عیسی

Jesus
Turkish Woman Weaving

امر تحقیقی

جناب مسیح موازانہ محمد عربی

میر عالم خان

Jesus vs Muhammad


Published in Nur-i-Afshan August 23, 1895
By
Mir Alam Khan


اکثر مسیحی مناّدوں سے غیر مزہبوں کے سایل ایسے  سوالات  کرتے ہیں کہ جن کے جواب دینے میں دربار مسایل  دین کے وہ خود عاجز  و پریشان  ہین کیونکہ دینی خواہو دنیاوی  تواریخ  کے گزشتہ  واقعات  کو ثابت  کرنے خواہ اُس سے کوئی معقول نتیجہ نکالنے  کے لئے ہر ایک اہل مذہب  کے ساتھ  میں اُنکی مقدّس کتاب کے ورقوں کے سوِا امر زیر بحث  کو سند یا غیر سند مان لینے کے لئے ظاہر ۱ً کوئی اور چیز زیادہ قابل  اعتبار نہیں ہے۔  چہ جائیکہ  ہماری الہامی  کتاب انجیل کی بابت خاصکر  اہل اسلام ہم سے تو باوجو د تسلیم کرنے قرآنی  سند کے’’کہ انجیل میں ہدایت و نور ہے‘‘۔ اُن کے کسی سوال کے انجیل سے جواب دینے پر ناک چڑہاتے  ہیں اور خود برعکس  اُس کے اپنی  دینی باتوں  کو بے سرو پاقصےّ کہانیوں سے گویا   ثابت کر کے پھولے نہیں سماتے۔

اس لئے میں  نے اپنی  اسٹڈی کے وقت سے کچھ  گنجایش  کر کے ایک امر تحقیقی  پر محض  قرآن  و انجیل  سے مسند مانکر غور کی ہے اور بے تعصب  و دور اندیش و دقیقہ  شناس  صاحبان  کی نظر  انصاف  کے سامنے  اُسے پیش کیا ہے۔ 

جس سے سچ سچ و جھوٹ جھوٹ بزاتہ  محض  انجیل و قرآن  کے مضامین  سے صاف ساف  ظاہر و ہو یدا ہیں۔

وہوہزا:

خدا کے پیغام  رسانوں کی حقارت  و زلت  و مرسل و انبیا کی زد و کوب  و قتل کا وہاں والوں کی طرف سے جن کے پاس وہ بھیجے گئے وقوع میں آنا نہ صرف انجیل ہی میں بیان  ہواہے کہ بلکہ متکلم کلام قرآن  نے مخالفوؓ کے قول و فعل سے ایذا  پہنچنے  کو محمد صاحب و خود  کلامِ قرآن  کے حق میں اپنی  صداقت  بیانی کا اعتبار  جسمانی  کی غرض سے بار بار  فخریہ ظاہر کیا ہے اور ایسے  بیان سے اپنے حق میں  یہ فائدہ مرتب  سمجھا  ہے کہ محمد صا حب  بھی گویا مثل  انبیا  ء سابقین  ستائے گئے اور لوگوں  سے دُکھ اُٹھانے  کے متحمل  ہوئے ہیں لیکن اس پہلو پر نظر نہیں  کی کہ محض دُکھ اُٹھانا ہی حقیقت کی دلیل نہیں ہے بلکہ بھلا کر کے دُکھ  اُٹھانے سے برکت  ملتی ہے نہ کہ ایذا رسانی  کے عیوض ایذا سہنا  برکت  کا باعث  ہو سکتا ہے اور نیز وہ بیان  جو محض  قرآن کے ضمن یا قرآن   کے مخالفوں و غیر   مخالفوں کی طرف سےمحمد صاحب و قرآن کےحق میں قرآن ہی سے ہوا ہے اُس سے اسبات  کا کہ  محمد صاحب  حق پر تھے یا قرآن  کلام  حق  تھا اور مخالف لوگ ناحق  کہتے تھے زرا  بھی  ایما پایا  نہیں جاتا  گو کہ قرآن  نے اُن کے مخالفانہ کلام  کی طرح    بہ طرح لزوید کی ہے اور درجّنوں کا قرآن پر ایمان  لانا بتلایا ہے برعکس اس کے یسوع المسیح واُس  کے کلام کی نسبت  جو کچھ مخالفوںو غیر مخالفوں نے  بہ کلمات  حقارت  یا ٹھٹھے  کے طور پر وغیرہ  کہا ہے خود ضمن  انجیل  و مخالفوں کے بے ساختہ کلمات سے یسوع  مسیح کی  حقیقت پر دال ہے اور اُس سے تمسّخر و حقارت  کے باوجود  اور اُس کے ساتھ ہی مسیح کی اعلیٰ صداقتیں و حقیقتیں  منکشف ہوتی ہیں جس سےاُس کا نہ صرف  بھلا کر کے دُکھ اُٹھانا  ظاہر  ہوتا ہے بلکہ  نظر   بر پہلو حقیقت واقعی  کے مخالفانہ  بے ساختہ کلمات سے شہادت برحق عیاں  ہوتی ہے لہذا حوالحجات زیل  پر راستی پسند  صاحبان  غور کریں اور راہ حق و  زندگی کی پہچان حاصل  کر کے اُس پر جو حق  ہے ایمان لاویں اور نا حق  کو  چھوڑ دیویں۔ آمین  ۔

قرآن
محمد عربی

قرآن سے جب محمد کود یکھتے ہیں ٹھٹھ ہی کرتے ہیں سورہ فرقان  آیت ۴۳۔

محمد کوئی نئی بات نہیں لایا۔ سورۃمومنوں آیت  ۷۰۔

محمد کو کوئی آدمی قرآن  سکھلاتا  ہے سورہ ہے  سورہ  نحل ۱۰۵۔

محمد معلم  دیوانہ ہے ( یعنے تعلیم یافتہ  دیوانہ) دخان ۱۳۔

لوگ محمد  کی نسبت حوادث زمانہ کی انتظار کر رہے تھے سورہ طور آیت ۳۰۔

اگر محمد از خود قرآن بنالاتا  تو خدا اُس کی گردن  کاٹ ڈالتا  سورہ حاقہ آیت ۴۳ سے ۴۹ تک۔

محمد پاک کتابیں پڑہا  کرتا ہے بتینہ ۲۰۔ 

قرآن

بتوک کی راہ  مجاہدین  قرآن پر ہنستے تھے توبہ ۶۶، ۶۷۔

اجلاس کا قول قرآن کی نسبت توبہ  ۵۷ سے ۶۷۔

کسی کا ایمان بڑہا۔ توبہ ۱۲۵۔ ۱۲۸۔

کہانیاں ہیں، نحل ۲۶۔

ٹھٹھہ سورہ  نِسا۔ آیت  ۱۳۹ ۔

کیوں کوئی آیت نہیں بنائی؟ اعراف ۳۰۳۔

 

اِنجیل
یسوع مسیح

۱۔ وہ بھیڑ اُس کی تعلیم سے دنگ ہوئی کیونکہ وہ فقیہوں کی مانند نہیں  بلکہ اختیار  والے  کے طور  پر سکھلاتا تھا  متی ۷۔ ۱۹۔

۲۔ پیادوں نے جواب دیاکہ ہر گز کسی شخص  نے اِس آدمی کی مانند کلام نہین کیا یوحنا ۷۔ ۴۶۔

۳۔ جب اُن جماعتوں  نے دیکھا کہ گونگے بولتے اور ٹنڈےتندرست  ہوتے لنگڑے  چلتے اور اندھے  دیکھتے  تو تعجب  کیا اور اسرائیل  کے خداوند کی ستایش کی متی ۱۵۔ ۳۱۔

۴۔ نہایت حیران ہو کے کہا کہ اُس نے سب کچھ  اچھا کیا کہ بہروں کو سننے کی اور گونگوں  کو بولنے  کی طاقت  دیتا  ہے۔ مرقس ۷۔ ۳۷۔ 

۵۔ کلمات  حقاؔرت  جس سے اعلیٰ حقیقت  کی شہادت ملتی  ہے یعنے  گنہگاروں کا یار۔ متی ۱۱۔ ۱۹۔

۶۔ لو گ تعجب کر کے کہنے لگے کہ یہ کس طرھ کا آدمی ہے کہ ہوا اور دریا بھی اُس کی مانتے ہیں۔ متی ۸۔ ۷۲

۷۔ تب لوگوں نے یہ دیکھکر  تعجب  کیا اور خدا کی تعریف کرنے لگے کہ ایسی  قدرت انسان کو بخشی متی ۸۔۸۔

۸۔ اُنہوں نے جو کشتی  پرتھے آکے اُسے سجدہ  کر کے  کہا تو سچ مچ خدا کا بیٹا  ہے۔ متی ۱۴۔ ۳۳۔

 

عیسیٰ کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں

Son of God


Published in Nur-i-Afshan September 13, 1895
By G. H. Daniel


یہ سچ ہے کہ عیسائی  خداوند عیسیٰ مسیح کو خدا کا بیٹا کہتے اور اس کہنے پر محمدی بہت تکرار کرتے اور لڑتے ہیں۔ کہ جو کہے کہ مسیح خدا  کا بیٹا  ہے سو کافر ہے۔  بلکہ اگر اُن کو کچھ قدرت  ہوتو جان سے بھی مار ڈالنے پر  آمادہ ہیں جیسے کہ خود  محمد صاحب اور اُن کے خلیفوں کے زمانے میں ہوا۔ پر جو  شخص جس کتاب کو الہامی اور خدا کی جانتا اُسے مناسب ہے کہ اس کتاب کے موافق کہے  چنانچہ محمدی قرآن کے مطابق  دین کی بابت کلام کرتے ہیں اور جو کوئی اُس کے موافق  نہیں کہتا تو وہ سچا محمدی  نہیں مگر ہم سب انجیل مقدس  پر ایمان لائے ہیں کہ وہ اﷲ کا کلام ہے۔ اس لئے جیسا  اُس میں پاتے ہیں ویسی ہی گواہی دیتے ہیں۔ کتاب کی بابت ہر ایک کو تحقیق اور دریافت کرنا واجب ہے۔ کہ وہ کتاب خدا کا کلام ہے کہ نہیں۔ اگر دلیلیوں سے چابت ہو کہ وہ خدا کی کتاب ہے تو یہ درست ہے۔ کہ جو بات اُس میں پاوے اُس  پر یقین لاوے۔ اور اُس کے موافق کہے۔ پس انجیل شریف کےحق میں ۔ جو ہم نے دریافت اور تحقیق کیا یقین جانتےہیں کہ وہ بیشک آسمانی کتاب اور خدا کا کلام ہے۔ اور اُس میں صاف لکھا ہے کہ مسیح خدا کا بیٹا کہلاتا ہے کیونکہ فرشتے نے اُس کی والدہ بیبی مریم صاحبہ سے کہا کہ وہ بزرگ ہوگا۔  اور خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلائیگا۔ اور پھر کہا کہ وہ پاک لڑکا جو تجھ  سے پیدا ہوگا۔ خدا کا بیٹا کہلائیگا۔ دیکھو لوقا کی انجیل  ۱: ۳۲، ۳۵ اور خدا نے خود اُسے بیٹا کہا چنانچہ متی ۲: ۱۶، ۱۷۔ اور دیکھو آسمان سے ایک آواز آئی کہ یہ میرا پیارا  بیٹا  ہے جس سےمیں خوش ہوں۔دوسرے مقام پر کہ میرا پیارا بیٹا ہے اُسکی سنوُ۔ لوقا ۹: ۳۵ اور پطرس ۱: ۱۶: ۱۷۔ یسوع نے بھی خدا کو اکثر اپنا باپ کہا ہے۔ سردار کاہن نے اُس سے پوچھاکیا تو مسیح اُس مبارک کا بیتا ہے اُس نے جواب دیا ( میں وہی ہوں ) مرقس ۱۴: ۶۱۔ ۶۲ پس ظاہر ہے کہ انجیل میں ابتدا سے انتہا تک  مسیح کو خدا کا بیتا لکھا ہے پھر ہم کون ہین جو کہیں کہ یہ غلط  ہے کیا انجیل کے لکھنے والوں اور خدا سے جس نے اُس کی معرفت اپنی مرضی طاہر کی۔ اس راز سے ہم زیادہ واقف ہیں اب ہم دریافت کریں کہ سید صاحب  کا دوسرا  دعویٰ کہا تک سچ ٹھہرسکتا ہے۔ یا نہیں۔ اس دعویٰ کی تردید میں ہم قرآن  ہی سے دلیلیں پیش کرتے ہیں قرآن سے صاف ظاہر ہے کہ محمد صاحب  کے وقت توریت  اور انجیل کے صحیح نسخے موجود تھے۔ یہ بات زیل کی دلیل سے ثابت ہوتی ہے۔  

(۱ ) محمد صاحب کے دنوں میں یہودی توریت صحیح کو سُنا کرتے تھے چنانچہ سورہ بقر رکوع ۹ میں لکھا ہے کہ یعنے اب کیا تم مسلمان توقع رکھتے ہو کہ وہ مانے تمہاری بات کہ الخ پھر سورہ بقر رکوع ۱۴ میں یہ مرقوم ہے یعنے یہود نے کہا نہین نصارا کچھ راہ پر اور کہا نسارا نے نہین یہود کچھ راہ پر اور وے سب  پڑھتے ہیں کتاب وغیرہ۔ اِن آیتوں سے ظاہر ہے کہ وہ کتاب جو قرآن  میں کلام  خدا کہلاتی ہے۔ پڑھی اور سنُی جاتی  تھی۔ اگر کوئی کہے کہ محمد صاحب کے بعد یہ نوشتے  بگڑ گئے۔  تو محمدی  لوگ خود اسبات کے زمہ دار ہوں گے۔ کیونکہ  صحیح نسخےکثرت  سے انکے ہاتھ میں آگئے تھے۔ لیکن ایسا نہو ہوا۔ کیونکہ (۱ ) بائیبل کے نسخے اس وقتموجود ہیں  جو محمد صاحب کے مدت پیشتر  لکھے گئے۔ مثلاً کوڈکس سے نائیٹکس تیسری صدی  کا اور کوڈکس نپرا چوتھی صدی کا موجود ہیں وغیرہ۔

( ۲) بائبل  کے ترجمے بھی موجود ہین جومحمد صاحبکے پیشتر رایج تھےْ جیسا کہ پشتو سریانی زبان  کا جو پہلی  صدی  عیسوی میں کیا گیا موجود ہے۔  وغیرہ پھر ( ۳) بائبل کی اقتباس  کی ہوئی آیتیں کثرت کے ساتھ قدیم تصنیفات میں پائی جاتی ہیں۔ پس ان کتابوں کے وسیلے سے یہ بات اچھی طرح سے ثابت ہو سکتی ہے کہ حال کے نسخے انجیل شریف کے قدیم نسخوں کے ساتھ ملتے ہیں اور کہ وے تحریف  شدہ نہیں ہیں۔ اسبات کے بارہ  میں ہمکو یاد کرنا چاہئے کہ کلام کی ہر قسم کی عبارت منسوخ ہو سکتی مثلاًوے  آیتیں جو خدا کی پاک زات و صفات کو بیان کرتی ہیں یا وے جو تواریخی  وارداتوں کی خبر  دیتی ہیں یا وے جو پیشین گوئیوں کا زکر کرتیہین  یا وے جو انسان کی بدحالت اور اس سے نجات پانیکی تجویز  کو پیش کرتی ہیں یہ سب آیتیںمنسوخ ہونے والی نہیں ہیں۔ اور بائبل کی اکثر  عبارت اس ہی قسم کی ہے۔ پس صاف  ظاہر ہے  بائبل کے نوشتے صحیح ہیں۔ اور کہ وہ محمد یونکے خیال موافق منسوخ نہ ہوئے۔ ہاں ہم اتنا جانتے ہیں کہ قرآن میں صدہا آیتیں ناسخ منسوخ  کی پائی جاتی ہیں۔ کیونکہ وہ انسانی کلام ہے۔

جی ۔ایچ ۔ ڈانیل 

مسیح ابنُ اﷲ

Jesus, Son of God


Published in Nur-i-Afshan June 28, 1895
By Chandar Ghus


مسیح خدا کا  بیٹا ہے۔ جو شخص یہ نہیں مانتا وہ مسیحی نہیں۔ لیکن کیا  خدا بھی آدمیوں کی طرح بیٹے بیٹیاں جنتا ہے اس کا جواب زرہ مشکل ہے۔ اور اکثر  دیکھا جاتا ہے کہ ہمارے اس مسئلہ پر غیر اقوام  برُا ٹھٹھا کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ جبتک   مسیحی مذہب  میں ایسی لڑکپن اور کم عقلی کی باتیں پائی  جاتی ہیں تب تک  زی عقل  لوگ  اس مذہب کو قبول  نہ کریں گے۔ اب ہم زرہ دیکھیں  کہ آیا  یہ مسئلہ  فی الحقیقت  کم عقل اور لڑکپن  کا نتیجہ  ہے یا  نہیں۔

(۱ ) لفظ  بیٹے سے کیا مراد ہے۔ عام محاورہ  میں جب زید بکر کے تخم سے پیدا ہو تو کہتے ہیں کہ زید بکر کا بیٹا  ہے اس کا مطلب یہ ہے زید کے جسم اور حضایل اور دیگر انسانی صفات اور لوازمات کا ما خز بکر ہے۔ اور جس قدر زید زیادہ  زیادہ  اپنے  والد  بکر کے قد اور اندازے کو پہنچتا جاتا  ہے اس قدر ہم کہتے ہیں زید کی ابنیت  پوری ہوتی جاتی ہے۔  اور جب زید بالغ ہو کر  اپنے والد  کے قد اور صورت اور علم اور عقل کو پہنچ گیا  تو ہم کہتے ہیں کہ فی الحقیقت  یہ بکر کا بیٹا ہے۔ لیکن فرض کرو زید بکر کے تخم  سے تو پیدا ہوا لیکن بڑا ہو کر اس کی صورت شکل اس کا قد اور خصلت بالکل بکر کے خلاف ہوئی اور جس حال کہ بکر رو عالم خوبصورت اور زی عزت  آدمی تھا لیکن زید نے اپنی عمر کا کاتمہ قید خانہ میں کیا کہیں گے کہ اگرچہ یہ شخص بکر کے تخم سے تو تھا تاہم جس قدر وہ بڑا  ہو کر اپنے باپ سے متفرق ہوتا گیا اُسی قدر اس کی انبیت بھی باطل ہوتی گئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہم آدمیوں کے درمیان انبیت  کے قایم  کرنے کے لئے صرف جسمانی  تخم  ہی کافی نہیں بلکہ اس سے بڑھکر  ایک اور شے ہے جس کو روحانی  تخم   کہ سکتے ہیں۔ اور اس سے بڑھکر یہ کہ ہم آدمیوں کے نزدیک  بھی جسمانی تخم  اس قدر ضروری نہیں سمجھا جاتا جس قدر روحانی  تخم  ہے چنانچہ اس کے ثبوت  مین اس امر پر غور کرو کہ برُے بیٹے  سے اچھا نوکر بہتر سمجھا جاتا ہے۔ یعنے وہ نوکر جو اپنے آقا کی خصلت روحانیت اور تعلیم  کا اثر  اپنے دل پر ہونے دیتا ہے  ( یعنے جو گویا اپنے آقا  کے روحانی  تخم  کو قبول کرتا ہے) اس بیٹے سے جو اپنے باپ سے تو پیدا ہوا لیکن خصلت میں اپنے باپ سے بالکل جدا بلکہ خلاف ہے اپنے آقائے کا بیٹا سمجھا  جاوے گا باوجود اس امر کے کہ اُس کی پیدایش کسی اور کے زریعہ سے ہوئی۔

(۲ )  اب ہم ایک قدم آگے بڑھیں۔ یہ روحانی  تخم  کس طرح سے ظاہر ہو سکتا  ہے اس کے ظہور کا فقط ایک ہی وسیلہ ہے یعنے آدمی کا کلام ۔ بالکل جسمانی تخم  تو بیٹے کو جسمانی طور پر دیا جاتا ہے۔لیکن روحانی تخم کلام  کے زریعہ  سے پہنچتا ہے۔ اور اگر کسی شخص میں یہ طاقت ہو کہ اپنی مصنفہ کتابوں اور مضامین کو انسانی صورت  میں لکھے یعنے اپنے   زہنی  خیالات کو جو بذریعہ کلام ظہور پاتے ہیں مجسّم کر کے انسانی صورتوں میں دکھاوے تو یہ سب اس کے بیٹے  اور بیٹیاں  کہلانیکے مستحق ہوں گے۔  پس کلام روحانی  تخم  ہے اور اگر بکر کا کلام مجسّم کیا جاوے اور اس میں بکر کی سی جان ڈالی  جاوے اور اُس کا نام زید رکھا جاوے تو یہ زید بکر کا بیٹا  کہلاویگا  خواہ اس زید کے جسم کے پیدا کرنے میں بکر نے کچھ کام نہ کیا ہو۔ چونکہ زید میں بکر کا کلام مجّسم ہوا اس لئے زید بکر کا بیٹا ہے۔

(۳ )مقدّس یوحنا  خداوند مسیح کے شاگردوں میں سب سے گہرے عقل رکھتے تھے اور اُن کو خداوند مسیح سے خاص محبت  تھی چنانچہ وہ اپنی انجیل میں اپنا نام نہیں لکھتے بلکہ اپنا زکر اسطرھ کرتے ہیں کہ وہ شاگرد جسے خدواند  پیار کرتا تھا۔ وہ اپنی انجیل کے شروع ہی میں مسیح کی بابت لکھتے ہیں کہ اِبتدا میں کلام  تھا۔ وغیرہ مسیح کی ابنیت کا فقط اسی بات پر انحصار  ہے کہ وہ کلمتہ اﷲ تھا۔ لیکن یہاں ایک بات یاد رکھنا چاہئے۔ انسان کا کلام  تو ایسا ہے کہ منُہ سے نکلا  اور ختم ہوا۔ لیکن خدا کا کلام ایسا  نہیں۔ وہ اپنے میں وہی الہیٰ زندگی رکھتا ہے جس زندگی  سے خدا خود  زندہ ہے۔ یعنے خدا کا کلام  خود ایک خدا ہے اور پاک تثلیث میں اقنوم ثانی کا مرتبہ رکھتا ہے۔ وہ ایسا نہین کہ پورے طور  پر ایک بیجان کتاب کے زریعہ سے  دنیا میں ظہور پاسکے  بلکہ وہ دنیا میں انسانی  صورت میں مجسم ہوئے بغیر اپنا پورا ظہور ہم کو نہ دے سکتا تھا۔ اِبتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ  تھا اور کلام خدا تھا سب چیزیں اُس سے پیدا ہوئیں اور کلام مجسمّ ہوا  خدا کا کلام مثل خدا کے ایک علیحدہ شخصیت  رکھتا  ہے۔ وہ خدا ہے اور خدا کے ساتھ ہے۔ اور بحیثیت کلام ہونے کے خدا کا بیٹا یعنے ابن وحید  ہے۔ یہی کلام بزریعہ  کنوری مریم  مجسم  ہوا اور مسیح  اور عیسیٰ کہلایا اور اس کو ہم مسیحی مسیح خدا کا بیٹا کہرتے ہیں شاید اتنا تو ثابت ہوا کہ جب کوئی مسیحی مسیح کو خدا کا بیٹا کہتا ہے تو وہ کوئی ایسی بیہودہ بات  نہیں کہتا جو قابل مضحکہ ہو۔ بلکہ یہ ایک بڑا عظیم الشان اور عمیق مسئلہ ہے۔ اور اس پر فقط شیطان الرّحیم  ہنس سکتا ہے۔

( ۴ ) ابنیت  مسیح پر اہل اسلام بہت ہنستے  ہیں اور لم یلد ولم یولد کا مقولہ  پیش کرتے ہیں۔ ہم یہاں ثابت کریں گے کہ محمد صاحب  نے قرآن میں بڑی غلطی  کی ہے یعنے جب وہ مسیح  کا کلمتہ اﷲ اور روح اﷲ مان چکے تھے تو اُن  کا کچھ حق نہ تھا کہ قرآن  میں لم یلد ولم یولد کے الفاظ داخل کرتے۔ یا وہ  تولد کے ان حقیقی اور گہرے معنوں سے واقف نہ تھے جو ہم نے اوپر بیان کئے ہیں۔  

قرآن  اِس با کا اقراری ہے کہ مسیح کلمتہ اﷲ تھے۔  لیکن کلمتہ اﷲ کسے کہتے ہیں۔ اس بات کے تو سب اقراری  ہیں کہ دنیا میں جو چیز  ہے وہ خدا   کے کلام سے پیدا ہوئی ہے گویا دنُیا میں ہر شے  خدا کے کلام کا ظہور ہے۔ اور اگر اس کے مطابق جب قرآن نے عیسیٰ کا کلمتہ اﷲ کہا اور اِس سے فقط یہی مراد رکھی  کہ اور آدمیوں اور نبیوں اور چیزوں کی طرح  وہ خدا کے کلام کے زریعہ سے پیدا ہوئے تو یاد رہے جو خاص خطاب یا القاب انبیا  سابقین میں سے چند کو دے گئے ان میں کسی نہ کسی خاص  کی طرف  اشارہ تھا۔ یہ تو ہو نہیں سکتا  کہ خدا  کسی نبی کو ئی خطاب  دیوے اور اس خطاب میں کوئی خاص بھید  اور معنے نہوں۔ ابراھیم خلیل اﷲ کہلائے یوں  تو ہزاروں آدمی خدا سے محبت رکھنے والے تھے اور میں توکیا  سب خلیل اﷲہیں۔ موسیٰ کلیم اﷲ کہلائے۔ یوں ساری دنیا بزریعہ دعا اور تلاوت  کلام ربّانی خدا سے باتیں کرتی ہے تو کیا سب کلیم اﷲ ہیں۔ ہر گز نہیں۔ ابراہیم  کو کوئی خاص محبّت خدا سے تھی جس کے باعث   اُس کی ساری تسلیّ مخصوص ہو گئی موسیٰ کے تکلم  میں کوئی خاص راز تھا جس کے باعث وہ کلیم اﷲ کہلائے تو  کیا جب عیسیٰ کلمتہ اﷲ کہلائے تو اس میں کوئی راز نہیں یوں تو پھّتر  بھی خدا کے کلام سے پیدا ہوئے  ہیں تو کیا پتّھر بھی کلمتہ اﷲ ہیں۔ سب انسان خدا کی کلام سے پیدا ہوئے تو کیا وہ سب کلمتہ اﷲ ہیں۔ ہر گز نہیں  کلمتہ اﷲ کہلانیکا وہی باعث ہے جو یوحنا نے بیان کیا ہے یعنے اِبتدا میں کلام  تھا وغیرہ پس قرآن  سے بھی ابنیت  مسیح ثابت ہوئی ہے اور اشارہ کے طور  پر الوہیت مسیح بھی چابت ہوتی ہے۔ کیونکہ خدا کا کلام خدائی  کا درجہ رکھتا ہے۔

چندر گھوش

Pages