عیسی

Jesus
Pink Aster Flower

مسیح کی تسبیح

علامہ کدرناتھ

Glory of Christ

Published in Nur-i-Afshan August 06, 1897
By Rev. Kidarnath

ناظرین! خدا کی پاک روح سے مدد پا کر ہم اس مضمون پر غور کرنا چاہتے ہیں جسکا مسیح کی تسبیح میں سلسلہ پیوستہ ہے۔ یہ وہ تسبیح نہیں ہے جو رومن کتیھلک عیسائیوں کے ہاتھوں میں آپنے دیکھی و گی اور نہ یہ وہ تسبیح ہے جو محمدیوں کے گلوں میں آویزاں رہتی ہے اور نہ ہندؤں کی مالا ہے بلکہ اِس سے خداوند یسوع مسیح کے وہ کُل حالات مرُاد کئے گئے ہیں جو وقت کے سلسلہ میں تواریخ کی صورت رکھتے ہیں شاہد اپ سوال کریں کہ تو پھرا ِس کو مسیح کی تسبیح کیوں کہا؟ اِس لئے کہ چاروں انجیلوں میں جو کچھ خداوند مسیح کی پیدایش سے شروع کر کے ساری زندگی میں موت سے جی اُٹھکر عروج تک واقعہ ہوا خواہ اُس کے فعلوں سے علاقہ رکھتا ہو یا قولوں سے سب قوت اعجازی پنارشتہ پوشیدہ رکھتی ہے یہاں تک کہ اگر کسی ماجرے میں اِس دھاگے کو توڑ دیں تو تسبیح کے دانوں کی صورت کُل تواریخی دفتر پریشان ہو کر گڑ بڑ ہو جائے یہاں معجزانہ صورت گویا دُوراہی اور باقی کُل حالات دانہ ہیں۔ جو اُس کو ڈور سے پرو کے گئے ہیں پس اِس الہامی سر گزشت عیسوی کو مسیح کی تسبیح کہنا نہا یت واجب اور انسب ہے۔

اِس سرگزشت کے مصنف چار شخص ہیں یعنے متیؔ۔ مرؔ قس۔ لوقاؔ ۔ یوحناؔ۔ ان میں سے پہلا اور پچھلا دونوں خدا کے رسول ہیں اور درمیانی دو مرقس و لوقا یقیناً سترَوں میں کہ ہیں اور نیز پطر س اور پولوس کے ہمسفر ۔خداوند یسوع مسیح مسیحت کا بانی بلکہ اِس عمارت کا بنیادی پتھر ہے۔ وہ اور بانیان مزاہب کی مانند مزہب اور بانی مزہب دو جُدا شیٔ نہیں بلکہ ایک ہی ہے۔ جیسا کہ مشہور بات ہے کہ مذہب کے معنے ہیں راہ یعنے وہ راہ جو بہشت کو لیجاتی ہے اُنکو جو اُس پر ٹھیک ٹھیک قدم مارتے ہیں۔ خداوند مسیح نے صاف لفظوں میں فرمایا راہ ، حق اور زندگی میں ہوں۔ پس ہمارا دعویٰ کہ مسیح اور مسیحت ایک ہی بات ہے اِس دلیل سے ثابت ہو گیا۔ اور یہ خاصہ سبب ہوا کہ خدا وند نے کوئی ہدایت نامہ تحریر ی اپنے دست و قلم سے تیار نہیں کیا جیساکہ محمد صاحب نے قران اور رشی نُیوں نے ویدو پوران کیونکہ یہ آخرالزکر اپنے بنائے ہوئے مذہبوں سے سدہاکو س دور رہے ہیں مگر اکیلا یسوع ناصری اپنا مذہب اپ ہی تو پھر کوئی پوچھے کہ یہ مسیح کی تسبیح کیوں پروئی گئی؟ ہم جواب میں عرض کرینگے کہ ضرورت وقت نے ایسا کیا کیونکہ جب مسیح یسوع کے ماننے والے لا تعداد بڑھ گئے اور متفرق مقاموں میں کلیسیائیں قایم ہو گئیں اور اُن میں متفرق اشخاص تعلیم دینے لگیے تو خداوند کی فرمائی ہوئی ہدایتوں اور سولی روایتوں میں گڑ بڑ پڑنے کا اندیشہ پیدا ہوا اِس لئے رسولوں نے حفظ ماتقدم کے لحاظ سے چاہا کہ یہ دانہ ہائے مرداریدا یک رشتہ تحریر میں منسلک کر دئے جائیں اور ایسانہ کرنے میں بڑی قباحت یہ وارد ہوتی کہ ہمارے منجی کی زندگی آپس کے اختلافات سے کایا پلٹ ہو جاتی اور اور مذہبوں کی مانند چند ہی۔ وزمیں اصلی صورت سے بدلکر ہر زمانہ میں نیا رنگ لاتی اور یوں وہ اصلی اور حقیقی راہ جو سیدھی بہشت کوپہنچاتی ہے اختلافات کےجنگل میں گم ہو جاتی اور ہم جو اِس صدی میں ہیں ٹھیک جاتے۔ 

اگرچہ رشیوں اورمینوں اور محمد صاحب نے بڑی چالاکی کے ساتھ اپنی ہدایتوں اور روایتوں کو خود ہی اپنی حین حیات قلم بندکر دیا تو بھی چونکہ اُنکو اُس سے یکسانیت کا علاقہ نہ تھا اُنکے پیرو‍ؤں نے ہر زمانہ میں جیسا وقت کا رُخ دیکھا اُس میں رنگ آمیز ی کی مگر مسیحی سر گزشت نے یہ روز بد کبھی نہ دیکھا اور نہ دیکھیگی اس لئے کہ خداوند مسیح اجکل اور ابد تک یکساں ہے اور ہم ثابت کر چکے ہیں کہ مسیح اور اُس کی مسیحیت ایک ہی بات ہے تو بھی یہ صفت اُس کی مسیحیت پر بھی صادق آنا ضرور بات ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ زمانہ نے گرگٹ کی طرھ ہزار بار پلٹا کھایا ہو گا علوم کی ترقی نے انسانی عقلوں کو کچھ کا کچھ کر دیا جس طرح دنیا کی عمر بڑھئی جاتی ہے اُسی طرح اُس کے سارے خدا اور اُن کی قوتیں بھی نشوو نما پائی جاتی ہیں۔ اور اسی تغیر و تبدل نے تمام مذہبوں کو بھی بدل ڈالا وہ ابتدا میں کچھ اور تھے اور حال میں کچھ اور ہیں بقول سر سید بہادر جو کسی نے اپنی کتاب میں اُنہوں نے تحریر فرمایا کہ اصلی مذہب اِسلام روایتوں اور حکایتوں میں یہانتک کُھل مل گیا ہے کہ اب کیسی ہی محنت اور جنفشانی کیوں نہ کیجائے ٹھیٹھ اُسلام کا ہاتھ آنا محال ہے۔ کیا یہی حال ہندو مذہب کا نہیں ہے۔ آج ہندوستان یا فرنگستانی میں کون ہے جو برہمنی مذہب کے جھاڑ جھنکا ر کو ڈکر کے حقیقی اور اصلی بات کو دریافت کرے اگرچہ کڑوڑہا دیا نند رستی آریہ ورت کی خاک سے پیدا ہوں بجز اس کے اور کچھ نہیں کرینگے کہ جن باتوں کو سڑیل اور گندہ بتاتا ہے اور اُن کی کتب دینیہ میں مرقوم ہیں اُن پر تاویلات رکیکہ کا پردہ ڈالکر ہندوؤں کو دھوکا دیا جائے۔

خداوند یسوع مسیح کی سرگزشت اپنے اصلی مرکز پر قایم ہے خواہ سورج زمین کا مرکز ہو یا زمین نظام شمسی کا مرکز ٹھہر ے مسیح نے فرمایا کہ زمین و آسمان ٹل جاینگے پر میری باتیں ہر گز نہ ٹلینگی اِس کا سبب یہی ہے کہ اس تسبیح میں اعجازی رشتہ موجود ہے اور یہ وہ طاقت ہے جو آلہی ہے اِسے کوئی توڑ نہیں سکتا تو پھر مسیحی سرگزشت کیونکر رد و بدل ہو سکتی ہے۔

آپ چاروں انجیلوں میں سے کسی انجیل کو پڑھئے اور اُس کے ساتھ ہی خطوط کو مطالعہ میں لایئے دونوں کے طرز تحریر میں آپ کو ایک فرق ملیگا یعنے آپ فوراً دریافت کر لینگے کہ انجیل نویس ہر ایک واقعہ کو بغیر اس اِرادہ کے کہ اُس کے ثبوت کے لئے دلائیل کا زخیرہ مہیا کریں آب رواں کی مانند لکھتے چلے جاتے ہیں وہ کچھ پرواہ نہیںکرتے کہ پڑھنے والا اِس واقعہ کو اپنی عقل میں نہ آنیکے سبب سے جھٹلا ئیگا ایسا معلوم ہوتا ہےکہ وہ ایک دیانت دار مورخ کی مانند اپنے شم دیدہ معاملات کو رشتہ تحریر میں موتیوں کی صورت پروتے چلے جاتے مگر خطوط کے راقم ایسا نہیں کرتے بلکہ ہر ایک دعویٰ پر دلیلیں ساتھ ساتھ لکھتے ہیں وہ اُن ساری تعلیمات کو جو اُن کی قلم سے نکلتی ہیں ارادتاً دلایل سے مضبوط کرتے جاتے ہین اور یہ فرق اتفاقی نہیں ہے بلکہ جان بوجھکر ایسا کیا گیا ہے۔

اِنؔ چاروں انجیلوں میں ایک اور فرق ہے چنانچہ جو مقاصد اور اُس کے لکھے جانیکی غرض میں آشکار ا ہے چنانچہ۔

متی اپنی انجیل یہودیوں کے واسطے اور لوقا غیر اقوام کے لئے اور مرقؔس ؔ اُن کے واسطے جن کے درمیان اُس کے ہمراہی۔ پطرس رسول نے وعظ کے طور پر مسیحی سر گزشت کو پیش کیا اور یوحناّ منکران الوہیت مسیح کی خاطر اپنے اپنے صحیفوں کی تحریر کرتے ہیں۔ سوائے اِس کے اور تفاوت بھی ہیں جنکا بیان اِس مضمون سے زیادہ تعلّق نہیں رکھتا لہذا قلم انداز کر کے اصلی مطلب کی طرف عِنان قلم کو منعطف کرنا مناسب معلوم ہوا۔

واضح رہے کہ انجیل نویس خداوند مسیح کی سر گزشت کے زمانوں کو اپنے ایجادی دھا گے میں نہیں پروتے ہیں بلکہ اُس میں جو عہد عتیق کے مصنّفوں نے تیار کیا چنانچہ متی رسول اپنی انجیل میں یہودیوں کی خاطر لکھے جانیکی رعایت سے اوّل نسب نامہ دکھاتا ہے اور ا(ُس سے وہ بتایا چاہتا ہے کہ یہ مسیح وہی ہے جو ابن اِبراہام اور ابن داؤد ہے بعد اُس کے وہ کہتا ہے کہ اب یسوع کی پیدائش یوں ہوئی کہ جب اُس کی ماں مریم وغیرہ الخ۔ مگر مجملاً اور اُس کے مولود مقدّس کے دانہ کو اُسی رشتہ میں پر و دیتا ہے جو ۷۵۰ بر پیشتر سے یسعیاہ پیغمبر نے بتا رکھا تھا کہ دیکھو ایک کنواری حاملہ ہو گی اور وہ بیٹا جنیگی۔ پر ظاہر ہے کہ ایسی انوکھی ولادت دنیا میں نہیں ہو سکتی مگر معجزہ کے طور پر فرض کیجئے کہ اگر ہم یا اور کوئی اس اعجازی رشتہ کو توڑدے تو پھر مسیح کی پیدایش ہی کالعدم ہوئی جاتی ہے اور یہ اَنہونی بات ہے کہ دنیا میں یسوع مسیح نہ تھا ہاں شاید ہندوستان میں اکبر نہ تھا یا مقدونیہ میں سکندر اعظم نہ تھا یا شہنشاہ نپولئین بوناپارٹ فرانس میں نہ تھا ۔ مگر یسوع المسیح ضرور تھا کیونکہ نہ صرف ایک ہی مورخ بیان کرتا ہے بلکہ چار چار متواتر گواہی دیتے ہیں اور جو بات کہ تو ا تر کو پہنچ جائے اُسکا انکار بعینہ ایسا ہے جیسے کہ دوپہر کو سورج نہ ہویا سمندر خشکی کا نام ہے الغرض اِس رشتہ اعجازی کو کسی مُنکر کا ہاتھ توڑ نہیں سکتا۔

لوقا اپنی انجیل میں اِس احوال کو مفصلاً تحریر کرتا ہے اور متی سے بڑھکر نسب نامہ کو ادم تک ملا کر دکھاتا ہے کہ وہی مسیح موعودہ جو یہود یوں کے واسطے نجات دہندہ ہے غیر قوموں کے لئے بھی نور ہے اور لکھتا ہے کہ وہاں یعنی اُس مُلک میں گڈریئے تھے جو میدان میں رہتے اور رات کو باری اپنے جُھنڈ کی چوکی کرتے تھے اور دیکھو کہ خداوند کا ایک فرشتہ اُنپر ظاہر ہوا اور خداوند کا نور اُن کے چوگرد چمکا وغیرہ الخ۔ یہ نورانی دانی بھی شعاع آفتاب کیسی ڈورے میں پروہا گیا ہے جس کے حق میں یسعیاہ نبی یوں فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو تاریکی میں چلتے تھے بڑی روشنی دیکھتے اور اُن پر جو موت کے سائے کے ملک میں رہتے تھے نور چمکتا ۔بالفرض اِس معجزانہ واقعہ کو لوقا کی انجیل سے نکالیں تو پھر گڈریوں کا میدان میں سونا اور اُن کے احوال کا مذکور محض اندھیر ہے کہ نہیںجب تک کہ نور کا چمکنا تحریر نہ ہو لوقا ساطبیب ایسی نادانی کا مرتکب نہیں ہو سکتا پھر بچّونکا قتل جو بیت اللحم اور اُس کی ساری سرحدوں میں ہیرودیس بادشاہ کے حکم سے واقعہ ہوا اُسی کے ضمن میں یہ مورخ ایک معجزانہ بات لکھتا+ ہے کہ دیکھو خداوند کے ایک فرشتہ نے یوسف کو خواب میں دکھائی دیکے کہا کہ اُٹھ اُس لڑکی اور اُسکی ماں کو ساتھ لیکر مصر کے مُلک کو بھاگ جا اور وہاں رہ جب تک کہ میں تجھے خبرندوں کیونکہ ہیرودیس اِس لڑکے کو ڈھونڈیگا کہ مار ڈالے۔

بالفرض اگر یہ معجزانہ حکایت اِس مضمون سے نکال دالی جائے تو ہم کو باور نہیں آتا کہ یوسف نجاّر اِس ظالم بادشاہ اِس کی بدنیتی سے واقف ہو کر مریم کے لڑکے کو قتل سے بچا لیتا کیا وہ خدا تھا نعوز بااللہ ۔ پھر یہ دانہ کسی اور دھاگے میں نہیں بلکہ اُسی میں پرویا گیا جسکا سرا ہو مسیح پیغمبر کے ۱۱ ۔۱ میں ہے۔ جب اسرائیل لڑکا تھا میں نے اُس کو عزیز رکھا اور اپنے بیٹے کو مصر سے بلایا۔

ناظرین اوپر کے چند مذکور اندک ازبسیارے ہیں ۔ یا مُشتے نمونہ از خروارے۔ ورنہ ہم اِس مضمون کو بحر طویل کی مانند یہانتک لمبا کر سکتے ہیں کہ آپ پڑھتے پرھتے تھک جائیں۔ اور جناب ایڈیٹر اخبار ہذا بھی ضرور اُکتا اُٹھیں۔ لہذا اس مثل پر عمل کر کے ختم کر دیا کہ

عقل مند کو اشارہ کافی ہے

جو اصحاب اعلیٰ دماغ رکھتے ہیں اور جنکی طبیعتیں رسا ہیں ہمارے خداوند کی زندگی کے کُل حالات کا مؤازنہ اِس طرز پر کر کے دیکھ سکتے ہیں اور اُسن کو معلوم ہو سکتا ہے کہ ابتدا سے انتہا تک قدرت اعجازی جلوہ گرہے اور مبارک منجی کا کل کام اور کلام اس رشتہ مین پرویا ہوا ہے ۔

آخر میں ایک اور مروارید حیات پیش کرنیکے لائق ہے جسے نہ صرف ایک یا دو ہی مور خان جو ہر شنماس نے رشتہ اعجاز رقمی میں پرویا ہے بلکہ چاروں جو ہریان الہام نے اِس مالائے حیات ابدی کو زیب گلوئےجہانیاں کیا ہے یعنے خداوند یسوع مسیح کی موت کا بیان نہایت سادگی اور صفائی اور طوالت کے ساتھ چاروں انجیلوں میں مندرج ہے اور جس طرح اُس کی پیدائیش معجزانہ اور عجیب ہے اُسی طرح اُس کی موت بھی اعجازانہ اور نادر اور غریب واقع ہوئی ہے ادم سے لیکر اب تک حتی کہ قیامت تک بڑے بڑے نامور بادشاہ اور ہر ملک کے سے برآمد وہ اشخاص خواہ جنہوں نے مذہب بنایا یا کسی بنے ہوئے مذہب کی تائید اور تقلید میں زندگی بسر کی سب کے سب معمولی طور پر پیدا ہو کر معمولی طور سے مر گئے اور مرینگے ۔ یہاں تک کہ عرب کا پیغمبر اور ہندوستان کا رام چند جو نہایت مشہور و معروف ہوئے اور جن کی ابتدائی حالت اور زندگی کے کارنامہ اُن کے مورخوں نے بہت ہی نمک مرچ لگا جلدوں کی جلدوں میںہمارے ملاحظہ کے واسطے لکھ مارے مگر آخری موت کی بابت صرف ایک ہی فقرہ میں اپنے طویل مضمون کو ختم کر گئے۔ مگر اِن کے بر خلاف جلیل کے مچھوےمحصول لینے والے طبابت کرنے والے مسیح کے کم علم اور بے مایہ شاگردوں نے مسیح کی زندگی لکھنے میں ان اُس کی موت کا ایسا مفصل بیان کیا ہے کہ بادی النظر میں انجیل کے پڑھنیوالے شاید اُسے فضول سمجھیں ۔ خاص کر بدّ و مزاج ناظر ضرور گھبرا کر پھینک دے۔ فی الحقیقت اصلی حقیقت جو انجیلوں میں مندرج ہے تسبیح کی رعایت سے مسیح کی موت کا واقعہ ایسا ہی جیسےمسلمانوں کی تسبیح میں امام یا ہندوں کی سمرنی میں سُمیر جسے عابد خواہ دانوں کے شمار میں نہ سمجھے مگر بغیر اُس کے تسبیح یا سمرنی محض ناکارہ ہے۔ لہذا ضرور تھا کہ جس کی پیدایش عجیب طور سے ہو یہاں تککہ بعض وہمی انکار تک کر بیٹھیں اُسی طرح لازمی اور واجب تھا کہ اُس کی موت بھی ساری مخلوقات کی موت سے الگ اور نرالی اور غریب واقع ہو اگرچہ عربی پیغمبر سا عقل مند انکار کیوں نکرے لیکن چونکہ ثابت کر چکےہیں کہ یہ رشتہ وہی ہے جو پورانے عہد نامہ کے مصنفوں نے تیار کیا تھا اور اُسی رشتہ میں راقمان اِنجیل نے اس دانہ کو بھی پرویا ہے تو ضرورتاً اس کا تورنا بھی یسوع ناصری کے سارے حالات زندگی کو بکھیر دینا ہے مگر ہم ایسا نہیں کر سکتے پس اُس پر ایمان لاکے ہمیشہ کی زندگی گویا ہمارا روزانہ وظیفہ ہے جو خدا اُنکو جو اُس پر ایمان لاتے ہیں روزانہ خوراک کی مانند عطا کرتا ہے+

راقم کیدار نارتھ، گنج ضلع فرخ آباد

Göreme

 

قول فصیل محمد ومسیح

Jesus & Muhammad

Published in Nur-i-Afshan June 04, 1897


محمد صاحب سے جب اہل مکہ نے کہا کہ اگر آپ ایک معجزہ بھی دکھلادیں تو ہم آپ پر ایمان لے کر آئیں گے ۔ تو محمد صاحب نے پہلے یہ جواب دیاکہ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لَا يَنفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا یعنی اگر کوئی معجزہ کسی دن آئے تو ایمان مفید نہ ہوگا(سورہ انعام آیت 158)۔ پھر جب لوگوں نے اصرار کرنا شروع کردیا تو بیچارے نے اپنے تمام حیلہ وحوالہ سے عاجزآکر صاف سچ بتادیا کہ قُلْ لَوْ أَنَّ عِنْدِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ یعنی معجزہ تو تم مانگتے ہو وہ میرے پاس نہیں (سورہ انعام آیت 58)۔پس معلوم ہوا کہ دعویٰ بلادلیل تھا اس لئے محمد کو رسول اللہ بھی نہیں مانا جاسکتا۔

اب دیکھو کہ جب ہمارے آقا ومولا سیدنا مسیح سے یہودیوں نے کہا کہ " آپ کب تک ہمارے دلوں کو شک میں رکھیں گے اگر آپ مسیح ہیں تو صاف بتادے"۔ تب مسیح نے انہیں جواب دیا کہ " پس یہُودِیوں نے اُس کے گِرد جمع ہو کر اُس سے کہا تُو کب تک ہمارے دِل کو ڈانوانڈول رکھّے گا؟ اگر تُو مسِیح ہے تو ہم سے صاف کہہ دے۔یِسُو ع نے اُنہیں جواب دِیا کہ مَیں نے تو تُم سے کہہ دِیا مگر تُم یقِین نہیں کرتے ۔ جو کام مَیں اپنے باپ کے نام سے کرتا ہُوں وُہی میرے گواہ ہیں۔ لیکن تُم اِس لِئے یقِین نہیں کرتے کہ میری بھیڑوں میں سے نہیں ہو۔میری بھیڑیں میری آواز سُنتی ہیں اور مَیں اُنہیں جانتا ہُوں اور وہ میرے پِیچھے پِیچھے چلتی ہیں۔ اور میں اُنہیں ہمیشہ کی زِندگی بخشتا ہُوں اور وہ ابد تک کبھی ہلاک نہ ہوں گی اور کوئی اُنہیں میرے ہاتھ سے چِھین نہ لے گا۔ میرا باپ جِس نے مُجھے وہ دی ہیں سب سے بڑا ہے اور کوئی اُنہیں باپ کے ہاتھ سے نہیں چِھین سکتا۔ مَیں اور باپ ایک ہیں۔یہُودِیوں نے اُسے سنگسار کرنے کے لِئے پِھر پتّھر اُٹھائے۔ 32یِسُو ع نے اُنہیں جواب دِیا کہ مَیں نے تُم کو باپ کی طرف سے بُہتیرے اچھّے کام دِکھائے ہیں ۔ اُن میں سے کِس کام کے سبب سے مُجھے سنگسار کرتے ہو؟۔یہُودِیوں نے اُسے جواب دِیا کہ اچھّے کام کے سبب سے نہیں بلکہ کُفر کے سبب سے تُجھے سنگسار کرتے ہیں اور اِس لِئے کہ تُو آدمی ہو کر اپنے آپ کو خُدا بناتا ہے۔یِسُو ع نے اُنہیں جواب دِیا کیا تُمہاری شرِیعت میں یہ نہیں لِکھا ہے کہ مَیں نے کہا تُم خُدا ہو؟۔ جب کہ اُس نے اُنہیں خُدا کہا جِن کے پاس خُدا کا کلام آیا (اور کِتابِ مُقدّ س کا باطِل ہونا مُمکِن نہیں)۔ آیا تُم اُس شخص سے جِسے باپ نے مُقدّس کر کے دُنیا میں بھیجا کہتے ہو کہ تُو کُفر بکتا ہے اِس لِئے کہ مَیں نے کہا مَیں خُدا کا بیٹا ہُوں؟۔ اگر مَیں اپنے باپ کے کام نہیں کرتا تو میرا یقِین نہ کرو۔ لیکن اگر مَیں کرتا ہُوں تو گو میرا یقِین نہ کرو مگر اُن کاموں کا تو یقِین کرو تاکہ تُم جانو اور سمجھو کہ باپ مُجھ میں ہے اور مَیں باپ میں۔

اس سے ثابت ہے کہ جناب مسیح سچے مدعی ہیں کہ یہودیوں کے سامنے اپنے معجزے اپنی صداقت میں  پیش کرتے ہیں اور وہ لوگ مان کرکہتے ہیں کہ " ہم تجھے اچھے کام کے لئے نہیں بلکہ  اس لئے پتھراؤ کرتے ہیں کہ تو کفر کہتاہے کہ انسان ہوکر اپنے کو خدا کا بیٹا بناتاہے"( انجیل مقدس راوی حضرت یوحنا ۱۰ باب ۳۳ آیت)۔

Jesus Carrying the Cross

 

Dr. Imad ul-din Lahiz

مسیح کا عالم ارواح میں جانا

عماد الدین لاہز


Rev. Mawlawi Dr.Imad ud-din Lahiz

1830−1900

Jesus Descend into Sheol


Published in Nur-i-Afshan January 15, 1897


یہ بات سب اہل بیبل با اتفاق مانتے ہیں اور واجب ہے کہ سب قبول کریں کہ کوئی ایسی جگہ  ہے جہاں سب آدمیوں  کی روحیں جاتی ہیں اور قیامت تک وہاںمحفوظ  ہیں۔ مسیحی کلیسیا کا شروع سے یہ خیال چلا آتا ہے کہ ہمارے خداوند مسیح کی روح بھی بعد موت اُس جہان میں گئی تھی جس کا   نام عالم  ارواح یا عالم غیب ہے مگر عرصہ چار سو برس سے بعض مسیحی لوگ یوں لکھنے لگے کہ مسیح کی روح وہاں نہیں گئی۔    لیکن ہم  جو چرچ انگلینڈ کے ممبر ہیں ہمارا اعتقاد(بااتفاق  کلیسیاء قدیم اور بعض آیات کلام  آیات  اور کے مطابق یوں ہے کہ ضرور مسیح کی روح وہاں گئی تھی۔ اور کلیسیا   کے پہلے خادم الدین پطرس  رسول کا بھی یہی اعتقاد تھا جو ہمارا اعتقاد ہے کیونکہ اُس نے پنتیکوست کےدن اپنے وعظ میں صاف صاف اسبات کا اظہار کر دیا تھا ( اعمال ۲۔ ۳۱) کہ اُس کی جان عالم ارواح میں چھوڑی نہ گئی نہ اُس کا بدن سڑنے پایا یعنے اُس کی جان جو عالم ارواح میں گئی تھی وہاں ہمیشہ رہنے کے لئے  چھوڑی نہ گئی بلکہ واپس بدن میں آگئی تھی۔ جس لفظ کا ترجمہ  زبور ۱۶۔ ۱۰ میں عالم ارواح یا عالم  ہوتا ہے وہ لفظ شئول ہے اور یونانی  ہے اور یونانی میں ہادیس ترجمہ ہوتا  ہے اور لفظ  شئوُل  جیسے زبور ۱۶۔ ۱۰ میں بھی عالم ارواح آیا ہے ویسے ہی ( ایوب ۲۶: ۶ ، یسعیاہ ۵: ۱۴، ۱۴: ۹)  میں بھی موجود ہے اور ہر کہیں اُس کا ترجمہ پاتال یا اسفل یا ہادیہ بمغے دوزخ کا غار ہوتا ہے اور زکر آتا ہے کہ بعد موت روحیں وہاں جاتی ہیں ظاہر ہے کہ قبروں  میں  صرف مرُدہ بدن جاتے ہیں نہ روحیں اور پطرس نے صاف کہدیا کہ مسیح کی جان شئوُل  میں چھوڑی نہ گئی یعنے وہاں ہو کے واپس آئی۔ اور پولوس رسول نے ( افسی ۴: ۹)  میں کہنا کہ مسیح زمین کے نیچے اُترا  تھا  یعنے اسفل میں جو پاتال ہے لفظ نیچے سے مراد شئُول ہے نہ قبر کیونکہ  قبر میں بدن  دفن ہوتا ہے نہ روح جو حال سب آدمیوں کا موت میں ہوتا ہے وہی مسیح کا بھی ہوا فرق اتنا ہے کہ وہ پاتال کے قبضہ میں نہ رہا۔ تیسرے دن نکل  ( ف) کیا سبب ہے کہ بعض بھائیوں  نے اِس  بچھلے زمانہ میں مسیح کے وہاں جانے کا انکار کرنا شروع کیا ہے جو محض  خلاف  عقل اور نقل کے ہے شاید اِس لئے کہ اِس خیا ل سے رومن کیتھولک نے پر گڑی کا خیال نکالا ہے اِس لئے کہ مسیح کو گویا و عزت  دینا چاہتا ہیں کہ وہ پاتال  میں نہیں گیا۔  عزت تو مسیح کی اِس میں زیادہ ہے کہ وہ گیا لیکن اِسبات پر گور  واجب ہے کہ کیا کوئی آیت کلام میں ایسی ہے جس پر اُن کے اِنکار کی بنا قایم ہوتی ہے یا نہیں۔ ہاں ایک مقام ہے کہ مسیح نے چور سے کہا آج تو میرے ساتھ بہشت میں  ہو گا ۔ پس مسیح بعدموت بہشت میں گہا ہو گا نہ عالم ارواح میں۔  لیکن چور والی  آیت سے یہ  خیال نہیں نکلتا اُس کی مرُاد یہی تھی کہ تو آج  ہی میرے لوگوں میں شمات ہو کے بہشت میں جائیگا کیونکہ چور کی درخواست   یو ں تھی کہ جب کھبی  تو اپنی بادشاہی میں  آوے مجھے یاد کیجیو، اِ س کے جواب میں کہا گیا کہ جب کبھی کا کیا زکر ہے بلکہ  آج  ہی تو بہشت میں ہوگا۔ اور لفظ میرے  ساتھ اُسی معنے سےہے جیسے ہم سے بھی کہا  گیا کہ میں زمانہ کے آخر  تک ہر روز تمھارے  ساتھ ہوں۔ ( متی ۲۸: ۲۹)  اور جیسے ہم بھی مسیح کے ساتھ جی اُٹھکے  آسممانی مکانوں میں بیٹھتے ہیں (۱ فسی۲: ۶ ) پس یہ روحانی  رفاقت  ہے  کہ مسیح  اپنی آلہیٰ شان سے حاضر ناظر  ہوکے اور اپنی  اور روح  میں اپنے  لوگوں کو شامل کر کے اُن کے ساتھ رہتا ہے۔  اِس سے یہ نہیں نکلتا  کہ وہ عالم ارواح  میں نہ گیا بلکہ   بلکہ چعر کت ساتھ میں جا بیٹھا  گویا اُس کی جان بہشت کی بھوکھی پیاسی تھی کہ جلد اُس کو لیا چاہتی ہے اُس نے اپنے لئے بہشت حاصل کرنے کو دُکھ نہیں اُٹھایا بلکہہمارے لئے بہشت کی راہ  کھولنے کو دُکھ اُٹھایا ہے۔ پھر دیکھو ( یوحنا ۲۰۔ ۱۷) کہ اُس نے قبر سے اُٹھ کے مریم مگدلینی سے فرمایا کہ میں ابتک اپنے باپ کے پاس نہیں گیا۔ کوئی پوچھے کہ اے خداومد تو ابتک  کہاں رہا تین دن تیرے گزرے تو کیوں اُسی دن جس دن دفن ہوا جی  نہ اُٹھا تو تو ابتک اپنے باپ کے پاس بھی  نہیں گیا پھر تین دن غایب رہنے کی کیا وجہ ہے کیا چور کے ساتھ بہشت میں بیٹھ  کے باتین کرتا رہا۔ اور کیا چور قیامت اور عدالت سے پہلے  بہشت میں جا پہنچا بلکہ تیری قیامت سے بھی پہلے اب فرمائے کہ مسیح اِن باتوں کا کیا  جواب دیگا۔ میرے گمان میں وہی جواب دیگا جو انجیل  کے کلام  حق سے مترشح ہوتے ہیں وہ کہیگا کہ میں عالم ارواح  میں گیا تھا چنانچہ روح القدس   نے پطرس کی زبان سے تمہیں سُنا  دیا ہے کہ اُس کی روح عالم  ارواح میں چھوڑی نہگئی اور مین نے کود جان چھوڑتے وقت اپنے آخری  لفظوں میں صلیب  پر یوں پکا را تھا ( لوقا ۲۳: ۴۶) کہ اے باپ میں اپنی روح کو تیرے ہاتھوں  میں سونپتا ہوں کیاتم نہ سمجھے کہ یہ درخواست بڑے خطرے میں جنے کے وقت ہوتی ہے نہ بہشت میں جانے کے وقت مجھے عالم ارواح کے ہیبتناک  غار میں اُترنا تھا تب میں نے اپنے باپ کی طاقت اپنی روُح کی حفاظت کے لئے نہ مانگی اور میں گہرے پاتال میں اُتر گیا اور باپ نے میری انسانی روح کو وہاں  بھی خوب ہے سنبہالا۔ پس ثابت ہو گیا کہ اُسے عالم ارواح میں تین دن کچھ  کام کرنا تھا جیسے تین برس اُس نے دنُیا میں کام کیا عہد آدم  سے صلیبی موت تک جو مومنین و غیرہ مر گئے اُن کا حصہ بھی مسیح میں تھا  ہم جسمانی شخصوں کے پاس وہ جسم میں ہو کے آیا مردہ روحوں کے پاس وہ مرُدہ ہو کے روُح میں گیا ہمارے پاس نہایت پست ھالی میں آیا اُن کے پاس بھی رُوح  میں پستہ تک کہ ہاویہ ہے وہ  چلا گیا وہ گنہگاروں کا عوضی تھا اس لئے اُس کو ضرور ہوا کہ گنہگاروں  کے مقام میں جو پاتال ہے جاوےاُس کی نسبت تین لفظ لکھے ہیں ( یسعیاہ ۵۳: ۵)  گھایل ہوا کُچلا گیا اُس پر سیاست ہوئی آدمیوں نے اُسے گھایل  کیا ابلیس نے اُس کو کچلا اور خدا باپ نے اُس پر سیاست کی کیونکہ وہ ہمارے گناہون کا حامل تھا۔ پھر ہم یہ بھی دیکھتے  ہیں کہ جب صلیب پر اُس کی جان بدن سے نکلی موت کی تاثیر دو طرفہ ظاہر ہوئی کہ اِدھر ہیکل کا پردہ پھٹ گیا تاکہ سب  ایماندار  خدا کے گھر میں جائیں اور اُسے دیکھیں۔ اُدھر قبریں  پھٹ گئیں کہ مرُدگان سلف قبروں سے نکلیں۔ تو بھی ایک لاش نہ اُٹھ سکی جبتک کہ وہ  تیسرے دن پہلے  آپ نہ جی اُٹھا تیسرے دن تک قبریں پھٹی پڑی رہیں اس لئے کہ جب مسیح اُٹھ چکے  تب وہ اُٹھیں گی کہ اُس کی موت سے لعنت ہٹ گئی اور اُس کی زندگی سے زندگی آتی ہے۔  ( متی ۲۷: ۵۰ سے ۵۳)  اب کہو کہ یہ وقفہ تین دن کا قبروں کے پھٹنے اور لاشوں کے اُٹھنے کے درمیان کیوں  واقع ہے کیا اس لئے کہ مسیح چور کے ساتھ  بہشت میں گیا ہے یا اس لئے کہ عالم ارواح کے درمیاں  کچھ ضروری کام کر رہا ہے جب ٹوٹے گا تب مومنین کی روحیں شادیانہ بجائیں گی۔

اب ایک اورمقام ہے ( ا پطرس ۳: ۱۸ سے ۲۱)  روح میں  ہو کے اُس نے اُن روحوں کے پاس جو قید تھیں جا کے منادی کی جو آگے  نافرماں بردار تھیں جس وقت کہ خدا کا صبر نوح کے دنوں جب کشتی تیار ہوتی تھی اِنتظار  کرتا رہا۔ کسی نے کہا کہ یہ مقام سمجھنا مشکل  ہے میرے گمان اِس کا سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے۔ اُس کے ظاہری  معنے یہ ہیں کہ اُس  کا بدن تو قبر میں مرُدہ پڑا رہا اور اُس نے اپنی روح میں ہو کے اُن کو منادی کی جو قید تھیں ( یعنے ہادیسی میں تھیں) اور یہ وہ نافرماں بردار روحیں تھیں جنہوں نے نوح کے زمانہ میں نافرمانی کی جب کشتی تیار ہو رہی تھی اور خدا کا صبر منتظر تھا کہ وہ کشتی میں آویں مگر وہ نہ آئیں تھیں صرف آٹھ شخص آئے تھے اور روہی بچے تھے اسی طرح اب ہم بھی مسیحی بپتمسہ سے  جو نیک نیتی سے خدا کو جواب دینا ہے بشے جاتے ہیں مسیح کے جی  اُٹھنے کے سبب سے۔ نوح کی کشتی مسیحی بپتمسہ کی علامت تھی پس رسول کی نصیحت  صرف یہ ہے کہ مسیح پر ایمان لاؤ اور بپتمسہ پاکے  مسیحی کشتی میں سوار ہو جاؤ کہ تم ضرور بچ جاؤ  گے کیونکہ مسیح نے اولین و آخرین کے لئے ایک بار دُکھ اُٹھایا ہے۔ اگر ہم یہ معنے قبول  نہ کریں  اور یوں کہیں کہ مسیھ نے روح القدس میں ہو کے  بعد نوح منادی کی تھی تو ظاہر عبارت پر ظلم ہو گا اور ہم تحریف  معنوں کرنے والے ٹھہرینگے۔ کیونکہ ہمیں لفظ ( جسوقت) کو بلفظ ( منادی)  متعلق کرنا پڑیگا حال آنکہ اُس کا علاقہ  عبارت میں لفظ ( آگے) کے سااتھ ہے اور یہی اُس کا متعلق قریب  ہے متعلق قریب کے چھوڑ کے متعلقِ بعید کی طرف ہم کیوں جائیں۔ پھر لفظ روح سے رعح القدس  مراد کیوں لیں جبکہ اُس کی مرُاد جسم کا زکر موجود ہے تو اُسے مرُدہ جسم کی روح کا بھی زکر ہے روح  القدس کا بیان کچھ بھی زکر نہیں ہے۔  اور یہ جو لکھا ہے کہ روح  میں زندہ  کیا گیا اِس کے معنے یہ ہیں کہ بدن مر گیا اور روح جو زندہ تھی اُس میں ہو کے اُس نے روحوں کو  منُادی کی کیونکہ موت میں صرف بدن مرتا ہے روح  تو کبھی کسی کی نہیں مرتی کہ زندہ کی جائے۔ اور لفظ قید سے مرُاد  شئوُلی قید ہے نہ شیطانی قید جو بعض گنہگار فرشتوں کی نسبت  مرقوم ہے اور اُس سے رہائی ناممکن ہے پس وہ روحیں شئو کی میں تھیں جہاں سب گنہگار رہتے ہیں اور یہ جو لکھا ہے کہ منادی کی معلوم نہیں کہ کیا منادی تھی۔  اور اُس کا نتیجہ کیا نکلا  مگر یہ ہم جانتےہیں کہ مسیح قیدیوں کو چھوڑانے  کے لئے آیا تھا۔ (یسعیاہ ۴۲: ۷، ۶۱: ۱) اور یہ روحانی قیدی  قسم قسم کے ہیں بعض لوگ نجوشی  شیطان کی اطاعت  کرکے اُس کے قیدی ہیں بعض  حیراً قید میں ہیں بعض پھُسلائے ہوئے ہیں اور پولوس نے کہا کہ خدا نے سب کو بے ایمانی کی قید میں چھوڑا ہے تاکہ سب پر رحم  فرماوے( رومی ۱۱: ۳۳) پس ہم خدا کا عام بندوبست سب کو  سنُاتے  ہیں کہ جو کوئی ایمان لاکے اِس دنیا سے جاتا ہے وہی نجات پائیگا۔ تو بھی ہم نہیں جانتے کہ  خدا  جو سب کے دلوں کی جانتا ہے وہ بعض  روحوں کے ساتھ اُن کی باطنی کیفیت کے مناسب  کیا کچھ نہ کریگا ممکن  ہے کہ بعض  روحیں  دوسرے جہان میں کچھ فضل حاصل کریں کیونکہ صاف لکھا ہے کہ اُس نے روحوں میں  جاکے منُادی کی اور یہ کہ مغفرت  کی کسیقدر اُمید آنے والے جہان میں بھی دیکھو ( متی ۱۲: ۳۲، افسی ۱: ۳۱)  اور اِن باتوں کو سنُکے کوئی نہیں کہ سکتا کہ اب میں مسیح پر ایمان  نہیں لاتا  عالم  ارواح  میں جاکے دیکھا جائے گائے کیونکہ  جس نے اِس زندگی میں اپنی زندگی کورّد کیا وہ عالم ارواح میں ضرور محروم رہے گا پطرس کے بیان میں اُن روحوں کا زکر ہے جنہوں  کشتی بنتے ہوئے دیکھی اور نافرمان رہے کیونکہ وہ کشتی کا بھید نہ سمجھے تھے پس مسیح کو نہ پہچاننے والوں کا انساف اور طرح سے ہے اور سن و سمجھ کے نہ ماننے  والوں کا ھال اور ہے ( لوقا ۱۲: ۴۷، ۴۸)  کو پڑہو۔

حاصل کلام آنکہ رسولوں کے عقیدے میں جو لکھا  ہے کہ مسیح عالم ارواح میں جا اُترا  اُس  کا ثبوت ( اعمال ۲: ۳۱،  افس ۴: ۹، اپطرس ۳: ۱۸ سے ۲۱) ہے اور اس کی تائید ( لوقا ۲۳: ۴۶) سے ہے۔  اور رسولوں کے عقیدے کی نسبت یہ کہنا کہ وہ پچھلے  زمانہ کا ہے  رسولوں نے نہیں لکھا ہمارا بیان یوں ہے کہ البتہ بعض لوگ ایسا کہتے ہیں۔  لیکن بشپ بیویرج کی کتاب میں مرقوم ہے کہ بشپ امبر نور ساحب اس عقیدہ کو بہت سراہتے ہین اور اُس کو مفتاح الانوار، وا لظلمات لقب دیتے ہیں۔  اور روفینس ہر سٹ ایک حدیث  سے کہتے ہیں کہ روح القدس کے آنے کے بعد رسولوں نے یہ عقیدہ تالیف کیا تھا تاکہ ایمان  کا پورا بیان لیکے ہر رسول کہیں جائے اور یہ روفینس صاحب  جیروم ساحب کے بڑے دوستوں میں سے ہین ۔ پھر اگسطین  صاحب  کہتے ہیں کہ اس عقیدہ کا ایک ایک فقرہ ایک ایک رسول نے  بولدیا تھا  یوں یہ مرُتب ہوا ہے۔ ان کے سوا اور بہت بزرگ ہیں جو ایسی باتیں اِس عقیدے کی نسبت کہتے ہیں لیکن بعض ہیں جو کہتے ہیں کہ اِس  کی عبارت کا ثبوت رسوُلوں کی طرف سے نہیں ملتا۔ میں کہتا ہوں کہ اگر اس کی عبارت رسولوں سے ہے تو بہت خوب بات ہے اور جو عبارت اُن سے نہیں تو مضامین اِس کی ضرور اُن سے ہیں  کیونکہ عہد جدید میں یہ سب مضمون موجود ہیں۔ اور یاد رہے کہ سورِ اختلافیہ  میں مناسب نہیں ہےکہ ہم کلیسیا قدیم کی رفاقت  کا ہاتھ ڈھیلا چھوڑیں کیونکہ دین کی کونسی بات ہے جس میں لوگوں  کا اختلاف  نہیں ہے اگر ہم اختلافوں  کے درپے ہو کے  دینی باتوں مین سسُت ہوتے جائیں تو شاید کوئی کوئی بات ہمارے ہاتھ میں رہیگی  سارا دین اُڑ جائیگا  یا اور ہی کچھ بن جائیگا جو قدیم عیسائیوں  کا نہ تھا اور یوں ہمسے گّلہ کے نقش قدم چھوٹ جائیںگے واجب ہو کہ دینی معاملات  میں ہم مسیحی گّلہ کے نقشِ قدم پر جائیں دیکھو  کیا لکھا  ہے ( غزل الغزلات ۱: ۸)

Pages