٢
رُکاوٹوں پر غالب آنا
”تمہیں خبر تک نہ ہو گی اور جہالت تمہیں ہلاک کر دے گی۔ “
— وولف کہاوت

تقریباً تین ہزار سال ہوۓ خدا نے فرمایا تھا "میرے لوگ عدمِ معرفت سے ہلاک ہوۓ" (ہوسیع ٦:٤)۔ آج بھی بے شمار لوگ، جن میں کالج کی ڈگریاں رکھنے والے بھی شامل ہیں بائبل مقدس کے نبیوں کی لکھی ہوئ باتوں سے بے خبر رہ کر زندگی گزار رہے اور مر رہے ہیں۔

بائبل مقدس کی قدامت اور اثر کو مدِنظر  رکھتے ہوۓ کیا کسی کو واقعی "اعلی' تعلیم یافتہ" کہہ سکتےہیں، سواۓ اِس کے کہ وہ بائبل مقدس کی باتوں کا بنیادی/ ابتدئ ادراک رکھتے ہیں؟ جس طرح دنیا کے لوگوں نے ہزاروں مذاہب اور شعائرتراش لۓ ہیں اُسی طرح پاک کلام یعنی بائبل مقدس کو نظرانداز کرنے کی ہزاروں دلیلیں بھی گھڑ لی ہیں۔ اِس باب اور اگلے باب میں ہم اِن میں سے دس دلیلوں یا وجوہات پر غور کریں گے۔

ایک دفعہ سفر شروع کر لیا تو ہمیں توقع رکھنی ہو گی کہ بہت سی رکاوٹیں پیش آئیں گی اور ہم اُن پر غالب آئیں گے۔

دس "دلیلیں یا وجوہات' جن کی بنا پر لوگ بائبل مقدس کو رد کر دیتے ہیں:

١۔ من گھڑت کہانیاں

مغرب اور یورپ کی بہت سی قومیں مذہب سے بیگانہ ہو چکی ہیں۔ وہ علانیہ کہتی ہیں کہ بائبل مقدس انسانوں کی ایجاد کردہ پُرجوش کہانیوں اور دلکش کہاوتوں اور مقولوں کے مجموعے کے سوا کچھ نہیں۔ بہت سے لوگ اِس راۓ کو مانتے ہیں جبکہ اُنہوں نے بائبل مقدس کو کبھی غور اور  تحقیقی انداز سے پڑھا بھی نہیں۔

سر آرتھر کونن ڈائل کی بلند پایہ افسانوی تصنیف "شرلک ہولمز کے مشہور واقعات" میں اُس کا نائب سراغ رساں ڈاکٹر واٹسن ایک خاص جرم کے واقعے کے بارے میں پوچھتا ہے:

"آپ نے اِس سے کیا نتیجہ اخذ کیا ہے؟"

ہولمز جواب دیتا ہے "ابھی تک میرے پاس کوئی معلومات نہیں ہیں۔ معلومات کے بغیر مفروضہ یا نظریہ قائم کرنا سنگین اور فاش غلطی ہوتی ہے۔ غیر شعوری طور پر انسان واقعات کو مروڑنے لگتا اور اپنے نظریے یا راۓ کے مطابق بنانے لگتا ہے جبکہ نظریات یا آرا کو حقائق و واقعات کے موافق ثابت ہونا چاہۓ" (رومیوں ١٤ : ١۔١٥ ؛ متی ٧ : ١ ۔٥)۔

بہت سے لوگ پاک کلام کے بارے میں یہی "سنگین اور فاش" غلطی کرتے ہیں۔ وہ کافی معلومات کے بغیر نتائج اخذ کرتے ہیں اور حقائق کو مروڑ کر اپنے نظریات اور آرا کے مطابق ڈھالتے ہیں تاکہ دنیا کے بارے میں اُن کے نظریے اور اندازِ زندگی میں گڑبڑ نہ ہو۔

٢۔ بے شمار تشریحات اور تفاسیر

بہت سے لوگ پاک نوشتے اِس لۓ نہیں پڑھتے کیونکہ ایک گروہ کہتا ہے کہ "بائبل مقدس یہ کہتی ہے" اور دوسرا گروہ اُس کی مخالفت کرتے ہوۓ دعوی' کرتا ہے کہ "نہیں، اِس کا یہ مطلب نہیں، بائبل مقدس تو یہ کہتی ہے!" اور یہ مفروضہ بھی حیرت انگیز نہیں کہ پاک صحائف کو سمجھنا ممکن ہی نہیں۔

بے شک زندگی کے بعض معاملات اور مسائل میں بائبل مقدس نے فرق فرق نظریات کی گنجائش رکھی ہے (رومیوں ١٤ : ١۔٥ ؛ متی ٧ :١۔٥ )۔ لیکن جہاں تک ابدی نتائج کے حامل معاملات کی بات ہو وہاں وہ طرح طرح کی تشریحات اور تفاسیر کی گنجائش نہیں چھوڑتی۔ خدا کی کتاب اور  اِس کے پیغام کو صرف اِسی صورت میں سمجھا جا سکتا ہے کہ ہم بغور دیکھیں کہ وہ کیا کہتی ہے۔

مشہور افسانوی شرلک ہولمز نے بھی واٹسن سے کہا تھا، "تم دیکھتے ہو لیکن مشاہدہ نہیں کرتے۔ فرق صاف ظاہر ہے۔ مثال کے طور پر تم نے ہال سے اِس کمرے کی طرف آنے والے قدموں کے نشان کئ دفعہ دیکھے ہیں۔"

"کتنی دفعہ؟" ہولمز نے پوچھا۔

"ہوں، سینکڑوں دفعہ" واٹسن نے جواب دیا۔

"اچھا، تو یہاں کتنے نشان ہیں؟"

"کتنے ہیں! مَیں نہیں جانتا۔"

"یہی بات ہے! تم نے مشاہدہ نہیں کیا! لیکن پھر بھی دیکھا ضرور ہے! میرا نکتہ بھی یہی ہے۔ اب، مَیں جانتا ہوں۔ یہاں قدموں کے سترہ نشان ہیں، کیونکہ مَیں نے دیکھا ہے اور مشاہدہ بھی کیا ہے۔"

اِسی طرح بہت سے لوگ بائبل مقدس میں قسم قسم کے بیان دیکھتے تو ہیں، لیکن صرف چند ایک افراد ہی بغور دیکھتے ہیں کہ دراصل وہ کیا کہہ رہی ہے۔ اِس لۓ کوئ حیرت کی بات نہیں کہ لوگ طرح طرح کی تشریحات اور تفاسیر تراش لیتے اور پیش کرتے ہیں۔

ہم ایک سوال سے بات کو واضح کرتے ہیں۔ کیا آپ خدا کے پیغام کو سمجھنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ خدا کی سچائ کو اُسی جذبے، شوق اور باریک بینی سے تلاش کرنے کو تیار ہیں جس سے کسی پوشیدہ خزانے کو تلاش کرتے ہیں؟ سلیمان بادشاہ لکھتا ہے "بلکہ اگر تُو عقل کو پکارے اور فہم کے لۓ آواز بلند کرے اور اُس کو ایسا ڈھونڈے جیسے چاندی کو، اور اُس کی ایسی تلاش کرے جیسی پوشیدہ خزانوں کی تو تُو خداوند کے خوف کو سمجھے گا" (امثال ٢ :٣۔٥)، یعنی تجھے خدا کی معرفت حاصل ہو گی۔

٣۔ مسیحیوں کا ردِ عمل

بہت سے لوگ بائبل مقدس کو اُس بُرائ کی وجہ سے رد کر دیتے ہیں جو اِس کو ماننے کا دعوی' کرنے والے بعض لوگ کرتے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں، "صلیبی جنگوں کے بارے میں کیا کہتے ہو جن میں صلیب کے جھنڈے تلے لوگوں کا قتلِ عام کیا گیا؟"اور "عدالت کے بارے میں کیا خیال ہے؟" (یہ عدالت رومن کیتھولک کلیسیا نے تیرھویں صدی میں قائم کی تھی تاکہ بدعتوں کی تفتیش کر کے اِن کے ذِمہ دار افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جاۓ)۔ اور اُن مظالم اور بے انصافیوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو آج بائبل مقدس پر ایمان رکھنے والے لوگ کۓ جا رہے ہیں؟" سچائ تو یہ ہے کہ جو شخص بھی مسیحی (مطلب ہے مسیح کی مانند) کہلاتا ہے اور مسیح کی محبت اور رحم دلی دکھانے میں ناکام رہتا ہے، وہ مسیح کی تعلیم اور نمونے کا زندہ تضاد اور انکار ہے۔ یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا "تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھ اور اپنے دشمن سے عداوت۔ لیکن مَیں تم سے کہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کے لۓ دعا کرو" (متی ٥ :٤٣ ،٤٤ )۔

اور لوگ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ "اُن مسیحیوں کے بارے میں کیا خیال ہے جن کی زندگیاں بے ایمانی، بددیانتی، شراب نوشی اور حرام کاری سے بھری ہیں؟" جو شخص اخلاقی ناپاکی میں زندگی گزارتا ہے وہ پاک کلام کی قطعی اور صاف نافرمانی کر رہا ہے، جبکہ پاک کلام کہتا ہے "کیا تم نہیں جانتے کہ بدکار خدا کی بادشاہی کے وارث نہ ہوں گے؟ فریب نہ کھاؤ۔ نہ حرام کار خدا کی بادشاہی کے وارث ہوں گے، نہ بت پرست، نہ زناکار، نہ عیاش، نہ لونڈے باز، نہ چور، نہ لالچی، نہ شرابی، نہ گالیاں بکنے والے، نہ ظالم۔ اور بعض تم میں ایسے ہی تھے بھی مگر تم خداوند یسوع مسیح کے نام سے اور ہمارے خدا کے روح سے دُھل گۓ اور پاک ہوۓ اور راست باز بھی ٹھہرے" (١۔کرنتھیوں ٦ :٩ ۔١١)۔

راست باز ٹھہراۓ جانے کا مطلب راست یا درست کام کرنے والا مانا جاتا ہے۔ اِس سفر میں آگے چل کر ہمیں معلوم ہو گا کہ خدا گنہگاروں کو کیسے معاف کرتا اور راست باز ٹھہراتا ہے۔ اور بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ "اُن مسیحیوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو بتوں کو سجدے کرتے اور مقدسہ مریم اور دوسرے مقدسین سے دعائیں مانگتے ہیں؟" مختصر جواب یہ ہے کہ جو کوئ ایسے کام کرتا ہے وہ خدا کے کلام کی تعلیم کی نہیں بلکہ اپنے کلیسیائ فرقے کی روایات کی پیروی کرتا ہے۔ خدا کا کلام واشگاف طور پر کہتا ہے "تم اپنے لۓ بت نہ بنانا اور نہ کوئ تراشی ہوئ مورت یا لاٹ اپنے لۓ کھڑی کرنا اور نہ اپنے ملک میں کوئ شبیہ دار پتھر رکھنا کہ اُسے سجدہ کرو اِس لۓ کہ مَیں خداوند تمہارا خدا ہوں" (احبار ٢٦: ١)۔ بتوں کے سامنے جھکنا اور سجدہ کرنا، انسان کے اختیار کو خدا کے اختیار پر ترجیح اور وقعت دینا، حقیقی خدا کو جانے بغیر مشین کی طرح دعائیں مانگنا سب بت پرستی کی شکلیں ہیں۔ بہت سے لوگ پریشان ہوتے اور الجھن محسوس کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ "مسیحی" اور "کیتھولک" ایک سی یا ہم معنی اِصطلاحات ہیں۔ ایسا نہیں ہے اور نہ "مسیحی" اور "پروٹسٹنٹ" ہم معنی اصطلاحات ہیں۔ جیسے کوئ شخص گھوڑوں کے باڑے میں آنے جانے سے گھوڑا نہیں بن جاتا بالکل اِسی طرح گرجا گھر میں آنے جانے سے کوئ شخص "مسیحی" نہیں ہو جاتا۔

٤۔ ریاکار (منافق) لوگ

بعض لوگ بائبل مقدس کو نہ پڑھنے کی یہ دلیل دیتے ہیں۔ ہم اِسے "سارے ریاکاروں کی وجہ سے" نہیں پڑھتے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے لوگ جو بائبل مقدس پر ایمان رکھنے کا دعوی' کرتے ہیں اُن کا طرزِ زندگی اُن کے دعوے کی تردید کرتا ہے۔ وہ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ اَور ہیں۔ وہ اپنے طمع اور خود غرضانہ مقاصد کے لۓ بائبل مقدس کے پیغام کو توڑ مروڑ دیتے ہیں۔ وہ اپنے فائدہ کی تاویلیں کرتے ہیں۔ کئ مبلغوں کا بھانڈا پھوٹ گیا اور ظاہر ہو گیا کہ وہ عیاش اور بدکار ہیں۔ بعض نام نہاد مبلغ کہتے ہیں کہ ہمیں پیسہ دو یا بھیجو تو تمہیں صحت اور دولت کی برکت ملے گی! بائبل مقدس اِن عیار اور دغاباز افراد کو بے نقاب کرتے ہوۓ کہتی ہے کہ اُن کی "عقل بگڑ گئ ہے اور وہ حق سے محروم ہیں اور دینداری کو نفع ہی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔۔۔ مگر اے مردِ خدا! تُو اِن باتوں سے بھاگ" (١۔تیم ٦ : ٥ ،١١)۔

یسوع نے اپنے زمانے کے مفاد پرست اور ظاہر دار مذہبی راہنما سے کہا:

”اے ریاکارو، یسعیاہ نے تمہارے حق میں کیا خوب نبوت کی کہ یہ اُمت زبان سے تو میری عزت کرتی ہے مگر اِن کا دل مجھ سے دُور ہے اور یہ بے فائدہ میری پرستش کرتے ہیں کیونکہ انسانی احکام کی تعلیم دیتے ہیں “ (متی ١٥ :٧ ۔٩)۔ اور اپنے شاگردوں سے یسوع نے فرمایا ”اور جب تم دعا کرو تو ریاکاروں کی مانند نہ بنو کیونکہ وہ عبادت خانوں میں اور بازاروں کے موڑوں پر کھڑے ہو کر دعا کرنا پسند کرتے ہیں تاکہ لوگ اُن کو دیکھیں “ (متی ٦ :٥ )۔

یہ حقیقت ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کسی نہ کسی طرح کی ریاکاری کرنے (اپنے آپ کو وہ ظاہر کرنا جو ہم ہیں نہیں) کا قصوروار ہے۔ تو کیا ہم کسی دوسرے کی ریاکاری کو موقع دیں کہ ہمیں اپنے خالق کو جاننے سے روکے، اور اُس کے معتبر کلام کو ہمیں تبدیل کر کے ایسے انسان بننے سے روکے جو وہ (خدا) چاہتا ہے کہ ہم بن جائیں؟

٥۔ نسل پرستی

بعض لوگ بائبل مقدس کو اِس لۓ رد کر دیتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کتاب لوگوں کے بعض گروہوں کو دوسروں کی نسبت زیادہ ترجیح دیتی ہے۔ ہم کو یہ اقبال جرم تو کر لینا چاہئے کہ ہم کسی نہ کسی حد تک نسل پرستی یا نسلی امتیاز  کرنے یا اپنی نسل کو سب سے اعلی' و برتر سمجھنے کے قصور وار ہیں۔ اِس معاملے میں بائبل بالکل واضح ہے، "خدا کسی کا طرفدار نہیں" (اعمال ١٠ : ٣٤ )۔

مثال کے طور پر کیا آپ کو معلوم ہے کہ موسی' نے کوشی (ایتھوپیا کی رہنے والی) عورت سے شادی کر لی تھی (گنتی ١٢ :١)؟ کیا آپ نے وہ بیان پڑھا ہے کہ ارام (سیریا) کا سپہ سالار خدا کے حضور خاکسار اور فروتن ہوا تو خدا نے الیشع نبی کے وسیلے سے اُسے کوڑھ سے شفا دی (٢۔سلاطین باب ٥)؟ یا وہ واقعہ کہ خدا نے یہودی نبی یوناہ کو حکم دیا کہ جا کر نینوہ شہر (موجودہ عراق میں موصل کے قریب) میں توبہ  اور نجات کے پیغام کی منادی کر۔ یوناہ نینوہ کے لوگوں سے نفرت کرتا تھا اور چاہتا تھا کہ خدا اُنہیں ہلاک اور نیست کر دے، لیکن خدا اُن سے محبت رکھتا اور اُن پر رحم کرنا چاہتا تھا۔(یوناہ باب ٤)۔ کیا آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ دنیا  کے لۓ خدا کے نجات کے منصوبے کو ظاہر کرنے میں فارس (ایران) نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے؟ (بائبل مقدس میں دانی ایل، عزرا اور آستر کی کتابیں دیکھۓ۔) کیا آپ نے اِس حیرت افزا بیان پر غور کیا ہے کہ یسوع نے ایک گنہگار سامری عورت کو ہمیشہ کی زندگی کا پیغام دیا، حالانکہ یہودی سامریہ کے علاقے میں سے گزرتے بھی نہ تھے کیونکہ وہ سامریوں کو "ناپاک" سمجھتے تھے (یوحنا باب ٤)۔

ہماری دنیا میں تو نسل پرستی اور فرقہ پرستی کی وبا پھیلی ہوئ ہے۔ لیکن ہمارا خالق نسل پرستی سے مبرا ہے۔ اُس کی نظروں میں صرف ایک ہی نسل ہے یعنی نسلِ انسانی۔

”جس خدا نے دنیا اور اُس کی سب چیزوں کو پیدا کیا وہ آسمان اور زمین کا مالک ہو کر ہاتھ کے بناۓ ہوۓ مندروں میں نہیں رہتا، نہ کسی چیز کا محتاج ہو کر آدمیوں کے ہاتھوں سے خدمت لیتا ہے کیونکہ وہ تو خود سب کو زندگی اور سانس اور سب کچھ دیتا ہے اور اُس نے ایک ہی اصل سے آدمیوں کی ہر ایک قوم تمام روۓ زمین پر رہنے کے لۓ پیدا کیں اور اُن کی میعادیں اور سکونت کی حدیں مقرر کیں تاکہ خدا کو ڈھونڈیں، شاید کہ ٹٹول کر اُسے پائیں۔ ہر چند وہ ہم میں سے کسی سے دُور نہیں کیونکہ اُسی میں ہم جیتے اور چلتے پھرتے اور موجود ہیں “ (اعمال١٧ :٢٤ ۔٢٨ )۔

بائبل مقدس اعلان کرتی ہے کہ خدا نے سارے انسانوں کو "ایک ہی اصل" سے پیدا کیا۔ جدید سائنس اِس کی تصدیق کرتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ دنیا بھر میں انسان کا جینیاتی کوڈ ٩٩. ٩ فیصد مماثل ہے۔ جو باقی بچتا ہے (١ ۔ ٠ فیصد) وہ ہے ڈی این اے جو ہماری ذاتی اور انفرادی خصوصیات میں فرق کا ذمہ دار ہے مثلاً آنکھوں کا رنگ، یا بیمار ہونے کا خدشہ۔

"آسمان اور زمین کا خالق اور مالک" جو "ہم میں سے کسی سے دُور نہیں ہے" وہ خود ہماری فکر اور پروا کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ ہم "خدا کو ڈھونڈیں" اور اُس کے پیغام کو سمجھیں۔ اُس نے ہماری پیدائش کی ایک ایک تفصیل مرتب کر رکھی ہے۔ وہ ہر قوم، اہلِ زبان، تہذیب اور رنگ کے سارے لوگوں سے محبت رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ اپنی دلی زبان میں اُس کے نام کو پکاریں، اُس کے نام پر بھروسا رکھیں۔

٦۔ بائبل مقدس کا خدا قتل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

یہ ای میل مجھے ایک دہریۓ (جو دنیا دار انسان نواز، کہلانا پسند کرتا ہے) نے بھیجی تھی۔

 

ای میل

"بائبل مقدس کہتی ہے کہ مَیں خداوند خداۓ رحیم اور مہربان، قہر کرنے میں دھیما اور شفقت اور وفا میں غنی" ہوں (خروج ٣٤ :٦)۔ یہ خود ستائ کے بہت اچھے الفاظ ہیں۔ لیکن اِن میں سے ایک کو بھی اُس کے کاموں کے ساتھ ہم آہنگ نہیں کیا جا سکتا۔ اُس وقت تو خدا شفقت کرنے والا معلوم نہیں ہوتا تھا جب دسمبر ٢٠٠٤ ء میں شمال مشرقی ایشیا میں اُس نے سنامی سے لاکھوں افراد کو ڈوب مرنے دیا۔ ملکِ کنعان میں داخل ہونے کے وقت بائبل مقدس کے خدا نے بے گناہ اور پُرامن مردوں ، عورتوں، بچوں اور دودھ پیتے بچوں کو قتل کرنا منظور کیا۔ کیا وجہ ہے کہ مَیں جو فقط فانی انسان ہوں اپنے نام نہاد 'خالق' سے زیادہ شفیق یا رحم دل ہوں؟ اگر میرے بس میں ہوتا تو اِس کرہ ارض پر ہونے والی ساری ہولناک باتوں کو روک دیتا --- یعنی لڑائیاں ، جھگڑے، عداوت، جنگیں، قتل و غارت، آفتیں، افلاس، بھوک، بیماری، دکھ، غم اور بدحالی --- مَیں ابھی چٹکی بجا کر اِنہیں ختم کر دیتا!"

بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ اگر خدا بھلا اور قادرِ مطلق ہے تو وہ گناہ اور بدی کو ختم کیوں نہیں کر دیتا؟ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ کوئ نہیں پوچھتا کہ اگر خدا بھلا اور قادرِ مطلق ہے تو جب مَیں بُرے کام کرتا ہوں تو وہ مجھے کیوں نہیں روک دیتا؟ ہم چاہتے ہیں کہ خدا بُرائ کی عدالت کرے، لیکن یہ نہیں چاہتے کہ وہ میری / ہماری عدالت کرے۔

اِسی تضاد کو دیکھتے ہوۓ ہم مانتے ہیں کہ ہمارے انسان نواز دوست نے بہت مشکل چیلنج پیش کۓ ہیں۔ اِن کے سہل اور آسان جواب تو نہیں، مگر تسلی بخش جواب ضرور موجود ہیں۔ ہم پاک صحائف کے اِس سفر میں آگے بڑھیں گے اور خدا کی ذات و کردار سے ہمارا  آمنا سامنا ہو گا اور گناہ کے دُور  رس نتائج کو دیکھیں گے تو خدا کی طرف سے دیۓ گۓ جواب واضح ہو جائیں گے۔ فی الحال ہم تین اصول پیش کرتے ہیں جو ہمیں اپنے خالق پر نکتہ چینی کرنے سے باز رکھیں گے جب وہ آفتیں آنے دیتا ہے بلکہ آفتوں کو  آنے کا حکم دیتا ہے جو آدمیوں، عورتوں ، بچوں بلکہ دودھ پیتے بچوں کی جانیں چھین لے جاتی ہیں۔

الف۔ انسان صرف ایک حصہ لیکن خدا پوری تصویر کو دیکھتا ہے۔

جن آفتوں اور المناک واقعات کو انسان ”ظالمانہ“ اور ”بے انصافی“ سمجھتے ہیں، جن میں ”بے گناہ“ اور معصوم لوگ ”اپنے وقت سے پہلے “ مر جاتے ہیں خدا اُنہیں ابدیت کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ وہ صاف طور سے کہتا ہے کہ انسان کی عارضی اور تیزی سے گزر جانے والی زمینی زندگی آنے والے بڑے واقعہ کی صرف تمہید یا آغاز ہے (زبور ٩٠ : ١ ۔١٢ ؛ مرقس ٨ :٣٦ ؛ ٢۔کرنتھیوں ٤ : ١٦ ۔ ١٨؛ رومیوں ٨ :١٨ ؛ یعقوب ٤ :١٣ ۔ ١٥)۔ جو کچھ آنکھوں سے نظر آتا ہے زندگی میں اُس سے بہت زیادہ باتیں ہوتی ہیں۔ مثال کے طور  پر ماں کے رحم میں جنین کا تصور کریں۔ اگر وہ دنیا کے بارے میں محدود نظریے کی بنیاد پر دلیل آرائ کر سکے تو خدا سے کہے گا ”مَیں نے کیا کیا تھا کہ مجھے اِس جنینی تھیلی میں بند کرنے کا حق دار قرار دیا گیا؟ مجھے باہر سے بچوں کے ہنسنے اور کھیلنے کی آوازیں سنائ دے رہی ہیں اور مَیں ہوں کہ اِس گھپ اندھیری اور پانی بھری دنیا میں ایسے بند ہوں جیسے قبر میں۔ یہ بے انصافی ہے!“ کیا وجہ ہے کہ مَیں جو صرف ایک جنین ہوں اپنے خالق سے زیادہ شفیق ہوں؟ صاف ظاہر ہے کہ جو بچہ ابھی پیدا نہیں ہوا وہ کسی بڑے اور بالغ شخص کی طرح اپنے خالق کو چیلنج نہیں کر سکتا۔ ”اے انسان، بھلا تُو کون ہے جو خدا کے سامنے جواب دیتا ہے؟ کیا بنی ہوئ چیز بنانے والے سے کہہ سکتی ہے کہ تُو نے مجھے کیوں ایسا بنایا؟ “ (رومیوں ٩ : ٢٠)۔

ب۔ جو انسان کی نظر میں غلط ہے ضروری نہیں کہ خدا کی نظر میں بھی غلط ہو۔

خدا زندگی کا بانی اور سنبھالنے والا ہے اور اُسے اِس زندگی کو ختم کر دینے کا بھی حق ہے۔ ایوب نبی یکے بعد دیگرے آنے والی قدرتی آفتوں میں اپنے دس بچے اور سارا مال و اسباب کھو بیٹھا۔ اُس نے کہا "ننگا مَیں اپنی ماں کے پیٹ سے نکلا اور ننگا ہی واپس جاؤں گا۔ خداوند نے دیا اور خداوند نے لے لیا، خداوند کا نام مبارک ہو۔ اِن سب باتوں میں ایوب نے نہ تو گناہ کیا اور نہ خدا پر بے جا کام کا عیب لگایا" (ایوب ١: ٢١ ۔٢٢ )۔

ہمارا عنقریب شروع ہونے والا سفر ہمیں خدا کے عجیب لیکن عقل مندانہ منصوبوں کی بصیرت عطا کرے گا جو فی الحال پس پردہ ہیں۔ ہم کائنات کے مطلق العنان حکمران سے ملیں گے جو انسانوں کو مجبور نہیں کرتا کہ مجھ سے محبت رکھو اور میرے فرماں بردار رہو۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہو جاۓ گا کہ دنیا کیوں انتہائ ہولناک حالت میں ہے۔

انسانی تاریخ میں خدا نے اِس زمین پر طرح طرح کی تباہ کن آفتیں بھیجی ہیں یا آنے دی ہیں۔ نوح کے زمانے میں سو سال تک برداشت اور صبر کرنے اور خبردار کرنے کے بعد خدا نے ساری دنیا پر طوفان بھیجا جس میں سواۓ آٹھ کے ساری جانیں مر مٹیں (پیدائش باب ٦ تا ٨ )۔ اگرچہ بہت سے لوگ اِس طوفان اور سیلاب کو ایک افسانہ سمجھتے ہیں مگر ارضیات کے ماہر اور  فوسل (کسی ارضیاتی دَور کے پودے یا جانور کے ڈھانچے جو زمین کے زیرین طبقات میں سے ملتے ہیں) اِس کی تصدیق کرتے ہیں۔ ابرہام کے زمانے میں سدوم اور عمورہ پر آگ نازل ہوئ تو وہاں سے صرف تین جانیں بچی تھیں اور باقی سارے لوگ نیست و نابود ہو گۓ تھے۔ موسی' کے دنوں میں اور اُس کے بعد بھی خدا نے اسرائیلیوں کو حکم دیا کہ ساری کنعانی قوموں کو نیست و نابود کر دیں (یشوع باب ١ ۔ ١٠)۔ یہ لڑائیاں خدا کے واضح حکموں کے تحت لڑی گئیں اور کئ دفعہ آسمان سے معجزانہ مداخلت اور مدد بھی ہوتی تھی مثلاً اسرائیلیوں نے یکے بعد دیگرے سات دن تک یریحو کے گرد چکر لگاۓ تو اِس کے بعد شہر کی دیوار باہر کی طرف گر گئ (ارضیات نے اِس کی تصدیق کی ہے)۔ خدا نے سینکڑوں سال انتظار کرنے کے بعد ان شہروں کی عدالت کی اور ان پر غضب نازل کیا۔ یہ سارا عرصہ اُس نے اُنہیں موقع دیا کہ بت پرستی، حرام کاری، بدکاری اور انسانی قربانیاں چڑھانے سے باز آ جائیں اور توبہ کریں (پیدائش ١٥ :١٦ ؛ خروج ١٢: ٤٠ )۔ لیکن اُنہوں نے ابرہام، یوسف اور موسی' جیسے دیندار اور خدا پرست آدمیوں کی گواہی کی کچھ پروا نہ کی اور اُںہیں نظر انداز کر دیا۔ صرف چند کنعانیوں نے توبہ کی اور واحد حقیقی خدا پر ایمان لاۓ جس نے مصر پر دس فوق الفطرت آفتیں بھیجی تھیں اور بحیرہ قلزم کا پانی دو حصے کر کے راستہ کھولا تھا۔ جب خدا نے ان قدیم لوگوں (اُمت) کو استعمال کیا کہ اُس کے غضب کو پورا کرنے کا وسیلہ بنیں تو وہ انصاف پر قائم رہا اور کسی کی طرف داری نہیں کی۔ مثال کے طور پر توریت میں مرقوم ہے کہ خدا نے پہلے اسرائیلیوں کو (اُن کی بت پرستی اور زناکاری پر) سزا دی اور وبا بھیجی جس سے ٠٠٠، ٢٤ اسرائیلی مر گۓ (گنتی باب ٢٥ ۔ ٣١)۔ اسرائیلیوں کو پہلے سزا دینے کے بعد ہی خدا نے اُنہیں بھیجا کہ اِرد گرد کی بگڑی ہوئ اور بُری اور گناہ آلود قوموں پر اُس کی سزاؤں اور غضب کو پورا کریں۔ یہ سمجھنا غلط ہے کہ یہ قومیں بے گناہ یا معصوم تھیں۔ پاک کلام واضح طور سے بیان کرتا ہے کہ وہ ایسی بگڑ گئیں اور آلودہ ہو گئ تھیں کہ اُن کا ملک ”اپنے باشندوں کو اُگلے دیتا “ تھا (احبار ١٨ :٢٥ )۔ خدا کی شفقت اور صبر بہت بڑا ہے ، لیکن اُس کا غضب اور قہر بھی بڑا اور یقینی ہے اور ضرور نازل ہوتا ہے۔

ج۔ آخرِکار خدا سب کا کامل انصاف کرے گا۔

ہم ماضی اور حال کے واقعات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ یاد رکھنے سے بہت مدد ملے گی کہ انسان کے خالق کے پاس ہر ایک جان کے بارے میں مکمل معلومات ہیں، ہمارے پاس نہیں ہیں۔ خدا ہمارے نہیں بلکہ اپنے اخلاقی معیار کے مطابق سب کچھ کرتا ہے۔ ہم اُسے نہیں بتاتے کہ کیا غلط اور کیا درست ہے۔ وہ ہمیں بتاتا ہے۔ اگرچہ خدا انسانوں کو غلط انتخاب کرنے دیتا ہے جن سے دوسروں پر ناموافق اثرات مرتب ہوتے ہیں، لیکن وہ برائ سے لاتعلق یا بے پروا نہیں رہتا۔ عدالت کا وہ دن آ رہا ہے جب خدا راست بازی کے اپنے معیار کے مطابق ہر ایک مرد، عورت اور بچے کی عدالت کرے گا۔ اُس کی محبت اور اِنصاف بے انتہا اور  لامحدود ہیں۔ "خداوند عادل خدا ہے ۔ مبارک ہیں وہ سب جو اُس کا انتظار کرتے ہیں (یسعیاہ ٣٠ : ١٨ )۔

خدا بُرائ یا گناہ کی سزا فوراً نہیں دیتا۔ اِس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ گنہگاروں کو مہلت دیتا ہے کہ توبہ کریں اور اُس کی مہیا کردہ نجات کو قبول کریں: "اے عزیزو! یہ خاص بات تم پر پوشیدہ نہ رہے کہ خداوند کے نزدیک ایک دن ہزار برس کے برابر ہے اور ہزار برس ایک دن کے برابر۔ خداوند اپنے وعدہ میں دیر نہیں کرتا جیسی دیر بعض لوگ سمجھتے ہیں، بلکہ تمہارے بارے میں تحمل کرتا ہے اِس لۓ کہ کسی کی ہلاکت نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے" (٢۔پطرس ٣ : ٨ ، ٩)۔

ہمارے ای میل بھیجنے والے دوست کی طرح اگر آپ بھی اپنے بارے میں سمجھتے ہیں کہ " مَیں اپنے خالق سے زیادہ شفیق ہوں" تو پڑھتے رہیں۔ خدا اپنے بھید اُن افراد پر ظاہر کرتا ہے جو اُس کی سننے کے لۓ فروتن اور حلیم ہوتے ہیں اور صبر سے سنتے ہیں۔

”غیب کا مالک تو خداوند ہمارا خدا ہی ہے، پر جو باتیں ظاہر کی گئ ہیں وہ ہمیشہ تک ہمارے اور ہماری اولاد کے لۓ ہیں۔۔۔ “ (استثنا ٢٩ : ٢٩ )۔

٧۔ خدا کی کتاب حدود کی پابند نہیں۔

بعض لوگ بائبل مقدس کو رد کرنے کا یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ اگر بائبل (مقدس) خدا کے الہام سے ہوتی تو اِس میں ایسے کریہہ واقعات کا بیان شامل نہ ہوتا کہ لوگوں نے زناکاری، حرام کاری، نسل کشی، دغابازی، بت پرستی وغیرہ کی۔ الہام اور مکاشفے کے بارے میں اُن کے تصور اور نظریے کے مطابق خدا کی کتاب خدا کے براہِ راست اور صریح اقوال تک محدود ہونی چاہۓ۔

چونکہ پاک صحائف کا مقصد و مدعا تاریخ کے وسیلے سے لوگوں کو اپنے خالق سے متعارف کرانا ہے تو تعجب کیوں کہ بائبل مقدس نہ صرف خدا کے اقوال اور کاموں کو قلم بند کرتی ہے بلکہ بنی نوع انسان کے گناہوں اور خامیوں کو بھی پیش کرتی ہے! کیا خدا کو حق نہیں کہ بنی نوع انسان کی ناکامی کے پس منظر میں اپنا جلال، پاکیزگی، قدس، عدل، رحمت اور وفاداری کو ظاہر کرے؟ کیا ہم خدا کو حکم دینے کی جرات کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی ذات اور اپنے پیغام کو کیسے ظاہر کرے؟

”آہ! تم کیسے ٹیڑھے ہو! کیا کمہار مٹی کے برابر گنا جاۓ گا؟ یا مصنوع اپنے صانع سے کہے گا کہ مَیں تیری صنعت نہیں؟ کیا مخلوق اپنے خالق سے کہے گا کہ تُو کچھ نہیں جانتا؟“ (یسعیاہ ٢٩ : ١٦ )۔

بائبل مقدس میں بہت سے تاریخی واقعات مرقوم ہیں جو خدا نے ہونے دیۓ مگر اُسے پسند نہیں تھے۔ زندہ اور حقیقی خدا وہ ہستی ہے جو بُرے اور ناگوار حالات کو اچھی چیز میں بدل کر خوش ہوتا ہے۔ شاید آپ نے یوسف کا مسحور کن واقعہ پڑھا ہوا ہے۔ وہ یعقوب کا گیارھواں بیٹا تھا۔ اُس کے دس بڑے بھائ اُس سے عداوت رکھتے اور بد سلوکی کرتے تھے۔ موقع ملتے ہی اُنہوں نے یوسف کو غلام کے طور پر اسماعیلیوں کے ہاتھ بیچ دیا۔ یوسف کو ناجائز طور پر قید میں ڈال دیا گیا۔ اِن مصیبتوں کے وسیلے سے یوسف مصر میں فرعون کے بعد اعلی' ترین عہدے پر پہنچ گیا۔ اُس نے قحط سالی کے دوران مصریوں، اپنے بھائیوں اور آس پاس کی قوموں کو بھوکوں مرنے سے بچایا۔ بعد ازاں جب یوسف کے بھائیوں کے دل بالکل بدل گئے تو اُس نے اُنہیں بتایا، ”تم نے تو مجھ سے بدی کرنے کا ارادہ کیا تھا، لیکن خدا نے اُسی سے نیکی کا قصد کیا تاکہ بہت سے لوگوں کی جان بچاۓ۔ چنانچہ آج کے دن ایسا ہی ہو رہا ہے “ (پیدائش ابواب ٣٧ ۔ ٥٠ اور ٥٠ : ٢٠ )۔

٨۔ تضادات سے بھری ہوئ

بہت سے لوگ اِصرار سے کہتے ہیں کہ بائبل (مقدس) تضادات سے بھری ہوئ ہے، لیکن اُن میں سے شاید ہی کوئ ہو گا جس نے جذبات اور تعصبات سے بالاتر ہو کر اِس کا مطالعہ کرنے کی کوشش کی ہو۔ کیا مناسب ہے  کہ سنی سنائ باتوں کی بنا پر  پاک صحائف (بائبل مقدس) کو رد کر دیا جاۓ؟ کیا کسی عظیم کتاب کو صرف کتابت (یا کمپوزنگ) کی کوئ غلطی پکڑنے یا متن میں کوئ تضاد ثابت کرنے کے لۓ پڑھنا چاہۓ؟ کاش ایسا نہ ہو! تاہم بہت سے لوگ بائبل مقدس کو اِسی مقصد سے پڑھتے ہیں۔

چند سال ہوۓ مجھے ایک ای میل موصول ہوئ جس میں بائبل مقدس میں مفروضہ غلطیوں اور تضادات کی ایک لمبی فہرست شامل تھی۔ ای میل بھیجنے والے نے یہ سب کچھ کسی ویب سائٹ سے نقل کیا تھا۔

ہم اُس کا ایک اقتباس پیش کرتے ہیں:

 

ای میل

"آپ کی بائبل مقدس خود اپنی تردید کرتی ہے۔ مثال کے طور پر

- پہلے دن خدا نے روشنی پیدا کی۔ پھر روشنی کو تاریکی سے جدا کیا (پیدائش ١ : ٣۔ ٥ )۔ سورج جو کہ رات اور دن کو جدا کرتا ہے، وہ چوتھے دن پیدا کیا گیا (پیدائش ١ : ١٤ ۔ ١٩ )۔

- آدم جس دن ممنوعہ پھل کھاتا اُسے اُسی دن مرنا تھا (پیدائش ٢ : ١٧)۔ آدم نو سو تیس برس تک جیتا رہا (پیدائش ٥:٥ )۔

- یسوع عدالت نہیں کرتا یا کسی کو مجرم نہیں ٹھہراتا (یوحنا ٣ :١٧ ، ٨ :١٥ ، ١٢ : ٤٧ )۔ یسوع عدالت کرتا یا مجرم ٹھہراتا ہے (یوحنا ٥ :٢٢ ، ٢٧ ۔ ٣٠ ؛ ٩ :٣٩؛ اعمال ١٠ : ٤٢ ؛ ٢۔کرنتھیوں ٥ : ١٠ )۔

- وغیرہ وغیرہ

اب مَیں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ کیا آپ کا مذہب مجھے اجازت دیتا ہے کہ اُسے قبول کرنے سے پہلے سوال پوچھوں/ اعتراض کروں اور اپنا دماغ استعمال کروں یا کیا مجھے کہتا ہے کہ آنکھیں بند رکھوں اور اپنے دماغ کو سوال یا اعتراض پیدا کرنے سے روک دوں؟ چونکہ مَیں اپنے آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ کیا ممکن ہے کہ خدا نے اپنی ہی کتاب میں اِتنی غلطیاں کی ہوں تو فطری طور سے میرا جواب ہے نہیں!

ہاں وہی خدا جو کہتا ہے "آؤ ہم باہم حجت کریں" (یسعیاہ ١ : ١٨ )۔ وہ چاہتا ہے کہ " مَیں سوال کروں اور اپنا دماغ استعمال کروں۔ خد اہر کسی کو دعوت دیتا ہے کہ اُس (خدا) کے کلام پر خود غور کرے۔ کسی دوسرے شخص کے دریافت کردہ "تضادات" کو نقل کرنے اور اُن کی تشہیر کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ حضرت سلیمان نے فرمایا ہے "نادان ہر بات کا یقین کر لیتا ہے، لیکن ہوشیار آدمی اپنی روِش کو دیکھتا بھالتا ہے" (اَمثال ١٤ :١٥ )۔

اُس ای میل بھیجنے والے دوست کے "تضادات" کا مسئلہ اِس طرح حل ہو گا کہ ہم پاک کلام کو غور کے ساتھ پڑھیں اور اُس پر غور و فکر کریں۔ زیرِ نظر کتاب "ایک خدا، ایک پیغام" کے ابواب ٨، ١٢ اور ٢٨ ، ٢٩ میں اِن تینوں مفروضہ تضادات کے جواب دیۓ گۓ ہیں، مگر فی الحال ہم سب اِس بات پر اِتفاق کریں کہ خلوصِ نیت سے خود تحقیق کرنے کے لۓ یہ زندگی بہت مختصر اور ابدیت بے حد طویل ہے۔

اگر آپ نے کبھی رسیلہ اور مزیدار  آم کھایا ہو تو جانتے ہیں کہ اُس کی خوشبو اور منہ میں مزے کا کسی دوسرے شخص سے بیان کرنا ہی کافی نہیں ہوتا، اُسے چکھانا اور کھلانا ضروری ہوتا ہے۔ اِسی طرح خدا کے کلام کے بارے میں کسی دوسرے شخص کی بتائ ہوئ باتوں کو قبول کر لینا ہی کافی نہیں۔ لازم ہے کہ آپ خود اِسے چکھیں، خود آزمائیں:

”آزما کر دیکھو کہ خداوند کیسا مہربان ہے!“ (زبور ٣٤ : ٨ )۔

یہ انسان کے اپنے ابدی مفاد میں ہے کہ وہ پاک کلام کا دھیان اور احتیاط سے مطالعہ کرے۔ جسے "شرمندہ ہونا نہ پڑے اور جو حق کے کلام کو درستی سے کام میں لاتا ہو" (٢۔تیمتھیس ٢ : ١٥ )۔ پورے متن اور سیاق و سباق پر توجہ نہ دینا حق کے کلام کو استعمال کرنے کا صحیح طریقہ نہیں ہے۔

وضاحت کی خاطر ہم مثال دیتے ہیں۔ بائبل مقدس میں کہا گیا ہے کہ عیب جوئ نہ کرو، (کسی پر فتوی' نہ دو) اور دوسری جگہ کہا گیا ہے کہ ایسا کرو (دیکھیں متی ٧: ١ ۔ ٢٠ اور موازنہ کریں رومیوں باب ١٤ اور  ١۔کرنتھیوں باب ٦ کے ساتھ)۔ کیا یہ حوالے متضاد ہیں؟ نہیں، بلکہ باہم تکمیلی ہیں۔ ایک طرف تو خدا کی کتاب مجھے کہتی ہے کہ چونکہ مخلوق ہونے کے باعث میرا علم محدود ہے اِس لۓ مَیں اپنی راست بازی کا ڈھنڈورا پیٹنے اور دوسروں کی عیب جوئ کرنے کی روح سے کسی دوسرے کی نیت اور عمل پر فتوی' نہ دوں (اُسے بُرا نہ کہوں)۔ اور دوسری طرف کہتی ہے کہ جو کچھ پاک کلام کہتا ہے اُس کی بنیاد پر فتوی' دوں ۔۔۔ نیکی اور بدی میں، حق اور باطل میں تمیز کرنے کے لۓ۔

اب بائبل مقدس میں مفروضہ تضادات کے بارے میں کیا خیال ہے؟

ان سارے "تضادات" کے تسلی بخش جواب مَیں نے خود تلاش کۓ ہیں۔ مَیں نے یہ بھی معلوم کیا ہے کہ جب تک لوگ پاک کلام کو سمجھنا نہ چاہیں تو  جونہی اُن کے پرانے تضاد کی وضاحت ہو جاتی ہے وہ کوئ نیا "تضاد" ڈھونڈ نکالتے ہیں۔

متعدد ویب سائٹ "بائبل مقدس میں ١٠١ واضح تضادات" کی ایک لمبی فہرست لگاتار پیش کرتے رہتے ہیں، باوجود یہ کہ اب کئ سالوں سے ایک اَور مقالہ بعنوان " ١٠١ صراحت شدہ تضادات" بھی اِن ہی ویب سائٹ پر پیش کیا جا رہا ہے۔ دیکھۓ [ ١ ]

کیا آپ خدا کے پیغام کو سمجھنا چاہتے ہیں؟ تو اپنا نظریہ یا مفروضہ ڈھونڈنے کے لۓ خدا کی کتاب مت پڑھیں بلکہ اُس (خدا) کا نظریہ تلاش کرنے کی خاطر پڑھیں۔ بائبل مقدس کا کتاب بہ کتاب مطالعہ کریں۔ جو کچھ پڑھیں اُس کی تشریح یا تفسیر کرنے کی زیادہ کوشش نہ کریں۔ اُسے اپنی تشریح یا تفسیر خود کرنے دیں۔ پاک صحائف جو کئ صدیوں میں اور بہت سے نبیوں کی معرفت لکھے گۓ وہ خود اپنی بہترین تفسیر ہیں۔ بائبل مقدس کی کسی بھی آیت کی صحیح تفسیر و تشریح کرنے کے لۓ دو اصول پلے باندھ لیں:

١۔ آگے اور پیچھے کا پورا سیاق و سباق پڑھیں۔

٢۔ پاک کلام کا موازنہ اور مقابلہ پاک کلام سے کریں۔

مثال کے طور پر استثنا کی کتاب میں مقدس موسی' نے بنی اسرائیل کے سامنے یہ پیش گوئی کی: خداوند خدا تیرے لۓ تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا۔ تم اُس کی سننا ۔۔۔" (استثنا ١٨ : ١٥ )۔ جب موسی' نے اسرائیلیوں سے یہ الفاظ کہے کہ "تیرے ہی درمیان سے" اور "تیرے ہی بھائیوں میں سے" تو اِس کا کیا مطلب تھا؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ "اسماعیلیوں" کے بارے میں، جبکہ دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ وہ "اسرائیلیوں" کے بارے میں کہہ رہا تھا۔ اِس کے آگے اور پیچھے کا سیاق و سباق درست جواب مہیا کرتا ہے (مثلاً استثنا ١٧ : ١٥ ، ٢٠ ؛ ١٨ :٢، ٥ وغیرہ)۔ یہ خاص نبی کون تھا جسے "برپا کرنے" کا خدا نے وعدہ کیا؟ بہت سے لوگ اِس پیش گوئ کو اپنے خاص مذہب کے بانی پر منطبق کرنے یعنی اُس کے بارے میں قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر اِس کی بالکل درست تشریح آگے چل کر خود پاک کلام (بائبل مقدس) نے کر دی ہے (دیکھئے یوحنا ٥ : ٤٣ ۔ ٤٧ ؛ ٦ :١٤ ؛ اعمال ٣ : ٢٢ ۔٢٦ ۔ آپ کو جواب مل جاۓ گا۔)

”وہی (خدا) گہری اور پوشیدہ چیزوں کو ظاہر کرتا ہے اور جو کچھ اندھیرے میں ہے اُسے جانتا ہے اور نُور اُسی کے ساتھ ہے“ (دانی ایل ٢ : ٢٢ )۔

٩۔ مَیں کسی نۓ عہدنامے کو نہیں مانتی۔

تھوڑا عرصہ ہوا مجھے کسی خاتون کی طرف سے یہ ای میل موصول ہوئ:

 

ای میل

"مَیں نۓ عہدنامے کو نہیں مانتی۔ مَیں صرف پرانے عہدنامے کو مانتی ہوں۔ مَیں یقین نہیں رکھتی کہ خدا کی باتوں کو ترتیب دے کر نۓ زمانے کے لۓ دوبارہ لکھا جا سکتا ہے۔"

بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح ای میل بھیجنے والی یہ خاتون بھی ابھی تک نہیں سمجھی کہ خدا کی کتاب (بائبل مقدس) میں ایک پرانا عہدنامہ اور ایک نیا عہدنامہ کیوں ہیں۔ پاک کلام کے اِن دو بنیادی اور اہم حصوں کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ خدا کا کلام "ترتیب دے کر دوبارہ لکھا گیا ہے،" بلکہ مطلب یہ ہے کہ بنی نوع انسان کے لۓ خدا کا وہ منصوبہ جو الہام سے پیشگی بتا دیا گیا تھا یعنی جس کی پیش گوئ ہوئی تھی وہ پورا ہو گیا ہے اور ہو رہا ہے۔

تاریخ میں واقعات کا ذکر اُن تاریخوں کے حوالے سے ہوتا ہے جب وہ وقوع پذیر ہوۓ تھے۔ مثال کے طور پر بتایا جاتا ہے کہ ابرہام نبی تقریباً ٢٠٠٠ ق م میں پیدا ہوۓ، مگر نیویارک کے ٹون ٹاورز  ( Twin Towers )  کی تباہی کی تاریخ ٢٠٠١ ء میں آتی ہے۔ ("ق م" قبل از مسیح اور " عیسوی" کا مخفف ہے۔ یاد رہے کہ مسلمان لوگ یسوع مسیح کو "عیسی' " کے نام سے یاد کرتے ہیں)۔ عالمی تاریخ دو حصوں میں تقسیم ہے اور خدا کی کتاب (بائبل مقدس) بھی دو حصوں پر مشتمل ہے۔ مگر تاریخ میں نقطہ تقسیم بہرصورت یسوع مسیح کی پیدائش کا واقعہ ہے۔

بائبل مقدس میں ایک پرانا عہدنامہ ہے اور ایک نیا عہدنامہ۔ لفظ "عہدنامہ" کا مطلب ہے سرکاری دستاویز، میثاق، اقرار نامہ، دو فریقوں کے درمیان معاہدہ۔ وضاحت کی خاطر ہم ایک مثال دیتے ہیں۔ جب کوئ شخص بنک سے قرض لیتا ہے تو وہ ایک عہدنامہ یا معاہدہ یعنی ایک قانونی دستاویز پر دستخط کرتا (انگوٹھا لگاتا) ہے۔ عہدنامہ کے مطابق بنک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اُس شخص کو وعدہ کی ہوئ رقم دے۔ اور اُس شخص کہ ذمہ داری ہے کہ معاہدہ کے مطابق مقررہ مدت میں وہ پوری رقم واپس ادا کرے۔ اگر وہ شخص اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتا تو اُسے ناگوار نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اِسی طرح بائبل مقدس اُن عہدناموں کی تفصیل پیش کرتی ہے جو ہمارے خالق نے سارے انسانوں کے لۓ فراہم کۓ، جن سے یہ ممکن ہوا کہ آپ اور مَیں اُس (خدا) کی ازلی اور ابدی برکات اور عنایات سے مسفید ہوں۔ خدا کا انسانوں کے ساتھ "عہد باندھنا" بائبل مقدس کے پاس نوشتوں کی بے مثال خوبی ہے۔

اب ہم پاک کلام کے مذکورہ دو حصوں پر سرسری نظر ڈالیں گے۔ پرانے عہدنامہ اور نۓ عہد نامے میں سفر کرتے ہوۓ اِن دونوں حصوں کا مقصد اور   اِن کی قوت واضح ہوتی جاۓ گی۔

حصہ اوّل۔ پرانا عہدنامہ: پرانا عہدنامہ عبرانی زبان میں (تھوڑا سا حصہ ارامی زبان میں)  لکھا گیا ہے۔ پرانے عہدنامے کے نوشتوں میں موسی' کی شریعت (اِسے توریت/ تورات بھی کہتے ہیں) ، نبیوں کے صحیفے اور زبور شامل ہیں (لوقا ٢٤ : ٤٤ )۔ خدا نے یہ نوشتے ایک ہزار سال سے زیادہ مدت کے دوران تقریباً تیس نبیوں کو عطا کۓ۔ اِن میں آدم کی تخلیق سے لے کر سلطنتِ فارس کے دَور (تقریباً ٤٠٠ ق م) تک کی انسانی تاریخ میں خدا کی مداخلت کا حال قلم بند ہے۔

نبوتی مفہوم میں پرانا عہدنامہ دنیا کے خاتمے کے زمانے تک دیکھتا ہے اور سینکڑوں تاریخی واقعات کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے اِن کا اعلان کرتا ہے۔

پاک نوشتوں کے اِس الہی نشانِ تصدیق پر ہم باب ٥ میں بات کریں گے۔ خدا تاریخ کے وقوع میں آنے سے پہلے اِس کا اعلان کرتا ہے۔ اِس کی ایک زبردست مثال مقدس دانی ایل کی کتاب کے ابواب ٧ تا ١٢ میں پائ جاتی ہے۔ دانی ایل ٤٠٠  ق م سے لے کر مسیح یسوع کے زمانے تک کی عالمی تاریخ بیان کرتا ہے اور پھر اُن واقعات کا ذکر کرتا ہے جو آخری زمانے میں رونما ہوں گے۔ مقدس دانی ایل نے یہ ساری باتیں ٦٠٠ ق م سے ٥٣٠ ق م کے دوران لکھیں۔

پرانا عہدنامہ اُس عہدنامے (معاہدہ) کا بیان کرتا ہے جو خدا نے یسوع مسیح کی پیدائش سے پہلے (ق م) بنی نوع انسان کو پیش کیا۔ "مسیح" عبرانی کے لفظ "ماشیخ یا ماشیاخ" (دیکھیں قاموس الکتاب صفحہ ٣٧٢ ، ٩٠٩ ، ٩١٢ ) کی یونانی شکل ہے۔ انگریزی زبان میں "مسایاح" ( Messiah ) ہے۔ اِس کا مطلب ہے "ممسوح" یعنی مسح کیا گیا یا "چنیدہ" یعنی "چنا ہوا"۔ جو واقعات ابھی وقوع پذیر نہیں ہوۓ اُن کی پیش گوئ کرتے ہوۓ یہ پاک صحائف اُس مسایاح یعنی مسیح موعود کی خبر دیتے تھے جو انسانوں کو گناہ اور اِس کے نتائج سے رہائ دے گا۔ پرانے عہد میں یہ اہم وعدہ بھی شامل تھا:

”دیکھ وہ دن آتے ہیں خداوند فرماتا ہے جب مَیں اسرائیل کے گھرانے اور یہوداہ کے گھرانے کے ساتھ نیا عہد باندھوں گا “ (یرمیاہ ٣١ :٣١ )۔

حصہ دوم۔ نیا عہدنامہ:  نۓ عہدنامے کے نوشتے یونانی زبان میں لکھے گۓ ہیں۔ اِنہیں "انجیل" بھی کہا جاتا ہے۔ انجیل عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں "خوش خبری"۔ نیاعہدنامہ پہلی صدی عیسوی میں کم سے کم آٹھ اشخاص کی معرفت لکھا گیا۔ نۓ عہدنامے میں مسایاح یعنی مسیحِ موعود کی پہلی آمد کا بیان قلم بند ہے۔ یہ پرانے عہدنامے کے نوشتوں کی الہی تفسیر بھی پیش کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ عالمی تاریخ کا خاتمہ کیسے ہو گا۔ اِس کی ساری پیش گوئیاں کامل طور سے پرانے عہدنامے کی پیش گوئیوں کے مطابق ہیں۔

نیا عہدنامہ خدا کی طرف سے انسانوں کو اُس بڑی پیش کش کا بیان کرتا ہے جو مسیحِ موعود کی آمد کے نتیجے میں ممکن ہوئ۔ یہ نوشتے پیچھے کو یعنی ماضی کی طرف متوجہ کرتے ہیں اور اُن سینکڑوں اہم اور کلیدی واقعات کے پورا ہونے کا ثبوت دیتے ہیں جن کی پیش گوئیاں نبیوں نے کی تھیں۔

پرانے عہدنامے کی طرح نیا عہدنامہ آگے کو یا مستقبل کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے جب مسیحِ موعود زمین پر واپس آۓ گا۔ بہت معقول وجہ تھی جو مسیحِ موعود نے کہا "یہ نہ سمجھو کہ مَیں توریت یا نبیوں کی کتابوں (پرانا عہدنامہ) کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں" (متی ٥ : ١٧ )۔

پرانے عہدنامے اور نۓ عہد نامے میں کوئ تضاد نہیں۔ اُس بیج کی مانند جو پھوٹتا ہے اور بڑھ کر بڑا اور مکمل درخت بن جاتا ہے، انسانوں کے لۓ خدا کا نہایت قدیم منصوبہ پرانے عہدنامے میں جڑ پکڑتا اور نۓ عہدنامے میں پڑھ کر تکمیل کو پہنچتا ہے۔ خدا کی کتاب کا ہر ایک حصہ اُس پیغام کی طرف متوجہ کرتا ہے جو خدا چاہتا ہے کہ ہم سمجھیں۔

ای میل بھیجنے والی خاتون یہ یقین رکھنے میں حق بجانب ہے کہ "خدا کی باتوں کو ترتیب دے کر نۓ زمانے کے لۓ دوبارہ نہیں لکھا جا سکتا۔" جس حقیقت کو وہ سمجھنے اور جاننے سے قاصر رہی ہے یہ ہے کہ "خدا کی باتیں" پوری ہو سکتی ہیں اور پوری ہو کر رہیں گی۔

١٠ ۔ تحریف شدہ کتاب

اب تک ہم نے نو رکاوٹوں کا جائزہ لیا ہے جن کے باعث لوگ بائبل مقدس کو نہیں پڑھتے اور اِس کا یقین نہیں کرتے۔ لیکن ہم نے اُس بڑے اور عام اعتراض کا جائزہ نہیں لیا جو ہمارے مسلمان دوست ہمیشہ کرتے ہیں۔ میرے دوست احمد نے اپنی ای میل میں اِس کا ذکر کیا ہے۔ وہ کہتا ہے:

ای میل

" مَیں جانتا اور یقین رکھتا ہوں کہ موجودہ بائبل بالکل جعلی اور تحریف شدہ ہے کیونکہ اِس کی ساری کتابوں میں رد و بدل کیا گیا ہے۔ "

کیا احمد کی بات درست ہے؟ کیا اصل نوشتوں میں رد و بدل کیا گیا ہے؟ اگلے صفحات میں اِس کا جواب دیا گیا ہے۔


١. www.debate.org.uk/topics/apolog/contrads.htm