۲۴
پوری ادائیگی

  صلیب دینا سزاۓ موت دینے کا سب سے ظالمانہ طریقہ ہے جو کسی حکومت یا مملکت نے کبھی وضع اور استعمال کیا ہو۔

ہمارا خالق ہم سے ملاقات کرنے آیا تو ہم نے اُس کے لئے ”تصلیب“ پسند کی — اُسے صلیب پر چڑھانا پسند کیا۔

ہو سکتا ہے میرا یہ بیان آپ کو کفر معلوم ہوا ہو۔ اگر ایسا ہے تو زیرِ نظر کتاب ”ایک خدا، ایک پیغام“ کے باب ٨، ٩ اور ١٦ ، ١٧ دوبارہ پڑھیں۔

کئی دفعہ لوگ طنزیہ انداز سے پوچھتے ہیں کہ جب خدا کنواری کے پیٹ میں تھا تو کائنات کا نظام کون چلا رہا تھا؟ یہ سوال ظاہر کرتا ہے کہ پاک صحیفوں کے بارے میں اور  انہیں دینے والے خدا کے بارے میں سوال کرنے والے کا نقطہ  نظر ناقص ہے — ”یسوع نے جواب میں اُن سے کہا تم گمراہ ہو اِس لئے کہ نہ کتابِ مقدس کو جانتے ہو نہ خدا کی قدرت کو“ (متی ٢٢: ٢٩ )۔ چونکہ خدا ہمیشہ سے پیچیدہ ثالوث ہے، اِس لئے اُس کے لئے بہ یک وقت آسمان پر اور زمین پر ہونا کوئ مسئلہ نہیں ہے۔ اگر سورج بہ یک وقت خلاۓ بسیط میں اور اُس کی روشنی اور حرارت زمین پر ہو سکتی ہے تو اِس سورج کا خالق بہ یک وقت آسمان پر اور زمین پر کیوں نہیں ہو سکتا؟

جب یسوع کو صلیب دینے لے چلے تو:

”۔۔۔ وہ دو اَور آدمیوں کو بھی جو بدکار تھے لۓ جاتے تھے کہ اُس کے ساتھ قتل کۓ جائیں۔ جب وہ اُس جگہ پہنچے جسے کھوپڑی کہتے ہیں تو وہاں اُسے مصلوب کیا اور بدکاروں کو بھی ایک کو دہنی طرف اور دوسرے کو بائیں طرف“ (لوقا ٢٣ : ٣٢ ، ٣٣ )۔

اردو میں جس جگہ کا نام ”کھوپڑی“ ترجمہ کیا گیا ہے، یونانی زبان میں اسے کلوری اور عبرانی میں گلگتا کہتے ہیں (متی ٢٧ : ٣٣ ؛ مرقس ١٥ :٢٢ یوحنا ١٩ : ١٧ )۔ یسوع کو اِس پہاڑی پر صلیب دی گئی۔ یہ پہاڑی پرانے یروشلیم کے باہر واقع ہے اور اِس کی شکل انسانی سر سے مشابہ ہے۔ یہ اُسی پہاڑی سلسلے کا حصہ ہے جہاں ابرہام نے اپنے بیٹے کے بدلے مینڈھا قربان کیا تھا۔

مصلوب کیا گیا!

سزائے موت پر عمل درآمد کرنے کے لئے صلیب دینے کا طریقہ اِس لئے وضع کیا گیا اور اِس کا مقصد یہ ہے کہ ملزم کو انتہائ تکلیف اور اذیت ہو اور اُس کی انتہائ تذلیل ہو۔ مَیں نے کسی مصور کی کوئی ایسی تصویر یا کسی فلم ساز کی کوئی فلم دیکھی ہے اور نہ دیکھنا چاہتا ہوں جس میں اُس نے صلیب پر یسوع کے درد اور شرمندگی کو کافی واضح طور سے دکھایا ہو۔ مثال کے طور پر مصور اور فلمساز اُسے ہمیشہ ایک لنگوٹی پہنے ہوۓ دکھاتے ہیں جبکہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ رومی سپاہی مجرم کے سارے کپڑے اُتار کر اُسے الف ننگا کر دیتے تھے۔ پھر اُسے نہایت بے دردی اور بے رحمی سے درخت کے ساتھ یا صلیب پر دھم سے پٹک دیتے تھے اور اُس کی کلائیوں اور ایڑیوں میں میخیں ٹھونک دیتے تھے۔

صلیبی موت شرمںاک اور درد ناک ہوتی تھی اور آہستہ آہستہ واقع ہوتی تھی۔

یسوع نے یہ سزا رضاکارانہ — اپنی مرضی سے برداشت کی۔ اُس نے یہ اذیت، یہ درد اور یہ شرمندگی اور ذلت میری اور آپ کی اور آدم کی ساری نسل کی خاطر برداشت کی۔ انتہائ اذیت اور عذاب جو یسوع پر ”لادا“ گیا اِس کا مقصد یہ تھا کہ ہم سمجھ لیں اور جان لیں کہ گناہ کی سزا کیسی سخت اور شدید ہے۔

رومیوں کے صلیب دینے کے طریقے کے وضع اور استعمال کرنے سے صدیوں پہلے داؤد نبی نے مسایاح کے صلیبی دکھوں کو بیان کیا۔

” ۔۔۔ بدکاروں کی گروہ مجھے گھیرے ہوۓ ہے۔ وہ میرے ہاتھ اور میرے پاؤں چھیدتے ہیں۔ مَیں اپنی سب ہڈیاں گن سکتا ہوں۔ وہ مجھے تاکتے اور گھورتے ہیں۔ وہ میرے کپڑے آپس میں بانٹتے ہیں اور میری پوشاک پر قرعہ ڈالتے ہیں۔۔۔ وہ منہ چڑاتے ، وہ سر ہلا ہلا کر کہتے ہیں، اپنے کو خداوند کے سپرد کر دے۔ وہی اُسے چھڑاۓ، جبکہ وہ اُس سے خوش ہے تو وہی اُسے چھڑاۓ“ (زبور ٢٢ : ١٦ ۔ ١٨ ، ٨)۔

اور یسعیاہ نبی نے پیش گوئ کی ۔

”۔۔۔ اُس نے اپنی جان موت کے لئے اُنڈیل دی اور خطاکاروں کے ساتھ شمار کیا گیا تو بھی اُس نے بہتوں کے گناہ اُٹھا لۓ اور خطاکاروں کی شفاعت کی“ (یسعیاہ ٥٣ : ١٢ )۔

انجیل مقدس میں سے ذیل کے اقتباس دیکھیں اور بتائیں کہ جو نبوتیں یا پیش گوئیاں ہم نے ابھی ابھی پڑھی ہیں اُن میں سے کتنی پوری ہو گئ ہیں۔

”اُنہوں نے اُسے مصلوب کیا اور بدکاروں کو بھی ایک کو دہنی اور دوسرے کو بائیں طرف ۔۔۔ اے باپ! اِن کو معاف کر کیونکہ یہ جانتے نہیں کہ کیا کرتے ہیں۔۔۔ اُںہوں نے اُس کے کپڑوں کے حصے کۓ اور اُن پر قرعہ ڈالا۔۔۔ اور لوگ کھڑے دیکھ رہے تھے۔ ۔۔ سردار بھی ٹھٹھے مار مار کر کہتے تھے اِس نے اَوروں کو بچایا اگر یہ خدا کا مسیح اور برگزیدہ ہے تو اپنے آپ کو بچاۓ ۔۔۔ سپاہیوں نے بھی ۔۔۔ اُس پر ٹھٹھا مارا۔

” پھر جو بدکار صلیب پر لٹکاۓ گۓ تھے اُن میں سے ایک اُسے یوں طعنہ دینے لگا کہ کیا تُو مسیح نہیں؟ تُو اپنے آپ کو اور ہم کو بچا۔ مگر دوسرے نے اُسے جھڑک کر کہا کیا تُو خدا سے بھی نہیں ڈرتا حالانکہ اُسی سزا میں گرفتار ہے؟ اور ہماری سزا تو واجبی ہے کیونکہ اپنے کاموں کا بدلہ پا رہے ہیں لیکن اِس نے کوئی بے جا کام نہیں کیا۔ پھر اُس نے کہا اے یسوع جب تُو اپنی بادشاہی میں آۓ تو مجھے یاد کرنا۔ اُس نے اُس سے کہا مَیں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ آج ہی تُو میرے ساتھ فردوس میں ہو گا۔

” پھر دوپہر کے قریب سے تیسرے پہر تک تمام ملک میں اندھیرا چھایا رہا اور سورج کی روشنی جاتی رہی ۔۔۔“ (لوقا ٢٣: ٣٣ ۔ ٣٦ ، ٣٩ ۔ ٤٥ )۔

گذشتہ صدیوں کے دوران بے شمار مظلوموں نے صلیب کی اذیتیں برداشت کی ہیں۔ ٧٠ ء میں یروشلیم کے زوال اور تباہی سے پہلے رومی سپاہی روز پانسو یہودیوں کو صلیب دیتے تھے۔

مشہور مورخ یوسیفس بیان کرتا ہے کہ ٧٠ ء میں یروشلیم  کے سقوط سے پہلے رومی سپاہی ”ہر روز پانچ سو یہودیوں کو ۔۔۔ بلکہ بعض دنوں میں اِس سے بھی زیادہ یہودیوں کو پکڑتے اور یہودیوں کے خلاف غصہ اور نفرت کے باعث، جنہیں پکڑتے تھے، تماشا اور دل لگی کے لئے، اُنہیں صلیبوں پر جڑ دیتے تھے، ایک کو ایک طریقے سے دوسرے کو دوسرے طریقے سے۔ اُن کی تعداد اِتنی زیادہ تھی کہ صلیبوں کے گاڑنے کے لئے جگہ کم پڑ گئی اور جسموں کے لئے صلیبیں کم پڑ گئیں“

یوسیفس نے یہ بھی لکھا ہے کہ صلیب دینے سے پہلے مظلوموں کو ”کوڑے مارے جاتے اور ہر طرح کے تشدد سے اذیتیں دی جاتی تھیں“ (صفحہ ٥٦٣ ١ :١١ Antiquities )

بعض مظلوم تو کئی کئی دن تک صلیبوں پر سسکتے اور گھلتے رہتے تھے۔ اُن کے مقابلے میں یسوع نے تو بہت تھوڑی دیر، صرف چھ گھنٹوں تک صلیب کا دکھ اُٹھایا اور جان دے دی، لیکن اُس کا دکھ اُٹھانا بے مثال تھا۔ کیوں؟

سب سے بڑا فرق تو یہ ہے کہ نبیوں نے یسوع کے دکھوں اور موت کی پیش گوئیاں کی تھیں۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ بہتوں نے اپنا خون اُس وقت بہایا جب صلیب پر بے بس تھے اور اُن کا خون زرد ہو چکا تھا۔ صرف خداوند یسوع نے کامل خون بہایا۔ اور جو بیان ہم نے ابھی ابھی پڑھا ہے وہ یسوع کی موت کا ایک بالکل ہی بے مثال اور یکتا رُخ ظاہر کرتا ہے۔

”پھر دوپہر کے قریب سے تیسرے پہر تک تمام ملک میں اندھیرا چھایا رہا“ (لوقا ٢٣ : ٤٤)۔

وقت کے موجودہ نظام کے مطابق اُنہوں نے یسوع کو صبح تقریباً ٩ بجے مصلوب کیا (مرقس ١٥ : ٢٥ )۔ اور دوپہر بارہ بجے سے سہ پہر تین بجے تک تمام ملک میں اندھیرا چھایا رہا۔

یہ اندھیرا کیوں چھایا رہا؟ اِن تین گھنٹوں کے دوران، دنیا کی نظروں سے اوجھل، سارے زمانوں کی سب سے اہم کارروائ ہو رہی تھی۔ خدا زمان میں ہمارے گناہ کا ازالہ کر رہا تھا تاکہ ہمیں ابدیت میں اُس کا خمیازہ نہ بھگتنا پڑے۔

فوق الفطرت تاریکی کی اِن گھڑیوں میں آسمان پر خدا نے ہمارے گناہوں کی مجموعی اور ہمیشہ کی سزا اپنے پیارے اور راست باز بیٹے پر ڈال دی۔ خدا کے بیٹے نے اِسی مقصد سے گوشت اور خون کا بدن اختیار کیا تھا۔

” ۔۔۔وہی (یسوع مسیح) ہمارے گناہوں کا کفارہ (خدا کا غضب ٹھنڈا کرنے کے لئے گناہ کی کافی قربانی) ہے اور نہ صرف ہمارے گناہوں کا بلکہ تمام دنیا کے گناہوں کا بھی“ (١۔یوحنا ٢:٢ )۔

اِس سے سات صدیاں پہلے یسعیاہ نبی نے اُس کارروائی کی خبر دی تھی جو نہ اُس سے پہلے کبھی ہوئ نہ بعد میں کبھی ہو گی۔

”وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھایل کیا گیا اور ہماری بدکرداری کے باعث کچلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی کے لئے اُس پر سیاست ہوئ تاکہ اُس کے مار کھانے سے ہم شفا پائیں۔۔۔ خداوند نے ہم سب کی بدکرداری اُس پر لادی۔۔۔ جس طرح برّہ جسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں ۔۔۔ وہ فتوی' لگا کر اُسے لے گۓ۔۔۔ لیکن خداوند کو پسند آیا کہ اُسے کچلے۔ اُس نے اُسے غمگین کیا۔ جب اُس کی جان گناہ کی قربانی کے لئے گزرانی جاۓ گی۔۔۔ اپنی جان ہی کا دکھ اُٹھا کر وہ اُسے دیکھے گا اور سیر ہو گا۔ اپنے ہی عرفان سے میرا صادق خادم بہتوں کو راست باز ٹھہراۓ گا کیونکہ وہ اُن کی بدکرداری خود اُٹھا لے گا“ (یسعیاہ ٥٣ : ٥۔ ٧ ، ١٠، ١١)۔

صلیب پر اِن گھڑیوں کے دوران جب کہ کرہ ارض تاریکی میں لپٹا ہوا تھا خداوند خدا نے ہمارے گناہوں کی ناپاکی اور نجاست اور سزا اپنے رضامند اور بے گناہ بیٹے پر ڈالی۔ باپ اور بیٹے کے درمیان جو معاملہ طے ہوا ہم اُسے کبھی نہیں سمجھ سکیں گے۔ لیکن ایک بات یقینی ہے۔ یہ سارے زمانوں کی سب سے بڑی کارروائی تھی۔

اکیلا!

زمین پر گہری تاریکی چھائ ہوئی تھی۔ اِس کے دوران یسوع نے بڑی آواز سے چلا کر کہا ”ایلی۔ ایلی۔ لماشبقتنی؟ یعنی اے میرے خدا! اے میرے خدا! تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟“ (متی ٢٧ : ٤٦ )۔

یسوع ایسے دل دوز طریقے سے کیوں پکار اُٹھا؟ وہ اِس لئے پکار اُٹھا کہ خدا نے اُسے گناہ کی سزا اُٹھانے کے لئے، گناہ کی قیمت چکانے کے لئے — اکیلا— چھوڑ دیا تھا۔

ہم سب کی خاطر یسوع نے گناہ کے سبب سے ہونے والی تین قسم کی جدائی برداشت کی:

  • اُسے روحانی موت کا تجربہ ہوا: آسمان پر خدا نے اپنا پاک چہرہ اپنے بیٹے کی طرف سے پھیر لیا جو زمین پر تھا— جس پر اُس نے بنی نوع انسان کی ساری بدکرداری لادی تھی۔
  • وہ جسمانی موت میں سے گزرا: جس لمحے یسوع نے بہ رضا و رغبت دم دیا، اُس کی جان اور روح نے اُس کے بدن کو چھوڑ دیا۔
  • اُس نے دوسری موت کا مزہ بھی چکھا: میری اور آپ کی خاطر اُس نے پاتال (عالمِ اَرواح) کا عذاب بھی برداشت کیا۔

یسوع عالمِ اَرواح میں عذاب جھیلنے گیا تھا یا قیدی روحوں میں منادی کرنے؟ وہ قیدیوں کو ساتھ لے گیا— (١۔پطرس ٣: ١٩ ؛ افسیوں ٤: ٨)۔

پاتال ایک خستہ حال جگہ ہے جہاں تاریکی اور تنہائی ہے۔ وہاں کوئی اچھی چیز ہے نہیں۔ آسمانی باپ کی محبت اور حضوری سے دُوری اور جدائی ہے۔ ابدیت میں پہلی بار ایسا ہوا کہ صلیب پر لٹکے ہوۓ ازلی بیٹے کی اپنے ازلی باپ سے جدائی ہوئ۔ یسوع نے یہ ہولناک جدائی اِس لئے برداشت کی تاکہ ہمیں اِس کا کبھی تجربہ نہ ہو۔

خدا کا پاک برّہ ہمارا عوضی بن گیا اور ہمارے گناہ اُٹھا لۓ۔ اُس نے گناہ کی لعنت کا پورا وزن اُٹھا لیا اور شرمندگی، درد، کانٹے اور کیل برداشت کۓ۔ صلیب پر یسوع گناہ کی پوری، کامل، قطعی اور آخری ”سوختنی قربانی“ بن گیا (پیدائش ٨: ٢٠ ؛ ٢٢: ٢۔ ٨ ؛ خروج ٢٩ : ١٨ )۔ ”سوختنی قربانی“ کی اصطلاح پرانے عہدنامے میں ١٦٩  دفعہ استعمال ہوئ ہے۔ یسوع گناہ کی آخری سوختنی قربانی بن گیا (مرقس ١٢ : ٣٣ ؛ عبرانیوں ١٠ : ٦۔ ١٤ )۔

[نوٹ: خداوند یسوع صلیب پر لٹکا ہوا تھا کہ خدا نے اُس سے منہ موڑ لیا۔ اِس کی وجہ اور مطلب کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے پڑھیں یسعیاہ باب ٥٣ اور زبور  ٢٢ ۔ جس زبور میں داؤد نے پیش گوئی کی تھی کہ مسایاح کہے گا ”اے میرے خدا! اے میرے خدا! تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟“ (زبور ٢٢: ١) اُسی میں وہ بتاتا ہے کہ خدا نے اپنے بیٹے کو کیوں چھوڑ دیا، ”تُو قدوس ہے“ (زبور  ٢٢ :٣ )۔ خدا نے یسوع کو اِس لئے چھوڑ دیا کیونکہ وہ (خدا) بالکل پاک ہے اور ”بدی کو دیکھ نہیں سکتا“ (حبقوق ١: ١٣ )۔ اُن تاریک گھڑیوں میں بے گناہ ابنِ آدم بدکاروں کے بدلے دکھ اُٹھا رہا تھا اور خدا اُس کے خلاف ایسے طیش میں تھا گویا وہی گنہگار ہے۔ خدا کا پاک برّہ یسوع ”گناہ کو اُٹھانے والا“ بن گیا — لیکن خود گنہگار نہیں تھا۔

یہ بہت بڑا بھید ہے کہ وہ لافانی مر گیا۔ اِس عجیب بھید کو کون سمجھ سکتا ہے؟]

چند گھنٹوں میں دوزخ؟

یسوع نے ہمارا دوزخ اپنے اوپر لے لیا۔

ایک ہستی سارے انسانوں کی سزا کیسے اُٹھا سکتا ہے؟ سارے انسانوں کے گناہوں کی قیمت کیسے ادا کر سکتا ہے؟ یسوع چند گھنٹوں میں پوری ابدیت کی سزا کیسے اُٹھا سکتا تھا؟

جو وہ ہے اُس کے باعث — اپنی ذات کے باعث ایسا کر سکا۔

جو وہ ہے اُس کے باعث اُسے ضرورت نہ تھی کہ پوری ابدیت میں ہمارے گناہوں کی سزا بھگتتا رہتا، جیسے ہمیں بھگتنی تھی۔ وہ خدا کا بیٹا اور کلام ہے۔ اُس کا اپنے گناہ کا کوئ قرض نہ تھا جو اُسے ادا کرنا پڑا۔ اور نہ وہ وقت میں پابند تھا جیسے ہم ہیں۔ وہ لازمان ہے۔ وقت سے ماورا ہے۔

جو  وہ ہے، جو اُس کی ذات ہے، اُس کے باعث وہ اِس لائق تھا کہ محدود وقت میں ”ہر ایک آدمی کے لئے موت کا مزہ چکھے“ (عبرانیوں ٢: ٩)۔

جس طرح خداوند خدا کو یہ پیچیدہ دنیا خلق کرنے کے لئے وقت کی خاص میعاد کی ضرورت نہ تھی — اگرچہ اُس نے چھے دن کا عرصہ چنا — اِسی طرح اُسے صلیب پر بھی وقت کی خاص میعاد کی ضرورت نہ تھی جس میں کل انسانوں کا فدیہ دے کر اُنہیں چھڑاتا — اگرچہ اُس نے چھے گھنٹے کی میعاد چنی۔

خدا کے نزدیک وقت ناچیز ہے — یعنی 'ہے نہیں۔'

” ۔۔۔ ازل سے ابد تک تُو ہی خدا ہے۔۔۔ تیری نظر میں ہزار برس ایسے ہیں جیسے کل کا دن جو گزر گیا اور جیسے رات کا ایک پہر“ (زبور ٩٠ : ٢، ٤ )۔

”پورا ہوا!“

” اِس کے بعد جب یسوع نے جان لیا کہ اب سب باتیں تمام ہوئیں تاکہ نوشہ پورا ہو تو کہا کہ مَیں پیاسا ہوں۔ وہاں سرکہ سے بھرا ہوا ایک برتن رکھا تھا۔ پس اُنہوں نے سرکہ میں بھگوۓ ہوۓ سپنچ کو زُوفے کی شاخ پر رکھ کر اُس کے منہ سے لگایا۔ پس جب یسوع نے وہ سرکہ پیا تو کہا کہ تمام ہوا اور سر جھکا کر جان دے دی“ (یوحنا ١٩ : ٢٨ ۔ ٣٠ )۔

دم دینے سے پہلے یسوع نے ایک اعلان کیا:

”تمام ہوا!“

یہ جملہ یونانی کے صرف ایک لفظ  ” Tetelesai “  کا ترجمہ ہے۔ نوکر، خادم یا کارکن مطلوبہ کام پورا کرنے کے بعد اپنے بھیجنے والے کو خبر دینے کے لئے کہہ سکتا تھا  ” Tetelesai “  جس کا مطلب ہے

 ”تفویض کیا گیا کام مکمل ہوا!“

دوسرے سارے انجیل نویس بیان کرتے ہیں کہ ”یسوع نے بڑی آواز سے چلا کر دم دے دیا“ (متی ٢٧: ٥٠ ؛ مرقس ١٥ : ٣٦ ؛ لوقا ٢٣ : ٤٦ )۔

یہ فتح کا نعرہ تھا!

وہ نبوتیں، پیش گوئیاں اور علامتیں جو خدا کے قربانی کے برّہ کی طرف اشارہ کرتی تھیں پوری ہو چکی تھیں۔

یسوع نے لعنت کے سبب یعنی گناہ کا موثر ازالہ کر دیا تھا۔

اُس نے خدا کو پورا فدیہ ادا کر کے آدم کی نجس، باغی، سرکش اور ملعون نسل کو چھڑا لیا تھا۔ گناہ کے خلاف خدا کی راست اور صادق ذات اور غضب کا تقاضا بالکل پورا ہو گیا تھا۔ اُس کے احکام اور فرمانوں پر عمل درآمد ہو چکا تھا۔

تمام ہوا! پوری ادائیگی ہو گئ! پوری قیمت ادا ہو گئ! سونپا گیا کام مکمل ہوا!

”تمہاری خلاصی فانی چیزوں یعنی سونے چاندی کے ذریعہ سے نہیں ہوئ بلکہ ایک بے عیب اور بے داغ برّے یعنی مسیح کے بیش قیمت خون سے۔ اُس کا علم تو بنایِ عالم سے پیشتر سے تھا مگر ظہور اخیر زمانہ میں تمہاری خاطر ہوا“ (١۔پطرس ١: ١٨ ۔ ٢٠ )۔

صدیوں تک قربانی کے لاکھوں بے عیب جانوروں کا خون بہتا رہا۔ لیکن اب یسوع کے بے گناہ بدن سے اُس کا اپنا خون بہایا گیا۔ یسوع کے نہایت ”بیش قیمت خون“ نے گناہ کو عارضی طور پر نہیں ڈھانکا بلکہ اُسے کتاب سے ہمیشہ کے لئے مٹا دیا۔

خدا کے پہلے عہد میں یہی بات پیشتر سے بتائی گئ تھی:

”دیکھ وہ دن آتے ہیں خداوند فرماتا ہے جب مَیں ۔۔۔ نیا عہد باندھوں گا ۔۔۔ مَیں اُن کی بدکرداری کو بخش دوں گا اور اُن کے گناہ کو یاد نہ کروں گا“ (یرمیاہ٣١ :٣١ ، ٣٤ )۔

نیا عہد نامہ وضاحت کرتا ہے ”جب اُس نے نیا عہد کہا تو پہلے کو پرانا ٹھہرایا“ (عبرانیوں ٨: ١٣ )۔ اب گناہ کی قربانیوں کی کچھ حاجت نہ رہی۔ صلیب پر مسایاح کی موت نے قربان گاہ پر جانوروں کی قربانیاں منسوخ کر دیں۔

جس طرح خداوند خدا نے پہلی خون کی قربانی کی تھی (جس روز آدم اور حوا نے گناہ کیا)، اُسی طرح خود اُس نے آخری اور قابلِ قبول اور پسندیدہ خون کی قربانی مہیا کی ہے۔

ابرہام کی نبوت کے مطابق ”خدا نے آپ ہی اپنے واسطے ۔۔۔ قربانی کے لئے برّہ مہیا“ کر لیا (پیدائش ٢٢ : ٨)۔ خدا نے ابرہام کے بیٹے کو تو بچا لیا، اُس کا دریغ کیا، لیکن ”اپنے بیٹے کو دریغ نہ کیا بلکہ ہم سب کی خاطر اُسے حوالہ کر دیا“ (رومیوں ٨: ٣٢ )۔

یسوع کے بہاۓ گۓ خون نے گناہ اور موت کے قانون کا تقاضا پورا کر دیا اور قربانی کے قانون (شریعت) کو پورا کیا۔

اِس لئے تعجب کیسا کہ اُس نے بلند آواز سے پکار کر کہا، ”تمام ہوا“۔

پردے کا پھٹنا

جب یسوع نے بلند آواز سے پکار کر کہا کہ ”تمام ہوا“ تو کیا واقعہ ہوا؟

”پھر یسوع نے بڑی آواز سے چلا کر دم دے دیا اور مقدِس کا پردہ اوپر سے نیچے تک پھٹ کر دو ٹکڑے ہو گیا“ (مرقس ١٥ : ٣٧ ، ٣٨ )۔

قدیم مورخین بتاتے ہیں کہ ہیکل کا پردہ ہتھیلی کے برابر موٹا تھا اور اِسے کھینچنے یا حرکت دینے کے لئے تین سو آدمی درکار ہوتے تھے۔

کیا تھا جس نے اُس بھاری بھرکم اور بڑے پردے کو پھاڑ کر دو ٹکڑے کر دیا؟

اِسی کتاب کے باب ٢١ میں ہم نے سیکھا تھا کہ خدا نے اپنے لوگوں کو حکم دیا تھا کہ خیمہ اجتماع میں اور بعد ازاں ہیکل میں ایک خاص پردہ لٹکائیں۔ اِس پردے نے انسان کو ”پاک ترین مقام“ سے خارج رکھا ہوا تھا۔ یہ اندرونی مقدس تھا جہاں خدا نے اپنی حضوری کا چندھیا دینے والا جلال رکھا تھا۔ اِس پردہ پر آسمانی، ارغوانی اور سرخ رنگوں کی کڑھائ کی گئی تھی۔ یہ پردہ خدا کے اپنے بیٹے کی علامت تھا جو آسمان سے زمین پر آۓ گا۔ اور یہ پردہ گنہگاروں کو اپنے پاک خالق سے جدائی کی بھی یاد دلاتا تھا۔ خدا کی ابدی سکونت گاہ میں داخل ہونے کی اجازت صرف اُن لوگوں کو ملے گی جو اُس کی کامل راست بازی کے معیار پر پورے اُتریں گے۔

سال میں صرف ایک دفعہ کفارہ کے دن خاص طور سے مسح کئے ہوۓ سردار کاہن کو اجازت تھی کہ پردہ میں سے گزر کر پاک ترین مقام میں داخل ہو۔ اور خدا کی خاص حضوری میں داخل ہونے کے لئے صرف ایک ہی طریقہ تھا کہ سردار کاہن برتن میں قربانی کے بکرے کا خون (جو یسوع کے بہاۓ گۓ خون کی علامت تھا) ساتھ لے کر جاۓ۔ یہ بھی ضروری تھا کہ وہ نفیس کتان کا چوغہ پہنے (یہ مسیح کی راست بازی کی علامت تھا)۔ پاک ترین مقام میں داخل ہو کر سردار کاہن عہد کے صندوق کی رحم گاہ (سرپوش) پر سات بار خون چھڑکتا تھا۔ عہد کے صندوق میں خدا کی شریعت تھی جو گنہگاروں کو موت کا سزاوار ٹھہراتی تھی۔ لیکن خدا نے گنہگاروں پر رحم کیا اور اجازت دی کہ اُن کے بدلے بے گناہ جانور ذبح کۓ جائیں۔

پندرہ صدیوں سے یہ پردہ گواہی دیتا آ رہا تھا کہ خدا نہایت پاک ہے اور مسیح کے بہاۓ گۓ خون کے بغیر گناہ کا ابدی کفارہ نہیں ہو سکتا۔ صرف خدا کا چنا ہوا، بے گناہ اور برگزیدہ شخص ہی گناہ کی قیمت ادا کر سکتا ہے۔ یہ پردہ اُسی کی علامت تھا۔ اِسی لۓ جب وقت پورا ہو گیا تو خدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا کہ خدا کے قوانین اور شریعت کی کامل فرماں برداری کرے اور پھر اپنی رضامندی سے آدم کی نافرمان اور شریعت کو توڑنے والی اولاد کے بدلے پوری سزا برداشت کر لے۔

چنانچہ کس نے ہیکل کا پردہ اوپر سے نیچے تک پھاڑ کر دو ٹکڑے کر دیا؟ خدا نے ایسا کیا۔ یہ بیٹے کے الفاظ ”تمام ہوا“ پر باپ کی طرف سے ”آمین“ تھی۔

یہ خدا کے سارے تقاضے پورے ہو گۓ تھے۔

اب گناہ کی کسی اَور قربانی کی حاجت نہ رہی تھی۔

گناہ کی قربانیاں ختم

صلیب پر یسوع کی قربانی سے پورا فدیہ (گناہ کی معافی اور خدا کے ساتھ میل ملاپ) ادا ہو  گیا۔ کامل عوضی نے اپنی خوشی سے جہان کے گناہ کے لئے اپنا خون بہا دیا تھا۔

اب خدا کے لوگوں کو ہر سال گناہ کی قربانی نہیں چڑھانی پڑے گی۔

اب خدا ہیکل کی رسومات کی ادائیگی یا سردار کاہنوں کا مطالبہ نہیں کرے گا۔

ہمیشہ کے لئے ایک ہی قربانی چڑھائ جا چکی ہے۔ عکسوں اور علامتوں کے پیچھے جو ”حقیقت“ تھی اُس نے کہہ دیا ”تمام ہوا!“

جو ایمان لاتے ہیں اُن سب سے خدا کہتا ہے:

”اُن کے گناہوں اور بے دینیوں کو پھر کبھی یاد نہ کروں گا۔  اور جب اُن کی معافی ہو گئ ہے تو پھر گناہ کی قربانی نہیں رہی۔ پس اے بھائیو! چونکہ ہمیں یسوع کے خون کے سبب سے اُس نئی اور زندہ راہ سے پاک مکان میں داخل ہونے کی دلیری ہے جو اُس نے پردہ یعنی اپنے جسم میں سے ہو کر ہمارے واسطے مخصوص کی ہے اور چونکہ ہمارا ایسا بڑا کاہن ہے جو خدا کے گھر کا مختار ہے تو آؤ ہم سچے دل اور پورے ایمان کے ساتھ ۔۔۔ خدا کے پاس چلیں۔“ (عبرانیوں ١٠ : ١٧ ۔ ٢٢ )

عبرانیوں ٩ اور ١٠ باب پڑھیں جیسا کہ ہم نے باب ٢٢ میں بتایا تھا کہ خدا کا جلال جو خیمہ اجتماع اور بعد ازاں ہیکل میں سکونت کرتا تھا اب وہ پردوں کے پیچھے نہیں رہتا تھا۔ اب وہ یسوع میں تھا۔

مر گیا

جس وقت یسوع نے جان دی اُس وقت نہ صرف ہیکل کا پردہ پھٹ گیا بلکہ ”زمین لرزی اور چٹانیں تڑک گئیں ۔۔۔“ (متی ٢٨ : ٥١ )۔

”پس صوبہ دار اور جو اُس کے ساتھ یسوع کی نگہبانی کرتے تھے بھونچال اور تمام ماجرا دیکھ کر بہت ہی ڈر  کر کہنے لگے کہ بے شک یہ خدا کا بیٹا تھا“ (متی ٢٧ : ٥٤ )۔

کچھ دیر  بعد یہ یقین کرنے کے لئے کہ یسوع واقعی مر گیا ہے ایک رومی سپاہی نے یسوع کی پسلی میں نیزہ مارا (یوحنا ١٩ : ٣٤ )۔ اور اُس کے پہلو سے خون اور پانی بہہ نکلا۔ یوں ایک طبی ثبوت مل گیا کہ یسوع واقعی مر گیا ہے۔ سپاہی کے اِس کام سے اَور  پیش گوئیاں بھی پوری ہوئیں (یوحنا ١٩ : ٣١ ۔ ٣٧ )۔

کفن دفن

” جب شام ہوئ تو یوسف نام ارمتیاہ کا ایک دولت مند آدمی آیا جو خود بھی یسوع کا شاگرد تھا۔ اُس نے پیلاطس کے پاس جا کر یسوع کی لاش مانگی۔ اِس پر پیلاطس نے دے دینے کا حکم دیا۔ اور یوسف نے لاش کو لے کر صاف مہین چادر میں لپیٹا اور اپنی نئی قبر میں جو اُس نے چٹان میں کھدوائی تھی رکھا۔ پھر وہ ایک بڑا پتھر قبر کے منہ پر لڑھکا کر چلا گیا“ (متی ٢٧ : ٥٧ ۔ ٦٠ )۔

یسعیاہ نبی نے پیش گوئی کی تھی کہ مسایاح کی قبر ”دولت مندوں کے ساتھ“ ہو گی (یسعیاہ ٥٣ :٩ )۔ خدا کے منصوبے کی ایک ایک تفصیل پوری ہو رہی تھی۔ مگر اِن باتوں کے باوجود یسوع کے شاگرد اس منصوبے کو نہ سمجھے۔ اُن کا یہ ایمان تو صحیح تھا کہ یسوع مسایاح ہے اور وہ دنیا میں اپنی بادشاہی قائم کرے گا، لیکن جب اُنہوں نے اُسے مرتے دیکھا تو اُن کی اُمیدیں دم توڑ گئیں۔ اُن کا معجزے کرنے والا اور سب سے پیارا دوست قتل ہو گیا اور دفن ہو چکا تھا۔

سب کچھ ختم ہو گیا— یا وہ ایسا سوچتے تھے۔

عجیب بات ہے کہ یسوع کے شاگرد اُس کا یہ وعدہ بھول گۓ تھے کہ مَیں تیسرے دن مُردوں میں سے جی اُٹھوں گا۔ لیکن مذہبی لیڈر جنہوں نے یسوع کو مروانے کی کارروائی کی تھی وہ اِس بات کو نہیں بھولے تھے۔

”۔۔۔ سردار کاہنوں اور فریسیوں نے پیلاطس کے پاس جمع ہو کر کہا خداوند! ہمیں یاد ہے کہ اُس دھوکے باز نے جیتے جی کہا تھا مَیں تین دن کے بعد جی اُٹھوں گا۔ پس حکم دے کہ تیسرے دن تک قبر کی نگہبانی کی جاۓ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اُس کے شاگرد آ کر اُسے چرا لے جائیں اور لوگوں سے کہہ دیں کہ وہ جی اُٹھا ہے اور یہ پچھلا دھوکا پہلے سے بھی بُرا ہو۔ پیلاطس نے اُن سے کہا تمہارے پاس پہرے والے ہیں۔ جاؤ جہاں تک تم سے ہو سکے اُس کی نگہبانی کرو۔ پس وہ پہرے والوں کو ساتھ لے کر گۓ اور پتھر پر مہر کر کے قبر کی نگہبانی کی“متی ٢٧: ٦٢ ۔ ٦٧ )۔

جس قبر میں یسوع کی لاش تھی اُس کے منہ پر پتھر رکھ کر مہر کر دی گئی۔ خوب مسلح رومی سپاہی قبر کے اِرد گرد پہرہ دینے لگے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اِس طرح یسوع ناصری کا قصہ ختم ہو جائے گا۔

اور اتوار کی صبح ہونے لگی۔