عیسی

Jesus

مسیح کا جی اُٹھنا

The Resurrection of Jesus

Published in Nur-i-Afshan December 07, 1894

قبل اِس کے ۔ کہ ہم مسیح کے جی اُٹھنے کی نسبت  رورپیئن ملحدوں اور منکروں  کے قیاس رویت خیالی کے ترویدی  مضمون  کے سلسلہ کو ختم کریں۔  یہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ کہ دو ایک اور اُس کی حقیقی رویتوں مندرج عُہد ؔجدید  کا زکر  کریں ۔ تاکہ بخوبی معلو م ہو جائے۔ کہ بقول ِ قاطیب  کا تب انجیل ’’اُس نے اپنے شاگردوں پر اپنے مرنے کے پیچھے آپ کو بہت سی قوی دلیلوں سے زندہ ثابت کیا تھا۔  جی اُٹھنے  کے بعد  اُس کی مختلف  کم از کم دس رویتوں  کا بیان  عہدؔ جدید  میں ملتا ہے۔ جن سے نہ صرف اُس کا شاگردوں  کو بیک نگاہ نظر آنا۔ اور فوراً  غایب ہو جانا۔ بلکہ مدبیر اُن  کے ساتھ ہمکلام ہونا۔ اُن کے ساتھ  کھانا  اور  اپنی جسمانی ہیئت  کذائی کو ظاہر کرنا ثابت ہوتا ہے۔گزشتہ  ایشو میں اُس کا عماؤس کی راہ میں شاگردوں  کو نظر آنے۔ اُن کے ہمراہ گفتگو کرتے ہوئے۔  مکان تک پہنچنے۔ اور اُن کے ساتھ روٹی کھانے میں شریک ہونے کا زکر کیا گیا۔ اور اب ہم ایک اور رویت کا زکر کریں  گے۔ جس سے خیالی رویت کا قیاس کلتیأ  باطل و عاطل ٹھہرے گا۔ اور ثابت  و ظاہر  ہو گا  کہ کوئی خیالی  غیر حقیقی صورت نہیں۔ بلکہ وہی مسیح تھا جو بیت  لحم  میں پیدا ہوا۔  ناصرہ میں  پرورش پائی۔ جو قریب ساڑھے  تین برس تک اپنے  شاگردوں  کے درمیان رہا۔ یروشلم  کے کوچوں میں پہرا۔  ہیکل میں وعظ  کیا ۔ معجزات  دکھلائے۔ اور بالآخر مصلوب  و مدفون  ہوا۔ اور تیسرے دن ِ مرُدوں میں سے جی اُٹھا۔ اور اپنے شاگردوں  کو اُسی  مصلوب  شدہ جسم سے  بار بار دکھلائی دیا۔ چنانچہ  یوحنا  رسول اپنی انجیل کے  ۲۰ باب میں لکھتا ۔ کہ ہفتہ کے پہلے دن (یعنے ایتوار کی شام کو ) جبکہ شاگرد ایک مکان مین۔ جس کے دروازے  یہودیوں کے ڈر سے بند کر رکھے  تھے جمع تھے اور گالباً انہی  باتون کا تزکرہ باہم کر رہے تھے۔ کہ اتنے میں یسوع اُن کے درمیان آکھڑا  ہوا۔ اور اُنہیں کہا تم پر سلام اور وہ  اُس کو دیکھ  کر خوش ہوئے۔  لیکن تھوؔما  اس رویت کے وقت غیر حاضر  تھا۔ اور جب اور  شاگردوں  نے اُس سے کہا۔ کہ ہم نے خداوند  کو دیکھا ہے۔  تو اُس نے اُن کے کہنے  پر یقین  نہ کیا۔  اور کہا ۔ کہ ’’ جب تک کہ میں اُس کے ہاتھوں میں کیلوں کے نشان نہ دیکھوں ۔ اور کیلوں کے نشانوں میں اپنی اُنگلیاں  نہ دالوں( جو بھالے سے چھیدا  گیا تھا)  کبھی یقین  نہ کروں گا۔‘‘ تھوما  کی اس درخواست تحقیقات  مو شگاف اور اطمینان  بخش کے لئے ہم اُس پر بے اعتقادی  یا گستاخی  کا الزام نہیں لگا سکتے۔ کیونکہ اگرچہ وہ اپنے ساتھیوں کی صداقت و راستی کی نسبت بدظن  نہ تھا۔ تاہم عقل انسانی کے نزدیک ایسے ایک غیر  ممکن  الوہیتی  امر کو دوسروں سے سن لیتے۔ اور یقین  کرنے کی بہ  نسبت  وہ بچشم خود  دیکھنا۔ اور نہ صرف دیکھنا۔ بلکہ  چھونا۔ اور خاطر خواہ  اطمینان  حاصل  کر کے  یقین کرنا بدرجہ  ہا بہتر سمجھتا تھا۔ علاوہ ازیں خود خداوند  نے بھی اُس کی ایسی راز جو تفتیش کو داخل  گستاخی  نہ سمجھا اور اُس  کے حسب دلخواہ طمانیت بخشنے سے اُس کو محروم و مایوس نہ کیا۔  چنانچہ  لکھا ہے۔ کہ  ’’ آٹھ روز بعد  جب اُس کے  شاگرد جمع تھے۔  اور تھوما اُن  کے ساتھ تھا۔  تو دروازہ  بند  ہوتے ہوئے  یسوع آیا۔ اور بیچ میں کھڑا ہو کر بولا۔  تم پر سلام پھر اُس نے تھوؔما  کو کہا۔  کہ اپنی انگلی پاس لا۔ اور میرے ہاتھوں  کو (جن مین آہنی میخوں کے زخم تھے) دیکھ۔ اور اپنا ہاتھ پاس ڈال ۔ اور بے ایمان  مت ہو۔ بلکہ ایمان لا‘‘۔ اور یو تھوما ۔ جبکہ وہ قوت باصرہ۔ سامعہ اور لا مہ کے زریعنے معلوم کر چکا۔ تو نہ صرف  اُس کی حقیقی پہر زندہ  ہوئی  انسانیت و جسمانیت  کا۔ بلکہ اُس  کی الوہیت کا قایل و  سققد ہو گیا۔ اور بلا تامل سر تسلیم جھکا  کر کہا ’’ اے میرے خداوند ۔ اور اے میرے خدا‘‘ جس پر خداوند  نے فرمایا  کہ۔ اے تھوؔما اِس لئے کہ تو نے مجھے دیکھا تو ایمان لایا ہے۔  مبارک وہ ہیں جنہوں نے نہیں دیکھا۔ تو بھی ایمان لائے‘‘۔

اب ہم اُن لوگوں سے جو مسیح کی خیالی رویت کے قیاس کو پیش کرتے اور اُس کے فی الحقیقت  جی اُٹھنے  کو غیر ممکن سمجھتے  سوال کر  سکتے ہیں۔ کہ کیا یہ بیان صرف  کسی خیالی رویت کا  ہے؟ کیا خیالی رویت اپنی جسمانیت  کو اس پر ثابت کرنے  کے لئے مستعد و آمادہ ہو سکتی۔ اور کسی مشتاق رویت  کے ساتھ ایسی صراحت کے ساتھ اس قدر عرصہ تک ہمکلام  ہو کر اُس کے شکوک و اوہام دلی کو رفع دفع کر سکتی ہو؟ کون  محقق اور طالب  صداقت  ایسے بے بنیاد  قیاس کو مقابلہ  ایسی صاف اور واضح تحریری شہادتوں کے قبول کر سکتا  ہے؟ 

اُلوہیت یسوع مسیح کی کوتوضیح  از کتاب مقدس

The Deity of Christ

Published in Nur-i-Afshan October 26, 1894
By Malik Roshan Khan

(۱ ) پید ۱۸۔۲۔ ۱۷، ۲۸۔ ۱۳، ۳۲۔ ۹، ۳۱ خروج ۳۔ ۱۴، ۱۵، ۱۳۔ ۲۱، ۲۰۔ ۱، ۲، ۲۵۔۲۱، واست ۴۔ ۳۳، ۳۶، ۳۹ نح ۹۔ ۷ تا ۲۸ یہ شخص  یہوداہ کہلاتا ہے ( جو خدا کا اسم زات ہے ) اور ساتھ ہی سا کے اس کو فرشتہ  یا بھیجا ہوا بھی کہا ہے۔ پیدا ۳۱۔ ۱۱، ۱۳، ۲۸،  ۱۵، ۱۶، ہوسیع ۱۲۔ ۲، ۵۔ علاوہ بریں خروج ۳۔ ۱۴ ، ۱۵ بمقابلہ اعم ۷۔ ۳۰، ۳۵ ، کروج ۱۳۔ ۲۱ بمقابلہ  خروج ۱۴۔ ۱۹، نیز خروج  ۲۰۔ ۱، ۲ بمقابلہ اعم ۱۷۔ ۳۸ ، یشع ۶۳۔ ۷، ۹۔

(۲ ) لیکن خدا باپ کسی کو کیسی بشر کے ہر گز نہین دیکھا (یوح ۱۔ ۱۸، ۶۔ ۴۶)  اور نہ وہ فرشتہ یا کسی دوسرے کا بھیجا ہوا ہو سکتا ہے۔  پر خدا کا بیتا دیکھا گیا ( یو ح ۱۔ ۱، ۲)  اور بھیجا بھی گیا ( یوح ۵۔ ۳۶) ۔ 

(۳ ) یہ یہوداہ  جو پرانے عہدنامہ  مین فرشتہ  یا بھیجا ہواکہلایا ہے۔ نبیوں کی معرفت اسرائیل کا منجی اور نئے عہدنامہ کا بانی بھی کہلاتا ہے۔  زکریاہ ۲۔ ۱۰، ۱۱ میں آیا ہے۔ کہ ایک یہواہ نے دوسرے یہواہ کو بھیجا ہے پھر میکہ ۵ ۔ ۲ ، ۳۱ ۔  ۱ میں مذکور ہے کہ خداوند عہد کا رسول اپنی ہیکل میں آئیگا۔ یہ مسیح سے نسبت کیا گیا ہے (مرق ۱۔۲) پہر  زبور۹۷۔ ۷ بمقابلہ عبر ۱۔ ۶ و یشع ۶۔ ۱ تا ۵ بمقابلہ ۔ یوح ۱۲۔ ۴۱۔ 

(۴ ) نئے عہدنامہ کے اکثر اشارے  جو پُرانے عہد نامہ کی طرف کئے گئے اس حقیقت پر صریح  دلالت  کرتی ہیں  زبور ۷۸۔ ۱۵، ۱۶، ۳۵، بمقابلہ ا قر ۱۰۔ ۹۔

(۵ ) کلیسیا تو دونون عہد ناموں میں ایک ہی ہے۔ اور ابتدا سے یسوع مسیح کلیسیا کا نجات  دہندہ  ہے اور سر  یعنے سردار  بھی ! اس واسطے یہ امر نجات کے سلسلہ  مین ان تین اقنوم  آلہٰی کے عہدوں کی نسبت کلام پاک میں ہم پر آشکارا کیا گیا ہے۔ ! ہمارے اُس خیال سے جو یہاں  پیش کیا گیا ہے نجات ہی مطابق ہو جاتا ہے۔ یوح ۸۔ ۵۶، ۵۸ متی ۲۳۔ ۳۷ و الپطر ۱۔۱۰ ، ۱۱۔

اسقف فورس صاحب فرماتے ہیں  کہ یسوع مسیح کی الوہیت کی الوہیت کی دلیلیں  جو بیبل میں پائی جاتی ہیں  کئی  ایک ساف صاف اور کئی ایک شارۃ ً مذکور ہیں اور وہ یہ ہیں۔

الف۔ وہ دلیلیں جو ساف ساف پائی جاتی ہیں۔  یوح ۱۔۱ کلام خدا تھا۔ وہ ابتدا  میں تھا۔ خدا کے ساتھ یوح ۱۔۱۸ مین اکلوتا  بیٹا نہیں بلکہ اکلوتا خدا ( بموجب متن انجیل یونانی) 

یوح ۳۔ ۱۶ وہ خدا کا اکلوتا بیٹا ہے۔ یوح ۱۵۔ ۱۸ اُس کے دشمنوں نے اسپر یہ تہمت  لگائی کہ اپنے تئیں خدا کے برابر ٹھہراتا  ہے اور مسیح نے اس کا انکار نہیں کیا۔ یوح ۶۔ ۴۰ مسیح نے دعویٰ کیا کہ وہ آخری دن مردوں کو جلائیگا۔ اور جو اس پر ایمان  لاوے ہمیشہ کی زندگی  پاویگا۔ یوح ۵۔ ۲۳ اُس نے فرمایا کہ باپ کی مرضی ہے کہ سب بیٹے کی عزت کریں جس طرح باپ کی کرتے ہیں یوحنا ۱۰ ۔ ۳۰ میں اور باپ ایک ہیں  یوح۔ ۱۔ ۵ دنیا کی پیدایش سے پیشتر خدا باپ کے ساتھ جلال رکھتا تھا۔ یوح ۱۴۔ ۶ کہ اُس نے فرمایا۔ کہ راہ۔ حق۔ زندگی۔ میں ہوں ۔ یوحنا ۲۰۔ ۳۱ بلکہ اس انجیل کا مقصد  یہی ہے کہ اس کے پڑھنے والے ایمان لاویں کہ وہ خدا کا بیتا ہے یہ بات نوشتوں کے اور مقاموں سے بھی ظاہر ہوتی ہے مثلاً باقی تین انجیلوں سے ظاہر  ہوتا ہے کہ اُس نے اب اﷲ ہونیکا دعویٰ کیا تو یہودیوں نے اُس پر کفر کا الزام لگایا  متی ۲۶۔ ۶۳، ۶۴  مرق ۱۴۔ ۶۱، ۶۲ لوقا ۲۲۔ ۷۰، ۷۱۔ روم ۹۔۵ مسیح سب کا خدا ہمیشہ مبارک ہو ایوح ۵۔ ۲۰ یوح ۲۰۔ ۲۸ ،  طیط  ۲ ۔ ۱۳ عبر ۱۔ ۸۔

{یہ دلیل اسقف صاحب  ممدوح نے پیش نہیں فرمائی۔ بندہ مبارز ۔۔۔ درمتن قدیم ترین نسخہ  ہائے یانانی لفظ  یاہ بمعنے خدایا فتہ شد۔  واتمطی ۳۔ ۱۶ ، اعم ۲۰۔ ۲۸۔ مسیح کی الوہیت پاک نوشتوں کے مضمون سے ثابت ہے کیونکہ ان میں یہ تعلیم برابر  پائی جاتی ہے کہ ایک ہی خدا ہے اُسی پر اپنا بھروسہ  رکھو وہی نجات دہندہ ہے اور نئے عہد نامہ میں بکثرت  یہ تعلیم موجود  ہے کہ یسوع مسیح پر ایمان لاؤ یہی نجات دہندہ ہے۔ اگر مسیح خدا نہوتا تو ایسی تعلیم اسکی نسبت ہر گز نہ دیجاتی۔

ب۔ یسوع مسیح کی الوہیت کی دلیلیں جو بیبل میں اشارۃ ً پائی جاتی ہیں دلایل بالا سے قوی تر ہیں مثلاً گنتی ۲۱۔ ۵ ، ۶ کو اقر ۱۰۔ ۹ سے مقابلہ کرو کہ انہوں نے جس یہواہ کا امتحان  کیا وہ مسیح ہے اور ملاکی ۳۔ ا کو متی ۱۱۔ ۱۰ سے مقابلہ کرو اور یشع ۸۔ ۱۳، ۱۴، ۱۵ کو لوقا ۲۔ ۳۴، روم ۹۔ ۲۳ سے مقابلہ کرو کہ وہ چٹان  اور پتھر  مسیح  ہے اور یشع ۶۔ ا کو یوح ۱۲۔  ۳۸  تا  ۴۱ سے مقابلہ کرو۔ زبور ۹۷۔ ۷، ۲۔ ۱۔ ۲۵۔ ۲۶۔ کو عبرا۔ ۶، ۱۰ کے ساتھ مقابلہ کرو۔

خدا سے خدا ۔ یوح ۱۔۱، ۲۰۔ ۲۸، اعم ۲۰۔ ۲۸ روم ۹۔ ۵، ۲ تسلو ۱۔ ۱۲ ، اتمطی ۳۔ ۱۶ طیط ۲۔ ۳ عبرا۔ ۸،  وا یوح ۵ ۔ ۲۰۔ جو الہٰی صفتیں ہیں وہ بھی مسیح کی طرف منسوب کی گئی ہیں مثلاً مسیح کا ازلی  و ابدی ہونا یوح ۱۔۱، ۲، ۸۔۵۸ ، ۱۷۔ ۵ مکاشفات  ۱۔ ۸، ۱۷، ۱۸، ۲۲۔ ۱۳ ۔ مسیح لاتبدیل ہے عبرا ۱۱،۱۲،۱۳۔ ۸۔ مسیح حاضر و ناظر ہے یوح ۳۔۱۳۔ ابن  ادم آسمان پر ہے۔ یعنے ازرعئے انسانیت ینقو دیموس کے سامنے تھا لیکن ازروے اُلوہیت آسمان پر تھا متی ۱۸۔ ۲۰، ۲۸۔ ۲۰ مسیح ہمہ دان ہی متی ۱۱۔ ۲۷۔ یوح ۲۔۲۳ تا ۲۵، ۲۱، ۱۷  مکا ۲۔ ۲۳۔

مسیح قادر مطلق یوح۵۔۱۷ عبر ۱۔۳ مکا ۱۔۱۸ ، ۱۱۔۱۷

افعال الہیٰ بھی مسیح کی طرف منسوب ہیں مثلاً  مسیح  خالق ہے یوھ ۱۔۳، ۱۰ قلسی ۱۔۱۶، ۱۷۔ مسیح پروردگار اور سنبھالنے والا ہے۔ عبر ا۔۳ قل ۱۔۱۷ متی ۳۸۔۱۸۔ مسیح عدالت کرنے والا ہے۔ ۲ ۔ قر ۵۔۱۰ متی ۲۵۔ ۳۱، ۳۲ یوح ۵، ۲۲۔ مسیح ہمیشہ کی زندگی کا دینے والا یوح ۱۰۔ ۲۸۔

مسیح معبود و برحق ہے مثلاًً متی ۲۸۔ ۱۹ یوح ۵۔ ۲۲، ۲۳، ۱۴ ۔ ۱ ، اعم ۷۔ ۵۹ ، ۶۰، اقر۱۔۲، ۲ قر ۱۳۔ ۱۴ فلپ ۲۔ ۹ ، ۱۰۔ ، عبرا۔ ۶ مکا ۱۔۵، ۶، ۵۔۱۱، ۱۲، ۷۔ ۱۰۔ ایک اور بزرگ  نے  عبر۱۔۳ کی یہ تفسیر کی۔ کہ روشنی آگ  مین بھی ہے اور آگ بھی ہے اور آگ روشنی کا سبب ہے اور روشنی آگ  سے جدا نہیں ہو سکتی ہے اور نہ آگ اپنی روشنی  سے جدا ہو سکتی ہے۔ کیونکہ جیسی آگ ہے ویسی ہی اُس کی روشنی ہے۔ پس اگر ہم اپنے حواس سے پہچان سکتےہیں کہ ایک چیز دوسری چیز سے بھی ہو اور اُس چیز  میں بھی ہے۔ تو کیونکر نہ مانیں۔ جیسا کہ رُسول فرماتا ہے کہ خدا کا لوگاس یعنے خدا کا اکلوتا بیٹا متولد بھی ہوا اور ہمیشہ سے اُس شخص  کے ساتھ رہتا ہے کہ جس سے وہ متولد ہوا۔ جیسا جلال ویسی اُس کی رونق۔ جلال ازلی ہے اس لئے وہ رونق بھی ازلی ہوگی۔ اور جیسی روشنی اورآگ کی ایک ہی ماہیت ہے ویسی ہی باپ اور بیٹے کی ایک ہی ماہیت  ہے اور پھر  اُسی آیت میں یہ لکھا ہے کہ وہ یعنے مسیح خدا کی ماہیت کا نقش ہے یہ  ۲ قر ۴۔۴ کے مطابق ہے کہ مسیح خدا کی صورت ہے اور قل ۱۔۱۵  وہ اندیکھے  خدا کی صورت  ہے اور یہ ہمارے  خداوند  کے اُس قول کے مطابق ہے کہ ’’ جس نے مجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا‘‘۔  ۔۔۔۔۔ جب ہم  مسیح کو خدا کا کلام کہتے ہیں تو ہم یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ازل سے باپ کے ساتھ تھا اور جب ہم اُسے خدا کا بیٹا کہتے ہیں تو ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک اقنوم ہے  یوح ۱۴، ۱۰۔

جس رسول نےفرمایا کہ خدا نور  ہے ( ا یوح ۱۔۵) اُسی نے یہ بھی فرمایا ہےکہ بیٹاحقیقی  نار ہے ( یوحنا ۱۔۹) یعنے جیسا نار آفتاب  کے ساتھ  جیسے گرمی آگ کے ساتھ جیسے ندی چشمہ کے ساتھ  جیسے خیال  عقل کے ساتھ ایک ہے ویسے  ہی مسیح  کی الوہیت خدا باپ کے ساتھ ایک ہے۔ ایک بزرگ  فرماتے ہیں کہ میں یہ کہتا ہوں کہ بیٹا اور ہے اور باپ اور ہے۔ تو میرا مطلب یہ نہیں کہ دو خدا ہیں۔ مگر یہ کہ جیسے نار سے نور چشمہ سے پانی ۔ سورج سے کرن  ویسا ہی خدا سے خدا  ہے۔ 

اسکندریہ کے کر لاّس صاحب فرماتے ہیں۔ کہ ہمیں ہر گز یہ نہ سمجھنا  چاہیے کہ لوگاس ( کلام یا عقل)  خادم  تھا اور دوسرے کی مرضی کے تابع ہو کر کام کرتا تھا۔ ورنہ وہ  خالق نہ ہوتا۔

انطاکیہ کے تھیؤفلس صاحب  فرماتے ہیں کہ بیٹا آپ سے کچھ نہیں کر سکتا۔ اس لئے کہ اُس  میں ایسی کو چیز  نہیں ہے جو باپ سے الگ اور باپ سے  مختلف  ہے۔ مگر سب باتوں میں اپنے باپ کی مانند ہے۔ اور جیسے اُس کی  وہی ہستی  اور ماہیت  ہے جو باپ کی ہے۔ ویسی اُس کی وہی قوت بھی ہے جو باپ کی بھی ہے اور اس واسطے وہ وہی کام کرتا ہے باپ بھی کرتا ہے۔ اور کوئی کام نہین کر سکتا کیونکہ اُس میں اور کوئی قوت باپ سے بڑہکر نہین ہے۔ کہ انکی ماہیت اور طاقت و کام  ایک ہی ہیں۔ 

قول حضرت عاشق اﷲ صاحب پشاوری۔ فرد
شکل انسان میں خدا تھا مجھے معلوم نہ تھا
دربدر مثل  گدا تھا مجھے معلوم نہ تھا

احقر۔۔۔۔ ملک روشن خان انجیلی  مبارزمن مقام۔۔۔۔۔۔ کلارک آباد

میرے ایک دوست کا ذِکر

Let Me Tell You About One Of My Friends

Published in Nur-i-Afshan October 24, 1889

میرے بہت سے عزیز دوست ہیں جنسے میں ازحد الفت و محّبت رکھتا ہوں۔ اُنمیں سے بعضوں کو میں بڑی  مُّدت سے جانتا ہوں اور  بعضوں کو تھوڑے دنوں سے  اُنکی لیاقتوں  کے سبب  سے میں  اُنکو پیار  کرتا ہوں پر تو  بھی  مجھ کو معلوم ہوا کہ میری مانند اُنمیں اکثر کوئی نہ کو ئی  عیب نہو۔ لیکن میرا ایک دوست ایسا ہے جو سب سے پیارا  و عزیز  ہے اور تم بھی اگر اُس سےواقف ہوتے اُمید  ہے کہ مجھ سے بھی  زیادہ  اُسکو  پیار کرتے  اور اُس پر بھروسا رکھتے۔ بیشمار مشکلات کو اُس نے میرے لئےحل کیا ہے اور جب کو ئی اور دوست پاس نہ تھا تب اُس نے میری حمایت  کی بڑی بڑی  سخت مصیبتوں میں جب کو ئی دوسرا مددگار نہ تھا تو اُسنے مجھے تسلی  بخشی۔ ہاں جب اور دوست مجھ سے پھر گئے اُسوقت بھی وہ وفادار رہا۔  نہ فقط  کلام سے پر کام سے بھی اُسنے اپنی دوستی  کو ثابت کیا چنانچہ  میری  بھلائی و بہبودی  کی خاطر اُسنے بڑی محنت کی بلکہ تکلیف اور ایذا بھی اُٹھائی ۔ گوُ میری طرف سے اُسکی  محّبت میں اکثر کمی و بیشی ہوتی پر وہ ہر حالت میںغیر مبتدل رہا۔ حالانکہ میں نے اپنی  رفتار  گوفتار  سے بارہا اُسکے نام کی  تحقیر  کی یا اُسکی محّبت کو خیال میں نہ رکھا تاہم اُسکی اُلفت میں کچھ فرق نہ آیا۔ جب میرا دل بیہودہ  { عضونامہ یہہ تھا کہ کوئی شخص  جسقدر روپیہ  دیتا اُسکے گزشتہ آئیندہ  گناہ معاف ہوتے تھے اور وہ عضو نامہ خریدار  کے نام پر کاغذ  میں لکھا  ہوا تھا۔}

باتوں پر فریفتہ  ہوا تو  اُسنے پھر مجھے لُبھایا  یا میرےساتھ اُس نے حد سے زیادہ تحمل و بردباری کی۔ جب میں آپ کو معاف نہ کر سکا تب بھی اُس نے میری  ناشکری کو معاف کیا۔ جب کبھی میں اپنی بیوقوفی پر سو چکے اپنے ہی  سے سخت  بیذار  ہوا  تب اپس نے مجھ پر ترس کھایا۔ شرم کے مارے جب میں  اپنی نادانی کا زرہ بھی عزر نہ کر سکا  وہ مہربانی سے اُس سے درگزر کر کے آگے موافق اپنی محبت مجھ پر طاہر کرنے سے باز نہ آیا۔ ہاں البتہ اُس نے میری خوشامد  تو کبھی نہیں کی مجھ میں جو جو عیب یا  قصور ہیں جن کا زکر تک کرنے سے میرے  اور دوست و جان پہچان  شرماتے ہیں وہ اُس نے مجھ پر  صاف ظاہر کئے مگر ایسی محّبت  کے ساتھ اور اِسقدر خفیتاً کہ میں اُس سے ناراض ہر گز  نہ ہو سکا۔ جب میرے دل پر غم  کا بھاری بوجھ پڑا تھا تب اُسنے آکے ہر ایک آنسو کو پونچھ لیا  اُسنے بار بار میرے دل کے رنج  کو ایسا رفع کر دیا کہ میں نے  گویا اُس سے نئی زندگی پائی۔ پس چونکہ میرے دوست نے یہہ سب کچھ بلکہ اُس سے بھی کہیں زیادہ مجھ پر احسان  کیا ہے تو خیال کرو کہ کچھ  تعجب  ہے کہ میں اُسکو  پیار کرتا اور تم کو بھی  اُس سے ملایا  چاہتا ہوں؟ زرہ اُس  پر غور کیجیو۔ وہ بہت  دولتمند ہے۔ اپنے عزیزوں کے لئے جو چاہا سو کر سکتا ہے۔  وہ بے طرفدار بھی  ہے جیسا امیروں  کو ویسا غریبوں  کو بھی  پیار کرتا  ہے بوڑھے اور بچے علم دار اور بے علم بڑے  اور چھوٹے  سب  کے سب  اُس  کا فیض  پانے کے قابل  ہیں  بلکہ  بلکہ اُسکی رحم دلی اِس  قدر ہے کہ جو محتاج  اور لاچار اُس سے مدد مانگتے ہیں  اُنکو وہ زیادہ  خوشی  سے قبول کر لیتا ہے۔خواہ تم نے آگے اُسکی کیسی ہی حقارت کی پر جب  عاجزی  سے اُسکی  طرف رجوع کر کے معافی مانگو گے تو وہ تمہارے  قصوروں کو  یال میں نہ لاویگا۔  علاوہ ازیں میرا یہہ دوست گو مجھ پر بہت  مہربان  ہوا پر آئیندہ کے واسطے بھی اُسنے  عجیب طرح کی نعمتیں دینے کا وعدہ کیا ہے اور چونکہ وہ ہمیشہ صادق القول  اور وفادار رہا اِس لئے یقین کامل کہ وہ اِ ن  وعدوں کو  پورا  بھی کریگا۔ شاید تم پوچھو  گے کہ یہہ دوست کون ہے۔ اپس کا نام عمانوؔایل ہے۔ خدا ئے  مجسم ۔ پھر وہ جیسیؔ یعنے نجات  دہندہ بھی کہلاتا ہے اور جیسا وہ میرا  دوست  ہے ویسا ہی تمہارا بھی  ہے۔ تم کو خستہ ھال  دیکھکے  اُسنے تم پر ترس کھایا اور جب تم ہنوز  اُس سے دشمنی  رکھتے تھے اُس نے  تمکو شریعت کی لعنت سے جس کو تم نے  عدول کیا  تھا چُھڑانے  کے لئے آپ ہی لعنت سے جس کو کہ تم نے عدول کیاتھا چُھڑانے  کے لئے آپ ہی لعنت  بنکے اپنی جان دی۔ ہاں اپس نے جو راستباز تھا ناراستوں کے لئے دُکھ اُٹھایا اور اُسکے بعد مرُدوں میں سے جی اُٹھا تاکہ اپنے دوستوں کو موت سے زندگی پانے کی  راہ دکھاوے ۔ تب  وہ آسمان پر بھی چڑ ھکے اُس ابدی خوشی و  نیکبختی  کےمکان میں جہان کہ  ہم کمبخت  گنہگار  ہر گز  پہنچنے کے لایق نہ تھے خدا باپ کے پاس ہمارے لئے  شفاعت کرتا ہے وہاں سے وہ اپنی روھ پاک کو ہمارے دلوں پر نازل  کر کے ہم کو اُس غیر محدود  وقار رلایزال  خدا سے ملا لیتا ہے۔ اُسکے وسیلہ سے ہم بیدھڑک  مالک کے حضور  آکے  میں آکے  اپنی درخواست  پیش کر کے مستحق ہوتے ہیں۔  اُسکے روبرو  اگر ہم  اپنے دل کے  رنج و غم  کا بیان کریں  تو یقیناً  وہ اپنی  ہمدردی  سے ہم کو اطمینان  بخشیگا۔ آسمانی دار کے تخت  پر بیٹھکر وہ ہم پر نظر کر کے بڑی ملائمیت سے پُکار کر کہتا ہے اے تم جو تھکے اور بڑے بوجھ سے دبے ہو سب میرے پاس آؤ  کہ میں تمہیں آرام دونگا جو  پیاسا ہے آوے اور جو چاہے آب حیات مفت لے۔ اُسکے پاس تھکے ہوؤں کے لئے آرام غمزدوں  کے لئے خوشی  خاکساروں  کے لئے معافی فکر مندوں  کے لئے راحت  ناپاکوں کے لئے پاکیزگی ہے اور یہہ سب نعمےیں میرا دوست مفت اُنکو  جو اُس سے مانگیں  دیگا۔ علاوہ اِسکے وہ  اپنے عزیزوں  کے لئے  آسمان پر جگہ تیار کرنے کو گیا ہے۔ اُسکے باپ کے گھر میں بہت سے مکان ہیں۔ جنکو ابدی جمال سے اُس نے آرستہ  کیا ہے۔ وہاں کی سڑکیں  خالص سونے کی شفاف  بلور کی مانند ہیں۔  اِ س میں خدا کا جلال بہت اور اُس  کا نور بڑے بیش قیمت جواہر کی مانند ہے۔ وہ سُورج  اور چاند  کا محتاج  نہین کہ وے اُسکو  روشن کریں۔ کیونکہ خدا کے جلال نے اُسے روشن کر رکھا ہے۔ وہاں نہ رات نہ کسی قسم کی تاریکی  یا ظلمت ہو گی اور نہ کو ئی چیز  جو ناپاک  یا نفرتی اور جھوٹھ ہے اُسمیں  کسی طرح  در آویگی ۔ جب یہہ مکاں  تیار ہوگا۔  تب ہمارا یہہ دوست بڑے جلال کے ساتھ  آسمان  سے اُتر  کر اس زمین پر پھر آویگا تاکہ اپنے عزیزوں  کو اپنے ساتھ  لیکے وہاں پر پُہنچاوے۔ تب وہ ہم کو اگر ہم مسیح میں ہو کے  سو گئے ہوں قبر میں سے اُٹھا کے ایک غیر فانی بدن  دیگا۔  ہاں وہ تاب و تجلیّ کے جامہ سے ہمیں ملّبس کر کے موت کے بند سے تا ابد چُھٹکارا بخشیگا اور  اگر ہماری زندگی اسوقت ہنوز قائم ہو جب وہ آویگا تو بھی ہمارے اِس خاکی  جسم کو  ایک دم  ایک پل  میں بدل  کے نوری بناویگا تاکہ  ہم اِس خوش روح میراث میں جسکو  کہ اُس نے اب  ہمارے لئے تیار کیا ہے داخل  ہوں۔ اے عزیزو میں بڑی آرزو سے چاہتا ہوں کہ تم بھی اِن نعمتوں  کے حّصہ دار بنو۔ اِس عالیشان مکان  کو کسی قدر تنگ نہ سمجھو کیونکہ وہاں سب کے لئے  گنجائیش ہے۔ آب حیات کے چشمہ سے پینے اور زندگی کے درخت کے سایہ میں ابد آلاباد آرام کرنے کی سبھوں کو اجازت ہے خدا کے  سب نبی اور رسول  بلکہ اُسکے جسے پاک بندے دُنیا  کے شروع سے گزرےہیں تم کو وہاں ملینگے۔ اُنکی صحبت میں رہو گے اور اُنکے ساتھ خوشی مناؤ گے۔  جو وہاں پُہنچےخدا کے تخت کے آگے ہو نگے اور اُسکی ہیکل میں رات دن اُسکی بندگی کرینگے اور وہ جو تخت  پر بیٹھا ہے اُنکے درمیان  سکونت کریگا۔ وہ پھر بھوکے نہ ہونگے اور نہ پیاسے اور وے نہ دھوپ اور نہ کوئی گرمی اُٹھائینگے کیونکہ عیسیٰ اُنکی گلّہ بانی  کریگا اور اُنہیں  پانیوں کے زندہ سوتوں  پاس پُہنچائیگا اور  خدا اُنکی  آنکھوں  سے ہر ایک  آنسو پونچھیگا  ۔ اور پھر موت نہ ہوگی اور نہ غم  اور نہ  نالہ  کیونکہ اگلی چیزیں  گزر  گئیں ( مکاشفات  ۷ باب  ۱۵ ۔ ۱۷ ۔ آیت اور ۲۱۔ ۴) ۔ کیا تم عیسیٰ کو اپنا  دوست  نہ سمجھو گے کیا تم اپنے تئیں  اُسکے ہاتھ نہ سونپوگے کیا تم اپنے  فکر کا سارا بوجھ اُس پر نہ ڈالو گے  اُسکی محبّت کی خاطر اگر ضرورت ہو کیا تم اپنے اور سب دوستوں کو نہ چھوڑو گے ۔کیا تم اُسی پر اپنا کل بھروسہ نہ رکھو گے  جانکندنی  میں دوسرے دوست تمہاری مدد کرنے سے سب لاچار ہونگے اُنکو تمہیں اکیلا چھوڑنا پڑیگا  لیکن یہ دوست  موت کے دریا میں بھی تمہارے ساتھ  رہیگا اور اُسکے پار تک تمہیں پُہنچائیگا۔ بلکہ عدالت تک دن جب خدا کے قہر کی آگ دُنیا پر بھڑکیگی کسوقت بھی صرف وہ  ہی تمکو اپنی  پناہ میں لیکرسارے خوف سے بچائیگا۔ پس عزیزو  کیا تم میرے  اِس  دوست کو پیار نہ کروگے کیا تم اُسکو اپنا دل نہ دو گے یقین جانو کہ وہ نہایت  مہربان  و رحیم ہے۔ اسکے دلمیں کینہیا بغض زرہ بھی نہین ہر چند تم نے آج  تک اُسکی الفت کو ناچیز تو جانا پر اب بھی اگر شکستہ دل ہو کے اُسکی طرف رجوع کرو  تو وہ کمال  خوشی سے تم کو قبول کریگا۔ جن شخصوں نے اُسکو صلیب  پر کھینچا اُنکے لئے اُس نے دُعا کی کہ اے باپ تو اُنکا  گناہ معاف کر۔ جب اپنے شاگردون  کو نجات کی بشارت دینے کو بھیجا تو اُسنے کہا کہ یروشلم  سے جہاں کہ وہ رد کیا گیا اور صلیب پر  بڑی ایذا کے ساتھ مارا گیا تھا۔ شروع کر کے ساری قوموں میں توبہ اور گناہوں کی معافی کی منادی اُسکے نام سے کیجائے ہاں اپنے بیحد پیار سے اُس نے اپنے  دشمنوں کے بدلے دُکھ  اُٹھایا  اور اُنکے گناہوں  کا بوجھ اُٹھا کر صلیب پر چڑھا۔ اب بڑی ملائمت  سے اُنکو  بُلا کر کہتا ہے کہ دیکھ میں دروازے پر کھرا ہوں اور کھٹکھتا ہوں  اگر کوئی میری آواز سُنے  اور دروازہ  کھولے میں اُسکے پاس اندر آؤنگا۔ (مکاشفات ۳۔ ۲۰) اے پڑھنے والو کیا تم اپنے دلکے دروازے کھولکے اب اُسکو اندر آنے  نہ دوگے۔  درحقیقت دوئم پر بھی اپنی  محبت  ظاہر کیا چاہتے ہے پر ایک بات کو بخوبی یاد رکھو کہ اگر تمہارا یہ منشا ہو کہ اُسکے دوستوں میں ہم بھی شمار کئے جائیں تو ضرور ہے کہ تم اُسکی فرمانبرداری کرو۔ چنانچہ اُس کا قول  ہے کہ کوئی شخص  اُس سے زیادہ محّبت نہیں کرتا کہ  اپنی جان اپنے دوستوں کے لئے وہ جوکچھ  کہ میں تمہیں فرمایا اگر تم کرو  تو میرے دوست ہو۔ بعد اِسکے میں تمہیں خادم نہ کہونگا کیونکہ خادم  نہیں جانتا کہ اُس کا خداوند  کیا کرتا ہے بلکہ میں نے تمہیں دوست کہا ہے کہ  سب باتیں جو میں نے اپنے باپ  سے سُنی  ہیں  میں تمہیں بتلائیں۔( یوحناّ ۱۵۔ ۱۳۔ ۱۵)

راقم این 

Pages