October 2016

حِیَات ابدی

Eternal Life

Published in Nur-i-Afshan May 11, 1894

حیات ابدی یہ ہے کہ وہ تجھے  اکیلا  سچّا خدا اور یسوع مسیح کو  جسے  تو نے  بھیجا ہے۔ جانیں۔ یوحنا ۱۷۔ ۳۔

حیات ابدی یہ ہے کہ وہ تجھے اکیلا سچّا خدا اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا ہے۔ جانیں۔ یوحنا ۱۷۔ ۳۔ دارین میں حیات ابدی ایک ایسی چیز ہے جس کےبرابر کو ئی دینی و دنیوی نعمت ہو نہیں سکتی ۔ مگر افسوس ہے۔ کہ مغلوب المعصیت انسان اُس کے تلاش و حصول میں یا تو بالکل غافل و بے پروا پایا جاتا ہے۔ یا اگر اس کی کچھ خواہش ہے بھی تو اُن وسایل اور طریقوں سے اُس کو حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ جو محض انسانی ایجاد ہیں۔ انسانی روح کا یہ تقاضا کہ وہ حیات ابدی کو حاصل کو حاصل کرے۔ باوجود دنیوی آرایشوں میں مبتلا ہو جانے کے بالکل معدوم نہیں ہوا۔ بلکہ اِنسان کے ہر ایک خیال و قول و فعل سے ظاہر ہوتا کہ وہ حیات ابدی کا آرزو مند و محتاج ہے۔ یہ ایک ایسی عجیب شے ہے کہ اگرچہ دنیا پرستوں کے نزدیک قابل مضحکہ اور صرف ایک خیال بے حقیقت ہے۔ مگر طالبان حق کے نزدیک دین و دنیا میں اور کو ئی شے اُس سے زیادہ مبارک۔ جلالی اور خوشی بخش نہیں ہے ۔ اسی لئے مرنے والے بنی آدم حیات ابدی حاصل کرنے کے لئے جہاں تک اُن کی دسترس ہے انواع کوششیں کرتے ہیں ۔ مگر نہیں جانتے کہ وہ ’’حیات ابدی یہ ہے‘‘۔ جیسا کہ دنیا کے مرشد کامل نے فرمایا کہ ’’ وہ تجھکو اکیلا سچّا خدا اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا ہے جانیں۔‘‘ اگر کو ئی انسان جو گناہ میں مردہ ہے اور اس دنیا میں گویا زندہ درگور ہے۔ حیات ابدی کا طالب ہو۔ تو وہ صرف اُس کرالم مجسمہ کے قدموں میں آئے۔ جس میں ’’زندگی تھی۔ اور وہ زندگی انسان کا نور تھی ۔ اور تب وہ مسیحی شاعر کے ہم آہنگ ہو کر بدل کہے گا کہ:۔

نہ علم ۔ نہ حکمت۔ نہ ہنُر سے پایا۔ حرفت سے مشُقت سے نیز پایا خم ہو کے جو دیکھا سوئے فردوسفیرہ سیدھا رستہ یسوع کے در سے پایا ۔

ہم کو تعجب معلوم  ہوتا کہ اکثر  ابدی زندگی کے لئے  آبحیات کے طالب  ہو کر مرنے والے ہمجنسوں کے چرن اَمرت۔ اور قدم شریف  کے پانی  سے اپنی سیاسن بجھانا چاہتے ہین۔ اور اُس چشمۂ آبحیات  کے پاس نہیں  آتے۔  جس کی مبارک شان میں مسیحی شاعر نے کہا ہے۔

’’زادی ابر رحمت نے کھڑا ہو کر یہ ہیکل میں۔‘‘

’’کہ آب زندگی دیتا ہوں آئے جس کا جی چاہئے‘‘۔ شاید کو ئی کہہ سکتا  کہ در حالیکہ ۔ مین موّحد ہوں۔

تہیٔسٹ۔ یونیٹیرین ۔ اور محمدی ہوں۔ اور خدا کو اکیلا سچّا خدا جانتا ہوں تو میرے لئے مسیح کے جاننے کی کیا ضرورت ہے۔ ہاں اس قدر جانتا ہوں۔ کہ وہ ایک نبی یا رسول  ایک معنے سے خدا کا بیٹا بھی۔ اور اپنی اُمت کا شفیع ہے۔ لیکن یہ علم نجات بخش نہیں ہو سکتا۔ تاوقتیکہ ہم اُس حقیقت  پر ایمان نہ لائیں۔ جس پر اسی رسول  نے شہادت دہ ہے۔ کہ ’’ہم جانتے ہیں کہ خدا کا بیٹا آیا۔ اور ہمیں یہ سمجھ بخشی۔ کہ اُس کو جو برحق ہے جانیں۔ سو ہم اُس میں جو برحق ہے رہتے  ہیں۔ یعنے اُس کے بیٹے یسوع مسیح  میں۔ خدائے برحق اور یہی حیات ابدی بھی ہے۔ فتامل۔ ۱۔ یوحنا ۵۔ ۲۰۔

دُوسِتَی

باجوہ

Friendship

Published in Nur-i-Afshan August 31, 1894
By Bajwa

کوئی آدمی اِس  دُنیا  میں بمشکل ملے گا جس کے دوست  اور دخن نہ ہوں۔  دوست باہمی ہمدردی اور مدد کے واسطے ضرور ہے۔ اور چونکہ انسان کو خدا تعالی نے مدنی الطبع پیدا کیا؟  اسواسطے بغیر دوستوں  کے وہ رہ نہیں سکتا۔ باہمی ایک دوسرے کی مدد کرنا دوستی کی شرایط میں داخل ہے۔ لیکن بغور دیکھو  تو کسی  کی مدد کرنا دراصل اپنی آپ مدد کرنا ہے۔ کلام الہیٰ میں یونتن ؔ اور داؤد کی دوستی غور طلب ہے۔  آخر الزکر اوّل  الزکر  کے مرنے پر کہتا ہے۔ کہ تیری دوستی مجھ کو عورت  کی دوستی سے زیادہ  تھی۔ لیکن سقراط  کہتا ہے کہ جو محبت عورت  سے ہوتی ہے۔ وہ دراصل  محبت نہیں ہے۔ ہمیشہ کلیات  میں مستثنیات ہو ا  کر تی  ہیں ۔ جب ہمکسی دوستانہ مجلس میں  ہوتے ہیں تو جس  قدر جماعت بڑی ہو اُسی قدر عام طور پر موسم و دستور کی گفتگو رہتی ہے۔ یہی حال دو آدمیوں کی  ابتدائے  ملاقات کا ہوتا ہے۔ مگر حکیم ٹلیؔ  کہتا ہے کہ دوستو خوشیکو بڑہاتی ہے۔ اور مصیبت کو کم کرتی ہے۔  اور لارڈ ؔبیکن  کا قول ہے۔ کہ دوستی کے ہزاروں فواید  کے ساتھ یہ ہے۔ کہ دوست مصیبت کو بھی بانٹ لیتا ہے۔ چلیا کے ایک حکیم کا قول ہے۔ کہ میٹھی  باتوں سے بہت دوست  بن جاتے ہیں۔ اِسواسطے سب سے ملکر رہنا چاہئے۔ اور ایک  کو اپنا صلاح کار بنا رکھا چاہئے  دوستی کے لئے سمجھ واقفیت  و عمر و دولت کی مساوات چاہئے ورنہ دوستی قایم نہ رہی گی۔ چاہئے کہ نیکوں کے ساتھ دوستی ہو۔ کیونکہ کون ایسا شخص ہے جو نیکوں  کی صحبت میں رہکر بڑائی  حاصل نہ  کرے۔ پھولکے پتون پر شبنم کو دیکھو شبنم  کے قطرے چمک میں موتی کو بھی مات کرتے ہیں۔ یہ خوبی اُن مین پھولون کی صحبت اور قرابت  سے آگئی ہے۔ ویسے ہی قطرے زمین پر پڑے تھے جو مٹی میں مل گئے۔ دوستی ہمیشہ جوانی  میں ہوتی ہے۔ جب ہر قسم کا جوش  انسان میں ہوتا ہے۔ اور  دراصل  خفیفی دوست بھی وہی ہوا کرتے ہیں۔  نہ بڑی عمر میں نئے دوست پیدا نہیں ہوتے۔ اور پُرانے دوست بعض اوقات بعض  وجوہات سے ضایع ہو جاتے ہیں۔ نہ اُس کا پیشتر باعث یہ ہے۔ کہ باہم ایک دوسرے  کے عیوب سے آگاہ ہوجاتے  ہیں۔ اور سلوک میں کسی طرح سے کمی ہو جاتی  ہے۔ وقت اور مواقع ایسے  نہیں رہا کرتے۔لیکن اگر کو ئی بھاری سبب نہ ہو تو پھر ملاقات سے وے باہم ویسے ہی خوش ہوتے ہیں۔ ایک دانا کا یہ بھی قول ہے۔  کہ جو دوست کی تلاش کرتا ہے وہ اپنےتکلیف  کو بڑہاتا ہے۔کیونکر اُس کے افکار کا حصہ لینا پڑتا ہے لارڈؔبیکن  یہ بھی کہتا ہے کہ کسی شکص کو پہلےمرتبہ ہی بہت کچھ نہ سمجھ لیا جاوے۔ کیونکہ کوئی شخص اُمید کی مقدار  پوری نہیں کر سکتا۔ وشنو کا لڈ۔ کہتا ہے کہ جس وجہ سے ہم نئے دوستوں کو پسند کرتے ہیں۔  وہ اس قدر ہمارے پہلے دوستوں کی طرف  سے دل برداشتہ ہو جانے۔ یا نئی چیز سے لُطف پیدا ہونے کے خیال سے نہیں۔ جسقدر  اس دلگیری کے باعث  ہے۔  کہ جو اُن لوگون سے حسب  و بخواد تعریف  نہ حاصل کرنے کے سبب سے ہوتی ہے۔ جو ہم کو بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ اور اُن لوگوں سے جو ہم کو ایسی اچھی طرح سے  نہیں جانتے زیادہ تعریف حاصل کرنے کی توقع ہوتی ہے۔ ہم جنس اور ہم خیال میں دوستی  ہوا کرتی ہے۔  کم از کم ایک امر میں مماثلت  چاہئے۔ ورنہ ہر گز دوستی نہ ہوگی۔  مطلب کے دوست دُنیا میں بہت ہوتے۔ جب مطلب  نکل  گیا۔  یا مطلب نہیں ہے۔ یا مطلب نکلنے کی اُمید  نہیں ہے۔  تو وہ دوستی اور ملاقات  بھی جاتی رہتی ہے۔ سچ پوچھو تو دنیا میں کوئی  کسی کا دوست نہیں ہے۔ البتہ سچے خدا پرست  خیر خواہ حقیقی  ہیں۔

اشعار

دلی دشمن ہیں دُنیا میں  تیرے دل بند جتنے ہیں
ہیں سارے دوست مطلب کے زن  و فرزند جتنے ہیں
محبت حق سے رکھو اور ملوِاہل محبت سے
ؑزیزو غیر حق سب توڑ دو پیوند جتنے ہیں

مگر یہ سوال ہے کہ حقیقی  خدا پرست کون ہیں؟ وہ نایاب ہیں۔ درخت  اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے ۔ مگر جو زبانی جمع و خرچ  کرتے ہیں۔ اور لفاظ  میں خیر خواہی  جتلاتے ہیں۔ اُنہیں بھی بمشکل ایسا شخص  ملے گا جو خداوند سے محبت رکھتا ہے یا سچا خیر خواہ انسان کا ہے  وعظ  یا اُن کی نرم گفتگو ثبوت اس امر کا نہیں  ہے۔ کہ جیسا وہ کہتے ہیں  فی الحقیقت  ویسے ہی ہیں۔

شعر

واعِظاں کیں جلوہ بر محراب و ممبری کنند
چوں نجلوت می روندآن کارد یگری کنند

وعظ یہ ہے ۔ کہ فریسیوں کے موافق  نہ بنو۔ مگر بیچارے اپنے آپ کو بھول گئے۔ کہ خود فریسیوں  سے زیادہ  مکاّری اور  یا کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ سچ مچ وہ یا نو فریب  خوردہ ہیں۔ یا فریب دہندہ ہیں۔ حالت اول میں معذور ہیں۔ مگر یاد  رکھیں۔ کہ دوسری حالت میں وہ اپنے افعال  کے جوابدہ ہیں۔ اکثر دوستوں  سے تکلیفات ہو کرتی ہیں۔ وہ خیالی ہوں یا حقیقی ۔ مگر اُن کی تعداد کم  نہیں ہے۔  وہ تکلیفات بیوفا کہلاتی ہے۔ غالباً فریقین  ایسا سمجھتے ہوں۔ کیونکر اپنے سلوکوں کا اندازہ ہر ایک زیادہ کیا کرتا ہے۔ اس واسطے دوستی کو قایم  رکھنے کے واسطے معافی بہت چاہئے۔ اگر اس میں فیاضی نہ ہو۔ تو دوستی  بہت  دنوں تک قایم نہ رہے گی۔  ایسی حالت میں کسی کا شعر  ہے۔

دوستوں سے اسقدر صدمے اُٹھائے جان پر
دل سے دشمن کی عداوت کا گلہ  جاتا رہا

پس دوستوں  کے برتاؤ  میں ہوشیاری بکار ہے۔ اور جہاں تک ہو سکے ایک دوسرے کو معاف کرے۔ اور اپنی عقل کے اندازہ کے مطابق شناکت بھی کر لے۔ اور اپنی عقل کے اندازہ کے مطابق شناخت بھی کر لے۔ جو اس میں ہوشیار ہیں وہ دغا نہیں کھاتے۔ اُن کے دوست تعداد  میں گو کم ہوں۔ مگر پائیداری  میں مضبوط ہوں گے۔ 

ایک دوستی ریل کے سفر۔ یا کشتی  میں۔ یا راستہ چلتے (یکہّ میں) ہو جاتی ہے۔ وہ صرف اُسی وقت کے واسطے ہے جب ریل سے اُترے ایک دوسرے کو نہیں پہچانتے۔ اس دنیا  کی دوستی کا بھی قریباً ایسا حال ہے۔ صرف عرصہ کا فرق ہے۔ پس دوستی کم ہو۔ یا زیادہ ۔ صرف وقت کے واسطے ہے۔ وقت پورا ہونے پر نہ وہ ہے۔ نہ یہ ہے۔ مگر خداودن  وفادار ہے۔ وہ آج اور کل یکساں ہے۔ وہ اپنی وفا میں کامل ہے۔ دنیاوی دوستوں کی طرح بدلتا نہیں۔  پس اُسی  پر پنا بھروسا رکھ۔ جس قدر اُس بھروسہ  میں کمی  ہوگی۔ اُسی قدر آزما ئیش اور مصیبت زیادہ ہوگی اور تیری پریشانی بطور سزا کے تجھ کو دبائے گی۔

اس مضمون پر کچھ  خیالات پہلے ظاہر کئے گئے ہیں۔  مگر یہ مضمون ایسا وسیع ہے۔ کہ جس قدر اس پر سوچو یا غور کرو۔ اُسی قدر زیادہ  خیالات  کی جولانی  ہوتی ہے۔ اور پہلے مضمون  کو  بدّنظر  رکھ کر مشکل معلوم ہوتا ہے۔ کہ مختصر  فیصلہ اس کی نسبت کیا ہے۔ اس واسطے چند خیالات  اور اقوال اور ظاہر کئے جاتے ہیں۔ تاکہ ناظرین اپنے واسطے خود  فیصلہ  کر لیں۔

کچھ روز ہوئے ایک طالب علم سکاچ مشن سکول سیالکوٹ  نے اشتہار دیا تھا۔ کہ ’’میں سّچے دوست کی تلاش میں ہوں ۔ وہ مجھ کو مل جاوے‘‘۔ اُس کے جواب میں بہتوں نے خامہ فرسائی  کی۔ اور نائب  تحصیلدار  رعیہ نے ایک شاعر  کا شعر لکھ دیا  جس کواڈمیٹر  اخبار پیسہ اخبار نے آخری  فیصلہ قرار دیا۔ اور وہ یہ ہے۔

؎خدا ملے تو ملے آشنا نہیں ملتا

کوئی کسی کا نہیں دوست سب کہانی ہے

اس سے بھی سّچے  دوست کے ملنے کی مشکلات  ہی معلوم ہوتے ہیں۔ سقراط حکیم جس کی دوستی اور مُحبت کے سینکڑوں نہیں ۔ بلکہ ہزاروں خواہاں تھے۔ اُس شخص کو جس نے اُس کے  اتہنؔیز میں ایک  چھوٹا  سا مکان بنانے پر کہا کہ’’یہ مکان چھوٹا ہے ‘‘ کہتا ہےکہ ’’اگر یہ سّچے دوستون سے بہر جوعے تو میں اس گھر کو بڑا عالیشان اور باسامان سمجھوں گا۔’’ اس جواب  سے اُس روشن  ضمیر انسان کی رائے ظا ہر ہوتی ہے۔ کہ اُس کو بھی سچے  دوستوں  کے ملنے کی ایسی توقع نہ تھی۔ کہ وہ تنگ مکان اُن سے بہر جاتا۔ ارسطوؔ کہتا ہے۔ کہ  اگر کسی شخص کو دوستی کی ضرورت  نہ ہو۔ تو وہ انسان  نہیں ہے۔ اپنی خوشی کے لئے ضرور ہے۔ کہ وہ کسی کو اپنا دوست بناوے۔ یہ حکیم اس امر  کا قائیل ہے۔ کہ بعض آدمی ایسے سوچنے والے ہوتے ہیں۔  کہ وہ اپنے واسطے  کافی ہیں۔ اور  ظاہری حالات اُن کے ایسے  ہیں۔ کہ وہ کسی کے محتاج نہیں۔ اس واسطے وہ خدا کی طرف متوجہ  رہتے ہیں۔ مگر افلاطون  اس کے خلاف کہتا ہے۔ کہ ’’ محض تنہائی سے خدائی صفات نہیں آئیں‘‘۔ راہب اس واسطے خلوت گر میں ہوتے ہین۔ کہ خاص مجلس میں بیٹھیں۔ اور خدا سے باتیں کریں۔ مسیحی بزرگوں اور عالموں کی کچھ عرصہ سے یہ رائے  ہے۔ کہ خلوت سے جلوت بہتر ہے۔ کہ اس سے اپنے عیوب معلوم ہوتے ہیں۔ اور انسانوں  کو فیض  پہنچایا  جاتا ہے۔ اسی واسطے بزرگ اگسٹین کہتا ہے۔ کہ ’’راہب نیکیوں کو جنگل میں لے جاتے ہیں۔ اس واسطے شہر نیکی سے خالی ہو جاتے ہیں۔‘‘ دراصل اُس شخص کی تنہائی سب سے زیادہ مصیبت  ناک ہے۔ جس کے سّچے  دوست نہوں کیونکہ سّچے دوستوں کی دُنیا ایک ویران جنگل  ہے۔ دوستی کا سب بڑا پھل بکثرت  رائے یہ بیان کیا جاتا ہے۔ کہ اُس سے دِل ہلکا ہوجاتا ہے۔ جو باتیں دل میں بہری ہوتے ہیں۔ سب زبان پر آجاتی ہیں ۔ کیونکہ سب سے زیادہ تکلیف آدمی کو دل کے ُگھٹنے  سے ہوتی  ہے۔ پس ایسے ہی دل کا حال ہے۔ کہ اگر دوست نہ ہوں ۔ تو بڑا  گھُٹتا  ہے۔  یہ بڑے تعجب کی بات ہے۔ کہ اس دوستی کو شاہان و فرمانردایاں لو لو الغرم اپنی جان  اور شان کو خطرہ میں ڈالکر خریدتے ہیں۔ کیونکہ  بادشاہ اور رعایا کے رُتبہ میں زمین و آسمان  کا فرق ہوتا ہے۔ اس واسطے اُن کو دوست بنانے کے واسطے  ضرور  ہے۔ کہ رعایا میں  سے لوگوں اول  ادنی ٰ درجہ  سے اعلیٰ  پر پہنچایا  جاوے اور پھر ان کو اپنا رفیق بناویں ۔ اور اس کام کے سرانجام  کرنے کے لئے اُن  کو بہت  تکلیفات  اور مصائب  اُٹھانی پڑتی  ہیں۔  بادشاہ  اہل دل۔ بہادر ۔ عاقل سب جانتے ہیں۔ کہ بغیر  دوستوں کے اُن کو آرام  نہیں ملتا۔ اور اُن کے کام ادہورے رہتے ہیں۔ جو تسلّی دوستوں  سے ہوتی ہے۔ وہ بھائی بندوں  سے نہیں  ہوتی۔ یہ بھی حضرت  سلیمان کا قول ہے۔ کہ ’’دوست خوشی کےواسطے۔ اور بھائی مصیبت کے واسطے ہے‘‘۔یہاں سے بھی بّچے دوست کی نایابی ظاہر ہے۔ کیونکہ تکلیف  میں مدد دینے کے واسطے صرف بھائی ہے اور یہ سچ ہے۔

تاہم دوستون کا نہونا۔ اور جو تنہائی  بغیر دوستوں کے ہو۔ وہ ایک قسم کی سزا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ یہ سزا بڑے  مجرموں کو دی جاتی ہے۔  مققدمین کی رائے ہے۔ کہ دوست اپنی زات ثانی ہے۔ اُس کا ایک جسم ہے۔ اس واسطے وہ  (انسان) ایک ہی جگہ موجود ہوتا ہے۔ مگر جس کے دوست ہوں ۔ وہ اِنسان بہت جگہ  کام کر سکتا ہے۔ اگر کسی کی قبضہ  میں ساری دُنیا ہو۔ مگر اُس کا کوئی  دوست  نہ ہو۔ (اول تو ایسے شخص کے قبضہ  میں  کچھ نہیں ہوسکتا نہیں ہو سکتا) تو سب ہیچ ہے۔ مگر مشتبہ دوست سے ایسا خوف ہوتا ہے۔ جو دشمن سے نہیں ہوتا  جو آدمی اپنی زات سے محبت رکھتا ہے۔ لیکن اُس کا کوئی  دوست نہیں۔  وہ نہ صرف الزام کی لایق ہے۔ بلکہ نیکی کے بڑے حصّہ سے محروم  ہے۔ دنیا میں دوستی کا حال  موسم خزاں کے موافق ہے۔ جب تک درخت میں پتوں کے غزا موجود ہے  وہ لگے رہتے  پھر اُسے چھوڑ جاتے  ہیں۔ ایسا ہی حال انسانوں کا ہے۔ کہ جب تک اُن میں طاقت اور دوست موجود ہے۔ تب تک وہ قایم  (دوستی میں) رہتے۔ پھر چھوڑ جاتے ہیں۔

دور کیوں جاتے ہو۔ ایک زمانہ تھا جب پرنس بسمارک وزیراعظم  ملک جرمنی کا تھا۔ ہر ایک ہوشیار شخص  کو اُس سے تشبیہ  دی جاتی تھی۔  مشکل سے کوئی اخبار ہوتا تھا۔ جس میں کچھ نہ کچھ  اُس کا تزکرہ نہ ہوتا  ہو۔ لیکن جب سے وہ عہدے سے برطرف  ہوا کوئی پوچھتا بھی نہیں۔  گویا وہ جیتا ہی مر گیا۔ ایسا حال  ہر روز ہم عہدہ  داران  کا دیکھتے  ہیں۔  جب وہ پنشن  لے لیتے ہیں۔  جو دوستی  اُن سے لوگ کرتے ہیں۔ وہ مطلب کی دوستی تھی۔ جب مطلب نہ رہا۔ تو دوستی بھی نہ رہی۔ مگر جو باہم سّچے دوست ہیں۔ وہ ایسے نہین کسی کا قول ہے۔ کہ دوستی چاند کے گرہن کو دیکھنے کے لئے۔ اور دشمنی پورا چاند دیکھنے کے لئے آنکھیں  بند کر لیتی  ہے۔  اس کا مطلب  یہ ہے۔ کہ دوست دوست کی تھوڑی تکلیف دیکھنے کو راضی نہیں۔ اور دشمن اُس کا پورا جلال نہیں دیکھ سکتا یعنے دشمن دشمن  کی پوری عزت نہیں دیکھ سکتا۔ جو دوستی  دنیاوی  خواہشوں  کے پورا کرنے کے واسطے  نہ ہو۔ بلکہ پاک دوستی براہ  خدا ہے۔ اُس میں موت سے پہلے کمی نہیں ہوتی۔  بلکہ مرنے کے بعد آلایش  سے دوستی  پاک ہو جاتی ہے۔  اور اُس وقت دوست کے عیب نظر نہیں آتے۔ اور اُس کی خوبیاں قبر کی تاریکی میں روشن  نظر آتی ہیں۔ پس اس سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ کہ خداوند کے واسطے انسانوں سے اور دیگر  مخلوقات  سے دوستی کرو۔ اُس کی بنیاد قایم ہے۔ اور خداوند  سے محبت صرف اُس کے واسطے کرو کیونکہ  وہ وفادار ہے۔ ( باقی پھر کسی وقت)

دُوستی  کی نسبت دو ایک آرٹیکل  نور افشاں میں شائع ہو چکے ہیں  جن میں بعض خیالات  عمدہ ظاہر کئے گئے ہیں۔ واقعی یہ مضمون بہت وسیع ہے جہانتک  غور کیا جائے ایک نہ ایک بات نئی  نکل ہی آتی ہے۔ یہ  پیپرز بھی اپنا خیال ظاہر کرنے کی جرات کرتا ہے۔

آجکل کے زمانہ میں اگر حقیقی  دوست کی تلاش کی جائے  تو اس میں کامیابی کی اُمید اگر ناممکن نہیں  تو مشکل  ضرور  ہے کیونکہ آدمی یسا کہ ظاہری صورت  میں ایک دوسرے سے فرق رکھتے ہیں ویسا ہی سیرت میں بھی۔ جہاں دو کی طبیعت  ایک طرح کی مل گئی وہاں ہی دوستی کی بنیاد یہی پڑ گئی۔ اس میں نہ دولت  و ثروت کوئی  رکاوٹ ہو سکتی  ہے نہ علم و ہنر  کوئی سدِراہ۔ 

حقیقی دوستی وہی ہے جب ایک دوست دوسرے  دوست  کی مصیبت و تکلیف کو یہ سمجھے  کہ یہ تکلیف و مصیبت میرے دوست پر نہیں آئی ہے بلکہ مجھ پر  ۔ اور اسکا بوجھ ہلکا کرنے میں حصہ  لے مگر عموماً ایسا نہیں ہوتا۔ جہان دوست پر مصیبت آئی باتیں تو بہت سی بنائی جاتی ہیں۔ دلجمی  کی جاتی ہے تسلی یہ دی جاتی ہے مگر محض بے سود جہاں کسی قسم کی امداد کی استدعا  کی گئی سینکڑوں  عزر بہانے  بنائے جاتے ہیں اور رو پوشی  اختیار  کی جاتی ہے اور آخر کو یہ بھی خیال  نہیں رہتا کہ اس شخص  سے  کبھی ہماری ملاقات تھی بقول حضرت سفیر ؔ

دنیا پر ست دیکھنے والے ہوا کے ہیں اور جہاں کہین راستہ پر آمنا سامنا ہو یہی گیا۔ تو نظر تک اُٹھا کے نہیں دیکھتے  بات چیت کرنا تو درکنار ۔

؎ سچ تو یہ ہے کہ بُرا  وقت نہ دکہلائے خدا۔ دوست پھر جاتے ہیں  دشمن کی شکایت کیا ہے۔  حقیقی دوستی میں دوست کی مصیبت  دیکھی  نہیں جاتی۔ جبتک کہ وہ مصیبت اس پر سے ٹل نہ جائے دوست کی طبیعت  بر ابر  بے چین  رہتی ہے۔ مصیبت زدہ دوست کی امداد  کرنے کو دل خواہ مخواہ  تحریک کرتا ہے۔  اُبھارتا ہے۔ شوق دلاتا ہے اور یہ فرض منصبی ایک گونہ راحت معلو م  ہوتا  ہے۔  سینکڑوں  تدبیریں سوچی جاتی ہیں  کہ کسیطرح  دوست  کی مدد ہو کسی نے خوب  کہا ہے۔

درپریشاں  حالی دور ماندگی، مگر یہ امداد  و ہمدردی کا اظہار بےغرض و بے لوث  ہونا چاہئے  تب ہی حققی  دوستی کی بنیاد  قایم رہتی ہے مگربہت لوگ ایک شخص کی مصیبت مین اُس کی امداد کرنے سے اس پر ایک طرح کا دبوو ڈال کر اپنا  کوئی  مطلب نکالنا  چاہتے ہیں ہمارے تجربہ میں  کئی شخص اس قسم کے آئے۔ اُن کے واسطے یہی کہا جا سکتا ہے۔ شعر جستجوئے دگرے داشت چو پر سیدم ازو  منفعل  گشت  وبمن  گفت ترامی خواہم۔  اور اس پر طرہ یہ ہے کہ جب اپنا مطلب  نکلتا نہیں  دیکھتے تو دشمن ہو جاتے  ہیں ۔ دوست کی پہچان میں کسی کا مقولہ ہے کہ دوست کو آدہی رات کو جگا کر اُس سے کوئی رقم بطور  قرضہ  مانگی جائے۔ 

حقیقی دوست کی پہچان  ایک یہ بھی ہے کہ دوست  کے عیوب آئینہ  کی ما نند  روبرو صاف  و صریح  ظاہر کروگے مگر تجربہ میں ایسا بھی ہوتا کم دیکھتے  میں آیا ہے مل  کہ اس کے برعکس  تعلق و  چاپلوسی کو کام میں لایا جاتا ہے جھوٹی خوشامد سے آسمان  پر چڑہا دیا جاتا ہے  آپ ایسے  آپ ویسے  آپ کے باپ ویسے  آپ کے دادا ویسے۔  تملق و خوشامد  کی عادت جس میں ہو اُس کی دوستی کا اظہار  قابل اعتماد نہیں۔

دوستی کے خاص آئین  میں جن کا لحاظ  رکھنا واجبات سے ہے۔ رشک و حسد  کو پاس  نہ پھٹکے  دے  غیبت  کے عادی نہ ہونا چاہیئے۔ دوست کی عزت آبرو و خیر خواہی مدِنظر رہے۔

؎ خیال خاطرِ احباب چاہئے ہر دم۔ انیس  ٹھیس نہ لگجائے  آہیگنوں کو ۔ صاف باطنی و سینہ بے کینہ ہونا چاہئے ۔ تحمل بردباری  و برداشت کی عادت ہونا چاہئے  وغیرہ وغیرہ۔ ان ہی پر دوستی کے قایم  رہنے کا دارومدار موقوف ہے۔

دوستی وہ ہی سچی  ہوتی ہے  جو دیر میں پیدا ہو۔ چٹ روٹی پٹ دال سے کام نہیں چلتا اور یہی سبب ہے کہ دوستوں سے اکثر ٹھوکریں  پہنچتی ہیں۔

؎ دوستوں سے اس قدر صدمے  اُٹھائے  جان پر ۔ دل سے دشمن کی عداوت کا گلہ جاتا رہا۔  کسی نے کہا ہے دیر آمد درست آمد۔  جو  چیز  جلد گرم  ہوجاتی  ہے وہ ٹھنڈی  بھی جلد ہوتی ہے۔ مگر جو دیر میں گرم ہوتی ہے وہ دیر میں  ٹھنڈی ہوتی ہے۔  اگر دوستی میں  یہ باتیں  ہیں  تو وہ دوستی  کہلائیگی ورنہ  یہ شعر  بجا کہا جا سکتا ہے۔

؎ خدا ملے  تو ملے  آشنا نہیں ملتا۔ کوئی کسی کا نہیں دوست سب کہانی ہے۔ یوں تو مطلب کے یار بہت مل جاتے ہیں۔ اور آخر یہی ہوتا ہے سلفی یار کس کے ۔ دم  لگایا اور کہسکے۔

دوستی کے مختلف مراتب ہیں ایک وہ جس کو انگریزی  میں اینٹی میسی (intimacy) کہتے ہیں  جس میں ایک دوست دوسرے  دوست کا ہمدم  و ہمراز ہوتا ہے دوسرے کو فراینڈشپَ (Friendship)  کہتے ہیں جس میں زرہ کھل کر برتاؤ  ہوتا ہے۔  تیسرے کو ایکونٹنس (acquaintance)  کہتے ہیں یعنے  جان پہچان  جس میں معمولی  علیک سلیک ہی ہوتی ہے۔ زیادہ بے تکلفی  نہیں ہوتی۔ واضح رہے کہ لوِو (love) عشق دوسری بات ہے۔

دُنیوی دوستی تو صرف دنیا ہی کے واسطے ہے عاقبت  میں کام  آئیگی  لازم ہے کہ عاقبت کے واسطے بھی ایک  حقیقی  دوست  ڈہونڈہنا چاہیں جو کہ ایک  مقدم امر ہے۔ پس خدا سے لوو لگانا چاہئے اور اُس کے اکلوتا بیٹے کو اپنا  ہمراز بنانا چاہئے ۔

مضمون کو حتی المقدور  مختصر  لکھا گیا ہے تاکہ ناظرین  کا  بیش قیمت وقت  زیادہ ضایع نہ ہو۔

راقم۔۔۔

ہماری لخت جگر اُٹھ کے دیکھ لو تم بھی
زمانہ اور ہے یہ رنگ بھی نظر میں رہے

پیدایش

۲۸: ۱۰۔ ۱۵

The Book of Genesis

Chapter 28:10-15

Published in Nur-i-Afshan January 11, 1894
By Kidarnath

۱۰ ویں  آیت پر غور کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان میں یہ ایک عجیب خاصیت ہے کہ موجودہ  حالت کی بہ نسبت  جب اُسے  کچھ تکلیف پیش آتی ہے اپنی پچھلی حالت کو اکثر  یاد کرتا ہے چنانچہ یعقوب کے ھال سے ہم کو اس کی شہادت بھی ملتی ہے جیسا لکھا  ہے کہ  حاران کی طرف  گیا۔  شہر حاران کسدیون کے اُور سے جنوب  مغرب کی طرف ۲۰ میل کے فاصلہ  پر ہے جہاں تازہ معہ اپنے خاندان  کے ۱۵ برس تک رہا اور جس کو ابراہام نے تارہ کی موت کے بعد  چھوڑ دیا۔  تاکہ وہ خدا کے حکم  کے مطابق ملک موعود کو جاوے۔ اسی طرح بنی اسرائیل  جبکہ مصر سے نکلکر  بیابان میں سفر کر رہے  تھے  زرا زرا سی تکلیف کے خیال سے ہائے مصر  ہائے  مصر پکارنے لگتے  تھے باوجودیکہ مصر میں  وہ غلامی کی حالت میں تھے اور جو کچھ  خدا اُن کے ساتھ  مہربانیاں کرتا تھا اُن سے واقف  تھے لیکن یہاں یعقوب  اور بنی اسرائیل  اگرچہ مصر کو لوٹ نہیں گئے پر تو بھی سوائے  یشوع اور کا لب کے سب کے  سب بیابان ہی میں ہلاک ہوئے اور یعقوب  اگرچہ  حاران کو گیا بھی اور وہاں رہا بھی فریب  سے برکت بھی  حاصل کی۔ لیکن خداوند  نے اُسے نہایت برکت جو روان اولاد و مال اسباب چا ر پائے  سب کچھ  رحمت  فرمایا اور پھر کنعان میں  واپس لایا نہ اب اگر کوئی پوچھے  کہ ایسا کیوں ہوا تو ہم کہینگے کہ خدا کی مرضی۔ یہاں سے  برگزیدگی کی تعلیم  کی تائید ہوتی ہے کہ برگزیدوں  کو خدا کبھی ہلاک نہونے دیگا ۔  پس یاد رکھنا چاہئے کہ اسی صورت سے ہم  میں بھی یہی کمزوری پائی جاتی ہے لیکن جسے  نے چن لیا ہے اُس کو ِاس  سے کچھ  نقصان نہوگا پر شرط یہ ہے کہ خدا کی روح  کو رنجیدہ  نکریں بلکہ اُس کی ہر ایک ہدایت پر عمل کرنے  کو طیار رہیں جیسا کہ ۱۲ ویں آیت میں یعقوب کو سیڑھی دکھائی گئی ۔ سیڑھی کے بیان سے پیشتر ہم یہ ظاہر کریں گے کہ ایماندار پر مصیبت کا  آنا ضروری ہے۔

۱۔ آدم پر غور کرو خدا نے اُسے اپنی صورت پر بنایا  وہ ہر دم خدا کی حضوری میں نہاں رہتا تھا سوائے خوشی کے رنج نام کو بھی نہ تھا پر جب گناہ  آیا تو وہ سخت مصیبت میں پڑ گیا باغ عدن سے نکالا گیا  خدا  کی قربت سے محروم ہوا۔

۲۔ ہابل راستباز  جس کی قربانی  خدا نے قبول  کی جان ہی سے مارا گیا۔

۳۔ ابراہام  کو جب خدا نے بُلایا تو اُسے اپنا   وطن اپنا شہر اپنا خاندان  زمین جگہ سب کچھ چھوڑنا پڑا۔

۴۔ پھر اضحاق اپنے باپ کا اکلوتا  جو وعدہ  کا کہلاتا ہے اُس کے زبح کئے جانے کو حکم  ہوا۔

۵۔ یعقوب برکت پاتے ہی حاران کو بھاگا۔

۶۔ یوسف سورج چاند اور ستاروں  کا مسجود ہو کر غلامی  کی حالت میں مصر کو گیا قید میں  پڑا ۔

۷۔موسیٰ مصر سے جان کو بچا کر بھاگا۔

۸۔ خداوند یسوع مسیح کو جبکہ  وہ گنہگار وں  کے بچانے پر مقرر ہوا آسمانی تخت چھوڑنا  اور انسانی بدن  غریبی  کی حالت میں اختیار کرنا پڑا پھر جب بپتمسہ پاتے  وقت روح پاک اُس پر نازل ہوئی تب بیابان  میں ۴۰ دن تک شیطان  سے آزمایا گیا۔

۹۔ مسیح کے رسول بھی روح القدس پاتے ہی سخت اذیتوں  میں پڑے مصلوب ہوئے مقتول ہوئے۔

۱۰۔ زمانہ بزمانہ مسیح کے شاگردیت  پرست بادشاہوں  حاکموں رعایا سے ستائے گئے۔ پس سوال ہے کہ برگزیدوں کے واسطے مصیبتیں  کیوں ضروری ہیں۔ ابتو جواب یہ ہے کہ ہم خدا کے فرزند  ہیں  اور جب فرزند  ہوئے تو  وارث بھی اور میراث میں مسیح کے شریک  بشرطیکہ ہم اُس کے ساتھ دکھ اُٹھا ویں تاکہ اُس کے ساتھ جلال بھی پاویں۔

روم  ۸ : ۱۵، ۱۶  کیونکہ  میری سمجھ میں زمانہ حال کے دکھ درد اس لایق نہیں  کہ اُس جلال کے ہم پر ظاہر ہونے والا ہے مقابل ہوں۔ روم ۸۔ ۱۸۔

اب ہم سیڑئی  پر گور کرتے ہیں۔ یوحنا ۱۔ ۱۵ کے لحاظ سے اگرچہ اس سیڑھی سے ابن آدم مراد ہے۔پر ہماری رائے میں یہاں سیڑھی کو صلیب سے زیادہ مناسبت پائی جاتی ہے کیونکہ وہ ملاپ جو خدا  اور انسان میں از سر نو پھر قایم ہوا وہ ابن آدم کے وسیلہ سے ہے لیکن  اُس کے قایم ہونے کا طریق مسیح کا دکھ اور اُس کی صلیبی موت  ہے کیونکہ جو کاٹھ پر لٹکایا  گیا سو لعنتی ہے۔ اُسی نے ہم کو مول  لیکے شریعت کی لعنت سے چھڑایا ۔ کہ وہ ہمارے بدلے  مصلوب ہو کر لعنتی ہوا۔ جس طرح یعقوب  نے خداوند کو اُس کے اوپر  کھڑا  دیکھا  اُسی طرح ہم مسیح  خداوند  کوصلیب  پر دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے دونوں  ہاتھ  پھیلائے ہوئے برگزیدوں کو بلاتا ہے کہ ہے  آؤ خدا  سے ملاپ  کرو۔ دُنیا میں بھی ملاپ کا یہی نشان ہے کہ جب دو مختلف  باہم میل کرتے ہیں تو چھاتی سے لگا لیتے ہیں۔ ۱۳ ویں آیت میں خداوند  یعقوب  سے کہتا ہے کہ تیرا  باپ ابراہام  کا خدا ہوں  احالانکہ رشتہ کے لحاظ سے وہ اُس  کا دادا تھا۔ یہاں اُس ملاپ کے حاصل کرنے  کا وسیلہ  بتلایا جاتا ہے کہ ابراہام  ایمانداروں کا باپ ہے۔  جوایمان لاتا ہے وہ ابراہام کا فرزند  ہے اب جو ایمان  لاتا ہے خداوند اُس کا  خدا ہے اور وہی اُس  ملاپ کو حاصل  کر سکتا ہے۔ 

۱۴ ویں آیت میں ہے کہ تیری نسل کو۔ یہاں نسل سے خاص طورپر مسیح مراد ہے کیونکہ ابتدا ہی سے ہاں باغ عدن کےوعدہ سے وہ نسل کہلایا  اور عام طور ر ہر  اُس کی کلیسیا  کیونکہ لکھا ہے کہ تو یورپ پچھم اُتّر دکھن  کو پھوٹ نکلے  گا سو دیکھ لو کہ مسیح کی کلیسیا کا یہی حال  ہے۔ لیکن یعقوب کی جسمانی  اولاد یہودی  جواب  صرف ستر لاکھ ہیں مراد  لیں تو نہایت مشکل  ہے۔ کہ دنیا کے تمام گھرانے  اُسن سے برکت پاویں  وہ تو آپ  زلیل و حقیر ہو رہے ہیں۔ خدا اُن پر رحم کرے  کہ وہ بھی مسیح سے برکت پاویں۔

۱۵ ویں آیت میں ہے کہ میں تیرے ساتھ ہون تیری نگہبانی کرون گا اور تجھے اس ملک میں  پھر لاؤنگا۔ یہاں ایماندار وں کے لئے بڑی تسلّی کی بات  ہے کہ خدا اُن کے ساتھ ہے۔ مسیح نے فرمایا کہ زمانہ  کے تمام  ہونے  تک ہر روز  تمہارے  ساتھ ہوں کچھ پروا نہیں ماں باپ بھائی  خویش و اقارب سب چھوڑ دیں لیکن  خدا ساتھ ہے۔  وہ اُن کی نگہبانی  کرتا ہے  جس طرح  گڈریہ بھیڑ کی تاکہ  وہ بھیڑ یا جو  شیطان  ہے یا جو اُس کے ہم شکل ہیں پھاڑ نکھاویں  اور سب سے زیادہ یہ ہے کہ اس جہان کی مسافرت اور دوڑ دھوپ کے بعد حقیقی  کنعان میں پھر لانے کا وعدہ کرتا ہے۔ جہاں ہمیشہ کا آرام ہمیشہ  کی زندگی سب کچھ  موجود ہے۔

حاصل کلام

خدا ایمانداروں  کو پیار کرتا ہے اپس نے اُن کو چن لیا ہے اور ایک  خدا کار کے وسیلہ سے جو ہمارا  نجات دہندہ  یسوع مسیح  ہے اُس نے ہمارے ساتھ پھر ملاپ قایم کیا ہے پر ضرور ہے کہ ہم اپنے ملاپ کو اس طور سے ثابت  کریں کہ ایمانداروں کے ساتھ ملاپ رکھیں کیونکہ  اگر ہم بھائیوں  سے جنکو دیکھ سکتےہیں۔ ملاپ نہین رکھتے تو خدا سے جی کو دیکھ  نہیں  سکتے کیونکر ملاپ رکھ سکتے ہیں اور جب ہم مسیح ملاپ رکھنے والوں کے ساتھ ملاپ  نہیں  رکھتے بلکہ اِس کے برعکس مسیح کے مخالفوں سے ملاپ رکھتے ہیں تو یہی  مسیح کا مخالف  ہے پس بھائیو ایسے کے ساتھ نہ سلام کرو نہ اُسے گھر میں آنے دو۔ نہ اُسے مال کھلاو ایسا نہو کہ کوئی بھیڑیا بھیڑ  کے بھیس میں  تم کو  پھاڑ ڈالے تمہاری نظر صلیب پر رہے اور اپنی صلیب اُٹھا کر مسیح  کا پیچھا کرو تاکہ اُس کے ساتھ جلال بھی پاؤ۔ آمین

راقم۔۔۔ کیدارناتھ

دروازہ میں ہوں

اگر کو ئی شخص مجھ سے داخل ہو تو نجات پاویگا۔ ا ور اندر باہر آئے جائے گا۔
یوحنا ۱۰۔ ۹۔

I am the Door

John 10:9

Published in Nur-i-Afshan April 20, 1894

ایک عالم کا قول ہے کہ’’ بہشت کا دروازہ اتنا چوڑا  اور کشادہ ہے کہ اگرتمام دنیا کے آدمی ایک  دم سے اُس  میں داخل ہونا چاہیں۔ تو بلا تکلیف و کشمکش داخل ہو سکتے ہیں۔ لیکن وہ اِس قدر تنگ بھی ہے۔ کہ کو ئی شخص ایک رتی بھر گناہ اپنے ساتھ لے کر اُس میں داخل نہیں ہو سکتا۔  یہ سچ ہے کہ  خداوند مسیح جو آسمان میں داخل  ہونے کا دروازہ  ہے۔ گنہگاروں کا دوست ہے۔ مگر گناہ کا دوست  ہر گز نہیں ہے۔ وہ یسؔوع یعنے اپنے لوگوں کو اُن کے گناہوں سے بچانے والا ہے۔ نہ کہ اُن کو  گناہوں  میں  بچانے  والا ہے۔ اکثر لوگ نادانی سے ایسا  سمجھتے  اور کہتے ہیں ۔ کہ درحالیکہ مسیح نے تمام  جہاں کے آدمیوں کے لئے۔ خصوصاً مسیحّیوں کے لئے اپنی جان کو کفاّرہ میں دیدیا ہے۔ تو اب وہ جو  چاہیں کریں۔ کیونکہ اُن کے گناہوں کا کفارہ تو ہو ہی چُکا ہے۔ اُن سے کچھ باز پرس نہوگی۔  لیکن ایسا غلط خیال کرنے والے  لوگ خداوند مسیح کے اپس فرمان سے ناواقف  معلوم ہوتے ہیں۔ جو اُس نے اپنے پیروؤں کی نسبت فرمایا ہے۔ کہ’’جہاں کا نور میں ہوں۔ جو میری پیروی  کرتا ہے۔ تاریکی میں نہ چلے گا۔ بلکہ زندگی کا نور  پاوے گا۔‘‘  یوحنا ۸ ۔ ۱۲۔

سند کی آیت  مندرجۂ بالا سے یہ  بھی معلوم  ہوتا ہے کہ نجات پانے اور آسمان  میں داخل ہونے کا صرف  یہی ایک طریقہ ہے کہ گنہگار  انسان توبہ کرے۔ اور خداوند یسوع مسیح پر ایمان لاوے۔ اور اس طریقہ کے سوا أور  کو ئی  صورت نجات پانے اور آسمان میں داخل ہونے کی ہرگز نہیں ہے۔ ہاں ایک صورت اور بھی ہے اور وہ یہ  ہے کہ  انسان اپنی پیدایش سے موت  تک کو ئی  گناہ عمداً و سہواً نہ کرے۔  اور خدا کے سارے اوامرا و نواہی کی تمام  و کمال  متابعت کرے۔  مگر ایسا کو ئی  فرد بشر  بنی  آدم  میں  بجز مسیح کے نہوا ہے۔ اور نہوگا۔  ہم نے بعض اشخاص کو اِس خیال میں ُمبتلا پایا۔ کہ وہ لاگ جو خدا  کے طالب ہیں۔ خواہ کسی مذہب میں رہیں۔ اُس  کے حضور میں ضرور  پہنچیں گے۔  اور نجات  و مقبولیت  حاصل  کریں گے۔ اور اپنے اِس خیال کی تائید میں مثالاً کہتے ہیں  کہ فرض  کرو کہ ایک  محصور شہر کے چاروں سمت کو بڑے دروازے موجود ہیں۔ اور لوگ ہر دروازہ سے داخل ہو کر بازار کے  چوک  میں ۔ جو صدر مقام  ہے پہنچ جاتے ہیں۔ اُن کو یہ کہنا اور مجبور کرنا  کہ سب ایک ہی دروازہ  سے داخل ہوں۔ زبردستی کی بات معلوم ہوتی۔ یہ مثال بعض تیز طبع  اشخاص  نے  بوقت بازاری وعظ  کے ہمارے سامنے پیش بھی کی ہے۔ جس کا سادہ اور عام فہم یہ جواب اُن کو دیا گیا۔ کہ کسی شہر کے دروازہ اور آسمان کے دروازہ میں فرق عظیم یہ ہے کہ شہر کے ایک  دروازہ سے  چاروں سمت  کے دُنیوی  مسافروں  کا گزرنا  مشکل ہے۔ لیکن آسمانی مسافروں کے گزرنے کے لئے  بہشت  کا دروازہ دشوار  گزار اور تنگ  نہیں ہے۔ اور وہ سب کے سب بلا تکلیف  و کشمکش  اُس سے داخل  ہو سکتے ہیں۔ کسی زمینی شہر کے دروازہ کو آسمانی یروشلم  سے ہر گز  کچھ  مطابقت  و مناسبت  نہیں ہے۔ ہاں داخلہ کا ٹکٹ  ہر ایک آسمانی مسافر کے پاس ہونا ضرور  ہے۔ اور یہ ٹکٹ وہ صحیح  اور بے ریا ایمان  اُس  نجات دہندہ خداوند  پر رکھنا  ہے جس نے فرمایا کہ ’’دروازہ میں ہوں‘‘۔ اِس دروازہ  کو چھوڑ کر اگر کو ئی  شخص کسی دوسری راہ سے آسمان میں داخل حاصل  کرنا چاہے وہ یقیناً  چور اور بٹمار ہے۔ اور جو کچھ انجام ایسے شخص  کا ہوگا وہ معلوم۔

سلامتی

یوحنا۔ ۱۴۔ ۲۷۔

My Peace I Give Unto You

John 14:27

Published in Nur-i-Afshan April 06, 1894

سلا متی تم لوگوں کے لئے چھوڑ کر جاتا ہوں ۔ اپنی سلامتی میں تمہیں دیتا ہوں۔ تمہارا دل نہ گھبرائے اور نہ درے۔ یوحنا۔ ۱۴۔ ۲۷۔

اِ س لفظ سلام  یا سلامتی کا ترجمہ بعض مترجموّں نے  صلح۔ یا اِطمینان  کیا ہے۔ لیکن اِس سے مطلب مین کچھ فرق نہین پڑتا۔ کیونکہ اِن لفظوں  کےمعنے قریب قریب یکساں۔ اور ایک ہی مطلب اُن  سے حاصل ہوتا ہے۔  یعنے یہ کہ خداوند مسیح  نے اپنے رسولوں کو اُن سے جدُا ہونے سے پیشتر اپنی سلامتی بخشی ۔ جبکہ  وہ نہایت مضطرب  اور گھبرائے ہوئے تھے۔  کیونکہ اُنہوں نے خداوند سے سنُا تھا، کہ اُن میں سے ایک  اُسے قتل کے لئے حوالہ کریگا۔ اور ایک اُس کا انکار کریگا۔ اور وہ سب اُس کو تنہا چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ اِس لئے خداوند مسیح  نے یہ تسلی آمیز باتیں اُن سے کہین۔ جو یوحنا کی انجیل کے چودہویں باب سے لے کر سولھویں باب  کے آخر تک مرقوم ہیں۔ اُس نے اپنے آسمان  پر جانے۔ تسلّی دینے والے روح القدّس  کے بھیجنے اور اپنے پھر دنیا میں آنے کا اُن سے وعدہ کیا۔ باپ  سے اُن کے لئے نہایت  دلسوزی کے ساتھ دعا مانگی۔ اُس کے نام کی خاطر جو مصائب  اور تکلیفات اُن  پر گزرنے والی تھیں۔  اُن سے اُنہیں آگاہ کیا۔ اور فرمایا کہ’’ یہ باتیں مینے تمہیں کہیں۔ تاکہ تم  مجھ مین اطمینان پاؤ۔ تم دنیا میں مصیبت اُٹھاؤ گے۔ لیکن خاطر جمع رکھو کہ میں دنیا پر غالب آیا ہوں۔ ‘‘ یہ وہ  خاص اطمینان  و سلامتی تھی۔ جو مسیح خداوند نے اپنے مومنوں کے لئے اپنے بیش قیمت کفاّرہ سے حاصل کی۔ اور جس پر ایمان لانے کے سبب راستباز ٹھہر کر اُن میں اور خدا میں  یسوع مسیح  کے وسیلہ  صلح اور میل  قایم  ہو گیا۔ مسیح نے نہ  صرف  صلح یا سلامتی کا لفظ  سنُایا۔ مگر فی الحقیقت صلح و سلامتی اُنہیں بخش دی۔ کیونکہ یہ اُس  نے اپنی کمائی سے پیدا کی تھی۔  اور یہ صرف مسیح ہی دے سکتا ہے۔ اور کوئی  نہیں دے سکتا۔  دنیا کی کسی فانی چیز۔ دولت۔ عزت۔ علم۔ حکمرانی۔ اقبالمندی وغیرہ سے انسان کے دل کو ہر گز سلامتی و اطمینان حاصل نہیں ہو سکتی۔ اور  نہ کسی عمل نیک سے یہ مل سکتی ہے۔ کتنا ہی عبادت و ریاضت ۔ خیر و خیرات  تیرتھ و زیارت  کچھ ہی کرے۔ لیکن کامل اطمینان ۔ اور خدائے  عادل و قدوس کے ساتھ صلح اور میل حاصل ہو جانے۔ اور اپنے کسی عمل سے بھی اُس کے حضور  میں مقبول و راستباز  ٹھہرنے  کا یقین دل میں پیدا ہونا بالکل  محال  ہے۔ ہم نے ایک ہندو بنگالی  عورت کو جو عمر رسیدہ تھی۔  پُشکر  کے میلہ میں جو ہندوؤں کی بڑی تیرتھ  گاہ ہے دیکھا۔  کہ وہ صعوبت مسافت ست تھکی  ہوئی  مشن سکول کے چبوترہ پر بیٹھی  تھی۔ دریافت کرنے سے معلوم ہوا۔  کہ وہ ہندوستان میں  جتنے ہندوؤں  کے تیرتھ  اور مقدّس  مقام  ہیں  سب میں  ہوآئی تھی۔ اور پُشکر  میں اَشنان  کرنا گویا اُس کے لئے سب تیرتھوں  پر تکمیل کی مہرُ تھا۔  جب اُس  سے سوال کیا گیا۔ کہ کیا اب تمھارے دل میں پورا یقین  اور اطمینان  ہے کہ تمہارے سب گناہ معاف ہو گئے۔  اور خدا کے اور تمہارے درمیان صلح ہو گئی ہے ؟  تو اُس نے مایوسانہ یہ جواب دیا کہ ’’ایشور جانے‘‘! اب  یہ امر قابل غور ہے۔ کہ باوجود اِس  قدر اپنے مذہبی  فرائض ادا کرنے۔  اور تیرتھ  و  یاترا  کرنے کے بھی اُس کے دل میں اطمینان  اور صُلح و سلامتی  کا کچھ اثر نہ تھا۔  ورنہ وہ یہ ہر گز  نہ  کہتی۔ کہ ’’ ایشور جانے‘‘  کیا کوئی مسیحی جس کو خدواند  مسیح  نے یہ صُلح  و سلامتی بخش  دی ہو  ایسے  سوال کے جواب میں یہ کہ سکتا ہے ؟  ہر گز نہیں۔ بلکہ وہ بلا پس  و پیش ظاہر کرے گا۔  کہ میں جو آگے دور تھا مسیح کے لہو کے سبب نزدیک ہو گیا ہوں ۔ کیونکہ وہی میری صلح ہے  جس نے  دو کو ایک  کیا۔  اور اُس دیوار کو جو درمیان  تھی ڈھا دیا ہے۔  اور اگر کوئی  اُس صُلح  و سلامتی  کو جو صرف مسیح سے ہی مل سکتی ہے لینا منظور نہ کرے۔  اور نہ اُس کو اپنے دل میں جگہ دے۔ تو یہ اُسی  کا قصور  ہے۔ کہ وہ بغیر سلامتی رہے گا اور ہمیشہ مضطرب و ملول رہ کر کفِ افسوس ملے گا۔ مگر پھر کچھ اِس سے حاصل نہو گا۔آج مقبولیت کا وقت اور آج ہی نجات کا دن ہے۔ اور بس۔ 

اَسباب اِتحاد

Reason of Unity

Published in Nur-i-Afshan April 20, 1894
By Allama Akbar Masih

)۹( شمع دان کے لئے )۷: ۲۰،۲۱(

مسیح خداوند کی بابت بہت سی غیر انجیلی روایات  میں سے ایک یہ بھی ہے۔ جو مجھکو  بہت پیاری  معلوم ہوتی ہے۔ یاد نہیں کہ اِس کا زکر کہاں ہے۔ کہتے ہیں کہ راستہ پر ایک ُکتا مرا پڑا تھا۔ راہگیر  بچک کر نکل جاتے اور طرح طرح  سے اُسپر  اَپنی  مغفرت ظاہر کرتے تھے۔ کو ئی تو اُس کی ٹیڑھی دُم  پر لطیفہ کہتا تھا۔ کو ئی اُس  کے بوچے کانوں پر ہنستا تھا۔ کو ئی اُس کی آواز  پر اور کو ئی اُس کے  عین  سڑک  پر مرنے پر کہتا تھا ۔ کہ وہ کتُے کی موُت  مرا۔اِس اثنا میں ایک مرد خدا کا گزر ہوا۔ کتُے کو دیکھکر۔ اور لوگوں کے لطائف  و ظرائف سُنکر  بولا۔ دیکھو تو اُس کے دانتوں  پر موتی کی سی آب ہے لوگ دیکھنے لگے۔ یہ کون شخص  تھا۔ کیونکہ وہ  اِتنا کہکر چل دیا  نہ آخر کسی  نے سوچا کر کہا۔ یہ ضرور  یسُوع ناصری تھا۔ کیونکہ اَیسی حقیر شے میں ایسی خوبی دریافت کرنا اُسی کاکام  تھا۔

عموماً لوگوں کی یہ عادت میں داخل ہو گیا ہے۔ کہ عیبوں پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ اور ہنروں سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ اور یوں مخالفت بڑھتی ہے۔  پر اگر برخلاف  اِس کے عیبوں سے چشم پوشی  کی جائے اور ہنروں پر نظر ڈالی  جائے۔ تو دوستی و موافقت  باہمی ضرور بڑھ جائے۔ ہم اَپنے عیسائی بھائیوں  کے درمیان  بھی دیکھتے ہیں ۔ کہ وہ سینکڑوں فرقوں میں منقسم ہیں۔ فرقوں میں منقسم ہونا کوئی عیب نہیں۔ بلکہ طبیعت کی آزادی و خود  مختاری کے لئے لازمی ہے۔ ہر شخص کا فرض ہے  ہے کہ اَپنے  ضمیر کو بے لوث رکھے۔  اور جس شے کو مناسب  وحق و خُدا کی مرضی کے موافق  جانتا ہے۔اُسکو قبول کرے۔ مگر فرقوں پر ہونے کے لئے باہمی مخالفت کوئی لازمی بات نہیں۔ ہم مخالف ہو کر بھی موافق  ہو سکتے ہیں۔ اختلاف کے ساتھ ایک دوسرے کو اتفاق کا دہنا  ہاتھ دیسکتے ہیں۔ ہمارے اختلاف بڑے ہیں۔ اور بہت ہیں مگر اتفاق اُن سے زیادہ ہیں۔ اور اہم ترین ہیں۔ اگر  ہم ہمیشہ اختلافات  کی طرف اپنی نظر نہ رکھیں۔ بلکہ زیادہ تر اِتفاق  کو دیکھیں۔ تو  آپس میں ہم خدمت ہو جانا ہمارے لئے کو ئی مشکل امر نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دنُیا کے فرزند نوُر  کے فرزندوں سے زیادہ  عقلمند ہوتے ہیں۔ فریسی و صدوقی  باہم  سخت اختلافات رکھتے تھے۔ مگر وہ بھی جب کسی مخالف مشترک کا سامہنا  کرتے تھے۔ تو مل جاتے اور اُن باتوں کو دیکھتے تھے۔ جن میں اُن کا اِتفاق تھا۔ چنانچہ  اُنہوں نے اکثر  ایسے پہلو سے ملکر ہمارے خداوند کی مخالفت کی افسوس کہ ہم سانپوں  سے ہو شیاری نہیں سیکھتے۔ اور ایسا نہیں کر سکتے اور اگر کر سکتے ہیں تو کرتے نہیں۔ عیسائیوں کا ہر فرقہ  چاہتا ہے کہ خداوند کی خدمت کرے۔ انجیل کی بشارت دے۔ مگر الگ الگ  ۔ مل جُل  کے کام نہیں کرتے۔ ملنا اُن کا شاز و نادر  ہوتا ہے ۔ کیا خوب ہوتا کہ ہم سب لوگ مل جاتے اور غور سے دیکھتے کہ کون  کونسے کام ہیں۔ جنکو ہم سب مل کے ایک  ساتھ کر سکتے ہیں۔ اُنہیں کو کریں۔تین لڑی رسیّ مشُکل سے ٹوٹتی ہے۔ مختلف مسیحی فرقوں کے شریک  اکثر سمجھتے ہیں کہ ہم نے مسیحیّ فضل کا اِجارہ لےلیا ہے۔ جو لوگ ہمارے بیچ میں ہیں اور ہماری طرح خیال کرتے ہیں۔ وہی سچےّ عیسائی ہو سکتے ہیں۔ اور ہماری طرح خیال کرتے ہیں۔ عہی سّچے  ہو سکتے ہیں۔ اُن کو مقصود اکثر یہ ہوتا ہے کہ وہ  مسیحی فضل کو ٹیسٹ کرالیں اور عیسوی نعمتوں کو اپنے تنگفرقہ کے نام رجسٹری کرالیتا اور عام اشتہار دیدیں۔ کہ اگر کو ئی قسم کا مسیحی فضل  جوہمارے یہاں سے نہ حاصل  ہوا ہو کہیں ملے تو وہ جعلی و مصنوعی ہے۔ اِس میں تعّصب کی بو آئی ہے۔ تنگ خیالی  کے آثار نظر آتے ہیں۔ اِس قسم کی روح کو مسیح نے خود  مزمت  کی ہے ۔ مسیح کے شاگردوں میں بھی کسی وقت  یہ روح تھی۔ اُنہوں نے شکایت اَپنے اُستاد سے کی۔  اے خداوند ہم نے ایک کو دیکھا کہ وہ تیرے نام سے دیووں کو نکالتا ہے۔ مگر ہمارے ساتھ نہیں چلتا۔ ہم نے اُسکو منع کیا  تھا  مگر وہُ  نہیں مانا۔  تیرے نام سے دیووں کو نکالتا ہے۔ یعنی تیرا نام بھی  لیتا ہے۔ اور تیرے نام کی تاثیر بھی اُس میں موجود ہے۔ حتّی کہ معجزےبھی کرتا ہے۔ یعنی پھل لاتا ہے۔ مگر ہمارے ساتھ نہیں چلتا۔ ہم نے اَپنا  ایک فرقہ مقرر کر لیا ہے۔ اور ہم یوُں اور دوں سوچا کرتے ہیں۔ اور اُس کے اظہار کے لئے فلان و فلان الفاظ  معُیّن کر لے آئیں  پر وہ ہمارے ساتھ نہیں چلتا۔ صرف تیرے نام سے کام کرتا ہے۔ یعنی ہم فرقہ والے ہیں۔ وہ فرقہ والا نہیں۔ ہم نے اُسے کام کرنے سے اور تیرا نام لینے سے اِس لئے منع نہیں کیا ۔ کہ ہم تیرے نام یا اُس کے کام سے ناراض ہیں۔ بلکہ ہم یہ نہیں چاہتے۔ کہ تیرا نام اور تیرا کام ہمارے  فرقہ کے باہر لیا جاو ے ہم تیرے  نام اور تیرے  کام کو پیٹنٹ  کرانا چاہتے ہیں۔ پر وہ کب مانتا  تھا۔ اُسنے غالباً یہی کہا ہو گا۔ کہ مجھے مسیح کے نام سے اور اُس کے کام سے غرض ہے۔ فرقہ سے غرض  نہیں۔ مین بے فرقہ والا ہوں نہ مانو گا۔ مسیح نے بھی اُسی  کی طرفداری کی۔ اور فرمایا اُسے منع مت کرو۔ تم اَپنے فرقہ میں ہو بنے رہو۔ اُسے جہاں ہے بنا رہنے  دو۔ پر تم اور وہ ہمخدمت  ہو جاؤ۔ ضرور نہیں کہ جو تمہارے فرقہ میں نہو وہ میرا  مخالف ہو۔ اور اُس کی مزاحمت  کی جاوے۔ مسیح کے اِس فتوی پر ہم لوگ کچھ کم غور کرتے ہیں۔  حالانکہ یہی بڑی ضروری بات ہے۔ کو ئی سردار کاہن بننا چاہتا ہے۔ کو ئی لاوی۔ کوئی فریسی ۔ کو ئی  یہودی۔ کو ئی یونانی۔ مسیح چاہتا ہے کہ سب نیک سامری بن جاویں۔ ہندوستان مین بہت سے مقُدّسون کے ناموں پر گرجوں کی تقدیس کی گئی ہے۔ لاویوں کے گرجے بہت ہیں۔  کاہنوں کے بہت  مگر کہیں کو ئی گرجا مقٔدّس  سامری کے نام کا  نظر نہیں آتا۔ جہاں خراجگیر دیس نکالے جلاوطن سامری  آکر عبادت کریں۔ اے کاشکہ ہمارے نوجوان مرے کتُے کی دُم کی کم مزمت کرتے۔ اور اُس کے دانتوں  کی آب کو دیکھتے۔ اُس کی برُی آواز پرَ  کم خیال کرتے۔ اور اُس کی وفاداری  پر دھیان کرتے۔ اور کم دیکھتے کہ فلاں شخص ہمارے ساتھ نہیں چلتا۔ اور دیکھتے کہ کیونکر  وہ مسیح کے نام سے دیؤوں کو نکالتا ہے۔ لادیانہ نظر کو سامریانہ نظر سے بدل ڈالتے اور گرے ہوئے کو اُٹھانے  کے لئے سب ملکرہاتھ دیتے۔ جن باتوں میں تم دوسروں سے مختلف  ہو۔ اگر اپنے اختلافات ضروری سمجھتے ہو۔ تو اُن کو پکڑے رہو۔ مگر باہم ہمخدمت  ہونے کے لئے دیکھو کن باتوں میں تم  متفق ہو۔  اگر کو ئی اِسپر غور  کریگا تو اِتفاق  و اتحاد کی ہزاروں باتیں  پاویگا اور اُسکو اپنا اختلاف ذرا سا دکھلائی پڑیگا۔

راقم ۔۔۔۔۔۔۔۔ اکبر مسیح 

مسیح کا جی اُٹھنا

The Resurrection of Jesus

Published in Nur-i-Afshan December 07, 1894

قبل اِس کے ۔ کہ ہم مسیح کے جی اُٹھنے کی نسبت  رورپیئن ملحدوں اور منکروں  کے قیاس رویت خیالی کے ترویدی  مضمون  کے سلسلہ کو ختم کریں۔  یہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ کہ دو ایک اور اُس کی حقیقی رویتوں مندرج عُہد ؔجدید  کا زکر  کریں ۔ تاکہ بخوبی معلو م ہو جائے۔ کہ بقول ِ قاطیب  کا تب انجیل ’’اُس نے اپنے شاگردوں پر اپنے مرنے کے پیچھے آپ کو بہت سی قوی دلیلوں سے زندہ ثابت کیا تھا۔  جی اُٹھنے  کے بعد  اُس کی مختلف  کم از کم دس رویتوں  کا بیان  عہدؔ جدید  میں ملتا ہے۔ جن سے نہ صرف اُس کا شاگردوں  کو بیک نگاہ نظر آنا۔ اور فوراً  غایب ہو جانا۔ بلکہ مدبیر اُن  کے ساتھ ہمکلام ہونا۔ اُن کے ساتھ  کھانا  اور  اپنی جسمانی ہیئت  کذائی کو ظاہر کرنا ثابت ہوتا ہے۔گزشتہ  ایشو میں اُس کا عماؤس کی راہ میں شاگردوں  کو نظر آنے۔ اُن کے ہمراہ گفتگو کرتے ہوئے۔  مکان تک پہنچنے۔ اور اُن کے ساتھ روٹی کھانے میں شریک ہونے کا زکر کیا گیا۔ اور اب ہم ایک اور رویت کا زکر کریں  گے۔ جس سے خیالی رویت کا قیاس کلتیأ  باطل و عاطل ٹھہرے گا۔ اور ثابت  و ظاہر  ہو گا  کہ کوئی خیالی  غیر حقیقی صورت نہیں۔ بلکہ وہی مسیح تھا جو بیت  لحم  میں پیدا ہوا۔  ناصرہ میں  پرورش پائی۔ جو قریب ساڑھے  تین برس تک اپنے  شاگردوں  کے درمیان رہا۔ یروشلم  کے کوچوں میں پہرا۔  ہیکل میں وعظ  کیا ۔ معجزات  دکھلائے۔ اور بالآخر مصلوب  و مدفون  ہوا۔ اور تیسرے دن ِ مرُدوں میں سے جی اُٹھا۔ اور اپنے شاگردوں  کو اُسی  مصلوب  شدہ جسم سے  بار بار دکھلائی دیا۔ چنانچہ  یوحنا  رسول اپنی انجیل کے  ۲۰ باب میں لکھتا ۔ کہ ہفتہ کے پہلے دن (یعنے ایتوار کی شام کو ) جبکہ شاگرد ایک مکان مین۔ جس کے دروازے  یہودیوں کے ڈر سے بند کر رکھے  تھے جمع تھے اور گالباً انہی  باتون کا تزکرہ باہم کر رہے تھے۔ کہ اتنے میں یسوع اُن کے درمیان آکھڑا  ہوا۔ اور اُنہیں کہا تم پر سلام اور وہ  اُس کو دیکھ  کر خوش ہوئے۔  لیکن تھوؔما  اس رویت کے وقت غیر حاضر  تھا۔ اور جب اور  شاگردوں  نے اُس سے کہا۔ کہ ہم نے خداوند  کو دیکھا ہے۔  تو اُس نے اُن کے کہنے  پر یقین  نہ کیا۔  اور کہا ۔ کہ ’’ جب تک کہ میں اُس کے ہاتھوں میں کیلوں کے نشان نہ دیکھوں ۔ اور کیلوں کے نشانوں میں اپنی اُنگلیاں  نہ دالوں( جو بھالے سے چھیدا  گیا تھا)  کبھی یقین  نہ کروں گا۔‘‘ تھوما  کی اس درخواست تحقیقات  مو شگاف اور اطمینان  بخش کے لئے ہم اُس پر بے اعتقادی  یا گستاخی  کا الزام نہیں لگا سکتے۔ کیونکہ اگرچہ وہ اپنے ساتھیوں کی صداقت و راستی کی نسبت بدظن  نہ تھا۔ تاہم عقل انسانی کے نزدیک ایسے ایک غیر  ممکن  الوہیتی  امر کو دوسروں سے سن لیتے۔ اور یقین  کرنے کی بہ  نسبت  وہ بچشم خود  دیکھنا۔ اور نہ صرف دیکھنا۔ بلکہ  چھونا۔ اور خاطر خواہ  اطمینان  حاصل  کر کے  یقین کرنا بدرجہ  ہا بہتر سمجھتا تھا۔ علاوہ ازیں خود خداوند  نے بھی اُس کی ایسی راز جو تفتیش کو داخل  گستاخی  نہ سمجھا اور اُس  کے حسب دلخواہ طمانیت بخشنے سے اُس کو محروم و مایوس نہ کیا۔  چنانچہ  لکھا ہے۔ کہ  ’’ آٹھ روز بعد  جب اُس کے  شاگرد جمع تھے۔  اور تھوما اُن  کے ساتھ تھا۔  تو دروازہ  بند  ہوتے ہوئے  یسوع آیا۔ اور بیچ میں کھڑا ہو کر بولا۔  تم پر سلام پھر اُس نے تھوؔما  کو کہا۔  کہ اپنی انگلی پاس لا۔ اور میرے ہاتھوں  کو (جن مین آہنی میخوں کے زخم تھے) دیکھ۔ اور اپنا ہاتھ پاس ڈال ۔ اور بے ایمان  مت ہو۔ بلکہ ایمان لا‘‘۔ اور یو تھوما ۔ جبکہ وہ قوت باصرہ۔ سامعہ اور لا مہ کے زریعنے معلوم کر چکا۔ تو نہ صرف  اُس کی حقیقی پہر زندہ  ہوئی  انسانیت و جسمانیت  کا۔ بلکہ اُس  کی الوہیت کا قایل و  سققد ہو گیا۔ اور بلا تامل سر تسلیم جھکا  کر کہا ’’ اے میرے خداوند ۔ اور اے میرے خدا‘‘ جس پر خداوند  نے فرمایا  کہ۔ اے تھوؔما اِس لئے کہ تو نے مجھے دیکھا تو ایمان لایا ہے۔  مبارک وہ ہیں جنہوں نے نہیں دیکھا۔ تو بھی ایمان لائے‘‘۔

اب ہم اُن لوگوں سے جو مسیح کی خیالی رویت کے قیاس کو پیش کرتے اور اُس کے فی الحقیقت  جی اُٹھنے  کو غیر ممکن سمجھتے  سوال کر  سکتے ہیں۔ کہ کیا یہ بیان صرف  کسی خیالی رویت کا  ہے؟ کیا خیالی رویت اپنی جسمانیت  کو اس پر ثابت کرنے  کے لئے مستعد و آمادہ ہو سکتی۔ اور کسی مشتاق رویت  کے ساتھ ایسی صراحت کے ساتھ اس قدر عرصہ تک ہمکلام  ہو کر اُس کے شکوک و اوہام دلی کو رفع دفع کر سکتی ہو؟ کون  محقق اور طالب  صداقت  ایسے بے بنیاد  قیاس کو مقابلہ  ایسی صاف اور واضح تحریری شہادتوں کے قبول کر سکتا  ہے؟ 

وہ نجات پائیں

رومیوں ۱۰باب ۱۱

Salvation

Romans 10:11

Published in Nur-i-Afshan April 20, 1894
By Kidarnath

پوری آیت اس طرح پر ہے۔’’ اے بھائیو۔ میری دلکی خواہش ۔ اور خدا سے میری دعا اسرائیل کی بابت یہ ہے۔ کہ وے نجات پاویں‘‘

ناظرین  نورافشاں کو معلوم ہوا۔ کہ ہم مسیحیوں میں یہ دستور العمل ہے۔ کہ نئے سال کے شروع میں  بماہ جنوری ایک ہفتہ برابر مختلف مقاصد و  مطالب پر خدا سےدُعا مانگیں ۔ مثلاً اپنے گناہوں کا اقرار۔ ‘‘ ’’خدا کی نعمتوں کا شکریہ‘‘ ’’روح القدس  کی بھرپوری‘‘ اُس کے کلام کے پھیلائے  جانے کی خواہش‘‘  ’’ حاکموں پر برکت‘‘۔ ہندو مسلمانوں کی نجات وغیرہ‘‘ اسی سلسلہ میں خدا  کی برگزیدہ قوم بنی اسرائیل کے واسطے بھی دُعائیں مانگی جاتی ہیں۔ چنانچہ  ہمارے یہاں فرخ آباد کے گرجہ گھر میں بھی بتاریخ  دہم ماہ جنوری سن ۹۵ء یہ قرار  پایا۔ کہ یہودیوں  کے واسطے  دعا  و مناجات کی جاوے۔  اور تاریخ  مندرجہ  صدر کے واسطے  بندہ قرار  پایا تھا۔  لہذا ۴ بجے شام کو مندرجہ عنوان آیت  پر کچھ  تھوڑی  دیر تک بیان ہوا۔ اور خط  روم ۹ باب پڑھا  گیا۔ اس باب کو پہلی آیت سے پڑھتے ہوئےجب  ۵ویں آیت کے اس آخری فقرہ  پر۔ کہ ’’ جو سب کا خدا ہمیشہ‘‘ ’’ مبارک  ہے‘‘  پہنچا۔ تب بندہ کو خیال ہوا۔ کہ رسول کا اس فقرہ سے کیا مطلب ہے۔ اور خیال  پیدا ہونیکا  سبب یہ تھا۔ کہ عرصہ سے باوقات  مختلف ایک رسالہ  موسومہ الوہیت مسیح معنوتہ و مولفہ مسٹر اکبر مسیح مختار  باندہ بندہ  کے زیر نظر رہتا ہے۔ رسالہ ٔ مذکور میں  بھی صفحہ  ۹۷ پر اسی فقرہ کی بابت کچھ بحث ہے۔ چونکہ مختار صاحب  الوہیت مسیح کے منکر ہیں۔ لہذا اُنہوں  نے اپنے خیال  کی تائید میں پولوس رسول کی  افضل  التفضیل دلیل کو۔ جو بنی اسرائیل  کی فضیلت  اَور  دنیا کی تمام اقوام پر ثابت  کرتی  ہے۔ بحث کی صورت  میں لانا  اپنا فرض سمجھا۔ آپ کی مثال  وہی  ہے جو ایک حکیم  سے نکلی ؟  کہ جس نے بغیر پڑھے اور تعلیم  حاصل  کئے چندجہلا دیہات کو دھوکھا دے رکھا تھا۔ ایک مرتبہ کا زکر  ہے۔ کہ حکومت موصوف کے پاس ایک ایسا مریض لایا گیا۔ جس کی دوا آپ کے زہن شریف میں نہ آسکی۔ اور نہ مرض کی تشخیص  ہوسکی۔  اب  اگر کہتے ہیں۔ کہ اَور حکیم کے پاس جاؤ۔ تو پیٹ کا دھندھا  جاتا ہے ۔ بدنامی ہوتی ہے۔ لوگ کہینگے ۔ کہ پورے حکیم نہیں ہیں۔ پس کچھ سوچ ساچ کر آئیں بائیں  شائیں  تین پڑیاں خاک دُھول  بلا کی بنا کر مریض  کے حوالہ کیں۔ اور فرمایا ۔ کہ ۔ اِن پڑیوں کو استعمال  کرتے ہوئے۔ اونٹ کا خیال نکرنا۔  مطلب یہ۔ کہ اگر مریض  نے کبھی اونٹ دیکھا بھی نہو۔ تو بھی جب ان پڑیوں کے کھانے ا رادہ  کریگا۔ فوراً اونٹ کا خیال پیدا ہوگا۔ غرضیکہ اُن پڑیوں سے مریض کو فائدہ نہوا۔ اس لئے۔ کہ مریض اونٹ کے خیال کواپنے دماغ سے باہر نکر سکا۔ یہی سبب تھا۔ کہ بندہ کو دردپڑھتے ہوئے نھی مختار ساحب  کی دلیل نہ بھولی ۔ بلکہ خود بخود  خیال  سب آموجود ہوئے۔ اور اچھا ہوا۔ کہ ایسے وقت میں خیال پیدا ہوا۔ کیونکہ چند سببوں کا بیان کرنا ضروری تھا۔ تاکہ کل شرکاء ربادت کے دل اس بات پر متوجہ ہوجائیں۔ کہ کیوں بنی اسرائیل کے واسطے  آج دُعا مانگنا چاہئے۔ منجملہ اُن اسباب کے پہلا سبب قوی یہ ہے۔ کہ وے اسرائیلی ہیں۔ اور فرزندی۔ اور جلال۔ اور عیدیں۔ اور شریعت۔ اور عبادت کی رسمیں۔ اور وعدے اُن ہی کے ہیں۔ اور دوسرا سبب یہ ہے۔  کہ باپ دادے اُن ہی میں کے ہیں۔  اور تیسرا سبب یہ ہے۔ کہ جسم کی نسبت مسیح بھی اُنہیں مین سے ہوا۔ لیکن اس تیسرے سبب پر ہم کو اعتراض  ہے۔ اگر جسم کے معنے کچھ اور نہوں۔ اس واسطے۔ کہ باپ دادے۔ یعنے ابراہام ۔ اصحاق۔ یعقوب وغیرہ کیا  جسم نہیں  رکھتے تھے۔ پھر مسیح کو باپ دادوں  سے علیحدہ کر کے بیان کرنے میں رسول کا کیا مطلب ہے؟ مختار صاحب ہم کو سمجھا دیں۔ آیا وہی مطلب ہے۔ جو قرآن کی سورہ انا انزلنا کے اس فقرہ میں ہے ’’ تنزلُ المکایکتہ  والروح‘‘ ( اُترتے ہیں فرشتےؔ اور روؔح) اگر روح سے روح القدس خدا مراد نہیں تو کیا ؟ اگر جبرائیل کا نام روؔح  ہے۔ تو کیا جبرائیل فرشتہ نہیں ہے؟ اور فرشتوں کے اترنے میں جبرائیل  کو اُترا ہوا نہیں سمجہینگے؟ یا اس کا  وہ مطلب ہے۔ جو قرآن  کی ان آیتوں میں ہے۔ فَارَسَلَنا اِلَیھٰارُوحَنا۔ فتضخنا فیھا میں روحنِاَ۔ پس بھیجا ہمنے اُس کی طرف اپنی روح کو۔( پس پھونک دی ہم نے اُس میں اپنی روح میں سے) کیا یہاں ان دونون روحوں میں کچھ مغائرت ہے۔ یا نہیں؟ اگر ہے ۔ تو قرآن  سے خدا کی روح کی شخصیت ثابت ہوگئی۔ اور اگر مغائرت نہیں ہے۔ تو کیا جبرائیل نے جبرائیل  کو پھونک دیا؟ یہ کیسی بات ہے!  ناظرین ناراض نہوں۔ اور نہ کہیں۔ کہ انجیل سے مسیح کی الوہیت کی بحث  میں قرآنی  دلائل ۔ اور خاصکر  روح القدس  کی الوہیت  کا بیان  پیش کرنا چہ معنی؟ جناب من بےمعنی نہیں۔ بلکہ یہ دکھانا چاہا ہے۔ کہ یونی ٹیرین دلایل محمدی دلایل کے سگے بھائی ہیں۔ جو وہاں ہے۔ سو یہاں ہے۔ جو یہاں ہے، سو وہاں ہے۔ لیکن ہمارے اعتراض کا جواب خود پولوس رسول سے ہمکو یہ ملتا ہے۔ کہ پیارے بھائی۔ اگرچہ خداوند مسیح جسم کی نسبت باپ دادوں سے کسچ بھی مغائرت نہیں رکھتا۔ ( اور میرے دوسرے سبب ہی میں یہ تیسرا سبب بھی مل جاتا ہے) پر تو بھی زمانہ آیندہ میں مسیح  کےمخالف کے اُٹھینگے اور لوگوں کے دلوں میں شبہ پیدا کیا کریں گے۔ اس واسطے میں نے تم کو صاف بتا دیا۔ کہ جسم کی نسبت مسیح بھی اُن ہی میں سے ہوا۔ جو سب کا خدا ہمیشہ  مبارک ہے۔ مطلب یہ کہ مسیح خداوند  جب مجسم ہوا۔ تب غیر اقوام  میں نہیں۔ بلکہ خدا کی بر گزیدہ قوم اسرائیل میں۔ کیونکہ نجات یہودیوں میں سے ہے۔ اور اگر زیادہ اطمینان خاطر منظور ہو۔ تو مرقس  کی انجیل میں سردار کاہن سے دریافت کرو۔  وہ تمہیں بتادیگا کیونکہ ۱۴۔ ۱۶ میں پھر سردار کاہن نے اُس سے پوچھا۔ کہ کیا تو مسیح اُس مبارک کا بیٹا ہے؟  تب ۶۲ ویں آیت  میں یسوع نے اُس سے کہا۔’’میں وہی ہوں۔‘‘ مختار صاحب  اگر مسیح میں اُلوہیت نہ تھی۔ تو باپ دادوں سے بلاوجہ  موجہ علیٰحدہ کرنا خلل دماغ کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟ لیکن ملہم شخص کی بابت ایسا بدگمان  نہ تو آپ کر سکتے ہیں۔ اور نہ میں۔ پھر آپکی یہ دلیل ۔ کہ ’’مقدس پولوس نے کس ایک جگہ بھی مسیح کے حق میں یہ خطاب استعمال  نہیں کیا ہے۔ اگر دوسری جگہ بھی انہی  الفاظ  کو استعمال  کرتا۔ تب آپ کیا کہتے؟ اور تیسری جگہ بھی استعمال  کرتا۔ اور چوتھی جگہ بھی استعمال  کرتا۔ تو آپ کیا کہتے؟ پہر آپ ہی تو کہتے ہیں۔ کہ بجنسہ یہ وہی فقرہ ہے۔ جو روم ۱۔۲۵ میں ہے۔ اور کالق کی نسبت لکھا ہے۔ واہ جناب یہی تو دلیل ہے۔  کہ کدا کے کلام میں مسیح کے حق میں اکثر ایسے خطاب پائے جاتے ہیں۔ جو خدا کی نسبت ہیں۔ پس باوجود اُن صفات کے جو کدا کے معُروف ہیں۔ مسیح کی اُلوہیت کو رد کرنا کس قانون کے رو سے درست ہے؟ اب آخری فیصلہ سنئے خدا باپ کی اُلوہیت  کے آپ  بھی قایل ہیں۔ اور روح القدس کی اُلوہیت قرآن سے ظاہر ہو چکی ہے۔ اور مسیح کی الوہیت اس افضل التفضیل دلیل پولوس سے آپ کو دکھائی گئی۔ براہ مہربانی تثلیث  کی پہر  تتفیح فرمائے۔ اور اپنے رسالہ کا جواب جلد چھپوائے۔زیادہ نیاز۔

راقم احقر العباد۔۔۔۔ کیدار ناتھ از فرخ آباد 

خَراب دُنیا

جمیل سنگھ

(۱۸۴۳–۱۹۲7)

Sinner World

Published in Nur-i-Afshan April 06, 1894
By Jameel Singh

خداوند  کا رسول  پولس اہل گلا تیہ کو خط لکھئے وقت اُس کط کے دیباجہ میں ہمارے  مضمون کے عنوان کے الفاظ  لکھتا ہے ۔ دیکھو  نامہ گلتیوں کو ۱:۵ ۔ اور اگر ناظرین ذرا سا بھی اِس پر غور و فکر کریں  تو یہ نہایت ہی سچ اور درست معلوم  ہو گی۔ اور کسی کو بھی اس میں کلام نہ ہوگا۔

یہ بات صریح ظاہر ہے کہ جس قدر کاریگر  زیادہ  دانا اور وقلمند ہوتا ہے۔ اُسی قدر اس کی کاریگری بھی عمدہ  اور مضبوط ہوتی ہے۔ اور صنعت اپنے صانع کی قدر اور عظمت ظاہر و آشکار  کرتی ہے  ۔ جتنی صنعتیں ہمارے دیکھنے میں آتی ہیں  دو طرح کی ہیں ۔ اوّل قدرتی ۔ دوم مصنوعی ۔  یہ دنیا کہ جس پر ہم  آباد  ہیں اِن  دو قسم کی کاریگریوں  سے آراستہ اور  پیراستہ  ہے۔ قدرتی  یعنے آسمان و زمین۔ سورجاور چاند۔ دریا۔ و سمندر ۔ حیوانات اور انسان۔ یہ سب قدرتی ہیں۔ اور صنعتی جیسا کہ مکانات ۔ کنوئے۔ سڑکیں۔ پل۔ اور تمام سامان جو انسانوں  کے لئے کار آمد  ہے۔ اور پھر اُن کی تقسیم یوں بھی ہے۔اوّل وہ چیزیں جو آسمانی  ہیں۔ اور دویم وہ چیزیں جو زمیّنی ہیں۔ قدرتی چیزوں کا خالق خدا ہے۔ اور مصنوعی چیزوں کا بنانے والا خاکی  کوتاہ اندیش۔ اور پُراز سہو و خطا  آدمی ہے۔ خالق عالم نے اپنی بےحد حکمت اور دانائی سے کو ئی  شے خراب نہیں بنائی۔ کیونکہ اُس کے کسی  کام میں نقص پایا  نہیں جا سکتا۔ اور جو خراب اور ناقص شے ہے اُسکو خالق کا بنایا ہوا تصور  کرنا آدمی جسیے زی عقل مخلوق  کے لئے بعید از عقل ہے۔ خالقِ مطلق نے پیدایش  کے وقت جب سب کچھ نیست سے ہست کیا آپ  کہا کہ’’ سب بہت اچھا ہے‘‘ تو کیونکر ہوا کہ یہ دنیا جو کالق نے اچھی بنائی تھی اب خراب  ہو گئی؟ اِس کاجاننا آدمی کے لئے ضرور ہے۔

اگر کوئی عام انسان دنیا کو خراب کہے۔ تو اُسکی بات دفعتاً یقین کے لایق نہیں ہو سکتی۔ لیکن جبکہ کلام مقدس بئیبل میں خالق اپنے بندے کی معرفت اِس امر کا اظہار کرے۔ تو یہ بات ضرور قابل تسلیم ہے۔ رسول دنیا کو خراب کہتا ہے۔ تو آسمانی چیزیں اس سے مراد نہیں۔ اگر کوئی کہے کہ عزازیل  فرشتہ بھی تو آسمانی مکانون کا ساکن تھا۔ اور وہاں بھی خرابی ہوئی۔  تو اُس کاجواب یہ ہے کہ شیطان نے جو نہی  مغروری  اور سر کشی کی وہ وہیں آسمان پر سے گرایا گیا۔ کیونکہ کو ئی ناپاک  چیز وہاں ٹھہر نہیں سکتی۔ اِس لئے وہ وہاں نہ رہ سکا پر زمین پر گرایا  گیا۔ جب کہ دنیا ایک ایسے بڑے دانا  اور عطیم  الشّان خدا سے بنائی گئی۔ پھر وہ کیونکر خراب ہو گئی؟  اِس کا زکر توریت میں صاف صاف  بیان ہوا ہے۔ اِس کی پہلی خرابی  کا سبب انسان کی پہلی  حکم عدولی ہوئی تھی۔جو پہلے انسان یعنے بابا آدم نے باغ عدن میں کی۔ جس سبب سے وہ وہاں سے نکالا  گیا۔ اور قسم قسم کی خرابی اپنے اور اپنی اولاد پر لایا۔ جس کےسبب سے فرمان الہیٰ جاری  ہوا اپنی اولاد  پر لایا۔  جس کے سبب سے فرمان الہیٰ جاری ہوا زمین ’’  تیرے سبب سے لعنتی ہوئی‘‘۔ پیدایش  ۳: ۱۷۔ اب اس سے صاف  ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کی خرابی کا سبب آدم کا گناہ ہے۔ اور پھر تمام دنیا کے آدمزاد  کے بے شمار  گناہ ہیں جو اُس وقت سے اب تک ہوئے اور ہوتے جاتے ہیں۔

گناہ کا اثرمثل زہر قاتل کے انسان کے دلپر ہو ا ہے۔  اور دل کے ناپاک اور نجس  ہونے سے انسان کے تمام  کام خالق  کی نظر میں بطالت کے ہیں۔ اور نہایت نفرتی اور ناکارہ ہیں۔  اگر کوئی ساحب عقل و فہم سچائی  سے اپنے دل کا  حال  لکھے۔ تو وہ ضرور اُس مضمون  کا عنوان ’’ میرا بُرا دل‘‘ رکھے گا۔ واعظ  نے سچ لکھا ہے ’’ بنی آدم کا دل بھی شرارت سے بھرا ہے۔ اور جب تک وہ جیتے ہین ھماقت اُسن کے دل مین رہتی ہے۔ اور بعد اس کے مرُدوں میں شامل ہوتے ہیں۔ واعظ ۹: ۳۔

یہ دنیا امورات زیل کے سبب سے خراب ہے۔

پھلا امر۔ کہ شیطان کی جائے سکونت ہو گئی ہے۔ جس  نے آدم اور حوّا کو نیکی اور مبارک حالت سے گرا کر قہر الہیٰ  اور سزا و عتاب  کا مستحق بنایا۔ اور نہ صرف  اُن  کی بربادی کا سبب ٹھہرا۔ بلکہ  تمام آدمزاد کی۔ اور اس پر اکتفا نہ کر کے  ڈھونڈ ہتا پھرتا ہے۔ کہ کسی کو غافل پاوے۔ اور پہاڑ سے  اور خدا کی فرمانبرداری سے منحرف کر کے اپنے موافق ملعون بناوے۔

دوسرا امر : بُرے آدمیون سے بھر گئی ہے۔ جو بھلوں کو ہر طرح سے تکلیف دیتے ۔ اور ہر قسم کا گناہ کرتے  اور دوسروں کو برائی  کی ترغیب دیتے اور شیطان کے مددگار بنکر خدا کے دشمن ہیں۔ اِس سے ایمانداروں  کو آزمایش  کا برا خطرہ ہے۔

تیسرا امر۔ کہ گناہ کی شدّت اور اُس  کی برُائیوں  کے سبب سے یہ دنیا خراب ہو گئی ہے۔ گناہ انسان کی طبیعت اور خصلت میں آگیا ہے۔ اور اس سبب سے کوئی بشر دنیا میں پیدا ہو کر گناہ سے خالی نہیں رہ سکتا۔

چوتھا امر۔ گناہ کے نتیجے  جو گناہ یا نا فرمانی کے سبب نکلے ہیں۔ مثلاً دُکھ۔ بیماری۔ رنج و فکر۔ اور محنت اور مشقت  اور موت  و غیرہ۔

لیکن شکر کا مقام  ہے۔ کہ اس خراب  دنیا سے چھڑانے  والا جس کا نام اسم  عمانوئیل ہے۔ یعنے نجات دینے والا خدا ہمارے ساتھ ہے۔ نجات دینے والا ربنّا  یسوع المسیح  اِس دنیا میں آیا۔  اور اب اُس کی بشارت عام دی جاتی ہے۔  اور جو چاہے مفت مین نجات حاصل کرے۔

الراقم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جمیل سنگہ ۔ از کہنہ 

اِنجیل عیسیٰ

علامہ احمد شاہ شائق

The Gospel of Jesus

Published in Nur-i-Afshan December 28, 1894
By Allama Ahmed Saha Sahiq

اگر چہ اِس کی بات اور کچھ لکھنا ضروری ہے۔ کیونکہ اس کے قبل ہی ولایت  میں  وہ رازِ سر بستہ کہل گیا ہے۔  اور ساتھ ہی اس کے حضرات نوٹووچ  کی قلعی بھی کھل گئی۔ کہ وہ کیا ہیں۔ اور ہندوستان کے مشہور و معروف  انگریزی اخباروں نے بھی بڑے زور سے نوٹووچ  کی تردید کر دی۔ اور ان کا اگلا پچھلا حال بھی اپنے ناظرین کو سنا دیا۔ جنہوں نے ماننگ پوسٹ اور پاپونیر  کو برابر  پڑہا ہوگا۔ وہ اس حقیقت سے بخوبی  آگاہ ہوں گے مگر پھر بھی ہمکو اپنا وہ وعدہ پورا کرنا ضروری ہے۔ جو ہم اپنی تحریر میں  کو ہمس کی خانقاہ سے سرسری طور پر لکھی تھی۔ کیا تھا۔ اور جو نورافشاں مطبوعہ  ۳۱ اگست سن ۱۸۹۴ء میں شایع ہو کر پبلک کے ملاحظہسے گزر چکی ہے۔  اُس کے آخری الفاظ ۔ کہ ’’باقی پھر لکھوں گا‘‘ ہم کو مجبور کر رہے ہیں۔ کہ ضرور کچھ لکھنا  چاہئے۔ اور بعض احباب کی  بھی یہی خواہش ہے جو اکثر  اپنے نواز شناموں میں اس کی بابت اصرار کرتے ہیں۔  لہذا  ؎ خیال خاطرِ احباب  چاہئے ہر دم ۔ انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینو کو۔

ناظرین کا بیش قیمت وقت اور نور افشاں کے قابل قدر کالموں کے وقف  ہونے کے لئے معاف  کیا جاؤں۔ { کپتان ایس ایچ  گاڈ فری  صاحب  برٹش کمشنر  امداخ کی تحقیقات  کا  نتیجہ}صاحب موصوف ۔ نے ہماری  ویزنوریوین مشنری صاحبان کی درکواست پر اس امرمیں بہ حیثیت  کمشنری  تفتیش  شروع  کی۔ اُنہوں نے کپتان رامزی  صاحب  کو جو سابق میں یہاں کے برٹش جائنٹ کمشنر تھے ایک خط بدیں مضمون لکھا۔ کہ ’’کیا  آپ کے زمانے  میں کو ئی شخص نکولس نوٹووچ  لداخ میں آیا تھا؟‘‘ اُنہوں نے اس کے جواب میں تحریر کیا۔ کہ ’’ ہاں سن ۱۸۸۷ ء ماہ اکتوبر میں ایک شخص  اس نام کا آیا تھا، اور وہ دانت  کے درد کی شکایت  کرتا تھا جس کا  معالجہ  ڈاکٹر  مارکس صاحب  نے ( جو اُس وقت امداخ کے میڈیکل  آفیسر  تھے) کیا تھا۔ اُس  کا دانت اُنہوں نے اُکھاڑا تھا۔  اور یہ شخص صرف دو تین  دن لداخ مین رہ کر چلا گیا تھا۔ ‘‘ ڈاکٹر سورج مل جو اُس زمانہ میں یہاں  دربار کشمیر کی طرف سے  گورنر لداخ تھے اُنہوں نے بھی  امن ملت کو تسلیم کیا۔ کہ نوٹووچ لداخ میں سن ۱۸۸۷ ء  میں آیا تھا۔ اور دو تین روز رہکر چلایا گیا تھا۔ ان دونوں  تحریروں سے ہم کو اس قدر تو ثابت ہو گیا ۔ کہ نوٹووچ لداخ تک ضرور آئی۔ مگر اس سے  یہ ہر گز ثابت  نہوگا۔ کہ وہ انجیل  عیسیٰ کو ہمس سے لے گئے۔ اور ابتکر اُس کے لئے بہت کوشش کی گئی۔ کہ کو ئی ثبوت اس امر کا ملے۔ مگر کوئی کامیابی  کی صورت نظر نہیں آتی۔

ہمس کی خانقاہ  کے راہب کو بھی برٹش جائنٹ کمشنر صاحب نے ایک سرشتہ کا خط لکھا۔ کہ آیا تمہارے یہاں  کوئی شخص  کسی وقت اس حالت میں خانقاہ میں رہا۔  کہ ’’ اُس کی ٹانگ ٹوٹی ہو۔ اور تم نے۔ یا تمہارے  اور کسی ساتھی نے اُس کی خدمت  کی ہو۔ اور اگر تمہاری  خانقاہ میں کوئی ایسی  کتاب ہو جس میں یسوع مسیح  کی زندگی کے حالات ہوں۔  یا کوئی دوسری کتاب جو مذہب  عیسوی  سے تعلق رکھتی ہو۔ اس بات کی بھی  اطلاع دو۔ اور یہ بھی بتلاؤ  کہ کیا کسی رُو سے سیاّح۔ یا اور کسی شخص نے تمہارے  خانقاہ  مین رہ کر کسی  کتاب کا  جو ’’عیسی‘‘  سے منسوب ہو ترجمہ کیا ہے‘‘؟ 

اس کے جواب میں و ہاں کے ہیڈؔلامہ  نے جواب دیا۔ کہ ’’ نہ تو کوئی شخص ہمارے یہاں ٹوٹی ہوئی  ٹانگ لے کر آیا۔ کہ ہم نے اُس کی خدمت سے فخر حاصل ہو۔ اور نہ کوئی کتاب  ہماری خانقاہ میں مذہب عیسوی  کے متعلق  ہے۔ اور نہ کسی شخص  کو ہم نے کبھی کو ئی کتاب دی کہ وہ ترجمہ کرتا۔ یہ خلاصہ ہے کمشنر صاحب  کی تحقیقات کا۔ ہم گذشتہ  ہفتہ پہر خانقاہ  ہمس کو گئے تھے۔ اور وہاں کے کل راہبؔوں سے جو شمار میں قریب  پونسو کے ہیں بذریعہ  مترجم دریافت کرتے رہے۔ مگر کسی نے بھی جواب اس بات کا ندیا۔ کہ ان کو اس معاملہ سے کچھ خبر ہے۔ اُن کا بیان ہے۔ کہ ’’ اول تو کوئی ایسا شخص  یہاں آیا ہی نہیں۔ اور اگر انگریز  لوگ خانقاہ  دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ تو خانقاہ کے مکان کے باہر ایک باغ  ہے۔ اُسی مین اپنا خیمہ لگا کر رہتے ہیں۔ کوئی انگریز ۔ یا روسی کبھی خانقاہ  کے اندر نہیں رہا۔ نہ یہ ہمارا دستور ہے۔  کہ کسی کو خانقاہ  کے اندر  آنے کی اجازت دیں۔  اور نہ ہم کسی کو اپنی کتاب چھونے  دیتے ہیں۔  اور نہ کتاب  کو خانقاہ  کے باہر  لیجاتے ہیں۔ اور نہ کسی کو ایسا کر نیکی  اجازت دیسکتے ہیں‘‘۔

{ ریورینڈ ایف بی شاع  اور مسٹر  نوٹو وچ} اخبار ڈیلی نیوز لنڈن  مطبوعہ  ۲ جولائی  سن ۱۸۹۴ء میں پادری یف بی۔ شاع موریوین مشنری لداخ  نے نوٹووچ  صاحب کی تردید میں  ایک خط لکھا۔ کہ ’’ ہمس کی خانقاہ  میں نہ تو کوئی  نسخہ  پالی زبان  میں ہے۔ اور نہ کوئی پالی زبان سے واقف ہے۔ حتی  ٰ کہ کوئی  شخص پالی حروف کو پہچان بھی نہیں سکتا۔  اور نہ کوئی شخص نوٹووث  نام کا ہمس کی خانقاہ میں آیا۔ اور نہ کوئی شخص ٹانگ ٹوٹی  ہوئی حالت میں خانقاہ  ہمس کے راہبوں سے علاج  کیا  گیا۔  اور نہ کوئی ایسا  شخص  کبھی خانقاہ  میں رہا۔ وغیرہ‘‘۔ اس کے جواب میں نوٹووچ  صاحب  تحریر فرماتے ہیں۔ کہ ’’ ضرور  انجیل عیسیٰ ‘‘  کا اصلی  نسخہ  ہمس کی نقاہ مین موجود ہے۔ بشرطیکہ  اُس کو وہاں کے پادریوں نے وہاں  سے علیحدہ  نکر دیا ہو۔‘‘اور ساتھ ہی اس کے یہ بھی لکھا ہے۔ کہ ’’ میں سال آیندہ پھر  لداخ کو جاؤں گا۔ اور ہمس کی خانقاہ  میں اُس نسخہ کو تلاش کروں گا۔ اور اگر وہاں  نہ ملا  تو  لاسہ کی خانقاہ  میں جا کر تفتیش  کروں گا۔‘‘ ہم نوٹووچ  صاحب  کی داد دیتے ہیں کیونکہ انکو سوجھی بڑی دور کی۔ آپ فرماتے ہیں۔ کہ ’’ اگر پادریوں  نے اُس  نسخہ کو وہاں سے الگ نہ کر دیا ہو۔‘‘ اے حضرت  جب آپ خود اُس کے خریدنے میں کامیاب نہوئے اور بقول آپ کے ۔ کہ ’’ ٹانگ کی قیمت دیکر صرف ترجمہ ہی نصیب ہوا۔‘‘  تو پھر بیچارے  پادری  کہاں سے اور کس طرح اُس کے وہاں  سے الگ کرنے میں  کامیاب ہو سکتے ہیں؟ یہ صرف آپ کی بدگمانی ہے۔ جو اپنے جھوٹھ کو لوگوں سے چھپانے کے لئے پیدا کی۔ نوٹووچ  صاحب کے اُس خط کی نقل  ۶ جولائی سن ۱۸۹۴ء  کے ہوم نیوز میں بھی کی گئی ہے اپس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ’’ نوتووچ  صاحب  سال آیندہ  میں پھر لداخ  کو  جائیں گئے‘‘۔  خیر وہ آئیں ۔ ہم بھی اُن کا خیر مقدم  کرنے کو یہاں بیٹھے ہیں۔ مگر ہم کو بھی اس کے لئے منتظر  رہنا چاہئے۔ کہ جلد ہم  اس خبر کو کسی انگریزی  اخبار میں پڑہیں گے۔ کہ نوٹووچ ساحب سخت بیمار ہو گئے۔ یا خدانخواستہ جس طرح  ہمس کی خانقاہ  میں ٹانگ  ٹوٹ گئی تھی۔  اسی طرح  اور کوئی  عضو ناکارہ  ہو گیا۔ اس لئے  وہ اب لداّخ  کو اس سال نہیں جا سکتے۔ کیونکہ اگر وہ یہاں آئیں گے تو بنائیں گے  کیا ’’ انجیل عیسیٰ‘‘ جہاں سے پہلے پیدا کی وہیں جائیں۔ ہمیں اور لاسہ کو جانا فضول ہے۔

{ نوٹووچ  صاحب کا ساف انکار کہ انکی ٹانگ  نہیں ٹوٹی  اور نہ اُنہوں نے نسخہ پالی زبان میں دیکھا۔ بلکہ تبتی زبان میں دیکھا۔}

چونکہ پادری شاع صاحب  نے نوٹووچ صاحب  کی تردید میں لکھا تھا کہ ’’ کوئی شخص ہمس کی خانقاہ میں ٹانگ  ٹوٹنے  کی حالت میں نہیں رہا۔ اور نہ کوئی نسخہ وہاں  زبان پالی میں ہے۔ اور نہ کوئی پالی جانتا  ہے ’’ اس پر نوٹووچ صاحب ایک آرٹیکل ایک فرنچ اخبار میں جو پیرس سے نکلتا  ہے اس طرز  سے لکھا کہ ’’مینے کبھی نہیں کہا۔ کہ میری ٹانگ  ٹوٹی تھی ۔ اور ہمس کے مالکوں نے میری  مدد کی۔ بلکہ میں نے یہ کہا۔ کہ میں بیمار تھا۔ اور اُس بیمار ی کی حالت میں ہمس کی خانقاہ میں  رہا۔  اور وہ نسخہ  پایا۔ اور ترجمہ کیا۔ اور مینے یہ بھی نہیں کہا کہ وہ نسخہ پالی زبان میں مینے دیکھا۔ بلکہ یہ کہ اصل نسخہ پالی زبان کا لاسہ میں موجود ہے۔ اور اُس کا ترجمہ تبتی زبان میں ہمس میں موجود ہے۔‘‘ نوٹووچ صاحب  کا یہ  بیان اخبار

L’INTERMEDICERE جلد ۳۰ نمبر ۶۶۲ مورخہ  ۱۰۔ اگست  سن ۱۸۹۴ ء  میں شایع ہوا ہے۔ اور اپنے بیان میں انجیل عیسیٰ  کے ۱۴۸ صٖفحہ  کا حوالہ دیکر وہی زکر شروع کیا ہے  جو اکثر اردو و انگریزی  اخباروں میں عیسیٰ کی زندگی کے متعلق  شایع ہو چکا ہے۔ اُس کا اعادہ اس جگہ فضول ہے۔ 

اب مقام حیرت ہے۔ کہ ابتداء ابتداجب اخباروں میں  یہ خبرمشہور ہوئی۔ تو اُنہیں  دو عنوانوں سے ہوئی تھی۔ اور نوٹووچ  صاحب نے ذرا بہر اس کی مخالفت نہیں کی۔ مگر  جسوقت پادری  شاع  صاحب  کی طرف سے اس پر نوٹس  لیا گیا ۔ تو نوٹووچ صاحب کو یہ سوجھی۔ کہ ان دونوں  باتوں سے انکار کر جاؤ  تو بہتر ہے۔ اور ہم یقینی طور  پر یہ کہتے ہیں کہ ضرور نوٹووچ  صاحب  ہی خود ان مذکورہ بالا خبروں کے مخبر ہوں گے۔ اور بعد کو جب دیکھنا ۔ کہ  جھوٹ کے پاؤں اُکھڑ گئے۔ تو جھٹ یہ سوجھ  گئی۔ اب یا تو نوٹو وچ صاحب  اس بات کی تصدیق  کرائیں۔ کہ کیونکر اخبار نویسوں نے اس خبر کو شایع  کیا۔ اور یا یہ کہیں۔ کہ پہلے مینے اپنی بہادری  دکھلانے کو یہ کہدیا تھا۔  اب میں نے دیکھا۔ کہ اُلٹی  آنتین  گلےمیں پڑیں۔ اس لئے میں اپنے جھوٹ کو مان لیتا ہوں ۔ سب سے اول ولایت کے اخباروں نے نوٹووچ کا ساتھ دیا۔ اور وہیں  سے یہ خبریں ہندوستان  میں پہنچیں  اور ہم آگے  ثابت کر دیں گے۔ کہ نوٹووچ  صاحب کی عادت  جھوٹ  کہنے کی سن ۱۸۸۷ ء  سے ہندوستان میں ثابت  ہے۔ آپ کا یہ کہا۔ کہ ہمس  مین لاسہ والے پالی نسخہ کا ترجمہ ہے۔ آپکی لیاقت کا ثبوت دے رہا ہے۔ کہ آپ نے اُس ترجمہ  کو اصلی  کے ساتھ مقابلہ کرنے سے پہلے ہی درست  و صحیح  قرار دیدیا۔ لاسہ آپ گئے نہیں۔ اصلی نسخہ کو دیکھا  نہیں۔ اور یہ تو بتلائے۔ کہ اُس ترجمہ کا ترجمہ کس کی مدد  سے آپ نے کیا؟  ہم کو ہمس میں ایک بھی  شخص ایسا نظر  نہیں آیا جو آپ  کو انگریزی  یا فرہچ یا اور کسی زبان  میں اُس  ترجمہ  کر کراسکتا۔ شاید آپ نے خود تبتی میں اسقدر  مہارت  پیدا کی ہو گی۔ مگر یہ بھی محال  معلوم ہوتا ہے۔ خیر جو کچھ ہو ہم  دیکھیں گے۔ کہ کس طرح آپ اس کو یہاں آکر ثابت کرتے ہیں۔

{ پروفیسر مکس  مولر ساحب کا مضمون نوٹووچ صاحب کی ’’انجیل عیسیٰ پر‘‘۔}

پروفیسر مکس مولر کے قابل قدر قلم سے ایک مضمون اُنیسویں صدی  بابت ماہ اکتوبر سن ۱۸۹۴ء میں شایع ہوا ہے۔ جس میں اُنہون نے نوٹووچ صاحب کے دعوؤں  کو ہر پہلو  سے جا نچا ہے۔ ہم کو اُمید تھی۔ کہ ضرور نوٹووچ  صاحب پروفیسر مکس مولر صاحب  کی تردید میں کچھ خامہ فرسائی کریں گے۔ مگر ہنوز  انتظار ہی انتظار  ہے۔ اور اُمید  پڑتی  ہے کہ ہمیشہ تک یہ انتظار  باقی رہے گا۔

پروفیسر صاحب نے بہت واضح  دلایل سے ثابت کیا ہے۔ کہ ’’ انجیل عیسیٰ‘‘  ہر گز ہر گز  بودہ  لوگوں کے درمیان نہ کبھی تھی۔ اور نہ اب ہے۔ اور نہ نوٹووچ  صاحب نے کبھی ہمس کی خانقاہ  میں ٹانگ  ٹوٹنے  کی حالت میں پناہ لی اور نہ اس مطلب  کے واسطے  اُنہوں نے کبھی ٹانگ  توڑی کہ ’’ انجیل عیسیٰ‘‘  اُن کو دستیاب  ہو۔ اور اس بیان کی کی تائید میں بہت سے سیاّحوں  اور مشنریوں  کے حوالے دئے ہیں  جو لداخ میں رہتے ہیں اور جولوگ  سیاحوں میں سے ہمس کو گئے۔ ایک لیڈی کے خط کا خلاصہ  جو پروفیسر  ساحب کو ۲۶ جون  کو اُس لیڈی  نے لداخ سے بھیجا  زیل میں  ناظرین کے لئے  ترجمہ کرتا ہوں۔ تاکہ ناظرین کو معلوم  ہو جائے ۔ کہ صرف ہم اور مشنری ہی ایسا نہین کہتے۔ بلکہ اور لوگ بھی جن کو  اس سے کچھ تعلق  نہیں اسبات کی بابت کس قدر تلاش کرتے ہیں اور کیا رائے رکھتے ہیں لیڈی  کے خط کا  خلاصہ:  ’’کیا آپ نے یہ سُنا کہ ایک روُسی جس کو خانقاہ کے اندر جانیکی اجازت نہ ملی تھی تب اُس اپنی ٹانگ  خانقاہ کے  پہاٹک کے باہر توڑ ڈالی۔ اور یون خانقاہ کے اند اُس کو پناہ دیگئی؟  اور اُس کا مطلب اس سے صرف  یہتھا کہ بودہ لوگون کے درمیان  جو یسوع مسیح کی سوانح  عمری ہے اُسکو حاصل کرے۔ اور وہ اسی خانقاہ میں تھی۔ اور اُس کا بیان ہے کہ اُس نے اُسکو حاصل کیا۔  اور اُس کا بیان ہے۔کہ اُس نے  اُسکو حاصل  کیا۔ اور اُس نے اُس کو فرنچ  زبان  میں شایع  بھی کرادیا۔ اس قصّہ کا ہر ایک لفظ  سچائی سے خالی  ہے۔ کو ئی روُسی وہاں  نہیں گیا۔ نہ کو ئی شخص  گزشتہ  پچاس برس  سے ٹوٹی ہوئی ٹانگ  کی حالت میں اُس سیمنری میں داخل ہوا۔  اور نہ مسیح کی کوئی سوانح  عمری وہاں موجود ہے۔ ‘‘ اس راقمہ  کو لداغ  سے کو ئی  تعلق نہیں۔ وہ صرف بطور سیر کے یہاں آئی تھی۔ اور اس حالت میں اُس نے اخباروں  میں اس خبر کو پڑھکر پروفیسر صاحب  کو اس سفید جھوٹ  سے مطلع کیا۔

نیک نیت پروفیسر  صاحب اپنے مضمون میں لکھتے ہیں  کہ ’’ ممکن ہے کہ کوٹووچ  نےہمس اور لداخ  کا سفر کیا ہو۔ اور اُن کی  سب باتیں درست ہوں۔  مگر اس کا جواب نوٹووچ  ساحب دیں۔  کہ کیوں ہمس کے راہب لداخ کے مشنریوں  و انگریز ی سیاحوں۔ اور دوسرے لوگوں کو اس بات کی  شہادت  نہیں دیتے۔ کونسا  امر اُن کو مانع ہے؟‘‘ اور ہم یہی پروفیسر  مکس مولر کے ہم زبان ہو کر یہی کہتے ہیں۔ ہم نے بہت سے پوشیدہ وسیلے اس بات کے دریافت کرنے کے لئے  برتے۔  مگر کوئی بات بھی اُس کے متعلق معلوم  نہو ئی  جس  سے یہ گمان کر سکتے کہ نو ٹووش ضرور ہمس میں آئے۔  اور ’’انجیل عیسیٰ‘‘ اُن کو وہاں ملی۔

{پایونیر  کا ایک نامہ نگار نوٹووچ  صاھب کی سن ۸۷ء کی جعلسازی کو ظاہر کرتا ہے۔ }

پایونیر  میں کسی نامہ نگار نے  (نمبر کا پتہ میں نہیں دیکستا۔ کیونکہ جس پرچے میں مینے اُس کو دیکھا اُس میں سے صرف  اُسی قدر حصہ  کاٹ لیا جو نوٹووچ  صاحب  سے متعلق تھا۔ تاریخ و نمر کا خیال رہا۔  غالباً  ۸ اکتوبر کے بعد کسی پرچہ میں  یہ درج ہے) لکھا ہے۔ کہ ’’ آپکے ناظرین مین سے بہتیرے  ایک رُوسی مسمیٰ  نکولس نوتووچ کے نام سے مانوس ہوں گے جو سن ۱۸۸۷ ء کی موسم بہار میں شملہ آیا۔ اور وہاں اس کی زرق برق و طمطراق  کی باعث  اس پر لوگوں کی خاص توجہ مبذول  ہوئی۔ اس نے بیان کیا  ۔ کہ میں روسی اخبار    NOVOC UPENENYZ    (جو رُوس میں بڑا مشہور اخبار ہے) کا خاص نامہ نگار ہوں۔ اور روسی فوج میں عہدہ  کپتانی پر مامور ہوں۔ جس وقت یہ خبر  اخبار  مذکور کے کان تک پہنچی اُس نے بڑی صفائی  کے ساتھ اسکی تردید اپنے کالموں میں کی۔  اور بیان کیا کہ نہ وہ اُن کا نامہ نگار ہے۔ اور نہ کسی روسی فوج کا افسر  ہے اور نہ کسی اور کام  سے روس کے اُس کو تعلق ہے۔ وہ پیرس  کو واپس گیا۔ اور وہاں ایک کتاب یسوع مسیح  کی سوانح  عمری کے نام سے فرنچ زبان میں شایع کی۔ جس میں وہ کچھ کامیاب ہوا۔ اور بہت سے اخباروں کو  دہوکھا دیکر  اپنے ساتھ اس کی تائید کرائی‘‘ نامہ نگار مذکور لکھتا ہے۔ کہ مجھکو  بڑی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے۔ کہ بعض اُن  اخباروں  میں سے ہندوستان کے تھی۔ جن کو اس کی بابت زیادہ باخبر ہونا واجب تھا۔  پہر نامہ  نگار مذکور نے فوٹووچ  کی مترجمہ سوانح عمری الگزینڈر  سویم مرحوم  پر بھی ایک  مزے دار چٹکی لی ہے۔ مگر وہ ہماری بحث  سے خارج ہے اس لئے قلم انداز کئے دیتے ہیں۔

اب  ناظرین  خود فوٹووچ  کی دیانتداری کو میزان انصاف میں تول لیں ۔ ہم اپنی طرف سے کچھ نہ کہینگے۔

{ شملہ پر نوٹووچ  کو پولیٹکل مخبر ہونیکے لئے شبہ کیا جانا اور ان کا فرار ہونا۔}جس وقت ہم سری نگر  سے لداخ کو برٹش  جائنٹ کمشنر  صاحب کے ہمراہ آ رہے تھے۔ تو راستہ میں ہمکو ہمارے  مہربان  کرنل وارڈ صاحب ملے۔  اُن سے اثنائے گفتگو میں نوٹووچ  ۔ اور اُن کی ’’انجیل عیسیٰ‘‘ کا زکر ہوا۔ اُنہوں نے نوٹووچ کا نام  سننے پر تعجب  کیا۔ اور بیان کیا۔ کہ ’’ جب میں سن ۱۸۸۷ ء  میں شملہ پر گورنمنٹ  آف انڈیا کی طرف  سے وہاں کا سپرنٹنڈنگ انجنیر تھا۔ تو مینے نوٹووچ کو دیکھا  تھا۔ اُس وقت وہ ایک روسی افسر کی وردی میں تھا۔ اور مینے اُس کا  فوٹو لیا تھا۔ اور شملہ میں اُس پر شبہ کیا گیا تھا۔ کہ وہ کوئی  روسی پولیٹکل  مخبر ہے۔ اس لئے پولیس اُس کی نگراں رہی۔ اور اُس کو گرفتار کرنا چاہتی تھی۔ مگر وہ عیار پولیس کو جہانسا دیکر نکل گیا‘‘۔ 

اب گمان غالب ہے ۔ کہ ضرور  نوٹووچ  صاحب پولیس کے  ڈر  سے شملہ سے بخط راست لداخ آگئے ہوں۔ کیونکہ شملہ سے لداخ  کو کلو کے راستے بہت آسانی ہوتی ہے۔ اور خصوصاً  ایسے پولیٹکل مخبروں کے لئے عمدہ راستہ ہے۔ کیونکہ صدہامیل تک  آبادی  کا پتہ تک نہیں۔  اور اکثر تجاران  شملہ اسی راستے سے لداخ کو برائے  تجارت آتے ہیں۔  ملتا جاتا ہے۔ کہ وہ  کیا ہین۔ اور ان سب باتوں سے اُن کی ’’ انجیل  عیسیٰ‘‘ کی وقعت بھی ہمکو معلوم ہوگئی۔

{نوٹووچ صاحب کی تصویر  فوجی وردی میں}

پال مال  نجٹ جلد ۲۶ نمبر ۱۳۵۸ مورخہ ۱۴ ۱کتوبر  سن ۱۸۹۴ء میں نوٹووچ صاحب کی تصویر شایع ہوئی ہے۔ جس کی بابت ایڈیٹر مخبر ہے ۔ کہ یہ وہ تصویر  ہے جو نوٹووچ صاحب کے ہند مین موجود ہونے کے وقت لی گئی ۔ اور یہ بھی کہ صرف دو سال ہوئے جب یہ تصویر ہندوستان میں اُتاری گئی تھی۔ اس سے نوٹووچ ساحب  کا عنقریب سن ۱۸۹۲ء  تک ہندوستان ہی میں  موجود ہونا ثابت ہے۔ تصویر بالکل فوجی وردی میں ہے۔ بڑے بڑے تمغے  لگائے ہوئے ہیں۔ تلوار زیب کمر ہے۔ تصویر دیکھنے  سے بالکل گبرو جوان معلوم ہوتے ہیں۔ مگر  روسی اخبار تردید کر رہا ہے۔ کہ وہ روس کی کسی  فوج میں کوئی عہدہ نہیں رکھتا۔ پس ثابت ہوا ۔ کہ صرف  عوام کو دھوکہ دہی کی  غرض  سے یہ وضع تراشی تھی۔ اور یوں ہی ’’ انجیل عیسیٰ‘‘ کا ڈہکو سلا پیرس  میں جا کر بگہارا۔ نہ اس تصویر سے ہمکو اپنے مہربان کرنل وارٔڈ صاحب کا فرمانا یاد آیا۔ کہ اُنہوں نے نوٹووچ کو شملہ پر فوجی وردی میں دیکھا تھا۔

{ نوٹووچ  ساحب کی ’’انجیل  عیسی‘‘کی طبع سویم اور انگریزی ترجمہ}

کسی اخبار میں ہمنے پڑہا۔ کہ نوٹووچ  ساحب کی ’’ انجیل عیسیٰ‘‘ ہارمویم طبع  ہو چکی  یعنے فرنچ زبان میں۔ اور بہت  جلد انگریزی  ترجمہ پبلک کے پیشکش  کیا جائیگا۔ اس سے اس قدر تو ہم بھی سمجھ گئے۔ کہ نوٹووچ  صاحب کا مقصد  خاطر خواہ  پورا ہو گیا ۔ اور کچھ عجب نہیں۔ کہ یہی مطلب ان کو مجبور کرے کہ ہمس کی خانقاہ  سے اس کا برآمد ہونا حتی الوسع کر ہی  دکھائیں۔ اور ایسے بہروپئے کے نزدیک  یہ کوئی  مشکل  امر نہیں  ہے۔  مگر ساتھ اس کے ہمکو یقین کامل  ہے۔ کہ ہمس سے تو اُس کا برآمد  ہونا مشکل ہے۔ مگر نوٹووچ نے اس کی بھی پیشبندی  کر لی ہو۔ وہ ہوم ؔنیوز ۔ اور ڈیلی ؔنیوز میں لکھتے ہیں۔ کہ علاوہ ہمس کے اور بھی خانقاہوں میں اُس کی نقلیں ہونگے۔ یہ صرف اسی سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ اگر ہمس سے اس کا برآمد کرنا ناممکن  ہو۔ تو اور کسی  جگہ سے کسی کو کچھ لے دیکر اس کو بر آمد کر دیں۔ 

ہم کو افسوس ہے۔ کہ باوجود اس قدر تردید کے جو ولایت  کے انگریز ی اخبارون میں ان کی انجیل کی بابت ہو چکی ہے۔ پھر بھی اس جعلی انجیل کی مانگ بدستور ہے۔ لوگ نہ معلوم کیوں اس کے شیدا ہیں۔ ہمارے خیال میں شیطان  اپنے ایجنٹوں کی معرفت لوگوں کو ترغیب  دے رہا ہے۔ کہ وہ ضرور اُس کو جوان کے لئے زہر ہلاہل کا اثر کہتی ہے خرید کر اپنی روحوں  کو ہلاک کریں۔ ہر ایک نئی شے کی قدر انگلنڈ  میں بڑے  تپاک سے کی جاتی ہے۔  اور ان لوگوں کے لئے جو مذہب عیسوی  کے مخالف  ہیں مسٹر  نوٹووچ اور ایم پال  اسٹنڈاف  جن کے مطبع مین یہ کتاب شایع ہوئی ہے اپنے خیال میں ایک عمدہ اور زار تیار کر رہے ہیں۔ مگر آخر کو یہ اوزار  ناکارہ  ثابت ہو چکا اور ہو جائیگا۔ گو اس وقت نوٹووچ اور اُن کے مطبع والوں کی چاندی ہو رہی ہے۔ مگر خدا نے تعالیٰ کو اپنی اِن کرتوتوں کا جواب ضرور دینا ہوگا ۔ ہمارے خیال میں مسٹر کوئیلم ۔ کرنل الکاٹ۔ مسٹر الگزینڈرردیب۔ اور اپنی سینٹ سے نوٹووچ زیادہ ہی لے نکلیں گے۔ مگر ان کو خیال کرنا چاہئے کہ انسان اگر ساری دنیا کو کماوے اور اپنی روح کو ہلاک  کرے تو اُس کو کیا حاصل  ‘‘؟

اب ہم اس کا فیصلہ ناظرین پر چھوڑتے ہیں۔ کہ وہ ’’انجیل عیسیٰ‘‘ک بابت کیاخیال کریں۔ اور اُن اُردو اخبارات کو اپنی طرف سے مودبانہ صلاح دیتے ہیں۔ جنہوں نے اپنے اخباروں میں نوٹووچ ی انجیل کو اصلی  خیال کر کے اُس پر لمبے چوڑے حاشیہ  چڑہائے تھے۔ کہ اب اپنے اپنے اخباروں میں صرف اسی قدر لکھدیں کہ نوٹووچ  کی انجیل ابتک زیر بحث ہے۔ اُس  کا اصلی ہونا ابتک ثابت نہیں ہوا۔ اور سال آیندہ میں جب فوٹووچ  صاحب یہاں آکر  اس کو اصلی ثابت کر دیں اُس وقت جا چاہیں سو لکھیں اُس وقت ہم بھی اُن کی بڑی ادب سے سنیں گئے۔ اگر حق کا پیاس ہوگا تو ضرور ہماریاس آخری مختصر تحریر  کو اپنے اپنے اخباروں میں جگہ دیں گئے۔  باقی رہے انگریزی  اخبار، سو بعض میں میں  تو تردید ہو چکی۔  اور جن میں ابتک نہیں  ہوئی  اُن میں ہمخود سمجھیں گے۔

راقم ۔۔۔احمد شاہ ، شایق  از لداخ

Pages