(۹)

گناہ

ہر گناہ زنگیست برمزاتِ دل   دل شودزیں زنگ ہاخوار وخجل
چُوں زیادت گشت دل راتیرگی   نفس دوں راپیش گردوخیرگی

آغاز ِ گناہ

تمام مذاہب ِعالم اورادیان دہر کسی نہ کسی صورت میں گناہ کے وجود کے قائل ہیں۔ اگرچہ گناہ کے آغاز کے متعلق سب کے خیالات اورآراء میں اتفاق کُلی نہیں۔ بلکہ  بعض خیالات اورفلسفے ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔ تاہم یہ سب تسلیم کرتے ہیں کہ گناہ دُنیا میں ضرور موجود ہے۔ بعض اُس کو اگیا ن اودیا اوربھرم مانتے ہیں۔ بعض اُس کو طبع انسانی کا خاصہ ذاتی مانتے ہیں اورخُدا کو نیکی وبدی ہردو کا موجد تسلیم کئے بیٹھے ہیں۔ گناہ کا وجود مسلم الثبوت ہے۔ اورکوئی صاحب ِ بصیر ت اس حقیقت سے انکار نہیں کر کرسکتا۔ اوربدی ونیکی ایسی دو متضاد اشیاء ہیں جن میں تاحشر کبھی اتحاد ومطابقت نہیں ہوسکتی۔ کافہ انام پر کوئی ایسی زبان اورلُغت یاکتاب نہیں جس  میں گناہ کے وجود کے ثبوت میں الفاظ چاہئے '' نہ چاہئے '' واجب '' ناواجب '' جائز '' ناجائز'' روا '' ناروا'' مناسب '' نامناسب '' اچھا '' اوربُرا'' وغیرہ نہ پائے جاتے ہیں۔ اورآج تک کوئی ایسی سوسائٹی معرض ِ ظہور میں نہیں آئی جس نے ان الفاظ کے مفہوم کو وہم سے تعبیر کرکے ان کے زور کوکھودیا ہو۔ ہر فر د بشر اپنے وجدانیات میں اس حقیقت نفس الامری کو بزور محسوس کرتا اوران ٹیو ئشنل گواہی رکھتا ہے۔ ضعیف سے ضعیف ضمیر بھی جائز وناجائز اورواجب وناواجب کی کیفیت سے آگاہ ہے۔ گناہ ایک ایسی حقیقت ہے جو گویا جبری طورپر انسان کو اپنے وجود کا قائل بناتی ہے۔ زبان سے کوئی اس کا انکار کرے تو کرے لیکن دل سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اب جس طرح یہ صحیح ہے کہ گناہ کے آغاز کے متعلق تمام مروجہ عقائد اورفلسفے باہمد گرمتضاد متبائن ہیں۔ اُسی طرح یہ بھی درست ہے کہ ایک ہی وقت میں ہم اُن سب کو صحیح ودرست نہیں سمجھ سکتے۔ اب اس جگہ ہم تمام دیگر خیالات ونظریات کو چھوڑ کر صر ف بائبل مقدس کی روشنی میں آغاز ِ گناہ کے خیال کو بدلائل عقلیہ اوربراہین نقلیہ پیش کریں گے۔ جس سے گناہ کی پوری حقیقت ناظرین پر کھل جائے گی۔

بائبل مقدس کا بیان ہے کہ خُدا تعالیٰ پاک وقدوس ہے۔ بنی اسرائیل کی ساری جماعت سے کہہ کہ تُم پاک رہو۔ کیونکہ مَیں جو خُداند تمہار اخُدا ہوں پاک ہوں (احبار ۱۹: ۲ ) اورایک (فرشتے ) نے دوسرے کو پکار ا اورکہا۔ قدوس۔قدوس۔قدوس رب الافواج ہے۔ ساری زمین اُس کے جلال سے معمور ہے (یسیعاہ ۶: ۳؛ مکاشفہ ۴: ۸ ؛ ۱۵: ۴ خُداوند کا شکر کرواس لئے کہ وہ نیک ہے (۱۔ تواریخ ۱۶: ۳۴ ) خُدائے قدوس وبرحق جو تمام مصنوعات ِ مرئیہ وغیر مرئیہ اورمخلوقات ِ سفلیہ وعلویہ کی علت فاعلی ہے وہ اپنی طبیعت وفطرت کے خلاف کسی شئے کو ناپاک نہیں پیدا کرسکتا۔ کیونکہ پاک طبیعت کی علت سے ناپاک طبعیت کےمعلول کا صدور عقلاً اورنقلاً محال ہے۔ جب وہ خود پاک ہے تو اُس نے مخلوقات کو بھی پاک ہی پیدا کیا۔ چنانچہ بائبل مقدس کا بیا ن ہے کہ جب خُدا نے سب کچھ پیدا کیا تو کہا کہ '' اچھا ہے '' (پیدائش ۱: ۱۰ ؛ ۱۲؛ ۱۸ ) اورانسان کی پیدائش کے متعلق بائبل کا بیان ہے  کہ پھر خُدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبہیہ کی مانند بنائیں (پیدائش ۱: ۲۶ ) اورخُدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا(آیت ۲۷ ) خُدانے انسان کو راست بنایا۔ (واعظ ۷: ۲۹ ) یعنی خُدا نے انسان کو پاک راست صاحب ارادہ اورفاعل مختار بنایا۔ خُدا کی صورت پر پیدا کئے جانے سے ہی مراد ہے۔ اورخُدا نے انسان کو تمام مخلوقات پر خلیفہ اورسردار مقرر کیا(پیدائش ۱: ۲۶ ؛زبور ۸: ۵- ۸ ) اورخُدا کی حکومت دیگرانی مخلوقات کے علاوہ انسان فرشتگان پر بھی تھی اورہے۔ اورانسان بطورنائب خُدا کے تمام دُنیا پرحکمران ٹھہرا یاگیا۔ اورخُدا نے خالق وحاکم ہونے کی حیثیت سے آدم کو چند اوامر نواہی بھی دئے کیونکہ اُس میں اخلاقی وجود وفائل مختار ہونے کے باعث خُدا کی مرضی کے مطابق یا مخالف عمل کرنے کی قوت فطرتاً موجود تھی۔ شجر ِ ممنوعہ کا پھل اُس نے کھایا اورخُدا کے فرمان کی نافرمانی کی۔ شجر ِ ممنوعہ کےبیان کو تمثیلی سمجھئے یا اورکوئی اُس کی تاویل کیجئے۔ تاہم یہ ضرورت ثابت ہے کہ خُدا کا حکم آدم وحوا نے عدول کیا۔ اوروہ خُدا کی حضور ی سے خارج کئے گئے۔ پس گناہ مخلوق کا مخلوق ہے۔ خُدا کا مخلوق آدم اورآدم کا مخلوق گناہ۔ جس طرح پوتا اپنے دادا کامولود نہیں ہوتا بلکہ اُس کے مولود کا مولود ہوتا ہے۔اسی طرح گناہ کی ابتدا انسان سے ہوئی نہ کہ خُدا سے جب انسان کی طبیعت گناہ کے باعث بگڑ کر ناپاک وفاسد ہوگئی تو خُدا کی پاکیزہ طبعیت کے ساتھ اُس کی مطابقت وموافقت قائم نہ رہی۔ اس واسطے تضاد وتفادت ِطبائع کے باعث خُدا وانسان میں جُدائی ہوگئی۔ کیونکہ دومتضاد طبائع کا اجتماع واتحاد ناممکن ہے۔ یعنی اجتما ع ضدین محال ہے۔ یہ ہے آغاز ِ گناہ کے متعلق بائبل کی معقول فلاسفی۔

ایک اعتراض کاجواب

بعض لوگ نافہمی سے یہ سوال کیا کرتے ہیں کہ جبکہ خُدا نے علام الغیب اورہمہ دار ہے تو ضرور اُس کو آدم کے گنہگار ہونے کا اُسکی تخلیق سے پہلے ہی علم ہوگا۔ اورجب یہ علم تھا تو اُس نے دیدہ ودانستہ اُس کو گناہ میں گرنے ہی کیوں دیا؟ اگرآدم گنا ہ میں نہ گرتا تو آج دُنیا کو گناہ اوراُس کے نتائج دُکھ وموت کے تلخ تجربے اُٹھانے نہ پڑتے۔ اس سوال کے جواب میں اس قدر عرض ہے کہ خُدا عالم الغیب ہے اورساتھ ہی اُس کا علم لاتبدیل بھی ہے۔ خُد ا کی صفت ِعالم الغیب ہے اورساتھ ہی اُس کاعلم لاتبدیل بھی ہے۔ خُدا کی صفت ِعالم الغیب کے متعلق بائبل کا بیان ملاحظہ ہو۔ مَیں خُدا ہوں اورمجھ سا کوئی نہیں۔ جو ابتدا ہی سے انجام کی خبردیتا ہوں۔ اورایام ِقدیم سے وہ باتیں جواب تک وقو ع میں نہیں آئیں بتاتا ہوں (یسعیاہ ۴۶: ۹- ۱۰ ؛زبور ۱۳۹ ؛ ۱۵- ۱۶ ) خُدا کو پورا علم تھا کہ آدم گناہ میں گِرے گا۔ اب اگروہ گناہ میں نہ گرتا تو خُدا کا علم تبدل پذیر پر ثابت ہوتا۔ یعنی اُس کے علم کے مطابق واقع نہ ہوتا۔ خُدا قدیم سے جانتا تھا کہ آدم پیدا ہوگا۔ میری نافرمانی کریگا اوردُکھ اورموت کی سزا اُٹھائے گا۔ چونکہ خُدا کا علم لاتبدیل ہے اس لئے عین اُسی طرح تمام واقعات معرض ظہور میں آئے نہ کہ اُس کے علم ِ قدیم کے خلاف اورساتھ ہی یہ امر بھی قابل لحاظ ہے کہ خُدا کی علم تو تھا کہ آدم گناہ میں گرے گا لیکن اُس کی مرضی یہ نہ تھی کہ آدم گنہگار ہوجائے۔ علم اور مرضی میں بہت فرق ہے۔ مثلاً ایک ڈاکٹر کوعلم ہے کہ یہ مریض نصف گھنٹے کےبعد مرجائے گا۔ لیکن تو بھی اُس کی مرضی نہیں کہ وہ مرجائے۔ اگر اس پر یہ سوال بڑھایا جائے کہ خُدا کی مرضی کیوں پوری نہ ہوئی ؟ تو اس کا جواب ہر ایک کے ذاتی تجربہ پر مبنی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ دُنیا خُدا کی مرضی کو پورا نہیں کررہی۔ گناہ کا وجود خُدا کی مرضی کی مخالفت کا ثبوت ہے۔ اور یہ بات انسان کی کامل فعل مختاری پر دلالت کرتی ہے۔ مرضی خُدا کی ہے کہ گناہ نہ ہو۔ اوراس الہٰی مرضی کو پورا کرنا یا نہ کرنا انسان فاعل مختار کے ہاتھ میں ہے۔ خواہ پورا کرے یا نہ کرے۔ اوراسی تناسب سے سز ا وجزا بھی اُس کے لئے موجود ہے۔ اگر خُدا جبری طورپر اپنی مرضی منوائے تو انسان کی فعل مختاری کہاں رہے گی ؟ اورنیکی وبدی اورجزا وسزا وغیرہ مہمل وبے معنی الفاظ ہونگے اورنیکی وبدی ایسے مفہوم ہوں گے جن کا کوئی مصداق نہ ہو۔ قسری افعال نیک یا بد نہیں ہوا کرتے بلکہ اختیاری افعال نیک یابد کہلاسکتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی کتابت میں نقائس ہیں تو یہ قلم کاقصور نہیں۔ اورخوش خطی میں قلم کی نیکی نہیں۔ کیونکہ قلم فاعل مضطر ہے۔ کتابت کی اچھائی یابرائی کا ذمہ دار ہاتھ ہے جو کہ متحرک بالا رادہ اورفاعل مختار ہے۔ ہم ایک مثال سے واضح کریں گے کہ حضرت ابوالبشر نے اپنی آزاد مرضی واختیار سے خُدا کے حُکم کو ٹھکرا دیا۔ فرض کرو کہ ایک مالک اپنے نوکر کو کچھ دام دیتا ہے اورحُکم دیتا ہے کہ باغ میں جاکر میرے لئے آم خرید لاو۔ اورساتھ ہی یہ تاکید کرتا ہے کہ اگر تُم خرید کرلاوگے تو ہم خوش ہوں گے۔ اوراگر چوری کرکے لاو گے تو ہم ناراض ہونگے۔ اورتمہیں اپنے گھر سے نکال دیں گے۔ اب حُکم اُس کو مل چکا اوروہ خوب جان گیا کہ تعمیل میں میری خیر اورعدول حُکمی میں میرا نقصان ہے۔ وہ ایک باغ میں جاتا ہے اورباغبان سے آنکھ بچا کر چوری سے آدم توڑتا اورمالک کے حضور لاتا ہے۔ اب مالک اُس کی بدیانتی کے باعث اگر اُسے اپنے گھر سے نکالدے تومالک کس صورت قابل ِالزام ہے ؟ اورنوکر کس صورت بے قصور ہے ؟ اگر اُس کو دام نہ دئے جاتے اورپھر اُس سے یہ توقع کی جاتی کہ وہ آم لائے تو البتہ مالک کا قصور ہوتا۔ مگر اُس کو آم خریدنے کی قابلیت مالک کی طرف سے دی گئی تھی۔ لیکن وہ اُس قابلیت (دام ) کو کام میں نہ لایا۔ اسی طرح خُدائے تعالیٰ نے آدم میں قابلیت نیکی اورفرمانبرداری کی پیدا کرکے پھر اُس سے حُکم کی تعمیل طلب کی۔ لیکن آدم نے اُسی نیک قابلیت کو غلط راہ پراستعمال کرکے خُدا کی مرضی کو ٹھکر ادیا۔ جب حُکم مل چکا اوروہ توڑا گیا تو عدل پیدا ہو گیا۔ اوروہی عدل قانون شِکن کو مُجرم ٹھہراتا ہے۔ اس واسطے ابو البشر وام اُلبشر کو عدل الہٰی کے آگے سرتسلیم خم کرنا پڑا۔ اورگُنا ہ کی سزا دُکھ وموت اُن کے حصے میں آئی۔ اگر حُک  نہ دیا گیا ہوتا توعدول حکمی بھی نہ ہوتی۔ کیونک جہاں شریعت (حکم ) نہیں وہاں عدول حُکمی بھی نہیں (رومیوں ۴: ۱۵ ) اوردوسری بات یہ ہے کہ اگر گناہ نہ ہوتا تو نیکی وپاکیزگی کی قدرقیمت انسان نہ جان سکتا۔ ضد کی حقیقت ضد ِ ہی سے کھلتی ہے۔

اگر اب بھی مُعترض کے پاس کوئی اعتراض ہے تو عرض ہے کہ اُس کو دُنیا میں کوئی امرایسا نہ ملے گا جس پر نُکتہ چینی نہ ہوسکے۔ مثلاً اگر کوئی مسیح کے اس قول پر غور کرے کہ '' جس کسی نے بُری خواہش سے کسی عورت پرنگاہ کی۔ وہ اپنے دل میں اُس کے ساتھ زنا کرچکا۔ تو وہ یہ اعتراض کو سکتا ہے کہ اگر آنکھ کے ذریعے بدنظری کا گُنا ہ صآدر ہوتا ہے تو خُدا نے آنکھ کو بنایا ہی کس لئے ؟ اوراگر ہاتھ سے تلوار پکڑ کر کسی کا خُون کردیا تو کہ دیا کہ ہاتھ خُدا نے کیوں بنادیا جس سے خُون ہوجاتا ہے۔ اسی قسم کے یہ سوال ہیں کہ خُدا نے شجر ممنوعہ کو اٗگایا ہی کیوں۔ یا اگر آدم نے گِرنا ہی تھا تو اُسے پیدا ہی کیوں کیا؟

اگر ایک مکان کو جلتے ہوئے دیکھ کر اُس کے مکین یہ سوچنےبیٹھ جائیں کہ اس آتشردگی کے اسباب ووجوہات کیا ہیں؟ کیوں آگ لگی۔کس نے لگائی۔ کس غرض سے لگائی۔ کب لگائی۔کبھی پہلے کیوں نہ لگائی ؟ تو کون ہے جو اُن کی نادانی پر نہ ہنسے۔ سب سے پہلےآگ کو بجھانے کی تدابیر کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ ورنہ اسباب وموجبات کی تلاش کرتے کرتے مکان جل کر خاک ہوجائے گا۔ ہم ناظرین سے گذارش کرتے ہیں کہ ایسے توہمات باطلہ میں پڑکر حق سے رو گردانی نہ کریں۔ اس کا نتیجہ پہلے گمراہی اورپھر ہلاکت ہے۔

گناہ کیا ہے ؟

آدمی کا ضمیر خُدا وند کا چراغ ہے۔جو اُس کے تمام اندرونی حال کو دریافت کرتا ہے (امثال ۲۰ : ۲۷ )

ایک تعریف گناہ کی یوں ہوسکتی ہے کہ جو کچھ انسان اپنے ضمیر کی روشنی میں بُراسمجھا ہے اُس پر عمل کرنا گناہ ہے۔ضمیر خُدا نے انسان کو ایک عجیب حس ِ بخشی ہے جو اُس کو فطر تا ً جائزو ناجائز افعال میں امتیاز دکھاتی ہے۔ اورساتھ ہی ناجائز افعال کے ارتکاب سے روکتی ہے۔پھر بھی بعض کام ایسے ہیں جو بذاتہ بُرے نہیں اورجن کو انسان محض سوسائٹی کے زیر اثر بُرئے سمجھنے لگتا ہے اُن پر بھی ضمیر ناجائز ہونے کا فتویٰ لگاتا ہے۔ یہ اس لئے ہوتا ہے کہ اکثر اوقات انسان بچپن سے ایک ہی قسم کی سوسائٹی کے زیر اثر تربیت پاتے پاتے ایک ہی قسم کی باتوں کو سنتے سنتےایک ہی طریق پر چلتے چلتے اورسوسائٹی کے پوشیدہ مگر قوی اثرات کے ماتحت ایک ایسے مصنوعی طریق کا عادی ہوجاتا ہے کہ اُس کو وہ تمام باتیں جو اُس طریق کے برخلاف ہوں گناہ معلوم ہوتی ہیں۔ مثلاً ایک بُت برست اگر بت پرستی کر ترک کرنا چاہے تو اُس کا ضمیر اُس کے اس خیال کا ناجائز ٹھہراتا ہے۔ ایک سکھ اگر اپنے کیس (بال ) کٹوانے کا ارادہ کرے تو اُس کا ضمیر اُس کے اس ارادہ پر ناجائز ہونے کا فتویٰ لگائے گا۔ تاہم درحقیقت یہ دونوں باتیں گنا ہ نہیں ہیں۔ اس لئے ہر وہ فعل جس کو ضمیر ناجائز ٹھہراتا ہے گناہ نہیں ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ضمیر اپنے فرض ِ منصبی کو درست طریق پر انجام نہیں دیتا ؟ وجہ یہ ہے کہ گناہ نے اپنے زبردست عمل تخریبیہ سے جہاں عقل ، دل اوردماغ کو بگاڑ دیا ہے۔ وہاں ضمیر پر بھی اثر انداز ہوکر اُس کی مقررہ رفتار میں فرق ڈال دیا ہے۔ عقل اوردل دونوں گناہ آلودہ ہیں (ططس ۱: ۱۵ ) عقل بگڑی ہوئی ہے (۲۔ تمتھیس ۳: ۸؛ ۱۔ تمتھیس ۶: ۵ ) تو بھی ضمیر کو قطعی معطل اورانکار رفتہ سمجھنا درست نہیں۔ اُس کی رہنمائی پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ پر ہمیشہ نہیں۔ گوضمیر نقصان سے خالی نہیں تو بھی وہ اپنے فرض منصبی کو بہت حدتک درستی سے انجام دیتا ہے۔ اصل مضمون کو چھوڑ کر ضمیر کی ماہیت پر بحث کرنا اس وقت مناسب نہیں۔ ورنہ ہم اس کی حقیقت پر مزید روشنی ڈالتے۔ پھر دوسری تعریف گناہ کی یہ ہے کہ جو کوئی گناہ کرتا ہے وہ شرع کی مخالفت کرتا ہے۔ اورگناہ شرع کی مخالفت ہی ہے (۱۔ یوحنا ۳: ۴) جس طرح گناہ حضرت ابوالبشرسے وراثنا ً تمام نسل انسانی میں چلا آیا (رومیوں ۵: ۱۲ ) اُسی طرح وہ اخلاقی شرع جو خُدانے اُس کی پیدائش کے وقت بخشی تھی کسی نہ کسی صورت میں وراثناً تمام بنی نوع انسان میں منتقل ہوتی آئی ہے۔ اوروہ شریعت کسی تحریر ی صورت میں نہ تی بلکہ آدم کے دل پر مرتسم کی گئی تھی۔ چنانچہ اُس کا کچھ نہ کچھ بقیہ تمام اقوام عالم کے دل میں فطرتی طورپر موجود ہے۔ اوراس ابتدائی باطنی شریعت کا بیان کلام ِ مقدس میں یوں ہے۔ اس لئے کہ جب وہ قومیں جو شریعت (ظاہری الہامی شریعت ) نہ رکھنے کے وہ اپنے لئے خود ایک شریعت ہیں۔ چنانچہ وہ شریعت (باطنی شریعت ) کی باتیں اپنے دلوں پر لکھی ہوئی دکھاتی ہیں (رومیوں ۲: ۱۴- ۱۵ ) الہامی شریعت اُس ابتدائی باطنی شریعت کا اعادہ ہے۔ پس شرع خواہ باطنی ہو یاظاہری اُس کا ہر تجاوز گناہ ہے۔ اورگناہ کے چار اقسام ہیں۔

  • سیاسی گناہ یعنی جو حکومت وقت کے خلاف عمل میں آئے۔ جیسے کوئی شخص جعلی سکے بنائے۔ اشیائے ممنوعہ کی چھپ کر تجارت کرے۔ ان صورتوں میں وہ حکومت کا مجرم ہے۔ اورسیاسی مکزم کا جب تک سراغ نہ ملے ےوہ سزا سے بچا رہتا ہ۔ مجرم ثابت ہونے پر اُس کو سزا دی جاتی ہے۔
  • سوسائٹی کا گناہ یعنی جو کسی سوسائٹی کے مقررہ قوانین وضوابطہ کے خلاف کیا جائے۔ جیسے کیس (لمبے بال ) رکھنا سکھ سوسائٹی کا قانون ہے اگر کوئ سکھ ہوتے ہوئے بال کٹوادے تو وہ سوسائٹی کا مجرم ہوگا۔ اورسوسائٹی سے خارج کیا جائے گا۔ مگر توبہ کرکےبحال ہوسکتا ہے۔
  • فطرۃ کا گناہ  یعنی قوانین طبعیہ کی خلاف ورزی۔ جیسے کوئی شخص قانون کشش ِزمین کے خلاف عمل کرنے سے بلند ی سے گر کر مر جائے۔ یا آگ میں ہاتھ ڈالنے سے جل جائے۔ یہ قوانین اپنے تجاوز کے ساتھ ہی سزا دیتے ہیں۔ توبہ کرنے یا معافی مانگنے کا ان پر مطلق اثر نہیں ہوتا۔
  • خُدا کا گناہ  یعنی خُدا کی طبعیت کے خلاف عمل کرنا۔ جیسے اُس کی ہستی سے مُنکر ہونا۔بُت پرستی۔کفر والحاد کا ارتکاب۔ الہٰی گناہ باقی سب گناہوں پر حاوی ہے۔ اور اُس کی سزا سب سے زیادہ ہولناک ہے۔لیکن شرع الہٰی کے تجاوز کے نتائج نے الفور ظہور میں نہیں آتے۔ کیونکہ خُدا رحیم ومہربان ہے۔ اور ہر گنہگار کو موقع دیتا ہے کہ وہ اپنی بدکرداری سے تائب ہو۔ اس لئے واعظ کہتا ہے کہ '' چونکہ برے کام پر سزا کا حکم فوراً نہیں دیاجاتا۔ اس لئے بنی آدم کا دل اُن میں بدی پر بہ شدت مائل ہے۔ (واعظ ۸: ۱۱) لیکن انسان اپنی کو تاہ اندیشی سے خُدا کے صبر وتحمل سےنا جائز فائدہ اُٹھا کرمورد ِ عتاب ِ الہٰی ٹھہرتا ہے۔ مندرجہ بالا تین قسم کے گناہوں کی سزائیں جسمانی اورایں جہانی ہوتی ہیں۔ مگر خُدا کے خلاف گناہ کرنے کی سزا ایک تو جسمانی و روحانی دونوں طرح کی ہوگی دوسرے اُس نے عدالت کا ایک خاص دن ٹھہرایا ہے  اگرچہ وہ جسمانی طورپر بدکاروں کو اس جہان میں بھی عارضی سزائیں دیتا ہے۔

مسیحیت محض عدم نیکی وعدم پاکیزگی کو گناہ نہیں کہتی۔ جیسا کہ غیر اقوام سمجھتی ہیں۔ بلکہ ازروئے انجیل گناہ ایک امر وجودی اورنفس الامری حقیقت ہے۔ نہ کہ اعتباری محض وعدمی شے۔ محض نیکی کی نفی گناہ نہیں ہے۔ بلکہ نیکی کی نفی اورگناہ کا اثبات دونوں باتیں مل کر گناہ ہیں۔ گناہ منفی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اثباتی غیر مسیحی لوگ بھاری غلطی میں مبتلاہیں کہ وہ محض عدم نیکی کو گناہ سمجھے ہوئے ہیں۔ اس لئے وہ چند ظاہری نیکیاں کرکے سمجھتے ہیں کہ اب ہم نیک ہیں۔ لیکن مسیحیت کا خیال یہ ہے کہ ممکن کہ ایک آدمی نیکی کرے مگر خود نیک نہ ہو۔ نیکی کا فقدان گناہ کے وجود کی دلیل نہیں۔ بلکہ گناہ کا وجود سبب اورعدم نیکی اُس کا نتیجہ ہے۔ گناہ نے انسان کی فطرت پر قبضہ جماکر نیکی کو اُس سے خارج کر دیا ہے۔ اب نیکی وپاکیزگی کا تسلط اس صورت میں ممکن ہے کہ پہلے گناہ فطرت انسانی سے قطعی خارج کردیا جائے۔ کیونکہ جب تک ایک بھرے ہوئے برتین میں سے پہلی چیز نکال نہ دی جائے تب تک دوسری اُس میں سما نہیں سکتی۔

انسان کی اصل فطرت کے بگڑ جانے کا نام گناہ ہے۔ خُدا نے انسان کو اس لئے پیدا نہ کیا تھا کہ وہ اُس سے برگشتہ ہوکر اُس کی مرضی کے خلاف کام کیا کرے بلکہ اس لئے کہ وہ خُدا کے ساتھ پوری مطابقت ویگانگت رکھے اوراُس کی مرضی کے مطابق چلے۔ چونکہ اس وقت انسان سراسر خُدا کی مرضی کے خلاف چل رہا ہے۔ لہٰذا وہ اپنی اصلی فطرت پر قائم نہیں ہے بس یہی گناہ ہے گناہ وہ ہے جو انسان کے تمام افعال واقوال کو ملوث کردینا ہے۔ اور بدافعال کا صدور ارتکاب انسان کے اعماق ِ طبع میں ایک ایسے مکروہ چشمے کا آئینہ دار ہے جس میں ڈوب ڈوب کروہ افعال صادر ہوتے ہیں۔ وہ افعال اگر ظاہر نہ بھی ہوں تو بھی اُس گندے چشمہ کے وجود کا انکار محال ہے۔ صرف ظاہری افعال جیسے خون کرنا چوری کرنا اور گالی بکنا وغیرہ ہی گناہ نہیں ہیں بلکہ یہ تو گناہ کا عملی ظہور میں نہ بھی آئیں (گومحال ) تو بھی ہم کسی انسان کو پاک ِ مطلق نہیں کہہ سکتے۔ مثلاً اگرسانپ کسی کو نہ ڈسے تو بھی اُس کے زہریلا ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ خواہ ڈسے خواہ نہ ڈسے بہر حال زہر اُس کے اندر موجود ہے۔ اسی طرح انسان سے خواہ کسی فعل بدکا ارتکاب نہ بھی ہوتو بھی گناہ اُس کی طبعیت میں موجود ہوتا ہے۔ پس شرع الہٰی کا ہر چھوٹے سے چھوٹا تجاوز گناہ ہے۔ اورشریعت انسان کو گناہ سےآزاد نہیں کرسکتی۔ بلکہ وہ توصرف گناہ کی پہچان ہی بخشتی ہے۔ شریعت کے وسیلے تو گناہ کی پہچان ہی ہوتی ہے (رومیوں ۳: ۳۰) جس طرح تھرمامیڑ صرف یہ ظاہر کرتا ہے کہ بخار کتنے درجے کا ہے اوراُس بخار کو دور نہیں کرسکتا۔ اسی طرح شریعت گناہ کے وجود کا علم بخشتی ہے۔ اُس سے آزاد نہیں کرسکتی۔

بہت سے لوگ جن کی فطرت بالکل مسخ اورضمیر مردہ ہوچکا ہے گناہ کے وجود کا سرے سے انکار کرتےہیں۔ حالانکہ گناہ ایک بدیہی حقیقت ہے۔ ذرا غور کر و کہ لوگ مکانوں اورصندوقوں کو قفل کیوں لگاتے ہیں ؟ سرکاری خزانے پر دن رات پہرے کیوں لگے رہتے ہیں ؟ روپیہ بنکوں میں کس لئے جمع کیا جاتا ہے ؟ اس لئے کہ دُنیا میں چور موجود ہیں۔ کیاچوری کرنانیکی ہے ؟ کیاپولیس کا انتظام۔عدالتیں ،ہتھکڑیاں ، جیلیں ،پھانسیاں اورشکنجے راست بازوں کو سزائیں دینے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ بلکہ صرف مجرموں کے لئے تمام ممالک واقوام عالم میں حکومتوں اورتغریری قوانین کا وجود زبردست ثبوت اس بات کا ہے کہ گناہ دنیا میں ہمہ گیر طورپر موجود ہے۔اورحکومت اُس کی روک تھام کا ایک جبری وظاہری انتظام ہے۔ تاکہ دنیا میں اندھیر نہ مسچ جائے اوردنیا میں کوئی زبان کتاب اورکوئی لغت ایسی نہ ملیگی کہ جس میں گناہ کے مترادف الفاظ موجود نہ ہوں۔ پس گناہ ضمیر کی مخالفت ہے۔ شرع الہٰی کی مخالفت ہے۔ انسان کی خودی براظہور ہے۔ ایک نفس الامری حقیقت ہے۔ انسان کی اصلی فطرت کے بگاڑ کا نام ہے۔ انسان کی طبعیت کو عارض ہے۔ اورایک روحانی مرض ہے۔ پس اب اگر ہم کہیں کہ ہم بیگنا ہ ہیں و اپنے آپکو فریب دیتے ہیں۔ اورہم میں سچائی نہیں (یوحنا ۱: ۸)۔

گناہ کی علت

جیسے پیشتر اس کے پانی پیاجائے پیاس ہوتی ہے۔ پیشتر اس کے کہ مٹھائی کھائی جائے کھانے کی خواہش ہوتی ہے۔ اسی طرح پیشتر اس کے کہ خون کیا جائے قتل کی خواہش ہوتی ہے۔ پیشتر اس کے کہ چوری کی جائے چوری کی خواہش ہوتی ہے۔ پیشتر اس کے کہ زنا کیا جائے زنا کی خواہش موجود ہوتی ہے۔ تو ثابت ہوا کہ ہرفعل کے ارتکاب سے پیشتر ہی اُس فعل کی خواہش انسان کے دل میں موجود ہوتی ہے۔ اورخواہش ہر فعل پر مقدم ٹھہرتی ہے۔ لہٰذا خواہش علت  اورفعل یعنی خواہش کا عملی ظہور معلول ہے۔ پس گناہ کی علت بری خواہش ہے۔ تاکہ اُن کے وسیلے سے تم اُس خرابی سے چھوٹ کر جودُنیا میں بُری خواہش کے سبب سے ہے۔۔۔ وغیرہ۔(۲۔ پطرس ۱: ۴) ہر شخس اپنی ہی خواہشوں میں کھینچ کر اورپھنس کر آزمایا جاتا ہے۔ پھر خواہش حاملہ ہوکر گناہ کو جتنی ہے۔ (یعقوب ۱: ۱۴- ۱۵ ) اوریہی بُری خواہش ہے جو حضرت ابو البشر سے وراثناً اُس کی تمام نسل کو ملی ہے۔ اسی واسطے خُداوند مسیح نے گناہ کی علت (بُری خواہش ) کو روکنے پر زور دیا اورصرف نیت کی بُرائی کو ہی گناہ ٹھہرایا۔ آپ نے فرمایا۔ مَیں تُم سے یہ کہتا ہوں کہ جس کسی نے بُری خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی وہ اپنے دل میں اُس کے ساتھ زنا کرچکا (متی ۵: ۲۷ ) اوریہ بُری خواہش انسان کی فطرۃ اولہ نہیں بلکہ فطرۃ ثانیہ ہے۔ اوراس کے اعماق ِ قلب میں ایک گناہ کا منبع ہے جس میں سے افعال بدپھوٹ پھوٹ کر صاد ر ہوتے اورفضائے عالم کو متعفن کرتے ہیں۔بدافعال کا ظہور گویا اعماق  ِ قلب کا اعلان ہے۔ اورخواہش بد کوئی اکتسابی شئے نہیں بلکہ موروثی ہے۔ اسی واسطے انسانی تدابیر سے اس کا ازالہ محال ہے۔ مذہبی تعلیم۔وعظ ونصحیت اورحکومت کی تغریری تجاویز و عوامل صرف بری خواہش کے معلولات (بدافعال ) یعنی چوری ،زنا ، حق تلفی ، ظلم ،لڑائی فساد اورخون ریزی وغیرہ کو عارضی طورپر روک سکتے ہیں ،لیکن  ان کی علت (بری خواہش ) اندفاع وازلہ میں قطعی قاصر ہیں۔ جب تک انسان کی نیت بدنہ تب تک ارادہ بُرا نہیں ہوسکتا۔ اورجب تک ارادہ بُرا نہ ہوفعل بد کا صدورمحال ہے۔ اگربدرون ارادہ بد کے افعال بدکا صدور ممکن مانا جائے تو وہ افعال اضطراری ٹھہریں گے نہ کہ اختیاری اور یہ باطل ہے۔ پس فعل بد کے صدور کی علت بُرا ارادہ اوربرے اردے کی علت بُری خواہش ہے۔ انسان کی خواہش وارادہ گناہ سے اس قدر مانوس ہوچکے اورطبعیت گناہ کی طرف اس درجہ مائل ہوچکی ہے کہ جب تک اُس کی خواہش ،میلان طبع اورارادہ کو کسی فوق العادت طریق سے تبدیل نہ کردیا جائے حقیقی نیکی اُس س صادر ہوہی نہیں سکتی۔ اگر کوئی نیکی صادر بھی ہوگی تو وہ گندی دھجی کی مانند ہوگی (یسعیاہ ۶۴: ۶ ) گناہ انسان کی فطرت میں اس قدر رچ گیا ہے کہ یرمیاہ نبی اُسے انسان کی ایک فطرتی ناقابلیت سے تشبیہ دیتا ہے (یرمیاہ ۱۳: ۲۳ ) فخر بانہ میلانات ومذموم رجحانات گناہ آلودہ طبعیت کے لازمی نتائج ہیں۔ اکثر لوگ گناہ کی حقیقت کو نہیں سمجھتے۔ وہ گناہ صرف اُس کو سمجھتے ہیں جو ظہور میں آئے میں آئے لیکن نیت کی سفلیت کو گناہ نہیں سمجھتے۔حالانکہ نیت و خواہش کی بدی تمام جرائم وذمائم کو مرکز ہ۔ ذرا سوچئے کہ جب ایک آدمی دوسرے آدمی کی نیت کی بُرائی سے کسی صورت آگاہ ہوجاتاہے۔تو باوجود اُس سے کوئی فعل بدسرزد ہونے کے اُس سے نفرت کرتا ہے۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نیت کی برائی واقعی نفرت کا موجب ہے۔ اوراگر انسان ایک دوسرے کے باطنی خیالات کےجان لینے پر قادر ہوتا تو ضرور ایکدوسے سے نفرت کرتا۔ اب دیکھئے کہ خُدا ہمارے باطن سےے اس قدر آگاہ ہے جس قدر ہمارے ظاہر سے۔ مَیں تمہارے دل کے خیالات کو جانتا ہوں (حزقی ایل ۱۱: ۵ ؛ ۱۔ کرنتھیوں ۴: ۵) تو بتائے کہ ہماری بُری نیت اوربُری خواہش سے وہ کیوں نفرت نہ کرے گا؟ اوربُری خواہش (علت گناہ ) کا مرکز دل ہے۔ اس لئے کلام میں آیا ہ ےکہ دل بھی شرارت سے بھرا ہے (واعظ ۹: ۳ ؛ ۸: ۱۱ ) اورخُداوند مسیح نے فرمایا۔ جو باتیں منہ سے نکلتی ہیں۔ وہ دل سے نکلتی ہیں۔ اور وہی آدمی کو ناپاک کرتی ہیں۔ کیونکہ بُرے خیال ،خون ریزیاں ،زناکاریاں ،حرام کاریاں۔چوریاں ،جھوٹی گواہیاں ،بدگوئیاں دل ہی سے نکلتی ہیں۔ یہی باتیں ہیں جو آدمی کو ناپاک کرتی ہیں۔ (متی ۱۵ : ۱۸–۲۰ ) انسان کے دل کا خیال لڑکپن سے بُرا ہے (پیدائش ۸: ۲۱) اس لئے انسان کے لئے ہدایت الہٰی یہ ہے کہ اپنے دل کی خوب حفاظت کر۔ کیونکہ زندگی کا سرچشمہ وہی ہےے (امثال ۴: ۲۳ ) اورداود نبی اس گناہ آلود دل کی تبدیلی کے لئے خُدا سے یوں التجا کرتا ہے۔اَے خُدا میرے اندر پاک دل پیدا کر۔اور میرے باطن میں از سر نو مستقیم رُوح ڈال (زبور ۵۱: ۱۰ ) دیگر مزاہب صرف عملی گناہ پر زور دیتے اوربدخیالی و بداندیشی کو گناہ نہیں سمجھتے۔لیکن مسیحیت کی فضیلت و امتیاز اسی سے ظاہر ہے کہ وہ انسان کی نیت کی بُرائی او ر خواہش ورادہ کی نجاست وخباچت پر گناہ ہونے کا فتویٰ دیتی اوربدخیالی وبداندیشی کو شرع الہٰی کا عدول ٹھہرا کر فعل سے زیادہ ارداہ فعل کو معیوب ٹھہراتی ہے۔ کیونکہ خُدا باطن کی صفائی پسند کرتا ہے نہ کہ ظاہری کی۔ نادان لوگ عملی گناہوں کے محض دوسروں کی نظر سے بچکر پوشیدہ طورپر مرتکب ہوتے اورچند ظاہری داری کی نیکیاں کرکے خود کو پاک ونیک سمجھنے لگتے ہیں اوردل کو یونہی تسلی دے لیتے ہیں کہ ہم گنہگار نہیں ہیں۔ کلام ِ مقدس ایسوں کے متعلق یوں فرماتا ہ۔ ایک پشت ایسی ہے جو اپنی نگاہ میں پاک ہے۔لیکن اُس کی گندگی اُس س دھوئی نہیں گئی (امثال ۳۰ : ۱۲ ) انسان کی ہر ایک روش اُس کی نظر میں راست ہے۔ پر خُداوند دلوں کو جانچتا ہے (امثال ۲۱: ۲؛ ۲۰: ۹ ؛ واعظ ۷: ۲۰ ) جب مصدر ہی ناپاک ہوتو اُس سے نیکی و پاکی کا صدور کیسے ممکن ہے ؟ (یعقوب ۳: ۱۲ ) پس گناہ کی علت بُری خواہش ہے اوربغیر علت کی تبدیلی کے معلول کی تبدیلی محال ہے۔ جب تک انسان کی بُری خواہش وبری طبعیت نئے سرے سے نیک اور پاک نہ ہو ہوجائے تب تک حقیقی نیکی اُس سے صادر ہی نہیں ہوسکتی (متی ۷: ۱۸ )۔

گناہ ہمہ گیرہے

گناہ کی ہمہ گیر کے متعلق عقلی دلائل :۔

  1. دُنیا میں کوئی ایسی کتاب ،لغت یا زبان نہیں ہے۔ جس میں گناہ کے مترادف الفاظ موجود نہ ہوں۔ ہم اس مضمون کے آٖغاز ہی میں اس کا ذکر کرچکے ہیں کہ ہر زبان میں ایسے الفاظ بکثرت موجود ہیں جن سے گناہ کا ہمہ گیر ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اوریہ بھی ظاہر ہے کہ کوئی لفظ تب تک ایجاد نہیں ہوتا جب تک خارج میں اُس کا کوئی مدلں نہ پایا جائے۔ واقعات پیش آمدہ کے مطابق اُن کے اظہار کے لئے الفاظ بنائے جاتے ہیں۔ مثلاً لفظ عداوت کبھی ایجاد نہ ہوتا اگر دُنیا میں عداوت وردشمنی نہ ہوتی۔لفظ غم کبی ایجاد نہ ہوتا اگ غم کوئی شئے یاکیفیت نہ ہوتی۔ اگر دُنیا میں کبھی کوئی بیماری ہی نہ ہوتی تو الفاظ ہماری۔مرض ، علالت اورحکیم وطبعیت اورنُسخہ ودو وغیرہ ہرگز ایجاد نہ ہوتے۔ اورسرسام ،بُرص ،طاعون ،ہیضہ۔تمونیہ اوربُخار وغیرہ الفا ظ کا وجود نابود ہوتا۔ اسی طرح گناہ کے مترادف یا اُس کی مختلف فروعات کے اظہار کے لئے دُنیا کی ہر زبان میں بکثرت الفاظ موجود ہیں۔ اگر گناہ کوئی ہمہ گیر شئے نہ ہوتا تو اُس کے مفہوم کے اظہار کے لئے ہر مُلک کی زبان میں کثیر التعداد الفاظ ہر گز نہ ہوتے۔ لہٰذا گناہ ایک نفس الامری حقیقت ہے اور ہمہ گیر ہے۔
  2. ہر مُلک اورہرقوم میں کسی نہ کسی صورت میں حکومت اورتغریری انتظام کاوجود گناہ کی ہمہ گیری کا زبردست ثبوت ہے۔ عدالتیں۔ حکومتیں اورتغریرات گناہ کوقوت ِبازو سے روکنے کے لئے معرض ِ وجود میں آئیں۔ چونکہ یہ انتظام ہمہ گیر ہے لہٰذا گناہ بھی ہمہ گیر ہے۔
  3. گناہ ایک متوارث شئے ہے۔ یعنی جس طرح صحت ِ و سقم۔ضعف و قوت ،شکل وشباہت اورعادات وخصائل اورمزجہ وطبائع قانون ارثی کے مطابق والدین سے بچوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ اُسی طرح گناہ کی علت (بری خواہش ) بھی ارثی طور پر اولا میں منتقل ہوتی ہے۔ اورطبیعت ِموروثی کا ہمہ گیری ہونا مسلم ہے۔لہٰذا گناہ ہمہ گیر ہے۔
  4. تجربہ نوعی نے گناہ کی ہمہ گیری کوخوب ثابت کردیا ہے۔ گناہ کا وجود ایک بدیہی حقیقت ہے۔ اورکوئی ملک کوئی شئے کوئی قوم۔کوئی جماعت۔کوئی خاندان اورکوئی فردِ واحد بھی اس سے ثابت ہے۔ ہندومذہب میں عقیدہ تنا سخ مسلم ہے اورازروئے تناسخ تمام جیوبندھ میں آتے ہیں۔ اوراُن کا بندھ میں آنا کسی گذشتہ جرُم کے بغیر ممکن نہیں۔لہذا اُن کے مسلمات کی رُو سے تمام جیو گنہگار ہیں۔ پھر اسلامی مسلمات کی رُوسے بھی گناہ کی ہمہ گیری مسلم الثبوت ہے۔ قُرآن کی سورہ نحل میں مرقوم ہے۔ کہ اگر اللہ انسانوں سے اُن ظلم کی باز پُرس کرے تو زمین پر ایک متحرک کو بھی نہ چھوڑے۔ پھر حدیث صحیح بخاری وصحیح مسلم میں بھی اسی مطلب کا مضمون ہے جس کا مطلب یہ ہے۔ کہ تُم میں سے کسی کا عمل اُس کو ہرگز جنت میں داخل نہ کرے گا۔ تو آپ کے ساتھیوں نے پوچھا کہ اَے رسول اللہ کیا آپ کو بھی آپ کو عمل جنت میں داخل نہ کرے گا؟ آحضرت نے فرمایا۔ کہ مجھ کو بھی میرا عمل جنت میں داخل نہ کرے گا۔ خُدا کی رحمت وفضل کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ پس اسلامی متعقدات سے بھی گناہ کی ہمہ گیری ثابت ہے۔
  5. گناہ کی ہمہ گیری کےمتعلق بائبل مقدس کی منقولی دلائل
  6. بائبل سے گناہ کی ہمہ گیری کا ثبوت ملتا ہے۔ کلام میں آیا ہے کہ گناہ کی مزدوری موت ہے (رومیوں ۶: ۲۳ ) چونکہ تمام انسان مرتے ہیں۔ لہٰذا سب گنہگار ہیں گناہ سبب ہےہ اورموت اُس کانتیجہ ہے۔ اگر گناہ نہ ہوتا تو موت بھی نہ ہوتی۔ جبکہ گناہ کا نتیجہ (موت ) ہمہ گیری ہے۔ توخود سبب گناہ کیوں ہمہ گیری نہ ہوگا؟ اورکوئی نتیجہ بغیر سبب کے نہیں ہوتا۔ گناہ کی ہمہ گیری کے ثبوت میں چند مقامات بائبل مقدس سے ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔
  1. جس طرح پانی میں چہرہ چہرے سے مشابہ ہے۔اُسی طرح آدمی کا دل آدمی سے (امثال ۲۷: ۱۹ )۔
  2. انسان ہےکیا کہ وہ پاک ہو؟ اوروہ جو عورت سے پیدا ہوا کیا ہے کہ صادق ہو۔(ایوب ۱۵: ۱۴)۔
  3. خُداوند نے آسمان پر سے بنی آدم پر نگاہ کی تاکہ دیکھے کہ کوئی دانشمند کوئی خُدا کا طالب ہے یانہیں۔ وہ سب کے سب گمراہ ہوئے وہ باہم نجس ہوگئے۔ کوئی نیکو کار نہیں۔ایک بھی نہیں (زبور ۱۵: ۲- ۳ ؛ ۵۳: ۲- ۳ )۔
  4. اوراپنے بندے کو عدالت میں نہ لا۔کیونکہ تیری نظر میں کوئی آدمی راستباز نہیں ٹھہرسکتا (زبور ۱۴۳: ۲ )۔
  5. کون کہہ سکتا ہے کہ مَیں نے اپنے دل کو صاف کرلیا ہے۔ اورمَیں اپنے گناہ سے پاک ہوگیا ہوں (امثال ۲۰ : ۹ )۔
  6. کیونکہ زمین پر کوئی ایسا راستباز انسان نہیں کہ نیکی ہی کرے اورخطا نہ کرے (واعظ ۷: ۲۰ )
  7. ۔ قول المسیح۔کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خُدا (لوقا ۱۸: ۱۹ )
  8. اس لئے کہ سب نے گناہ کی اورخُدا کے جلال سے محروم ہیں۔(رومیوں ۳: ۲۳ ؛ ۵ : ۱۲ )
  9. اگر ہم کہیں کہ ہم بے گناہ ہیں تو اپنے آپ کو قریب دیتے ہیں۔ اورہم میں سچائی نہیں (۱۔ یوحنا ۱: ۸ )

ہم نے گناہ کی ہمہ گیری کو معقولات ومنقولات سے پایہ ثبوت تک پہنچا دیا۔ اب ہر شخص اپنے گریمان میں منہ ڈال کر اپنی باطنی خالت کا امتحاج کر ے۔ اوراپنے آپ کو خوب جانچ لے کہ واقعی وگنہگار ہے یا نہیں۔ اگر کوئی اب بھی اپنے آپ کو بکلی پاک و راستباز سمجھے تو وہ جان لے کہ گنا ہ کی شدید تیرگی نے اُس کے ضمیر کو جو اُس کےباطن کے لئے بمنزلہ ایک چراغ کے ہے (امثال ۲۰ : ۲۷ ) یہاں تک مدھم کردیا ہے کہ وہ اپنے باطن کی گناہ آلودہ تاریک حالت کوجان نہیں سکتا۔ اورایسا شخص قابل ِرحم ہے۔

کیا گناہ انسان کی اصلی فطرت ہے؟

اگرچہ پیچھے کئی جگہ ثابت کر آئے کہ گناہ انسان کی نیچر کا خاصہ ذاتی نہیں ہے۔ پر شائد کوئی اورزیادہ وضاحت سےاس امر کا ثبوت چاہئے۔ الہٰذا ہم چند دلائل سے اس خیال کی کہ گناہ جُز وانسانیت ہے تردید کریں گے۔

  1. جو بات کسی ذی حیات جنس کی ذات کا خاصہ نہیں وہ اُس کے لئے نقصان وہ اورمضرت رساں ثابت ہوگی۔ اب دیکھئے کہ صحبت جسمانی انسان کی طبعیت کا خاصہ ہے۔ اس سے اُس کاکوئی تکلیف یانقصان نہیں ہوتا۔ لیکن مرض جزو انسانیت نہیں بلکہ ایک ہے۔ اس لئے اُس سے سے دُکھ اورنقصان ہوتا ہے۔ سانپ کازہر سانپ کےلئے مضت ِ رساں نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ اُس کے خاصہ ذاتی ہے۔ سانپ کسی کو ڈس کر خوش ہوتا ہے ہم کانوں سے کچھ سُن کر خوش ہوتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی بہر ہ ہوجائے تو وہ بہت ناخوش اور رنجیدہ ہوتا ہے۔ کیونکہ بہرہ بن فطری خاصہ نہیں ہے۔ اسی طرح گناہ سے انسان کو دُکھ اوررنج محسوس ہوتا ہے۔ اس لئے وہ فطرت انسانی کا خسہ ذاتی نہیں ہے۔
  2. چونکہ گناہ کرنے کے بعد انسان کو ایک تورنج ہوتا ہے۔ اوردوسرے اُس فعل ناکردنی پر پچھتانا پڑتا ہے۔ اس سےثابت ہوتا ہے کہ گناہ انسانی فطرت کا خاصہ نہیں ہے۔ پطرس نے مسیح کا انکار کیا اورپچھتا کر زا ئ زار رویا۔ یہوداہ اسکر یوملی نے مسیح کے ساتھ غداری کی اوراُس کا غم اورپچھتا وا خود کشی پر منتج ہوا۔ پس اگر گناہ ذاتی خاصہ ہوتا تو اُس سے خوشی ہی حاصل ہوتی نہ کہ رنج اورپچھتاوا۔ اگر کوئی خوشی ہوتی بھی ہے تو بہت تھوڑے عرصہ کی جیسے شراب پینے سے ایک آدھ گھنٹے کے لئے سُرور ہوتا ہے۔ لیکن بڑے سے بڑا گنہگار بھی کسی نہ کسی وقت اپنے گناہ پر ضرور نادم ہوتا اورپچھتاتا ہے۔ اگر کوئی کہے کہ چور کو چوری کرنے سے ہمیشہ خوشی ہوتی ہے اورپچھتا وا کبھی نہیں ہوتا۔ کیونکہ چوری سے جومال ودولت ہاتھ آتا ہے وہ اُس کی طبعیت پر رنج وپچھتاہ لے کر غالب آنے نہیں دیتا تو اس کے جواب میں اس قدر عرض ہے کہ اگر خود چورکے گھر میں چوری ہوجائے تو کیا پھر بھی اُسے خوشی حاصل ہوگی؟ ہر گزنہیں۔ اُس کو ضرور رنج اورافسوس ہوگا۔ پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ چوری کرنا گناہ ہے۔ اوررگناہ فطرت ِانسانی کا خاصہ نہیں بلکہ غیر شئے ہے۔ لہٰذا اس سے آزاد ہونا اصلی فطرت کا تقاضا ہے۔
  3. گناہ تمام افراد ِ عالم میں یکساں نہیں ہے۔ اس لئے طبعیت اولہ نہیں بلکہ ثانیہ ہے۔ کسی میں ایک گناہ ہے اور دوسرے میں وہ نہیں کوئی اورہے۔ ایک شخص خونی تو ہے مگر غُربا ء کے ساتھ بہت ہمدردی کرتا ہے۔ ایک آدمی زانی تو ہے مگر خونی نہیں ہے۔ ایک آدمی لالچی تو ہے مگر سچ بولنے میں مشہور ہے۔ا یک آدمی بُت پر ست تو ہے مگر جھوٹ۔فریب۔ خو ن ریزی اقورظنم وغیرہ سے نفرت کرتا ہے۔ جس طرح سانس لینا۔ سُننا ،سونگھنا۔سونا ، جاگنا اور کھانا پینا وغیرہ ذاتی خصائص تمام افراد عالم میں یکساں میں اُسی طرح اگر گناہ انسان کی ذاتیات کا جُز ہوتا تو تمام نوع ِ انسانی میں یکساں ہوتا۔ یعنی اگر ایک شخص چوری کرنا تو تمام دُنیا چوری کرتی۔ اگرا یک شخص جھوٹ بولتا تو ضرورتھا کہ دُنیا کے تمام لوگ جھوٹ بولا کرتے۔ مگر ایسا نہین ہے۔ لہٰذا گناہ حُزو انسانیت نہیں ہے۔
  4. خُدائے قدوس سے ناپاک طبعیت کے معلول کا صادر ہونا قطعی ممتنع ومحال ہے۔ کیونکہ قدوسیت اورناپاکی باہمدگر نقیضین ہیں۔ اورایک نقیض دوسرے نقیض کی علت نہیں ہوسکتا۔ جیسے آفتاب میں سے تاریکی کبھی صادر نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا گناہ انسان کی فطرت اولہ نہیں۔
  5. گناہ کو جُزو فطرت انسانی ماننے سے احکام وشرائع اوراوامر ونواہی الہٰیہ کا بطلان لازم آئے گا۔ خُدا خود گناہ کو انسان کی طبعیت میں پیدا کرکے اُس کے خلاف احکام صادر نہیں کرسکتا۔
  6. اگر گناہ عرض ِ ذاتی ہے تو خُدا تعالیٰ کسی کو سز اوجزا نہیں دے سکتا۔اورعدالت وابدی زندگی سے انکار لازم آئے گا۔
  7. خُدا کے تمام انتظامات دربارہ ازالہ گناہ اورنجات ِبنی نوع انسان باطل ٹھہریں گے۔ کیونکہ خاصہ ذاتی کا انفکاک اپنی ذات سے محال ہے۔
  8. گناہ بدی کے حامل ہونا خُدا کی عین فرماں برداری ہوگی۔ اورنیکی کے عامل ہونا خُدا سے سرکشی ومخالفت کرنا ہوگا۔

جبکہ گناہ کو انسان کی اصلی فطرت ماننے سے مندرجہ بالا قباحتیں لازم آتی ہیں۔ تو یہ خیال کوخود باطل ہوکر محال ٹھہرا۔ اورثابت ہوا کہ گناہ انسان کی طبیعت کا خاصہ ذاتی نہیں۔ طبیعت اولہ نہیں بلکہ طبعیت ثانیہ یاعرض انضمام ہے۔ یعنی خُدا نے تو ابوالبشر کو پاک وراست پیدا کیا تھا۔ لیکن وہ خود الہٰی نافرمانی کرکے گنہگار ہوگیا۔ تو مَیں نے صرف اتنا پایا کہ خُدا نے انسان کو راست بنایا۔ پر اُنہوں نے بہت سی بندشیں تجویز کیں۔ (واعظ ۷: ۲۹) اور اُس گناہ سے انسان کی طبیعت بگڑگئی۔ اوروہ طبعی بگاڑ وراثناً آدم سے تمام نسل ِ انسانی میں منتقل ہوگیا (رومیوں ۵: ۱۲)۔

اس دُنیا میں بے شمار جسمانی امراض پائے جاتے ہیں۔اور وہ امراض یا تو موروثی ہوتے ہیں۔ یعنی آباو اجداد سے اولا د کر وراثناً ملتے ہیں۔ جیسے تب دق کے مریض والدین کے بچے بھی تب دق میں مبتلا ہوتے ہیں۔ یا متعدی ہوتے ہیں۔ یعنی مریضوں کی صحبت وسنگت سے لاحق ہوتے ہیں۔ جیسے کوئی تندرست آدمی کسی کو ڑھی یا تپ دق کے مریض کی صحبت میں رہنے سے خود بھی اس مرض کا شکار ہوجاتا ہے۔ اوریاکسبی ہوتے ہیں۔ یعنی اپنی ہی غفلت ونادانی سے پیدا ہوتے ہیں۔ جیسے کوئی آدمی گرم گرم چاہے پی کر اُوپر سے فوراً برف کا ٹھنڈا پانی پی لے اورگر سرد ہوکر بیمار ہوجائے۔جس طرح یہ جسمانی بیماریاں جسم کے لئے مضرت رساں ہیں نہ اُسیی طرح گناہ ایک روحانی مرض ہے اور رُوح کی تخریب وتنزل کا موجب ہے۔ اوریہ روحانی مرض(گناہ) بھی تین ہی طرح پر ہے۔

طبعی موروثی گناہ

آدم اورحواکے گناہ میں گِرنے سے اُن کی طبیعت ناپاک اورگناہ آلود ہوگئی۔ اوراُس بُری طبیعت کا اثر وراثناً اُن کی نسل میں منتقل ہوتا آیا۔ دیکھ مَیں نے بدی میں صورت پکڑی۔ اورمَیں گناہ کی حالت میں ماں کے پیٹ میں پڑا(زبور ۵۱: ۵) شریر پیدائش ہی سے کجروی اختیار کرتے ہیں۔ وہ پیدا ہوتے ہی جھوٹ بول کرگمراہ ہوجاتے ہیں۔ (زبور ۵۸: ۳) میں جانتا تھا کہ تو بالکل بے وفا ہے۔ اوررحم ہی سے خطا کا رکہلا تا ہے (یسیعاہ ۸: ۸ ) انسان کے دل کا خیال لڑکپن سے برا ہے(پیدائش ۸: ۲۱ ) پس جس طرح ایک آدمی کے سبب سے گناہ دُنیا میں آیا۔ اورگناہ کے سبب موت آئی۔ اوریوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی۔ اس لئے کہ سب نے گناہ کیا (رومیوں ۵: ۱۲) گناہ کو موروثی کہنے سے یہ نہ سمجھا چاہے کہ اولا داپنے والدین کے گناہوں کی سز ا میں بھی مبتلاہوتی ہے۔ ہرگز نہیں بلکہ بدی کا میلان وراثناً والدین سے اولا د میںمنتقل ہوتا ہے نہ کہ سز ا بھی۔ گناہ تو کردی وبدرت بہ قتل گاہ رسیدوالا معاملہ نہیں۔ اس کے متعلق کلام ِ الہٰی کا فیصلہ ملاحظہ ہو۔ اُن ایام میں پھر یوں نہ کہیں گے کہ باپ دادا نے کچے انگور کھائے اوراولاد کے دانت کھٹے ہوگئے۔ کیونکہ ہرا یک اپنی ہی بدکرداری کے سبب سے مریگا۔ ہر ایک جو کچے انگور کھاتا ہے۔اُسی کے دانت کھٹے ہوں گے(یرمیاہ ۳۱: ۲۹-۳۰) گلیتوں ۶: ۵) اگر کوئی ہمارے اس دعویٰ کی تردیدمیں خروج ۲۰: ۵ کو پیش کرکے یہ ثابت کرنا چاہے کہ اولا د اپنے آباو اجداد کی سزا میں مبتلا ہوتی ہے تو اُس کے متعلق عرض ہے۔ کہ سزا دو قسم کی ہوتی ہے۔ یعنی سزائے نظامت اورسزائے عدالت۔خُدا اس دنیا میں کبھی کسی کو عدالتی سزا نہیں دیتا۔ بلکہ اُس کے لئے ایک خاص دن مقرر ہے۔ لیکن سزائے نظامت جسمانی اور ایں جہانی ہوتی ہے۔ اُس میں بے شک بچے بھی والدین کے ساتھ سزاپاتے ہیں۔ جیسے طوفان ِ نوح میں بدکرداروں کے ساتھ اُن کی اولا د بھی ہلاک ہوئی۔ لیکن اس سے اُن کا کوئی روحانی نقصان نہیں ہوا۔ وہ سزائے عدالت کے لئے باقی رکھے گئے ہیں۔ جب بدی حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے توخُدا بدکاروں کو اُن کی نسل سمیت مٹادیتا ہے۔ جیسے ایک مصور اپنی تصویر کو جس میں نقص پیدا ہوجائیں ربڑ سے مٹا دیتا ہے۔ جو سزائیں حاکموں کی طرف سے بدکاروں کی اصلاح کے لئے دی جاتی ہیں وہ  بھی خُدا کی انتظامی سزا میں شامل ہیں۔ سزائے نظامت توبہ کرنے سے ٹل بھی جاتی ہے۔ جیسے نینو ا کے لوگوں نے جب اپنی بدکرداری سے توبہ کی اورخُدا کی کے حضور خاکساری اختیار کی تو اُن کی سزا ٹل گئی (یوناہ ۳: ۵-۱۰ ) لیکن سزائے عدالت رُوحانی سزا ہے اوراٹل ہے۔ اُس سے کوئی بدکار بچ نہیں سکتا۔

متعدی گناہ

یعنی بدکرداری کی قُربت وصحبت سے بھی انسان کی طبیعت بد سے بدتر ہوتی جاتی ہے۔ اس لئے کلام میں آیا ہے کہ '' فریب نہ کھاو بُری صحبتیں اچھی عادتوں کو بگاڑ دیتی ہیں(۱۔ کرنتھیوں ۵: ۳۳ ) اورزبور ۱: ۱ میں اُس آدمی کو مبارک کہاگیا ہے جو شریروں کو صحبت سے پرہیز کرتا ہے (امثال ۱۳: ۲۰؛ ۲۲: ۲۴: ۱ )۔

کسبی گناہ

ہرشخص اپنی ہی خواہشوں میں کھنچ کر اورپھنس کر آزمایا جاتا ہے۔پھر خواہش حاملہ ہوکر گناہ کو جنتی ہے(یعقوب ۱: ۱۴- ۱۵ ؛۲۔پطرس ۱: ۴ ) گناہ نے فطرت ِانسانی پر اثر انداز ہو کر زندگی کے شیریں چشمہ کو زہریلابنا دیاہے۔ کے سبب اس دُنیا میں انسان ہر قسم کے مصائب جسمانی وآلا م ِ روحانی میں مبتلا نظر آتا ہے۔ اورزندگی ایک ناقابل برداشت بوجھ معلوم ہوتی ہے۔ ریاضت ِ بدنی اورتزکیہ نفس وغیرہ کے ہمہ گیر خیالات گناہ کے وجود اوراُس کے باعث انسان کی روحانی بے چینی اورقلبی اضطراب کے مظہر ہیں۔ بلکہ ان جسمانی ورحانی آلام ومصائب سے تنگ آکر انسان نے خود کشی کو ذریعہ نجات سمجھا۔ یونانی حکماء کا یہ خیال ہے کہ طبعی موت خود کُشی کو ذریعہ نجات سمجھا۔ یونانی حکما ء کا یہ خیال ہے کہ طبعی موت خود انسان کے پاس آتی ہے۔ اورخودکشی انسان کو موت کے پاس لے جاتی ہے۔ فیثا غورث افلاطون اورارسطو خودکُشی کے بظاہر مخالف ہیں۔ اورافلاطون خود کشی کی مخالفت کے باوجود دبی زبان سے یہ کہتا ہے کہ '' شدت ِافلاس ومصائب سے جب زندگی ناقابل برداشت ہوجائے تو خود کشیئ جائز ہے۔ مارکس اُریلئیس کہیں خود کشی کا مخالف اورکہیں حامی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہرشخص کو اپنی جان پر کامل اختیار حاصل ہے۔ حکم ایپی کیورس کا یہ عند یہ ہے کہ۔'' خوب غور کرلو موت کا تماہرے پاس آنا بہتر ہے یا تمہارا موت کے پاس جانا۔ اس کی تعلیم کا یہ اثر ہوا کہ اُص کے پانچ شاگر خودکشی کے مرتکب ہوئے۔ پلینسی بڑے فخر سے کہتا ہے کہ موت کے بارے میں عبد کو معبود پر فضیلت حاصل ہے کہ وہ اپنی حسب مرضی زندگی کا خاتمہ کرسکتاہے۔ اوریہ فطرت کی فیاضی کاسب سے بڑا ثبوت ہے کہ دُنیا میں ایسی جڑی بوٹیاں پیدا کردی گئی ہیں۔ جن کی مدد سے انسان اپنے مصائب کا آسانی سے خاتمہ کرسکتا ہے ہییچی ایک مشہور فاضل گذارا ہے جسے خطیب مرگ کے لقب سے یاد کیاجاتا ہے۔یہ شخص ایک طرف تو حصول ِلذت کو انسانی حیات کی غرض وغایت ٹھراتا ہے۔  اوردوسر ی طرف موت کی بہترین نعمت قرار دیتا ہے۔ یہ بڑا سجر بیان خطیب اورعظیم آتش نوامقرر تھا۔ اسکی خطا بت کا یہ اثر ہوا کہ ہزاروں آدمیوں نے خود کُشی کرنا شروع کردی۔ روزانہ خود کُشی کے واقعات ظہور پذیر ہونے لگے۔ ان اموات کا ملک کی آبادی پر بہت بُرا اثر پڑا۔ اس لئے حکومت نے ہحیپی کو سکندریہ سے جلاوطن کردیا۔ رُوم کے شعرا ء خرین میں سیلیس اٹالیکس کو بڑا درجہ حاصل تھا۔ وہ بھی خود کشی سے مرا۔ رُوم کا مشہور جزل لایگنس زہر کھاکر ہلاک ہوگیا۔ اُس کے اس فعل کو ایثار۔اوروطن دوستی سے تعبیر کیاگیا۔ کلی پر می گرنس جب زندگی سے اُکتا گیا۔ تواُس نے خود کُشی کے وقت بہت سے دوستوں کو دعوت دی۔ اوراُن کی موجود گی میں آگ میں کود کرہلاک ہوگیا۔

اے پکٹٹس کہتا ہے۔ یہ خُوب یا درکھو کہ دروازہ کُھلا ہوا ہے بچوں سے زیادہ تربزدل نہ بنو۔ جس طرح جب بچے کھیل کُود سے اُکتا جاتے ہیں تو صاف کہہ دیتے ہیں کہ اب نہ کھیلیں گے۔ اسی طرح جب تو زندگی سے عاجز آجاو تو فوراً زندگی ترک کردو۔

حکیم سنیکا کے خطبہ کے چند اقتباسات درج ذیل ہیں۔

اگر موت نہ ہوتی تو یہ زندگی کیسا ناقابلِ برداشت عذاب ہوتی۔ موت پر میرے موذ ی سے موذی دشمن کا بھی دسترس نہیں۔ درحقیقت موت ایسی شئے ہے جو تمام مصائب کے لئے سپر ہے۔ تم تکالیف سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہو۔ تو اس کے لئے جس طرف نظر اُٹھاو تمہیں وسائل وذرائع یہ افراط ملیں گے۔ پہاڑ اورچٹان کی بلندی۔ دریا۔ کوئیں اورسمندر کی تہ جہاں چاہو ذریعہ نجات موجود ہے۔ (یعنی جس طریقہ سے چاہو خود کشی کرسکتے ہو۔ جب مجھے طریقہ موت میں انتخاب کرنا ہے۔  توکیوں نہ مَیں آسان موت کو تکلیف د ہ موت پر ترجیح دے کر اختیار کر یوں ؟ جس طرح مجھے اپنے رہنے کے لئے مکان کے اتنخاب کا اورسفر کے لئےجہاز کے انتخاب کا حق حاصل ہے۔ اُسی طرح طریقہ موت کے انتخاب کا بھی حق حاصل ہے۔ جس طریقہ پر تمہیں اچھا معلوم ہو زندگی کوخیر باد کہو۔ خواہ تلوار کی کاٹ سے خواہ رسی کے پھندے سے خواہ زہر کے گھونٹ سے۔ بہر حال اپنی مشکل آسان کرو۔

طریق زندگی میں تُم دوسروں کی خوشی ومرضی کی پرواہ کرتے ہو۔ لیکن طریق موت بالکل تمہاری ذاتی خوشی پر منحصر ہے۔ جب تک تمہاری خوشی ہے زندہ رہو۔ جب دیکھو کہ زندگی ناقابل برداشت ہوگئی ہے تو پھر بھی اُسے جھیلتے رہنا خود تمہارا قصور ہے۔جہاں سے تم آئے ہو وہاں واپس چلے جانا بالکل تمہارے قدرت واختیار میں ہے۔ اوراس حق سے فائدہ اُٹھانے سے تمہیں کون روک سکتا ہے ؟

خودکشی کے متعلق اس قدر لمبے چوڑے اقتباسات پیش کرنے سے غرض صرف یہ ہے کہ ناظرین کو گناہ کے ہولناک نتائج کی تصور کھینچ کر دکھائی جاتے۔

کلام میں آیا ہے کہ گناہ کی مزدوری موت ہے۔ اورگناہ جب بڑھ چکا تو موت پیدا کرتا ہے پس موت خواہ طبعی ہو خواہ غیر طبعی اورچاہے جسمانی ہو یاروحانی وہ ضرور گناہ کا لازمی نتیجہ ہے۔جب مرض ِ گناہ عام ہوگیا تو مریضان ِ گناہ نیم حکمیوں(دنیو فلاسفروں ) کی ستم ظریفیوں کا تختہ مشق ہے۔ اوربمصداق نیم حکمی خطرہ جان اُن کی حالت بد سے بدتر ہوگئی۔ یعنی فلاسفروں نے جہاں اس زندگی کے عذاب سے نجات حاصل کرنے کے کئی غلط طریقے بتائے وہاں خود کشی کو بھی ذریعہ نجات قرار دیا۔ اور بنی آدم کو قعر ضلالت میں گرادیا۔

خارجی عالم کی طبعی اشیاء اورجاندار مخلوق جن پر خُدا نے انسان کوحکمرانوں ٹھہرایا تھا اب حضرت انسان کے مخالف نظر آتی ہیں۔ اوراس مخالت کی اصل وجہ بھی گناہ ہے۔ اور انسان اورنیچر کی اشیاء کے مابین نامواقفیت کی دو وجوہات ہیں۔

۱۔ انسان کا طبعی بگاڑ

ایک شخص جب بخار میں مبتلا ہوتا ہے توبخار نہیں ہوتا۔وہ اصلی حالت میں ہوتے ہیں۔ صرف علالت ِ طبع کے باعث مریض کو وہ چیزیں بدمزہ اورخلاف ِ طبع معلوم ہوتی ہیں۔ اسی طرح انسان کی طبعیت گناہ کے مرض سے بگڑ گئی ہے۔اور وہ روحانی طورپر مریض ہے۔ اس لئے فطرت کی وہ عام چیزیں جو کسی وقت اُس سے موافقت رکھتی تھیں اب خلاف ِ طبع معلوم ہوتی ہیں۔ مثلا ً سانپ اُس کی ڈسنا چاہتا ہے۔ شیر اُس کے خون کا پیا سا ہے۔ اسی طرح چیتا ، بھیڑیا ، بچھو ،مکھیاں وغیرہ سب اُس کو اپنے مخالف نظر آتے ہیں۔ پرور اصل یہ تمام چیزیں تو ویسی کی ویسی ہی ہیں۔ بگاڑ صرف انسان کی اپنی طبیعت میں ہے۔ اگر گناہ کا م ض اُس کی طبعت سے خارج ہوجائے تو کوئی شئے اُس کی مخالف نہ رہے۔ اورایک وقت آنے والا ہے جس میں ایسا ہی ہوگا۔ یعنی انسان مرض گناہ سے آزاد ہوکر اپنی اصلی ابتدائی پاکیزہ فطرت بربحال کیا جائےگا۔ اوراُس وقت بھیڑیا برے کے ساتھ رہیگا اورچیتا بکری کے بچے کے ساتھ  بیٹھے گا۔ اوربچھڑا اورشیر بچہ اورپلا ہوا بیل مل جُل کر رہیں گے۔ اورننھا بچہ اُن کی پیش روی کرے گا۔ گائے اورریچھنی مل کر چریں گی۔ اُن کے بچے اکٹھے بیٹھیں گے۔ اورشیر بیل کی طرح بھومہ کھائے گا۔ اوردودوھ پیتا بچہ سانپ کے بل کے پاس کھیلے گا۔ اوروہ لڑکا جس کا دودھ چھڑایا گیا ہوا فعی کے بل میں ہاتھ ڈالے گا۔ وہ میرے کو ہ ِمقدس پر نہ ضرور پہنچائیں گے نہ ہلاک کریں گے(یسعیاہ ۱۱: ۶- ۹ )

۲۔ انسان کی اصل مرتبہ سے تنزل

انسان اوراشیائے نیچر کے مابین نامواققت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ انسان نے خُدا کا گناہ کرکے اپنا اصل مرتبہ کھودیا۔ خُدا نے اُسے پاک وراست پیدا کرکے تمام موجودات پرحکمران ٹھہرایا تھا۔ (زبور ۸: ۵- ۸ ) لیکن اُس نے گناہ کرکے اپنی طبعیت کو خُدا کی طبیعت کا مخالف بنالیا۔ اورحُکم عدولی سے اپنا وہ تمام اختیار واقتدار رکھو دیا اور اپنے عہد ہ سے معزول ہوگیا۔ اس لئے اب نیچر کی اشیاء اُس متنزل ومعزول شدہ حاکم کے اختیار کو تسلیم نہیں کرتیں کیونکہ اگرکوئی گورنر شہنشاہ کے برخلاف سراُٹھانے کے باعث اپنے عہد ہ سے معزول کردیا جائے تو رعیت اُس کے رُعب واختیار کو خاطر میں نہ لائے گی اورنہ ڈرے گی۔ یہی حال خلیفہ خُدا حضرت انسان کا ہوا۔ اُس نے خُدا سے بغاوت کی اس لئے نیچر کی ادنیٰ مخلوق پورے طورپر اُس کے تابع نہیں رہی۔ درندے اُس کو پھاڑنا چاہتے ہیں۔ سانپ اُس کو ڈسنا چاہتے ہیں۔ دریا اُس کو ڈبو دینا چاہتا ہے۔ جراثیم اُس کے خون کے پیاسے ہیں۔ اگریہ مخلوق کبھی اُس سے خوف بھی کھاتی ہے تویہ اُس کی شوکت ِ گذشتہ اورجلالت رفتہ کا اثر ہے۔ اب اگر وہ کسی طرح پھر اپنی وفاداری کا ثبوت دے کر سابقہ منصب پر بھال نہ کیا جائے تو اُس کی اختیار پورے طورپر تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔

گناہ کے نتائج

اب تک ہم نے گناہ کے جسمانی نتائج کا جابجاذکر کیا ہے۔ منجلہ ان تمام جسمانی نتائج کے گناہ کے تین نہایت ہولناک روحانی نتائج ہیں۔ جن کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے۔

  1. طبعی بگاڑ۔ خُدا نے انسان کو پاک وراست پیدا کیا تھا۔ یہ انسان کی اصلی فطرت تھی۔ لیکن گناہ نے اُس کی پاکیزہ فطرت پر اثر انداز ہوکر اُسے پاک سے ناپاک بنا دیا۔ لہٰذا وہ اصل فطرت پر قائم نہ رہا۔ پاکیزگی کے کھنڈرات پرگناہ نے اپنی عمارتیں اُٹھائیں۔ اورزندگی کے شیریں چشمہ کو زہر یلا بنا دیا۔ پس گناہ کا پہلا نتیجہ یہ ہے کہ اُس نے انسان کی طبعیت کو بگاڑ دیا۔
  2. خُدا تعالیٰ پاک وقدوس ہے (استثنا ۳۲: ۴) اورانسان ناپاک اورگنہگار ہوگیا۔ اورخُدا اورانسان کی طبائع باہمد گرمتضاد ہوگئیں۔ اورضدین کا اجتماع محال ہے لہٰذا خُدا وانسان میں جُدائی واقع ہو گئی۔ کیونکہ راست بازی اوربے دینی میں کیا میل جول ؟ یاروشنی اورتاریکی میں کیا شراکت ؟(۲۔ کرنتھیوں ۶: ۱۴ ) اوراس جُدائی سے مُراد بعد مکانی نہیں۔ کیوں کہ ہر چند کہ وہ ہم میں کسی سے دور نہیں۔ کیونکہ اُسی میں ہم جیتے اورچلتے پھرتے اورموجود ہیں (اعمال ۲۷ : ۲۷- ۲۸ ) بلکہ یہاں جُدائی سے مُراد طبعی نامواقفیت ہے (زبور ۵: ۴ ؛یسعیاہ ۵۹ : ۲ ) اورخُدا سے جُدائی کا نتیجہ انسان کے لئے سب سے زیادہ ہولناک ہے۔
  3. سزائے عدالت۔خُدا العادل ہے اور انسان اُس کی عدول حکمی کرکے اُس کا مجرم ٹھہرا خُد اکی شریعت کا عدول کرنا ہی گناہ ہے۔(۱۔ یوحنا ۳: ۴ ) اب وہی شریعت ِالہٰی جس کو حضرت انسان نے توڑا اُس کومجرم ٹھہرا کر اُس پر سزا کا حکم لگاتی ہے۔ اس لئے کلام فرماتا ہے کہ '' شریعت تو غضب پیدا کرتی ہے (رومیوں ۴: ۱۵ ) اس لئے گنہگار ابدی ہلاک کا سزا وار ہے۔ اورگناہ کی مزودی موت ہے (رومیوں ۶: ۲۳ ) اورگناہ جب بڑھ چکا تو موت پیدا کرتا ہے (یعقوب ۱: ۱۵ ) اور وہ موت جو گناہ کی مزدور ی ہے صرف جسمانی اورطبعی موت نہیں کیونکہ ؛
  1. اس صورت میں جسمانی موت گناہ کی مزدور ی یا سز ا نہیں بلکہ حزا ٹھہرے گی۔ کیونکہ سزا تو موت ِطبعی پر ہی ختم ہوجائے گی۔ اورموت کے بعدایک راست وناراست جنت کا وارث ٹھہرے گا اورجسمانی موت بہشت میں داخل ہونے کا دروازہ ٹھہرےگی۔
  2. بہشت میں داخل ہونے کے لئے ضروری ہوگا کہ گناہ کریں۔ تاکہ طبعی موت آئے۔ اوربہشت میں پہنچادے اورنیک کردار لوگ بدنصیب ٹھہریں گے۔ کیونکہ نیکی کرنے سے موت نہ آئے گی اوراُنہیں جنت کی بجائے اس دنیا کے آلا م ومصائب میں رہنا پڑےگا۔
  3. خُدا کی بخشش کوئی چیز نہ ٹھہرائے گی۔ اورراست وناراست ہر دو کو ایک دفعہ موت کے منہ میں جانا پڑے گا۔ اورساری دُنیا کے لئے مرنا ضروری ہے۔ تو اس حالت میں خُدا کی بخشش کیا فائدہ رکھے گی۔ ہر ایک کےلئے ضرورہے کہ مرے۔ خُدا کی رحمت کسی کا بھلا نہ کرےگی۔
  4. بچوں کا خوروسالی میں مرنا یہ ثابت کرے گا کہ وہ بالغوں کی بہ نسبت زیادہ گنہگار ہیں۔کیونکہ اُن کی موت جلد اورقبل ازوقت واقع ہوتی ہے۔ جیسے قاتل جو سب سے بڑا مجرم سمجھا جاتا ہے وہ چور کی بہ نسبت جو چھوٹا مجرم سے جلد مارا جاتا ہے۔ یعنی اُسے قبل از مرگ پھانسی دی جاتی ہے۔
  5. پھر بڑے بڑے گنہگاروں کا عرصہ درارتک زندہ رہنا یہ ثابت کریگا کہ گناہ کی زیادتی عمر کی درازی کا موجب ٹھہری۔اوربچوں کا صغر سنی میں مرنا یہ ثابت کرسگا (گناہ) کی کمی عمر کی کوتاہی کا باعث ہوئی۔ پس ثابت ہوا کہ گنا ہ کی مزدور (مزا) یہ جسمانی اورطبعی موت نہیں ہوسکتی۔ بلکہ روحانی جس کو انجیل ِ مقدس میں دوسری موت کہاگیا ہے۔ یہ دوسری موت ہے (مکاشفہ ۲۱: ۸؛ ۲۰: ۱۴) خُداوند مسیح نے بھی اس رُوحانی موت (مزدگناہ) کا بیان صفائی سے کیا ہے۔ جو بدن کر قتل کرتے ہیں۔ اوررُوح کو قتل نہیں کرسکتے اُن سے نہ ڈرو۔ بلکہ اُسی سے ڈرو جو رُوح وبدن دونوں کو جہنم میں ہلاک کرسکتا ہے۔ (متی ۱۰: ۲۸) جس طرح فطرت کے اسباب ِ خارجہ کے ساتھ جسم کی مطابقت وموافقت قائم نہ رہنے سے جسمانی اورطبعی موت آتی ہے۔ اورقوانین طبعیہ کی مخالفت سے جسمانی موت بطور نتیجہ کے لازمی ٹھہرتی ہے۔ اسی طرح قوانین ِروحانیہ (احکام وشرائع الہٰیہ) کی عدولی اورخلاف ورزی رُوحانی موت کاموجب ٹھہرتی ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہمیشہ اشرف وجود کے فساد سے ادنی ٰ وجود کا فساد لازم آتا ہے۔ اس لئے رُوح کے فساد سے جسم کا فساد بطور لازم وملزوم کے ضروری ٹھہرا۔ پس جسمانی موت نتیجہ ہے رُوحانی موت کا۔روحانی موت کی علت گناہ اورجسمانی موت کی علت رُوحانی موت ہے۔ اوریہ رُوحانی اصطلاح ہے۔ خُدا کی زندگی سے خارج ہوکر انسان میں بقا کی تایثر قائم نہ رہی۔ جیسے ایک برقی تار کا تعلق پاور ہاوس سے منقطع ہوجانے پر اُس میں برقی قوت مفقود ہوجاتی ہے۔ کیونکہ اُن کی عقل تاریک ہوگئی ہے۔ اوروہ اُس نادانی کے سبب جو اُن ہے اوراپنے دلوں کی سختی کے باعث خُدا کی زندگی سے خارج ہیں(افیسوں ۴: ۱۸) ایک مچھلی سمندر سے جُدا ہوکر زندہ نہیں رہ سکتی۔ گو اُس کے مرنے میں کچھ عرصہ بھی لگ جائے۔ تو بھی موت کے قبضہ میں وہ اُسی وقت سے آجاتی ہے جب سمندر سے جُدا ہوجاتی ہے۔ موت اُس پر آہستی آہستی اثر کرکے آخر اُسے فنا کردیتی ہے۔ اسی طرح انسان جب خُدا سے گناہ کے باعث جُدا ہوگیا تواُس کی رُوحانی موت اُسی وقت سے شروع ہوگئی۔ اوراگرکسی صورت اُس کا خُدا سے ٹوٹا ہوا تعلق پھر سے جوڑا نہ جائے وہ موت کے یقینی راستہ پر ہے۔ اورایک وقت ضرور فنا ہوجائے گا۔ ادنیٰ وجود ہمیشہ اشرف وجود کے ساتھ متعلق رہ کر قائم رہ سکتا ہے۔ اور اس سے جُدا ہو کر فنا ہوجاتا ہے۔ جس طرح جسم رُوح کے سہارے زندہ رہتا ہے اُسی طرح رُوح خُدا کے سہارے زندہ رہتی ہے۔ رُوح سے جُدا ہوکر جسم فنا ہوجاتا ہے۔اورخُدا سے ہوکر رُوح کا فنا ہونا ضروری ہے۔ پس رُوحانی موت کے یہی معنی ہیں۔ اب ہم رُوحانی مُردگی کے متعلق کلامِ مقدس کی سند بھی پیش کرتے ہیں۔ تاکہ ناظرین ہمارے اس بیان کر محض ذہنی فلسفہ ہی نہ سمجھیں۔بلکہ جان لیں کہ اس حقیقت کی بنیاد کلام ِ مقدس پر ہے۔ اوراُس (خُدا) نے تمہیں بھی زندہ کیاجب اپنے قصوروں اورگناہوں کے سبب مُردہ تھے (افیسوں ۲: ۱ جب قصوروں کے سبب مُردہ ہی تھے تو ہم کو مسیح کے ساتھ زندہ کیا (افسیوں ۲: ۵، ۶) اوراُس نے تمہیں بھی جو اپنے قصوروں اورجسم کی نامختونی کے سبب سے مُردہ تھے اُس کے ےساتھ زندہ کیا (کلیسوں ۲: ۱۳) پس جب تُم مسیح کے ساتھ چلائےگئے (کلیسوں ۳: ۱ اوررومیوں ۶: ۵) اوروہ کام جو انسان رُوحانی مُردگی کی حالت میں کرتا ہے کلام اُنہیں مُردہ کام کہتا ہے۔ پس آو۔ مسیح کی تعلیم کی ابتدائی باتیں چھوڑ کر کمال کی طرف قد م بڑھائیں۔ اورمُردہ کاموں سے توبہ کرنے اورخُدا پر ایمان لانے کی۔۔۔۔۔۔وغیرہ (عبرانیوں ۶: ۱) مسیح کا خُون جس نے اپنے آپ کی ازلی رُوح کے وسیلے خُدا کے سامنے بے عیب قُربان کردیا تمہارے دلوں کو مُردہ کاموں سے کیوں نہ پاک کرےگا (عبرانیوں ۹: ۱۴)۔

اَے ناظرین ! ہم نے گناہ کی حقیقت وماہیت کی تحقیق وتدفیق میں کوئی دقیقہ فرد گزاشت نہیں کیا۔ بلکہ نہایت وضاحت سے اُس کے تمام پہلووں پر روشنی ڈالی ہے۔ ایسا کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جب تک کسی مرح کی نوعیت وماہیت کی صحیح تشخیص نہ کی جائے اُس کا علاج محال ہوتا ہے۔مسیحیت کے باہر تمام فلسفوں نے گناہ کی ماہیت کے سمجھنے میں غلطی کھائی۔ اوراُس کے اسباب وموجبات اورنتائج کا صحیح سراغ لگانے میں قطعی قاصر رہے۔ اسی واسطے اُن کے نجات کے طریقے ادھورے ارونادرست ہیں۔ اوریہی وجہ ہے کہ مسیحیت کے طریقہ نجات اوردیگر تمام مذاہب کے طریق نجات میں بعد المشرقین ہے۔ پس اپنے دل ودماغ کو تعصب سے خالی کرکے مسیحی طریقہ نجات پر جو آئندہ صفحوں میں مدخل طورپر بیان کیاگیا ہے غور فرمائے۔


۱.    روحانی موت سے مُراد روح کی فنا یا نیستی نہیں ہے بلکہ خدا سے جُدا ہونا روحانی موت ہے۔