October 2016

دین عیسوی کا معجزانہ ثبوت

Miraculous proof of Christian Religion

Published in Nur-i-Afshan October 3, 1889
By Rev. J. Newton

معجزہ کا اصلی مادہّ  عجز بالکسر  ہے اور معنی اُسکے ناتوانی یا عاجز ہو جانیکے ہیں۔ حالت فاعلیت میں معجزہ کہا جاتا ہے۔ تب اُسکے معنی عاجز کرنیوالا اِسم فاعل کے آتے ہیں۔ اور حالت مفعولیت میں  معُجز بفتح جیم عربی اِسم  مفعول  بہ معنی عاجز  کیا کیا پاتے ہیں۔ اگرچہ ان معنوں میں یہہ جملہ حالتیں اِس کی عمومیت پر دلالت کرتی ہیں۔  مگر لغت میں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حالت اضافی میں جبکہ اضافت بنی کی جانب ہو خارق عادت کہتے ہیں یعنی عادت کا پھاڑ نیوالا اور اصطلاح  میں مراد وہ کام ہے جو زاتی  عادت کے خلاف  واقع ہو۔ زمانہ حال میں فرقہ نیچر ان اصطلاحی معنوں پر ایک اعتراض دارد کر کے راستی سے بہت دور جا پڑے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اُس سے قانون فطرت ٹوٹتا ہے۔ لیکن اِس کا جواب مختصر میں  صرف اِسی قدر کافی و  وافی ہے کہ نیچریوں نے اپنی ہی عقل محدودہ کے مطابق خلقت کی عام  ترتیب پر جہانتک کہ اُنکی بصارت نے کام کیا نگاہ ڈال کر قانون فطرت گڑہ لیا ہے۔ خدا نے الہام سے نیچریوں کو نہیں بتادیا کہ میری لامحدود ترتیب صرف اسی ترتیب  پر پر جو تم نے دیکھ لی محدود ہے۔ پس جب تک یہہ ثابت نہو تب تک اصطلاحی  معنی بجائے خود قایم اور برقرار ہیں۔ پھر اِس لفظ معجزہ کے مرادی معنی ہم عیسایوں کے نزدیک یہہ ہیں کہ ایسی قدرت عمل میں لائی جائے جو خلقت کی عام ترتیب کی تبدیل کی قایل ہے۔ مثلاً بحراحمر کا سکھانا اور لعزر کوجلانا وغیرہ نہ خلاف عقل ہے نہ مخالف نقل  عقلاً اِسواسطے کہ عقل انسانی محدود اور خدائے قادر مطلق کے کام لامحدود اور نہ صرف یہی بلکہ ایک انسان ہی دوسرے انسان کے بعض امور کو دریافت  نہیں کر سکتا۔ چنانچہ ریاضی وئبیت وغیرہ علوم اُسپر گواہ ہیں۔ نقلاً اِس لئے کہ اسی جہانمیں آنکھوں دیکھتے  اکثر  ایسے امور حادث ہوتے ہیں  کہ عقل انسان واحیرانی میں مستغرق  ہو جاتی ہے۔ اب بعد اس قدر بیان کے ثابت ہو گیا  کہ درحقیقت معجزہ  ہمارے مرادی معنونمیں محال نہیںبلکہ ممکن الوقوع ہے۔ مگر اس سے یہہ نہ سمجھ  لینا چاہئے کہ وہ سارے  واقعات  خیالی جو محمد یا  رام کرشن  وغیرہ سے مثل شق القمر و سبت بندر رامیشور و گوبر دھن لیلامنسوبکئے جاتے ہیں۔ سب درست ہیں جب تک کہ اُنکے دکھانے کی علت ِنمائی اور خدا کی مرضی معرض ثبوت میں نہ لائی جائے۔ کیونکہ عقل سلیم کے نزدیک یہہ بہت قابل تسلیم ہے کہ معجزہ دین حق کے اثبات میں ضروری ہے  داُن امور میں جنہیں اِنسان آپ ہی اپنی عقل  اور علم سے  ثابت  اور غیر ثابت کر سکتا  ہے۔ ہمارا ارادہ نہیں کہ ہم اُن سارے معجزات مندرج بائبل کو نبیوں اور رسولوں اور خداوند مسیح سے وقوع پزیر ہوئے فرداً سامعین کے روبرو پیش کریں کیونکہ ان پر  یہانتک  زد و قع  ہو چکی ہے کہ اُنمیں بیان کرنا قریباً تحصیل  کی ھد  تک گزرنا ہے ہم صرف یہہ بیان کیا چاہتے ہیں کہ قطع نظر دیگر معجزات کے جن سے مسیحی مذہب  ثابت کیا جاتا ہے مسیحی  مذہب خود معجزہ ہے۔ دیکھو جب تمام مذہبوں  کے اجرا کی عام ترتیب پر نظر ڈالی ہے تو  معلوم  ہو جاتا ہے کہ اگر وہ تمام وسایل جو مذہب جاری کرنے  میں کام آتے ہیں قاعدہ مفروضہ  کے مطابق برتے جائیں  تو فی الجملہ  ہر شخص  ایک مذہب جاری کر سکتا ہے۔ مثلاً موجودہ ہندو مذہب اسطرح  جاری ہوا کہ جب عام ہندو  بودہ مذہب  کیردکھی پھیکی حکیمانہ تعلیم سے متنفر ہوئے اور چاہتے تھے کہ اُسکے خلاف کو قبول کر لیں۔ تب برہمنوں نے اُنکی  اِس خواہش کو پا کر ایک ایسا نوطرز مرصع مذہب  پیش کر دیا کہ جس میں سب کے سب  بخواہش تام شامل ہوگئے اور بودہ مذہب  کو ہندوستان سے نیست و نابود کر دیا۔  پھر محمدی مذہب عربوں  کی حسب طبالع ہونے پر کیسا ضلد چارو نطرف پھیل جانیکو تیاربرگیا علے ہذالقیاس آربہ ہرہمو وغیرہ بھی حسب ِھال و موافق طبایع انسانی ہیں۔ اب اَسی کے مقابل عیسوی مذہب  کو دیکھو جسمیں کہاں خداوند کی وہ نئی  اور انوکھی تعلیم نئی پیدائش کی ضرورت جسے نقودیمں سا اُستاد اور معلم یہود  سمجھ نہ سکا اور کہا پطرس اندریاس  وغیرہ  مچُھوؤٔں کا وہ ظرف  جو پنتکوست کے دن روح قدس سے معمور کیا گیا۔ بھلا کوں کہہ سکتا تھا  کہ حام  ترتیب مذہب کے خلاف  ایسی بنیاد پر انسان مذہب عیسوی کو قبول کرلیگا پھر باقی مذہب کی فروتنی لاچاری اور گرفتاری کے وقت شاگردوں کا  چھوڑ دینا  نیا خود پطرس کا جو زرا اپنے کو سر گرم مذہب سمجھتا تھا تین بار مسیح کا اِنکار کرنا اور شاگرد ہی کا اُستاد کو پکڑوا دینا  کیا آدمی کو حیرت میں نہیں ڈالتا علاوہ بریں جب مسیح مصلوب  ہو کر دفن ہوا تو عقل کہہ سکتی ہے کہ عام ترتیب مذاہب کے موافق عیسوی مذہب  دنیا سے جاتا رہا اور کوئی  صورت  پھر اُس کے قایم ہونیکی نہ رہی ہاں انسانی مذہبوں کے حق میں تو یہہ رائے بیشک درست ہے۔  مگر خلاف  اُسکے کیا دیکھنے میں آیا تو یہہ رائے بیشک  درست ہے۔ مگر خلاف اُسکے کیا دیکھنے میں آیا کہ جسطرح دانہ زمین میں گرکر اور مر کر ایک کےبدلے۱نیک ہوجاتا ہے اُسیطرح  خلاف دستور زمانہ مسیحی  مزہب نے زمین میں دفن ہو کر پھر رواج پایا پس جسطرح سچائی سچائی  سے نکلتی  ہے اُسیطرح معجزہ مسیحی مذہب سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ مسیحی  مذہب خود معجزہ ہے  اور اُسکے وسایل خواہ مذہب سے خواہ بانی مذہب سے علاقہ رکھتے ہوں سب کے سب معجزہ ہین المطلب مذہب عیسوی اپنے ثبوت میں معجزہ کا محتاج نہیں بلکہ وہ آپ  معجزہ کو ثابت کرتا ہے۔ مذہب سے اِسواسطے کہ و ہ خلاف  اور مذہبوں کے اپنی اشاعت و افزایش  میں کسی دنیاوی  طاقت سے مدد نہیں پانا کبھی نہ سُنا ہو گا کہ محمد صاحب  اور اُنکے خلفاء محمود غزنوی  اور اورنگزیب  کی صورت  خداوند مسیح یا اُن کے حواریوں یا مسیحی سلاطین نے مسیحی مذہب کو  بزدرشمشیر جاری  کیا بلکہ برعکس اسکے ابتدائے حکومت  پنطوس  پلاطوس اور دیگر شاہاں روم نیرو وغیرہ سے جنہوں نے ہمیشہ مسیحی مذہب کی مخالفت  میں کوئی  بات اُٹھا نہیں رکھی  عیسایوں کو شیروں سے پھڑوایا  زندہ جلوایا شکنجے میں کھچوایا آخر آج تک عیسائی جابجا  کسی  نہ کسی  صورت سے ستائے جاتے ہیں باوجودے کہ گورنمنٹ موجودہ عیسائی  کہلاتی ہے تو بھی  مصُنف  مزاج  واقف آئین سلطنت  برطانیہ کہہ سکتا ہے کہ گورنمنٹ کے نزدیک اور مذہبوں سے عیسوی مذہب کی کوئی  زیادہ  دفعت  نہین ہے مگر خدا اپنے مذہب کو آپ ہی معجزانہ قاعدہ سے بڑہایا جاتا ہے۔  بانی مذہب سے اسلئے  کہ خلاف  اور  بانیان مذہب  کے مسیح کی پیدایش ہی معجزہ  ہے جسمیں کسی دوسرے  کا واسطہ نہیں یعنی یہاں جو مضاف ہے وہی مصاف الیہ ہے پس یہہ معجزہ نحوکے عام ترتیب کو تبدیل کر دیتا ہے پھر بعدمصلوبی  وہ آپ تیسرے دن  زندہ قبر سے نکل  آیا نہ یہہ کہ کسی دوسرے نے زندہ کیا  کیونکہ وہ زندگی اُسی میں تھی پس اِس معجزہ میں بھی  خلاف  نحو جو مفعول ہے وہی فاعل ہے اور جو صفت ہے وہی موصوف ہے اور یہی زندگی ہمیشہ کی زندگی ہے جو مسیح سے مفت ملتی ہے کاش قومیں جو معجزات پر جا مزادہ یا اُنکی تکزیب پر آمادہ ہیں اس مجسم  معجزہ یعنی مسیح پر ایمان لائیں  اور حیات ابدی پائیں۔

میں تم سے سچ کہتا ہوں  کہ جب تک یہہ سب کچھ ہو نہ لے اِس زمانے کے لوگ گزرنہ  جائینگے

متی باب  ۲۴ آیت ۳۴

جب کہ خداوند یسوع مسیح  کے شاگردوں  نے خلوت میں اُس سے پوچھا کہ یروشلم کی ہیکل کب برباد  ہوگی اور اُسکے (خداوند یسوع مسیح کے) آنے اور زمانے  کے آخر ہونیکا نشان کیا ہے تب خداوند نے اُس واقعہ  کی خبر دی کہ جو یہود کی تواریخ  میں سب سے مشہور واقعات  میں سے ایک ہے جسمیں کہ اُس کے اِس دنیا سے آسمان  پر چلے جانیکے  وقت سے اُسکے پھر زمین  پر آنیکے اور اپنی بادشاہت قائم  کرنیکے  وقت  تک کا ھال بے حکم وکاسٹ منکشف  ہوتا ہے۔ اِن واقعات  کابہت مختصر بیان ہوا  ہے اور اُنمیں  سے بعض کا توصرف  اشارہ ہی پایا جاتا ہے۔ مثلاً  یروشلم کا محاصرہ  ہونا اور دوبارہ  برباد ہونا۔ اول ططیس سے جیسا کہ تواریخ کے مطالع سے معلوم ہوتا ہے کہ یسوع مسیح کے آسمان  پر چلے جانیکے  ۴۰ برس بعد وقوع  میں آیا۔ دویم  جو  دجال سے ہوگا۔ جسکا زمانہ  خداوند یسوع مسیح کی دوسری آمد سے کچھ پہلے ہوگا۔ جیسا کہ زکریا  نبی کی کتاب کے پڑھنے  سے واضح ہوتا ہے دیکھو  صحیفہ  زکریا ۴ باب ۱ آیت سے ۴ تک۔ اور تاہم اِن دونون واقعات  کا ایک ہی ساتھ زکر آیا  ہے اور اُن دونوں میں موافقت بھی پائی جاتی ہے۔ اور دونوں واقعات  اگرچہ ایک کا زمانہ دوسرے  سے بہت دور کا تھا ایسے بیان ہوئے کہ دونوں کی عبارت ہر دو واقعات  پر صادق ٹھہر سکتی ہے اور یہہ تمام زمانہ مصیبت کا زمانہ کہلاتا ہے جسکا آخری حصہ ایسا سختی والا ہوگا کہ جسکی کوئی نظیر دی جا نہیں سکتی۔  وہ بربادی کہ جسکا زکر ہوا تھا  آدمیوں کی سزا کے لئے تجویز ہوئی تھی خصوصاً قوم یہود کو سزا دینے کیواسطے ۔ اُنکی بدکاریوں کے سبب سے جو ھد سے بڑھگئی تھیں۔ لیکن وہ  کہتا ہے اُن دنوں کی مصیبتوں کے بعد فوراً  ابن آدم  کا نشان  آسمان میں ظاہر  ہوگا اور تب وہ خود آویگا، اور ۳۴ آیت میں لکھا ہے کہ ’’ جب تک یہہ سب کچھ نہو نہ لے اِس زمانے  کے  لوگ گزر نجائینگے‘‘۔ اب بعض  جو پاک کلام بائبل  کی عبارت و محاورہ کو نہیں سمجھتے  کہتے  ہیں  کہ یسوع مسیح کی یہہ باتیں کہ جبتک سب کچھ نہ ہولے  اِس زمانیکے لوگ گزر نجائینگے سچ نہیں  نکلیں کیونکہ واقعات میں اختلاف  پایا گیا۔ اور یہہ دعویٰ کرتے ہیں کہ گو ۱۸۰۰ برس  گزرے کہ وہ لوگ جو اُس زمانہ میں زندہ تھے گزر گئے پر مسیح کی بعض پیشینگویاں  آج تک پوری نہیں ہوئیں۔ ایسے معترضوں  کو سمجھنا  چاہئے کہ یہہ تین الفاظ زمانہ کے لوگ صرف ایک ہی یونانی  لفظ  (گنیا) کا ترجمہ  ہے جسکے معنی انگریزی  میں  ( جنریشین) یعنی پشت  کے ہیں لیکن اگر بیبل کو غور  سے پڑہا جائے تو صاف معلوم ہوگا کہ یہہ لفظ صرف اُسی زمانہ کے لوگوں سے  جو اُسوقت موجود دینوں مراد نہیں بلکہ اکثر اُن سے مراد ہوتا ہے جو کہ ایک  سامزاج یا  ایک سی خصلت رکھتے ہوں خواہ وہ ایک ہی زمانہ کے لوگ ہوں یا نہوں چنانچہ  زبار ۲۴ آیت ۶ میں مرقوم ہے کہ یہہ وہ گروہ (جنریشن) ہے جو اُس کی طالب ہے۔ یعنی وہ جو خدا کی طالب ہے اور پھر لکھا ہے کہ اُسکی نسل (جنریشن) زمین پر زور  آور ہو گی۔ زبور ۱۱۲ آیت ۲ اور پھر دیکھو عیسائیوں کی بابت کہا گیا ہے کہ تم چنا ہوا خاندان  (جنریشن) ہوا پطر س  ۲ باب ۹ آیت اور پھر زبور ۵۳ ۔ آیت ۱۵ میں کہا ہے کہ اگر میں کہتا کہ یون بیان کرونگا تو دیکھ  کہ میں تیری اولادکی گروہ (جنریشن) سے بیوفائی  کرتا ۔ اور پھر دیکھو امثال۳۰ ۔ آیت ۱۱ تا ۱۴ میں یہہ لفظ مختلف  قسم کا گنہگاروں  کے بیان  میں چار  دفعہ استعمال کیا گیا ہے ایک پشت  (جنریشن) ایسی ہے جو اپنے باپ پر لعنت کرتی  ہے اور اپنی ماں کو مبارک نہیں کہتی۔ ایک پشت (جنریشن)  ایسی ہے جو اپنی نگاہ میں پاک  ہے لیکن اُسکی گندگی اُس سے  دھوئی نہیں گئی۔ ایک پشت ( جنریشن) ایسی  ہے کہ واہ  واہ کیا ہے بلند نظر ہے اور اُنکی پلکیں اوپر کو رہتی  ہیں۔  ایک پشت (جنریشن) ایسی ہے کہ جس کے دانت تلواریں ہیں اور  داڑھیں  چُھریاں تاکہ زمین کے مسکینو کو کاٹ  کھاوے اور کنگالوں کو خلق میں سے فنا کر دے ۔ پھر یرمیاہ نبی کہتا ہے  کہ خداوند نے اُس  نسل (جنریشن)  کو جسپر اُسکا قہر بھڑکا تھا مردود کیا اور ٹرک ہے  یرمیاہ ۸ باب ، ۲۹ آیت  ۱۹ ۔ یعنی اُن لوگونکو جو بسبب بتُ پرستی کے اُسکے قہر کے لائق ٹھہرے تھے  موسیٰ بھی اسرائیل کو کجرو اور گردن کش قوم  (جنریشن) کہتا ہے استثن ۳۱باب ۵ آیت۔ یہہ اُن لوگوں کی نسبت کہا گیا  تھا جو آخری  زمانے میں ہونگے  جنکی بابت اُس نے کہا کہ  وہ خدا کی نظر  میں بدی کرینگے۔ اِس آیت کا استثنا کے ۳۱ باب ۱۹ آیت سے مقابلہ  کرو۔ یوحناّ بپتمسہ  دینوالے نے فریسیوں  اور صدوقیوں کو ’’ سانپوں کے بچے (جنریشن) کہا‘‘۔ جہانکر یہہ ہی لفط استعمال  کیا گیا ہے متی ۳ باب ۷ آیت ۔ اور پھر خداوند یسوع مسیح نے قوم یہود کی سخت بیدینی کی بابت مثال  دی جو متی کی انجیل کے ۱۲ باب کی ۴۳ سے ۴۵ آیتوں  تک مندرج ہے۔ وہ مثال ایک بدروح  کی بابت تھی  جو ایک آدمی پر سے اُترتی  ہے لیکن پھر دوبارہ اُسکے  دلمیں جاتی ہے نہ صرف  اکیلی  بلکہ سات اور روحیں  جو  ازحد  برُی ہون ساتھ لیجاتی  ہے اور کہا کہ اُس  زمانہ کے لوگوں (جنریشن) کا حال بھی ایسا ہی ہوگا  یہہ تمام قوم پر عاید ہوتا ہے جو بُت پرستی کی عادت کو چھوڑ کر بابل کی اسیری کیوقت یسوع مسیح سے ۵۰۰ برس پیشتر فوراًٍ ہر قسم کی شرارت میں مبتلا ہو گئی۔ یہہ شرارت کرنیوالی نسل تھی اور بدتر ہوتی گئی جب تک کہ اُسکی بابت یہہ کہا گیا جیسا کہ پولوس رسول نے کہا کہ جنہوں نے خداوند یسوع مسیح اور اپنے نبیوں کو مار ڈالا  اور ہمیں سنایا اور وے خدا کو خوش نہین آتے اور سارے آدمیوں کے مخالف  ہیں۔ اور اسلئے کہ اُنکے گناہ ہمیشہ کمال کو پہنچتے  ہیں وے ہمکو منع کرتے ہیں کہ ہم غیر قوموں  کو وہ کلام نہ سناویں  جس سے اُنکی بجات ہو۔ کیونکہ اُنپر غضب انتہا  کو پہنچا۔ ۱تسلنیقیوں ۲ باب ۱۵ تا ۱۶ آیت۔ یہہ شریر نسل ہے جسکی بابت یسوع مسیح  نے کہا ہے کہ وے شرارت کے فرزند  (جنریشن) ہیں مندرجہ بالا بائبل  کی آئیتں  جو  پیش کی گئی ہیں  اِس بات کے ثابت کرنے کے لئے  کہ لفظ  جنریشن  کسی خاص زمانے کے لوگوں ہی پر نہیں لگایا جاتا بلکہ ایک ویسی ہی خصلت کے لوگوں پر جو کسی دوسرے زمانے میں ہوں  عابد ہوتا ہے۔ اور حقیقت میں متی کی انجیل کے ۲۴ باب کی  ۳۴ آیت  کا یہہ ہی مطلب ہے۔ خداوند مسیح نے قوم یہود کا زکر کیا تھا کہ بسبب اُنکی بیدینی  کے اُن پر خوفناک مصُیبتیں آپڑینگیں اور کہا کہ اگر خدا اُس وقت کو نہ گھٹاتا تو ایک تن نجات نہ پاتا  لیکن اُنمیں سے اُن لوگوں کی خاطر جو چُنے ہوئے تھے وہ وقت  کو گھٹائیگا اور بعض اُنمیں سے زندے بچ  رہینگے جب تک کہ مصیبت کا زمانہ گزر نہ جاوے  اور ابن آدم آسمان سے آ نہ لے تاکہ زمین پر راستبازی کی سلطنت قایم کرے۔ اِن ہی معنوں میں اُس نے کہا کہ جب تک یہہ سب کچھ نہولے یہہ پشت (جنریشن)  گزر نجاینگے۔ پس جبکہمسیح دوسری دفعہ  آویگا  تب وے اُس کی بادشاہت  کے قایل ہونگے۔ اور اُسوقت وے شرارت اور گردن کشی سے پچتائینگے اور واویلا کرینگے۔ اور خصوصاً وے اُس بات سے پچتائینگے کہ کیوں  اُنہوں نے اُسے رد کیا اور  مصلوب کیا تھا اور جب وے اُسے دیکھینگے وے چلائینگے اور کہینگے کہ مبارک وہ جو خداوند کے نام پر آتا ہے ۔ (متی۱۳باب ۳۹ آیت)  اُس وقت سے وہ کبھی پھر شریر پشت (ویکیڈ جنریشن) نہیں کہلائینگے۔ اِس سبب سے معترض کا یہہ کہنا کہ اُس  واقعہ میں اختلاف  رہا  اور کہ یہہ بات  سچ  نہ ٹھہری  ٹھیک نہیں۔ یہودی ایک ایسی قوم ہے جو خداوند یسوع مسیح پر ایمان  نہیں لائی اور اگرچہ وہ خوفناک مصیبت جو ہو گی اُنکے شمار کو بہت گھٹاویگی  تاہم تمام برباد  نہوگی اور گزرنجاویگی  کب تک  کہ ابن آدم نہ آوے اور تمام دوسری  باتیں جو بطور پشین گوئی  کے کہی گئیں تھیں پوری  نہوں۔

راقم ( پادری) جے نیوٹن۔

میرے ایک دوست کا ذِکر

Let Me Tell You About One Of My Friends

Published in Nur-i-Afshan October 24, 1889

میرے بہت سے عزیز دوست ہیں جنسے میں ازحد الفت و محّبت رکھتا ہوں۔ اُنمیں سے بعضوں کو میں بڑی  مُّدت سے جانتا ہوں اور  بعضوں کو تھوڑے دنوں سے  اُنکی لیاقتوں  کے سبب  سے میں  اُنکو پیار  کرتا ہوں پر تو  بھی  مجھ کو معلوم ہوا کہ میری مانند اُنمیں اکثر کوئی نہ کو ئی  عیب نہو۔ لیکن میرا ایک دوست ایسا ہے جو سب سے پیارا  و عزیز  ہے اور تم بھی اگر اُس سےواقف ہوتے اُمید  ہے کہ مجھ سے بھی  زیادہ  اُسکو  پیار کرتے  اور اُس پر بھروسا رکھتے۔ بیشمار مشکلات کو اُس نے میرے لئےحل کیا ہے اور جب کو ئی اور دوست پاس نہ تھا تب اُس نے میری حمایت  کی بڑی بڑی  سخت مصیبتوں میں جب کو ئی دوسرا مددگار نہ تھا تو اُسنے مجھے تسلی  بخشی۔ ہاں جب اور دوست مجھ سے پھر گئے اُسوقت بھی وہ وفادار رہا۔  نہ فقط  کلام سے پر کام سے بھی اُسنے اپنی دوستی  کو ثابت کیا چنانچہ  میری  بھلائی و بہبودی  کی خاطر اُسنے بڑی محنت کی بلکہ تکلیف اور ایذا بھی اُٹھائی ۔ گوُ میری طرف سے اُسکی  محّبت میں اکثر کمی و بیشی ہوتی پر وہ ہر حالت میںغیر مبتدل رہا۔ حالانکہ میں نے اپنی  رفتار  گوفتار  سے بارہا اُسکے نام کی  تحقیر  کی یا اُسکی محّبت کو خیال میں نہ رکھا تاہم اُسکی اُلفت میں کچھ فرق نہ آیا۔ جب میرا دل بیہودہ  { عضونامہ یہہ تھا کہ کوئی شخص  جسقدر روپیہ  دیتا اُسکے گزشتہ آئیندہ  گناہ معاف ہوتے تھے اور وہ عضو نامہ خریدار  کے نام پر کاغذ  میں لکھا  ہوا تھا۔}

باتوں پر فریفتہ  ہوا تو  اُسنے پھر مجھے لُبھایا  یا میرےساتھ اُس نے حد سے زیادہ تحمل و بردباری کی۔ جب میں آپ کو معاف نہ کر سکا تب بھی اُس نے میری  ناشکری کو معاف کیا۔ جب کبھی میں اپنی بیوقوفی پر سو چکے اپنے ہی  سے سخت  بیذار  ہوا  تب اپس نے مجھ پر ترس کھایا۔ شرم کے مارے جب میں  اپنی نادانی کا زرہ بھی عزر نہ کر سکا  وہ مہربانی سے اُس سے درگزر کر کے آگے موافق اپنی محبت مجھ پر طاہر کرنے سے باز نہ آیا۔ ہاں البتہ اُس نے میری خوشامد  تو کبھی نہیں کی مجھ میں جو جو عیب یا  قصور ہیں جن کا زکر تک کرنے سے میرے  اور دوست و جان پہچان  شرماتے ہیں وہ اُس نے مجھ پر  صاف ظاہر کئے مگر ایسی محّبت  کے ساتھ اور اِسقدر خفیتاً کہ میں اُس سے ناراض ہر گز  نہ ہو سکا۔ جب میرے دل پر غم  کا بھاری بوجھ پڑا تھا تب اُسنے آکے ہر ایک آنسو کو پونچھ لیا  اُسنے بار بار میرے دل کے رنج  کو ایسا رفع کر دیا کہ میں نے  گویا اُس سے نئی زندگی پائی۔ پس چونکہ میرے دوست نے یہہ سب کچھ بلکہ اُس سے بھی کہیں زیادہ مجھ پر احسان  کیا ہے تو خیال کرو کہ کچھ  تعجب  ہے کہ میں اُسکو  پیار کرتا اور تم کو بھی  اُس سے ملایا  چاہتا ہوں؟ زرہ اُس  پر غور کیجیو۔ وہ بہت  دولتمند ہے۔ اپنے عزیزوں کے لئے جو چاہا سو کر سکتا ہے۔  وہ بے طرفدار بھی  ہے جیسا امیروں  کو ویسا غریبوں  کو بھی  پیار کرتا  ہے بوڑھے اور بچے علم دار اور بے علم بڑے  اور چھوٹے  سب  کے سب  اُس  کا فیض  پانے کے قابل  ہیں  بلکہ  بلکہ اُسکی رحم دلی اِس  قدر ہے کہ جو محتاج  اور لاچار اُس سے مدد مانگتے ہیں  اُنکو وہ زیادہ  خوشی  سے قبول کر لیتا ہے۔خواہ تم نے آگے اُسکی کیسی ہی حقارت کی پر جب  عاجزی  سے اُسکی  طرف رجوع کر کے معافی مانگو گے تو وہ تمہارے  قصوروں کو  یال میں نہ لاویگا۔  علاوہ ازیں میرا یہہ دوست گو مجھ پر بہت  مہربان  ہوا پر آئیندہ کے واسطے بھی اُسنے  عجیب طرح کی نعمتیں دینے کا وعدہ کیا ہے اور چونکہ وہ ہمیشہ صادق القول  اور وفادار رہا اِس لئے یقین کامل کہ وہ اِ ن  وعدوں کو  پورا  بھی کریگا۔ شاید تم پوچھو  گے کہ یہہ دوست کون ہے۔ اپس کا نام عمانوؔایل ہے۔ خدا ئے  مجسم ۔ پھر وہ جیسیؔ یعنے نجات  دہندہ بھی کہلاتا ہے اور جیسا وہ میرا  دوست  ہے ویسا ہی تمہارا بھی  ہے۔ تم کو خستہ ھال  دیکھکے  اُسنے تم پر ترس کھایا اور جب تم ہنوز  اُس سے دشمنی  رکھتے تھے اُس نے  تمکو شریعت کی لعنت سے جس کو تم نے  عدول کیا  تھا چُھڑانے  کے لئے آپ ہی لعنت سے جس کو کہ تم نے عدول کیاتھا چُھڑانے  کے لئے آپ ہی لعنت  بنکے اپنی جان دی۔ ہاں اپس نے جو راستباز تھا ناراستوں کے لئے دُکھ اُٹھایا اور اُسکے بعد مرُدوں میں سے جی اُٹھا تاکہ اپنے دوستوں کو موت سے زندگی پانے کی  راہ دکھاوے ۔ تب  وہ آسمان پر بھی چڑ ھکے اُس ابدی خوشی و  نیکبختی  کےمکان میں جہان کہ  ہم کمبخت  گنہگار  ہر گز  پہنچنے کے لایق نہ تھے خدا باپ کے پاس ہمارے لئے  شفاعت کرتا ہے وہاں سے وہ اپنی روھ پاک کو ہمارے دلوں پر نازل  کر کے ہم کو اُس غیر محدود  وقار رلایزال  خدا سے ملا لیتا ہے۔ اُسکے وسیلہ سے ہم بیدھڑک  مالک کے حضور  آکے  میں آکے  اپنی درخواست  پیش کر کے مستحق ہوتے ہیں۔  اُسکے روبرو  اگر ہم  اپنے دل کے  رنج و غم  کا بیان کریں  تو یقیناً  وہ اپنی  ہمدردی  سے ہم کو اطمینان  بخشیگا۔ آسمانی دار کے تخت  پر بیٹھکر وہ ہم پر نظر کر کے بڑی ملائمیت سے پُکار کر کہتا ہے اے تم جو تھکے اور بڑے بوجھ سے دبے ہو سب میرے پاس آؤ  کہ میں تمہیں آرام دونگا جو  پیاسا ہے آوے اور جو چاہے آب حیات مفت لے۔ اُسکے پاس تھکے ہوؤں کے لئے آرام غمزدوں  کے لئے خوشی  خاکساروں  کے لئے معافی فکر مندوں  کے لئے راحت  ناپاکوں کے لئے پاکیزگی ہے اور یہہ سب نعمےیں میرا دوست مفت اُنکو  جو اُس سے مانگیں  دیگا۔ علاوہ اِسکے وہ  اپنے عزیزوں  کے لئے  آسمان پر جگہ تیار کرنے کو گیا ہے۔ اُسکے باپ کے گھر میں بہت سے مکان ہیں۔ جنکو ابدی جمال سے اُس نے آرستہ  کیا ہے۔ وہاں کی سڑکیں  خالص سونے کی شفاف  بلور کی مانند ہیں۔  اِ س میں خدا کا جلال بہت اور اُس  کا نور بڑے بیش قیمت جواہر کی مانند ہے۔ وہ سُورج  اور چاند  کا محتاج  نہین کہ وے اُسکو  روشن کریں۔ کیونکہ خدا کے جلال نے اُسے روشن کر رکھا ہے۔ وہاں نہ رات نہ کسی قسم کی تاریکی  یا ظلمت ہو گی اور نہ کو ئی چیز  جو ناپاک  یا نفرتی اور جھوٹھ ہے اُسمیں  کسی طرح  در آویگی ۔ جب یہہ مکاں  تیار ہوگا۔  تب ہمارا یہہ دوست بڑے جلال کے ساتھ  آسمان  سے اُتر  کر اس زمین پر پھر آویگا تاکہ اپنے عزیزوں  کو اپنے ساتھ  لیکے وہاں پر پُہنچاوے۔ تب وہ ہم کو اگر ہم مسیح میں ہو کے  سو گئے ہوں قبر میں سے اُٹھا کے ایک غیر فانی بدن  دیگا۔  ہاں وہ تاب و تجلیّ کے جامہ سے ہمیں ملّبس کر کے موت کے بند سے تا ابد چُھٹکارا بخشیگا اور  اگر ہماری زندگی اسوقت ہنوز قائم ہو جب وہ آویگا تو بھی ہمارے اِس خاکی  جسم کو  ایک دم  ایک پل  میں بدل  کے نوری بناویگا تاکہ  ہم اِس خوش روح میراث میں جسکو  کہ اُس نے اب  ہمارے لئے تیار کیا ہے داخل  ہوں۔ اے عزیزو میں بڑی آرزو سے چاہتا ہوں کہ تم بھی اِن نعمتوں  کے حّصہ دار بنو۔ اِس عالیشان مکان  کو کسی قدر تنگ نہ سمجھو کیونکہ وہاں سب کے لئے  گنجائیش ہے۔ آب حیات کے چشمہ سے پینے اور زندگی کے درخت کے سایہ میں ابد آلاباد آرام کرنے کی سبھوں کو اجازت ہے خدا کے  سب نبی اور رسول  بلکہ اُسکے جسے پاک بندے دُنیا  کے شروع سے گزرےہیں تم کو وہاں ملینگے۔ اُنکی صحبت میں رہو گے اور اُنکے ساتھ خوشی مناؤ گے۔  جو وہاں پُہنچےخدا کے تخت کے آگے ہو نگے اور اُسکی ہیکل میں رات دن اُسکی بندگی کرینگے اور وہ جو تخت  پر بیٹھا ہے اُنکے درمیان  سکونت کریگا۔ وہ پھر بھوکے نہ ہونگے اور نہ پیاسے اور وے نہ دھوپ اور نہ کوئی گرمی اُٹھائینگے کیونکہ عیسیٰ اُنکی گلّہ بانی  کریگا اور اُنہیں  پانیوں کے زندہ سوتوں  پاس پُہنچائیگا اور  خدا اُنکی  آنکھوں  سے ہر ایک  آنسو پونچھیگا  ۔ اور پھر موت نہ ہوگی اور نہ غم  اور نہ  نالہ  کیونکہ اگلی چیزیں  گزر  گئیں ( مکاشفات  ۷ باب  ۱۵ ۔ ۱۷ ۔ آیت اور ۲۱۔ ۴) ۔ کیا تم عیسیٰ کو اپنا  دوست  نہ سمجھو گے کیا تم اپنے تئیں  اُسکے ہاتھ نہ سونپوگے کیا تم اپنے  فکر کا سارا بوجھ اُس پر نہ ڈالو گے  اُسکی محبّت کی خاطر اگر ضرورت ہو کیا تم اپنے اور سب دوستوں کو نہ چھوڑو گے ۔کیا تم اُسی پر اپنا کل بھروسہ نہ رکھو گے  جانکندنی  میں دوسرے دوست تمہاری مدد کرنے سے سب لاچار ہونگے اُنکو تمہیں اکیلا چھوڑنا پڑیگا  لیکن یہ دوست  موت کے دریا میں بھی تمہارے ساتھ  رہیگا اور اُسکے پار تک تمہیں پُہنچائیگا۔ بلکہ عدالت تک دن جب خدا کے قہر کی آگ دُنیا پر بھڑکیگی کسوقت بھی صرف وہ  ہی تمکو اپنی  پناہ میں لیکرسارے خوف سے بچائیگا۔ پس عزیزو  کیا تم میرے  اِس  دوست کو پیار نہ کروگے کیا تم اُسکو اپنا دل نہ دو گے یقین جانو کہ وہ نہایت  مہربان  و رحیم ہے۔ اسکے دلمیں کینہیا بغض زرہ بھی نہین ہر چند تم نے آج  تک اُسکی الفت کو ناچیز تو جانا پر اب بھی اگر شکستہ دل ہو کے اُسکی طرف رجوع کرو  تو وہ کمال  خوشی سے تم کو قبول کریگا۔ جن شخصوں نے اُسکو صلیب  پر کھینچا اُنکے لئے اُس نے دُعا کی کہ اے باپ تو اُنکا  گناہ معاف کر۔ جب اپنے شاگردون  کو نجات کی بشارت دینے کو بھیجا تو اُسنے کہا کہ یروشلم  سے جہاں کہ وہ رد کیا گیا اور صلیب پر  بڑی ایذا کے ساتھ مارا گیا تھا۔ شروع کر کے ساری قوموں میں توبہ اور گناہوں کی معافی کی منادی اُسکے نام سے کیجائے ہاں اپنے بیحد پیار سے اُس نے اپنے  دشمنوں کے بدلے دُکھ  اُٹھایا  اور اُنکے گناہوں  کا بوجھ اُٹھا کر صلیب پر چڑھا۔ اب بڑی ملائمت  سے اُنکو  بُلا کر کہتا ہے کہ دیکھ میں دروازے پر کھرا ہوں اور کھٹکھتا ہوں  اگر کوئی میری آواز سُنے  اور دروازہ  کھولے میں اُسکے پاس اندر آؤنگا۔ (مکاشفات ۳۔ ۲۰) اے پڑھنے والو کیا تم اپنے دلکے دروازے کھولکے اب اُسکو اندر آنے  نہ دوگے۔  درحقیقت دوئم پر بھی اپنی  محبت  ظاہر کیا چاہتے ہے پر ایک بات کو بخوبی یاد رکھو کہ اگر تمہارا یہ منشا ہو کہ اُسکے دوستوں میں ہم بھی شمار کئے جائیں تو ضرور ہے کہ تم اُسکی فرمانبرداری کرو۔ چنانچہ اُس کا قول  ہے کہ کوئی شخص  اُس سے زیادہ محّبت نہیں کرتا کہ  اپنی جان اپنے دوستوں کے لئے وہ جوکچھ  کہ میں تمہیں فرمایا اگر تم کرو  تو میرے دوست ہو۔ بعد اِسکے میں تمہیں خادم نہ کہونگا کیونکہ خادم  نہیں جانتا کہ اُس کا خداوند  کیا کرتا ہے بلکہ میں نے تمہیں دوست کہا ہے کہ  سب باتیں جو میں نے اپنے باپ  سے سُنی  ہیں  میں تمہیں بتلائیں۔( یوحناّ ۱۵۔ ۱۳۔ ۱۵)

راقم این 

بائبل کے مخالف جھوٹے

علامہ طالب الدین

Objectors to the Bible

Published in Nur-i-Afshan October 10, 1889
By Rev. Talib-u-Din

 اِنسان جو سہو کا مضغہ ہے اور تمام عمر غلطی پر غلطی  بھول پر بھول  کرتا رہتا ہے اور بعد از مرگ  چند دن کے لئے یاد  آنا ہے اور پھر نسیًا منسیًا  ہو جاتا  ہے اُس کی کیا بضاعت کہ وہ اسرار  ربانی کے باریک اور ملائیم  السطح راستہ پر بغیر ہدایت قدم تعقل دھرے اور نگرے۔ اگر کوئی عقلمند ایک انچ کا  پیمانہ  نبا کر کلکتہ اور لندن کے درمیانی فاصلہ کو پیمایش کیا چاہے تو دیکھینے والے  ضرور ایسے دور اندیش کی عقل پر قہقہہ مارینگے ۔ کیونکہ  نہ تو یہہ امکان ہو سکتا ہے کہ اِس عقل کے دشمن کی عمر کامیاب  ہونے تک وفا کریگی اور نہ یہ گمان  ہو سکتا ہے کہ اگر بفرض  محال  عمر کا طول پورا بھی نکلے تو اُسکو وہ سامان اور اسباب میسر آئینگے جن سے راستے کے خطرات و خدشات  پر غالب  آسکے۔ بلکہ برعکس اِسکے یہہ نظر  آتا ہے کہ یہہ  پیمانہ  مصیبتونکے تیز کنارونسے  گھِس گھِس  کر انجام کار ٹوٹ  جائیگا۔ کوسوں تک کا سمندر۔ سمندر میں کی  ہزاروں  بلائیں۔ زاد راہ کی کمیت۔ امداد کی قلت وغیرہ  حوارث  ناگزیر سے بغیر کشتی کیونکر بچیگا۔ اسی طرح اُس آدمی کا حال ہے جو عقل کے سریع الزوال  دولت لیکر خدائے حی القیوم  کی ہستی بے  بدل کا سراغ لگانا چاہتا ہے۔ پہلے چادر کے پہنے کو جانچنا چاہئے اور پھر پاؤں  پھیلانیکی  تدبیر کرنا چاہئے کہاں خدائے بے ہمتا کہاں آدمی خطا کا شکار۔ کہاں وہ ہستی  جسکے حقمیں یوں تسلیم کیا جاتا ہے کہ وہ کالق الافلاک صانع الموجودات ہے۔ کہ وہی مرکز نور ہے جسکے اردگرد  سیارگاں  گھوم گھومکر  روشنی پاتے ہیں کہ وہ  ایسا کاریگری جسکے دستقدرت نے ستارونکو ایسی ترتیب اور استقامت  بخشی ہے کہ وہ زمانونسے  بے ستون  معلق کھڑے ہیں۔ آدمی اور چیونتے میں تو بلحاظ قدر منزلت کچھ نسبت ہے لیکن خدائے لا محدود اور انسان مین کچھ بھی نسبت متصور نہیں ہوسکتی  تو پھر ایسے خدا کو جو نادیدنی ہے  عقل  اور علم کی آنکھ کیونکر دیکھ  سکے اگر منطق ہے تو منطق  اُسقیدر کار گر ہو سکتا ہے جہانتک  اُسکا  دایرہ ہے اگر طبعیات ہو تو  اُسیقدر عمل  درآمد  ہو سکیگا جہانتک  مضردومرکب کی قید  ساتھ ہے لیکن ہم  تو خدا  اُس  ہی خدا کو کہتے ہیں جو ان تمام قیود  سے مبّرا ہے۔ منطق کے نشیب و فراز  کو امتحان کرو کہ منطقیونکی  آرا میں ہی کسقدر اختلاف ہے۔ کو ئی منطق کی تعریف کیسطرح  کرتا ہے اور کو ئی  کسیطرح  کوئی کہتا  ہے منطق صرف  خیال کو درست کرنے کا فائیدہ دیتا ہے کوئی  کہتا ہے نہیں یہہ غلط ہے اور  منظق صرف اِسی حالت میں واجب الاستعمال  ہے جبکہ  اُسکا عودان اشیاء پر ہو جو واقعی موجود ہیں۔ غرضکہ  کو ئی کسی مسئلے کو کسی طرح بیان کرتا ہے اور کوئی کسیطرح ۔ اب جبکہ اُس آلہ  میں جسکی مدد سے ہم ایک نادیدنی شے کو دریافت کیا چاہئے  میں ایسے نقص موجود ہیں  کہ اُسکو استعمال کرنیوالے بالاتفاق یک زبان نہیں تو ہم اُنکے نتائج  پر کیونکر  تکیہ کر سکتے ہیں اور پھر جبکہ یہہ دیکھتے ہیں کہ جسیانہ زبردست  لمحہ  منطقی یہہ ثابت کرتا ہے کہ  خدا نہیں ہے (لاحول ولا)  ویسا ہی عالم دیندار منطقی یہہ ثابت کرتا ہے کہ خدا ہے (الحمداﷲ) تو کیوں اُس دلیل کو زمانیں جو خیز بجانب ہے۔ اگر خدا انہو اور ہم کہیں کہ ہے تو ہمارا کیا نقصان اور اگر ہے اور ہم کہین نہیں تو بیشک ہمارا بہت برُا ھال ہو گا پس اگر علم طبعیات  ہے تو مادہ لو اور اُسکے پہلو سہلاؤ۔ نجوم ہو تو انم جہانکو۔ کیمیا ہے تو گھریا ڈھونڈو سونا چاندی  پگھلاؤ پر اِن  علموں سے خدا کو معدوم  ٹھہرانے کے لئے اسکے پیچھے کیوں پڑو  اُسکے پہچاننے کو اُسیکا  کلام ہے۔ کیا خوب کسی دانا نے کہا ہے اگر علم کا عمل  درست طور پر نہو تو مثل  آب و دانش  اُس سے بجائے فائدے کے لاکھوں نقصان اُٹھانے  پڑتے ہین بھلا اِس سے بڑہکر اور کیا نقسان ہو سکتا ہے کہ انسان اُمید اور تسلی کھو بیٹھے ۔جب آدمی یہہ سمجھ بیٹھے  کہ خدا  کو ئی چیز نہیں تو اُسکے پاس کیا باقی رہا۔ انہیں ایام میں مجھے ایک رسالہ دیکھنے کا اتفاق  ہوا جو برڈالا لامذہب کی تصنیفات  سے تھا۔ اگرچہ چکھنے مین میٹھا  تھا لیکن زہر قاتل  سے پرُ تھا۔ اُسکے لفظونمیں کچھ کچھ وہی مزہ پایا جاتا تھا جو باغ  عدن کی اُن دلفریب  باتونمیں  تھا جنہوں نے ہمارے بھولے باپ کو بہلا لیا۔  لیکن شکر ہے خدا کا کہ وہ اپنے بندوں  کو تریاق ہدایت عنایت کرتا ہے جس کے طفیل سے سم الحاد اُنپر تاثیر پزیر نہیں ہو سکتا مگر افسوس  اُن نوجوانونپر جو محض حجت اور بدعت کے لئےاور پھر نہایت شوق سے ایسی زہر آلود اور بداخلاق کتابونکا مطالعہ کرتے ہیں۔ میں نے اپنا فرض سمجھا کہ میں اُن خیالات کو ظاہر  کروں جن کی مدد سے مین اس ہلاہل  کی تاثیر سے بچاتا کہ اگر کوئی ا،س سنکھۓ کو چکھکر حالت کشمکش میں ہو گیا ہو شاید ان خیالات کو کام میں لاکر بحال ہو جائے۔ اب ہم اُس  رسالے کالب لباب  اپنے لفظونمیں بیان کرتے ہیں مصنف نے الفاظ ’’بڑھو اور پھلو‘‘ پر  چشمک کی ہے جو خدا نے آدم کو برکت دیتے وقت استعمال  کئے تھے اُسکا یہہ اعتراض  ہے ’’بڑہنا اور پھلنا آبادی کی ترقی کو کہتے ہین اور آبادی کی ترقی سے افلاس پھیلتا  ہے اور افلاس سے لوگوں کی حالت  روّی  ہوئی ہے پس یہہ برکت ہے یا اُسکے برعکس۔ چنانچہ  زیادہ آبادی کے سبب سے انگلستان  کا حال ایسا ہی ہو رہا ہے کہ لوگ افلاس کے ہاتھوں اپنا وطن چھوڑ  چھوڑ غیر ملکوں کو جا رہے ہیں غریب غربا کو محنت کا  موقع نہیں ملتا مزدوری دستیاب نہیں ہوتی مارے بھوک پیاس کے چلاتے ہیں سینکڑوں پادری پیکٹ پر سے مانگتے ہیں نہیں پاتے ۔ ڈھونڈتے ہیں اور اُنکو نہیں ملتا کھٹکٹاتے ہیں اور نہیں کھولاجاتا کیا بڑھنے اور پھلنے کی برکت دینے والا خدا سو گیا۔  کیا یہہ برکت پولٹیکل  اکانومی (سیاست مدن) کے اِس اصول سے متفق ہے کہ جہانتک ہو سکے آبادی کو کم رکھو تاکہ بھوک سے نہ مرو۔ کیا خدا سے یا پولٹیکل اکانومی سے ایسے معاملے میں صلاح لینی چاہئے  اور کس کا کہا ماننا چاہئے؟ دیکھنا کہیں اِن تڑیوں میں نہ آجائے۔ آؤ تو لفظ  بڑھو  پر غور کریں کہ کس وقت کہا گیا۔ بائبل اِس لفظ کو اُس  زمانے سے منسوب کرتی ہے جبکہ دنیا میں صرف  دو انسان  تھے۔ کیا  ایسے وقت میں جبکہ زمین  بالکل غیر آباد تھی یہہ برکت زیبا  نہ تھی اور کیا اب ساری زمین آباد  ہو چکی ہے جو مخالف  طعن سے یوں  کہہ رہا ہے۔  یوروپ  صدیوں سے اُٹھ اُٹھ کر امریکہ اور آسٹریلیا و جا رہا ہے اب دنیا کو بڑہا رہا ہے  مگر اُسکی راہیں ہماری  راہوں سے بعید ہیں۔ یوں نہ کہو کہ افلاس کے مارے اپنا ملک چھوڑ  چھوڑ کر چلے جا رہے ہیں  شاید اُسنے اِس افلاس میں یہہ  بھید رکھا ہو کہ آسٹریلیا اور امریکہ  کے غیر آباد خطوں کو یوروپ کے غریب  مسیحیونسے آباد کرے تاکہ وہ مسیحیت کو ساتھ لیکر جائیں اور جا کر وہاں بسیں جہاں  بڑھنے اور پھلنے کو ہنوز جگہ ہی آدمی کون ہو جو اُسکے کام میں دست اندازی کر سکے خدا مثل برتن بنانے  والے کے اور آدمی  مانند برتن کو بنادیگا  خدا  انگور  لگا نیوالا  اور آدمی انگور اگر وہ اُسکو شاخوں کی طرح کاٹتا چھانٹتا ہے تو وہ یہہ بھی جانتا ہے کہ آئندہ پھل میں کس قدر قدر ترقی ہوگی۔ اور اگر کو ئی  اُسکے کاٹنے چھانٹنے  میں مزاحمت کرے تو پہلے براہ مہربانی یہہ ثابت کر دے کہ کسقدر نیکوں کے پھل لاکر اُس نے اِس مزاحمت کا استحقاق پیدا کیا ہے۔  باشندگان اضلاع  متحدہ میں سے ہزاروں  اسی غریبی کے مارے اپنے وطن سے نکلے تھے جو اب ہر علم اور سبُز میں اور اقبالمندی میں اپنے پرُانے ہموطنوں سے ایکقدم پیچھے نہیں ۔ خدا جو کچھ کرتا ہے ہماری بہتری اور بھلائی  کے لئے کرتا ہے۔ پھر دوسرا طعن  مخالف کا دعا پر ہے کہ عیسائی دعا کرتے ہیں  اور اُنکی دعائیں قبول نہیں  ہوتیں۔ مصنف رسالے کا یہہ کہنا بجا ہے کیونکہ نہ اُنہوں نے کبھی دعا مانگنے کی تکلیف  اُٹھائی اور نہ کبھی مستجاب الدعوات کی بخشش کا تجربہ کیا پر ہر ایک سچا عیسائی  کہہ سکتا ہے کہ بیشک خدا دعاؤں کا سننیوالا خدا ہے۔ اگر دیندارونکی اُن دعاؤنکو جو قبول ہو چکیُں کا غذ پر لکھیں تو ممکن ہو کہ جلد پر جلد تیار ہو لیکن اتنا میں بھی کہتا ہوں کہ اگر دعا بد و ضعی سے مانگی جائے تو وہ ہر گز  قبول نہوگی۔  مانگنا۔ ڈھونڈنا۔ کھٹکھتانا۔ تب ہی بامر اد ہوگا جبکہ اسکی اُمید یہہ ہو کہ مونگینوالا خدا کا جلال ظاہر کر سکے اور ہمیشہ اُسکے ساتھ خوشحال  رہے کہ وہ مسیح کو تہِ دل سے پیار کر سکے اور اپنے بھائیونکو اپنی طرح ۔ کہ وہ بہرحال خدا کے کلام میں مگن رہے خواہ وہ ھالت تکلیف کی ہو یا آرام کی چاہے دولتمندی کی ہو یا افلاس کی اور اگر دعا خدا کی مرضی  پر تجاوز کرے اُسکی قبولیت میں کمال شک ہے اور  نہ کوئی دیندار  کبھی ایسی دعا کرتا ہے کہ اے خدا گو یہہ تیری ہی مرضی ہے کہ میں مفلسی کے دُکھ سہوں تو بھی میں یہہ چاہتا ہوں کہ مجھکو بار  افلاس  سے سبکدوش  کر کے مالدار اور غنی بناوے اور اگر  کوئی  ایسی  دعا کرتا ہے تو وہ عبث مغز خالی کرتا ہے کیونکہ  یہہ دعا ہر گز سُنی نجائیگی۔ مجھے کامل یقین ہے کہ تمام دیندار  پلپٹ پر سے دعا مانگنے والے خواہ انگلستانمیں  ہوں یا امریکہ میں خواہ یوروپ مین ہون یا افریقہ میں اگر انسانیت کے لحاظ سے اور کمزوری کے سبب سے چند روزہ  رنج  و عنا  سے بچنے کی دعا مانگتے بھی ہوں تاہم یہہ بھی ساتھ ہی اپنے  خداوند کسیطرح ضرور کہتے ہونگے ــ باپ میرے میری مرضینہیں پر تیری مرضی ہو۔ مانگینوالا بچہ کیا جانتا ہے کہ چھرُی  کٹاری میرے لئے مفید ہے یا مضر پر باپ جانتا ہے کہ مچھلی دوں یا سانپ۔ پھر متعرض  پولٹیکل  اکانومی اور بائبل شریف میں اختلاف  دکھلاتا ہے جو بالکل غلط ہے۔ بائبل کسی سائینس یا علم کی مخالفت نہیں کرتی  پر ہم بائبل  کے بھیدونکو کس علم  کی امداد  و زریعہ سے کماحقہ دریافت نہٰیں  کر سکتے تاوقیکہ بائبل  کی مدد نہ لیں۔ اِس اعتراض کے جواب سے پہلے ہم اِس  بات پر غور کر لین کہ احکام ربانی کی پیروی  سے ہمارا  فائیدہ ہے یا خدا کا مثلاً جب ہمیں شراب خوری سے ممانعت کی  جاتی ہے اِسمیں  ہمارا فائیدہ ہے یا خدا کا۔ ہر  کس و ناکس  اس سے خوب واقف ہو کہ استعمال مسکران سے کیا نتایج برآمد  ہوتے ہیں تو خون نکرنا ’’ تو چوری نہ کرنا‘‘ وغیرہ تمام احکام ایسے ہیں جو سراسر صرف بہبودی کے لئے ہیں۔ جسکو میں خدا کہتا ہوں وہ ایسا خدا ہے کہ جسکے جلال اور بزرگی میں میرے نیک چلن سے ایک  رتی بھر ترقی نہیں ہوتی اور نہ میرے بدچلن سے اُسکی عظمت میں یک سرِسو فرق آتا ہے کیونکہ اُسکی  قدرت اور جلال ازل سے ابد تک ہمیشہ یکساں ہیں  کمال شکر ہو ترا اے باپ کہ تو میرے فائیدے اور آرام کو اپنا جلال سمجھے اب ہم اِس سلسلہ میں اعتراض کی مدافعت یعنے اختلاف کی مدافعت کیا چاہتے ہیں خدا نے جو یہہ حکم دیا  کہ ’’تو زنا نہ کرنا‘‘ اِسکے عدول  کرنے میں کیا قباحتیں متصور ہو سکتی ہیں؟ بے شمار مثلاً اِس فعل بد کے تکرار سے ٹوٹ  زائل ہوجاتی ہے طرح طرح کی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔ اور بہت سے نقصان پیدا ہوتے ہیں ازاں جملہ میں ایک یہہ بھی سمجھتا  ہوں کہاگر یہہ حکم نہوتا تو ضرور آبادی  حد سے زیادہ ہوجاتی بیشک خدا نے ہمارے  ہی فائیدہ  کو مدنظر رکھکر یہہ حکم دیا کہ مبادا آبادی کی کثرت انداز سے بڑھ جائے یقیناً اگر یہہ زنجیر  تیار کیجاتی اور اگر یہہ سرپوش تجویز نہوتی تو دنیا اُبل اُبل  پڑتی۔ اِسدنیا میں ہزاروں  آدمی ایسے  موجود ہیں جو اسی لگام سے جکڑے جکڑے ہیں اور پھر خدا نے صرف اس حکم پر اکتفا نکیا  بلکہ اُسنے یہہ حکم بھی دیا کہ ایک جورو سے زیادہ جورواں  نکرو۔ کون کہتا ہے کہ پولٹیکل  اکانومی اور بائبل میں اختلاف  ہے غور کرو کہ ابتدائے عالم سے کیسی  مطابقت  بائیبل  اور پولٹیکل  اکانومی میں چلی آئی ہے کہ جب دنیا میں لوگ بہت بہت جوروآں کرتے تھے اور خدا برداشت کرتا تھا اور یوں آبادی زیادہ ہوگی۔ بنی اسرائیل کا نمونہ اور قوموں نے لیا پھر آخر اُس  نے یہہ مستقیم ارادہ  ظاہر کیا کہ تیرا مددگار ایک ہی ہے بس  ہے اس سے زیادہ  نہو۔ کیا ان باتونسے  یہہ ظاہر ہوتا ہے کہ بائبل  پولٹیکل اکانومی سے مطابقت نہیں رکھتی اگر اسکو مطابقت  نہیں کہتے تو میں نہیں جانتا کہ مطابقت  کس چیز کا نام ہے۔ خدا نے ہمارے فائدے کے لئے سب کچھ کر دیا اب اگر بنی آدم  اپنی شہواتی عادات کو بس  میں نہ رکھے تو خدا کا کیا قصور

؎  گر نہ بیندبروز شپرہ چشم
چشمۂ آفتاب راچہ گناہ

اب کوئی چودہ جورواں کرے یا چار اُسکی مرضی۔ کوئی زنا کرے یا بدکاری اُسکی رضا۔ پر اگر لوگ خدا کے حکم کے بموجب  پرہیزگاری اور صبر سے چلیں تو پھر دیکھیں کہ کسطرح آبادی اِسقدر پھیل جائے جو لاگ بھوکوں مریں۔ بس اے عزیز خداوند کا شکر کرتے ہوئے ٹھراتے ہوئے اپنی نجات کا کام کرتے جاؤ۔

راقم طالب الدین از لاہور

خدا اور انسان میں کیا رشتہ ہے

What is the relationship Between God and Man?

Published in Nur-i-Afshan October 10, 1889

سب سے اول انسان  پر یہہ  فرض ہے کہ وہ اپنے اور خدا کے درمیان جو رشتہ  ہے اُنکو نہایت ہوشیاری سے دریافت کرے اور سمجھے  کہ خدا اور اُس کے بیچ میں کیا رشتہ ہے اور اُس رشتہ کو دونوں کے درمیان کیا علاقہ ہے۔ جب تک یہ معلوم  نہو ھا تب تک ممکن نہیں کہ انسان اپنی پیدایش کی علت غائی کو سمجھ کر شقاوت  ابدی سے بچکر  سعادت سرمدی کو فائیز ہو پس سب رشتوں سے اؤل اور مضبوط  بد یہی رشتہ جو انسان اور خدا کے درمیان  عقلاً اور نقلاً قرار پاتا ہے وہ یہہ ہے کہ خدا کالق اور انسان مخلوق ہے باقی اور رشتہ مثلاً  رازقی پروردگاری رحمت  عدالت  حفاظت وغیرہ سب اِسکے بعد ہیں اگر پہلے ہی رشتہ خدا اور انسان میں چابت نہوا تو اور رشتہ  جو اِسی اصل کے فرع ہیں کیونکر  ثابت  ہونگے اور یہ ممکن نہیں کہ کوئی شے بغیر پیدا کئے  خود بخود پیدا ہو جائے دیکھو عمارت بغیر معمار اور میز و کرسی  چارپائی بغیر نجار اور چُھری چاقو تواکڑ اہی  بغیر  لوہار کبھی نہیں بنگیا ضرور کدا نے اُسے بنایا۔ اور انسان کے بنائے جانیسے ہماری مراد ُکل اعضائے  جسمانی اور روحانی سے ہے جس کی ترکیب کو معہ اُُن تمام اعضا کے انسان کہتے  ہیں۔ نہ صرف جسم میں روح نہویا سر نہو یا ہاتھ یا پاؤں نہو اور نہ بہہ مراد ہے کہ  سارا بدن خدا نے بنایا مگر سے اپنے آپ بنگیا یا پانوں ازل سے ہے  بلکہ سب کچھ جسپر انسان کا اطلاق ہوتا ہے خدا نے بنایا فرض کو کہ انجمن بنایا گیا مگر اُسکی طاقت رفتار نہیں بنائی ھئی یا گھڑی تو بنی مگر یال کمانی بغیر بنائے بن گئی کیا یہ عقیدہ  درست ہوگا ہرگز نہیں۔ تو پھر آریہ  لوگون کا یہ سدھانت  کہ انسان کا جسم تومخلوق ہے مگر روح غیر مخلوق ہے کہاں قبولیت کے لایق ہے۔ اور جس حال میں کہ روح  جو انسان کااصلی جزو ہے وہی خدا کی بنائی ثابت نہیں تو پھر خدا کو ہمارے اوپر  کیا دعوی ہے کہ ہم اُسکی عبادت  کریں یا اُسکے حکموں پر عمل کریں۔ کیونکہ ہم اُسکی مخلوق نہیں اور جب  مخلوق  نہیں تو بدرجہ اولی وہ ہمارا نہ رازق ہے نہ حافظ ہے ۔ پھر نا حق آریہ بھائی پر  مشپر  پر مشپر  پکارتے  ہیں اُس کو اُن سے علاقہ ہی کیا ہے جیسا وہ ازلی  ویسے  ہی وہ بھی ازلی ہیں اور جو ازلی ہے وہ لا محالہ ابدی بھی ہوگا ناحق چوراسی لاکھ جون کا آواگون اپنے سر پر اُٹھا لیا ہے۔ اِسے سر  سے اُتار  پھینکو اوراُس حذا پر ایمان لاؤ جو مرُدوں کا خدا نہیں بلکہ زندونکا  خدا ہے۔ متی ۲۲۔ ۳۲۔ 

ایک اعتراض کا جواب

A Reply to an Objection

Published in Nur-i-Afshan October 31, 1889
By Rev. Nasir

عموماً مسیحی مذہب کے خلاف یہہ اعتراض پیش کیا جاتا ہے کہ چونکہ مسیح گناہونگا کفارہ ہوا۔ اِس لئے مسیحیوں کو گناہ کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔ یا  یوں کہیں کہ مسیحی جسقدر گناہ سے  چاہ  کریں مسیح کے کفارہ کے سبب بخشے جائینگے۔ ایسے معترض بیبل کے اُصول  سے ناواقف ہونے کے باعث  غلطی کرتے ہیں واضح  ہو کہ کو ئی  اعتراض مسیحی مذہب کے خلاف  نیا نہیں۔ ابتدائے تواریخ  میں مخالفوں نے وہ وہ سخت اعتراض کئے ہیں کہ آج  کل کے بڑے بڑے  نکتہ چینوں کے خیال میں بھی نہیں  آئے۔ اُس پر بھی اِس  زمانہ کے بعض کوتاوبیں پرُانے مرُدے اُکھاڑنے اور اُنکو نئے لباس پیش کرنے پر اکڑتے ہیں  مسیحی  مذہب کے خلاف چند  سُنے سُنائے اعتراض کر کے جھُلا کے سامنے  اپنی  لیاقت کا نقارہ بجاتے ہیں ۔  مذکورہ  بالا اعتراض  بھی اُنہی قدیم اعتراضوں  میں سے ہے۔ چنانچہ پولوس حواری  شہر روماؔ  کے مسیحیوں کی طرف کی طرف  خط  میں بھی سوال دوسرے  الفاظ  میں یوں ادا کرتا ہے کہ کیا  ہم گناہ  کیا کریں  اِس لئے کہ ہم  شریعت کے اختیار میں نہین بلکہ فضل  کے اختیار  میں ہیں۔  اور اِس اعتراض  کا جواب بھی رسول مذکور نے اُسی باب میں تحریر  کیا ہے۔ جو چاہے  رومیوں  کے نام خط کا چھٹا باب غور  سے پڑھ کر دیکھے۔

اِس اعتراض سے یہہ ثابت ہوتا ہے کہ معترض خود  نہیں سمجھتا کہ کیا اعتراض کر رہا ہے  کیونکہ جو شخص  گناہ کی نجاست سے ناواقف  اور گناہونکی مغفرت  کی نسبت انتظام  ایزدی کا علم نہیں رکھتا وہی اِس قسم کے کلمات زبان پر لاویگا۔  شاید بیجا نہ ہوگا  کہ ایسوں کی خاطر  یہاں چند  الفاظ اُس تعلق کی نسبت لکھے  جاویں جو  مسیحی کا مسیح کے ساتھ  ہوتا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ یہہ معاملات  روحانی  عالم سے متعلق ہیں  اور اُن لوگون کی سمجھ میں ہر گز نہیں  آسکتے جو دیدنی اشیاء کے حلقہ کے باہر نگاہ نہیں  دوڑ سکتے  ایسوں کے سامنے روحانی  عالم کی باتیں بیوقوفیاں  ہیں۔

دُنیا میں ہر ایک  اِس  اُصول  کو تسلیم کریگا کہ اچھا  درخت برُے پھل نہین لا سکتا اور نہ بُرا درخت  اچھے پھل لا سکتا ہے یا دوسرے الفاظ  میں  اگر  سر مین ضعیف ہو تو سارا جسم ضعیف ہوگا اِس خیال کو مدنظر  رکھکر  ذرا آگے چلیں ۔ جب آدم اول جو تمام خلقت کا سر تھا خدا کی نافرمانی سے گنہگار  ٹھہر ا تو اُسکے باعث اُسکی نسل اور اُسکے تمام متعلقین پر ایک قسم  کا ضعف طاری ہو گیا۔ زمین آدم کے سبب ملعون  ہو گئی۔ بنی آدم  کا بگاڑ دیکھنے کے لئے  بہت غور  و فکر  کی ضرورت  نہیں یہہ اظہر من الشمس ہے۔ اگر یہہ ممکن ہو کہ  ہم  آدم اوّل سے تعلق  رکھ کر گنہگار ٹھہرے  تو کیا یہہ ناممکن ہے کہ کسی ایسے آدم ثانی  سے متعلق ہو کر جو کامل راستباز ہو ہم راست باز ٹھہریں۔ کیا ناممکن ہے کہ ’’ غرض جَیسا ایک گناہ کے سبب سے وہ فَیصلہ ہُؤا جِس کا نتِیجہ سب آدمِیوں کی سزا کا حُکم تھا وَیسا ہی راست بازی کے ایک کام کے وسِیلہ سے سب آدمِیوں کو وہ نِعمت مِلی جِس سے راست باز ٹھہر کر زِندگی پائیں۔ کیونکہ جِس طرح ایک ہی شخص کی نافرمانی سے بُہت سے لوگ گُنہگار ٹھہرے اُسی طرح ایک کی فرمانبرداری سے بُہت سے لوگ راست باز ٹھہریں گے۔‘‘ ( رومیوں ۵: ۱۸، ۱۹)

جیسا کہ جسمانی عالم میں پیدایش ہے ویسا ہی روحانی  عالم میں بھی ہے۔ جسکو روح القدس  سے سر ِ نو پیدا ہونا کہا گیا ہے جیسا بچہ کا پیدا ہونا کو ئی علم طب کا مسئلہ  نہین بلکہ ایک امر واقعی  ہے۔ ویسا ہی سر نو پیدا ہونا بھی کو ئی علم الہیٰ کا مسئلہ  یا بحث طلب  امر نہیں ہے۔ اِس نو پیدایش سے اِنسان ایک  ایسے بدن کا عضو بن جاتا ہے جس  کا سر مسیح  ہے۔ زندگی کی حرکات اُس میں نمایاں ہوتی ہیں۔  اِس تعلق کو  ہمارے خداوند نے دوسرے  الفاظ  میں انگور کی مثال  سے ادا کیا۔ چنانچہ وہ فرماتا ہے کہ ’’ مَیں انگُور کا درخت ہُوں تُم ڈالِیاں ہو ۔ جو مُجھ میں قائِم رہتا ہے اور مَیں اُس میں وُہی بُہت پَھل لاتا ہے کیونکہ مُجھ سے جُدا ہو کر تُم کُچھ نہیں کر سکتے‘‘۔ غرض  اِنسان مسیح میں  پیوند ہو کر  نئی زندگی حاصل کرتا ہے۔ وہی اس  جو جڑ مین ہے شاخ میں بھی دوران  کرتا ہے۔ اور پھر جیسا کہ شاخ کو میوہ لانے کے لئے کسی قسم کی کوشش  نہیں  کرنی پڑتی بلکہ درخت میں قائم  رہنا ہی شرط ہے۔ ویسا ہی اِنسان  اپنی مرضی کو خدا کی مرضی کے تابع کر کے اور  ایمان سے اُس میں قائم رہکر بہت پھل لاتا ہے۔ پر پھل  وہی ہیں  جنکو  عموماً  نیکیاں  کہتے ہیں۔ اور جنکو پولوس رسول روح کا پھل کہتا ہے۔ چنانچہ  وہ فرماتا ہے کہ ’’روح کا پھل  جو  ہے سو محبتؔ خوؔشی سلامتیؔ  صبر ؔ  خیر ؔ خواہی  نیکی ؔ  ایمانداری ؔ فروتنی  پرہیزگاریؔ ہے۔ ‘‘

حاصل کلام  جوں جوں اِنسان مسیح میں شامل ہوتا جاتا ہے اُسیقدر  اُسکی خواہش  یا خوشی  گناہ میں  نہیں ہو تی۔ مسیح نے نہ فقط  ہمارے گزشتہ گناہونکی  معافی کے لئے کفارہ دیا  ہے بلکہ جو شخص اِیمان کے زریعہ  اپنے تئیں اُسکے تابع  کر دیتا ہے  آیندہ کے لئے گناہ کے اختیار  سے بھی رہائی پاتا ہے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ ’’ تم گناہ سے چھوٹکر  راستباز ی  کے غُلام بنے۔‘‘ تم آپ کو گناہ کی نسبت مُردہ پر خدا کی نسبت ہمارے خداوند  یسوع مسیح کے وسیلہ زندہ سمجھو۔‘‘  ’’اور کہ گناہ تمھارے  فانی جسم پر سلطنت نہ کرے۔‘‘  اب اِس صداقت کے سامنے وہ اعتراض کہاں رہا۔ اِس عجیب روشنی کے سامنے  اُسکی  پیچیدگی حل ہو گئی۔

اے ناظریں یہہ مبارک تجربہ میرے اور تمھارے لئے ہے اور خدا اپنی برکتیں  مفت دیتا ہے۔ دیکھو اب قبولیت کا وقت ہے دیکھو اب نجات کا دن ہے۔

راقم ۔۔۔ ناصر  از لاہور

نجات ایمان پر منحصر ہے نہ کہ اعمال پر

جمیل سنگھ

(۱۸۴۳–۱۹۲7)

Salvation depends on Faith, Not on Good Works

Published in Nur-i-Afshan October 22, 1885
By Jameel Singh
(1843–1927)

جو ایمان سے راستباز ہوا وہی جئیگا۔ گلتیوں ۳ باب ۱۱ آیت۔

حسب وعدہ  جو پچھلے پر چے نور افشان میں کیا گیا تھا میں ناظرین کو دکھلانا چاہتا ہوں کہ نجات کے حاصل  کرنے کے لئے اعمال  پر بھروسا  رکھنا  بالکل  لاحاصل  ہے  اور کسی صورت سے گنہگار اعمال سے بچ نہیں سکتا اور  یہہ بھی دکھلانا چاہتا ہوں کہ نجات صرف ایمان سے  ہو سکتی ہے اور اُس ایمان کا بھی  مختصر  بیان کرونگا  تاکہ بکوبی روشن ہو جاوے کہ گنہگار کے بچنے کے لئے ایمان کیسا ضرور ی امر ہے۔ اگر گنہگار  بچے تو صرف اسی ہی سے بچ سکتا ہے ورنہ ہر گز نہیں ۔ پہلے میں کلام  الہیٰ سے وہ  آیتیں  نکال کر دکھلاؤنگا کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اعمال کی رو سے تمام  آدمی گنہگار ٹھہر چکے ہیں۔ اور پھر آدمیوں  کے ظاہر حال پر گور کر کے دکھلاؤنگا کہ اس سے بھی ثابت  ہوتا ہے کہ سب آدمی گناہ  کی رغبت  زیادہ  رکھتے ہیں اور نیکی  کی بہت کم  اور نیکی کرنے میں بہت سُست بلکہ لاچار ہیں۔  اور اگر کچھ نیکی کرتے بھی ہین تو وہ بمنزل نیکی کے نہیں کیونکہ وہ بھی گناہ سے ملی ہوئی ہے۔

(۱)۔  کلام الہیٰ کی وہ آیتیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام آدمی  گنہگار ہیں  اور اعمال بد میں گرفتار  ہیں۔  مگر اگر کوئی کہے  کہ تم کو سب کا حال کس طرح معلوم ہوا۔ یہہ بات ٹھیک  ہے  آدمی  اپنے کئے ہوئے کاموں کو بھول  جاتا تو اورونکا حال کیونکر  جان سکتا ہے پر کل دنیا کے لوگوں کا حال  تو  خدا ہی جانتا ہے۔ اور جب وہ اپنے کلام میں ظاہر  کر دیوے کہ تمام بنی آدم  گنہگار ہیں تو پھر ایسا کہنے کی گنجائیش  نہیں  رہیگی  کہ بہت آدمی بے گنا ہ ہوں گے اور اپنے اعمالوں کے سبب سے بہشت میں جانے کے لائیق  ٹھہرینگے  اور اعمال  نیک سے بچ جائینگے۔ اسلئے ضرور ہے کہ کلام الہیٰ  سیکھا جاوے۔ لکھا ہے کہ کوئی  راستباز  نہیں ایک بھی نہیں۔  نامہ رومیونکو ۳ ۔ باب ۱۰۔ آیت ۔  چُنانچہ لِکھا ہے کہ کوئی راست باز نہیں ۔ ایک بھی نہیں۔ زبور  ۱۴۳ ۔ آیت ۔ ۲۔ خداوند آسمان ہر سے بنی آدم  پر نگاہ  کرتا  تھا کہ دیکھے  کہ اُنمیں  کو ئی دانش والا خدا کا طالب  ہے یا نہیں  وے سب گمراہ ہوئے۔ وے سب کے سب بگڑ گئے۔ کو ئی نیکوکار نہین ایک بھی نہیں۔ زبور ۱۴۔ آیتیں ۲، ۳ ۔ اور  ۵۳۔ زبور ۲، ۳، آیتیں کیونکہ اُنہوں نے اگرچہ  خدا کو پہچانا مگر تو بھی خدائی کے لائق اُسکی  بزرگی اور شکرگزاری نہ کی  بلکہ باطل خیالوں میں پڑگئے اور اُنکے  نافہم  دل تاریک  ہوگئے۔ رومیوں ۱۔ باب  ۲۱ آیت  اِن آیتوں  سے معلوم ہوتا ہے کہ سب گنہگار ہیں اور جب گنہگار ٹھہرے تو اعمال کہاں رہے اور اعمال سے بچنے کی امید بھی  جاتی رہی۔

(۲)۔ وے آیتیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اعمال سے آدمی  بچ  نہیں سکتا  یہہ ہیں۔ پس کو ئی آدمی  شریعت  پر عمل کرنے سے اُسکے سامنھے راستباز  نہ ٹھہرے گا۔ نامہ رومیونکو ۳۔  باب ۲۰ آیت ۔ کو ئی بشر شریعت کے کاموں سے راستباز گنا  نہ جائیگا۔  گلتیوں ۲۔ باب ۱۶۔ آیت اور دیکھو  ۳ ۔ باب  ۱۱۔ آیت اِن آیتوں سے صاف معلوم  ہوتا ہے کہ اعمال کی شریعت سے کوئی  خدا کے حضور راستباز  ٹھہر کے نجات کا مستحق  نہ ہوگا۔

(۲)۔ اب آدمیوں  کے ظاہر ہ حال  پر غور کر کے دیکھیں  کہ سچ مُچ  آدمی گنہگار ہیں کہ نہیں اور اپنے کاموں سے بچ سکتے ہیں کہ نہیں۔  اگر آدمزاد کے سارے کاموں  پر غور کیا جاوے تو فوراً  معلوم  ہو سکتا ہے  کہ آدمی کے سب کام  گناہ سے ملے ہوئے ہیں (۱)۔ اگر دنیوی کاروبار  پر خیال کیا جاوے تو دیکھا  جاتا ہے کہ ہر ایک کام میں اکثر  فریب اور دھوکا  پایا جاتا ہے اور دروغ گوئی  کا تو کچھ ٹھکانا  نہیں بلکہ یہہ بات مشہور ہے جو کاروباری لوگ  کہا کرتے  ہیں کہ ہم کیا کریں بغیر  جھوٹھ کے ہمارا کام نہیں  چلتا۔ اور علاوہ ازیں جو مغروری  اور غصہ اور غضب اور لالچ  وغیرہ  ہر ایک بشر میں پایا جاتا ہے اور دنیا کی محبت جو اعمال نیک  کی دشمن  ہے کسی کے دلمیں  جگہ  نہیں رکھتی ( ۲) دینی کام کی طرف غور کیا جاوے تو معلوم ہوتا ہے کہ  تین بڑے  کام خاص  عبادت  کے رکن سمجھے جاتے ہیں  یعنے نماز روزہ اور زکوةٰ  لیکن  کو ئی شخص  اِن کو پورا نہین کر سکتا کوئی  پورا  پورا  نماز کا حق  اور روزے اور زکوةٰ  کا حق  جیسا کہ شریعت  چاہتی ہے ادا نہیں کر سکتا اور جیسا  چاہئے کسی سے بھی  کماحقہ اُنکی تعمیل نہیں ہو سکتی ۔ کیونکہ وہ خصلت اور طبیعت موجود نہیں جن سے یہہ کارروائی  انجام پا سکتی ہے اور اگر کوئی انسان  شریعت کے پورا کرنے کے لئے انکا قصد بھی کرتا ہے تو معلوم ہوتا  ہے کہ نماز میں ریاکاری شامل ہوتی ہے اور اگر ریاکاری نہ ہو تو سُستی تو ضرور  پائی جاتی ہے اور  روزے مین بے اوتدالی بھری ہو ئی ہے اگر کھانے پینے میں کچھ کمیّ زیادتی ہو جاتی ہے مگر نفس امادہ تو ویسا ہی جوش  و خروش  میں رہتا ہے۔ اور سخاوت میں کنجوس پنا بھرا ہوا ہے اور اگرچہ  تھوڑا سا سخاوت  کا خیال  دلیمں  آگیا  تو کچھ کسی کودے ڈالا  ورنہ اپنی ہی آزمائیش کا خیال  ہر ایک نفس کو لگا ہوا ہے بلکہ عُجب  اور تکبر نے  ہر ایک  انسان کو اپنے  دام میں قابو کر رکھا ہے جن سے سارے نیک کام مردود ہو جاتے ہیں۔ اِن سب باتوں سے معلوم  ہوا کہ انسان  سچ مُچ  قولاً و فعلاً  گنہگار ہیں اور جب گنہگار  ٹھہر چکے تو پھر کس طرح بچینگے  اور اعمال سے بچنے کا فخر کہاں  رہا۔ اب میں اُن  آیتوں کو نکال کر دکھلاؤنگا جن سے معلوم ہوتا  ہے کہ گنہگار انسان صرف ایمان سے بچ سکتا ہے۔ کیونکہ تم فضل  کے سبب ایمان لاکے بچ گئے ہو اور یہہ تم  سے نہیں ۔ خدا کی بخشش ہے۔ خظ افسیونکا ۲۔ باب ۸ ۔ آیت جو اُسپر  (خداوند یسوع مسیح پر ) ایمان لاتا ہے ہمیشہ  کی زندگی اُس کی ہے۔ یوحنا ۵۔ باب ۲۴۔ آیت پر خداوند یسوع مسیح  کہتا ہے کہ  جس  نے مجھے بھیجا  ہے اُسکی مرضی یہہ ہے کہ ہر ایک جو بیٹے  کو دیکھے اور اُسپر  ایمان لاوے ہمیشہ کی زندگی پاوے اور میں اُسے آخری دن اُٹھاؤنگا۔  یوحنا ۶۔ باب ۴۰ ۔ آیت ۔ لیکن یہہ لکھے گئے تاکہ تم ایمان لاؤ کہ یسوع مسیح خدا کا بیٹا  ہے اور تاکہ تم ایمان لاکے اُس کے نام سے زندگی پاؤ۔ یوحنا ۲۰۔ باب ۳۱۔ آیت اور ہم ایمان کے وسیلے خدا کی قدرت سے اُس نجات تک جو آخری وقت میں طاہر ہونے کو تیار ہے محفوظ  رہتے ہیں۔ ۱۔ پطرس۱۔ باب ۵۔ آیت جو ایمان سے راستباز ہوا سو ہی جئیگا۔ گلتیوں ۳۔ باب ۱۱۔ آیت راستباز ایمان سے جئیگا۔ عبرانیوں کا ۱۰۔ باب ۳۸۔ آیت اور فلپیون کا ۳ باب ۴ آیت  ۔ ایسی اور بہت آیتیں ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ  کی زندگی یعنے ابدی نجات  صرف  ایمان ہی سے حاصل  ہی سے حاصل ہو سکتی ہے پر اتنے ہی پر اکتفا کرتا ہو۔

بعضوں نے اعتراض کیا ہے کہ بس  جب عیسایونکی نجات صرف ایمان پرہے  تو انکو کیا اندیشہ ہے جو چاہیں  برائی کریں کیونکہ  اُنہوں نے اعمال سے تو بچنا ہی نہیں اور اُنکے اعمال تو پوچھے ہی نہ جاوینگے ، ایسے لوگوں کا کہنا ان دو زیل باتوں سے ناواقف ہونیکے سبب سے ہے۔ اول وہ اُس ایمان  کو نہیں جانتے جسکو عیسائی اختیار کرتے ہیں اور دوسرا خداوند  یسوع مسیح کی تعلیم سے ناواقف ہیں جو اُس  نے اپنے  ایماندارونکے چال و چلن  کے لئے ٹھہرائی ہے جنکا میں مختصراً بیان کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ ۱۔ عیسائی ایمان کیا ہے۔ کلام الہیٰ میں لکھا ہے کہ اگر تو اپنی زبان سے خدا خداوند یسوع کا اقرار کرے اور اپنے دل سے ایمان لاوے کہ خدا نے اُسے  پھر کے جلایا تو تو نجات پاویگا۔  نامہ رومیونکو  ۱۰۔ باب ۹ آیت اسکے سارتھ مقابلہ  کرو۔ متی ۱۰ باب ۳۳  آیت۔  و لوقا ۱۲ باب۸ آیت و  اعمال  ۸ باب ۳۸ آیت۔  اور جب کوئی اُس  ایمان پر کھڑا ہوتا ہے تو  وہ گناہ اور نجات  سے غسل دلایا جاتا ہے اور روح القدس کے بخشے جانے  سے وہ نیا مخلوق بنایا جاتا ہے۔ جیسا کہ لکھ ہے کہ اُس نے ہم کو راستبازی  کے کاموں سے نہیں  جو ہم نے  کئے  بلکہ اپنی رحمت کے سبب بئے  جنم  کے غسل اور روح القدس  کے سرنوبنانے  کے سبب  بچایا۔ طیطو ۳ ۔ باب  ۵ ۔ آیتْ  اور صرف  یہہ لفظی  ایمان نہیں  جیسا کہ  لوگ سمجھتے ہیں بلکہ  جہاں ایمان کا زکر ہے  وہاں اُسکے ساتھ  متعلقات یعنے اُن فرائیض کا بھی زکر ہے جو اگر عمل میں نہ لائے جاویں تو ایمان کی غرض پوری نہیں ہوگی۔مسیحی ایمان پر قائم  ہو کے  گنہگار کو جسم کی  رو سے مرنا اور نئی  اور روحانی زندگی کی رو سے جینا ضرور  ہے۔ اور پرُانی چال کو چھوڑ کر نئے طور پر چلنا اور سراسر نیا مخلوق بن جاتا ہے۔اور اگر یہہ وصف مسیح کے شاگردوں میں نہ ہوں تو اُسمیں  ایمان مطلق نہیں  ہاں البتہ مردہ ایمان ہوگا جو صرف خالی بات ہے ۔ اور جسکا انجام کچھ بھی نہیں۔  کیونکہ ایمان بغیر  عمل کے مردہ ہے۔  یعقوب کا خط  ۱۱۔ باب ۱۹ اور ۲۰ آیت  ۲۔ خداوند یسوع مسیح  کی تعلیم گنہگار کے واسطے جو اُسپر ایمان  لاتا ہے یہہ ہے۔ اور اُسنے سب سے کہا کہ اگر کو ئی چاہے  کہ میرے پیچھے آوے تو اپنا انکار کرے اور اپنی صلیب ہر روز اُٹھا کے میری  پیروی  کرے۔ لوقا ۹ باب ۲۳ آیت و متی ۱۰ باب ۳۸ آیت اور مرقس ۸ باب  ۳۴ آیت اور لوقا ۱۴ باب ۲۷ آیتیں اس پیروی کرنے کے یہہ معنے ہیں کہ خداوند مسیح جیسی چال و چلن اور خواور خصلت اور نشت و برخاست اور بول و چال ہووے اور ہر ایک کام میں پاکیزگی اور دینداری پائی  جاوے اور خدا کا سچا پرستار بنے۔ اور پھر لکھا ہے کیونکہ ہم اُسکی کاری گری ہیں اور مسیح یسوع میں ہو کے اچھے کامونکےواسطے  پیدا ہوئے جنکے لئے خدا نے آگے  ہمیں تیار کیا تھا تا کہ  ہم اُنہیں کیا کریں۔  افسنیونکا ۲ ۔ باب ۱۰ آیت ان سب آیتوں  سے معلوم ہوتا ہے کہ  خداوند یسوع مسیح پر ایمان لاکر اُسکی پیروی  کرنے میں کمال  دینداری  نیکو کاری اور پرہیزگاری  شامل ہے نہ کہ جیسا آجکل بعض خیال کرتے ہیں۔ لیکن اسمیں ایک بات ہے کہ یہہ پیروی  اُس شریعت  کی پیروی  سے بالکل  فرق ہے۔ شریعت کی پیروی میں کسی کی مدد اور یادری نہیں ملتی اور وہ سخت  غلامی ہے لیکن یہہ پیروی  مسیحی خود بخود نہیں کرتا اور نہ کر سکتا ہے بلکہ  اسمیں اُسکے ساتھ ایک مدد گار ہے جو  قدم  بقدم  اُسکے ساتھ چلتا ہے اور اُسے خود اِن  سب عمدہ راہوں  میں لئے پھرتے  ہے  جنمیں  یہہ خود  ہر گز  چل نہیں سکتا۔ کیونکہ بے کس لاچار گنہگار کو جب کچھ  طاقت ہی نیکی کی نہیں  رہی تو  پھر  کس طرح  سے یہہ کچھ نیکی کر  سکے۔ یہہ بات  تو صاف ہے کہ انسان بے کس لاچار کیونکی  نفس  اَمارہ اسپر ایسا  غالب آیا ہوا ہے کہ نیکی کی راہ میں اُسے  چلنے سے ہر وقت روکتا ہے اور بدی کو نیکی کی  صورت میں دکھلا کر ہزارہاکو  کفر کے راستےپر لئے چلا جاتا ہے۔ تو پھر کس طرح  یہہ انسان  پُر ازنسیان  اس سے خودبخود  چھوٹ سکتا ہے بغیر کسی مدد کے دنیا  کے  کاموں  میں دیکھا جاتا ہے کہ جب ایک آدمی  لاچارگی سے جھوٹ جاتا ہے اور اسطعح بیکس  دوسرے  کسی کی مدد  سے بیکسی سے رہائی  پاتا ہے تو کتنا زیادہ  یہہ پھر جس طرح یہہ خودبخود  اس خطرناک حالت سے بیخ نکلیگا ہر گز یہہ بات نہین ہو سکتی سوا کسی مددگار اور معاون کے کسیطرح اس کمبختی کیحالت سے چھوٹ  نہیں سکتا الغرض انسان ازخود لاچار گنہگار ہو کر اپنے اعمالوں  سے کسی صورت  سے بچ نہیں سکتا تاوقتیکہ  کوئی دوسرا دستیگری  نہ کرے اور کہے کہ مجھپروں  بھروسہ  رکھ میں تیری  مدد کرتا ہوں۔

اب اے ناظرین تو کس بات کو اختیار  کئے ہوئے ہے اعمال کی شریعت کو یا ایمان  کی شریعت  کو۔ لیکن اگر تو نے اعمال کی شریعت  کے بھروسے پر آج تک اپنی عمر کو گزارا ہے تو آج یہہ خیال کر کہ اعمال تجھ کو ضرور آخری دن جاوینگے تو ضرور بہت تھوڑے  بلکہ اندیشہ ہے کہ کچھ  بھی نہ نکلینگے اور تب وہ کمتی کی صورت سے تو پوری نہ کر سکیگا اب شفیع خداوند یسوع مسیح ایمان پر اپنے عمل تجھ کو دینے پر تیار  ہے اُن کے ساتھ تو البتہ عدالت روز محشر میں  عدل کے ترازو میں پورا نکل سکتا ہے ورنہ  بالکل نہیں۔

راقم بندہ جمیل سنگہ از کھنہ

خود غرضی

علامہ کدرناتھ

Selfishness

Published in Nur-i-Afshan December 19, 1889
By Rev. Kidarnath

عزیز دوستو!یہہ ایک عام قاعدہ ہے کہ خود غرضی انسان کو حق و باطل میں تمیز نہیں کرنے دیتی اور یہہ خود غرضی  دو قسم کی ہے۔ ایک دُنیاوی ۔ دوسری دینی۔

اوّل  جھوٹے مقدّمات بنانا جعل سازی کرنا و  دغا بازی  سے کسی کا مال ہضم کر لینا جھوٹی قسمیں کھانا حاکم  ہو کر کسی فریق کے لحاظ یا اپنے عہدہ کو قایم رکھنے کی غرض سے حق کو  ناحق  کر ڈالنا  وغیرہ۔ چنانچہ  پنطوس پلاطوس حاکم  کی خود غرضی اسی قسم کی تھی۔ دویم اپنی یا اپنے پیشوا  کی تعلیم کی بطالت نقلاً اور عقلاً ظاہر ہوجانے یا کسی خاص  تعلیم کی بناوٹ اور اپنے خیال  کی خامی معلوم  ہو جانے پر بھی  اکثر بڑے بڑے  سر گرم غیر تمندان مذہب کا سچّی  با ت  کو جھٹلانا  یا جھوٹی  بات کو سچ بنانا اور حقیقی ہادی کی جان تک کے خواہاں  ہوجانا۔ جیسے کہ آجکل ہندو محمّدی  اور سوائے اُنکے اور فریق  بھی اسی دینی خود غرضی میں شامل ہیں۔ لیکن اِن کو چھوڑ  کر اُس قوم پر لحاظ  کریں جو خدا کی قوم  ہے اور جو ابتدا سے مسیح کی تشریف آوری  تک خدا  کے عجیب انتظاموں کے وسیلہ پاک کلام کی امانتدار رہکر  مسیح سے پیشتر مسیح کی منادی  اور  تھی  اور شب و روز اُسکے ظہور کی انتظاری کرتی تھی۔ مگر تو بھی  یا انسانی کمزوری یا بار بار مصیبتیں جھیلنے  یا رومی حکومت  سے تنگ  آکر اپنے  ربیوں کی غلط فہمی سے خداوند  مسیح کی دنیوی  شان و شوکت  سے قبول کرنے پر تّیار ہورہی  تھی۔ اسی خود غرضی نے اُنکو منزل مقصود تک نہ پہنچنے  دی بلکہ اپنے ہی رہانندہ اور آرام دہندہ کو ایسے سخت عذاب سے مصلوب کرایا کہ اگر اُنہوں نے توبہ نکی ہو اور اُسی مصلوب پر ایمان نہ لائے ہوں تو سب سے پہلے وہی جنّہم کے وارث  ہونگے۔

چنانچہ آیات زیل پر غور  کرنے سے ہماری  دونوں تقسیموں کی صداقت ظاہر ہوتی ہے۔

انجیل یوحناّ ۱۹۔ باب ۱۵، ۱۶ ویں آیات ۔

پر وہ چلاّئے کہ لیجا لیجا اُسے صلیب دے۔ پلاطوس نے کہا ۔ کیا تمہا رے  بادشاہ کو صلیب  دوں؟  ۔ سردار کاہنوں نے جواب دیا کہ قیصر  کے سوا ہمارا کو ئی بادشاہ نہیں ہے۔

اِس پندرہویں آیت میں تین جملہ ہیں۔

پہلے میں یہودیوں کا جواب ۔ دوسرے  میں پلاطوس کا سوال۔ تیسرے  میں سردار کاہنوں  کا جواب۔

مگر پہلے جملہ میں یہودیوں کا جواب کسی سوال کو چاہتا ہے وہ چودھویں آیت میں موجود ہے۔ کہ دیکھو اپنا بادشاہ اب مطلب کھلُ گیا کہ پلاطوس نے یہودیوں سے کہا کہ دیکھو ؔ  اپنابادشاہ۔ غیر قوم بُت پرست حاکم تو مسیح کو  یہودیوں کا بادشاہ بناتا ہے جیسا کہ اُسنے کتابہ پر  بھی لکھا تھا اور اُسکے بدلنے میں یہودیوں کا کہا نمانا  مگر جو اپنے کو خدا کا برگزیدہ جانیں وہ خدا کے بیٹے کو رَد کر کے بت پرست قیصر کو اپنا بادشاہ  مانیں یہہ کیسی دینداری ہے ۔

تب یہودیون نے  جوابدیا  کہ لیجا لیجاؔ اُسے صلیب دے لیکن پلاطوس  مکرر پوچھتا ہے کہ کیا تمہارے بادشاہ کو صلیب دوں یہہ تکرار اچھے موقع پر واقع ہوئے تاکہ یہودیوں کو مسیح کی بادشاہت کو رَد کرنے میں کو ئی عزر باقی نہ رئے۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ پلاطوس نے مسیح کو کیوں بادشاہ کہا۔

اِسکے دو جواب ہیں۔

اول خدا کا ارادہ تھا کہ اپنے بیٹے کی بادشاہت کی منادی غیر قوم  بیدین  حاکم سے کرائے اور جھوٹے ریاکار  یہودیوں  کو شرمندگی حاصل ہو۔

لوقا کے ۲۳ باب کی ۲۔ آیت سے معلوم ہوتا  ہے کہ یہودیوں نے آپ پلاطوس کے حضور اور جھوٹے الزام لگاتے ہوئے یہہ بھی کہا تھا کہ وہ اپنے تئیں  مسیح بادشاہ کہتا ہے اور یہی یوحناّ  ۱۹ ۔ ۱۲ میں بھی ہے۔ اگرچہ یہودیوں کو عہد عتیق  میں بار بار مطالعہ کرنے سے خوب معلوم تھا کہ مسیح بادشاہ  ہے اور کہ اُسکی بادشاہت ابدی ہے۔ دیکھو زبور ۴۵۔ ا۔ اور یسعیاہ  ۲۳۔ ۱ ۔ یرمیاہ۔ ۴۳۔ ۵۔ وغیرہ۔

 تو بھی اُنکی خود غرضی اور اُنکے ربیوں کی غلط فہمی نے اُنہیں یہانتک  بیوقوف  بنا دیا کہ مسیح کی روحانی بادشاہت کو دنُیوی سلطنت سے بدل ڈالا۔

حالانکہ خداوند نے  یوحناّ ۶۔ ۱۵ کے مطابق  اُنہیں اس غلطی سے محفوظ رکھنا چاہا اور صاف فرمایا کہ میری بادشاہت اِس جہان کی نہیں  یوحنا ّ  ۱۹۔ ۳۶۔ لیکن پھر بھی وہ اپنی غلطی سے باز نہ  آئے اور سردار  کاہنوں نے صاف  کہا کہ قیصر کے سوا  ہمارا کو ئی بادشاہ نہیں۔ پیدایش ۴۹۔ ۱۰  کہ مطابق یہہ سچ بھی ہے۔ کیونکہ سیلا اُگیا اور یہودا سے ریاست کا عصا جاتا رہا  در حقیقت اُسوقت یہودی بادشاہ نہ تھا بلکہ رومی لیکن  عام خیال میں پروردگاری  اور خالقّیت کے لحاظ  سے خدا  تو اُنکا نہ صرف  بادشاہ  بلکہ بادشاہوں کا بادشاہ  موجود تھا اگرچہ  ۱سموئیل ۱۔  ۵ ، ۷ ، ۱۲ کے موافق اُنکے باپ دادوں نے خدا کے بدلے ساؤل  کو بادشاہ بنایا تو بھی ایسا انکار محض  جہالت اور بیدینی  ہے۔

واضع ہو کہ مسیح کی یہہ تعلیم نہیں ہے کہ اپنے  بادشاہ وقت سے بغاوت کر و بلکہ صاف  فرمایا کہ  جو چیز یں  قیصر  کی ہیں قیصر کو  اور جو خدا  کی ہیں خدا کو دو متی ۲۲ ۔ ۲۱۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہودی اسی تعلیم سے اور بھی  زیادہ  جل گئے تھے کیونکہ وہ ہر وقت رومی حکومت سے ناراض رہتےتھے آخر کار جس سے باغی رہتے  تھے اُسی قیصر کو اپنا  بادشاہ بنا لیا اور سوائے کا لفظ  بولنے سے خدا کی بادشاہت کے منُکر ہوگئے ۔ یہہ گویا پرائی بدشگونی  کیواسطے اپنی ہی ناک کاٹ لی۔

 پھر آئت ہذا کے تیسرے جملہ میں سردار کوہنوں کے جواب دینے سے پایا جاتا ہے کہ جسطرح خدا نے موسیٰ کی معرفت  احبار کے ۱۔ ۵ میں فرمایا  ہے کہ کاہن جو بنی  ہارون ہیں لہو لاویں۔ اُسی  طرح اِس حقیقی برّہ کے خون  ہیں۔ ( جو جہاں کا گناہ اُٹھا  لیجاتا ہے) سردار کوہنوں  کے ہاتھ رنگے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اور یون خدا کا ارادہ  پورا ہوا اور چابت کر دیا کہ سب اگلی قربانیاں اس حقیقی قربانی کی  نشانیاں تھیں اِس آئت میں صلیب  کا لفظ  جو  واقع  ہوا ہے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اُسکی نسبت بھی کچھ  بیان کریں۔

یاد رکھنا  چاہئے کہ مسطیر لکڑی  کے اُپری سرے پر دوسری چھوٹی  مسطیر آڑی لکڑی  لگی ہوئی تھی اگر ہم اپنے دونوں  ہاتھ دہنے بائیں  پھیلائیں  تو  صلیب کی شکل  معلوم ہو گی اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسیح کی صلیب  کو آدم زاد سے نیچرل  طور پر بھی کہانتک مناسبت ہے۔ خیر۔  اُس لکڑی کو زمین پر ڈالکر مجرم  کے دونوں ہاتھوں  کو پھیلا کر ہتھیلیوں  میں اور دونون پاؤں میں کیلیں ٹھونکدیتے  تھے پھر جھٹکا دیکر اُٹھاتے اور گاڑدیتے  تھے اِس جھٹکے سے مصلوب  کو سخت تکلیف ہوتی تھی اور تڑپ تڑپ  کر مشکل سے جان نکلتی تھی اور جلد جان نکلنے کی غرض  سے کبھی کبھی ہڈّیاں  بھی توڑی جاتی تھیں۔ مگر ہمارے مصلوب منُجی کی نہیں کیونکہ داؤد  نبی الہام سے فرما چکا تھا۔ کہ وہ اُسکی ساری ہڈیوں کا نگہبان  ہے  اُنمیں سے ایک بھی ٹوٹنے  نہیں پاتی۔ زبور ۳۴ ۔ ۲۰۔ اور یہہ اُس حُکم کی مطابقت ہوا جو خروج ۱۲ ۔ ۴۶ میں ہے اور نہ اُسکی  ہڈی توڑی جاوے۔ المختصر یہہ سخت بیرحمی  کی وحشیانہ سزا حقارتاً رومی جو طالم و ستم میں اپنی مانند آپ تھے جنگ سے بھاگے ہوؤں  اور غلاموں  وغیرہ  کو دیتے تھے۔  افسوس  کہ ہمارے خداوند یسوع  ناصری کو یہی سزا اُٹھانی پڑی نہ اپنے لئے بلکہ ہمارے لئے دیکھو یسعیاہ ۵۳۔ ۵۔

یہاں ایک سوال  پیدا ہوتا ہے کہ یہودیوں نے صلیب دئے جانیکی  درخواست کیون کی اور آپ ہی مدُعّی ہو کر  حاکمانہ  فیصلہ کیوں کر لیا۔

ہمارے پاس اسکے دو جواب ہیں۔

اوّل خدا کے ارادہ میں مسیح کیواسطے صلیب مقرر ہو چُکی تھی دیکھو ۲۲ زبور کی ۱۶  ویں آئت  میں داؤد نبی الہام سے فرماتا  ہے کہ وہ میرے ہاتھ اور میرے پاؤں چھیدتے پھر  پولوس رسول کا  خط  گلتیوں  کو ۳ ۔ ۱۳ سے واضع ہوتا ہے کہ استثنا ۲۱ ۔ ۲۳ میں جو حکم  ہے کہ وہ جو پھانسی دیا جاتا ہے خدا کا ملعون  ہے۔ یہہ مسیح کے حق میں پیشین گوئی تھی پھر مسیح نے آپ  بھی فرمایا تھا کہ میں  صلیبی  موت سے مرونگا دیکھو  متی ۲۶۔ ۲ ابن آدم حوالہ  کیا  جائیگا کہ صلیب  پر کھینچا  جاوے۔ مگر یہودیوں  نے فعل مختاری سے یہہ جانکر کہ ہم مسیھ کو حقیر بناویں۔ کیونکہ اُن دنوں  صلیبی  موت عموماً حقیر گنی جاتی تھی شرارت اور بیدینی  سے خدا کے ارادہ کو پارا کیا اور سزا کے مستحق  ہوئے  اور یہہ بھی ہمارے خداوند کی  پست  حالی  پیدایش سے موت تک  چابت ہو۔ دیکھو جب وہ پیدا  ہوا  تو چرنی میں رکھا گیا  لوقا  ۲۔ ۷۔ اور موُا تو صلیبی موت موا۔

دوم خداوند کے مقدمہ سے ظاہر ہے کہ پلاطوس  عدالت عدالت نہ تھی بلکہ اندھیر نگری چوپٹ  راج۔ کیونکہ اِس مقدّمہ کی بنیاد سے انتہا  تک غلط  اور محض یہودیوں  کی جنبہ داری  بات بات میں ظاہر  ہوتی ہے ۔ پہلے الزام  نامعقول  ۔ کہ اگر یہہ بدکار  نہوتا  تو ہم تیرے حوالہ  نکرتے ۔ یوحناّ  ۱۸۔ ۳۰۔

دوسرے گواہ  جھوٹے کہ اسنے کہا کہ میں ہیکل کو ڈھا  دونگا۔ متی ۲۶۔ ۶۱ حالانکہ  مسیح نے کہا تھا کہ  تم ڈھا دو ۔ یوحناّ ۲۔ ۱۹۔

تیسرے  بیجری ثابت  ہونے پر بھی پلاطوس نے مسیح  کو نہیں چھوڑا۔ یوحناّ ۱۹۔ ۱۵۔

 الغرض خود غرضی  کی گھنگھورگھٹا چھا رہی تھی اور اُنکے دلوں میں شرارت کا اندھیرا گھپ تھا۔  اُسوقت  اُنکی  تمیز بھی اندھی ہو رہی تھی پس ہمارے نزدیک کچھ بعید نہین کہ یہودیوں نے کہا۔ لیجا یجا اُسے صلیب دے۔ تب ؔ اُسنے اُسے  اُنکے حوالہ کیا کہ مصلوب  ہو۔ اور وہ یسوع  کو پکڑ  لیگئے۔ یوحناّ  ۱۹۔ ۱۶۔ اسی باب کی ۱۴ویں  آیت میں لکھا ہے کہ چھٹی گھڑی کے قریب  تھا یعنی انگریزی حساب  کے موافق صبح کے۶ بجے تھے یہہ بات  بھی قابل لحاظ  ہے کہ جب تمام  جہان میں روشنی کا عالم تھا تب  پلاطوس  کے عدالتی  دالان میں تاریکی  کا دور دورہ ہو رہا تھا۔ اگر چہ آفتاب  صداقت آپ اُنکے روبرو تھا لیکن  اُن شّپرہ چشموں  کی دِلی  رتاریکی  میں  سورج گہن  سے زیادہ اندھیرا  تھا۔  اُسی وقت پلاطوس نے مسیح  کو یہودیوں  کے حوالہ  کیا گویا خدا کے برّہ  کو شیطانی  بھیڑیوں  کے منُہ کا نوالہ کیا۔  دیکھو خود غرضی  بھی کیسی بُری بلا ہے جو آدمی کو اپنا فرض  منصبی سچاّئی  سے ادا نہیں  کرنے دیتی  تمام عدالتوں  میں مدُعاّ  علیہ  پولیس کے حوالہ ہوتا ہے۔ یہاں مدُعاّ علیہ پولیس  کے حوالہ ہوتا ہے۔ یہاں مدُعاّ علیہ  مدعیوں  کی حوالات می کیا  گیا۔

پھر اِس حوالگی سے لوقا ۲۳ ۔ ۱۷ کے بموجب کیا  کوئی  تنبیہ منظور تھی ۔ نہیں ۔ بلکہ لوقا ۲۳۔ ۲۴ موافق  یہودیوں کی خواہش  کے موافق مصلوب ہونیکو۔ 

اور وہ یسوع کو پکڑ کر لیگئے۔

 اورانواع وا قسام کی زلّت  و حقارت کے ساتھ اپسے مصلوب  کیا۔ جیسا کہ اگلی  ۱۷ ،  ۱۸ وغیرہ  آئیتوں  میں مندرج  ہے۔ اوریوں  ہمپر  کھلا کہ توریت زبور انبیا کے صحیفوں  اور انجیل کا خلاصہ یہہ ہے کہ  مسیح ہمارے گناہوں  کے واسطے  ہوُا  اور گاڑا گیا اور تیسرے دن کتابوں کے موافق جی اُٹھا  اور شریروں کی شرارت سے خدا نے ایمانداروں  کیواسطے  نیکی نکال لی۔


حاصل کلام

اِس تمام بیان سے ہمکو  چند نصیحتیں ملتی ہیں ۔

اولؔ  گناہ سخت جرم ہے۔ جسکی سزا اِنسانی برداشت سے باہر ہے۔

دومؔ خدا باپ کی محبت کہ اُسنے جہان کو ایسا پیار  کیا کہ اپنے فرزند عزیز کو اِس  حقیر موت کیواسطے بخشدیا۔

سومؔ خدا کے بیٹے  کا پیار کہ اُسنے گنہگاروں  کی محبت میں خدا ہو کے  خدا کی برابر  ہونا  غنیمت  نہ سمجھا  بلکہ آپ کو یہانتک حقیر بنایا کہ صلیبی موت  کی تکلیفوں  کو بلاتّکلف  گوارا  کر کے ہمکو ہاں خاص مجھکو لعنت سے بچایا۔

چہارؔم  ہمپر  فرض ہے کہ مسیح  سے محّبت رکھیں کیونکہ پہلے اُسنے ہم سے محبت رکھی  بنی اسرائیل  کی  موافق نہ بنیں کہ جنکے واسطے  خاص  مسیح آیا  پر اُنہوں نے اُسےّ عداوت کر کے اُسنے مصلوب کیا۔ اور نہ بنی اسمٰعیل کی صورت  جو آجتک  اُس مصلوب  غمزدہ  کو ٹھٹھوں میں اوڑاتے ہیں اور عربی نبی کی محبت  میں خدا کے بیٹے پر ایمان نہیں لاتے۔

پنؔجم  کسی کام کو جو ہمارے واسطے منع ہے یہہ  سمجھ کر  کہ خدا کے ارادہ میں ایسا ہی ہے۔ یا سہوًا  اپنی فعل مختاری  سے پورا نہ کریں  کیونکہ قانون کی عدم فہمی  کے سبب مجرُم  سزا سے نچ نہیں سکتا۔ دیکھو داؤد  بادشاہ نے کیونکر ساؤل پر ہاتھ ڈالنے  سے خود  کو بچایا ۔ ۱ سموئیل  ۲۴۔ ۶، ۲۶۔ ۹،۱۱۔ آخر خدا کا ارادہ  دوسرے  طور پر پورا ہوا۔  ۱ سموئیل ۳۱۔ ۵۔

ششؔم خود غرضی کو پاس نہ آنے دیں خواہ وہ سچ کے پیرایہ میں کیوں  نہو جسطرح  فقیہ  فریسی  دہ یکی  کے پردہ میں بیواؤں کا گھر لوٹتے  تھے اور سبت کے بہانہ خیرات  تک نہ کرتے  تھے اور لمّبی  چوڑی دُعاؤں سے غافل نہوتے  تھے۔ پر خداوند  نے فرمایا کہ وہ  مکاّر ہیں اُنکے خمیر سے چوکس رہو۔

ہفتؔم  ہم جو مسیح مصلوب کی منادی کیواسطے  تیاری کرتے  ہیں۔ اِس مضمون  سے یہہ ضرور  دیکھ لیں کہ ہم پر کیسی  ہی مصُیبتیں ایزائیں تکلیفیں یا زرکا لالچ غیر اقوام  کیطرف  سے کیوں نہ آئیں  وہ ہمیں  ہزار ٹھٹھوں میں اُڑائیں مگر ضرور ہے کہ ہم اِس  بھاری کام کو ختم کر کے دُنیا سے کوچ کرتے وقت اپنے خداوند  کی موافق کہہ سکیں کہ پورا ہوا۔ یوحنّا  ۱۹۔ ۳۰۔ آمین

رقم زدہ۔ کیدارناتھ ۔ جونیر کلاس۔ مدرسہ علم سہارنپور۔ 

اعمال ۱۔ ۱۴

The Book of Acts

Chapter 1, verse 14

Published in Nur-i-Afshan April 20, 1894
By Allama Golakh Nath

یہ سب عورتوں اور یسوع کی ماں مریم  اور اُس کے بھائیوں کے ساتھ یکدل  ہو کے دعا اور منت کر رہے تھے۔ یہ ایک تواریخی  وقوعہ  ہے ۔ جو کہ اعمال کی کتاب  میں مندرج ہے۔ وہ یہ ظاہر کرتا ہے۔ کہ اُن شاگردوں نے جو روز و شب  مسیح  کے ساتھ  رہے۔  مسیحی  ترقی میں ایک  بڑی  بھاری  منزل ڈکر لی تھی۔ اور اِن کا اُس  وقت اکھٹے  ہونا۔ نہ صرف  اکھٹے  ہونا۔ بلکہ دعا اور سنت کے لئے یکدل  ہونا  ایک وقوعہ ہے۔ جو قابل غور ہے۔ اوول جب وہ مسیح کے مقلد ہوئے اُن کی یہ حالت  نہ تھی۔ آپکو دعا مانگنے  تک نہ آتا تھا۔ بلکہ ایک دفعہ خداوند کے پاس آئے۔ اور اُس سے درخواست  کی کہ ہمکو دُعا مانگنا  سکھا۔  اُن میں کمزوریاں  پائی  جاتی تھیں۔  بلکہ  بسا اوقات فیمابین  نفاق بھی ہوتا رہا۔  لہذا یہ نئی صورت اُن کی صاف ظاہرکرتی ہے۔ کہ وہ بہت کچھ مسیحی  ترقی کر گئے تھے۔ یہاں پر یہ سوال  لازم آتا ہے۔  کہ وہ کون سی شرایط تھیں جن کو اُنہوں نے پورا کیا۔ اور اِس لئے اب اُس  مرتبہ  تک پہنچے۔ کہ خداوند کے نئےظہور یعنی روح  پاک کو حاصل کریں؟

(الف)  اِبتداً اِن  کی طبیعت  کا میلان دین کی طرف تھا۔ یعنے وہ متلاشی دین تھے۔ جب ہندوستان کے لوگوں کی طرف دیکھا جاتا ہے۔ ایسے  بہت کم لوگ نظر آتے ہیں جو متلاشی دین ہیں۔  بلکہ بہتوں کی زندگی  بے فکری  اور نیا دلری میں صرف ہوتی ہے۔ مگر اُن شاگردوں  کی طبیعت  شروع ہی سے مذہب کی طرف  مایل و  راغب تھی۔ چنانچہ جب مسیح نے اُن کو ہدایت کی۔ تو اُنہوں نے بخوشی تمام اُس کے کلام کو سُنا بلکہ درخواست  کی۔ کہ اے ربیّ تو کہاں رہتا ہے ؟ مسیح نے کہا آؤ۔ اور دیکھو اور جب  فیلبوس نے بھی نتھانیل سے مسیح کی نسبت زکر کیا۔ اور وہ حیران ہوا کہ کیا ناصرہؔ سے کوئی عمدہ چیش نکل سکتی ہے۔  تو  فیلبو نے کہا  آ اور دیکھ ۔ وہ آیا اور دیکھا اور ایمان لایا۔ اُس وقت سے اُنہوں نے سب کچھ ترک کر کے مسیح کی پیروی کی۔ اور اُس سے تعلیم  پاتے رہے۔ ہمارے ہندوستان  کے لوگوں کی یہ حالت ہے۔ کہ تعصب  سے بہر ہوئے۔ اور تعلیم سے یہی کنارہ کش ہوتے ہیں۔ مگر وہ شاگرد جوں جوں مسیح سے آشنا ہوتے گئے۔ اور اُس کی قدرت و معجزات  کو دیکھا کئے۔ تو وہ مسیح کو اپنا ربّی اور اُستاد کہنے لگے۔ اور  آیندہ ترقی کرتے ہوئے اس کی اطاعت کو قبول کیا حتی  کہ جب مسیح حکم دیا۔ کہ وہ تمام گردو نواح میں جا کر منادی کریں تو ا وہ اس کے حکم  کو بطوع خاطر بجا لائے۔ اور توبہ و استغفار  کی منادی جا بجا کی۔ اور پہر جب مسیح نے اُن سے خدا کی بادشاہت  کا زکر آغاز کیا۔ اور نیز اُس بشارت کا بھی۔ کہ اُس بادشاہت  میں تمہارا بھی ایک بڑا حصّہ ہے۔ تو وہ اس بات پر  اعتقاد لائے۔ کہ تو زندہ خدا کا بیٹا  ہے؟

( ب) صورت ترقی کی یہ تھی۔ کہ اُنہوں نے اپنے آپ کو دنیا سے علیحدہ کر لیا تھا، چنانچہ  مسیح کی جلیلی  خدمتگزاری کے وقت اس کے شاگردوں نے بہ نسبت  سابقہ خدمت  گزاری کے جو اُس سے یہودیہ میں سرزد ہوئی تھی۔  اب زیادہ تر مسیحی کے ساتھ رفاقت اختیار کی۔ چنانچہ وہ  اُن کے ساتھ کھانے  اور پینے  میں شامل  ہوتے تھے۔ اور اکثر ایک  ہی  گھر میں قیام  کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ان کا اُنس و پیار  مسیح کے ساتھ اس قدر بڑ ہگیا۔  کہ ایک موقع پر پطرس نے علانیہ  کہا ۔ کہ’’ دیکھ اے خداوند  ہم نے تیری  پیروی کرنے میں سب کچھ  ترک کر دیا۔‘‘ بے شک یہی بڑی بات تھی۔ اول ہی اول مسیح نے اُن کو کہا۔ میرے پیچھے آؤ۔ لیکن اب جبکہ  مسیح  سے اُن کی زیادہ آشنائی ہوئی۔ اور اُس کی بے بہا قدر کو پہچانا۔ تو بے اختیار اُن کے منہ سے یہ کلام نکلا۔ کہ دیکھ اے خداوند ہمنے تیری پیروی  کرنے میں سب کچھ ترک  کر دیا۔ اور مسیح نے اس کلام کی قدر کی اور کہا مین تم سے سچ کہتا ہوں۔ کہ جس نے گھر۔ ماں باپ۔ میری خاطر چھوڑا  اُس کا  سو(۱۰۰) گنا اِس جہان اور اُس جہان میں پائیگا۔  اُنہوں نے اپنے تئیں بخاطر مسیح دنیا سے علیحدہ کر لیا تھا  چنانچہ پولوس رسول یہی کرنتھس کی کلیسا کو خط ۲ باب ۶۔  ۱۷، ۱۸ آیات مین اس بات کی ہدایت  کر کے۔  کہ تم بے ایمانوں کے ساتھ نالایق جوئے مین مت جُتے جاؤ۔ کہ راستی اور ناراستی  میں کونسا سا جھا ہے۔ اور روشنی کو تاریکی سے کونسا  میل ہے۔ اور مسیح کو بعل کے ساتھ کونسی موافقت ہے۔ یوں کہتا ہے۔ اس واسطے تم اُن کے درمیان سے نکل آؤ۔ اور جُدا رہو۔ اور ناپاک کو مت چُھو۔ اور میں تم کو قبول کروں گا۔ اور میں تمہارا باپ ہوں گا۔ اور  تم میرے بیٹے اور بیٹیاں۔

الگرض کہ مسیح کے شاگرد ختنوں کے روحانی مطلب  کو پہنچ گئے تھے۔ کیونکہ اُنہوں نےاپنے تئیں  دنیا کے جوئے  سے ہٹا لیا تھا۔ بنی اسرائیل جب بیابان میں تھے۔ وہ ختنے  و فسح  کی رسم کو  جو موسوی شریعت  کے موافق  اُن کے لئے ضروری  تھی۔ چالیس بر س تک ان کی ادائیگی سے باز  رہے۔ غرضکہ وہ بغاوت  کی حالت میں تھے۔  اور اُن کی  روحانی ھالت نہایت ہی ابتر تھی۔ مگر شاگردوں نے ختنے  کے روحانی مطلب کو بخوبی ادا کیا۔  اس وقت سے جبکہ اُنہوں نے مسیح کی خاطر دنیا کو ترک کیا۔

( ج ) سورت ترقی کی یہ تھی۔ کہ وہ مسیح کے ساتھ فسح کی آخری  رسم میں شریک ہوئے۔ جس میں اُنہوں نے یہ ظاہر کیا۔ کہ وہ گزشتہ علامتاً رسم شریعت  موسوی کو پورا کر کے مسیح  میں شامل ہونے کو تھے۔ یعنی اُس کی موت میں۔ چنانچہ مسیح کے مصلوب ہونے کے بعد جب وہ اُن پر ظاہر ہوا۔ اور نوشتوں کو اُن  پر منکشف  کیا۔ کہ اس کا مراورنا جی اُٹھنا لازمی تھا تو وہ فی الفور اس پر ایمان لائے۔ اور لکھا ہے کہ اُن کی آنکھیں منور ہو گئیں۔ اور مسیح کو جانا۔ کیا وہ مسیح کو پہلے نہیں جانتے تھے۔ کیا اُس کے ساتھ کھاتے پیتے اُٹھتے بیٹھتے نہ تھے؟ کیا اس کے بڑے بڑے  کاموں کو نہین دیکھا تھا؟ کیا اس کو زندہ خدا کا  نہیں کہا؟ بے شک ۔تاہم  وہ مسیح کی موت سے ابتک نا آشنا  تھے؟  لیکن اب وہ مسیح کی صلیبی موت سے آگاہ ہوئے۔ اور اُس کی فدا کاری پر ایمان لائے۔

( د) صورت ترقی کی یہ تھی۔  کہ وہ مسیح کے صعود فرمانے کے بعد  اس بات سے بخوبی آگاہ ہو گئے تھے۔کہ ہم اپنے نہین بلکہ خاص مسیح کے ہیں۔ یعنی مسیح کے لہو کے خریدے ہوئے ہیں۔  اب وہ بالکل تبدیل ہو گئے تھے۔ چنانچہ  اعمال کے پہلے  باب سے ظاہر  ہوتا ہے۔ کہ کس قدر اُنہوں  اپنا تعلق خداوند مسیح کے ساتھ کر لیا تھا۔ جب اُنہوں  نے دو شخصوں کو انتخاب  کیا۔ کہ  ان میں سے ایک ان کے ساتھ رسولوں میں شامل ہوتو اُنہوں  نے اس کا  انتخاب  خداوند پر چھوڑا۔ اور کہا ہے کہ  اُنہوں نے دعا کی۔ مسیح کے ساتھ اپنا تعلق پہچان کر ان کی طبیعت  دعا کرنے کی عادی ہو گئی تھی ہر ایک بات میں خداوند سے استفسار کرتے تھے۔  مسیح کی حین حیات میں  وہ اُن کے لئے جلال و فخر  کا باعث  تھا ۔ اور مسیح کی فتحیابی ان کی کوشی کا باعث۔ مسیحہی سب کچھ اُن کے لئے تھا۔  غم و اضطرار کے وقت  اور امتحان  و آزمایش کے وقت۔ اور خوشی و  خوری میں بھی ۔ مسیح  ہی سب کچھ ان کے لئے تھا۔ مگر مسیح کی وفات کے وقت سب پر عالم مایوسی چھا گیا تھا۔  اور وہ اس حالت ِ یاس  میں ایک دوسرے کے ساتھ غمگساری کرتے۔ اور غمخواری  میں شریک ہوتے تھے۔ ایک گروہ ان میں سے ایک کوٹہری  میں اکھٹا تھا۔ اور وہ اُن میں سے عماؔؤس کی طرف  باہم باتیں کرتے ہوئے جاتے تھے۔ اور اُن کے دل  مغموم تھے۔ مگر مسیح  کے جی اُٹھنے پر اُن کی اُمیدیں بر آئیں۔ اور مسیح کے صعود فرما  نے پر جیسا کہ لوقا کی انجیل میں مسطور ہے۔ وہ یروشلم کو واپس ہوئے اور اُن کے دل خوشی سے معمور تھے۔ یہ بات غور طلب ہے۔ کہ اولاً جب مسیح نے اپنے شاگردوں  سے اپنی جدائی کا زکر کیا۔ اور کہا۔ کہ کس زلت و رسوائی  کے ساتھ  لوگ اُسکو صلیب دینگے۔ تو وہ ناراض ہوئے بلکہ پطرس نے مسیح کو علیحدہ  کر کے سنا دیا۔ کہ اے خداوند ایسی بات تیرے  حق میں ہر گز نہ ہوعے ۔ اور جب مسیح پکڑوایا گیا۔ تو سب اسکو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ لیکن اُس وقت جب مسیح اُن کی آنکھوں سے زیتون کے پہاڑ  پر سے غائب ہو گیا۔ تو وہ  یروشلم  کو واپس  آئے۔ مگر غم و مایوسی کی حالت میں نہیں۔ بلکہ اْن کی دل  خوشی سے  معمور تھے۔ گویا اب اُنہوں نے اس اطمینان  کو حاصل  کر لیا تھا۔ جس کا مسیح نے مصلوب ہونے سے پیشتر  زکر کیا تھا۔ یوحّنا ۱۴ باب ۔ پس جبکہ  وہ یروشلم  کو واپس آئے۔ تو ان کی آرزو ایک ہی تھی۔ اور اُن کی غرض  بھی ایک۔ ان کے دل تیار ہوگئے تھے۔  اور جب اُنہوں نے دعا کی تو  یکدل  و یکزبان  ہو کر کی۔ بلکہ لکھا ہے ۔ کہ دعا میں لگے رہے۔ اُس دن جبکہ وہ یروشلم  میں واپس آئے اور پنتیکوست کے دن تک یعنی بارہ دن کے عرصہ تک برابر دعا میں مصروف  رہے۔ اگر پوچھا جائے۔ کہ وہ یکدل ہو کے کس طرح دعا مانگ سکے۔ اور اس فعل میں کیا بھید تھا۔ تو اُس کا جواب یہ ہے ۔ اور اس فعل میں کیا بھید تھا۔ تو اُس کا جواب یہ ہے۔ کہ ہر ایک اُن میں فرداً اور مجموعاً ۔ متوجہ الی اﷲ تھا۔ اور جبکہ خدا کے ساتھ ایک تھے  تو آپس میں بھی یکدل ہو سکے۔

نتیجہ ۔ اتحاد قوت کا باعث ہے۔ اور باہمی اتحاد میں  تر خداوند  ہماری سُنتا ہے۔ چنانچہ  رسول بھی اس بات کا بار بار زکر کرتا ہے کہ محبت میں گھٹے  رہو۔ پلاطوس کی دارالعدالت  میں مسیح کے دشمن یک آواز بولے۔ کہ اسکو صلیب دو۔ اسکو  صلیب دو۔ حتی کہ پلاطوس نے ان ی سن لی۔ اسٹیفانس جب اپنی تقریر یہودی بزرگوں کے سامنے کر چکا۔  تو لکھا ہے کہ وہ کٹ گئے۔ اور دانت پیستے تھے۔  ایک دل ہو کر اُس پر لپکے۔  کاش کہ ہمارے دل بھی باہمی محبت میں ایسے ہی بستہ  و پیوستہ ہو جائیں۔ اور  مسیح کو اپنا منجی اور مالک تسلیم کر کے روح کی بارش کے لئے یکدل ہو کر دعا کریں۔ کیونکہ وہ وعدہ آجکے دن ہمارا ہے۔ اور ہم اُس وعدے کے مستحق ہو سکتے  ہیں۔ چنانچہ اعمال ۲۔ ۲۹ آیت میں مرقوم ہے۔ کیونکہ یہ وعدہ  تمہارے اور تمہارے  لڑکوں کے واسطے ہے اور سب ے لئے جو دور ہیں جتنوں کو ہمارا خداوند  خدا بلاوے۔

راقم۔۔۔۔ احقر العباد گو لکناتھ 

اہل فکر پر بائبل کے استحقاق

The Claims of the Bible

Published in Nur-i-Afshan March 16, 1894

بائبل ایک یو نانی لفظ  ہے جس کئ معنے ہیں۔ ( دی ؔبک) الکتاؔب ۔ سکا ٹلنڈ  کے مشہور  ناولسٹ  اور شاعر سرواؔلٹر  سکاٹ  صاحب نے  جب حالت ِ نزع میں تھے اپنے رشتہ دار لاکؔ  ہرٹ سے کہا کہ میرے پاس ( دی بک)  الکتاب لے  آؤ۔ لاک ؔ ہر ٹ  حیران تھا کہ میں کونسی کتاب لیجاؤں ۔ اوراِدہر اُدہر جھانک رہا تھا کہ کیا کروں کہ سر ؔوالٹر  سکاٹ نے پھر کہا کیا دنیا بھر میں کو ئی اور کتاب بھی ہے۔ لاکؔ ہرٹ  اب سمجھ گیا کہ کس  کتاب  سے اُن کی مراد  اور  جھٹ بائبل (دی بک) اُن کے پاس لے گیا۔

واقعی  یہ کتاب  ( دی بک)  الکتاب  ہے۔ دنیا بھر میں سب سے قدیمی ۔ مختلف زمانوں میں مختلف  مزاج ۔ حیثیت ۔ عادات  معلومات کے آدمیوں کے زریعہ لکھی گئی مگر تو بھی ایک ایسی  نادر کتاب کہ باوجوداِن  تمام  تفاوتوں کے روح ِالہٰیکی ہدایت سے اُس میں اول سے آخر تک  ایک عجیب سلسلے ایک غریب رشتہ پایا جاتا ہے کہ جو ؔکچھ اول میں پہلے ہی پہل  ابتدائی  صورت میں لکھا گیا آخر  تک وہی ؔ کچھ ا،س انداز سے اِنتہا تک  پہنچایا گیا کہ صبح کی ابتدائی چمک اور آفتاب  نصف النہار کی دمک کا سما باندہ دکھلایا۔

ہر زمانہ  میں اس کتاب پر بڑی  چھان  بین  جی گئی  ہے اور آج کل اس ملک میں بھی اہل فکر  اس کو پڑھتے ہیں  اِسپر  گفتگو کرتے ۔ غور کرتے۔ کھوجتے ہیں۔

ماہران علم  ادب اِس  کتاب کی انگریزی  لٹر یچر کے مداح  میں اور طالبعلمان زبان انگریزی زبان دانی کے حصول کے لحاظ  سے اِس کتاب  کو عزیز رکھتے ہیں  مگر ہمارا منشا اِس وقت یہہ نہیں ہے کہ اس کتاب کی اس قسم کی خوبیاں  کا اظہار کریں۔ ہم ان سے قطع نظر کر کے ایک اور طرف آپ کی فکر کو متوجہ کرتے ہیں ۔ اور وہ یہہ ہے۔ 

منجملہ دیگر مسائل کے دو نہائت ہی ضروری  مسئلے اِس کتاب مین اول سے آخر تک پیدایش کی کتاب سے لیکر مکاشفات کی کتاب تک بڑی  صفائی  کے ساتھ  پائے جاتے ہیں۔  اور یہہ دونوں ایسے مسایل ہیں  جو کسی دوسری  کتاب میں  جو الہامی ہونے کا دعویٰ  کرتی ہیں اس طور  پر اور اس صفائی کے ساتھ  پا ئے  نہیں جاتے بلکہ یوں  کہیں  کہ بالمقابل  ہیں  ہی نہیں ۔ اور وہ یہہ ہیں۔

اوّل ۔ مسئلہ گناہ۔

دوم ۔نجات  کا طریق الہیٰ۔

یہ کتاب مثل  دیگر کتابوں کی اصلیت اور  کراہیت کو کم کر کے نہیں دکھلاتی  ہے بلکہ صاف صاف بتلاتی ہے کہ گناہ دید و دانستہ  فعل ہے۔ یہ اﷲ تعالیٰ کی صریح  نافرمانی  ہے اور اُس کے احکام کا توڑنا ۔  بائبل میں آدم زاد کے گناہ کانقشہ اس صفائی سے کھینچا گیا ہے ( دیکھو خصوصاً  اِنجیل  متی ۔ کوہی وعظ) کہ جواس کو  صدق دل سے پڑھتا  ہے  اپنے گناہگار دل کا عکس اُس میں پاتا ہے۔

کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک پادری صاحب  بائیبل  سے بڑہ کر گناہ کا زکر ایک افریقہ  کے سردار کے روبرو کر رہے تھے۔  سنتے سنتے طیش  میں  آکر وہ سردار بول اُٹھا ۔ تجھکو میری نسبت کس نے  خبر دی  ہے۔ تجھکو میرے حال سے کب  واقفی ہوئی۔ جب ڈاکٹر  ڈف صاحب  کلکتہ میں نوجوانوں  کی ایک جماعت کو بائبل  پڑ ہا  رہے  تھے اور گناہ کا حال بائبل  سے بتا رہے تھے ایک زی عقل سنسکرت  دان تعلیم یافتہ برہمن  نوجوان  حیران ہو کر کہنے لگا۔  اے  صاحب میرے دل کے حال کی نسبت آپ کو کہاں سے خبر لگی یہہ تو ٹھیک  میرے دل کا حال  ہے جو آپ بتا رہے  ہیں۔ غور کا مقام ہے کہ اُس کندانا تراش وحشی سردار  کا ریمارک اور اس مہذب  تعلیم یافتہ برہمن کا قول اس کتاب کی نسبت کیا سّچا ہے۔ سچ پوچھئے تو یہ کتاب  انسان کے دل کا شیشہ  ہے۔ یہ ہر فرد بشر  کو اُس  کی اصلی حالت  بتلا کر اُسے  گویا جا پکڑتی ہے۔  اور یہ امر یعنے اپنے آپ میں ایسا پرُ زور اندرونی  ثبوت  رکھنا اِس امر پر دال ہے کہ یہ کتاب منجانب اﷲ ہے اور  ہر صاحب فکر ( خواہ افریقائی سردار سا وحشی  ہو یا تعلیم  یافتہ  برہمن  کا سااِنلاٹینڈ ہو)  کے غور اور فکر کے لایق  ہے۔

دوسرے امر قابل غور جو ہر فرد  بشر  کے لئے اذحد ضروری ہے وہ  آدم ذاد کی نجات  کا الہیٰ  انتظام ہے۔ یہ مسئلہ بھی مثل  مسئلہ گناہ کے بڑی صفائی سے اِس کتاب میں بیا ن  کیا  گیا ہے  اور سادہ سادہ اور عام فہم الفاظ میں نجات کا الہیٰ  طریقہ  بتلایا گیا ہے۔ انجیل  یوحنا ۳: ۱۷  اور انجیل  متی ۱: ۲۱ وا عمال  ۴: ۱۲ میں یوں مرقوم ہے۔ کیونکہ خدا نے جہان کو ایسا پیار  کیا ہے کہ اُس نے اپنا  ہے کہ اُس نے اپنا  اکلوتا  بیٹا  بخشاتاکہ جو کو ئی اُسپر ایمان  لاوے۔ہلاک نہ ہوئے  بلکہ ہمیشہ کی زندگی پاوے۔ اور وہ بیٹا  جنیگی اور توُ اُس کا نام یسوع  رکھیگا  کیونکہ وہ اپنے لوگوں کو اُسنکے گناہوں سے بچائیگا۔ اور کسی  دوسرے سے نجات نہیں بخشا گیا جس سے ہم نجات پا سکیں۔

اِن آیات کے پڑھنے سے ہم کو اؔول یہ معلوم ہوتا ہے کہ نجات کا الہیٰ طریقہ کیسا سادہ اور عام فہم ہے۔ دوؔم یہ  کہ  کو ئی شخص خودبخود اپنے لئے نجات حاصل نہیں کر سکتا ہے۔ سومؔ یہ کہ ہماری نجات صرف  خدا  سے ہے اور چہاؔرم  یہ کہ  نجات کا الہیٰ طریقہ یہ ہے کہ ہم ایمان لائیں۔ خدا تعالےٰ کہتا ہے آزماؤ۔  پرکھو۔ جس طرح کو ئی  بیمار  چنگا نہیں ہو سکتا  ہے جب تک وہ دوا کو کھا کر  نہ آزمانہ  لیویں ہم نجات نہیں پا سکتے ہیں اگر کوئی بیامر کسی  دوا کو دیکھکر ناحق  کی  حجت  کرے کہ یہ دوا کڑوی  ہے یا اُس  کی رنگت  خراب ہے تو کیا اُس کوحکیم  نہ کہے  گا کہ  اُس کو  کھا کر دیکھ۔ اِس  کا فائدہ کھانے بغیر حاصل  نہ ہوگا۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کہتا ہے پرکھو۔ آزماؤ اور مستفید ہو۔

(۳ ) اب ہم زرہ  بائیبل کی عجیب فتوحات پر غور کریں۔ تقریباً  دس برس  گزرے  ہین کہ ہندوستان  کے دارالخلافہ میں ایک بڑی  عظیم الشان  نمایش  گاہ ہوئی تھی۔  ہزارہا وزیٹر تمام دنیا۔ ایشیا ۔ یورپ۔ افریقہ اور امریکہ  سے اُس کی سیر کرنے کو آئے۔ مختلف ملکوں کی عجیب و غریب  چیزیں۔ اِس نمایش گاہ میں دور دور سے بھیجی گئیں ۔ لیکن ایک چیز ایک کمرہ کے ایک کونہ میں تھی جس کو لوگ بڑی  حیرانی  سے دیکھتے تھے۔ یہ ایک گول میز تھی جسکا  ڈایمٹر  ۷ فٹ  کا تھا یہ میز  ایک ہی تختہ سے بنائی ھئی تھی ۔ کہیں اس کے جوڑ نہ تھا۔ کاریگر  خوردبین لگا کر اس کو بڑے غور سے دیکھتے  تھے مگر کہیں کو ئی  جوڑ نہ  پاتے  اور حیران ہوتے تھے۔  مگر طرفہ ہجر ا یہ تھا  کہ اُس  پر اُس  وقت کی  تمام معلومہ  زبانوں  کی ایک ایک جلد بائبل کی دھری تھی۔  یہ ایک نہایت ہی عجیب بات  ہے کہ  جہاں جہاں بائبل گئی نہ صرف وہاں کی لغت اور زبان کو اُس  نے بڑی  ترقی  دی۔ بلکہ لغتیں وجود میں آئیں۔ جہاں لوگ اس قدر وحشی  تھے کہ نہ اُن کی کوئی لغت تھی نہ صرف  تہجی وہاں  پادری  صاحبان نے جا کر اُس وحشیوں کو  اُن  کی زبانوں  میں بائبل دینے کی خاطر لغت کی بنیاد ڈالی۔ حروف تہجی بنائے  اصپ زبان کو تحریر  میں لائے اور اُس  کو رونق دیکر بائبل کا ترجمہ اُس  زبان میں کیا ۔ اب بتائے  کہ دنیا کے صفحہ  پر کیا کو ئی اور کتاب  ہے  کہ جس سے اِس  قدر  فائدے  پہنچے ہیں۔ کیا یہ بائبل کی فتوحات  کا ایک کرشمہ نہیں۔

دنیا میں آج کل  جس قدر تہذیب  نے ترقی کی ہے جس قدر  نئے معلومات  ہوئے ہیں اورہر طرح کی آسایش و  ترقی ہو رہی ہے کیا یہ بائبل کی فتوھات کی ایک نظر نہیں۔

اور آخر کار  وہ  اثر جو یہ کتاب  انسانی  کے دلون پر کرتی ہے۔ شریروں  کو خدا پرست وحشیوں کو تہذیب  یافتہ گنہگاروں کو نجات یافتہ۔ کیا یہ سب اس کی اعلیٰ فتوحات کی نظریں نہیں ہیں۔

(۴ ) پس جس حال کہ اس کتاب کی فتوحات  کا یہ حال  ہے تو کیا مناسب  نہیں کہ اہل فکر  اس کتاب پر غور کریں۔ 

اُلوہیت یسوع مسیح کی کوتوضیح  از کتاب مقدس

The Deity of Christ

Published in Nur-i-Afshan October 26, 1894
By Malik Roshan Khan

(۱ ) پید ۱۸۔۲۔ ۱۷، ۲۸۔ ۱۳، ۳۲۔ ۹، ۳۱ خروج ۳۔ ۱۴، ۱۵، ۱۳۔ ۲۱، ۲۰۔ ۱، ۲، ۲۵۔۲۱، واست ۴۔ ۳۳، ۳۶، ۳۹ نح ۹۔ ۷ تا ۲۸ یہ شخص  یہوداہ کہلاتا ہے ( جو خدا کا اسم زات ہے ) اور ساتھ ہی سا کے اس کو فرشتہ  یا بھیجا ہوا بھی کہا ہے۔ پیدا ۳۱۔ ۱۱، ۱۳، ۲۸،  ۱۵، ۱۶، ہوسیع ۱۲۔ ۲، ۵۔ علاوہ بریں خروج ۳۔ ۱۴ ، ۱۵ بمقابلہ اعم ۷۔ ۳۰، ۳۵ ، کروج ۱۳۔ ۲۱ بمقابلہ  خروج ۱۴۔ ۱۹، نیز خروج  ۲۰۔ ۱، ۲ بمقابلہ اعم ۱۷۔ ۳۸ ، یشع ۶۳۔ ۷، ۹۔

(۲ ) لیکن خدا باپ کسی کو کیسی بشر کے ہر گز نہین دیکھا (یوح ۱۔ ۱۸، ۶۔ ۴۶)  اور نہ وہ فرشتہ یا کسی دوسرے کا بھیجا ہوا ہو سکتا ہے۔  پر خدا کا بیتا دیکھا گیا ( یو ح ۱۔ ۱، ۲)  اور بھیجا بھی گیا ( یوح ۵۔ ۳۶) ۔ 

(۳ ) یہ یہوداہ  جو پرانے عہدنامہ  مین فرشتہ  یا بھیجا ہواکہلایا ہے۔ نبیوں کی معرفت اسرائیل کا منجی اور نئے عہدنامہ کا بانی بھی کہلاتا ہے۔  زکریاہ ۲۔ ۱۰، ۱۱ میں آیا ہے۔ کہ ایک یہواہ نے دوسرے یہواہ کو بھیجا ہے پھر میکہ ۵ ۔ ۲ ، ۳۱ ۔  ۱ میں مذکور ہے کہ خداوند عہد کا رسول اپنی ہیکل میں آئیگا۔ یہ مسیح سے نسبت کیا گیا ہے (مرق ۱۔۲) پہر  زبور۹۷۔ ۷ بمقابلہ عبر ۱۔ ۶ و یشع ۶۔ ۱ تا ۵ بمقابلہ ۔ یوح ۱۲۔ ۴۱۔ 

(۴ ) نئے عہدنامہ کے اکثر اشارے  جو پُرانے عہد نامہ کی طرف کئے گئے اس حقیقت پر صریح  دلالت  کرتی ہیں  زبور ۷۸۔ ۱۵، ۱۶، ۳۵، بمقابلہ ا قر ۱۰۔ ۹۔

(۵ ) کلیسیا تو دونون عہد ناموں میں ایک ہی ہے۔ اور ابتدا سے یسوع مسیح کلیسیا کا نجات  دہندہ  ہے اور سر  یعنے سردار  بھی ! اس واسطے یہ امر نجات کے سلسلہ  مین ان تین اقنوم  آلہٰی کے عہدوں کی نسبت کلام پاک میں ہم پر آشکارا کیا گیا ہے۔ ! ہمارے اُس خیال سے جو یہاں  پیش کیا گیا ہے نجات ہی مطابق ہو جاتا ہے۔ یوح ۸۔ ۵۶، ۵۸ متی ۲۳۔ ۳۷ و الپطر ۱۔۱۰ ، ۱۱۔

اسقف فورس صاحب فرماتے ہیں  کہ یسوع مسیح کی الوہیت کی الوہیت کی دلیلیں  جو بیبل میں پائی جاتی ہیں  کئی  ایک ساف صاف اور کئی ایک شارۃ ً مذکور ہیں اور وہ یہ ہیں۔

الف۔ وہ دلیلیں جو ساف ساف پائی جاتی ہیں۔  یوح ۱۔۱ کلام خدا تھا۔ وہ ابتدا  میں تھا۔ خدا کے ساتھ یوح ۱۔۱۸ مین اکلوتا  بیٹا نہیں بلکہ اکلوتا خدا ( بموجب متن انجیل یونانی) 

یوح ۳۔ ۱۶ وہ خدا کا اکلوتا بیٹا ہے۔ یوح ۱۵۔ ۱۸ اُس کے دشمنوں نے اسپر یہ تہمت  لگائی کہ اپنے تئیں خدا کے برابر ٹھہراتا  ہے اور مسیح نے اس کا انکار نہیں کیا۔ یوح ۶۔ ۴۰ مسیح نے دعویٰ کیا کہ وہ آخری دن مردوں کو جلائیگا۔ اور جو اس پر ایمان  لاوے ہمیشہ کی زندگی  پاویگا۔ یوح ۵۔ ۲۳ اُس نے فرمایا کہ باپ کی مرضی ہے کہ سب بیٹے کی عزت کریں جس طرح باپ کی کرتے ہیں یوحنا ۱۰ ۔ ۳۰ میں اور باپ ایک ہیں  یوح۔ ۱۔ ۵ دنیا کی پیدایش سے پیشتر خدا باپ کے ساتھ جلال رکھتا تھا۔ یوح ۱۴۔ ۶ کہ اُس نے فرمایا۔ کہ راہ۔ حق۔ زندگی۔ میں ہوں ۔ یوحنا ۲۰۔ ۳۱ بلکہ اس انجیل کا مقصد  یہی ہے کہ اس کے پڑھنے والے ایمان لاویں کہ وہ خدا کا بیتا ہے یہ بات نوشتوں کے اور مقاموں سے بھی ظاہر ہوتی ہے مثلاً باقی تین انجیلوں سے ظاہر  ہوتا ہے کہ اُس نے اب اﷲ ہونیکا دعویٰ کیا تو یہودیوں نے اُس پر کفر کا الزام لگایا  متی ۲۶۔ ۶۳، ۶۴  مرق ۱۴۔ ۶۱، ۶۲ لوقا ۲۲۔ ۷۰، ۷۱۔ روم ۹۔۵ مسیح سب کا خدا ہمیشہ مبارک ہو ایوح ۵۔ ۲۰ یوح ۲۰۔ ۲۸ ،  طیط  ۲ ۔ ۱۳ عبر ۱۔ ۸۔

{یہ دلیل اسقف صاحب  ممدوح نے پیش نہیں فرمائی۔ بندہ مبارز ۔۔۔ درمتن قدیم ترین نسخہ  ہائے یانانی لفظ  یاہ بمعنے خدایا فتہ شد۔  واتمطی ۳۔ ۱۶ ، اعم ۲۰۔ ۲۸۔ مسیح کی الوہیت پاک نوشتوں کے مضمون سے ثابت ہے کیونکہ ان میں یہ تعلیم برابر  پائی جاتی ہے کہ ایک ہی خدا ہے اُسی پر اپنا بھروسہ  رکھو وہی نجات دہندہ ہے اور نئے عہد نامہ میں بکثرت  یہ تعلیم موجود  ہے کہ یسوع مسیح پر ایمان لاؤ یہی نجات دہندہ ہے۔ اگر مسیح خدا نہوتا تو ایسی تعلیم اسکی نسبت ہر گز نہ دیجاتی۔

ب۔ یسوع مسیح کی الوہیت کی دلیلیں جو بیبل میں اشارۃ ً پائی جاتی ہیں دلایل بالا سے قوی تر ہیں مثلاً گنتی ۲۱۔ ۵ ، ۶ کو اقر ۱۰۔ ۹ سے مقابلہ کرو کہ انہوں نے جس یہواہ کا امتحان  کیا وہ مسیح ہے اور ملاکی ۳۔ ا کو متی ۱۱۔ ۱۰ سے مقابلہ کرو اور یشع ۸۔ ۱۳، ۱۴، ۱۵ کو لوقا ۲۔ ۳۴، روم ۹۔ ۲۳ سے مقابلہ کرو کہ وہ چٹان  اور پتھر  مسیح  ہے اور یشع ۶۔ ا کو یوح ۱۲۔  ۳۸  تا  ۴۱ سے مقابلہ کرو۔ زبور ۹۷۔ ۷، ۲۔ ۱۔ ۲۵۔ ۲۶۔ کو عبرا۔ ۶، ۱۰ کے ساتھ مقابلہ کرو۔

خدا سے خدا ۔ یوح ۱۔۱، ۲۰۔ ۲۸، اعم ۲۰۔ ۲۸ روم ۹۔ ۵، ۲ تسلو ۱۔ ۱۲ ، اتمطی ۳۔ ۱۶ طیط ۲۔ ۳ عبرا۔ ۸،  وا یوح ۵ ۔ ۲۰۔ جو الہٰی صفتیں ہیں وہ بھی مسیح کی طرف منسوب کی گئی ہیں مثلاً مسیح کا ازلی  و ابدی ہونا یوح ۱۔۱، ۲، ۸۔۵۸ ، ۱۷۔ ۵ مکاشفات  ۱۔ ۸، ۱۷، ۱۸، ۲۲۔ ۱۳ ۔ مسیح لاتبدیل ہے عبرا ۱۱،۱۲،۱۳۔ ۸۔ مسیح حاضر و ناظر ہے یوح ۳۔۱۳۔ ابن  ادم آسمان پر ہے۔ یعنے ازرعئے انسانیت ینقو دیموس کے سامنے تھا لیکن ازروے اُلوہیت آسمان پر تھا متی ۱۸۔ ۲۰، ۲۸۔ ۲۰ مسیح ہمہ دان ہی متی ۱۱۔ ۲۷۔ یوح ۲۔۲۳ تا ۲۵، ۲۱، ۱۷  مکا ۲۔ ۲۳۔

مسیح قادر مطلق یوح۵۔۱۷ عبر ۱۔۳ مکا ۱۔۱۸ ، ۱۱۔۱۷

افعال الہیٰ بھی مسیح کی طرف منسوب ہیں مثلاً  مسیح  خالق ہے یوھ ۱۔۳، ۱۰ قلسی ۱۔۱۶، ۱۷۔ مسیح پروردگار اور سنبھالنے والا ہے۔ عبر ا۔۳ قل ۱۔۱۷ متی ۳۸۔۱۸۔ مسیح عدالت کرنے والا ہے۔ ۲ ۔ قر ۵۔۱۰ متی ۲۵۔ ۳۱، ۳۲ یوح ۵، ۲۲۔ مسیح ہمیشہ کی زندگی کا دینے والا یوح ۱۰۔ ۲۸۔

مسیح معبود و برحق ہے مثلاًً متی ۲۸۔ ۱۹ یوح ۵۔ ۲۲، ۲۳، ۱۴ ۔ ۱ ، اعم ۷۔ ۵۹ ، ۶۰، اقر۱۔۲، ۲ قر ۱۳۔ ۱۴ فلپ ۲۔ ۹ ، ۱۰۔ ، عبرا۔ ۶ مکا ۱۔۵، ۶، ۵۔۱۱، ۱۲، ۷۔ ۱۰۔ ایک اور بزرگ  نے  عبر۱۔۳ کی یہ تفسیر کی۔ کہ روشنی آگ  مین بھی ہے اور آگ بھی ہے اور آگ روشنی کا سبب ہے اور روشنی آگ  سے جدا نہیں ہو سکتی ہے اور نہ آگ اپنی روشنی  سے جدا ہو سکتی ہے۔ کیونکہ جیسی آگ ہے ویسی ہی اُس کی روشنی ہے۔ پس اگر ہم اپنے حواس سے پہچان سکتےہیں کہ ایک چیز دوسری چیز سے بھی ہو اور اُس چیز  میں بھی ہے۔ تو کیونکر نہ مانیں۔ جیسا کہ رُسول فرماتا ہے کہ خدا کا لوگاس یعنے خدا کا اکلوتا بیٹا متولد بھی ہوا اور ہمیشہ سے اُس شخص  کے ساتھ رہتا ہے کہ جس سے وہ متولد ہوا۔ جیسا جلال ویسی اُس کی رونق۔ جلال ازلی ہے اس لئے وہ رونق بھی ازلی ہوگی۔ اور جیسی روشنی اورآگ کی ایک ہی ماہیت ہے ویسی ہی باپ اور بیٹے کی ایک ہی ماہیت  ہے اور پھر  اُسی آیت میں یہ لکھا ہے کہ وہ یعنے مسیح خدا کی ماہیت کا نقش ہے یہ  ۲ قر ۴۔۴ کے مطابق ہے کہ مسیح خدا کی صورت ہے اور قل ۱۔۱۵  وہ اندیکھے  خدا کی صورت  ہے اور یہ ہمارے  خداوند  کے اُس قول کے مطابق ہے کہ ’’ جس نے مجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا‘‘۔  ۔۔۔۔۔ جب ہم  مسیح کو خدا کا کلام کہتے ہیں تو ہم یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ازل سے باپ کے ساتھ تھا اور جب ہم اُسے خدا کا بیٹا کہتے ہیں تو ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک اقنوم ہے  یوح ۱۴، ۱۰۔

جس رسول نےفرمایا کہ خدا نور  ہے ( ا یوح ۱۔۵) اُسی نے یہ بھی فرمایا ہےکہ بیٹاحقیقی  نار ہے ( یوحنا ۱۔۹) یعنے جیسا نار آفتاب  کے ساتھ  جیسے گرمی آگ کے ساتھ جیسے ندی چشمہ کے ساتھ  جیسے خیال  عقل کے ساتھ ایک ہے ویسے  ہی مسیح  کی الوہیت خدا باپ کے ساتھ ایک ہے۔ ایک بزرگ  فرماتے ہیں کہ میں یہ کہتا ہوں کہ بیٹا اور ہے اور باپ اور ہے۔ تو میرا مطلب یہ نہیں کہ دو خدا ہیں۔ مگر یہ کہ جیسے نار سے نور چشمہ سے پانی ۔ سورج سے کرن  ویسا ہی خدا سے خدا  ہے۔ 

اسکندریہ کے کر لاّس صاحب فرماتے ہیں۔ کہ ہمیں ہر گز یہ نہ سمجھنا  چاہیے کہ لوگاس ( کلام یا عقل)  خادم  تھا اور دوسرے کی مرضی کے تابع ہو کر کام کرتا تھا۔ ورنہ وہ  خالق نہ ہوتا۔

انطاکیہ کے تھیؤفلس صاحب  فرماتے ہیں کہ بیٹا آپ سے کچھ نہیں کر سکتا۔ اس لئے کہ اُس  میں ایسی کو چیز  نہیں ہے جو باپ سے الگ اور باپ سے  مختلف  ہے۔ مگر سب باتوں میں اپنے باپ کی مانند ہے۔ اور جیسے اُس کی  وہی ہستی  اور ماہیت  ہے جو باپ کی ہے۔ ویسی اُس کی وہی قوت بھی ہے جو باپ کی بھی ہے اور اس واسطے وہ وہی کام کرتا ہے باپ بھی کرتا ہے۔ اور کوئی کام نہین کر سکتا کیونکہ اُس میں اور کوئی قوت باپ سے بڑہکر نہین ہے۔ کہ انکی ماہیت اور طاقت و کام  ایک ہی ہیں۔ 

قول حضرت عاشق اﷲ صاحب پشاوری۔ فرد
شکل انسان میں خدا تھا مجھے معلوم نہ تھا
دربدر مثل  گدا تھا مجھے معلوم نہ تھا

احقر۔۔۔۔ ملک روشن خان انجیلی  مبارزمن مقام۔۔۔۔۔۔ کلارک آباد

Pages