۵
خدا کے دستخط
” تمام قومیں فراہم کی جائیں ۔۔۔ اور لوگ سنیں اور کہیں کہ یہ سچ ہے “ — (یسعیاہ ٤٣ : ٩ )

سرکاری اور قانونی دستاویز پر کسی اعلی' افسر کے دستخط ہونا لازمی ہے۔ پرانے اور نۓ عہدنامے کے صحیفے دعوی' کرتے ہیں کہ ہم خدا کی مستند روئیداد اور عہد ہیں۔ اِن پر بھی دستخط کۓ گۓ ہیں لیکن روشنائ اور قلم سے نہیں بلکہ بالکل واضح اور نمایاں انداز سے جسے ” پوری ہو چکی پیش گوئ یا نبوت “ کہا جاتا ہے۔

 ” خداوند ۔۔۔ یوں فرماتا ہے کہ مَیں ہی اوّل اور مَیں ہی آخر ہوں اور میرے سوا کوئ خدا نہیں اور جب سے مَیں نے قدیم لوگوں کی بنیاد ڈالی کون میری طرح بلاۓ گا اور اُس کو بیان کر کے میرے لۓ ترتیب دے گا؟ ہاں جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے اُس کا بیان کریں ۔۔۔ کس نے قدیم ہی سے یہ ظاہر کیا؟ کس نے قدیم ایام میں اِس کی خبر پہلے ہی سے دی ہے؟ کیا مَیں خداوند ہی نے یہ نہیں کیا؟ “ (یسعیاہ ٤٤ : ٦ ، ٧ ؛ ٤٥ : ٢١ )۔

ہمیں خدا کی منطق، خدا کی دلیل کو سمجھنا چاہۓ۔

بائبل مقدس میں بے شمار تفصیلی پیش گوئیاں ہیں جو پوری ہو چکی ہیں۔ اِس سے ہم جانتے ہیں کہ جو کچھ یہ ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں کہتی ہے ہم اُس کا یقین کر سکتے ہیں۔

حتمی اور صریح ثبوت

صرف وہ ہستی جو  لازمان ہے، ازلی و ابدی ہے تاریخ کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے اِسے بیان اور تحریر کر سکتی ہے۔

فانی انسان نے کئ دفعہ جچے تُلے اور سوچے سمجھے اندازے لگاۓ ہیں کہ مستقبل میں کیا ہو گا۔ لیکن صرف خدا ہی مستقبل کو ایسے دیکھتا ہے گویا وہ ہو چکا ہے۔ صرف خدا ہی جانتا ہے کہ آج سے ہزار سال بعد کیا ہو گا۔ خدا کی طرف سے مکاشفہ کے بغیر نہ کوئ انسان، نہ فرشتہ، نہ شیطان، نہ بد روح قطعی اور صریح طور سے مستقبل کے بارے میں بتا سکتی ہے۔

بعض لوگ پوچھیں گے کہ روحانی عاملوں، جادو گروں، ٹونے سے علاج کرنے والوں اور قسمت کا حال بتانے والوں کے بارے میں کیا کہتے ہو جو مستقبل کے بارے میں پیش گوئیاں کرتے ہیں۔

اوّل: یہ سمجھنا اور جاننا ضروری ہے کہ شیطان ان لوگوں کو غیر ارضی علم دے سکتا ہے جن کو اُس نے اپنے پھندے میں پھنسا رکھا ہے تاکہ اُس کی مرضی پوری کریں (٢۔تیمتھیس ٢ :٢٦ )۔

دوم: شیطان بہت بڑا بہروپیا اور ماہر نفسیات ہے۔ وہ ہزاروں سالوں سے انسانی تاریخ کو بغور دیکھ رہا ہے۔ وہ خدا کے جعلی ” دستخط “ کرنے کا ماہر ہے۔

سوم: اگرچہ شیطان بڑی حد تک پہلے سے یہ بتانے کا ماہر ہے کہ بعض واقعات کیا رُخ اختیار کریں گے مگر وہ مستقبل کو نہیں جانتا۔ اُس کی ” پیش گوئیاں “ اکثر غلط ثابت ہوتی ہیں۔ علاوہ ازیں وہ مبہم اور غیر واضح ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر کوئ قسمت کا حال بتانے والا کسی جوان لڑکی سے کہتا ہے ” بس ایک دو سال میں تمہاری شادی ہو جاۓ گی اور تمہیں سچی محبت ملے گی۔ “ مَیں اور آپ سب جانتے ہیں کہ امکان بہت ہے اور ایسی ” پیش گوئ “ پوری ہو ہی جاتی ہے۔ جب ہم بائبل مقدس کی پوری ہو چکی پیش گوئیوں کی بات کرتے ہیں تو اِس قسم کی مبہم پیش گوئیوں کی بات نہیں ہوتی۔

ہم بائبل مقدس سے پیش گوئیوں میں سے تین مثالیں پیش کرتے ہیں ۔۔۔ ایک جگہ، ایک قوم اور ایک شخص کے بارے میں۔

ایک جگہ کے بارے میں پیش گوئیاں

تقریباً ٦٠٠ ق م میں مقدس حزقی ایل نبی نے فینیکے کے قدیم صور کے خلاف پیش گوئ کی تھی۔ لبنان کے ساحل پر واقع صور شہر دو ہزار سال سے زیادہ عرصے تک عالمی اہمیت کا شہر رہا۔ اِسے ” سمندروں کی ملکہ “ کہا جاتا تھا۔ لیکن جب یہ طاقت اور شہرت کی انتہائ بلندی پر تھا تو خدا نے حزقی ایل کو حکم دیا کہ اِس شہر کی بدی، تکبر اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اِس پر آنے والی بربادی اور تباہی کا حال تفصیل سے لکھے۔

حزقی ایل نبی نے پیش گوئ کی:

  1. بہت سی قومیں صور  پر  چڑھائ کریں گی  (حزقی ایل ٢٦ : ٣)۔
  2. بادشاہ نبوکدرضر/ نبوکدنضر کے ماتحت بابل سب سے پہلا حملہ آور ہو گا۔ (آیت ٧)
  3. صور  کی شہر پناہ اور اُس کے برج ڈھا دیۓ جائیں گے (آیت ٤، ٩ )۔
  4. صور کے باشندے تلوار سے قتل ہوں گے (آیت ١١ )۔
  5. شہر کا ملبہ اور مٹی سمندر میں پھینکی جاۓ گی (آیت ١٢ )۔
  6. اسے کھرچ کر ” صاف چٹان “ بنا دیا جاۓ گا (آیت ٤)۔
  7. وہ ماہی گیروں کے ” جال پھیلانے کی جگہ “ بن جاۓ گا ۔ (آیت ٥، ١٤ )
  8. صور کا بڑا شہر پھر تعمیر نہ کیا جاۓ گا کیونکہ خداوند نے یہ فرمایا ہے (آیت ١٤ )۔

غیر مذہبی تاریخ بیان کرتی ہے کہ یہ آٹھوں پیش گوئیاں پوری ہوئ ہیں۔

  1. صور  پر بہت سی قوموں نے چڑھائ کی۔
  2. سب سے پہلا حملہ آور بابل تھا جس کی قیادت نبوکدنضر نے کی۔
  3. تیرہ سال (٥٨٥ _ ٥٧٢ ق م) کے محاصرے کے بعد ساحل پر واقع صور کی فصیلیں اور برج ڈھا دیۓ گۓ اور حزقی ایل کی پہلی پیش گوئی پوری ہوئ۔
  4. صور کے جو باشندے پناہ کے لۓ جزیرے پر واقع قلعے میں نہ جا سکے نبوکدنضر نے اُن سب کو قتل کر دیا۔ مذکورہ قلعہ بحیرہ روم میں تقریباً ایک میل دُور جزیرے پر تھا۔
  5. غیر مذہبی تاریخ میں لکھا ہے کہ سکندرِ اعظم پہلا فاتح تھا جس نے ٣٣٢ ق م میں صور کا اندرونی حصہ فتح کیا۔ اِس کامیابی کے لۓ اُس نے شہر کا ساحلی حصہ تباہ و برباد کیا اور اُس کے ملبے سے جزیرے تک سڑک بنائ۔ اِس طرح انجانے میں اُس پیش گوئ کا ایک اَور حصہ پورا کر دیا کہ تباہ شدہ شہر کا ملبہ سمندر میں ڈال دیا۔ سکندرِ  اعظم کی فتح
    نے فینیکی سلطنت کا ہمیشہ کے لۓ خاتمہ کر دیا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ ٣٣٢ ق م میں سکندرِ اعظم نے نوماہ کے محاصرے کے بعد شہر پر
    قبضہ کر لیا۔ اگرچہ اُس نے شہر کو پورے طور پر تباہ نہ کیا تو بھی صور اِس چوٹ سے سنبھل نہ سکا۔
  6. شہر کو کھرچ کر ” صاف چٹان “ بنا دیا گیا۔
  7. یہ ” جال پھیلانے کی جگہ “ بن گیا۔
  8. بعد کے سالوں میں اِس کو دوبارہ تعمیر کرنے کی بار بار کوشش کی گئ، مگر یہ ہر بار تباہ ہوا۔ آج کے لبنان میں ” صور “ نام کا ایک جدید شہر موجود ہے۔ لیکن فینیکے کا وہ قدیم شہر جس کے خلاف حزقی ایل نے نبوت کی تھی وہ دوبارہ کبھی تعمیر اور بحال نہیں ہوا۔ نیشنل جیوگرافک میگزین نے اگست ١٩٧٤ ء کے شمارے کے صفحہ ١٦٥ پر پتھر کے ایک چبوترے کی تصویر شائع کی جس کے نیچے لکھا ہوا ہے ” آج کے فینیکی، اِس کے نیچے بڑے رومی شہر کے فرشی پتھر اور ستون دبے پڑے ہیں۔ تھوڑی سی کھدائ سے فینیکیوں کی گم شدہ دنیا میں پہنچ سکتے ہیں۔ “

کیا ممکن ہے کہ حزقی ایل بہ حیثیت انسان اپنے زمانے میں صور شہر کو دیکھ کر اپنی عقل اور حکمت سے یہ آٹھ پیش گوئیاں کر سکتا ؟

چونکہ تاریخ کو وقوع پذیر ہونے سے پہلے صرف خدا ہی دیکھ سکتا ہے اِس لۓ صرف وہی حزقی ایل کو یہ معلومات دے سکتا تھا۔

ایک قوم کے بارے میں پیش گوئیاں

بائبل مقدس میں کئ لوگوں اور قوموں کے بارے میں بالکل صحیح پیش گوئیاں موجود ہیں۔ اِن میں مصر، ایتھوپیا (حبشہ)، عرب، فارس (ایران)، روس، اسرائیل اور کئ اَور اقوام شامل ہیں۔

اِس سے پہلے کہ ہم پوری ہو چکی اگلی پیش گوئ کی مثال دیں، ہم آپ کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ ہمارا مقصد کسی سیاسی یا مذہبی ایجنڈے کو فروغ دینا یا اپنی مرضی کا مطلب اخذ کرنا نہیں۔ ہمارا کام کلام کی باتیں اور پیغام سیکھنا (اور سکھانا) ہے۔

یہاں ہم ایک قوم کے بارے میں پوری ہو چکی پیش گوئ کی مثال پیش کرتے ہیں۔ اِس کی تشریح آسان ہے لیکن بہتوں کے لۓ اِسے مانںا اور قبول کرنا مشکل ہے۔

تقریباً ١٩٢٠ ق م میں خدا نے ابرہام سے وعدہ کیا کہ یہی ملک مَیں تیری نسل کو دوں گا (پیدائش ١٢ : ٧)۔

اور بعد میں خدا نے یہی وعدہ اضحاق اور یعقوب کے ساتھ دہرایا (پیدائش ٢٦ : ٣ ؛ ٢٨ : ١٥ )۔ خدا نے ابرہام، اضحاق اور یعقوب سے پیدا ہونے والی قوم کو جو ملک دینے کا وعدہ کیا وہ تجارتی اور جنگی لحاظ سے بالکل مرکزی جگہ ” قوموں اور مملکتوں کے درمیان “ واقع تھا اور ہے (حزقی ایل ٥:٥ مزید دیکھۓ اعمال ١ : ٨ ؛ ٢ : ٥۔١١ )۔

ابرہام، اضحاق اور یعقوب کی نسل کے لوگ پہلے عبرانی کہلاتے تھے، بعد میں اسرائیلی اور مزید کچھ عرصے بعد یہودی کہلانے لگے۔ اور اب تک اِن ہی دو ناموں سے کہلاتے ہیں۔

سینکڑوں سال بعد خدا نے موسی' کو بتایا کہ اگر اِن لوگوں نے مجھ (خدا) پر ایمان رکھنا اور میرے حکموں کی پیروی کرنا چھوڑ دیا تو اِن کا کیا حشر ہو گا۔

” مَیں تم کو غیر قوموں میں پراگندہ کر دوں گا اور تمہارے پیچھے پیچھے تلوار کھینچے رہوں گا، اور تمہارا ملک سُونا ہو جاۓ گا اور تمہارے شہر ویرانہ بن جائیں گے “ (احبار ٢٦ : ٣٣ )۔

” اُن سب قوموں میں جہاں جہاں خداوند تجھ کو پہنچاۓ گا تُو باعثِ حیرت اور ضرب المثل اور انگشت نما بنے گا ۔۔۔ اُن قوموں کے بیچ تجھ کو چین نصیب نہ ہو گا اور نہ تیرے پاؤں کے تلوے کو آرام ملے گا بلکہ خداوند تجھ کو وہاں دل لرزاں اور آنکھوں کی دھندلاہٹ اور جی کی کڑھن دے گا “ (استثنا ٢٨ : ٣٧ ، ٦٥ )۔

پرانے عہدنامے میں ایسی بیسیوں پیش گوئیاں موجود ہیں۔

تقریباً ٣٠ ء میں نبیوں کی باتوں (کلام) کی تصدیق کرتے ہوۓ یسوع ناصری نے یروشلیم کی بربادی کی پیش گوئ کی: ” جب (یسوع نے) نزدیک آ کر (یروشلیم کو) دیکھا تو اُس پر رویا اور کہا ۔۔۔ وہ دن تجھ پر آئیں گے کہ تیرے دشمن تیرے گرد مورچہ باندھ کر تجھے گھیر لیں گے اور ہر طرف سے تنگ کریں گے اور تجھ کو اور تیرے بچوں کو جو تجھ میں ہیں زمین پر دے پٹکیں گے۔۔۔ کیونکہ تُو نے اُس وقت کو نہ پہچانا جب تجھ پر نگاہ کی گئ “ (لوقا ١٩ : ٤١ ۔ ٤٤ )۔ اور ہیکل کی بات کرتے ہوۓ یسوع نے پیش گوئ کی کہ ” وہ دن آئیں گے کہ ۔۔۔ یہاں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ رہے گا “ (لوقا ٢١ : ٦)۔

اِس کے چالیس سال بعد یہ واقعات ہو گۓ۔

مورخ فلاویُس یوسیفس جو ٣٧ ء میں پیدا ہوا تھا اُس نے آنکھوں دیکھا حال قلم بند کیا ہے۔ ٧٠ ء میں رومی افواج نے یروشلیم کو گھیر لیا، شہر کے اِرد گرد دمدمہ باندھا اور تین سال کے محاصرے کے بعد شہر کو مسمار کر دیا۔ اگرچہ قیصر نے خود حکم دیا تھا کہ بڑے عبادت خانہ (ہیکل) کو محفوظ رکھنا تو بھی بپھرے ہوۓ رومی فوجیوں نے اُسے آگ لگا دی۔ اُس کے اندر پناہ لینے والے یہودیوں کو قتل کر دیا۔ ہیکل کا سونا اور چاندی پگھل کر پتھروں کے درمیان بہنے لگا۔ ہیکل مسمار کر دی گئ۔ سب کچھ ویسے ہی ہوا جیسا یسوع نے کہا تھا ” پتھر پر پتھر باقی نہ رہا۔ “ اور جیسا موسی' اور نبیوں نے کہا تھا یہودی ساری دنیا میں پراگندہ ہو گۓ۔ اگلی دو صدیوں کے دوران تاریخ ان پیش گوئیوں کو پورا ہوتا دیکھتی رہی ہے کیونکہ یہ پراگندہ اور بے گھر یہودی ” ساری قوموں میں باعثِ حیرت اور ضرب المثل اور انگشت نما “ بنے رہے اور اُنہیں کہیں ” آرام نہ ملا۔ “

ہمارے ذاتی احساسات کچھ بھی ہوں مگر بائبل مقدس کی اس پیش گوئ کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے جس کا کوئ شخص بھی انکار نہیں کر سکتا۔ خدا نے نبیوں کو بتایا تھا کہ ہر قسم کے مخالف حالات کے باوجود یہودی ساری قوموں کے درمیان محفوظ اور نمایاں رہیں گے اور ایک وقت آۓ گا کہ اُس ملک میں واپس آئیں گے جو خدا نے ابرہام، اضحاق اور یعقوب کو دیا تھا۔

موسی' نے بنی اسرائیل کو نبوت سے بتایا تھا کہ ” وہ تجھ پر رحم کرے گا اور پھر کر تجھ کو سب قوموں میں سے جن میں خداوند تیرے خدا نے تجھ کو پراگندہ کیا ہو جمع کرے گا “ (استثنا ٣٠ : ٣) اور عاموس نے کہا تھا ” مَیں (خدا) بنی اسرائیل اپنے لوگوں کو اسیری سے واپس لاؤں گا۔ وہ اُجڑے شہروں کو تعمیر کر کے اُن میں بود و باش کریں گے۔ کیونکہ مَیں اُن کو اُن کے ملک میں قائم کروں گا اور وہ پھر کبھی اپنے وطن سے جو مَیں نے اُن کو بخشا ہے نکالے نہ جائیں گے ۔۔۔ “ (عاموس ٩: ١٤، ١۵)

دنیا بھر کے خبررساں ادارے اِن واقعات کے پورا ہونے کی خبریں دیتے ہیں۔

عبرانی قوم پر جو کچھ گزرا ہے وہ عالمی تاریخ میں بے مثال ہے۔ ایک بات تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ قانونِ انضمام کے خلاف ہے۔ اِس قانون نے عملاً  ثابت کیا ہے کہ جب کوئ قوم کسی قوم کو فتح اور مغلوب کر لیتی ہے تو مفتوح قوم کے بچ نکلنے والے لوگ چند پشتوں کے بعد اُن قوموں میں ضم ہو جاتے ہیں۔ وہ اُن کے ساتھ بیاہ شادیاں کرتے ہیں، اُن کی زبان اور تہذیب کو اپنا لیتے ہیں اور اپنی قومی شناخت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہودیوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوا، اگرچہ لاکھوں یہودیوں نے بے حد کوشش کی کہ ہم اُن میں گھل مل جائیں، ضم اور جذب ہو جائیں، لیکن نہ ہو سکے۔

مثال کے طور پر دوسری عالمی جنگ کے زمانے میں ہٹلر کے جرمنی میں رہنے والے بے شمار یہودی چاہتے تھے کہ ہمیں یہودی نہ سمجھا جاۓ اور لوگ ہمیں بہ حیثیت یہودی شناخت نہ کریں۔ وہ جرمن زبان بولتے تھے، جرمنی کے ٹیکس ادا کرتے تھے اور پہلی جنگ میں جرمنی کے لۓ لڑتے رہے تھے۔ تو بھی نازی اصرار کر کے کہتے تھے ” نہیں! تم یہودی ہو! “ چند ہی سالوں کے اندر ساٹھ لاکھ یہودی موت کے کیمپوں میں قید کر کے صفحہ ہستی سے مٹا دیۓ گۓ۔

یہ بات قابلِ فہم ہے کہ بہت سے لوگ اِن دردناک باتوں کو قبول نہیں کرتے۔ حال ہی میں ایک دوست نے لبنان سے خط لکھا، ” جہاں تک اِس پیش گوئ (خدا کا پکا عہد کہ مَیں یہودیوں کو اُن کے وطن میں واپس لاؤں گا) کا تعلق ہے مَیں اِس کا یقین کرنے میں اُن پیچیدگیوں یا مضمرات کو نظر انداز نہیں کر سکتا جو مجھے پیش آ رہی ہیں۔ اِسے قبول کرنا میرے معاملے اور مفاد کے لۓ نقصان دہ ہے۔ “

یہاں ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے۔ ایک قوم کی حیثیت سے یہودیوں کی بقا، بحالی اور ازسرِ نو آباد کاری کو تسلیم کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اسرائیلی حکومت کی پالیسیوں کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ ہم اُس لبنانی دوست کے جذبات کو سمجھتے ہیں اور اُس کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ اُس کی والدہ کا خاندان اور بہت سے پڑوسی ١٩٤٨ ء میں اپنے گھروں سے نکال دیۓ گۓ تھے۔ اُن کا کوئ پُرسانِ حال نہ تھا۔ اُس کے ملک نے بہت دکھ اور مصائب جھیلے ہیں۔ لیکن یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ بائبل مقدس کے نبیوں کی باتیں ہماری آنکھوں کے سامنے پوری ہو رہی ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے یہودی اُن نبیوں کے پیغام کو نہیں مانتے جن کی تعظیم کرنے کا دعوی' کرتے ہیں۔ یہ بھی نوشتوں کے پورا ہونے کا ثبوت ہے۔ ایک قوم کی حیثیت سے وہ روحانی طور پر اندھے ہیں۔ ” مگر آج تک جب کبھی موسی' کی کتاب (توریت) پڑھی جاتی ہے تو اُن کے دلوں پر پردہ پڑا رہتا ہے “ (٢۔کرنتھیوں ٣: ١٥ )۔ ایک قوم کی حیثیت سے وہ اُس وقت تک خدا کی حقیقی برکتوں میں داخل نہیں ہوں گے جب تک کہ وہ دن نہ آۓ جب وہ توبہ کریں گے (یعنی اُن کا دل و دماغ یکسر تبدیل ہو گا) اور خدا کے اِس قدیمی پیغام کا یقین کریں گے (دیکھۓ یسعیاہ ٤٤ : ١٨ ؛ یرمیاہ ٥ : ٢١ ؛ ٢۔کرنتھیوں ٣ : ١٢ ۔ ١٦ ؛ رومیوں ٩: ١١)۔ غور کریں کہ تقریباً  ٢٦٠٠ سال ہوۓ کہ خدا نے حزقی ایل پر ظاہر کیا کہ اسرائیل کا نیا جنم تین واضح مراحل میں ہو گا۔ اُس نے اسرائیل کو سوکھی ہڈیوں سے بھری ہوئ وادی سے تشبیہ دی۔ وہ سب باہم مل کر ایک بدن بن جائیں گی اور بالآخر اُن میں زندگی کا دم پھونکا جاۓ گا (حزقی ایل ٣٧ : ١۔١٤ )۔

پاک نوشتوں میں سے اپنے سفر کے اختتام کے قریب ہم دیکھیں گے کہ یہ واقعات کس طرح آخری زمانے کے لۓ خدا کے پروگرام میں بالکل ٹھیک بیٹھتے ہیں۔ اور ہم اُن پیش گوئیوں  پر بھی نظر ڈالیں گے جن میں مشرقِ وسطی' اور ساری دنیا کو برکات دینے کے وعدے موجود ہیں۔

” مَیں تمہارے حق میں اپنے خیالات کو جانتا ہوں خداوند فرماتا ہے یعنی سلامتی کے خیالات بُرائ کے نہیں تاکہ مَیں تم کو نیک انجام کی اُمید بخشوں “ (یرمیاہ ٢٩ : ١١)۔

ایک شخص کے بارے میں پیش گوئیاں

پرانے عہدنامے میں شروع سے آخر تک ایک مسایاح (مسیح موعود) یعنی چھڑانے والے، نجات دینے والے کے بارے میں بہت سی پیش گوئیاں موجود ہیں، جس کو دنیا میں بھیجنے کا وعدہ خدا نے کیا۔ بحیرہ مردار کے طومار تصدیق کرتے ہیں کہ یہ نوشتے مسیح موعود کی پیدائش سے سینکڑوں سال پہلے لکھے گۓ تھے۔ ہم نمونے کے طور پر اُن میں سے چند پیش گوئیاں پیش کرتے ہیں۔

  •   ابرہام کے ساتھ وعدہ ( ١٩٠٠  ق م)۔ وہ مسایاح یعنی مسیحِ موعود ابرہام اور اضحاق کے نسب سے دنیا میں آۓ گا (پیدائش ١٢ : ٢، ٣ ؛ ٢٢ : ١ ۔١٨ __ تکمیل متی باب ١ )۔
  •   یسعیاہ کی پیش گوئ (٧٠٠ ق م)۔ وہ کنواری سے پیدا ہو گا۔ اُس کا کوئ دنیاوی باپ نہیں (یسعیاہ ٧: ١٤ ؛ ٩ : ٦، تکمیل لوقا ١ : ٢٦ ۔ ٢٨ ؛ متی ١ : ١٨ ۔ ٢٥ )۔
  • میکاہ کی پیش گوئ (٧٠٠ ق م)۔ وہ بیت لحم میں پیدا ہو گا (میکاہ ٥ : ٢ ، تکمیل لوقا ٢ : ١ ۔٢٠ ؛ متی ٢ : ١ ۔ ١٢ )۔
  • ہوسیع کی پیش گوئ (٧٠٠  ق م)۔ اُسے مصر سے بلایا جاۓ گا (ہوسیع ١١ : ١ ، تکمیل متی ٢: ١٣ ۔ ١٥ )۔
  • ملاکی کی پیش گوئ (٤٠٠ ق م)۔ مسایاح سے پہلے اُس کا پیش رَو آۓ گا (ملاکی ٣ :١ ؛ یسعیاہ ٤٠ : ٣۔ ١١ ، تکمیل لوقا ١: ١١ ۔ ١٧ ؛ متی ٣ : ١ ۔ ١٢ )۔
  • یسعیاہ کی پیش گوئ (٧٠٠ ق م)۔ وہ اندھوں کو بینائ، بہروں کو سننے کی طاقت، لنگڑوں کو چلنے کی طاقت دے گا اور غریبوں کو خوش خبری سناۓ گا (یسعیاہ ٣٥ :٥، ٦ ، تکمیل لوقا ٧ : ٢٢ ؛ متی باب ٩ وغیرہ)۔
  • یسعیاہ کی پیش گوئ (٧٠٠ ق م)۔ اُس کے اپنے لوگ اُسے رد کریں گے (یسعیاہ ٥٣ : ٢، ٣؛ ٤٩ : ٥ ۔٧ اور زبور ١١٨ : ٢١ ، ٢٢، تکمیل یوحنا ١ : ١١ ، مرقس ٦ :٣ ؛ متی ٢١ : ٤٢ ۔ ٤٦ وغیرہ)۔
  • زکریاہ کی پیش گوئ (٥٠٠ ق م)۔ وہ  چاندی کے ٣٠سکوں کے عوض دھوکے سے پکڑوایا جاۓ گا۔ پھر اُس رقم سے ایک کھیت خریدا جاۓ گا (زکریاہ ١١ : ١٢، ١٣ ، تکمیل متی ٢٦ : ١٤۔ ١٦ ؛ ٢٧ : ٣ ۔ ١٠ )۔
  • یسعیاہ کی پیش گوئ (٧٠٠ ق م)۔ مسیحِ موعود کو رد کیا جاۓ گا، اُس پر جھوٹا الزام لگایا جاۓ گا، اُس پر مقدمہ چلے گا اور یہودی اور غیر یہودی اُسے مار ڈالیں گے (یسعیاہ ٥٠ : ٦ ؛ ٥٣ : ١ ۔ ١٢ اور زبور ٢ : ٢٢ ؛ زکریاہ ١٢ : ١٠ __ تکمیل یوحنا ١ : ١ ۔١١ ؛ ١١ : ٤٥ ۔ ٥٧ ؛ مرقس ١٠ : ٣٢ ۔ ٣٤ ؛ متی ابواب ٢٦  اور ٢٧ )۔
  • داؤد کی پیش گوئ (١٠٠٠ ق م)۔ اُس کے ہاتھ اور پاؤں چھیدے جائیں گے، تماشائ اُسے ٹھٹھوں میں اُڑائیں گے، اُس کی پوشاک پر قرعہ ڈالا جاۓ گا وغیرہ (زبور  ٢٢ : ١٦، ٨ ، ١٨ __ تکمیل لوقا ٢٣ : ٣٣ ؛ ٢٤ : ٣٩ __ یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ پیش گوئیاں اُس زمانے سے مدتوں پہلے کی گئ تھیں جب سزائے موت دینے کے لۓ صلیب ایجاد ہوئ۔
  • یسعیاہ کی پیش گوئ (٧٠٠ ق م)۔ وہ بدترین مجرم کی طرح مارا جاۓ گا، لیکن ایک دولت مند آدمی کی قبر میں دفن کیا جاۓ گا (یسعیاہ ٥٣ : ٨ __ تکمیل متی ٢٧ : ٥٧ ۔ ٦٠ )۔
  • داؤد کی پیش گوئ (١٠٠٠ ق م)۔ مسایاح کا بدن قبر میں گلنے سڑنے نہیں پاۓ گا۔ وہ موت پر فتح مند ہو گا (زبور  ١٦ : ٩ ۔ ١١ __ مزید دیکھۓ متی ١٦ : ٢١ ۔ ٢٣ ؛ ١٧ : ٢٢، ٢٣ ؛ ٢٠ : ١٧ ۔ ١٩ وغیرہ __ تکمیل لوقا باب ٢٤ ، اعمال ابواب ١ اور ٢ )۔

قانونِ امکانات ثابت کرتا ہے کہ ” ناممکن “ ہے کہ کوئ شخص اِن واضح، صریح اور قابلِ تصدیق پیش گوئیوں کو پورا کرے۔

لیکن ہوا بالکل یہی۔

ہو سکتا ہے کہ آپ بعد میں پھر اِس فہرست کی طرف رجوع کرنا چاہیں، بائبل مقدس پکڑیں اور پرانے عہدنامے کی ایک ایک پیش گوئ اور نۓ عہدنامے میں مرقوم تکمیل پڑھیں۔

نبوتی علامات اور نشان

پرانے عہدنامے کے صحیفوں میں بکھری ہوئ سینکڑوں پیش گوئیوں کے علاوہ سینکڑوں علامات اور نشان بھی موجود ہیں (اِن کو مثیل، عکس، تصویر، پیش بینی، خاکہ یا توضیح بھی کہتے ہیں)۔ خدا نے یہ بصری امداد اِس لۓ وضع کی کہ دنیا کو اپنے بارے میں اور بنی نوع انسان کے لۓ اپنے منصوبے کے بارے میں بتاۓ اور سکھاۓ۔

پاک صحائف میں سے ہمارے سفر کے دوران بہت سی علامات اور تصویریں ہمارے سامنے آئیں گی۔ مثال کے طور پر سب سے نمایاں علامت ” ذبح کیا ہوا برہ “ ہے۔ اِس کی مفصل تشریح زیرِ نظر کتاب کے ابواب ١٩ تا ٢٦ میں کی گئ ہے۔

باب ٢١ میں ہم ایک خاص خیمے کے بارے میں سیکھیں گے جسے خیمہ اجتماع کا نام دیا گیا تھا۔ خدا نے حکم دیا تھا کہ یہ خیمہ اُس نمونے کے مطابق بنایا جاۓ جو اُس نے موسی' کو دکھایا تھا۔ خیمہ اجتماع اور اُس کا سارا ساز و سامان زبردست بصری معاونت ہے جس سے لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ خدا کیسا ہے اور گنہگاروں کو کیسے معافی ملتی ہے تاکہ وہ ابد تک خدا کے ساتھ رہنے کے لائق ہو جائیں۔

یعقوب کے بیٹے یوسف اور یسوع ناصری کی زندگیوں کا تقابلی مطالعہ پاک کلام میں پائ جانے والی علامتوں اور عکسوں کی بہت عمدہ مثال پیش کرتا ہے۔ یوسف کی زندگی اور یسوع کی زندگی میں سو سے زیادہ مشابہات پائ جاتی ہیں۔ خدا نے یوسف کی زندگی سے یسوع کی زندگی کی تصویر کھینچ دی جسے ١٧٠٠  سال بعد دنیا میں آنا تھا۔

پیدائش ابواب ٣٧ ۔ ٥٠ کا موازنہ اناجیل سے کریں۔

اِن عکسوں اور مثالوں کی صرف ایک ہی معقول تشریح اور توجیہ ہے اور وہ ہے __ خدا۔

پیش گوئ کا مقصد

اپنی زمینی زندگی کے دوران مسیحِ موعود (مسایاح) نے کہا:

” مَیں اُس کے ہونے سے پہلے تم کو جتاۓ دیتا ہوں تاکہ جب ہو جاۓ تو تم ایمان لاؤ کہ مَیں وہی ہوں “ (یوحنا ١٣ : ١٩ )۔

 مستقبل کے واقعات کی پیش گوئ اور بعد میں اُن کا وقوع پذیر ہونا یا عمل میں آنا، یہ ایک طریقہ ہے جس سے خدا نے اپنے پیغمبروں اور اُن کے پیغام کو سچا اور  معتبر ثابت کیا ہے۔ اپنے کلام پر ہمارے ایمان کو مضبوط کرنے کی خاطر حقیقی اور زندہ خدا ” ابتدا ہی سے انجام کی خبر دیتا (ہے) ہوں اور ایامِ قدیم سے وہ باتیں جو اَب تک وقوع میں نہیں آئیں بتاتا (ہے) ہوں اور کہتا (ہے) ہوں کہ میری مصلحت قائم رہے گی ۔۔۔ “ (یسعیاہ ٤٦ : ١٠ )۔

پاک صحائف میں سے ہمارا مجوزہ سفر بائبل مقدس کی پہلی کتاب ” پیدائش “ سے شروع ہو گا جس میں بیان ہوا ہے کہ یہ دنیا کیسے شروع ہوئ۔ اور ہمارا سفر بائبل مقدس کی آخری کتاب ” مکاشفہ “ پر ختم ہو گا جو پیشگی بتاتی ہے کہ دنیا کی تاریخ کے اختتامی واقعات کیا ہوں گے۔

ماضی ناقابلِ توثیق ہے اور  مستقبل کو دیکھنا ممکن نہیں۔ اِس لۓ ہم کیسے یقین کر سکتے ہیں کہ اِن کے بارے میں بائبل مقدس کے بیانات درست اور سچے ہیں؟ ہم یقین کرنے کے لۓ وہی منطق استعمال کر سکتے ہیں جس سے ہمیں یقین ہے کہ کل سورج طلوع ہو گا۔ ہمارے نظامِ شمسی کا ہزاروں سالوں کا ریکارڈ بالکل درست اور کامل ہے۔ زمین نے گردش کرنے میں کبھی ناغہ نہیں کیا۔ سورج باقاعدگی سے طلوع اور غروب ہوتا ہے۔ یہی حال بائبل مقدس کی نبوت یا پیش گوئ کا ہے۔ جن باتوں کی تصدیق ہو سکتی ہے اُن میں خدا کی کتاب کا ریکارڈ بالکل درست ، معتبر اور کامل ہے۔

خدا کا چیلنج

بعض مذاہب کے لوگ دعوے کرتے ہیں کہ ہماری مقدس کتاب میں بھی پیش گوئیاں موجود ہیں جو پوری ہو چکی ہیں۔ اگر کوئ شخص آپ کے سامنے یہ دعوی' کرے تو بڑے تحمل اور تمیز سے اُس سے کہیں کہ اپنی مقدس کتاب سے تین یا چار نہایت قائل کرنے والی ایسی پیش گوئیاں پیش کرے۔ اوّل تو وہ شخص ایسا کرنے پر آمادہ نہیں ہو گا۔ اگر وہ کچھ بتاۓ تو پہلے آپ تصدیق کریں کہ وہ اُن واقعات سے پہلے لکھی گئ تھیں جن کی پیش گوئ کرتی ہیں۔ دوسرے، عالمی تاریخ سے موازنہ کر کے اُن کے پورا ہونے کی تصدیق کریں۔ میرے تجربے کے مطابق ایسی دو چار پیش گوئیاں اگر ہیں تو مبہم اور غیر واضح ہیں۔

خاص اور اچھی وجہ سے سچا اور زندہ خدا سارے مذاہب اور فرضی خداؤں کو یہ چیلنج کرتا ہے:

” خداوند فرماتا ہے اپںا دعوی' پیش کرو ۔۔۔ اپنی مضبوط دلیلیں لاؤ۔ وہ اُن (اپنے بتوں) کو حاضر کریں تاکہ وہ ہم کو ہونے والی چیزوں (واقعات) کی خبر دیں۔ ہم سے اگلی (گزری ہوئ) باتیں بیان کرو کہ کیا تھیں تاکہ ہم اُن پر سوچیں اور اُن کے انجام کو سمجھیں یا آئندہ کو ہونے والی باتوں سے ہم کو آگاہ کرو۔ بتاؤ آگے کو کیا ہو گا تاکہ ہم جانیں کہ تم اِلہ ہو۔ ہاں بھلایا بُرا کچھ تو کرو تاکہ ہم متعجب ہوں اور باہم اُسے دیکھیں۔ دیکھو تم ہیچ اور بیکار ہو۔ تم کو پسند کرنے والا مکروہ ہے “ (یسعیاہ ٤١ : ٢١ ۔ ٢٤ )۔

جب کثیر العناصر اور تفصیلی پیش گوئیوں کی بات ہو جو ٹھیک ٹھیک پوری ہو چکی ہیں تو بائبل مقدس بے مثل کتا ب ہے۔

حقیقی اور زندہ خدا نے تاریخ کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے اِسے لکھ کر اپنے پیغام کی سچائ کی تصدیق کر دی ہے۔

پوری ہو چکی پیش گوئ اُس کے دستخط ہیں۔