October 2016

خیرات

Charity

Published in Nur-i-Afshan February 26, 1885
By. Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

خیرات نیکی ہے جب تک با  موقعہ ہے بے موقعہ  خیرات اکثر  بدی کا باعث  بنجاتی ہے۔ دنیا میں ایسے نیک نہاد آدمی  بہت ہیں جو  محتاجوں  کو خیرات دنیا  اور ہر ایک  سوالی کا سوال  پورا کرنا ثواب  عظیم جانتے ہیں وہ صرف  سوالی کی خوشی پر  جو سوال پورا  ہوتے  وقت اُسکو حاصل  ہوتی ہے نظر رکھتے ہیں یا اپنی خاص خوشی کو جو خیرات  دینے سے پیدا ہوتی  ہے دیکھتے ہیں لیکن خیرات  کے مستحقوں یا غیر مستحقوں میں  کچھ تمیز نہین کرتے  جسکا نتیجہ  یہہ ہے کہ دنیا میں سوالیوں کا تعداد  دن بدن بڑھتا جاتا ہے اور  جماعت انسانی کی پیدا وار  کچھ ایک اندھے کنوئے میں گری جاتی ہیں۔

بہت سا افلاس  اور گناہ جواب موجود ہے پچھلے زمانے کی غلط  خیرات کا باعث ہے کیونکہ اُس نے آبادی کے ایک بڑے حصہ کو غافل  کوتہ اندیش اور  بیکار بنا دیا  ہے  اور بیشمار  خا ندانوں کو جو جماعت انسانی کے مفید ممبر بن سکتے  تھے باتھ پونؤں باندھ کر دوسروں کی  پیدا  کی ہوئی چیزوں پر بیٹھا رکھا ہے۔ پنجاب  میں ڈومؔ  میرانی۔ راولؔ ۔  راونؔت ۔ وغیرہ  گدا  گر فرقوں  کی بناوٹ پر اگر  غور کیجاوئے  تو  غالباً  انکی موجد بھی بیموقعہ  خیرات  نکلیگی سیُد  یپیرزادوں اور برہمن سادھو  سنتوں وغیرہ کی بیکاری اور کام سے بچنے کے لیے اس عذر کی وجہ کہ کام کرنے سے ہماری فضیلت نہیں رہتی محض  یہی بیجا خیرات ہے۔ صبح سے شام جسقدر  فقیر فقرے  گھر گھر  ستیوں کے دروازے  کھٹکھٹاتے  اور اُنکا  ناک میں دم  کرتے ہیں  اسی عام خیرات  سے  دلبر بنے ہوئے  ہیں  بازاروں  اور گلی کوچوں  میں جتنے  بھیک مانگتے  اپنے  پاکھنڈوں  سے لوگوں کو دق کرتے ہیں اسی خیرات  کیوجہ سے اپنی تعداد  میں ترقی پاتے ہیں  غرض  یہہ سب کچھ  اسی غلط  خیرات کے نتا ئج  ہیں  جو ابتک ہمارے ملک میں جاری  ہے۔

فیاضی انسانی جماعت کی اعلیٰ خوبیوں  میں سے ایک ہے اور اپنے آپ میں ایک خاص حکمت رکھتی  ہے جسکے سیکھنے کیواسطے بہت سے آدمیوں کو طفل  مکتب  بننیکی ضرورت  ہے کیونکہ ہر دلعزیز  آدمی  کسیکا بھی عزیز  نہیں  رہتا  وہ اپنی سادگی  کی وجہ  سے غیرونکی  امداد کرنے میں اپنے خوشیونکو  لوٹتا  ہی اور پھر  گدا گر ونکا ساتھی  بنتا ہے جو شخص ھد سے زیادہ مہربان ہے وہ اپنے خاندان  کے حقمیں ظالم  بن سکتا ہے کیونکہ خاندان کے منُہہ سے روٹی چھین کر ان لوگوں کو دیتا ہے جو کھا پی کر محض  ہضم کرتے ہیں  اور کسیکو حتیّ کہ اپنے آپ کو بھی کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔

ہم یہہ نہیں کہتے کہ خیرات نیکی ہے بلکہ ہم ترغیب دیتے ہیں کہ جہاں تک تمسے ہو سکے کماؤ  اور جہاں تک ہو سکے بچاؤ اور پھر جہاں تک ہو سکے  خیرات کرو  کیونکہ جو خدا  کے نام پر دیا جاتا ہے وہ کبھی  کھویا نہیں جاتا بلکہ ایک نہایت  محفوظ بنک گھر میں جمع ہوتا ہے ہم کبھی نہیں چاہتے کہ دولت مند آدمی اپنی دولت کو کنجوس  بخیل کیطرح  زمین میں گاڑ چھوڑے اور اُس سے اپنے آپ یا  اپنی قوم  کو فائدہ  نہ پہنچا وے  لیکن ساتھ ہی ساتھ یہہ بھی نہیں چاہتے کہ مال مفت دل بیرحم  کیطرح  اپنی جھوٹھی تعریف کے واسطے اندھا دھند لٹوادے ۔ نہیں ۔ بلکہ دانائی  کے ساتھ  اپنے خویشوں اور فیقوں کی امداد کرے قوم کا ہمدرد بنے  عام مدارس بنا دے مفید عام کتب  خانے  قائم کرئے  عجائب  خانے  بنادے قومی حرفت اور صنعت  کے لیے نمائشگاہ  کھولے  خیراتی  ہسپتال  جاری کرے  غریبوں کی تعلیم میں زور سے  قلم سے مدد دےایسے مصیبت  زدووں کو جو اپنے اوپر سے کسیطرح  مصیبت  کا بوجھ  اُٹھا نہیں سکتے تکلیف سے چھوڑاوے  لنگڑوں لولوں اپاہجوں اندھوں اور تمام اُن لوگوں کوجو اپنی آپ مدد کرنے میں معزور ہیں مدد کرنا اپنا فرض سمجھے کیونکہ یہی لوگ اصلمیں دولتمند کی خیرات کے مستحق ہیں۔ غرض خیرات کی اصل  خیرات ہونی چاہئے تاکہ اپنے اصل حقداروں کو فائدہ  پہنچاوے اور نہ بناو ٹی  خیرات  کی خیرات پانیوالوں  کے حقمیں  اُلٹا باعث  ضرر بنے۔ کیسا افسوس  ناک یہہ  خیا ل ہے کہ  اب تک اپن لوگوں نے جو صرف نیکی کرنا چاہتے تھے دنیا کو بہت نقصان  پہنچایا ہے اور نیکی کے بجائے بدی کا بیچ بویا ہے۔ 

عیسائی مذہب سے دنیا کی دُشمنی

اِس فرقہ کی بابت ہم کو معلوم ہے کہ سب کہیں اُسے  بُرا کہتے ہیں ۔
اعمال  ۲۸  باب  ۲۲  آیت

جمیل سنگھ

(۱۸۴۳–۱۹۲7)

Christianity and its Rival

Published in Nur-i-Afshan September 17, 1885
By Jameel Singh
(1843–1927)

ابتداء  دنیا سے جب سے کہ آدم  زاد زمیں پر آباد ہوئے مذہب عیسوی  سے دنیا کی دُشمنی  ثابت ہے۔ جتنے نبی اُس نجات دہندہ  بانیٔ مذہب عیسوی خداوند یسوعمسیح کی خبر دینیوالے خدا کی طرف سے بھیجے گئے اُن  سے خلقت نے دشمنی کی۔ اور جب وقت معیّن پر  یہہ نجات دہندہ  جامہ انسانی مین ظاہر ہوا دُنیا  نے اپس سے ازحد دشمنی  کی۔ اور جب وہ اپنا کام جسکے واسطے وہ مجسم ہوا تھا  کر چکا  تھا  اور آسمان پر صعود  فرما گیا تھا اُسکے حواری  اُسکے بعد  مثرد ہ ٔ نجات بخش کو عالم میں سُنانے لگے تو اُن  سے بھی دیسی ہی  دشمنی کی۔  شروع میں جب پولوس  رسول  بڑی سرگرمی کے ساتھ انجیل کی بشارت دیتا تھا اور قوی  دلیلوں  سے یہودیوں کو قائل کرتا تھا کہ یسوع وہی مسیح ہے جسکو تم نے  کاٹھہ پر لٹکا کے مار ڈالا اُسی کو خدا نے مرُدوں میں سے اُٹھا  میں سے اُٹھایا  کہ زندوں  اور مرُدوں کا انصاف  کر نیوالا  ہو۔ اور اُسی سبب سے  سب عام و خاص  سب رسولوں سے اور شاگردوں سے عداوت  کرتے تھے اور جیوں جیوں اِس مذہب کی شہرت ہوتی جاتی تھی تیوں تیوں  لوگوں کی دشمنی زیادہ  بڑھتی  جاتی تھی۔ اور اُن کو عدالتوں میں بھی اِسی سبب سے کھینچ کر لے جاتے تھے۔ تب یہودی سرداروں نے سُنکر  کہا کہ اِس فرقہ کی بابت ہمکو معلوم  ہو کہ  سب کہیں اُسے بُرا کہتے ہیں ۔ یہہ وہ لوگ تھے جنہوں نے خود وہ سب معجزے اور کراماتیں جو خداوند یسوع  نے اُنکے  بیچ کئے تھے دیکھے تھے۔ اور پھر  بھی اُسے بُرا کہتے تھے اور جان بوجھ ک اُسکی مخالفت کرتے تھے۔ اسمین تین سوالات لازم آتے  ہین اولاً  کہ کون  عیسائی مذہب کے دشمن ہیں۔ ثانیاً۔ عیسائی مذہب میں کیا بات ہے جسکے سبب سے لوگ دشمن  بن جاتے ہیں۔ ثالثا  ً  ۔ کیوں ایسے مذہب سے جسمیں  نجات  کا سب سے افضل طریقہ ملتا ہے۔

اولاً۔ کون عیسائی  مذہب  کے دشمن ہیں۔ دنیا اُسکی دشمن ہے۔ دنیا کے قومیں اور بادشاہ  اُسکے دشمن ہیں۔  داؤد  کے زبور میں لکھا ہے۔ قومین کس لئے جوش میں ہیں اور لوگ باطل  خیال کرتے  زمین  کے بادشاہ سامھنا کرتے ہیں اور سردار آپس میں  خداوند کے اور اُسکے مسیح  کے مخالف منصوبے باندھتے ہیں ۔ الخ ۲ زبور ۱، ۲، ۳۔ آیتیں ۔ تواریخ سے بھی  چابت ہے کہ قوموں اور اُنکے بادشاہوں نے  اس مذہب  کے درہم برہم کرنے کے لئے  کیسے کیسے منصوبے باندھے  ہیں اور کیسی  بڑی بڑی  سازشیں  کی ہیں قوموں نے ملک اپنے بادشاہوں  کو اس بات کی مخالفت  میں اُٹھایا ہے۔ اور بادشاہوں نے اُسکے  برخلاف  فرماں  جاری کءے ہیں اور شاہی زمانوں  سے اُسکے نیست کرنے  کے بجد درپے ہوءے ہیں ۔ نیر جیسے ظالم  بادشاہ نے اُسکی مخالفت  میں کوئی  تدبیر  فردگزاشت نہ کی۔ مگر ایسے سب مخالفوں  کی کوششیں  ناکامیاب  نکلیں اور عیسائی مذہب کا دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ ایک بال بھی بنیکا نہ کر سکے۔ اب تک یہہ دشمنی  فرد نہیں ہوئی بلکہ بر ابر  چلی جاتی ہے تمام  دنیا  کی قوموں نے اس مزہب سے دشمنی کی  ہے۔ اِس ملک  ہندوستان  میں کتنی  قومیں آباد  ہیں اور آپسمیں  ہر ایک قوم تھوڑا بہت  ملاپ رکھتی ہے اور سب اتفاق  سے اپنے گھروں میں آباد ہیں مگر کیا کو ئی  ایسی قوم  ہے جو عیسائی مذہب سے اتفاق  رکھتی ہے اور میل ملاپ  رکھتی ہے  ایک بھی نہیں۔ پر اسکے سوا سب قومیں  اِس مذہب کی یہانتک  ضد میں ہیں  کہ اگر کو ئی  ایسا موقع حکومت کی ہل چل کا پڑ جاتا ہے تو دل عیسایوں کو برباد کرنے اور قتل  کرنے کے لئے متفق ہوتے ہین  جیسا کہ سن ۱۸۵۷ ء کے غدر  میں فی الحال دیکھنے میں آیا تھا بے چارے  عیسائی ناحق  سیکڑوں مارے گئے اور غدر میں کسی قوم  کو ایسی  تکلیف نہ تھی  جتنی کہ عیسایوں کو تھی بلکہ سب قومیں ایسے وقت کو غنیمت جان کر عیسایوں کا خون پینے پر مستعد  ہوجانے کو تیار معلوم  ہوتی ہیں کیا  بیچارے عیسایوں کا حکومت  میں کچھ  دخل تھا جو اُن  بے کسوں  کو نا حق  قتل کیا لیکن صرف یہہ سب کچھ عیسائی مذہب کے سبب سے ہوا ۔ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ عیسائی  مزہب سے سب قوموں  کو از حد دشمنی ہو۔

(۲)عیسائی مذہب کے دشمن اس دنیا کے عالم فاضل لوگ ہیں۔ بڑی بڑی کتابیں اس مذہب  کی مخالفت میں چھاپی جاتی ہین اور برابر  بحث و مباحثے ہوتے رہتے ہیں۔ تواریخوں میں بھی پچھلے وقتوں کے  مورخوں نے عیسائی  مذہب کے دشمن تھے اپنی دشمنی ظاہر  کی ہے اور آجکل بھی یہہ ہی حال ہے مگر مخالفوں  کامنُہہ خدا کے فضل سے بر ابر  بند ہوتا چلا آیا  اور خدا کے کلام کی دو دھاری  تلوار اُنکے سب اختلاف کو قلم کرتی آئی ہے اور خواہ مخالف  عالم ہوں یا جاہل  سب شرمندہ کئے جاتے ہیں یہہ بات اس مذہب کی صداقت کی بڑی  بھاری دلیل ہے۔

(۳)ادنٰی اور اعلیٰ امیر و فقیر اور اونچ نیچ سب عیسائی مذہب کے دشمن ہیں۔ ادنیٰ سے ادنیٰ عیسائی مذہب  کو بڑا کہتا ہے اور خواہ مخواہ اپنی نفرت اس سے ظاہر کرتا ہے ۔ اعلیٰ لوگ کہتے ہیں کہ عیسائیونمیں  کوئی  شریف نہیں ہوتا۔ سب ادنی  ٰ لو گ ہوتے اسواسطے ہم کو یہہ مذہب  پسند نہیں۔ ایسا کہنا تو بالکل بے انصافی  کی بات ہے کیا  ایک قوم  میں سب آدمی شریف ہی ہوتے ہین اور کیا سب ہی ادنیٰ ہں  اور کیا سب امیر ہوتے  ہیں  اور غریب  نہیں ہوتے  اگرچہ  عیسائی مذہب میں غریب  و کم قدر  لوگ ہیں تو کیا  اُسمیں شریف  و امیر لوگ  مطلق ہی نہیں  ایسے آدمیوں کو چاہئے کہ دنیا میں جا کر  عیسائی قوموں کو  دیکھیں  اور عیسائیوں سے واقفیت حاصل کریں تب اُن کو اُنکے کہنے کا جھوٹھ سچ معلوم ہو جاویگا۔  امیر لوگ کہتے ہیں  کہ کیا ہم عیسائی  بنکر  فقیر بن جاویں  اور فقیر لوگ  کہتے ہیں کہ ہمکو بھیک مانگکر  کھانا اچھا  ہے  مگر عیسائی  ہونا اس سے بھی  برُا ہے۔ اونچ یعنے وہ لوگ  جو اپنی زات کو اونچا گنتے ہیں  کہتے ہیں کہ عیسائی مذہب سب سے نیچ قوم  اِن ہے  جب اُنسے  سبب پوچھا جاتا ہے تو کہتے ہیں  نیچ  قوم  اِن میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اور جب ہم کہتے ہیں مسلمانوں  میں بھی نیچ لوگ  شامل ہو جاتے ہیں اور تم اُن  کے ساتھ ایسا سلوک  نہیں کرتے  تو اُسکا جواب کچھ نہیں  دیتے۔ نیچ لوگ اِسکو اپنے سے بھی نیچ سمجھتے ہیں حالانکہ  وہ خود  اپنے کاموں اور مذہب کے برُے وہمات سے درحقیقت  سب سے  نیچے گرے  ہیں پھر بھی  عیسائی مذہب کو اپنے سے بھی بُرا سمجھتے  ہیں ۔ اگرچہ  سادہ لوحوں میں سے کچھ تھوڑے اپنے  چھوٹھے وہمات کو  چھوڑ  کے نجات کی خواہش  میں  عیسائی مذہب کو اختیار  کر لیتے ہیں مگر اکثر  نہیں۔

غرض کہ عیسائی مذہب کو ہر کہیں سب لوگ بُرا کہتے  ہیں نہ کہ ایک  ملک میں بلکہ سب ملکوں میں نہ ایک قوم بلکہ  سب قومیں اُسکو  بُرا  کہتی  ہیں۔ مگر دیکھو اسمیں کیا بھید الہیٰ ہے کہ مو سوائے اتنی مخالفت اور دشمنی کے پھر بھی ہر ایک مذہب  اور ملت اور قوم میں سے لوگ نکل نکل کر اُسمیں  شامل ہوتے جاتے ہین اور دنیا کو ناچیز  گن کر  اور اُسکی شرمندگی اور ندامت کو برداشت  کر کے اپنی  روح کو قیمتی  جانکر اپنی روحوں کے بانی اور شفیع کے پاس بے دھڑک  چلے آتے ہیں۔

ثانیاً۔ عیسائی مذہب میں کیا بات ہے جس کے سبب سے لوگ دشمن بن جاتے ہیں۔

سب تو بہت ہیں  لیکن طول کے خوف  سے مختصراًبیان کرتا ہوں۔ (۱)خداوند  یسوع مسیح جو اس دنیا کا نجات  دہندہ  ہے دنیا  کی سخت دشمنی اُس سے ہے۔  جب خداوند یسوع مسیح  اس دنیا میں آیا  اور مجسم ہو کر وگود میں ظاہر ہوا  اُسوقت  ایک بوڑھے بنی نے جسکا  نام شمعون  تھا کہا تھا  کہ یہہ (خداوند یسوع مسیح)اسرائیل  میں بہتوں  کے گرنے اور اُٹھنے کے لئے اور خلاف کہنے کے لئے  نشان کے واسطے رکھا ہوا ہے۔ لوقا ۲ ۔ باب ۳۴ ۔ آیت ۔ جب وہ اس دنیا میں تھا  دنیا اُسکو بُرا کہتی تھی۔ اُسکی قوم یہود نے اُسکو برُا  کہتی تھی۔ اُسکی قوم یہود  نے اُسکو برُا کہا۔ تمام قوموں نےاُسکی تحقیر کی اور کرتی  ہیں اُنہوں نے اُسکے وجود کی حقارت  کی کہ اُسمیں کچھ خوبصورتی  نہ تھی یسعیاہ ۵۳۔ باب ۲، ۳ آیتیں ۔ انہوں نے اُسکی تعلیم کو جھوٹھ  اور فریب کہا۔ یوحنا ۷ باب ۱۲ ۔ آیت  اُنہوں نے اُسکے معجزوں کو بعل زبول  دیوں کے سردار کی طرف سے بتایا۔ متی ۱۲۔ باب ۲۴ آیت۔ اور آجکل بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ  جب خداوند یسوع مسیح کا نام ہی سنُایا  جاتا ہے اور اُسکی عمدہ نصیحت  و تعلیم لوگون کو سنائی جاتی ہے تو  لوگ جھگڑنے اور تکرار  کرنے کو اُٹھ  کھڑے  ہوتے ہیں۔ اور بُرا بھلا کہنے لگتے ہیں۔

(۲)خدا کے کلام کئ سبب لوگ دشمن بن جاتے ہیں۔ جب پہلے انجیل سنائی گئی اور حواری اُسکی  منادی کرتے تھے تو لوگ اُسکو بہت برُا  جانتے تھے اور اُنکو برُا  کہتے تھے جیسا کہ اعمال  کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے۔ مگر اتنی بھیڑ دیکھکے یہودی ڈاہ  سے بھر  گئے اور خلاف کہتے اور کفر بکتے ہوئے  پولس کی باتوں سے مخالفت کی۔ اعمال ۱۳۔ باب ۴۵ آیت ۔ اب بھی ایسا ہی ہوتا ہے بلکہ روزمرہ دیکھنے میں آتا  ہے کہ  جب انجیل کی منادی ہوتی ہے  اُس جگہ کو ئی نہ کوئی مخالف کھڑا ہو جاتا ہے بغیر  برُا کہنے کے ہرگزرہ  نہیں سکتا ۔ اگر کوئی قصہ کہانی کی برُی باتیں سنُائی  جاویں  سب بڑی خاموشی  سے اور دل لگا کر سنینگے  مگر جب انجیل کی عمدہ خوش خبری  سُنائی  جاتی ہے  وہین  بحث و تکرار  کر کے شور مچانے لگتے  ہیں نہ خود  سُنتے ہیں  اور نہ اوروں کو سنُنے دیتے ہیں ۔ اور بعض بعض  ایسے بھی ہیں  کہ انجیل  کی سب باتیں سُن لیتے ہیں اور اچھی طرح قبول بھی کر لیتے ہیں  مگر جب اُنکو یہہ سنایا جاتا ہے کہ یسوع مسیح پر ایمان لاؤ  تو نجات ابد ی پاؤ گے  اُسیوقت  بڑے غصہ سے بھر جاتے  ہیں  اور کہتے ہین کہ اور تو تمہاری سب باتیں سچی  مگر یسوع مسیح کی بابت جو کہتے ہو خلاف  ہے۔ اور اکثر تو اُسے سُناّ  بھی نہیں چاہتے۔

(۳)۔ اس مذہب کی پیرعی کر نیوالوں سے فوراً لوگ دشمنی کرنے لگتے  ۔ اسمیں خداوند یسوع مسیح کی وہ پیشین گوئی  جو متی کی انجیل  کے ۵ باب کی ۔ ۱۱، ۱۲ آیتونمیں  لکھی ہے پوری  ہوتی ہے مبارک ہو تم  جب میرے واسطے تمہیں لعن طعن کریں  اور ہر طرح کی بری باتیں تمہارے حقمیں کہیں۔ اگر ایک قوم میں ایک شخص بڑا  شریر اور لوگوں کو دُکھ  دینیوالا ہے لوگ  چنداں اُس سے ناراض نہیں ہوتے جتنا کہ وے  اُس سے  اُسوقت  ناراض ہوتے  ہیں جب کہ وہ عیسائی ہوجوتا ہے چاہے وہ شخص  عیسائی  ہو کر  اپنی شرارت کو چھوڑ  کر ایک  بھلا آدمی ہی بن جاوے۔ لیکن وے اس بات کو پسند کرینگے کہ وہ شخص چاہے ایسا ہی شریر بنا رے مگر عیسائی  نہ رہے۔ عیسائی ہونے سے انکار کرے چاہے اُنکا کیسا ہی نقصان  کیوں نہ ہو۔

(۴)۔ عیسائی نام ہی دنیا کی دشمنی کا سبب  ہے اتنی قومیں  دنیا میں ہیں اور دیکھنے میں آتا ہے کہ اُن میں آپس میں کوئی ضد نہیں  اور دشمنی  پائی  نہیں جاتی خواہ اُنکے مذہب میں آسمان و زمین  کا فرق  ہے مگر عیسائی کا نام سنُتے ہی اچھا نہیں۔ خداوند یسوع مسیح کی بات  بالکل درست  نکلتی  ہے اور  حرف بحرف پوری  ہوئی جو اُسنے اپنے شاگردوں  سے فرمائی تھی۔ میرے نام ہی کے سبب سے لوگ تم سے دشمنی  رکھینگے۔

ثالثاً۔  کیوں ایسے مذہب سے جس میں نجات کا سب سے افضل طریقہ  ملتا ہے اور جو اور سب  جھوٹے مذاہب کو خاطر خواہ باطل  ہی ثابت  کرتا ہے دنیا  ایسی دشمنی  رکھتی ہے۔ خداوند یسوع مسیح  میں بھی کوئی ایسی بات نہ پائی گئی ۔ جس سے قوم یہود اُسکو  ملزم  ٹھہراتی  اور حاکم  اُسپر  فتویٰ  لگاتے پر  تو بھی یہود  اور اُنکے  سردار  مخالفت  میں  چلاّ کے پکارتے  تھے کہ اُسے  صلیب دے صلیب  دے  اور اِس طرح  بغیر کسی قصور  کے اپس بے قصور کو حاکم  بے اِنصاف  نے مصلوب  کرنیکا حکم صادر فرمایا۔  اسیطرح  اُسکے بعد بھی  یہہ ہی حال چلا آیا  ہے خواہ مخواہ  اُس  مذہب کو سب جگہ میں لوگ  بُرا کہتے ہیں اور اُسکے پیرؤں  کو ناحق  بدنامکرتے  ہیں۔ اور تمام دنیا گویا  اُنکو انگشت  نما  بناتی ہے۔  اب ہم  اسبات  کو سوچیں  کہ اسکا کیا سبب ہے۔

(۱)۔ اس مذہب کے دشمن اسکے مخالف ہیں ۔ کیونکہ وے اُس  سے بالکل واقف نہیں ۔ ایک بات کی لاعلمی  میں جو کام کیا جاتا ہے زیادہ خوفناک  دشمنی والا  ہوتا  ہے  بہ نسبت اُسکے جو دنیا و دانستہ جاننے  کی حالت میں کیا جاتا ہے۔  کبھی کبھی ناواقف  ہونے کی  حالت میں انسان  بڑا جرم کر بیٹھتا  ہے جو اگر اس سے واقف  ہوتا ہو  تو  ایسا ہر گز  نہ کرتا ۔ خدا وند یسوع مسیح سے دنیا نے اسواسطے  دشمنی  کی  دنیا نے اپسے نہ جانا  یوحنا ۱۔ باب ۱۰ آیت۔ اگر  وے اُسکی فضیلت  کو جانتے اور اُسکی تعلیم  کی عمدگی اور قدر  سے واقف ہوتے اور دنیا میں اُسکے آنے اور بڑے بھاری کام کے انجام  دینے سے آگاہ  ہوتے تو وے جلال کے خدا وند  کو مصلوب  نہ کرتے دیکھو ۱ قرنتیون  کا ۲۔ باب ۸۔ آیت ۔

(۲)۔ دنیا کے لوگ اسواسطے  اُس سے دشمنی  رکھتے  ہیں  کہ وے اسکو  پسند نہیں  کرتے۔ اور پسند نہ کرنیکا  سبب صرف  یہہ ہے  کہ یہہ  اُنکی  برُی  مرضی کے موافق  اُنکی  خوشیوں کو پورا کرنے سے  روکتا ہے۔ اور وے جانتے ہیں کہ یہہ  مذہب  دنیا کی  ہواؤہوس  کے مارنے اور مغلوب کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اور انسان کواُسکی  مرضی پر چلنے سے روکتا  ہے اور خدا  مرضی کو مقدم ٹھہراتا  ہے۔ اُنکا مزاج  جسمانی  ہے اور روحانی  باتیں اُنکے  دلکو نہیں  سُہاتیں۔ اسلئے  کہ جسمانی مزاج کا دشمن ہے کیونکہ  خدا  کی شریعت  کے تابع  نہیں اور نہ  ہوسکتا  ہے۔ اِسواسطے  دنیا اُس  سے دشمنی رکھتی ہے اور دنیا اندھیرے کو زیادہ  پسند  کرتی ہے اور نور کے پاس  نہیں آنا  چاہتی  ایسا نہ ہو کہ  اپسکے کام جو برُے ہیں ظاہر ہو جاویں۔

(۳)۔ دنیا اس مذہب کے برخلاف بولتی ہے کیونکہ  یہہ مذہب  دنیا کے برخلاف  گواہی  دے رہا ہے۔ فریسی لوگ یسوع مسیح سے کیوں  ناراض ہو گئے  اسلئے  کہ وہ انکو تمثیلوں  میں ایسی  نصیحت  دیتا  تھا جنکا مطلب اُنکے  برخلاف  تھا۔ کیوں دنیا اُسکی دشمن  تھی جو دنیا کو ایسا  پیار کرتا تھا کہ اُس نے دنیا کے واسطے  اپنی شان و شوکت  آسمانی چھوڑ دی اور دنیا میں جب تھا اُسکے مریضوں  کو  تندرست کرتا تھا اور ہر قسم  کی بیماریوں کو قدرت سے دور کرتا تھا۔ صرف اسلئے  کہ وہ گواہی دیتا تھا کہ دنیا کے کام برُے ہیں۔ خداوند یسوع مسیح  نے خود کہا کہ دنیا تم سے عداوت نہیں سکتی پر مجھ  سے عداوت کرتی ہے کیونکہ  میں اُسپر گواہی  دیتا ہوں کہ اُسکے  کام برُے  ہیں۔ یوحنا  ۷ ۔ باب ۷ ۔ آیت۔ یوسف کے بھائیوں نے یوسف سے کیوں دشمنی  کی صرف اسواسطے  کہ وہ  اُنکے  برخلاف اُنکے برُے  کاموں کی گواہی دیتا تھا دیکھو پیدائیش  ۳۷۔ باب ۱۲ ۔ آیت ۔  اب ہندوستان میں یہہ مذہب برُا  سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہہ ہندوستان کے برخلاف  گواہی دے رہا ہے یہہ اُسکے مذہبوں کو جھوٹھا  ثابت کر رہا ہے اور اُسکے جھوٹھے بھروسوں کو توڑ رہا ہے اور یہہ اُس کی دیویوں  کو ہاتھ  کی کاریگری اور دیوتوں کو محض خیالی ثابت  کر کے انکی پر ستش  کو عبث ثابت کر ہےرہا ہے اور یہہ ہندوستان کی واہی تباہی رسموں  کو بے بنُیاد  ثابت کر رہا ہے اور ہر طرح  کی وہم پر ستی کو رد کر رہا ہے اور یہہ سب کارردائی  عیسائی مذہب ہندوستانکے بالکل برخلاف ہے اور پر عیسائی مذہب ہندوستان کے بڑے بڑے قدیمی تیر تھوں کو اور  دھاموں کو جا کر یوحنا جو ہند و لوگ قدیم سے  کرتے  آئے منع کرتا ہے  غرض ایسے  پوجا  پاٹھ کو ناقص ثابت کر کے ایک سچے خدا کی پر ستش بتاتا ہے  جو اُن سب سے فرق ہے اسلئے ہندوستان اِس مذہب کو برُا کہتا ہے۔ عیسائی مذہب تمام مذہبوں  کو باطل  ثابت کر کے اپنی  سچائی کا اشتہار تمام دنیا کی قوموں کو دے رہا ہے اسی واسطے سب مذہب والے اُسکے  جانی دشمن ہوتے ہیں۔

کاش کہ دُنیا اس مذہب کے نجات بخش عقیدوں سے واقف ہوا اور اُسکی تسلی بخش تعلیم  کو دلمیں جگہ دے اور رو ح  القدس کو  بھیتر آنے دے جو دل کے دروازے پر کھٹکھٹا تا ہوتا کہ وہ  دلکے اندھیرے  کو دور کر کے  جلال والی روشنی کے زندگی بخش جلال کا دیدار کراوے جو خود خداوند  یسوع مسیح ہوتا کہ اُسی  ہی پر جو نجات کے لئے اکیلا نام بخشا ہوا ہے ایمان لاکے کل دنیا نجات ابدی پاوے ۔

الراقم جمیل سنگھ از کھنہ   

اچھا روزہ دار

جمیل سنگھ

(۱۸۴۳–۱۹۲7)

The Good Fasting Person

Published in Nur-i-Afshan July 09, 1885
By Jameel Singh
(1843–1927)

آج کل رمضان کا مہینا اور مسلمانوں کے روزوں کے دن ہین۔ روزے کے معنے جسے کے سمجھے جاتے ہیں کھانے اور پینے کی چیزوں سے کنارہ  کشی کرنا  اور کھانے اور پینے کی خواہشوں کو وقت معین تک روک رکھنا ہے۔ لیکن اگر روزے کا صرف  یہی مطلب ہے اور بس تو اس کام سے کیا فائدہ  ہو سکتا ہے۔ البتہ ظاہری روزہ تو یہی ہے پر اسکے  ساتھ باطن  کی  کاروائی بھی تعلق  رکھتی  ہے۔ روزہ رکھنا اچھا ہے پرجو باطن  سے تعلق رکھتا ہو نہ کہ صرف ظاہری  ہو اور  لوگوں کے دکھانے کے واسطے رکھا جاوے خداوند یسوع مسیح نے متی کی انجیل کے ۶ ۔ باب  کی ۱۶ ۔ آیت سے ۱۶ تک ۔ یہہ باتیں  روزے کے بارے میں فرمائیں ۔  اور جب تُم روزہ رکھّو تو رِیاکاروں کی طرح اپنی صُورت اُداس نہ بناؤ کیونکہ وہ اپنا مُنہ بِگاڑتے ہیں تاکہ لوگ اُن کو روزہ دار جانیں ۔ مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ وہ اپنا اجر پا چُکے۔ بلکہ جب تُو روزہ رکھّے تو اپنے سر میں تیل ڈال اور مُنہ دھو۔  تاکہ آدمی نہیں بلکہ تیرا باپ جو پوشِیدگی میں ہے تُجھے روزہ دار جانے ۔ اِس صُورت میں تیرا باپ جو پوشِیدگی میں دیکھتا ہے تُجھے بدلہ دے گا۔ یعنے کہ ظاہری  روزہ دنیا کے دکھانے کے لئے نہ رکھو پر وہ روزہ رکھو جو دلسے  تعلق رکھتا ہو اور پوشیدہ  ہو یعنے آدمی اُس سے واقف ہو کے  تیری  تعریف  اسمین نہ کرے تب تو اُس  پوشیدہ روزے کا بدلہ خدا سے پاویگا۔

صرف کھانے اور پینے کی خواہشوں  کے مارنے سے روزہ نہٰن ہوتا بلکہ برُی خواہشوں کوجو آدمی  کے دلمیں پنہاں ہیں مارنے سے روزہ اصلی ہوتا ہے۔

کھانے یا نہ کھانے نیسے  دل کی برُی خواہشیں نہیں مرتیں روزے کی غرض  اصلی یہی ہے کہ اُن برُی خواہشوں کو دبایا جاوے جو دلمیں پنہاں  رہکر اور وقت بہ وقت پیدا ہو کر گناہ جنتی ہیں۔

روزے میں صرف  روٹی  لٹی کی خواہش سے دلکو باز نہ رکھنا چاہئے  پر اُسکو  ہر ایک برُی فکر اور گندے خیال سے باز  رکھنا چاہئے ۔ اور نہ صرف دل بلکہ اپنے سب عضوونکا جنسے فعل  بد صادر ہو تے ہیں۔ روزہ رکھنا چاہئے۔ مثلاً آنکھ کا روزہ کہ آنکھ  جو شہوت کی نظر  کو پسند کرتی ہے اور دلکو فعل بد  کی طرف  رجوع دلاتی ہے اپنے قابو میں لانا چاہئے اور زبان کا روزہ  کہ زبان  کو شرارت  کا عالم ہے اور کفر اور شرک نکالتی ہے قابو کیجاوے۔ اور کان کا روزہ ککان جو برُی باتیں سنُنے اور  قبول  کرنے کو پسند کرتا ہے قابو میں کیا جاوے۔ غرض اپنے تمام عضو ونکی برُی خواہشیں  روکی جاویں اور صرف ایک خواہش  روحی تقاضہ  پورا کرنے والی پیدا جس سے یہہ روح خالق  کی مقبول نظر  ہو جاوے۔

روزہ نماز اور زکوۃ یہہ تینوں امر عمل الصالحات کہلاتے ہین اور یہہ تینوں عبادت کے رکن سمجھے جاتے ہیں ۔ جو انکو پورے طار پر عمل میں لاوے خدا  کے مقبول نظر ہوتا ہے۔ انجیلِ مقّدس  میں قرنیلیوس نامے ایک شخص  کا زکر ہے کہ وہ لوگوں کو خیرات دیتا اور خدا  سے دعا  مانگتا اور روزہ رکھتا تھا۔ خدا نے اپسکی دعا سنی اور اُسے قبول کیا ۔ اور کہا کہ بے شک  تیری  خیرات  کی یادگاری  اور تیری  نماز اور تیرا روزہ رکھنا میرے حضور  منظور  ہوا  پر نسپر بھی تو میرے حضور میں ان عملوں  سے مقبول نہیں  اب جو کچھ تجھے اور کرنا  ہے بتلایا جائیگا ۔ اور خدا نے اُسے فرمایا  کہ تو شمعون  پطرس کو بُلوا وہ تجھے  بتاویگا جو تجھے کرنا  واجب ہے۔ اُس شخص نے خدا کے فرمانے کے بموجب اپس کو بلوایا۔ اور تب پطرس آیا  اور اُس نے سب باتین شروع  سے قرنیلیوس کو مختصر طور پر یسوع مسیح پر ایمان  لانے سے گناہوں کی معافی  ہو سکتی ہے۔ اُسپر قرنیلیوس نے فوراً اقرار کیا کہ میں یسوع مسیح پر ایمان لاتا ہوں اور اپسی دن وہ بپتمسہ پا کر مسیحی بن گیا۔

قصہ مندرجہ  بالا سے معلوم ہوا کہ قرنیلیوس ایک پرہیزگار اور خدا پر ست آدمی تھا لیکن تو بھی اُسکو وہ پرہیز گاری یعنے نماز اور خیرات اور روزہ داری کے واسطے کافی نہ ہوئی پر اُسکو ہدایت ہو ئی کہ ایک اور کام  باقی  ہے جو اُسکو  پورا کرنا واجب ہے کہ مسیح پر ایمان  لا کر نجات پانا سو اُسنے خدا کے حکم کے مطابق عمل کیا اور  ایمان کا کر نجات میں داخل ہوا۔ روزے میں دو باتیں مدّنظر ہیں اول کہ جسمانی خواہش نکر اَور  یاد کو چھوڑ کر اپنی یاد خدا  کی طرف لگانی  دویم خدا کے حکم ماننے کے لئے  دلکو  تیار اور خالی کرنا۔ جسمانی خواہشیں نکالکے روحانی خواہشیں  دلمیں  بھرنا۔  اگر ایسا روزہ رکھا  جاوے  تو یہہ اصل روزہ ہے اور اُسکا رکھنے والا اچھا روزہ دار ہے اور ایسا  روزہ  اصلیت کی طرف رجوع  کر کے  خدا کی مقبولیت اور پسندیدگی کے لائیق بناتا ہے۔ جیسا کہ قرنیلیوس کے حال سے معلوم ہوتا ہے  اچھا روزیدار  وہ ہے جو خدا  کی مرضی پر اپنے آپ کو چھوڑتا ہے اور  جو حکم خدا اُسکو فرماوے  فوراً  اُسکو ماننے کو تیار ہوتا ہے۔ اچھا روزیدار  فخر نہیں کرتا اور  آدمی کی بزرگی اور تعریف نہیں ڈھونڈتا بلکہ وہ  ہر ایک خدا کے حکم کی تعمیل  کرنے کو  تیار ہوتا ہے اور ہر ایک کام میں خدا کی بزرگی اور جلال کے واسطے درپے رہتا ہے۔ اور جو کچھ کرتا اُسکے جلال کے واسطے کرتا ہے۔

اے بھائی محمدیو اگر آپ ایسے روزہ دار ہو تو  مبارک ہو پر اگر صرف  ایک دستور کی بات مانتے ہو اور لوگوں کی تعریف  کے خواہاں ہو تو خیر تمہارا تعریف  پانیکا مطلب  تو ادا ہو جاویگا پر اصل مطلب ضرور ہاتھ نہ آویگا ۔

پر اگر قرنیلیوس کی مانند اچھے روزیدار ہو تو غور کرو کہ تم صرف ان عمل الصالحات سے نہ بچو گے بلکہ زرہ اس سے آگے بڑھکے دیکھو کہ نجات دہندہ کون ہے اور خدا نے کسکو اس بڑے کام کے انجام دینے کے واسطے ٹھہرایا ہے۔

فرض کیا کہ تمنے اچھی طر ح نماز کا فرض بھی ادا کیا اور حتی المقدور  زکوۃ بھی دی اور روزہ  بھی کامل  طور پر رکھا پر خدا کہتا ہے کہ ایک اور بات ابھی باقی ہے اور اگر آپ اچھے روزیدار ہونا چاہتے ہو تو خدا کی بات سنکر جلد قبول  کرو اور وہ بات جو ابھی  باقی ہے میں تمہیں سناتا ہوں۔ کہ دلسے انجیل مقدّس کی خوشخبری سنو جو یہہ ہے کہ جب سب کے سب گنہگار تھے اور عمل صالحاً کرنے کی طاقت نہ رہی خدا نے یسوع کو روح القدس اور قدرت سے ممسوع کیا وہ نیکی کرتا اور اُن  سب کو جو شیطان کے ہاتھ سے ظلم اُٹھاتے تھے  چنگا کرتا پھر ا کیونکہ خدا  اُسکے ساتھ تھا۔ا ور ہم اُن سب کامونکے  جو اُسنے یہودیہ کے ملک  و یروشلم میں کئے  گواہ ہیں۔ اُسکو اُنہوں نے کاٹھ پر لٹکا کے مار ڈالا اُسکو خدا نے تیسرے دن اُٹھایا اور اُسے ظاہر ہونے دیا ساری قوم پر نہیں بلکہ اُن گواہوں پر کہ آگے سے خدا کے چنےُ ہوئے تھےیعنے ہمپر جنہوں نے اُسکے  مرُدوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد اُسکے ساتھ کھایا وت پیا ۔ اور اُسنے ہمیں حکم دیا کہ لوگوں میں منادی کرو اور گواہی دو کہہ یہہ وہی ہے جو خدا کی طرف سے مقرر ہو ا کہ زندوں اور مردوں کا انصاف کرنے والا ہے۔ سب نبی اُسپر گواہی دیتے ہیں کہ جو کوئی اسپر ایمان لاوے اُسکے نام سے اپنے گناہوں کی معافی  پاوے۔ اعمال کا ۱۰۔ باب ۳۸ ۔ سے ۴۳ ۔ تک اور یہہ بھی لکھا ہے کہ تا کہ جو کوئی اُسپر ایمان لاوے ہلاک نہ ہووے  بلکہ ہمیشہ کی زندگی پاوے ۔ یوحنا ۳ ۔ باب ۱۵۔ آیت  کیونکہ جو اُسپر ایمان لاتا ہے اُسکے لئے سزا کا حکم نہیں لیکن جو اُسپر ایمان  نہیں لاتا اُسپر  سزا کا حکم ہو چکا  ۔ یوحنا  کا ۳ ۔ باب  ۱۸ ۔ آیت۔

اگر گنہگار  بچنا چاہئے تو صرف یہہ ہی ایک وسیلہ خداوند یسوع مسیح ہے جسکے زریعہ سے گنہگار بچتا ہے اگر گنہگار انسان صرف عمل ہی سے بچ سکتا تو قرنیلیوس خدا کے حضور میں منظور ہوا تھا اُسے اور کیا کرنا ضرور تھا پر خدا نے اُسے جتایا کہ ایک نجات دہندہ تیری نجات کا  کام پورا کر چکا ہے۔ تو اُسکے زریعہ سے بچیگا نہ کہ اپنے ان نیک کاموں سے۔

اے روزیدارو اگر  آپ قرنیلیوس  کی مانند اچھے روزیدار ہو تو ان روزوں کے دنوں  میں خدا کے کم کو جو انجیل مقّدس میں تمہارے لئے مرقوم ہے سنو اور اُسے قبول کرو  اور  ایمان  لاکر نجات پاؤ ۔ نہیں تو یہہ سب محنت جو کرتے ہو رائیگان  جاویگی اور دست تاسّف ملوگے اور کچھ بن نہ پڑیگا ۔ کیونکہ وقت گیا پھر ہاتھ آتا نہیں ہمیشہ دور دوراں دکھاتا نہیں ۔

الراقم ۔۔۔ جمیل سنگہ  

ایک لڑکی کے اعتقاد  سے اُسکے  باپ  کا بچنا

A Girl with Strong Faith

Published in Nur-i-Afshan March 19, 1885
By. Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

کسی کھان میں ہر روز   صبح کو کان کن کام پر لگائے جاتے تھے تو حاضری  پکارنے سے پہلے  وے سب کھان کے منُہہ  پر جمع  ہو ا کرتے تھے اُنمیں  ایک بڑا  قد آور اور مضبوط آدمی ایک چھوٹی سی سات برس  کی لڑکی کا ہاتھ پکڑے ہوئے  ہمیشہ سب کے پیچھے آیا کرتا  تھا۔ اس آدمی کا نام مچلیُ پیرن  تھا اور وہ لڑکی  اُسکی  بیٹی تھی۔ کھان  میں  اُترنے  سے پہلے وہ آدمی اپنی لڑکی کو گود میں لیتا اور بوسہ  دیکر  گود سے اتار دیتا اُسوقت وہ لڑکی   کہتی کہ  اے باپ  شام تک خدا آپکا حافظ ہو اور جب مچلیؔ کھان میں اُترنے کو  پنجرہ میں چڑھ جاتا  تو لڑکی متحیرٍ اور متفکر  ہو کر  اُسکی طرف ٹکٹکی لگائے  رہتی اور بار بار  کہتی کہ اے باپ شام تک خدا  آپکا  حافظ  ہو۔  گھنٹے  کی آواز  سُنکر ( جو کھان  اُتر نے کا نشان تھا) وہ لڑکی اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں  کو  بغل   میں دیتی  اور انگلیوں کو مروڑتی اور جب تک اسے یقین ہوتا  آپیرا باپ اب میری  آواز  نہیں سن سکتا باپ باپ پکارتی رہتی آخر  پکارتی رہتی آخر مدرسہ کو بھاگ  جاتی اور تمام دن وہاں ہی  رہتی  شام کو سب سے پہلے  کھان نے منُہہ  پر آتی جسمیں سے مچلیؔ پیرن بھی سب سے پہلے باہر نکلکر صبح کی طرح اُسکو گود میں  اُٹھا  لیتا اور لڑکی بھی  اُسے باپ باپ پکارتی  ہوئی لپٹ جاتی اُسوقت  خوشی کے جوہر اُسکے رونقدار اور مسکراتے ہوئے چہرے پر نمایاں ہوتے، لوگوں نے اکثر یہہ دو الفاظ  اُسے ایسے عجیب  پیار سے کہتے ہوئے  سنا کہ اُنہوں نے اسیکا نام میڈ مازل  پپًارکھدیا ۔ بیشک کوئی اور نام اس کے لئے اس سے زیادہ مناسب  نہ تھا کیونکہ اسکا باپ اسکے لئے سب میں سب کچھ تھا۔ جب  وہ بہت چھوٹی تھی تب ہی اسکی ماں مر گئی  وہ بچپن  سے باپ کے سوائے کسی اور کی صورت  سے واقف نہ تھی اِس لڑکی  کے واسطے باپ کے بھدٔے بھدٔے  ہاتھ  اور سخت  چہرا مثل  ماں کے نرم ہوگئے  اُسکی  پرورش کےواسطے مرد عورت  اور کھلانے اور بہلانے کو لڑکا  بنگیا۔ وہ اپنے باپ کو بہت پیار کرتی  اور ہر صبح اُسے  غار  میں  کہ جسکی تہہ وہ کسی  طرح نہیں دیکھ سکتی گھستے دیکھ کر بہت ڈرتی ۔ ایک دن خوش مزاج کان کن نے عمیق اور تاریک غار  کو جسمیں اُسکی نظر کچھ کام نہیں  کر سکتی  دیکھکر ڈری اور یا بہت سی چلاّ کر بھاگی۔ اسیوقت  سے  اُسنے خیال  کرنا شروع کیا کہ  میرا باپ ہر روز  اس میں  گھستا  ہے شائد  کسی دن اس میں سے  نہ نکلے ۔ ایک دن جب مچلی نے اپنی عادت کے مطابق اُسکو اپنی گود میں چومہ  دینے کو لیا تو وہ زور سے اپنے  باپ کے گلے  لپٹ  گئی اور ڈرتے اور کانپتے  ہو ئے  نرم  آواز  سے پوچھا  کہ اے باپ کیا اس غار میں  کسیطرح کا خوف  اور خطرہ  تو نہیں ۔ باپ نے کہا  بیشک  کچھ خوف نہیں  اے چھوٹی ڈر پوک لڑکی  پھر لڑکی نے کہا کہ شائد آپ  اُسمیں  مر جاوا۔ تب مچلی نے ہنسکر کہا کہ چپ رہ میں اپنے مرنے سے پہلے  بتا دونگا۔ لڑکی نے کہا تو خیر اے باپ شام  تک  خدا آپکا  حافظ  ہو ( اُسکے لئے باپ کا ہر ایک لفظ  سچی خوشی  کی  خبر تھی) اور کامل تسکین اور اعتبار سے  مدرسے کو بھاگ گئی پر اُس تاریک  و خوفناک  غار کی یاد جسے اُسنے  دیکھا تھا دل سے نہیں بھولتی  تھی صبح  سے شام تک  اُسے یہی فکر اور اندیشہ رہتا کہ شائد  کسی دن اس اندھیرے  غار  سے میرا باپ زندہ نکلے یا نہ  نکلے  آیندہ  کا حال  کو ن  جانتا ہے۔ ایک دن کھان میں آگ لگ گئی خبر یا نے ہی فوراً کھان کے سب کارخانے  خالی ہو گئے  خوف زدہ لوگ سب طرف  سے آنکر اکھٹے  ہوئے  اور یہی ایک عام سدا  سننے میں آتی تھی کہ دیکھئے اپن زندہ مدفوں  ہو وہاں میں سے کتنے زندہ نکلیں  اُسوقت وہ چھوٹی لڑکی مدرسہ میں تھی اُسکو اسبات  کی کچھ خبر نہ تھی ما سوا اسکے اگر کوئی  اپس سے بیان بھی کرتا تو کیا وہ  بیچاری چھوٹی لڑکی سمجھ  سکتی کہ کھان میں کسیطرح  آگ  لگا  کرتی ہے ۔ نہیں ۔  البتہ وہ اپنی عمر کے مطابق اتنا تو سمجھ سکتی کہ موت کیا  چیز ہے۔ بچے بیجان یا زخمی  جسموں کو دیکھکر سمجھ سکتے  کہ اُنکی   کیسی حالت  ہے۔ اُس دن شام کو جب وہ لڑکی  دستور  کے مطابق اپنے باپ  سے ملنے کو آئی  تو کھان   جت منُہہ پر ایسے مردہ اور خون  آلودہ   لاشوں  کا ڈھیر تھا وہ اُنکو  دیکھکر کچھ دیر تک  تو حواس  باختہ رہی  پھر ہوش میں  آکر اُس  نے اُن لوگوں  کو  جو اکثر  اسکو پیار کرتے اور چومہ دیتے تھے پہچانا کہ وے  زندہ  کھان میں اترے تھے  اب کھان سے مردہ نکالے گئے۔ پھر وہ اس خیال  سے کہ شائد  میرا باپ بھی اسیطرح  مردہ نکلے پریشان ہوئی۔ وہ سب لاشوں کو جو لوگوں نے کھان  سے نکالیں اور دوڑ کر دیکھتی اور باپ باپ  پکارتی  پھری اور بہتیرے  لوگ بھی روتے اور باپ باپ پکارتے تھے۔مگر اُسکی مانند کوئی نہ روتا تھا  اوروں کو لوگوں نے پھیلا کر واپس  کیا پر  اُسے کو ئی نہ لوٹ سکا  بلکہ اُنہوں نے اس بیچاری لڑکی کو اجازت دی کہ لاشوں  میں اپنے باپ کو ڈھونڈے وہ بعض وقت  مایوس اور اُداس  ہو کر  کھڑی ہو جاتی  اور سوچتی کہ شائد میں اسکو نہیں پہچانتی کہ جس کو ڈھونڈتی  ہوں۔ آخر اُسکو اپنے  باپ کا قول یاد آیا  تب اُسکو کچھ امید ہو ئی  اور تسلیّ پذیر  ہو کر  اپنے  باپ کو زندوں میں ڈھونڈنے لگی بلکہ اس نے لوگوں  سے بھی کہا کہ میرا باپ دکھائی نہیں دیا۔ ساٹھ (۶۰) کان کنوں  میں سے جو صبح کو کھان میں  کام کرنے کو اُترے تھے  پنتالیس (۴۵) زندہ واپس  آئے اور ۱۴ مردہ  صرف ایک آدمی  کو کھوجنا باقی تھا اور وہ مچلیؔ تھا۔ اُس لڑکی نے لوگوں کو مجبور  کیا  تو اُنہوں نے یہہ ماجرا اُس سے صاف صاف بیان کیا جب وہ سب کچھ سُن  اور سمجھ  چکی تو  تالی بجائی گو یا  کہ لوگوں  نے  اُسکو کہا کہ  تو اپنے باپ کو پھر دیکھیگی ہاں اُسنے سچ مچ یقین کیا کہ میں اپنے  باپ کو  پھر دیکھونگی۔ اتفاقاً اُسے یاد آیا جو اُسکے باپ نے ایک دن صبح کو اسے کہا تھا کہ میں نہ مرنگا جب تک تمھیں  بتلا نہ دوں۔ پس اُسے یقین دلانے کو کہ تیرا باپ زندہ ہے کسی اور بات کی ضرورت نہ تھی بچوںّ کا اعتقاد  مضبوط ہو کرتا ہے انکے دل سے کیس بات کا خیال نکال دینا آسان کا م نہیں۔ دوسرے دن  وہ رات بھر وہیں رہے  لوگوں نے بہت کوشش کہ اسکو سمجھاویں کہ جو کچھ کرنا تھا ہم کر چکے  اور تو اپنے باپ کو پھر نہ دیکھیگی کیونکہ ہم نے اسکو کھان کے سب کمروں اور کونوں میں خوب تلاش کیا پر اپسے نہ پایا  اُس لڑکی نے اپنا سر ہلایا اور رو کر کہا کہ میرے باپ کو ڈھونڈو پر لوگوں نے اسکی بات کا زرا بھی خیال  نہ کیا کیونکہ وے  ۴۰۔ گھنٹوں تک اُسکی تلاش کرنے میں  ہر طرح کی کوشش کر چکے تھے بیشک اسکا گم ہوجاتا ایک عجیب بات تھی اُنہیں  مناسب تھا کہ مچلی کو زندہ یا مردہ تلاش کر نے  پر اُنہوں  نے کیا۔ چیف انجنیر  صاحب نے خود اُسکی تلاش کا حکم دیا اور لوگوں  نے کھان  کا ہر ایک چھوٹے سے چھوٹا کمرہ اور خلوت گاہ خوب تلاش کیا آخر  سب متفق الرائے ہو ئے کہ اب اُسکی تلاش موقوف کریں کیونکہ وہ بیچارہ کان کن کھان کے زور سے ڈگنے اور اُلٹ پلٹ ہونے میں کسی جگہ دب گیا اگر چہ وہ اسکی کیفیت نہیں بیان کر سکتے کہ یہہ کیونکر ہوا جیسا کہ جنگ میں گم گشتہ لوگ مردوں میں شمار کئے جاتے ہیں ۔ ۴۸۔ گھنٹے تک سید مازل پیا بغیر تھکاؤ کے منتظر  رہی جب کوئی آدمی کھان میں سے نکلتا تو وہ اسکو دیکھنے جاتی اور پہچانکر کہ یہہ وہی نہیں جسکو میں ڈھونڈتی ہوں رنج سے پچھاڑ کھا کر گر پڑتی اور ذار ذار روتی۔  لوگوں نے کوشش تو کی  اسکو گھر واپس کریں  پر وہ ایسے زور سے چلائی کہ انہوں نے اُسے وہیں رہنے دیا اور اُنہوں  نے یہہ بھی  دریافت کیا کہ کمزوری اسپر غلبہ کرتی جاتی ہے۔ اُس کمزور کو ایسے رنج مین کہان سے طاقت ملتی تھی؟ یہہ سوال خدا سے پوچھنا  چاہئے  کیونکہ یہہ اُنکے بھید میں تیرے دن بھی وہ لڑکی کھان کے دروازہ پر رہی تب  چیف انجنیر  صاحبنے کہا کہ اب ہم اُسکا  جھگڑا  ختم  کروینگے اور اُس پا س جا کر  کہا کہ ہوش میں  آکیا تو اپنے باپ کو ڈھونڈتی ہے افسوس  وہ بیچارہ تو مر گیا لڑکی نے کہا کہ نہیں اور لفظ  نہیں  پر ایسا زاور دیا کہ  اگر وہ مرتا تو پہلے مجھے بتا دیتا۔ وہ بیچاری لڑکی انجنیر صاحب  پر کُڑ کُڑائی  تو اُسنے حکم  دیا کہ اسکو یہاں سے لیجاؤ پر وہ لڑکی مایوسی  سے روتی ہوئی انجنیر  صاحب سے لپٹ گئی اور کہا کہ میرا باپ  نہیں مرا  میں کھان میں اُتروں  گی اور اُسے ڈھونڈونگی۔ پر اُنہوں نے  لڑکی کو وہاں سے  مدرسے لیجا کر ایک سخت نگہبان کے سپرد کیا تاکہ  حفاظت سے رکھے ایک گھنٹہ کے بعد وہ پھر کھان پر پہنچی  اور انجنیر صاحب  کے پاؤں  پکڑ  کے پھر اسیطرح  کہا کہ میں  کھان  میں اُتر  کر اُسے تلاش کروں گی  انجنیر صاحب چونکہ  رحم دل آدمی تھا اُسپر  ترس کھا کر کہا کہ شائد وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیگی تو یقین کرے گی کیونکہ اگر اُسکے رنج کا جوش  دیر تک اسی طرح رہا تو مر جا ئیگی  اور اُسے گود میں لیکر پنجرے  میں چڑھ بیٹھا اور اُتارنے والے  کو حکم دیکر  وے کھان میں اُتر گئے۔ آٹھ برس کی لڑکی اور اس تاریک غار میں اُترنا کہ جسکی یاد ہی سے ڈرتی  تھی۔ دیکھو وہ اپنے باپ کو کیسا پیار کرتی تھی جب اُسنے آپ کو اندھیرے میں پایا تو کانپی اور جانا کہ  کہ اُسکے  نیچے فراخ غار ہے جہاں سے بھاری ہوا نکلتی اور اُسکا  دم گھونٹتی  ہے انجنیر صاحب نے دریافت کیا کہ وہ گھبرا کر مجھ سے لپٹی جاتی ہے اور دو قطرے  آنسہو بھی  اسکے کاندھے پر گرے۔  جب کھان کی تہ پر پہنچ  گئے تو لڑکی نے اُسکو  چھوڑ دیا زمین  پر کود کر باپ باپ پکارتی  ہوئی چلی۔ دو گھنٹو ں  تک وہ کھان کے کمروں میں اپنے جان پہچانوں سے پوچھتی اور کھان کی دیواروں کے شگافوں میں دیکھتی اور باپ باپ پکارتی پھری  انجنیر صاحب  جو مشکل سے اُسکے ساتھ گیا تھا اُسے وہی بات بیس (۲۰)  بار سمجھاتے سمجھاتے تھک گیا تھا کہ کھان میں کیونکر اور کہاں آگ لگی اور لاشوں  کی تلاش  کرنےمیں کسقدر کوشش کی گئی پر وہ لڑکی بار بار اپنے باپ کی بابت پوچھتی اور کہتی تھی کہ وہ زندہ ہے اُسے ڈھونڈھو ۔ وہ وہیں رہتی جیسا کہ کھان کے منُہہ پر تین دن تک رہی اگر زبردستی اُسے باہر  نکالتے۔ انجنیر صاحب نے اسکو مدرسے واپس پہنچانے کا حکم دیا اور یہہ بھی کہا کہ اگر وہ کھان پر پھر آوے تو اُسے کھان میں مت اُترنے دو تمام تدبیریں اپسکے واسطے بڑی احتیاط سے کی گئیں۔ دوسرے دن انجنیر صاحب  اس لڑکی سے بیفکر ہو کر کھان میں لوگوں کا کام دیکھتا پھرتا تھا تو کیا دیکھتا ہے کہ میڈ  مازل پپا اُسکے کوٹ  کا  دامن پکڑ  کر کھینچتی ہے۔ وہ مدرسہ سے پھر بھاگ آئی ۔ لوگوں نے اُسکو کھان کے منُہہ پر سے ہٹایا اور جب اُسے  معلوم ہوا کہ کو ئی  اُسکی  خاطر حکم عدولی  نہیں کرنا  چاہتا تو  کوئی نکالنے کی ایک خالی  گاڑی  میں  چھپکے گھس بیٹھی اور یوں کھان میں اتر گئی اُسنے جاتے ہی یہہ سب ماجرہ انجنیر صاحب  سے بیان کر کے معافی حاصل  کی اور پانچ منٹ کے بعد اُسنے اُنپے باپ کی تلاش کرنا شروع کیا پہلے دن  کیطرح کامل امید سے اُسنے کھان کی سب دیواروں  کو دیکھا ۔ بغیر  مایوسی اور تھکاؤ کے اُس نے ایک ایک جگہ کو بیس (۲۰)  بار دیکھا بیچارے  کان کن رحم دلی سے اُسکی طرف دیکھتے اور اپنا کندھا ہلا کر کہتے  ہائے بیچاری کا باپ۔ یہہ چھوٹی سی لڑکی اب تک اپنے باپ کو ڈھونڈتی  ہے۔ یکایک اُنہوں نے اُسے  پریشان اور بیدم بھاگتے اور چلاتے سنا کہ میرا باپ وہاں ہے ایک کان کن نے پوچھا  کہاں۔ ایک لمحہ میں سبھوں کو خبر ہو گئی کان  میں ہلڑ مچ گیا لڑکی نے  تاکیداً  کہا کہ میں  نے ایک سوراخ میں نیلے کتان کا ٹکرا  دیکھا جو میں نکال نہ سکی  کیونکہ وہ بہت بھاری کوئلے کی دیور کے نیچے  دبا ہے۔ اُنہوں نے پھر پوچھا کہ کہاں وہ اُنکے  دکھا  نیکو  واپس  لوٹی اور سب لوگ اسکے پیچھے  چلے کبھی ہچکچاتی  کبھی ٹھہر جاتی اور کبھی آگے چلتی پر وہ جگہ اُسے نہ ملی  کیونکہ کوئلے کیسب دیواریں خار اور کمرے یک سان  معلوم دیتے تھے تو بھی اُسے یقین تھا کہ اُسنے وہ نیلا کتان دیکھا ۔ جہاں وہ نیلا کتان  تھا وہیں  بیشک وہ آدمی زندہ تھا اور وہ آدمی  اسی کا باپ تھا پر اُسنے نہ پایا۔ اس بیفائدہ تلاش  سے تھک کر اور سمجھکر کہ بیچاری لڑکی اپنے غم میں پریشان ہے ہر ایک اُسے چھوڑ کر اپنے اپنے کام کو گیا۔ جب نیک  دل پھاڑنے والی آواز نے اُنہیں  پھر بلایا تو بسبب جلدی  کے اُنہوں نے کھنتی اور گدار بھی ساتھ نہ لی وہ  چھوٹی لڑکی بیدم ہو کر چلائی  ( جس حال کہ اسکی آنکھ اور منُہہ کھلے اور اُسکے ہاتھ دیوار کے ایک سوراخ میں پڑے ہوئے تھے) کہ مجھے مل گیا مجھے  مل گیا انہوں نے اُسے  ہٹا کر دیکھا تو تحقیق  نیلا کتان  تھا تب خیال  کیا کہ ضرور یہاں ایک آدمی ہے۔ اُنہوں نے کھودنا شروع  کر دیا اور زور زور  سے کداریاں مار کر آنکھ کے ایک جھپکے میں دیوار  گرادی اور اُس پُلاڑ میں ایک آدمی پڑا  دیکھا یہہ مچلی پیرن تھا وہ اُسمیں تین دن اور چار رات رہا سب خوشی سے چلانے لگے پر وہ لڑکی سب سے زیادہ عجیب آواز سے چلائی تھی وہ ایک ہی چھال  میں اُسپر جا پڑی اور نصف وحشی کیطرح زور سے لپٹ کر رونے اور باپ باپ پکارنے لگی۔ بیچارہ مچلی شکستہ حال تھا خوراک و ہوا کی تنگی کے سبب دُبلا ہو گیا تھا وہ زرا سی دیر ہوش میں آکر پھر بیہوش ہو گیا پر زندہ تھا وہ لڑکی سچ کہتی تھی کہ میرا باپ مجھے  بتائے بغیر نہیں مرنیکا۔ مچلیکو اس لڑکی کی یاد سے کہ میری  خبر لینوالی اوپر  زندہ ہے دُگنی  طاقت حاصل ہوتی تھی اور اُسنے موت کو جیت لیا۔ آٹھ دن کے بعد وہ بستر سے پھر اُٹھا پر بہت  دُبلا تھا لیکن تندرست اور کام کر نیکو طیار۔ اُس دن کی شام کو جب مچلی اپنا کام پھر شروع  کرنے کو تھا سب کان کنوں نے ملکر میڈ مازل پپا  کی بڑی دعوت کی اسکی تعظیم  کے واسطے مجلس  میں صدر جگہ رکھی گئی جب وہ اپنے باپ کے ساتھ کمرے میں داخل  ہوئی تو بلند آواز سے آفرین پکار کر اور تالی بجا کر اُسکی تعظیم  کی۔ لوگ اُسے پیار کرتے اور خوش ہوتے  تھے اور اُس چھوٹی ملکہ کو  جو جو کار کہتے تھے۔ تم جانتے ہو کہ اُس  چھوٹی ملکہ نے کسیطرح مسکراتے اور تالی بجاتے ہوئے ان سب بوتونکا جواب دیا صرف اُس نے کہا ۔ باپ۔ مگر جس لہجہ سے اُسنے  کہا اُس کابیان کرنا  دشوار  ہے مگر وے سب رحم دل لوگ  جنہوں نے کبھی ایک آنسو بھی نہ بہایا تھا تمہیں بتاو ینگے کہ اُس رات کسیقدر روئے۔

علمائے اسلام کی توریت کے بارے میں رائے

An Islamic Scholar’s Opinion of the Torah

Published in Nur-i-Afshan October 13, 1887
By Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

(۱)۔ امام محمد اسمعیل بخاری  نے تحریف  کی تفسیر یوں کی ہے کہ تحریف  کے معنے ہین بگاڑ دینے  کے  اور کوئی شخص  نہیں ہے جو بگاڑے اﷲ کی کتابوں سے لفظ کسی  کتاب کا مگر یہودی  اور عیسائی خدا کی  کتاب کو اُسکے اصلے اور سچےّ  معنوں  سے پھیر کر تحریف  کرتے  تھے انتہےٰ یہہ قول اخیر صحیح بخاری میں ہے۔

(۲)۔ شاہ ولی اﷲصاحب  اپنی کتاب  فوز الکبیر میں لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک تحقیق یہی ہوا ہے کہ اہلکتاب  توریت اور اور کتب مقدسہ کے ترجمہ میں ( یعنے تفسیر میں) تحریف  کرتے تھے نہ یہہ  کہ اصل  توریت میں اور یہہ قول ابن عباس کا ہے انتہےٰ۔

(۳)۔ امام فخر الدین رازی  اپنی تفسیر کبیر مین  سورۃ مایئدہ آیت  ۱۴ کی تفسیر کرتے  ہیں کہ تحریف سے یا تو غلط  ناویل  مراد ہے بالفظ  کا بدلنا مراد ہے اور ہمنے اوپر بیان کیا کہ پہلی  مراد بہتری  کیونکہ جو کتاب  بار بار  نقل ہو چکی اوسمیں تغیر لفظ کا نہین ہو سکتا انتہےٰ۔

(۴)۔  تفسیر دُر منثور  میں ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے وہب  ابن منُبہ سے روایت کی ہےکہ  توریت و انجیل  جسطرح  کہ اُن  دونوں  کو  اﷲ نے اُتارا تھا اسیطرح  ہیں اُنمیں کو ئی حرف بدلا نہیں گیا لیکن  یہودی بہکاتے تھے  لوگوں کو معنونکے بدلنے  اور غلط  تاوبل کرنے سے اور حالانکہ  کتابیں تہیں وہ جنکو انہوں نے اپنے  آپ لکھا  تھا اور کھتے  تھے کہ وہ اﷲ کیطرف  سے ہیں  اور وہ اﷲ  کیطرف نہ تھیں  مگر جو اﷲ  کیطرف  سے کتابیں تھیں  وہ محفوظ  تھیں تھیں اُنمیں  کچھ بدلنا نہیں ہوا تھا انتہےٰ۔

سورۃ بقررکوع ۹ میں جو یہہ آیت ہے فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَٰذَا مِنْ عِندِ اللَّهِ یعنے سو افسوس ہے ان لوگوں پر جو اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ یہ الله کی طرف سے ہے انتہےٰ — بیضاویمینہو و لہلہ ارادبہ ما لتبو لامن التلاویلات انسٰانیہ — یعنے اور اس سے شائد وہ مراد ہے جو تاویلات یعنے تفسیریں اُنہوں نے ( یعنے یہودیوں نے) سزائے زنا کی بابت لکھیں انتہےٰ اسکے سوا ایسی کتاب کو محرفّ نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ تو سرے ہی سے جھونٹھی کتاب ہے اُسے تحریف سے کیا علاقہ لیکن میں کہتا ہوں کہ یہہ علمائے اسلام کا حُسن عقیدت نسبت توریت و انجیل کے ہے ورنہ تحریف لفظی بلکہ اکثر آئتیں کی آئتیں مقدس کتابوں میں لائی جانا معتبر علماء اہلکتاب کے اقوال سے بصحت تمام ثابت ہے جیسا کہ تیسرے اور چوتھے کلیسا مین مرقوم ہو گا باوجود اسکے مسلمانوں کو توریت و انجیل سے واقف ہونا تاکہ اہلکتاب سے مناظرہ کر سکیں اور اُن کتابوں کی عظمت سمجھنا تاکہ ایمان جانا مزہے ضرور ہے اور خاصکر اس واسطے کہ ہمارے پیغمبر کی پیشتر سے خبر دینےوالے خدا پر ستوں میں یہی کتابیں ہیں اسلئے میں نے یہہ سب وجوہ عظمت توریت و انجیل ابتک بیان کروائی خدا میری بہول چوک کو معاف فرمائے اسکے سوا علماء اسلام اگر توریت وغیرہ کو محرّف کہیں تو اسکا نصارے کب یقیں کریں جبتک نصرانی علماء معتبر توریت و انجیل کے تحریف کا اقرا نہ کریں پس یہی اقرار لوح ثانی میں شروع سے موجود ہے اس جگہ مین نے یہہ سب قول مفسرین وغیرہ اُن مسلمانوں کی ترغیب کے واسطے نقل کئے جو سمجھے ہیں کہ توریت و انجیل کو آنکہ سے بھی نہ دیکھنا چاہئے اگرچہ الف لیلہ وغیرہ پڑہنا ناجایز نہیں ہے نعوز باﷲ الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَمَن يَكْفُرْ بِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ والخ وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ اسے پڑھتے ہیں جیسا اس کے پڑھنے کا حق ہے وہی لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں جور اس سے انکار کرتے ہیں وہی نقصان اٹھانے والے ہیں سورۃ بقر رکوع ۱۴)

اب مثال کے لئے دو ایک مقام کے لئے دو ایک مقام اور بیان کر دن جس سے معلوم ہو گا کہ اہل اسلام کو یہود و نصارے اور دنیا کی سب قوموں سے بحث و مناظرہ کرنا مقتضائے حمیتّ اسلام ہے بلکہ خدا ہی نے مسلمانونکو مناظرہ کا طرز تعلیم کیا ہے کہ یہود و نصارے کے عقاید کی تردید اور اُنکے کتابونکی مضامین سکہلائے چنانچہ قال اﷲ تعالی ٰ حبشانہ۔۔۔۔۔ إِنَّ هَٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْأُولَىٰ صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ۔ بے شک یہی پہلے صحیفوں میں ہے (یعنی) ابراھیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں۔ بالتحقیق یہی ہے پہلی کتابونمیں میں ابراہیم او ر موسیٰ کے اب اگر کوئی توریت سے ناواقف ہوتو کیسے کہہ سکے کہ صحفٰ ابراہیم و موسے میں یہی تعلیمیں نجات اور آخرت وغیرہ کی مرقوم ہیں جو قرآن مجید میں ہیں (سورہ اعلےٰ) اسلئے اپنے دعویکے اعتبار کی غرض سے مسلمانونکو توریت و انجیل سے واقف ہونا چاہئے وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِينٍ وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ أَوَلَمْ يَكُن لَّهُمْ آيَةً أَن يَعْلَمَهُ عُلَمَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ اور بالتحقیق اور یہ قرآن رب العالمین کا اتارا ہوا ہے اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے تیرے دل پر تاکہ تو ڈرانے والوں میں سے ہو صاف عربی زبان میں اور البتہ اس کی خبر پہلوں کی کتابوں میں بھی ہے کیا ان کے لیے نشانی کافی نہیں کہ اسے بنی اسرائیل کے علماء بھی جانتے ہیں۔ (سورہ شعرا) اب اگر پہلوں کے صحیفوں سے ہم واقف نہوں تو کسطرح یہود و نصارے سے کہہ مسکین کہ یہہ ہے پہلوں کے صحیفوں میں اسکی تفسیر میں بیضادے نے لکھا ہے کہ اُسکا زکر یا سُسکے معنے کتب متقد میں میں کرقوم ہیں اور کتب کو توسب جانتے ہیںکہ توریت و انجیل ہے چنانچہ کشاف میں صاف لکھا ہے کا لتو راہ والا نجیل ۔ إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ بالتحقیق ۔ بے شک جو لوگ ان کھلی کھلی باتوں اور ہدایت کو جسے ہم نے نازل کر دیا ہے اس کے بعد بھی چھپاتے ہیں کہ ہم نے ان کو لوگوں کے لیے کتاب میں بیان کر دیا یہی لوگ ہیں کہ ان پر الله لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔ (سورۃ البقر)۔ اس آیت کا شان نزول ابن اسحاق نے روایت سے سیرت ہشامی میں اسطرح پر ہے کہ معاوابن جبل اور سعد ابن معاو اور کارجہ ابن زید نے بعضے یہودی عالموں سے توریت کی سکی بات کا استفسار کیا لیکن یہود اُسکو اُن سے چھپا گئے اور بتلانے انکار کیا پس اﷲ تعالیٰ نے یہہ آیت نازل کی کہ جو لوگ چھپاتے ہیں الخ اور تفسیر حسینی میں ہے ان اﷲ الزین بدرستی کہ آنا اور علمائے یہود کہ سجد یکتموں می پوشند ما انزلنا انچہ فرو فرستاویم من البنیات از سخناں روشن درتوریت والہدے دراہ نمودنی یعنے ہدایت من بعد بنیاہ از پس آنکہ بباں کر دہ ایم ان ہدے للناس برائے بنی اسرائیل نے الکتاب و توریت یعنے ما آشکارا ساختیم وایشان تھی گردنید مزاب دیکھئے کہ مسلمانوں سے یہودیوں نے توریت کو چھپایا تو یہہ بات خدا کو ایسی نا پسند معلوم ہوئی کہ اس شدّت کیساتھ اُنپر لعنت کی یہاں سے ظاہر ہے کہ خدا کو توریت سے مسلمانوں کو واقف کرنا کسقدر منظور تھا کہ اسے چھپانے کے سبب یہودیوں پر ایسی سخت لعنت فرمائی اور پھر اسی سورہ میں حقتعائے فرماتا ہے إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ الْكِتَابِ یہاں بھی یہودیوں کو وہی الزام دیا گیا ہے کہ اُنہوں غرض دنیاوی کیواسطے اُن شہادتوں کو جو توریت میں وبن اسلام اور حضرت رسول اﷲ کی بابت نہیں ظاہر نکیا پس اگر مسلمان توریت کے اُن مضمونوں سے واقف ہو جاتے تو یہودیوں کے چھپانے سے پھر نقصان کیا تھا مگر چوں کہ اُس زمانہ میں توریت عربی زبانمیں ترجمہ نہوئیتھی ( دیکھو تواریخ ابو الغاراجو ساتویں صدی ہجری میں تھا) اس سبب سے ان باتونکا اعلان صرف یہودیونپری منحصر تھا اور جبکہ وہ ایسی باتوں کوچھپاتے تھے تو اﷲ حبشا نہ نے اُنکی اس حرکت سے سخت ناراض ہو کر فرمایا کہ أُولَٰئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ یعنے وہ آگ کہاوینگے اپنے پیٹ میں اور خدا اُنسے بات نکر یگا قیامت کے دن اور نہ پاک کریگا اُن کو اُنکے واسطے ہوگا سخت عزاب۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ ۔ اور جب الله نے اہلِ کتاب سے یہ عہد لیا کہ اسے لوگوں سے ضرور بیان کرو گے اورنہ چھپاؤ گے انہوں نے وہ عہد اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا اور اس کے بدلے میں تھوڑا سا مول خرید کیا سو کیا ہی برا ہے جو وہ خریدتے ہیں( سورہ عمراں)۔ یہاں بھی وہی الزام ہے جو قرآن میں بار بار توریت وغیرہ کے مضامین چھپانے پر یہودیونکو دیا گیا لیکن اگر توریت کے مضامین اُسوقت میں مسلمانوں میں مشتہر ہو گئے ہوتے تو پھر یہودیوں کے چھپانے کی شکایت کا تھی۔ اور اسلام کی فضیلت ظاہر کرنے کے لئے اور کسی تدبیر کی حاجت کیا ہوتی کیونکہ حضرت موسیٰ نے توریت مین بنی اسرائیل سے صاف فرما دیا تھا کہ ایک نبی میری ما نند ہو گا تم اُسکی سنِو لیکن اب وہ دن آیا ہے کہ کتابوں کی کثرت اور ہر زبان میں توریت ترجمہ ہو جانے کے سبب اسلام کی فضیلت اور حضرت رسول اﷲکی خبر توریت و انجیل سے ایسے واضح اور صاف بیان ہوتی ہے جو اس سے پیشتر کبھی نہوئی تھی غرض اِسیطرح الام توریت چھپانے کی بابت یہودیوں کو بار بار دیا گیا ہے دیکھو سورہ انعام وغیرہ واسل مَّنْ أَرْسَلْنَا مَّنْ قَبْلِكَ مَّنْ رْسَلْنَا یعنے پُوچھ اُن رسولوں سے جنہیں ہمنے تجھ سے پہلے بھیجا (دُخرُفُ ) پوچھ اُن رسولوں سے یعنے اُن کی اُمت سے بیضاوی میں لکھا ہے اُنکی اُمّت اور اُنکے علماء دین سے اور کشاف میں ہے کہ یہود و نصارے کی اُمت سے اب خیال کیجئے کہ اُنسے پوچھنا ازروئے توریت و انجیل ہی تھا یا کچھ اِنکی بنائی ہوئی باتوں سے عرض تھی فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ لَقَدْ جَاءَكَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ یعنے سو اگرتمہیں اس چیز میں شک ہے جو ہم نے تیری طرف اتاری تو ان سے پوچھ لے جو تجھ سے پہلے کتاب پڑھتے ہیں بے شک تیرے پاس تیرے رب سے حق بات آئی ہے سو شک کرنے والوں میں ہرگز نہ ہو (سورہ یونس) چونکہ رسول اﷲ اُمی محض تھے کوئی کتاب نہ پڑھ سکتے تھے اور اگر پڑھ سکتے تو توریت عربی زبان میں نتھی بلکہ عبرانی میں تھی اس سبب سے حکم ہوا کہ پوُچھ ا ُنسے اور جو شخص آپ توریت پڑھ سکتا ہو تو پوچھنے کی بہ نسبت یہ زیادہ بہتر ہے کہ وہ آپ توریت میں دیکہہ لے مگر اب جو لوگ کہ اِن آیتوں سے تو انکار نہیں کر سکتے مگر توریت کے پڑھنے سے گھبراتے ہیں اُنکی مثال ایسی ہے کہ خط کو تو نہیں کہولتے سرف قاصد سے زبانی خبر پوچھتے ہیں یعنے بڑی تسلی کو چھوڑ کر ادنے ٰ تسلی کیطرف دوڑتے ہیں وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَىٰ تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ فَاسْأَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ الخ یعنے اور البتہ تحقیق ہم نے موسیٰ کو نو کھلی نشانیاں دی تھیں پھر بھی بنی اسرائیل سےبھی پوچھ لو ( سورہ بنی اسرائیل) اب دیکھئے کہ اِن نشانیوں کا زکر توریت میں بہت تفصیل کے ساتھ ہے اگر کوئی توریت سے خوب واقف نہو تو کیونکر یہہ نو گنو ا سکے کیونکر قرآن مجید میں اسرائیلی کتابونکا حوالہ دیا گیا ہے پس ضرور ہے کہ انہیں کتابون سے ثابت کیا جائے پوچھؔ بنی اسرائیل سے یعنے توریت کے پرہنے والو نسے ورنہ اُنکی زبان باتونکا کیا اعتبار ہو سکتا ہے دوسرے یہہ کہ حضرت موسیٰ اُنہیں لوگوں کے درمیان تھے پس اُنہین کی کتابوں سے اِسکا ثبوت بہت مستحسن ہو اور یہاں بھی وہ ہی بات ہے کہ پوچھ اہلکتاب سے اسیطرح سورہ نحل مین ہے فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ پس پوچھ اہل زکر یعنے اہل کتب آلہیٰ سے اگر نہیں جانتے ہو اور اسیطرح سورہ انبیا ء رکوع میں بھی ہے اگر أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُدْعَوْنَ إِلَىٰ كِتَابِ اللَّهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَتَوَلَّىٰ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ وَهُم مُّعْرِضُونَ یعنے کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں ایک حصہ کتاب کا ملا وہ الله کی کتاب کی طرف بلائے جاتے ہیں تاکہ وہ کتاب ان میں فیصلہ کرے پھر ایک فرقہ ان میں سے پھر جاتا ہے ایسے حال میں کہ وہ منہ پھیرنے والے ہوتے ہیں (العمران) تفسیر حسینی میں ہے کہ روزے حضرت رسالت جمعے از یہود رابا سلام دعوت کرد نعماں بن ابی اوفی گفت اے محمد بن باتو در حضور علماے دین خود مناظرہ میکم حضرت فرمود کہ ان صحیفے را از توریت کہ مشتمل پر نعت و صفت من اس بیارید ووریں محکمہ انراضم سازند ایشاں ازیں قول ابا نمودہ آیات توریت راحاضر نک وند حقتعاےٰ فرمودہ کہ ایشاں رابتوربت میخو انید ثمہُّ ینولیً۔ پس روے میگر دانند گرُو ہے ازایشان کہ روسا یہودندو ایشاں اعراض کنند گانند از حق انتہےٰ یہاں سے مناظرہ کا قانون صحیح دانشمند ونکوں معلوم ہو جائیکا کہ رسول اﷲ نے یہودیوں سے مناظرہ کے وقت قرآن مجید پیش نہیں کیا کیونکہ وہ اُسے نہین مانتے تھے بلکہ اُنہیں کی کتاب منگوائی اب وہ لوگ جنہیں توریت و انجیل سے واقف کاری نہین ہے کیونکہ کیس دعوے کے ثبوت میں ایسی جرات کر سکتے ہیں اور جو لوگ اس بے پرواہ ہین ثابت ہے کہ اُنہیں دین اسلام اور خدا اور رسول کے نام کی حمایت سے بھی کچھ غرض نہیں ہے اور فعل رسول اﷲ کو بھی پسند نہین کرتے۔

خداوند مسیح کا فضل  ہو آبحیات مفت لیے

غلام جیلانی عیسائی

The Living Water

Published in Nur-i-Afshan May 14, 1885
By Gulam Jilani Masih

شکر ہے اُس خداوند  کریم کا جسنے ہمہ موجودات کو اپنی قدرت کاملہ سے آراستہ و پیراستہ کیا اور انسان کو اشرف  المخلوق بنا کر عقل بخشی تاکہ نیک و بد میں تمیز کر سکے اور ہمیشہ اپنے خالق کی یادگاری میں مصروف  رہے اور اُسکی حمد و ثنا میں دل اور روح سے گیت گاوے مگر انسان نے اِس عقل کو جو اُسکے خالق کی طرف سے عنایت ہوئی تھی کھودیا اور جہالت کے گرداب میں پڑ کر اپنے آقا  کو بھول گیااور بجائے اِسکے شیطان کی تابعداری کو قبول کیا  جسمیں آجتک سر گردان اور پریشان یہہ غریب انسان مار ا مارا پر رہا ہے۔  اور کوئی راستہ نہیں پاتا  جہاں سے نکل کر اپنی جان کو بچاوئے  اسی لیے اپنے خالق کی نزدیکی سے دور ہو گیا ہے اور اُسپر  موتکا فتوہ لگایا گیا ہے ۔ جسکا کا نام ہمیشہ کی موت ہے۔ اور وہ ہمیشہ کی موت جہنم کی سزا  ہے جس سے گنہگار کو رہائی  کی اُمید نہیں اور وہ جہنم  کی سزا ایسی سخت ہے جسکے سننے سے کان سنسناتے  ہیں اور ہر ایک بشر کا کلیجہ منُہہ کو آتا ہے ۔ جب خدا  قیامت کو اپنے تخت عدالت پر بیٹھے گا  تو  اُسوقت گنہگار ونکا  کوئی  حامی اور شفیع  نہ ہوگا  مگر  اے  بھائیوں  خدا کسی  گنہگار  کی موت میں راضی  نہیں ہے ۔ اُس نے تو ہم پر اپنا ایسا فضل ظاہر کیا جسکے ہم لایق  نہ تھے اُسنے ہماری نجات کے لئے ایک چشمہ آبحیات کا جو مسیح کے خون کا جاری ہے بہایا ۔ جسکے پینے سے مرُدونکو  از سر نو زندگی حاصل ہوتی  ہے  اور وہ چشمہ ہر ایک مرُدہ  کے سامنھے پیش کیا  جاتا  جو کوئی اِسمیں سے  ایک گھونٹ پیتا ہے ہمیشہ کی زندگی اُسی کی ہے۔ ارو یہ چشمہ ہر  خاص و عام کے لئے ہے نہ کہ یورپ اور امریکہ کے لوگوں کے لئے نہ صرف  دولتمند وں کے لئے بلکہ بھوکھے اور پیاسونکے لئے بھی کسی سے کوڑی پیسا طلب نہیں کیا جاتا بلکہ مفت ملتا ہے ۔ جو کوئی چائے اَوے اور  پیئے لیکن ا ے بھائیو یہہ چشمہ بغیر مسیح پر ایمان لانے سے ملتا نہیں ہے کیونکہ ہم اپنی روشنی سے اس چشمہ کو پا نہیں سکتے جبتک کہ ہمارا  راہبر خداوند مسیح  نہو  اِس سے اے بھائیو ظاہر ہوتا ہے کہ اِس چشمہ کی تلاش کے لئے دو امر ضرور ہیں  پہلا امر یہہ ہے کہ خداوند مسیح پر ایمان لاؤ  دوسرا یہہ ہے کہ بپتمسا لو خداوند مسیح پر ایمان لانیکا  مطلب یہہ ہے کہ تم  اپنے جھوٹے مذہب کو چھوڑ کر اور اپنے  گناہوں  سے سّچی توبہ کر کے خداوند  مسیح کے پاک خون پر بھروسہ رکھو جس سے سب گنہگارونکی نئی زندگی  حاصل ہوتی ہے پھر بپتمسا لینے سے یہہ مراد ہے کہ جب کوئی سچےّ دل سے خداوند میح کو پیار کرتا ہے اور اُسکا مرید ہوتا ہے تو اُسکو  چاہئے کہ اپنے دلی ایمان کو اور لوگوں پر ظاہر کرے شاید کو ئی کہے  کہ دوسرا جانے نہ جانے ہم اپنے دل ہی میں خداوند  مسیح  پر ایمان  رکھتے  ہیں کچھ ضرورت نہیں کہ ظاہر کریں تو اے بھائیو ایسا ایمان سچا ایمان نہیں ٹھہر  سکتا  خداوند انے اپنے دین کا  یہہ ایک نشان ٹھہرایا کہ جس سے  اِس پر ایمان لانے والے شاگر دی کی مہر پاتے ہیں  یہہ اضو نگری نہیں جو تمہارے  کان میں پھونکی  جاوے پر وہ بپتمسا  یعنے اصطباغ کی رسم ہے جو مسیح کا پیرو ہوتا  ہوں  تب  وہ نو مرید  خدا یعنے  باپ  بیٹا  روح القدس  کے نام  اصطباغ پاتا  ہے پھر خداوند کے سچےّ شاگردوں کے دلوں میں روح القدس  بود باش  کرتی ہے  اور اُسکی  تعلیم  سے خدا کی شناخت اور محبت میں مسیح کا شاگرد روز بروز  ترقی پاتا جاتا ہے اور گناہ سے  باز رہکر  ہر طرح کے نیک کام کرتا ہے ۔  پس اے بھائیو تم  اِن  باتونکو  پڑ ھکر  شاید کہہ گے کہ ہم مذہب چھوڑ کے مسیح کی پاک کلیسیا میں شامل ہوؤیں تو  اپنی زات پات  اور بھائی بنداور عزیز و اقربا کو چھوڑ  نا  پڑیگا  پس اے بھائیو یہہ بات سچ ہے کہ کیونکہ تم اپنے رشتہ دارونکی  جماعت سے ضرور  نکالے  جاؤ  گے  اور تمسے سب پرہیز  کرینگے  لیکن اے ہمارے عزیز بائیو  اگر تم  آبحیات پیکر  ہمیشہ کی زندگی  چاہتے  ہو اور اپنی روح کو گناہ سے پاک کرنا چاہتے ہو تو کچھ ہی تمھارے  بھائی بند کہیں اُنکی فکر مطلق نہ کر و بلکہ یہہ خیال کرو کہ  بھائی بند جو کچھ کہیں سو کہیں مگر ہم اپنے  تئیں موت کے ڈنگ  سے بچاوینگے تم اے بھوئیو خوب جانتے  ہو کہ تم کیسا ہی جھوٹھ بولو  یا گالی  دو یا چوری یا  رنڈی  بازی یا اور کسی طرح کے برے کام کرو تو کوئی تمکو  برادری سے  نکال نہ دیگا کیونکہ سب طر ح کے بدمعاش لوگ تمہاری زات پات میں رہ سکتے ہیں  لیکن تم  جو اپنی حیات ابدی کے لئے جھوٹھ  اور برائی چھوڑنا  چاہو تو لوگ  تمکو برادری  سے نکال  دینگے اِس بات کو غور کر کے یہہ کہتے ہیں کہ جو کوئی  خدا  وند  عیسیٰ  مسیح کے  دین میں آنیکے سبب زات برادری سے الگ کیا  جاوے  سو وہ مبارک ہے کیونکہ خدا کے مقدّس لوگوں میں  گنا  جاویگا اور ایسی زات برادری  پر افسوس ہے۔ اب اسپر بھی غور کرو  کہ کسکی بات قابل  قبولیت ہے۔ خدا کی یا زات برادری کی تو وہی گواہی دیتا ہے کہ خدا کی بات کو مان لینا  چاہئے اب ہم سے کہو کہ عاقبت میں خدا یا زات برادری تمارے کام میں آوینگے کیا تمہارے بھائی بند  مرتے مرتے تمہارے  ساتھ جاوینگے اور اِنصاف  کے وقت میں تمہاری عوض جواب دینگے کبھی نہیں پھر جو تم مسیح کے شاگرد ہو جاؤ اور لوگ تمکو زات  برادری سے نکالدیں اور تم پر لعن طعن  کریں  تو تم جانو کہ یہہ چند روز تکلیف ہے اور مرنیکے بعد خدا تمکو بہشت میں جگہ دیگا  جسکا نام  حیات ابدی  ہے اور وہاں ہمیشہ خوشحال رہو  گے تم بھائی  بندکے خوف سے اپنے ایمان کو چھپاؤ  گے تو خدا تم سے  روز  عدالت میں فرمادیگا  کہ کیوں تمنے میری بات  کو نہ مانا اور اپنے بائی بند کی باتونکو  جو میرے  حکم  کے برخلاف  تھیں مانا اِسلئے تمکو بہشت کے لایق نہ جانکے  جہنم مین ڈالیگا جسکا نام ہمیشہ کی موت ہے ور وہاں ہمیشہ دکھ اور تکلیف  ہیں رہو گے اب اے ہمارے پیارے بھائیو  ہم تمہاری منّت  کرتے ہیں کہ جلدی آؤ اور آبحیات  پیو  اور خداوند  مسیح کو سچےّ دل  سے قبول  کرو جیسا کہ خداوند مسیح نے یوحنا ۶ باب ۳۵ آیت میں فرمایا ہے کہ زندگی کی روٹی  میں ہوں جو مجھ  پاس آتا ہے ہر گز بھوکھا نہ ہوگا اور جو مجھ  پر ایمان لاتا ہے کبھی پیاسا نہ ہوگا اب اے بھائیو اِس بات پر غور کر کے خواب غفلت  سے جاگو  ابھی خدا کی رحمت  کا دروازہ کھلا ہے اور اگر اب تم  اُسکی رحمت کو ٹالدوگے تو آخر کو تمہارے اوپر  غضب نازل ہوگا پس اے پیارو تم اپنی جان بچانے کے لئے جلدی کرو اور خداوند مسیح کے شاگرد ہو جاؤ تاکہ اُسکے پاک خون کے زریعہ سے نہیں ہمیشہ کی زندگی حاصل ہو۔ فقط۔

الراقم ۔ غلام جیلانی عیسائی طالب العلم مدرسہ  علم الہیٰ مہارنپور 

مسیحی مذہب کی خوبیاں

جمیل سنگھ

(۱۸۴۳–۱۹۲7)

The Qualities of Christianity

Published in Nur-i-Afshan June 18, 1885
By Jameel Singh
(1843–1927)

 دنیا میں سیکڑوں مذہب اور اُن کے ہزارہا فرقے موجود ہیں اور ہر ایک مذہب اور فرقے کا کوئی نہ کوئی بانی مبانی ہے اور اُسکی حسب مرضی وہ مذہب ٹھہرایا  ہوا معلوم ہوتا ہے۔ مذہب  صرف ایک ہی ہونا چاہئے  اور وہ خدا  کی طرف سے اور اُسکی مرضی  کے مطابق ٹھہرایا ہوا ہونا چاہئے۔ کیونکہ اتنے مذہب  اور فرقونکا جو ایک دوسرے  سے بالکل  خلاف ہیں یہاں تک کہ ایک دوسرے کو رد کرتا ہے خدا کی طرف سے  ہونا کسی  طرح ثابت نہیں ہو سکتا۔ یہہ ہر گز نہیں ہو سکتا کہ خدا ایک حکم کا امر فرماوے اور پھر اُسکی نفی کرے اس سے خدا کا حکم ناکامل  سمجھا جاویگا حالانکہ  سب اسبات پر متفق  ہیں کہ خدا کے تمام احکام  کامل اور صادق  ہیں اور کبھی بدلتے نہیں۔

اب اس میں یہہ مشکل درپیش ہو ئی کہ ہر ایک مذہب کو آزمانا پڑا ور  اگر نہ آزمایا جاوے  تو شائد جھوٹھے ہی کو سچ جانکر مانا ہو اور آخر کو زلیل ہونا پڑے  اور الہیٰ کچھری میں روسیاہ ہو کر عذاب الہیٰ کے نیچے آنا پڑے۔ اس لئے  ہر ایک فرد بشر واجب و لازم ہوا کہ مذہب کو سمجھ بوجھ  کے اختیار کرے اوراسکے آزمانے کے لئے کمال درجے کی ہوشیاری کام میں لاوے۔

خداوند یسوع مسیح شافی حقیقی  اور پیشواے  صادق نے یہہ ایک کسوٹی بتلائی ہے جس سے یہہ مذہبوں  کے پیشوا پر کہے جاتے ہیں  جو متی کی انجیل کے ۷ ۔ باب کی ۱۵ سے ۲۱۔ آیت تک لکھی ہے۔  جُھوٹے نبیوں سے خبردار رہو جو تُمہارے پاس بھیڑوں کے بھیس میں آتے ہیں مگر باطِن میں پھاڑنے والے بھیڑئے ہیں۔  اُن کے پَھلوں سے تُم اُن کوپہچان لو گے۔ کیا جھاڑِیوں سے انگُور یا اُونٹ کٹاروں سے انجِیر توڑتے ہیں؟۔  اِسی طرح ہر ایک اچّھا درخت اچّھا پَھل لاتا ہے اوربُرا درخت بُرا پَھل لاتا ہے۔ اچّھا درخت بُرا پَھل نہیں لا سکتا نہ بُرا درخت اچّھاپَھل لا سکتا ہے۔  جو درخت اچّھا پَھل نہیں لاتا وہ کاٹا اور آگ میں ڈالاجاتا ہے۔  پس اُن کے پَھلوں سے تُم اُن کوپہچان لو گے۔ مَیں تُمہیں نہیں جانتا۔

اگر کوئی حق مذہب کا متلاشی ہو اُسکو حق مذہب کے معلوم کرنے کے لئے اس سے بہتر اور کو ئی کسوٹی  نہیں ملے گی۔ اے متلاشیو میں آپ لوگوں کی خدمت میں نہایت عجز و انکساری سے منت کرتا ہوں کہ آپ لوگ اس کسوٹی کو عقل پر  لگا کے پرکھو اور دیکھو کہ ٹھیک  ہے کہ نہیں ۔  اگر  ٹھیک ہے تو اُسی کسوٹی سے اپنے مذہب کو جس پر تم اب قائم ہو  آزماؤ۔ اور اگر اس  سے  وہ ٹھیک  نکلے تب تو اسکو پکڑے رکھو اگر  ٹھیک  نہیں تو  اس پر اور مذہبوں کو آزماؤ اور جو اُس  پر پورا نکلے اُسکو ختیار کرو۔

کمترین  نے کواب ایک مسیحی مناد ہے اس مندرجہ بالا  کسوٹی  پر اس مذہب کو آزمایا ہے اور اسکو پورا پایا ہے اور طمتس  ہوں کہ آپ بھی اِسے آزماؤ اور اس حق  مذہب پر آکے نجات ابدی کے خواہاں ہو جاؤ۔

اور اس لئے میں اب  مسیحی  مذہب کی چند خوبیاں یعنے اُسکے پھل آپکے  پیشکش کر کے امیدوار ہوں کہ آپ لوگ اپنیہ عنان توجہ مسیحی  مذہب کی طرف پھرا کے اُسکی خوبیوں سے مستفیض  ہوگے۔

کیوں نہ ہو کہ جو کام  خود خدا کی طرف سے ہو اور اُسکا انتظام بھی اپسکی طرف سے کیا جاوے وہ ضرور فائدہ  بخش عام ہو گا نہ صرف ایک قوم کے واسطے بلکہ  سب قوموں  کے واسطے مفید ہو گا ۔ اور اِسی طرح اگر خدا اپنا کو ئی حکم  کسی نبی کے زریعہ  فرماوے وہ نہ صرف  موجودہ انسانوں کے واسطے ہی ہو گا بلکہ آنیوالی  پشتوں کے واسطے بھی لازم  و واجب ہو گا اور سب کے واسطے یکساں فائدہ بخش ہو گا۔

خداوند یسوع مسیح نہ صرف ایک قوم کا پیشوا ہے بلکہ تمام قومونکا۔ اُسکی پیروی سے نہ صرف ایک قوم کو فائدہ پہنچا ہے بلکہ تمام قوموں کو جنہوں نے اُسے  قبول کیا ہے فائدہ کثیر  پہنچا ہے۔

یہہ بات اظہر  من الشمس  ہے کہ جہاں جس ملک یا جس قوم یا جس حکومت یس جس خاندان  یا جس انسان میں مسیحی مذہب کا دخل  ہوا اُسمیں اسکی ایسی تاثیر ہوئی کہ ملک یا قوم یا حکومت  یا خاندان یا انسان  ایک جنتنشان ہو گیا  ہے۔ ملک میں امن ہو گیا  قوم  میں ملاپ  حکومت میں انصاف خاندان میں پاکیزگی اور انسان میں خدا ترسی اور پرہیز گاری ہو گئی۔ یسعیاہ نبی کی معرفت جو کہا گیا تھا سو اُسپر  صادق آتا ہے  زبولون کی سر زمیں اور نفتالی کی سر زمیں یعنے غیر قومونکا جلیل جودریا کی راہ یردن کے پار ہے ان لوگوں نے جو اندھیرے میں بیٹھے تھے  بڑی روشنی  دیکھی  اور اُنپر جو موت کے ملک  اور سایہ  میں بیٹھے  تھے نور چمکا ۔ متی ۴۔ باب ۱۵۔ آیت  سے ۱۷۔ تک۔

یہہ جلیل وہ ملک ہے جہاں خداوند  یسوع  مسیح اپسکے ایک شہر میں جسکا نام ناصرت  تھا اور ادائل عمر میں جا کر رہا تھا اور ناصری کہلاتا تھا۔  اور پھر بھی  اکثر وہاں  جایا کرتا تھا اور بہت لوگ اُسپر ایمان لائے تھے جس طرح پر اُس ملک میں خداوند  یسوع مسیح  پہنچا تھا اور اُن لوگوں پر  جو موت کے ملک اور سایہ  میں بیٹھے تھے نور چمکا تھا اسی طرح اور ملکوں  میں بھی ہوا جہاں جہاں اُسکا  کلام پہنچا  وہاں دہی  تاچیر ہوئی  کہ موت کی حالت  اُن پر سے  اُٹھ گئی  اور وہ زندہ مخلوق بن گئے۔

یہہ کلام انگلستان  میں پہنچا وہاں بھی  یہی  تاثیر  ہوئی  کہ اُس  ملک کی بے دینی  اور بُت پرستی دور ہو گئی۔ اور جہاں موت کا سایہ تھا کہ زندہ آدمی کو بت کے سامنھے  جلا دیا کرتے تھے وہاں  ایسا نور چمکا کہ یہہ  سب باتیں  بالکل چھوڑ دیں اور اب وہ ملک کیسا ہے۔  بتُ پرستی کا تو وہاں  نام و نشان نہیں  اسکے بر عکس وہ ملک ہر طرح کی عقل و علم  سے بھر پور  نظر آتا ہے۔ اور سچے خدا کی پر ستش  کرنیوالا کہلاتا  اور ہندوستان کو  ہیدن ورلڈ  یعنے  بت پرستی کی مملکت کہتا ہے۔

یہہ کلام امریکا مین پہنچا وہاں بھی اُس سے کچھ کم فائدہ  نہیں  ہوا وہاں کے غلام  آزاو کئے گئے اور سچے مذہب کے قبول کرنے سے ہر طرح کی ترقی اُن  لوگوں  میں  ہوئی جو کل دنیا کو معلوم  ہے کہ اُنکے زہن میں یہانتک رسائی  پیدا ہوئی  کہ آج دنیا میں علم و ہنر میں اپنا نظیر نہیں رکھتے۔

یہہ کلام ہندوستان  میں بھی یورپ اور امریکا  کے خدا پر ست اور  دیندار بندونکی  معرفت آپہنچا۔  جو در حقیقت  یسعیاہ نبی کی معر فت  موت کا ملک تھا جس مین صدہا جانیں ناحق  موت کےمنُہہ میں جاتی تھیں۔ سینکڑوں  آدمی  تیرتھوں میں جاکے  گاڑیوں اور رتھوں کے نیچے گر کے خود کشی کرتے تھے  ہزاروں دیوتوں کے آگے  چڑہائے جاتے تھے۔ سیکڑوں شیر خوار  لڑکیئیں  پیدا  ہوتے  ہی گلا نپت کے ماری جاتی تھیں  صدہا عورتیں ستی ہو جاتی تھیں ان سب  باتوں سے ہندوستان موت کا ملک  نہیں  تو اور کیا تھا یہہ سب باتیں  مسیحی مذہب  کی تعلیم  ہی سے دور کی گئیں۔

مسیحی مذہب میں نہ صرف یہہ ہی خوبی  ہے کہ خدا کا سچا  راستہ بتاتا ہے بلکہ دنیاوی نعمتیں  علم  و ہنر اور کام میں دیانتداری اور سچائی جو نہایت ضرور  ہیں  اپنے ساتھ  لاتا ہے۔ یہہ نہ صرف  موت کو اٹھاتا ہے ۔ بلکہ نور چمکاتا ہے۔

اندھیرا ترک نہیں ہوتا  اور اُسکو جنبش  نہیں ہوئی جب تک کہ روشنی اُسپر نہ چمکے  اسی طرح  ہردے اور گناہ کے کام تب فروغ پاتے ہیں جب تک کہ اُنکو پُرا  اور جھوٹھا ثابت  کرنیوالا نہ ہو  اور اُسکو دور کرنے کی کوشش نہ کرے۔ جھوٹھے مذہب  بھی تب ہی تلک رونق پر رہینگے جب تک کہ سچے سے مقابلہ  نہ کئے جاویں۔

جب سے کہ مسیحی مذہب کی روشنی  چمکی تب ہی سے ہم دیکھتے  ہیں کہ  ہر ایک دیگر  مذہبوں کو  بڑی جنبش ہوئی  ہے جو ایسی کہ پیشتر  کبھی نہ ہوئی تھی۔

صدہا بر س کے عرصے  سے محمدی  مذہب جیوں کا تیوں ہی چلا آیا تھا اور اِیسی رسمیں  محمدی مانتے چلے آتے تھے جنکی بابت کو ئی اُنکا مانع  نہ ہوا تھا مثلاً مرُدوں کو ختم  دور و دولانا اور ضیافتیں  کھلانی اس امید پر کہ اُنکی  رحوں کو پہنچ جاوے اور قبروں کی پر ستش  بھی قدیم سے چلی آتی  تھی اور بہت سی  رسومات جو بالکل عیب میں داخل  ہیں صدیوں سے چلی آتی تھی  پر عیسائی مذہب نے ایسی  روشنی  چمکائی کہ اُنکو  بالکل کفر اور باطل کر دکھلایا  اور نیز محمدی  مذہب  کو  بیخ دین سے ہلا دیا اور اب  ان ہی دنوں  میں صاحب علم اورمحمدی مذہب کے عالموں کی طرف سے ایک  اور مذہب بنام  نیچری مشہور ہوا  بلکہ کئی ایک اور بھی فرقے جاری ہو گئے  ہیں کیا یہہ سب  جمبشیں  مسیحی  مذہب کے سبب سے نہیں ہو ئیں پھر صدہا بر س سے برہمن  لوگوں کی باتیں لوگ مانتے چلے آئے  اور اُنکو بڑے بزرگ اور  معزز مانتے تھے۔ یہانتک  کہ اپن کے پاؤں کی خاک دھو دھو کے پیتے تھےت پر عیسائی مذہب نے ثابت کر دیا کہ کل انسان یکساں گنہگار ہیں اور کو ئی آدمی دوسرے سے بہتر نہیں۔ اور سب ایک  ہی  آدمی  کی اولاد ہیں۔  تب سے  سے برہمنوں کی  مانتا کم ہو گئی اور اب  صرف بے علمی ہی  اُنکی کچھ  بات  بنیں پر صاحب  علم  و عقل تو اُنکو  اپنے سے  کچھ بہتر نہیں سمجھتے  بلکہ یہانتک  برہمنون کی تعظیم جاتی رہی کہ  جو آگے بغیر  محنت  اور مشقت کے بیٹھے  بٹھائے کھاتے تھے۔  اب زمینداری  اور دکانداری اور اَور کام کاج کرتے  اوروں  کی مانند اپنی روزی  حاصل کرتے ہیں۔

صدہا بر س سے ہندو مذہب  بے جمبش چلا آیا تھا پر اب اسمیں ایسی ہل چل مچ گئی ہے کہ تھوڑے  ہی عرصے میں دو اور نئے فرقے یعنے برہمو سماج اور آریا  سماج  کے نکلے ہیں جنہوں نے اپنے نئے اصولوں سے دکھایا کہ  ہندو مذہب  بہت  بھولا ہوا اور بگڑا ہوا  بن گیا تھا اور دھوکھے میں  پڑ کے ایک  نیا مذہب برہمنوں کی بھول اور شرارت  سے بن گیا تھا اور اپنے نئے مذہب کے اصولوں کو بیان کر کے  دعویٰ کیا کہ یہہ مذہب  سچا ہے۔

واضح ہو کہ مسیحی مذہب کی روشنی کے پیشتر کبھی ایسا خیال کسی کو نہ ہوا تھا  مسیحی روشنی نے  اندھیرے کے کاموں  کو ظاہر کر کے دکھلا دیا مگر افسوس صدا افسوس کہ اندھیرے نے اُجالے کو پسند نہ کیا جیسا یوحنا  کے  ۱۔ باب کی ۵ ۔ آیت  میں  لکھا ہے کہ  اور نُور تارِیکی میں چمکتا ہے اور تارِیکی نے اُسے قبُول نہ کِیا۔ اے پڑھنے  والے یہہ تو مسیحی مذہب کی بیرونی خوبیاں ہیں  جواُسکی  اندرونی خوبیوں  کے نتیجے  ہیں۔ اب میں چند اندرونی خوبیوں کا بیان کرتا ہوں۔

یہہ اندرونی خوبیاں خود خداوند یسوع مسیح اور اِسکی  تعلیم سے نکلتی ہیں۔ اول خداوند یسوع مسیح ہی میں خوبیاں ہیں۔ جو خداوند یسوع مسیح کا بدن تھا اُسمین سب سے بڑی یہہ خوبی تھی کہ تمام  بنی آدم کے وجود میں نسلی  گناہ چلا آتا ہے مگر وہ وجود اِس  گناہ سے پاک تھا۔ اور اُسمیں  قدرت الہیٰ تھی  اور یہہ  بڑی خوبی ہے کہ اُس وجود  سے کو ئی فعلی گناہ  نہ ہوا اور نہ کو ئی قولی گناہ ہوا  بلکہ قول  اور فعل سے ایسے  کام سر زد ہو ئے  جو  خوبیوں سے بھر پور ہیں  اُسنے ایسی باتیں فرمائیں جو انسان  کے بچنے اور ابدی آرام میں داخل  ہو نیکی  خبریں تھیں۔ اور اُسکے ایسے کام تھے جو آدمیوں کی ہر ایک مرضی اور دکھ کاٹنے اور بھوکھ پیاس  کاٹنے اور آرام کے تھے۔ اور  آخر اُسی  بی وجود سے وہ بھاری  کام انسان کی نجات  کا پورا کیا  جو اُسکے آسمان سے آنیکی  علت نمائی تھا۔

پھر اُسکی تعلیم کی خوبیاں یہہ ہیں کہ اُنسے خدا کی زات پاک پورے بھید  بتا لگایا  جو کسی کو معلوم نہ ہو سکتا تھا جس طرح کہ لکھا ہے کہ باپ کو کسی نے نہ جانا  اکلوتا بیٹا  جو باپ کی گود میں ہے اُسی نے بتا دیا۔ اور جو تعلیم اور نصیحت دی اسکی غرض گنہگار کو دوزخ سے بچانے اور ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنانے کے بارے میں تھی۔

اور سب سے بڑی خوبی یہہ بھی تھی کہ اُس نے گنہگار وں کے بچانے کا کام پورا کر کے اُنکے واسطے اپنے آپ کو اُس وجود میں ہو کے ایک عمدہ نمونہ بنایا کہ جس طرز پر چلکے گنہگار بدی اور بُرائی  سے بچا رہے اور اس دنیا میں رہکے اُس عالم  جاودانی میں رہنے کے لائیق بنتا جاوے کیا یہہ پھل عیسائی مذہب کی صداقت کے گواہ نہیں ہیں اور کیا کسی اور مذہب  میں پائے جاتے ہیں۔

پس اے ناظرین جو ابھی تک اُس  سر چشمہ خوبیونکے پا س نہیں آیا اور نہ تو  نے کسوٹی لگا کر اپنے مذہب  کو آزمایا ہے آج ہی اپنے مذہب کو آزما اور بہتر کو اختیار  کرتا  کہ تو عدالت کے دن آسمانی خوبیوں سے محروم نہ رہے اور آخر کو شرمندہ  نہ ہووے۔ خداوند یسوع مسیح کہتا ہے کہ مجھ پر ایمان لاتا ہے شرمندہ نہ ہوگا۔ آزما  اور دیکھ  ۔ اگر تو اس ایمان پر  کھڑا ہووے تو ان سب خوبیوں میں تیری شراکت ہو گی  اور تو ابدی آرام اور ہمیشہ کی زندگی  مفت پاویگا۔

الراقم۔۔۔ کمترین جمیل سنگھ

مسیحی مذہب کی بابت  ایک عالم  کے خیالات

جمیل سنگھ

(۱۸۴۳–۱۹۲7)

A Scholar’s view of Christianity

Published in Nur-i-Afshan August 20, 1885
By Jameel Singh
(1843–1927)

بزرگ میتھو ہنری صاحب  فرماتے ہیں کہ بڑے بڑے  عُلما  متقد میں نے مثلاً  شنللنگ فلیٹ۔ ڈاکٹر  و شببے ۔ اور مسٹر وشتن  صاحبان  نے اپنی تصنیفات  میں مسیحی  مذہب کی صداقت کے بارے میں قوی دلیلیں  پیش کی ہیں۔  اور پھر فرماتے ہیں کہ اگر میرے خیالات کسی کو فائدہ  پہنچا سکیں  تو میں  تہہ دلی  سے کہتا ہو ں کہ میں نے اس مذہب  کے  باب مین اپنے خیالوں کو حتی المقدور  جہاں تک میری رسائی ہوئی دوڑایا ہے اور اسکا یہہ نتیجہ ہوا کہ جہاں تک میں نے اُسکو سوچا مجھے اس  إزہب کی پختہ  صداقت معلوم ہونے لگی۔  اور مندرجہ  زیل خیالات  میرے  دلمیں اپسکی بابت ہوئے۔

پہلا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ خدا جسنے اپنی قدرت کاملہ سے انسان  کو ایک  سوچ فکر اور عقل والا مخلوق بنایا ہے وہ اپنا حق  انسان پر رکھتا ہے کہ انسان اُسکے احکاموں  کو بجا لاوے۔ اور اپنی خواہشوں اور روشوں  اور کلام  و گفتار میں اپنی عقل اور تمیز کی عالی طاقت  کے تابع  رہے۔ اور جب میں اپنے دلکی  بابت خیال کرتا ہوں مجھے معلوم ہوتا ہے کہ یہہ عجیب بناوٹ  خاص خالق  کی سکونت گاہ بنائی گئی تھی۔  جسمیں سرف اُسی کی فرمانبرداری  ہونی چاہئے تھی۔

دوسرا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ خدا کی مہربانی پر میری خوشی اور شادمانی منحصر ہے اُسی اندازے  پر جسمین کہ میں اُسکے حکموں پر عمل کروں جو اُسکی طرف سے مجھپر  فرض ہیں۔ اور مین اپنکا جواب دہ ہوں نہ صرف اس دنیا میں بلکہ دنیا آیندہ میں بھی۔

تیسرا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ میری خاصیت  اُس آدم  سے بہت مختلف  ہے جو پہلے خالق  کے ہاتھ سے بنا تھا کیونکہ اِس سے اصلی صداقت اور پاکیزگی جاتی رہی مجھ میں ایک ایسی  خاصیت  ہے جو مجھکو میرے فرائیض  سے روگرداں  کرتی ہے اور روحانی  اور آسمانی  باتوں سے بر گشتہ  کرتی  ہے۔ اور بدی کا میلان دلاتی ہے۔ اور دنیا اور جسمانی باتوں  کی طرف ایسا رجوع کرتی ہے کہ بعض وقت قریب  ہوتا ہے کہ میں زندہ خدا سے پھر جاؤں ۔

چوتھا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ اس  گناہ کی خاصیت کے سبب میں خدا کی مہر بانی سے گر گیا ہوں اور اگرچہ میں خیال کرتا ہوں کہ خدا رحیم  اور مہربان ہے پر یہہ خیال بھی میرے دل میں آتا ہے کہ  وہ منصف اور عادل بھی ہے اور گنہگار ہونیکے باعث  میں اُسکی پاک درگاہ میں جانیکے ناقابل ہو گیا ہوں  اور اُسکے  جلال کے بالکل  ناقابل بن گیا ہوں۔

پانچواں ۔ اور میں خیال کرتا ہوں  کہ  خدا کی مرضی کے خاص اظہار کے بغیر میں اُسکی مہربانی کو پھر حاصل نہیں کر سکتا اور  نہ میں پہلی حالت میں بحالی ہو کر خدا کے ساتھ ملاپ کر سکتا ہون اور نہ اپنے خالق  کی خدمت  کے لائق ٹھہر سکتا ہوں اور نہ میں اپنے پیدا ہونے کی غرض  کو پورا کر سکتا اور نہ آئندہ دنیا کے لائق ہو سکتا ہوں ۔

چھٹا۔ مین خیال کرتا ہوں کہ گناہ اور اُسکی سزا سے  بچنے اور نجات پانے کا عمدہ طریقہ یسوع مسیح سے ظاہر ہوا جو اُسکے خدا اور آدمیونکے درمیان  درمیانی ہونیکے سبب سے نئے  و سیقے مین مندرج ہے۔ اور میرا یقین ہے کہ یہہ طریقہ میری تمام بُرائیاں اور کمتیاں پوری کرنیکے قابل ہے کہ مجکو خدا کی مہر بانی میں پھر بحال  کرے اور ابدی خوشی کا مستحق بنادوے  کیونکہ مجھکو اسمیں گناہ کے دور کرنیکا عمدہ وسیلہ معلوم ہوتا ہے کہ میں شروع کے فتویٰ سے موت میں نہ  پڑوں،جو خدا کے بیٹے کی بڑے اور کمال درجے کی راستبازی سے مقرر ہو اور یہہ گناہ کی طاقت  کو توڑنیکا عمدہ وسیلہ  ہے (کہ میں گناہ  کی بیماری  میں ہلاک نہ ہوں) جو روح القدس کے زور موثر سے جاری ہوا۔ اسمیں ہر ایک گناہ کاچارہ ہو گیا ہر ایک رنج وغم خوشی سے مبدّل  ہو گیا اور اِس صورت سے ہوا جسمیں خالق کی بڑی دانائی اور تجّلی ظاہر ہوئی اور جو انسان جیسے مخلوق  کے لئے زیبا ہے۔

ساتواں۔ میں خیال کرتا  ہوں  کہ مسیحی مذہب (نیجرل  رلیجس) مذہب  طبعی کے خلاف نہیں  ہے بلکہ  پچھلا پہلےکی پختگی ظاہر کرتا ہے۔ کیونکہ تمام صداقتیں  جو نیچر  میں مجھکو ملتی ہیں  انجیل سے زیادہ واضح  طور پر ظاہر ہوتی ہیں۔  اور اِس چیز کا جسکا  نیچر  مجھکو  دھندھلا سا پتا دیتی ہے انجیل مقدس  اُسکا  پورا پتا لگاتی ہے تمام نیک کام جو فرض ہیں اور لازآف  نیچر سے مجھے  ملتے ہیں انجیل  میں عمدہ طور پر زیادہ سریح  کر کے موجود  اور انکا ماننا مجھے نہایت ضرور  معلوم ہوتا ہے۔ یہہ مجھکو  میرے فرضوں  میں مشغول ہونیکا  عمدہ  طریقہ  بناتی ہے اور  اُنمیں  مجھے زیادہ دلیری اور مدد دیتی ہے۔ اور  اول امور میں  جنمیں نیچر مجھکو بلکل ادھر میں چھوڑ دیتی ہے اور ساقط ہو جاتی ہے انجیل مجھکو آگے پوری منزل تک پہنچا کے میری  پوری تسلیّ کرتی ہے۔ خاص کر خدا  کا گناہ کے بارے مین انصاف سے راضی ہونا اور انصاف کا پورا  ہونا۔ میرا ضمیر مجھ سے سوال کرتا ہے کہ میں کسطرح خدا کے حضور  پہنچوں اور کسطرح اُس عالی شان خدا کو خوش  کروں۔ کیا وہ ہزارہا  مینڈھوں کی قربان سے خوش  ہو گا۔ لیکن میرے ضمیر  کو اُسکا  پورا جواب نہین ملتا۔ پر اس موقعہ پر انجیل مقّدس  نے مجھے پوری تسلیّ  دی کہ یسوع  مسیح  نے اپنے آپ کو قربان ہونیکے لئے گزران دیا ہے اور خدا نے بھی  اظہار کیا ہے کہ میں خوش ہوں۔

آٹھواں۔  میں خیال کرتا ہوں  کہ وہ ثبوت  جو خدا  نے انجیل کی سچائی  کے ثابت  کرنے کے لئے رکھے ہیں بہت ٹھیک ہیں  جو اسکا ثبوت بدرجہ  ادلیٰ  کرتے ہیں۔ مثلاً کہ شفیع  کی طاقت  اور آفت فضل کی بادشاہت  میں دنیا میں  اسطرح  ظاہر ہوئی کہ نیچر کی حکومت کے موافق اُسکی حکومت ہوئی نہ کہ دنیا کے عالیشان اور بڑے بڑے بادشاہوں کے  دبدبے اور شان شوکت  کے ساتھ  ہے جیسا  کہ یہودیوں نے خیال کیا تھا اور  یسوع مسیح سے ٹھوکر کھائی۔ لیکن  اُسکی بادشاہت آسمانی  اور راحانی تھی۔ اور اسطرحپر اُسکے معجزے جو آدمیوں پر ظاہر ہوئے  جب یسوع مسیح  دنیا پر نہ صرف  لوگوں کے جسمانی مرضوں کے رفع کرنے میں تھے بلکہ اُنکے دلسے تعلق تھے جیسے اُنکے دلوں پر اثر ہوتا تھا جو روح القدس کی تاثیر سے ہوا۔ آگ کی زبانوں کے بخشے  جانے اور اَور روحانی نعمتوں کے بخشنے مین یہہ انجیل کے لئے بڑے ثبوت ہیں  جنسے  بڑی غرض انسان پاک اور صاف بنانا مدنظر تھا۔

نوواں ۔ میں اُس طریقہ کو خیال کرتا ہون جسمیں انجیل عجیب طور پر پھیل  گئی اور اُس عجیب کامیابی کا خیال  کرتا  ہون جو بالکل روحانی  اور آسمانی ہے۔ اور دنیاوی فائدے اور مدد سے بالکل  بے پہرہ ہے۔  اس سے صرف  ظاہر ہوتا ہے کہ یہہ خدا کی طرف سے ہے۔ اور خدا اور حقیقت  اسکے ساتھ ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو اتنی مخالفت  میں کسطرح ہو سکتا تھا کہ یہہ مذہب اسطرح  پر پھیل  جاتا۔ اور آج تک اسکا دنیا میں بے جنمبش  چلا آتا باوجودے اتنی بڑی روکاوٹوں کے میرے خیال میں ایک  ظاہر ا اور کافی  ثبوت ہے۔ اور آخر کار میرا یہہ  خیال  ہے کہ  مسیح  کی انجیل کی میرے دلپر ایسی تاثیر ہوئی ہے اور مجھ  پر ایسا غلبہ ہوا اور مجھکو اس  سے ایسی تسلّی ہوئی ہے کہ یہہ میرے لئے ایک پوری دلیل  ہے کہ یہہ سچا  طریقہ  ہے چاہے کسی دوسرے کے واسطے نہ ہو۔ میں نے اسمیں اسباتکا ثبوت  پایا ہے کہ خدا رحیم ہے۔ اور جسطرح کو ئی  بڑا ہوشیار فریب دہندہ  اُس شخص کو جس نے ایک دفعہ  شہد چکھا ہو یقین نہین دلا سکتا کہ چہد میٹھا نہیں  اسیطرح مجھے جس نے مسیحی  مذہب کا مزہ چکھا ہے کسیطرح یقین نہیں کروا سکتا  کہ مسیحی مذہب  سچا  نہیں۔

مندرجہ  بالا بیان سے جو بڑے زور کے ساتھ ایک عالم سے تحریر ہو اہم صرف  دو باتیں  نکال  سکتے ہیں۔ اول کہ اُس نے مسیحی  مذہب کی تحقیق  صدق دلی سے کر کے اُسکو راست پایا اور قبول کیا۔

دویم کہ اُسکی تاثیر اُسکے  دلپر ہوئی جسکا جوش  اُسکے  دلمیں پایا جاتا ہے۔

کاش کہ مخالف  مذہب عیسوی زرہ غور سے پڑھکر  ان باتونپر سوچیں  اور اپنے مذہب کو اس سچے  مذہب  کے ساتھ  مقابلہ کریں تب امید  ہے کہ اگر صدق دلسے یہہ کام انجام پاوے گا تو یہہ نتیجہ ہو گا کہ معترض اس حق مذہب کو اختیار کریگا۔ اور نجات پاویگا۔

راقم ۔ بندہ جمیل سنگھ

بائبل  الہامی کتاب ہے

Inspiration of the Bible

Published in Nur-i-Afshan February 07, 1889

’’ بائبل اور وید‘‘ کے عنوان سے ایڈٹیر  دھرم  جیون  صاحب نے ایک مختصر سا آرٹیکل لکھا ہے۔ جسمیں یہہ ظاہر کیا ہےکہ ’’ بیبل  کی چھیاسٹھ  کتابیں  مختلف  اشخاص  کے ہاتھ سے مختلف زمانہ  میں لکھی گئیں۔ اور انکی تحریر کا  عرصہ  پندرہ سو برس کا تھا۔ وید اور گرنتھ  کا بھی یہی حال  ہے۔ آگے چلکر لکھتے ہیں  کہ ’’ یہی وجہ ہے کہ اُنمیں سے ہر  ایک کے اندر جو جو باتیں  درج ہیں۔ اُنمیں  اکثر  آپسمیں  بڑا اختلاف ہے۔ او ر اُنکی  تحریر میں ایسی  باتیں کثرت سے ملتی  ہیں۔ کہ  جو ایک دوسرے  کی تردید کرتی ہیں۔ مگر افسوس جو لوگ اُنمیں  خدا کا کلام  مانکر قبول کرتے ہیں ۔ وہ اپنے عقیدہ کے قائم رکھنے کی غرض  سے انکی ترویدوں اور لغویات کو اپنے پہلے ہم عقیدہ  شخصوں  یا اپنی تودیلوں کے زریعہ ٹھیک  بنانیکی کو شش کرتے ہیں۔‘‘ ۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔

ہمیں گرنتھ  اور وید  سے کیا غرض  ہے۔ ہمارا  مدعا صرف بائبل کی  صداقت کا اظہار  ہے۔ اور ایسےخود مختار اور فرضی  لمہوں کی تحریر  و تقریر  کو صداقت  سے جانچنا  غرض ہے۔ بائبل پر کچھ نیا نہیں وہی پرُانا  مردہ  اُکھیڑا ہے۔  اگر کوئی  عام آدمی یہہ اعتراض کرتا تو  چنداں  تو جہہ کی ضرورت  نہ تھی۔ مگر جسحال  کہ معترض الہام  کا مدعی  اور پیغمبر ی کا  دعویدار  ہے۔  تو مناسب ہے کہ اُسکے اس فخر  کو  توڑا جائے۔  صداقت سے بطالت  کو رد  کرنا  چاہئے ۔  نہ معلوم  کیا  سو چکر  پنڈت  صاحب  ( ایڈیٹر  دھرم جیون) نے یہہ فضول اعتراض  دھر گھسیٹا۔ اس سے ایک بات تو معلوم  ہوتی ہے کہ وہ  تاہنوز  بائبل  کے الہام  اور اُسکی حقانی  تحریر  اور مدعا  سے واقف نہیں۔

اگر چہ بائیبل  مختلف  اشخاص  کے ہاتھ سے  مختلف زمانوں  میں لکھی  گئی۔  تنبیہ یا د رہے کہ مصنف  اُسکا  صرف ایک  شخص ہے۔ اور وہ خدا ہے۔ یہہ لوگ تو کاتب تھے۔  مگر تصنیف روح القدس  کی ہے۔ چنانچہ پطرس  حواری  اپنے ایک خط  میں  تحریر  فرماتے ہیں۔ کہ ’’ خدا کے مقدس لوگ روح القدس کے  بلوائے بولتے تھے۔ ‘‘ اس بنا پر وہ تمام تحریر بے نقص اور خطا سے میرا  ہے۔ اور اآپکا اعتراض  فضول ۔ کیونکہ نہ تو  انمیں  کو کو ئی نقص  ہے۔ اور نہ ایک دوسرے کی تروید کرتے ہیں۔ خیر اسکا جواب تو ہم  آپکو بعد میں دینگے۔ اول  نوشتجات  بائبل  کے الہامی  ہونیکو ثابت  کر لیں۔ آپ  گھبرا کر جلدی نہ کریں ۔ آپ ہماری تمام تحریر کو ختم  ہو لینے دیں۔  ایسا نہ کریں۔ جیسا دوستانہ  گفتگو  کے معاملہ  میں کیا  تھا۔ کہ ہماری تحریر ختم ہونے بھی نہ پائی  کہ آپ  دخل  درمعقولات کے مصداق ہوئے۔ آپ اور تمام  ناظرین  زرا  صبر اور تحمل اور غور سے اسکو  پڑھیں  بعدہ اپنی رائے کے اظہار کے مختار ہیں۔

تو چل تو سن  خاسۂ وہ زباں
کہ ہو ویگا الہام حق بیاں

الہام کی تعریف 

اولاً  الہام  کی تعریف  نو شتوں سے معلوم کر سکتے ہیں۔ یعنے اُنکی نصیحت  آمیز  بیانوں  اور ظہور  عجب  ہے۔ کئی  ایک عام  اصول ہیں ۔ جو بیبل میں پوشیدہ  ہو رہے  ہیں۔ لیکن اُنکی ساری تعلیموں میں اختیار  کئے جاتے ہیں ۔ اور اسلئے اُسکے  ترجمہ  اور تعبیر میں بھی اختیار کرنی  چاہئے۔  مثلاً

اولؔ خدا سب  چیزونکا  تعلم  سبب نہیں ہے۔  اور نہ بے جنم قوت ہے۔ نہ  جملہ جہان  کے انتظام  اخلاقیہ  کا محص  ایک نام ہے اور نہ کوئی  سبب اتفاقی  ہیں۔ لیکن روح ہے اور عالم  اور فہم اور اختیار ی فاعل ہے۔  اور ہماری روحونکی  کل صعنت  غیر متناہی طور پر اُسمیں موجود ہیں۔

دومؔ کہ وہ دنیا  کا خالق اور دنیا سے جدا ہے۔ اُس سے پیشتر موجود  اور اُس سے آزاد ہے۔ پر نہ وہ دنیا کی روح ہے اور نہ زندگی۔ لیکن  اُسکا خالق و مالک و محافظ ہے۔ اور نیز حاکم ہے۔

سومؔ کہ روھ ہو کر وہ ہر جگہ  حاضر  ناظر اور ہر جگہ کارکن  ہے۔ اپنی سب مخلوقات کی محافظت  اور اُنکے کل کاموں پر حکموانی کرتا ہوں۔

چہارم جسحال میں وہ عالم ظاہری  و باطنی پر قانون مقرری کے مطابق اسباب  ثانی  کے زریعہ  سے عمل  و اثر کرتا ہے۔  تو وہ  آزاد ہے۔ کہ فوراً  یا بغیر  ایسے اسباب  درمیانی  کے کام کرے۔ اور اکثر  کرتا  بھی ہے۔ جیسے پیدایش  اور سرِ نو پیدا  ہونا  اور معجزات اُسکی مثال ہیں۔

پنجم یہہ کہ بائبل میں الہام یا افشا کے  فوق العادت  مندرج  ہیں۔ بالفعل سوال یہہ نہین  کہ بائبل  وہ نہیں  جو وپ ہونے کا دعوےٰ کرتی ہے۔ لیکن یہہ کہ وہ اُس  زور اور تاثیر  کے اصل  اور نتیجوں کی بابت جنکے زریعہ سے لکھی گئی۔ کیا سکھلاتی ہے۔ اُس مضمون پر کلیسیا کی تعلیم جواب ہے اور ہمیشہ سے رہی ہے یہہ ہے۔ کہ الہام بعض مخصوص آدمیوں کے دلونپر روح القدس کی تاثیر تھی۔

جس سے  وے خدا کے عضو  ہو کر اُسکی مرضی  کے صحیح اطہار کرنیکے  قابل ہوئے۔ وے اِس طرح خدا  کے عضو  تھے۔ کہ جو  کچھ  وہ کہتے تھے خدا کا قول تھا۔

الہام فوق العادت ہے

الہام کی تعریف میں کئی نکات شامل ہیں

اوّل الہام ایک  تاثیر فوق العادت ہے۔  اور ایک جہت سے یہ موجودہ  انتطام  الہیٰ یا نیچر (  فطرت) سے جدا ہے۔ جو ہر جگہ  حرکت  اور تاثیر کرتا ہے۔ اور  بحیت  دیگر روح کی فیض بخش  تاثیر دنسے  جدا ہے۔ نوشتوں اور اِنسان کے ملاحظہ عام کے رو سے یہی اُن نتیجوں  سے  جو خدا کی اثر نمائی  سے بزریعہ  اسباب ثانی کے باقاعدہ  حاصل  ہوتے ہین اور اُنمیں  جو  بیو  سیلہ بغیر  اسباب ثانی کے میانگی کے صادر ہوتے ہیں ۔ امتیاز کرنی چاہئے۔ ایک قسم کے نتائج  موافق طبعی  آئین کے ہیں۔ اوردوسرے فوق العادت۔ الہام قسم موخر کے متعلق ہیں۔

بائیبل بھی اُنمیں صحیح  تضادت  کرتی ہے۔ پس الہام اور تنویر روحانی  کو باہم مخلوط  کرنا لازم نہیں۔

اوّل اُنکے مقصد  مین باہم اختلاف  ہے۔ یعنے مفعول  میں الہام کے مفعول چند مخصوص  اشخاص ہیں۔  اور تنویر روحانی کے مفعول تمام حقیقی ایماندار ہیں۔

دویم۔ اُنکے مدعا میں فرق ہے۔ اول  کا مدعا یہی ہے۔  کہ بعض آدمیوں کو بے نقص اور تحقق  اُستاد بناوے ۔ اور دوسرے کا مدعا یہی ہے۔ کہ اِنسان  کو پاک کرے۔ اور البتہ اُنکے نتائج بھی  متفرق ہونگے۔  الہام میں تاثیر تہمید  نہ ہیں ہے مثلاً بلعام  کو الہام  ہوا۔ ساؤل نبیوں میں سے تھا۔ کمیفاس نے ایک پیشنگوئی کی  جو از خود نہ کہی تھی۔  (یوحنا  ۱۱ ، ۵۱) اُس دِن بُہتیرے مُجھ سے کہیں گے اَے خُداوند اَے خُداوند!کیا ہم نے تیرے نام سے نبُوّت نہیں کی اور تیرے نام سے بدرُوحوں کو نہیں نِکالا اور تیرے نام سے بُہت سے مُعجِزے نہیں دِکھائے؟۔اُس وقت مَیں اُن سے صاف کہہ دُوں گا کہ میری کبھی تُم سے واقفِیّت نہ تھی ۔ اَے بدکارو میرے پاس سے چلے جاو۔ متی  ۷: ۲۲۔

اِس جگہ ہمکو افسوس  سے یہہ کہنا پڑتا  ہے کہ دیو دھرلی  صاحبان  اور شخصی  الہام کے پیرو اُنمیں  تفاوت  نہیں کرتے۔ وہ ٹنویر روحانی  اور الہام کو یکجہتی سمجھتے ہیں۔  یہہ اُنکی بڑی بھاری  غلطی ہے۔ 

نقاوت  درمیان وحی و الہام

ثانیاً  تعریف مزکورہ بالاجی اور الھام کی تضاوت کو شام کرتی ہے۔ اوّل اُنکے مقصد  میں فرق ہے ۔ افشأ عرفان  وحی کا مقصد  ہے اور تعلیم دینے میں محافظت و بر قراری صحت مدعائے الہام ہے۔

دویم اُنکے نتایج مین فرق ہے۔ وحی کا نتیجہ  یہہ تھا۔ کہ پانیوالے  کو زی  علم  نباوے۔ اور الہام کا نتیجہ یہہ تھا کہ تعلیم دینے میں اُسے غلطی  سے مھفوظ رکھے۔ ایک ہی شخص ایک ہی وقت  میں اِن دونوں نعمتوں کا  تصرف کرتا ہے۔ یعنے روح اکثر عرفان بھی بخشتی  اور اُس کے زبانی یا تحریری  اظہار پر  ضبط  و ربط رکھتی تھی۔  مصنف مزامیر وا نبیاء اور رسل کے ساتھ بیشک ایسا ہی ہوا۔  پھر ایک وقت وحی پہنچایا جاتا تھا  اور بعدازآں  روح  کی ہدایت سے لکھا جاتا تھا۔ حضرت پولوس فرماتے  ہیں کہ  انجیل کا علم  اُسے اِنسان سے نہیں مگر یسوع کے وحی سے حاصل ہوا ۔ اور یہہ علم اُ نے گاہ بگاہ  وعظ اور خطوط میں بیان کیا ۔ اکثر حالات میں یہہ نعمتیں  علیحدہ کیجاتی  تھیں۔ مقدس کاتبوں میں سے اگر چہ  بہتیرونکو الہام ہوا۔ تاہم وحی حاصل نہوا۔ عہد عتیق کی کتب تواریخ کے مصنفونکا۔ غالباً یہی حال تھا  لو کا اُن واقعات کا علم جو اُسنے درج کی ہیں۔ وحی کی طرف منسوب نہیں کرتا۔  مگر یہہ کہتا ہے کہ میں نے  اُنسے پایا جو شروع  سے خود  دیکھنے والے اور کلام کے خادم  تھے۔ اعمال، لوقا، یہہ ہمارے مطلب کے لئے مفید نہیں کہ موسیٰ نے اُن  واقعات  کا علم جو کتاب پیدایش میں مندرج ہیں کہانے حاصل کیا۔ آیا قدیمن شہادتوں  سے روائیت یا وحی  سے اگر مقدس  راوی سید اعظم  کفأستاً کہتے تھے۔ تو وحی ظاہراً  کے دعویٰ کی ضرورت  نہیں ہے ہمارے لئے یہی کافی ہے کہ  وے بے خطا  اور یقینی اُستاد ٹھہرائے گئے۔

اہل الہام  عضوئے خدا تھے

ثالثاً۔ کلیسیا کی تعلیم الہام میں یہہ نکتہ  بھی شامل ہے کہ مقدس  راوی خدا کے عضو تھے۔ ایسا کہ جو کچھ اُنہوں نے سکھلایا گویا  خدا نے سکھلایا۔  یاد  رہے کہ جب خدا اپنے کسی مخلوق کو اپنا وسیلہ یا آزار استعمال کرتا ہے۔ تو اُنکی طبعی  حالت کے موافق مستعمل  کرتا ہے۔  فرشتوں کو فرشتوں سا اور انسان سا عناصر کو عناصر سا  اِنسان آزاد  فاعل ہیں اور اِسی حالتمیں خدا کے عضو ٹھہرتے  ہیں۔ مقدس راوی غیر  نالحق نہیں  بنائے جاتے تھے۔ ارواح  انبیا ء نیسوں کی تابع تھیں۔ ۱ قرنت ۱۴: ۳۷۔

  جسطرح بعض عارفوں نے کہا ہے۔ ویسا ہی متقد میں بھی کہا کرتے تھے۔ کہ مقدس راوی روح  کے ہاتھ میں مثل قلم کے تھے۔ یا مثل بربط کے جسے جو آزاد اُسے آتی نکالتی تھی۔ یہہ تشبیہن صرف ایک نکتہ کی توضیح  کے لئے  مقصود ہوئیں۔ یعنے وہ کلمات جو مقدس  زدپول نے لکھے یا کہے کلمہ خدا تھے۔ کلیسیا نے یہہ کلُ کا الہام کبھی نہ مانا۔ مقدس راوی محض کل نہ تھے۔  اُنکا  علم  طبعی موقوف  نہ کیا گیا نہ اُنکے  قواعد راکیہ  برطرف  ہوگئیں۔  پاک لوگ روح القدس کے بلوائے بولتے تھے۔ انسان تھے نہ کہ اوزاربے  علم  زندہ قلب  ارواج زی قیاس اور زی رضا  تھے۔ جنہیں روح نے عضو بنایا علاوہ ازیں چونکہ الہام  قوت  بشری کے توقف کو شامل نہین کرتا ۔ لہذا اُس شخص  کی عقلی علامت امتیازی  کے استعمال بے ابرام میں دخل  نہیں دیتا۔ اگر  منطقی  تھا تو اُس نے مثل پولوس  کے  مدلل تقرر کی۔  اگر مسائل تھا تو اُس  مثل یوحنا کے لکھا۔ اگر کوئی عبرانی  معلم ہوا تو وہ عبرانی بولتا تھا ۔ اگر  کوئی  یونانی تو وہ یونانی  باتلا تھا۔  اگر عالم  تھا ۔ تو  موافق  علماء گفتگو کرتا تھا۔ راویان مقدس  نے اپنی خصوصیت  اپنی اپنی تصنیفات پر ایسی  صاف منقش کی ہے۔ کہ گویاوے کسی تاثیر  نادر کی تقید ہی میں نہ تھے۔ بیبل کے اظہار  نادری مین سے یہہ ایک ہی  جو ناظریں پر بھی آشکارا ہے۔

الہام کی اصل ہی میں یہہ بات  موضوع ۔ کہ خدا نے انسانی زبان میں کلام  کیا۔ اور کہ انسان کو اُسکے خاص  وصف کے موافق اپنا عضو کر کے استعمال  کرتا ہے۔ جب  وہ  بچّوں کے منُہہ سے تعریف  کرواتا  ہے تو  ضرور ہے کہ وہ بچوں کی طرح بولیں۔ ورنہ اس زبرحکمی کا تمام زور  و لطف  جاتا رہتا ہے۔ اِس اعتقاد  کی  کو ئی دلیل  نہیں کہ مقدس روایوں  کو الہام کی حالت میں روح کی تاثیر کااظہار ایماندار ونمیں  اُسکی تاثیر تقدس  کی نسبت زیادہ تر علم ہوا کرتا تھا جسطرح  ایماندار اپنے تئیں  کسی کام کا کرنیوالا معلوم ہوتا ہے۔ اور حقیقتاً اپنی زات سے کام کرتا ہے۔ ویسے ہی الہامی کاتب اپنے خیالوں کی بہرپوری  سے لکھتے  تھے۔ اور ایسی زبان اور محاورات استعمال کئے جو اُنکی طبیعت کے موافق  اور مناسب معلوم ہوئے۔ باوجود ہ اِسکے وے روح کے بلوائے بولتے تھے اور اُنکی باتیں روح کی باتیں نہیں۔

درثبوت تعلیم مذکورہ بالا

یہہ تعریف الہام کے نوشتوں  کےموافق ہے۔ اور کہ اہل الہام  اسوجہ سے  خدا کے عضو  تھے۔ اور کہ اَنکا  کلام  انسان کلام  نہ تھا۔ لیکن کلام خدا تھا۔ وجوہات  زیل سے  ثابت ہے۔

اولاً اس لفظ کے معنو نسے ثابت ہے۔ البتہ یہہ قابل تسلیم  ہے۔ کہ الفاظ  کواُنکے  تواریخی  معنونسے سمجھنا  چاہئے اگر ظاہر ہو سکے کہ زمانہ رسل میں لوگ لفظ ( )  اور اُسکے  ہمجنس الفاظ  کو کیا  معنے لگاتے تھے۔ تو وہی معنے ادا کرنے کے لئے  رسولوں نے بھی  استعمال کیا۔ تمام اقوال  کا یہہ اعتقاد  رہا ہے کہ خدا انسان کے دل  پر نہ صرف دخل اور ضبط  و ربط  رکھتا ہے۔  بلکہ یہہ جو اُس نے بعض اوقات  خاص  شخصوں  پر ایسا تصرف  رکھا۔ کہ نُنکو اپنی مرضی  کے اظہار کا عضو  بنایا ایسے  شخصوں کو  یونانی  (تھیو فورائے)  ( اسپیشل کریکٹر)  یعنے حامل خدا کہتے تھے۔  یا  ( اِن تھیوس) (اسپیشل کریکٹر)  یعنے جسمین  خالی  رہتا ہے سپٹو ا جنسٹ میں لفظ ( پنوماٹو فوراس )  ( اسپیشل  کر یکٹر)  اسی معنے سے مستعمل  ہوا ہے۔  یو سیفس  کی انٹی  کٹی  کتاب چوتھی دفعہ  ہانچ میں یہہ معنے اِس فقرہ سے بیان ہوئے ہیں۔  (ٹوتھیو ۔ (اسپیشل کریکڑ)  پنیو ماٹے کے کی نے  موناس)  ( اسپیشل کریکٹر)  کلمات رسول پطرس  اسکے موافق ہیں۔ ( اسپیشل کریکٹر)  ( ہیو پو نپیوماٹاس فیروی  نائے) ( اسپیشل کریکٹر)  ۲ پطرس ۱ ۔ ۱  اور روح کی اِس تاثیر  سے جو کچھ  لکھا جاتا ہے ۔ گرانے  تھیو پناس ٹاس}  (اسپیشل کریکٹر) یعنے الہامی نوشتہ کہلاتا ہے۔ تمطاوس ۳ ۔ ۱۶ گر یگری نسا  کا متی  ۴۱۔ ۴۳ ۔ ہمارے  خداوند کی اِن باتوں اِن باتوں کا کہ پھر کس طرح  داؤد روح سے اُسے خداوند کہتا ہے  حوالہ دیکر  کہتا ہے۔’’ کہ اسلئے مقدسونمیں سے وے  جو روح کی قدرت سے خدا سے معمور ہیں الہامی ہیں۔ اور اسلئے سارا نوشتہ  (تھیونپوس  نلس )  (اسپیشل  کریکٹر)  یعنے الہامی کہلاتا ہے۔ کیونکہ تعلیم خدا کے الہام سے  ہے۔‘‘پس الہام کے معنے مقرر ہوئے۔ تمام متقدمین کے قول کے موافق  وہ شخص الہامی  تھا۔ جو اپنے اقوال  کی نسبت عضوئے  خدا تھا ایسا کہ اُسکی  کلام اُس  خدا  کی کلام تھی جسکا وہ عضو تھا۔

ثانیاً  لفظ نبی اسی پر دلالت  کرتا ہے۔ مقدس  راوی  نوشتون کو شریعت اور انبیا ء پر تقسیم کرتے ہیں۔ جس  حالت میں توریت موسیٰ نے لکھی اور موسیٰ  نبیونمیں سب سے بڑا  تھا۔ تو اس سے یہی  نتیجہ  نکلتا ہے۔ کہ عہد عتیق  کی کتابیں  نبیؤں  نے لکھیں۔ پس اگر نوشتوں  کے رؤ سے ہم بیّ کے  معنے دریافت  کر سکیں۔ تو اِسوجہ سے اُنکی  تضیفات کی خاصیّت اور اُنکا  واجبی اختیار بھی دریافت کر سکینگے ۔ اب نبی نوشتوں  کے رو سے عرض  بیگی ہے یعنے دوسرے کی طرف سے اور  اُسکےاختیار  سے بولنے والا۔ ایسا کہ وہ شخص جسکے لئے وہ کہتا ہے۔ عرض  بیگی کے قول کی صداقت  کا جواب وہ ہے۔ خروج  ۷۔ ۱۔ پِھر خُداوند نے مُوسیٰ سے کہا دیکھ مَیں نے تُجھے فِرعو ن کے لِئے گویا خُدا ٹھہرایا اور تیرا بھائی ہارُو ن تیرا پَیغمبرہو گا یعنے عرض بیگی ہوگا۔  ۴ ۔ ۱۵ ۔ ۱۶ ۔ سو تُو اُسے سب کُچھ بتانا اور یہ سب باتیں اُسے سِکھانا اور مَیں تیری اور اُس کی زُبان کا ذِمّہ لیتا ہُوں اور تُم کو سِکھاتا رہُوں گا کہ تُم کیا کیا کرو۔ اور وہ تیری طرف سے لوگوں سے باتیں کرے گا اور وہ تیرا مُنہ بنے گا اور تُو اُس کے لِئے گویا خُدا ہو گا۔ اور تُو اِس لاٹھی کو اپنے ہاتھ میں لِئے جا اور اِسی سے اِن مُعجزِوں کو دِکھانا۔ دیکھو یر میاہ ۔ ۳۶۔ ۱۷ ۔ ۱۸ ۔ اس سے ساف طاہر ہے کہ نبی گیا ہے۔ وہ دھن خدا ہے۔ وہ جسکے  وسیلہ  سے خدا لوگونسے  کلام کرتا ہے۔ ایسا کہ جو کچھ بنی کہتا ہے گویا خدا کہتا ہے۔ جب کسی نبی کا تقدس کیا  جاتا  تھا۔ تو اُس  موقعہ پر یہہ کہا جاتا  تھا کہ دیکھ میں نے  اپنی باتیں تیرے منُہ میں ڈالدیں  ۔  یر میاہ ۱۔ ۹۔ یسعیاہ  ۵۱۔ ۱۶ ۔ اور  کہ ازروئے  نوشتگان  نبی کے یہی معنے ہیں۔ اُن مرُوج محاورات  سے اور بھی اظہر  جو اُسکی  رسالت  اور فرائیض  کے متعلق  ہیں۔  وہ کدا کا قاصد تھا۔ اور کدا کے نام سے کلام کرتا تھا۔ یہہ کلمات کہ ’’خداوند  یوں فرماتا ہے ۔ ہمیشہ اُسکے منُہ  میں تھے۔ پھر یہہ کہ کلام  ’’ خداوند اِس اور اُس  نبی پر اُترا۔ روح نازل ہوئی خدا کی  ’’ قدرت  یا ہاتھ ، اُس پر تھا۔ یہہ سب اِس بات پر  دلالت  کرتے ہیں کہ نبی خدا کا عضو  تھا جو کچھ وہ کہتا تھا۔  خدا کے نام اور اختیار سے کہتا تھا۔

پطرس رسول بھی عین اُسکے موافق  سکھلاتا ہے کہ نبوت کی بات آدمی کی خواہش  سے کبھی نہیں ہوئی۔ بلکہ کدا کے مقدس لوگ روھ القدس کے بلوائے بولتے تھے۔  سلسلہ کے لئے دیکھو نور افشاں ۱۴۔ فروری سن ۱۸۸۹ء

فرمودہ انبیاء فرمودۂ خدا تھا

ثالثاً اِس بات کا کہ مقدس راوی عضوء  کدا تھے یہہ دوسرا قطعی ثبوت  ہے۔ کہ جو کچھ اُنہوں نے کہا وہ فرمودۂ  روح کہا گیا ہے۔ مسیح خداوند نے خود فرمایا کہ داؤد  روح  سے مسیح  کو خداوند کہتا ہے۔ متی ۲۲۔ ۲۳۔ زبور  ۹۵ میں داؤد ؔ  کہتا ہے  کہ اگر تم آجکے دن اُسکی  آواز  سُنو تو اپنے  سخت نہ کرو۔ لیکن رسول  کہتا ہے  کہ  یہہ روح القدس کی  باتیں  ہین۔ عبرانی  ۳۔ ۷ ۔  پھر  خط مذکور  ۱۰۔ ۱۵۔ میں رسول  ممدوح کہتا ہے۔  اور روح القدس  بھی  ہمارے  لئے گواہی  دیتی ہے۔ کیونکہ جب اُسنے کہا  تھا۔ کہ یہہ وہ عہد ہے ۔ جومیں اِندنوں  کے بعد  تم سے باندھونگا۔  خداوند  فرماتا ہے۔  اور یوں  یرمیاہ  کی بات  کو  ۳۱ ۔ ۳۳  روح القدس  کی بات کہتا ہے۔ اعمال ۴ ۔ ۲۵  میں  تیں  مجمع  رُسل  یکدل  ہو کر کہا ۔ تُو نے رُوحُ القُدس کے وسِیلہ سے ہمارے باپ اپنے خادِم داؤُد کی زُبانی فرمایا کہ قَوموں نے کیوں دُھوم مچائی؟ اور اُمّتوں نے کیوں باطِل خیال کِئے؟۔ اعمال  ۲۸۔ ۲۶ حضرت پولوس  نے یہودیوں سے کہا۔ کہ روح القد س نے معرفت یسعیاہ  نبی ہمارے باپ دادوں  سے خوب کہا۔ اِس طور سے مسیح  اور اُسکے رسول  ہمیشہ  نوشتوں  کیطرف  اشارہ کرتے ہیں  اور بلاشبہ ظاہر کرتےہیں  کہ اُنہیں  یقین تھا اور سکھاتے بھی تھے ک فرمودہ رادیان  فرمودہ روح القدس۔

عہد عتیق کے مصنفوں کے الہام کے بیان میں

ثبوت مذکورہ بالا  خاص کو عہد عتیق کی کتابوں پر موثر ہے مگر کو ئی مسیحی  عہد عتیق  کے الہما جدید کے الہام پر فصلیت  نہیں دیتا۔ اگر انتظام سابقہ  کے نوشتے خدا کے الہام  دلے کلے۔ تو وہ تضیفات اُنسے کہیں زیادہ  ہیں۔  جو روح کی معرفت لکھی  گئیں۔ الہام رُسل وجوہ زیل سے ثابت ہے۔

اولاً ۔اس بات سے کہ مسیح نے اُنسے روح  روح القدس کا وعدہ  کیا۔ جو اُنہیں سب باتیں یاد دلاوے۔  اور تعلیم دینے میں اُنہیں  صحیح  اور  بیخطا  ٹھہراوے۔ اُسنے کہا کہ تم نہیں  پر میرے  باپ کی روح  تم میں بولتی ہے۔ وہ جو تمہاری سُنتا ہے میری سنتا ہے۔ اُسنے انہیں عہدہ اتالیق پر مقرر ہونے سے منع کیا۔ تاوقتیکہ  عالم بالا سے قوت پاویں۔

ثانیاً۔  پنتکوست  کے دن یہہ وعدہ پورا ہوا۔ تب جیسی بڑی آندھی چلے رسولوں پر روح نازل ہوئی۔ اور وے روح القدس سے بھر گئے۔ اور جیسے رعح نے اُنہیں بولنے کی قدرت بخشی  بولنے لگے۔ اِس گھڑی سے وے نئے انسان ہو گئے۔  اُنکے نئے خیالات  نئی  روھ اور نئی قوت و اختیار ہوگئے۔  یہہ تبدیلی یکایک  وقوع  میں آئی۔ یہہ اظہار بیتدریج  اور سراسر  فوق العادت تھا۔ جسطرح جب خدا  نے کہا کہ روشنی ہو اور روشنی ہو گئی۔ اِس سے زیادہ  تر نامعقول  کچھ نہیں  ہو سکتا۔ کہ متعصب  دلوں سے رسولوں کی روشن رائے اور کشادہ دلی کی ناگہانی تبدیلی  کو محض اسباب زاتی کو منسوب کریں۔ اُنکے یہودی تعصبات نے نیں بر س تک مسیح کی نصیحت  اور تاثیر کی مخالفت کی۔ لیکن جب عالم بالا سے اُنپر روح نازل ہو ئی  تب وے  یلکخت مطیع ہو گئے۔

چالثاً۔ پنتکوست کے دن کے بعد رسولوں  نے خدا کے بے نقص عضو  ہونیکا دعویٰ کیا۔ اور اسبات کے مقتفی ہوئے کہ لوگ تسلیم کریں کہ جو کچھ وے سکھلاتے  تھے کلام خدا تھا نہ کلام انسان۔ ا۔ تسلونیقی  ۲۔ ۱۳ ۔ اُنہوں نے بیان کیا جسطرح پولوس کرتا کہ وہ باتیں جو اُنہوں  نے لکھیں احکام خدا تھے۔ ۱۔ قرینت ۱۴ ۔ ۳۸۔ اُنہون نے انسان کی نجات کا مدار اُن تعلیمات  کے  اعتقاد پر رکھا۔ جو اُنہوں  نے سکھلائیں ۔ پولوس آسمانی فرشتہ کو بھی لعنتی کہتا ہے۔ جو  سوائے اس انجیل کے جو اُسنے سکھلائی سکھلاوے۔ گلاتی ۱۔ ۸۔ یوحنا حواری کہتا ہے کہ جو کو ئی  اُس {پنڈت صاحب مگر آپکا الہام حق ہے تو کسیطرح انجیل کے الہام سے مخالف نہیں ہونا چاہئے۔ }۔ گواہی  کو  جو اُسنے مسیح کی بابت دی قبول نہیں کرتا خدا کو جھوٹا  ٹھہراتا ہے۔ کیونکہ یوحنا  کی  گواہی  خدا کی  گواہی ہے۔ ۱۔ یوحنا  ۵۔ ۱۰۔  وہ جو خدا کو پہنچانتا ہے ہماری سنُتا ہے۔ جو خدا  سے نہیں ہماری  نہیں سنُتا ہے ۴۔ ۶۔ بیحطائی اور صحت کا یہہ دعویٰ  اور اُنکی تعلیم کے  الہیٰ  اختیار کا یہہ استحقاق تمام بائبل کی خاصّیت ہے۔ کل راوی ہر مقام میں اپنے اختیار کے انکاری ہیں۔ وے اپنی تعلیم پر اپنے علم و حکمت  کے اختیار  سے فرض ایمانیہ کا مدار  نہیں رکھتے۔ اپنی تعلیم کی صداقت عقل کے موافق  قرار دیکر اُسے وجہ  ایمان  کی بیان  نہیں  کرتے۔ وے قاصد اور گواہ اور عضو ہو کر بولتے تھے۔ وے کہتے ہیں کہ اُنکا فرمودہ خدا کا فرمودہ ہے۔ اور اسلئے اُسکے اختیار  پر اُسے تسلیم کرنا اور ماننا  چاہئے۔

گواہی حضرت پولوس رسول

قرنتیوں نے پولوس کی وعظ  پر اعتراض کیا۔ اسلئے کہ اُسنے اُن  تعلیمات کا جو سکھلاتا تھا۔ عقلی اور فیلسوفی ثبوت نہ دیا۔  اور کہ اُسکی زبان  اور طریقہ گفتگو علم  فصا حت  کے قاعدون کے موافق نہ تھیں۔ وہ اِن اعتراضوں کا یون جواب دیتا ہے۔ 

اولاً۔ وہ تعلیم جو اُسنے سکھلائی ۔ حقائق عقلیہ نہ تھیں۔ نہ حکمت انسانی سے ایجاد ہوئیں۔ مگر وحی رباّنی  کے مضامیں تھے جو جچھ خدا نے سچ کہہ بتلایا۔ اُسنے  صرف وہی سکھلایا۔

ثانیاً۔ اِن حقیقتوں  کے ظاہر کرنے میں وہ صرف روح انیردیکا  عضو تھا۔ ۱۔ قرنت ۲۔ ۸ تا  ۱۳ ۔ میں اِس بات  کا صاف اور مختصر  طور سے بیان کرتا ہے۔ وہ باتیں یعنے انجیل جو اُسنے سکھلائی  جسے وہ خدا کی حکمت اور روح کی باتیں کہتا ہے۔ انسان کے دل میں کبھی نہ آئی۔ خدا نے یہہ حقیقتیں  اپنی روح کے وسیلہ  ظاہر کیں۔ کیونکہ روح میں ایسے علم کا چشمہ  مکتفی ہے۔ آدمیوں میں کون آدمی کا حال جانتا ہے۔ مگر آدمی کی روح جو  اُسمیں؟ ۔ ۱۔ قرنت ۲۔ ۱۱۔ اسیطرح خدا کی روح کےسوائے خدا کا  ھال کو ئی نہیں جانتا۔ دوسرا اعتراض جو اُسکی زبان اور طریقہ  اظہار کی نسبت ہے۔ اُسکئ بابت وہ کہتا ہے۔ کہ’’ روح کی یہہ باتیں جو اسطرح ظاہر ہوئیں۔

عیسوّیت  شافی قدرت  ہے

علامہ جی ۔ایل ٹھاکر داس

Christianity is the Nature’s Healer

Published in Nur-i-Afshan March 7, 1889
By Allama G.L.Thakkur Dass

تمہید

الہام الہی کا وہ مقصد  جو گناہگار اِنسان  کے لئے نہایت ضروری  ہے وہ راہؔ نجات ہے۔ اور یہہ بات دریافت کرنا لازم ہے کہ  وہ کونسی قدرت  ہے جو ہمکو گناہ  اور اسکے برُے نتیجوں سے نجات دیسکتی  ہے اور  یوں ہمیں  بقا کے لائق اور اسکے وارث  کر سکتی ہے۔ ہم جانتے ہیں  کہ اِس امر میں انسان نے اپنی  کوشش کی کوئی صورت باقی نہین چھوڑی ہے لیکن افسوس  اتنا ہے کہ مختلف خیالوں مین پڑ کت مختلف طریقے  نجات کے تجویز کئے ہین۔ جب اِن خیالون اور طریقوں پر  غور کرتے ہیں تو معلوم  ہوتا ہے کہ لوگ اِن  باتوں کو پارے طور سے نہیں  سمجھتے  کہ کسلئے نجات  چاہئے  اور کہ وہ کیونکر  حاصل  ہو سکے۔ یہہ دونون باتیں بتلانے کے لئے خدا نے الہام سے انسان  کے  ساتھ  کلام کیا۔ اور اِس تحریر سے غرض یہی ہے کہ الہام اِس مقصد کوہم اور زیادہ سمجھ  جاویں۔

جاننا چاہئے  کہ کل  عالم میں  خداوند  خالق  نے اپنی حکومت  دو طرح کی قائم  کی ہو ئی ہے۔ جسمانی ؔ اور اخلاؔقی  جسمانی  حکومت سے مراد وہ حکومت ہے جو غیر ناطق جسم پر ہے  اور اخلاقی حکومت  سے مراد وہ حکومت ہے جو ناطق  عقل پر ہے۔ دونوں قسم کے لھاظ سے جسمانیؔ قانون  اور اخلاؔقی قانون کہے جا سکتے ہیں۔ اِس ترتیب سے غرض  برتاؤ  محبتّ یعنی نیکیؔ  ہے۔ اور نیکی کا نتیجہ  خوشیؔ ہے۔

پھر دونوں قسم قوانین  کی ہم یہہ کیفیت دیکھتے  ہیں کہ جسمانی قانون  جس جسمانی چیزوں  کے متعلق ہیں  خالق نے ایسے  طور  سے قائم  کئے ہوئے ہیں کہ کوئی چیز اُنسے انحراف  نہ کر سکے۔ اور انتظام عام  باترتیب  اسی  لئے چل رہا ہے کہ یہہ قانون  ضرورت سے بھر پور  ہین۔ اور یہی سبب ہے کہ انسان بھی اُن سے تجاوز نہیں کر سکتا اور جب کرتا ہے تو ساتھ ہی سزا  پاتا ہے۔ لیکن اگر اُن قوانین  کے تقاضا  کے موافق کرتا  ہے تو  خوشی اور آرام پاتا ہے۔ اسیطرح  اخلاقی قوانین  سے  بھی مرُاد اخلاقی عالم میں ترتیب اور انتظام قائم رکھنے سے ہے۔  اِن قوانین کے موافق روش رکھنے سے خوشی حاسل  ہوتی ہے اور تجاوز باعث دُکھ اور رنج کاہے۔ یہاں بھی خوشی اور سزا  لازمی ہیں۔ اِس کیفیت سے ہم معلوم  کرتے ہیں  کہ یہہ کلُ  انتظام  خدا نے انسان کی خوشی  کےلئے  کیا ہوا ہے اور اسکو خوشی حاصل اور ہو سکتی ہے اگر اِس  انتظام کے قوانین کے موافق  چلے۔ اور اس سے ہم  خالق  کی مرضی بھی معلوم  کرتے ہیں کہ وہ کس بات سے  خوشی ہوتا ہے اور کس بات سے ناراض ہوتا ہے۔ ہان مقنّن  کی بابت ہم  اسکے ٹھہر ائے ہوئے قوانین سے جانتے  ہیں کہ وہ کس طبیعّت کا شخص  ہے۔ اسکی مہربانی اور عدل دونوں  ہی صاف معلوم ہو رہے ہیں۔اب اسبات کا بھی خیال  کرنا چاہئے کہ اِنسان پر واجبؔ ہے کہ اخلاقی  قوانین کی پابندی کرے۔ کیوں؟ اسلئے کہ بزات ہی اچھے  ہیں۔ اور اچھے ہونے کے  سبب سے  کوشی کا باعث ہیں۔ پس اصل بات جسکے سبب سے انسان کو چاہئے کہ اپنی روش کو اُن  کے موافق رکھے  یہہ ہے کہ وہ خوشی کا باعث  ہیں۔  اور خوشی اپنے آپ میں  بذات ہی مرغوب چیز ہے۔ دیکھو لوگ اُن  کاموں  کو جو جسمانی  قوانین  کے متعلق  ہیں( مثلاً ہر قسم کا ہنُر) ایسے  طور سے کر نیکی  کوشش کرتے ہیں کہاُنکو آرام اور خوشی حاصل  ہو۔ ایسا ہی محبّت  یا نیکی جو اخلاقی قوانین کا مقصد ہے خوشی کا باعث  ہے اور جہاں یہہ نہیں  ہوتی وہاں رنج اور تکلیف  ضرور  ہوتے ہیں۔ غرضکہ اِنسان کو چاہئے کہ نیکی کرے اور بدی سے باز رہے۔ 

پس نیکیؔ کیا ہے؟

 قوانین خلاقیہ کے موافق روش رکھنا نیکی ہے۔

بدی کیا ؟

 قوانین اخلاقیہ  کے موافق  روش نہ رکھنا بدی ہے۔

کن کن سے نیکی مطلوب  ہے؟ اخلاقی و جودوں سے اور وہ خدا  اور انسان ہیں؟

اخلاقی وجود ہونیکی  کیا  کیا شرطیں ہیں؟ وہ شرطیں جنکی وجہ سے ہم کسیکو اخلاقی  وجود کہہ سکتے ہیں  یہہ ہیں  یعنی عقلؔ اور ضمیرؔ  اور آزادؔ  مرضی۔ اور چونکہ اِنسان میں یہہ  جو ہر ہین لہذا ہمکو ماننا پڑتا ہے کہ انسان اخلاقی وجود  ہے۔  اور علاوہ  اسکے ہم فطرتاً جانتے ہیں کہ ہم ایسے ہیں۔ اور پھر خداوند  خالق میں بھی یہہ جوہر  ماننے پڑتے  ہیں کیونکہ اگر خالق میں نہ ہوتے تو مخلوق میں خود  ہی نہیں ہو سکتے تھے۔ اُن کے ہونیکا کوئی مادہ یا سبب نہ ہوتا۔ خدا آپ اخلاق وجود ہے اسلئے اُسنے اخلاقی انتظام عالم میں قائم کیا۔ اور اخلاقی  حاکم  ہونے کے سبب سے وہ کل عالم  میں راستی کا محافظ  ہے اور اسلئے  دوسرے  اخلاقی  وجودوں  سے اطاعت  طلب کرتا ہے کہ راستی اور محبّت  کو قائم رکھیں۔ اُس راستی اور محبّت  کے قوانین حسب زیل ہیں۔

(۱)۔ میرے حضور  تیرے لئے دوسرا  خدا نہ ہووے ۔

(۲)۔  تو اپنے لئے  کوئی مورت یا کسی چیز کی صورت  جو اوپر آسمان پر یا نیچے زمین پر یا پانی میں  زمین کے نیچے  ہے مت بنا۔  تو اُن  کے آگے  اپنے تئیں  مت جھُکا۔ اور نہ اُن کی عبادت کت کیونکہ میں خداوند تیرا  خدا  غیّور خدا ہوں الخ۔

(۳)۔ تو خداوند اپنے خدا کا نام  بیفائدہ  مت لے کیونکہ  جو اُسکا  نام بیفائدہ لیتا ہے خداوند اُسے بے گناہ نہ ٹھہراویگا۔

(۴)۔ تو سبت کا دن پاک رکھنے  کے لئے  یاد کر۔ چھ دن تک تو محنت کر کے اپنے سارے  کام کاج  کر لیکن ساتواں دن خداوند تیرے خدا کا سبت پے اُسمیں کچھ کام نہ کر۔ نہ تو نہ تیرا بیتا نہ تیری بیٹی نہ تیرا غلام نہ تیری لونڈی نہ تیرے مواشی اور نہ تیرا مسافر  جو تیرے پھاٹکوں کے اندر  ہو۔ کیونکہ خدا نے  چھ دن میں آسمان  اور زمین دریا اور سب کچھ جو اُن میں ہے بنایا اور ساتویں  دن آرام کیا۔ اِسلئے خداوند  نے سبت کے دن کو برکت دی اور اِسے مقدس ٹھہرایا۔ 

(۵)۔ تو اپنے ماں باپ کو عزت  دے تاکہ تیری عمر  اُس زمین پر جو خداوند تیرا خدا تجھے دیتا ہے دراز ہووے۔

(۶)۔ تو خون مت کر۔

(۷)۔ تو زنا مت کر۔

(۸)۔ تو چوری مت کر۔

(۹)۔ تو اپنے پڑوسی پر جھوٹی گواہی  مت دے۔

(۱۰)۔ تو اپنے ہمسائے کے گھر کا لالچ مت کر۔ اپنے پڑوسی کی جورو اور اُسکے  غلام  اور اُسکی  لونڈی اور اُسکے بیل اور اُسکے گدھے  اور کسی چیز کا جو تیرے پڑوسی کی ہے لالچ مت کر۔ ( خروج باب۲۰)

قوانین  اخلاقیہ  کے شارح  اسظم خداوند یسوع مسیح نے اِن  دس  باتوں  کا خلاصہ  یہہ فرمایا ہے کہ تو خداوند کو جو  تیرا خدا ہے اپنے سارے دل سے اور اپنی  ساری جان سے اور اپنی ساری عقل سے  اور اپنے زور سے پیار کر۔ اوّل حکم یہی ہے۔  اور دوسرا جو اسکی مانند ہے یہہ ہے کہ تو اپنے پڑوسی کو اپنے بر ابر  پیار کر۔ ( مرقس ۳۰:۱۲)

اب انسان نے اِن قوانین سے تجاوز کیا ہے اور خدا  کے انتظام میں  بڑا بھاری  فساد دالا ہے اور سزا کے لایق ہو گیا ہے اور زندگی اور خوشی کے لایق نہیں رہا۔ اور یاد رہے کہ سزا کو ئی مسنوعی امر نہیں ہے بلکہ قدرتی  ہے اور لازمی ہے۔ اور موت ہے  ۔ قدرت کے قانون میں یہہ بات  پائی جاتی ہے اور اِس  قانون  کو لاآف  کانٹی نوُئٹی کہتے ہین کہ ہر چیز اپنے اپنے تعلقات  میں زندہ ہے مگر غیر تعلقات  کے نزدیک وہ مردہ ہے جمادات اپنے میں خواہ کچھ ہی ہوں مگر نباتات کے نزدیک مردہ ہیں۔ اور نباتات حیوانات کے نزدیک مردہ ہیں۔ اِسیطرح چونکہ انسان  نے اخلاقی قانون سے تجاوز کر کے  اپنا تعلق گناہ سے کر لیا لہذا  اخلاقی اور راحانی زندگی کے نزدیک وہ مرُدہ ہو گیا ہے۔ اور قدرتی تقاضیٰ  ہے کہ وہ ایسا  ہی ہو  جاوے۔  اور اسکے مطابق کلام الہیٰ  مین بھی اِنسان کی موجودہ  حالت  کو  موتؔ سے بیان کیا گیا ہے۔ ‘‘جسمانی مزاج موت ہے پر راحانی مزاج زندگانی’’ ( رومیوں ۶:۸) اسحال میں انسان  روحانی  زندگی کے دائرے سے نکل گیا اور گناہ کی  شریعت یا دائرے  میں آگیا  ہے جیسے مچھلی پانی سے نکلکے خشکی پر آجاوے۔  اور جس علاقہ مین ہو گیا ہے اُسیکے  نتیجے پا سکتا ہے اور وہ ڈُکھ  اور موت ہے ۔  یہہ سزا تو انسان کو قدرت  ہی کی طرف  سے ہوئی  ہے اور آخر اُسکو ہمیشہ  کی موت  تک پُہنچا  دیگی۔  اور یو ں اُسکو  ہمیشہ  کی زندگی اور خوشی  سے محروم رکھیگی۔  اور الہام کے زریعہ  سے خدا نے  انسان کو اِس  بات  سے اور بھی آگاہ کر دیا ہے۔ پس وہ چیز  جو اِنسان  کو اِس  نئے تعلق  سے بچاوے اسکو ہم انسان کے لئے شافی قدرت جانینگے۔

دوسری نات جو لاآف کانٹی نوئٹی ہمیں باور کراتی ہے یہہ ہے کہ جو قانوں جس شے کی نسبت  ٹھہرایا گیا ہے اگر وہ شے یا شخص  اُن میں قائم رہنے سے غفلت کرے تو اپنی حالت سے زائل  ہو جائیگی۔ قیام  اور ترقی کے لئے حفاظت اور کو شش لازمی ہیں۔ ہر چیز اپنے آپ میں مائل  بطرف  زوال  ہے کیونکہ قیام کی دلیل اپنے میں نہیں  رکھتی مگر دوسرے  میں رکھتی ہے۔ یعنی خالقؔ مین ۔ اور خالق  نے جو قانون اُن  کے قیام  کے لئے  مقّرر کئے ہیں۔ اُن کے موافق  کرنے کے بغیر  کوئی چیز قائم  و دائم  نہیں رہ سکتی۔ اِس حال میں ہر ایک شے  جو اِس قیام و ترقی  کے لئے  مضّر  ہے اسکو دُکھ نا ضروری ہے۔ کسی باغ کو پھلدار  اور سر سبز کرنے کے لئے حفاظت  اور پرورش ہیں  کیونکہ اگر یہہ نہ ہو تو اور  چیزیں یا قوانین  ہیں  جو اسکو بر بادی کی حالت  مین لانیوالی ہیں۔  اسیطرح  انسان اگر اپنے  قیام اور ترقی کے سامان سے غافل رہے  تو ضرور زوال پاتا ہے۔ چنانچہ  اگر اپنی صحت کے قوانین  سے گافل رہے تو نقصان اُٹھاتا ہے۔ اور جو لوگ شائستگی  کے قوانین سے غافل  رہے یا  رہتے ہیں وہ شائستہ  نہیں ہوئے اور نہ ہو سکتے  ہیں۔ بلکہ وحشی  ہو جاتے  رہے ہیں۔ پس اگر قوانین  اخلاقیہ سے غافل  رہے تو روحانیّت سے  گر جاتا ہے اور سلامتی  اور ترقی  سے محروم  رہتا ہے اور رہیگا۔  علی ہزا القیاس  اگر وہ اپنی نجات سے گافل رہے تو ہلاکت سے کیونکر بچ  سکتا ہے؟  لیکن افسوس ! انسان غافل  ہو کر ہلاکت کے یقینی راستہ  پر ہے۔ پس وہ چیز جو اسکو بیدار  کرے اور حفاظت  اور ترقی کے لئے آمادہ کرے اور یوں ہلاک  ہو جانے  سے بچاوے اسکو ہم انسان  کے لئے  شافی قدرت کہینگے۔

 تیسرا نتیجہ  جو ہمکو  لا آف کانٹی نیوئٹی  کے زریعہ سے ہاتھ آتا ہے یہہ ہی ہے کہ کو ئی چیز اپنے آپ  اپنی قدرتی حالت کو بدل  نہیں  سکتی۔ البتہ وہ جو اِس سے اعلیٰ ہے وہ اسمیں تبدیلیاں  کر سکتا ہے۔ پتھر اپنے تئیں  نباتات  کی قسم میں نہیں لا سکتے اور جانور انسان  نہیں بن سکتے۔ اور اگر اِن میں ترقی کی  ضرورت ہو وے تو اعلیٰ قسم اپنے سے ادنیٰ قسم  میں کر سکتی ہے۔  انسان اپنے سے ادنیٰ  قسموں میں تبدیلیاں اور  ترقیاں  کراسکتا ہے۔  مگر انسان کی جو گناہوالی  گویا  قدرتی  حالت  ہے اِس میں وہ خود اپنی  حالت  کو روحانیت کی طرف بدل  نہیں سکتا۔ اور نہ اِس  سے نجات پا سکتا ہے۔ انجیل مقدّس کی تعلیم  بھی اسکے موافق  ہے۔ ‘‘تم  فضل  کے سبب ایمان لاکے بچ گئے ہو اور یہہ تم سے نہیں۔ خدا کی بخشش ہے’’ ( افسیوں ۸،۳:۲) اس سے بھی یہی معلوم  ہوتا ہے کہ روحانی  زندگی کے نزدیک انسان کی یہہ حالت مردہ حالت  ہے اور وہ روحانی  عالم اور اُسکی  خوشیوں سے تعلق  نہیں  کر سکتا  جبتک کہ روحانی  عالم سے اسکے لئے امداد نہ پُہنچے۔ اِس بات میں یہی انتظام  قدرت اور الہام کاایک ہی بیان ہے پس وہ چیز جو  اِنسان  کو اُسکی موجودہ حالت اور اسکے نتیجوں سے نجات  دیوے  وہی اِنسان کے لئے  شافی قدرت ہوگی۔

اِس بیان سے ہم کو یہہ باتیں حاصل ہیں۔ (۱)اِنسان کی حالت  خطرناک اور نا امیدی  کی ہے۔ (۲)قوانین قدرت میں اسکے بچنے کی صورت اور  گنجائش  نہیں ہے۔ (۳)اُن میں یہہ گنجائش ہے کہ کسی اعلیٰ  طریق سے بچ سکتا ہے۔ اب ہمیں وہ طریق  یا قدرت  دریافت کرنا ضروری ہے جس سے ہم نجات پا سکیں۔‘‘ کیونکہ آدمی کو کیا فائدہ ہے اگر تمام جہان کو حاصل  کرے اور اپنی جان کھودے؟ پھر آدمی اپنی جان کے بدلے  کیا دیسکتا  ہے؟ ( متی ۱۶: ۲۶)۔ 

دفعہ اّول  نجات ممکن ہے یا نہیں

(دیکھو نور افشان نمبر ۱۰ سن ۱۸۸۹ء)

جاننا چاہئے کہ جسمانی قوانین اور اخلاقی قوانین ایک دوسرے سے جدا اور اپنے اپنے دائرے میں  پوری پوری تعمیل کے  متقاضی ہیں۔ مگر جسمانی قوانین  کی تعمیل  قوانین اخلاقیہ  کے ثواب  کا مستحق  نہیں کر سکتی  اور قوانین اخلاقیہ کی تعمیل قوانین جسمانی کے نتیجوں  کا استحقاق  نہیں دیتی۔  جب تک دونون کی تعمیل اپنے اپنے طور پر نہو تب تک دونوں کے نتیجے حاصل نہیں ہو سکتے ۔ اِ س سے  یہہ بات حاصل ہوتی ہے کہ علم و ہنر اور مال و دولت وغیرہ  جو جسمانی قوانین کے موافق روش کہنے سے حاصل ہوں وہ ہمیں  روحانی  زندگی نہیں  دلا سکتے ۔ کیونکہ روحانی زندگی صرف اُسی حال میں  حاصل  ہو سکتی ہے جبکہ ہم قوانین  اخلاقیہ کے موافق  روش رکہیں۔ ہر دو قسم قوانین  میں  سزا لازمی ہے۔ تجاوز کا ضروری  نتیجہ ہے۔ جسمانی  قوانین سے تجاوز  کرنے کی سزا کو لوگ  خوب  جانتے ہیں۔ اور ڈرتے ہیں۔ مگر روحانی قوانین  سے تجاوز  کر نیکی سزا بھی ہے تو دیسی  ہی لازمی پر چند اں پروا نہیں کرتے۔ اسبات کا کچھ  مفصل  بیان  ہم  ایک اور موقع  پر کر چکے ہیں۔ اب صرف یہہ جتایا  جاتا  ہے کہ گناہ کرنے  سے انسان  فوراً  روحانی  زندگی سے خارج  ہو جاتا ہے۔ اسکی خالت روحانی موت کی حالت  ہو جاتی ہے ۔ چنانچہ  جب سے گناہ دنیا میں آیا تب سے انسان سزا  یا بی کی حالت  میں ہے۔ اسکی عقلؔ اور ضمیرؔ اور فہمؔ اور آزاؔد  مرؔضی  ناقص اور خراب ہو گئے ہیں۔ ہر ایک گناہ نہ صرف  اسکو زیادہ  خراب کرتا ہے  بلکہ ہمیشہ کی موت  کے زیادہ  تر  نزدیک کرتا جاتا ہے۔ اور اگر اس جہان سے کوچ  کرنے کے پہلے وہ کسیطرح اِس خراب  اور مردہ حالت سے نجات نہ پاوے  تو اسک انجام کیسا خطرناک ہے۔ اب سوال ٍ یہہ ہے کہ آیا اِس خوفناک اور  نا میدی  کیحالت سے بچنا ممکن ہے یا نہیں؟ اگر ممکن ہو تو کس  وجہ  سے ممکن ہے؟ اگر قوانین  کیطرف  کریں  تو وہ بخشش  سے واقف نہیں بلکہ اُنکا تقاضیٰ  یہہ ہے  کہ گناہ کی ضروری موت ہے’’۔اس حال میں اُنسے تجاوز کر کے زندگی  کی اُمید رکھنا  ممکن ہے۔

پھر نجات کیونکر ہو سکےہوسکے؟ لوگوں کی تجویز  ہےکہ ساگ ؔ پات ؔ اور لکڑیؔ کاٹھ ؔ  اور ہومؔ وغیرہ  کے زریعہ  سے نجات ہو سکتی ہے۔ مگر مایور ہے کہ یہہ جسمانی  چیزیں  ہیں  اور جسمانی قوانین کے متعلق  ہیں اِن کو کھانے یا پالنے یا جلانے یا نھلانے  سے اُن چیزوں کو یا ہمارے جسموں کو وہ فائدہ یا نقسان ہو گا جو قوانین جسمانی سے مصورّ ہے۔ اِن کو روحانی  قوانین  اور نجات سے کچھ  نسبت نہیں ہے۔ جیسا ہمنے تمہید میں کہا تھا یہہ لوگون کی ناواقفی کی تجویز یں  ہیں۔ اور پھر ایسی  تجویزوں  کا مختلف  ہونا  اور ہمیشہ بدلتے رہنا  انسان  کی گمراہی  کی دلیل ہے۔ 

بعضے اب یہہ خیال کرتے ہیں کہ گناہ  کو ترک کرنا یعنی توبہ کرنا  گناہ کی سزا سے نجات  پانا  ہے۔ مثلاً جب کوئی چوری کرتا ہے  اگر توبہ  کرے تو نجات ہو گئی۔ اگر خون کرے  اور توبہ کرے تو نجات ہو گئی اور ہر ایک گناہ  کی نجات اسیظرح ہو سکتی ہے۔ یہہ وہی بات ہے جسکی ہم پہلے تردید کر  چُکے  یعنی شرع کا تقاضیٰ  پوری  تعمیل  ہے۔  کہ تجاوز  اور نہ نہ توبہ ۔ دیکھو نیکی کا نتیجہ خوشی ہے۔ اور گناہ کا نتیجہ سزا ہے۔ اب جب تک سزا کے عوض میں کچھ اور نہ ہو تو  ضرور  ہے کہ  سزا قائم  رہے۔  توبہ اِس سزا کا عوض  نہیں  ہو سکتا۔ اِس کا  تعلق  نیکی کے ساتھ  ٹھہرتا ہے نہ کہ گناہ اور اُسکی لازمی سزا کے اس عالم میں خواہ کسی قانون کو دیکھو تجاوز کی  سزا  ضروری  ہے توبہ  اُس  سزا سے نہیں  بچا سکتی۔  توبہ سزا کے بعد ہے نہ کہ پہلے۔ انتظام  عالم ایسا ہی ہے۔ انسان کا ایسی  تجویزیں سوچنا کچھ تعجب  کی بات نہیں ہے۔  کیونکہ موجودات کی حدود میں محدود ہو کر  اسکو حقیقی  راہ نجات کا پتا نہین  لگ سکتا۔ انسان چاہتا ہے کہ بچے  اسلئے اپنےدائرہ میں تلاش کرتا رہا۔ مگر  تقاضیٰ  قانوں الہیٰ  کو پورا نہین کر سکا۔ اِدھر اُدھر بھٹکتا بے شک رہا ہے۔

کیا کو ئی اور صورت گناہگاروں  کی نجات کے ممکن ہونیکی  ہے؟ گناہگارو خوش ہو۔ ایک صورت ہے اور فقط وہی صورت  ہے اور وہ یہہ ہے کہ ‘‘ خدا محّبت ہے’’۔ اسکی وحدانّیت اور قدرت  پاکیزگی سے ہمیں  اس امکان کا خیال  و گمان بھی نہیں  ہو سکتا  ہے۔ انکی رُو سے تو وہ راستی کا نگاہبان ہے اور عدولی  کی سزا لازمی ٹھہراتا  ہے۔ لیکن وہ آسمانی  باپ ہے۔ اور اسکی پدرانہ محّبت میں ہم اپنی نجات کا آسرا  پا سکتے ہیں۔ محّبت  ہو کر وہ ہماری ہلاکت  نہیں چاہتا اور ہماری نجات کے امکان کی یہی  وجہ  ہے۔

جب یہہ معلوم  ہو گیا کہ کسی وجہ سے نجات ممکن ہے تو اب ہم دریافت  کرینگے کہ ایسے  اِنتظام  اخلاقیہ کے درمیان  کسی  صورت سے یہہ محبّت  ہماری نجات کرواسکتی ہے۔ اور ہم ایسے کچے گمان ہر گز نہ کریں کہ محبّت  ہو کر خدا گناہگار کو اندھا دُھند  بخش سکتا ہے۔  یا بخش دیگا۔ جن لوگوں کا ایسا  گمان ہے وہ اصل  میں  خدا کو بھی تقصیردار ٹھہراتے ہین۔ اور اس امر میں بڑی غلطی یہہ کیجاتی ہے کہ ایک حاکم اور ایک معمولی  آدمی کے فرائض کو یکساں خیال  کرتے ہیں حالانکہ دونوں  میں بڑا فرق ہے۔ چنانچہ ایک معمولی شخص جسکو عدالت کی زمہ داری نہیں  ہے چاہے کتنے  ہی قصور اپنے دوستوں یا دشمنوں کے معاف کیا کرے اس سے کچھ ہرج نہیں ہوگا۔  کیونکہ انتظام  عدالت کا زمہ دار نہیں ہے۔ پر اگر  کو ئی  بادشاہ یا حاکم  جو  ملک میں راستی اور انساف کو قائم رکھنے کا زمہ دار ہے اور شرع کا محافظ  ہے اگر وہ کسی  گناہگار کو بے عقوبت  چھوڑ  دے تو امن ملک میں اور  محافظت  شرع  میں فرق آویگا۔  اور ایسا کر کے اپنے منصبی  فرائض کے رو سے وہ  خود  خطا  کار ٹھہریگا اور مثل اُس  مُجرم  کے وہ خود بھی شرع سے تجاوز کرنیوالا  بنیگا۔ اسلئے  انجیل مقدس میں لوگوں کو ہدائت آئی  ہے کہ  ‘‘ ایک دوسرے کو بخشا کرو’’۔  ‘‘اپنا انتقام مت لو کیونکہ خداوند کہتا ہے  انتقام  لینا میرا کام ہے میں ہی بدلالونگا’’۔  مگر خدا  جو راستی کا بانی  اور اپنے لئے آپ ہی  (دراصل واجبی بدلا خدا ہی لے سکتا ہے۔ کیونکہ قوانین  اخلاقیہ  کی منزلت  کو جو واقفی  اور قدر خدا کو ہے وہ انسان کو نہیں  ہے۔ اس لئے لوگ آپسمین خطا ؤنکا واجبی  بدلا نہیں  لے دے سکتے۔ ملکی  کچہریوں کی سزائیں بھی محض  اٹکلیں ہیں) شرع ہے اور اسکا محافظ  ہے یونہی  اندھا دھند  کیونکر  گناہگار  کو بخش سکتا ہے ؟  نافہمی  کے سبب لوگ اپنے تئیں  دھوکھا دیتے ہیں ۔ بیشک  خدا محّبت  ہے  اور اس وجہ  ہماری نجات کے امکان کا گمان  ہو سکتا ہے لیکن اسبات  کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ وہ محّبت  اس حال میں نجات کس صورت  سے دے سکتی ہے۔  فقط اس صورت  سے خدا راست ٹھہرے  اور انسان بھی بچ جاوے مگر راستی اور انصاف سے تجاوز کر کے وہ  حاکم  الحاکمین گناہگار  کو چھوڑ نہیں سکتا۔ خیال  رہے  کہ خدا کی محّبت میں یہہ مقدور ہے کہ خدا راست ٹھہرے اور انسان بھی بچ جاوے۔ پھر کاہیکو داہی  خیال کریں۔ اُس محبت کا پتا اور اس محبت  کی کارروائی کا بیان خدا نے اپنے  کلام میں یوں  بتلایا  ہے۔ ‘‘خدا نے اپنی محّبت ہم  پر یوں ظاہر کی کہ جب  ہم  گناہگار  ٹھہرے تھے مسیح ہمارے  موا’’۔ نامہ  رومیوں ۸:۵ ۔ محّبت  کی اس کارروائی  کابیان ہم آئیندہ دفعات  مین کرینگے۔

عیسوئیت  شافی قدرت ہے دفعہ دوم ۔ نجات یعنی گناہ کا کفارہ  ( دیکھو  نور افشان نمبر  ۱۵ سن ۱۸۸۹ء)

امر اوّل ۔ اصوِل درمیانی

واضح ہو کہ جسمانی  اور اخلاقی  قوانین  میں یہہ صداقت مشترک  ہے کہ ہر نتیجہ  کا کوئی  سبب  ہے۔ پر جب سبب کے لازمی نتیجہ  کو دُور  کرنا بدلنا ہو تو  اسکے لئے یہہ انتظام  پایا جاتا ہے کہ سکی غیر شے یا  قدرت کو درمیان لانے سے امر  مطلوبہ حاصل ہو گا ۔ جیسے زہر اور اسکے نتیجہ ہلاکت کے درمیان زہرمہرُہ  زہر کے نتیجہ  ہلاکت کو صحت سے بدل دیتا ہے۔ بغیر ایسے  درمیانی کے سبب  کا لازمی نتیجہ بدل نہیں سکتا یوناؔنی  اور انگرؔیزی  اور  ویؔدک حکمت اسی بات کی شہادتیں  ہیں  اور قدرت کے اسی تقاضی  کے موافق دنیا کے لوگوں نے شافی زریوں کو درمیانی  لانیکی  ہدائت  کی ہے۔اور پھر دیکھو  کہ جہالت  کے بُرے  نتیجوں سے بچنے کے لئے علم و ہنر کا درمیان ضرور ہے ۔ خدا  خود انتظام  عالم  کی معمولی  حالتوں میں معمولی  زریعوں سے  کا م کرتا  ہے جیسے  خشک سالی کے مُہلک نتیجہ  سے بچنے کے لئے ابرباران کو درمیانی  لاتا ہے  اور خاص  حالتوں  میں غیر معمولی  قدرت  کو درمیانی لاتا رہا ہے۔ اور نتیجوں  کو جو اپنے اپنے اسباب کے تقاضیٰ  کے موافق ہونیوالے تھے بدلتا رہا ہے۔  معجزات  اس قسم کی باتوں  میں شامل  ہیں۔  یہی  اصول اخلاقی  باتوں  میں بھی ہے۔  گناہ ایک مُہلک  مرض ہے۔ ہلاکت اسکا نتیجہ ہے۔ پس گناہ اور اسکی  سزا  میں ایسا  درمیانی  ہونا ضروری ہے جو گناہ  کی سزا کو ہمارے اوپر سے ٹال  دیوے گا ایسا  کرے کہ گناہ تو ہے مگر اُسکا نتیجہ سزا نہ رہے بلکہ نجات  سے بدل  جاوے موت سے بچانے  کے لئے  زندگی کا درمیان آنا ضروری ہے۔

امر دوم۔ مسیح درمیانی

ایک طرف قوانین  اخلاقیہ  کا تقاضی  یہہ ہے کہ ‘‘ گناہ کی مزدوری  موت ہے’’۔ اور دوسری طرف خدا کی محّبت  کا یہہ  تقاضی  ہے کہ اِنسان موت سے بچے ۔ اب کیونکر بچے اور خدا بھی راست ٹھہرے ؟ امر دل میں جو اصولی  درمیانی کا ہم نے  معلوم کیا اسکو گناہ اور اسکی سزا کے درمیان لاوے تب سزا کا تعلق درمیانی  کے ساتھ  اور نجاتکا تعلق  گناہگار  کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ قوانین  قدرت  کی یہی طرز محبت الہیٰ  نے اختیار  کی جسکی فی الواقعی  تفصیل  انجیل مقدس  میں یوں  کی گئی ہے کہ ‘‘خدا نے اپنی  محّبت ہم پر یوں  ظاہر کی کہ  جب ہم گنہگار  ٹھہرے  تھے  مسیح ہمارے بدلے  موا’’۔  ( رومیوں ۸:۵) ‘‘ خدا اور آدمیوں کے بیچ  ایک آدمی بھی درمیانی ہے وہ مسیح یسوع ہے’’۔ (ا۔ تمطاؤس ۸:۲)۔ اِن دونوں امور سے ہم جانے سکتے ہیں  کہ انسان  کی نجات قانون قدرت کے موافق  ہے۔

کنی ہو تری صاحب اپنے رسالہ باپ اور امر جیون  کے صفحہ ۶۲،  ۶۸ میں باپ اور اُسکے  سزا یعنی کفارہ کا یوں  بیان  کرتے کہ ‘‘ باپ کی اصل  سزا اور اُسکی  سزا  اور اُسکے ساتھ کشمکش اُسوقت سے  شروع ہوتی ہے جسوقت  سے پاپی پاپ جیون  سے پھر کر نئی زندگی میں قدم رکھتا ہے۔ اُسی حالت  میں دل کے اندر ہی اندر  ایک ایسی  آگ  سُلگنی شروع  ہوتی  ہے جسکی  جلن سے دل کو بڑی  خوفناک  تکلیف پہنچتی ہے۔ اِسی دل کو جلن  سے  کو انوتاب کی آگ کہتے ہیں۔  روحانی  انو تاپ یا جلن ہی باپ کی سزا یا اُسکا اصل  کفارہ ہے۔ اولاً یہہ وہی  بات ہے جسکو  توبہ  کہا جاتا ہے۔ مگر یہہ پچھتانا  باگناہ کی سزا انہیں ہو سکتا اور نہ سزا کا عوض  کفارہ ہو سکتا ہے۔ یہہ جلن گناہ  سرزد  شدہ  کا کفارہ نہیں  ہے البتہ نیکی کرنے  اور گناہ ترک  کرنیکا اقرار  اور  اِرادہ  ہے۔ ایسی بات اُس حالت  میں کفارہ ہو سکتی ہے اگر شرع میں کچھ  تخفیف  ہو گئی ہو یا کچھ تبدیلی  ہو گئی ہو جسکی وجہ سے ایسی  رعائتیں سزا میں ہو سکیں۔ ثانیاً ۔ معلوم ہووے کہ اخلاقی  چلن کی ایسی  مختلف  قسمیں  اور متفرق درجے ہو گئے  ہیں کہ صحیح طور سے معلوم کرنا  نا ممکن ہو گیا ہے کہ کونسا آدمی پورے درجے کا نیک آدمی ہے اور  کہ کہانتک اور کس قسم کی نیکی  کرے کہ بہشت کا وارث  ہو جاوے۔اور کہانتک اور کس درجہ اور قسم کے گناہ جنّہم  میں لیجاونگے۔اِس حال میں ہماری روحانی  جلن کی  کیا حیثیت ہے۔ اور پھر ثا لثاً  خدا کی  عدالت اسقدر  بے حد راست ہے کہ انسان کو اپنی توبہ یا نیکی کے زریعہ  سے نجات کا یقین  نہیں  ہو سکتا ہے۔ شائد اسکی بے حد  راستی  کے سامنے انسان ک برُی  نیکی بھی قاصر  ہو۔ اِس حا ل میں روحانی  جلن اور توبہ وغیرہ  صرف  فرصی کفارہ  ہو گا۔  دیکھنا کہیں  دھوکھا  نہلگ جائے۔ ‘‘ جسوقت لوگ کہتے ہو نگے کہ سلامتی اور بے خطری  ہت تب  جسطرح حاملہ کو درد لگتے ہیں اُنپر ناگہانی  ہلاکت آویگی اور وے نہ بچینگے۔’’ ( ۱ تسلونقییوں ۳:۵) یاد رہے  کہ آنیولی سزا کو  جانکر پچھتانے  سے کام  نہیں بنتا ۔  اس سزا کو دور  کرنیکا  تدراک ہونا چاہئے۔ اس حال میں درمیانی کیا کرے؟ جواب یہہ ہے کہ کفارہ  و دیوے۔  ہم خود  اپنی طرف سے کوئی کفارہ نہیں دے سکتے۔  اگنی ہوتری  والی  بات دھوکھے  سے بھری ہے۔ خبردار  ہو جاو۔ خدا کے قوانین  کو ہم اپنی مرضی  کے موافق نرم یا سکت نہیں کر سکتے۔

امر سوم۔ کفارہ کی ضرورت

چند باتوں  کا زکر کیا چاہتا ہوں جنسے کفارہ کی ضرورت واضح ہو گی۔

(۱)۔ دنیا کی دینی  تواریخ  اسبات کو واضح  کرتی ہے کہ لوگ عموماً کفارہ کی ضرورت کے قائل رہے ہیں ۔ نہ صرف  توریت بلکہ  دیگر دینی  کتابوں میں اور رسموں میں یہہ بات صا ف ظاہر ہے کہ  گناہوں  کیواسطے کسی نہ کسی  قسم کا کفارہ دیا جاتا تھا تاکہ  خدا یاد یوتوں کی ناراضگی دور ہو جاوے۔ اسبات کو کھوجنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی آدم میں شروع  ہی سے کفارہ یا قربانی کی رسم رائج  رہی ہے۔ جس سے یہہ نتیجہ  حاصل  ہوتا ہے کہ  لوگوں  کو یقین  تھا کہ بغیر کفارہ  کے خدا گناہ نہیں  بخش سکتا۔انجیل ہی کفارہ کو پیش کرتی ہے۔  پس ظاہر ہےکہ ُکل دنیا کا اِس  بات پر اتفاق رہا ہے  گناہ کی سزا  سے بچنے  کے لئے کفارہ  ضروری ہے۔

(۲)۔ انسان کی اخلاقی حالت اور خدا  کی اخلاقی حکومت  کے رو سے  کفارہ  کی ضرورت  کے لئے  یہہ بات  عیاں  ہے کہ اگر عدولی شرع کی سزا  دیجاتی  تو لوگ ایسی  اخلاقی  بغاوت  سے باز  رہتے۔ لیکن سزاؤں  کے زریعہ سے دل مغلوب  نہیں  ہوتا  خدا  کا خوف  ضرور  ہو جاتا ہے  جیسا شیاطین کو بھی  ہے لیکن خدا کیطرف  محّبت  بالکل نہ ہوتی۔ پس  تاکہ  گناہگار  خدا سے محّبت  رکھیں  یہہ ضروری  تھا کہ  خدا  پہلے  اُنسے  محبت دکھلاوے۔ اور محّبت  کا ظہور عدالت  کے ہوتے ہوئے بدون کفارہ  کے نہیں ہو سکتا ہے۔  اور پھر اگر  شیروں کو بالکل نیست و نابود  کر دیوے تو حکومت  الہی قائم  نہیں  رہتی۔  اور محّبت  کا سارا  ظہور ضائع  ہو جاتا ہے۔ مگر یہہ ضروری امر تھا کہ  خدا کی حکومت  قائم  رہے  اور گناہ  بھی روکا  جاوے۔  اسبات  کی واقعی  نظیر  ہےکہ سزا  گناہ کو روک نہ سکی نہ اس دنیا  مین اور نہ کہیں اَزر۔ پس یہہ دونوں  امور  کفارہ  ہی سے حاصل  ہو سکتے ہیں۔

(۳)۔ شریعت  کے ضروری  تقاضی  کے ہوتے  ہوئے  اگر گناہگار  کو یونہی  بخشا  جاوے  جیسا اگنیؔ  ہوتری  صاحب کا منشا ہے تو اس سے ظاہر یہہ ہو گا کہ گناہ  خدا کی نظر میں چنداں  برُی  چیز نہیں ہے  اور عدولی کی سزا  بھی  لازمی  نہیں ہے ورنہ یہہ رعائت  نہ کی جاتی مگر کفارہ  خدا کو اِس الزاموں  سے بری رکھتا ہے۔

(۴)۔ انتظام الہیٰ کے اِن  غیر زائل  تقاضوںں کے موافق انجیل مقدس کا اظہار یہہ ہے۔ ‘‘اسلئے کہ جو شریعت سے جسم کی کمزوری کے سبب نہو ہوسکا سو خدا سے ہوا کہ اُسنے اپنے بیٹے  کو گناہگار  جسم کی صورت  میں گناہ  کے سبب بھیجکر گناہ پر جسم  میں سزا کا حکم کیا’’۔ (رومیوں ۳:۸) ‘‘ اسلئے کہ سبہوں نے گناہ کیا اور خدا کے جلال سے محروم  ہیں۔ سو وے  اسکے فضل  سے اُس  مخلصی  کے سبب جو مسیح یسوع  سے ہے مفُت  راستباز گنےجاتے ہیں  جسے خدا نے پیش کیاکہ ایک کفارہ ہووے۔ الخ (رومیوں۳: ۲۳۔ ۲۵) جب معلوم ہو گیا کہ درمیانی  کو ضرور ہے کہ گناہگار کی نجات کے لئے کفارہ  دیوے تو اب سوال  یہہ ہے کہ کفارہ میں کیا دیوے؟ جس کا جواب یہہ ہے کہ شریعت  کا تقاضی  یہہ ہے کہ ‘‘ گناہ کی مزدوری موت ہے’’۔ پس ضرور ہے کہ وہ درمیانی  گناہ کی سزا  یعنی موت بھوگے۔‘‘بغیر لہو بہائے معافی نہیں ہوتی۔’’ ( عبرانیوں ۹:۲۲)۔

دفعہ ۳أ کفارۂ مسیح

واضع ہو کہ کفارہؔ کی بابت  توریت میں یوں  لکھا ہے کہ اپنی خطا کی قربانی  اور اپنی  سوختنی  قربانی  گزران اور  اپنے  لئے اور قوم کے لئے کفارہ دے (احبار ۹:۷ اس کے لئے عبرانی  لفظ  کو قرؔ ہے اور اسکے  معنے ہیں  ڈھاؔپنا۔ مطلب  اِس سے یہہ ہے کہ قربانی سے گناہ  ڈھانپا جاتا ہے۔ اِس مطلب  کو ادا کر نیکے لئے کئی الفاظ  انجیل مقدس میں استعمال  کئے گئے ہین۔ مثلاً جب  گناہ کو خدا اور انسان کی رفاقت کا توڑنے والا کہا گیا تو کفارۂ  مسیحؔ کو ملاپ  کروانے والا بیان کیا گیا ہے۔ ( رومیوں ۵: ۱۱) جب انسان کو گناہ کے سب  گناہ کی اور شیطان  کی غلامی  میں سمجھا گیا  ہے تو مسیح کی موت  کو فدیہؔ  یا قیمت کہا گیا ہے۔ (۱۔ قرنتیوں۶: ۲۰ ۔ اور  تمطاؤس  ۲: ۶) جب گناہ ایک بوجھ سمجھا گیا ہے  رو مسیح کی موت اس بوجھ  کو اٹھا نیوالی  کہی گئی ہے ( عبرانیوں ۹: ۲۸) جب گناہ ایک  پلیدگی  یا ناپاکی کہا گیا  ہے تو  مسیح کا خون اِس  ناپاکی سے پاک  کر نیوالا بیان کیا گیا ہے۔  ( ا۔ یوحنا ۱: ۷)  غرضکہ یہہ سب مسیح کے کفارہ میں شامل  ہیں۔  ان سے کفارہ کا مقصد  طرح بطرح  بیان کیا گیا ہے۔ اور مسیح کے کفارہ  میں کفارہ کا اصل  مطلب ڈھانپنے کا یعنے گناہوں کو ڈھانپنے  کا قائم  رہتا ہے۔ 

اسکے علاوہ یہہ بھی  یاد رہے  کہ ہر قسم  کی دینی  رسم  جو خدایا  دیوتوں  کو خوش کرنے کے کئے کی جاتی ہے اسکو کفارہ یا عوض کہا جا سکتا ہے۔  عبادت خواہ  کسی قسم کی ہو لوگ اس کے زریعہ  سے گناہوں  کی سزا سے بچنے کی توقع رکھتے ہیں۔  قربانی خواہ اونٹ یا گائے  یا گھوڑے  یا بکری  یا انسان کی ہو اِس سے بھی یہی اُمید رکھی جاتی تھی  اور اب بھی رکھی جاتی ہے۔ لیکن اِن کفاروں پر لوگوں کا پورا اور یکساں یقین نہیں رہا ہے۔ تاہم  غور طلب  امر  یہہ ہے کہ جس حال  میں گناہ  کی سزا سے بچنے  کے لئے  کفارہ ضروری  ہے تو معلوم  کریں کہ وہ کونسا کفارہ ہے اور وہ کفارہ کیسا  ہونا چاہئے۔ ہر چیز یا خیال تو وہ کفارپ نہیں ہو سکتا۔ بلکہ وہ درمیانی  جو سبب کے لازمی نتیجہ کو بدل سکے ضرور  ہے کہ اس میں یہہ خوبی اور تو فیق ہووے  جو ایسا کر سکے۔ مثلاً پانی میں ڈوبنے  سے بچنے  کے لئے  پانی پر چادر بچھا کر نہیں بیٹھتے۔ نہ پتھر پر سوار ہوتے ہین لیکن جہاز اور کشتیاں درمیان  لاتے ہیں۔ بھوکہہ ہٹانے  یا بھوکہہ کے مارے  مرجانے سے بچنے کے لئے مٹی یس لکڑی وگیرہ پر گزران نہیں کر سکتے۔ نباتات  یا گوشت وغیرہ  استعمال کئے جاتے ہیں۔ اور ایسا نہ کرنا  خلاف  قدرت ہو گا اور بجائے اسکے کہ پانی یس بھوکہہ سے بچیں  ہلاکت زیادہ  یقینی ہو گی۔  اسیطرح ہمکو جاننا چاہئے کہ ناقص  اور  کمزور زریعوں  سے  ہمارے گناہونکا  کفارہ نہیں ہو سکتا۔ اسبات کے لئے کہ جانوروں میں خواہ  وہ کنعاؔن میں قربانی کئے جاویں  اور خواہ  ہندوستانؔ میں  یہہ توفیق اور خوبی  نہیں ہے کہ ہمارے گناہوں  کاکفارہ  ہو سکیں  پولوس رسول کا خط  عبرانیوں کو غور سے پڑھنا چاہئے۔ خصوصاً  باب ۹  آیت ۱۰۔ ۱۴۔اسیطرح مکہّؔ  اور گنگا جسمانی چیزیں ہیں  اور ہماری  روحانی  سزا کو دور نہیں کر سکتے۔ دونوں میں کچھ  نسبت ہی نہیں ہے۔ اور کلمہؔ اور گائتری  جو صرف  لفظ تکرار ہیں  کو ئی  واقعی  کفارہ  ہمارے گناہوں  کا نہیں  ہیں۔ اور نہ ہو سکتے ہیں کیونکہ ان میں  کوئی  زاتی  خوبی  نہیں ہے۔ اور حقیقت  میں جب  انسان اخلاقی قوانین کے تقاضیٰ اور اُس کی سزا کو سمجھتا  اور فکر کرتا ہے تو  ایسی  باتوں  پر اسکا یقین قائم  بھی نہیں ہو سکتا۔ ایسی ہی گمرہیوں  سے بچانے  کے لئے  خدا نے اپنا کلام  یعنے  انجیل بخشی ہے۔ اور اُسمیں سبہوں کو ایک کفارہ  بتلایا ہے۔ جس میں یہہ  خوبی اور توفیق  تھی کہ گناہوں کا کفارہ  ہو سکے۔ اور وہ مسیحؔ خداوند  ہے۔  اب پیشتر اِس سے کہ  اِس واقعی  کفارہ کا زکر کیا جاوے یہہ معلوم کرنا  ضروری ہے۔ کہ مسیح میں کیا خوبی اور قدرت تھی جسکے سبب وہ ہمارا  درمیانی  یا کفارہ  ہو سکتا تھا۔

امر اول مسیح کی ذاتی  عظمت  اور قدرت

(جب آنخداوند مسیح  نے اِس  دنیا میں ظہور فرمایا۔)

اس سے پہلے جو کچھ انبیاء سابقیں نے اُن کی شان میں پیشین گوئی کے طور پر لکھا تھا اسکو یہاں نقل کرنے سے کلام طول ہوتا ہے اسلئے  جو کچھ انجیل میں اُنکی  زاتی  عظمت  اور قدرت کی نسبت بیان کیا گیا وہی پیش  کیا جاتا  ہے۔ چنانچہ  اسبات  کو ظاہر کرنیکے لئے  خداوند نے خود  شاگردوں سے پوچھا  کہ ‘‘ لو گ کیا کہتے ہیں کہ میں  جو ابن آدم ہوں  کون ہوں؟’’ اور اس  جواب کو کہ  تو مسیح  زندہ خدا کا بیٹا ہے’’ درست کہا۔ ( متی باب ۱۶) اب مسیح  کی زاتی منزلت  ہم دو صورتوں  میں معلوم کرتے ہیں۔ ایک اسکی الوہیت میں اور  دوسرے  اسکی انسانیت  میں۔ کسی بشر یا شے میں یہہ باتیں موجود نہین ہیں اور نہ کبھی  ہوئیں۔ اور وہ چیزیں  جسکو لوگ مانتے  ہیں اُن میں تو محض انسانیت والی فضیلت بھی نہیں ہے۔

مسیح کا نام یسعیاہؔ نبی عجیب ؔ لکھتا ہے(۶:۹) اور مسیح کی کیفیت عجیب کو ایک بھید کر کے لکھا ہے کہ  ‘‘ با لا تفاق  دینداری  کا بڑا بھید ہے یعنی خدا جسم مین ظاہر کیا گیا ہے’’۔(۱۔تمطاؤس ۱۶:۳) اس بات کو یوحنا رسول  لکھتا ہے کہ  ‘‘کلام مجسم ہوا’’۔ یہہ وہی بات ہے جو رسول نے دوسری جگہہ یوں  بیان کی ہے کہ‘‘ الوہیت کا سارا کمال اسمیں مجسم  ہو رہا’’ ( قلسیوں ۹:۲) اور اسبات  کو مسیح خداوند  نے اپنے حق میں یوں  بیان کیا تھا ‘‘ میںؔ اور باپ ایک ہیں’’۔ (یوحنا ۱۰: ۳۰) ‘‘باپ جو مجھ ؔمیں رہتا  ہے وہ یہہ کام کرتا ہے’’ (۱۴:۱۰) اس الہیٰ منزلت کے لائق ویسا ہی  پاکیزہ جسم تیار کیا گیا۔  اور وہ بھی ایک اعلی طور سے۔ ( لوقا  ۱:۳۵) ۔ وہ (یعنے بیٹا)  اسکے (خدا کے) جلال کی رونق اور اسکی ماہیت کا نقش  ہو کے سب کچھ اپنی ہی قدرت کے کام سے سمجھالتا ہے۔ وہ آپ سے ہمارے گناہوں کو پاک  کر کے  بلندی پر  جناب عالی کے دہنے جا بیٹھا (عبرانیوں ۱: ۳) اِس بیان سے مسیح  کی زاتی  منزلت  اور قدرت اور اِس کی وجہ سے اسکا کام صاف طاہر کیا گیا ہے  یہہ سارا  انتظام  اسی لئے کیا گیا کہ مسیح کے کفارہ مین اس قابلیت کو پیش کرتا ہے کہ‘‘  کتنا زیادہ مسیح کا لہوؔ جسنے بےعیبؔ  ہو کے  ابدی  روح کے وسیلے  آپ کو خدا کے سامنےقربانی گزرانا تمھارے دلون اور عقلوں کو  مرُدہ کاموں  سے پاک کریگا  کہ تم زندہ خدا کی عبادت کرو۔’’ (عبرانیوں ۱۴:۹)

اس سے دو اعتراض دور ہوتے ہیں ۔ ایک یہہ کہ اگر کہا جاوے  کہ محض  ایک آدمی  گناہونکا  کفارہ نہیں ہو  سکتا تو یہہ ناممکن  امر  ممکن کیا گیا کہ ‘‘کلام مجسم ہوا’’۔  یعنے ‘‘خدائی  کا سارا  کمال مجسم  ہوا’’۔ اور اگر کہا  جائے  کہ خدا دُکھ  نہیں اُٹھا سکتا اور نہ مر سکتا ہے تو  اسی  حادثہ کو بر داشت  کرنیکے لئے ایک جسم تیار کیا گیا ۔ اور یوں مسیح میں الوہیت اور انسانیت پاک ہونیکی وجہ سے وہ کفارہ دینے کے لئے ہر طرح قابل ٹھہرتا ہے۔ اب زیل میں اِس کفارہ  کا بیان آتا ہے  جس سے گناہگاروں  کی نجات ہو گئی ہے۔

امر دوم ۔ کفارۂ مبارک

(بغیر لہو بہائے معافی نہیں ہوتی)

اِسی لِئے وہ دُنیا میں آتے وقت کہتا ہے کہ تُو نے قُربانی اور نذر کو پسند نہ کِیا ۔ بلکہ میرے لِئے ایک بدن تیّار کِیا۔ پُوری سوختنی قُربانِیوں اور گُناہ کی قُربانِیوں سے تُو خُوش نہ ہُؤا۔ اُس وقت مَیں نے کہا کہ دیکھ! مَیں آیا ہُوں۔ (کِتاب کے ورقوں میں میری نِسبت لِکھا ہُؤا ہے) تاکہ اَے خُدا! تیری مرضی پُوری کرُوں۔’’ (عبرانیوں ۱۰: ۵۔۷)۔ اور بموجب اسکے ابن آدم آیا تاکہ ‘‘ خدمت کر اور اپنی جان بہتیروں کے لئے فدیہ میں دے۔’’ (متی ۲۸:۲۰) اور وہ کار عظیم یوں وقوع میں آیا کہ۔

نویں گھنٹے کے قریب یسوع نے بڑے شور سے چلاّ کر کہا ایلی ایلی لما سب سبقتانی!یعنے! اے میرے خدا اے میرے خدا تو نے کیوں مجھے چھوڑ دیا ؟ پھر یسوع نے کہا۔ پوُرا ہوا اور سر جُھکا کے جان دی (متی ۲۶:۲۷۔ یوحنا ۳۰:۱۹)

مسیح کی موت شہیدوں کی سی موت نہ تھی  جو اپنے ایمان کی شہادت  اور ازاں موجب اُمید عقبی کے لئے  مرتے ہیں۔ مسیح کی موت اُن لوگوں کی سی موت نہ تھی  جو حُبِ وطنی  کے لئے مرتے ہیں۔ اور نہ اُسکی موت محض  اسواسطے تھی کہ اپنی نیک  تعلیم کی صداقت پر گواہی دے۔ مسیح  کی موت اِس سب  باتوں کو شامل کرتی ہے ۔  اور ان سب سے اول اسبات کو کہ انسان کی نجات  ہو جائے۔ اور کہ اسکی موت میں یہہ خوصوصیت  تھی مسیح کی کے قول منقولہ بالا سے اور رسولوں کے اقوال سے ظاہر ہے۔ پطرس ۲۴:۲ ۔ وہ آپ ہمارے گناہوں کو اپنے بدن پر اُٹھا کے صلیب  پر چڑھ گیا وغیرہ۔ رومیوں۸:۵، ۹ خدا نے اپنی محبت  ہمپر  یوں ظاہر  کی کہ جب ہم گناہگار ٹھہر ے  تھے مسیح ہمارے واسطے  مواد وغیرہ ۔ دیگر تکیفات  اسکی موت کے  متعلق  اتفاقیہ باتیں تھیں  اور وہ بھی اسکو سنہی  پڑیں مگر گناہوں کا کفارہ فقط اسکی موت تھی۔

(۲)۔ معلوم ہووے کہ مسیح  خداوند  میں ایسی شان اور قدرت اسلئے موجود ہوئیں کہ ایسے عظیم الشان کی موت بیحدؔ گران بہا ہو جاوے تاکہ گناہگاروں  کی سزا یعنے ہمیشہؔ کے عذاب  کے بدلے میں فدیہ ہو سکے۔ ورنہ یہہ ہوتا کہ کفارہ دینے والا  ہمیشہ کے عزاب  میں گرفتار رہتا ۔  مگر  مسیح کی عظمت  اور قدرت  کی وجہ  سے کچھ  ضرور  نہ تھا کہ وہ ابدی عذاب  بھوگتا رہتا۔ اور اس حال  میں ہمیں  اتنا ہی جاننا اور ماننا کافی ہے کہ مسیح کی موت ہمارے گناہوں  کا کافی کفارہ ہے۔ ہاں ہماری نجات  کے لئے شافی قدرت ہے۔

اسکے ساتھ یہہ بھی جاننا چاہئےکہ مسیح کا کفارہ  عموماً عدالت کے تقاضیٰ کو پورا کرنے کے لئے  تھا تاکہ رحمت یا فضل کے لئے جگہہ ہو اور یہہ نہیں کہ ہر ایک گناہگار اب سزا نہیں پا سکتا۔ یعنے گناہگاروں  پر  سزا اب نہیں پا سکتا۔ یعنے گناہگاروں پر سزا اب نھی  ویسی ہی واجب ہے جیسے بغیر کفارہ کے ہوتی اگر وہ کفارۂ مسیح پر ایمان نہ لاویں ۔ پھر اسکو سمجھو کہ انتظام الہیٰ کا تقاضیٰ یہہ ہئ کہ قانوں کی پیروی درستی کت ساتھ ہووے۔ اور ہر ایککے لئے اس سے خوشی اور فائدہ حاصل ہووے ( اسبات کا ہم پہلے  بیان کر چکے ہیں) اب چونکہ اس قانون کے تقاضیٰ  کے برخلاف انتظام  مطلوبہ  میں قصور واقع ہوا اسلئے  عدالت  کا یہہ تقاضیٰ  ہوا کہ شریعت کا فتویٰ  ہر ایک عدول کرنے والے پر وار کیا جاوے اور یا اُن کے بدلے کفارہ دیا جاوے  تاکہ سزا سے بچ  سکیں۔ ظاہر  ہے کہ سزا کی نسبت کفارہ میں  سلامتی تھی۔ اور اسلئے کفارہ دیا گیا کہ انسان کے لئے زندگی  اور خوشی ممکن  ہو جاوے۔ اور یہی باعث ہے کہ اگر کو ئی کفارہ مسیح سے بے ایمان رہے تو وہ عدالت کے تقاضیٰ کے تحت میں رہتا ہے ۔ اور جو ایمان لاتے ہیں وہ ہمیشہ کی زندگی کے وارث  ہوتے ہین۔ مسیھ کے کفارہ کا یہہ منشا ہم رومیوں  ۳: ۲۳۔ ۲۶۔ میں مندرج  پاتے ہیں۔ اسلئے  کہ سبہوں نے گناہ کیا اور خدا کی کے جلال سے محروم ہیں ۔ ہووے اسکےفضلؔ سے اُس مخلصی کے سبب جو یسوع مسیح سے ہے مفت  راستباز گنے جاتے ہیں۔ جسے خدا نے پیش کیا کہ ایک کفارہ  ہو  جو اسکے لہو  ا پر ایمان لانے سے کام آوے ۔ تاکہ وہ اپنی راستی اگلے وقت کے گناہوں  سے  صبر الہیٰ کے باعث طرح دینے میں ظاہر کرے۔ اور اِس وقت  کی بابت بھی  اپنی راستی ظاہر کرے  تاکہ وہ  آپ ہی راسؔت ہے اور اُسے جو یسوع پر ایمان  لاوے راستباز ٹھہر اوے‘‘۔ غرضکہ خدا نے اگلے وقت اور اس  وقت میں اپنی راستی ظاہر کرنے کے لئے کفارہ دلوایا۔ اور اِس کفارہ پر ایمان لانے والے  ہی راستباز  ٹھہر سکتے ہیں اور دوسرے  جیسے کے تیسے گناہگار اور غضب  کے فرزند  رہتے ہیں۔ اسکے مطابق خداوند مسیح  نے خود فرمایا تھا دیکھو انجیل  یوحنا  ۳: ۱۶۔ ۱۹۔ اسمیں دونوں باتیں  آگئیں کہ کفارہ سب کے لئے ہوا اور یہہ بھی کہ بر گزیدوں کے لئے ہوا تھا۔ بھائیو شکر اور فکر کی جاہے۔

(۳)۔ پھر خیال رہے کہ مسیح کا کفارہ  اسبات میں نہیں ہے کہ اُسنے گناہگاروں کے بدلے شرع اخلاقی کی فرمانبرداری کردی ایسا کہ اب ہم سے اُسکی فرمانبرداری  مطلوب نہیں ہے۔ بعضے ایسا خیال  کرتے ہیں اور مخالف  اسکو طنزاً اعتراض کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ مگر یہہ خیال کلام الہیٰ کے برخلاف ہے۔  سو واضح ہو کہ شرع اخلاقی پر عمل کرنا کدا اور انسان دونوں  پر واجب  ہے۔ اور ایسا ہی  مسیح پر بھی واجب تھا۔  سو اگر اُسنے شرع اخلاقی  کی فرمانبرداری کی تو اپنے واسطے کی نہ ہمارے عوض میں۔ اور پھر اگر مسیح کی فرمانبرداری ہمارے بدلے تھی تو پھر وہ خود  لوگوں کو اور خصوصاً  اپنے ایمانداروں کو اسکی اطاعت  کی تاکید کیوں فرماتا ہے۔  اور پھر مسیح  کو کیوں موت دیکھنی پڑی جبکہ اُسنے ہمارے بدلے  نیکی کر دی تھی۔ ایسا خیال انسان کو کل واجبات سے سبکدوش کرتا ہے۔ مگر کفارہ مسیح کا  یہہ منشا نہیں تھا۔  بلکہ کفارہ کے سبب یہہ بات اور بھی واجب ہو گئی کہ ’’ ہم اس سے محبت رکھتے ہیں اسلئے کہ پہلے اُسنے ہم سے محبت رکھی۔ اے پیارو جب کہ خدا نے ہم سے ایسی  محبت  رکھی تو لازم ہے کہ ہم بھی  ایک دوسرے سے محبت  رکھیں‘‘۔ ( یوحنا ۴: ۱۹، ۱۱) اب اُمید ہے کہ ناظرین سمجھ جائینگے کہ کفارہ کسبات مین ہے۔ اور کنکے لئے ہے۔

امرّسوم۔ کفارۂ  مسیح کا فائدہ

مسیح کے کفارۂ  کی قدر اُن  فائدوں کے سبب سے ازحد واجبی ہے جو اس سے حاصل  ہوتے ہیں۔ کفارہ کی قابلیّت  صرف اسبات مین نہیں ہے اِسکے  زریعہ سے  راہ نجات  کھل گئی ہے بلکہ  اسبات میں بھی  ہے کہ وہ اخلاقی قدرت ہے یعنے اس میں نیکی اور خوشی کی افزائش کے لئے قوی  ترغیب  ہے اُس میں یہہ ذور ہے کہ انسان کی مرضی  کو نیکی  کی طرف مائل  کرے اور وہ اسطرح  سے کہ کفارۂ  مسیح  راستی اور محبت کا نمونہ  ہے۔ اور نمونہ میں برا  زور ہوتا ہے۔ صلاح  اور نصیحت  اور تعزیر میں بھی زور  تو ہے مگر نمونہ  میں سب سے بڑھکر قدرت اور تاثیر  ہے تاکہ اِنسان کی طبیعت  کو نیکی کی طرف  پھیرے ۔ اگر بڑوں  کا نمونہ چھوٹوں  کے لئے اور نیکو نکا  نمونہ بدوں  کے لئے  کار گر ہے تو خدا کا نمونہ عالم میں  سب سے  زیادہ  اخلاقی  تاثیر  رکھتا ہے۔ خدا کے کلام  اور احکام  اور دھمکیوں  اور وعدوں  میں قدرت  تو ہے۔ مگر اسکا نمونہ اِن سے بڑھکر  زور رکھتا ہے۔ 

اب ایک دوسرے سے بھلا کرنا  نیکی  ہے۔ اور خدا سے  سب یہہ نیکی طلب کرتا ہے۔ جو نیکی نہ کریں  اُنکو سزا کے لائق  قرار دیتا  ہے ۔ جو نیکی نہ کریں اُنکو سزا کے لائق قرار دتیا ہے اور جو کریں اُنسے  ہمیشہ  کی زندگی کا وعدہ کرتا ہے ۔ لیکن اس امر میں اسکا  اپنا نمونہ  محبت  کا جو اُسنے کفارہ میں دکھ  لایا ہے سب سے قوی اخلاقی  تاثیر رکھتا ہے۔ چنانچہ یہہ نمونہ پیش  بھی کیا گیا ہے۔ ’’ اے پیارو  جبکہ خدا نے ہم سے ایسی  محبت رکھی  تو لازم  ہے کہ ہم بھی  ایک دوسرے سے محبت رکھیں۔‘‘ ( ۱۔ یوحنا ۴: ۱۱ ) یعنے کدا نے کفارہ سے انتظام اخلاقیہ کی غرض کو قائم رکھا بلکہ اسکو لازمی ثابت کیا کہ انسان  نیکی کرے اور خوشی حاصل کرے۔ پس عالم میں سب سے قوی  چیز جو انسان کو نیکی کی طرف مائل کر سکتی ہے۔ وہ کفارہ ٔ مسیح ہے اور اُس سے دو گونہ  فائدہ حاصل ہے۔ ایک یہہ کہ گناہگاروں  کے لئے نجات ممکن  ہو جاوے۔ دوسرے  یہہ کہ  نیکی کرنے اور ازاں  موجب خوشی  اور ارام حاصل اور ارام حاصل کرنے کے لئے قوی موجب  اور ترغیب ملجاوے۔ اسلئے  مسیحؔ انسان کے لئے شافی قدرت ہے کہ نہ صرف  گناہ کی سزا سے بچاتا  بلکہ گناہ سے پاک بھی کرتا  ہے۔ اے گناہگارو! اور کیا چاہئے؟ اور مسیحی بھائی جانین کہ کیوں خداوند اپنے ایمانداروں سے فقہیوں اور فر یسیوں۔ ہندؤں اور محمدیوں کی راستبازی سے زیادہ  طلب کرتا ہے۔ روحانی  زندگی اور نئے  جنم کی کیوں تاکید  کرتا ہے۔ ہاں ہر ایک آدمی جانے کہ مجھ پر کیا فرض  ہے۔

دفعہ ۴۔ ہمیشہ کی زندگی

("ہمیشہ کی زندگی یہہ ہے کہ وہ تجھکو اکیلا سچا  خدا اور یسوع مسیح  کو جسے تو نے بھیجا  ہے جانیں‘‘۔ یو حنا ۱۷: ۳ )

اس عنوان کے تحت میں یہہ واضح  کیا چاہتا ہوں کہ بغیر خداوند  کے روحانی  زندگی اور ہمیشہ کی زندگی ناممکن  ہے۔ یہی امر ہے جسکی تحصیل  کے لئے کفارہ ٔ مسیح  کا انتظام  کیا گیا تھا اور مسیح  کے کفارہ کی تاثیر کو سمجھنے کے لئے ضروری  ہے کہ ہم جانیں کہ ہمیشہ کی زندگی کیا ہے۔  اِس دنیاوی زندگی کے لئے  انسان کتنا فکر کرتا ہے اور اسکے قیام کی کیا کیا تدبیریں سوچتا  ہے تو  ہمیشہ کی زندگی کی زندگی کسقدت سوچ و فکر  کی متقاضی ہے  اور لوگ  اِسی کی نسبت زیادہ  تر بے فکر رہتے ہیں بعضے  تو اسبات کو مانتے ہی نہیں ۔ بعضے  جون بدلنا اور بعضے ناس ہو جانا مانے بیٹھے  ہیں۔ مدتوں سے اکیلے  دینؔ عیسوی کی یہہ آواز ہے  کہ ہمیشہ کی زندگی یہہ ہے کہ تجھکو اکیلا سچاّ خدا اور یسوع مسیح  کو جسے تو نے بھیجا  ہو جانیں۔ گناہگار نیچری انسان  کے لئے  خوشی کی خبر ہے کہ دین کی اِس دلیل  کے لئے  سائنس کی گواہی بھی ظاہر ہوئی ہے۔ اور زیل  میں کمترین  پر وفیسر  ہنری ڈرمنڈ  (ایف۔ جی۔ ایس۔ ایف ۔ ار۔ ایس۔ ای  )  کی کتاب  ’’  نیچرل لاء  ان دی  سپیرچل ورلڈ‘‘ سے اِس مضمون کا اختصار اور ترجمہ پیش کرتا  ہے۔ ناظرین غور  فرماویں۔

ابتک مسیحی فلاسفر نیستی  کے برخلاف عملی ثبوت پر صابر  رہا ہے۔ یا کہ ٹیلر صاحب  کے ساتھ اُسنے کیڑوں مکوڑوں  کی تبدیلی  صورت سے آئندہ زندگی کی دلیل نکالی ہے۔ اور یالاآف ؔ  کانٹی ینونٹیؔ  کی بناپر مکمل  اور موچر دلائیل  قائم کئے ہیں۔ اور اب پہلی بار  ہی کہ سائینس  بقا  کی تعلیم  میں دیں  عیسویؔ  کے ساتھ  صریح  اتفاق دکھاتا ہے۔ وہ ہمارے سامنے ہمیشہ  کی زندگی  کی ایک  واقعی تعریف  پیش کرتا ہے جو اُسکی لازمی شرطوں کی پوری  اور صحیح  تفتیش  پر مبنی ہے  سائنیس دعویٰ  نہیں کرتا کہ وہ اُن شرطوں کو پورا  کر سکتا ہے۔ اسکے پیرؤ ہمیشہ کی زندگی کے قابض ہونیکا دعویٰ  نہیں کرتے۔  وہ ہمیشہ کی زندگی کی صرف ضروری شرائط  کا تقاضیٰ  کرتا ہے۔ اور اِس بات سے سروکار نہیں  رکھتا کہ کوئی قدرتی وجود ایسا ہوگا  یا کہ ہےجو ہمیشہ کی زندگی  رکھتا ہے۔ اور وہ سوال جو ہم نے حل کرنا ہے یہہ ہے کہ وہ ہمیشہ  کی زندگی  رکھنے کا دعویٰ  کرتے ہیں کیا وے اُن شرطوں کو پورا کرتے ہیں جو سائنیس طلب  کر تا ہے۔ یاکہ وہ شرائط کچھ اور مین؟ خلاصہ یہ کہ ہمیشہ کی زندگی کا مسیحی  خیال سائنیس  کے مطابق ہے یا نہیں۔

مسٹر ہر برٹ ؔ سپین سر دجسنے کچھ مذہب کے لحاظ  سے ہمیشہ کی زندگی کی تعریف  نہین کی ، نہایت  ہوشیاری  سے  محیطؔ اور زندگیؔ ( انویرمنٹ اینڈ لائف) کی تشریح  کرتا ہے وہ اُس اصول کو ظاہر کرتا ہے جسکے بموجب زندگی اعلیٰ یا ادنیٰ دراذیا کوتہ ہوئی ہے۔ وہ دکھلاتا ہے قدرتی وجود کیوں  جیتے مرجاتے ہیں۔ اور آخر اُس شرط  کا بیان کرتا  ہے  جس میں کوئی وجود کبھی نہیں مریگا۔ جس میں وہ ایک دائمی اور کامل زندگی رکھیگا۔ البتہ یہہ اسکے لئے صرف ایک خیال ہے۔ ہمیشہ کی زندگی بائی آلوجی  ( یعنے  علم زندگی) کاایک وہم ہے۔ کیونکہ وہ شرائط جو ہمیشہ  کی زندگی کے لئے ضروری ہین اِس نیچری  دنیا مین موجود نہیں ہیں۔ 

مسٹر سپین سرَ صاحب کا بیان پیش  کرنے سے پہلے اگر ہم بائیؔ آلوجی کی چند سادہ حقیقتوں  کازکر کر کے اُس بیان تک رفتہ رفتہ پہُنچیں تو وہ زیادہ سمجھ مین آسکیگا یعنے اُن حقیقتوں  کا جنپر وہ بیان مبنی ہے۔ اِس سے پہلے ہم نے موتؔ کے مضمون پر غور  کرتے ہوئے  معلوم کیا کہ زندگی کے درجےؔ ہیں۔ اُس سے مراد یہہ ہے کہ بعض زندگیوں  کا محیطؔ  (انوئیر منٹ)  کے ساتھ زیادہ  اور پورا تعلق ہے  بہ نسبت اَوروں کے۔ اور پھر تعلق کا مقدار خلقی ِ ترکیب  کی زیادہ  یا کم  پیچیدگی کی وجہ سے  ٹھہرایا  ہوا ہے۔ مثلاً  اموئیؔ  با  (ایک جانور ہے ) جیسی سادہ بناوٹ والا وجود بہت  ہی تھوڑے تعلق رکھتا ہے۔ یعنے وہ صرف ایک شفاف  بے وضع لعاب کا تھیلا ہے۔ جسکے لئے قدرتی ترکیب نے کچھ نہیں کیا اور اس لئے وہ محیط  کے نہایت  چھوٹےحصے  سے تعلق یا رشتہ  رکھ سکتا ہے۔ لیکن ایک  کیڑا بہ سبب اپی زیادہ تر پیچدہ  بناوٹ  کے زیادہ تر وسیع حصہ کے ساتھ رشتہ رکھتا ہے۔ قدرت نے اسکو کئی  طرفوں سے محیط  کو پُہنچنےکے  لئے خاص  طاقتیں دی ہیں۔ اس میں اموئیؔ با کی نسبت زیادہ  زندگی ہے۔ اَور لفظوں  میں یہہ کہ وہ اعلیٰ  جانور ہے۔ پھر انسان کے جسم کے مختلف  قسم کے تعلقات  ہیں۔ وہ اپنے  گھیروں  کے ساتھ زیادہ  تر وسیع  رشتہ رکھتا ہے۔ اور اسلئے وہ زیادہ  اعلیی ہے۔ زیادہ جنیے  والا ہے ۔ اور یہہ قانون کہ زندگی  کا درجہ اُسی قسم کا ہوتا ہے۔ جیسا اُسکے تعلقات  کا درجہ  ہوتا ہے۔ جاندار چیزوں  کے سارے سلسلہ  میں سے  چھوٹی  چیز پر بھی عائد  ہوتا ہے۔

ہم معلوم کر ینگے کہ پیچیدگی  اور عمر درازی میں ایک خاص رشتہ  ہے  اور اسکا ہونا  ضروری ہے۔ جبکہ موت اس حال میں  آتی ہے  جب محیط میں کوئی تبدیلی  ہو  اور قدرتی بناوٹ  اپنے تئیں  اِس تبدیلی کے مطابق  کرنے میں عاجز  اُجائے  تو اِس  سے یہہ نتیجہ  حاصل ہوتا ہے کہ وہ  وجود  جو اپنے  تئیں  جلدی اور کامیابی کے ساتھ مطابق کر سکتے  ہیں  وہ زیادہ  دیر تک  جئینگے ۔ مثلاً ہر ایک حیوان کی محیطؔ میں بعض  چیزیں  جو صراحتاً  یا اشارتاً  زندگی کے لئے  نقصان کا باعث  ہیں۔  اگر اسکے تعلقات کا سامان  اسقدر پورا نہیں ہے کہ ہر ممکن حالت  میں اُن خطروں  کو باز رکھے  تو ضرور  ہے کہ فوراً  یا کچھ دیر میں وہ زیر ہو جاوے۔ پس وہ وجود جنکے تعلقات کا  سامان  پورا ہے یعنے نہایت اعلی اور نہایت  پیچیدہ  بناوٹ  جو کم پیچیدہ  صورتوں  پر ظاہر  افوقیت رکھتی ہے وہ اپنے تئیں زیادہ تر کامل طور سے اور اکثر  بار خطروں  کے مطابق  کر سکتی ہے۔ یعنے زیادہ جی سکتی ہے۔

اِس بیان  کو اُلٹانے سے یہہ بات زیادہ صاف  ہو جائیگی کہ جسقدر  حیوان  کی  اعلیٰ ترکیب  کم ہے اُسیقدر  اُسکو  اپنی محُیط  کے  ساتھ طول عرصہ تک  رشتہ رکھنے  کا کم موقعہ ہو گا۔  اُسکی زندگی کے زمانہ  میں کسی  نہ کسی  وقت ایسی  حالات  ضرور  واقعہ ہونگے جنکے ساتھ اسکی نا بڑھنے  والی  ترکیب  اپنے تئیں  مطابق  نہیں  کر سکتی۔ چنانچہ  میڈؔوسئ جو پانی  کی لہر کے زریعہ سے کنارے  پر آپڑے وہ اُس  نئی محُیط  کے ساتھ اپنے تئیں  ایسا بے تعلق  تاپا  ہے کہ  اُسکو اپنی جان گنوانی پڑے گی۔ اگر وہ اندرونی  تبدیلی  سے اپنے تئیں  بیرونی  تبدیلی  کے مطابق  کرنے کے قابل  ہوتا یعنے نئے محیط  کے ساتھ کافی رشتہ رکھ سکتا۔ چنانچہ  رینگنے  لگتا جیسا  کہ ایلؔ مچھلی  کرتی  اور یوں اپنے اُسی محیط  مین چلا  جاتا جسکے ساتھ اُسکا  رشتہ تھا تو اُسکی  جان بچ جاتی۔

پرندہ اپنی  زیادہ  پیچیدہ  ترکیب  کی وجہ  سے زیادہ  تر وسیع  محیط  پر حکم رکھتا ہے۔ وہ پہلے ہی سے ایسے  تدارک کر سکتا  ہے جو میڈوسہؔ  نہیں کر سکتا ۔ خوراک حاصل  کرنے کے لئے اُسکو بڑھکر  سہولتیں  ہیں۔ اسکے رشتے  ہر طرح  پیچیدہ  ہیں۔  اور اسلئے  چاہئے کہ وہ اپنی  زندگی  کو زیادہ  عرصہ  قائم  رکھ سکے۔ تاہم اور بھی زیادہ  تر وسیع  میدان  ہے جسپر اُسکا  کچھ  ھکم نہیں ہے ۔ اِسکی اندرونی تبدیلی کی طاقت اسقدر  کامل نہیں  ہے کہ کل بیرونی  شرائط  کی نسبت بھی محدود  ہے جنکے  ساتھ وہ صرف  کسیقدر قائم  ہو ا ہے۔ مثلاً  کسی چڑیا  کو معمولی  حالتوں میں  اسبات  کی بابت کچھ تکلیف  نہیں  ہوتی  کہ  اپنے تئیں  حالت  گرمی  و سردی کی تبدیلیوں کے مطابق  کرے لیکن اگر یہہ  تبدیلیاں  اِس حد  سے بڑھکر  ہو جاویں  جہاں اسکی قوت اپنے تئیں  اُنکےمطابق  کر نیکی ذائل ہوتی ہے جیسا  نہایت سردی  مین۔ تو قدرتی  بناوٹ  اُس شرط کو  پورا  نہ کر سکنے کی وجہ  سے ضرور  ہے کہ ہلاک  ہووے۔ مگر انسانی  وجود اس بیرونی  شرط کے مطابق  بھی ہو سکتا  ہے اور اَور بے شمار تبدیلیوں  کے مطابق  بھی ہو سکتا  ہے جنمیں  دیگر  ادنی  وجود  بلا شک  عاجز ہونگے۔ انسان کے تعلقات  یا رشتے  محیط  کے سب سے وسیع میدان  کے ساتھ ہیں۔ اور اسلئے چاہئے  کہ وہ  زندگی  کو سب سے زیادہ بڑہا سکے۔  اس سے ظاہر ہے کہ جیوں جیوں  زندگی کے سلسلہ  میں بڑھتے ہیں۔ تیوں تیوں  عمر درازی کے سلسلہ  میں بڑھتے ہیں۔ 

دفعہؔ ۴ ہمیشہ کی زندگی

اب ہمیشہ کی زندگی کی تعریف نظر  آنے لگی ہے۔ ضرور ہے کہ خِلقی  ترکیب  اُن عملوں  اور خوراک  کی تبدیلیوں کی پہنُچ کے باہر ہو جو اُن  حرکات  کو روکنے  والی ہوتی ہیں جو خلِقی ترکیب  کے اندر جاری ہوں ۔ ہاں ضرور ہے کہ ہم  اِس محدود ضلع  سے پار گزریں جہاں کے تعلقات  فانی اور جسمانی  زریعوں  پر منحصر  ہیں۔ اور اِس سے ایک پرے ملک میں داخل ہوں جہاں کہ محیط جسکے ساتھ تعلق  ہونا چاہئے خود  دائمی  ہے۔ ایسا محیط  ہستی میں ہے  یعنے روحانی  عالم کا محیط  اُن عملوں  کی تاثیر  سے باہر ہے۔ جو  کبھی جلدی کبھی دیر  میں  اُن حرکات کو روک دیتے  ہیں۔ جو تمام محدود  و وجودوں  کے اندر ہوتی رہتی ہیں ۔ پس اگر ہم ایک  ایسی  خِلقی  ترکیب  یو وجود پا سکیں  جنسے روحانی  عالم کے ساتھ  رشتہ قائم  کر لیا ہے تو اُس  رشتہ میں  ابدّیت  کے اصول  ہونگے  بشرطیکہ ایک اور شرط  پوری کیجاوے  اور وہ شرط  یہہ ہے کہ  محیط  کامل  ہو اگر کامل  نہ ہو  اور اگر سب سے اعلی نہ ہو  اور اگر اُسمیں تبدیلی  کی صفت ہو تو اسبات کی زمہداری نہین ہو سکتی کہ اسکے ساتھ تعلق رکھنے والوں  کی زندگی  دائمی ہو گی۔ ممکن ہے کہ اُس میں کوئی  تبدیلی  واقعہ  ہو۔ جسکا مقابلہ کرنیکے  لئے تعلقدار کو طاقت نہیں اور زندگی  اور زندگی ضرور  تمام ہو گی۔

اب ہم ہمیشہ کی زندگی کی بابت ہر برٹ سپنیر صاحب کی تعریف  پیش کرتے ہیں۔ اُسمیں ایسی  ہی شرطیں پائی جاتی ہیں جیسی اوپر  بیان ہوئی  ہیں۔ اور وہ یہہ ہے کہ ۔ ’’ کامل رشتہ  کامل  زندگی ہو گی اگر محیط  میں کو ئی تبدیلی  نہو  سوائے  ایسئیوں  کے جنکے مقابلہ کے لئے قدرتی  ترکیب  مین بھی اُنکے مطابق کی تبدیلیاں  ہوں۔ اور اگر  وہ اپنی طاقت  میں جس  سے وہ اُنکا  مقابلہ کرے کبھی زائل  نہو  تو ابدی زندگی  ابدی عرفان  ہوگا‘‘۔  اب ہم ہمیشہ  کی زندگی کی تعریف  کا خیال  کریں جو مسیحؔ نے کی ہے۔ سائینس  کے بموجب  کامل محیط کے ساتھ بے روک ٹوک  علاقہ ہمیشہ کی زندگی ہے۔ مسیح  کے قول کے بموجب ’’ ہمیشہ کی زندگی یہہ ہے کہ  وے تجھکو  اکیلا سچاّ خدا اور یسوع  مسیح  کو جسے تو نے بھیجا  ہوجانیں ۔‘‘ خدا کو جاننا ہمیشہ  کی زندگی ہے۔ خدا کو جاننا  خدا کے ساتھ علاقہ یا رشتہ رکھنا۔  خدا کے ساتھ  علاقہ رکھنا  کامل محیط کے ساتھ علاقہ رکھنا ہے۔ اور وہ وجود جو یہہ حاصل کرے ضرور ہے کہ ہمیشہ  زندہ رہے۔

سائینس اور دین  کی باتوں  اصلی موافقت  اسبات مین ہے کہ زندگی ایک خاص اور زاتی رشتہ پر منحصر ہے۔ اصل میں زندگی محیطوں کے ساتھ تعلق رکھنے میں ہی  صاحب ُہنر کے ساتھ رشتہ داری ہے۔ موصیفی کی زندگی راگ کے ساتھ رشتہ داری ہے۔ اُن کو ان محیطوں سے جدا کرنا اُنکی  زندگی کو جدا کرنا ہے۔ کل محیطوں  سے منقطع کیا جانا موت ہے۔ پھر ایک نیا محیط  پانا اور اُسکے ساتھ رشتہ قائم کرنا  نئی  زندگی ہے۔ دین کی  رُو سے بھی یہہ صحیح ہے۔ اسمین بھی زندگی کو ایک رشتہ بیان کیا گیا ہے۔

( حاشیہ پروفسیر  صاحب کے بیان سے یہہ خلاصہ حاصل ہوتا ہے کہ سائینس  نے ہمیشہ کی زندگی کا اصول اور امکان بتلایا  ہے۔ لیکن وہ کسی خاص کامل  محیط اور اُسکے  ساتھ علاقہ رکھنے والے کا پتا نہیں بتلا سکتا۔ دین کا اِس  بقیہ حاشیہ قانون کے ساتھ اتفاق ہے مگر اُس سے بڑھ کر وہ یہہ بتلایا ہے کہ  وہ کامل  محیط کیا ہے۔ اور ہمیشہ  کی زندگی والے کون  ہیں  سائینس کی اِس لاچاری کو اِنسان کے  لئے  اِ نسان کے فائدہ کے لئے دور کرنے کیواسطے  ضرور  تھاکہ  وہ محبت کل اُس محیط  اور رستکا اظہار فرماوے۔ تاکہ انسان اُس  طریق سے ہمیشہ  کی زندگی  حاصل  کر سکے  اور کرے۔ اور وہ اظہار یہہ ہے  کہ ’’وہ تجھکو  اکیلا سچاّ خدا  اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا ہے جانیں‘‘}  روحانی  عالم میں محیط  خدا ہے۔ اور وہ روحانی  اور زندہ  اور ابدی محیط ہے۔  ایسے  محیط کے ساتھ رشتہ رکھنے کے لئے  ہمیشہ تک جینا پڑیگا اور وہ چیز  جسکو سائینس  رشتہ یا تعلق  کہتا ہے وہی بات دین میں بھی ہے۔ یعنے صحُبت  یا شراکت اسکو ایمان  اور محبت سے بھی بیان کیا گیا ہے۔ جسطرح ہر محیط  میں تعلقات  کی اپنی اپنی طرز  ہے اُسیطرح  روحانی محیط  میں اپنی طرز ہے۔  اصول وہی ہے۔

جو اصول  اور نتیجہ پروفیسر  صاحب  نے واضح کیا ہےکہ اُسپر  ایک دو سوال ہو سکتے ہیں۔  اور جو کچھ صاحب  موصوف  نے اُ نکے  جواب میں لکھا ہے وہ بھی پیش  کرتا ہوں۔ اور وہ یہہ ہے کہ کیا سائینس سے ثابت  ہو سکتا ہے کہ خدا کے ساتھ شراکت ایسا رشتہ ہے  جو کبھی نہیں ٹوٹیگا؟ ہم سائینس سے ایسی  گواہی طلب نہیں  کرے ہم نے ہمیشہ کی زندگی کی بابت اُسکا خیال پوچھا  تھا اور جواب یہہ پایا ہے کہ ہمہشہ کی زندگی  ایسے  رشتہ  میں  ہے جو کبھی  موقوف نہیں ہوگا۔ اور  و  ہ  رشتہ  ایسے محیط  کے ساتھ ہے جو کبھی گزر نہ جائیگا۔ اور کامل رشتہ کی بابت سائینس اور کیا طلب کرتا  ہے جو کہ ’’ خدا کو  جاننے‘‘ میں نہیں ہے ؟ کو ئی اور شرط ایسی  پیش نہین کی جاسکتی جسمیں فنا  کی علات  نہ ہو۔ لیکن  یہہ یعنے خدا کو جاننا  یکساں۔

 اب سوال طلب یہہ  ہے کہ ایک جسمانی  بدن  ہے اور ایک روحانی ترکتیب ہے  جو اسکے ساتھ ایسی  ملی ہوئی ہے کہ  جدا نہیں ہو سکتی۔ اور اُنسے قبر  پر پل  باندھنا ہے۔ سائینس جو  مسئلہ بقا میں ابتک معاون رہا ہے وہی  روح کی  بقا کے بقا کے برخ؛اف  ہے ’’ سچی فلاسفی شخصی بقا کو  اور موت کے بعد زاتی پائداری کے خیال کو رد کرتی ہے۔ ضرور ہے کہ روح  جسمانی بنیاد کے برباد ہونے کے ساتھ ہی نیست ہو جاوے۔ کہ فقط اُسی کے زریعہ سے اسکو اپنی ہستی  کا علم آیا وہ ایک  وہ  ایک شخص  ہو گئی۔  اور اُسپر  اُسکا  مدار تھا‘‘۔  ( دیکھو رسالہ  فورس  اینڈ  میٹر  طبع  سوم  صفحہ  ۲۳۲ مصنفہ بُخنز)  اِس سے دیکھتے ہیں کہ سائنیس  اختیار والے کٖیطرح اس صداقت کو برباد کرتا ہے۔ جسکی ہم اُس  سے تعریف کر دانا چاہتے ہیں۔

اِس  میں شک نہیں کہ روح اور دماغ  ۔ عقلی اور جسمانی اعمال باہم رشتہ دار ہیں اور بہت نزدیکی رشتہ رکھتے  ہیں۔لیکن کس طرح وے ایک دوسرے سے رشتہ رکھتے ہیں  معترض مانتا ہے  کہ معلوم نہیں روح اور دماغ کی نزدیکی رشتہ داری  اُنکی  قطبیق نفسی  کو شامل  نہیں کرتی۔ یعنے اُس رشتہ سے یہہ ظاہر  نہیں ہوتا  کہ  دونوں  ایک ہی ہیں۔  اور اسلئے بہتیرے عالموں نے اس امر میں کوئی نتیجہ نکالنے  کی جُرأت  نہیں کی۔ پھر جب  ہم  اُس  تعلیم کا خیال کرتے ہیں جومسیح  کی زبان سے نکلی  تو اپنے  تئیں ایک اور ہی ملک میں پاتے ہیں۔ وہ اس جسمانی کو غیر جسمانی میں نہیں کھینچتا ۔ پُرانے  عناصر اپنے جسم کی نسبت خواہ کیسے صاف  اور لطیف ہوئے  ہوں خدا کی بادشاہت کے وارث  نہیں ہو سکتے۔ جو جسم سےہے  سو جسم ہے۔ وہ ایک نیا اور اصلی  عامل پیش کرتا ہے۔  یعنے ’’وہ جسکے ساتھ خدا کا بیٹا  ہے  ہے اُسکے ساتھ زندگی ہے اور وہ جسکے ساتھ بیٹا نہیں زندگی نہیں رکھتا۔‘‘ یہہ اُس شرط  یا رشتہ  کی تعریف ہے جو قبر پر پُل  باندھنے والا ہے۔ اور یہہ  جسمانی  رشتہ نہین روحانی رشتہ  ہے پیدا  ہونے  سے نہیں لیکن سرِنو پیدا ہونے  سے حاصل  ہوتا ہے۔ نئی روح کے زریعے  فرزندی  کے رشتہ سے وہ باپؔ کو جانتا ہے اور  یہی ہمیشہ کی زندگی ہے۔ یہہ نہ صرف حقیقی  رشتہ ہے ۔ لیکن فقط یہی ممکن رشتہ ہے۔ ’’  کو ئی باپ کو نہیں جانتا مگر بیٹا  اور وہ جسپر بیٹا اُسے ظاہر کرنا چاہے۔‘‘ پس یہہ ایک رشتہ  ہے جو کبھی موقوف نہ ہوگا۔ سائینس  نے جو تعریف ہمیشہ کی زندگی کی بتلائی ہے وہ یہہ ہے کہ ’’ کامل رشتہ کامل زندگی ہوگی اگر محیط  میں کوئی تبدیلی نہ ہو سو اَے ایسیوں کے جنکے مقابلہ کے لئے  قدرتی ترکیب میں بھی اُسکے مطابقکی تبدیلیاں ہوں اور اگر وہ اپنی قوت میں جس سے وہ اُنکا مقابلہ کرے کبھی زائل نہ ہو تو ابدی زندگی اور ابدی عرفان ہوگا۔‘‘ اب روحانی آدمی  قیامت اور زندگی  والی فوق العادت خوبیاں  رکھتا ہے۔ قیامت کے زریعہ  وہ محیط  کی جسمانی  حالت  کی تبدیلیوں سے اور خوراک وغیرہ کی تبدیلیوں  سے بچ  نکلتا ہے جو قدرتی ترکیب کے عملوں کو روکنے والی ہیں۔ پس یہہ رشتہ سائینس اور مذہب دونوں کے دعووں کو پورا کرتا ہے۔ اِس رشتہ کے لازوال ہو نیکی بابت پولاس رسول یوں لکھتا ہے۔ کہ ’’ کون ہمکو  مسیح ؔ  کی محبت سے جدا کریگا۔ مسیبت یا تنگی یا  ظلم  یا کال یا ننگائی یا خطرہ یا تلوار؟‘‘ ( رومیوں ۳۵:۸) یعنے  کیا محیط کی یہہ جسمانی تبدیلیاں جو قدرتی آدمی  کو دھمکاتی ہیں روحانی  آدمی کو ہلاک کر سکتی ہیں؟ نہیں۔ ’’ بلکہ ہم اِن سب چیزوں میں اُسکے  وسیلے  جنسے ہم سے محبت کی ہر غالب بر غالب ہیں۔ کیونکہ مجھکو یقین ہے کہ نہ موت نہ زندگی نہ فرشتے نہ حکومتیں نہ قدرتیں اور نہ حال  کی نہ  استقبال  کی چیزیں نہ بلندی نہ پستی اور نہ کوئی دوسرا مخلوق  ہم کو خدا کی اُس محبت  سے جو ہمارے خداوند یسوع مسیح میں ہے جدا کر سکیگا۔ ‘‘  ( آئیت  ۳۷، ۳۸، ۳۹)۔

دوسرا سوال یہہ ہے کہ کامل رشتہ کا انسان کے لئے ایسا اعلیٰ  طور سے آنا بعضوں کے لئے اعتراض کا موجب ہے۔ اِس تعلیم کی ابتدائی  حالتیں اچھی صورت ظاہر کرتی ہیں۔  وہ بالکل نیچر کے موافق ہیں  پر اگر نیچر ہی نے کامل رشتہ بھی دیا ہوتا تو یہہ امر قابل اعتراض  نہ ہوتا۔ لیکن قدرتی محیط سے باہر  ایک چیز کا حوالہ دینا کانٹی  نیو نٹی ؔ کو ظاہر کرتا ہے۔ اور اِس سارے بیان میں ایک دائمی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔

معلوم ہو کہ کہ وہ جسکو نیچر کہتے ہیں اس سے باہر جانا محیط سے باہر جانا نہیں ہے۔ ینچر محیط  کا  صرف  ایک حصہ ہے۔ ایک اور بڑا حصہ  ہے جسکو اگرچہ  بعضے کہتے ہیں کہ اسکے ساتھ کچھ تعلق نہیں ہے تاہم اِس سبب سے وہ غیر معنوی یا خلاف نیچر نہیں ہے۔ عقلی اور اخلاقی عالم نباتات کو نامعلوم ہے تو بھی تھقیق  ہے یہہ نہیں  کہا جا سکتا کہ پودے کے لئے وہ خلاف نیچری  ہے۔ تاہم یہہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ نباتات  کے لئے فوق النیچر اِنسان  جمادات کےلئے اور  خدا انسان کے لئے فوق النیچر  ہے۔ ( اگر نیچر کو وسیع معنوں مین لیا جاوے تو جمادات اور نباتات اور انسان اور خدا سب نیچر ہی میں ہیں) پس یہہ اعتراض کچھ نہیں ہے۔ اور ہمیشہ کی زندگی کا خدا  کی طرف  سے دیا جانا  نیچر کے موافق ہے۔ 

  حاصل کلام یہہ ہے کہ آدمی یعنے روحانی  آدمی  دو قسم کے تعلقات سے مسلح ہے۔ ایک قسم میں ابدّیؔت کی وصف ہے اور دوسری دنیاوی ہے۔ پر اگر یہہ کسیطرح جدانہ کئے جاویں  تو  دنیاؔوی  ابدؔی  کو روکتا  اور خراب کرتا  رہیگا۔ لہذاہمیشہ کی  زندگی کے وارث  ہونیکے  لئے آخری تیاری  اُن چیزوں ( یا اصلی اجزا) کو ترک کرنے میں ہے جو ابدی  نہیں ہیں۔ اور یہہ موت کے زریعہ  سے ہوتا ہے۔  تعلقات  کے نا کامل یا ناقص ہونیکا نتیجہ موت ہے۔  لیکن ’’ کامل تعلقات  کامل زندگی ہے‘‘۔  اب دین عیسوی  کا دعویٰ  ہے کہ وہ موت کو نیست کرتا ہے۔ یعنے  نا کالمیت یا ناقص  کو نیست کرتا ہے اِس سے وہ سب رکاوٹیں جوہمیشہ  کی  زندگی کی مانع ہیں دور ہو جاتی ہیں  اور انسان اُسمیں  دخل  پاتا ہے۔ اور وہ چیز یا زریعہ  جو موت کے بعد ہمیشہ  کی زندگی میں دخل  دلاوے ۔ گویو قبر پر سے  پار  ہونیکے لئے  پُل  باندھے۔ وہ یہہ ہے ۔  کہ ’’ وے تجھے اکیلا سچاّ  خدا اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا  ہے جانیں‘‘۔ 

دفعہ ۵۔ ایمان

(راستباز ایمان سے  جئیگا)

گزشتہ دفعات میں ہم نے نجات اور منجی کا احوال معلوم کیا۔ اب معلوم کرنا چاہئے  کہ یہہ نجات ہمارے لئے  کسطرح  موّثر ہو سکتی ہے۔ اب ہم کیا کریں کہ مسیح کے کفارہ کا فائدہ  ہمکو پہنچے۔ مسئلہ نجات کو کیوںؔ  اور کسطرحؔ کو صرف سمجھنا  مفید نہیں  ہے جبتک کہ حقیقت  میں ہمارے لئے تاثیر  گر نہ ہووے۔ 

Pages