عیسی

Jesus

خداوند مسیح کا فضل  ہو آبحیات مفت لیے

غلام جیلانی عیسائی

The Living Water

Published in Nur-i-Afshan May 14, 1885
By Gulam Jilani Masih

شکر ہے اُس خداوند  کریم کا جسنے ہمہ موجودات کو اپنی قدرت کاملہ سے آراستہ و پیراستہ کیا اور انسان کو اشرف  المخلوق بنا کر عقل بخشی تاکہ نیک و بد میں تمیز کر سکے اور ہمیشہ اپنے خالق کی یادگاری میں مصروف  رہے اور اُسکی حمد و ثنا میں دل اور روح سے گیت گاوے مگر انسان نے اِس عقل کو جو اُسکے خالق کی طرف سے عنایت ہوئی تھی کھودیا اور جہالت کے گرداب میں پڑ کر اپنے آقا  کو بھول گیااور بجائے اِسکے شیطان کی تابعداری کو قبول کیا  جسمیں آجتک سر گردان اور پریشان یہہ غریب انسان مار ا مارا پر رہا ہے۔  اور کوئی راستہ نہیں پاتا  جہاں سے نکل کر اپنی جان کو بچاوئے  اسی لیے اپنے خالق کی نزدیکی سے دور ہو گیا ہے اور اُسپر  موتکا فتوہ لگایا گیا ہے ۔ جسکا کا نام ہمیشہ کی موت ہے۔ اور وہ ہمیشہ کی موت جہنم کی سزا  ہے جس سے گنہگار کو رہائی  کی اُمید نہیں اور وہ جہنم  کی سزا ایسی سخت ہے جسکے سننے سے کان سنسناتے  ہیں اور ہر ایک بشر کا کلیجہ منُہہ کو آتا ہے ۔ جب خدا  قیامت کو اپنے تخت عدالت پر بیٹھے گا  تو  اُسوقت گنہگار ونکا  کوئی  حامی اور شفیع  نہ ہوگا  مگر  اے  بھائیوں  خدا کسی  گنہگار  کی موت میں راضی  نہیں ہے ۔ اُس نے تو ہم پر اپنا ایسا فضل ظاہر کیا جسکے ہم لایق  نہ تھے اُسنے ہماری نجات کے لئے ایک چشمہ آبحیات کا جو مسیح کے خون کا جاری ہے بہایا ۔ جسکے پینے سے مرُدونکو  از سر نو زندگی حاصل ہوتی  ہے  اور وہ چشمہ ہر ایک مرُدہ  کے سامنھے پیش کیا  جاتا  جو کوئی اِسمیں سے  ایک گھونٹ پیتا ہے ہمیشہ کی زندگی اُسی کی ہے۔ ارو یہ چشمہ ہر  خاص و عام کے لئے ہے نہ کہ یورپ اور امریکہ کے لوگوں کے لئے نہ صرف  دولتمند وں کے لئے بلکہ بھوکھے اور پیاسونکے لئے بھی کسی سے کوڑی پیسا طلب نہیں کیا جاتا بلکہ مفت ملتا ہے ۔ جو کوئی چائے اَوے اور  پیئے لیکن ا ے بھائیو یہہ چشمہ بغیر مسیح پر ایمان لانے سے ملتا نہیں ہے کیونکہ ہم اپنی روشنی سے اس چشمہ کو پا نہیں سکتے جبتک کہ ہمارا  راہبر خداوند مسیح  نہو  اِس سے اے بھائیو ظاہر ہوتا ہے کہ اِس چشمہ کی تلاش کے لئے دو امر ضرور ہیں  پہلا امر یہہ ہے کہ خداوند مسیح پر ایمان لاؤ  دوسرا یہہ ہے کہ بپتمسا لو خداوند مسیح پر ایمان لانیکا  مطلب یہہ ہے کہ تم  اپنے جھوٹے مذہب کو چھوڑ کر اور اپنے  گناہوں  سے سّچی توبہ کر کے خداوند  مسیح کے پاک خون پر بھروسہ رکھو جس سے سب گنہگارونکی نئی زندگی  حاصل ہوتی ہے پھر بپتمسا لینے سے یہہ مراد ہے کہ جب کوئی سچےّ دل سے خداوند میح کو پیار کرتا ہے اور اُسکا مرید ہوتا ہے تو اُسکو  چاہئے کہ اپنے دلی ایمان کو اور لوگوں پر ظاہر کرے شاید کو ئی کہے  کہ دوسرا جانے نہ جانے ہم اپنے دل ہی میں خداوند  مسیح  پر ایمان  رکھتے  ہیں کچھ ضرورت نہیں کہ ظاہر کریں تو اے بھائیو ایسا ایمان سچا ایمان نہیں ٹھہر  سکتا  خداوند انے اپنے دین کا  یہہ ایک نشان ٹھہرایا کہ جس سے  اِس پر ایمان لانے والے شاگر دی کی مہر پاتے ہیں  یہہ اضو نگری نہیں جو تمہارے  کان میں پھونکی  جاوے پر وہ بپتمسا  یعنے اصطباغ کی رسم ہے جو مسیح کا پیرو ہوتا  ہوں  تب  وہ نو مرید  خدا یعنے  باپ  بیٹا  روح القدس  کے نام  اصطباغ پاتا  ہے پھر خداوند کے سچےّ شاگردوں کے دلوں میں روح القدس  بود باش  کرتی ہے  اور اُسکی  تعلیم  سے خدا کی شناخت اور محبت میں مسیح کا شاگرد روز بروز  ترقی پاتا جاتا ہے اور گناہ سے  باز رہکر  ہر طرح کے نیک کام کرتا ہے ۔  پس اے بھائیو تم  اِن  باتونکو  پڑ ھکر  شاید کہہ گے کہ ہم مذہب چھوڑ کے مسیح کی پاک کلیسیا میں شامل ہوؤیں تو  اپنی زات پات  اور بھائی بنداور عزیز و اقربا کو چھوڑ  نا  پڑیگا  پس اے بھائیو یہہ بات سچ ہے کہ کیونکہ تم اپنے رشتہ دارونکی  جماعت سے ضرور  نکالے  جاؤ  گے  اور تمسے سب پرہیز  کرینگے  لیکن اے ہمارے عزیز بائیو  اگر تم  آبحیات پیکر  ہمیشہ کی زندگی  چاہتے  ہو اور اپنی روح کو گناہ سے پاک کرنا چاہتے ہو تو کچھ ہی تمھارے  بھائی بند کہیں اُنکی فکر مطلق نہ کر و بلکہ یہہ خیال کرو کہ  بھائی بند جو کچھ کہیں سو کہیں مگر ہم اپنے  تئیں موت کے ڈنگ  سے بچاوینگے تم اے بھوئیو خوب جانتے  ہو کہ تم کیسا ہی جھوٹھ بولو  یا گالی  دو یا چوری یا  رنڈی  بازی یا اور کسی طرح کے برے کام کرو تو کوئی تمکو  برادری سے  نکال نہ دیگا کیونکہ سب طر ح کے بدمعاش لوگ تمہاری زات پات میں رہ سکتے ہیں  لیکن تم  جو اپنی حیات ابدی کے لئے جھوٹھ  اور برائی چھوڑنا  چاہو تو لوگ  تمکو برادری  سے نکال  دینگے اِس بات کو غور کر کے یہہ کہتے ہیں کہ جو کوئی  خدا  وند  عیسیٰ  مسیح کے  دین میں آنیکے سبب زات برادری سے الگ کیا  جاوے  سو وہ مبارک ہے کیونکہ خدا کے مقدّس لوگوں میں  گنا  جاویگا اور ایسی زات برادری  پر افسوس ہے۔ اب اسپر بھی غور کرو  کہ کسکی بات قابل  قبولیت ہے۔ خدا کی یا زات برادری کی تو وہی گواہی دیتا ہے کہ خدا کی بات کو مان لینا  چاہئے اب ہم سے کہو کہ عاقبت میں خدا یا زات برادری تمارے کام میں آوینگے کیا تمہارے بھائی بند  مرتے مرتے تمہارے  ساتھ جاوینگے اور اِنصاف  کے وقت میں تمہاری عوض جواب دینگے کبھی نہیں پھر جو تم مسیح کے شاگرد ہو جاؤ اور لوگ تمکو زات  برادری سے نکالدیں اور تم پر لعن طعن  کریں  تو تم جانو کہ یہہ چند روز تکلیف ہے اور مرنیکے بعد خدا تمکو بہشت میں جگہ دیگا  جسکا نام  حیات ابدی  ہے اور وہاں ہمیشہ خوشحال رہو  گے تم بھائی  بندکے خوف سے اپنے ایمان کو چھپاؤ  گے تو خدا تم سے  روز  عدالت میں فرمادیگا  کہ کیوں تمنے میری بات  کو نہ مانا اور اپنے بائی بند کی باتونکو  جو میرے  حکم  کے برخلاف  تھیں مانا اِسلئے تمکو بہشت کے لایق نہ جانکے  جہنم مین ڈالیگا جسکا نام ہمیشہ کی موت ہے ور وہاں ہمیشہ دکھ اور تکلیف  ہیں رہو گے اب اے ہمارے پیارے بھائیو  ہم تمہاری منّت  کرتے ہیں کہ جلدی آؤ اور آبحیات  پیو  اور خداوند  مسیح کو سچےّ دل  سے قبول  کرو جیسا کہ خداوند مسیح نے یوحنا ۶ باب ۳۵ آیت میں فرمایا ہے کہ زندگی کی روٹی  میں ہوں جو مجھ  پاس آتا ہے ہر گز بھوکھا نہ ہوگا اور جو مجھ  پر ایمان لاتا ہے کبھی پیاسا نہ ہوگا اب اے بھائیو اِس بات پر غور کر کے خواب غفلت  سے جاگو  ابھی خدا کی رحمت  کا دروازہ کھلا ہے اور اگر اب تم  اُسکی رحمت کو ٹالدوگے تو آخر کو تمہارے اوپر  غضب نازل ہوگا پس اے پیارو تم اپنی جان بچانے کے لئے جلدی کرو اور خداوند مسیح کے شاگرد ہو جاؤ تاکہ اُسکے پاک خون کے زریعہ سے نہیں ہمیشہ کی زندگی حاصل ہو۔ فقط۔

الراقم ۔ غلام جیلانی عیسائی طالب العلم مدرسہ  علم الہیٰ مہارنپور 

Men Praying, Pakistan

سیدنا مسیح کے اختیارات

جمیل سنگھ

(۱۸۴۳–۱۹۲7)

The Authority of the Jesus Christ

Published in Nur-i-Afshan October 8, 1885
By Jameel Singh

آسمان اور زمین کاسارا اختیار مجھے دیا گیا ہے۔

متی ۲۸ باب ۱۸ آیت۔

تمام دنیا کے لوگ مانتے ہیں  کہ خدا قادر  مطلق ہے اور  جو چاہے سو کر سکتا ہے۔ اور اپنی تمام مخلوقات پر پورا اختیار رکھتا ہے  اور ضرور ہے کہ اُس کا اختیار دنیا کی سب مخلوقات پر ہو کیونکہ  اگر اُسکا اختیار مخلوقات پر نہ ہوتا تو کچھ انتظام اس دنیا پر نہ رہتا اور یہہ دنیا  بالکل  گڑبڑ  اور بدبخت ہوتی۔ جس طر ح جب کسی رعیت پر کوئی بادشاہ نہیں ہوتا تو وہ رعیت  برباد ہو جاتی ہے۔ اور یہہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ ہر ایک کام  کے پورا کرنے میں کچھ نہ کچھ  اختیار  درکار ہے  اگر کچھ اختیار نہ ہو  تو کوئی کام ہر گز ہو نہین سکتا۔ اور جب کو ئی شخص  حاکم کی طرف سے کسی کام کے واسطے  بھیجا جاتا ہے  تو اُسکو اختیار  دیکے بھیجا جاتا ہے اور با اختیار  ہو کے وہ اُس  کام کو باخوبی  انجام کرتا ہے اگر  کچھ ختیار  اُسکو  نہ دیا جاوے تو کس صورت  سے وہ وہاں  جا کر کچھ کاروائی  کریگا۔ خدا کا قادر مطلق  ہونا جس صورت میں نہایت  ضرور  ہے اسی طرح گنہگاروں  کے ہادی اور پیشوا  ہونے اور نجات دہندہ  بننے میں نجات  دہندہ  کو بھی  بااختیار  ہونا چاہئے ۔ اگر نجات  دہندہ کو  اختیار  نہ ہو تو  وہ کسطرح  گنہگار  کے واسطے  کچھ کر سکیگا ۔ خداوند  یسوع مسیح جو اسم با سمیٰ ہے گنہگارونکا  شفیع  و نجات دہندہ  حقیقی ہے۔  اب ہم اسبات کو دیکھنیگے  کہ اُسکو کچھ اختیار  تھا کہ نہیں۔ اور اُسکے اختیار ات  کو مختصر  بیان کرینگے۔

اول۔  اُسکا  شیطان  پر اختیار ۔ تمام  بنی آدم شیطان کے فریب میں آکر  گناہ میں پھنس  گئے ہیں مگر  خداوند  یسوع مسیح نے شیطان  کو  زیر کیا ہے اور اُ سکے اختیار کو  توڑ  کر اپنا اختیار  اُسپر ثابت کیا ۔ شروع مین جب ّدم گنہگار ہو گیا تھا تب خدا نے اُس  سے اُسیوقت  وعدہ  کیا تھا کہ عورت کی نسل شیطان  کا سر کچلیگی ۔ وہ عورت  کی نسل  خداوند  یسوع مسیح ہے۔ اسنے عورت سے پیدا ہو کر شیطان کے سر کو کچلا  جو بنی آدم کا  نہایت زبردست دشمن تھا۔ جب وہ اُس  سے آزمایا  گیا تو اُس نے شیطان  کو مغلوب کیا اور اُسپر  اپنا اختیار  جتایا اور کہا  اے شیطان مجھ سے دور ہو اور شیطان اپسکے پاس سے بھاگا۔  متی ۴۔ باب ۱۰۔  آیت  یِسُو ع نے اُس سے کہا اَے شَیطان دُور ہو کیونکہ لِکھاہے کہ تُو خُداوند اپنے خُدا کو سِجدہ کر اور صِرف اُسی کی عبادت کر۔ اور واضع ہو کہ جب شیطان بہ سبب نافرمانی کے خدا کی حضوری  میں سے  نکالا گیا اُسکے  ساتھ سر کش فرشتے  بھی نکالے گئے جواب اُسکے ساتھ  بنی آدم کو ورغلا کر گناہ میں  ڈالتے ہیں  خدا وند نے  اُنپر بھی اپنا  اختیار جتلایا اور  اُنہیں نکالا جیسا کہ انجیل کے پڑھنے  سے ہمکو معلوم ہوتا  ہے۔ اور ضرور تھا کہ بنی آدم کا بچانے  والا  شیطان کو پہلے مغلوب کرے ور اپنے اختیار کو اُس پر ثابت کرے نہ کہ خود اُسکے بند میں آجاوےجسطرح  کہ دنیا  آگئی۔ اگر ایسا ہی وہ بھی  اُسکے فریب میں آجاتا تو کیونکر  وہ دنیا کو بچا سکتا  لیکن بخوبی ظاہر ہے کہ اُس نے شیطان پر فتح پائی۔

دوم۔  اُسکو گناہ معاف کرنے کا اختیار ۔اگر نجات دہندہ کو یہہ اختیار نہ ہو کہ گنہگاروں کے گناہ  بخش سکے تو گنہگار ونکے لئے اور کیا بہتری کر سکیگا اور کس طرح پر  اُنکو بچا سکیگا۔ جب کہ اس علت سے اُنکو صاف نہیں  کر سکتا ۔ خداوند یسوع مسیح کو گناہ معاف  کرنیکا  اختیار تھا جیسا کہ متی ۴ ۔ باب کی ۲ آیت لکھا ہے۔ یسوع نے اُنکا ایمان دیکھکے اُس جھولے کے مارے سے  کا۔  اے بیٹے خاطر جمع رکھ تیرے گناہ معاف  ہوئے  لوگوں نے  اُسپر اعتراض  کیا کہ  گناہ  معاف کرنیکا اختیار  سوا  خدا کے کسی کو نہیں  تب اُس نے کہا کیا کہنا ّسان ہے یہہ کہ تیرے گناہ معاف  ہوئے  یا یہہ  کہ اُٹھ  اور چل ۔ لیکن تاکہ تم جانو کہ ابن آدم  کو زمین پر گناہ  معاف کرنیکا اختیار  ہے اُس نے اُس  جھولے  کے مارے ہوئے سے کہا  اُٹھ  اپنی  چارپائی  اُٹھا لے اور اپنے  گھر  چلا جا۔ اس سے ثابت ہوا کہ اسکو گناہ معاف کرنیکا  اختیار  تھا اور گنہگاروں  کے گناہ  معاف  کر سکتا ہے۔

سوم۔ اُسکا موت پر اختیار  موت گناہ کا نتیجہ  جب گناہ  کو خدا  خداوند نے مغلوب  کیا تو موت بھی مغلوب  ہوئی۔ اور موت پر بھی اُسکا  اختیار  ہوا۔ اُس نے کہا  کہ مجھے  اختیار  ہے کہ میں اپنی جان دوں  اور مجھے  اختیار  ہے کہ پھر اپنی جان لوں اور اُس نے  اپنے کہنے کو ثابت  بھی کر دکھلایا  وہ مر کر  پھر  تیسرے دن  زندہ ہو گیا  اور قبر  اور موت  پر فتحمند  ہوا۔  اور وہ نہ صرف  آپ  ہی  زندہ  ہوا بلکہ  اُس  نے موت  سے اوروں  کو بھی بچایا۔ اپس نے مرُدوں کو زندہ  کر دکھلایا۔ بیوہ کے لڑکے  کو ناتن  کی رہنیوالی  تھی زندہ  زندہ کر دیا  اور لعزر کو بھی زندہ کیا اس سے ثابت ہوا کہ  اسکا  اختیار موت پر  بھی تھا۔ اور صرف  اُس نے بدنی  موت پر فتح  پائی  لیکن اُس  نے گنہگاروں  کی روحانی  موت  پر بھی  فتحمندی  حاصل  کی اپنی جان سب بدلے میں  فدیہ مین دیدی  اور  کہا کہ  جو کوئی مجھپر  ایمان  لاوے  وہ ہلاک  نہ ہووے  بلکہ ہمیشہ کی زندگی پاوے۔ دیکھو یوحنا ۳ ۔  باب ۱۶ ۔ آیت۔

چہارم ۔ روز حشر  کی عدالت کا اُسکو  اختیار ۔ انجیل میں لکھا  ہے کہ  جب ابن آدم  اپنے جلال  سے آویگا اور سب پاک فرشتے اُسکے ساتھ تب وہ  اپنے  جلال کے تخت  پر بیٹھیگا  اور سب قومیں اُسکے سامنھے  حاضر کی جاویں  گی۔ متی ۲۵۔ باب ۱۸۔ آیت  وہ عدالت  کے تخت  پر  جلوس  فرماویگا  اور سب قومونکا  انصاف  کریگا۔ اور ہر ایک کو اسکے اعمال کے مطابق بدلہ دیگا۔لیکن جو اُسپر  ایمان لاکے اُس سے معافی حاصل  کرتے ہیں اور اُسکی  پیروی  کرتے ہیں اُنپر حکم نہ کریگا  کیونکہ اُس  نے اُنکے  لئے  اپنا خون  بہایا ہے اور اُنہوں  نے اُسکے خون پر بھروسا  رکھا ہے اور  اُسکے پیارے  اور فرمانبردار  بنے رہے ہیں وہ اُنپر حکم نہ کریگا بلکہ وہ بادلوں  میں اُسکے  ملنے کے واسطے  جاویں  گے اور اُسکی حضوری  انکو ملیگی  اور عدالت  گاہ میں  اپنے شفیع  کے دہنے ہاتھ  کھڑے  ہونگے اور انکو وہ اپنی ابدی خوشی میں داخل کریگا ۔ لیکن  اگر گنہگار  اب اُسپر  ایمان نہ لاوے  تو وہ  اُسوقت بے سزا  نہ چھوٹیگا اور اُسکی  عدالت  سے نہ بچ  سکیگا کیونکہ وہ ہی اکیلا عدالت کرنیوالا ہے اور لکھا ہے کہ ساری عدالت  بیٹے کو دی  گئی  ہے دیکھو  یوحنا  ۵ ۔ باب ۲۲ ۔ آیت۔

 پنجم ۔ اُسکا اختیار بنی آدم کی  مرحلوں پر۔ انجیل سے ثابت ہوتا ہے کہ کو ئی  مریض  اُسکے پاس نہیں  آیا جو تندرست ہو کے اپنے گھر نہ گیا بلکہ اُس نے ہر طرح  کے بیماروں  کو چنگا کیا  دیکھو متی ۴ ۔  باب ۲۳۔ آیت  اور طرح کی بیماریوں  کو دور کیا جنکا زکر  مختصراً  کرتا ہوں۔

۱۔  مرُد ے زندہ کئے۔  بیوہ کا بیٹا زندہ کیا دیکھو۔ متی ۸۔ باب ۱۱۔ آیت سے ۱۵۔ تک لعزر کو زندہ زندہ کیا  یوحنا ۱۱۔ باب ۳۴۔ آیت جیر س کی بیٹی  کو زندہ کیا۔ مرقس ۵ باب۔ ۴۲۔ آیت۔

۲۔ کوڑھی اچھے  کئے۔ ایک کوڑھی کو چنگا کیا۔  متی ۸۔باب  ۳۔ آیت دس  کوڑھیوں کو پاک و صاف کیا۔  لوقا ۱۷ ۔ باب ۱۴۔ آیت۔

۳۔  اندھوں کو آنکھیں دیں متی ۱۰ باب ۵۲ ۔ آیت ایک جنم کے اندھے کو آنکھیں  دیں یوحنا ۹۔ باب ۷۔ آیت۔

۴۔ جھولے  کے بارے ہوئے کو چنگا کیا۔ متی ۹ باب ۲ ّیت۔سوکھا ہوا ہاتھ چنگا کیا۔ ۔ مرقس ۳ ۔ باب ۵آیت۔

۵۔ تپ والے کو چنگا کیا ۔ پطرس  کی ساس کو چنگا کیا  متی ۸۔ باب ۱۵ ۔ آیت۔

۶۔ بہرے گونگے کا چنگا کیا ۔  ایک  گونگا  چنگا ہوا۔ متی  ۹ ۔ باب ۳۳۔ آیت۔صرف افتاح کہکے ایک گونگے کو چنگا کیا۔ مرقس  ۷ ۔ باب ۳۴۔ آیت۔

۷۔ لنگڑوں  کو چنگا کیا۔ متی  کا ۲۱۔ باب ۱۴۔ آیت۔

۸۔ جلندھر  کی بیماری  والے کو چنگا کیا۔ لوقا ۱۴۔ باب ۴۔ آیت۔

نہ صرف وہ بدن کی مرضوں  رفع کر نیکو دنیا میں آیا بلکہ وہ روح کی لاحق مرض  کو رفع کرنے کو مجسم  ہوا اور اُس  نےکہا  کہ بھلے چنگوں کو حکیم کی درکار نہیں بلکہ بیماروں  کو میں  میں آیا ہوں کہ کھوئے  ہوں کو ڈھونڈوں اور بچاؤں۔  جس طرحپر اُس نے لوگوں کو بدنی بیماریوں  سے شفا دی اُسی طرح وہ انکی  روحی بیماری کو بھی رفع کرتا ہے اور جو گنہگار اپسکے پاس آتا ہے وہ اُسے  پاک و صاف  بناتا ہے اور موت سے بچا کے زندگی  میں پہنچاتا ہے۔ اور کمزور  گنہگاروں  کو طاقت دیکر گناہ سے بچاتا ہے۔

ششم ۔  اُسکا اختیار آندھی  اور پانی  پر۔ جب وہ اور  اُسکے  شاگرد ناؤ  پر بیٹھے چلے جاتے تھے تو بڑا  طوفان  آیا  اور ناؤ  ڈوبنے لگی اور وہ  سوتا تھا۔ تب شاگروں  نے  اپسے جگا کے کہا  صاحب آیئے صاحب  ہم ڈولے  تب  اُس نے اُٹھکے  لہروں کو دھمکایا تو تھم گئیں اور  نیوا ہو گیا۔ لوقا ۸۔ باب ۲۴ ۔ آیت وہ پانی پر چلا  جسطرح  کہ خشکی  پر چلتے ہیں  پر پانی نے اُسے نہ ڈو بایا یوحنا ۶ باب ۱۴ آیت۔

ہفتم۔  اُسکا اختیار آسمانی  نعمتوں  پر ۔ اُسنے اپنے شاگردوں  کو کہا کہ جو کچھ تم میرے  نام سے مانگوں گے میں وہی کرونگا  تاکہ باپ بیٹے  میں جلال پاوے۔ اگر تم میرے نام سے کچھ مانگو گے میں وہی کرونگا۔ اور اپس مانگنے میں صرف  روحانی  نعمتیں  مراد ہیں کہ  کیونکہ  اُس نے کہا ہے کہ  پہلے خدا کی بادشاہت  ڈھونڈو تب سب چیزیں  تم کو ملینگی۔ پس اگر ہم اُس  سے یہہ برکتیں مانگیں تو ضرور  وہ دے سکتا ہے کیونکہ  اُسکو روحانی اختیار  ہے۔ 

ہشتم۔ اُسکا اختیار  ہمیشہ کی زندگی  پر۔ اُس نے کہا کہ راہ اور حق اور زندگی  میں ہوں کوئی بغیر  میرے وسیلے  باپ کے پاس آ نہیں سکتا۔ یوحنا  ۱۴۔ باب ۶۔ آیت  اس سے معلوم ہوا کہ وہ زندگی  کا مالک ہے اور زندگی صرف اُس ہی سے  ملِ سکتی  ہے اُسی کو زندگی پر  اختیار ہے۔

اے ناظرین ان مندرجہ  بالا باتوں  سے معلوم ہے کہ خداوند  یسوع مسیح  کو نجات کے کاموں میں پورا اختیار  ہے اور جب اُسکو  ہر ایک امر میں  جو نجات کے لئے ضروری  ہے پورا  اختیار اور قابلیت  ہے تو ضرور  وہ نجات کے مشکل کام کو پارا کر سکتا ہے۔  اب ان باتوں سے اے ناظرین  میں تمکو جو ابھی تک اُسکے نجات دہندہ  ہونے کو تسلیم نہیں کرتے واقف  کر کے  یقین  دلاز چاہتا ہوں کہ اس شفیع قادر اور منجی  بااختیار  کو  پوری لیاقت ہو کہ  گنہگار  کو بچاوے اور جو کچھ  گنہگار چاہے اور جن  نعمتونکا  وہ محتاج  ہوا ُسکو  عنایت کرے اب تم اُسپر ایمان لاؤ کیا دیری ہو۔  کیا شک ہے۔  دیر مت کرو وقت کو غنیمت  جانو۔  پیشتر اسکے کہ توبہ  اور معافی  کے مکان سے تم  عدالت کے  لئے  بُلائے جاؤ اُس حاکم روز حشر  کے دوست بنو تاکہ اُس خوفناک  دن میںتم خوف زدہ  نہ ہوا اور شرمندہ نہو ہو بلکہ  خوش و خرم  ہو کے  اُسکی خوشی میں داخل  اور ابدی آرام  پاؤ۔

راقم بندہ جمیل سنگھ واعظ انجیل 

ایک اعتراض کا جواب

Why Christians Believe Jesus is the Son of God

A reply to a Muslim Objection

Published in Nur-i-Afshan April 14, 1881
By. Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

ایک اعتراض کا جواب

ایک محمدی ملقب شوریوں تحریر فرماتے ہیں کہ عیسائی اپنی نادانی سے مسیح کو خدا کہتے ہیں حالانکہ انجیل سے آدم زاد پر بھی بھی اُنکی فضیلت ثابت نہیں پھر فرشتونکا کیا زکر چنانچہ متی باب ۱۱ ۔ آیت ۱۱ میں مسیح یوں اقرار کرتا ہے کہ میں تم سے سچ مچ کہتا ہوں کہ اُنمیں سے جو عورتوں سے پیدا ہوئے یوحنا بپتسمہ دینیوالے سے کوئی بڑا نہیں ظاہر نہیں ہوا اگر مرد کی قید ہوتی تو مسیح منشیٰ ہو جاتے مگر ابتو عورت کی قید ہے جسمیں مسیح بھی شامل ہیں کیونکہ وہ بے باپ مریم سے پیدا ہوئے اسلئیے یوحنا کو مسیح پر بھی فوقیت ہے بس اسحال میں جب انکی انسانیّت بھی کامل نٹھہری تو انکی الوہیّت کا کیا ٹھکانا اسیواسطے حضرت مسیھ کی تعلیم اکثرناقص اور تکمیل طالب تھی جسکی تکمیل قرآن مجید نے کر دی آئینہ اسلام نے یہہ ٍامر بخوبی ثابت کر دیا ہے۔

شور صاحب تو عیسایونکی نادانی ثابت کرتے ہیں لیکن دیکھنا چاہیئے کہ کیا لکھا ہے اول تو اُسی باب ۱۱ ۔ آیت ۱۱ میں یوں لکھا ہے لیکن جو آسمان کی بادشاہت میں چھوٹا ہے وہ اُس (یوحنا) سے بڑا ہے پھر مرقس ۹ باب ۴۵ آیت میں ہے اگر کوئی چاہے کہ پہلے درجہ کا ہو وہ سب میں پچھلا اور سب کا خادم ہو گا۔ مگر اس کام خاکساری اور حلیمی کی صفت سوائے مسیح کے اور کسی میں نہیں مل سکتی وہ کہتا ہے میں حلیم اور دلسے خاکسار ہوں ۔ متی ٍ ۱۱باب ۲۹آیت ابن آدم اس لیے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ کرے ۔ متی ۲۰ باب ۲۸ آیت اُسنے اس درجہ تک خاکساری اختیار کی کہ اپنے شاگردوں کے پیر دھوئے اور اُنکو پونچا ۔ یوحنا باب ۱۳۔ اُس نے خدا کی صورت میں ہو کے خدا کے برابر ہونا غنیمت نہ جانا لیکن اُسنے آپکو نیچ کیا اور خادم کی صورت پکڑی اور انسان کی شکل بنا اور آدمی کی صورت میں ظاہر ہو کے آپکو پست کیا اور مرنے تک بلکہ صلیبی موت تک فرمانبردار رہا فلپی ۲ باب آیت ۸پس مسیح ایسی صفت سے موصوف ہو کر یو حنا سے جو تمام جہان سے افضل ہے بڑا اور بزرگ ٹھہرا۔

دویم (۲) اسی باب کی آیت ۱۰ ۔ میں مسیح یوحنا کی نسبت کہتا ہوں کہ یہہ وہ جسکی بابت لکھا ہئ کہ دیکھو میں اپنا رسول تیرے آگے بھیجتا ہوں جو تیرے آگے تیری راہ درست کریگا یہا ں یوحنا مسیح کے آگے راہ درست کرنیوالا ٹھہرا پس بتلایئے کہ کون افضل ہے آیا وہ جو راہ صاف کرتا ہے یا وہ جلال کا بادشاہ جسکی آمد کے لیے ایسا جلیل القدر راہ صاف کرے اور کون بڑا ہے وہ جو کھانے بیٹھا یا وہ جو خدمت کرتا ہے کیا وہ نہیں جو کھانے بیٹھتا ہے۔

سویم (۳) اُسنے یعنے مسیح نے تو درحقیقت یو حنا باپٹسٹ کو سب انبیا در سل سے افضل و اعلیٰ بتلایا مگر یوحنا باوجود اس عظمت و شرف کے جو اسکو کل آدم زاد پر حاصل ہو یہہ گواہی دیتا ہے۔ یہہ (مسیح ) وہی ہے جسکا زکر میں کرتا تھا کہ وہ جو میرے پیچھے آنیوالا ہے مجھ سے مقدم ہے کیونکہ و ہ مجھسے پہلے تھا اور اُسکی بھر پوری سے ہم سب نے پایا بلکہ فضل پر فضل جسکے جوتے کا تسمہ بھی میں کھولنے کے لایٔق نہیں۔ یو حنا باب اول اب بتلائیے کہ یوحنا جو تمام آدم زاد سے بڑا ٹھہرنے پر بھی اپنے آپکو مسیح کے جوتے کا تسمہ کھولنے کے لائیق نہ سمجھے وہ مسیح سے بڑا کیونکر ٹھہر سکتا ہے نہ معلوم یوحنا کو مسیح سے افضل بتلا تا کس منطق کے موافق ہے شائید اپنے انجیل نہیں دیکھی۔

انجیل ،سیح کو خدا ء مجسم بتلاتی ہے پھر فرشتے کیونکر اُسکے مقابل آسکتے ہیں وہ اُسکی مخلوق اور اُسکے مقدس ہاتھ کی کاری گری ہیں کیونکہ سب چیزیں اُس سے موجود ہوئیں اور کو ئی چیز موجود نہ تھی جو بغیر اُسکے ہوئی یوحنا ۱ باب ۳ آیت وہ تو اُس ماہیت نقش ہو کے سب کچھ اپنی قدرت کی کلام سے سمجھا لتا ہے وہ فرشتوں سے اس قدر بزرگ ٹھہرا جسقدر اُسنے میراث میں اُنکی نسبت بہتر خطاب پایا اُسنے فرشتوں میں سے کسکو کبھی کہا کہ تو میرا بیٹا ہے میں آج تیرا باپ ہو ا وہ فرشتوں کی بابت یوں فرماتا ہے کہ وہ اپنے فرشتوں کو روحیں اور اپنے خدموں کو آگ کے شعلہ بتاتا ہے مگر بیٹے کی بابت کہتا ہے اے خدا تیرا تخت ابد تک ہے راستی کا عصا تیری بادشاہت کا عصا ہے پھر اُسنے فرشتوں میں سے کسکو کبھی کہا کہ تو میرے دہنے بیٹھ ۔ عبرانی باب اول اے شور صاحب مسیح کی عظمت و منزلت کو دریافت کرو۔

پھر انجیل کی تعلیم کو آپکا یا مؤلف آئینہ اسلام کا تکمیل طلب اور قرآن کواُنکا مکمل کہنا تمسخر اور مضحکہ ہے جسنے انجیل کو بغور مطالعہ کیا ہوگا وہ ایسا بے معنے کلام ہر گز نہ نکالیگا اُس کتاب کومینے بھی دیکھا ہے اُسکے مؤلف نے محض دنیا سازی کر کے روپیہ کمانے کی تدبیر نکالی ہے اور اُسکا وہ لمبا چوڑا نام تکمیل الادیان بالاحکام القران کچھ اس گپ سے کم نہیں ہے جیسا کہ امام دہلی کا معیار کی نسبت یہہ لکھنا کہ اس کتاب سے تمام جہاں کے پادری ہار جاتے ہیں۔

میں نے اس آئینہ اسلام کا جواب لکھا ہے انشاءاﷲ جلد ہدیہ احباب کرونگا مگر آپ کیونکر اُس کتاب کی رو سے قرآن کو مکمل انجیل کہتے ہیں۔

انجیل تو الہام الہیٰ ہے اور قرآن الہام و جالی کیونکہ مؤلف آئینہ اسلام محمد صاحب کو جمان کا سردار ٹھہراتے ہیں جسکی نسبت میسح نے پیشین گوئی کی تھی دیکھو صفحہ دس (۱۰) حاشیہ ۱ کا آخر مگر انجیل جہان کا سردار تعب شیطان لعلٔین کا بتلاتی ہے بس اُسکی تعلیم الہیٰ تعلیم کی کیونکر مکمل ٹھہرسکیگی شور صاحب آپکا یہہ شور مچانا عبث ہے۔

ہندوستان کا قومی کبیر ہ گناہ بُت پرستی ہے کو ئی شے انسان کی روحانی طاقتوں کو اُس سے بڑھکر بگاڑنے والی نہیں ہے۔ بُت پرستی صرف یہی نہیں ہے کہ اپنے ہاتھ کی بنائی ہوئی مورتوں یا اجرام فلکی یعنے سورج چاند اور سیاروں کی پوجا کی جاوے یا مرُدہ قبروں اور خانقاہوں کے آگے سجدہ کر کے اُنسے مرُادیں مانگی جاویں بلکہ یہہ لفظ اور بہت سی باتوں پر حاوی ہے جو سب کی سب خدا کی نظر میں گناہ ہیں۔ گناہ کے کام کو خواہ وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو دلسے پیار کرنا اُس سے خط اُٹھانیکا ارادہ کرنا یا اُس سے کسی بہتری کی اُمید رکھنا بُت پرستی ہے۔ کسی مخلوق کو خواہ وہ کیسا ہی اشرف اور افضل کیوں نہ ہو خدا کے برابر پیار کرنا اور اُسپر بھروسہ کرنا ُبت پرستی ہے۔ کو ئی چیز جو خدا کی مخالفت میں ہو مثلاً دہریت الحا د اور بیدینی ایک قسم کی بتُ پرستی ہے۔ مغرور اور شیخی باز آدمی خود اپنا بتُ ہے وہ گویا آپ اپنی پرستش کرتا ہے اور دوسروں سے امید رکھتا ہے کہ وہ بھی مجھکو پوجیں ۔ خود پسند اور نفس پرور آدمی اوروں کی تحسین اور آفرین کو اپنا بتُ بناتا ہے اور خوشامدی اُسکو جسکی خوشامد کرتا ہے۔ کینہ پرور خدا کے ہاتھ سے انصاف کی تلوار چھیننے کی کوشش کرتا ہے۔ لالچی اور دولت کا بندہ دولت کو اپنا معبود سمجھتا ہے اُسیکو پیار کرتا ہے اور اسی سے سچی خوشی حاصل کرنیکی امید رکھتا ہے۔ شہوت پرست ایسی مغلظ مخلوق کو اپنی دیویاں بناتا ہے کہ جنکی غلاظت کا کچھ حد ٹھکانا نہیں۔ حد سے زیادہ متقد چیلے اپنے گردوں کو حد سے زیادہ پیار کت نیوالے والدین اپنی اولاد کو زن مرید شوہر اپنی چاہتی بیبیوں کو اپنے اپنے بت بنانے اور اُنہیں کی پرستش کرتے ہیں۔ انسانی دلسے کو ئی خیال پیدا کرنا اور اُسکو آسمانی مزہب جتانا یا اپنی عقل پر بھروسہ کر کے اُس خدا کا خیال اپنی طبیعت کے مطابق اخز کرنا زرا کی نظر میں ایسا ہی بد ہے جیسا بتخانونمیں بتونکا قائم کرنا کیونکہ ایسا خیال ہماری روحانی طاقتوں اور لیاقتوں کو جو خالق نے ہماری بہتری کے لیے ہم میں مخلوق کی ہیں بالکل بگاڑنا اور زلیل بنا دینا ہے غرض جو چیز زات میں یا صفات میں خدا کے بر بر مانی جاوے یا اُسکی پیدا کی ہوئی چیزونکو خود ہی مانا جاوے یا اُسکے خاص استحقاق یعنے کامل پیا ر شکرگزاری عزت اور پرستش میں کسی دوسرے کو شریک ٹھہرایا جاوے وہ سب بتُ پرستی میں داخل ہے۔ خدا اپنی زات اور صفات میں غیر محدود ہے اُسکو کسی محدود منشا بہت سے تشبیہ دینا گویا اُسکے پاک نام کی تحقیر اور بیعزتی کرنا ہے اور یہہ انسان کا سب سے بھاری خطا ہے۔ کامل نقش پاپوں مصور اگر بہت کوشش کرے تو انسان کی محض بیرونی صورت کی تصویر کھینچ سکتا ہے اور اُسکی روح کی طاقتوں اور خوبیوں کو کسیطرح نہیں دکھا سکتا پھر عجیب نہیں وہ لوگ جو اُن دیکھے خدا کیصورت کو ایسی مورتونمیں جو محض مٹی اور پتھر یا دیگر فانی مادوں سے تیار کیجاتی ہیں صحیح مانتے ہیں اور انکی پوجا کرتے ہیں۔ سچا الہامی مزہب خدا کی شکل کو کسی صورت یا کسی صورت میں بنانیکی کو شش کو شخت گناہ ٹھہراتا ہے اور کسی مخلوق یا بُت یا مورت کی پر ستش کو بڑی شدومد سے روکتا ہے۔ خدا کا حکم ہے کہ تو اپنے لیے کوئی تراشی ہوئی مورت یا کسی چیز کی صورت جو آسمان پر ہے یا نیچے زمین پر یا پانی میں زمین کے نیچے ہے مت بنا۔ مسیح جو اس دنیا میں بتُ پر ستی مٹانے اور سچے واحد خدا کی پر ستش قائم کر نیکے لیے آیا تھا یوں فر ماتا ہے کہ خدا روح ہے اور اسکے پر ستارون کا فرض ہے کہ روح اور راستی سے پر ستش کریں۔

تاریخ سے ثابت ہے کہ بت پرستی نے انسان کی اخلاقی عقلی اور روحانی طبیعت کو بہت سے نقصان پہنچایا ہے اوسکو انسانی تہذیب روحانی طاقت اور اخلاق کی اعلیٰ خوبیوں کو حاصل کرنے سے بالکل روکدیا ہے اورا ُسکو سچے مذہب سے بٹکا کر گویا انسانیت سے بہت دور پھینک دیا ہے۔ بتُ پرستی قوم جہالت کی زلت سے تہزیب کے اعلیٰ درجہ اور خلاق عظمت پر کبھی نہیں پہنچی بحر اُس کے کہ بُت پرستی کی رسمونکے مخالف کو ئی مخفی فعل یا سبب اُسمیں کام کر رہا ہو۔ ہندوستان میں ویدوں کے زمانہ کے لوگ جسکو تین ہزار بر س گزر چکے ہیں واحد خدا کے قائل تھے گو سورج اور ستارونکو جو اُسکی عظمت اور قدرت کے نشان ہیں اُسکا مظہر مانتے تھے لیکن اُنکی اولاد اجرام فلکی کی پر ستش کرتے کرتے عنصروں تک پہنچے اور عنصروں سے نامی اور بہادر آدمیوں کی روحوں اور تمام قسم کی حیوانی اور خیالی مخلوقات کی پوجا کرنے لگ گئے یہانتک کہ دیوی اور دیوتونکی تعداد ۳۳ ۔ کروڑ تک پہنچا دی اور بُت پر ستی میں ایسے محو ہوئے کہ خدائے واحد کا خیال تک بھی دلسے اُٹھا دیا یہہ زلیل اور پست حالت جو ہندوستانکی اب ہے ایک قوم ہمدرد کے لیے نہایت افسوس بلکہ رونے کا مقام ہے۔

اخیر میں ہم اپنے تعلیم یافتہ ہمو طنونکو یاد دلاتے ہیں کہ ج منصب اور عزت انہوں نے حاصل کی ہے اُسکے ساتھ ایک بڑی زمہ داری شامل ہے اُنکا فرض ہے کہ علم کی برکت سے جو خدا نے انکو عطا کی ہے نہ صرف آپ فائیدہ اُٹھائیں بلکہ اپنے جاہل ہموطنوں کو جو ابتک تاریکی کے غار میں پڑے ہوئے ہیں مستفیض کریں۔ یہہ ملک اُنکے باپ دادا کا وطن ہے یہہ اُنکی ولادت اور بودوباش کی جگہ ہے حب الوطنی اسی امر کی متقاضی ہے کہ وہ علمیت کی روشنی سے اپنے ملک کی بتُ پرستی کو معدوم کریں بت پر ستی کی رسم رسوم کو خود چھوڑیں اور اپنے ہموطنوں سے چھوڑائیں اپنا عالمانہ رعب اپنے جاہل بہن بھائیوں پر جما دیں اور بت پرستی کا ہر ایک نشان جو خدا کی نظر میں سخت نفرت انگیز ہے اپنے ملک کی سر زمین سے مٹائیں اور اگر وہ اس فرض کے ادا کر نے میں غفلت کر ینگے تو یقین جانیں کہ خدائے واحد کی نظر میں سخت سزاوار ٹھہر ینگے ۔ ہمارا کام آگاہ کردینا ہے۔ ہر سولاں بلاغ باشد و بس۔

Pages