عیسی

Jesus

دعوٰی پیشین گوئی

Claims of Prophecy

Published in Nur-i-Afshan August 5, 1876
By Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

Isaiah 53:6-12

محمدی بخوبی جانتے ہیں کہ رسول کی رسالت پیشین گوئی سے بھی ثابت ہوتی ہے اور یہہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ محمد صاحب کے حقمیں بہت سی پیشین گوئیاں قدیم کتابوں یعنی توریت اور انجیل میں مندرج ہیں۔ اگر اُنکا یہہ دعویٰ سچ ہے تو ہمکو چاہیئے کہ ہم سب کے سب محمدی ہو جاویں۔ مگر پہلے دریافت کرنا چایئے کہ یہہ اُنکا دعویٰ اُن کتابوں میں لکھا  ہے یا نہیں کیونکہ بغیر دریافت کرنے کے سچ یا جھوٹ معلوم نہیں ہو سکتا ۔ سورۃ الصف کی چھٹویں آیت میں ضرور لکھا  ہے۔وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ  فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ۔ اورجب عیسیٰ بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل بے شک میں الله کا تمہاری طرف سے رسول ہوں تورات جو مجھ سے پہلے ہے اس کی تصدیق کرنے والا ہوں اور ایک رسول کی خوشخبری دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا اس کا نام احمد ہو گا پس جب وہ واضح دلیلیں لے کر ان کے پاس آ گیا تو کہنے لگے یہ تو صریح جادو ہے فقط۔ جب ہم محمدیوں کو کہتے ہیں کہ یہہ بات انجیل میں نہیں ہے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ اس آیت کو تمنے انجیل سے نکال ڈالا ہے۔ اُن کو چائیےکہ جب تک اِس بات کو ثابت نہ کریں ہم پر کوئی عیب نہ لگاویں ۔پوشیدہ نر ہے کہ اگر چہ یہودی مسیح کو جیسا ماننا چاہیے نہیں مانتے تو بھی اُنہوں نے اُن پیشین گوئیونکو جو مسیح کے حقمیں اُنکی کتابونمیں مندرج ہیں نہیں نکالا۔ اگر وہ اُن پیشین گوئیوں کو نکالنا چاہیں تو عیسائی اُنکو کبھی نکالنے نہ دینگے اور اِس حرکت سے اُنہیں  باز رکھینگے کیونکہ یہہ پیشین گوئیاں اُنکے واسطے نہایت مفید اور اُنکے نزدیک اپنے دین کے سچاّ ہونے کی کامل دلیلیں ہیں۔ اِسیطرح اگر ایسی پیشین گوئی محمد صاحب کے حقمیں توریت یا اِنجیل میں مندرج تھی تو محمد یوں نے اُسکی حفاظت کیوں نہ کی۔ بعضے یہہ بھی کہتے ہیں یہہ آیت برنابؔاس کی انجیل میں موجود ہے اور یہہ ثابت نہیں ہوتا کہ محمد صاحب کیوقت یہہ انجیل عیسایونکے پاس موجود تھی اگر محمد صاحب کیوقت کی کتابوں میں یا اُ س سے پرُانی کتابوں میں ایسی کتاب کا زکر جسمیں یہہ پیشین گوئی سے کسی نے بھی برناباس کی انجیل کا زکر نہیں کیا اور گو ایسی کوئی انجیل اُس وقت موجود نہیں تھی۔

محمدی یہہ بھی کہتے ہیں کہ بیبل میں اور کئی ایک آئیتیں ہیں جو محمد صاحب کی رسالت پر دلالت کرتی ہیں۔ اُن آیتوں میں سے ایک یہہ ہے جو موسیٰ نے کہا کہ میرے میرے پیچھے ایک نبی آویگا ہم اِس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ بیشک موسیٰ نے کہا ۔ لیکن موسیٰ کے بعد بہت سے بنی آئے پھر کس طرح سے معلوم ہوکہ وہ اُنمیں سے کس کا زکر  کرتا تھا ۔ مگر اُن علامتوں سے جنکو موسیٰ نے ظاہر کیا  یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ محمد صاحب کا کا ذکر ہرگز نہیں کرتا تھا کیونکہ اُسنے کہا  کہ خداوند تعالیٰ تیرے لیے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی قایم کریگا ۔ اگر دریافت کرنا ہو تو اِستثناکے اٹھارھویں باب کی پندرھویں آیت پر ملاحظہ  فرماویں۔ اِس آیت سے معلوم ہوتا  ہے کہ وہ نبی جسکا زکر موسیٰ نے کیا اسرائیلیوں میں سے تھا کیونکہ حضرت موسیٰ بنی  اسرائیل سے خطاب کرتا تھا نہ اہل عرب سے۔ پھر کس طرح خیال کیا جائے کہ محمد صاحب  کی طرف اِشارہ ہے۔ واضح ہو کہ یہہ دونوں باتیں تیرےدرمیان   سےتیرے بھائیوں میں سے ایک ہی معنی رکھتی ہیں کچھ فرق نہیں ۔ اگر کوئی کہے کہ یہہ دونوں باتیں یعنے تیرے درمیان  سے تیرے بھائیوں میں سے ایک ہی معنی رکھتی ہیں کچھ فرق نہیں۔ اگر کوئی کہے یہہ دونوں باتیں یعنے تیرے درمیانسے اور تیرے بھائیوں میں سے اِسرائیل کیطرف خطاب نہیں جواب دیتے ہیں کہ توریت میں بہت سی جگہ ایسے الفاظ استعمال کئے گے ہیں۔ اگر استثنا ء کے پندرھویں باب کی سوتویں آیت ملاحضہ فرماویں تو بخوبی معلوم کیونکہ اسمیں لکھا ہے کہ اگر تمھارے بیچ تمھارے بھائیوں میں سے تمھاری سرحد میں کوئی مفلس ہو  تو  اُسکے ساتھ  مہربانی سے سلوک کرو اور اپنے آپ  حتی  المقدر مدد دو۔ پھر اِستثناء کے سترھویں باب کی پندرھویں آیت میں لکھا ہے کہ تو اپنے بھائیوں میں سے ایک کو اپنا بادشاہ کر۔ پھر استثناء کے چوبسیویں باب کی چودھویں آیت  میں لکھا  ہے کہ تو اپنے نوکر پر ظلم نہ کر خواہ وہ تیرے بھائیوں میں سے ہے خواہ کوئی اجنبی۔ اِن آیتوں  سے ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے کہ تیرا بھائی  بنی اسرائیل سے مراد ہے ۔

یہہ بھی واضح ہو کہ خدا تعالیٰ نے ابراہیم سے وعدہ کیا کہ تجھ سے ساری دنیا برکت پاویگی۔ پھر اصحاق اور یعقوب سے بی یہی وعدہ  کیا گیا اگر دریافت کرنا منظور ہو تو پیدایش کت اٹھارھویں باب کی اٹھارھویں آیت چھبیسویں باب کی  چودھویں آیت اٹھائیسویں باب کی چودھویں آیت پر ملاظہ فرماویں ۔ سب بنی اصحاق  سے لیکر آج  تک جو دنیا میں آئے ۔ سب کے سب اِسی فرقے اور اِسی خاندان میں سے تھے ۔ کوئی  نبی۔ہؔندؤ۔ چیؔنی ۔ انگؔریز۔  عرؔبی وغیرہ فرقوں میں سے نہ تھا۔ انجیل سے  صاف صاف  پایا جاتا ہے  کہ وہ پیشین گوئی جو موسیٰ نے کی تھی سب عیسٰی میں پوری ہوئی ۔ اعمال کے تیسرے باب کی بوئیسویں آیت اور ساتویں باب کی سینتیویں  آیت پر ملاحظہ فرماویں اگر کوئی کہے کہ موسیٰ کی مانند عیسیٰ کس طرح ہو سکتا ہے  تو اُسکا جواب یہہ ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام سے عیسیٰ  علیہ السلام بہت سی باتوں میں ملتا ہے خاص کر کے درمیانی ہونے میں یعنے جیسا حضرت موسیٰ بنی اِسرائیل سے  اور خدا کے درمیان تھا۔ ویسا  ہی عیسیٰ ہمارے اور خدا کے درمیان ہے۔ اور موسیٰ نے جو بنی اسرائیل سے کہا  کہ خدا ایک ایسا نبی تم میں سے قایم  کر یگا جیسا تم نے چاہا اِس سے مراد یہہ ہے کہ وہ نبی درمیانی ہوگا ۔ کیونکہ بنی اسرائیل جب کوہ سینا کی خوفناک  آوازوں سے خوف میں تھے تو اُنہوں نے کہا کہ ہم خداوند اپنے خدا کی آواز سُن نہیں سکتے یعنے کہ اُنہوں کوئی درمیانی چاہا جو خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق   ہر ایک بات سے اُنکو آگاہ کرے۔  بیشک مسیح سچّا اور زندہ درمیانی ہے ۔ علاوہ اِسکے انجیل میں بھی لکھا ہے کہ ایک ہی خدا ہے اور ایک ہی خدا بیچ درمیانی  یعنے مسیح ۔ اکثر محمدی کہتے ہیں کہ یو حناکی انجیل کے پہلے باب ۱۹ ۔ آیت سے لیکر۲۹ محمد صاحب کا زکر ہے ۔ لیکن اُس جگہ یہہ لکھا ہے کہ جب یہودیوں کے کاہنوں اور لاویوں نے یوحّنا  بپتمسا دینے والے سے پوچھا کہ تو کون ہے اُس نے کہا اور اقرار کیا کہ میں مسیح نہیں ہوں۔ تب انہوں نے پوچھاکہ تو الیاس ہے اُس نے کہا میں نہیں ہوں۔ پس آیا وہ نبی ہے ۔ اُس نے جواب دیا نہیں۔ تب انہوں نے اُسے سے کہا  کہ تو اور کون ہے اور اپنے  حق میں کیا کہتا ہے ۔ اُسنے کہا کہ میں جیسا یسعیاہ نبی نے کہا بیابان میں ایک پُکارنے والے کی آواز ہوں کہ تم خدا کی راہ درست  کرو۔ انہوں نے اُس  سے سوال کیا اور کہا اگر تو نہ مسیح ہے اور نہ الیاس اور نہ وہ نبی پس کیوں بپتمسا دیتا ہے ۔ یوحنّا نے جواب میں  اُسے کہا  کہ میں پانی سے بپتمسا دیتا ہوں پر درمیان تمہارے ایک کھڑا ہے جسے تم نہیں جانتے یہہ وہی ہے جو میرے پیچھے آنے والا تھا اور مجھ سے مقدّم تھا جس کی جوتی کا  تسمہ میں کھولنے کے لایق نہیں ہوں ۔ چاہے کہ وہ لوگ اِسی انجیل کے چھبیسویں باب کی چودھویں آیت کو دیکھیں۔ اُس میں لکھا ہے لوگوں نے یہہ معجزہ جو یسوع نے  دکھلایا تھا دیکھ کر کہا کہ فی الحقیقت دہ نبی جہان میں آنے والا تھا یہی ہے اِن آیتوں سے صرف یہہ ثابت ہوتا ہے کہ یہودی لوگ اپنے نبیوں کی پیشین گوئیوں کو اچھی طرح نہیں سمجھتے تھے اور ہر ایک مضمون پر اتفاق نہ کرتے تھے ۔ ایک اور دلیل جس سے رسول کی رسالت ثابت ہوتی ہے اچھی تعلیم ہے۔ محمدی اقرار کرتے ہیں کہ جس طرح انجیل توریت کے قائم مقایم ہے ۔ اُسیطرح  قرآن انجیل کا قایم مقام ہے۔ مگر واضح ہو کہ ہر ایک بادشاہ جو دانا اور دور اندیش ہے وہ  پرُانے قانون کو منسوخ اور نئے قانون کو جب جاری کرتا ہے کہ پُرانے کی نسبت نیا اُسکو اچھا معلوم دیتا ہے ۔ پس اگر قرآن حقیقتاً انجیل کے قایم مقام ہے۔ رو بیشک اُسکی تعلیم  انجیل کی تعلیم افضل ہو گی ۔ مقابلہ سے معلوم ہوگا اور اہل اسلام یہہ سے بھی دعویٰ کرتے ہیں  کہ اصلی انجیل کو عیسائیوں نے بگاڑ دیا ہے۔  جب انجیل کی یہہ حالت ہے بیشک انجیل اور قرآن میں زمین و آسمان کا فرق ہوگا ۔ جب کبھی عیسائی انجیل اور قرآن کے حکموں کا مقابلہ کرتے ہیں تو محمدی انجیل کو چھوڑ کر توریت کی طرف متوجہ  ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ توریت میں دیکھو کیا لکھا ہے ۔ بھلا یہہ بھی کو ئی بات ہے کہ قرآن کو انجیل کے قایم مقام ٹھرانا اور  توریت سے مقابلہ کرنا ۔ چاہئے کہ قرآن ا ور انجیل کا  آپس میں مقابلہ کریں ور سب کو معلوم ہے کہ توریت عیسائیوں کی خاص کتاب نہیں ہے مگر انجیل۔ پس اُس کتاب کا قرآن سے مقابلہ کرنا چاہیے جو خاص عیسائیوں کی ہے۔ یہہ بھی ظاہر ہو کہ شروع  موسوی سے کامل شائیستگی کل واقفیت اور پوری دانائی حاصل نہیں کر سکتے مگر انجیل سے۔ ور بیشک وہ تمام اور کتابوں پر نہایت فوقیت اور ترجیح رکھتی ہے ۔ پولوس رسول فرماتا ہے جب میں لڑکا تھا تب لڑکے کی مانند بولتا تھا اور لڑکے کی مانند خیال کرتا تھا اور لڑکی مانند حجّت کرتا تھا پر جب  جوان ہوا تب میں لڑائی سے ہاتھ اُٹھایا ۔ ایسی ہی توریت کی حالت ہے یعنی وہ ہمکو ایسا شایستہ اور دانا نہیں بنا سکتی جیسا انجیل ۔ پس اگر وہ قرآن کی تعلیموں کو  انجیل  کی تعلیموں سے مقابلہ کر سکتے ہیں ۔ تو کیوں توریت کی طرف پھرتے  اور قرآن کی تعلیم نہ صرف توریت کی نسبت  بلکہ انجیل کی نسبت زیادہ تر اچھی ہونی چاہئے کیونکہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انجیل کے قایم  مقام ہے۔      

PDF File: 

مسیح ابن ﷲ۔خدا۔کفارہ۔ خاتم النبین ہیں

JESUS, THE SON OF GOD

God, Atonement and Last Prophet

Published in Nur-i-Afshan July 1873
By Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

یہ چاروں! تین عیسائیوں کے عقیدہ کی ایک جزو ہیں۔ اور بڑی مشکل ہیں۔ اور  إس لیے ہندو مسلمان وغیرہ اسیں لغزیش کھاتے ہیں او ر  إس پر معترض ہوتے ہیں چند روز ہوئے کہ اخبار منشور  محمدؑی میں بھی ایک مضمون اسی بنا پر ایک شخض مسمٰٖی فک شاہ نے تحریر فرمایا ہے جو کہ محض اُن کی ناواقفی اُور نافہمی کا نتیجہ ہے۔إس واسطے میں إن امور پر اپنی عقل خداوند  کے موافق تحریر کرتا ہوں تاکہ معترض اور نیز متلاشیان دین عیسوی کو إسکے سمجھنے میں مدد ملے۔

ملک شاہ نے اپنے مضمون کا آغاز یوں کیا ہے کہ انجیل کا حال نئی تواریخ کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہےکہ یہ مروج اہل کتاب بالکل فاسد اور نکمی ہیں چنانچہ سٹنر کار لائیل کہتے ہیں کہ ترجمہ انگریزی میں  مطلب بالکل فاسد اور  بازار  راستی کا کاسد ہے اور نور کو ظلمت میں اور  سچ کو دروغ پر فوقیت بخشتے ہیں اور علمائے لنکن نے بدرخواست خودگزارش بادشاہ کو کیا تھا کہ ترجمہ انگریزی جیبل کا بہت خراب ہے کہ بعض جگہ بڑھایا گیا اور بعض جگہ گھٹایا گیا اور   بعض جگہ بدلا گیا اور مسٹر براتن نے درخواست کی تھی کہ ترجمہ انگریزی جیبل کا موجودہ انگلستان غلطیوں سے پُرُ ہے اور مسٹر ہرجن نے کہا تھا کہ میں کمی و بیشی اور  افضائے مطلب اور تبدیل رعا کی کیونکر سند دوں غرضکہ انجیل کے رو سے عیسٰی کو خدا کا بیٹا کہنا اور الوہیت اُسکی ثبوت کرتی اور تمام دنیا کے پیغمبر  مبو ث کہنا باطل و عاطل ہے بلکہ اُس میں بھی پایہ ثبوت کو نہیں پہچنتا ۔ عیسیٰ نے تمثیلاٖ کہا ہوگا کہ ایسا عزیز و برگزیدہ درگا کبریا ہوں جیسا کہ بیٹا باپ کو محبوب اور اُس کی تابع کو مرغوب ہوتا ہے۔ ملک شاہ صاحب معلوم نہیں کہ   آپ نے کونسی  تواریخ سے ثابت کیا ہے کہ انجیل فاسد اور نکمی ہے اُسکا حوالہ تو دیجی۔ یہ ثبوت اور حوالے جو  آپ نے دیے ہیں بالکل فاسد اور نکمے ہیں۔ اسے جامع علم معقول بہتر  ہوتا اگر آپ آغاز مباحثہ سے پہلے اور  شروع اعتراض سے پیشتر  علم منطق اور مناظرہ کا مطالعہ کر لیتے تاکہ آپکو  اعتراض کے کرنے اور ثبوت دینے اور دلیل کے پیش کرنے کا ڈہنگ یاد ہوجاتا اور  اس قسم کی فاش غلطی میں گرفتار نہ ہوتے  چھوڑا کہیں تھا اور جا پڑا کہیں۔ آپ کا دعوٰی ہے کہ انجیل فاسد اور  نکمی ہے اور دلیل اُس کی آپ یہ ہی دیتے ہیں کہ مسٹر  کارنائیل یا کسی اور کے کہنے سے یہ ثابت ہے کہ اُسکا ترجمہ انگریزی بہت خراب ہے۔

واہ صاحب واہ آپ ہی إنصاف فرما دیں کہ یہ دلیل اسی قسم کی نہیں جیسا کہ ہم کہیں قران بالکل فاسد  اور نکما ہے کیونکہ اُس کا ترجمہ اُردو  بہت خراب ہے۔ آپکو معلوم نہیں کہ عیسائیوں کا اعتقاد اور اُنکے عقیدہ کی بنیاد کچھ ترجمہ انگریزی اور اردو  پر نہیں بلکہ اعلی کتاب پر ہے اور نہ کوئی عیسائی ترجمہ کو الہامی کتاب روح القدس کی لکھائی ہوئی مانتا ہے ہم جو کچھ دعویٰ کرتے ہیں  وہ ا صل کتاب کی نسبت ہے نہ ترجمہ کی نسبت اور ترجمہ کی خرابی کچھ اصل کتاب پر نقص نہیں ڈالتی۔ ترجمہ غلط ہے تو غلط سے اُسکی پابندی اور شہادت وہیں تک ہے جہاں تک اصل کے مطابق ہے جیسا کہ آپکے ہاں ہے اور کرجمہ کچھ نوشتہ آسمانی تصور نہیں کیا جا۔ بھلا صاحب آپ ہی کہیں کہ اگر کوئی شخص قرآن کا ترجمہ غلط کرے تو اُس سے قرآن کے مضامین غلط  ٹھر جائینگےنہیں بلکہ ترجمہ کی صحت اور سقم کے ملاحظہ کے واسطے اصل کتاب کی شہادت لیجا دیگی اور اصل کتاب کو معتبر سمجھا جائیگا۔

اور  ابن ﷲ وغیرہ کا لفظ یسوع کی نسبت ترجمہ میں ہی مستعمل ہوا بلکہ اصل کتاب میں آیا ہے اور ہم اصل انجیل کے رو سے ہی اُسکو  خداُ کا بیٹا کہتے ہیں اور اُسی سے اُس کی الوہیت وغیرہ  ثابت کرتے ہیں۔

  • بیشک محمدؐی یسوع کو ابن ﷲ کہنے سے نفرت کرتے ہیں اس پر اعتراض لاتے ہیں لیکن یہ اُن کی غلطی ہے۔
  • ہم یسوع کو جسمانی طور پر خدا کا بیٹا نہیں کہتے جیسا اُن کا خیال ہے بلکہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خدا جو رو سے اور بیٹے سے اور جو شخص جسمانی طور پر اُسکو  خدا کا بیٹا قرار دیتا ہے وہ گنہگار اور کافر جہنمی ہے۔

اب ٰإنصاف کو مدنظراور تعصب کو دور فرما کر  ملا حظہ فرمادیں تاکہ آپ کوتاہ فہمی سے إس غلطی اور دھوٰکہ میں پھنسے نہ رہیں کہ ابن ﷲ کل بیبل میں چار اشخاص کی نسبت مستعمل ہوا ہے۔

۱۔    فرشتوں کی نسبت دیکھو ایوب کی کتاب پہلاباب ۶ آیت جہاں لکھا ہے ایک دن ایسا ہوا کہ بنی ﷲ آئے کہ خدا حضور حاضر ہوں۔ پھر ۳۸ باب؛ آیت کتاب صدر  جب صبح کے ستارے ملکے گاتے تھے اور سارے بنی  ﷲ خوشی کے مارے للکارتے تھے اور إس لفظ کا استعمال فرشتوں کی نسبت إس  واسطے ہوا  کے وہ آدمزاد کی مانند بہ توسل ماں اور باپ کے پیدا نہیں ہو ئے بلکہ سارے ایک ہی دفعہ خدا کے حکم سے مبعوث ہوئے۔

۲۔    آدم  کی نسبت دیکھو لوقا کی انجیل تیسرا باب ۳۸ آیت جس میں آدم کو خدا کا بیٹا کہا گیا ہےاور اُس کا سبب بھی یہی ہے کہ وہ بغیر ما ں اور باپ کے صرف خدا قادر مطلق کے حکم سے پیدا ہوا۔

۳۔خدا پرست لوگوں کی نسبت بھی یہ لفظ بیبل میں آیا ہے جیسے اسرائیل اور  افرایم بلکہ اُنکو  پلوٹھے بیٹے کہا گیا ہے۔ دیکھو یرمیاہ نبی ۳۱ باب ۹ آیت اور مسیح پر ایمان لانے والوں کے لیےیہ لفظ مستمعل ہوا ہے ۔ دیکھو انجیل یوحناّ پہلا ۱۲ آیت لیکن جنھوں نے مسیح کو قبول کیا اُس نے اُنھیں اقتدار بخشا کہ خدا کے فرزند ہوں لینے اُنہیں جو اُسکے نام پر ایمان لاتے ہیں پھر  یوحناّ کا پہلا خط تیسرا باب پہلی آیت  دیکھو کیسی محبت باپ نے ہمسے کی کہ ہم خدا کے فرزند کہلائے ۔ اور رومیوں کا خط ۸ باب ۱۴ آیت جتنے خدا کی روح کی ہدایت پر چلتے وہ بھی خدا کے فرزند ہیں۔

إن آیتوں سےصاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے بندوں کو  بیبل میں فرزند کہا گیا ہے إسکا کا سبب یہ ہی ہے۔ ۱۔ کہ اُنھوں نے خدا کی پاک روح کی تاثیر  سے نیا جنم حاصل کیا ہے ۔۲۔ کہ خداوند یسوع مسیح پر ایمان لانے سے خدا کے خاندان میں شامل ہوئے جیسا لکھا  ہےنہ لہو سے اور نہ جسم کی خواہش سےنہ مرد  کی خواہش سے مگر خدا سے پیدا ہوئے ہیں اُور فرزندوں کی سی طبیعت اور حق حاصل کیا۔

۴۔ خداوند یسوع مسیح کی نسبت ابن ﷲ کا لفظ بائبل میں آیا ہے دیکھو لوقا کی انجیل پہلا باب    ۳۵ آیت وہ پاک لڑکا خدا کا بیٹا کہلائیگا اور مرقس کی انجیل پہلا باب پہلی آیت خدا کے بیٹے یسوع مسیح کی انجیل کا شروع ۔یوحنا کی انجیل پہلا باب ۳۴ آیت سو میں نے دیکھا اور گواہی دی یہ ہی خدا کا بیٹا ہےیوحنا کا انجیل ۶ باب ۱۹ آیت ہم تہ ایمان لائے اور جان گئےکہ تو زنداہ خدا کا بیٹا ہےاور إسی طرع کم سے کم ۴۵دفعہ لفظ ابن ﷲ  کا بیبل میں مسیح کی نسبت آیا ہےلیکن ہم إس پر اکتفا کرتے ہیں۔ 

اب یہ سوال ہے خداوند یسوع مسیح کو ابن ﷲ کیوں کہا گیا ہے سو إسکا جواب ہم انجیل سے ہی تحریر کرتے ہیں۔

واضح ہو کہ انجیل مقدس میں یسوع مسیح کو ابن ﷲ کہنے کے دو سبب بیان ہوئے ہیں۔ ۱۔ لوقا کی انجیل پہلاباب ۳۵ آیت فرشتہ نے جواب میں اُسے لینے مریم کو کہا کہ روح قدس تجھ پر اُترے گی اور خدائے تعالٰی کی قدرت کا سایۂ  تجھ پر ہوگا إس سبب سے وہ پاک لڑکا خدا کا بیٹا کہلائیگا۔

اِس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہےکہ ہمارا خداوند یسوع مسیح ابنِ آدم ابنِ مریم خدا کا بیٹا کہلایا اِس واسطے کہ اُسکی پیدایش روح قدس سے اور خدا کی قدرت کے سایہ سے بغیر باپ کے ہوئی۔

۱۔ یعنی وہ خدا کی خاص قدرت سے پیدا ہوا اِسواسطے خدا کا بیٹا کہلایا۔

۲۔    دوسری وجہ یسوع مسیح کو  ابن ﷲ کہنے کی یوحنا کی انجیل میں مندرج ہے دیکھو پہلا باب ۱۴ آیت اور  کلام مجسم ہوا اور وہ فضل اور راستی سے بھرپورہو کے ہمارے درمیان اور ہم نے اُس کا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال اِس آیت کا بیان یوں ہے کہ کلمتہ ﷲ جو  ابتدا میں تھا اور خدا کے ساتھ تھا اور خدا تھا۔ یعنی اِبنﷲ جو زات الوہیت کا دوسرا شخص ہے مجسم ہوا یعنی جسم اختیار کر کے یسوع مسیح میں رہا اور اُس کا جلال اُسمیں ایسا ظاہر ہوا جیسے باپ کے اکلوتے کا جلال اِس سبب سے خداوند یسوع مسیح ابن ﷲ کہلایا یعنی ابن ﷲ اِس میں مجسم ہو کے رہا اور  نجات کے کام کو پورا کیااِسواسطے وہ خدا کا بیٹا کہلایا ۔اور یہی خاص سبب ہے کہ جسواسطے خداوند یسوع مسیح خدا کا اِکلوتا بیٹا کہلایا کیونکہ ابنیت اوروں کی مانند نہیں تھی۔ اور نہ فرشتے اورنہ آدم اور نہ خدا کے بندے اِس سبب سے خدا کے بیٹے کہلائے۔یہ خاص سبب ابنیت کا صرف خداوند یسوع مسیح میں موجود تھااور وہ ہی اکیلا انسان تھا جسمیں الوہیت مجسم ہوئی یعنی ابن ﷲ جو ابتدامیں تھا خدا کے ساتھ تھا خدا تھا اکیلا اُسمیں رہا۔ اِسواسطے خداوند یسوع مسیح خدا کا اکلوتا بیٹا کہلایا ہے۔

نہ اِس لیے جیسا کہ ملک شاہ صاحب نے یہ کفر  کا کلمہ کہا کہ خدا کی تین جوروں تھی اور مسیح تیسری جورو کا اکلوتا بیٹا تھا۔

یہ ساری باتیں الہامی ہیں تقریر میں نہیں آسکتیں اُسکی سچائی اُن معجزات سے ثابت ہوتی ہےجو کہ اُس سے ظاہر ہوئے اور نیز اُسکا سمجھنا متعلق مسئلہ تثلیث کے ہے انسان کو پوری سمجھ اِسکی جب آسکتی ہے جبکہ بیان تثلیث کو وہ بخوبی سمجھ لیوئے۔

لیکن اِس جگہ اِسکا بیان ،موافق اِنجیل کے ہوا کہ کس واسطے یسوع کو ابن ﷲ کہا گیا ہے تاکہ لوگ اُس بخوبی سمجھ لیویں۔

چوتھی تہمت عیسائیوں پر نہ رکھیں کہ وہ جسمانی طور پر  خدا کا بیٹا ہے۔

مندرجہ بالا میں خداوند یسوع مسیح کے ابن ﷲ ہونیکا زکر تھا اِس میں اُس کی الوہیت کا بیان اور اُسکی دلائیل مندرج ہیں۔ خداوند یسوع مسیح خدا ہے اِس کلام کے سمجھنے کےلیے یاد رکھنا چاہیے کہ خداوند یسوع مسیح ایک شخص تھا جس میں دو زات موجود تھیں ۔۱۔ انسانیت ۲۔الوہیت ۔ وہ پورا انسان تھا عین اُسیطرح جیسے اُور انسان ہیں جسم اور روح سے بنا ہوا۔ اِسواسطے وہ پیدا ہوا ۔ لڑکپن سے پرورش پائی اِنسان کے موافق کھاتا پیتا رہا اور کام کاج کرتا رہا اور  علم میں بھی اُسنے ترقی کی اور آخر مر گیا صرف ایک بات میں دو آوما  انسانوں سے فرق رکھتا تھا کہ وہ بالکل بیگناہ تھا اور بے نقص اور کامل اِنسان تھا اُسمیں الوہیت موجود تھی یہ الوہیت اِنسانیت سے ملکر یکزات اورمتحد نہیں تھی بلکہ علیحدہ حدسی تھی اور مسیح کو نجات کا کام کرنے میں ہمیشہ مدد دیتی رہی یہ الوہیت اُسمیں اِسطرح موجود نہ تھی جیسا اِس ملک کے بیدانتی لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہر  ایک جیو میں خدا کی زات موجود ہے  یا جیسا خدا ہر جا  موجود ہے ہونیکے سبب سب جگہ اور  سب جیو میں ہے مسیح میں الوہیت اِس طور پر تھی کہ اُسکی الوہیت اور اِنسانیت دونو ملکر وہ ایک شخص بنا اور اُسکے کام و کاج میں خیال و گفتگو میں الوہیت کی صفات ظاہر ہوئیں جسکا ثبوت آیندہ دیا جائیگا۔

مسیح خداوند خدا مجسم تھا یعنی خدا انسان کے پیرایہ میں آیا اور اِس لیے اُسکا ایک نام اِنجیل میں عمانوئیل ہے جسکے معنی ہیں خدا ہمارے ساتھ ۔ وہ پرمیشر  کا اُتار تھا۔ یعنی اُس میں پورا منشکا اور  پرمیشر کا اُنس موجود تھا۔

ملک شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ انجیل سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی۔ کہ خدا کی زات اُس میں موجود تھی یہ بات ٖغلط ہےاِسکا ثبوت اِنجیل میں بےشمار ہے کوئی شخص جو انجیل سے واقف ہو اِس بات سے اِنکار نہیں کر سکتا چنانچہ اِس امر کا ثبوت اور دلائل چار حصوں میں بیان کرتا ہوں۔

۱۔    انجیل میں خدا کا لفظ مسیح کی نسبت استعمال آیا ہے دیکھو یوحنا کی انجیل پہلا باب پہلی آیت ابتدا ئےمیں کلام  تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔ رومیوں کا خط ۹ باب ۵ آیت جسم کی نسبت مسیح بھی باپ دادوں سے ہوا جو سب کا خدا ہمیشہ مبارک ہے پہلا تمتاوُس  ۳ باب ۱۶ آیت اور بلاتفاق دینداری کا بھید بڑا ہے یعنی خدا جسم میں ظاہر کیا گیا اور روح سے راست ٹھہرایا  گیا یہ کلام یسوع مسیح کی نسبت ہے۔ تتسدوسرا باب ۱۳ آیت اور بزرگ خدا اور اپنے بچانے والے یسوع مسیح کے ظہور  جلیل کی راہ تکے ۔عبرانیوں کا خط  پہلا باپ ۸ آیت بیٹے کی بابت کہتا ہے کہ اےخدا تیرا تخت ابد تک ہے راست کا عصا تیری بادشاہت کا عصا ہے۔ یوّحنا کا پہلا خط ۵باب ۲۰ آیت ہم اُس میں جوحق ہی رہتے ہیں یعنی یسوع مسیح میں جو اُس کا بیٹا ہے خدائے برحق اور ہمیشہ کی زندگی اور یسعیاہ نبی کی کتاب ۹ باب ۶ آیت کہ مسیح اِس نام سے کہلاتا ہے عجیب مشیر  اور خدائے قادر۔

۲۔     دلیل اُسکی الوہیت کی یہ ہے کہ خدا کی صفات اُس کی نسبت بیان ہوئیں ۔ اول ازلیت یوّحنا کی انجیل ۱  باب ۲ آیت کلام ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا ، ۸ باب ۵۸ آیت یسوع نے لوگوں  کو کہا کہ پیسشتر  اِسکے کہ ابراہم ہو میں ہوں، ۱۸ باب ۵ آیت اور ائےباپ اب تو مجھے اپنے ساتھ اُس جلال سے جو میں تیرے ساتھ دنیا کی پیدائش سے پیشتر رکتھا تھا جلال دے، مکاشفات پہلا باب ۸ آیت، ۱ ۔ ۱۸ آیت خداوند یوں فرماتا ہے کہ میں الفا اور اومیگااول اور  آخر ہوں میں موا تھا اور زندہ  ہوں میں ابد تک زندہ ہوں ۔

۳۔ بے تبدیلی عبرانیوں کا خط پہلا باب ۱۱۔۱۲ آیت وہ نیست ہوجائینگے پر  تو باقی ہے اور وہ سب پوشاک کی بانند  پورانے ہونگے اور وہ جل جائینگے پر تو وہ ہی ہے۔ اور تیرے برس جاتے نہ رہینگے ۔

پچھلا کلام مسیح کی نسبت۔

۱۳ باب ۸ آیت یسوع مسیح کل اور آج ابد تک یکساں ہے۔

۳۔    ہر جا موجود ہونا،  یوحنا کی انجیل ۳ باب ۱۳ آیت اور کوئی آسمان پر نہیں گیا سوائے اُس شخص کے جو آسمان سے اُترا یعنی ابن آدم جو آسمان پر ہے، متی کی اِنجیل ۲۸ باب ۲۰ آیت مسیح نے اپنے رسولوں کو کہا دیکھو میں زمانہ کے تمام ہونے تک ہر روز  تمھارے ساتھ  ہوں، ۱۸ باب   ۲۰ آیت  جہاں دو یا تیں میرے نام پر اِکٹھے ہوں وہاں میں اُنکے بیچ ہوں۔

۴۔    سب کچھ جاننا۔ یوحنا کی اِنجیل ۲ باب ۲۳ سے ۲۵ آیت تک لیکن یسوع نے اپنے تیئں لوگوں پر چھوڑا اِس لیے کے وہ سب کہ جانتا تھا اور محتاج نہ تھا کہ کوئی اِنسان میں جانتا ہے ۔

مکاشفات ۲ باب ۲۳  آیت ساری کلیسیاؤں کو معلوم ہوگا میں وہی ہوں جو دلوں اور گردوں کا جانچیوالا ہے اور میں تم ہر ایک کو تمھارے کاموں کے موافق بدلہ دوں گا۔

۵۔    قادر مطلق ہونا۔ مکاشفات پہلاباب۸ آیت خداوند یوں فرماتا ہے کہ میں قادر مطلق ہوں، عبرانیوں کا خط ۱ باب ۱۳ آیت اور وہ یعنی یسوع مسیح خدا کے جلال کی رونق اور اُسکی الوہیت کا نقش ہو کے سب کچھ اپنی ہی قدرت کی کلام سنبھالتا ہے۔

تین قسم کی دلیلوں سے یہ ظاہر ہے کہ الوہیت کے کام کے کام مسیح میں اور مسیح کے وسیلے سے ظاہر ہوئے۔

۱۔    پیدائش یوحنا کی اِنجیل ۱ باب ۴ آیت سب چیز یں اُس سے وجود میں آئیں اور کوئی چیز موجود نہ تھی جو  بغیر اُس کےہوئی، ۱۰ آیت جہاں اُس سے موجود ہوا۔ کلسیوں کا خط پہلا باب ۱۶ آیت اور ۱۷ آیت   کیونکہ اُس سے ساری چیز یں جو آسمان اور زمین پر ہیں دیکھی اور اندیکھی کیا تخت کیا  حکومتیں کیا ریاستیں کیا مختاریاں پیدا کی گئیں اور ساری چیزیں اُس سے اور اُسکے لیے پیدا ہوئیں اور وہ سب سے آگے ہے اور اُس سے ساری چیز یں بحال رہتی ہیں۔

۲۔    پروردگاری کا کام مسیح کی نسبت بیان ہوا ہے ۔ عبراینوں کا خط پہلا باب ۳ آیت وہ یعنی مسیح اُسکے جلال کی رونق اور اُسکی ماہیت کا نقش ہو کے سب کچھ اپنی ہی قدرت سے سنبھالتا ہے، کلسیوں کا خط پہلا باب ۱۷ آیت اور وہ یعنی مسیح سب سے آگے ہے اور اُس سے ساری چیزیں بحال رہتی، متی کی اِنجیل ۲۸ باب۱۸ آیت اور یسوع نے ان سے کہا کہ آسمان اور  زمین کا سارا اختیار مجھے دیا گیا۔

۳۔    موت اور زندگی پر اختیار ۔ یوحنا کی اِنجیل ۵ باب ۲ آیت جسطر باپ مرُدوں کو اُٹھاتا اور جلاتا ہے بیٹا بھی جنھیں چاہتا ہے جلاتا ہے۔

۴۔    ا ختیار قیامت ۔دوسرا قرنتیوں کا خط ۵ باب ۱۰ آیت ہم سب کہ ضرور ہے کے مسیح کی مسند عدالت کے آگے حاضر ہوویں تاکہ ہر ایک جو کچھ ہمنے کیا ہے بھلا یا برُا موافق اُسکے پائیں۔ متی کی اِنجیل ۲۵، ۳۱، ۳۲ آیت جب اِبن آدم اپنے سے آویگا۔ اور سب پاک فرشتے اُسکے ساتھ ۔ تب وہ اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا ۔ اور سب قومیں اُس کے آگے حاضر کیجائینگی اور جسطرح گڈریا بھیڑوں کو بکریوں سے جدُا کرتا ہے وہ ایک دوسرے سے جدُا کریگا وغیرہ۔

۴۔    دلیل مسیح کی الوہیت وہ  ہےجس سے یہ ظاہر ہے کہ خدا کی بندگی اور عبادت مسیح کو دینی واجب ہے دی گئی ہے۔

یوّحنا کی اِنجیل ۵ باب ۲۳ آیت سب بیٹے کی عزت کریں گے جسطرح سے باپ کی عزت کرتے ہیں جو بیٹے کی عزت نہیں کرتا باپ کی جسے  اُس نے بھیجا ہے عزت نہیں کرتا، فلپیوں کا خط  ۲ باب ۹ آیت اِسواسطےخدا ہی نے اُسے بہت سرفراز کیا اور اُسکو ایسا نام جو سب ناموں سے بزرگ بخشا تاکہ یسوع کا نام لیکرکیا آسمانی کیا زمینی کیا وہ جو زمیں کے تلے ہیں گھنا بخشیں ۔ عبرانیوں کا خط پہلا باب۶آیت اور جب پلوٹھے کو یعنی یسوع مسیح  کو  دنیا  میں پھر لایاتو کہا کہ خدا کے سب فرشتے اُسکو سجدہ کریں۔

متی کی اِنجیل ۲۸ باب ۱۹ آیت تم سب قوموں کو شاگرد بناؤ  اُنھیں باپ اور بیٹے اور روح القدس کے نام سے بپتمسہ دو  اور  اِس حکم سے معلوم ہوتا ہے کہ باپ بیٹا روح برابر ہیں اعمال کی کتاب ۷ باب ۵۹ اور ۶۰ آیت استیفان یہ کہکے دعا مانگتا تھا کہ ائے خداوند یسوع میری روح کو قبول کر ائے خداوند یہ گناہ اُنکے حساب میں مت رکھ ، دوسرا قرنتیوں کا ۱۳ باب ۱۴ آیت خداوند یسوع مسیح کا فضل اور خدا کی محبت اور روح قدس کی رفاقت سبھوں کے ساتھ ہووئے۔ اِس جگہ یسوع اور روح قدس اور خدا سے برابر دعا مانگی گئی۔

اِن چار قسموں کی دلیلوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خداوند   یسوع مسیح کہ اِنجیل میں خدا کہا گیا ہے ۔ اور خدا کی صفتیں اُس میں موجود تھیں اور الوہیت کا کام و کاج اِس سے ظاہر ہے کہ خدا کی عبادت اُسکو دی گئی البتہ پہلی قسم کی دلیل قطعی نہیں کیونکہ خدا کا لفظ سوائے یسوع کے اور نبیوں اور نیز حکام اوربعض دیگر اِنسانوں کی نسبت بھی بائیبل میں مستمعل ہوا ہے دیکھو یوّحنا کی اِنجیل ۱۰ باب ۳۵ آیت جبکہ اُسنے انھیں جنکے پاس خدا کا کلام آیا خدا کہا اور ممکن نہیں کہ کتاب باطل ہو  خروج کی کتاب ۷ باب ۱ آیت خدا نے موٰسی سے کہا دیکھ میں نے تجھے فرعون کا سا بنایا ۸۲ زبور ۶ آیت میں نے تو کہا کہ تم اِلئہ ہو اور تم سب حق تعالٰی کے فرزند  ہو۔ یہ کلام شیطان کی نسبت بھی مستمعل ہوا۔ دوسرا قرنتیوں کا خط ۴ باب ۴ آیت اِس جہان کے خدا نے اُنکی عقلوں کو جو بے ایمان ہیں تاریک کر دیا اگر صرف یہی دلیل مسیح کی الوہیت کی بیبل میں ہوتی تو ہم کبھی ہم کبھی اُسکو خدا نہ کہتے بلکہ ہم سمجھتے کہ جیسا اگلے زمانہ میں اُن لوگوں کو خدا کہا گیا جنکے پاس خدا کا کلام آیا اُسی طرح خداوند یسوع مسیح کو رسول خدا ہونیکے سبب خدا کہا گیا۔ لیکن مسیح کی الوہیت صرف اسی ایک منحصر نہیں اور نہ اُسکی الوہیت کی یہی خاص دلیل ہے بلکہ یہ ایک چوتھا حصہّ اُسکی الوہیت کی دلیلوں کا ہے اوراُن کے ساتھ ملکر قطعی ہوجاتا ہے ہم نے بیان کیا کہ بائیبل میں خداوند یسوع مسیح کو نہ صرف خدا کہا گیا ہے بلکہ خدا کی صفات اُس میں ظاہر ہوئیں یہ کسی انسان میں کسی پیغمبر  میں کبھی ظاہر نہیں ہوئیں اور یہ بھی بیان ہوا کہ خدا کے کام یعنی وہ کام صرف خدا کر سکتا ہے جیسا پیدایش اور پروردگاری موت و زندگی پر اختیار اور قیامت پر اِقتدار اُسے حصل تھا اور سب سے پیچھے یہ بیان ہوا کہ وہ بندگی اور عبادت جو صرف خدا کو دی گئی اور جو    اُسی کہ دینی واجب تھی مسیح کو دی گئی اور اُسکی نسبت واجب بیان ہوئی اب اِس حال میں ہم کیا کئہ سکتے ہیں سوائے اِس کے کہ بائیبل میں جگہ جگہ اُسکی الوہیت کا بیان ہے اور اِس لیے ہر ایک شخص پر جو اِنجیل  کو الہامی کتاب جانتا ہے اُسکی الوہیت کا اقرار کرنا واجب ہے اِسی لیے مناسب ہے کہ ملک شاہ صاحب یا اور کوئی ہمارا محمدی دوست جو اِنجیل کے الہامی ہونے کا قاہل ہے پیشتر اِس سے کے کہ مسیح کی الوہیت سے انکار کرے اِن آیتوں کا ملاحظہ فرما لے یا اِس اُوپر ثبوت دے کہ یہ آیتیں جو پیش ہوئیں اصل اِنجیل میں مندرج نہیں ہیں اگر ایسا نہ کر سکے تو اُنکا الزام جھوٹا اور باطل ہےاور اُنکو یہ کہنا مناسب نہیں کہ مسیح کی الوہیت اِنجیل سے ثابت نہیں ہوتی۔

اب میں مسیح کی الوہیت کی گواہی پیش کرتا ہوں جو کہ اُن لوگوں پر بھی اثر کرتی ہے جو کہ اِنجیل کے الہامی ہونیکے قابل نہیں اور صرف اُسکو تواریخی کتابوں کے موافق سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ مسیح خداوند نے الوہیت کا دعوٰی کیا اور اپنے کلام کے ثبوت میں معجزہ دکھایا  الوہیت کا بیان پیشتر منفصل ہوُچکا اب صرف بطور یاد داشت کہ ایک دو آیتں بیان کی جاتی ہیں مرقس کی اِنجیل ۲باب ۵ آیت یسوع نے کہا اے بیٹے تیرے گناہ معاف ہوئے یہ بات سنُ کر  لوگ کڑُ کڑُئےاور بولے کہ خدا کے سوا کون  گناہ معاف کر سکتا ہے مسیح نے کہا ۱۰ آیت سے ۱۲ تک تاکہ ہم جانو کہ ابن آدم زمین پر گناہوں کے معاف کرنیکا اختیار رکھتا ہے میں تجھے کہتا ہوں ائے مفلوج اُٹھ اور کھٹولا اُٹھا کے اپنے گھر کو جا اور فی الفور وہ اُٹھا اور  اپنا  کٹھولا اُٹھا کے سب کے سامنے چلا گیا سب دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ متی کی انجیل ۱۸ باب ۲۰ آیت جہاں دو یا تین میرے نام پر  اِکھٹے ہوں وہاں میں اُن کے بیچ میں ہوں، یوّحنا کی اِنجیل ۱۸ باب ۵۸ آیت پیشتر  اِس کے کہ ابراہم ہو میں ہوں، ۱۸ باب ۵ آیت ائے باپ اب تو مجھے اپنے اُس جلال سے جو میں دنیا کی پیدایش سے پیشتر رکھتا تھا بزرگی دے ، تیسرا باب ۱۳ آیت کوئی شخص آسمان پر نہیں گیا سو ائے اُس کے جو آسمان پر سے اُترا  یعنی ابن آدم جو آسمان پرہے ، یوّحنا کی اِنجیل ۱۰ باب۲۵ آیت میں نے تمہیں کہا اور تم نے یقین نہ کیا جو کام یعنی معجزہ کہ میں اپنے باپ کے نام سے کرتا ہوں یہ میرے گواہ ہیں ۵ باب ۳۲ آیت یہ کام جو میں کرتا ہوں یہ میرے گواہ ہیں کہ باپ نے مجھے بھیجا ہے یوّحنا کی اِنجیل ۱۰ باب ۳۰ آیت میں اور باپ ایک ہیں یہ سنُ کے یہودیوں نے کہا کہ تو  کفر  کہتا ہے اور انسان ہو کے اپنے تئیں خدا بتاتا ہے ۳۳ آیت اِن آیتوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے الوہیت اور اُسکی صفات کا دعویٰ کیا اور اُس کے ثبوت میں معجزہ دکھایا اب ہم جانتے ہیں کہ خدا کسی جھوٹے یا فریبی آدمی کو   معجزہ کرنیکی طاقت نہیں دیتا اِس لیے ضرور خداوند یسوع مسیح کے معجزہ  صاف اِس امر کو ظاہر کرتے ہیں کہ اِسمیں الوہیت موجود تھی اور وہ الوہیت کی صفات رکھتا تھا ۔ اگر کوئی کہے کہ وہ معجزہ شیطان کی مدد سے کرتا تھا تو یہ نہایت اُن کی سمجھ کی غلطی ہے کیونکہ شیطان کبھی کسی کو اپنی بادشاہت دورکرنے کے لیے مدد  نہیں دیتا اور یسوع مسیح کے معجزہ  اِ س قسم  کے تھے کہ شیطان کی بادشساہت کو نیست و نابود کرتے تھے اِس لیے ہر صورت سے خواہ اِنجیل کہ الہامی مانو  یا اُس کو تواریخی کتاب سمجھو  ثابت ہے کہ خداوند یسوع مسیح میں زات و صفات خدا کی موجود تھیں اب اگر زندگی باقی ہے تو  آئیندہ اخبار میں اُن آیتوں کا ملاحظہ کیا جائیگا جو بائیبل میں ظاہر اًمسیح کی الوہیت کے خلاف معلوم ہوتی ہیں۔

PDF File: 

Confirming the Cross

ہرایک بات کو آزماؤ اوربہتر کو اختیار کرو

But test everything that is said. Hold on to what is good.

Asbat-i-Salib

Confirming the Cross

In Refutation of the Mirza’s arguments, based on the Bible and Quran, against the Death on the Cross, with a vivid account of that event, also deals with Ahmadiyya objections to an Atonement and the Second Coming of Christ.

A Book for educated readers.

Allama Rev Ghulam Masih

رسالہ

اثبات صلیب

بجواب

احمدیت کی کسر صلیب

جس میں مسیحی ومسلم واحمدی روایات سے سیدنا مسیح کی صلیبی موت وکفن دفن وقیامت وصعود آسمانی اورآپ کے دوبارہ آنے کوثابت کیا گیا ہے اور مرزاصاحب کے مسیحائی کے دعوے کی لاجواب تردید کی گئی ہے۔

مولفہ مصنفہ علامہ غلام مسیح صاحب

مصنف تحقیق الاسلام  وہماری بائبل اور مسلم علماء
ایڈیٹر نور افشاں ۔ لاہور
پرنٹر ناشر
۱۹۳۰

اثباتِ صلیب

تحقیق الاسلام ہنوز احمد ی اصحاب کی نظروں سے غائب نہیں ہوئی تھی کہ الفضل مطبوعہ قادیان نے اپنی ۱۶,۲فروری۱۹۲۶ کی اشاعتوں میں اور ۲۸مئی۱۹۲۶ کی اشاعت میں چیلنجز کی بھرمار شروع کردی۔مثلاً مسیحی دنیا اور حیات ِمسیح۔عیسائی دنیا کو کھلاچیلنج۔عیسائی صاحبان کو چیلنج۔عیسائی دنیا کو چیلنج اور نور افشاں کافرار وغیرہ کے عنوانوں سے وہ اودھم مچایا کہ احمدیت پسند الفضل پر قربان ہو کر رہ گئے۔چونکہ احمدیت کے یہ بڑے بول احمدیت کی شان کے تو موافق تھے۔ مگر ان کاجواب دینا اخباری مضمون کی حد سے با ہر تھا۔ اس وجہ سے ہم خاموش ہوگئے تھے۔ لیکن ہماری خاموشی کے معنی رسالہ کی صورت میں جواب لکھنے کے تھے۔چنانچہ پیشتر ہماری بائبل اور مسلم علماءکے نام سےایک جواب لکھاجاچکاہےاوردوسراجواب رسالہ ہذا ہے۔جسکا نام اثبات صلیب رکھا گیا ہے۔

وادی سوات خاندان
Swat Valley Family

اس رسالہ کانام اثبات صلیب اس وجہ سے رکھا گیا ہے کہ ایک طرف تو غیر احمدی مسلم اصحاب خدا وند یسوع مسیح کی صلیبی موت کے منکرہیں اوردوسری طرف احمدی اصحاب یسوع مسیح کی صلیبی موت کے منکر ہیں۔قیامت کے منکر ہیں وغیرہ۔اس رسالہ میں مسیحی ومسلم روایات سے یسوع مسیح کی صلیبی موت کو ثابت کیا گیا ہے۔مرزا صاحب کے بیان سے یسوع مسیح کی موت کو ثابت کیاگیا ہے۔اس کے ساتھ ہی مسلم روایات اور مرزا صاحب کے بیان سے یسوع مسیح کے یروشلیم کی قبر میں دفن ہونے اور پھر تیسرے روز زندہ ہونے کو آسمان پر جانے کو۔دوبارہ آنے کو بھی ثابت کیاگیا ہے۔ان امور کے ثابت ہوجانے سے اسے احمدیت کی تمام خیالی عمارت بیخ وبن سے اکھڑی ہوئی دکھا دی گئی ہے ۔مرزا صاحب کی مسیحائی کے دعاوی کی بطالت ایسی واضح وروشن کردی گئی ہے جسے دیکھ کر احمدی۔۔۔۔۔۔غیراحمدی مسلمانوں کے مقابل ہمیشہ شرمندہ اور نادم رہینگے۔احمدیت کی بنیاد یسوع مسیح کے کشمیر میں جاکر ہمیشہ کیلئے مرنے اور یوزآسف کی قبر میں مدفون ہونے اوراس کی ہر معنا کی قیامت کے انکار پر مبنی ہے۔ احمدیت کا یہ دعوےٰ ایسا ہے کہ نہ تاریخ سے ثابت ہوسکتاہے نہ مسیحی ومسلم روایات سے ثابت ہوسکتاہے نہ مرزا صاحب کے بیان سے متواتر ثابت ہوسکتا ہے۔لہذا احمدیت کی بنیاد سراسر سر لغویات پر مبنی ہے۔جسکی حقیقت رسالہ ہذا کے بیان سے بخوبی روشن ہوجائیگی۔

مسیحیوں کو احمدیوں کے مقابل جس رات کی زیادہ ضرورت پڑتی ہے۔وہ بائبل مقدس کے اعتبارکا مسئلہ ہو۔ہم اپنی کتاب ہماری بائبل اور مسلم علماءمیں بائبل کے اعتبارکو بخوبی ثابت کرچکے ہیں۔لیکن اگر کسی ناظر کے پاس یہ کتاب نہ ہو تو ایسے اصحاب کے فائدے کیلئے مرزا صاحب اور دیگر احمدی اصحاب کے بائبل مقدس کے اعتبار کی بابت ذیل کے بیانات نقل کئے دیتے ہیں تاکہ بروقت ضرورت انہیں سے کام لیا جاسکے لیکن یہ یاد رہے کہ یہ مقامات ہماری بائبل اور مسلم علماءنامی کتاب کی کمی کو پورا نہیں کرسکتے ہیں۔یہ کتاب بھی ضرور منگانا چاہیے۔ مرزا صاحب اوراحمدی اصحاب بائبل کی بابت لکھ گئے ہیں۔

خداوند تعالے ٰ نے اس سلسلہ کو کبھی بند نہیں کیا حضرت موسیٰ علیٰ نبیناوعلیہ ٰ الصلٰوة واسلام کے بعد جس قدر انبیادنیا میں تشریف لائے حضرت عیسیٰ تک سب کا یہی دعوے ٰ رہا کہ ہم کوئی نئی تعلیم نہیں لائے بلکہ ان انبیاءکی صداقت کا نشان ہی شرائع سابقہ اور تورات کی تصدیق تھی۔وہ تورات ہی کے ماننے والے اسکی مصدق اور اسی کی تعلیم تازہ کرنے آئے تھے تاکہ مرور زمانہ کی وجہ سے جو دلوں پر زنگ غفلت بیٹھ گیا ہے اس کو دور کریں اور طبائع اِنسانی میں ایک نیا روحانی جوش پیدا کردیں حتیٰ کہ ہمارے رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی نسبت بھی قرآن شریف میں بار بار یہی فرمایا گیامُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِیہ نبی شرائع اور سابقہ کتاب منزلہ کی تصدیق کرنے آیا ہے نہ کوئی نئی تعلیم دینے یا نئے احکام سکھانے کو جو توریت کے اصول توحید کے مخالف ہوں۔غرضکہ تمام اسرائیلی نبیوں نے بڑے زور اور بڑے دعو ٰے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک لفظ یا شعشہ ترمیم یا تبدیل کرنے نہیں آئے۔ انجیل کے پڑھنے سے بھی معلوم ہوتاہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوئی بات اخلاقی تعلیم کے متعلق اور روحانی معارف کی نسبت ایسی ہرگز ہرگز نہیں لائے۔جسکی بنیاد اور مواد توریت کے اندر موجود نہ ہوں۔لیکچر اس امر پر کہ حضرت اقدس امام زماںمسیح موعود جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے کیا اصلاح اور تجدید کی۔ جو جناب مولانا مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے ایک مجمع عام میں ۱۳ماہ نومبر۱۸۹۸کو دیا صفحہ ۶۷-۶۸پھر مرزا صاحب لکھتے ہیں۔

۲۔جس حالت میں باربار لکھتا ہوں کہ خدانے مسیح موعود مقرر کرکے بھیجا ہے اورمجھے بتلادیا کہ فلاں حدیث سچی ہے اور فلاں جھوٹی ہے اور قرآن کے صحیح معنو ں سے مجھے اطلاع بخشی ہے تو پھر میں کس بات میں اور کس غرض کیلئے ان لوگوں سے (گولڑویوں سے )منقولی بحث کروں۔جبکہ مجھے اپنی وحی پر ایسا ہی ایمان ہے۔جیسا کہ توریت اور انجیل اور قرآن کریم پر تو کیا انہیں مجھ سے یہ توقع ہوسکتی ہے کہ میں ان کی ظنیات بلکہ موضوعات کے ذخیرہ کو سنکر اپنے یقین کو چھوڑدوں جسکی حق الیقین پر بناہے۔اربعین ع۴ص۱۹

۳۔مرزا صاحب پھر لکھتے ہیں۔مگر حضرت عیسیٰ صرف توریت کے وارث تھے۔جسکی تعلیم ناقص اور مختص القوم ہے۔اسی وجہ سے انجیل میں ان کو وہ باتیں تاکید کے ساتھ بیان کرنی پڑیں جو توریت میں مخفی اور مستور تھیں لیکن قرآن شریف سے ہم کوئی امر زیادہ بیان نہیں کرسکتے۔ کیونکہ اس کی تعلیم اتم اور اکمل ہے اور وہ توریت کی طرح کسی انجیل کا محتاج نہیں“۔حقیقتہ الوحی صفحہ ۱۰۱۔

۴۔بعض مسلمان جہالت سے کہتے ہیں کہ شائد وہ پیشنگوئی محرف ہوگئی ہوگی۔مگر ایسا خیال کرنے والے سخت احمق ہیں۔تحریف تو بیشک بعض  مقامات بائبل میں ہوئی ہے۔مگر جس مقام کو خود حضرت مسیح نے غیر محرف ٹھہرادیا ہے وہ مقام بلاشبہ حضرت مسیح اور یہود کے ا تفاق سے تحریف کے الزام سے پاک ہے “۔ضیاالحق صفحہ ۴۰۔

۵۔مرزا صاحب جو بائبل کے بعض مقامات کی تحریف کا اعتراف کرتے ہیں یہ بھی آپ کے حافظہ کی خطا ہے۔ ورنہ آ پ توصفائی سے ایک نہایت معتبر سند کے ساتھ لکھ چکے ہیں کہ :

اب اگر مسیح کو سچا نبی ماننا ہے تو اس کے فیصلہ کو بھی مان لینا چاہیے۔زبردستی سے یہ نہیں کہنا چاہیے کہ یہ ساری کتابیں محرف ومبدل ہیں۔ بلاشبہ ان مقامات سے تحریف کا کچھ علاقہ نہیں اوردونوں فریق یہود ونصاریٰ ان عبارتوں کی صحت کے قائل ہیں اور پھر ہمارے امام المحدثین حضر ت اسٰمعیل صاحب اپنی صحیح بخاری میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ ان کتابوں میں کوئی لفظی تحریف نہیں“۔ ازالہ صفحہ ۹۹۸۔

۶۔کہ جیسے مسیح بن مریم نے انجیل میں توریت کا صحیح خلاصہ او رمغز اصلی پیش کیا تھا۔مسیح صرف اسی کام کے لئے آیا تھا کہ توریت کے احکام شدومد کے ساتھ ظاہر کرے۔کتاب الیضاً صفحہ ۸۹۰ پھر لکھتے ہیں۔

۷۔اللہ جل شانہ نے حضرت موسیٰ کو اپنی رسالت سے مشرف کرکے پھربطور اکرام وانعام خلافت ظاہری اورباطنی کاایک لمبا سلسلہ ان کی شریعت میں رکھ دیا جو قریباً چودہ سوبرس تک ممتد ہو کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اس کا خاتمہ ہوا۔ اس عرصہ میںصد ہابادشاہ اور صاحب وحی الہام شریعت موسوی میں پیدا ہوئے اور ہمیشہ خدا تعالی ٰ شریعت موسوی کے حامیوں کی ایسے عجیب طور پر مدد کرتارہا جو ایک حیرت انگیز یادگار کے طور پر وہ با تیں صفحات تاریخ پر محفوظ رہیں جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہےوَلَقَدْآتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِن بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ(سورہ بقرہ آیت ۸۶)۔ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَىٰ آثَارِهِم بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِالَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً۔(سورہ الحدید آیت ۲۶) یعنی ہم نے موسیٰ کو کتاب دی۔اور بہت سے رسول اس کے پیچھے آئے۔ پھر سب کے بعدعیسیٰ ابن مریم کو بھیجا اور اسکو انجیل دی اور اس کے تابعین کے دلوں میں رحمت اورشفقت رکھ دی۔یعنی وہ تلوار سے نہیں بلکہ اپنی تواضع اور فروتنی اور اخلاق سے دعوت دین کرتے تھے۔ اس آیت میں اشارہ یہ ہے کہ موسویٰ شریعت اگرچہ جلالی تھی اور لاکھوں خون اس شریعت کے حکموں سے ہوئے۔ یہاں تک کہ چار لاکھ کے قریب بچہ شیر خوار بھی مارا گیا لیکن خدا تعالی ٰ نے چاہا کہ اس سلسلہ کا خاتمہ۔ رحمت پر کرے اور انہیں میں سے ایسی قوم پیداکرے کہ وہ تلوار سے نہیں بلکہ علم اور خلق سے اور محض اپنی قوت قدسیہ کے زور سے بنی آدم کو راہ راست پر لادیں۔شہادة القرآن صفحہ۲۰-۲۶و صفحہ ۴۴,۴۳کی سطر۱۰سے آخر تک وصفحہ ۰۹کی سطر۶سے آخر تک۔

۸۔یہ اناجیل مسیح کی اناجیل نہیں ہیں اور نہ ان کی تصدیق شدہ ہیں بلکہ حواریوں نے یا کسی اور نے اپنے خیال وعقل کے موافق لکھا ہے۔اسی وجہ سے ان میں باہمی ا ختلاف بھی ہے ضرور ة الامام صفحہ ۱۴کی آخری سطریں۔

۹۔کیونکہ سلاطین اور ملاکی آسمانی کتابیں ہیں۔ اگر ان مقامات میں ان کے ظاہر ی معنی معتبربیں تو ان معانی کے چھوڑنے سے وہ سب کتابیں نکمی اور بیکار ٹھہر جائینگی۔

میرے دوست مولوی محمد حسین صاحباس مقام میں بھی غورکریں۔

اور اگر یہ کہا جائے کہ کیا یہ ممکن نہیں کہ سلاطین اورملاکی کے وہ مقامات محرف ومبدل ہوں تو جیسا کہ ابھی بھی لکھ چکا ہوں تو سراسروہم وگمان باطل ہے۔ کیونکہ اگر وہ محرف ومبدل ہوتے تو مسیح بن مریم کا یہودیوں کے مقابل پر یہ عمدہ جواب تھا کہ جو کچھ تمہاری کتابوں میں ایلیاہ کا آسمان پر جانا اورپھر اترنے کاوعدہ لکھا ہے ۔یہ بات ہی غلط ہے اوریہ مقامات تحریف شدہ ہیں بلکہ مسیح نے تو ایسا عذر پیش نہ کرنے سے ان مقامات کی صحت کی تصدیق کردی۔ ماسوا اس کے وہ کتا بیں جیسی یہودیوں کے پاس تھیں۔ ویسے ہی حضر ت مسیح اور ان کے حواری ان کتابوں کو پڑھتے تھے اور ان کے نگہبان ہوگئے تھے۔ اور یہودیوں کے لئے ہم کوئی ایسا موجب عندالعقل قرار نہیں دے سکتے جو ان مقامات کے محرف کرنے کیلئے انہیں بیقرار کرتا رہے اب حاصل کلام یہ ہے کہ مسیح کی پیشنگوئی کے بارے میں ایلیاہ کے قصہ نے یہودیوں کی راہ   میں ایسے پتھر ڈال دئیے کہ اب تک وہ اپنے اس راہ کو صاف نہیں کرسکے اور بے شمار روحیں انکی کفر کی حالت میں اس دنیاسے کوچ کرگئیں۔ ازالہ ادہام صفحہ ۲۷۷وسلسلہ تضیفات احمدیہ جلد سوم صفحہ۔ ۱۰۰۰۔

۱۰۔کوئی یہ خیا ل نہ کرے کہ ہم نے اس جگہ انجیل کی تعلیم کا ذکر نہیں کیا۔ کیونکہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ مسیح صرف اپنے خون کا فائدہ پہنچانے آیا تھا یعنی اس لئے کہ گناہ کرنے والے اس کے مرنے سے نجات پاتے رہیں۔ورنہ انجیل کی تعلیم ایک معمولی با ت ہے جو پہلے سے بائبل میں موجود ہے“ریو یوآف رلیجننر جلد ۲نمبر۴صفحہ۱۰

۱۱۔”۔۔۔کہ انجیل کی تعلیم میں کوئی نئی خوبی نہیں بلکہ یہ سب تو توریت میں پائی جاتی ہے اور اس کا ایک بڑا حصہ یہودیوں کی کتاب طالمود میں اب تک موجود ہے اور یہودی فاضل اب تک روتے ہیں کہ ہماری پاک کتابوں سے یہ فقرے چورائے گئے ہیں۔ محقق عیسائی اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ درحقیقت انجیل یہودیوں کی کتابوں کے ان مضامین کا ایک خلاصہ ہے جو حضر ت مسیح کو پسند آئی “۔ریو یو آف ریلجنز جلد ۲نمبر ۵صفحہ۱۸۴۔

۱۲۔ ۔۔۔۔۔۔۔یعنی یہ کتاب جو قرآن شریف ہے یہ مجموعہ ان تمام کتابوں کا ہے جو پہلے بھیجی گئی تھیں۔اس آیت سے مطلب یہ ہے کہ خدا نے پہلے متفرق طور پر ہر ایک امت کو جدا جدا دستور العمل بھیجا اورپھر چاہا کہ جیسا کہ خدا ایک ہو وہ بھی ایک ہوجائیں۔تب سب کو اکٹھا کرنے کیلئے قرآن کو بھیجا “۔کتاب ایضاً نمبر۴صفحہ۱۴۳۔

با ئبل کی با بت مر زا صا حب کے عقیدے

جوحق پسند اور سلیم العقل انسان اقتباسات بالاپر غوروفکر کریگا اسے ماننا پڑیگا کہ مرزا صاحب نے گو اپنی تحریرات میں کتب مقدسہ کے خلاف کفر گوئی کی ہوتوبھی مرزا صاحب کو کتب مقدسہ کے صحیح اوربلاتحریف وتغیر ہونے کا ضرور اعتقاد تھا نمبر۴,۲وہ ۹۰۔

اس کے سوا مرزا صاحب کا یہ بھی ا عتقاد تھا کہ مسیحیوں کی مروجہ کتب قرآن عربی کے متن میں تصدیق شدہ ہیں نمبر۷,۱۔مرزا صاحب اسبات کا بھی یقین رکھتے تھے کہ یسوع مسیح کی انجیل اس کے حوار یوں کی تحریر ہے۔ خود اس نے انہیں نہیں لکھا تھا نمبر۸۔مرزا صاحب کے اس بات کا بھی اعتراف تھا کہ یسوع مسیح کی انجیل میں وہ باتیں سکھائی اور سنائی گئیں جوتوریت میں مخفی اور مستور تھیں۔ وہ باتیں توریت کا صحیح مغزاور خلاصہ تھیں۔اور وہ باتیں توریت کے احکام کو شد ومد سے جاری کرنے کیلئے تھیں نمبر۱۱،۱۰،۶،۳۔

آخر میں مرزا صاحب یہ بات بھی مانتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ آپ کی نظر میں قرآن شریف پہلی کتب مقدسہ کے مطالب کا مجموعہ ہے۔گویا قرآن شریف اور پہلی کتب مقدسہ میں لازم ملزوم کا رشتہ ہے۔جسے ایک دوسرے سے جدا نہیں کرسکتے ہیں۔نمبر۱۲۔

بیان مافوق سے بائبل مقدس کی بابت یہ بات ثابت ہوگئی کہ بائبل مقدس مسلم روایات کی صحت یا عدم صحت کا اکیلی قانون ہے جو مسلم روایات قرآن شریف اور مرزا صاحب کی مصدد بائبل کے لفظاًو معناموافق ہونگی۔ان کی صحت وصداقت کے آگے ہر ایک مسلم کو خم ہونا پڑیگا ۔ان کی صداقت کا انکار نہیں ہوسکے گا۔لیکن جو مسلم روایات لفظاًومعنامسیحیوں کی بائبل کے خلاف ہونگی وہ خواہ کیسی ہی قابل اعتبار سمجھی جاتی ہوں ہرگز قبول نہ کی جائینگی۔کیونکہ مسلم روایات کا معیار صداقت مسیحیوں کی بائبل مقر ر ہے۔اس کے خلاف کسی دینی معاملہ میں بطورسند قبول نہیں کیا جاسکتا ہے۔اگر ناظر ین کرام بیان مافوق کو مدنظر رکھ کر رسالہ ہذا کے آنے والے بیان کو پڑھیں تو ان پر احمدیت کی اصلیت بخوبی ظاہر ہوجائیگی۔

فقط پادری غلام مسیح(ایڈ یٹر نور افشاں۔لاہور)

اثبات صلیب کے مضا مین کی فہرست

مقدمہ فہرست مضامین
پہلی فصل سیدنا مسیح کی زندگی کے آخری ہفتہ کے واقعات
دوسری فصل مسیحی قربانی اورکفارہ کا بیان
  دفعہ ۱: الفضل کا بیان
  دفعہ ۲: الفضل کی ترید میں ہمارا مسکت جواب
تیسری فصل سیدنا مسیح کی موت وقیامت کی بابت مسلم روایات
  دفعہ۱: قرآن شریف کا بیان
  دفعہ۲: لفظ توفی اور رفع کے معنی
  دفعہ۳: سیدنا مسیح کی موت وحیات کی بابت قدیم مسلمانوں کے عقیدے
  دفعہ۴: عدم رجوع موتی کی حجت کی تردید
  دفعہ۵: وفات مسیح پر احمدیوں کی تحقیقات کا خلاصہ
  دفعہ۶: مسلم روایات کی قدرومنزلت
  دفعہ۷: مسلم روایات کے معانی ومطالب
چوتھی فصل سیدنا مسیح کی موت وقیامت پر مرزا صاحب کے تبصرات
  دفعہ۱: مرزا صاحب کی زبانی وفات مسیح کے زمانہ وغیرہ کا تعین
  دفعہ۲: مرزا صاحب اور سیدنا مسیح کا کفن دفن
  دفعہ۳: مرزا صاحب اور قیامت مسیح
  دفعہ۴: احمدی اصحاب کے چند شبہات کی صفائی
  دفعہ۵: حضرت محمد کی حیات زمانہ میں اسرائیلی مسیح زندہ تھا۔
پانچویں فصل مرزا صاحب اوراحمدی اصحاب کے عقائد خصوصی کا بیان
  دفعہ۱: قادیانی قرآن وحدیث کے مسائل
  دفعہ۲: خدا کی بابت مرزا صاحب اور احمدیوں کے عقائد
  دفعہ۳: مرزا صاحب کے خدا ہونے کے دعویٰ
  دفعہ۴: مرزا صاحب کے دیگر الہامات
  دفعہ۵: مرزا صاحب کے دعویٰ پر ایک نظر
چھٹی فصل اسلامی  روایات میں آنے والے زمانہ کی دو عظیم ہستیوں کا بیان
  دفعہ۱۔قرآنشریفمیںیسوعمسیحکیدوسریآمدکابیان
  دفعہ۲:احادیث میں دجال کی آمد کا بیان
  دفعہ۳: سیدنا مسیح کا دوبارہ آنا اور دجال کو فنا کرنا
  دفعہ۴: ایک غلط فہمی کی صفائی
  دفعہ۵:مسلم روایات کی قدرومنزلت
  دفعہ۶:مسلم روایات کے معانی ومطالب
ساتویں فصل سیدنا مسیح کی دوسری آمد اور مرزا صاحب کا دعویٰ مسیحائی
  دفعہ۱: مرزا صاحب کی مسیحائی اور نبوت فراموشی کی احمدی تفسیر
  دفعہ۲: تقدس مآب حضرت امیر جماعت احمدیہ لاہور اور نبوت مرزا

تمت با لخیر

پہلی فصل

سیدنا مسیح کی زندگی کے آخر ی ہفتہ کے واقعا ت

انجیل مقدس کی صداقت کی بلند اور خوبصورت پر نہایت در د انگیز چوٹی جس میں قوت مقناطیسی کی کشش پائی جاتی ہے وہ اس کے بیان کا وہ حصہ ہے جو یسوع مسیح کی زندگی کے آخری ہفتہ سے علاقہ رکھتا ہے۔ اگر انجیل مقدس کا یہ بیان جزو انجیل نہ ہوتا تو انجیل کی دنیا میں کچھ قدر نہ ہوسکتی۔جہاں انجیل کا بیان مذکور انجیل کی خوبی اور صداقت کا لاثانی منظر پیش کرتاہے۔ جس سے سنگ دل سے سنگدل مخالف کادل چکنا چور ہو کر یسوع مسیح اوراس کی انجیل کا شیدائی و فدائی ہو جاتا ہے۔ وہاں خدا کی مخلوقات میں ایسے لوگ بھی ہوئے ہیں جو انجیل کے بیان مذکور کو ٹھکرا کر مصلوب یسوع مسیح کی تمام عزت وحرمت پر بغیر صلیب پانے کے قابض ہونے میں کوشاں ہوئے ہیں۔ان میں سے مرزا غلام احمدقادیانی کا نام نامی زیادہ مشہور ہو۔جن کے مرید ہرایک مسیحی کے مقابل فتح کے نعرے مارنے والے مشہور ہیں جنکی احمدیت نے ذبیح اللہ یسوع مسیح کو جس قدر بے عزت کیا ہے اسقدر باقی مخالفوں کی تمام دنیا نے مل کر نہیں کیا۔اس لئے ہم احمدیت کا بیان کرنے سے پیشتر یہاں یسوع مسیح کی زندگی کے آخری ہفتہ کے واقعات کا مسیحی نقطہ نظر کے ساتھ اختصار بیان کئے دیتے ہیں تاکہ آگے آنے والے بیانات پر روشنی پڑے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔

انجیلی واقعات کے اوقات

انجیل مقدس میں وقت کی ود جنتریوں کا ذکر آیا ہے۔ ایک جنتری شمسی حساب کی ہے اور دوسری قمری حساب کی شمسی حساب کی جنتری کا رواج رومیوں میں مروج تھا۔اس کے موافق دن رات میں۲۴گھنٹے شمار کئے جاتے تھے۔ ۱۲گھنٹے کی رات اور ۱۲گھنٹہ کا دن خیال کیا جاتا تھا۔ اس کا ذکر صرف یوحنا ۹:۱۱میں صفائی سے آیا ہے پر انجیلی واقعات اس جنتری کے موافق نہیں لکھے گئے ہیں۔دوسری جنتری قمری حساب کی تھی جو صرف یہودیوں میں مروج تھی۔اس جنتری کے موافق سورج غروب ہونے سے شروع ہواکرتا تھا یعنی یہودی دن کی رات پہلے آتی تھی اوردن پیچھے آتا تھا۔یہودی دن رات کو آٹھ پہرپر تقسیم کرتے تھے۔چار پہر رات اور چار پہر دن شمار کیا جاتا تھا۔ ملاحظہ۲۵:۱۴‘۱:۲۰-۹۔پس معلوم ہوا کہ یہودی جنتری کا ہر ایک پہر تین تین گھنٹہ وقت کاپیمانہ تھا۔ جملہ انجیلی واقعات اسی جنتری کے موافق لکھے گئے ہیں۔

سیدنا مسیح نے شا گردوں کے سا تھ فسح کھا ئی اور عشا ربا نی مقرر فر ما ئی

سیدنا مسیح نے گرفتاری سے پیشترشاگردوں کے ساتھ فسح کھائی اور عشاءربانی مقرر فرمائی۔ انجیل مقدس میں اس یادگار واقعہ کا یوں بیان آیا ہے۔ اور عید فطر کے پہلے دن شاگرد یسوع کے پاس آکر بولے تو کہاں چاہتا ہے کہ ہم تیرے لئے فسح کھانے کی تیاری کریں ؟س نے کہا شہر میں فلاں شخص کے پاس جاکر اس سے کہنااستادفرماتاہے کہ میرا وقت نزدیک ہے۔ میں اپنے شاگردوں کے ساتھ تیرے ہاں عید فسح کرونگا اور جیسا یسوع نے شاگردوںکو حکم دیا تھا انہوں نے ویسا ہی کیا۔اور فسح تیار کیا۔جب شام ہوئی تو وہ بارہ شاگردوں کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھا اور جب وہ کھارہے تھے تواس نے کہامیں تم سے سچ کہتاہوں کہ تم میں سے ایک مجھے پکڑوائیگا۔وہ بہت ہی دلگیر ہوئے اور ہرایک اس سے کہنے لگا اے خداوند میں ہوں۔اس نے جواب میں کہا کہ جس نے میرے ساتھ طباق میں ہاتھ ڈالا ہے وہی مجھے پکڑوائیگا۔اِبن آدم تو جیسا اس کے حق میں لکھا ہے جاتاہی ہے۔لیکن اس آدمی پر ا فسوس ہے۔جس کے وسیلے سے اِبن آدم پکڑوایا جاتا ہے۔اگروہ آدمی پیدا نہ ہوتا تو اِس کیلئے اچھا ہوتا۔اس کے پکڑوانےوالے یہوداہ نےجواب میں کہا۔ اے ربی کیا میں ہوں۔اس نے اس سے کہا تونے خو د کہہ دیا۔جب وہ کھارہے تھے تو یسوع نے روٹی لی اوربرکت چاہ کر توڑی۔اور شاگرد و ں کو دیکر کر کہا لو کھاﺅ یہ میرا بدن ہے۔ پھر پیالہ لیکر شکر کیا اور انہیں دیکر کہا کہ تم سب اس میں سے پی لو۔کیونکہ یہ عہد کا میرا وہ خون ہے جو بہتروں کے لئے گناہوںکی معافی کے واسطے بہایا جاتاہے۔میں تم سے کہتا ہوں کہ انگور کا شیرہ پھر کبھی نہ پیونگا اس دن تک کہ تمہارے ساتھ اپنے باپ کی بادشاہت میں نیا نہ پیوں متی۲۶:۱۷-۱۹ ،مرقس۱۲:۱۴-۲۶‘لوقاباب۲۲۔

۱۔اس یادگار موقع کے بعد یسوع مسیح گیت گا کر اپنے شاگردو ں سمیت زیتون کے پہاڑ پر چلا گیا۔وہاں غالباً شاگردوں کو یوحنا ۴باب سے ۱۷باب تک کی باتیں سنائیں اور ان کی بیوفائی کی خبر دی متی ۳۰:۲۶ -۳۵،مرقس ۲۷:۱۴-۳۱وغیرہ۔

اس کے بعد ہی گتسمنی میں دعا کا موقع آگیا متی ۳۶:۲۶-۴۶،مرقس۲۲:۱۴-۴۲‘ لوقا۴۰:۲۲-۴۶۔اور گتسمنی میں ہی آپ کی گرفتاری ہوگئی۔ متی۴۷:۲۶-۵۰‘مرقس۴۳:۱۴-۵۰‘لوقا۴۷:۲۲-۵۳‘یوحنا۳:۱۸۔

بیا ن ما فو ق پر غو ر کر و

اِس سے سب سے بڑی اور عظیم الشان حقیقت یہ ظاہر ہوتی ہے کہ یسوع مسیح گرفتاری سے پیشتر اپنے آپ کو بچانے کا کوئی نہ کوئی انتظام کرسکتا تھا۔اگروہ اپنے آپ کو بچانا چاہتاتو وہ کہیں بھاگ سکتا تھا آپکو چھپا سکتا تھا۔ کم از کم اس الزام سے تائب ہوسکتا تھا۔ جو اِس کے مخالف تجویز کررہے تھے۔ پر اس کے نزدیک نہ صرف ان باتوں کا خیال نہیں ہے۔بلکہ وہ اپنی صلیبی موت کی تیاری کے لئے کل ا نتظام کرچکا ہے۔و ہ اپنی موت کی یادگاریں مقر ر کرکے صلیبی موت کیلئے تیار ہوچکا ہے۔وہ عشاءربانی مقرر کرکے اپنے شاگردوں کے ساتھ پہاڑ پر جاتا ہے اور انہیں آنیوالے واقعات کی خبرد ے کر دعا میں گرجاتا ہے۔ وہ خدا کی مرضی کو جاننے کیلئے دعا پر دعا کرتاہے۔ صلیبی موت کے دکھوں کے احساس سے اس کاخون پسینہ بن کر بہ نکلتا ہے۔جب اسے باپ کی مرضی کا صفائی سے علم ہوجاتا ہے تب شاگردوں کے پاس آکر ان سے باتیں کرتا ہوا گرفتار ہوجاتا ہے اور شاگردتھوڑی سے مزاحمت کے بعد اسے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔غور کرو کہ یہ کیسا دلشکن ماجرا ہے ؟۔

گرفتا ری کا دن

انجیلی بیان یہاں پر صاف اور مسلسل ہے۔اِس سے ظاہر ہے کہ یسوع مسیح۔منگل کی رات گرفتار ہوا تھا۔ اتوار کے روز عید فطر شروع ہوئی۔عید فطر کے پہلے دن خداوندنے شاگردوں کے ساتھ فسح کھائی اور عشاءربانی مقر رفرمائی۔فسح کھانے کے بعد آپ اپنے شاگردوں سمیت زیتون کے پہاڑ پر چلے گئے۔جہاں شاگردوں کے ساتھ کلام کرتے رہے اور بعد کو گرفتار ہوگئے۔پس گرفتاری منگل کی رات کے وقت واقع ہوئی۔جس میں بال برابرفرق نہیں ہوسکتا۔

گر فتا ری کے بعد سیدنا مسیح کی ذمہ داری

جس وقت یسوع مسیح کے دوستوں کی نگرانی سے اسے چھین لیا یا گرفتار کرلیا اس وقت سے ابد الآ باد زمانہ کیلئے یسوع مسیح کے دشمن اسکی زندگی یا موت کے اور اس کے جسم وقبر کی نگرانی کے خداور خلق خداکے نزدیک محافظ و ذمہ دار ہوچکے۔عیسائی یا یسوع مسیح کے شاگرد اپنے استاد کی زندگی اورموت کی۔اس کے جسم و قبر کی حفاظت ونگرانی کے فرض سے ہمیشہ کیلئے سبکدوش ہوگئے۔ اس لئے اس کے بعد کے واقعات کے ذمہ دار وجواب دہ یسوع مسیح کے مخالف ہی ہیں۔

سیدنا مسیح کی تین عدالتوں میں پیشی

سیدنا مسیح کی گرفتاری رومی قانون کے ماتحت ہوئی۔پر اس کا مقدمہ سب سے پہلے یہودیوں کی دینی عدالت میں پیش ہوا۔یہ مقدمہ گرفتاری کے بعد ہی ہوا۔ یہ منگل کی رات کے پچھلے پہر شروع ہو کر صبح دن کے پہلے پہر ہی ختم کردیا گیا متی ۵۷:۲۶-۷۵مرقس ۵۳:۱۴-۶۵

اِس کے بعدمنگل کی صبح کو یہودیوں کی دینی عدالت نے یسوع مسیح کا مقدمہ پیلاطس کی کچہری میں پیش کردیا۔منگل کے دن،بدھ کے تمام دن۔جمعرات کے تمام دن یسوع مسیح کا مقدمہ پلا طوس اور ہیرودیس کی کچہری میں ہوتا رہا لوقا۸:۲۳-۱۲‘۱۳:۲۳-۲۵،مرقس۱:۱۵-۱۵،متی۱:۲۷-۲‘۱۱-۲۶،لوقا-۱:۲۳،یوحنا۲۸:۱۸،غالباً جمعرات کی شام کو پیلاطس نے یسوع مسیح کو صلیب دے کر مار دینے کا فیصلہ کردیا۔اس کے بعد سپاہی خداوند کو دکھ دیتے اور ستاتے رہے۔ اسی حالت میں جمعرات کی رات گذری۔مرقس۱۶:۱۵-۲۰‘متی۲۷:۲۷ -ٍ۳۱۔

جمعہ کی صبح دن کے پہلے پہر سیدنا مسیح کا صلیب دیا گیا

انجیل کے مخالفین نے اس واقع کا بیان کرنے میں دیانت سے کام نہیں لیا ہے۔ناظرین اصل حقیقت کا ذیل ک مقامات میں ملاحظہ فرمائیں۔ مرقس۲۱:۱۵-۳۲، متی۳۲:۲۷-۳۴، لوقا۲۶:۲۳-۴۳، یوحنا۱۷:۱۹-۲۴

مقامات مذکو رہ بالا پر غور کرنے سے خصوصاً۲۵:۱۵پر سوچنے سے یہ بات صفائی سے معلوم ہوجاتی ہے کہ یسوع مسیح کو دو مجرموں کے ساتھ جمعہ کے روز صبح کے ۹بجے سے پہلے ہی صلیب پر مصلوب کردیا گیا تھا۔اس حساب کے موافق یسوع مسیح۹گھنٹے سے زائد صلیب پر رہے تھے۔

دو پہر سے تیسر ے پہر تک اند ھیر ا تھا

سیدنا مسیح کی وفات صلیب پر ہوئی۔اور تیسرے پہر ہوئی۔چوتھے پہر میں لاش صلیب پر سے اتارناممکن نہ تھا۔کیونکہ جب تک اندھیرا تھا تب تک لاشوں کا صلیب پر سے اتارنا بغیر امتحان محال تھا اور اندھیرے میں لاشوں کا امتحان کرنا مشکل تھا۔ بغیرامتحان مصلوبوں کی موت کا یقین نہ ہوسکتا تھا۔لہذا قرائن سے ظاہر ہے کہ لاشوں کا ا متحان اندھیرا گذر جانے کے بعد شروع ہوا تھا۔ مرقس۳۳:۱۵-۴۱‘متی۴۵:۲۷-۵۶‘لوقا ۴۴:۲۳-۴۹یوحنا۲۸:۱۹-۳۰پس سرکاری ذمہ دار افسروں نے لاشوں کا امتحان کرنے کے بعد یسوع مسیح کو مردہ پایا۔دوسرے دو ملزموں کی موت میں شبہ کیا۔اِس لئے ان کی ٹانگیںصلیب پر ہی توڑ کر چکنا چور کردی گئیں۔پر یسوع مسیح کی ٹانگیں نہ توڑ ی گئیں۔بھالے سے اِس کے دل کو چھید ا گیا تو اس میں سے پانی اور خون بہ نکلا۔یوحنا۳۱:۱۹-۳۷۔اس کے بعد یسوع مسیح کی رہی سہی زندگی بھی رخصت ہوگئی۔یہودیوں اور رومیوں کو یسوع مسیح کی موت کا پختہ یقین ہوگیا اور اس کی موت کا اعلان کردیا گیا۔

۹-گھنٹہ صلیب کے دکھ اٹھا کر سیدنا مسیح وفا ت پا گئے

یسوع مسیح نے پیر کی شام کو شاگردوں کے ساتھ کھانا کھایا تھا۔اس کے بعد ا س کے کھانا کھانے یا پانی پینے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔اس کے سو ا گرفتاری کے قبل ہی وہ موت کی سختی اور تلخی کے احساس میں اس قدر کمزور اور ضعیف ہوگیا تھا کہ گتسمنی کے باغ میں دعا کے وقت فرشتہ ا سے تقویت دیتادکھایا گیا ہے لوقا۴۳:۲۲-۴۴۔اس کے بعدگرفتاری کے وقت سے وہ شب وروز بھوکا پیا سا عدالتوں میں پیشیاں بھگتتا رہا۔منگل کی رات سے جمعہ کی صبح تک وہ رنج وغم سے سو کھتا رہاجس سے اسکی جسمانی قوت خشک ہو تی گئی۔صلیب دینے کے حکم کے صادر ہونے کے بعد وہ اِس قدرکمزور تھا کہ وہ اپنی صلیب اٹھانے کے بھی قابل نہ تھا۔مثلاًملاحظہ ہو۳۲:۲۷،مرقس ۲۱:۱۵،لوقا۲۶:۲۳۔پس اصل حقیقت تو یہ ہے کہ یسوع مسیح مصلوب ہونے سے پہلے ہی بہت حد تک مصلوب ہوچکا تھا۔ ا س پر ا س کا صلیب دیا جانا اور ۹گھنٹہ تک صلیبی دکھوں کی آگ میں جلناا س کی موت کیلئے کافی سے زیادہ وقت تھا۔ چونکہ پیلاطس کویسوع مسیح کے صلیب پانے سے پیشتر کی حالت کا علم نہ تھا۔اس لئے اس کا صلیب پر ۹گھنٹہ دکھ پانے کے عرصہ میں یسوع مسیح کے مرنے کی خبر سنکر تعجب کرنا کسی طرح سے کسی مخالف کیلئے یسوع مسیح کی عدم وفات کی دلیل نہیں بن سکتا۔یسوع مسیح کی وفات صلیب کے د کھوں سے اور بھالے کے زخم سے دل کے پھٹ جانے سے واقع ہوگئی تھی۔ اس آخری با ت کو ہمیشہ یاد رکھنا  چاہیے۔اس کے سوا اس کے جلد ی مرنے کی وجہ یہ بھی تھی کہ ا س نے صلیب پر ایلی۔ایلی لما سبقتانی کہکر دعا مانگی تھی کہ اے میرے خدا۔اے میر  ے خداتونے مجھےکیوں چھوڑا ہے؟یعنی صلیبی دکھوںمیں کیوںچھوڑرکھا ہے؟اس کی دعا سنی گئی۔ وہ صلیب پا نے کے بعدبہت جلد وفات پا گیا۔اس کے دشمن اس پرضر ور غالب ہو ئے۔ اس وقت آج تک  یہو دی اور عیسا ئی  اور رومی اس با ت پر متفق ہیں کہ یسوع مسیح صلیب پر ضرور مرا تھا۔اس حقیقت کا سنکر ان کی نظر وں میں کذاب ہے۔

اگر سیدنا مسیح  صلیب پر نہ مر  ےتو یہ ذمہ داری عیسا یئوں کی نہیں ہو سکتی ہو

سیدنا مسیح کے شاگردمسیح کو دشمنوں کے حوالے کرکے اس سے ر خصت ہوگئے۔ وہ یسوع مسیح کی بابت تمام ذمہ داری حکام اور یہودیوں کے فرض کا حصہ بنا کر یسوع مسیح سے جدا ہواگئے۔ یہ دشمنوں کاکام تھا کہ وہ یسوع مسیح کو صلیب پر ختم کردیتے۔ انجیل شاہدہے کہ انہوں نے اپنا کام وفاداری سے پورا کیا۔ انہوں نے یسوع مسیح کی زندگی کو صلیب پر ختم کردیا۔اب اگر اس پر بھی یسوع مسیح زندہ رہ گیا ہو تو سرسّید احمد خاں اور ا ن کے ہمخیال احمدی یسوع مسیح کے دشمنوں کی جان کو روتے رہیں۔۔ان کو کو ستے رہیں وہ یسوع مسیح کے دشمنو ں کی بدنامی کرتے رہیں کہ ا نہوں نے اپنافرض پورا نہیں کیا تھا۔ لیکن ان کا عیسائیوں کو یہاں پر یہ الزام دینا کہ عیسائیوں کا یہ کہنا غلط ہے کہ یسوع مسیح صلیب پر مرگیا تھا۔سراسر حق کا خون کرنا ہے۔ اجی صرف عیسائی یہ بات نہیں کہتے ہیں بلکہ عیسائیوں کے دشمن بھی یہی بات کہتے ہیں۔اب وفات کے منکر ین ثابت کریں کہ یسوع مسیح صلیب پر مرا نہ تھا بلکہ صرف بیہوش ہوگیا تھا۔

سیدن مسیح کا کفن دفن

انجیلی بیان یسوع مسیح کے کفن ودفن کے متعلق بالکل صاف ہے۔ملاحظہ ہو متی ۵۷:۲۷-۶۱‘ مرقس۴۲:۱۵-۴۷‘لوقا۵۰:۲۳-۵۶‘یوحنا۳۸:۱۹-۴۲۔اس کے ساتھ ہی انجیل سے پایا جاتاہے کہ قبر تین دن تک سرکاری پہرے میں رکھی گئی۔ متی ۶۲:۲۷-۶۶‘یسوع مسیح کے دشمن ا س کی قبر اور لاش کی حفاظت میں جو کچھ کرسکتے تھے۔انہوں مقدور بھر کیا جرات و دلیری  ہو سکتی تھی کہ وہ محا فظوں  کی طا قت کا مقا بلہ کر کے انہیں شکست دیو ے اور قبر و نعش مقدس پر قبضہ  کر ے۔پھر اس قبضہ سے کسی نے لینا ہی کیا تھااور اس سے حاصل ہی کیا کرناتھا۔کسی عیسائی کہ اس پر قبضہ کرنے کی نہ توفیق تھی نہ طاقت حاصل تھی وہ شاگرد جو اپنی جانیں لیکرگرفتاری کے وقت بھاگ گئے تھے۔ قبر کے پہر ہ کی ننگی تلواروں کا مقابلہ کرنے کے بالکل ناقابل تھے۔ اگر بفرض محال وہ قبر کے پہرہ کو شکست دیکر قبر اور یسوع مسیح کی نعش مقدس پر قابض بھی ہوجاتے تو وہ بے جان نعش کو چرا کر کیا کرتے ؟اسکا تو لازمی نتیجہ یہ ہوتا کہ اس کے تمام شاگرد جو اپنے استاد کی بابت تھوڑا بہت اعتقاد رکھتے تھے۔ا ن کا وہ ا عتبار بھی نعش مقدس کے بے جان ہونے سے جاتارہتا۔ اور عیسائیت بالکل فنا ہوجاتی۔ پس یسوع مسیح کے کفن ودفن کے بعد یسوع مسیح کی قبر اور آپ کی نعش مقد س کا تین دن تکسرکاری حفاظت میں رہنا ثابت کرتا ہے کہ یسوع مسیح کی قبر اور نعش کی حفاظت کی ذمہ داری یسوع مسیح کے شاگرد وں کے فرض کا حصہ نہ تھی۔ بلکہ یسوع مسیح کے دشمنوں کے فرض کاحصہ تھی۔ اب اگرایسی حفاظت کے پہروں میں سے یسوع مسیح کی لاش گم ہوجائے تو انجیل اور مسیحیت کے مخالف اس کا جواب خود رومی حکومت اور یہودی قوم کے ساتھ ملکر ہمیں دیویں۔کہ ا نہوں نے کیوں نعش مقدس کو گم ہونے دیا۔ہم تو اس بات کے جوابدہ ہوہی نہیں سکتے ہیں۔

تیسرے دن کی صبح کے وقتسیدنا مسیح کی قبر سے نعش مقدس غا ئب

یسوع مسیح کی نعش مقدس کے تیسرے روز زندہ ہونے کے واقعہ کے بارے میں چارو ں انجیلوں میں سکوت ہے کسی انجیل میں یہ بات بیان نہیں کی گئی کہ یسوع مسیح کیونکر زندہ ہوا؟زندہ ہوتے وقت قبر میں اور یسوع مسیح کے طبعی جسم میں کیا کیاتبدیلیاں واقع ہوئیں۔ان تبدیلیوں کو کس نے دیکھا متی۱:۲۸-۱۰،تک فرشتوں کی آمد کا اور قبر کے نگہبانوں کے بیہوش ہونے کا تو ذکر ہے پر یسوع مسیح کے زندہ ہونے کی یہاں پر بھی کوئی کیفیت بیان نہیں کی گئی۔ نہ مرقس ۱:۱۶-۸،لوقا۱:۲۴-۱۰،یوحنا ۱:۲۰،میں اس کے متعلق کچھ روشنی پائی گئی ہے۔یہ ایک امر اتفاق تھا کہ ہفتہ کے پہلے دن چند مسیحی عورتیں یسوع مسیح کی نعش مقدس پر خوشبو ملنے کو گئیں۔اور انہوں نے جا کر قبر کو بے حفاظت اور کھلا پایا اور قبر سے ایک یاور فرشتوں یا آدمیوں کی زبانی سنا کہ یسوع مسیح یہاں نہیں ہے۔ وہ اپنے کہنے کے موافق جی اٹھا ہے۔خود انہو ں نے بھی یسوع مسیح کو زندہ ہوتے نہیں دیکھا تھا۔جب وہ قبر سے واپس آرہی تھیں۔تو انہوں نے یسوع مسیح کو خوبصورت رویا زندہ دیکھا اور دوسرے شاگرد وں کو اس بات کی خبر دی۔تب دوسرے شاگرد بھی قبر دیکھنے آئے اور قبر کو خالی پایا۔ قبر سے یسوع مسیح کی نعش مقد س تیسرے روز کی صبح کے وقت غائب پائی گئی۔اب کوئی عیسائی نعش مقدس کے غائب ہوجانے کاجوابد ہ اور ذمہ دار نہیں قرار پاسکتا ہے۔اس کی تمام ذمہ ذاری یسوع مسیح کے دشمنوں کے فرض کا حصہ تھا۔

یہ صر یح جھو ٹ  ہے کہ نعش مقدس کو مسیح کے شا گر د لے گئے

یسوع مسیح کی قبر سے آپ کی نعش مقدس کہاں گئی ؟ قبر اتوار کی صبح کو کیوں کھلی اور بے حفاظت پائی گئی۔پہرے والے کہاں گئے ؟ا ن کی تلاش کرو۔ان سے دریافت کرو۔وہ متی    ۱۱:۲۸-۱۵کے موافق قبر کے نگہبان یہودیوں سے مشورے کرتے نظر آتے ہیں۔ا ن سے کہلوایا جارہا ہے کہ وہ یہ بات مشہور کریں کہ یسوع مسیح کے شاگر د جب ہم سوتے تھے۔نعش مقدس کو چرا کر لے گئے۔ مگرانجیل یہودیوں اور پہرے والوں کی تمام شرارت کا راز فاش کررہی ہے کہ پہرے والے جھوٹ بول رہے ہیں۔نعش مقدس ا ن کی نگرانی میں غائب ہوئی ہے۔ ان سے دریافت کرنا چائیے کہ قبرسے نعش مقدس کہاں گئی ؟یسوع مسیح کے شاگرد مردہ نعش کے چورنہیں ہوسکتے۔اگر وہ چور قرار پائیں تو عیسائی مذہب جی ہی نہیں سکتا تھا۔ نہ مردہ نعش کے چور یسوع مسیح کے زندہ ہونے کی منادی کرسکتے تھے جو ا نہوں نے دکھائی۔لہذا یسوع مسیح کے شا گرد نعش مقدس کے چور نہ تھے۔تو بھی قبر سے یسوع مسیح کی نعش مقد س تیسرے روز غائب تھی۔ اس بات کے شاگرد گواہ ہیں۔انجیل شاہد ہے۔پہرے والے گواہ ہیں۔

مسیح کے زندہ ہو نے کی روائتیں اور شہا دتیں

یسوع مسیح کی قبر خالی ہے۔کوئی عیسائی یسوع مسیح کے لاش کے گم ہونے کا ذمہ دارنہیں اور نہ اس کا جوابدہ ہے۔ یہ یسوع مسیح کے قاتلوں کے فرض کا حصہ تھا۔ یہ یسوع مسیح کی قیامت کے منکروںکے فرض کا حصہ ہے کہ وہ یسوع مسیح کی نعش مقد س کی کم از کم تین روز تک حفاظت کرتے۔پر آپ کی نعش مقدس تیسرے روز کی صبح کے وقت قبر سے غائب پائی گئی۔اگر یسوع مسیح کے دشمنوں کے خیال کے موافق یسوع مسیح کی نعش مقد س کواس کے شاگرد ہی لے گئے تھے تو بھی دشمنوں کی ذمہ داری کم نہیں ہوسکتی۔ اس کے دشمنوں کے موقع کے شاہدوں کی زیادہ سے زیادہ یہ شہادت ہے کہ جب ہم سوتے تھے ا س وقت یسوع کے شاگرد نعش مقدس کونکال کر لے گئے۔ اب یا تو ان کا سونے کا عذرکرنا باطل ہے۔یا سوتے وقت یسوع مسیح کے شاگردوں کا نعش مقدس کو لے جانا باطل ہو ؟ یونکہ سوتے ہوئے محافظ یہ بات جان ہی نہ سکتے تھے کہ کون نعش مقدس کو لے گیا۔بہر حال یسوع مسیح کی قبر تیسرے دن کی صبح کے وقت سے خالی تھی اور قبرکاخالی پایاجانا یسوع مسیح کے شاگرد وں کے نزدیک اس کے زندہ ہونے کا ایک ثبوت تھا۔ مگر یہ ایسا ثبوت نہ تھا کہ جس پر وہ پورا اعتماد کرسکتے اور انہوں نے اس پر اعتماد بھی نہ کیا۔ جب تک یسوع مسیح نے اپنے ظہورات سےا نہیں زندہ ثابت نہ کیاوہ سے مردہ ہی یقین کرتے رہے۱۶: ۹ -۱۱

مسیح کے ظہورات اور اس کی روائتیں

انجیل مقدس میں یسوع مسیح کی روئتیں اور اس کے ظہورات حسب ذیل مذکور ہوئے ہیں۔ّل۔

وہ ظہورات جو ہفتہ کے پہلے روز ہوئے( ۱)یسوع مسیح مریم مگدلینی پر ظاہر ہوا یوحنا۱۱:۲۰۔۱۸‘مرقس ۹:۱۶،(۲)دیگر مستورات پر جو قبر پر گئی تھیں آپ کا ظہور ہوا متی ۹:۲۸ ،(۳)پطر س پر ظاہر ہوا۔لوقا ۳۴:۴‘۱۔کرنتھیوں۵:۱۵،(۴)اماﺅس جانے والے شاگردوں پر ظاہرہوا لوقا ۱۳:۲۴۔۳۵‘مرقس ۱۲:۱۶،(۵)بغیر توما شاگردوں پر ظاہر ہوا یوحنا۔۔۔۔۔،یہ پانچ ظہور ہفتہ کے پہلے روز وہوئے تھے جو بعد کو ہوئے ان کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ (۶)توماسمیت شاگردوںپر ظاہر ہوا۔ یوحنا۲۵:۲۔۲۹‘مرقس۱۴:۱۶۔۱۸‘(۷)گلیل کے کنارے سات شاگردوں نے آپ کو دیکھا یوحنا۱:۲۱۔۴‘(۸)پانچ سو شاگردوں نے آپ کو دیکھا متی۱۶:۲۸۔۲۰‘۱۔کرنتھیوں۶:۱۵،(۹)یعقوب نے آپ کو دیکھا ۱۔کر نتھیوں۷:۱۹،(۱۰)یروشلیم میں شاگردوں نے آپ کو دیکھا اعمال۳:۱-۵’۱۔کر نتھیوں۷:۱۵، (۱۱)بیت عنیا کے قریب صعو د کے وقت شاگردوں نے آپ کو دیکھا اعمال۔۔۔۔،مرقس ۱۹:۱۶،لوقا ۵۰:۲۴۔ ۵۴(۱۲)پولوس رسول نے آپ کو دیکھا اعمال ۱:۹۔ ۹۔انجیل مقدس میں زیادہ سے زیادہ یہی ظہورمذکورہوئے ہیں مکاشفہ کی روئتیں اس شمار سے باہر ہیں۔انجیل کے مقامات مذکورہ بالا بیان میں یسوع مسیح کی بابت خاص باتیں جو آپ کے ظہورات سے متعلق ہیں اور سوچنے کے لائق ہیں وہ حسب ذیل ہیں۔

(۱)کہ جن لوگوں پر یسوع مسیح کا ظہور ہواایک کے سوا باقی سب یسوع کے شاگردتھے(۲)جن لوگوں پر یسوع مسیح کا ظہور ہوا وہ سب کے سب تندرست اور صاحب عقل وفکر تھے۔ان میں کوئی دیوانہ نہ تھا (۳)جن لوگوں پر یسو ع مسیح کا ظہورہوا وہ یسوع مسیح کی صلیبی موت کی شکست سے اور یہودیوں کے غلبہ سے سخت خائف اور لرزاں تھے۔چھپ چھپ کر اوقات بسر ی کرتے تھے۔وعظ ونصیحت چھوڑ کر اپنا مچھلی پکڑنے کاکام شروع کرچکے تھے۔تو بھی ایک جگہ غالباًدعا کیلئے فراہم ہوا کرتے تھے۔ ہیکل میں بھی جاکر عبادت کیا کرتے تھے۔(۴)یسوع مسیح اپنے ظہور کے وقت ایسا جسم رکھتا تھا جو طبعی وقدرتی جسم نہ تھا۔گو اس کے ہاتھ پاﺅں کے اور پہلو کے زخم بروقت ظہور نظر آسکتے تھے تو بھی آپ کا جسم طبعی نہ تھا۔(۵)بر وقت ظہور آپ جس جسم میں شاگردوں پر ظاہر ہوتے رہے وہ جسم ا ن قیود وحدود سے آزاد تھا جو طبعی و قدرتی جسم کو لازم ہیں وہ ان حوائج وضروریات سے مستعفی تھا جوطبعی وقدرتی جسم کو ملزوم ہیں(۶)وہ بند دروازوں کے مکان میں ظاہر ہوسکتا تھا۔پھر وہیں غائب ہوسکتا تھا۔وہ کھلے میدانوں میں ظاہر ہوسکتا تھا۔وہ ایک دم پہچانا نہ جاتا تھا۔اگرچہ بعض وقت ا س نے شاگردوں کو یقین دلانے کے لئے ان کے ساتھ کھانا کھاکر دکھا یا پر وہ کھانے پینے کا محتاج ظاہر نہ کیاگیا۔وہ بعض دفعہ صبح کے وقت ظاہرہوا۔بعض دفعہ دوپہر کے وقت ظاہر ہوا۔بعض دفعہ شام کے وقت ظاہر ہوا۔بعض دفعہ معمولی صورت میں ظا ہر ہوا۔بعض دفعہ غیر معمولی صورت میں ظاہر ہوا۔جیسے پولس پر۔بعض دفعہ ا یک ایک کو نظر آیا۔بعض دفعہ دو دوپر ظاہر ہوا۔بعض دفعہ دس افراد پر ظاہر ہوا۔بعض دفعہ گیارہ پر ظاہر ہوا۔بعض دفعہ سات نفوس نے ا سے دیکھا۔بعض دفعہ پانچ سو نے اس کا دیدار کیا۔(۷)اس نے بروقت ظہورشاگردوں سے کلام کیا۔اپنے زندہ ہونے پر گواہی دی اور شاگردوں کی بے اعتقادی پر ملامت کی۔ا ن کو تسلی دی اور تمام دنیا میں منادی کرنے کے متعلق حکم احکام دئیے۔روح القدس کے انعام کے وعدے کئے۔اس اِنعام کے حصول تک ا نہیں یروشلیم میں ٹھہرنے کی تاکید فرمائی۔ لیکن یہ تمام باتیں اس نے اِس لئے کیںکہ اس کے شاگرد ا س کے مردو ں میںسے زندہ ہونے کا یقین کریں۔(۸)وہ ان کے درمیان آخری دفعہ ظاہر ہو کر ضرور آسمان پر اٹھایا گیا اور آسمانی فضا میں غائب ہوگیا۔ (۹)مندرجہ صدر حالات اسبات کے شاہد ہیں کہ انجیل میں یسوع مسیح کے ز یر نظر جملہ ظہورات اس کے شاگردوں کی روئتیں ہیں۔ مکاشفے ہیں جو انہوں نے وقتاً فوقتاًدیکھے تھے۔ا نہوں نے ہرگز مسیح کو اس جسم میں نہیں دیکھا۔ جو مصلوب ہونے کے بعد یوسف ارمتیہ کی قبر میں دفن کیاگیا تھا۔تو بھی اسی جسم کے عین مشابہ جسم میں دیکھا۔یسو ع مسیح کی روئتیں عہد قدیم کے خداوند کے فرشتہ کی رویتوں کی شکل تھیں۔فرق صرف زمان ومکان کا تھا۔ رویا دیکھنے والوں کا تھا۔فرشتہ کے ظہورات میں نامحرم انسانوں کی شکل میں فرشتہ مذکور نظر آیا کرتا تھا۔پر یسوع مسیح کے کشفی ظہورات میں وہی مسیح ایک محرم انسان یسوع ناصر ی کی شکل میں نظر آتا رہا۔ پس عہد قدیم میں خداوند کافرشتہ اور عہد جدید میں مسیح موعود کی روائتیں واحد ہستی کے ہی ظہورات تھیں۔پہلے ایک نامحرم انسان کی صورت میں وہ ہستی بزرگوں پر ظاہر ہوتی رہی۔ ایسی حالت میں یسوع مسیح کے شاگردوں کا یسوع مسیح کے زندہ ہوجانے کا اعتقاد کرنا ہر گز غلطی نہ تھا پر حقیقت پر مبنی تھا۔خداوند کے فرشتہ کے ظہورات کے متعلق دیکھو۔”ہماری بائبل اورمسلم علماء“نامی کتاب کو (۱۰)یسوع مسیح کے شاگردوں پر یسوع مسیح کے ظہورات کا اثر بلاشک قدرتی طور سے ایسا ہی ہوا جیسا کہ اس کے طبعی وقدرتی جسم کے زندہ ہونے سے ہونا چاہیے تھا۔ جسے صلیب قبر میںدفن کیا گیا تھا۔یہ حقیقت اعمال کی کتاب اور نئے عہد کی باقی کتابوں سے ا ور تاریخ سے ثابت ہوسکتی ہے۔پس رسولوں کی قیامت کی منادی کرنا بالکل ان کے علم و تجربہ کے عین موافق تھا۔جس کی صداقت اس بات سے بھی ظاہر ہوتی تھی کہ مسیحیت کے دشمن یسوع مسیح کی لاش کے محافظ ہو کر اسکی لاش کاپتہ نشان دینے سے عاجز تھے۔پس مسیحی نوشتے یسوع مسیح کے طبعی جسم کے تیسرے روز زندہ ہونے کی منادی نہیں کرتے ہیں۔ بلکہ یسوع مسیح کے قیامتی جسم میں دیکھے جانے کی منادی کرتے ہیں۔جو اس کے شاگرد دن کو رویتوں میں دکھائی دیا تھا۔ اور جس جسم میں یسو ع مسیح روتوں میں نظر آیا تھا۔وہ جسم من وعن وہی نہ تھا جو قبر میں دفن کیا گیا تھا۔غرضیکہ یسوع مسیح کی رویتوں نے شاگردوں پر وہ تمام پیشینگوئیا ں پوری کرکے دکھادیں جو ا اور دفن ہونے اور تیسرے دن زندہ ہونے کے متعلق کی تھیں۔ان رویتوں کایہ نتیجہ ہوا کہ یسو ع مسیح کے بے وفا ڈرپوک شاگر د شیردل اور مسیحیت کی برہنہ تلوار بنگے۔ (۹)ایک اور بات سمجھنے کیلئے باقی رہ گئی ہے۔اور وہ یسوع مسیح کی دوسری آمد کا مسئلہ ہے۔اس بات پر شبہ نہیں ہوسکتا کہ یسوع مسیح نے اپنی زمینی زندگی کے ایام میں اپنی دوسری آمد کا صفائی سے ذکرکیاتھا۔مثلاًاس نے اپنا دوبارہ آنا اور اسی پشت میں ظاہری بیان کیا تھا۔جس پشت میں آپ اور آپ کے رسول زندہ تھے متی ۳۲:۲۴۔۳۴،مرقس ۲۸:۱۳۔۳۰،لوقا ۲۹:۲۱۔۳۲۔ان مقامات کو روبرو رکھ کر جب یسوع مسیح کے اس کلام کودیکھا جاتا ہے جو آپ نے ظہورات کے وقت اپنے شاگردوں سے کیا تھا تو معلوم ہوتا ہے کہ یسوع مسیح کی دوسری آمد سے ایک مراد اس کا شاگرد وں پر آپ کو مردوں میں سے زندہ ثابت کرنا تھا۔ متی میں آیا ہے اور دیکھو میں دنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۲۰:۲۸،مرقس۲۰:۱۶ اور اعمال کی کتاب ۱۱:۱سے معلوم ہوتا ہے کہ جس یسوع مسیح کے شاگردوں نے ظہور دیکھے اور جو رویا کی حالت میں ا ن کے دیکھتے ہوئے آسمان پرا ٹھایا گیا تھا۔

اسی  یسوع مسیح کے آنے کا پھر وعدہ ہوا جس سے یسوع مسیح کی دوسری آمد کی حقیقت بالکل صاف واضح کردی گئی ہے کہ یسوع مسیح دوبارہ آچکا۔ اس کی دوسری آمد سے مر اد اس کا اسی معا نی میں آنا تھا۔ لیکن اسکی آمد کی ا بتدا اور انتہا کے درمیان دنیا اور مسیحی کلیسیاءکے واقعات کا نہایت وسیع سلسلہ بیان ہوا ہے۔ان واقعات کے وقوع کے ساتھ بھی آپ کی آمد کا گہرارشتہ دکھایاگیا ہے۔ غرضیکہ انجیل مقدس جس یسوع مسیح کے دوبارہ آنے کا ذکرکرتی ہے وہ مصلوب مسیح کی اس شخصیت کے دوبارہ آنے کا ذکر کرتی ہے۔جو اس کے شاگردوں پراپنے دفن ہونے کے تیسرے دن بعد ظاہر ہوتا رہا جو اپنے شاگردوں کے ساتھ آج تک رہا اور ہمیشہ تک رہیگا۔انجیل مقدس اسکے سوا کسی زمینی زندگی کے نبی یا مسیح کے آنے کا وعدہ نہیں دیتی۔البتہ جھوٹے نبیوں اورمسیحائی کے جھوٹے دعویداروں کے آنے کی ضرو ر خبر دیتی ہو متی  ۵:۲۴۔۱۱،مرقس ۔۔۔۔۔۔۔

دوسری فصل

مسیحی قر با نی اور کفارہ کا بیا ن

جلہ برادران اسلام خصوصاًمرزا غلام احمد صاحب اور آپ کے مرید یسوع مسیح کے قربانی اور کفارہ ہونے پر سخت معترض چلے آئے ہیں۔ان کو سمجھانے کیلئے مسیحی قربانی اور کفارہ کا نہایت مختصر بیان کئے دیتے ہیں۔شائد سعید روحوں کی سمجھ میں قربانی اور کفارہ کا مطلب آجائے اور و ہ فیوض ِ کفارہ فیضاب ہوجائیںوہ بیان حسب ذیل ہے۔

مسیحی قربانی اور کفارہ کے متعلق جو بیان ہم ذیل میں پیش کرنیوالے ہیں۔وہ بیان الفضل قادیان کے جواب میں نور افشاں میں شائع کرچکے ہیں۔ جسکی تردید میں الفضل قادیان پھر لب کشائی نہیں کرسکا تھا۔ہم پہلے الفضل کا بیان پیش کرتے ہیں اور پھر اپنا جواب لکھتے ہیں۔ناظرین کرام ہر دوبیانات کو غور سے پڑ کر احمدی قربانی اور کفارہ کا مسیحی قربانی اور کفارہ سے مقابلہ کرکے دیکھیں تو حقیقت ظاہر ہوجائیگی۔

دفعہ ۱۔الفضل کا بیا ن

مسیحی صاحبان کفارہ کی تا ئیدمیں یہ بیان فرمایا کرتے ہیں کہ دیکھو تم بھی تو قربانیاں کرتے ہو۔ایک بکرا یا بقرہ ذبح کرتے ہواور شفا ءتمہارے مریض کو ہوجاتی ہے۔اگر کفارہ صحیح نہیں اور یہ بات درست نہیں کہ تکلیف ایک برہ برداشت کرے اور آرام دوسرے کو ہوتو اس طرح تمہاری قربانی بھی لغو بھاتی ہے۔لیکن تم مانتے ہو کہ ذبح جانور کئے جاتے ہیں اور ثواب تمہیں ہوتا ہے۔اسی طرح مسیح ہمارے لئے قربان ہوا۔یہ ایک مغالطہ ہے جو ادنےٰ تالّلسے دور ہوجاتا ہے۔اسلامی قربانیوں سے یہ مراد ہوتی ہے کہ انسان اپنی ایک محبوب چیز اپنے پاس سے جدا کرتا ہے۔خدا کی رضا حاصل کرنے کیلئے اور اس بات کے اظہار کیلئے کہ خدا کی راہ میں وہ ہر ایک چیز قربان کرنے کو تیار ہے چاہے۔اسے وہ چیز کتنی ہی محبوب کیوں نہ ہو اور اس قربانی کا اثر قربانی کرنے والے پر پڑتا ہے۔ مثلاًایک شخص ایک برہ کی خداکیلئے قربانی کرتا ہے تو اس سے ظاہری طور سے مالی نقصان ہوتا اور وہ اپنا نقصان برداشت کرکے خدا کی رضا جوئی چاہتاہے۔لیکن برخلاف اس کے مسیح اگر قربان ہوسکتا تھا تو خدا کی کسی کمزوری کے رفع کرنے کیلئے ہوسکتا تھا نہ کہ انسانوں کیلئے۔کیونکہ اس کے صلیب پر دئیے جانے سے انسانو ں کو اپنے پاس سے کوئی چیز جدا نہیں کرنی پڑی۔ ہاںخدا کو اپنا اکلوتا قربان کرنا پڑا۔اس لئے مسیح کی قربانی سے عملی طور پر کسی انسان پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا۔نیز ایسی قربانی تسلیم کرنے سے انسانوں کو کوئی محنت برداشت نہیں کرنی پڑتی اور اباحت کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ کیونکہ جب انسان دیکھتا ہے کہ مسیح پر میرے تمام گناہ بغیر کسی تکلیف برداشت کرنے کے ڈالدئیے گئے تو و ہ سمجھتا ہے کہ مجھے نیک کام کرنے کی کیا ضرورت ہے۔لیکن اسلامی قربانی سے عملی طور پر قربانی کرنے والے پر اثر پڑتا ہے اور ایک تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے جس کے نتیجہ میں اس قربانی کا اثر بھی اس پر پڑتا ہے۔ہماری طر ف سے عیسائی صاحبان پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ واقعی اگر مسیح کا مقصد انسانوں کیلئے قربان ہونا تھا تو پھر انہیں جزع فزع کی کیا ضرورت تھی اور کیوں انہوں نے گریہ وزاری سے دعائیں کیں کہ اگر ہوسکے تو اے خدا یہ پیالہ مجھ سے ٹال دے اور صلیب پر نہایت دردناک الفاظ میں ایلی ایلی لما شبقتنی کہتے رہے۔اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ دیکھوتم قربانی کرتے ہو۔لیکن جسے قربان کیا جاتا ہے وہ چیختی چلاتی ہے۔اس لئے مسیح کے چیخنے چلانے سے قربانی پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔اس کا جواب یہ ہے کہ ہماری قربانی میں شعور نہیں ہوتا وہ بے شعور ہوتی ہے۔اس میں صرف حیوانی شعور ہوتا ہے جسکی وجہ سے و ہ چیختی ہے۔کیونکہ حیوانوں میں صرف یہ شعور ہے کہ وہ اپنے آپ کو جہاں سے دکھ  تکلیف پہنچے بچا ئیں۔لیکن مسیح تو بقول آپ کے خدا تھے پھر ایسی جزع فزع کی کیا ضرورت تھی۔اس قربانی سے تو بڑ ھ کر مولوی نعمت اللہ خاں صاحب شہید کی قربانی ہے کہ باوجود پتھر کھا کر جان دینے سے نہیں گھبرائے اور بڑی بہادری سے آخری دم تک احمدیت کے عقائد حقہ کی اشاعت کرتے رہے اوربڑی خوشی سے انہوں نے جان دی۔ایک انسان جب ایسا کرسکتا ہے۔تو کیا وجہ ہے کہ خداسے ایسا کام نہ ہوسکے۔ جس سے یہی نتیجہ نکلتاہے کہ حضر ت مسیح کا یہ مقصدتھا۔بلکہ وہ دیکھتے تھے کہ میرے مقصد میں یہ بات مخل ہے۔اس لئے وہ گبھرائے اور خدا سے دعائیں کیں جو منظور ہوئیں۔ عبد الاحد (مولوی فاضل) قادیان

دفعہ ۲۔الفضل کی تر دی میں ہمارا مسکت جو اب

ہمعصر الفضل نے ۹جولائی ۱۹۲۶ءکی اشاعت میں ”قربانی اور مسیحی کفارہ میں فرق“کے عنوان سے بحث کی ہے۔ آپ نے قربانی اور کفارہ کے متعلق لکھا ہے۔

مسیحی صاحبان کفارہ کی تائید میں یہ بیا ن کیا کرتے ہیں کہ دیکھو تم بھی قربانیاں کرتے ہو۔ ایک بکرا یا بقرہ ذبح کرتے ہو اور شفا تمہارے مریض کو ہوجاتی ہے۔ اگر کفارہ صحیح نہیں اور یہ بات درست نہیں کہ تکلیف ایک برہ برداشت کرے اور آرام دوسرے کو ہوتو اس طرح تمہاری ہی قربانی بھی لغو ہوجاتی ہے لیکن تم مانتے ہو کہ ذبح جانور کئے جاتے ہیں اور ثواب تمہیں ہوتا ہے۔اسی طرح مسیح ہمارے لئے قربان ہوا۔اگر بیان مافوق کو مسیحیوں کا ہی بیان تسلیم کرلیا جائے تو یہ ایک نہایت مختصر اور ناقص ونا تمام بیان ہے۔جس میں کسی مسیحی کا حوالہ نہیں دیا گیا۔ نہ کسی کتاب کا حوالہ مذکور ہے۔راقم مضمون نے اس بیان کو اس وجہ سے ادھورا نقل کیا ہے تاکہ اسے جواب دینے میں سہولت اور مسیحی کفارہ پر اعتراض اٹھانے میں آسانی ہوجائے۔پر اِس پر بھی آپ جواب دیتے ہوئے قربانی کی قدر ومنزلت کا صفایا کر بیٹھے ہیں۔ آپ اعتراض مافوق کا جواب حسب ذیل لکھتے ہیں۔

اسلامی قربانیوں سے یہ مراد ہوتی ہے کہ انسان اپنی ایک محبوب چیز اپنے پاس سے جدا کرتا ہے۔خدا کی رضا حاصل کرنے کیلئے اور اس بات کے اظہار کیلئے کہ خدا کی راہ میں وہ ہرایک چیز قربان کرنے کو تیارہے۔چاہے اسے وہ چیزکتنی محبوب کیوں نہ ہو اور اس قربانی کا اثر قربانی کرنے والے پر پڑتا ہے۔

جائے غور ہے کہ انسان کی محبوب چیز وں کے مدارج میں انسان کے والدین ،بھائی ،بہن ،جورو ،بچے ،انسان کی اپنی ذات ،زمین ،سونا ،چاندی اور گھر بار کھیتی باڑی۔اقسام اناج ،گائے ،بھینس ،اونٹ ،گھوڑے ،بیل ،گدھے ،بکری ،بھیڑ وغیرہ۔مگر خدا کی رضا حاصل کرنے کیلئے عموماًبھیڑ ،بکری اور گائے اونٹ کی ہی قربانی ہوا کرتی ہے۔قربانی کرنے والوں نے خدا کی راہ میں کبھی اپنی ملکیت کی ہر ایک چیز قربان کرکے نہ دکھائی۔ادنےٰ جانور قربان کرنے پر ہی کفایت ہوتی رہی اور اعلے ٰ اور قیمتی چیز یں عموماًخدا کی رضا جوئی حاصل کرنے کیلئے قربان کرنے سے بچائی جاتی رہی ہیں۔بکری بھیڑوغیرہ سے انسان کو جس قدر محبت و انس ہے۔وہ بیان کا محتاج نہیں۔لاکھوں ہر روز ذبح ہو کر انسان کے پیٹ میں جاتی ہیں۔

خدا کی راہ کی بھی ایک ہی کہی۔قربان شدہ جانور تو خدا کی رضا جوئی کیلئے خدا کی راہ میں دئیے جاتے ہیں۔مگر پھر قربانی کرنے والے ہی ان مذبوح جانوروںکو ہانڈیوں یا دیگوں میں پکا کر خود ہی کھالےتے ہیں۔ معلوم نہیں کہ قربانی کرنے والوں نے خداکی رضا جوئی کیلئے خدا کی راہ میں خدا کو کیا دیا ؟اگر کچھ دیا تھا تو دیکر خود ہی کھاپی لیا۔کیا خدا کی راہ میں دینے کے یہی معنی ہیں؟جو لوگ قربانی میں خدا کی راہ میں بھیڑ بکری دیکر واپس لیکر خود ہی کھاپی لیتے ہیں۔ان سے کیا امید ہو سکتی ہے کہ وہ خدا کی راہ میں اپنی قیمتی سے قیمتی چیزیں دے سکیں؟ایسی قربانی کا قربانی والے پر صرف اس قدر اثر ہوسکتا ہے۔کہ اس نے قربانی کے نام سے ایک دو جانور ذبح کرکے گوشت خوب پیٹ بھر کر کھالیا اور اپنے عزیزواقارب اور دوستوں کو کھلا دیا۔یہ قربانی کے نام کی ایک دعوت بن گئی اگر ایسی قربانی سے اللہ کی رضا جوئی حاصل ہوسکتی ہے تو ہر ایک چیز سے جو انسان کے شکم میں جاتی ہے۔اللہ کی مقبولیت حاصل ہوسکتی ہے۔پھر قربانی کی کیا خصوصیت رہی ؟مزید برآں آپ لکھتے ہیں کہہماری قربانی میں شعور نہیں ہوتا وہ بے شعورموتی ہے۔ اس میں صرف حیرانی شعور ہوتا ہے۔جس کی وجہ سے وہ چیختی ہے۔کیونکہ حیوانوں میں صرف یہ شعور ہے کہ وہ اپنے آپ کو جہاں سے انہیں د کھ تکلیف پہنچے بچائیں۔ لیکن مسیح تو بقول آپ کے خدا تھے۔پھر ایسی جزع فزع کی کیا ضرورت تھی۔اس قربانی سے تو بڑھ کر تو مولوی نعمت اللہ خاں صاحب شہید کی قربانی ہے کہ باوجود پتھر کھا کر جان دینے سے نہیں گھبرائے بڑی بہادری سے آخری دم تک احمدیت کے عقائد حقہ کی اشاعت کرتے رہے اور بڑی خوشی سے انہوں نے جا ن دی۔الخ

اس تمام خارج از بحث باتوں کا جواب اس قدرہے کہ مولوی نعمت اللہ خا ں صاحب کی قربانی بقول آپ کے اس وجہ سے قربانی نہ تھی کہ آپ کی قربانیاں بے شعور ہوتی ہیں اور بے شعور ی میں جزع فزع کو دخل نہیں۔ جزع فزع شعوراعلےٰ کا ثبوت ہے۔جہاں جزع فزع کا ا ظہارنہیں وہاں بے شعوری ہے۔ پس آپ کی قربانیاں یا احمدیت کی قربانیاں قربانیاں نہیں ہیں۔کیونکہ ان میں شعور اور جزع فزع کی نفی پائی جاتی ہے مگرقربانی میں ان دونوں باتوں کی ضرورت ہے۔جیسا کہ بفضل خدا ثابت ہوگا۔

اگر غور فرمایا جائے تو معلوم ہوگاکہ الفضل نے ”قربانی اور مسیحی کفارہ میں فرق “کا مضمون شائع فرما کر احمدیت کی قربانیوں کی بھد کرالی۔ناظرین غورفرمائیں کہ الفضل نے احمدیت کی قربانیوں کو بے شعور اور جزع فزع سے خالی بتلاکر قربانی کی ا صلیت ہی سے ہاتھ دھو لئے ہیں اور کفارہ کی قربانی میں شعور اور جزع فزع کی حقیقت تسلیم کرکے ا س کی بنیاد کو محکم کردیا ہے۔اس پر نہایت سادگی سے لکھتا ہے۔کیونکہ اس کے صلیب پر دئیے جانے سے انسان کو اپنے پاس سے کوئی چیز جدا نہیں کرنی پڑی۔ ہاں خدا کو اپنا اکلوتا بیٹا قربان کرنا پڑا۔اس لئے مسیح کی قربانی سے عملی طور سے کسی انسان پر کوئی اثر نہیں پڑسکتا۔نیز ایسی قربانی تسلیم کرنے سے انسانوں کو کوئی محنت برداشت نہیں کرنی پڑتی۔ہم اس پر بھی ایک حد تک صاد کرتے ہیں کیونکہ یسوع مسیح کے دشمن یہود نے یہی سمجھا تھا کہ یسوع مسیح کو صلیب دینے سے اپنے پاس سے کچھ نہیں دینا پڑتا۔ نہ کوئی اچھی چیز جدا کرنی پڑتی ہے۔ خدا کا بیٹا صلیب دیا جاتا ہے۔ہمیں اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ نہ اس کا کچھ اثر ہم پر پڑتا ہے۔پر دنیا کی تاریخ نے ثابت کردیا کہ یہودیوں کے یہ خیالات باطل تھے۔قرآن شریف نے انہیں سورر اور بند ر بنادکھایا۔لعنت کے ماتحت چھوڑ دیا۔پس ہمیں تو ان لوگوں کے اِنسان ہونے میں بھی شبہ ہے جو کہتے ہیں کہ یسوع مسیح کے مصلوب ہونے سے اِنسان کو اپنے پاس سے کوئی چیز جدا نہیں کرنی پڑی وغیرہ۔ورنہ آج کے دن ۵۰کروڑ بنی آدم اس کے خلاف گوا ہ موجود ہیں جو مانتے ہیں کہ یسوع مسیح کے مصلوب ہونے میں اِنسانوں نے نہایت بیش قیمت شخصیت کو اپنے سے جدا کیا ہے۔اس کے مصلوب ہونے سے ان زندگیوں پر نہایت گہرا عملی اثر پڑا۔انہوں نے صلیبی دکھوں سے کمال درجہ کے دکھ کا احساس کیا ہے

نور افشاں مطبوعہ ۲۳جولائی ۱۹۲۶

اشاعت قریبہ میں ہم نے ا ختصاراً بات بتلائی تھی کہ احمدی اسلام کی قربانیاں اور کفارے نا درست ہیں۔ وہ قربانیاںقربانیاں ہی نہیں۔ ان میں خدا کی عزت کے بجائے بے عزتی نمایاںہوتی ہے۔ان کے کرنے والے قربانی کا مقصد ومدعا ہی نہیں جانتے وہ ایک قسم کی رسم ہے جس کا نام قربانی اورکفارہ رکھاگیا ہے۔آج ہم ناظرین کو قربانی اور کفارہ کا مطلب سمجھاتے ہیں۔معلوم ہو کہ مسیحی مقبولات میں مذہب کا مدعا یا مقصد محبت کی عبادت و خود انکاری ہے جس کا اعلےٰ مقصد ومدعا محبوب حقیقی سے تقرب کاحصول ہے۔کلام اللہ میں عبادتیں دوقسم کی مذکور ہوئی ہیں۔ایک کو مالی عبادت اور دوسری کو اعتقادی عبادت کے نام سے موسوم کیا جاتاہے۔ مختلف قربانیاں اور خیرات کی اقسام اور عیدیں مالی عبادت میں داخل کی گئی ہیں۔چنانچہ خدا کے کلام میں آیا ہے۔ بعد اس کے موسیٰ اور ہارون آئے اور فرعون کو کہا کہ خدا وند اسرائیل کا خدا یوں فرماتاہے کہ میرے لوگوں کو جانے دے تاکہ وہ بیابان میںمیرے لئے عید کریں۔خروج ۱:۱۵،۹:۱۰پھر اس عید کی عبادت کہاگیا ہے۔جیسا کہ لکھا ہے۔

خداوند یوں کہتا ہے کہ میرے لوگوں کو جانے دے تاکہ وہ میری عبادت کریں خروج ۱:۱۸، ۲۰ ‘۱۳,۱:۹‘۳:۱۰۔۱۱

تب فرعون نے موسیٰ کو بلایا اور کہا کہ تم جاﺅ خداوند کی عبادت کرو۔فقط تمہارے گلے اور تمہارے گائے بیل یہاں رہیں۔تمہارے بچے بھی تمہارے ساتھ جائیں۔ موسیٰ نے کہا کہ تجھے ضرور ہے کہ تو ہمارے ہاتھ میں قربانیاں اورسوختنی قربانیوںکیلئے ذبیحہ دے تاکہ ہم خداوند اپنے خدا کے آگے قربانی کریں۔ہمارے مواشی بھی ہمارے ساتھ جائینگے اور ایک کہربھی نہ چھوڑا جائیگا۔کیونکہ ضرور ہے کہ ان میں سے خداوند اپنے خدا کی عبادت کیلئے لیںاو ر جب تک وہاں نہ جائیں ہم نہیں جانتے کہ کون سی چیز وں سے خداوند کی عبادت کریں خروج۔ ۲۴:۱۰

کلام مافوق میں عید بمعنے عبادت وقربانی آئی ہے۔یہ ایسا صاف بیان ہے جسکی تفسیر وتوضیح کی مطلق ضرورت نہیں۔پس قربانیاں اورعیدیں یہودیوں کے نزدیک مالی عباد ت میں شمار ہوئی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی خیرات کی کل اقسام مالی عبادت میں داخل سمجھی گئی ہیں۔ امید ہے کہ اس بیان پر کسی احمدی کو انکار نہ ہوگا۔عبادت کی دوسری قسم اعتقادی عبادت ہے۔ یہ عبادت کی بنیاد مانی گئی ہے۔ یہ عبادت ابتداءمیں نہایت سادہ ہے۔عابد اس میں صرف اپنے اعتقاد کے موافق ایک وقت یادو وقت یا تین وقت یا چار وقت حسب توفیق اور فرصت خدا کے حضور دعائیں کرتا ہے۔حمد وستائش کیا کرتا ہے۔اس میں وقت کے سوا عابد اپنے مال میں سے کچھ خرچ نہیں کرتا۔ یہ عبادت ایماندار تنہائی اورجماعت کے سا تھ کرسکتا ہے۔اسی عبادت کے عابد پر مالی عبادت فرض ہوئی تھی۔جو شخص اعتقادی عبادت نہ کرسکتا تھا وہ اسرائیل میں شمار ہی نہ کیا جاتاتھا۔پر ہر ایک اسرائیلی اعتقادی عبادت ضرور کیا کرتا تھا۔ زبور کی کتاب اعتقادی کا ہی مجموعہ ہے۔کسی مخالف کو اعتقادی عبادت پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ نہ اعتقادی عبادت زیر بحث ہے۔ اس لئے اسکا ذکر ہی چھوڑا جاتا ہے۔

ما لی عبا دت کی مختصر کیفیت

احمدی اسلام کے مسلم سمجھے بیٹھے ہیں کہ وہ ان تمام چیزوں کے مالک ہیں جن پر الفاظ مال واسباب اور جائیداد کی دلالت ہوتی ہے۔اس لئے وہ قربانی میں ان چیزوں کو دیکر مغفرت کے امیدوار بن جاتے ہیں۔پر مسیحی سرے سے اس بات کے منکر   ہیں وہ کلام اللہ کی سند سے اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ انسان ان کا ہر گز مالک نہیں۔بلکہ ان کا ما لک  خداہے۔ اِنسان ان چیزوں کی ذات کے فوائد ومنافع کامالک ہے۔ اس لئے اِنسان قربانیوں او رمالی عبادتوں میں صرف اپنے منافع وفوائد ہی قربان کرسکتا ہے۔ چو نکہ قربانی کی چیز کی ذات اور اس ذات کے منافع اس چیز کوقربان کئے بغیر قربان نہیں ہوسکتے۔ جو قربان کی جاتی تھی۔ اس لئے کلام خدا میں خدا نے ان چیزوں کوجو قربان کی جاتی تھیں جلانے کا حکم دیا تاکہ قربانی کے جانور کی ذات کے جملہ منافع کسی انسان یا حیوان کی۔۔۔۔۔

چنانچہ کلام میں

سب جانوروں کا خدا مالک ماناگیا ہے۔زبور میں آیا ہے:۔

میں تیر ے گھر کا بیل نہ لونگا نہ تیرے باڑے کا بکرا کہ جنگل کہ سب جانور میرے ہیں۔ اور کوہستان کے حیوانات ہزار ہا ہزار میں پہاڑ کے سارے پرندوں سے آگاہ ہوں۔ اور دشتی چرند میرے ہیں۔ گر میں بھوکا ہوتا تو تجھ سے نہ کہتاکہ دنیا اورا سکی معموری میری ہے۔کیا میں بیلوں کا گوشت کھاتا ہوں ؟یا بکروں کا لہو پیتا ہوں ؟ تو شکر گزاری کی قربانیاں خدا کے آگے گذران اور حق تعالیٰ کے حضوراپنی نذریں ادا کر زبور ۹:۵۰۔۱۵ -پھر لکھا ہے کہ زمین خداوند کی ہے اور اسکی معموری بھی جہان اور اسکے سارے باشندےا سکے ہیں۔ زبور ۱:۲۴۔

عبا دت الٰہی میں جا نو روں کی ذات کے نفعو ں کو قر با ن کر نے کی اجا زت تھی

ہم نے کہا کہ قربانی کے جانور خدا کی ملکیت ہیں۔ اِنسان ا  ن کی ذات کے فوائد کاہی مالک ہے۔اِس لئے خدا کی طرف سے اِنسان کو اجازت دی گئی کہ وہ خدا کی عبادت میں ان جانوروں کی ذات کے فوائد کو قربان کردیوے جواسً کے قبضہ میں ہوتے ہیں۔مثلاًا سے یہ حق نہ تھا کہ وہ پھر ان جانور وں کی ذات کے فوائد سے نفع حاصل کرے۔چنانچہ کلام میں لکھا ہے۔

کیونکہ بدن کی حیات لہو میں ہے۔سو میں نے مذبح پر وہ تم کو دیا ہے کہ اس سے تمہارے جانوں کیلئے کفارہ ہو۔ کیونکہ وہ جس سے کسی جان کا کفارہ ہوتا ہے سولہو ہے۔اس لئے میں نے بنی اسرائیل کو کہا کہ تم میں سے کوئی خون نہ کھائے اورکوئی مسافر جسکی بودو باش تم میں ہے لہونہ کھائے۔احبار   ۱۱:۱۷

جائے غور یہ ہے : کہ جملہ جانوروں کی قیمت ان کی جان ہے۔ان جانو ں کی ذات کے فوائد جنکی قربانی کی اجازت تھی اندازوں سے باہر قرار پاسکتے ہیں۔ان فوائد کی کمی بیشی پر قربانی کے جانور قربانی کرنے والوں کی نظر میں کم قیمت یا بیش قیمت ہوا کرتے تھے۔چونکہ جانوروں کا خون کفارہ قرار پایا تھا۔ جسکا کھانا حرام ٹھہرایا گیا ہے۔چونکہ خون کو مذبح پر گذراننے کیلئے جانور کی ذات کو ذبح کرکے اسکی ذات کے تمام فوائد سے انسان کو دست بردار ہونا پڑتا تھا۔چونکہ جانور کی ذات کے فو ا ئد سے دستبرداری قربا نی کر نےوالے  کی ذات پر اثر انداز تھی۔چونکہ اِس سے اس کے اسباب معاش میں کمی واقع ہو کر اسے اس کے معبود کی محبت کا سبق سکھاتی تھی اور بتلاتی تھی کہ تیرا معبود ایسا ہے۔کہ اگر تو اسکی محبت وعبادت میں اپنا سب کچھ بھی نثار کردے تو بھی کم ہے۔دوسری  طرف یہی قربانی اس پر یہ بات بھی ظاہر کیاکرتی تھی کہ تیرا معبود ایسا پاک ومقدس ہے کہ ا سکا ا ور گناہگار کا باہمی تقرب اور میل جول محال ہے۔ اس لئے گنہگار اپنی جان کا کفارہ دئیے بغیر اس تقرب کو حاصل نہ کرسکتا تھا۔جوایک راستباز اورخدا میں تھا۔پس جملہ قربانیوں کی غایت عبادت تھی اور عبادت کی غایت عابد ومعبود کا تقرب تھا اور کفارہ وقربانی گنہگار عابد کو خدا کے تقرب میں بحال کرنے والی شے تھی۔یہ توقربانی اور کفارہ کا ایک تعلق بیان ہوا۔

کفارہ کی قربانی دیگر قربانیوں سے جدا ہے۔یہ قربانی سال میں ایک دفعہ بنی اسرائیل کے امام اعظم کی طرف سے ہوا کرتی تھی۔جسکا تمام خرچ ان نذرانوں سے ہوتا تھا۔ جو بنی اسرائیل خدا کی نذر کیا کرتے تھے۔گویا کفارہ کی قربانی اما م اعظم کی طرف سے تمام بنی ا سرائیل کے گناہوں کی مغفر ت کیلئے ہوتی تھی۔ یہ بنی اسرائیل کی گویا قومی عبادت تھی جو امام اعظم ہی کراسکتا تھا۔اس کا مقصد ومدعا بھی یہی تھا کہ بنی اسرائیل اس عبادت کے ذریعہ یہواہ کی قربت وبرکت کو حاصل کریں۔غرضیکہ عہدقدیم کی جملہ قربانیاں عبادت ہیں۔ ان عبادتوں کا اثر عابد وں کیلئے ایک طرف عابد کی خود انکاری اور معبود کی عزت وعبادت میں جان نثاری تھی۔ دوسری طرف مغفرت اور الٰہی مقبولیت تھی۔

لیکن افسوس کا مقا م ہے  کہ عہد قدیم کو ماننے والے قربانی اور کفارہ کا مطلب مذکور نہ سمجھے تھے۔انہوں نے قر با نیوں پر ہمیشہ زوردیا اور قر با نیاں کر تے رہے۔پر قربا نیوں سے ہو قر با نی کر نے والے کی اصطلا ح مطلوب تھی اسے انہوں نے با لکل فر ا مو ش کر دیا۔بد کا ریو ں اور بد اعملو ں پر اتر آئے۔اس بات کونہ سمجھے کہ خدا کاحکم ماننا قربانی چڑھانے سے افضل ہے۔انہوں نے قربانیوں کو اپنے گناہوں کا معاوضہ خیال کرلیا۔جب دلخواہ برائی کی تلافی میں قربانی چڑھانا اپنا دستور العمل بنالیا۔اس وجہ سے انبیاءنے خصوصاً یسعیاہ نبی نے ان کی اس بدروش کا خوب خاکہ کھینچا ہے۔اور قربانیوں کے دستور کو نامعقول ٹھہرایا ہے۔ملاحظہ ہو یسعیاہ ۱۰:۱۰۔۲۰‘۳:۶۶ہوسیع ۱۳:۱۸وغیرہ۔

پس عہد قدیم کی قربانیاں اور کفار ے اور عیدیں عہدقدیم کے انبیاءنے ہی لوگوں کیلئے غیر مفید ظاہر فرمادئیے۔کیونکہ جس حقیقت کے اظہار کے لئے ان قربانیوں اور عیدوں وغیرہ کی اجازت ہوتی تھی۔لوگ اسی حقیقت کی پہچان سے محروم ہو کربدکاریوں میں بڑھ گئے تھے۔ اس وجہ سے خدا نے انبیاءکی معرفت ان قربانیوں وغیرہ پر اظہار نفرت کیا۔ بدعملی کے ساتھ قربانی وغیرہ کوبے سود ٹھہرایا۔گو ہیکل کی بربادی تک قربانیوں پر زور رہا۔مگر خدا نے ہیکل کو بھی برباد کراکر ہمیشہ کیلئے قربانیوں کا خاتمہ کردیا۔گواب قربانی وغیرہ کے عہد قدیم میں حکم احکام موجود ہیں پر وہ صرف قربانی وغیرہ کے اصلی مقصد ومدعا کی تعلیم و تلقین کیلئے ہیں۔جس کا ذکر ہم اوپر کرچکے ہیں۔مگر اب خدا نے ا پنے عابدوں سے قربانیاں نہیں چاہتا بلکہ تسلیم مطلق اور حکم برداری کا طالب ہے۔ان سے ایسی عبادت کا جوئیاں ہے جو معبود میں اور عا بد    میں تقرب پیدا کرے۔ عابد اپنے معبود پر اپنی جان نثا ر کرنا اور اسکی فرمانبرداری میں مر مٹنا عبادت سمجھے۔ یہ کل امور انبیاءکی کتابوں سے ظاہر ہوسکتے ہیں۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے۔کہ احمدیت کی بے شعور قربانیاں کہاں سے آئیںاور کیوں آئیں ؟وہ موسو ی شریعت کے خلاف ہیں۔ جو جانور قربانیوں میں قربان کئے جاتے ہیں وہ موسوی شریعت کی روسے سب کے سب پاک نہیں ہیں۔ یہ قربانیاں اسرائیل کے انبیاءکی تعلیم کے خلاف ہیں۔وہ موسوی شریعت کے موافق گذرانی نہیں جاتی ہیں۔ قربانی کرنے والے انہیں خود ہی کھا پی لیتے ہیں۔ وہ جز و ِ عبادت نہیں ہیں۔وہ تو احمدیوں کی عید یں ہیں۔کیا احمدیت کو انہیں قربانیوں پر ناز ہے؟ اگر احمدیوںکی قربانیاںا ن کے گناہوں کا کفارہ اور معاوضہ ہوجائیں تو پھر دنیا میں ہرا یک بشر نجات یافتہ سمجھا جاسکتا ہے۔ کیونکہ ہر ایک بشر خدا کی دی ہوئی نعمتوں کو کھاپی کر زندہ رہتا ہے۔ان کے کھانے پینے   میںکوئی قربانی اورکفارہ کی تخصیص نہیں ہے۔ پس احمدیت کی قربانیاں قربانیاں نہیں ہیں۔وہ توقربانی کی نقل بھی نہیں ہیں۔ پھراحمدی اصحاب مسیحی کفارہ سے کو ن سی قربانیوں کا مقابلہ کرنے ا ٹھے ہیں؟ مسیحی کفارہ کے مقابل پہلے اپنی قربانیوںکو قربانیاں ثابت کریں۔۔ پھر انہیں مسیحی کفارہ کے مقابل رکھ کردیکھیں تو مسیحی کفارہ کی حقیقت ظاہر ہوگی(نور افشاں مطبوعہ ۳۰جولائی ۱۹۲۶),

ہم نے پیشر کہا کہ خدا نے بنی اسرائیل کو بلاشک مالی عبادت میں قربانیاں کرنے کی اجازت دی۔ مگر پرانے عہد کے انبیاءنے لوگوں کی بدروش دیکھ کر اس بات کا صفائی سے اعلان کیا کہ بدکارو ں کی قربانیاں اور عبادتیں نامقبول ہیں۔یسعیاہ لکھتا ہے۔

خداوند یوں فرماتا ہے کہ آسمان میرا تخت ہے اورزمین میرے پاﺅ ں رکھنے کی چوکی۔وہ گھر کہاں ہے جو میرے واسطے بنایا چاہتے اورمیری آرمگاہ کہاں ؟کہ یہ سب چیزیں تو میرے ہاتھ نے بنائیں اور یہ سب موجود ہوئیں۔خداوند فرماتا ہے لیکن میں ا س شخص پرنگاہ کرونگا۔جو غر یب  اور شکستہ دل  ہے  اور میرے کلام کے سبب کانپ جاتا ہے۔ وہ جو بیل ذبح کرتا اسکی مانند ہے جس نے ایک آدمی کو مارڈالا اور وہ جو ایک برہ قربانی کرتا ہے اس کے برابر ہے جس نے ایک کتا کی گردن کاٹی ہے۔ جو ہدیہ چڑھاتا ہے۔ایسا ہے جس نے سور کا لہو گذرانا ہے۔ وہ جو یادگاری کیلئے۔۔۔۔گذرانتااسکی مانند ہے جس نے بت کو مبارک کہا ہے۔ ہاں انہوں نے اپنی اپنی راہیں چن   لیں ا و ر ان کے جی ان کی نفرتی چیزوں سے مسرور ہیں۔۳۱:۶۶۔

پھر سموئیل فرماتاہے۔

سموئیل بولا۔کیاخداوندسوختنی قربانیوں اور ذبیحوں سے خوش ہوتا ہے یا اس سے کہ اس کا حکم مانا جائے۔دیکھ حکم ماننا قربانی چڑھانے سے اور شنوا ہونا مینڈھوں کی چربی سے بہترہے۔۱سموئیل ۲۲:۱۵

زبور میں آیاہے۔

صداقت کی قربانیاں گذرانوں اور خدا وند پر توکل کر و ۵:۴۰پر لکھا ہے کہ ذبیحہ اور ہدیہ کو تو نے نہیں چاہا تو نے میرے کان کھولے۔ سوختنی قربانی اور خطا کی قربانی کا تو طالب نہیں۔ تب میں نے کہا دیکھ میں آتا ہوں۔

کتاب کے دفتر میں میرے حق میں لکھا ہے اے میرے خدا میں تیری مرضی بجالانے پر خوش ہوں زبور   ۶:۴پر لکھا ہے۔

کہ تو ذبیحہ سے خوش نہیں ہوتا۔نہیں تو میں دیتا۔سوختنی قربانی میں تیری خوشنودی نہیں۔ خدا کے ذبیحے شکستہ جان ہیں۔ دل شکستہ اور خاکسار کو اے خدا تو حقیر نہ جانیگا زبور ۱۶:۵۱ -۱۷۔

سلیمان فرماتاہے کہ

راستی اور انصاف کرنا خدا کے نزدیک قربانی کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے امثال ۳:۲۱

دانیل نبی لکھتا ہے۔

ستر ہفتے تیرے لوگوں اور تیرے شہر مقدس کے لئے مقرر کئے گئے ہیں تاکہ اس مدت میں شرارت ختم ہو اور خطاکاریاںآخر ہوجائیں۔اور بدکاری کی بابت کفارہ کیاجائے اور ابدی راستبازی پیش کی جائے اور اس روئیت پر اور نبوت پر مہر ہوا ور اس پرجوسب سے زیادہ قدوس ہے مسح کیاجائے سوتو بوجھ اور سمجھ کہ جس وقت سے یروسلم کی دوبارہ تعمیر کا حکم نکلے مسیح بادشاہزادہ تک سات ہفتے اور باسٹھ ہفتے اس وقت باز ار پھر تعمیر کئے جائینگے اور دیوار بنائی جائیگی مگر تنگی کے دنوں میں اورباسٹھ ہفتوں کے بعد مسیح قتل کیاجائیگا ۹: ۲۴-۳۵

قبل ازیں بتلایا گیا کہ بائبل کے مذہب کامقصد ومدعا عابد کی معبود سے محبت کی عبادت کا ہے۔بائبل نے عبادتیں دوقسم کی بتلائی ہیں۔ ایک کو ا عتقادی عبادت کہتے ہیں۔دوسر ی کا نام مالی عبادت ہے۔مالی عبادت میں پرانے عہد کی جملہ قربانیاں عیدیں۔صدقے۔نذرانے۔خیرات کی اقسام شامل ہیں۔جن میں عابدخدا اپنے مال کے منافع چند قیود کے ساتھ خدا کی نذر کرکے اپنے معبود کا تقرب اور اس تقرب کی مسرت حاصل کرسکتا تھا۔ مالی عبادت کی جملہ چیزیں جو خدا کی نذر ونیاز کی جاتی تھیں وہ تعلیمی رنگ رکھتی تھیں۔ مگر بنی اسرائیل نے جب قربانیوں وغیرہ کا اصل مطلب نہ سمجھا۔ارکان عبادت کی پابندی نہ کی تو خدا نے انبیاءکی معرفت بیدینوں اور نافرمانوں کی عبادتوں اور قربانیوں کی نا مقبولیت ظاہر فرما کر قربانی وغیرہ کی اصل غرض کو ظاہر کردیا۔اور وہ اصل غرض اوپر کے چند مقامات سے ظاہر وروشن ہے۔جس کا مطلب و مدعا یہ ہے کہ خدا اپنے عابدوں سے محبت کی عبادت۔محبت کی اطاعت ،فرمانبرداری۔محبت کی خود انکاری وخود نثاری کا طالب ہے۔راستبازی اور انصاف پسندی کا جوئیاں ہے۔  وہ قربانیوں کا بھوکا نہیں ہے۔ وہ تو یہ چاہتاہے کہ وہ خود اس کیلئے نذرونیاز نہ ہوں کہ ان کا جینا مرنا۔ان کے اقوال وافعا ل۔انکی زندگیوں کے جملہ مشاغل خدا ہی کیلئے ہوں۔ پس عابد جو مالی عبادت کے اس مفہوم کو جانتا مانتا تھا۔۔پرانے عہد نامہ نے اس کیلئے کسی چیز کی قربانی دینا لازم نہ رکھا تھا۔اب اس سے مسیحی قربانی اور کفارہ کا مطلب آسانی سے سمجھ آسکتاہے۔

مسیحی قربانی اور کفارہ :بیان مافوق کو روبرو رکھ کر مسیحی قربانی اور کفارہ کا مطلب سمجھو۔مسیحی قربانی خداوندیسوع مسیح کی اپنے سارے دل سے اور اپنی ساری جان سے اور اپنی ساری عقل وسمجھ سے اپنے خدا کی محبت کی عبادت ہے۔ جو اس نے خدا کے اعلیٰ علم وعرفان کے ساتھ کی۔جو اعلےٰ عقل وشعور کے ساتھ کی۔جو اس نے اپنی رضا ءورغبت کے ساتھ کی۔اس نے اس محبت کی عبادت میں اپنی زندگی کو زندگی کی قواءذہنیہ واخلاقیہ کو۔قواءجسمانی وروحانیہ کو خدا کی اس طرح نذر ونیاز کردیا کہ ا  سکی زندگی کے افعال واقوال سے اس کی نشست وبرخاست سے اس کے کام و کلام سے۔اس کی موت وانجام سے خدا ہی کی سچائی وصداقت اور اس کے کلام کی حقانیت ہی ظاہروباہر ہو۔پس مسیحی قربانی وفدیہ وغیرہ خداوند یسوع مسیح کی عبادت ہے۔ محبت اور رضاءورغبت کی عبادت ہے۔ ا عتقادی اور مالی عبادت ہے۔ خدا کی مطلوبہ عبادت ہے۔جو خداوند یسوع مسیح کے زمانہ تک کسی نے نہ کی تھی۔خداوند یسوع مسیح کے بعد تاحال کسی مخالف مسیح سے نہیں ہوسکی۔

سیدنا مسیح کو معافی مذکور کی عبادت کرنے کا پوراپورا حق حاصل تھا۔ وہ اِنسان کامل اور عابد اکمل ہو کر بنی نوع انسا ن کے درمیان پیدا ہوا۔وہ ان جملہ قوانین کے ماتحت پلا اور جوان ہوا اور کام کرتا رہا۔جن کے ماتحت کل بنی نوع انسان پیدا ہوتے اورپرورش پاتے تھے۔

اسکی ذات وشخصیت حوائج انسانی سے بری نہ تھی۔وہ ا نسان ہو کر نہ صرف قوانین قدرت کے تابع تھا۔ بلکہ رومی حکومت کے قوانین کے ماتحت تھا۔ یہودی مذہب اور شریعت کے تابع تھا۔ اس وجہ سے وہ پورا انسان تھا۔اس کیلئے یہ امر مباح اور جائز تھا کہ وہ جیسا قوانین نیچر اور قوانین سلطنت کے تابع تھا ویسا ہی قوانین مذہب کے تابع ہو۔ پس اس نے نہ صرف قوانین نیچر اور سلطنت کو پورا کیا بلکہ قوانین مذہب کی اکمل تکمیل کی۔یہی اسکی عبادت وقربانی ہے کہ وہ صلیبی موت کے آخر ی دم تک خداکاوفادار رہا۔پس خداوند یسوع مسیح کی قربانی انسان کامل اور عابد اکمل کی عبادت ہے۔جس نے دنیا کو خدا پرستی کے معنی بتلائے۔جانوروں کی قربانیوںکا یہاں پر ذکر تذکر نا عبث وبے سود ہے۔

مسیحی قربانی اصلی اور کامل قربانی ہے۔اس وجہ سے وہ اصلی عبادت ہے۔ جایِ غور ہے کہ معانی مذکورہ کی عبادت وقربانی کا یہ تقاضا ہے کہ وہ عابد و مذبوح میں معبود کی حقانیت وحضوری کے احساس کو اس درجہ تک بھردیوے کہ عابد و مذبوح اس کی عبادت میں اپنا سب کچھ دیدینا نفع یقین کرنے لگے بروقت ضرورت اپنے معبود کی عبادت سے جان تک دینے سے دریغ نہ کرے۔خداوند یسوع مسیح نے اپنے آپ کو اس احساس کے ساتھ قربان کیا اور صلیبی دکھوں کی آگ میں جل کر اس صداقت کو بچالیا۔جو انجیل کے متن میں ا سکی زندگی کے کام کلام سے وابستہ ہے۔

مسیحی قربانی اور عبادت کا نتیجہ کفارہ ہے: بیان مافوق اس بات کا مظہر ہے کہ ہمارے مخالفوں میں اور ہم میں زیر بحث امر تو خداوند یسوع مسیح کی قربانی کا عبادت ہونا ہے۔ اگر خداوند یسوع مسیح کی تمام زندگی وموت اور اس کام وکلام عبادت قرار پاسکتا ہے تو وہ عبادت قربانی وخود انکاری وخود نثاری کے سوا نہیں ہوسکتی ہے اور ان معانی کی عبادت وقربانی یسوع مسیح نے ضرور ةًکی اور اس کا لازمی نتیجہ کفارہ ہے اگر ہمارے مخالف خداوند یسوع مسیح کی قربانی کو غیر عبادت ثابت کرسکتے ہوں تو ثابت کریں۔ تب مسیحی کفارہ کی خود بخود بنیاد جاتی رہے گی۔

نور افشاں مطبوعہ۱۳اگست ۱۹۲۶

مسیحی قر با  نی اور کفا رہ کی با بتسیدنا مسیح کا اپنا بیا ن

گذشتہ اشا عت میں ہم اس با ت تک پہنچے چکے تھے  کہ مسیحی قر با نی اور کفا رہ خدا وند یسو ع مسیح کی اعلے و افضل عبا دت تھی۔اسے ایسی عبا دت کر نے کا حق حا صل تھا۔ایسی عبا دت کے مطا لبہ سے پر ا نا عہد نا مہ بھر ا پڑا ہے۔انہیں معا نی کی عبا دت اسر ائیلی مذہب کا مد عا و مقصد تھی۔ یسو ع مسیح نے اپنی عبا  دت ہی سے اسر ائیلی مذہب کا اور اسر ائیلی مذہب کے پا ک نو شتو ں کا مد عا ومقصد پو را کیا۔اب ہم یہ با ت دکھا یا چا ہتے ہیں کہ خدا وند یسوع مسیح نے معا نی زیر بحث کی عبا دت کا عا بد ہو نا بیا ن فر ما یا ہے۔ ذیل کی عبارتوں پر غور فرمایا جائے۔

مسیحنےجوابمیں اسسےکہالکھاہےکہتوخداونداپنےخداکوسجدہکراورصرفاسیکیعبادتکرلوقا۸:۴۔

اچھا چرواہامیں ہوں۔اچھا چرواہا اپنی بھیڑوں کیلئے جان دیتا ہے یوحنا ۱۱:۱۰ اور میں بھیڑوں کیلئے اپنی جان دیتا ہوں یوحنا۱۱:۱۰باپ مجھ سے اس نے محبت رکھتا ہے کہ میں اپنی جان دیتا ہوں تاکہ ا سے پھر لے لوں۔ کوئی اسے مجھ سے چھینتا نہیں۔ بلکہ میں اسے آپ ہی دیتا ہوں۔مجھے اس کے دینے کا بھی اختیار ہے اور اس سے پھر لینے کابھی ہے۔ یہ حکم میرے باپ سے مجھے ملا یوحنا ۱۷:۱۔۱۸اس سے زیادہ محبت کوئی شخص نہیں کرتا کہ اپنی جان اپنے دوستوں کیلئے دیدے۔ یوحنا۱۳:۱۵اور ان کی خاطر میں اپنے آپ کو مقدس کرتا ہوں تاکہ وہ بھی سچائی کے وسیلے سے مقدس کیئے جائیں یوحنا (۱۹:۱۷)۔ یہ میرا بدن ہے جو تمہارے واسطے دیا جاتا ہے۔۔۔ یہ پیالہ میرے اس خون میں نیا عہدہے۔ جو تمہارے واسطے بہایا جاتا ہے لوقا ۱۹:۲۲ -۲۰،مرقس  ۲۲:۱۴ -۲۵۔خدا روح ہے اور ضرور ہے کہ اس کے پرستار رو ح وسچائی سے پرستش کریں( یوحنا۲۴:۴)۔پھر وہ ہیکل میں جاکر بیچنے والوں کونکالنے لگا اور ان سے کہا لکھا ہے کہ میرا گھر دعا کا گھر ہوگا۔ مگر تم نے اسکو ڈاکوﺅں کا کھوہ بنادیا (لوقا ۴۵:۱۹ -۴۶‘متی ۱۲:۲۱ -۱۶‘مرقس  ۱۵:۱۱-۱۸)۔

واحد خدا کی عبادت جنابِ مسیح کی زندگی کا مقصد تھا

جنابمسیحکےکلماتمافوقکوغورسےپڑھاجائے۔اسکیخدمتکیابتداءواحدخداکیعبادتکےاعلانسےشروعہوتیہےدکھائیگئیہے۔ اسواحدخداکیبابتصفائیاوراشتہاردیاگیاہے۔ کہوہخداروحہےاورضرورہےکہاسکےپرستارروحوسچائیےساسکیپرستشوعبادتکریں۔ خداوندیسوعمسیحنےاپنےواحدخداکیعبادتوپرستشروحاورسچائیسےکی۔یہباتاسکےسہسالازندگیکیپاکخدماتسےاسکےافعالواقوالسے۔اسکےکاموکلامسے۔اسکیصلیبیموتکےانجامسےبخوبیظاہروثابتہوسکتیہے۔ وہاپنیجاندینےکوبڑیاہمیتدیتاہے۔ وہبتلاتاہےکہباپاسیسببسےاسسےمحبتکرتاہےکہمیںاپنیجاندیتاہوں۔ وہاپنیجاندینااپنےمومنینکےلئےبھیظاہرکرتاہے۔ وہاپنےخونبہائےجانےکانامعہدکاخونرکھتاہے۔ غیرضیکہخداوندیسوعمسیحنےاپنیزندگیاورموتکیجملہخدماتکانامعبادتوقربانیرکھتاہے۔یہایسیباتیںہیںجنکیحقانیتسےکوئیمسیحیاورغیرمسیحیانکارنہیںکرسکتاہے۔

پسہمکہتےہیںکہجنابمسیحکیموتقربانیوکفارہہے۔

جنابمسیحکیموتکوقربانیاورکفارہاسوجہسےقراردیتےہیںکہآپکیموتآپکیدنیویزندگیکاانجامواختتامسے۔ زندگیکےانجامواختتاممیںزندگیکاسبکچھشاملہے۔ یسوعمسیحکیزندگیکےانجامواختتاممیںاسکیزندگیکاسبکچھداخلہے۔اسوجہسےہمنےکہاہےکہخداوندیسوعمسیحکیموتوقربانیوکفارہہے۔اسکیقربانیوکفارہاسکیاعتقادیاورمالیعبادتہے۔ جواسنےاپنیزندگیقوتوطاقتکےموافقخداکیکیتھی۔یہیعبادتروحاورسچائیکیعبادتہے۔ ساریعقلاورسمجھکیعبادتہے۔ سارےدلاورجانسےخداکیمحبتاورانتہائیعشقکیعبادتہے۔ اسکےساتھہیکلبنیآدمسےپیارومحبتکیعبادتہے۔جسمیںصلحکلیکااصولبخوبیمضمرہے۔ اسسےبڑھچڑھکرنہکسیعابدنےعبادتکیہےنہکسیسےہوسکیہےنہکوئیکرسکھےگا۔مگروہیکریگاجسنےخداوندیسوعمسیحکیروحکافیضپایاہے۔ جسنےاپنیجانخداوندیسوعمسیحکینذرونیازکیہے۔

اسی وجہ سے سیدنامسیح ذبیح اللہ ہیں

کہاسنےاسرائیلمذہبکوجسکیبنیادحضرتاسحقذبیحاللہکیناتمامقربانیپررکھیگئیتھی۔ اسےاپنیکاملواکملقربانیسےکاملکرکےدکھادیااوراسالٰہیمذہبکواپنیقربانیاورعبادتسےکمالرنگدیکرزمینکےکناروںتکپہنچادیا۔ جیساکہآجکےدنظاہرہے۔پساحمدیتکےوکلااسباتکواچھیطرحذہننشینکرلیںکہانکیبےشعورقربانیاںیسوعمسیحذبیحاللہکیقربانیکیبرابرینہیںکرسکتیہیں۔ وہمذہبیسوعمسیحذبیحاللہکامقابلہکرسکتاہے۔جوبکروںمینڈھوںکیبےشعورقربانیوںپرمبنیہو۔

سیدنا مسیح ذبیح اللہ کی فتح پر غور فرمائیے۔

اسکیپہلیدفعہنمائشبیتلحمکیچرنیمیںہوئیتھی۔وہغریبیمیںپرورشپاکرجوانہواتھا۔ اسنےغریبیاورتنگدستیمیںالٰہیخدمتشروعکی۔ وہغریبیکیحالتمیںصلیبدیاگیا۔اورصلیبپرہیاسنےاپنےکامکوختمکیا۔مگروہیہودیوںکابادشاہہوکراسجہانسےرخصتہوا۔اسکیآجتکبادشاہتعالمگیرحیثیترکھتیہےاورتاقیامتقائمرہیگی۔احمدیتاورغیراحمدیتکیمخالفتومکاذبتاسےبالبرابرنقصاننہیں پہنچاسکتیہے۔

نور افشاں مطبوعہ ۲۷اگست۱۹۲۶

تیسری فصل

سیدنا مسیح کی موت وقیامت کی بابت مسلم روایات

فصلاولکےبیانمیںصرفخداوندیسوعمسیحکیصلیبیموتایساواقعبیانہواہےجسپربرادراناسلامنےپربناقرآنوحدیثکسینہکسیوجہسےاختلافکیاہے۔ یسوعمسیحکیموتیاعدمموتپرمسلمبزرگتینعقائدپرمنقسمہوگئےہیں۔ پہلاعقیدہعوامکاہےجویہمانتےہیںکہحضرتعیسیٰعلیہالسلامصلیبپرہرگزمصلوبنہیںہوئے۔ بلکہخدانےآپکوبغیرموتجسمعنصریسمیتآسمانپراٹھالیااورآپکےدشمنیہودنےآپکےایکہمشکلانسانکوجومعجزانہطورسےآپکاہمشکلبنگیاتھاصلیبدیکرمارڈالا۔اسوجہسےیہودیوںکااعتقادہوگیاکہہمنےعیسیٰعلیہالسلامکوصلیبپرقتلکرڈالا۔مسلمانوںکےدوسرےگروہنےاعتقاداولکوخلافعقلونقلخیالکرکےردکردیااوراسگروہنےابتداءسےانجیلیمذہبکیتائیدوتصدیقفرمائی۔ انکےنزدیکقرآنشریفیسوعمسیحکیموتوقیامتاوررفعالیالسماءوغیرہمیںانجیلمقدسکےنہصرفخلافنہیںبلکہموافقہے۔مسلمانوںکاتیسراگروہاسباتمیںممتازہواہےکہیسوعمسیحصلیبتودیاگیا۔مگرصلیبپربالکلمرانہتھابلکہمشابہبالموتیہوگیاتھا۔ اسیحالتمیںقبرمیںدفنکردیاگیا۔ پھروہتیسرےدنہوشمیںآکرقبرسےنکلگیا۔ اپنےشاگردوںکوملا۔ پھرکسیدوسریجگہجاکرجونامعلومیامعلومتھیہمیشہکیلئےمرگیا۔ یہاعتقادسرسیدمرحوماورمرزاغلاماحمدقادیانیآنجہانیکاہےجنسےتحریرہذامیںہمیںسروکارہے۔مرزاصاحبنےجوکچھیسوعمسیحکیعدمموتوقیامتوغیرہکیبابتلکھاوہنہتومرزاصاحبکیعقلوفکرکانتیجہہےنہآپکےالہاموکشفکاماحصلہےبلکہسرسیدمرحوماورملاحدینیورپکےخیالاتکالبلبابہے۔ جوعقلونقلکےکسیمسلمہاصولپرمبنینہیںہے۔بلکہعامیانہطرزعملہے۔ جسکامقصدومدعاصرفاسقدرہےکہانجیلیسوعمسیحکوہمیشہکیموتمارکراپنےآپکوانجیلاورقرآنوحدویثکاوہیسوعمسیحبنائےجسکےدوبارہآنےکیانکتبمیںخبریںآئیہیں۔

اسسےپیشترکہہممرزاصاحبکےشبہاتکاجوابدیناشروعکریںمناسبباتیہیمعلومہوتیہےکہہمپیشتریسوعمسیحکیموتوقیامتکیبابتمسلمروایاتکویہاںپرنقلکریںتاکہمعلومہوکہاسلامیروایاتکاانجیلیبیانسےکہاںتکتخالفوتوافقہے۔ بعدوہمرزاصاحبکےشبہاتپرغورکرنامناسبہوگا۔ اسلامیروایاتمندرجہذیلہیں۔

دفعہ ۱قرآن شریف کا بیان

إِذۡ قَالَ ٱللَّهُ يَـٰعِيسَىٰٓ إِنِّى مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَىَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ ٱلَّذِينَ ڪَفَرُواْ وَجَاعِلُ ٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوكَ فَوۡقَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓاْ إِلَىٰ يَوۡمِ ٱلۡقِيَـٰمَةِ‌ۖ ثُمَّ إِلَىَّ مَرۡجِعُڪُمۡ فَأَحۡڪُمُ بَيۡنَكُمۡ فِيمَا كُنتُمۡ فِيهِ تَخۡتَلِفُونَ (٥٥) فَأَمَّا ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ فَأُعَذِّبُهُمۡ عَذَابً۬ا شَدِيدً۬ا فِى ٱلدُّنۡيَا وَٱلۡأَخِرَةِ وَمَا لَهُم مِّن نَّـٰصِرِينَ (٥٦) وَأَمَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ فَيُوَفِّيهِمۡ أُجُورَهُمۡ‌ۗ وَٱللَّهُ لَا يُحِبُّ ٱلظَّـٰلِمِينَ (٥٧) ذَٲلِكَ نَتۡلُوهُ عَلَيۡكَ مِنَ ٱلۡأَيَـٰتِ وَٱلذِّكۡرِ ٱلۡحَكِيمِ (٥٨)

ترجمہ:

جبخدانےکہااےعیسیٰبےشکمیںتجھکومارنےوالاہوںاوراپنےپاساٹھالینےوالاہوںاورتجھکوپاککرنےوالاہوںانلوگوںسےجوکافرہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔انلوگوںکوجنہوںنےتیریتابعداریکیبرترانپرجوکافرہوئےقیامتکےدنتک۔پھرتمکومیرےپاسپھرآناہے۔ تبتممیںفیصلہکردونگا۔جسباتمیںتماختلافکرتےتھے۔ پھرجولوگکافرہوئےانکوعذابدونگاعذابسختدنیامیںاورآخرتمیںاورکوئیانکامددکرنےوالانہہوگااوروہلوگجوایمانلائےہیںاوراچھےکامکئےہیں۔ توانکوپوریانکیاجرتدونگا۔اوراللہدوستنہیںرکھتاظلمکرنےوالوںکویہباتیںجوہمتجھکوپڑھکرسناتےہیںنشانیوںمیںسےہیںاورگذریہوئیٹھیک۔(سورہ آل عمران آیت ۵۶ سے ۵۸تک)

فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ وَكُفْرِهِم بِآيَاتِ اللَّهِ وَقَتْلِهِمُ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَقَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ ۚ بَلْ طَبَعَ اللَّهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا (۱۵۵) وَبِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَىٰ مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيمًا (۱۵۶) وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ ۚ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا (۱۵۷) بَل رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا (۱۵۸) وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا

ترجمہ:

پھریہسببانکےاپناقولوقرارتوڑنےکےاورانکےانکارکرنےکےاللہکینشانیوںسےانکےقتلکرڈالنےکےنبیوںکوناحقاورانکےکہنےکےکہہمارےدلوںپرپردےپڑےہیں۔ بلکہاللہنےانپریہسببانکےکفرکےمہرکردی۔ پھرایماننہیںلانےکےمگرچندبہسببانکےکفرکےاورانکےکہنےکےمریمپربہتبڑابہتاناورانکےکہنےکےبیٹکہمنےقتلکرڈالامسیحعیسیٰبیٹےمریمخداکےرسولکو۔حالانکہنہانہوںنےانکوقتلکیااورنہصلیبپرماراولیکنانپر (صلیبپرمارڈالنےکی )شبیہکردیگئی اورجولوگکہاسمیںاختلافکرتےہیںوہالبتہاسباتمیںاسسےشکمیںپڑےہیںانکواسکایقیننہیںہےبجرگمانکیپیرویکےاورانہوںنےانکویقیناقتلنہیںکیابلکہخدانےانکواپنےپاساٹھالیااوراللہغالبہےحکمتوالااورنہیںکوئیاہلکتابمیںسےمگریہکہیقینکرےساتھاسکے (یعنیحضرتعیسیٰکےصلیبپرمارےجانےکے )قبلاپنےمرنےکے (یعنیبعدمرنےکےوہجانلیگاکہصلیبپرحضرتعیسیٰکامرناغلطتھا)اورقیامتکےدنحضرتعیسیٰانپرگواہہونگے۔(یعنیاہلکتابکواپنیزندگیمیںجوعقیدہتھااسکےبرخلافگواہیدینگے)تفسیرالقرآنصفحہ۱۰۷۔

دفعہ۲۔لفظ توفی اور رفع کے معنی۔

مولٰینامولویعبداللہچکڑالویصاحبنےلفظتوفیاوررفعکاحسبذیلبیاناپنیکتابمیںلکھاہےجسےاختصاراًنقلکیاجاتاہے۔

۲۔فَكَيْفَ إِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ(سورہ محمد آیت۲۶)

۳۔رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ(سور الاعراف آیت ۱۲۵)

۴۔تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ(سورہ یوسف آیت ۹۹)

۵۔وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ(سورہ بقرہ آیت ۲۸۱)

۶۔وَمَنيَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ(سورہ آل عمران آیت ۱۶۱)

۷۔يَوْمَتَأْتِي كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَن نَّفْسِهَا وَتُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ(سورہ النحل آیت ۱۱۱)

۸۔إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ(سورہ النساء آیت ۹۶)

۹۔

۱۰۔وَوُفِّيَتْ كُلُّنَفْسٍمَّاكَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ(سورہ آل عمران آیت ۲۴)

۱۱۔وَوُفِّيَتْ كُلُّنَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَا يَفْعَلُونَ(سورہ الزمر آیت ۶۹)

۱۲۔ فَوَفَّاهُ حِسَابَهُ وَاللَّهُ سَرِيعُالْحِسَابِ(سورہ النور آیت ۳۸)

۱۳۔إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ(سورہ آل عمران آیت ۵۴)

۱۴۔وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِيبَهُمْ غَيْرَمَنقُوصٍ(سورہ ہود آیت ۱۰۸)

۱۵۔وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا(سورہ بقرہ آیت ۱۷۶)

۱۶۔وَمَا تُنفِقُوا مِنْخَيْرٍيُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ(سورہ بقرہ آیت ۲۷۲)

۱۷۔وَمَاتُنفِقُوامِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ(سورہ الانفال آیت ۶۰)

۱۸۔الَّذِينَ يُوفُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَلَا يَنقُضُونَ الْمِيثَاقَ(سورہ الرعد آیت ۲۰)

۱۹۔يُوفُونَبِالنَّذْرِوَيَخَافُونَيَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا (سورہ الانسان آیت ۷)

۲۰۔وَإِنَّ كُلًّا لَّمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ رَبُّكَ أَعْمَالَهُمْ(سورہ ہود آیت ۱۱۱)

۲۱۔إِنَّمَايُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ(سورہ الزمر آیت ۱۰)

۲۲۔فَيُوَفِّيهِمْ أُجُورَهُمْ(سورہ آل عمران آیت ۵۶)

۲۳۔فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُواالصَّالِحَاتِفَيُوَفِّيهِمْ أُجُورَهُمْ(سورہ النساء آیت ۱۷۳)

۲۴۔وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِّمَّا عَمِلُوا وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ(سورہ الانعام آیت ۱۳۲)

۲۵۔مَنكَانَيُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ(سورہ ہود ۱۵آیت)

۲۶۔وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُم بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُم بِالنَّهَارِ(سورہ الانعام آیت ۶۰)

۲۷۔وَلَٰكِنْأَعْبُدُ اللَّهَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ(سورہ یونس آیت ۱۰۴)

۲۸۔وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَىٰ أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَيْئًا(سورہ النحل آیت۱۶)

۲۹۔قُلْ يَتَوَفَّاكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْتُرْجَعُونَ(سورہ السجدہ آیت ۱۱)

۳۰۔وَلَوْ تَرَىٰ إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ(سورہ الانفال آیت۵۰)

۳۱۔نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَىٰ أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِن بَعْدِ عِلْمٍ(سورہ الحج آیت۵)

۳۲۔ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا (سورہ الزمرآیت۴۲

یہاں سے آیات کو لکھنا ہے۔

قرآنیآیات

جوابقرآنی

بلرفعہاللہمیںبھیہرگزہرگزموتکاکوئیذرہبھراشارہتکبھینہیںہے۔بلکہخاصزندہیحدعنصریصحیحسالمحالتمیںہی۔ حالترفعکیبعبارتالنصقرآنمجیدثابتہے۔ کیونکہبلرفعہمیںضمیرہکامرجمععیسیٰسلاممنحیثالمجوعہیںیعنیروحیجسدعنصرینہکہفقطجسدیاصرفروح۔چونکہبلرفعہاللہکےترجمہکرنےمیںبھیقادیانینےسراسرکجرویاوربھاریدھوکھادہیسےکاملیاہے۔لہذاہمناظرینسےعرضپروازہیںکہوہپہلےاسکاصحیحصحیحترجمہوتفصیلوتشریحجوصرفآیاتبمیناتکتاباللہالمجیدہوچکیہے۔ ماقبلرسالہہذاہیکےحصہحالاتعیسی ٰ سلامبعضحہ۲۰ملاحظہفرمالیویںاورپھراسسےآگےاسکیتوضیحوتفریحبھیدیکھلیویںیہاںبخوفطوالتوملالتدوبارہدرجنہیںکیگئی۔اصلیویقینیباتیہہےکہرفعسےمرادموتہرگزہرگزنہیںہے۔ کیونکہہلرفعہمیںلفظصیغہماضیکاہےاوررفیعصیغہاسمفاعلیاصفتمضبہہیاگررفعہسےمرادرحکوموتکےبعدعزتکےساتھاٹھاناسمجھاجائےتورفیعالدینرجاتمیںڈبھیجوخداتعالیٰکیایکصفتہے۔معاذاللہماشاللہقادیانیکےمذہبکےمطابقبھیمانناپڑیگاکہاللہتعالیٰبھیمرچکاہےاورمرنےکےبعداسکاروحکےساتھبلندمکانوشانپرپہنچگیا۔کلادحاشا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رفعکالفظجوصیغہمعروفواحدمذکرغائبہے۔قرآنمجیدمیںبہتجگہآیاہے۔لیکنکسیجگہبھیاسکےمعنوں  میں ہرگزہرگزموتکاوہموخیالکسیطرحسےبھینہیںہوسکتا۔چنانچہہمذیلمیںچندآیاتبیناتقرآنکریمکےدرجکرتےہیں۔جنمیںاسلفظرفعاوراسکےمشتقاتکےمعنیبخوبیروشناوراظہرمنالشمسمیںکہکہیںبھیکسیجگہموتکیطرفکوئیاشارہتکنہیںہے۔ سبسےاولہمخاصوہیآیاتپیشکرتےہیںجنمیںلفظرفعبعینہصیغہواحدمذکرغائبفعلماضیہیمذکورموجودہے

۔۔۔۔اللہتبارکوتعالیٰ

قرآنیآیات

آیاتبالامذکورہےجوملرفعہاللہمیںموجودہے۔کیایہاںبھیقادیانیکہہسکتاہےکہآسمانوںکواللہتعالیٰنےمارکربعدہانٰکےروحوںکوعزتکےساتھاپنیطرفاٹھالیااورویساہییوسفسلامعلیہنےاپنےماںباپکوزمینپرعزتکےساتھقتلکرکےبعدہانہردونوںکیروحوںکوعزتکےساتھاٹھاکراپنےتختپربٹھالیااورانکیلاشوںکووہیںزمینپرپڑارہنےدیا؟کلادحاشا۔علے ٰ ہذالقیاسباقیتمامآیاتمیںبھی؟بھلاکوئیذیہوشانتمامآیاتمیںلفظرفعسےکبھیکچھموتکاوہموگمانکرسکتاہے۔ہرگزنہیں ! ہرگزنہیں۔

ابہمباقیمشتقاتکوبھیپیشکردیتےہیں۔

قالاللہتبارکوتعالیٰ

قرآنیآیاتکےآگےیہجملےتحریرکرنےہیں۔

۱۔کیااسکےیہمعنیکرنےچاہیںکہآسمانکوکسطرحعزتکیموتدیکراسکیروحکومکانبلندمیں پہنچادیا ! قادیانیبتلائے؟

۲۔اورکیااسکےیہمعنیہونےچائیںکہکوہطورکوعزتکیموتمارکراسکےروحکوہمنےتمہارےاوپرکسیبلندمکانمیںپہنچادیاتھا؟عجبعجب

۳۔اورعلے ٰ ہذاکیااساسآیتمیںبھیایسےہیمعنیکئےجائیں؟افسوس

۴۔قادیانیایسےلوگوںکاوہموخیالہےکہجولوگقرآنمجیدکوبےمعنیپڑھیںاورمطلبنہسمجھیںانکےحقمیںتعالے ٰ یہفرماتاہےکہاگرہمچاہتےتوانکامرتبہبلندکردیتے۔بسببانآیاتکتاباللہکےجووہبےسوچےسمجھےپڑھتےہیںخواہبطوردردووظیفہخواہبطورختمودردوغیرہ

اسجگہپربھیہرگزہرگزکوئیوہموخیالنہیںہوسکتاکہورفعہلبھاسےمرادعزتکیموتسےمارکرپھرانکیروحوںکوکسیمکانبلندیااونچےجوبارہپرپہنچادینےیابٹھلائےکےہیں۔

قرآنیآیت

آگےکےجملے:۵۔ آیتہذامیںبھیکسیلفظسےاشارةًیاکنایتہ ً بھیموتکاوہموگماننہیںہوسکتا۔کیونکہیہسراسردنیویلوگوںکےمذکورہیںپسکسیذیہوشکوبھیاسسےوہموخیالموتیاعزتوغیرہکانہیںہوسکتا۔ سوایِقادیانیکےالہام۔۔۔کے

۶۔قرآنیآیت

یہبھیدنیاہیکاحالہے۔ چنانچہماقبلاسکے۔۔۔۔۔۔واقعہے۔ یعنیتیراسینہکھولدیاہے۔ یعنیہدایتبخشیہے۔ قرآنعطاکیاہے۔ روشنیبخشیہے۔ حقوباطلکیتمیزدیہے۔ توکیایہسبباتیںعزتکیموتدیکرپھرآپکیروحکوکسیمکانبلندمیںپہنچاکرظہورمیںآئیتھیں؟معاذاللہماشاللہ۔

۷۔قرآنی۔کیاقادیانییہاںاللہتعالیٰکوبھیعزتکیموتدیکرپھراللہتعالیٰکےروحکوکسیمکانبلندپرپہنچادیگا۔ معاذاللہحاشااللہ۔

۸۔ قرآنی۔ کیایہاںبھییہمعنیکئےجائینگےکہابراہیمنےکعبہکےبنیادیپتھروںکوعزتکیموتدیکرپھرانکےروحوںکومکانبلندمیںپہنچادیاتھا؟قادیانیکچھتوجہواستخارہکرکےتودیکھےشائداسکیبابتبھیاسکوکوئیاورالہام۔۔۔ ہوجاوے۔

۹۔یہاںبھیکوئیموتکااشارہتکنہیںہے۔ بلکہمحضدنیویحالاتلوگوںکےمذکورموجودہیں۔

۱۰۔توکیایہاںہرایکعملصالحکوعزتکیموتدیکرپھرہرایکعملتےروحکومکانبلندپہنچانامرادہے؟کلاوحاشا

۱۱۔کیابیوتیعنیمساجداللہمیںاللہتعالیٰنےاپنےہرایکاسمکوبھیعزتکیموتدےکرپھراسکےروحکوکسیبلندمکانپرپہنچادیتاہے؟قادیانیکوکچھتوشرمکرنیچاہیے۔

۱۲۔کیااسآیتمیںموضوںکویہحکمہواہےکہاپنیآوازوںکوعزتکیموتدےکرپھرانکےروحوںکسیمکانبلندپرچڑھاکرپھرنبیکیآوازپرنہچڑھادیاکرو۔افسوسصدافسوسقادیانیکیقرآن۔۔۔پر

۱۳۔کیایہاںدرجاتکوبھیعزتکیموتدےکرپھرانکیروحوںکوکسیمکانبلندمیںپہنچادینےکاذکرہے؟ہرایکمصنفمزاجحقپرستجملہآیاتکتاباللہسےخودہیتدبروتفقہکرکےحقوباطلمیں امتیازکرسکتاہے۔

۱۴۔آیتہذامیںبھیلفظنوفعسےموتکاکوئیاشارہنہیںبلکہسراسردنیویحالاتمذکورموجودہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔قرآنمجیدمیںیا۔۔کےبسماللہسورہفاتحہسےلیکرسورةالناسکےآخریسینتکجہاںکہیںلفطرفعیااسکےمشتقاتعموماًوخصوصاًمجردیامزیدمذکورموجودہیں۔ کسیجگہسےاشارةًیاکنایتہًبھییہوہموخیالنہیںہوسکتاکہوہاںموتیاموتکےبعدروحکوعزتکےساتھاللہتعالیٰکیطرفاٹھانےجانےکاکوئیبھیمظنہہوسکےاورنہہیکسیکتابمفتمیںرفعیارفعکےمشتقاتکےایسےمعنیآئےہیںجنسےقادیانیکیکچھسفاہتوشقاوتچلسکے۔

تردیدادہامقادیانیصفحہ۹۹تا۱۰۳

دفعہ۔۳یسوعمسیحکیموتوحیاتکیبابتقدیممسلمانوںکےعقیدے

قدیممسلمبزرگوں کےیسوعمسیحکیموتوحیاتکینسبتعقائدمسلمروایاتمیںہمارےزمانہتکپہنچےہیں۔ انہیںخصوصاًسرسیدمرحوماورمرزاصاحباورمرزاصاحبکےمتقداصحابنےعوامکیآگاہیکیلئےاپنیاپنیتصنیفاتمیںبیانفرمائےہیں۔ جہاںسےذیلکیعبادتیںاوراقوالنقلکیےجاتےہیں۔

سرسیدمرحوماپنیتفسیرالقرآنجلددوممیںلکھتےہیں

اولتوسورہالعمرانمیںاوروہیہیآیتہےجسکیہمتفسیرلکھتےہیںکہجباللہنےعیسیٰسےکہاکہبےشکمیںتجھکووفاتدینےوالاہوں اورتجھکواپنیطرفرفعکرنےوالاہوں۔

دوم۔سورہمائدمیںجہاںفرمایاکہ ”جباللہتعالے ٰ حضرتعیسی ٰ سےکہےگاکہکیاتونےلوگوںسےکہاتھاکہجتھکوتیریماںکوخدابناﺅتوحضرتکہینگےکہمیںنےانسےنہیںکہا۔بجزاسکےجسکاتونےمجھکوحکمدیاتھاکہخداکیعبادتکروجومیراوتمہاراپروردگارہےاورجبتکمیںانمیںرہاانپرشاہدتھا۔پھرجبتونےمجھکووفاتدیتوتوانپرنگہبانتھااورتوہرچیزپرگواہہے۔

سوم۔سورہمریممیںجہاںفرمایاہےکہجبحضرتمریمحضرتعیسیٰکوعلماءیہودسےکلامکرنےکولےآئیںتوحضرتعیسی ٰ نےکہاکہمیںخداکابندہہوںاورنبیہوںاورمجھکوکتابملیہےاورمجھکوکوحکمدیاہےنمازکااورزکوةکاجبتککہمیںزندہرہوںاوراپنیماںکےساتھنیکیکرنےکااورمجھکوحیاردشقینہیںبنایاہےاورمجھپرسلامتیہےجسدنکہمیںپیداہوا۔ اورجسدنکہمرونگااورجسدنکہپھرزندہہوکراٹھونگا (یعنیبروزحشر)۔

چہارم۔سورہنساءمیںجہاںیہودیوںکےکفرکےاقوالبیانکئےہیںوہاںانکایہقولنقلکیاہےکہیہودیکہتےتھےہمنےعیسیٰبنمریمرسولخداکوقتلکرڈالا

قرآنیآیت

ترجمہ:حالانکہنہانہوںنےانکوقتلکیااورنہصلیبپرمارا۔لیکنانپر( صلیبپرمارڈالنےکی)شبیہکردیگئی۔ اورجولوگکہاسمیںاختلافکرتےہیںالبتہوہاسباتمیںشکمیںپڑےہیں۔انہیںاسکایقیننہیںہے۔ بجزگمانکیپیرویکےانہوںنےانکویقیناقتلنہیںکیا۔ بلکہخدانےاپنےپاسانکواٹھالیا۔

پہلیا ٓیتمیںصافلفظ ”متوفیاٹ“کاواقعہے۔ جسکےمعنیعموماًایسےمقامپرموتکیلئےجاتےہیں۔خودقرآنمجیدسےاسکیتفسیرپائیجاتیہے۔ جہاںخدانےفرمایاہے۔۔۔۔۔۔۔ابنعباساورمحمدابناسحقنےبھیجیسےکہتفسیرکبیرمیںلکھاہے۔متوفیاتکےمعنیممیتاککیلئےہیں

یہیحاللفظتوفیتنیکاہےجودوسریآیتمیںہےاورجسکےصافمعنییہہیںکہجبتونےمجھکوموتدییعنیجبمیںمرگیااورانمیںنہیںرہاتوتوانکانگہبانتھاپہلیآیتمیںاورچوتھیآیتمیںلفظ ”رفع“کابھیآیاہے۔جسسےحضرتعیسیٰکوکیقدرومنزلتکاظہارمقصودہے۔ نہیہکہانکاجسمکواٹھالینےکا۔تفسیرکبیرمیںبھیبعضعلماءکاقوللکھاہےکہلفظ”رفعکاتعظیمااورتضیخا “بولاگیاہے۔

قرآنیآیت

ترجمہ:ٹھیکٹھیکمعنیسمجھتےتھے۔انکاخیالتھاکہیہودیوںنےحضرتعیسیٰکوقتلنہیںکیابلکہوہخوداپنیموتسےمرے،مگرانہوںنے ” “کےمعنوںمیںغلطیکیجوخیالکیاکہپھرزندہہوکرآسمانپرچلےگئے۔کیونکہ ” “کےلفظسےجیساہمنےاوپربیانکیاآسمانپرجانالازمنہیںآتا۔ تفسیرکبیرمیںلکھاہےکہحضرتعیسیٰپرموتطبعیطاریکرنےسمقصودیہتھاکہانکےدشمنانکوقتلنہکرسکیں۔ دہبکایہقولہےکہوہتینگھنٹہتکمردہرہےاورمحمدابناسحاقکاقولہےکہساتگھنٹہتکپھرزندہہوئےاورآسمانپر

چلےگئے۔اورربیعابنانسکاقولہےکہاللہتعالی ٰ نےا ٓسمانپراٹھاتےوقتموتدی (تفسیرالقرا ٓنصفحہ۴۱-۴۲-۴۳-۴۴

۲۔مرزاصاحبنےذیلکےبزرگوںکیبابتذیلکےعقیدےسےمنسوبکئےہیںچنانچہہمنےیہتحقیقاتبھیکیتوبعددریافتثابتہواکہصحیحبخاریمیں یعنیکتابالتفسیرمیںآیتفلماتوفیتنیکےمعنیآنخضرتصلیاللہعیلہوسلمکیطرفسےمارناہیلکھاہےاورپھراسیموقعہپرآیتانیمتوفیاککےمعنیحضرتابنعباس ؓ سےممیتکدرجہیں۔ یعنیاےعیسیٰمیںتجھےمارنےوالاہوں۔ ابانحضراتمولویوںسےکوئیپوچھےکہپہلافیصلہتوتمنےمنظورنہکیامگرصحابہکافیصلہاورخاصکررسولکافیصلہقبولنہکرنااورپھربھیکہتےرہناکہتوفیکےاورمعنیہیں۔ ایمانداریہےیابےایمانی۔ایسےتعصبپربھیہزارحیفکہایکلفظکےمعنیرسولاللہصلیٰاللہوسلمکےمنہسےبھیسنکرقبولنہکریں۔ بلکہکوئیاورمعنیتراشیںاوراسفیصلہکومنظورنہرکھیں۔ جوآنحضرتصلیٰاللہعلیہوسلمنےآپکوکردیااوراپنینزاعکواللہاورسولکیطرفردنہکریںبلکہارسطواورافلاطونکیمنطقسےمددلیں۔یہطریقعلماءکانہیںہے۔البتہاشقیاہمیشہایساہیکرتےہیں۔ بلکہہمارےلئےآنحضرتصلیاللہعلیہوسلمکیشہادتسےاورکوئیبڑھکرشہادتنہیں۔ہماراتواسباتکوسنکربدنکانپجاتاہےکہجبایکشخصکےسامنےرسولﷺکافیصلہپیشکیاجائےتووہاسکوقبولنہیںکرتااوردوسریطرفبہکتاپھرتاہے۔پھرنہمعلومانحضراتکےکسقسمکےایمانمیںکہنہقرآنکریمکافیصلہانکینظرمیںکچھچیزہے۔ نہرسولﷺکافیصلہنہصحابہکیتفسیر۔یہکیسازمانہآگیاکہمولویکہلاکراللہرسولکوچھوڑتےجاتےہیں۔ اوراگربہتتنگکیاجائےاورکہاجائےکہجسحالتمیںرسولﷺنےتوفیکےمعنیمارتاکردئیےہیںتوپھرکیوںآپلوگقبولنہیںکرتےتوآخریجوابانحضراتکایہہےکہحضرتمسیحکیزندگیپراجماعہوچکاہے۔پھرہمکیوںقبولکرلیں۔ مگریہعذربھیبدترازگناہاورنہایتمکروہچالاکیاوربےادبیہے۔ وہاجماعکیسااورکیاحقیقترکھتاہے۔ماسواءاسکےاجماعکادعویٰبھیسراسرجھوٹاورافتراہے۔ دیکھوکتابمجمعبحارالانواءجلداولصفحہ۲۸۶۔جواسمیںحکماکےلفظکیشرحمیںلکھاہے۔ قرآنیآیت۔۔۔یعنیعیسی ٰ ایسیحالتمیںنازلہوگاجواسشریعتکےمطابقحکمکریگانہنبیہوکر۔ اوراکثرکایہقولہےکہعیسیٰنہیںمرا۔ اوراماممالکنےکہاکہعیسی ٰ مرگیااوروہتنتیسبرسکاتھاجبفوتہوا۔ابدیکھوکہاماممالک ؓ کسشاناورمرتبہکااماماورخیرالقردنکےزمانہکااورکروڑہاآدمیانکےپیروہیں۔ جبانہیںکایہمذہبہواتوگویایہکہناچاہیےکہکروڑہاعالمفاضلاورمتقیاوراہلدلایتجوسچےپیروحضرتامامصاحبکےتھے۔ انکایہیمذہبتھاکہحضرتعیسیٰفوتہوگئےہیں۔ کیونکہممکننہیںکہسچاپیرواپنےامامکیمخالفتکرے۔ خاصکرایسےامرمیںجونہصرفامامکاقولرسولکاقولصحابہکاقولتابعینکاتبعتابعینکاقولہے۔ابذراشرمکرناچاہیےکہجبایساعظیمالشانامامجوتمام۔۔۔۔سےپہلےظہورپذیرہوااورتماماحادیثنبویپرگویاایکدائرہکیطرحمحیطتھا۔جباسیکایہمذہبہوتوکسقدرحیاکےبرخلافہےکہایسےمسئلہمیںاجماعکاناملیں۔افسوسکہحضراتمولویصاحبانعوامکودھوکادیتےہیں۔مگربولنےکےوقتخیالنہیںکرتےکہدنیاتماماندھینہیں۔کتابوںکودیکھنےوالےاورخیانتوںکوثابتکرنےوالےبھیتواسقوممیںموجودہیں۔یہنامکےمولویجبدیکھتےہیںکہنصوصقرآنیہاورحدیثیہکےپیشکرنےسےعاجزآگےاورگزرگاہباقینہرہا۔اورکوئیحجتہاتھمیںنیںتوناچارہوکرکہہدیتےہیںکہاسپراجماعہےکسینےسچکہاہےکلاآںباشدکہبندلشوداگرچہدروخگوئد۔ یہحضراتبھیجانتےہیںکہخوداجماعکےمعنوںمیںہیاختلافہے۔ بعضصحابہتکہیمحدودرکھتےہیں۔بعضقرونثلثہتک،بعض۔۔۔اربعہتک۔مگرصحابہاور۔۔۔ کاحالتومعلومہوچکااوراجماعکےتوڑنےکیلئےایکفردکاباہررہنابھیکافیہوتاہےچہجائیکہاماممالک ؓ جیساعظیمالشانامامجسکےقولکےکروڑہاآدمیتابعہونگے۔حضرتعیسیٰکیوفاتکاتصریحقائلہےاورپھریہلوگکہیںکہانحیاتپراجماعہے۔ شرمشرمشرم۔

اتمامالحجتصفحہ۱۸-۱۷-۱۶

انہوں نےانکارحیاتعیسیٰکوکلمہکفرتوٹھہرایامگرآنکھکھولکرنہدیکھاکہقرآناورنبیآخرالزماںدونوںمتفقاللفظواللسانحضرتعیسیٰکیوفاتکےقائلہیں۔ اماممالکجیسےجلیلالشانامامقائلوفاتہوگئےاورامامبخاریجیسےمقبولالزماںامامحدیثنےمحضوفاتکےثابتکرنےکیلئےدومتفقرقمقاماتکیآیتوںکیایکجگہجمعکیا۔ابنقیمجیسےمحدثنےمدارجالسالکینمیںوفاتکاذکرکردیا۔ ایساہیعلماءشیخعلیبناحمدنےاپنیکتابسراجمنیرمیںانکیوفاتکیتصریحکی۔معتزلہکےبڑےبڑےعلماءوفاتکےقائلگذرگئے۔پرابھیتکہمارےمخالفوںکینظرمیںحضرتعیسیٰکیحیاتپراجماعہیرہا۔ یہخوباجماعہے۔خداتعالیٰانلوگوںکےحالپررحمکرے۔یہتوحدسےگذرگئے۔ جوباتیںاللہاوررسولکےقولسےثابتہوتیہیں۔ انہیںکوکلماتکفرقراردیا۔ اناللہواناالیہراجعون

اتمامالحجتصفحہ۲۱-۲۲

ماسوااسکےحدیثکیروسےبھیحضرتعیسیٰعلیہالسلامکافوتہوجاناثابتہے۔چنانچہتفسیرمعالمکےصفحہ۱۶۲میںنہتفسیرآیت۔۔۔۔۔۔لکھاہےکہعلیبنطلہابنعباسےسروایتکرتےہیںکہاسآیتکےیہمعنیہیں۔۔۔۔یعنیمیںتجھکومارنےوالاہوں۔ اسپردوسرےاقوالاللہتعالیٰکےدلالتکرتےہیں۔۔۔۔۔۔۔غرضحضرتابنعباس ؓ کااعتقادیہیتھاکہحضرتعیسیٰفوتہوچکےہیںاورناظرینپرواضحہوگاکہحضرتابنعباسقرآنکریمکےسمجھنےمیںاولنمبروالوںمیںسےہیںاوراسبارےمیںانکاحقمیںآنحضرتﷺکیایکدعابھیہے۔پھراسیمعالممیںلکھاہےکہدہبسےیہروایتہےکہحضرتعیسیٰتینگھنٹہکےلئےمرگئےتھےاورمحمدبناسحاقسےروایتہےکہنصارےکایہگمانہےکہساٹھگھنٹہتکمررہے۔مگرمولفرسالہہذاکوتعجبہےکہمحمدبناسحاقنےساٹھگھنٹہتکمرنےکینصاریکیکنکتابوںسےروایتلیہے۔ کیونکہتمامفرقےنصاریکےاسیقولپرمتفقنظرآتےہیںکہتیندنتکحضرتعیسیٰمرےرہےاورپھرقبرمیںسےآسمانکیطرفاٹھائےگئے۔اورچاروںانجیلوںسےبھییہیثابتہوتاہےاورخودحضرتعیسیٰانجیلوںمیںاپنیتیندنتککیموتکااقراربھیکرتےہیں۔ بہرحالموتانکیثابتہےاورماسوااندلائلمتذکرہبالاکےیہودونصاریکابالااتفاقانکیموتپراجماعہےاورتاریخیثبوت۔۔۔۔انکےمرنےپرشاہدہے۔ اورپہلیکتابوںمیںبھیبطورپیشنگوئیانکےمرنےکیخبردیگئیتھی

ازالہادہامصفحہ۹۸۷

ابرفعکےبارےمیںسنئےاورذراتصیرالدرالمنشورصفحہ۳۶ہیکواولاًزیرآیت۔۔۔دیکھلیجئے۔ اللہنےعیسیٰکوتینگھڑیاںوفاتدیپھرآسمانپراٹھالیا۔

۲۔تیندنوفاتدیپھرآسمانپراٹھالیا۔اسکےنقلکرنےوالےبھیابنعساکرہیں۔ جنکاحوالہآپنےبھیدیاہے۔۔۔۔۔

۳۔ساتگھڑیاںوفاتدی۔ پھرزندہکیا۔۔۔۔۔۔۔۔تینوںروایتوںمیںرفاعالیالسماءکاذکرنہیں۔۔۔۔۔۔۔

۴۔بحالتنومرفعکیا۔۔۔۔۔

۵۔بحالتیقظہاٹھایاجیساکہ۔۔۔۔میںگذرا

۶۔جبریلا ٓکرایکروزنسےنکالکرلےگئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۷۔آپطورسیناپرتھےایکتیزہواچلیاورآپتیزدوڑے۔اسیحالتمیںاللہنےاٹھالیاکانعیسیٰعلیطورسینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۸۔بادلوںمیںلڑکرگے۔انجیلملاحظہہو۔ غرضاسقسمکےکئیاختلافہیں۔ (تشخیدالاذہانصفحہ۲۶۷

اہلحدیثلکھتاہے:

علامہعبدالوہابشعرانینےکتابالیواقیتوالجواہرمیںاسرازسربستہکوانلفظوںمیںواضحکیاہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔(۱۰۶جلداول )

خدای ِ تعالیٰنےحضرتعیسیٰکیروحجبریلکےسپردکردیاورعالمملکوتمیںاسےسکونتبخشی۔اسوقتتککہمریم۔۔۔۔کیحبیبمیںاسکےنفعکاحکمدیاگیا۔خداکیتسبیحوتقدیسبیانکرتاتھا۔اسروحسےحضرتمسیحبغیرتوسطنطفہکےپیداہوئے۔ اسیلئےخدانےانکانامروحقراردیا۔ جساندازسےانمیںروحانیتبھیاتنیمدتکےلئےخدانےانکوآسمانپراٹھالیا۔ اورجسقدرماوہطینکاتعلقآپکیخلقتسےتھااتناعرصہزمینپرانکیرہائشرہیاورہوگی۔الغرضنورانیحصہآپکیذاتمیںغالبتھا۔ اسلئےآسمانیسکونتکیمعیادزیادہہے۔ شیخابنالغربیکاقولہےکہحضرتمسیحکیعہدطفولیتمیںگفتگو ()میںدونوںزندگیوںکیطرفاشارہہےیعنیخواہمیںآسمانپررہوںیازمینمیںہوںدونوںحالمیںمبارکہونگا۔ حضرتابیبنکعبکاقولاستقریرکاموئدہےکہخداوندعز۔۔۔نےجبجملہذاتکےہمراہارواحبنیآدمکوپشتآدممیںودیعترکھاتوحضرتعیسیٰکیروحاپنےپاسرکھلی۔جبخداکاارادہہواکہحضرتمسیحکوپیداکیاجائےتوآپکیروححضرتمریممیںنفعکردیجسسےحضرتعیسیٰپیداہوئے۔آیتروحمنہکایہیمطلبہےاورشیخجامی ؒ نےشرحنصوصالحکممیںاستفصیلکیطرفاشارہکیاہے۔۔۔۔۔۔

حضرتعیسیٰ ؑکوتینپہلوحاصلہیں۔ جسمانیاوردوسراروحانیاورتیسرادونوںکاجامعجہتجسمانینظرکرنےسےمعلومہوتاہےکہآپنطفہمریمیسےپیداہوئےہیںخصوصاًجبکہاسکےآثاریعنیاحیاموتیاورخلقطیرکوملاحظہکیاجائےتونفعجبریلیکاپہلوبہتتقویتپاتاہےاورجامعپہلوکودیکھنےسےمعلومہوتاہےکہدونوںرخآپکیخلقتمیںجمعہیں۔آپصورتبشریہہیںمشتملاورآپکیروحایسیذاتمیںودیعتتھیجوعلائقعنصریہسفلیہسےمبراتھی۔اسیلئےانکیاقامتکیہزارسالسےزائدعرصہگذرگیاہےاورتاحالوہزندہہیں۔ یہنفعجبریلیکااثرہے۔

ابرہایہسوالکہحضرتعیسیٰکورفعکرنےکیکیاضرورتتھی؟کسیامتیکونبوتسےسرفرازکرکےدینکیخدمتلیجاتیتومناسبتھا۔جسکاجوابیہہےکہامتیکوجدیدنبوةعطاہونےسےختمنبوةمیںفرقآتاتھااورحضرتعیسیٰاگراسنبوتپرجورسولخداسےپانصددستربرسپہلےحاصلکرچکےہیںتشریفلائیںتوآیتخاتمالنبینکاابمطاللازمنہیںآتا۔ کیونکہآپکوحضرتکےظہورکےبعدنبوتدستیابنہہوگیبلکہاپنیسابقہنبوتپرنازلہونگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(کرخی)یعنیاگرسائلسوالکرےکہحضرتعیسیٰ ؑ نبیہوکردنیامیںنازلہونگےتوپیغمبرخداخاتمالنبینکیونکرہوئے۔جسکاجوابیہہےکہختمنبوتکےیہمعنیہیںکہرسولخداﷺکےبعدنبوتکسیکوعطانہہوگیاورحضرتعیسیٰقریباًچھصدسالآنحضرتسےپیشترنبوتسےسرفرازہوچکےہیںاوراسیسابقہنبوتپرنازلہونگےاوروقتنزولشریعتمحمدیپرعاملہونگے (جل)

اورمداراکالستریلمیںعلامہنجمالدیننسفینےتحریرفرمایاہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔علامہخازننےاپنیتفسیرمیںیہیجوابمعتزلہاورجہیہکےشبہکادیاہے۔ اماممحیالدیننوادینےشرحمسلممیںاسجوابکابعضحصہذکرکیاہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرتعیسیٰ ؑ کانازلہوکردجالکوقتلکرنااہلسنتکےنزدیکحقاورصحیحہے۔ اورعقلاًاورشرعاًکوئیمبطلپایانہیںجاتااورمعتزلہاورجہیہنےاسعقیدہکاانکارکیااوراحادیثنزولمسیحکابحوالہآیت۔۔۔۔۔۔اورکہاکہیہعقیدہصرفقرآنہیکےمخالفنہیںبلکہحدیثلانبیبعدیاوراجماعامتکےبھیخلافہےاورحضورکیشریعتدائمیہےجوتاقیامتمنسوخنہہوگیاوریہاستدلالہردوکافاسدہے۔نزولسےیہمرادنہیںکہوہشریعتمحمدیہکےناسخہوکرنازلہونگےاورروایاتبابوغیرہمیںایساتذکرہنہدیکھاگیانہسناگیاہےبلکہدوسریروائیتوںسےجوکتابالایمانمیںگذرچکیہیںیہنتیجہپیداہوتاہےکہوہشریعتمحمدیہکےمطابقانصافسےحکمدینگےاور۔۔مہجورہکوزندہکرینگے۔

اہلحدیثمطبوعہ۲۴جون۱۹۲۱صفحہ۶-۷-۸

دفعہ۔۴عدمرجوعموتیکیحجتکیتردید

قرآنعربیآیاتمحکماتوتشابہاتکامجموعہہے۔یااسمیںکلاممتضادومخالفجمعہے۔عدمرجوعموتیکےمتعلقبھیقرآنیآیاتآئیہیں۔مگریہآیاتحضرتمحمدﷺکےزمانہسےلیکربعدکیدنیاکیلئےقانونہیںجوحضرتمحمدسےپیشترکیدنیاسےکوئیعلاقہنہیںرکھتاہے۔ کیونکہقرآنشریفمیںحضرتمحمدسےپیشترکیدنیاکیبابتایسےواقعاتمذکورہیںجوعدمرجوعموتیکےقانونکےبالکلخلافہیں۔ مثالکےطورپرذیلکےبیانپرغورفرماﺅ۔

یہباتقرآنشریفسےثابتہےکہیسوعمسیحاورآپکیوالدہماجدہحضرتمحمدکےوقتزندہتھےکیونکہقرآنمیں لکھاہے۔۔۔۔ترجمہپسکوناختیاررکھتاہےاللہکےکامسےکچھاگرچاہےیہکہہلاککرڈالےمسیحبیٹےمریمکےکواورماںاسکیکواوران

لوگوںکوبیچزمینکےسارے۔مائدہ۳رکوع۔شاہرفیعالدینصاحب

یہآیتزمینیمخلوقاتکیطرححضرتمسیحاورانکیوالدہکوزندہظاہروثابتکررہیہے۔ جنپرلفظہلاکتحضرتمحمدکےزمانہتکواردنہیںہواتھا۔ انپرہلاکتکاامکانظاہرکیاگیاہے۔ پساحمدیتکےکلدعاویکیاسواحدآیتنےتمامعمارتبیخوبنسےاکھاڑڈالیہے۔ اسنےیسوعمسیحکوحضرتمحمدکےزمانہتکزندہظاہر (ثابتکرکےلفظ”رفع“کےصفائیسےصعودوالیالسماءکےمعنیکردئیےہیںاورمرزاصاحبکیحیاتمسیحکےخلافجملہتاویلاتکوخاکمیںملادیاہے۔اسکےسواءاحمداصحابکیعدمرجوعموتیکیبدعتبھیخلافقرآنہےکیونکہقرآنمیںآیاہے

قرآنیآیت۔۔۔۔

ترجمہ :کیانہدیکھاتونےطرفانلوگوںکےکہنکلےگھروںاپنےسےاوروہتھےہزاروںڈرکےموتسے۔پسکہاواسطےانکےاللہنےمرجاﺅپھرجلادیااورانکوتحقیقاللہالبتہصاحبفضلکاہےاوپرلوگوںکے۔لیکناکثرلوگنہیںکرتے۔بقر۳۲رکوعمترجمایضاً۔پساسسےجوازرجوعموتیکاثابتہے۔

جوازرجوعموتیکےثبوتمیں۔سورہبقرہ۵۳رکوعکوذیلمیںنقلکرتےہیںلکھاہے۔

ترجمہ :کیانہدیکھاتونےطرفاسشخصکےکہجھگڑاابراہیمسےبیچپروردگاراسکےکےاسواسطےکہدیاسکواللہنےپادشاہی۔جسوقتکہاابراہیمنےپروردگارمیراوہجلاتاہےاورمارتاہے۔یہکہاکہمیںجلاتاہوںاورمارتاہوں۔کہاابراہیمنےپستحقیقاللہلاتاہے۔سورجکومشرقسے۔پسلےآتواسکومغربسے۔پسبھچکاہواوہجوکافرتھااوراللہنےراہدکھاتاقومظالموںکویاماننداسشخصکےکہگذرااوپرایکگاﺅںکےاوروہگراہواتھااوپرچھتوںاپنیکےیہکہاکیونکرزندہکریگا۔اسکواللہپیچھےموتاسکیکےپسمارڈالااسکواللہنےاسکوسوبرس۔پھرجلایااسکوکہاکتنیدیررہاتو۔ کہارہامیںایکدنیاتھوڑےسےدنکہابلکہرہاتوسوبرس۔پسدیکھطرفکھانےاپنےکےاورپینےاپنےکےکہنہیںسڑااوردیکھطرفگدھےاپنےکےاورتوکہکریںہمتجکونشانیواسطےلوگوںکےاوردیکھطرفہڈیوںکےکہکیونکرچڑھاتےہیںہمانکوپھرپہناتےہیںانکوگوشت۔پسجبظاہرہواواسطےاسکےکہاجانتاہوںمیںتحقیقاللہاوپرہرچیزکےقادرہےاورجبکہاابراہیمنےاےربمیرےدکھلادےمجھکوکیونکرجلاتاہےمردوںکوکہاکیانہیںایمانلایاتوکہابلکہلایاہوںمیںلیکنتوکہآرامپکڑےدلمیراکہاپسلےچارجانوروںسےپسصورتپہچانرکھطرفاپنےپھرکردےاوپرہرپہاڑکےانمیںسےایکٹکڑاپھربالانکوچلےآوینگےتیرےپاسدوڑتےاورجانیہکہاللہغالبہےحکمتوالا۔

پساسکلامسےجوازرجوعموتیکامسئلہروزروشنکیطرحظاہروثابتہے۔جسسےاحمدیتکیتاویلاتکاباطلہونابخوبیروشنہے۔

قرآنمردےانسانکوہیزندہنہیںکرتابلکہوہمردہلکڑیوںکواژدہےبناکردکھاتاہے۔حضرتموسیٰکےعصاکیبابتلکھاہے

یعنیپسڈالدیاعصااپناپسناگہانوہاژدہاتھاظاہر۔۔۔۔۔۔اوروحیکیطرفہمنےموسے ٰ کےیہکہڈالدےعصااپناپسناگہانوہنگلجاتاہےجوکچھباندھلیتےتھےاعراف۱۴رکوعمترجمایضاً

مسیحنےمردےجلائے۔جیساکہلکھاہے۔۔۔۔۔اورجلاتاہوںمردےکوساتھاللہکےحکمکے،عمرانرکوع۔حتیٰکہمسیحنےپرندوںکواللہکےحکمسےخلقکرکےدکھایا۔

۶)یسوعمسیحکامرنااورپھرتیسرےروززندہہوکرآسمانپرجاناقرآنوتفسیراورمسلمبزرگوںکےاقوالسےثابتہوچکاہے۔

۷)اسکےسواسورہکہفمیںاصحابکہفکیکیفیتملاحظہہو۔ خصوصاًاسکے۴,۳رکوعکودیکھاجائے۔

۸)اسکےسواعذابقبرکےوقتجوازرجوعموتیٰکےبیاناتموجودہیں۔

۹)آخرمیںقیامتکےروزجملہمردوںکےزندہہونیکیقرآنشریفمیںتعلیمموجودنہہے۔ قرآنمیںآیاہے

عربی۔۔۔۔۔

ترجمہ:اورجسنےمنہپھیرایادمیریسےپستحقیقواسطےاسکیمعیشتہےتنگاوراٹھادینگےہماسکودنقیامتکےاندھا۔سورہطلہ۷رکوع۔ پھرلکھاہےکہ۔۔۔عربی۔۔۔۔یعنیاورپھونکاجاویگابیچصورکےپسناگہاںوہقبروںمیںسےطرفپروردگاراپنےکےدوڑینگے۔یسینٰ۴رکوعوغیرہ

پسبیانمافوقسےثابتہےکہمردوںکارجوعلاناازرویقرآنوغیرہثابتہےیہاحمدیاصحابکیغلطیہےکہعدمرجوعموتیپرزوردیتےہیں۔

دفعہ۵وفاتپراحمدیوںکیتحقیقاتکاخلاصہ

کتباحادیثسےاسکیمثالیں۔بخاریمیںایکبابہیہے۔ بابتوفیرسولﷺ۔ پھرآنحضرتﷺنےفرمایاکہعیسیعلیہالسلامکیتوفیکےوہیمعنیہیںجومیریتوفیکےہیں۔فرمایا۔۔۔۔۔عربی۔۔۔۔۔(بخاریکتابالتصیر)

ترجمہ: آنحضرتﷺنےفرمایاکہقیامتکےدنمیریامنکےکچھلوگدوزخکیطرفلےجائینگےتومیںکہونگایہتومیرےصحابہہیںجوابملیگاتونہیںجانتاکہتیرےپیچھےانہوںنےکیاکیا۔ اسوقتمیںوہیکہونگاجواللہتعالیٰکےصالحبندےعیسیٰ ؑنےعرضکیاتھا۔کہمیںانکااسیوقتتکنگرانتھاجبتکانمیںتھااورجبتونےمجھےوفاتدیتوتوہیانکانگہبانتھا۔

نتیجہ :اسحدیثسےصافنتیجہنکلاکہحضرتعیسیٰکیتوفیکیصورتوہیہےجوآنحضرتﷺکیتوفیکیہے۔ ورنہآپکایہفرمانافاقولکمالقالدرستنہیںرہتا۔(نعوزباللہ )

توفیکےمعنیعرفعاممیں:قرآناورآحادیثکےعلاوہاگرعرفعاممیںکوبھیدیکھاجائےتوبھیمتوفیکےمعنیمیتکےہیہوتےہیں۔مثالکےطورپرپٹواریکےرجسٹرڈاوردیگردفاترکودیکھلو۔

اورجنازہکیدعامیں۔۔۔عربی۔۔۔۔اورجسکوتوہممیںسےوفاتدےتواسلامپرہیوفاتدے۔

توفیکےمعنیلعنتسے :صراحمیںلفظتوفیکےنیچےہےتو۔۔۔۔عربی۔۔۔پھرلکھاہے۔۔۔عربی۔۔۔پالیااسکوموتنے۔(اساسالبلاغتہجلد۲صفحہ۳۴۱)

۔۔۔عربی۔۔۔(قاموسجلد۴صفحہ۴۰۳)

۔۔۔عربی۔۔۔۔(تاجالعروسجلد۱۰صفحہ۳۹۴)

۔۔۔۔عربی۔۔۔(لسانالعربجلد۲۰صفحہ۲۸۰)جباسکےنفسکواللہتعالیٰقبضکرےاورصحاحجوزیمیںبجای ِ نفسکےروحکالفظاستعمالکیاگیاہے۔

لسانالعربیہشعربھیپیشکیاہے۔

میتالقیامةیومتوفیمصعب

قامتعلیمضروحتیتیامھا

۔۔۔عربی۔۔۔(صحاحجوزی ) متوفی۔وفاتیافتہ۔مراہوا۔انتقالکردہشدہ۔ جہاںسےگذراہوا (فرہنگآصفیہجلد۴صفحہ۲۸۲

بعضتراجممیںتوفیکےمعنیبھرلینےکےلکھےہیںاوراسکامطلببھیموتدیناہے(فرہنگآصفیہ)

توفیکامادہ :کلیاتابوالبقاءصفحہ۱۲۹پرلکھاہے۔

۔۔۔عربی۔۔۔۔

یعنیتوفیکےمعنیمارنےاورروحقبضکرنےکےہیںاورعاملوگوںکااستعمالاسیمعنیپرہےاوراشتقاقاسکاوفاتسےہے۔توفیمجہولاستعمالکیاجاتاہے۔کیونکہانسانخوداپنیجانکوقبضنہیںکرتا۔کیونکہمارنےوالااللہتعالیٰہےیاکوئیاسکافرشتہہواورانسانوہجسکوموتدیجاتیہے۔

ابن۔۔۔ابیملیکہ (کسترالعمالجلد۶صفحہ۱۱۹)

۔۔۔عربی۔۔۔(تفسیرابنکثیرجلدصفحہ۳۸۴-۳۸۶)

۔۔۔عربی۔۔۔(سنہاماماحمدبن۔۔مطبوعہجلد۶صفحہ۳۰۲

(کنزالعمالجلد۶صفحہ۴۳)

(بخاریجلد۲صفحہ۲۳۹)

(موطااماممالکجلدماصفحہ۱۲۱مطبوعہمصر)

(اماماحمدجلد۶صفحہ۳۰۴)

(سنداحمدجلدصفحہ۲۸)

(کنزلاعمالجلد۷صفحہ۷۳)

توفیکےلئےانعامیاشتہار:چونکہمتنازعہفیہجگہمیںتوفیبابتفعلسےہےاوراللہتعالیٰفاعلہےاورذیروحیعنیحضرتعیسیٰعلیہالسلاممفعول

ایکبیجمسہے۶۰اثباتصلیب (pic-۲۰۷۳)

سراجالتفاسسرجلداصفحہ۱۴۰تیرفوناےیموتون

مجمعالبیانجلد۱صفحہ۲۳۴۔۔۔عربی۔۔۔

فتحالبیانجلد۱صفحہ۳۰۷۔۔عربی۔۔۔۔

درالاسرارجلد۱صفحہ۴۰۔۔۔عربی۔۔

ترجمہالقرآنتفسیرعبداللہچکڑالویصفحہ۲۰۲۔والدینتیوفونمنکماورجولوگمرجاویںتممیںسے

روحالبیانجلد۱صفحہ۴۴۸۔۔عربی۔۔۔

فتحالبیانجلد۸صفحہ۱۶۰۔۔عربی۔

فتحالبیانجلد۵صفحہ۲۲۷

روحالمعانیجلد۵صفحہ۴۰۹

روحالیبانجلد۳صفحہ۴۰۲-۴۰۳۔۔۔عربی۔۔۔

روحالیبانجلد۳صفحہ۴۶۵۔۔عربی۔۔

روحالیبانجلد۳صفحہ۴۶۹۔۔عربی۔۔۔اگربرانیمتراپیشازظہورآنعذاب

روحالیبانجلد۲صفحہ۳۴۱۔عربی۔۔

روحالیبانجلد۲صفحہ۲۳۵۔عربی۔

روحالیبانجلد۲صفحہ۲۷۳۔عربی۔

روحالیبانجلدصفحہ۲۱۲۔عربی۔

انوارالتنزیل۔(احمدیہپاکٹبکصفحہ۱۷۷-۱۸۸)

۔۔۔عربی۔۔(مائدہع۱۰)

ترجمہ:نہیںمسیحابنمریممگرایکرسولاللہالبتہآپسےپہلےسبرسولفوتہوچکےاورآپکیوالدہراستبازتھی۔ وہدونوں۔۔۔بیٹاکھاناکھایاکرتےتھے۔

استدلال :اللہتعالیٰنےعیسیٰاورمریمکےترکطعامکوایکجگہبیانفراکرظاہرکردیاکہدونوںکےیکساںواقعاتہیں۔ابمریمکےترکطعامکیوجہموتمسلمہےتومانناپڑیگاکہحضرتمسیحکےترکطعامکیبھییہیوجہتھی

کیونکہ۔۔۔ماضیاستراریہے۔ گویاابنہیںکھانے۔لیکنخداتعالیٰفرماتاہے (انبیاء۳)یعنیانکو )ہمنےیساجسمنہیںبنایاجوکھانانہکھاتاہویاہمیشہرہنےوالاہو۔

حدیثمیںبھیآنحضرتﷺفرماتےہیں۔۔عربی۔۔(بخاری)اےہمارےربہمارےلئےاسسےاستغنانہیںہوسکتاپسبشربصورتزندگتومحتاجطعامہے۔ پسمسیح ؑ کااساحتیاجسےبریہوناسوایِموتکےکیونکرممکنہے۔ فتدبروا

چوتھیدلیل۔۔۔عربی۔۔۔(آلعمران۱۰)

ترجمہ:آنحضرتﷺصرفایکرسولہیں۔ آپسےپہلےکےسبرسولگذرچکےہیں۔پساگریہمرجائےیاقتلکیاجائےتوتماپنیایڑیوںپرپھرجاﺅگے؟

استدلال : اسآیتمیںآنحضرتﷺسےپہلےتمامرسولوںکینسبتگذرجانےکیخبردیہے۔اورگذرجانےکےطریقصرفدوقراردئیےہیں۔ موتاورقتلیعنیبعضبذریعہموتطبعیگذرےاوربعضبذریعہقتل۔ اگرکوئیتیسریصورتگذرنےکیہوتی۔تواسکابھیآیتمیںذکرہوتا۔مثلاًآسمانپرزندہاٹھائےجانےکیصورتمیںجومسیحکےمتعلقخیالکیجاتیہے۔ چنانچہاسکیتائیدتفسیروںکےانحوالہجاتسےبھیہوئیہے۔ جوزیرعنوانخلاکےمعنیتفاسیرمیں۔ روحمیںدیکھوصفحہ۱۹۵۔

اسآیتمیںصافلکھاہےکہآنحضرتسےپہلےسبرسولگذرچکےہیں۔ فوتہوچکےہیں۔جنمیںحضرتعیسیٰبھیشاملہیں۔بلکہیوںکہناچاہیے۔ کہچونکہ۔۔۔۔۔عربی۔۔۔۔میںسےحضرتمسیحباہررہجاتےتھے۔اللہتعالیٰنےانکیوفاتکاذکرفرمانےکیلئےیہآیتنازلفرمائی

خلاکےمعنیازردیقرآنکریم :۔۔عربی۔۔خلاکےاندرداخلنہیںفرمایا۔جسسےمعلومہواکہاسقسمکاخلاکسیکانہیںہوتا۔اگرکوئیکہےکہچونکہآنحضرتﷺنےآسمانپرنہجاناتھااسلئےوہذکرنہکیاگیاتومیںکہتاہوںکہآنحضرتﷺنےقتلبھیتونہہوناتھا۔جیساکہاللہتعالیٰوعدہفرماچکاتھا۔۔۔۔عربی۔۔اسکاذکرکیوںکیا۔معلومہوا۔۔۔عربی۔خلامیںشاملہینہیں۔

دوم : بہتجگہیہلفظقرآنکریممیںموتکےمعنیمیںاستعمالہواہے۔ملاحظہہو

۔عربی۔(دومرتبہبقرع۱۶)

۔عربی۔(رعد۴۶)

۔عربی۔(حمسجدہع۳)

۔عربی۔(احقافع۲)

۔عربی۔(احقافع۲

۔عربی۔(احقافع۳

(یونسع۱۰)

(نورع۴)

(احزابع۵)

خلاکےمعنیازلغتعرب:

سوم۔لغتسےخلاکےمعنیماتکےثابتہیں۔عربی۔(لسانالعرب )

(اقربالمواروجلد۱صفحہ۲۹۹))

(تاجالعروسشرحقاموسجلد۱۰صفحہ۱۱۹۸))

شعرکیمثال:

اِذاسَیّدمِنَّاخَلَاقَامَسَیَّد

فَعوملببَماَقاعجالکرامقول (محاسہ )

خلاکےمعنیتفاسیرسے:

تفسیریمظہریجلد۱صفحہ۴۸۵۔عربی۔ایضاً

تفسیر۲جامعالبیانصفحہ۶۱۔عربی۔ایضاً

تفسیر۴سراجالنبرجلد۱صفحہ۲۳۹۔عربی۔یعنیپہلےرسولیامرگئےیاقتلہوگئے۔

تفسیر۵خازنجلد۱صفحہ۳۴۳۔عربی۔

تفسیر۶مدراکبرحاشیہخازنجلد۱صفحہ۳۴

تفسیر۷کشافجلد۱صفحہ۳۲۸۔عربی۔نبیکریمﷺکاخلاویسےہیہوگاجیسےپہلوںکاہوچکا۔

تفسیر۸قنویعلالبیضاویجلد۳صفحہ۱۲۴۔عربی۔

یعنیلوگوںنےاعتقادکیاکہآنحضرتﷺفوتہونگےتواللہتعالیٰنےفرمایاکہباقیرسولجبفوتہوگئےتویہکیوںفوتنہہوگا۔(احمدیہپاکٹبکصفحہ۱۹۱-۱۹۲

وفاتمسیحپراقوالائمہسلفسےاستنباط:

۱)امامبخاری ؒ نےفلماتوفیتنیوالیمتصلحدیثاورحضرتابوبکر ؓ کاخطبہاورحضرتابنعباسکےمعنیحمیتککواپنیصحیحمیںدرجفرماکراپناعقیدہدوبارہحیاتوفاتمسیحوضاحتسےبیانکردیا۔

۲)اماممالک ؒ کےمتعلقصافلکھاہے۔۔عربی۔جلد۱صفحہ۲۸۶یعنیاماممالک ؒ نےفرمایاکہحضرتعیسیٰ ؑ فوتہوگئے۔ نیزلکھاہے،۔۔عربی۔(اکمالالاکمالشرحمسلمجلد۱صفحہ۲۶۵

۳)امامابوحنیفہکااماممالکپرانکارثابتنہیں

۴)صاحبینحضرتامامابویوسفومحمداورحضراتاحمدبنخبلاورامامشافعینےاسمسئلہمیںسکوتاختیارکرکےبتادیاکہہماسمسئلہمیںاماممالکاورامامابوحنیفہکےساتھہیں۔

۵)جلالینمعہکمالینصفحہ۱۰۹مطبعمجتباٰئیکےحاشیہبینالسطورپرہے۔عربی۔امامابنحزمنےآیت۔انیمتوفیکوالیکوظاہرپرمحمولکرکےعیسیٰ ؑ کےفوتہوجانےکےعقیدہکوبیانکیااوروفاتکےقائلہوئے۔

۶)عبدالحقصاحبمحدثدہلویاپنےرسالہماثبتالسنتہصفحہ۴۹,۱۱۸پرفرماتےہیںکہحضرتعیسیٰ ؑ ایکسوبیسبرستکزندہرہے۔حجالکرامہصفحہ۴۲۸

۷)نوابصدیقحسنخانصاحبترجمانالقرآنجلد۲صفحہ۵۱۳حجالکرامہپرلکھاہےکہسبانبیاءجونبیکریمﷺسےپہلےتھےمرچکےہیںاورمسیحکیعمر۱۲۰برستھی۔

۸)حافظلکھوکےوالالکھتاہے۔

جویںپیغمبرگذرےسارےزندہرہیانہکوئی۔۔۔التفسیرمحمدیجلد۱صفحہ۳۲۰

۹) حضرتمحیالدینابنعربیفرماتےہیں۔عربی۔آخرکہحضرتعیسیٰآخریزمانہمیںبروزکےطورپرنازلہونگے۔ (تفسیرءالسالبیانمطبعنورلکشورجلد۱صفحہ۶۶۲

۱۰)بعضصوفیاءکامذہبہےکہمسیحموعودکابروزکےطورپرنازلہوگا۔ (اقتباسالانوارصفحہ۵۲)عبارتیہہےوبضےبرانندکہروحعیسیٰدرمہدیبروزکندونزولعبارتازیںبروزاست

۱۱)حضرتعائشہصدیقہنےگواہیدیکہحضرتمسیحکیعمرایکسوبیسبرستھی(درقانیجلد۱صفحہ۴۲

۱۲)تفسیرمحمدیمنزلاَوّلصفحہ۲۴۷پروفاتعیسیٰ ؑ بزباننبیکریمﷺبوقتبحثبخراںیوںرقمطرازہے

جوپیودےنالمشابہبیٹھاہونداشکنہکائی

زندہربہمیشنہمرسیموتعیسیٰنوںا ٓئی

۔عربی۔عیسیٰفوتہوگیاہے(ابنجریرجلد۳صفحہ۱۰۹)

امامجبائی۔اللہنےمسیحکوفاتدیاوراپنیطرفبلایا (تفسیرمجمعالبیانزیرآیتفلماءتوفینی)

۱۵)تاریخطبریجلد۲صفحہ۷۳۹پرمسیحکیقبرکےکتبہکییہعبارتنقلکیگئیہے۔۔عربی۔

حیاتمسیحکاعقیدہمسلمانوںمیںکیونکرآیا:

لکھاہے۔عربی۔(فتحالبیانجلد۲صفحہ۴۹)

ترجمہ :حافظبنقیمکیکتابزادالمعادمیںلکھاہےکہیہجوکہاجاتاہےکہحضرتعیسیٰ۳۲سالکیعمرمیںاٹھائےگئے۔اسکیتائیدکسیحدیثسےنہیںہوتیتااسکامانناواجبہو۔شامینےکہاہےکہجیساکہامامابنقیمنےفرمایاہےفیالوقعایساہیہے۔اسعقیدہکیبناءآحادیثرسولﷺپرنہیں۔بلکہیہنصاریٰکیروایاتہیںاورانسےہییہعقیدہآیاہے۔

احمدیہپاکٹبکصفحہ۲۱۱-۲۱۴

آحادیثاورلفظرفع

۱)آنحضرتﷺنےاپنےچچاحضرتابنعباسکےحقمیںدعافرمائی۔عربی۔(کنزلالعمالجلد۷صفحہ۶۸)اےمیرےچچااللہتعالٰےتیرارفعکرے۔

۲)۔عربی۔(کنزلالعمالجلد۲صفحہ۶۲)خاکساریانسانکورفعتمیںبڑھاتیہے۔پستمانکساریکرو۔ اللہتعالیٰتمہارارفعکریگا۔

۳)۔عربی۔جببندہتواصعکرتاہےتواللہتعالیٰاسکوساتویںآسمانکیطرفاٹھالیتاہے (کنزلالعمالجلد۲صفحہ۲۵)

بھائیو ! جسمانیطورپرکوئیاٹھابھیہے؟

۴)۔عربی۔(کنزلالعمالجلد۲صفحہ۲۵)جوشخصاللہکےلئےخاکساریکرے۔ اللہتعالیٰاسکارفعکرتاہے۔

۵)۔عربی۔(کنزلالعمالجلد۲صفحہ۲۶)جواللہکیلئےخشوعکرتےہوئےخاکساریکرے۔ اللہتعالیٰاسکارفعکرتاہے۔

Pages