عیسی

Jesus
Man Praying before the Cross

 

مسیح ِمصلُوب

(تعلیم جناب اسحقٰ رحیم بخش صاحب ، بی ۔ اَے، ایل۔ ایل۔ بی، جج عدالت خفیہ، لاہور)

 


Crucified Christ

By

Ishaq Raheem Buksh B.A.L.L.B.

Published in Nur-i-Afshan April 14, 1963


 

فلورنس کی ” نیوزی آرٹ گیلری“ میں ایک سیاّح نے ناظم گیلری سے طنزاً کہا ” کیا یہ تُمہارے شاہکار ہیں“؟ مُجھے تو اِن میں کچُھ نظر نہیں آتا۔ ناظم نے جواباً کہا۔ ” جناب امتحان اِن تصاویر کا نہیں۔ دیکھنے والوں کاہے۔“

حُضور المسیح کی زمینی حیات طیّبہ جِس کی تکمیل صلیب پر ہوُئی۔ نسل اِنسانی کے اِخلاق کے اخلاق ضمیر کے لئے ایک چیلنج ہے جو اِس چیلنج کو قُبول نہین کر سکتے تو یہ مسیحیت کی اَصل پر صَرف نہیں بلکہ خوُد اُن کی اخلاقی نا اہلّیت پر حرِف آخِر ہے۔

کِس کو گمان تھا کہ ذبیحۂ اللہ کی صلیب کی قُوتّ ہر دور میں تاریخ کے دھارے کا رُخ پِھیر دے گی؟

عام تصّور میں گردش ایاّم کو پیچھے دوڑائیے۔ کو کلوّری کے دامن میں ایک جمعہ کے روز اپنے کو یروشلؔم میں ایک ہجوم میں گھِرا پایئے۔ کو ہ کلوّری کے دامن میں ایک جمعہ کے روز اپنے کو یروشلؔم میں ایک ہجوم میں گھِرا پایئے۔ آپ ایک یُہودی سے سوال کر رہے ہیں کہ دُنیا کے اختیار کا مرُکز کیا ہے۔ وُہ اختیار جو تمام عالم پر محیط ہو گا؟ کیا آپ یہ جواب نہ سُنیں گے کہ ”مُرکز عالم ہیکل ہے۔ تاریخ کے زرّیں کارنامے اِس سے وابستہ ہیں اور آیندہ بھی زرّین تعلقات اور اُمیدیں وابستہ ہیں“ ایک رومن اِس جواب سے سیخ پا ہو کر طنزاً یہ کہہ رہا ہے “ رُوم کا ابدی شہر تمام دُنیا کی مَلکہ ہے۔ اختیار قُدرت و حیُروت کا مرُکز“ یہ جواب یوُنانی کو اپنی خاموشی توڑنے پر مجبوُر کرتا ہے ” کیا آپ نے ایتھنز دیکھا ہے؟ دُنیا کے تمدّن اور عِلم و حکمت کا مرُکز۔ رُوما کی ماّدی قُو تّ کو ایتھنز کا تمّدن اور فلسفہ نیچا دکھائیں گے“ کیا وُہ ہمارے اِس جواب پر مضحکہ خیر قہقہ نہ لگائیں گے کہ زندگی کی قُوتّ کا مرٔکز وُہ سے جو صلیب پر لٹکا ہے ہیٔکل کی اینٹ سے اینٹ بجے گی۔ کو ئی پتّھر تک باقی نہ رہے گا۔ رُوم کی حشمت قّصّۂِ پار یتہ بن جائے گی۔ ایتھنزکا فلسفہ صرف چند طالب علموں کے زوق تجسُّس کو تسکین پہنچائے گا۔ مگر اِس مصلوُب کی قُوّت زمانہ بہ زمانہ فِکر انسانی کی نوک پلک دُرست کرتی رہے گی اور اِس کے مطالبے اِنسان کی بگڑی اور پراگندہ طبیعت کو ہر وقت جھنجھوڑتے بے پناہ قُوتّ سے اِنکار کی جُرأت کر سکتے ہیں۔ جسمانی ازّیت جو حساّس ِطبیعتوں پر یقیناً اثر انداز ہوتی ہے صلیب کی اصل نہیں۔ مسیحیت کی ابتدائی چار پانچ صدیوں میں ایک دلچسپ حقیقت یہ وہی ہے کہ حضُور المسیح کی صلیبی مؤت کی نقاّشی توجّہ کا مرٔکز قطعاً نہ تھی اور نہ ہی صلیب کو نشان کے طور پر لوگ اپنے گلے میں لٹکائے یا ہاتھ میں اُٹھائے پھرتے تھے۔ زبیحۂ عظیم کا مُقدّس واقعہ اور زِندہ جاوید المسیح کی حقیِقی رفاقت کا تجربہ مرکزِ فکرِوعمل تھا۔ یہ بات خطرہ سے خالی نہیں کہ کانٹوں کے تاج ۔ میخوں اور کوڑوں پر اپنی توجہّ مبذُول کر کے ہم اُن اخلاقی اور روُحانی اقدار کو جو اُس وقت خطرہ میں تھیں اور أب بھی ہیں فراموش کر دیں۔ یروشؔلؔم کے محاصرہ کے بعد قیصِر طیطؔس کے حُکم سے تیس ہزار یُہودیوں نے جنہیں صلیب پر لٹکایا گیا حُضور المسیح سے زیادہ ازّیت برٔداشت کی ہو گی لیکن اُن کی جسمانی ازّیتیں اُن کے نام کو قہر گمنامی میں دھکیلے جانے اور اُن کے مُلک کو تباہی سے نہ بچا سکیِں۔ حضُور المسیح کی مؤت جسمانی ازیتوّں کے باعِث مرکزِ توجّہ نہیں بلکہ اِن رُوحانی اقدار کی حفِاظت کے باِِ عِث ہے جن کی مَوت سے شیطنت اور آدمیت میں کوئی تفریق نہ رہ جاتی۔

صلیب اُن ضمائر کے لئےِ قُو تّ و ایمان کا سر چشمہ ہے جن میں حق کی پاسبانی کے ہر وقت اور ہر گھڑی باطل کی آزمائشوں اور قُوتّوں کی کشمکش اور جنگ جاری ہے جس کے نتیجہ پر نہ صرف فَرد بلکہ کُل انسانیت کا بقا کا انحصار ہے۔

اگر حضوُر المسیح کی قیامت ایک ” شاعرانہ تخلیق“ یا ”افسانہ“ تھی اور زخموں سے نڈھال ہو کر عالم ِ بیہوشی میں سونے والا۔ مرہم عیسےٰ کے طفیل ۔ حواریوں اور بَددیانت رومن گارڈ کی معاونت سے پتّھر لڑھکا کر قبر سے با ہر آگیا تو اِس افسانہ سے زیادہ ناقابل اعتماد وُہ حقائق ہیں جو حضوُر المسیح کو وجہیا”فی الدنیا وا لآخرت“ ”کلمتہ اللہ و رُوح اللہ“ کے القاب گرامی سے مُمیّز کرتے ہیں۔ ماُیوسی۔ ناکامی اور خوف سے متاثرہ گروہ ِجن کے پا س جُمعہ کے رات زِندگی اور اُس کے اقتدار کا کوئی مصالحہ و سامان نہ تھا۔ کِس کی قُوتّ و رُوح سے لبریز و سرشار ہو کر اَیسی تحریک کا رُوح رِواں بنا جِس نے بدی کو اُس کی خندقوں میں للکارا۔ أبدی و ازلی روما کو زیر و زبر کیا۔ ( عسکری قُوتّ سے نہیں) خُدا کی صُورت پر پَیدا کئِے گئے اِنسان کو اُس کی عظمتوں سے آشنا کیا۔ آدم خوروں کو آدمیت کا پاسبان بنایا۔ مُحبت۔ مُعافی۔ نجات۔ رحم اور ظاہری پارسائی کی بجائے رُوح و ضمیر کی عبادت کو سرُبلندی اور بُزرگی کا طُّرهٔ اِمتیاز بیایا۔ کیا یہ رُوح اِنسانی کا انقلابِ عظیم ایک جُھوٹ پر اُستوار کیا گیا تھا؟

”قانون“ تو اَن پڑھوں کا گروہ بھی مرتّب کر سکتا ہے۔ ” رواج“ بھی قانُون کی عظمت حاِصل کر سکتا ہے۔ قانُون کے رُوحانی تقاضوں کو پُورا کرنے کی اہلیّت بلا جبر و اِکراہ کو ن بخشتا ہے؟ خیال و نظر کو وُہ پاکیزگی جِس سے جِسم تو درکنار زہن بھی آمادۂ گناہ نہیں ہوتا کِس کے فیضانِ نظر کا کرشمہ ہے؟ مَرد و زن کو ایک ہی جماعت میں ہم رُتبہ کر کے ”نجس جنِسّیت“ کے برص سے پاک و صاف رکھنے والا کیا ” جُھوٹ اور فریب “ کا خُدا تھا ؟ اشتراکیت کا ” سوشل اِنصاف“ کِس کا ”پس خوردہ“ ہے۔ ” گُناہ“ اور اُس کے مکروُہ نتائج تو سب نے سمجھا دئیے۔ لیکن گُناہ کے مکرُوہ برص سے پامال و نڈھال اِنسان کو کِس نے اپنے سیِنے سے لگا کر ” خُدا کے فرزند“ اور ” لے پالک“ ہونے کا فخر و حق بخشا۔ الہیٰ زندگی کا پیوند۔ بے برَانسانیت میں کس کے خوُن اقدس سے مکمّل ہوُأ؟ اگر بندهٔ مومن کا ہاتھ اللہ کا ہاتھ ہے تو پھر روُحُ القدس سے تیاّر کِیا ہُوأ المسیح کا جِسم اطہر کیوں ” بیت اللہ“ نہیں۔ اور اِس زندہ ہیٔکل اپنی ازلی اور أبدی محبت کا ثبوت دینا کیوں توہین اِلہیٰ ہے؟ اِنسان سے اتم قُربانی کا مُطالعہ عین شان ِخدُاوندی ہے۔ لیکن اپنی صُورت پر بنائے ہوُئے اِنسان کو ”حیاتِ نو“ دینے کے لئے آسمانی مقاموں کو چھوڑنا اُس کی زلّت پر دال ہے! صلیب کی اصل حقیقت یہ ہے کہ ؎

 

ما از خُدا گمشدہ ایم اُو بہ جُستجو ست
چُوں ما نیاز مند و گرفتازِ آرزو ست
People in Giza, Egypt

 

قیامت مسیح

(بقلم جناب لائڈ آر۔ ڈے صاحب، امریکہ۔ مُترجمہ مُدیرؔ)

”وُہ یہاں نہیں بلکہ جی اُٹھا ہے!“

 


Resurrection of Christ

By

Scholar R. D. Loyd

Published in Nur-i-Afshan April 14, 1963


 

اِس حقیقت کا احساس کہ مسیح خُداوند جس کے ہم ناچیز خادِم ہیں، مُردہ نہیں بلکہ زندہ ہے۔ ہمارے لئے کیسا راحت افزا اور دُور پرور ہے! تمام دیگر مذاہب کے پیغمبر اور بانی مُردہ ہیں۔ اُن کے لاشے زیرِ خاک مَدفوُن اور اُن کے مزار آج بھی ہمارے درمیان مَوجُود ہیں۔ لیکن خُدا کا شکر ہے کہ خالی قبر پر دو قُدسیِوں کا یہ اعلان کہ ” وُہ یہاں نہیں ہے بلکہ اپنے کہنے کے مُطابق جی اُٹھا ہے۔ آؤ، یہ جگہ دیکھو جہاں خُداوند پڑا تھا“ صدیوں سے ہمارے کانوں میں گوُنج رہا ہے اور ہماری آس بڑھاتا اور ہمیں ہمّت دلاتا ہے۔ کہ ہم ایک مسیحیِ کی زندگی دوڑ کے انجام کا اپنی آنکھوں نظارہ کریں اور آگے قدم برھائے چلیں۔ ہمارے دل اِس احساس کے لئے حمد اور شکر گزاری سے لبریز ہیں کہ ہمارا نجات دہندہ اِس وقت آسمان میں خُدا کے دہنے بَیٹھ کر ہماری شفاعت فرما رہا ہے اور ہم کمال خلُوص اور صدق دلی کے ساتھ یہ نغمہ گا سکتے ہیں۔ ؎

 

ارض ع سما کا مالک و مُختار جی اُٹھا   سارے جہاں کا آج فِدا کار جی اُٹھا
آؤ چلیں خوشی کی خبر بھائیوں کو دیں   دے کر شکست مَوت کو سردار جی اُٹھا
دو دِن کے بعد مُوت کا مُنہ زرد پڑ گیا   شاہِ حیات مار کے للکار جی اُٹھا
مرؔیم صِفت جہاں کو تُم اخؔتر یہ دو نوید   کُل عاصیوں کا مُونس و غمخوار جی اُٹھا

 

خُدا کا بیٹا جیِنے کے لئے نہیں بلکہ مرنے کے لئے پَیدا ہُوا تھا اور اُس کی مَوت کے وسیلہ سے بنی نوع اِنسان کو کاِمل نجات کی بخشش مُیسّر آئی ہے۔ شاگردوں کے لئے وُہ گھڑی نہایت ہی مُہیب اور تاریک تھی جب اُنہوں نے اُسے انتہائی بے دردی سے صلیب پر لٹکا دیکھا۔ اُن کے دِل اندرُون سیِنہ ڈُوب ہی تو گئے ہوں گے جب اُنہوں نے اُسے خدا اور انسان کے درمیان اُوپر اُٹھا ہوُا دیکھا ہو گا۔ لعن طعن گالی گلوچ کی بوچھاڑ براعدا نے اُس پر کی، اُن کی ہمّت ِبرداشت سے باہر تھی۔ کیا وُہی نہ تھا۔ جِس کی خاطر وُہ اپنا سب کُچھ تیاگ کر اُس کے پیچھے ہو لئے تھے؟ اَب وُہ صلیب پر اپنی جان ٹوڑ رہا تھا اور سارا جہّنم مارے ناپاک خُوشی کے ناچتا نظر آتا تھا! لیکن کیا یہی اُس کا واِحد مقصد نہ تھا جِس کے لئے وُہ مبعُوث ہُوا تھا ؟ وہ خِدمت لینے نہیں بلکہ خِدمت کرنے اور بہتوں کے لئے اپنی جان فدیہ میں دینے آیا تھا! أب وہ صلیب پر میخوں سے جکڑا ہُوا لُہو لہان ہو رہا ہے اور بظاہر بیچارگی اور کس مپرُسی کی حالت میں مر رہا ہے ! شاگرد اپنے اُستاد کا فرموُدہ پہلے ہی فراموش کر چُکے تھے ” میرا جانا تمہارے لئے فائدہ مند ہے“۔ کائفاؔ نے بھی کہا تھا۔ ” تم کچھ نہیں جانتے اور نہ سوچتے ہو کہ تمہارے لئے بہتر ہے کہ ایک آدمی اُمّت کے واسطے مرے ، نہ کہ ساری ہلاک ہو“ اُن کے خیالات مُنتشر اور پراگندہ تھے۔ اُن کے دل ٹوٹ چُکے تھے۔ اُن کی اُمید اُن سے رُخصت ہو چُکی تھی۔ آہ ! یسوؔع اَب مَر چُکا تھا ! اُنہوں نے اُس کے اور اُس کی بادشاہی کے متعلق جو پہلے سے اُمیدیں باندھ رکھی تھیں، سب اُن کے قدموں پر خاک میں مِل گئیں۔ اب اَور زیادہ اُس سے واسطہ رکھنا بے سُود تھا۔ بیکار تھا ! چنانچہ رنج و غم سے نڈھال اپنے سر خمیدہ کئِے وُہ اُسے رہیں چھوڑ کر اپنے گھروں کو سُد ھارے۔

یُوسفؔ ارمتیائی اور نیکدیؔمس نے جو پہلے کبھی یسُوؔع کے پاس رات کے وقت گیا تھا، یسُوؔع کی نعش ِمبارک کو صلیب سے اُتار کر خوشبُو دار چیزوں کے ساتھ سُوتی کپڑے میں کفنایا اور ایک نئی قبر میں دفن کر دیا اور قبر پر بہ طریق احسن مُہر لگ جانے کے بعد وُہ بھی بچشم گریاں نہایت بیدلی کے ساتھ اپنی اپنی رہائش گاہوں کو چل دئیے۔

وُہ وقت نہایت پرُغم اور اُداسی کا تھا اِس لئے کہ وُہ خاص شخص جِس پر شاگرِدوں نے اعتماد کیا تھا، اَب مصلوُب ہو کر دفن ہوچُکا تھا ! اور بِلا ریب و شک لوگ آپس میں چہ میگوئیاں کر رہے تھے کہ اَب اُس کے شاِگرد کیا نیا قدم اُٹھائیں گے۔ وُہ وقت گریہ و ماتم کا تھا۔ ہائے وُہ ماُیوس اور دل شکستہ تھے!

مریمؔ مگدلینی اپنے اُلوہیّت مآب اُستاد کی وفا شعار چیلی، اَیسے تڑکے کہ ابھی اندھیرا ہی تھا ، قبر پر آئی۔ صُبح کے دُھند لکے اور ٹھنڈے وقت ، اپنے خیالات میں غرق وُہ اُس جگہ پُہنچی جہاں یسُوعؔ کو رکھا گیا تھا اور ٹھِٹھک کرہی تو رہ گئی جب اُس نے دیکھا کہ پتھرّ قبر کے منُہ سے لُڑھکا ہوُا ہے۔ وُہ فوراً لوَٹ کر بعُجلت تمام پؔطرس اور یوُحناؔ کو بتلانے دوڑی گئی کہ خداوند کی لاش کو کوئی شخص نکال لے گیا ہے۔ وُہ فوراً بھاگم بھاگ قبر پر آئے اور جیسا اُنہیں اُس نے کہا تھا، وَیسا ہی پایا۔ پؔطرس ن قبر کے اندر جا کر دیکھا کہ سُوتی کپڑے پڑے ہیں اور رُومال جو اُس کے سر سے بندھا ہوُا تھا، ایک جگہ الگ پڑا ہے لیکن یُسوعؔ کی لاش وہاں نہیں ! وُہ حَیران ہو کر رہ گئے اور بالکل نہ سمجھ سکے کہ یہ ماجرا کیا ہے۔ چنانچہ وُہ دُوسرے شاگردوں کو جو کچھُ اُنہوں نے دیکھا تھا ، بتلانے کے لئےاپنے گھروں کو واپس گئے۔

لیکن مرؔیم مگدلینی باہر قبر کے پاس کھڑی روتی رہی اور جب اُس نے جُھک کر قبر کے اندر نظر کی تو دو فرشتوں کو بُراّق لباس پہنے، ایک کو سرہانے، دُوسرے کو پنیتا نے، بیٹھے دیکھا جہاں یُسوعؔ کی لاش پڑی تھی۔ فِرشتوں نے اُسے کہا ” اَے عورت تو کیوں روتی ہے ؟“ اُس نے جواب دیا ” اِس لئے کہ میرے خُداوند کو اُٹھا لے گئے ہیں اور میں جانتی نہیں کہ اُنہوں نے اُسے کہاں رکھا ہے؟“ یہ کہ کر وُہ پیچھے پھری اور یِسوُع ؔ کو کھڑے دیکھا اور نہ پہچانا کہ یہ یسوُعؔ ہے۔ یسُوؔع نے اُسے کہا۔ ” اَے عورت تو کیوں روتی ہے؟ کس کو ڈھونڈتی ہے؟“ اور مریم مگدلینیؔ نے اُسےباغبان سمجھ کر اُس سے کہا ” جناب ، اگر آپ نے اُسے یہاں سے اُٹھایا ہے تو مجھے بتایئے کہ اُس کہاں رکھاّ ہے تاکہ میں اُسے لے جاؤں“۔ یُسوع نے اُس کہا ”مریم“ وُہ فوراً اُس کی آواز پہچان گئی اور بولی ”ربوُّنی“۔ وُہ یُسوعؔ تھا۔ جسے وُہ ڈھونڈ رہی تھی ! وُہ اُس کے قدم چومنے ہی کو تھی کہ یُسوعؔ بولا ” مجھے نہ چُھو کیونکہ میَں اَب تک اپنے باپ کے پاس اُوپر نہیں گیا لیکن میرے بھائیوں کے پاس جا کر اُن سے کہ کہ میں اپنے باپ اور تُمہارے باپ اور اپنے خدا اور تُمہارے خُدا کے پاس اُوپر جاتا ہوُں“۔

مریؔم پھر شاگردوں کو خبر دینے دوَڑی گئی کہ اُس نے خداوند کو دیکھا ہے۔

وُہ اُسی روز شام کے وقت دُوسرے شاگردوں کو بھی دکھائی دیا اور اُنہوں نے اُس کا یقین کیا۔ اُن کے غمگین اور شکستہ دِلوں میں خوشی کی ایک نئی لہرَ دوڑ گئی۔ ہاں اُن کا مسیح جو مر گیا تھا لیکن اَب پھرِ زندہ ہو گیا!

دو یا تین گواہون کے مُنہ سے سچ ثابت ہو جاتا ہے لیکن دو شاگردوں کو تو آماؤس کی راہ پر ملا۔ وُہ پطرس کو نظر ایا اور بھی کئی لوگوں نے اُسے دیکھا اور بولتے بھی سُنا۔

” وُہ یہاں نہیں بلکہ جی اُٹھا ہے“۔ صدیاں بیت گئیں، آج بھی ہم سب کے لئے عید قیامت کا پیغام یہی ہے۔ اِن اَیاّم میں ہم ایک قبر میں کسی مدفون مسیح کی پرستش نہیں کرتے اور نہ ہی ہم مسیح کی خالی قبر کی پُوجا کرتے ہیں بلکہ ہم تو قبر سے زندِہ شُدہ مسیح کے پرستار ہیں۔ الحمدُاللہ ! کیا ہمنے اِس فرحت زا پیغام کے ! یہ شاندار رئیت ہماری زندگیوں میں کیسی اُمید، کیسی ہمّت ڈالتا ہے!

اوّلاً:۔ مسیح کی قیامت ہمیں موت پر فتح بخشتی ہے۔ بنی نوع انسانی بابا آدم اور اماں حواّ کے گنا ہ ، روُحانی اور جسمانی مَوت لانے کا موُجب بنا لیکن مسیح کی موت اور قیامت کُل ایمانداروں کے لئے رُوحانی اور جسمانی زندگی لاتی ہے۔ ”جیسے آدم میں سب مرتے ہیں ویسے ہی مسیح میں سب زندہ کئے جائیں گے“۔

ثانیاً: ۔ یُسوع مسیح کی قیامت قبر پر فتح دیتی ہے۔ ہمارے المناک تجربوں میں غالباً ایک بدترین تجربہ یہ بھی ہوُا ہوگا۔ جب ہم نے اپنے کسی عزیز کی لاش کو خالی قبر مین سُپردِخاک کیا ہو۔ لیکن عزیزو، ہمارا وُہ عزیز قبر میں نہیں ہے۔ ہم محض اُس کے مرتےجسم کو اپنے سے الگ کر دیتے ہیں اور اگر وُہ ہمارا عزیز اپنی زندگی میں خُدا کا تجربتی رہا ہو گا تو ہم اُن لوگوں کی طرح ماتم نہیں کرتے جو بے اُمید ہیں بلکہ ہم خوش ہوتے ہیں۔  

Jersalem

لاثانی کلام

Uniqueness of the word of Christ

Published in Nur-i-Afshan April 30, 1897

خداوند یسُوع مسیح کے نادر افعال اور اقوال کی تفتیش و تدقیق کے بعد اِس بات کا فیصلہ آسان نہیں کہ اِن دو میں سے کون زیادہ تر جلالی اور کس سے اُس کے کیریکٹر ( character ‏) کا کامل اظہار ہوتا ہے۔ اُس کے قادر افعال سے یا اُن فضل اور راستی سے بھرپور اقوال سے جو اُسکی زبان سے نکلتے تھے۔ نقودی ماسؔ کا فیصلہ دونونکے حق میں صادق ٹھہرتا ہے کہ کوئی آدمی یہ قادر افعال اور معجزات نہیں کر سکتا اور نہ یہ اقوال بول سکتا ہے جبتک کہ خدا اُس کے ساتھ نہو۔ ایک اُس کی قدرت مطلق کا اظہار و دم اُسکی لا محدود حکِمت کا ثبوت ہے اُس کے کام اور اُسکی باتیں یکساں اُس کے جلال کا اظہار ہیں یہ دونوں اُس کی آشکارا خدمات کے تمام دوران میں پیوستہ ہیں اور ایک دوسرے کو روشن کرتے ہین اور دونوں ملکر معّلم اعظم کی تشخص اور کیریکٹر پر اپنی متفق اور کامل روشنی ڈالتے ہیں اور ثبوت کرتے ہیں کہ یہی بات کا اکلوتا فضل اور راستی سے بھر پور ہے ۔ 

اناجیل کے مطالعہ سے اگر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ لوگ اُس کے قادر کاموں کو دیکھ کر حیران اور دنگ رہ جاتے تھے۔ تو یہ بات بھی کم مفہوم نہیں کہ لوگ ہر وقت اور ہر جگہ اُسکی عجیب طرز کلام اور تعلیم سے حیران اور متعجب ہوتے تھے۔ ” عام لوگ خوشی سے اُس کی سنتے تھے“ ” وے اُس کی تعلیم سے دنگ تھے کیونکہ وہ اُنکو فقیہوں کی مانند نہیں بلکہ اختیار والے کی مانند سکھاتا تھا“۔ ” جب عید قریب آدھی گزر گئی عیسیٰ ہیکل میں گیا اور تعلیم دینے لگا اور یہودی تعّجب کر کے بولے یہ ادمی بنِ پڑھے کیونکر کتابونکا علم جانتا ہے“۔ ” سب نے اُسپر گواہی دی اور اُن فضل سے بھرپور کلام کے سبب جو اُس کے منہ سے نکلتے تھے دنگ تھے۔“ یہ مُشتے نمونہ از خروارے اُس پرُ تاثیر اور عجیب نقش کا اِظہار ہے جو خداوند یسوع مسیح کی عجیب تعلیم سے لوگوں کے دلوں پر پیدا ہوا تھا اور وے ہر جاہزار در ہزار اُس کی تعلیم سننے کے لئے جاتے تھے کیونکہ وہ نہ فقط اپنے معجزات کی نسبت لاثانی بلکہ اپنی تعلیم کی نسبت بھی اکیلا اور بے مثل تھا۔

خداوند یسوع کی عام و خاص آشکارا عام لوگوں کو اور پوشیدہ کاص شاگردوں کو طرز کلام اور تعلیم اور وعظ اور نصیحت سے واضح ہوتا ہے کہ وہ عجیب طور سے بالتا تھا۔ ” وہ تمثیلوں میں کلام کرتا تھا“۔ بیشک یہ طرز کلام بعض اَور معلّموں نے بھی استعمال کیا اور عہد عتیق میں اُس کی مثال موجود ہے مگر کسی نے نہ اُس قدر اور نہ اِس زور اور تاثیر کے ساتھ اور نہ کوئی خداوند پر آجتک سبُقت لیگیا۔ خداوند یسُوع کی تعلیم لاثانی ہے کہ خدا کی بادشاہت کے عمیق رازوں اور گہری پنہان باتوں کو تمثیلوں میں اِنکشاف کرتا تھا کہ یہ مشرقی دلچسپ اور پرُ تاثیر طرز کلام کو نہایت مرغوب تھا کہ اِس سے دل پر نہایت گہرا اور پائیدار نقش پیدا ہوتا ہے۔

معلوم ہوتا ہے کہ اپنی خدمت کے شروع میں خداوند نے اِس طرز کلام تمثیلوں میں کلام کو اِستعمال نہیں کیا۔

حواریاں متی اور مرقس اور لوقا اُس کی تعلیم کو جو تمثیلوں میں دیگئی درج کرتے ہیں اور آغاز اِس طرز کلام اُسوقت سے نظر آتا ہے جب اُس نے دریائے طبریاس میں کشتی پر بیٹھ کر تعلیم دی۔ ایسے موقعے بھی موجود ہیں مثلاً پہاڑی وعظ اور اُس کی آخری وصیت اور بالا خانہ میں شاگردوں کو دلجمعی اور تسلّی بخش باتیں جب اُس نے اِس طرز کلام کو استعمال نہیں کیا تاہم اُسکی تعلیم اور باتوں میں تمثیلوں میں کلام کرنا مناسب سے بالا اور اظہر من الشمس معلوم دیتا ہے انجیل یوحنا اگرچہ خداوند کے دراز وعظ اور کلام کو اپنی انجیل میں درج کرتا مگر ایک بھی تمثیل کا زکر نہیں کرتا ہے یہ پیارا شاگرد زندگی کے کلمہؔ کی الوہیت اور محبّت میں غوطہ زن ہو کر اُس کی الہی صفات کا اظہار کرنے میں سب مُبشروں سے زیادہ مائیل اور راغب ہے اور سب کمّیاں بھر دیتا ہے۔

مندرجہ زیل تمثیلات تینوں اناجیل میں مندرج ہیں:۔

( ۱ ) بیچ بونے والا ( ۲ ) کڑوے دانے ( ۳ ) بغردل کا تخم ( ۴ ) خمیرہ ( ۵ ) گنج پنہاں ( ۶ ) موتی ( ۷ ) جال ( ۸ ) بیرحم خادم ( ۹ ) انگورستان میں مزدور ( ۱۰ ) دو فرزند ( ۱۱ ) شریر باغبان ( ۱۲) بادشاہ کے فرزند کی شادی ( ۱۳ ) دس کنوّاریاں ( ۱۴) تاڑے ( ۱۵ ) تخم بے معلوم بڑھتا رہا ( ۱۶) دو قرضائی ( ۱۷) نیک سامری ( ۱۸ ) نیم شب کا دوست ( ۱۹ ) متمول نادان ( ۲۰ ) بے پھل انجیر کا درخت ( ۲۱) بڑی ضیافت ( ۲۲ ) گم گشتہ بھیڑ ( ۲۳ ) گم شدہ دنباء ( ۲۴ ) مصروف فرزند ( ۲۵) بے ایمان خانساماں ( ۲۶ ) دولت مند اور لعزر ( ۲۷ ) نکمّے خادم ( ۲۸) بے انصاف قاضی ( ۲۹ ) فریسی اور محصول لینے والا ( ۳۰) پُنجی سُپرد شدہ۔

علاوہ اِن ۳۰ تمثیلات کے خداوند ہمیشہ اپنی و فطار و نصیحت اور گفتگو میں نیچر اور فطرت سے ایسے نظارے استعمال کرتا ہے کہ سامعین کے دلوں پر نقش برسنگ ہوتا ہے اور انجیل یوحناّ میں اعلیٰ درجہ کی تشبیہات مزکور ہیں مثلاً نیک گڈریا، سچّا انگور۔ زندگی کی روٹی۔ جیتا پانی۔ جہان کا نور۔ راہ حق اور زندگی۔ دروازہ ۔ قیامت اور زندگی۔ مذکورہ بالا اُسکی ظاہری طرز کلام تھی مگر اُسکی تعلیم میں نہایت عجیب اور عمیق باتیں پائی جاتی ہیں۔

” اِس شخص کی مانند کبھی کسی نے کلام نہیں کیا۔“ یہ اُن افسران کی رپورٹ ہے جنکو بزرگ جماعت یہود نے خداوند یسوع مسیح کی گرفتاری کےلئے مقرر کر کے بھیجا تھا۔ وہ خاص اپنے فرض کے پورا کر نیکے واسطے یسوع کی تلاش کرتے ہوئے اُس پاس پہنچے مگر جب اُسکی باتوں کو جو وہ لوگوں سے کر رہا تھا سنُا تو حیران ہو گئے اور اُنکی جان جاتی رہی اور اُنہوں نے اُس پر ہاتھ نہ ڈالے اور خالی ہاتھ سرداروں کے پاس گئے اور جب دریافت کیا گیا کہ تم اُسکو کیوں پکڑ کر نہیں لائے تو اُنہوں نے نہیں کہا کہ ہم نے اُس کے معجزات دیکھے یا کہ لوگوں کے انبوہ کے انبوہ اُس کے چاروں طرف موجود تھے اور ہم کو اُس کی گرفتاری کی دلیری نہ ہوئی مگر حقیقی دلیل پیش کر کے جواب دیا کہ ” اِس شخص کی مانند کبھی کسی نے کلام نہیں کیا“۔

اگر کوئی شخص انصاف کو کام میں لاوے اور بے تعّصب دل سے خداوند یسوع کی باتیں جو اناجیل میں مندرج ہیں عمیق غور سے مطالعہ کرے تو ضرور وہ بھی اِن افسروں کی رپورٹ کے ساتھ متفق ہو کر کہیگا کہ بیشک اگرچہ اِس بات کو قریب ۱۹۰۰ برس گزر گئے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ ہر زمانہ اور ہر قوم میں ” اِس شخص کی مانند کبھی کسی نے کلام نہیں کیا“۔

عمیق غور کے قابل بات ہے کہ نہایت اعلیٰ تعریف کے کلمات جو خداوند کے حق میں بولے گئے وہ اُس کے دشمنوں کی زبان سے نکلے مثلاً سنو شیاطین جنکو وہ کلمہ سے نکالتا ہے کیا گواہی دیتے ہیں ” میں تجھکو جانتا ہوں کہ تو کون خدا کا قدوس“ پھر سنو کہ بے انصاف حاکم جس نے اُس کو موت کا فتویٰ دیا کیا شہادت دیتا ہے۔ ” میں اِس راستبازی کے خون سے پاک ہوں تم ہی اِسکو لیجاؤ اور صلیب دو کیونکہ میں اُسمیں کچھ قصور نہیں پاتا ہوں پلاطوس کی جورو کی گواہی پر غور کرو۔ ” اِس راستباز آدمی سے تو کچھ نہ کرنا کیونکہ میں نے آج رات خواب میں اِس کے سبب بہت تکلیف پائی ہے“۔ یہودہ کی شہادت یہ ہے۔ ” میں نے گناہ کیا کہ میں نے بے گناہ کو فریب سے پکڑوایا“۔ رومی صوبہ دار کی گواہی بھی غور طلب ہے۔ ” سچ مچ یہ آدمی خدا کا بیٹا تھا“۔ اور کہ دوسوؔ  Rosso ‏کے مشہور ومعروف اقرارات میں موجود ہے کہ ” اگر سقراط کی زندگی اور موت ایک سیج زاہد کی زندگی اور موت تھی تو عیسیٰ کی زندگی اور موت خدا کی زندگی اور موت ہے“۔ مگر یہ تمام شہادتیں بمقابلہ یہودی پولیس افسروں کی شہادت کے جو اُنہوں نے بحضورڈیوٹی سردار۔ اِن پیش کی کم قدر نظر اتی ہیں کہ اِس شخصکی مانند کبھی کسی نے کلام نہیں کیا“

اِن افسروں نے یسوع کی عادت کے مطابق ہیکل ہے والا نوں میں عید خیمہ کے آخیری اعظم دن پر ہزار ہا یہودی اشخاص کے درمیان عجیب و غریب تعلیم سناُتے جاپا یا اور حیات ابدہ کا طریق ایسے الفاظ میں بولتے سُنا جو فضل اور حکمت سے بھرپور تھے جنکو پیشتر یروشلم کے باشندوں نےکبھی نہیں سُنا تھا۔ یہ افسران بھی گروہ کے ساتھ ملکر اُس کی وعظ کو سننے لگے اور اُن کے دلوں پر دہشت اور افسوس چھا گیا اور پھر لازوال اُمید کا نمونہ بھی ہوا کیونکہ یہ فانی انِسانی تھے لہذا اُنہوں نے اُسپر سختی نہ کی بلکہ شرمندہ اور سرنگوں اور سوچ میں گرفتار ہو کر سرداروں کے پاس واپس گئے اور شہادت دی کہ ” اِس شخص ک مانند کبھی کسی نےکلام نہیں کیا“۔

”اِس شخص کی مانند کبھی کسی نےکلام نہیں کیا“ ۔ کیا معنے کہ جن مضامیں اورمُد عا کی نسبت اِس شخص نے عجیب اختیار اور باخبر طور پر صاف صاف بیان کیا کبھی کسی نے نہ آگے اور نہ مابعد ایسا کیا اور نہ کسی نے جرُأت کی کہ ایساکرے کہ کُفر میں داخل ہوتا مگر اُس شخص کے ہونٹھوں کو سجتا اور اُس کی زبانکو زیب دیتا ہے کہ دعویٰ کے ہمراہ ثبوت موجود ہے مثلاً جب فرمایا کہ ” بیٹا خا طر جمع رکھ تیرے گناہ معاف ہوئے“۔ اور فقیہوں نے اپنے دلوں میں خیال کیا کہ ” یہ کیوں ایسا کُفر بکتا ہے“ تو فوراً ” یسوع نے اُن کے خیالوں کو اپنی روح سے دریافت کر کے ثبوت بھی دیدیا اور سب کے دلوں پر نقش برسنگ کر دیا کہ جودعوےٰ کرتا ہے ثبوت کے ساتھ کرتا ہے اور سب حیران رہ جاتے ہیں اور خدا کی تعریف کر کے بولتے ہیں کہ ” ہم نے ایسا کبھی نہیں دیکھا تھا “۔ پھر جب مارتھا کو اُس کے مرُدہ بھائی لعزر کی نسبت فرمایا کہ ” تیرا بھائی پھر جی اُٹھیگا“ ۔ اور کہ ”قیامت اور زندگی میں ہی ہوں “ تو فوراً دعوےٰ کے ساتھ ثبوت موجود ہے کہ لعزر کی قبر جاتا اور بلند آواز سے پُکار کر لعزر کو کہتا ہے اے لعزر ناہر نکل آ“۔

ممکن ہے کہ بعض معلموّں نے خداوند یسوع کی نسبت زیادہ تر کلام کیا اور مختلف مضامیں پر بھی کیا ہے مثلاً ارسٹوٹل  (Aristotle ) ‏ سِسُرُہ  (Cicero) ‏نے یونانیؤں اور رومیوں کے درمیان ۔ مگر اُن کے مضامیں اور مُدعا اِس زمیں اور اِس زندگی سے متعلق تھے اور اگر کسی نے بقا کی نسبت کچھ بولا تو ایسے شکیۂ اور دھندلے الفاظ میں بولوکہ سننے والے کے دل پر تسکین کے بجائے شک اور گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے۔ خدا اور ابدئیت زندگی موت اور آیندہ عدالت۔ بہشت اور دوزخ۔ پاکیزگی اور گناہ۔ انسانی روح معہ اُس کی محتاجی اور مصائب کے۔ اُس کی اصلیت اور منزلت۔ اُس کے گناہ کی پہچان۔ سزا کا کوف۔ اُس کا بقا کے لئے تڑپنا۔ہماری نسل کی عمیق کم بختی اور بربادی ۔ اور اُسکی مخلصی اور نجات اور نجا ئت کا طرق۔ اِن مضامیں کی نسبت جو خدا اور انسان سے بھاری تعلق رکھتے ہیں۔ اور جنکی دریافت کے لئے اِنسان کا دل تڑپتا ہے خداوند یسوع نے ایسی آزدی اور بھرپوری سے کلام کیا کہ محال مطلق ہے کہ کوئی اِنسان ایسا کلام کرے مگر ایک شرط پر وہ خدا کی طرف سے اُستاد مقرر ہو کر آیا ہو۔ الہی فضل کے راز الوہیت کی زاتی صفات۔ خلقت کے اصول پروردگاری۔ نجات انسان کا رشتہ خدا اور عالم کے ساتھ ۔ گناہ سے مخلصی۔ مرُدوں کی قیامت۔ دنیا میں خدا کی کلیسیاء اور بادشاہت مذکورہ بالا مضامیں پر جنکی نسبت اب ۱۹۰۰سو برس سے مذہب اور قومیں نہائیت جانفشانی سے جدا جدا اور تفتیش کر رہی ہیں۔ ” اِس شخص کی مانند کبھی کسی نےکلام نہیں کیا نہ اُسکی انجیل میں زندگی اور بقا کو دوپہر کی روشنی حاصل ہوتی ہے۔ جن عمیق مضامیں کی نسبت رومیؔ۔ یونانیؔ۔ مصرؔی۔ اور کسدیؔ۔ غیر متہم معلّمان عمیق اندھیرے میں ٹٹولتے پھرتے تھے یہ شخص نہایت صاف اور شفاّف طور سے آسمانی الہام کی باتیں بولتا اور یوں فرماتا ہے کہ ” ہم جو جانتے نہیں سو بتلاتے اور جو ہم نے دیکھا ہے اُس کی گواہی دیتے ہیں“۔

یہ بھی غور طلب ہے کہ خداوند یسوع نے ۳ سال کے عرصہ میں وہ عمیق اور گہرے اوراشد ضروری راز اور بھید منکشف کئے جو اگر دنیا کے ہر زمانہ کے علما اور فضلا ملکر ہزار ہا سال تک جدوجہد کرتے کہ حاصل ہو پھر بھی ناکامیاب رہتے۔ یہ سچ ہے کہ دنیا نے دنیاوی علوم و فنون میں بہت ترقی کی ہے مگر آسمانی اور روحانی اور بقا کے معاملات اور مسائل میں یسوع کے عطیہ کے ساتھ ایک نقطہ یا ایک شوشہ بھی نہیں ملایا کہ جیسا وہ چھوڑ گیا ویسا ہی ابتک موجود ہے البتہ اُس کے مُلہم حواریاں نے اُس کی تعلیم کی تفسیر کی جس سے اُس کی باتیں زیادہ صحیح اور واضح معلوم ہوئیں مگر اُنہوں نے بھی اُس کے خزانہ اُس کی بھر پوری سے پایا بلکہ فضل پر فضل ” کسی آدمی نے کبھی خدا کو نہیں دیکھا اکلوتا بیٹا جو باپ کی گود میں ہے اُس نے اُس کو ظاہر کر دیا“۔

روح کی حقیقی قیمت اور قدر و منزلت۔ اُسکی خوفناک بربادی اور اُس کی نجات کی قیمت ۔ بہشت کی راہ۔ گُناہ کی معافی۔ ہمیشہ کی زندگی۔ خدا روح ہے اور اُس کے پر ستاروں کو لازم ہے کہ روح اور راستی سے اُس کی پرستش کریں خُدا روح ہے لا محدود و ازلی لاتبدیل اپنی ہستی حکمت قدرت قدوسی عدل نیکی اور سچائی میں اور کہ جو کچھ طالب ہو کہ اُسکا چہرہ سلامتی میں دیکھے تاکہ تا ابد اُسکا جلال ظاہر کرے اور اُس میں خوش رہے اُس کو نہایت مناسب ہے کہ پہلے اپنے گناہوں سے توبہ کرے اور خدا کے بیٹے پر ایمان لاوے کہ نجات حاصل ہو اور پھر پاکیزگی میں ترقی کرتا جاوے+ مذکورہ بالا نہائیت موزوں اور اشد ضروری امورات ہم فقط خُداوند یسوع سے ھاصل کرتے ہیں اور خداوند یسوع کی تعلیم کے بغیر ہمارا ھال وہی ہوتا ہے جو اہل ایتھنس تھا اور ہمارا خُدا ہی جو اُنکا نامعلوم خدا تھا۔ اسمیں کچھ بھی شک نہیں کہ ” اِس شخص کی مانند کسی نے کلام نہیں کیا“ اِس کا کلام لاثانی ہے اور یہ مُعلّم لاچانی لہذا اگر یہ شخص عمانوئیل یعنے خدا مجسم نہیں تو کیا ہے؟

غور طلب

ابتدا میں کلام تھا اورکلام خُدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا یہی ابتدا میں خُدا کے ساتھ تھا سب چیزیں اُس سے موجود ہوئیں۔ اور کوئی چیز موجود نہ تھی جو بغیر اُس کے ہوئی۔

لاثانی کلام

خداوند یسوع کی تعلیم اور باتوں میں ایک اور عجیب و غریب خصوصیت جس سے وہ تمام متقدمیں اور متأخرین متعلمان سے نہایت بالا اور برتر نظر آتا ہےیہ کہوہ ایسی طرزِ کلام اِستعمال کرتا ہےکہ اگر کوئی انسان اُسکو استعمال کرے خواہ وہ کیسا ہی عالم و فاضل اوربزرگ اور صاحب اقتدار اور اقبال کیوں نہ ہو اُسپر کُفر لازم آتا ہے۔ اُس کی طرز کلام موزوں اور سنجیدہ مضمون اور مُدعا کے ساتھ کامل متفق نظر آتی ہے۔ ہزار ہا لوگ اُسکا کلام سننے کیواسطے اُسکی پیروی کرتے تھے اور ا،سکا راز اور بھید یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اُن حیران اور متعجب لوگوں کو فقہیوں کی طرح نہیں بلکہ ایک کامل اختیار والے کی طرح تعلیم دیتا ہے اور اپنے خیالات کو نہایت دلچسپ انسانی الفاظ میں ملّبس کرتاہے اور اُس کے مضامیں اور دعوئے نہایت مفید اور اشد ضروری معلوم ہوتےہیں کہ کم بخت ہے وہ انسان جو اُن پر توجہ مائل نہیں کرتا۔ اور وہ اپنی باتوں کو کامل تیقّن اور پورے اختیار کے ساتھ کہ اُسکا پیغام خاص خدا کی طرف سے اظہار کرتا ہے کہ ” میں تم کو سچ سچ کہتا ہوں“۔ ” ہم جو جانتے ہیں سو تم کو کہتے ہیں اور جو ہمنے دیکھا ہے اُس کی گواہی دیتے ہیں“ ایسے ایسے جملے اُس کی باتوں کے شروع میں آتے ہیں اور اُس کے زاتی اختیار کا آغاز ی ا ظہار معلوم ہوتا ہے۔ برعکس اِس کے تمام قدیم انبیاء اور مابعد کے رسل جب اعلیٰ طاقت کے پیگام اور مقصد کو اظہار کرتے تو یوں بولتے تھے اور خداوند یوں فرماتا ہے“+

عام لوگ شریعت کے علماء اور فضلا ء اور مفسّرین کی دو ولی دریا کاری اور بکواس سے پس ماندہ اور رنج خاطر ہو رہے تھے۔ ان عالموں نے حقیقت میں اپنی شریعت کو جو اُنکو موسیٰ کی معرفت دستیاب ہوئی تھی اپنی بیشمار واردتیوں سے خالی اور بےمعنے اور باطل بنا رکھا تھا اور لوگوں کے کاندھوں پر ایسے بھاری بوجھ رکھ چھوڑے تھے جنکا برداشت کرنا ناممکن تھا۔ حقیقت میں تمام دُنیا نہایت گھبراہٹ اور مضطر حالت میں تھی اور کسی ایسی چیز اورمثردہ کے لئے تڑپتی تھی جسکو وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کیا ہے اور کہاں سے دستیاب ہوگا۔ یہودی اور یونانی دونوں بہت تھکے اور ماندہ تھے اور مّروجہ دار العلوم کے فلسفیوں اور کوَنا کوَن تعلیموں سے جو انسان کے دل کو حیرانگی اوراضطراب اور گھبراہٹ کے سمندر میں مستغرق کرتی ہیں ( حیسانی زمانہ نظر آتا ہے) متنفر نظر آتے تھے کہ الفاظ تو موجود ہیں مگر حقیقیعرفان معدوم ہے۔ اُن کے درمیان ایک معلم کھڑا ہے جو بالکل نئی اورنرالی طرز کلام سے نئی اور نرالی تعلیم دیتا ہے جسکی باتیں ہاں ہاں اور آمیں ہیں جس کے الفاظ دل سے تازہ نکلتے اور اور تیر کی طرح سیدھے دلمیں جا لگتے ہیں۔ اُن کے درمیان ایک عجیب معلم کھڑا ہے جو خاص خدا کا کلمہ اور منہ ہو کر بالتا ہے۔ کچھ مضائیقہ نہیں کہ اُس کی ہیکل کہاں اور اُس کے سامعیں کون ہیں مگر وہ ہمیشہ یکساں کامل تقین اور الہی اختیار کے ساتھ کلام کرتا ہے۔ خواہ وہ سامعین سے پُر عبادت خانہ میں پا ہزارو ہزار لوگونکے درمیان راہ گزروں میں۔ پہاڑ کی چوٹی پر یا سمندر کے کنارے پر یا میدان اور وادی میں یا قوی عیدوں کے ایام میں مجمعوں میں ہیکل کے والانوں میں یا قصبہ بیتنی کے عزیز خانگی دائیرہ کے درمیان خواہ ہیکل کے اختیار والوں کے بیچ جہاں وہ کاہن اور فقیہ اور فریسی کے کے غرور کو ملامت کرتا ہے کچھ مضایقہ نہیں وہ کس جگہ اور کنکو وعظ کرتا وہ ہمیشہ کامل صداقت اور بے نقص تیقن کے ساتھ تعلیم دیتا ہے۔ یہ تو الیاس کی روح اور قوت سےبھی زیادہ بالا اور برتر معلوم ہوتا ہے اُن کے درمیان ایک کھڑا ہے جو اگرچہ پست حالوںاور غریبوں اور محتاجوں سے ہمدردی کی باتیں کرتے شرماتا نہیں بیواؤں اور یتیموں کو دلاسا دیتااور شیر خوروں کو گود میں لیتا تاہم ایک عظیم الشان شاہنشاہ کی قدر بتا و اختیار کے ساتھ کلام کرتا اور آشکارا کرتا ہے کہ وہ کود اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ خدا مجسم کے اختیار سے بولتا ہوں۔

خداوند یسوع کی سوانح عمری کے ماجرات اور ھادث کو تین جماعتوں میںمنقسم کر کے آشکارا کرینگے کہ وہ ہمیشہ ہر جماعت کے حوادث کے موقعہ پر ایک ہی لاثانی الہی قدرت اور اختیار کے ساتھ کلام کرتا ہے۔ ۔

جماعت اوّل۔ اس جماعت میں وہ تمام موقعات اور حوادث شامل ہیں جن میں اُس نے اپنے عجیب و غریب قادر کرامات اور معجزات کو اظہار دیا جو شمار سے باہر ہیں مگر قریب تیس ایک ہیں جو اناجیل میں مذکور ہوئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اُسنے قدرت کا ایک لفظ بولا اور ہوگیا اُس نے حکم کیا اور یہ فوراً ہو گیا ہم اِس وقت خاص معجزہ کی طرف اشارہ نہیں کرتے کہ معجزات تو قدیم انبیاء نے بھی کئے مگرہم خاص توجہ طرز کلام اور اختیار اور قدرت کی طرف دلاتے ہیں کہ یہ کوں ہے جو ایسا بولتا اور فوراً ہو جاتا ہے ۔ کلمہ سے نیست سے ہست کرتا اور ہست کو نیست یہ تو بالکل ٹھیک ٹھیک وہی طرز کلام اور قدرت معلوم ہوتی ہے جو خالق نے اپنا میں استعمال کی تھی جب فرمایا کہ نور ہو اور نور ہو گیا “ چشم دید گرماہین خداوند یسوع مسیح کے اور حکم اور طرزِ کلام کے نرالے ڈھنگ کو دیکھ کر نہایت ہی حیران اور متعجب رہ جاتے اور پکار کر کہتے تھے کہ ” یہ آدمی کس قسم کا ہے کیونکہ وہ ہوا اور پانی کو بھی حکم کرتا ہے اور وہ اُس کی مانتے ہیں “ ۔ ” وہ سب حیران ہو گئے اور اپس میں بولنے لگے کہ کیسا کلام ہے کیونکہ وہ اختیار اور قدرت ساتھ ناپاک روحوں کو حکم کرتا ہے اور وہ اُس کی مانتےہیں۔ ایک بھاری تفاوت پر نظر پڑتی ہے جو قدیم انبیاء اور نیز اُسکے حواریاں کے معجزات اور اُس کی اپنی قدرت اور اختیار والے کاموں اور کرامات میں ہمیشہ موجود ہے کہ اُس کے اپنے معجزات اُسکی اپنی زاتی قدرت سے سر زد ہوئے جن میں خارجی وسیلہ یا قوت کا دخل نہیں۔ وہ فرماتا ہے ” اپنا ہاتھ لمبا کر اور اُس نے اِسے دوسرے کی مانند تندرست لمبا کیا”۔ ” اے بیٹے تیرے گناہ معاف ہوئے سلامت جا“۔ ” اے لڑکی میں تجھے کہتا ہوں اُٹھ کھڑی ہو“۔ ” اے لعزر باہر نکل آ اور وہ جو مر گیا تھا باہر نکل آیا ہاتھ پاؤں بندھے“۔ ہمارے نجات دہندہ کے معجزات اِس طرز اور ڈھنگ سے سرزد ہوتے رہے اور تمام ایسے موقعات پر ” اِس شخص کی مانند کبھی کسی نے کلام نہیں کیا“۔ 

جماعت دویم۔ اِس جماعت میں وہ تمام موقعات شامل ہیں جن میں اُس نے اپنے شاگردوں اور ہزارہا یہودی لوگوں کے سامنے اپنی مفید عام اور کُھلا کھُلی تعلیم اور وعظ و نصیحت کہ سنائی۔نمونہکے لئے دیکھو اُس کی پہاڑی وعظ متی ۵۔۷ ۔ ابواب آخری عدالت کا نقشہ اور بیان متی ۲۵ باب فقیہوں اور فریسیوں کو ملامتیں متی ۲۳ باب۔ اور اُسکی مختلف گفتگو اور وعظ ہیکل میں بموقعہ عیدان اعظم قوم یہود جنکا زکر یوحنا انجیلی نے کسی قدر مفصّل کیا ہے اور اُسکی الوداعی باتیں خاس شاگردوں کے ساتھ اُس کی موت سے ایک رات پیشتر۔ کیا ممکن ہے کہ کوئی شخص بے تعصب ہو کر ان نادیدنی اور ابدی نہایت وسنجیدہ الہام کی باتوں کو باتیں بھی ایسی جن کی نسبتپیشتر کسی فانی اِنسان نےکبھی کچھ بولنے کی فرأت نہیں کی غور سے سنے اور پھر بھی اُن کی لااِنتہا اور ہیبت ناک بزرگی اور عظمت کو جس اندرونی سے معلوم نہ کرے۔ خصوصا ً ہم اُسکی آخری گفتگو کو پیش کرتےہیں اور اِس بات کو خصوصاً یاد دلاتے ہیں کہ متکلم اگر فقط انسان تھا تاہم ایک جوان عالم شباب والا پرلے درجہ کا نیک آدمی تھا اور برضا ء خود آیندہ صبح کو پوری پوری انتظاری کے ساتھ تیاری کرتا ہے کہ اپنی زندگی کو دیگا اور یہ بھی کسی خطا اور عدول کے باعث نہیں ہر گز نہیں بلکہ اِس لئے کہ حق پر گواہی دیتا ہے اور حق پر جان نثار ہے۔ دنُیا سقراط کی تعریف کرتی ہے کہ وہ کس قدر ایسے حالات میں حق پر جان نثار ہوا تھا مگر یسوع کی نسبت فقط تعریف نہیں بلکہ جو کوئی اُس کے الفاظ اور تعلیم کو غور سے پڑھے اور سنُے ضرور قائیل ہوگا کہ یہ شخص دنیا کے تمام معلمان سے بالا اور برتر ہے کہ اس میں اخلاقی قدرت اور شجاعت سب سے بڑھکر ہے کہ یہ اخلاقی قدرت اور جرأت سوائے اندرونی علم اور معرفت کے پیدا نہیں ہوتی تو وہ خدا کی طرف سے معلم مقرر ہو کر آ یا یا خود خدا ہے۔

اگر ایک کو قبول کر لیں تو دوسری بات کو قبول کرنا لازمی نتیجہ نکلتا ہے یعنے اگر وہ خدا کی طرف معلم مقرر ہو کر ایا ہے تو ضرور وہ خود خدا بھی تھا کیونکہ یہ وہ شکل ہے کہ جسکا حل اَور کسی طرح ہو نہیں سکتا مگر ایک حالت میں یعنے اگر قبُول کر لیں کہ وہ کمتر تھا تو ضرور ماننا پڑیگا کہ وہ اعلیٰ تر بھی تھا ۔ کیا معنے اگر وہ کدا کی طرف سے اُستاد مقرر ہوا اور دنیا میں آیا جسکا اِنکار محال ہے تو بلاشک وہ خود خدا تھا کیونکہ اُس نے صاف صاف دعوےٰ کیا کہ میں خدا ہوں اور موت تک اِس دعوےٰ پر قائیم اور مستقل رہا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جو خدا کی طرف سے مقرر ہو کر آیا اور اُس کے اعمال اور اقوال ایسے ہوں جیسے یسوع کے تھے اور اُسکی تمام زندگی گناہ سے ایسے بے داغ ہو جیسی اُسکی تھی اُسپر درو غگوئی کا الزام محال ،مطلق ہے لیکن واضح ہو کہ اُن اعظم حقیقتوں میں سے جو وہ ہمیشہ بلکہ زندگی کے آغاز سے اُس وقت تک کہ اُس پر موت کا فتوےٰ دیا گیا اور اعلیٰ اور ادنی ٰ کے روبرو آشکارا اور خفیہ ہمیشہ تعلیم دیتا اور سکھاتا تھا ایک حقیقت اعظم یہ تھی کہ میں خدا کا بیٹا ہوں اور کہ میں اور خدا یکساں اور برابر ہیں اور کہ میں خود خدا ہوں۔

لہذا اگر اُس کے معجزات اور تعلیم پر غور کرنے سے دو میںسے ایک بات کو لازمی قبول کرنا پڑے یعنے کہ وہ یا تو خدا کی طرف سے معلم ہو کر آیا تھا کہ وہ خود مجسم خدا تھا تو یہ نتیجہ ہم کو مجبور کرتا ہے کہ لازمی طور پر اِس نتیجہ کو قبول کریں کہ اُسکے تمام دعوے سچے اور برحق تھے۔ 

اب اگر کوئی اِس سلسلہ برہان قاطے کو دل میں محسوس کرے کہ اِس عمیق مشکل کا حل یہ ہیہے تو مندرجہ زیل کلام کو جو کبھی کسی اِنسان نے یسوع سے پیشتر یا مابعد بولنے کی دلیری نہیں کی دل کے کانوں سے سنُے ” آسمان اور زمیں ٹل جائینگے مگر میری باتیں ہر گز نہ ہلینگی“۔ ” نہ ہر ایک جو مجھکو خداوند خداوند کہتا ہے آسمان کی بادشاہت میں داخل ہوگامگروہی جو میرے باپ کی جو آسمانی پر ہے مرضی پر چلتا ہے“۔ “ اے باپ مجھکو اپنے ساتھ اُس جلال سے جلال بخش جو میں تیرے ساتھ عالم سے پیشتر رکھتا تھا“۔ تب تم اِبن آدم کو آسمان کی بدلیوں میں اتے دیکھو گے اور وہ اپنے جلال کے تخت پر جلوس فرما ہو گا اور اُسکے حضور تمام قومیں ھاجر اور جمع کیجاوینگی اور وہ اُنکو ایک دوسرے سے جدا کریگا جیسا گڈریا اپنی بھیڑوں کو بکریوں سے جدا کرتا ہے“۔ “ آسمان اور زمیں کا سارا اختیار مجھکو دیا گیا ہے ۔ اِس لئے تم تمام قوموں میں جا کر شاگردکرو اور اُنکو باپ اور بیٹے اور روح القدس کے نام پر بپتمسہ دو اور دیکھو میں زمانہ کے آخر تک تمہارے ساتھ ہوں ۔ وہ جو ایمان لاتا اور بپتمسہ پاتا ہے اور نجات پاویگا اور وہ جو ایمان نہیں لاتا اُسپر سزا کا حکم ہو گا“۔ سچ مچ ۔ ” اِس شخص کی مانند کبھی کسی نے کلام نہیں کیا۔ “

بھلا اگر ابراہام یا موسیٰ یا دانیال یا پولُس ایسی باتیں بولتے کیاتمام دنیا اُنکو کافر یا نادان نہ ٹھہراتی؟ سننے میں آتا ہے کہ بعض لوگ یسُوع کو فقط انسان اور اعلیٰ ترین مخلوق کے درجہ تک محدود ٹھہراتے ہیں مگر ہم کہتے ہیں کہ اُس کے معجزات کو درکنار کر کے فقط اُس کی باتیں اور تعلیم معہ اُس کی بیگناہ زندگی کے ہم کو مجبور کرتی ہیں کہ ہم نتیجہ نکالیں کہ یسوع میں اور دنیا کے تمام معلمان میں تفاوت لا محدود ہے۔ دُنیا میں فقط ایک ہی فانی اِنسان گزرا ہے جس نے اختیار کے ساتھ بولتے اور تمام انسانی قدرت پر قابض ہونیکا دعوےٰ اور فخر کیا کے احکام تمام یورپ کے لئے بمنزل شریعت تھ ے اور جسکی تلوارنے اُس کی تخت و تاج کو اُلٹ پلٹ کر دیا مگر اِس شخص نیپولئن  (NAPOLEAN) ‏ نے ایسے بول کبھی نہیں بولے اور اگر بولتا تو تمام دُنیااُس کو پاگل ٹھہراتی اور یسوع بھی فقط اِنسان ہو کر اگر ایسی باتیں بولتا تو اِس الزام سے بری نہ ٹھہرتا۔ ہم پھر کہتے ہیں کہ اِس مشکل کا حل ایک ہی ہے یعنے وہ سب کے اوپر مبارک خدا ہے اور کہ اُس کے الفاظ جو نہایت حیرت انگیز اور انسانی نہیں بلکہ الہی ہیں نہایت سنجیدگی اور حق کے ساتھ بولے گئے تھے۔

جماعت سویم۔ اِس جماعت میں وہ تمام موقعات شامل ہیں جن میں اُس نے پوشیدہ میں اثناء ملاقات۔ جب کوئی معجزہ ظاہر نہیں اور نہ کوئی عام و عظ سنُائی بلکہ فقط اور انسانوں کیطرف اِنسان اور دوستوں جیسا دوست معلوم ہوتا تھا۔ نمونہ کے لئے دیکھو اُسکی گفتگو نتھاؔنی ایل کے ساتھ یوحنا باب اول کے آخر میں اور نقوؔدی مس کے ساتھ یوحنا باب سوم کے شروع میں۔ اُسکی ملاقات ایک جوان سردار کے ساتھ اور ایک شریعت کے معلم کے ساتھ جو اُس کی آزمائیش کرنے آیا تھا۔ دیکھو وہ کس حکمت کے ساتھ ہرودئیوں۔ صدوقیوں اور فریسیوں کی چالاکی اور ریا کی باتوں اور سوالو نکا جواب دیکر اُنکامنہبند کرتا کہ پھر کسیکو سوال کی جرأت نہیں رہتی۔ دیکھو وہ پلاطوس حاکم کے ھضور اکیلا کھڑا ہے اور بجائے اُس کے کہ وہ ترساں اور لرزاں ہو خود ھاکم خوف زدہ اور قیدی کی عظمت سے نہایت متعجب ہو کر اُسکی برئیت کے کلمات منہ پر لاتا ہے۔ میری سمجھ میں انجیل میں اور کوئی بات ایسی توجہ اور تعّجب کے قاببل نہیں جیسی یہ کہ عیسیٰ مسیح تمام بےعزتی کے نظاروں کے درمیاں دُکھ اورمصیبت میں زندگی کے زور مرہ برتاؤ میں جن میں ضرور تھا کہ وہ عام اِنسان جیسا نظر آوے اور اُسکی الوہیت کم آشکارا ہوا ایسا بولتا اور ایسے کام کرتا تھا کہ لوگ مجبور ہو کر محسوس کرتے تھے کہ ” اِس شخص کی مانند کبھی کسی نے کلام نہیں کیا“۔ بارہ برس کی عمر سے لیکر جب وہ ہیکل کے درمیان علماء یہود کے پاس بیٹھ کر اُن سے بات چیت کرتا اُس کے آخری وقت تک جب وہ اپنےمدعٔیوں اور حاکم کے حضور ملزم ہو کر کھڑا ہے اُس کے ہر ایک لفظ اور چہرہ اور عمل میں کوئی ایسی عجیب انوکھی چیز موجود ہے جس سے ہر ایک جو اُس کے نزدیک آتا محسوس کر لیتاہے کہ وہ ضرور کوئی اعلیٰ ہستی ہے۔

جب ہم دیکتے ہیں کہ وہ دوستوں اور دشمنوں سے نہایت استقلال اور خاطر جمعی اور سلامتی کے ساتھ ملتا تاہم ہم اختیار کے ساتھ باتیں کریں۔ جب مرد و زن اور بچہ کو تعلیم دیتے وقت نہایت ملائمت اور ہمدردی کا کام میں لاتا تاہم ہم حق سے انحراف نہیں کرتا۔ جب خفیہ تنہائی میں شاگردوں کو سمجھاتا اور بیتھنی قصبہ کے عزیز خانگی دائیرہ میں زبان کھولتا اور ہم اُس کی آواز سنتے ہیں کہ وہ لعزر کی غمزدہ بہن کو فرماتا ہے۔ ” قیامت اور زندگی میں ہوں وہ جو مجھ پرایمان لاتا ہے اگرچہ وہ مر گیا ہوتو بھی جئیگا اور وہ جو جیتا ہے اور مجھپر ایمان لاتا ہے کبھی نہ مریگا“۔ جب ہم صلیب کے پاس کھڑے ہو کر اُسکو اُس شخص کی درخواست کا جواب دیتے سنتے ہیں کہ ” آج تو میرے ساتھ فردوس میں ہوگا“ جو اُس کے ساتھ صلیب پر کھینچا گیا تھا تاہم مجبور ہو کر محسوس کرتے ہیں کہ ” اِس شخص کی مانند کبھی کسی نے کلام نہیں کیا ” اور نتھانی ایل کے ساتھ ہم آواز ہو کر گواہی دیتے ہیں ” اے اُستاد تو خدا کا بیتا اور تو اسرائیل کا بادشاہ ہے“۔ یہ معلم لاثانی اور اُسکا کلام لاثانی ہے“۔ 

Pages