۶
مستحکم گواہ
” اگر جاننا چاہتے ہو کہ پانی کیسا یا کس کی مانند ہے تو مچھلیوں سے مت پوچھو “ — (چینی کہاوت)

 ذرا تصور کریں کہ آپ دریا کے کنارے کنارے چل رہے ہیں۔ سخت گرمی پڑ رہی ہے۔ آپ دریا میں نہانے اور تیرنے کا سوچتے ہیں، مگر ساتھ ہی خیال آتا ہے کہ یہ پانی میری پسند کے مطابق ہے یا نہیں؟ بہاؤ بہت تیز تو نہیں؟ پانی بہت ٹھنڈا تو نہیں؟ کیا حالات موافق ہیں؟ چینی کہاوت صلاح دیتی ہے ” مچھلیوں سے مت پوچھو۔ “

اُس پانی میں رہنے والی مچھلیاں آپ کو بتانے کے قابل کیوں نہیں کہ پانی کیسا ہے؟ (قطع نظر اِس حقیقت کے کہ وہ آپ کی زبان نہیں بولتیں)۔ مچھلیاں آپ کو یہ معلومات اِس سادہ سی وجہ کے باعث نہیں دے سکتیں کہ اُن کے پاس پانی میں رہنے کے علاوہ اَور کوئ حوالہ نہیں۔ وہ صرف اِسی محدود اور دُھندلی سی دنیا سے واقف ہیں۔

اِسی طرح اگر ہم اِس دنیا کو جاننا اور سمجھنا چاہتے ہیں جس میں ہم رہتے ہیں اور یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ ہم یہاں کیوں ہیں تو یہ معلومات انسان کی محدود دنیا اور اُس کے بارے میں خود ساختہ نظریے کے باہر سے آنی چاہئیں۔

اچھی خبر یہ ہے کہ آسمان کے خدا نے انسان کے لئے یہ معلومات فراہم کر دی ہیں:

” ہر ایک صحیفہ جو خدا کے الہام سے ہے تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راست بازی میں تربیت کرنے کے لۓ فائدہ مند بھی ہے “ (٢۔تیمتھیُس٣ : ١٦ )۔

ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ بائبل مقدس کے صحائف ” خدا کے الہام سے “ ہیں؟ گذشتہ باب میں ہم نے دیکھا تھا کہ خالق نے بائبل مقدس میں سینکڑوں پیش گوئیاں رکھی ہیں جو پوری ہو چکی ہیں اور اِس طرح اِس کے متعبر اور مستند ہونے پر  مُہر لگا دی ہے۔

صرف خدا ہی دُور کے مستقبل کا بار بار سو فیصد درست بیان کر سکتا ہے۔ اپنے مکاشفے کو معتبر ثابت کرنے کے لۓ خدا نے دوسرا طریقہ یہ استعمال کیا ہے کہ اِسے کئ صدیوں میں بہت سے نبیوں پر ظاہر کیا ہے۔

ایک گواہ کافی نہیں ہوتا

خدا نے موسی' سے کہا ” کسی شخص کے خلاف اُس کی کسی بدکاری یا گناہ کے بارے میں جو اُس سے سرزد ہو ایک ہی گواہ بس نہیں بلکہ دو گواہوں یا تین گواہوں کے کہنے سے بات پکی سمجھی جاۓ “ (استثنا ١٩ : ١٥ )۔

یہ اصول ساری دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ کسی بھی عدالت میں سچائ کو ماننے کے لۓ ایک سے زیادہ گواہ درکار ہوتے ہیں۔ کسی بیان کو سچا اور درست قرار دینے کے لۓ بہت سے معتبر ذرائع اور ثبوت پیش کرنا ضروری ہوتا ہے۔

اپنی سچائ کو ظاہر کرنے میں خدا نے اپنے قانون کو نظرانداز نہیں کیا جو کہتا ہے کہ ” ایک ہی گواہ بس نہیں “ ۔ پاک صحائف کہتے ہیں ” زندہ خدا ۔۔۔ جس نے آسمان اور زمین اور سمندر اور جو کچھ اُن میں ہے پیدا کیا، اُس نے اگلے زمانہ میں سب قوموں کو اپنی اپنی راہ چلنے دیا۔ تَو بھی اُس نے اپنے آپ کو بے گواہ نہ چھوڑا۔۔۔ “ (اعمال ١٤ : ١٥ ۔ ١٧)۔

یہاں تک کہ دنیا میں الگ تھلگ رہنے والے قبیلوں کے پاس بھی کائنات کی خارجی گواہی موجود ہے کہ وہ اپنے خالق کی پیدا کی ہوئ چیزیں دیکھتے ہیں۔ اور ساتھ ہی ضمیر کی باطنی گواہی موجود ہے یعنی اچھے اور بُرے اور ابدیت کا پیدائشی احساس۔ دنیا کے ہر شخص کو کچھ نہ کچھ روشنی __ تھوڑی بہت سچائ عطا کی گئ ہے۔ اِس لۓ خدا کہتا ہے انسانوں کے پاس ” کچھ عذر باقی نہیں۔ “

” جو کچھ خدا کی نسبت معلوم ہو سکتا ہے وہ اُن کے باطن میں ظاہر ہے۔ اِس لۓ کہ خدا نے اُس کو اُن پر ظاہر کر دیا کیونکہ اُس کی اَندیکھی صفتیں یعنی اُس کی ازلی قدرت اور الوہیت دنیا کی پیدائش کے وقت سے بنائ ہوئ چیزوں کے ذریعے سے معلوم ہو کر صاف نظر آتی ہیں۔ یہاں تک کہ اُن کو کچھ عذر باقی نہیں “ (رومیوں ١: ١٨ ۔ ٢٠ )۔ یہاں تک کہ جن قوموں کے پاس پاک صحائف نہیں ہیں وہ ” اپنی طبیعت سے شریعت کے کام کرتی ہیں تو باوجود شریعت نہ رکھنے کے وہ اپنے لۓ خود ایک شریعت ہیں۔ چنانچہ وہ شریعت کی باتیں اپنے دلوں پر لکھی ہوئ دکھاتی ہیں “ (رومیوں ٢ : ١٤ ،١٥ )۔ تو بھی سچائ کے زیادہ طالب ہونے کے بجاۓ بہت سے لوگ جھوٹ اور بطالت کی پیروی کرتے ہیں۔ مگر خدا وعدہ کرتا ہے کہ جو لوگ اپنے خالق کو تلاش کرنے اور جاننے کے لۓ جاں فشانی کرتے ہیں مَیں (خدا) اُنہیں مزید روشنی عطا کروں گا۔

مسلسل گواہی

خدا نے اپنے آپ کو کبھی بے گواہ نہیں چھوڑا۔

انسانی تاریخ کے پہلے ایک ہزار سالوں میں خدا لوگوں سے یا تو براہِ راست کلام کرتا تھا یا اوّلین انسانوں (آدم اور حوا) کی زبانی گواہی کے وسیلے سے اپنی سچائ ظاہر کرتا تھا۔ پہلا انسان یعنی آدم ٩٣٠ سال تک جیتا رہا۔ جو لوگ انسانی تاریخ کے پہلے ہزار سالوں کے دوران ہوۓ اُن کے پاس اپنے خالق اور مالک کے بارے میں سچائ کو نہ جاننے کا کوئ عذر نہ تھا کیونکہ وہ اصل گواہوں یعنی آدم اور حوا سے روبرو گفتگو کر سکتے ہیں۔

بائبل مقدس میں درج نسب ناموں میں مرقوم عمروں کا حساب لگانے سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ جب آدم فوت ہوا تو نوح کا باپ (آدم کے بعد نویں پشت) ٥٠ سال سے زیادہ عمر کا تھا (دیکھۓ پیدائش باب ٥ )۔ اوّلین انسانوں کی درازیِ عمر آج کل کی درازیِ عمر سے گیارہ گنا تھی۔ بعد میں خدا نے ” عمر کی میعاد ستر برس ۔۔۔ یا قوت ہو تو اَسی برس “ کر دی (زبور ٩٠ :١٠ )۔

تقریباً ١٩٢٠ ق م میں خدا نے ایک عمر رسیدہ آدمی کو چن لیا اور اُس کا نام 'ابرہام' رکھا، خدا نے ابرہام سے وعدہ کیا کہ مَیں تجھے ایک قوم بناؤں گا اور اُس قوم کے وسیلہ سے دنیا کی قوموں کو اپنی ذات اور بنی نوع انسان کے لۓ اپنے منصوبے کے بارے میں ضروری باتیں سکھاؤں گا۔ مزید یہ کہ اُسی برگزیدہ قوم سے انبیا برپا کروں گا اور نوشتے دوں گا اور مسایاح (مسیحِ موعود) کو دنیا میں بھیجوں گا۔ تقریباً ١٤٩٠ ق م میں خدا نے اُسی قوم سے ایک آدمی کو بلا کر  اپنا ترجمان مقرر کیا۔ اُس کا نام موسی' تھا۔

تحریری گواہ

خدا نے موسی' کو تحریک دی کہ پاک صحائف کا پہلا حصہ یعنی توریت لکھے۔ آسمان اور زمین کے خالق کا ارادہ اور مقصد یہ تھا کہ مستقبل کی پشتوں کے لۓ اور زمانوں کے آخر تک کے لۓ تحریری شکل میں کلام مہیا کیا جاۓ۔ خدا نے وہ الفاظ موسی' کے ذہن میں ڈالے جو لکھے جانے تھے اور وہ لکھے گۓ۔ خدا نے موسی' کے وسیلے سے بڑے بڑے معجزے دکھا کر ساری قوموں کے لۓ اپنے کلام کے متعبر ہونے کی تصدیق کر دی۔ خدا نے مستقبل میں ہونے والے واقعات بھی ظاہر کر دیۓ اور موسی' نے مصریوں اور اسرائیلیوں کو وہ واقعات بتا دیۓ۔ سب کچھ بالکل ویسے ہی ہوا جیسے موسی' نے پیش گوئ سے بتایا تھا۔ خدا نے شک کی کوئ معقول وجہ نہ چھوڑی۔ یہاں تک کہ نہایت ہٹ دھرم تشکیک پرستوں کو بھی مانںا پڑا کہ جو خدا موسی' کی معرفت کلام کرتا ہے وہ حقیقی اور زندہ خدا ہے۔ ” تب جادو گروں نے فرعون سے کہا کہ یہ خدا کا کام ہے “ (خروج ٨: ١٩ مزید دیکھۓ ١٢ : ٣٠ ۔٣٣ ۔ پوری کہانی کے لۓ دیکھۓ خروج ابواب ٥ ۔ ١٤ )۔

اِن نبیوں کی لمبی قطار میں  موسی' پہلا شخص تھا جنہوں نے پندرہ صدیوں سے زیادہ عرصے کے دوران خدا کا کلام قلم بند کیا۔ یہ نبی فرق فرق پس منظر سے برپا ہوۓ۔ بعض نے باقاعدہ تعلیم بھی نہیں پائ تھی۔ وہ الگ الگ پشتوں میں برپا ہوۓ۔ اِس کے باوجود اُنہوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ شروع سے آخر تک ایک ہی پیغام ہے۔

خدا نے موسی' ، داؤد، سلیمان اور تقریباً تیس دوسرے آدمیوں کو چنا کہ پرانے عہدنامے کے صحائف لکھیں۔ اُس نے معجزوں اور عجیب کاموں کے ذریعے سے اور اپنے وعدے اور پیش گوئیاں پوری کر کے اپنے کام کو سچا ثابت کیا۔

متی، مرقس، لوقا اور یوحنا __ اِن چار اشخاص نے نۓ عہدنامے میں مسیحِ موعود کا حسب نسب، زندگی، کلام، موت اور جی اُٹھنے کا حال قلم بند کیا ہے۔ اُن کی تحریر کردہ کتابوں کو اناجیل (واحد، انجیل معنی خوش خبری) کہتے ہیں۔ اِس طرح اُنہوں نے دنیا کو چار الگ الگ گواہیاں پیش کی ہیں۔ خدا نے پطرس (ایک ماہی گیر)، یعقوب اور یہوداہ (یسوع کا نیم سگا بھائ) اور پولس (ایک عالم، پہلے وہ مسیحیوں کو ستایا کرتا تھا) کو بھی تحریک دی کہ اپنے لوگوں کے لۓ خدا کے موجودہ اور آئندہ کے لۓ شاندار اور حتمی ارادے اور مقصد کی تفصیل بیان کریں۔ مقدس یوحنا رسول نے بائبل مقدس کی آخری کتاب لکھی جس میں واقع ہونے سے پہلے دنیا کی تاریخ کی واضح تصویر پیش کر دی ہے اور بتا دیا ہے کہ خاتمہ کیسے ہو گا۔

مستعد گواہ

مجموعی طور پر خدا نے پندرہ صدیوں سے زیادہ عرصے کے دوران تقریباً چالیس آدمیوں کے وسیلے سے نوع انسان کے لۓ اپنا مکاشفہ لکھوایا۔ اِن گواہوں میں سے اکثر ایک دوسرے کو جانتے نہیں تھے تو بھی جو کچھ اُنہوں نے لکھا ایک دوسرے سے پوری مطابقت رکھتا ہے اور حتمی پیغام ہے۔

جو ہستی زمان و مکان سے ماورا ہے، جو مخصوص اور مقررہ عمر کی زنجیروں سے بندھا ہوا نہیں، اُس کے سوا کون ہے جو اِس ثابت اور یکساں بیان کو آگے مستقل کر سکتا؟

” کیونکہ نبوت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی بلکہ آدمی روح القدس کی تحریک کے سبب سے خدا کی طرف سے بولتے تھے “ (٢۔پطرس ١: ١ ٢)۔

صدیوں سے بہت سے لوگ نۓ عہدنامے کے مصنفین اور اُن کے پیغام کو غیر متعبر ثابت کرنے کی کوشش کرتے آ رہے ہیں۔ خاص طور سے مقدس پولس رسول کے نوشتوں پر حملے کۓ جاتے ہیں۔ بعض لوگ تو ہمیں بھی جو بائبل مقدس پر ایمان رکھتے ہیں ” پَولُسی “ کہتے ہیں، اِس لۓ کہ ہم پاک کلام کی پوری کتاب کو مانتے ہیں جس میں وہ نوشتے بھی شامل ہیں جو الہام سے مقدس پولس پر ظاہر کۓ گۓ۔

مقدس پطرس رسول ہمیں ہدایت اور تاکید کرتا ہے کہ ہم مقدس پولس کے نوشتوں کو سنجیدگی سے قبول کریں۔ ” ہمارے پیارے بھائ پولس نے بھی اُس حکمت کے موافق جو اُسے عنایت ہوئ تمہیں یہی لکھا ہے اور اپنے سب خطوں میں اِن باتوں کا ذکر کیا ہے جن میں بعض باتیں ایسی ہیں جن کا سمجھںا مشکل ہے اور جاہل اور بے قیام لوگ اُن کے معنوں کو بھی اَور صحیفوں کی طرح کھینچ تان کر اپنے لۓ ہلاکت پیدا کرتے ہیں “ (٢۔پطرس ٣ : ١٥ ،١٦ )۔

جو کچھ مقدس پولس نے لکھا وہ سب کا سب نبیوں کے نوشتوں سے پوری پوری مطابقت رکھتا ہے۔ مقدس پولس نے خود بھی تصدیق کی ہے ” ۔۔۔ خدا کی مدد سے مَیں آج تک قائم ہوں اور چھوٹے بڑے کے سامنے گواہی دیتا ہوں اور اُن باتوں کے سوا کچھ نہیں کہتا جن کی پیش گوئی نبیوں اور موسی' نے بھی کی ہے ۔۔۔ اے اگرپا بادشاہ کیا تُو نبیوں کا یقین کرتا ہے۔۔۔ “ (اعمال ٢٦ : ٢٢، ٢٧ )۔

معتبر یا غیر معتبر؟

کسی گواہ کے معتبر ہونے کی کسوٹی یہ نہیں کہ اُس شخص کی گواہی میں سچ کی مقدار کتنی ہے بلکہ یہ کہ ” تضاد بیانی “ کا فقدان کتنا ہے۔ اِس کی وضاحت ذیل کے لطیفہ سے ہوتی ہے:

ایک دن موسم بہت خوش گوار تھا۔ ہائ سکول کے چار لڑکے جماعت سے غیر حاضر رہنے کی آزمائش کا شکار ہو گۓ۔ اگلے دن اُنہوں نے اپنی اُستانی کو یہ وضاحت پیش کی کہ ہم اِس لۓ غیر حاضر رہے کیونکہ ہماری کار کا ٹائر پھٹ گیا تھا۔ اُنہیں تسلی ہو گئ کیونکہ اُستانی نے مسکراتے ہوۓ کہا کہ ” کوئ بات نہیں مگر کل تم ایک ضروری ٹیسٹ دینے سے رہ گۓ۔ خیر، بیٹھ جاؤ۔ کاغذ پنسل نکالو۔ مَیں ابھی ٹیسٹ لے لیتی ہوں۔ پہلا سوال ہے کون سا ٹائر پھٹ گیا تھا؟ “ لڑکوں کے متضاد جوابوں نے سارا پول کھول دیا۔

ان چار لڑکوں کی گواہی تو متضاد اور غیر معتبر تھی۔ اِس کے برعکس خدا کی گواہی متعبر ہے۔ بے شمار پشتوں کے عرصے میں درجنوں گواہوں اور لکھنے والوں کے وسیلہ سے ہمارے خالق نے اپنی ذات اور اپنا منصوبہ بے خطا استحکام اور تسلسل سے ظاہر کیا ہے۔

انسانوں کے متضاد مذاہب اور فلسفوں کے طوفانی سمندر میں خدا نے ہمیں مضبوط اور غیر متزلزل چٹان مہیا کی اور محفوظ رکھی ہے جس پر ہماری روحیں آرام اور سکون پاتی ہیں۔

یہ چٹان اُس کا کلام ہے۔

” ہمارے پاس نبیوں کا وہ کلام ہے جو زیادہ معتبر ٹھہرا اور تم اچھا کرتے ہو جو یہ سمجھ کر اُس پر غور کرتے ہو کہ وہ ایک چراغ ہے جو اندھیری جگہ میں روشنی بخشتا ہے۔۔۔ اور جس طرح اُس اُمت میں جھوٹے نبی بھی تھے اُسی طرح تم میں بھی جھوٹے اُستاد ہوں گے۔۔۔ اور بہتیرے اُن کی شہوت پرستی کی پیروی کریں گے جن کے سبب سے راہِ حق کی بدنامی ہو گی اور وہ لالچ سے باتیں بنا کر تم کو اپنے نفع کا سبب ٹھہرائیں گے۔۔۔ “ (٢۔پطرس ١: ١٩ _٢ :٣)۔

جھوٹے نبی

خدا کے کلام نے لالچی، مطلب پرست نبیوں اور اُستادوں کے خلاف خبردار کر دیا ہے۔ ” وہ لالچ سے باتیں بنا کر تم کو اپنے نفع کا سبب ٹھہرائیں گے۔ “ بائبل مقدس ایسے کئ آدمیوں کا ذکر کرتی ہے جو دعوے کرتے تھے کہ ہم خدا کی طرف سے بولتے ہیں، حالانکہ اُن کا پیغام ” جھوٹ بولنے والی روح “ کی تحریک سے ہوتا تھا (١۔سلاطین ٢٢ : ٢٢ )۔

پاک کلام میں اسرائیلی قوم کی تاریخ کے ایک دَور کا ذکر ہے جب اُن میں ٨٥٠ نبی تھے لیکن سچا نبی صرف ایک ہی تھا __ ایلیاہ۔ جبکہ ٧٠٠٠ اسرائیلی واحد حقیقی خدا کے وفادار رہے مگر دوسرے لاکھوں لوگ مطلب پرست جھوٹے گواہوں کا یقین کرنا پسند کرتے تھے (١۔سلاطین باب ١٨ ؛ ١۔سلاطین ١٩ : ١٨ ؛ رومیوں ١١ : ١٤ )۔

بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ” خدا اِن جھوٹے نبیوں کو کیوں موقع دیتا ہے جو گمراہ اور برگشتہ کرنے والے پیغاموں کی منادی کرتے ہیں؟ “ مقدس موسی' نے اِس سوال کا جواب توریت میں دیا ہے، ” اگر تیرے درمیان کوئ نبی یا خواب دیکھنے والا ظاہر ہو اور تجھ کو کسی نشان یا عجیب کام کی خبر دے اور وہ نشان یا عجیب بات جس کی اُس نے تجھ کو خبر دی وقوع میں آۓ اور وہ تجھ سے کہے کہ آ ہم اور معبودوں کی جن سے تُو واقف نہیں پیروی کر کے اُن کی پوجا کریں تو تُو ہرگز اُس نبی یا خواب دیکھنے والے کی بات کو نہ سننا کیونکہ خداوند تمہارا خدا تم کو آزماۓ گا تاکہ جان لے کہ تم خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان سے محبت رکھتے ہو یا نہیں “ (اِستثنا ١٣ : ١ ۔٣)۔

خدا کا ایک اَور وفادار نبی میکاہ لکھتا ہے:

” اُن نبیوں کے حق میں جو میرے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں جو لقمہ پا کر سلامتی پکارتے ہیں لیکن اگر کوئی کھانے کو نہ دے تو اُس سے لڑنے کو تیار ہوتے ہیں ۔۔۔ “ (میکاہ ٣ : ٥ )۔

تاریخ میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ اِسی لۓ خداوند یسوع نے خبردار کیا کہ:

” تنگ دروازہ سے داخل ہو کیونکہ وہ دروازہ چوڑا ہے اور وہ راستہ کشادہ ہے جو ہلاکت کو پہنچاتا ہے اور اُس سے داخل ہونے والے بہت ہیں کیونکہ وہ دروازہ تنگ ہے اور وہ راستہ سکڑا ہے جو زندگی کو پہنچاتا ہے اور اُس کے پانے والے تھوڑے ہیں۔

جھوٹے نبیوں سے خبردار رہو جو تمہارے پاس بھیڑوں کے بھیس میں آتے ہیں مگر باطن میں پھاڑنے والے بھیڑیے ہیں۔ اُن کے پھلوں سے تم اُن کو پہچان لو گے۔ کیا جھاڑیوں سے انگور یا اونٹ کٹاروں سے انجیر توڑتے ہیں؟ اِسی طرح ہر ایک اچھا درخت اچھا پھل لاتا ہے اور بُرا درخت بُرا پھل لاتا ہے “ (متی ٧ : ١٣ ۔١٧ )۔

گذشتہ صدیوں میں بے شمار جھوٹے نبی اور اُستاد آۓ اور لد گۓ۔ اُن میں سے بعض نے ہزاروں اور لاکھوں کو متاثر کیا اور بعض کروڑوں کو اُس راہ پر لے چلے ” جو ہلاکت کو پہنچاتا ہے۔ “

اگر آپ اُن ” بہتیروں “ میں شامل ہونے سے بچنا چاہتے ہیں جو آنکھیں بند کر کے کسی جھوٹے نبی کے پیچھے ” ہلاکت “ کی طرف چل پڑتے ہیں تو اُس شخص کی تعلیم کو اِس چھلنی سے چھانیں، اِس کسوٹی پر پرکھیں۔

سچے نبی کا پیغام ہمیشہ مسلمہ پاک نوشتوں کے عین مطابق ہوتا ہے جو اُس سے پہلے آۓ۔

مندرجہ ذیل تین آدمیوں پر غور کریں جنہوں نے نبی ہونے کا دعوی' کیا۔ کیا وہ سچے نبی تھے یا جھوٹے نبی؟

مثال نمبر ١ :  مدفون مسیحِ موعود

تاریخ نے درجنوں ایسے افراد کے حالات قلم بند کۓ ہیں جنہوں نے یسوع مسیح کی زمینی زندگی کے بعد مسیحِ موعود ہونے کا دعوی' کیا۔ اُن میں سے ایک ابو عیسی' تھا۔

ابو عیسی' فارس (موجودہ ایران) کا باشندہ تھا۔ وہ ساتویں صدی کے اواخر میں منظرِ عام پر آیا۔ اُس کے پیروکار اُسے مسیحِ موعود مانتے تھے کیونکہ وہ کہتا تھا مَیں تمہیں کامیابی اور فتح دلاؤں گا۔ اگرچہ وہ اَن پڑھ تھا تو بھی کہا جاتا ہے کہ اُس نے کتابیں لکھیں۔ لیکن اُس کا پیغام پاک نوشتوں سے کچھ بھی مطابقت نہیں رکھتا تھا، بلکہ اُن کی تردید کرتا تھا۔

ابوعیسی' اپنے پیروکاروں کو تعلیم دیتا تھا کہ دن میں سات بار نماز پڑھو، جنگ میں میرے ساتھ چلو۔ وہ اُن سے الہی محافظت کا وعدہ کرتا تھا۔ لیکن وہ جنگ میں مارا گیا اور دفن کیا گیا لیکن دوبارہ زندہ نہ ہوا۔ اُس کے پیروکاروں کو تسلیم کرنا پڑا کہ وہ مسیحِ موعود نہیں تھا۔

ابو عیسی' کے زمانے سے بہت پہلے خداوند یسوع نے اپنے سننے والوں کو خبردار کر دیا تھا:

” ۔۔۔ جھوٹے نبی اور جھوٹے مسیح اُٹھ کھڑے ہوں گے اور ایسے بڑے نشان اور عجیب کام دکھائیں گے کہ اگر ممکن ہو تو برگزیدوں کو بھی گمراہ کر لیں۔ دیکھو مَیں نے پہلے ہی تم سے کہہ دیا ہے “ (متی ٢٤ : ٢٤ ، ٢٥ )۔

مثال نمبر ٢ : خود کش ” نبی “

جِم جونز نے ایک مذہب کی بنیاد ڈالی اور اُس کے پیروکاروں کو  ( People's Temple ) (معبدِ عوام) کا نام دیا۔ ١٩٧٠  عیسوی   کے اوائل میں جم سانفرانسسکو ، کیلیفورنیا میں مقبول عام مبلغ تھا۔ وہ اپنی اِس لیاقت اور استعداد کے لئے مشہور تھا کہ ہزاروں لوگوں کو اُبھار سکتا اور قائل کر سکتا تھا کہ سیاست میں اور غریبوں کی مدد کرنے کے منصوبوں میں حصہ لیں۔ وہ کہتا تھا کہ مَیں ” وہ نبی “ ہوں اور دعوی' کرتا تھا کہ مَیں سرطان کے مریضوں کو شفا دے سکتا ہوں اور مُردوں کو زندہ کر سکتا ہوں۔

بالآخر جم جونز نے اپنے پیروکاروں میں سے ایک ہزار سے زائد افراد کو قائل کر لیا کہ میرے ساتھ جنوبی امریکہ میں گوآنا کے صوبے میں واقع ” جونز ٹاؤن چلو “ ۔ ” جم نبی “ نے وعدہ کیا کہ اِس نئے معاشرے میں تمہیں امن، چین، سلامتی اور خوشی حاصل رہے گی۔ لیکن سب باتیں ایک بڑا جھوٹ ثابت ہوئیں۔

جم بھیڑ کے بھیس میں حریص بھیڑیا تھا۔ ١٨  نومبر ١٩٧٨ عیسوی کو سانفرانسسکو کرانیکل نے یہ رپورٹ شائع کی کہ جونز اپنے گلے کو حکم دیتا ہے کہ سنکھیا کھا کر مر جائیں۔ جو انکار کرتے تھے اُن کو یہ زہر زبردستی کھلایا جاتا تھا۔ بچوں کو زہر کا ٹیکہ لگا کر ہلاک کیا جاتا تھا۔ بالآخر جونز ٹاؤن سے ٩١٤ لاشیں ملیں۔ اُن میں خود جونز کی لاش بھی تھی۔

مثال نمبر ٣ :  غیر مصدقہ ” پاک کتاب “

جوزف سمتھ ١٨٠٥ عیسوی میں شمالی امریکہ میں پیدا ہوا۔ اُس کی پرورش غربت میں ہوئ۔ اُن کے معاشرے میں توہم پرستی انتہا کو پہنچی ہوئ تھی۔ وہ جوان ہوا تو لوگوں کو بتاتا تھا کہ مَیں نبی ہوں۔ اُس کا دعوی' تھا کہ رُویاؤں میں مورونی ( Moroni ) نام ایک فرشتے کے وسیلے سے خدا مجھ سے ہم کلام ہوتا ہے۔

جوزف لکھتا ہے ” کسی طاقت نے مجھے پکڑ لیا اور مجھ پر پورے طور سے حاوی ہو گئی، اور مجھ پر ایسا عجیب اثر کیا کہ میری زبان بند ہو گئی اور مَیں بول نہیں سکتا تھا۔ میرے گرد گہری تاریکی نے گھیرا ڈال لیا اور تھوڑی دیر تک تو یہ محسوس ہوا کہ مَیں یک دم ہلاک ہو جاؤں گا۔ پھر روشنی کا ایک مینار میرے سر کے اوپر ظاہر ہوا۔ اُس کی چمک سورج سے بڑھ کر تھی۔ رفتہ رفتہ وہ نیچے آیا اور مجھ پر گر گیا۔ “ اِس کے بعد جوزف نے اعلان کیا کہ خدا نے مجھ پر ایک نئی پاک کتاب منکشف کی ہے __ ” مارمن کی کتاب “ ۔ وہ اپنے پیروکاروں سے یہ بھی کہتا تھا کہ بائبل مقدس خدا نے دی ہے لیکن یہ نئی کتاب خدا کا تازہ ترین مکاشفہ ہے۔ جوزف لوگوں کو یہ تعلیم دیتا تھا کہ دعائیں پڑھو، روزے رکھو، خیرات دو، نیک اعمال کرو اور مجھے نبی مانو۔ وہ خود مطلب پرستی، شہوانی اور لذت کوشی کی زندگی بسر کرتا اور اِسے جائز قرار دیتا تھا۔

اگرچہ جوزف سمتھ کے ” رُویاؤں “ کی دیگر گواہوں نے تصدیق نہیں کی تھی، لیکن وہ دعوی' کرتا تھا کہ اُس کے تین گواہ ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ اُس کی کتاب بائبل مقدس کی تردید کرتی اور اُسے باطل ٹھہراتی ہے اور تاریخ اور آثارِ قدیمہ کی شہادتوں کو بھی جھوٹا ٹھہراتی ہے۔ اِس کے باوجود لاکھوں لوگ مورمنیت کے معتقد ہیں۔ (دیکھئے صفحہ ٥٩ پر سائنس کون سی بات ثابت نہیں کر سکتی)۔ مورمن فرقہ بہت مالدار ہے۔ وہ ساری دنیا میں اپنے مشنری بھیجتے ہیں اور دنیا میں روزانہ سینکڑوں لوگ مورمن ہو رہے ہیں (وہ ” آخری زمانے کے مقدسین “ بھی کہلاتے ہیں)۔ مورمن لوگ مخلص، سچے اور باوقار لوگ ہیں۔ لیکن ” جوزف نبی “ کے پیغام کا بائبل مقدس کے نبیوں کی تعلیم اور نوشتوں سے موازنہ کریں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ دونوں پیغام ایک دوسرے سے انتہائ فرق ہیں۔ اِن میں کوئی مطابقت نہیں ۔

کوئ خودساختہ نبی کتنا بھی ذہین اور خوش گفتار کیوں نہ ہو تو بھی اُس کے غیر مصدقہ  اور متضاد پیغام سے اپنی ابدیت کو وابستہ کرنا اور داؤ پر لگانا عقل مندی نہیں ” کیونکہ شیطان بھی اپنے آپ کو نورانی فرشتہ کا ہمشکل بنا لیتا ہے۔ “ (٢۔کرنتھیوں ١١ :١٤ )

بائبل مقدس تو تواریخی اور آثارِ قدیمہ کے شواہد کی بنا پر مصدقہ کتاب ہے، جبکہ مورمن کی کتاب کسی طرح بھی مصدقہ نہیں۔ ٹامس سٹوارٹ فرگوسن وہ پروفیسر ہے جس نے مورمنیت کی اپنی برگھم ینگ یونیورسٹی میں آثارِ قدیمہ کا شعبہ قائم کیا۔ اِس کا واحد مقصد و مدعا یہ تھا کہ ایسی شہادتیں ڈھونڈی جائیں جو اُن کی ” پاک کتاب “ کو مصدقہ اور مسلمہ ثابت کریں۔ ٢٥ سال کی مخلصانہ تحقیق کے بعد بھی اِس شعبے کو کچھ نہ ملا جس سے 'مورمن کی کتاب' میں مذکور نباتات (درخت، پودے، پھل)، حیوانات، علاقے کے زمینی خط و خال، جغرافیہ، قوموں، سکوں، شہروں اور قصبوں کی تصدیق ہوتی۔ چنانچہ فرگوسن اِس نتیجے پر پہنچا کہ مورمن کی کتاب کا جغرافیہ ” فرضی “ ہے ” افسانہ “ ہے۔

مصدقہ پیغام

اِس اُلجھی ہوئی اور پریشان حال دنیا میں بے شمار لوگوں نے ” خدا کی سچائی کو بدل کر جھوٹ بنا ڈالا “ ہے (رومیوں ١: ٢٥ )۔ مگر واحد حقیقی خدا نے سچائی کو بے شمار مخالف آوازوں سے واضح طور پر نمایاں اور ممتاز کیا ہے۔

اپنے پیغام کو مصدقہ اور معتبر ثابت کرنے کے لۓ خدا نے ایک یہ طریقہ استعمال کیا ہے۔ اِسے رفتہ رفتہ اور درجہ بدرجہ اور کمال استواری اور رابطہ کے ساتھ کئی پشتوں میں اپنے بہت سے نبیوں پر منکشف کیا ہے۔ صرف وہی واحد بانی اور سرچشمہ جو زمان و مکان سے ماورا ہے ایسا الہام اور مکاشفہ عطا کر سکتا ہے۔       

 

 اِس تصویر میں یہ چالیس آدمی ان پیغمبروں کو  پیش کرتے ہیں جنہوں نے پندرہ صدیوں سے زیادہ عرصے میں خدا کے معتبر، مستقیم اور مصدقہ پیغام کو پاک صحائف میں قلم بند کیا۔

 

  اکیلا  آدمی اُن  پیغمبروں  کی  ںمائںدگی  کرتا ہے جو کہیں بعد میں غیر مصدقہ، اختلافی اور متصادم پیغام لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔

گذشتہ چند ابواب میں ہم نے بہت سے ثبوتوں سے ثابت کر دیا ہے کہ بائبل مقدس خدا کا کلام ہے۔ مگر یہ ثبوت اور دوسری شہادتیں کتنی ہی قابلِ یقین اور قائل کرنے والی کیوں نہ ہوں، لیکن خدا کے کلام کی سب سے زبردست تصدیق اور سند صرف اِسے سننے، سمجھنے اور قبول کرنے میں ہے۔

خدا کی کتاب کے مناظر جوں جوں سامنے آتے اور کھلتے ہیں تو اُس واحد ہستی کو ظاہر کرتے ہیں جو ہماری سوچنے اور تصور کرنے کی استعداد سے بے انتہا بلند اور ماورا ہے۔ یہ کتاب ہمارے خالق کی جلالی اور کامل طور سے متوازن ذات کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ کتاب انسانوں کو موت کے خوف سے آزاد کرتی اور ہمیشہ کی زندگی کی پکی اُمید دیتی ہے۔ یہ کتاب انسان کے کردار اور عمل کو بدل دیتی ہے اور واحد حقیقی خدا کے پاس لاتی ہے۔

کوئی انسان یا شیطان ایسا پیغام وضع نہیں کر سکتا۔ مگر اِس معاملے میں آپ میری بات پر نہ جائیں بلکہ

” سب باتوں کو آزماؤ۔ جو اچھی ہو اُسے پکڑے رہو “ (١۔تھسلنیکیوں ٥ : ٢١ )۔