عیسی

Jesus
Flowers

یسوع ناصری کے ماجرے

The Incidence of Jesus Christ

یہ پر مُطلب  اور معنی خیز فقرہ  جو ہمارے  مضمون کا ہیڈنگ ہے۔ انجیل  لوقا کے ۲۴/۱۹ میں مرقوم  ہے۔ اِلہام  یافتہ  محرر انجیل  اپنے نوشتہ  کے دیباچہ  میں یوں  لکھتا ہے۔  دیکھو لوقا باب اّول   چونکہ بہتوں  نے کمر باندھی کہ اُن کاموں  کا جو فی الواقع  ہمارے درمیان  انجام ہوئے بیان کریں۔ جس طرح سے اُنہوں  نے جو شروع سے خود دیکھنے والے اور کلام کی خدمت کرنے والے  تھے۔ ہم سے روایت  کی میں نے بھی مناسب جانا کہ سب کو سرے سے صحیح طور پر دریافت کر کے تیرے  لئے اے    بزرگ تھیوفلس  بہ  ترتیب  لکھوں  تاکہ تو اُن باتوں  کی حقیقت کو جنکی  تو نے تعلیم  پائی جانے۔ ۱/۱۔۴ تک مصّنف  انجیل کی اس تمہید سے چند امور  واضع ہو جاتے   ہیں۔ جنکی بابت مضمون پڑھنے سے پیشتر  واقفیت  حاصل  کرنا ناظرین  کے واسطے مفید ہو گا۔

امر اوّل یہ ہے کہ جو کچھ اِس انجیل  میں زیرک  مصنف  نے درج کیا ہے وہ سب روایتی  طور پر  حاصل کیا گیا۔ اور یہ سب کچھ متواتر طور پر سنُا گیا۔ کیونکہ وہ آپ  ہی فرماتا  ہے۔ کہ اُنہوں نے یعنے  بہتوں  نے  پس جو بات یا روایت  تواتر  کی حد کو پہنچگئی  ہو۔ اُسمیں  شک کا امکان  باقی نہیں رہتا ۔ جیسا کہ علماء محمدیہ تیرہ سو برس  کے طول طویل  زمانہ میں نہایت عرقریزی کر رہے ہیں۔ کہ کوئی صورت  ایسی پیدا ہو کہ معجزہ شق القمر  تواتر سے ثابت  کریں۔ کیونکہ یہ امر مخفی  نہیں ہے کہ تواتر  کا بطلان محال ہے۔ پر شکر خُدا کہ انجیلی واقعات کا تواتر    خود انجیل ہی کے لفظوں میں ایسا  روشن ہے۔ کہ ہم  کو مان لینے  کے سوا اور کچھ نہیں  سوجھتا۔

          امر دوم   یہ ہے کہ الہامی  مصّنف  انجیل نے صرف متواتر روایتوں ہی پر قناعت نہ کی بلکہ  بے لوث  مورخوں کی مانند  خود بھی اُن واقعات کی حقیقت کو دریافت  کرتا رہا۔ جب تک اُسے یہ جرُأت  ہوئی کہ اپنے قلم حقیقت  رقم سے لکھ چھوڑے۔  چنانچہ راِقم  موصوف کہتا ہے کہ میں نے بھی مناسب جانا کہ سب کو سرے سے صحیح طور  پر دریافت کرے پس جبکہ اِس انجیل کے مضمون   کی صحت کا یہ حال  ہے تو ہمکو یا کسی اور  ناظر کو شک لانیکی کیا مجال ہے۔

                                                            امر سوم یہ ہے کہ بعض  مصّنفوں  کی مانند  راقم انجیل  کی غرض اِس  انجیل   کے لکھنے  میں اپنے بقائے نام یا دِل  کے بہلانے  کا مقصد  نہیں۔ کیونکہ اکثر کتابوں  کی وجہ تصنیف  کچھ بھی نہیں ہوتی۔ لیکن یہاں ایک خاص اور نہایت ضروری  اور لابُدی صورت رونما ہوئی کہ مصّنف موصوف اپنی انجیل   کو ضرور  لکھےّ۔ اور جب کوئی کتاب مناسب  طور پر عین برآمد مدّعائے خاص کے واسطے تصنیف  کیجاتی ہے۔ تو اُس کی صحت اور وقعت  پر اشتباہ  وارد  نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ یہ صورت  ثابت بھی اس انجیل کی وجہ  تصنیف ہونے کا کامل  ثبوت رکھتی ہے۔ جیسا کہ راقم  انجیل لکھتا ہے کہ  تیرے  لئے اے بزرگ  تھیوفلس ۔۔۔۔۔ تاکہ تو اُن باتوں  کی حقیقت  کو جنکی تونے تعلیم  پائی  جانے۔

امر چہارم  یہ ہے کہ وہ کُل  واقعات جو اِس انجیل میں مندرج ہیں۔ مصّنف  انجیل کے محض دماغ سے  پیدا نہیں ہوئے بلکہ ایک شخص  مخاطب  مسمیّٰ تھیوفلس پیشتر سے اُن  کی بابت تعلیم  پاچکا تھا۔ اُنہیں کو ترتیب وار لکھنا مناسب معلوم ہوا۔ اور ہم  کسی نئی بات  پر شک ٍ لاویں  تو لاویں  مگر پورانی پایہ  تصدیق  کا مرتبہ رکھتی ہے۔  لہذا یہ کُل  واقعات  جو انجیل  میں ہم پڑھتے ہیں۔ تصدیق  شدہ ہیں۔ اور اِس  لئے ضروری ہے کہ ہم اُنھیں اپنی  زندگی  کا دستور العمل ٹھہرائیں۔

یسوع ناصری کے ماجرے

یہ ماجرے سادہ مگر نہایت دلچسپ  ہیں۔ جب پڑھے ایک نیا پہلو  پڑیگا۔ کسی زبان میں ملاحظہ  کیجئے ۔ طبیعت قبول کرنے کو حاضر  ہو گی۔ کسی وقت پڑھئے۔ جی  لگیگا۔ خوشی سے مطالعہ  فرمائیے۔ دل  میں سرور پیدا ہو گا۔ غم میں تلاوت  کیجئے۔ تسکین ہو گی۔ اُس کے متعلق ہر حرف شنگرف  ہے  اور ہر لفظ نادر۔ ہر فقرہ  دلربا  ہے۔ ہر جملہ محّبت پیرا۔ اِس مین یہ خوبی  ہے کہ پڑھنے والا کیسا ہی سنگین  دل طبیعت  کا سخت  ہو۔  موم کی طرح پگھل  جائے۔ کیسا ہی بدکار۔ ناہنجار ہو۔ نیکی پسند۔ صلح خواہ بنے کیسا ہی گناہ کو چاہتا ہو۔ اُس سے متنفّر  ہو سُدھر جائے۔

ہاں یہ وہ مضمون  ہے جسے قدرت  نے فطرت میں ڈھالا ہے۔ بلکہ اُس سے بھی بڑھکر  اعلیٰ و بالا ہے۔ وہ فوق العادت ہے  مگر بقدر فہم ۔ ممکن الوقوع ہے۔ اُس کی عجیب  زندگی  میں چھوٹے  بڑے  ماجرے  اِس  ترتیب  سے وابستہ  اور باہم پیوستہ ہیں۔ کہ ایک کو درمیان سے نکالنا گویا نظام  عالم  کو درہم برہم  کر دینا  ہے۔  افسوس بعض  اُن ناظرین  خوردبین  پر جو اپنی   نارسائی فکر  اور  گندئے زہن سے لاچار  ہو کر اپنی کو تاہ  عقل  کو نکتہ چینی کے میدان میں بے لگام گھوڑے کی طرح  دوڑاتے ہیں   کہتے ہیں کہ مرزا اسد اللہ خان  غؔالب  ایک دفعہ رات کو انگنائی میں بیٹھے تھے ۔ چاندنی رات تھی۔ تارے جھلکے  ہوئے تھے۔ آپ آسمان  کو دیکھ کر فرمائے  لگے۔ کہ جو کام بے صلاح  و مشورہ ہوتا ہے۔   بے ڈھنگا ہوتا ہے۔ خدا نے ستارے  آسمان  پر کسی سے  مشورہ کر کے نہیں بناتے۔ جبھی بکھرے ہوئے  ہیں نہ کوئی  سلسلہ نہ کوئی زنجیر  نہ بیل نہ بوٹہ۔ مگر جو ستاروں  اور اُن  کی قوّت  کشش  کے علم کو جانتے ہیں۔ وہ اِس امر کو  خوب پہچانتے ہیں۔ اکہ اگر  اُن بے شمار چھوٹے  بڑے ستاروں  میں سے ایک کو بھی اِدھر یا اُدھر کر دیا جائے۔  انتظام  کے مطابق کیسی گڑ بڑی پڑ جائے۔ ایک ستارا دوسرے سے فوراً لڑ جائے۔ ہم تم سب فنا ہو جائیں، اُسی طرح یسوع ناصری کے ماجروں  میں سے اگر ایک کو بھی اِدھر اُدھر کریں سارا انتظام جو اُس سے متعلق ہے جاتا رہے ۔

یسوع ناصری کے ماجرے

تکلف سے برُی ہے حُسن زاتی

قبائے گُل میں گُل  بوٹا کہاں ہے

شروع سے یسوع ناصری  کے ماجروں کو پڑھئے پہلی بات جو اُس میں آپ  کو ملیگی۔ وہ یہ ہے کہ اُس  کے بیان میں سادگی  ہے سچ مچ جیسا کوئی بیٹھا ہوا معمولی باتیں کرتا ہے۔ خاص کر اُس کی پیدایش  کا حال  ملاحظہ  فرمایئے۔ اب یسوع مسیح کی پیدایش  یوں  ہوئی کہ  جب اُس  کی ماں  مریم کی منگنی  یوسف کے ساتھ  ہوئی تو اُن کے اکھٹے آنے سے پہلے  وہ روح القدس سے حاملہ  پائی گئی۔ متی ۱/۱۸۔

آؤ اب ہم اور آپ  کسی باغ  میں چلیں۔ دیکھئے وہ گُلاب کا  پُھول   کیسا عمُدہ کھِلا ہوا ہے۔ بھینی بھینی خوشبو  دماغ کو معطر کرتی ہے۔  نسیِم صبح  رفتہ رفتہ  اور بتدریج جتنے اُس پھول  کے قریب  جاؤ۔ بوُئے خوش دماغ  میں پہنچاتی ہے۔ اب زرا پُھول  کی رنگت اور اُس کی سادگی پر  نظر اور دوڑائیے۔  اوّل میں ہلکی  پھر گُلابی  پھر  اور بغور دیکھئے  گویا بحر احمر کی تہ میں  نگاہ عبور کرتی ہوئی چلی جاتی  ہے بظاہر اُسکی پتّیوں  پر نہ کوئی نقش ہے نہ کسی طرح  کا نگار تو بھی وہ بہار ہے کہ دِل ہی جانتاا ہے۔ نہ آنکھ میں طاقت  کہ حد درجہ کی رنگت  کو دیکھ سکے اور نہ زبان  میں یارا کرشمہ بیان کرے۔ علیٰ ہذا لقیاس

یسوع ناصری کے ماجرے

میں پہلی  نظر میں کچھ  وقعت نہیں مگر رفتہ رفتہ جتنی  بار پڑھو۔ دل کھچتا چلا  جاتا ہے۔  کون شخص ہے کہ جو یہ الفاظ  سُنے  کہ اب یسوع مسیح  کی پیدایش  یوں ہوئی اور اپنے کانوں کو نہ جھُکاوے۔   تمنے بار ہا  بازاروں  اور میلوں  میں تجربہ کیا اور یقیناً  اور بھی واعظ  ہمارے  بیان کی تصدیق کریں گے کہ جب  کبھی مسیح کی پیدایش کا بیان شروع کیا جاتا ہے۔ لوگ کاموشی کی حالت  میں متوّجہ ہو کر سنتے ہیں۔ لیکن یہ نہیں  کہ وہ اُس کو فوراً تسلیم  بھی کر لیتے ہوں سو نہیں  بعدہ اعتراض  کرنے  ہیں  اور غیر ممکن  کو مارا مارا ایسی ہوتی ہے۔ جیسے غدر مچا ہو۔تو ابھی اَس میں کلام  نہیں کہ اُس کی پیدایش  کا حال سننُے والوں کو  دلونپر  ایک حالت جاری کر دیتا ہے۔

یسوع کے ماجرے

میں اکھٹے آنے سے پہلے والا جملہ سادہ تو ہے یعنی نہ اُس  میں منطق  ہے نہ فلاسفی نہ ریاضی نہ الجبرانہ ایچ پیچ تو بھی سادہ لوحوں کے عجیب  خلجان پیدا ہوتا ہے۔ اور بے سوچے  سمجھے اُٹھتے ہیں کہ یہ ہو نہیں سکتا۔ غیر ممکن  ہے  اسمبھنو ہے۔ ہم نےکبھی نہیں سنا  اور کبھی نہیں دیکھا کہ ایسے ماجرے دنیا میں کبھی  ہوئے ہوں۔ تو بھی ہمارا جواب  ایسے لووگوں کے واسطے سادہ عبادت میں یوں ہے کہ

یسوع ناصری کے ماجرے

میں اِس جملہ اکھٹے  آنے سے پہلے  میں کوئی ایسی انہونی بات نہیں ہے۔ جس پر کوئی آدمی ایسا گھبرا اُٹھے کہ نہیں نہیں کہنے لگے۔ ذرا ٹھہرو۔ دل کو قبضہ میں رکّھو ابھی سمجھے  جاتے ہو ۔ فی الحقیقت  کھیر  تو  سیدھی ہے۔ مگر حافظ  جی عدم بصارت کے سبب سے اُس کو ہنسیا کی طرح اپنے حق میں ٹیڑھا کئے لیتے ہیں۔ کیونکہ جہاں تک خیال کیا جاتا ہے۔ محال دو ہیں۔  ایک محال  عقلی دوم    محال  عادی۔ مسیح کی پیدایش میں اکھٹے آنے سے پہلے  والا جملہ  محال  عقلی نہیں ہے۔ جبکہ خداوند  خدائے قادر مطلق ہے۔ جو  دو مرد   و عورت سے ایک  تیسرا  بچہ پیدا  کر سکتا ہے۔ ممکن  ہے کہ وہ ایک ہی سے دوسرا بناوے۔ کوئی ہدایت عقل  مانع نہیں۔ سلسلہ عالم  میں آدم کے سلسلہ  کو لوٹ جائیے۔  آخر  میں  آپ کو ماننا پڑیگا  کہ خدا ایسا  قادر مطلق ہے کہ بغیر مردو عورت  کے پیدا  کر سکتا ہے۔ پس یہ واقعہ  موجودہ محال  عقلی نہیں ہے۔ مگر محال  عادی البتہ ہی  در آنحالیکہ ابتدائے آفرینش آدم سے اب تک  خداوند یسوع ناصری کے اور کوئی شخص ہائیں ہیت کزائے پیدا نہیں ہوا۔    پس عادت سے محال ہوا۔  لیکن دنیا میں بہتیری  باتیں  ہیں جو  عادتاً محال ہیں تو  بھی اُسکے  وجود سے انکار نہیں ہو سکتا۔

یسوع ناصری کے ماجرے

میں معترضین اس جملہ  کا خیال  نہیں کرتے۔ وہ روح القدس سے حاملہ  پائی گئی۔ متی ۱/۱۸۔ ہم  جہانتک  حقیقت  کو پہنچے ہین اور جو کچھ اب تک دریافت ہوا اُس کے مطابق  کوئی نہیں کہ سکتا کہ یسوع   مسیھ کی پیدایش میں قانون ایزدی شکست ہو گیا۔  البتہ اجرائے قانون کی حالت  میں  تبدیلی واقع ہوئی  اور وہ بھی دوامی اور استمراری  نہیں بلکہ ایک خاص غرض  کے پورا کرنے کو ہوا جو کچھ کہ ہوا  بحر حال قانون خُتص الامر ہمیں مجبور کرتا ہے۔ کہ ہم یسوع ناصری کی پیدایش فوق العادت کے ماننے  میں عُذر نہ کریں ۔ ورنہ قانون الہٓی  کی اُس سخت انحراف اور صاف لفظوں میں بغاوت  اور سرکشی  کے مجرم ہو کر سزا یا ب ہو گے  ایک مسیحی  مذہب  کا  سخت بلکہ ہولناک مخالف  جس نے مسیحیوں کے حق میں  بہ آواز  بلند یہ گواہی  دی کہ لقد کفر الزی والی آیت جس کا ترجمہ  یوں  ہے۔ کہ تحقیق  وہ لوگ کافر ہیں جو کہتے  کہ مسیح وہی خدا ہے۔ اور جہاں تک اُس سے ممکن  ہوا۔ مسیحیت  کی مخالفت  میں کچھ اُٹھا نہیں رکھتا ۔ تو بھی اپنے محاورہ میں مسیح کے حق میں ہمیشہ  ابن مریم  استعمال  کیا اور اس سوال کے جواب میں کہ وہ کس سے پیدا  ہوا۔  اور ہو ہ کون ہے۔ یہ کہا کہ تحقیق  مسیح عیسیٰ مریم کا بیٹا  اللہ  کا بھیجا ہوا اور کلام  خدا کا اور روح ہے۔ اُس سے لیکن عربی  ریفارمر  کے بیان  میں ایک عجیب   اکٹ پھیر ہے۔ جس سے معتقدین قرآن اور اُنھیں سے  بھاگے یعنے محمدیوں سے سنُے سنائے۔  اکثر ہندوؤں  کو بھی یہ وہم پیدا  ہوا  کہ اس آیت  میں روح سے مراد جبرائیل فرشتہ ہے۔ جس کا خلاصہ  بعض نے یہ تراشا  کہ گویا  خداوند  یسوع مسیح  جبرائیل  فرشتہ سے پیدا ہوا۔ اور اِس بدگمانی  سے سورہ مریم  کی اِن   آیتوں سے  نشونما  حاصل  کی ہو گی۔  پس بھیجا ہم  طرف اُس کے روح  اپنی کو  یعنے فرشتہ  کو پِس صورت پکڑی  واسطے اُس کی آدمی  تندرست  کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس حاملہ ہوگئی  ساتھ اُس کے لیکن اصلی آیتوں  میں فرشتہ  کا لفظ  مطلق نہیں۔ ترجمہ  میں البتہ لفظ  یعنے کے ساتھ درج ہے۔ اصل  عربی آیت  یوں ہے فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا ۔۔۔۔۔۔ فجملتةٰ                                                الخ

البتہ فتمثل بہا میں  بشر کا لفظ اُس بدگمانی  کا  موید  معلوم ہوتا  ہے۔ لیکن معلوم  نہیں ہو سکتا  کہ جناب  پیغمبر ؐ کو کسِ خدا نے یہ اُلٹی  و حی  بھیجی  جو اُس کے اس کلام کے سخت  مخالف  ہے۔ جس کا زکر  متی اور  خاص   کر لوقا کی انجیل  میں مذکور ہے کہ فرشتے نے مریم  سے کہا کہ روح قدس  تجھپر اتریگی  اور خدا ئے تعالیٰ کی قدرت  کا سایہ تجھپر  ہوگا اِس سبب سے وہ قدوس بھی جو پیدا ہوگا  خدا کا بیٹا کہلائیگا  لوقا  ۱/۳۵۔  اِس سے صاف  معلوم ہو گیا  کہ فرشتہ اور ہی اور روح القدس اور ہے یعنے فرشتہ  وہ ہے جو کلام کر رہا ہے۔ اور روح القدس  وہ ہے جس کی بابت کہا گیا کہ وہ مریم پر نازل ہو گی۔  پس عقل یہ چاہتی ہے کہ جس طرح  ہم  محمد صاحب کی پیدایش کے بیان میں رامائن  اور   بھاگھوت کو تلاش نہ کریں  گے اور رامچندر کی پیدایش  کے بیان میں قرآن  اور حدیث  کو نہ لیں گے۔ اُسی طرح یسوع ناصری کی پیدایش  کے بیان میں قرآن  سے متمثک نہ ہونگے۔  چہ جائیکہ در صورت اختلاف  صریح  اور دروغ فضیح اور جبکہ خود محمدی  برارد بجائے  ابن مریم  کے مسیح کو ابن جبرائیل  نہیں کہتے تو کیا ضرور ہے کہ ہم   اِن داہی باتوں میں اوقات  ضائع کریں۔ البتہ اُس سارے  بیان سے یہ تو معلوم  ہو گیا کہ یسوع مسیح کی پیدایش  میں قانون  فطرت بجائے خود بحال رہا۔ وہ آدمی سے پیدا نہیں  ہوا  مگر روح الہٓی  کی قدرت اور وسیلے سے اُس کا جسم  انسانی مریم کے شکم  میں طیار کیا گیا۔ یعنی مریم روح القدس سے  حاملہ  ہوئی ۔ جبکہ کنواری  تھی اور کسی مرد نے اُسے نہیں چُھوا تھا۔ ہمارے خیال  میں معقول سوال اِس مقام  پر یہ ہونا ضروری ہے کہ موجودہ قانون پیدایش انسانی کی تبدیلی کی کیا وجہ ہے اور یسوع مسیح بغیر انسانی میل  کے کیوں  پیدا ہوا۔ ہاں ہم  تیار ہیں کہ اِس سوال کا جواب  بڑی  خوشی کے  ساتھ لکھیں اور ناظرین اور نیز سامعین اور خود  مخالفین  بغوُر سنُیں۔

یسوع ناصری کے ماجرے

میں اگرچہ اس کے طریقہ پیدایش  کو بیان  کرنے میں اتنی بڑی  ضرورت  نہ تھی کہ اُس کی موت اور قیامت  کے ظاہر کرنے میں اور چاروں انجیلیں بلکہ اعمال اور بعض  خطوط مشمولہ عہد جدید ہمارے خیال کی تائید بھی کرتے  ہیں۔ یعنی کیا سبب ہے کہ اُس کی پیدایش  کا بیان متی اور لوقا  صرف  دو انجیلوں  میں پایا جاتا ہے۔ لیکن اُس کی موت اور پھر جی اُٹھنے  کا زکر چاروں انجیل میں بڑی شرح اور تفصیل  کے ساتھ ہوتا ہے۔ اِس امر کا ضرور خیال   ہے۔  ہم اگے  چل کر  کسی مقام  پر اس کا پورا بیان  ہدیہ ناظرین کریں گے۔ مگر اِس وقت اُس کی پیدایش معجزانہ  کا سبب بتائیں۔

آدم کو چھوڑو اِس واسطے کہ بغیر ماں اور  باپ   کے پیداا کرنے کی یہ ضرورت لاحق تھی کہ وہ خود ہی پہلا آدمی تھا۔ اور اُسی سئ نسلاً بعد نسلاً اِنسان پیدا ہونے  آئے ہیں۔ البتہ آدم  کی جورو جبکہ آدم  موجود تھا مگر کوئی عورت نہ تھی خدا نے محض مٹی سے نہیں بلکہ آدم سے اُس کو نکالا۔ وہاں بھی ضرورت تھی۔

یسوع ناصری گنہگاروں  کے بچانے کو دنیا میں تشریف آور ہوا۔  اور جس حال میں کہ کُل  انسان زاتی اور صفاتی گناہوں میں مبُتلا تھے اور آدم اور اُس کی کُل  نسل ایک نجات دہندہ کی محتاج تھی اور یہ امر کسی پر پوشیدہ نہیں کہ گنہگار گنہگار کو نہیں بچا سکتا ہے کیونکہ  اندھا اندھے  کو راہ دکھا سکتا ہے۔ اِس ضرورت  کے رفع کرنیکو قدرت ِ الہٓی  نے یہ انتظام کیا کہ اُقنوم  ثانی آدم  کے سلسلہ سے علیحدہ مجّسم  ہو اِنسان بنے اور شریعت کی تکمیل اپنے  زمّہ  لے اور گناہ کی سزا برداشت  کرے۔  ہم خیال کرتے ہیں کہ اِنسان ایک دوسرے کے گناہ کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔   کیونکہ  ہر ایک بزات خود گنہگار ہے۔ اِس لئے ضرور ہوا کہ نجات دہندہ   کنواری  مریم سے ظہور پزیر ہو۔

یسوع ناصری کے ماجرے

ہم  کو  صاف طور پر آئینہ دکھلاتے ہیں کہ ابتدائے آفرینش  سے آجتک  پردہ زمین کے کسی حصّے پر سوائے  یہودیہ کے بیت الحم  ایسا بے گناہ شخص کبھی ظاہر نہیں ہوا ہم  زر دشت کے حال   سے واقف ہیں۔ کنفوشیس کو جانتے ہیں۔ ہمارے ملک ہندوستان  کا بودھ عرب کے پیغمبر  بنگال  کے راجہ رام موہن رائے  اور ہ کے راجہ رامچندر اور متھرا کے کرشن۔ بنی اسرائیل  کے موسیٰ داؤد  سلیمان   سب  کی تصویریں نگاِہ  روبرو ہیں۔ گویا انکی مورتیں و پتُلیاں بنکر انکھوں میں اس وقت  گھوم رہی ہیں۔  مگر بصد افسوس  یہ کہنا پڑتا  ہے کہ آدھ پسے سرمہ کی مانند آنکھونمیں کھٹکتے ہیں۔پچھلے دِن  گزر گئے جب کتابوں  کی سخت  قِّلت  تھی۔ آج وہ دن ہے کہ چھاپہ  خانوں  نے روپیوں  کی کتابیں کوڑیوں  کے مول کریں ۔ حق پسند  گورنمنٹ  نے آزادی عنایت کی ہے۔ مصنف  مجاز ہیں کہ اپنے اپنے بزرگان دین کی سوانح عمریاں لکھیں۔ چھپوائیں۔ مشتہر  کرائیں۔ یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کوئی نظر نہ آیا۔  جنے جلیل  کے مچھوؤں کی مانند کسی ایسے شخص کی زندگی  دکھائی  ہوتی جس سے  زندگی کا چشمہ بہتا ہوا ہم روحانی تشنہ کاموں  تک پہنچتا۔ تاکہ اُس چشمہ حیات سے سیراب ہو کر پھر شبنم  سے پیاس نہ بجھاتے

یسوع  ناصری  کے ماجرے

بآواز بلند پکارتے ہیں اگر کوئی پیاسا ہو مجھ پاس آوے اور پئے جومجھ پر ایمان  لاتا ہے اُس کے بدن سے جیسا کتاب کہتی ہے۔ جیتے پانی کی ندیاں  جاری ہونگی۔ ناظرین شاید ہم بھولتے ہوں آپ ہی اُس فہرست میں جس کا زکر اوپر ہوا کسی کو پیش کریں۔ خاص ایسی حالت ناگفتہ بہ میں کہ سماجوں پر سماجیں   استہا پت ہوتی ہیں۔ برہم سماج۔ پرارتھنا سماج۔ دیو سماج   ۔ آریہ سماج۔ سنائن سماج اور انجمنوں  پر انجمیں قایم ہوتی ہیں۔ کانفرنسیں نشست کرتی ہیں۔ اور اس پر بھی پیاس بڑھتی جاتی   ہے۔  اس کا کیا سبب ہے۔ حضرت کیا اب تک وہ وقت نہیں آیا کہ اہل ہند مصیبت  کے پنجوں  سے رہائی پائیں پرانے گورد قدیمی مُرشدان پبچارے گناہ کے مارے  ہوؤں کا سر  مونڈ چُکے اب صرف گھٹنا مونڈ نا باقی ہے۔ ہائے افسوس کتنا کھو چکے اور پھر بھی نہ سیکھے۔

سورج کو چراغ مت دکھاؤ

آؤ آؤ یسوع ناصری کی تصویر ملاحظہ  کرو۔ اُسے اپنے سامنے رکھو۔ اور دیدہ حق مین سے دیکھو کہ کوئی مرد اُس کی مانند دنیا میں نہیں

یسوع ناصری کے ماجرے

میں اس کی بارھویں برس کی داستان بھی عجیب و غریب  ہے۔ مگر بیان وہی سادہ بغیر الجھاؤ کے ہاں سہل ممتنع اسکو کہتے ہیں بارہ برس کی بساط کیا ہمارے دیس کے لونڈے  لنگوٹی تک درستی سے نہیں باندھ سکتے۔ تعلیم  یافتہ مشن دھکیل دھکیل  کر مدرسوں میں بھیجتے۔ وہ راستہ میں گولیاں کھیلتے۔ ایک دوسرے سے گالی گفتار  بلکہ جوتی  پیزار بھی۔ اور یہ نہ جھوٹی امت والے بلکہ خاندانی  شرافت کی نشانی۔ اسکول  سے ایسے بھاگتے ہیں جیسے  غول  بیابانی  یا افواج  شیطانی بچارے راہ گیروں  کو اُ لّو بنا کر چھوڑیں ہم  مان لیتے ہیں کہ  جب بیس برس  سے اوپر سر کے۔  تب اُنہیں ہوش آیا۔ اور ایسوں  ہی میں سے بعض  نکلے  جو مختلف  اقوام  میں لیڈر کہلائے۔  

مطبوعہ ۲۱ فروری ۱۸۹۶ء بروز جمعہ

فرمانِ مسیح

مندرجہ متی۳۸:۵۔۴۲۔پر

مِرزَاغُلام احَمدقادیانی صاحب کا محاکمہ
اور
پَادری ٹھاکرداس کا فیصلہ


Decree of Christ

Matthew Chapter 5 verses 38-42

A Reply to Objection of Mirza Gulam Ahmed Qadiani

By

G. L. Thakkur Dass

Published in Nur-i-Afshan Feb 21, 1896


 

وہ تحریر جو ازیں جانب بھائی خیرالدین صاحب کےاعتراض کے جواب میں نور افشاںمطبوعہ ۱۸۹۶ء میں شائع ہوئی تھی۔ اُس پر مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے ایک محاکمہ (انصاف طلبی،فیصلہ)چھاپا ہے اور اُس میں فرضی اور بےحقیقت باتیں سنائی ہیں۔ میں واجبی تفتیش کے ساتھ اُس پر فیصلہ دیتا ہوں۔

قولہ۔ (اس کا کہا ہوا)پادری ٹھاکر داس صاحب اِس بات پر زور دیتےہیں کہ اِنجیل میں جانی یا مالی ضرر کی حالت میں ترک مقابلہ کے یہ معنی ہیں کہ ظالم سے اِنتقامِ حکومت ہی لے آپ مقابلہ نہ کریں۔

اقول۔ (اعراب کی تبدیلی سے قا فیہ کا بدل جانا جو کہ علم قافیہ کا ایک عیب ہے)میری با ت کے یہ معنی ٹکسال(وہ جگہ جہاں سکے ڈھالے جائیں) قادیاں میں گھڑے گئے ہیں۔ آپ میرا بیان پھر سمجھئے۔ حکومت خود حفاطتی کی ایک صورت ہے۔ آپ تیسری صورت پیش کردہ پر غور کیجئے۔

قولہ۔ غورِطلب یہ ا مر ہے کہ ترک مقابلہ کے کیامعنی ہیں؟ کیا صرف یہی کہ اگر کوئی ظالم آنکھ پھوڑی یا دانت نکال دے تو بتوسط (اس بات کے مخفف میں )حکام اُس کو سزا دلانی چاہیے۔ خودبخود اُس کی آنکھ نہیں پھوڑنی چاہیے نہ دانت نکالنے چاہیے۔ اگر یہی معنی ہیں تو توریت پر زیادت کیا ہوئی۔ کیونکہ توریت بھی تو یہی ہدایت دیتی ہے کہ ظالموں کو قاضیوں کی معرفت سزا ملےخروج۲۱باب۔

مگر پادری ٹھاکر داس صاحب کہتے ہیں کی انجیل کی تعلیم میں توریت پر یہ زیادت ہے کہ ایک مظلوم حکام کی معرفت اِنتقام لے۔

اقول ۔ مرزا صاحب آپ کا یہ کہنادرست نہیں ہے کہ میں اس سے توریت پراِنجیل کی تعلیم کی زیادت بتلاتا ہوں میں نے ہرگز یہ بات نہیں لکھی اور نا ایسی کمی یا زیادت کو پیشِ نظر رکھا تھا۔ اور اس لئےآپ کی ساری تقریر جو صفہ۲۔۳ میں ہے رائیگاں ٹھہری۔ آپ نے خودہی میری طرف سےایک بات فرض کر کے اپنی طرف سے اُس پر محاکمہ بنایاہے۔ عقلمندوں کی یہ عادت نہیں ہونی چاہیئے۔ میں اِس بات کوخوب جانتا ہوں کہ توریت میں انتقام قاضیوں کے متوسط(درمیانی،رواج) سے لینے کا حکم ہےاور انجیل میں یہ کوئی نئی تعلیم نہیں۔ مگر اس بات سے تو میری کچھ غرض نہ تھی اور جو اصل غرض تھی اُس کو آپ نے نظر اندازکیا اور یا آپ کی سمجھ میں نہیں آیا اور اس لئے آٹھ صفحے محاکمہ میں کالے کر ڈالے۔ پھردیکھئے کہ میں نے احکام سپشین اور احکام انجیل کی بابت یہ لکھا تھا کہ جس حال کہ کسی انسان کا حق نہیں کہ دوسرےکی جان و مال کو خطرے میں ڈالے اور جس حال کہ مسیح خداوند کے احکام میں وہ اصول موضوع کئے گئے ہیں، جو چھ حکموں کے تجاوز (حد سے بڑھنا)کی رغبت کو دل میں سے اُکھاڑ کرجو کسی قسم کی رسمیات ادا کرنے سے دُور نہیں ہوسکتے اور یہ نہیں ۔ (یعنی مسیح نے یہ نہیں کیا۔)کہ ان حکموں کے زور کویا اُن کی تجاوز کی سزا کو موقوف کردیا ہے۔ ہرگز نہیں بلکہ اُن کو قائم رکھا ہے۔ تو یہ صورت خودحفاظتی کے لئے سالم گُنجائش دیتی ہے۔ لہٰذا جو لوگ ظلم اور شرارت سے بازنہ آئیں اور ان سلیم ذریعوں کی قدر و پروانہ کریں جو خداوند نے باہمی راستی اور سلامتی کے لئے فرمائے ہیں ۔تو وہ لوگ واجبی بدلا پائیں ‘‘۔ پھرآپ اپنے خیال کے موافق انجیلِ مقدس کی تعلیم کو ناقص ٹھہرانے کے لئےطنزاًلکھتے ہیں کہ۔

قولہ ۔ کوئی انسان اپنی آنکھ ناحق ضیائع کرا کر پھرصبر نہ کر سکا اور اپنی قوت انتقام کو حکام کے ذریعہ سے ایسےوقت میں عمل میں لایا جو اُس کوکچھ نفع نہیں دے سکتا تھا۔ ایسے عیسائی سے تو یہودی ہی اچھا رہا جس نے خود حفاظتی کو کام میں لا کر اپنی آنکھ کو بچا لیا۔

اقول۔ میں کہتا ہوں کی اگر کوئی شخص اپنی آنکھ یا دانت ضیائع کروا کر دوسرے کی بھی خود ہی خود حفاظتی کی وجہ سے ضیائع کردے یا حکام سے چارہ جوئی کروائے تو بہر حال یہ انتقام اُس کو کیا نفع دے سکتا ہے۔ جب کہ اُس کا اپنا نقصان ہو ہی گیا ہے؟ اور اگر ظالم کا مقابلہ کرنے کی بجائے کوئی عیسائی مقابلہ سے پرہیزکر کےاپنی آنکھ یا دانت بچا لے تو آپ کو کیا تکلیف ہے۔ یہ حرکت نفسانی جذبات پر اثر کرنے والی ہوگی اور ایسا ہی انسان حقیقت میں نیک بخت ہے، جس نے اپنے آپ کو اوردوسرے کو بھی نقصان سے بچایااور مناسب نہیں کہ اپنی اپنی شرارتوں کو روا رکھنے کے لیے اس برداشت کو بُرا کہا جائے اور میں نے اپنی پہلی تحریر میں اس بات کا صاف بیان کیا تھا،کہ خداوند یسوع مسیح نے قصاص (انتقام،خون کے بدلہ خون)کی نوبت کو روکنے کے واسطےوہ ہدایتیں فرمائیں جو آیات ۳۹۔۴۲میں مندرج ہیں۔کہ’’ چھوٹی چھوٹی باتیں جیسے گال پر ٹھپڑ کھانا یا کپڑے چِھنوانا یا بیگا ر میں پکڑے جانا وغیرہ بدلالینے کے محل نا سمجھےجائیں ایسی حالتوں میں برداشت کرنا فرض ہے۔اور یاد رہے کہ خداوند اس حکم میں اُن حالتوں کو شامل نہیں کرتا ہے جن میں جان یا مال خطرے میں ڈالے جائیں جس سے ظاہر ہے کہ ایسی حالتوں میں خود حفاظتی کےدوسرے طریق عمل میں لائے جائیں۔ پس آپ کی طنز بالکل بے جا ہے۔

قولہ۔ شاید پادری ٹھاکر داس صاحب یہ کہیں کہ ترک مقابلہ اُس حالت میں ہے ۔جب کہ کوئی شخص تھوڑی تکلیف پہنچانا چاہے، لیکن اگر سچ مچ آنکھ پھوڑنے یا دانت نکالنے کا ارادہ کرے تو پھر خود حفاظتی کےلیے مقابلہ کرنا چاہیے۔ تو یہ خیال پادری صاحب کا انجیل کی تعلیم کے مخالف ہوگا اُس تعلیم سے تو یہی ثابت ہوا کہ اگرسچے عیسائی ہو تو دانت اور آنکھ نکالنے دو اور مقابلہ نہ کرو اور اپنی آنکھ اور دانت کو مت بچاؤ۔ سو وہی اعتراض انجیل پر ہوگاجو خیرالدین صاحب نے پیش کیا ہے۔

اقول ۔ مسیح یسوع کی تعلیم کا یہ نتیجہ ہرگز نہیں کہ چپ چاپ بیٹھ کر آنکھ اور دانت نکلوایا کرو اور مقابلہ نہ کرو۔کیونکہ اُس نے قصاص کا حکم پہلے جتا دیا ہے۔ اگر خداوند کی مراد ایسی حالتوں میں بھی ترک مقابلہ کی ہوتی جب جان کاخوف ہو تو وہ اُس کی بابت صاف صاف فرما دیتا ،لیکن جو حالتیں اُس نے بتائی ہیں وہ ایسی خطرناک حالتوں سے غیر ہیں اور آپ نے جو تمانچہ (تھپڑ)کی شدت کا شوخ بیان کیاہے، کہ اُس سے آنکھ اور دانت نکل سکتے ہیں۔ تو یہ نوبت پھر قصاص کے تحت میں آجاتی ہے۔ اور عیسائی مرد کا یہ کام ہے ،کہ اُن باتوں کی برداشت کرے جن کو بڑھانے سے قصاص کی نوبت پہنچ سکتی ہے۔ جیسےخون کرنے یا کروانے کی نوبت کو روکنے کےلیے غصّہ اور بدزبانی وغیرہ کی ممانت فرمائی ہے۔ (متی۲۱:۵۔۲۶)اگر لوگ خداوند کی ہدایتوں پر عمل کرنا اپنی روزمرہ کی عادت کریں تو قتل اورز ناکاری اور انتقام اور دُشمنی کی نوبت کبھی نہ پہنچے۔ مگرقرآن نے بھی تو اپنا گذارہ کرنا ہوا ۔ اور اودھر منوجی بھی بے اُمید نہیں ہونا چاہئے۔ عیسائیوں کو تو یہ صاف حکم ہے کہ اُن کی طرف سے کوئی چھیڑچھاڑ نہ ہو۔ بلکہ اوروں کی شرارتوں کی برداشت بھی کریں اور بعض حالتوں میں موت تک بھی برداشت کرنی پڑتی ہے(متی ۲۲:۱۰۔۳۹)

قولہ ۔ اوراگر اور کوئی عیسائی کسی ظالم کو حکام کے ذریعہ سے سزا دلائیں تو اُسے یاد رکھنا چاہیے کہ توریت بھی توایسے موقعہ پر یہ اِجازت نہیں دیتی کہ ایسے مجرم کی شخص مظلوم آپ ہی آنکھ پھوڑ دے یا دانت نکال دے ۔بلکہ ہدایت کرتی ہے کہ ایسا شخص حکام کےذریعے سے چارہ جوئی کرے۔ پس اس صورت میں مسیح کے تعلیم میں کونسی زیادت ہوئی یہ تعلیم پہلے ہی توریت میں موجود تھی۔۔۔۔ مگر متی ۵ باب میں جس طرزِبیان کو آپ کے یسوع صاحب نے اختیار کیا ہو یعنی توریت احکام پیش کرکے جابجا کہا ہے کہ اگلوں سے یہ کہا گیا ہے مگر میں تمہیں یہ کہتا ہوں۔ اس طرزسے صاف طور پر ان کایہ مطلب معلوم ہوتا ہے کہ وہ توریت کی تعلیم سے کچھ علاوہ بیان کرنا چاہتے ہیں۔

اقول۔ ایسا ہی خیال یہودیوں نے کیا تھا جن کےجواب میں خداوند نے فرمایاکہ’’یہ خیال مت کرو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتاب منسوخ کرنے کوآیا۔ میں منسوخ کرنے کو نہیں بلکہ پوری کرنے کو آیا ہوں‘‘(متی۱۷:۵)۔مرزا صاحب آپ بھی اُنہیں لوگوں کے خیالوں میں غوطے کھاتے ہو۔ کیوں نہیں مسیح کی عبادت پر غور کرتے۔ اُس نے اس بات پر کلام نہ بڑھایا تھا، کہ توریت میں مظلوم کو حکام کے ذریعہ چارہ جوئی کرنے کی کوئی ہدایت نہیں اس لئےمیں یہ ہدایت کرتا ہو ں بلکہ اس نے وہی شرع توریت سے پیش کی جس کو حکام ہی عمل میں لانے کے مختار تھے۔مظلوم حق رسی کے لئے اُن سے فریاد کر سکتا تھا(دیکھو استثنا ۸:۱۷۔۱۳)اور اُس کے علاوہ یابر خلاف بیان کرنا نہیں چاہا ہے جیسا آپ نے گمان کیا ہے۔ آپ نے ساری تقریربے جاکی ہے۔اول یہ جانو کہ خداوند نے اس بیان میں اس شرع کی طرف رجوع کروایاہے۔ جو اگلوں سے کہی گئی تھی، مگربرعکس اس کے لوگ خود ہی انتقام لینا جائز کئے ہوئے تھے۔اور قاضیوں تک جانے کی پروا نہیں کرتے تھے اوریوں شریعت کے حکم کو ٹال لیتےتھے۔

پس مسیح خداوند نے ایسی نفسانی آزادگی کو روکا ہے۔دوسری بات یہ سمجھو کہ جس طرح کل تعزیرا ت کا منشایہ ہوتا ہے ظالم آیندہ ظلم کرنے سے روکا جائےاور ایسا ہی مظلوم بھی۔ اُسی طرح توریت کا یہ حکم کہ حکام کے ذریعہ انتقام لیا جائے ظلم کو روکنے اور فریقین کو سُدھارنے کی غرض رکھتا ہے۔ اس پر خداوند فرماتا ہےکہ میں تمہیں کہتا ہوں کہ ظالم کا مقابلہ نہ کرنا ،بلکہ  ایسے نقصان کی برداشت کرنا، تو یہ اُسی قانونی منشا کو ایک اور طرح سے پوراکرنے کی ہدایت ہے ۔یعنی برداشت کے ساتھ ۔مرزا صاحب یہ معاملہ تو بالکل صاف تھا آپ نے اُس کو خوامخواہ بگاڑا۔ یہ برداشت اس قصاص کی نوبت کو روکنے والی ہو۔

میرے اس فیصلہ سے آپ کا سارا گندہ اور نا شائستہ اور غلط اظہار جو صفہ ۴ پر کرتے ہو غلط ٹھہرااور مسیح کی عبارت بے ربط نہیں  ہے  بلکہ ایک صاف حکم ہے۔ مکرّر(بار بار)آپ کو یاد رہے کہ ان ہدایتوں سے مسیح خداوند نےکسی اخلاقی قانون کو موقوف نہیں کر دیا اور قانون قصاص چھٹے حکم کے متعلق ہے اور اس مذکور سےاُس نے اس کا منشاء قائم رکھا ہے۔یہودیوں میں قصاص کی وہ خاص صورت تھی جو مسیح نے بلفظٰ پیش کی ہے  اور مسیحی قوموں میں بھی اُس ملکی قانون کامنشاء قائم رکھا جاتا ہے۔ یعنی خطاکے مناسب عوض دینا اور وہ بھی حکام کے ذریعہ سے۔

قولہ ۔ پھر پادری ٹھاکر داس صاحب نے جب دیکھاکہ انجیل کی یک طرفہ تعلیم پر درحقیقت فعل اور قانون قدرت کا سخت اعتراض ہے تو ناچا ر ایک غرق ہونے والے کی طرح قرآن شریف کو ہاتھ مارا ہے تاکہ کوئی سہارا ملےچنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ قرآن جیسی کتاب میں بھی اُس کی یعنی انجیل کے حکم کی تعریف کی گئی ہے۔

اقول ۔ مرزا صاحب یوں کہا ہوتا ایک غرق ہونے والے کی طرح ایک تنکے کو ہاتھ مارا ہے۔ آپ کا میری نسبت یہ خیال کرنادرست نہیں ہے۔ کیونکہ میں نے انصاف کی نظر سے قرآن کی اچھی بات کو اچھا کہاہے ایسا ہی دیگر مذہب والوں  کی  اچھی باتوں کو اچھا کہا ہے ۔اور اس سےمیرا مطلب یہ تھاکہ اگرچہ گناہ نے قدرتی انسان کے ہوش بگاڑ دیئے ہیں۔ اس پر بھی انجیل کی نیک تعلیم کے لوگ قائل رہے ہیں۔ اس میں قرآن کا سہارا ڈھونڈنے کی کوئی حاجت نہ تھی۔غرض صرف یہ تھی کی وہ کتاب جو انتقام اور خون ریزی سے بھری ہے  ۔ اس میں بھی یہ نیک تعلیم مانی  گئی ہے اور جیسا کہ میں نے غیر قوموں میں اس کی تعلیم کا پایاجانابتایا جاتا تھا۔ اُس کی چند مثالیں دیتا ہوں تاکہ سہارا یک طرفہ نہ رہے بلکہ دو طرفہ ہو جائے۔

کانفوسش کا قول۔

’’جو کچھ تم نہیں چاہتے کہ تمھارے ساتھ کیا جائےوہ تم بھی دوسروں کے ساتھ نہ کرو‘‘

ارسطوؔسے پوچھا گیاکہ ہم اپنے دوستوں کے ساتھ کِس طرح پیش آئیں۔ جواب دیا گیا کہ

’’ جیسا تم چاہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ پیش آئیں‘‘۔

سقّراط ؔ کا قول۔

’’  کیا ہم یقین جانیں کہ جو کوئی بے اِنصافی کے کام کرتا ہے  اُس کے لیے بے انصافی ایک بُری اور بےعزتی کی بات ہے۔‘‘    ’’ہاں‘‘۔ پس کیانہ چاہیے کہ ہم نقصان کریں۔‘‘ ’’بے شک نہ چاہیے‘‘۔ ’’ جب ہمارا نقصان کیا جاتا ہے اُس کے عوض میں نقصان نہ کریں جیسا بتھیرے گمان کرتے ہیں۔ کیونکہ ہمیں نہیں چاہیے کی ہم کسی کا نقصان کریں۔اس لیے ہمیں چاہئے کہ  ہم نہ بدلالیں یا کسی سےبدی کے عوض بدی کریں  گو اُس نے ہم سے کیسی ہی بدی کی ہو۔‘‘

اس سے یہ نہ سمجھا جائے کی قدیم اقوام میں عدوات رکھنا اور بدلا لینا موقوف تھا۔ نہیں۔ بدلہ لینا عام رواج تھا  اورفرض سمجھا جاتا تھا  ۔اور انتقام لینے کی تاریکی میں صبرکرناصرف روشنی کی چھوٹی چھوٹی کِرن کا روز رکھتا تھا اور یہی حال قُرآن کا ہے۔ پس میر ایہ مُدعا ظاہر ہے کہ باوجود نفسیانی تقاضوں کے جن کو لوگ فطرتی سمجھتے رہیں وہ اصلی اور سچّا فطرتی قانون مرقومہ متی۱۲:۷ میں آدم سے داد پاتا رہا ہے۔ مگر روح القدس کی تاثیر  کے بغیر عموماً زور مندنہ ہوا۔

قولہـ  پھر ایک آیت کا غلط ترجمہ پیش کرتے ہیں کہ اگر بدلہ دو تو اس قدر بدلہ دو جس قدر تمہیں تکلیف پہنچی اور اگرصبر کرو تویہ صبر کرنے والوں کے لئے بہتر ہےاور اس آیت سے یہ نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں کہ گویا یہ انجیلی تعلیم کے موافق ہی ہے مگر یہ کچھ تو ان کی غلطی اور شرارت بھی ہے۔ غلطی اس وجہ سے کہ یہ لوگ علم عربیت سےمحض ناواقف ہیں اور شرارت یہ کہ آیت صریح بتا رہی ہے کہ اس میں انجیل کی طرح صرف ایک ہی پہلو درگذر اور عفو پر زور نہیں دیا گیا ،بلکہ انتقام کو تو حکم کےطور پر بیان کیا گیا اور عفو کی جگہ صبر کا لفظ ہے۔۔۔۔ ناظرین سوچ لیں کہ اس آیت کا صرف یہ مطلب ہے کہ ہر ایک مومن پر یہ بات فرض کی گئی ہے کہ وہ اس قدر انتقام لے جس قدر اُس کو دکھ دیا گیا ہے۔ لیکن اگر وہ صبر کرے یعنی سزا دینے میں جلد بازی نہ کرے۔۔۔ یعنی سزا دینے کی طرف جلدی نہ دوڑیں ۔اول خوب تحقیق اور تفتیش کریں اور خوب سوچ لیں کہ سزا دینے کا محل اور موقعہ بھی ہے یا نہیں۔ پھر اگر موقعہ ہو تو دیں ورنہ رُک جائیں۔

اقولـ مرزا صاحب میری کوئی غلطی نہیں ہے میں نے اپنا ترجمہ پیش نہیں کیا تھا لیکن شاہ عبدالقادر صاحب کا ترجمہ اور سیل صاحب کا انگریزی ترجمہ اس کے مطابق ہے اور مجھے تو آپ نے جو جی میں آیا کہہ دیا مگر آپ  نے کوئی اپنا ترجمہ پیش نہ کیا اور صرف اپنی تفسیر سے اُس آیت کی پیش کر دی ہے ۔ مجھے افسوس ہے کہ آپ کی تفسیر سے قرآن میں سے رہا سہا صبربھی خارج ہوا ۔اور صبر کے معنی آپ نے سزا دینے کے کیے ہیں۔ مگر ذرا ٹھہر کر ، تاکہ سزا دینے کا محل اور موقعہ سمجھ لیں۔ جائے غور ہے کہ  اگر سزا دینے کا محل  قائم نہ ہو تو سزا ناجائز ہے اور صبر مجبوری ہوا اور کسی نقصان پانے کےسبب نہ ہوا۔ اس حال میں صبر کے معنی جو آپ نے کیے ہیں غلط ہیں ۔ کیونکہ جب نقصان ثابت نہیں تو صبر اورعفوکا فخر بیجا ہے۔ لیکن   بموجب آپ کی تفسیر کے اگر محل اور موقعہ ثابت کرلیں تو سزا دینی چاہیے اور رُکنا نہ چاہیے۔ یہ فرض ہے،اسی کا نام آپ نے صبر رکھا ہے۔ معلوم نہیں آپ سچ کہتے ہیں یا قرآن۔ اور یہ صبر وہ صبرنہ ہوا جو اِنجیل میں فرمایا گیا ہے۔ کیونکہ اُس کی رو سے نقصان اُٹھا کر دوسرے کا نقصان نہ کرنا صبر ہے۔ پس مرزا صاحب قرآن میں اِنتقام ہی اِنتقام  رہ گیا اور عفو کا محل اور موقع کوئی نہ رہا۔

اور پوشیدہ نہ رہے کہ سیل صاحب انگریزی ترجمہ قرآن کے حاشیہ پر آیت کی تفسیر میں متقدمین کی روایت لکھتے ہیں کہ’’ یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی تھی اور موقعہ اُس کا جنگِ اُحد میں حمزہ (چچا محمد صاحب) کا مارا جانا تھا۔ کافروں نے اُس کی انتڑیاں نکال ڈالنے اور کان اور ناک کاٹ لینے سے اُس کی بے حرمتی کی تھی اور جب محمد نے دیکھا اُس نے قسم کھائی کہ اگر خدا نے مجھے فتح بخشی تو قریش کے ستر(۷۰) یا تیس(۳۰) آدمیوں پر ان بے رحمیوں کا بدلہ نکالوں گا۔ لیکن اُن الفا ظ کے ذریعہ سے وہ اپنی قسم کو پورا کرنے سے منع کیا گیا تھا اور اُس کے مطابق اُس نے اپنی قسم توڑ دی‘‘ مرزا صاحب کی تفسیر کے مطابق محمدصاحب پر فرض تھا کہ اپنے خون کی پیاس ضروربُجھاتے اور اِس سے یہ بھی ظاہر ہےکہ ہدایت صبر کرنے کی صرف محمد صاحب کو ایک خاص حالت میں کی گئی تھی نہ کہ ہر مومن کو۔ اور سیل صاحب بیضاؔدی سے یہ بھی حوالہ دیتے ہیں

’’ اس جگہ قرآن خاص کر محمد کی طرف اشارہ کرتا ہے‘‘۔

قولہـ  خدا کے کلام اور خدا کے کلام کا کامل معانقہ (گلے لگنا)قرآن نےہی کروایا ہے۔ تو ریت سزاؤں پر زور دیا تھا۔۔۔۔ اور انجیل میں عفو اور درگذر کی تعلیم ہوئی مگر یہ تعلیم نفس الامر (در حقیقت)میں عمدہ نہ تھی بلکہ نظام الہیٰ کی دشمن تھی۔۔۔۔ اگرچہ انجیل کی تعلیم بالکل نکمی اورسراسر ہیچ ہے، لیکن حضرت مسیح اس وجہ سے معذور ہیں کہ انجیل کی تعلیم ایک قانونی  ودائمی اور مستمر (ہمیشہ رہنے والا)کی طرح نہیں تھی بلکہ اُس محدود ایکٹ کی طرح تھی جو مختص المقام اور مختص الزمان اور مختص القوم ہوتا ہے۔ (صفحہ ۶ اور ۷ میں اسی کے متعلق مکّر روہی باتیں  واضح طور پر لکھی ہیں)۔

اقول۔ یہ بات غلط ہے کہ توریت نے صرف سزاؤں پر زور دیا تھا۔ سزا دینا اُن کے اختیار میں رکھا گیا تھا اور توریت میں اُن کی ہدایت کے لئے قوانین فرمائے گئے تھے۔ مگر لوگوں میں باہمی برتاؤ کا اصلی قانون اور ہدایت یہ تھی (احبار ۱۸:۱۹ )۔ ’’اپنی قوم کے فرزندوں سے بدلہ مت لے اور نہ اُن کی طرف سے کینہ رکھ۔ بلکہ تو اپنے بھائی کو اپن مانندپیار کر میں خداوند ہوں ‘‘پھر (امثال۲۲:۲۰)’’ تو مت کہہ کہ میں بدی کا بدلہ لوں گا پر خداوند کا انتظار کر کہ وہ تجھے بچاوے گا‘‘۔ پھر غیروں کے ساتھ  برتاو ٔکی یہ ہدایت ہے۔ خروج  ۴:۲۳ ۔۵؛۹:۲۳’’ اگر تو اپنے دشمن کے بیل یا  گد ھے کو بے راہ جاتے دیکھے تو ضرو اسے اُس کنے (گھر پر)پہنچائیو‘‘ وغیرہ ’’ اور مسافر کو بھی تصدیع (دکھ)مت دو‘‘ وغیرہ (  اور دیکھو استثنا ۱۴:۲۴۔۲۲)

پھر امثال ۲۱:۲۵:۲۳۔ ’’ اگر تیرا دُشمن بھوکا ہو اُسے روٹی کھانے کو دے اور اگر وہ پیاسا ہو اُسے پانی پینے کو دے‘‘وغیرہ۔

 راقم

جی ۔ایل ۔ ٹھاکر داس

از گوجرانوالہ

Olympic Mountains

 

نُور تاریکی میں چمکتا ہے اور تاریکی نے اُس دریافت نہ کیا

(یوحناّ ۱ باب ۵ آیت)

 

 


The light shines in the darkness,
And the darkness has not overcome it.

 

 

Published in Nur-i-Afshan April 23, 1897


 

یوحنا ّ رسول نور اور تاریکی کا زکر کرتا ہوا یہ الفاظ کہتا ہے کہ نور تاریکی میں چمکتا ہے اور تاریکی نے اُسے دریافت نہ کیا ۔ نور ایک ایسی روشنی ہے ۔ جسکا بیان زبان ھال سے نہیں ہو سکتا۔ اور اِسکے بیان کرنے میں زبان عاجز ہے۔ اور نہ قلم سے اِسکا مفصّل حال بیان ہو سکتا ہے۔ کہ قلم قاصر ہے۔ اور نہ اِس حقیقی روشنی کا بیان صفحہ کاغز پر تحریر ہو سکتا ہے۔

تو بھی جس نے اِس حقیقی نور کی تجّلٰی کو دیکھا ہے۔ وہ اسکی تاب نہ لا سکے۔ کیونکہ حقیقی نور کی روشنی ان آنکھوں سے دیکھی نہیں جاتی۔ یہ حقیقی نور صرف خدا کے چہرے سے جلوہ گر ہوتا ہے اور تثلیث الہی میں پایا جاتا ہے۔ مثلاً جب موسیٰ پیغمبر کوہ طور پر خداوند یہوداہ سے کلام کرنیکے واسطے گیا ۔ اور جب خداوند اُس سے کلام کرنے لگا۔ تو موسیٰ اُس نوری جلال کی تاب نہ لا سکا۔ بلکہ اپنے چہرے پر نقاب ڈال کر خداوند سے ہم کلام ہوا۔

حقیقی روشنی آگ کی روشنی کے مانند نہیں اور نہ آفتاب کی روشنی سے مشابہت دیجاسکتی ہے کیونکہ یہ روشنی جو نور سے برآمد ہوتی ہے۔ سب مصنوعی روشنیوں سے افضل و علیٰ و بالا ہے۔ اور ہتر ایک روشنی سے بنی آدم آنکھ ملا سکتا ہے۔ مگر حقیقی نور کی روشنی کی تاب نہیں لا سکتا۔ جیسے موسےٰ ۔ جیسے دن کیوقت آفتاب کی روشنی درکار ہے کہ ہم لوگ اُسکی روشنی میں اپنے کاروبار کریں۔ اور جیسے رات کے وقت ہمکو گھر میں لمپ کی ضرورت ہوتی ہے کہ ہم گھر کی سب چیزوں کو دیکھ سکیں جیسے اندھیری رات میں سفر کیواسطے لالٹین کی ضرورت ہے تاکہ ہم ٹھوکر نہ کھاویں بس ٹھیک ویسے ہی ہم کو روحانی آنکھوں ک واسطے اور اندھیرے کے لئے حقیقی نور کی روشنی نہایت ہی ضروری ہے۔ جب تک ہمارے اندھیرے دل میں حقیقی نور نہ چمکے ہم کس طرح سے دریافت کر سکتے ہیں کہ ہمارے دِل میں کیا خرابی ہے۔ اور ہمارا دل جو گناہ کے سبب سے اندھیرا ہو رہا ہے اور بالکل سیاہ پڑگیا ہے۔ کس طرح سے معلوم کریں کہ اس میں کون کون چیز خراب کرنے والی ہے۔ اور کون کون چیز ٹھوکر کھلانے والی ہے اور کون ہمارے دل میں بستا ہے۔ سو از حد ضرورت ہے کہ حقیقی نور ہمارے دل میں چمکے تاکہ ہم دریافت کریں کہ ہمارے دل میں کیا ہے اور ہمارے دل کی حالت کیسی ہے۔ رسول آگے چلکر یہ ہتا ہے کہ حقیقی نور وہ ہے جو دنیا میں آکر ہر ایک ادمی کو روشن کرتا ہے۔ وہ نور مسیح ہے ۔ یوحنا اِصطباغی نور نہ تھا بلکہ اِس حقیقی نور کا گواہ تھا۔ سو اُس نے نور کی بابت اپنی گواہی پوری کی۔ نورکے آنے سے پیشتر لوگ اندھیرے میں تھے ۔

گو اِس حقیقی نور کا عکس دنیا میں گاہے گاہے پڑتا تھا۔ مگر اب وہ نور مجسّم ہو کر دنیا میں آگیا تاکہ وے لوگ جو اندھیرے میں ہیں اُنکو روشن کرے۔ اور وے جو موت کے سایہ کی وادی میں سوتے ہیں اُنکو روشن کر کے جگاوے ۔ مگر افسوس کہ تاریکی نے اُسے دریافت نہ کیا۔ مگر جنہوں نے نور کو قبول کیا وے روشنی میں آگئے اور اندھیرے کے کاموں سے توبہ کی۔

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تاریکی نے اِسے دریافت کیوں نہ کیا۔ جواب یہ ہے کہ کام برُے تھے۔ کیونکہ آپ جانتے ہیں جو چیز روشنی میں ہوتی ہے وہ سب روشن ہو جاتی ہے۔ اِسی لحاظ سے تاریکی نے خیال کیا کہ اگر میں آنکھ کھولکر دیکھونگی تو میرے سارے کام فاش ہو جاوینگے ۔ اور مجھے شرمندگی اُٹھانی پڑیگی۔ اِسواسطے بہتر ہے کہ میں اپنی آنکھ نہ کھولوں گی۔ تاریکی سے مراد گناہ ہے اور تاریکی میں چلنے والے گنہگار لوگ ہیں جو مسیح سے دور اور اپنے دل کی خواہشوں کے مطابق چال چلتے ہیں وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ایسی تاریکی میں ہم کو گناہ کرتے ہوئے کون دیکھتا ہے۔ اور نور میں وے لوگ چلتے ہیں جنہوں نے اپنے آپکو مسیح حقیقی نور میں لائے ہیں اور نور سے مُنوّر ہوتے ہیں اور زندگی حاصل کی ہے۔ یہ نور ہر ایک کے واسطے چمکتا ہے۔ مگر افسوس کہ تاریکی نے اُسے دریافت نہ کیا۔

اب ہم تھوری دیر کے واسطے ہندوستان کی حالت پر غور کرینگے کہ نو ر نے ہندوستان میں کتنا کام کیا ہے۔ ہندوستان کے جنٹلمین خواندہ یہ پُکارتے پھرتے ہیں کہ روشنی کا زمانہ ہے روشنی کا زمانہ ہے۔ وے اِس میں غلطی کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ روشنی کو تو دیکھتے ہیں مگر روشنی کے مرکز کو نہیں دیکھتے کہ روشنی کہاں سے نکلتی ہے۔ جیسے ایک شخص کہے کہ میں دھوپ کو دیکھتا ہوں۔ اگر اُس سے دریافت کریں کہ یہ دُھوپ کِس میں سے نکلتی ہے۔ وہ کہے ک میں نہیں جانتا۔ مگر دُھوپ کو جانتا ہوں۔ یہ کیس جواب ہے۔ ایسے ہی ہندوستان کے جنٹلمین کا حال ہے۔ ہندوستان کے لوگ علم حاصل کر کے علمی روشنی کی بھول میں پڑے ہوتے ہیں اور علمی روشنی کو جو حقیقی نو ر کا سایہ ہے۔ حقیقی نور تصور کرتے ہیں۔ اور روشنی کا زمانہ کہتے ہیں مسیحی مذہب کے آنے سے ہندوستان میں پیشتر بھی علم تھا خواہ فارسی ہو خواہ سنسکرت ہو۔ تو اُس حالت میں روشنی کا زمانہ کیوں نہ کہا گیا۔ تو معلوم ہوا کہ مسیحی مذہب کے انے سے ہندوستان کے لوگ روشنی کو دیکھنے لگے۔ اب زرا نظر انصاف سے دیکھنا کہ جب ہندوستان کے باشندوں نے دیکھا کہ حقیقت میں روشنی کا زمانہ ہے۔ اور نور تاریکی میں چمکتا ہے۔ تو اپنی آنکھیں ضِد سے موند لیں اور اپنے واسطے ایک علیحدہ مصنوعی نور تیار کیا۔ جیسے آریہ سماج نے موم بتّی روشن کر کے کہا کہ یہ ہمارا نور ہے اور آگ میں گھی ڈال کر کہا کہ یہ ہماری روشنی ہے ۔ ہم اِس میں چلینگے اور دیو دھرم نے ٹوٹی ہوئی لالٹین روشن کر کے کہا کہ یہ ہمارا نُور ہے اور کسی نے سنگہ سبھا کی مثال جلا کر کہا کہ ہمارا چانن یہ ہے۔ اور کسی نے سناتن دھرم کا ٹوتا ہوا چراغ جلایا۔ جس میں تیل بھی نہیں ہے۔ اور کہا کہ ہمارا چانن یہ ہے۔ اُدھر محمدی بھائیوں نے داڑھی پر ہاتھ پھیر کر کہا کہ خدا کا نور یہ ہے اور ہمارا محمد صاحب خدا کے نور میں سے نور ہے ہم کو کیا ڈر ہے۔ ہم خون کرنا ثواب اور نور میں کودنا اپنا جواب رکھتے ہیں ۔ ہم کو کچھ پرواہ نہیں اگر آپ ہزار مصنوعی روشنیاں تیار کریں۔ مگر جب آفتاب کی آمد آمد ہوتی ہے۔ اُسوقت سب کی روشنی ماند ہو جاتی ہے۔ اور سب قسم کی روشنیاں بھّدی معلوم ہوتی ہیں۔ اور جب دوپہر ہو جاتی ہے تو سب مصنوعی روشنیاں نکمّی ہو جاتی ہیں۔ اِے پیارے ہندوستانی بھائیو جب اِن مصنوعی روشنیونکا مصالح ہوجاویگا۔ تب سب آپکی محنت بیفائدہ ہوگی مگر حقیقی نور وہ ہے جو کہ دنیا میں آکر ہر ایک ادمی کو روشن کرتا ہت ۔ نور تاریکی میں چمکتا ہے اور تاریکی نے اُسے دریافت نہیں کیا۔ اب بہتر یہ ہے کہ آپ حقیقی نور میں آجاویں۔

حقیقی نور ہمیشہ سے ہمیشہ تک روشن رہے گا اور جو کوئی اِس میں داخل ہو گا۔ روشن کیا جاویگا۔ اور جو داخل نہ ہو گا۔ وہ باہر اندھیرے میں ڈالدیا جاویگا۔ وہاں رونا اور دانت پیسنا ہوگا۔ کیونکہ اُنہوں نے تاریکی کے کام کئے اور تاریکی دوزخ کی اُنکو کھاویگی۔ اے پیارے ہندوستان کے باشندو نور میں آکر ہمیشہ کی زندگی پاؤ اور خوشی آسمانی حاصل کرو۔ تم حقیقی نور میں اکر دیکھو کہ تمہاری کیسی حالت ہے جیسے آئنہ سے منہ دیکھتے ہو تو تمہاری صورت تم کو معلوم ہو جاتی ہے۔ ویسے ہی روح کا آئینہ نور ہے اور بائیبل مقدّس ہے۔ تم اِس میں اِس ائینہ میں دیکھ سکتے ہو کہ تمہاری روح کا منہ تمہارے گناہ کے سبب کیسا کالا اور سیاہ فام ہو گیا ہے۔ بجز نور میں آنیکے تم کسی طرح تاریکی سے رہائی نہیں پا سکتے۔ تمہارئ سیاہ فام روح کو مسیح اپنے کون سے صاف کرنا چاہتا ہے۔ کاش کہ تمام ہندوستانی جو تاریکی میں بھٹکتا پھرتا ہے۔ کاش کہ تمام ہندوستان جوتاریکی میں بھٹکتا پھرتا ہے۔ اِدھر حج اُدھر تیرتھ کو دوڑتا پھرتا ہے۔حقیقی نورمیں آوے اور تسلّی اور اطمینان حاصل کریں۔ خُدا کرے کہ ہر ایک دِل اِس حقیقی نور مسیح کو قبول کرے اور اُس سے زندگی پاوے۔ آمین ثم آمین۔ العبد۔۔۔۔۔ جے۔ کے واعظ انجیل داگہ

Pages