت کیا تھی؟

نبیوں نے اِس کا اعلان کیا

پیدائش کی کتاب کے باب ٣ میں ہم نے خدا کی رَمزیہ پیش گوئ کو اُس کی نہایت ابتدائی شکل میں دیکھا کہ شیطان کے چنگل سے چھڑانے کے لئے اُس کا منصوبہ کیا ہے۔ آئیے ، دوبارہ سنیں کہ خدا نے شیطان سے کیا کہا:

” مَیں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالوں گا۔ وہ تیرے سر کو کچلے گا اور تُو اُس کی ایڑی پر کاٹے گا“ (پیدائش ٣: ١٥ )۔

اِن لفظوں کے ساتھ خدا نے اپنے پُراسرار، پوشیدہ اور باقاعدہ منصوبے کا خاکہ بتا دیا کہ وہ شیطان اور گناہ سے ایسے نمٹے گا جو اُس کی پاک ذات و صفات کے مطابق ہو گا۔ خداوند خدا نے واضح کر دیا کہ مَیں ایک فدیہ دینے والا مسایاح بھیجوں گا۔ وہ شیطان کا سرکچل کر اُسے شکست دے گا۔ اور نبوت نے پہلے سے یہ بھی بتا دیا کہ شیطان مسیحِ موعود کی ”ایڑی“ پر کاٹے گا۔

”وہ (مسایاح) تیرے (شیطان کے) سر کو کچلے گا اور تُو (شیطان) اُس (مسایاح) کی ایڑی پر کاٹے گا“۔

عورت کی نسل شیطان کے سر کو کس طرح ”کچلے گی“؟ عبرانی کے جس لفظ کا ترجمہ ”کچلنا“ کیا گیا ہے اُس کا مطلب ہے ” خراش ڈالنا، توڑنا، زخمی کرنا، کوٹنا/چُورا کرنا۔ کچلنا۔“ اِس اوّلین پیش گوئی کے مطابق شیطان اور مسایاح دونوں ہی ”کچلے جائیں گے۔“ لیکن دونوں میں سے صرف ایک زخم لازماً مہلک ہو گا۔ کچلا ہوا سر مہلک ہوتا ہے کچلی ہوئ ایڑی مہلک نہیں ہوتی۔

خدا نے پہلے سے بتا دیا کہ اِس حقیقت کے باوجود کہ شیطان اور اُس کے چیلے چانٹے مسایاح کو زخمی کریں گے، مگر بالاخر وہ ہی شیطان پر فتح مند ہو گا۔

بعد کے زمانے میں خدا نے داؤد نبی کو الہام دیا کہ وہ مسایاح کے بارے میں یہ لکھے کہ

” وہ میرے ہاتھ اور میرے پاؤں چھیدتے ہیں“ (زبور ٢٢: ١٦ )۔

داؤد نے یہ پیش گوئی بھی کی کہ اگرچہ مسایاح جان سے مارا جاۓ گا لیکن اُس کی لاش قبر میں گلنے سڑنے نہیں پاۓ گی۔

” تُو ۔۔۔ نہ اپنے مقدّس کو سڑنے دے گا“ (زبور  ١٦ : ١٠ )۔

موعودہ نجات دہندہ موت پر فتح پاۓ گا۔

مقدّس یسعیاہ نبی نے مسایاح کے دُکھوں، موت اور جی اُٹھنے کا مقصد بتایا ہے۔

”۔۔۔ وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھائل کیا گیا اور ہماری بدکرداری کے باعث کچلا گیا۔۔۔ لیکن خداوند کو پسند آیا کہ اُسے کچلے۔ اُس نے اُسے غمگین کیا۔ جب اُس کی جان گناہ کی قربانی کے لئے گزرانی جاۓ گی تو وہ اپنی نسل کو دیکھے گا۔ اُس کی عمردراز ہو گی اور خداوند کی مرضی اُس کے ہاتھ کے وسیلہ سے پوری ہو گی“ (یسعیاہ ٥٣ : ٥، ١٠ )۔

کیا آپ نے غور کیا کہ کتنی پیش گوئیاں فعل ماضی میں لکھی گئی ہیں حالانکہ وہ متعلقہ واقعہ سے سینکڑوں سال پہلے لکھی گئی تھیں؟ خدا کے منصوبوں کے پورا ہونے میں کچھ بھی حائل نہیں ہو سکتا۔ وہ اٹل ہیں۔ جب وہ خالق کہتا ہے کہ یہ واقعہ ہو گا تو وہ ایسا ہے جیسے ہو چکا۔ اِسی لۓ مسایاح کو  ”بناۓ عالم کے وقت سے ذبح ہوا“ برّہ کہا گیا ہے (مکاشفہ ١٣: ٨)۔

اگرچہ شیطان لوگوں کو اُبھارے گا کہ خدا کے بھیجے ہوۓ مسایاح کو اذیتیں دیں اور قتل کر ڈالیں، مگر سب کچھ اُس منصوبے کے مطابق ہو گا جو نبیوں کی معرفت بتایا گیا۔ آخری اور قطعی نتیجہ خداوںد اور اُس کے مسیح کی کامل اور قطعی فتح ہو گا۔

حکمت اور آگاہی کی باتیں

مسیح کی پیدائش سے ہزار سال پہلے مقدّس داؤد نے لکھا:

” قومیں کس لئے طیش میں ہیں اور لوگ کیوں باطل خیال باندھتے ہیں؟ خداوند اور اُس کے مسیح کے خلاف زمین کے بادشاہ صف آرائی کر کے اور حاکم آپس میں مشورہ کر کے کہتے ہیں ۔۔۔ وہ جو آسمان پر تخت نشین ہے ہنسے گا۔ خداوند اُن کا مضحکہ اُڑاۓ گا۔ تب وہ اپنے غضب میں اُن سے کلام کرے گا اور اپنے قہرِشدید میں اُن کو پریشان کرے گا۔۔۔ پس اے بادشاہو! دانش مند بنو۔ اے زمین کے عدالت کرنے والو، تربیت پاؤ۔ ڈرتے ہوۓ خداوند کی عبادت کرو۔ کانپتے ہوۓ خوشی مناؤ۔ بیٹے کو چومو۔ ایسا نہ ہو کہ وہ قہر میں آۓ اور تم راستہ میں ہلاک ہو جاؤ کیونکہ اُس کا غضب جلد بھڑکنے کو ہے۔ مبارک ہیں وہ سب جن کا توکل اُن پر ہے“ (زبور ٢: ١، ٢ ، ٤۔ ٦ ، ١٠ ۔ ١٢ )۔

سینیگال میں کُشتی کرنا (پہلوانی) روایتی قومی کھیل ہے۔ اُن کی ایک ضرب المثل ہے:

” انڈے کو پتھر سے کُشتی نہیں لڑنی چاہئے۔“

انڈے کو پتھر سے کُشتی کیوں نہیں لڑنی چاہئے؟ کیونکہ انڈا اتفاق سے بھی کُشتی نہیں جیت سکتا! اِس کا سرے سے اِمکان ہی نہیں۔

اِسی طرح ”جو خداوند اور اُس کے مسیح کے خلاف صف آرائی کرتے ہیں“ اُن میں سے کوئی بھی — ایک بھی — کامیاب نہیں ہو گا۔ خدا کے منصوبے کی مخالفت کرنا ”باطل خیال باندھنا“ ہے (زبور  ٢ )۔

دانی ایل ٢: ٣٤ ، ٣٥ میں مسیحِ موعود کو ایک بہت بڑے آسمانی پتھر سے تشبیہ دی گئی ہے جو (دوسری آمد پر ) اُن سب کو کچل ڈالے گا جو خدا کے مخلصی کے منصوبے کی اطاعت نہیں کریں گے (مزید دیکھئے متی ٢١: ٤٢ ۔٤٤ )۔

سینیگال کے لوگوں کی ایک اور ضرب المثل ہے:

” کوئی لکڑہارا جان بوجھ کر چوپال کا درخت نہیں کاٹتا۔“

(چوپال— گاؤں کی کھلی نشست گاہ جہاں لوگ بیٹھتے ہیں اور پنچایت کے اجلاس ہوتے ہیں۔ وہاں اکثر بڑیا پیپل کا بڑا سایہ دار درخت ہوتا ہے۔ لوگ دوپہر کی جھلسا دینے والی دوپہر کو وہاں بیٹھتے ہیں، آرام کرتے ہیں، حقہ گڑگڑاتے ہیں اور گپ شپ لگاتے ہیں۔ اگر کوئ لکڑہارا اس درخت پر کلہاڑا چلانے لگے تو گاؤں والوں کا کیا ردِ عمل ہو گا؟ کیا وہ برہم ہو کر اُسے فوراً نہیں روک دیں گے؟)

جو لوگ خدا کے مخلصی کے منصوبے کی مخالفت کرتے ہیں وہ اُس لکڑہارے جیسے ہیں جو گاؤں والوں کے پسندیدہ درخت کو کاٹتا ہے۔

وہ ہرگز کامیاب نہیں ہوں گے۔

”پس اے بادشاہو! دانش مند بنو۔۔۔ بیٹے کو چومو۔ ایسا نہ ہو کہ وہ قہر میں آۓ اور تم راستہ میں ہلاک ہو جاؤ کیونکہ اُس کا غضب جلد بھڑکنے کو ہے۔ مبارک ہیں وہ سب جن کا توکل اُس پر ہے“ (زبور ٢: ١٠ ، ١٢ )۔

خدا کے منصوبے سے بے خبر

اپنی زمینی خدمت کے آخری ہفتوں کے دوران یسوع نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ مذہبی اور سیاسی راہنما مجھے اپنا بادشاہ ماننے کے بجاۓ میرے قتل کا مطالبہ کریں گے۔ جن لوگوں نے یسوع کو مروا ڈالنے کی سازش اور منصوبہ بنایا اُن کو احساس تک نہیں تھا کہ ہم وہ بات پوری کرنے میں شریک ہو گۓ ہیں جو نبیوں نے پیش گوئی سے بتائی تھی کہ مسایاح کے ہاتھ اور پاؤں چھیدے جائیں گے۔ یہ آدم کی سرکش مگر بے بس نسل کو شیطان کی گرفت سے چھڑانے کے خدا کے منصوبے کا ایک حصہ تھا۔

”اُس وقت سے یسوع اپنے شاگردوں پر ظاہر کرنے لگا کہ اُسے ضرور ہے کہ یروشلیم کو جاۓ اور بزرگوں اور سردار کاہنوں اور فقیہوں کی طرف سے بہت دُکھ اُٹھاۓ اور قتل کیا جاۓ اور تیسرے دن جی اُٹھے۔ اِس پر پطرس اُسے الگ لے جا کر ملامت کرنے لگا کہ اے خداوند، خدا نہ کرے۔ یہ تجھ پر ہرگز نہیں آنے کا۔ اُس نے پھر کر پطرس سے کہا اے شیطان میرے سامنے سے دُور ہو۔ تُو میرے لئے ٹھوکر کا باعث ہے کیونکہ تُو خدا کی باتوں کا نہیں بلکہ آدمیوں کی باتوں کا خیال رکھتا ہے۔۔۔“ (متی ١٦ : ٢١ ۔ ٢٣ )۔

پطرس کی سوچ اُس نامی گرامی مناظرہ کرنے والے جیسی تھی جسے مَیں نے کہتے سنا کہ ”مصلوب مسایاح کسی شادی شدہ کنوارے کی مانند ہو گا۔“

اُس مناظرہ کرنے والے کی طرح پطرس بھی ابھی خدا کے منصوبے کو نہیں سمجھا تھا۔ اُس کا خیال تھا کہ مسایاح کو اپنے وعدے کے مطابق دنیا بھر میں اپنی سلطنت فوراً قائم کرنی چاہئے اور صلیب پر کیلوں سے جڑے جانے کے خوف ناک دکھوں اور شرمندگی اور ذلت کے لئے اپنے آپ کو حوالے نہیں کرنا چاہئے۔ پطرس کی یہ سوچ تو درست تھی کہ خدا کا منصوبہ ہے کہ یسوع کو ساری دنیا پر مطلق العنان اور قادر بادشاہ مقرر کرے، لیکن پطرس کا یہ خیال غلط تھا کہ مسایاح صلیب کے دکھ اور ذلت سے بچ کر نکل جاۓ۔ کچھ عرصے کے بعد پطرس کو خدا کے منصوبے کی سمجھ آ گئی اور اُس نے بڑی دلیری سے کہا ”نبیوں نے ۔۔۔ پیشتر سے مسیح کے دکھوں کی اور اُن کے بعد کے جلال کی گواہی دی“ (١۔پطرس ١: ١١ )۔

پطرس کی دوسری باتوں کے لئے پڑھیں اعمال کی کتاب ابواب ٢ تا ٥ اور ١٠ اور  ١۔پطرس ١: ١٠ ۔ ١٢ ؛ ٢: ٢١ ۔ ٢٥ ؛ ٣: ١٨ ۔ علاوہ ازیں مقدّس پولس رسول کی اِس بات پر بھی غور کریں  جو اُس نے لکھی ہے ”۔۔۔ صلیب کا پیغام ہلاک ہونے والوں کے نزدیک تو بے وقوفی ہے، مگر ہم نجات پانے والوں کے نزدیک خدا کی قدرت ہے۔۔۔ خدا کی کمزوری آدمیوں کے زور سے زیادہ زور آور ہے ۔۔۔ خدا نے دنیا کے کمزوروں کو چن لیا کہ زور آوروں کو شرمندہ کرے“ (١۔کرنتھیوں ١: ١٨ ، ٢٥ ، ٢٧ )۔

مسایاح کا مصلوب ہونا کوئ اتفاقی یا حادثانی واقعہ نہیں تھا۔ خدا نے پیش بینی کر کے ”ازل سے“ اِس کا انتظام کیا تھا۔ نبیوں نے پیشتر سے اِس کی خبر دی۔ ”عورت کی نسل“ اِسے پورا کرنے آ گیا۔

کچھ عرصہ ہوا مجھے یہ ای میل موصول ہوئ:

ای میل

”تم اِتنے اندھے ہو کہ یہ ایمان رکھتے ہو کہ خدا اپنے بیٹے کو بھی مصلوب ہونے سے نہیں بچا سکتا۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا مجبور ہے اور اتنا کمزور ہے کہ اُس نے انسانوں کے ہاتھوں اپنے بیٹے کی تحقیر اور تذلیل ہونے دی اور اُسے قتل ہونے دیا۔ جو مجبور ہوتا ہے وہ کمزور ہوتا ہے اور اُسے 'خدا'  نہیں کہلانا چاہۓ۔ خدا تو قادرِ مطلق ہے۔ وہ واحد اور لاشریک اور بے مثل ہے — اللہ اکبر۔“

جیسے پطرس پہلے نہیں سمجھتا تھا ویسے ہی یہ صاحب بھی نہیں سمجھتے تھے کہ مسایاح کیوں ”قتل کیا جاۓ گا اور تیسرے دن جی اُٹھے گا۔“

ایسا ہولناک منصوبہ کیوں ضروری تھا؟ ہمارے ای میل بھیجنے والے دوست نے کہا تھا کہ ”خدا قادرِ مطلق ہے“ تو اُس نے کیوں نہ کیا کہ شیطان کو دوزخ میں پھینک دیتا اور آدم  کی گنہگار نسل سے کہتا کہ تمہیں معاف کر دیا ہے۔ خداوند خدا نے صرف کہہ کر دنیا پیدا کر دی تھی تو صرف کہہ کر دنیا کو مخلصی کیوں نہ دے دی؟

کیوں ضروری تھا کہ خالق کلمہ انسان بنے؟ خدا کے مصنوبے میں مسایاح کا دُکھ اُٹھانا، خون بہانا اور مرنا کیوں شامل کیا گیا؟

ہمارے سفر کا اگلا مرحلہ جواب دیتا ہے۔