(۱۰)

نجات

جس طرح گناہ کے وجود کو تمام مذاہب اورتمام فلسفے کسی نہ کسی صورت میں تسلیم کرتے ہیں۔ اُسی طرح اُس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ضرورت کے بھی سب بزور قائل ہیں۔ اورسب مانتے ہیں کہ گناہ سے آزاد ہونا ضروری اوراصلی فطرت پر بحال ہونا لابدی ہے۔ جو شخص صدق دلی سے گناہ کے مسئلہ پر جو ہم نے گذشتہ اوراق میں پیش کیا غور وخوض کرے گا وہ اس حقیقت کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جب کہ واقعی انسان کی ایسی ابتر حالت ہے تو اُس سے آزاد ہوناضروری اوراصلی فطرت کا واجبی تقاضا ہے اوراگر کسی صورت اس ہلاکت آفریں حالت سے آزادی حاصل نہ کی جائے تو ہلاکت لازمی ہے۔ اورگناہ سے آزاد اوراصلی پاکیزہ حالت پر بحال ہوکر تقرب ِالہٰی کو حاصل کرنا ہی نجات ہے۔۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس غیر فطر ی (گناہ آلودہ) حالت سے کس  طرح آزادی حاصل کی جائے۔ اور مقاربت ِ الہٰی ومواصلت ِوجود لامتناہی کے مُشکل سوال کا کیا حل ہے ؟ دُنیا کے تمام رائج الوقت مذاہب اورفلسفے اس سوال کے مختلف جواب دیتے ہیں۔ یعنی حصول ِنجات کے متعلق سب مذاہب کے طریقے باہم متضاد ومتبائن ہیں۔ اوراُن میں بعد المشرقین ہے۔ ان کثیر التعداد عقائد کو دیکھ کر متلاشی نجات کے دل میں جودوسرا سوال قدرتی طورپر اُٹھتا ہے وہ یہ ہے کہ آیا یہ سب عقائد صحیح ہیں یا ان میں سے کوئی ایک ؟ اگر سب صحیح ہیں تو ایک شخص آن واحد ہیں ان سب متضاد خیالات وعقائد کا کیسے حامی ہوسکتا ہے ؟ دیہ بدیہی حقیقت ہے کہ کوئی شخص فی نفسہ ان تمام عقائد کو ایک ہی وقت میں درست تسلیم نہیں کرسکتا۔ کیونکہ یہ سراسر محال ہے۔ اوراگر صرف ایک عقیدہ ہی درست ہے توہوکونسا ہے ؟ یہ قدرنی سوالات ہیں جو ایک متلاشی حق کے دل کربے چین کردیتے ہیں۔ لہٰذا یہ نہایت ضرور ی معلوم ہوتا ہے کہ ہم مختصر طورپر یہاں نجات کے متعلق چند مروجہ عقائد کی تحقیق کریں۔ اورسب سے اول دو بدیہی اورمشہور طریقے جو تمام اہل ِ دنیا مشترک طورپر ازالہ گناہ اورحصول ِ نجات کے لئے قدیم سے عمل میں لاتے رہے ہیں پیش کریں گے۔ایک اُن میں سے اختیاری اوردوسرا جبری طریقہ ہے۔

اختیاری طریقہ

جب سے دُنیا میں گناہ کا احساس ہوا ہے تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ بہت سے ریفارمر ہرقوم میں پیدا ہوتے آئے جن کا نصب العین یہ رہا کہ اپنی اپنی قوم کو تہدید وتلقین کریں۔ بدی سے روکیں نیکی کی ترغیب دلائیں۔چوری ،حق تلفی۔ جھوٹ فریب ، زنا۔ خون ریزی۔ بدخواہی ، بداندیشی ، بے انصافی اورظلم وستم وغیرہ گناہوں کو مٹانے کے لئے مصلحان ِ قوم ، ہادیان دین اورمقننان ِ زمن نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ اپنی جانیں چھڑک دیں۔ اِ ن عیوب و ذلوب کی مدافعت کے لئے کروڑ ہامن کتابیں لکھیں گئیں۔ ہرزمانے میں تقاریر کی گئیں۔ سوسائٹیاں قائم کی گئیں۔ قومی ومذہبی مجالس وجود میں لائی گئیں۔ ہر مذہب نے امصار ودیار میں مبلغ ومبشر بھیجے۔ مدارس قائم کرے تعلیم کو تمام کا فہ انام پر پھیلا دیاگیا۔ تہذیب کو ترقی کی اعلیٰ منازل پر پہنچایا گیا۔ خُدا ترس لوگوں نے بدی کے تخم کو مٹانے اورنیکی کے پودے دُنیا  میں لگانے کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف ِ ایثار کردیا۔ روزے رکھے گئے۔ نمازیں پڑھی گئیں تہوار منائے گئے متبرک مقامات کی زیارتیں کی گئیں۔ مذہبی رہنماوں کی سرگرم تقریریں اوردل ہلادینے والے وعظ ونصحیت ہرزمانے کے لوگوں کے کانوں پر دستک دیتے رہے۔ یہ سب کچھ کس لئے ہوا ؟ صرف اس لئے کہ نوع انسان گناہ کی آہنی زنجیروں سے آزاد ہوکر نیکی اورراست بازی کی جستجو کرے اورحقیقی اخلاقی شائستگی کو حاصل کرے۔ لیکن ذرا  انصاف سے کہئے کہ ان سرگرم کوششوں ،انتھک محنتوں اورجگر کاویوں نے کون سے خوشگوار نتائج اب تک پیدا کئے ؟ کیا یہ مخلصانہ وسائل گناہ کے استیصال میں کامیاب ہوئے ؟ اورکیاگناہ کے سیاہ داغوں سے دُنیا کا دامن صاف ہوگیا ؟ ہر گز نہیں گناہ بیش از پیش موجود ہے بقول مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔

جبری طریقہ

تاریخ شہادت دیتی ہے کہ دنیا میں راعی ورعیت کاسلسلہ بہت قدیم سے چلا آیا ہے۔ اوربادشاہ کا ہمیشہ یہ کام رہاہے کہ وہ زور ِبازو سے بدی کو اپنی سلطنت میں سے مٹائے۔چنانچہ اسی مقصد کے ماتحت ہرزمانہ میں بادشاہوں نے تعزیری قوانین بنائے۔ پولیسیس قائم کیں ،فوجیں تیار کیں، ہتھکڑیاں اوربیڑیاں بنائیں۔ پھانسیاں اورشکنجے تیار کئے۔ جیلیں وجود میں لائے۔ خونیوں اورقاتلوں کو پھانسیاں دیں۔ چوروں اورغداروں سے جیلوں کو بھردیا۔ ڈاکووں کو گولیوں سے اُڑا دیا۔ غرضیکہ شجر گناہ کے استیصال اورجرائم کے انسدادکے لئےجبرو تشدد اوررعب وداب کوبحد ِامکان استعمال کیاگیا۔ مگرچوروں نے قید خانہ سے نکل کر پھر چوری پر کمرباندھی۔ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ڈاکووں کو نہایت عبرتناک۔ طریقوں سے شکنجوں میں کھینچا گیا تو بھی دیکھنے والوں نے عبرت حاصل نہ کی۔ بلکہ وہ تمام جرائم وذمائم اُسی صورت میں بلکہ اُس سے بھی زیادہ اس وقت بھی موجود ہیں۔ کیا جبر اورقوت ِبازو سے گناہ مٹ گیا ؟ ہر گز نہیں تجربہ شاہد ہے کہ جرائم کے تعزیری داصلاحی طریق ِعلاج یقیناً ناقص ہیں۔ کیونکہ وہ گناہ کے اصل منبع ومخرج تک نفوذ نہیں کرتے بلکہ اُس کے مظاہر پر مواخذہ کرتے ہیں۔ جس حال کہ انسانی کوشش کے بازو صدیوں آزمالئے گئے۔ تو اب آیند ہ کیا اُمید کی جاسکتی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ انسانی طاقت گناہ کی طاقت پر ہر گز غالب نہیں آسکتی۔ اس لئے کلام فرماتا ہے۔ ہر چند تو اپنے کو سجی سے دھوئے اوربہت ساصابون استعمال کرےے۔ توبھی خُداوند فرماتا ہے۔ تیری شرارت کا داغ میرے حضور عیاں ہے (یرمیاہ ۲: ۲۲؛ ۱۳: ۲۳)

تناسخ : ہم ہندوں کے ختم نہ ہونے والے مسئلہ تناسخ کے سلسلہ کی تفصیل سے ناظرین کے صبرو سکون کا امتحان لینا نہیں چاہتے۔ اس لئے چند مختصر مگر معقول دلائل سے یہ ثابت کریں گے کہ عقیدہ آو اگون (تناسخ) کے مطابق گناہ کی طبیعت سے رہائی اورحقیقی نجات کا حصول محال ہے۔ یہ محض ایک ذہنی فلسفہ ہے جو عالم اسباب کی ناہمواری اورغیر یکسانیت کو دیکھ کر گھڑا گیا ہے اور جس پر یقین کرنے سے انسان کی رُوحانی پریشانی ذہنی اضطراب اورقبلی بے قرار ی بدستور قائم رہتی ہے۔ اوروہ حقیقی اطمینان رُوحانی اورتسکین قبلی سے قطعی محروم رہتا ہے۔ مندرجہ ذیل دلائل سے اس وہمی مسئلہ کی غیر معقولیت مبرہن ہوتی ہے۔

  1. اگر تمام موجودات کا تجزیہ کیا جائے تو دو اجزا حاصل ہوتے ہیں۔یعنی رُوح اورمادہ۔ اورحامیا تناسخ کا عقیدہ ہے کہ خُدا ان دونوں چیزوں کا خالق نہیں ہے۔ بلکہ وہ دونوں خُدا کے ساتھ قدیم ہیں۔ اس صورت میں رُوح ومادہ خُدا کے محتاج نہیں ہیں۔ بلکہ اپنی ہستی کی ازخود علت ہوکر خُدا کے دائرہ حکومت سے خارج ہیں۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہوئے کہ خُدا اس دُنیا کا خالق نہیں بلکہ صرف ترتیب دہندہ ہے۔ اورجب خُدا ان (رُوح ومادہ) پر حق ِ خالقیت نہیں رکھتا تو اُس کا کیا حق ہے کہ آزادرُوحوں کے متعلق سزا وجزا کے احکام صادر فرما کر اُنہیں تناسخ کے لامتناہی چکر میں تاابد گھماتا رہے ؟ اورنہ وہ کسی سے استحقاق ِعبادت رکھتا ہے۔
  2. اگر بالفرض محال یہ مان لیا جائے کہ خُدا کو سز اوجز دینے کا حق حاصل ہے۔ تو اس صورت میں اندھوں ، لنگڑوں ، محتاجوں اوراپاہجوں پر رحم کرنا اوراُن سے ہمدردی کرنا خُدا سے مخالفت وبغاوت کرنے کے مترادف ہوگا ، کیونکہ خُدا تو اُن کو اُن کے سابقہ اعمال ِبد کے باعث دُکھ میں رکھنا چاہتا ہے۔ اورانسان ہمدردی کےجذبہ سے متاثر ہو کراوراُن کے دُکھوں کو کم کرکے عدل الہٰی کا مخالف ارخُدا کا مجرم ٹھہرتا ہے۔ اس صورت میں رحم ، ہمدردی اورمحبت کے مواقع ہی نہ رہیں گے۔ اورنیکی کا وجود ہی دُنیا سے نابود ہوجائے گا۔ کیونکہ نیکی کے مفہوم میں جتنی باتیں شامل ہیں اُن کا غالب حصہ مظلوموں لاچاروں اوربے کسوں ہی سے متعلق ہے۔ پس خُدا کے قیدیوں کو آرام دینا اوراُن کی استمدادو معاونت کرنا خُدا کی مخالفت ٹھہریگی اوراعمال ِ حسنہ (نیک کرم) جن پرتناسخ کی نجات کا مدار ہے ملیامیٹ ہوجائیں گے۔
  3. جیو کی طبیعت کو اُس کے متعلقہ جنم کے مطابق بنا دینا کوئی سزا نہیں۔ کیونکہ وہ تو اُس کی طبعی حالت ہوگی، اوریہ ظاہر ہے کہ طبعیت ہرگز سز ا نہیں ہوسکتی۔ مثلاً ایک غریب مزدور کو مجرم ہونے پر یہ سزادی جائے کہ وہ سٹرک پر پتھر کو ٹا کرے تو یہ اُص کے لئے سزا نہ ہوگی۔ کیونکہ یہ کام وہ پہلے بھی کیا کرتا ہے ، یاکسی مجرم کو یہ سزادی جائے کہ تُم رات بھرسویا کرو، یہ بھی طبعی بات ہے ارواس سے سزا کا مقصد پورا نہیں ہوسکتا۔ ہاں اگر ایک گورنر کو اُس کے جُرم کی پاداش میں سٹرک پر پتھر کو ٹنے پر لگا دیاجائے تو اُس کے لئے یہ ضرور سزا ہوگی۔ کیونکہ اُس کی اپنی شاہانہ طبیعت اورسزا کی نوعیت میں بہت اختلاف ہے۔ اوراس صورت میں اُس کے نفس کی اصلاح بھی ہوسکتی ہے۔ مگر سز ا کو طبیعت بنادینے سے نہ تو وہ سزا ہی رہے گی اورنہ اُس سے کسی اصلاح کی اُمید ہوسکتی ہے۔ تمام حیوانات اپنی حیوانی حالت میں خوش ہیں۔اگر کسی کُتے یا کسی اورجانور کو قتل کرنا چاہو تو وہ اپنے بچاو کےلئے فوراً بھاگتا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جس جسم (قید) میں وہ ہے اُس سے آزاد ہونا نہیں چاہتا ، بلکہ اُسی میں خوش ہے۔ جس سے صاف نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اپنی اُس حالت کو قید۔ بند ھ یا سزا نہیں سمجھتا ،بلکہ طبعی حالت ، پس طبیعت سزا نہیں ہو سکتی ، اورا س طریقہ سے تہذیب النفس اورارتقا ء رُوحانین واخلاقی کا امکان ہی محال ہے۔
  4. کسی مجرم کو ہتھکڑیاں اوربیٹریاں لگانے اورقید میں بند رکھنے سے دو مقصد ہوتے ہیں۔ ایک توسزا دینا جس سے اُس کی اصلاح بھی ہوی ہے۔ اوردوسرے اُس کی آیند ہ نقل وحرکت پرپابند یاں لگا کر اُسے اورجرائم کے ارتکاب سے کچھ عرصہ کے لئے روکنا۔ تاکہ اس کی مجرمانہ عادت جاتی رہے۔وہ پچھلے جرائم کی سزا بھگتا اورآیندہ جرائم کے ارتکاب کا راستہ اُس پر کچھ عرصہ کے لئے بند کیا جاتا ہے۔ اوروہ قید کی حالت میں واقعی کسی اورجُرم کا ارتکاب کرنے کے ناقابل ہوتا ہے۔ مگر خُدا کے قیدیوں کاحال دیکھئے کہ وہ قید میں رہ کر بھی دوسرو ں کا نقصان کرسکتے ہیں بلکہ انصاف ِخُدا وند ہی اورانتظام ِ الہٰی ملاحظہ فرمائیے کہ جرائم کے ارتکاب میں سہولت بہم پہنانے کے لئے اُن کی قوت کو کئی گناہ بڑھا دیا جاتا ہے۔ مثلاً ایک شیر گراس قدر شہزور نہ ہو تو اپنی زندگی میں ہزاروں جانوں کو ہلاک نہ کرسکے۔ اگرشیر کی جون فی الحقیقت جیو کے لئے کوئی قید ہوتی تو لازم دتھا کہ ایک تو شیر کی قوت بہت کم ہوتی اوردوسرے اُس میں کسی دوسرے کوہلاک کرنے کی قابلیت نہ ہوتی۔ اس لحاظ سے انسانی عدالت و انتظام کو الہٰی انتظام میں معدلت پر فضیلت حاصل ہے۔ چونکہ عقیدہ تناسخ کی رُوسے خُدا کے انتظام میں نقص ثابت ہوتا ہے ہے۔ اس لئے یہ عقیدہ خود سراسر لغو اوربے بنیاد ہے۔
  5. کسی مصیبت زدہ انسان یاکسی بھی حیوان کو یہ علم نہیں کہ کس خاص گناہ کی پاداش میں وہ اُس خاص جسم (سزا یا بند ھ) میں مقید ہے۔ اس لئے بلااظہار جرم کسی کو سزا دینا ایک توبے انصافی اورظلم ہے اوردوسرے اس سے مجرم کی اصلاح محال ہے۔ اگر جرم سے آگاہی ہوتو سزا صلاح کا کام دے سکتی ہے ورنہ نہیں۔
  6. عقیدہ تناسخ کے مطابق کُل ۸۴ لاکھ جو نیں (اجناس) مسلم ہیں۔ اور انسانی جون اُن میں سےا یک ہے۔انسانی جون کرم جونی (فعل کی جگہ) ہے۔ اورباقی ۸۳۹۹۹۹۹ جُونیں بھوگ جونیاں (قیدیں) ہیں۔ جبکہ ۸۴ لاکھ اجناس میں سے ۸۳۹۹۹۹۹اجناس تو قیدوں میں ہیں اوررصرایک جنس (انسانی جون) آزاد ہے۔ اورانسانی جون میں بھی بیماروں۔ لاچاروں ،اندھوں۔لنگڑوں اورمفلسوں وبیکسوں کی تعدا دغالب ہے۔ اوروہ بھی خُدا کے قیدی ہیں تو اس صورت میں قیدیوں کی تعداد آزادوں کی تعداد سے لاکھوں گنا زیادہ ہوئی۔ اس کی کوئی بدیہی مثال عالم میں نہیں ہے کہ قیدی آزادوں سے زیادہ ہوں۔ اوروہ بھی کروڑوں بلکہ سنکھوں کی تعداد میں۔ یہ بھی اس عقیدہ کے بطلان کی دلیل ہے۔
  7. آواگون کی رُو سے کسی نیچ قوم میں پیدا ہونا بھی سابقہ بُرے اعمال کی سزا ہے۔ توا س صورت میں ہندووں کا شدھی سنگٹھن کا ڈھکو سلہ قائم کرکے اچھوٹ اُدھار کرنا حدل الہٰی کی مخالفت وبغاوت نہیں تو اورکیا ہے۔ خُدا نے اُنہیں سزا دی ہے کہ نیچوں کے گھر پیدا ہوں اورآریہ پرچارک اُنہیں شُدھ کر تے پھرتے ہیں۔ یہ کیا اندھیرہے ؟ شاہد خُدا کی ناراضگی کو اس امر میں وہ بھی محسوس کرتے ہیں اوراسی لئے اچھوتوں کو چکمے جھانسے دے کر سطی طورپر شُدھ کرتے پھر تے ہیں اور دراصل اُن کے ساتھ مُرتبط ہونے سے گھبراتے ہیں۔
    1. نجوف ِ طوالت اتنے ہی دلائل پر اکتفا کیا جاتاہے اوراسی قدر بیان سے ناظرین پر خوب روشن ہوگیا ہوگا کہ عقیدہ تناسخ محض مفروضات وتوہمات ِ ذہنیہ کا مجموعہ ہے۔ اورحصول ِ نجات کے لئے اُس پر اپنے ایمان کی بنیاد رکھنا خُدا کی ہستی سے انکار کرنے کےبرابر ہے۔ تناسخ کی نجات مادیات کی حدود سے تجاوز نہیں کرتی۔ اورحظائظ جسمانیہ ولذائد نفسانیہ کو زندگی کی غایت سمجھا گیا ہے اوراعمال حسنہ کو نجات کی شرط قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ گناہ آلود ہ طبیعت سے حقیقی نیکی کاصدور محال ہے۔ہم نے اس مبحث کے آغاز ہی میں دو طریقے اختیار ی وجبری) گناہ کی مدافعت کے متعلق درج کئے ہیں۔ اوراُن میں دکھایا ہے کہ گناہ کا ازالہ انسانی تدابیر سے محال ہے۔ پس جب گناہ ہی کا ازالہ واندفاع محال ہے تونیکی کہاں سے آجائے گی ؟ جیسے گناہ آلودہ طبعیت سے گناہ ہی صادر ہوتا ہے ویسے ہی نیک طبیعت سے نیکی کا حصول ضروری ہے۔ اب ہم اس بیان کو یہیں ختم کرتے ہیں۔ اعمال حسنہ بیان میں اس مبحث پر مزید روشنی ڈالی جائیگی۔

      تنرکیہ نفس

      گناہ کی موجودگی دُنیا میں ہر قسم کے دُکھ درد۔ رنج وآلام اورمصائب وعقوبت کا باعث ہے اورتمام لوگ دل سے متمنی ہیں کہ کسی طرح جسمانی آلام سے اُن کا دامن چھوٹ جائے اورحقیقی خوشی اوراطیمنان قلبی حاصل ہوجائے۔ یہ واقعی بہت سعیدہ خواہش ہے او انسان کی ابتدائی پر سکون واطیمنان فطرت کا واجبی تقاضا ہے۔ لیکن اُس مسرت مقصود ہ کی نوعیت کے اعتبار سے دو قسم کے خیال دُنیا میں پائے جاتے ہیں۔ اوران خیالات کی حمایت میں دوگروہ پیدا ہوگئے ہیں۔ ایک تو وہ لوگ ہیں جو روحانی خوشی اورابدی مسرت کے جویاں ہیں۔ اورجسم کو حقیر اورناچیز سمجھ کر اُسے بے درد انہ طورسے ریاضت کے شکنجوں میں کھینچتے ہیں اورتزکیہ وریاضت جسمانی کو اُس روحانی خوشی کے حصول کا واحد ذریعہ سمجھتے ہیں اوروجود عنصر ی کو اُس اعلیٰ روحانی مقصد کے حصول میں سدِ راہ سمجھ کر اُس سے ایسی دُشمنی کرتے ہیں کہ بعض دفعہ تو وہ مجبور ہوکر طائر رُوح کو پرواز کرنے کے لئے آزاد کردیتا ہے۔ یہ فطرت ِ کے خلاف جہاد ہے اورخُدا کی ناشکر گذاری۔ خُدا نے جب خود ہی جسم بنایا اوراُس کے قائم رکھنے کے لئے اس کارخانہ فطرت میں ہرطرح کے سامان پیدا کر دئے۔ کھانے کے لئے خوراک پہننے کے لئے پوشاک۔ بیماریوں کے علاج کے لئے ہرنوع کی جڑی بوٹیاں اورادویہ بنادیں۔ حکماء واطباء کو حکمت و ذہانت سے بہر ہ ورفرمایا تاکہ وہ انسانی اجسام کو قائم رکھنے کے لئے ان ادوی کادرست استعمال کرسکیں۔ یہ تمام سامان اس جسد خاکی کی حفاظت  کو ضروری سمجھتا ہے اوراُس کی مرضی یہی ہے کہ جسم تادیر قائم رہے۔ اب اگر ا س جسم کو ریاضیت کے ذریعہ اذیت دی جائے۔ اس کی پرورش بند کردی جائے اورفاقہ کشی اختیار کی جائے تو کیا یہ خُدا کی مرضی کی مخالفت نہ ہوگی ؟ ضرور ہوگی دوسری بات یہ ہے کہ جسم کو دُکھ اورایذا دینے سے گناہ جو آلام ومصائب کا موجب ہے ہرگز مُردہ نہیں ہوسکتا۔جیسے سانپ کے بل کو مارنے سے سانپ نہیں مرسکتا۔ اورترک ِدُنیا سے فعلی اورعملی گناہوں کا امکان گومٹ جاتا ہے تاہم خیالی اورادادی گناہ سے کبھی چھٹکارا نہیں ہو سکتا۔ جیسے ایک مبروص کو دیگر کوڑھیوں سے الگ رکھنے پر بھی اُس کا مرض دور نہیں ہوتا۔ ایک سانپ کو دوسرے سانپوں سے جُدا رکھنے سے اُس کا زہر دور نہیں ہوتا۔ ہاں البتہ اگر کسی سانپ کو غیر آباد ویرانے میں چھوڑ آئیں تو اُس کا ڈس لینے کا امکان مٹ جاتاہے۔ مگر زہر تو دور نہیں ہوتا۔

      اسی طرح سے و ہ بُری طبعیت اورگناہ کا متوارث اعلان جو نوع ِ انسانی کے ہر ہر فرد میں موجود ہے تزکیہ نفس اورترک ِ دُنیاسے دور نہیں ہوسکتا۔ لہٰذاان ذرائع سے گناہ کا ازالہ محال اورنجات کا حصول ناممکن ہے۔ اس طریق میں افراط ہے۔

      دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو جسمانی اورنفسانی خوشی ہی کو سب کچھ سمجھے بیٹے ہیں۔ اگر کسی طرح نجات کے قائل بھی ہیں تو جنت میں نفسانیات ومادیات کو ساتھ ہی رکھتے ہیں۔ وہ نفس ِ امارہ کے یہاں تک غلام ہوچکے ہیں کہ روحانی خوشیوں کو بھی نفسانیات پر ہی قیاس کرتے ہیں۔ اوراس زندگی کے بعد کسی اعلیٰ رُوحانی زندگی اوراعلیٰ اورغیر فانی رُوحانی خوشی کے قائل نہیں۔ اُن کا عقیدہ یہ ہے کہ کھائیں پئیں۔ کیونکہ کل تو مرہی جائیں گے (۱۔ کرنتھیوں ۱۵: ۳۲) انجیل ِجلیل اُن ک حق میں فرماتی ہے۔اُ  کا نجام ہلاکت ہے۔اُن کا خُدا پیٹ ہے۔ وہ اپنی شر م کی باتوں پر فخر کرتے ہیں۔ اوردُنیا کی چیزوں کے خیال میں رہتے ہیں (فلپیوں ۳: ۱۹) اوروہ حق سے محرو م ہیں اوردینداری کو نفع ہی کاذریعہ سمجھتے ہیں (۱۔ تیمھتیس ۶: ۵) ایسے لوگ اس دنیا کی عیش وعشرت اورچندروہ آرام وخوشی کو مُکتی اورنجات سمجھے بیٹھے ہیں تناسخ کے حامی بھی اسی دُنیا کے آرام وراحت اور مدارج ومعارج کو حقیقی خوشی سمجھ کر یہ سوال کیا کرتے ہیں کہ اگر پرماتما  نیائے کاری ہے تو اُس نے بعض کو غریب اوربعخ کو امیر کیوں پیدا کیا اورخوش حالی وتنگدستی کو انسان کے گذشتہ جنم کے بھلے یابُرے اعمال کانتیجہ مانتے ہیں۔ حالانکہ اس دُنیا کی جسمانی ونفسانی خوشی وراحت کسی صورت نجات کی خوشی نہیں ہوسکتی۔ اورنہ اس دُنیا کا دُکھ درد خُدا کی عدالت کے باعث ہے۔ یہ چیزیں اگر دُنیا کو ملتی ہیں تو محض جسم کو کسی عرصہ تک قائم رکھنے کے لئے۔نیک اعمال جو خاص روح سے متعلق ہیں وہ رُوحانی نجات اوررُوحانی خوشی کاموجب ہوسکتے ہیں نہ کہ نفسانی وجسمانی خوشی کا۔ اگر یہ تمام فوائد ومنافع کرموں ہی کا پھل ہیں تو ایسے لاکھوں آدمی موجود ہیں جو دہریہ والدین کے بیٹے اوردہریہ دادا کے پوتے ہیں۔لیکن باوجود دہریہ ہونےکے دُنیوی جاہ وثروت اورآرام وآسائش ورثنا ً اُن کے حصہ میں آتے ہیں۔یہ سراسر دھو کا ہے۔ انجیل اس ضیال کی بزور مخالف ہے۔ اُوپر کے خیال میں افراط ہے اور اس خیال کی بزور مخالف ہے۔ اُوپر کے خیال میں افراط ہے۔ اوراس خیال میں تفریط ہے۔ فریق اول جسم کو ناچیز وحقیر سمجھ کر اُس کا مٹانا چاہتا ہے تاکہ روحانی اطمینان کو حاصل کرے۔ا ور فریق ثانی جسم کی بُری خواہشات کا غلام ہے۔اوررحو اوررُوحانی خوشی کی طرف سے قطعی لاپرواہ ہے۔ ان دونوں خیالوں میں افراط وتفریط ہے جو کہ معیوب ہے۔ انجیل ان دونوں خیالات کے بین بین چلتی ہے۔ وہ ریاضت جسمانی کے خلاف فرماتی ہے۔ ان باتوں میں اپنی ایجاد ک کی ہوئی عبادت اورخاکساری اورجسمانی یاضت کے اعتبار سےحکمت کی صورت تو ہے۔ مگر جسمانی خواہشوں کے روکنے میں ان سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا (کلیسوں ۲: ۲۳) دینداری کے لئے ریاضت کر۔ کیونکہ جسمانی ریاضت کا فائدہ کم ہے۔ لیکن دینداری سب باتوں کے لئے فائدہ مند ہے۔

      اس لئے کہ اب کی اورآیندہ کی زندگی کا بھی وعدہ اسی کے لئے ہے (۱۔ تمتھیس ۴: ۷- ۸) اورموخر خیال کے متعلق انجیل یہ فرماتی ہے۔ کیونکہ زہم دُنیا میں کچھ لائے اورنہ کچھ اُس میں سے لے جاسکتے ہیں۔ پس اگر ہمارے پاس کھانے پہننے کو ہے تو اُسی برقناعت کریں۔ لیکن جو دولت مند ہوناچاہتے ہیں۔وہ ایسی آزمائش اورپھندے اوربہت سی بہبودہ اورنقصان پہنچانے والی خواہشوں میں پھنستے ہیں۔

      جو آدمیوں کو تباہی اورہلاکت کے دریا میں غرق کردیتی ہیں۔ (۱۔ تمتھیس ۶: ۷- ۹) زبور ۴۹ : ۱۶- ۱۷ واعظ ۵: ۱۵-۱۶) صفنیا ہ ۱: ۱۸) تُم پہلے اُس کی بادشاہت اوراُس کی راست بازی کی تلاش کر وتو یہ سب چیزین بھی تمہیں مل جائیں گی (متی ۶: ۲۳) پس امور ِ معاشرت کوئی نیکی نہیں ہیں اورنہ ا کو تباک دینا ہی نیکی ہے۔ کیونکہ کھانا ہمیں خُدا سے نہیں ملائے گا۔ اگرنہ کھائیں تو ہمارا کچھ نقصان نہیں اور اگرکھائیں تو کچھ نفع نہیں (۱۔ کرنتھیوں ۸: ۸) پس نجات نہ تو ترک ِدُنیا اورتزکیہ نفس پر منحصر ہے اور نہ ہی دُنیا میں اُلجھے رہنے پر خُدا نے نہ تو دُنیا تیا گنے کے لئے بنائی ہے اورنہ اس لئے کہ انسان زخارف  ِدُنیا کا غلام ہوجائے اورغاقبت کی طرف سے قطعی آنکھیں بند کرلے۔ ان انسانی بناولوں اورواہی خیالات کو نجات سے کوئی سروکار نہیں اور دور کابھی واسطہ نہیں۔نجات کے متعلق جو طریقے اب تک ہم نے پیش کئے وہ سب لوگوں کی اپنی گھڑت ہیں۔ اسی واسطے لوگوں نے مرض گناہ سے رہائی نہیں پائی اوراُن کا قلبی اضطراب اورروحانی بے چینی دور نہیں ہوئی۔

      اعمال ِحسنہ

      واضح ہوکہ نیک اعمال ِا نسان کے لئے ضروری ہیں۔ خُدا اُس سے ان کا مطالبہ کرتا ہے۔ تمہاری روشنی آدمیوں کے سامنے چمکے۔ تاکہ وہ تمہارے نیک کاموں کو دیکھ کر تمہارے باپ کی جو آسمان پر ہے بڑائی کریں (متی ۵: ۱۶) کیونکہ ہم اُسی کی کاریگری ہیں۔ اورمسیح یسوع میں اُن نیک اعمال کے واسطے مخلوق ہوئے جن کو خُدا نے پہلے سے ہمارے کرنے کے لئےتیار کیاتھا (افیسوں ۲: ۱۰) اورشرع الہٰی کے مطابق چلنے ہی کا دوسرانام اعمال ِحسنہ ہے۔ کتب مقدسہ کیا ہیں ؟ شرع الہٰی ! شرع الہٰی کیا ہے ؟ خُدا کے احکام وفرامین اورادامر ونواہی کا مجموعہ ! یہ شرع ِالہٰی کیا ہے ؟ خُدا کےاحکام وفرامین اوراوامر ونواہی کا مجموعہ ! یہ شرع ِ الہٰی کس کے لئے ہے ؟ انسان کے لئے ! کیا انسان اس پر پورا عمل کرتا یا کرسکتا ہے یا نہیں ؟ اس سوال کا جواب اس جگہ دیا جائے گا۔ اگر اعمال ِحسنہ و حصول ِنجات کی شرط قرار دیاجائےئ تو اس صورت میں انسان سے شریعت کی کامل فرماں برداری مطلوب ہے۔ ایسی کامل اوربے نقص نیکی جس میں گناہ کا قطعی امکان نہ ہو۔ اگر کوئی ایسا کرنے پر قادر ہو تو اُس کو توبہ و استغفار کی ذرا بھی حاجت نہی ںوہ بلاروک ٹوک سیدھا جنت میں جاسکتا ہے۔ اورایسے کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ تندرستوں کو حکیم درکا ر نہیں۔ اوروہ خُدا کی بخشش کا بھی محتاج نہیں۔ بلکہ نجات کو اُس نے اپنی ذاتی قوت سے خود کما کر اپنا حق بنالیا ہے۔۔جس سے کوئی اُسے محروم نہیں رکھ سکتا۔ کام کرنے والے کی مزدوری بخشش نہیں بلکہ حق سمجھی جاتی ہے (رومیوں ۴: ۴) اس سے ایک بات یہ حاصل ہوتی ہے کہ خُدا کی بخشش کوئی شئے نہیں اورنہ انسان اُس کی رحمانیت کی ضرورت رکھتا ہے کیونکہ جب نجات اعمال سے کمائی جاسکتی ہے تو خُدا کے رَحم وفضل سے فائدہ اُٹھانے کی حتیاج ہی نہیں رہتی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان کی واقعی ایسی مبارک حالت ہے کہ وہ جُزی وکلی طورپر من وعن شریعت پر عمل کرسکتا ہے ؟ مشاہد ہ اورتجربہ نوعی کی بنا پر کوئی اس سوال کاجواب اثبات میں دینے کے قابل نہیں ہے۔ مسئلہ گناہ کے بیان میں ہم نے بدیہی دلائل سے اس حقیقت کو ثابت کردیاہے کہ کوئی فرد ِبشر گناہ کی قید سے آزاد نہیں ہے۔ مرضِ گناہ ہمہ گیر ہے اوریہ بھی ثابت کردیا کہ انسان اپنی تجاویز وعوامل کے ذریعے اُس کی قیود سے ہرگز آزاد نہیں ہوسکتا۔ جیسے جسمانی صحت جسم کی اصل حالت ہے نہ کہ بیماری اوربیماری کی مدافعت کی تدابیر سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ مریض کو اصل حالت پر لایا جائے۔ اسی طرح رُوح کی اصل پاکیزگی اورگُنا ایک غیر فطری شئے اوررُوحانی مرض ہے۔ اس سے رہائی پانا بھی ضروری ہو راصلی فطرت کا داجبی تقاضا ہے۔ اورگناہ کی طبعیت سے آزادی اور نیک وپاک طبیعت کا حصول ہی نجات ہے۔ مسیحیت کے علاوہ قریب قریب تمام مذاہب وفلسفے اعمال ِحسنہ کو نجات کی شرط قرار دیتے ہیں۔لیکن انجیلی فلسلفہ نجات اُن کے بالکل برعکس ہے۔

      1. غیر مذاہب کا عقیدہ ہے کہ نیک اعمال کرنے سے نجات حاصل ہوتی ہے۔
      2. مسیحی مذہب کا عقیدہ ہے کہ نجات حاصل ہونےسے نیک اعمال ہوسکتے ہیں۔

      نجات کے معنی ہی گناہ کی قیود سے آزاد ہوناہے۔ اس لئے جب تک گناہ کی طبیعت سے کامل رہائی نہ ہے نیک اعمال کرنا محال ٹھہرےگا۔ دوسری بات قابل ِغور یہ ہے کہ جب حضرت ابوالبشر سے باوجود ایک ہی گناہ سرزد ہونے کے یہ نہ ہوسکا کہ حقیقی نیکی (اعمال حسنہ) کرکے دوبارہ جنت العدن (خُدا کی قُربت) کو حاصل کرلیتا تو اب مدتوں تک طبائع انسانی کے ساتھ عناصر ِ گناہ کے باہم تاثر وتاثیر اورانجذاب وتجذہیب کرتے رہنے کے بعد کہاں ممکن ہے کہ انسان ضعیف البیان اورپتلہ سہوونسیان حقیقی نیکی کرسکے۔ جب چند اوز کے بخار کے بعد مریض دومن بوجھ اُٹھانے کی استعداد نہیں رکھتا۔ توبھلا برسوں مرض ِ موذی کے تھپیڑے کھانے کے بعد کہاں ممکن ہے کہ وہ دومن بوجھ اُٹھاسکے۔ جب مصدر اورمخرج (طبع انسانی) ہی ناپاک ہے تو اُس سے نیکی وپاکی کا صدورچہ معنی وارد ؟ کیا کھاری چشمے سے آب ِ شریں برآمد ہوسکتا ہے ؟ (یعقوب ۳: ۱۲) گناہ آلود طبعیت سے بے نقص نیکی کا صدورایسا ہی محال ہے جیسے جوب اوردسمبر کے مہینوں کو ملاکر ایک معتدل موسم پیدا کرنا محال ہے۔ پس اعمالِ حسنہ کو نجات کی شر ط قرار دیان باطل ٹھہرا۔ اورخُدا کی یہ آواز ہے کہ شریعت کے اعمال سے کوئ بشر راستباز نہ ٹھہرےگا۔(گلتیوں ۲: ۱۶) اورگناہ سے نجات حاصل کئے بغیر شریعت پر عمل کرنا ہی ناممکن ہے۔کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ شریعت تو رُوحانی ہے  مگر مَیں جسمانی اورگناہ کے ہاتھ بکا ہواہوں (رُومیوں ۷: ۱۴) اوراگر فرامین ِالہٰی پر عمل کرن کے لئے کمر ہمت کس بھی لیتا ہے اورچند نیک کام کرکے اپنے ےدل میں خوش ہوتا ہے۔ توآواز ِالہٰی یہ کہہہ کر اُس کی کمرہمت کو توڑ دیتی ہے۔ کہ ابھی ایک بات کی تجھ میں کمی ہے (مرقس ۱۰ : ۲۱) کیونکہ زمین پرکوئی ایسا راستباز انسان نہیں کہ نیکی ہی کرے اورخطا نہ کرے (واعظ ۷: ۲۰)۔

      خُدائے قدوس وبرحق جو نیکی وپاکیزگی کا سرچشمہ ہے ہم سے ایسی بے نقص  لمبے داغ اورکامل نیکی طلب کرتا ہے جس میں ایک بات کی بھی کمی نہ وہ۔ اور اس  قسم کی اعلیٰ درجہ کی پاکیزگی ونیکی کا نمونہ خُداوند مسیح کی بیداغ رفتار و گفتار اوربے عیب زندگی میں ملتا ہے۔ ایسی نیکی بلاشبہ نجات کا استحقاق دلا سکتی ہے۔ مگر کون ایسی نیکی کا سرمایہ دار ہے ؟ کوئی بھی نہیں۔ یہ مانا کہ بعض خُدا پر ست اورپرہیز گار لوگ عملی وفعلی گناہوں سے کسی حدتک بچے رہ سکتے ہیں۔ لیکن ارادی اورخیالی گناہوں سے کسی کو تنزہ تام حاصل نہیں ہے۔ چوری ،خون۔ریزی  ،حق تلفی ، بدگوئی ،اوربددیانتی وغیرہ بدافعال توگناہ کا عملی ظہور ہیں۔ گناہ انسان کی طبیعت کو عارض ہے۔ اگر یہ افعال ظہور میں نہ بھی آئیں تو بھی انسان کی طبیعت ک سفلیت وکراہیت کا انکار محال ہے۔ گناہ کا منبع انسان کے اعماق ِقلب میں ہے۔ اورخُدا باطن کی صفائی چاہتا ہے نہ کہ ظاہر کی۔دیکھ توباطن کی سچائی پسند کرتاہے (زبور ۵۱ : ۶) اس لئے خُدا ہماری باطنی ناپاکی۔ بداندیشی اوربدخیالی سے سخت نفرت کرتا ہے۔ جب تک انسان اورخُدا میں طبعی مطابقت وموافقت نہ ہوجائے انسان خُدا کو پسند نہیں آسکتا۔ انسان کا ارادہ کیسا ہی  نیک کیو ں نہ ہو۔ پھر کبھی اُس سے طبعی ناپاکی کا ازالہ محال ہے۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مجھ میں یعنی میرے جسم میں کوئی نیکی بسی ہوئی نہیں۔ البتہ ارادہ تو مجھ میں موجود ہے مگر نیک کام مجھ سے بن نہیں پڑتے۔چنانچہ جس نیکی کا ارادہ کرتا ہوں وہ تو نہیں کرتا مگر جس بدی کا ارادہ نہیں کرتا اُسے کرلیتا ہوں (رُومیوں ۷: ۱۸–۱۹) یہ ہے انسان کی باطنی مکروہ حالت کی اقر ب الی الفطرت تصویر۔ اکثر لوگ اوامر پر عمل کرتے اورنواہی کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ خُدا کہتا ہے کہ دُشمنوں سے محبت کرو۔ یہ امر ہے لوگ اپنے بدخواہوں سے ظاہری محبت کا اظہار کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے اخلاقی فرض سے سبکدوش ہوگئے ہیں۔ پھر خُدا کہتا ہے کہ نیکی کرکے جتاو نہ۔ یہ نہی ہے۔لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ بعض اوامر کی تعمیل کرتے اور نواہی کوتآل دیتے۔ اور بعض نواہی کو مان لیتے اور اوامر کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ اورکلام کا فرمان ہے کہ جوکوئی بھلائی کرنی جانتا ہے اور نہیں کرتا اُس کے لئے یہ گناہ ہے (یعقوب ۴: ۱۷) ایسی جامع اورمامل نیکی انسان سے ہر گز نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ جس نے ساری شریعت پر عمل کیا اورایک ہی بات میں خطا کی وہ ساری باتوں میں قصور وار ٹھہرا۔ اس لئے کہ جس نے یہ کہ اکہ زنا نہ کر۔ اُسی نے یہ بھی کہا کہ خون نہ کر۔ پس اگر تونے زِنا تو نہ کیا مگر خون کیا تو بھی تو شریعت کا عدول کرنے والا ٹھہرا (یعقوب ۲: ۱۰- ۱۱) یہ درست ہے کہ نیک عمل کرنا ہر انسان کا فرض ہے۔لیکن یہ ٖغلط ہے کہ نجات نیک اعمال سے حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے جو لوگ اعمال ِ حسنہ کو حصول نجات کی لازمی شرط قرار دیتے ہیں اُن کے متعلق انجیل ِ مقدس کا یہ فرمان ہے کہ جتنے شریعت کے اعمال پرتکیہ کرتے ہیں وہ سب لغت کے ماتحت ہیں۔ چنانچہ لکھا ہے کہ جوکوئی اُن سب باتوں کے کرنے پر قائم نہیں رہتا جو شریعت کی کتاب میں لکھی ہیں۔ وہ لعنتی ہے (گلیتوں ۳: ۱۷) شریعت سے گنہگار کو کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اُس کی مددگار نہیں بلکہ مجرم ٹھہرانے والی ہے۔ ایک خُونین جب خون کر چکا تو تعزیرات ہند سے اُس کو کیا حاسل ہوتاہے ؟ وہ اُسے مجرم ٹھہرا کر موت کا فتوے ٰ اُس پر لگاتی ہے۔ کیونکہ شریعت توغضب پیدا کرت ہے اورجہاں شریعت نہیں وہاں عدول حکمی بھی نہیں (رومیوں ۴: ۱۵) شریعت شاقول ہے۔ جس طرح شاقول دیوار کا ٹیڑھا پن دکھا سکتا ہے اوراُس کو سیدھی نہیں کرسکتا۔ اسی طرح شریعت انسان کی کجردی کو ظاہر کرسکتی ہے اوراُس کی درستی واصلا ح ہرگز نہیں کرسکتی۔ شریعت آئنیہ ہے جس طرح آئینہ چہرے کے بدنما داغ دِکھا دیتا ہے پر اُن داغوں کو دور نہیں کرسکتا۔ اسی طرح شریعت کے وسیلے تو گناہ کی پہچان ہی ہوتی ہے (رومیوں ۳: ۲۰ ؛ یعقوب ۱: ۲۳ -۲۴) شریعت ترازو ہے۔ترازوکسی وزن کی کمی بیشی کوظاہر کردیتا ہے لیکن خود اُسے پورا نہیں کرسکتا۔ اس لئےئ شریعت کا فرمان گنہگار انسان کےک حق میں یہ ہے کہ نوترازو میں تولاگیا اورکم نکلا (دانی ایل ۵: ۲۷) شریعت چراغ ہے۔ کیونکہ فرمان ِچراغ ہے اورتعلیم نور۔ (امثال ۶: ۲۳؛ زبور ۱۱۹ : ۱۰۵) اگر چراغ کورات کے وقت کسی گندے اورغلیظ مکان میں لایا جائے تو وہ اُس کی گندگی اورغلاظت وغیرہ کو ظاہر کردیتا ہے اُسے دور نہیں کرسکتا۔ اسی طرح شریعت چراغ کی مانند انسان کی باطنی گناہ  آلودہ مکروہ حالت سے  اُسےآزاد نہیں کرسکتی۔جس طر ح تھر مامیٹر صرف یہ دِکھا دیتا ہے کہ بخُار کتنے درجہ کاہے اور بُخار کتنے درجہ کا ہے اور بُخا کو دُور نہیں کرتا۔ اسی طرح شریعت انسان پر یہ روشن کردیتی ہے کہ وہ گنا ہ کامریض ہے ،لیکن مرض ؐ گنا ہ سے آزاد نہیں کرسکتی۔البتہ وہ گنگار کو گناہ کا قائل کرکے اور نجات (گناہ سے رہائی) کی ضرورت محسوس کروا کے کسی طبیب ِرُوحانی کا متلاشی بنا دیتی ہےاورشریعت کے بغیر گناہ مُردہ ہے (رومیوں ۵: ۱۳) چنا نچہ شریعت اگر دُنیا جومُجرم نہیں ٹھہراتی تو اورکیا کرتی ہے ؟ اورکیا یہ حماقت نہیں کہ جس شرع (قوانین ِالہٰی) کا عدول کیا اُسی کا پھر سہار ڈھونڈا جائے ؟ جب ایک شخص نے چوری کرلی تو تعزیرات کی عدولی۔ اب اگر وہ تعزیرات کی کتاب کو ہاتھ میں لے کر خوشی کے نعرے لگاتا پھر ے تو کون ہے جو اُس کو سٹری اوردیوانہ سمجھے گا؟ جس کتاب پر وہ فخر کرتا ہے وہی اُس کو مجرم ٹھہرا کر تین سال کی سزا دلواتی ہے۔پس کوئی دھوکے میں نہ رہے۔کُتب مقدسہ یاشریعت کسی کی حمایت ورعایت نہ کرے گی اوروہ کمزور ہونے کے باعث گنہگار کی مدد کرنے میں قاصر ہے۔اس لئے ےکہ جو کام شریعت جسم کے سبب کمزور ہوکر نہ کرسکی وہ خُدا نے کیا (رومیوں ۸: ۳) کیونکہ اگرکوئی ایسی شریعت دی جاتی جو زندگی بخش سکتی تو البتہ راست بازی شریعت کے سبب سے ہوتی۔ مگر کتاب ِ مقدس نے سب کو گناہ کا ماتحت کردیا۔ (گلتیوں ۳: ۲۱- ۲۲)پس شریعت زندگی نہیں بخش سکتی بلکہ سب کوا یک ساتھ مجرم ٹھہرا کرغضب ِالہٰی ک ماتحت کرتی ہے اورکہتی ہے۔ اس لئے کہ سب نے گناہ کیاور خُدا کے جلال سے محروم ہیں (رومیوں ۳: ۲۳)۔

      اب شاہد کوئی کہے کہ پھر تو شریعت بہت بری چیز ہے جو انسان کے ساتھ اسیا شدید ظالمانہ برتاو کرتی ہے۔ اورسب کو غضب ِالہٰی کے ماتحت کرکے سزاوار دوزخ بناتی ہے۔ جناب ِ من ! شریعت ہرگز بُری نہیں بلک شریعت کو عدول کرنے والے بُرے ہیں۔ جس طرح تعزیرات ہند بُری چیز نہیں بلکہ چور، زانی۔ ذیبی ،باغی ،خونی اورظالم بُرے ہیں۔ آئینہ بُرا نہیں زنگی کی شکل بُری ہے۔ بخار کے بریض کی طبعیت بگڑ جانے کے باعث اُس کو پانی اورکھانا کڑوے معلوم ہوتے ہیں۔ پردراصل پانی پانی اورکھانے میں کوئی نقص نہیں ہوتا بلکہ مریض کی اپنی طبیعت میں فساد کے باعث وہ کڑوے معلوم ہوتے ہیں۔ اسی طرح اگر مریضان ِ گناہ کوشریعت ِالہیٰ خلاف ِ طبع اوربُری معلوم ہوتو کیا تعجب ہے۔ یہ اُن کی اپنی روحانی فطرت کے فساد کا نتیجہ ہے۔ شریعت گنہگار کے لئے اس لئے فائدہ مند نہیں کہ وہ اُس کی اپنی حالت اورطبیعت کے مخالف ہے۔،مثلاً سورج اچھی چیز ہے پرالو کو اُس سے کچھ فائدہ نہیں۔بجلی کی روشنی اچھی چیز ہے مگر اندھے کو اُس سے کیا فاعدہ ہوسکتا ہے۔ موسیقی ایک رُو پرور اورجان نواز شئے ہے مگر بہرہ اُس سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ شریعت اچھی ہے۔ بشر طیکہ کوئی اُسے شریعت کے طورپر کام میں لائے۔ یعنی یہ سمجھ کر کہ شریعت راست بازوں کے لئے مقرر نہیں ہوئی۔ بلکہ بے شرع اورسرکش لوگوں اوربے دینوں اورگنگاروں اورناپاکوں اورزندوں اورماں باپ کے قاتلوں اورخونیوں اورحرام کاروں اورلونڈے بازوح اوربردہ فروشوں اورجھوٹوں اورجھوٹی قسم کھانے والوں اوراِنکے سوا صحیح تعلیم کے اوربرخلاف کام کرنے والوں کے واسطے ہے۔ (۱۔ تمتھیس ۱: ۸- ۱۰ ) پس شریعت تو گناہ کی کراہیت کوانسان پر روشن کرتی ہے اورگناہ کو مٹا نہیں سکتی۔ ناظرین سے درخواست ہے کہ وہ رومیوں ۷: ۷- ۲۵ ) تک ضرور غور سے مطالعہ کریں۔ شریعت خُدا کی طبیعت اورمرضی کا آئینہ ہے۔ اور اُس کا ایک ادنیٰ سے ادنیٰ تجاوز بھی سزا لازمی ٹھہراتا ہے۔ جس نے شریعت کے تمام احکام کاعدول کیا وہ خُدا کا مخالف ٹھہرا  اورجس نے صرف ایک حُکم سے تجاوز کیاوہ بھی مخالف ِخُدا ٹھہرا۔ پس اَے ناظرین اعمال ِ حسنہ سے نجات کی اُمید رکھنا اپنے آپ کو فریب دینا ہے۔

      اہل ِسلام کا خیال ہے کہ نیکیاں دور کرتی ہیں بدیوں کو (سورۃ ہود آیت ۱۱۵ ) چونکہ یہ مضمون ہمارے اس مبحث سے تعلق رکھتا ہے۔ اس لئے مناسب ہے کہ ہم اس جگہ اس خیال کو بھی پرکھیں۔ اوردیکھیں کہ نیکیوں کو ہدیوں کا مبادلہ ٹھہرانا نیکیوں کے ذریعے بدیوں کو مٹانا کہاں تک ممکن ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نیکی کرنا ہر انسان کا فرض ہے۔ مگر یہ خیال خلاف ِ عقل ہے کہ نیکیاں بدیوں کو دور کرتی ہیں۔ کونکہ جہاں تک انسان نیکی کرتا ہےوہ اپنا واجبی فرض ادا کرتا ہے نہ کہ کچھ زائد الفرض ،نیکی کرنا تو انسان کافرض عین ہے۔ نہ کہ خُدا پر احسان ،اگر توصادق ہے تو اُس کو کیا دے دیتا ہے۔ یا  اُسے تیرے ہاتھ سے کیا مِل جاتا ہے ؟(ایوب ۳۵: ۷ ) خُداوند مسیح نے فرمایا۔ تُم بھی جب اُن سب باتوں کی جن کا تُمہیں حُکم ہوا تعمیل کر چکو۔ تو کہو کہ ہم نکمے نوکر ہیں۔جو ہم پر کرنا فرض تھا وہی کیا ہے (لوقا ۱۷: ۱۰ ) گناہ اپنی جگہ رہ کر انسان کو مجرم ٹھہراتا ہے اورنیکی اپنی واجبی جگہ پر رَہ کر محض ادائیگی فرض ہے۔

      نہ کہ زائدالفرض کا م فرض کروکہ ایک شخص ایک وقت دیانتداری سے دس روپے کماتا ہے۔اوردوسرے وقت بدیانتی سے دس روپے چُرالیتا ہے تو عدالت اُس کو اس خیال سے رہانہ کرے گی کہ اُس نے چوری سے پہلے دس روپے محنت کرکے کمائے تھے۔ یا اسی مثال کو اُلٹ کر لو کہ پہلے وہ دس روپے چرائے اوراُس کے بعد ہی محنت سے دس روپے کمالے۔ تو اُس کا موخر فعل مقدم فعل کا بدل نہیں ہوسکتا۔ اُس کی نیک کمائی سے حاکم پر کچھ احسان نہیں ہوا۔ بلکہ اُس کا ذاتی فائدہ ہوا۔ لیکن اُس کی چوری اُس کی سزا کا موجب ٹھہری۔ دونوں قسم کے نیک وبد ) افعال ایک دوسرے کا بدل نہیں ہوسکتے۔ بلکہ اپنی اپنی جگہ پر رہ کر یا تومجرم ٹھہراتے ہیں اور یابے قصور تعزیرات ہندپر عمل کرنا ہرہندو پاکستانی فرض ہے نہ کہ زائد الفرض کام عامل ِ تعزیرا ت کا سرکار انعام نہیں دیتی لیکن قانون شکن کو ضرور سزادیتی ہے۔اگر یہ درست مان لیا جائے کہ نیکیاں بدیوں کو دور کرتی ہیں تو وہ چور راست باز سمجھا جانا چاہئے جو چوری کرکے اُسی مال مسروقہ میں سے کچھ حصہ غربا ء کو خیرات کردیتا۔ یا مسجد ومندر کی تعمیر پر لگاتا ہے۔ ایک کسبی اگراپنی ناپاک آمدنی میں سے ایک خاص رقم کسی مسجد کی مرمت پر خرچ کرتی یا محتاجوں کو کھانا کھِلا دیتی ہے تو کیا اُس کی ایسی خیرات اُس کی حرام کاری کے گُناہ کو دور کرسکتی ہے ؟ اورکیا خُدا اُس کی پنید اورنفرتی حالت کے باوجود صرف ایسی گناہ آلودہ نیکی کے عوض میں اُسے جنت میں داخل کرلے گا؟ اگر نیکیاں یہی ہیں تو کسی کو دوزخ کے خیال سے حواس باختہ نہ ہونا چاہیئے۔ کیونکہ اس صورت میں یقیناً حصول  ِنجات کے کام سے آسان ترکام دُنیا میں کوئی نہیں ہے۔ اَے ناظرین ! اگر آپ ایسے بے بُنیاد خیالات کے حامی ہیں تو یقیناً آپ اپنی جانوں پر ظلم کررہے ہیں۔نجات کے صرا ط المستقیم کو چھوڑ کرایک ہلاکت خیز راستہ پر گامزن ہیں۔

      پھر یہ بھی یاد رکھنے کے لائق بات ہے کہ نجات سے صرف بہشت کی خوشیاں ہی مُراد نہیں ہیں۔ بلکہ نجات کے معنی ہیں ناپاک طبیعت سے رہائی اورپاک طبیعت کا حصول۔ بہشت کی رُوحانی وغیر فانی خوشیاں تونجات کے ساتھ مشروط ہیں۔ یعنی بہشت (قُربت ِالہٰی ) میں داخل ہونے سے پیشتر پاک طبیعت (نجات ) کو  حاصل کرلینا ضروری ہے تاکہ انسان اورخُدا کی طبائع میں مطابقت قائم ہوجائے۔ ہمارے اس دعوےٰ کے کہ نجات اعمال ِ حسنہ سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ یہ معنی ہوئے کہ نیک اعمال کرنے سے پاک طبیعت (نجات ) حاصل نہیں ہوتی۔ بلکہ اگر پاک طبیعت حاصل ہوجائے تو نیک اعمال خود بخود لازمی نتیجہ کے اُس سے صادر ہوں گے۔ اوریہ بھی یاد رکھیئے کہ صرف گناہ کے نتائج (سزائے دوزخ ) سے بچنا ہی نجات نہیں۔ بلکہ خود گناہ کے قبضہ سے ناپاک طبیعت سے آزاد ہونا نجات ہے۔ اب شائد کوئی یہ کہے کہ نجات تو اعمال ِ حسنہ کے ساتھ مشروط ہے۔ اور اگر کچھ بدیاں بھی ہوتی رہیں تو خُدا رحیم وآمر زگا رہے وہ اُن کوبخشد ے گا۔ اورنیکیوں کو نجات کے حسا ِب میں محسوب کرلے گا۔ تو واضح ہوکہ کوئی فخر اعمال کے ساتھ خُدا کے رحم وبخشش کا اُمید وار ہوتو وہ رحم کا حقدار نہیں۔ رحم کا حقداروہ ہوسکتا ہے جو واقعی قابل ِ رحم ہو۔ اور جو اپنی لاچاری وبے کسی کا اظہار خُدا کے سامنے یوں کرکے کہ اَے خُداوند کریم۔ تو جو رَحم وفضل کا سرچشمہ ہے مجھے اپنے فضل ہی سے نجات دے۔ کیونکہ میرے اپنے اعمال اس قابل نہیں کہ مَیں اُن کے ذریعے نجات کا حقدار ہوسکوں۔ اگر نجات کو نیک اعمال کے ساتھ مشروط ٹھہرایا جائے تو اس کا محال ہونا ہم اچھی طرح ثابت کرچکے اور اگر فضل سے مانو تو اعمال ِ حسنہ کو شرط ِنجات ٹھہرانا محال ہوگا کیونکہ اگر فضل سے برگزیدہ ہیں تو اعمال سے نہیں۔ ورنہ فضل فضل نہ رہا (رومیوں ۱۱: ۶ ) اگر کوئی اس تمام بیان سے یہ نتیجہ نکالے کہ ہم نے اعمال ِحسنہ کو بُرا قرار دے کر اُن سے پرہیز کرنے کی ہدایت کی ہے۔ تو وہ سخت غلطی میں مبتلاہے۔ اوراُس نے ہمارے منشاء کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ واضح ہو کہ نیک اعمال کرنا ہرانسان کا فرض عین ہے۔ حق انسانیت ہے اور اگر کوئی نیکی سے نفرت کرے تو وہ ضرور گناہ کو پیار کرتاہے اور ایسا شخص خُدا کا مخالف ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھیئے کہ نجات اعمال حسنہ کا پھل نہیں ہے۔ بلکہ اعمال حسنہ نجات کا پھل ہیں۔ اس لئے جب تک نجات (گناہ سے رہائی ) حاصل نہ ہو حقیقی نیکی انسان سے نہیں ہو سکتی۔ اورگناہ آلود ہ طبیعت سے رہائی (نجات ) حاصل کرنا انسانی کو شش سے محال ہے۔ اعمال ِحسنہ سے نجات کے امکان کا سامعہ فریب جُملہ ہماری تسلی نہیں کرواسکتا۔ اس لئے اس غلط خیال کو پہلی فُرصت میں اپنے ذہن ودل سے خارج کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

      توبہ محض

      مذہبیات میں توبہ کا درجہ تمام باتوں سے افضل ہے اور طالب ِنجات کے لئے از بس ضروری ہے کہ وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرکے خُدا کی طرف مائل ہو۔ جب گنہگار انسان شریعت کی روشنی میں اپنی باطنی مکروہ حالت کو دیکھتا ہے تو اُس کو اپنی اُس حالت سے نفرت ہوجاتی اوروہ اپنے گناہوں سے دل شکستہ ہوکر پچھتاتا اورآیندہ اُس حالت میں رہنا نہیں چاہتا۔ بلکہ اُس سے آزاد ہونا چاہتا ہے۔

      ایوب نبی فرمایا ہے اس لئے مجھے آپ سے نفرت ہے۔ اور میں خاک اورراکھ میں توبہ کرتا ہوں (ایوب ۴۲: ۶ ) اورخُدا توبہ سے بہت خوش ہوتا اورتائب ِدلوں کو پسند کرتا ہے ملاحظہ ہو (یسعیاہ ۵۵: ۷ حزقی ایل ۱۸: ۲۱- ۲۳ یوایل ۲: ۱۲- ۱۳ ملاکی ۳: ۷ لوقا ۱۵: ۷ اعمال ۳: ۱۹ ؛۲۔ کرنتھیوں ۷: ۱۰ ۲۔ پطرس ۳: ۹ ) توبہ ایک ایسی چیز ہے جو خُدا کے رحم وفضل کو جوش میں لاتی ہے۔ لیکن اگر کوئی گناہ پر اس لئے کمر بستہ ہوجائے کہ وہ دم نزع توبہ کرکے نجات کا حقدار ہوجائے گا تو جان لیجئے کہ وہ ایک سنگین غلطی میں مبتلا ہے۔ توبہ کے معنی میں سابقہ بدکرداریوں پر پچھتانا اورآیندہ اُن سے باز رہنے کا تہیہ کرنا۔ توبہ محض حصول ِنجات کے لئے کافی نہیں ہے۔ قوانین ِ طبعیہ کا مقنن خُدا تعالیٰ ہے۔ اس لئے وہ خُدا کی ذاتی طبیعت کے مخالف نہیں بلکہ مطابق ہیں۔ اور اُن سے خُدا کی صفت ِ عدل کا انداز ہ کیا جاسکتا ہے۔ اور اگر قوانین ِطیبہ کو خُدا کی طبیعت کے نقیض مانا جائے تو خُدا اُن کا مقنن ہرگز نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ایک نقیض دوسرے نقیض کی علت نہیں ہوسکتا۔ اب فرض کیجئے کہ ایک شخص قانون کشش زمین سے اس صورت میں تجاوز کرے کہ کسی بلند ی سے اپنے آپ کو گِرادے تو اُس کی ٹانگ ٹوٹ جائے گی۔ اب اگر وہ اپنے اس فعل ناکردنی پر متاتف ہوکر پچھتائے اورآیندہ ایسے فعل سے باز رہنے کا تہتیہ کرے اورحتیاط کو کام میں لائے تو اُس کی اس توبہ اورپچھتاوے سے اُس کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ توبحال نہ ہوجائے گی بلکہ تادم ِ مرگ وہ لنگڑارہے گا۔ ہاں اگر آیند ہ محتاط رہے تو مزید نقصان سے بچارہے گا۔ اسی طرح توبہ محض سے گذشتہ گناہوں کا فدیہ نہیں ہوسکتا۔ کوئی ہزار روپے کا قرضدار ہے اوریباعث ناداری ادا کرنے کے ناقابل ہے۔ اب وہ پچھتانا ہے کہ کیوں قرض لیا۔ لیکن اس پچھتاوے سے اتنا تو ہوسکتا ہے کہ وہ آیند ہ کو قرض سے احراز کرے۔ تاہم توبہ سے ہزار روپیہ کو قرض دور نہیں ہوسکتا۔ وہ ادا کرے اور آیندہ قرض سے پرہیز کرے۔ پس انسان کے توبہ سے پہلے کے گناہوں کو خُڈا عدل میں لائے گا۔ کیونکہ خُدا وند قہر کرنے میں دھیما اور قدرت میں بڑھ کر ہے۔ اورمجرم کو ہرگز بری نہ کرے گا۔ (ناحوم ۱: ۳ خروج ۳۴ : ۷ ) اوریہ بھی ناممکن ہے کہ کسی تائب کی بعد کی زندگی ایسی بے نقص بے داغ اورکامل ہوکہ جس میں خطا کا مطلق امکان نہ رہے۔ سابقہ قرض انسان ادا نہیں کرسکتا اورتوبہ کے بعد کامل نیکی اُس سے صادر نہیں ہوسکتی تو کس صورت خُدائے قدوس وتبارک وتعالیٰ سے ملاپ ممکن ہے ؟ لہٰذا توبہ محض سے جُدائی کی وہ سنگین دیوار جو گناہ کے باعث انسان اورخُدا کے درمیان حائل ہے ٹوٹ نہیں سکتی۔ اس کامطلب یہ نہیں کہ توبہ کرنا بُرا کام ہے۔ ہرگز نہیں بلکہ نجات کو مشروط بالتوبہ محض ماننا غلطی ہے۔ ہم آغاز ہی میں عرض کرچکے کہ مذہب میں توبہ سے بہتر کوئی شئے نہیں۔ جس طرح نیکی کرنا ہرانسان کا فرض ہے اُسی طرح توبہ کرنابھی ہرگنہگار۔۔۔ کے لئے ضروری ہے۔ توبہ کے ذریعے ہم نجات کو اپنا حق نہیں بنا سکتے بلکہ خُدا اپنے رَحم وفضل سے ہمیں اُس کے حقدار بنا سکتا ہے۔ اور تائب انسان خُدا کی بخشش کا اُمیدوار توہوسکتا ہے مگرحقدار نہیں ہو سکتا۔ پس توبہ کرو اوررجوع لاو۔ تاکہ تمہارے گناہ مٹائے جائیں اوراس طرح خُداوند کے حضور سے تازگی کے دن آئیں (اعمال ۳: ۱۹ ) توبہ نجات کی تمہید ہے۔ توبہ ابتدا اورنجات اُس کی انتہا ہے بشر طیکہ توبہ حقیقی ہو۔

      عدل ورحیم

      خُدا عادل ہے رحیم ومہربان بھی اُس کی جتنی بھی صفات ِ ہیں وہ سب ذاتی اورقدیم ہیں اکتسابی اورحادث نہیں۔ وہ کبھی اپنی ایک صفت کو چھوڑ کر دوسری صفت کا اظہار نہیں کرتا۔ جب وہ کسی پر رَحم فرماتا ہے تو عدل کو چھوڑ کر رَحم نہیں فرماتا۔ بلکہ اُس کا رحم وعدل دوش بدوش چلتے ہیں۔ لیکن جو فخر کرتا ہے اُس پر فخر کرے کہ وہ سمجھتا اورمجھے جانتا ہے۔ کہ مَیں ہی خُداوند ہوں جو دُنیا میں شفقت وعدل اورراست بازی کو عمل میں لاتا ہوں۔کیونکہ میری خوشنودی اپن ہی باتوں میں ہے۔ خُداوند فرماتا ہے (یرمیاہ ۹: ۲۴ ) آپ اپنی تمام فصاحت وبلاغت کو تمام فلسفہ ومنطق کو صرف کردینے کے باوجود بھی خُدا کی صفات کو ہرگز تبدیل نہیں کرسکتے۔ خُدا عادل ہے اوراُس کی صفت عدل ہرگز رَحم میں تبدیل نہیں ہوسکتی ۔خُدا رَحیم ہے اوراُس کی صفت ِ رحمانیت ہرگز عدل میں تبدیل نہیں کی جاسکتی۔ جس طرح خُدا کا سمیع و بصیر ہونا واحد مفہوم نہیں رکھا اُسی طرح عدل ورحم کا مفہوم واحد نہیں اور اسی طرح خُدا کا عادل ہونا اوربات ہے رحیم ہونا اوربات اوردونوں صفات کا تقاضا پورا ہوناضروری ہے۔ خُدا کی یہ دونوں صفات ِ اپنا اپنا عمل برمحل دکھاتی ہیں۔ اگر گُناہ وسزا لازم وملزوم ہیں تو کوئی شخص بھی سزائے دوزخ سے بچ نہیں سکتا۔ اگر لازم ملزوم نہیں تو سزا اورعدالت ِ الہٰی کا انکار لازم آئے گا۔ اور گناہ کوئی مُکروہ اورقابل ِنفرت شئے نہ رہیگا اس صورت میں ایک تو عدل ِالہٰی پر د ھبہ پڑتا ہے اوردوسرے راستبازوں وخُدا ترسوں کوراہ ِ خُدا میں ریاضت کرنا اور دُکھ اُٹھانا فضول اورلاحاصل ٹھہرتا ہے۔ اور کوئی گنہگار گناہ سے ہرگز نفرت نہیں کرسکتا۔ پس گناہ وسزا ضرور لازم وملزوم ہیں۔ اسی واسطے سب دُنیا عدل ِ الہٰی کے ماتحت سزائے دوزخ کی مستحق ہے۔ اگر خُدا ئے عادل گنہگار کو بِلا معاوضہ مُعاف کرے تو وہ عادل نہ ربلکہ راحم محض۔ اگر عدل کرے تو تمام دُنیا سزائے دوزخ کی مستحق ہے۔ ایک بھی بچ نہیں سکتا۔ اورخُدا عادل محض ٹھہرابے شک رَحم کا درجہ عدل سے افضل ہے (یعقوب ۲: ۱۳ ) تاہم حقیقی راحم کے لئے عادل ہونا شرط ہے۔ یعنی رحم بلاعدل نہ صرف راستی نہیں بلکہ ظلم ہے۔مثلاً زید نے تلوار سے بکر کا بازو کاٹ دیا اور بکرنے عدالت میں زید پر نالش کردی۔ اب اگر حاکم ازرُوئے رحم زید کو بلا مبادلہ رہا کردے تو بکر پر ظُلم ہوگا۔ یعنی زید پر رحم بلامبادلہ کرنا بکر پر ظلم کرنا ٹھہرے گا۔ اوراگر زید کو سزادے تو یہ محض عدل ہوگا۔ کیونکہ مجرم کو سز ا دینا کوئی رَحم نہیں۔ عدل کے معنی ہیں طرفین کے حالات کو اعتدال پر لانا۔ یعنی ظالم ومظلوم کی حیثیات کو مساوی (معتدل ) رکھنا اسی طرح انصاف (مادہ نِصف ) کے معنی ہیں نصفا نصفی کردینا۔ تاکہ ظالم ومظلوم کی حیثیات مساوی رہیں۔ پس اگر خُدا انسان کے کُل گنا ہ کا بدلہ لے تویہ عدل ہی ہوگا۔ اوراگر بلامبادلہ سب کو بری کردے تو یہ رَحم بلاعدل ہوگا۔ اگر کچھ گناہوں کا بدلہ نے اورکچھ معاف کردے تو یہ عدل نہ ہوگا نہ رحم۔ اب ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے کہ تقاضا ئے عدل بھی پورا ہو اورگنہگار پررَحم بھی ہو۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ذات ِ راحم اپنی طرف سے کچھ ایثار کرے۔ کیونکہ رحیم ہونے کے لئے ایثار شرط ہے۔ یعنی اگر حاکم مجرم پر رَحم کرنا چاہئے تو ضرور ہے کہ اُس کا فدیہ (معاوفہ ) اپنی طرف سے دے اور یہی اُس کا ایثار ہوگا۔ خُدائے عادل ورحیم کے اس ایثار کا پورا بیان آگے چل کر نجات بالکفارہ کے زیر عنوان کیا جائے گا۔ جس سے خُدا کی عدالت ورحمانیت کا بھید ناظرین پر کُھل جائے گا۔ اصل مقصد کو سمجھنے کے لئے خیالات کے سلسلے وترتیب کو یاد رکھیئے۔

      قسر ی ملاِ پ

      اب شاہد کوئی یہ سوچے کہ کیوں نہ خُدائے پاک جبری وہ قسری طورپر اپنی قدرت ِ کاملہ سے انسان کو پاک بنالے اوراپنی قربت سے اُسے قسری طورپر بہرہ اندوز فرمائے۔ واضح ہوکہ اس خیال میں یہ بھی بھاری نقص ہے کہ انسان کی فعل مختاری قائم نہیں رہتی۔ خُدانے اُسے فاعل مختار بنایا۔ نیکی وبدی کی تمیز بخشی تاکہ اپنی آزاد مرضی سے دونوں میں سے جس کو چاہے پسند کرے۔ اور اوامر ونواسی بخش دئے۔ جن کے عدول کی سز ا اورتعمیل کی جزا ٹھہرائی۔ اگر انسان کی فعل مختاری اورآزادی میں نچل دیا جائے تو نیکی نیکی نہ رہے گی اورنہ بدی بدی۔ اورجب نیکی بدی نہ رہی تو عدالت نہ رہی۔ جب عدالت نہ رہی تو سزا وجزا نہ رہی اوردوزخ دہشت دوا یسے مفہوم ہو ں گے جن کا کوئی مصداق نہ ہو۔ اورخُدا کے احکام دربارہ ترک ِگناہ اورختیار نیکی باطل ٹھہریں گے۔ اور نجات بے معنی لفظ ہوگا۔ حتی ٰ کہ خُدا کی خُدا ئی سے ہاتھ دھوئے پڑیں گے اورپھر اگر خُدا نے انسان کو بالجبر ہی پاک وراست بنانا ہوتا آدم وحوا کو اوائل ہی میں بنا لیتا۔ اوراس موجودہ دِل لگی کی بہ نسبت یہ بہتر ہوتاکہ تمام دُنیا میں یہ مرض نہ پھیلتا۔ فعل مختاری ہی تو ہے جو انسان کو تمام مخلوقات سے اشرف ٹھہراتی ہے۔ ورنہ حیوان وانسان میں کی مابہ الامتیاز ہوتا اوراس قسم کے انسان کو خُدا کی قُربت سے کیا فائدہ ہوتا۔ اگرخوشی ہوتی تو جس قدر ایک بیل کو شاہی محلوں میں رہنے سے ہوسکتی ہے۔ لہٰذا یہ خیال سراسر غیر معقول ثابت ہوتا ہے اوراس سے کنارہ کرنالازمی ہے۔

      طبعی مِلاپ

      بالفرض محال اگر ہم یہ مان لیں کہ خُدا ئے قدوس انسان خاطی وعاصی کو اُس کی گناہ آلودہ طبیعت کے ساتھ ہی اپنی قُربت ورفاقت میں قبول فرماے گا تو بھی یہ عُقدہ حل نہ ہوگا۔ کیونکہ متضاد طبائع (پاک وناپاک ) کے مِلاپ کا انجام خُوشی کی بجائے نفرت ہوگا۔ جس طرح اُلو کی طبیعت کی آفتاب کی تجلی کے ساتھ موافقت ومُناسبت نہ ہونے کے باعث الو کو سورج کی قُربت سے خُوشی کی بجائے دُکھ اورتکلیف محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح انسا ن کو ناپاک طبیعت کو خُدائے قدوس کے تقریب سے بجائے مسرت وشامادنی کے انتہائی دُکھ محسوس ہوگا۔ اورایسے مِلاپ کی بہ نسبت زخارفِ دُنیا اورجیفہ جہان ہی اطمینان بخش اورمسرت افروز معلوم ہوں گے۔ اورخُدا کی قُربت ایک اطمینان سوز اوردلاوز حالت جس میں وہ ایک لمحہ بھر رہنے کی برداشت نہ کرسکےگا۔ جب تک خُدا اورانسان کی طبائع میں باہمد گرمواققت ومطابقت تام نہ ہوجائے مِلاپ قطعی ناممکن ہے۔ جب تک مغنی اورسا ز کی آواز میں ہم آہنگی نہ ہومغنی کبھی خُوش نہیں ہوسکتا۔ ایک ڈاکو حاکم کے سایہ سے بھاگتا ہے کیونکہ ڈاکؤ کی طبیعت اورحاک کی طبیعت میں اختلاف ہے۔ محبوب اپنے محب اورعاشق اپنے معشوق میں ہمیشہ وہی طبیعت اورخصلت دیکھنا چاہتا ہے جو وہ اپنی ذات میں خود رکھتا ہے۔رحمدل سنگدل وظالم سے نفرت کرتا ہے۔ خلیق بدخلق کو پسند نہیں کرتا۔ مُنصف مزاج لئے انصاف سے راضی نہیں ہوتا۔ پرہیز گا رعیاش کے سایہ سے بھاگتا ہے۔ اسی طرح انسان اورخُدا کی طبعی ناموافقت کو یسعیاہ نبی یوں بیان کرتاہ ے۔ ''تمہاری بدکرداری نے تمہارے اورتمہارے خُدا کے درمیان جُدائی کردی ہے۔ اور تمہارے گناہوں نے اُسے تُم سے رُوپوش کیا (یسعیاہ ۵۹ : ۲  اب طبعی ملاپ کی دو صورتوں میں سے ایک صورت ہی ممکن ہوسکتی ہے۔

      1. خُدا کی طبیعت گناہ آلودہ ہوجائے تاکہ انسان کی طبیعت کے ساتھ اُس کی موافقت ہوسکے۔
      2. یاانسان کی طبیعت خُدا کی سی پاک ہوجائے تاکہ اُس کی طبیعت کے ساتھ مطابقت ہوسکے۔

      توبہ توبہ ! خُدائے قدوس وبرتر تو کبھی ناپاک نہیں ہوسکتا۔ یہ اُس کی صفت قدوسیت اورالوہیت کے سراسر منافی ہے۔ یہ ہرگز ہو نہیں سکتا کہ خُدا کی شرارت کاکام کرے۔ اور قادر ِمطلق بدی کرے (ایوب ۳۴ : ۱۰ ) اورانسان ضیعف البنیان جو گناہ کو کیڑا ہے اپنی ذاتی کوشش اورجد وجہد سے پاک ہو نہیں سکتا۔ انسان ہے کہ کہ وہ پاک ہو ؟اور وہ جو عورت سے پیدا ہو اکیا ہے کہ صادق ٹھہرے ؟ (ایوب ۱۵: ۱۴ ) غرضیکہ جیسے خُدا کا ناپاک ہونا ممتنع ہے ویسے ہی انسان کاپاک ہونا محال ہے۔ اگر ملاپ ممکن ہے تو صرف طبعی ملاپ۔ اَے ناظرین ! آپ نے خرب جان لیا کہ اگرخُدا اپنی جگہ رَہ کر انسان کی نجات کاکوئی انتظام نہ کرے تو انسان میں یہ صلاحیت مفقود ہے کہ اُس پاکیزگی کو حاصل کر جس کے بغیر کوئی خُدا کو نہ دیکھے گا۔ ہرشخص اپنے باطن میں اپنی ایسی بے بسی اورلاچاری کا وجدانی احساس ضرور رکھتا ہے۔ یہ انسان کی واقعی ناگفتہ بہ حالت کی اقرب الی الفطرت تصویر ہے۔ اس لئے طفل تسلیوں سے کام نہیں چل سکتا۔ اپنی عیب دار اورگناہ آلود ہ زندگی پر رَحم کھانا چھوڑ دیجئے۔ اپنے آپ کو برابر ملامت کریں۔ اپنے آپ پر رَحم کھانے اوراپنی بُری حالت کو رعایت کرنے سے زیادہ رُوح کی ہلاکت کا اورکوئی موجب نہیں۔ شریعت ِالہٰی انسان کی اسی مکروہ حالت کو اُس پر روشن کرتی ہے۔ تاکہ اُس کاگناہ ہونا ظاہر ہو۔ اورحکم کے ذریعے سے گناہ حد سے زیادہ مکروہ معلوم ہو(رومیوں ۷: ۱۳ ) تاکہ وہ ایک طیب ِرُوحانی کی ضرورت کا قائل ہوکر اُس کا متلاشی بن جائے۔

      نجات بالکفارہ

      ہم نے دلائل وبُراہین سے یقینی اورقطعی طور سے ا س امر کو پایہ ثبوت تک پہنچایا دیا کہ انسان اپنی ذاتی جدوجہد سے وہ پاکیزگی اورتنزیہہ وتبریہہ عن الخطاحاصل نہیں کرسکتا جو اُسے اَبدی زندگی غیر فانی خوشی اورخُدا کی مواصلت ومقاربت کا استحقاق دلا سکے (امثال ۲۰: ۹ ) اورمنقولی شہادت سے بھی اس دعویٰ کی صداقت و حقیت کو خوب ثابت کردیا۔ ایک دفعہ جب خُداوند مسیح نے اِلسانی جدوجہد کو حصول  ِ نجات کے متعلق ناکافی ومحال ثابت کیا تو لوگ حیران ہوکر کہنے لگے کہ پھر کون نجات پاسکتا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا۔ یہ آدمیوں سے تو نہیں ہو سکتا لیکن خُدا سےہوسکتا ہے کیونکہ خُدا سے سب کچھ ہوسکتا ہے۔ (لوقا ۱۸: ۲۷ ٭ چنانچہ خُدائے رَحیم والعادل نے انسان خاطی وعاصی اورفاسد الخیال کی ذاتی لاچاری وبے بسی کی حالت پر رَحم فرمایا۔ اوراُس کے گناہوں کا مبادلہ اپنی طرف سے پیش کیا۔ کیونکہ وہ کسی کی ہلاکت نہیں چاہتا۔ بلکہ یہ چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے (۲۔ پطرس ۳: ۹) اوریہی ایک آخری اورمعقول طریقہ ہے جس سے خُدا عادل بھی اور رَحیم بھی ثابت ہو۔اور انسان خاصی وعاصی کو نجات بھی دے۔ اُسے (مسیح کو ) خُدا نے اُس کے خُون کے باعث ایک ایسا کفارہ ٹھہرایا جو ایمان لانے سے فائدہ ِ مند ہو تاکہ جو گناہ پیشتر (مسیح سے پہلے ) ہوچکے تھے۔ اورجن سے خُدا نے تحمل کرکے طرح دی تھی اُن کے بارے میں وہ اپنی راست بازی ظاہر کرے۔ بلکہ اسی وقت اُس کی راستبازی ظاہر ہو۔ تاکہ وہ خود بھی عادل رہے۔ اورجو یسوع پر ایمان لائے اُس کو بھی راست بازٹھہرانے والا ہو (رومیوں ۳: ۲۵- ۳۱ ) انسان دُنی الُہمت اور فاسد الطبع کی ناداری استعداد دربارہ حصول نجات نے خُدا کی  محبت کو مجبور کردیا کہ وہ خود اُس کا فدیہ دے ۔ اور اُس کو تمام آلودگیوں س پاک کرے اپنی قربت میں قبول فرمائے اورابدی عذاب وہلاکت سے بچائے۔ چنانچہ۔خُدا نے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اُس ن اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا۔ تاکہ جوکوئی اُس پر ایمان لائےہلاک نہ ہوبلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے (یوحنا ۳: ۱۶ ) کسی راست باز کی خاطر بھی مشکل سے کوئی اپنی جان دگے گا۔ مگر شائد کسی نیک آدمی کے لئ کوئی اپنی جان تک دے دینے کی جُرات کرے۔ لیکن خُدا اپنی محبت کی خوبی ہم پریوں ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم گنہگار ہی تھے تو مسیح ہمار ی خاطر موا (رومیوں ۵: ۷–۸ ) ایک بچہ جب گندگی سے اپنے لباس اورتن کو آلودہ کو لیتا ہے تو ماں اُس کی اس گندگی سے نفرت کرتی ہے۔ اوراگرچہ بچہ آغوش ِ مادر میں جانے کے لئے ہاتھ پسارتا اورروتا ہے۔ تاہم ماں اُس کی غلاظت کو دھوئے بغیر اُسے گود میں نہیں لیتی۔ لیکن ماں کو بچہ کی ذات سے نفرت نہیں ہوتی پر اُس کی غلاظت سے۔اور بچے میں خود کو صاف کرنے کی قابلیت نہیں ہوتی۔ بلکہ ماں خود اُسے دھوکر اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ اسی طرح خُدا انسان کی گناہ آلودہ ومکروہ حالت سے نفرت دگھن کرتا ہے۔ کیونکہ وہ پاک و قُدوس ہے۔ اور اُس کی محبت یہ گوارا نہیں کرسکتی کہ انسان ایسی مکروہ حالت میں مبتلا رہ کر ابد تک اُس سے جُدارہے۔ اورانسان میں خود کو پاک بنا لینے کی قابلیت وصلاحیت مفقود ہے۔ اس لئے خُدا ئے رَحیم اور سرچشمہ الطاف واکرام نے خود اُس کی ناپاکی کو مسیح کے پاک ترین لُہو سے دھویا۔ اوروہ وعدہ جو اُس نے بنی نوع انسان کے ساتھ مسیح کے ظہور سے صدیوں پیشتر کیا تھا مسیح کی قُربانی میں پورا کیا۔ وہ وعدہ یہ تھا مَیں نے تیری خطاوں کو گھٹا کی مانند اورتیرے گناہوں کو بادل کی مانند مٹاڈالا میرے پاس واپس آجا۔ کیونکہ مَیں نے تیرا فدیہ دیا ہے (یسیعاہ ۲۴: ۲۲؛ ۴۳: ۲۵ ) خُداوند مسیح نے خُدا کے عدل کو اس صورت میں پورا کیا۔ کہ جو موت گناہ کے باعث انسان نے کمائی تھی وہ اپنے جسم پر لے لی۔ اوریوں اُس کا کامل فدیہ دے کر تقاضا ئے عدل ِ الہٰی کو پورا کیا۔ اوررحم ومحبت الہٰی کو اس صورت میں پورا کیا کہ گنہگار جو ابدی ہلاکت کے حقدار ومحبت ِالہٰی کوا س صورت میں پورا کیا کہ گنہگار جو ابدی ہلاکت کے حقدار تھے ہمیشہ کی زندگی کے وارث ٹھہرے۔ کہاں ابدی عذاب اورکہاں ابدی زندگی وخوشی۔ مگر اُس ک فضل کے سبب اُس مخلصی کے وسیلے سے جو اُس یسوع میں ہے مفت راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں (رومیوں ۳: ۲۴ ) کفارہ کے معنی میں ڈھانپ دینا۔ خُداوند مسیح نے اپنے پاک کفارہ کے ذریعے انسان خاطی وعاصی کے گناہوں پر پردہ ڈالا۔ اوراُنہیں خُدا کی نظر سے چھپا دیا۔ کفارہ کی تعریف داود نبی یوں کرتا ہے مبارک ہے وہ جس کی خطا بخشی گئی۔ اورجس کا گناہ ڈھانپا گیا (زبور ۳۲: ۱، ۸۵: ۲ ) آفرینش ِعالم کے اوائل ہی میں جب آدم اورحوا گناہ میں گِرنے کے باعث ننگے پائے گئے کفارہ کی ایک علامت ملتی ہے۔ وہ مجازی کفارہ تھا اور مسیح کے اس حقیقی اورعالمگیر کفارہ کی گویا تمثیل لکھا ہے۔ اورخُداوند خُدا نے آدم اوراُس کی بیوی کے واسطے چمڑے کے کرتے بنا کر اُنہیں پہنائے (پیدائش ۳: ۲۱ ) وہ چمڑا کسی جانور کو مار کر لیا گیا تھا۔ اور اُس سے اُن کی عریانی کو جوگناہ کے باعث محسوس ہوئی تھی ڈھانپا گیا۔ اس سے ایک طرف تو اُنہیں دکھایا گیا کہ وہ موت جو تُم نے گناہ کرکے کمائی ہے کیاچیز ہے۔ کیونکہ اب تک اُنہیں موت کی کیفیت کا علم نہ تھا اوروہ عبرت ناک کیفیت حیوان کی موت سے اُن پر وشن کی گئی کہ تمہاری موت اس طرح ہوگی۔ اوردوسری طرف چمٹرے سے خوداُن کا ننگ ڈھانپ کر یہ ظاہر کیا کہ باوجود تمہاری اپنی خطا اورشقاوت ِ قبلی کے مَیں خُود (خُدا ) تمہاری عُریانی کو ڈھانپوں گا۔ مگر دُوسرے کی موت کے وسیلے جو تمہارے گناہ کا شریک نہ تھھا۔ تمہاری خلاصی فانی چیزوں یعنی سونے چاندی کے ذریعے سے نہیں ہوئی۔بلکہ ایک بے عیب اوربے دا غ برے یعی مسیح کے پیش قیمت خون سے (۱۔ پطرس ۱: ۱۸- ۱۹ ) مسیح پر درمیانی ہونے کی حیثیت سے جو سزا وار رد ہوئی وہ یہ طاقت رکھتی ہے کہ گویا گنہگاروں نے خود وہ سزا اُٹھایاجیسے دو امریض نہ میریض دونوں کے درمیان آکر فنا ہوجاتی اوراپنی ہستی کھودیتی ہے اورمرح کو مریض سے جُدا کردیتی ہے۔ اسی طرح مریضان ِ گناہ اورمرح ِ گنا ہ کے درمیان میں آکر مسیح نے اپنی ہستی کھودی۔ اوران دونوں کو ایک دوسرے سے یکسر جدا کر دیا۔ اگر مسیح ہردو کے درمیان میں آکر دوا کی طرح اپنی ہستی نہ مٹا دیتا تو گناہ گنہگار کےمابین جدائی کا ہونا ناممکن ومحال تھا۔ اورجیسے مریض کسی طوریل عرصہ کی شدید مرح سے شفاپالینے کے بعد بہت عرصہ تک کمزور ونحیف رہتا ہے اوراُس کو مقوی ولحم پرو اغذیہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح خُداوند مسیح نے اپنی قُربانی کے ذریعے مریضان ِ گناہ کو شفا کُلی تو بخش دی۔ اب بعض بعض میں صرف کمزوری باقی رہتی ہ۔ وہ کمزوری (رُوحانی کمزوری ) رفتہ رفتہ رُو ح القدس کے طفیل جو طاقت رُوحانی کا سرچشمہ ہے دور ہوجائے گی۔ جب رُوح القدس نازل ہوگا تو تُم قوت پاوگے۔ (اعمال ۱: ۸ ) رُوح بھی ہماری کمزوری میں مد دکرتا ہے (رومیوں ۸: ۲۶ ) اُس کاپاک کفارہ گنہگاروں کے گناہوں کو ڈھانپ لیتا اور چھپا دیتا ہے۔ اُس کا پاک خون توبہ سے پہلے اوربعد کے تمام گناہوں کو دھوتا ہے۔ اور اُص کے بیٹے یسوع کاخُون ہمیں تمام گناہ سے پاک کرتا ہے (۱۔ یوحنا ۱: ۷ ) اوراُس کی قیمتی ولاثانی قُربانی گنہگاروں کو پاک وصاف کرکے خُدا ئے قدوس کی قُربت میں لے جاتی ہے۔مگر تُم جو پہلے دور تھے اب مسیح یسوع میں مسیح کے خون کے سبب سے نزدیک ہوگئے ہو۔ کیونہ وہی ہماری صلح ہے جس نے دونوں کوایک کرلیا۔ اورجُدائی کی دیوار کو جو بیچ میں تھی ڈھادیا (افسیوں ۲: ۱۳-۱۴)  ہم نے مسئلہ گناہ کے آخر میں گناہ کے تین نتائج بیان کئے ہیں۔ یعنی اول ، طبعی بگاڑ ،دوم ،خُدا سے جُدائی۔ اورسوم سزائے عدالت پس خُداوند مسیح کا کفارہ گنہگار کو ان ہر سہ نتائج سے بلکی آزاد کرتا ہے اوربُری خواہش جو گناہ کی علت ہے اُس پر اثر انداز ہوکر اُس کو نیکی وپاکیزگی میں تبدیل کردیتا ہ۔ تاکہ علت ِ کی تبدیلی سے معلول (صدور گناہ ) میں تبدیلی ہوجائے۔ اورجب تک انسان کی طبعی خرابی کو معدوم کوکرکے اُس میں حصول کمال کی استعداد پیدا نہ کی جائے وہ حقیقی اوربے نقص نیکی کرنے کے قطعی ناقابل ہے۔عمل سے پہلے قوت ِ عمل کی ضرورت ہے اورجب طبیعت پاک ہوگئی تو خُدا سے خود بخود میل ہوگیا۔ اورجب میل ہوگیا توجُدائی نہ رہی اورنہ سزائے عدالت۔جیسے ایک جنگی انگور کے ساتھ ایک اصلی اورشیریں انگور  کی شاخ کا پیوند لگانے سے اُس کی تُرش خاصیت رفتہ رفتہ شریں ہوجاتی ہے۔ا ورانگور کی پُرانی فطرت مٹ کرایک نئی فطرت اُس میں پیدا ہوجاتی ہے۔ اسی طرح خُداوند مسیح کے ساتھ جو خُداد انسان کا درمیانی اورپاک ہے ایمانی رنگ میں پیون ہوجانے سے ایماندار لوگ درجہ بدرجہ خُدا کی صورت پر بدلتے جاتے ہیں۔ اوراُن کی پُرانی انسانیت (گناہ آلودہ طبیعت ) مسیح کی قدرت وقدوسیت کی تاثیر سے زائل ہوکر نئی انسانیت (پاکیزہ طبیعت ) پیدا ہوتی جاتی ہے۔ وہ اپنی اُس قوت کی تایثر کے موافق جس سے سب چیزیں اپنے تابع کر سکتا ہے ہماری پست حالی کے بدن کی شکل بدل کر اپنے جلال لے بدن کی ضرورت پربنائے گا (فلپیوں ۳: ۲۱؛ عبرانیوں ۱۲: ۲ )

      آپ نے فرمایا'' مَیں انگور کا حقیقی درخت ہوں تُم دالیاں ہو۔ جو مجھ میں قائم رہتا ہے اورمَیں اُس میں وہی بہت پھل لاتا ہے۔کیونکہ مجھ سے جُدا ہوکر تُم کچھ نہیں کرسکتے(یوحنا ۱۵: ۵ ) اس لئ کہ جب تو زیتوں کے اُس درخت سے کٹ کر جس کیااصل جنگی ہے اصل کے برخلاف اچھے زیتون میں پیوند ہوگیا۔ اورجب جڑپاک ہے تو ڈالیاں بھی ایسی ہی ہیں (رومیوں ۱۱: ۱۶؛۲۴ ) مسیح کے ساتھ پیوند ہونے سے مُراد ہے دُعا میں لگے رہنا۔ کلام کی تلاوت کرتے رہنا اورمراقبہ ہونے سے مُراد میں بیٹھ کر ہرروز مسیح کی حضوری کو محسوس کرنا اورا ُس کی قُربانی اورلانتہا محبت کا تصور کرتے ےرہنا۔ شبانہ روز مسیح کے ساتھ ایسا زندہ ایمانی تعلق رکھنا رُوحانی اصطلاح میں اُس کے ساتھ پیوند ہونا کہلاتا ہے۔ اورایماندار کی رُوحانی تبدیلی کا راز اسی تعلق میں پوشیدہ ہے۔ رُوح القدس ایماندار کے اندر رہ کر اُس کودرجہ بدرجہ خُدا کی صورت پربناتی ہے۔ اوروہ الوہیت نُما انسانیت جو انسان نے گناہ کی تاریکی میں کھودی تھی دوبارہ انسان کے اندر پیدا کرتی ہے اس کے بگڑے ہوئے خط وخال۔بگڑی ہوئی طبعیت اوربگڑی ہوئی صورت کو نئے سرے سے خُدا کی صورت پربناتی ہے اور رفتہ رفتہ انسان کے اندر گناہ مُردہ ہوتا جاتا ہے اوررُوح جو گناہ کےے باعث مُردہ تھی زندہ ہوتی جاتی ہے۔ اگر مسیح تُم میں ہے توبدن تو گناہ کے سبب سے مُردہ مگررُوح راست بازی کے سبب سے زندہ ہے (رومیوں ۸: ۱۰ ) اورُروح القدس ایک خارجی موثر ہے اور مسیح کا قائم مقام۔ مسیح نے گنہگاروں کامبادلہ ومعاوضہ عدل ِالہٰی کو دے دیا۔ اوروہ پچھلے قرضہ سے توآزاد ہوگئے۔ لیکن اگر اُن میں آیندہ کے لئے حصول کمال کی استعداد پیدا نہ کی جائے تو ضرور وہ پُرانی کمزوری کے زیر اثر پھر گناہ کریں گے۔ اس لئے اُن کی طبعی خرابی کو مٹانے اورایک نئی پاکیزہ طبیعت اُن کے اندر پیدا کرنے کے لئے ضرور ایک زبردست خارجی فاعل درکار ہے۔ اوروہ رُوح القدس ہے۔چنانچہ رُوح القدس یہ کام کرتی ہے اورایماندار کے باطن میں درجہ بدرجہ ایک نئی انسانیت کی تعمیر کرتی ہے۔ جیسے کوئی شخص اپنی تمام زندگی ایک ہی دن میں بسر نہیں کرسکتا۔ بلکہ رفتہ رفتہ عمر کے ابتدائی وسطی اورانتہائی مدراج کو طے کرنا جاتا ہے۔ اسی طرح انسان کی رُوحانی زندگی بھی بتدریج تمام عمر ترقی کرتی آخری کار رُوحانی کمالیت کو حاصل کرتی ہے۔ اُس خُداوند کے وسیلے سے جو رُوح ہے ہم اُسی جلالی صورت میں درجہ بدرجہ بدلتے جاتے ہیں (۲۔ کرنتھیوں ۳: ۱۸ ؛ ۱۔ کرنتھیوں ۱۵: ۴۹)۔

      اس چمنسان ِ فطرت میں پیدائش دو طرح کی ہے۔ ایک بیج کی اور دوسری پیوند کی۔ہرشے بیج سے پیدا ہوتی ہے۔ یعنی جس جنس کا بیج بویا جائے تو اُس کے پودے میں انگور نہیں الگ سکتے بلکہ گہیوں۔ کیا انجیر کے درخت میں زیتون اورانگور میں انجیر پیدا ہوسکتے ہیں ؟ (یعقوب ۳: ۱۲ ) اوریہ بدیہی حقیقت ہے کہ بیج کی خاصیت بھی ہتمام وکمال پھل میں ظاہر ہوتی ہے۔ مثلاً اگر ایک تُرش خاصیت کا بیج بویا جائے و اُس کے پودے میں ضرور تُرش پھل ہی لگیں گے۔ یہ تو ہے بیج کی پیدائش اب دوسری پیوند کی پیدائش ہے۔ یہ امر زیادہ تشریخ کا محتاج نہیں کہ پیوند لگانے سے کسی بھی پھل کی خاصیت  تبدیل کی جاسکتی ہے۔ وہ درخت جو تُرش خاصیت کے بیج کی پیدائش ہے اورجس میں ہمیشہ تُرش پھل کا لگناضروری ہے شیرں خاصیت کی شاخ سے پیوند لگانے سے یکسر تبدیل ہوجاتا ہے۔ اورآیندہ اُس میں کبھی کھٹے پھل نہیں لگتے۔ اس مثال سے ہمیں انسان کی نئی پیدائش کا ثبوتی تصور حاصل ہوتا ہے ۔انسان کی پیدائش بھی دو طرح پرہے۔ جسمانی یا تخمی پیدائش۔اورروحانی پیدائش (نئی پیدائش ) حضرت ابوالبشر (آدم ) جنس ِانسانی کا گویا بیج تھا جس سے تمام نوع ِانسانی کی پیدائش ہوئی۔ وہ خاکی تھا اوراُس کی طبیعت گناہ آلودہ ہوگئی۔ اس لئے اُس کی ناپاک طبیعت کا اثر اُس کی تمام نسل میں پشت درپشت متوارث طورپر چلا آیا۔ جس طرح ایک آدمی کے سبب سے گناہ دُنیا میں آیا۔ اورگناہ کے سبب موت  آئی اوریوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی۔ اس لئے کہ سب نے گناہ کیا (رومیوں ۵: ۱۲) پہلا آدمی زمین سے یعنی خاکی تھا۔۔۔۔ اورجس طرح ہم  اُس خاکی کی صورت پرہوئے (۱۔ کرنتھیوں ۱۵: ۴۷؛ ۴۹ ) یہ ہے انسان کی جسمانی (تخمی ) پیدائش کا حال جس میں گناہ کا متوار ث میلان اورنوع ِ انسان کے فردِ اول کی طبعی ناپاکی کا اثر بدیہی طورپر ظاہرہے۔ اس لئے کلام ِ الہٰی کا یہ فرمان حقیقت پر مبنی ہے کہ '' سب نے گناہ کیا اورخُدا کے جلال سے محروم ہیں۔ (رومیوں ۳: ۲۳؛ واعظ ۷: ۲۰ ) اسی واسطے انسان میں حقیقی نیکی کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ اب رہی رُوحانی پیدائش وہ گویا پیوند کی پیدائش ہے جس طرح تُرش پھل کو بدلنے کے لئے ایک شیریں شاخ کا پیوند لازمی ہے۔ کیونکہ تُرش کے ساتھ تُرش ہی پیوند لگانا تحصیل حاصل ہے۔ اس سے کوئی تبدیلی واقع نہ ہوگی۔ اسی طرح انسان کی موروثی گناہ آلودہ طبیعت کو تبدیل کرنے کے لئے ایک بے گناہ اورپاکیزہ شخصیت کی ضرورت ہے جس کے ساتھ رُوحانی طورپر پیوند ہوجانے سے انسان کی پُرانی مائل یہ بدی طبیعت ایک نیک وپاک طبیعت میں تبدیل ہوجائے۔ اس کے متعلق کلام کا فرمان ملاحظہ ہو۔ کیونکہ جس طرح ایک ہی شخص (آدم) کی نافرمانی سے بہت سے لوگ گنہگار ٹھہرے اُسی طرح ایک کی فرماں برداری سےبہت سے لوگ راستباز ٹھہریں گے (رومیوں ۵: ۱۹ ) پس لامحالہ وہ نئی پیدائش ہمیں خُداوند مسیح کے ساتھ پیوند ہونےسے حاصل ہوتی ہے۔ اُس نے فرمایا ،مَیں  اُس میں دہی بہت پھل لاتا ہے کیونکہ مجھ سے جُدا وکر تُم کچھ نہیں کرسکتے۔(یوحنا ۱۵: ۵ ) اس لئے کہ جب تو زیتون کے اُس درخت سے کٹ کر جس کی اصل جنگی ہے اصل کے برخلاف اچھے زیتون میں پیوند ہوگیا تو وہ جو اصل ڈالیاں ہیں اپنے زیتون میں ضرور ہی پیوند ہوجائیں گی۔(رومیوں ۱۱: ۲۴ )

      بیج والی پیدائش ہمیشہ نیچے سے ہوتی ہے اورپیوند والی اُوپر سے خُداوند مسیح نے فرمایا۔ تُم نیچے کے ہومَیں اُوپر کا ہوں۔ تُم دُنیا کے ہو مَیں دُنیا کا نہیں ہوں (یوحنا ۸: ۲۳ ) جس طرح ہم اُ س خاکی کی صوت پرہوئے اُسی طرح اُس آسمانی کی صورت پر بھی ہوں گے (۱۔ کرنتھیوں ۱۵: ۴۹) اورجو لوگ اپنے گذشتہ گناہوں سے سچی توبہ کرکے خُداوند مسیح پر ایمان لاکر اُس کے سات روحانی رنگ میں پیوند ہوجاتے اور نئی پیدائش حاصل کرتے ہیں اُن کے متعلق کلام فرماتا ہے۔تُم فانی تخم سے نہیں بلکہ غیر فانی سے خُدا کے کلام (مسیح ) کے وسیلے جو زندہ اورقائم ہے۔ نئے سرے سے پیدا ہوئے ہو (۱۔پطرس ۱: ۲۳ ) جو کوئی خُدا سے پیدا ہوا ہے وہ گناہ نہیں کرتا۔کیونکہ اُس کا تُخم اُس میں بنا رہتا ہے بلکلہ وہ گناہ کرہی نہیں سکتا۔ کیونک خُدا سے پیدا ہوا ہے(۱۔ یوحنا ۳: ۹ ؛کلسیوں ۳: ۹- ۱۰ ؛فلپیوں ۳: ۲۱؛ ۲۔ کرنتھیوں ۴: ۱۶ ) جو جسم سے پیدا ہوا ہے جسم ہے۔ اورجو روح سے پیداہوا ہے رُوح ہے (یوحنا ۳: ۶) جس بیج (آدم ) سے نسل انسانی کی پیدائش ہوئی وہ ناپاک تھا۔ اس لئے تمام نسل کا ناپاک ہونا عقلی ونقلی ہر دو طریق سے ثابت ہے۔ اس لئے خُدا کا فرمان انسان کے لئے ہے۔ مَیں جانتا تھا کہ تُوبالکل بے وفا ہے اوررَحم ہی سےخطا کار کہلاتا ہے(یسعیاہ ۴۸: ۸) زبور ۵۱: ۵۵۸ : ۳ ؛پیداش ۸: ۲۱) اوربغیر نئی پیدائش حاصل کئے انسان کا خُدا سے ملاپ ممتنع ہے کیونکہ اجتماع ضدین بحال ہے۔ اس لئے خُداوند مسیح نے نیکدیمس سے کہا۔ مَیں تجھ سے سچ سچ کہتاہوں کہ جب تک کوئی نئے سے سے پیدا نہ ہووہ خُدا کی بادشاہت کو دیکھ نہیں سکتا (یوحنا ۳:۳ )۔

      اوررجس طرح وضاحات مافوق سے ظاہر ہے نئی پیدائش خُداوند مسیح کے ساتھ ایمانی ورُوحانی رنگ میں پیوند ہونے سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ یہ ایزد تعالیٰ کا مقرر کردہ واحد ذریعہ ہے جس سے نوع انسان کو مرض گناہ سےنجات اورخُدا کی مقاربت مونسلت حاصل ہوسکتی ہے۔ ہم نے مسئلہ گناہ کے بیان میں یہ بھی ذکر کیا تھا کہ چونکہ ہمیشہ اشرف کے بگاڑ سے ادنیٰ کا بگاڑ لازم آتا ہے۔ لہٰذا گناہ نے انسان کی رُوحانی زندگی پر اثر انداز ہوکر رُوح کو مُردہ کردیا۔ جس سے جسم بھی بطور لازمی نتیجہ کے قبضہ موت میں آگیا۔ اگر  گناہ زندہ رہے تو روح مُردہ رہے گی اورجب رُوح مُردہ ہوگی تو جسم بھی موت کے قبضہ میں رہے گا۔(رومیوں ۷: ۹ ) خُداوند مسیح کے ساتھ پیوند ہونے سے گناہ مُردہ ہوجاتا اوررُوح زندہ ہوجاتی ہے۔ اور رُوح کے طورپر زندہ ہونے سے جسم بھی قبضہ موت سے چھوٹ کر بقا کوحاصل کرتا ہے۔ وہ پھر مرنے کے بھی نہیں (لوق ۲۰: ۳۶ ) اس لئے اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ دُنیا مخلوق ہے۔پرانی چیزیں جاتی رہیں۔ دیکھو وہ نئی ہوگئیں (۲۔ کرنتھیوں ۵: ۱۷)۔

      خُلاصہ مطلب

      1. اختیار طریقہ سے گناہ کا ازالہ اورنجات محال ہے۔
      2. جبری طریقہ سے گناہ کا ازالہ اورنجات محال ہے۔
      3. بذریعہ تناحقیقی نجات اس لئے محال ہے کہ اس کا تمام تر دار ومدار کرموں (اعمال ) پر ہے۔ لیکن عمل سے پہلے قوت ِ عمل درکار ہے۔
      4. تزکیہ نفس وریاضت ِ جسمانی سے نجات محال ہے۔
      5. اعمال حسنہ سے نجات ملتی ہے۔ اس عقیدہ کے حامی اعمال ِحسنہ کو شرط ارنجات کو مشروط ٹھہراتے ہیں۔ لیکن دراصل نجات شرط اوراعمال ِ حسنہ مشروط ہیں۔ یعنی نیک اعمال سےنجات حاصل نہیں ہوسکتی بلکہ نجات حاصل ہونے سے نیک اعمال ہو سکتے ہیں۔
      6. توبہ محض سے نجات محال ہے۔اگرچہ حصولِ نجات کے لئے توبہ ضروری ہے۔
      7. خُدا کی صفات عدل ورحم کو ملحوظ رکھتے ہوئے انسان خود اپنی نجات کا انتظام نہیں کرسکتا۔
      8. قسری ملاپ سے انسان کی فعل مختاری قائم نہیں رہتی۔ لہٰذا حصول نجات کا یہ طریقہ معقول ہے۔
      9. طبعی موافقت نجات کے لئے ضروری ہے لیکن پاک طبیعت کوحاصل کو لینا انسان کی دسترس سے باہر ہے۔
      10. نجات بالکفارہ حصول ِ نجات کے لئے آخری صحیح اورمعقول طریقہ یہی ہوسکتا ہے۔

      ایک اعتراض کاجواب

      اکثر غیر مسیحی لوگ ہمارے معتقدات سے عدم واقفیت کے باعث یہ اعتراض کیا کرتے ہیں۔ کہ جب خُداوند مسیح نے  خطاکاروں کے عوض میں اپنی جان بطور مبادلہ کے دے دی تواب وہ آزاد ہیں کہ کفارہ مسیح کی آڑ میں رُوسیاہی کے کام کیا کریں۔ کیونکہ کفارہ ہوچکا اور یہ سوال ہمیشہ مقلدان ِمسیح پر ہی کیا جاتا ہے۔ واضح ہوکہ مُقدس پولوس رسول خود ہی اس سوال کو پیدا کرکے اُس کا معقول جواب دیتا ہے۔ ملاحظہ ہو(رومیوں ۶: ۱- ۴ ؛ ۱۵- ۱۸ ) ہم ایسے معترضوں سے مود بانہ طورسےپوچھتے ہیں کہ ایک مریض جو مرض سے تندرست کیاگیا کیا وہ اس لئے بار بار بیمار ہونے کی کوشش کرے کہ ادویہ اورحکیم اُس کے علاج کے لئے موجود ہیں ؟ ہرگز نہیں۔ کوئی صحت یافتہ آدمی کبھی دوبارہ بیمار ہونےکی خواہش نہیں کرتا اگرچہ اُس کی شفاء کے سامان بکثرت موجود ہوں۔ اوراگر کوئی اسی غلط فہمی کے زیر ِ اثر مسیح پر ایمان لانے کے بعد بھی دیدہ ودانستہ گناہ پر دلیر ہوجائے تو مسیح کا کفارہ اُس کو پناہ نہیں دے سکتا۔ وہ سزائے عدالت سے ہرگز بچ نہیں سکتا۔ کیونکہ جن لوگوں کے دل ایک بار رو شن ہوگئے اور وہ آسمانی بخشش کا مزہ چکھ چکے اوررُو ح القدس میں شریک ہوگئے اورخُدا کے عمدہ کلام اورآئندہ جہان کی قوتوں کا ذائقہ لے چکے۔ اگروہ برگشتہ ہوجائیں تو اُنہیں توبہ کے لئے پھر نیا بنانا ناممکن ہے۔ (عبرانیوں ۱: ۴- ۸ ) کیونکہ حق کی پہچان حاصل کرنے کے بعد اگر ہم جان بوجھ کر گناہ کریں تو گناہ ہوں کی کوئی اورقُربانی باقی نہیں رہی (عبرانیوں ۱۰ : ۲۶ ) اُن پر یہ سچی مثل صادق آتی ہے کہ کُتا اپنی قے کی طرف رجوع کرتا ہے اور نہلائی ہوئی سورنی دلدل میں لوٹنے کی طرف (۲۔پطرس ۲: ۲۲)۔

      جب ایک مُفلس ونادار کا ایک ہزار روپے کاقرضہ کسی رحمدل صاحب ِ حیثیت نے ایک دفعہ بھردیا اورا ُس سےتاکید اً کہہ دیا کہ جا پھر قرض نہ لینا ورنہ مَیں ذمہ دارنہ ہوں گا۔ توباوجود اس احسان اورتاکید کے اگر وہ دیدہ ودانستہ پھر مقروض ہوجائے تو اپنے کئے کا پھل پائے گا۔ بقول ہرروز عدہ نیست کہ حلوہ خورد کسے۔ خُداوند مسیح اپنی زمینی زندگی میں جب کبھی کسی کے گناہ معاف کرتے تھے تو فرماتے تھے۔ جاپھر گناہ نہ کرنا (یوحنا ۸: ۱۱) پھر گناہ نہ کرنا ایسا نہ ہو کہ تجھ پر اس سے بھی زیادہ آفت آئے (یوحنا ۵: ۱۴ )۔

      ایک اور اعتراض کی امکانی گنجائش نظر آتی ہے۔ اوروہ یہ ہے کہ شاہد کوئی موجود ہ مسیحیوں کی کوتاہیوں اورخامیوں کودیکھ کر یہ کہے کہ جب کہ مسیح کے ساتھ پیوند ہونے سے انسان نیا مخلوق ہوجاتا ہے اورپُرانی ناپاک طبیعت سے اُس کو بکلی نجات حاصل ہوجاتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ مسیحیوں کی عملی زندگیوں سے اس دعویٰ کا عملی ثبوت نہیں ملتا ؟ اس کے متعلق یہ عرض ہے کہ یہ تو صاف ظاہر ہے کہ تبدیلی پورے طورپر پیوند ہوئے بغیر نہیں ہوا کرتی۔ اگرپیوند میں کوئی نقص رہ جائے توتبدیلی محال ہے۔ بے شمار ایسے مسیحی بھی موجود ہیں جو صرف نام کے مسیحی ہیں اور اُن کا چلن وہی ہے جو مسیح پر ایمان لانے سے پیشتر تھا۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں مسیح کے ساتھ پیوند نہیں ہوئے۔ ایک تُرش انگور کا پودا شیریں انگور کے نزدیک لگا دیا جاتا فہے۔ اوراُس میں مطلق تبدیلی واقع نہیں ہوتی اوردوسرے ترش پودے کو شیریں انگور کے ساتھ پیوند کردیا جاتا ہے۔ اُس میں رفتہ رفتہ تبدیلی ہونی شروع ہوجاتی ہے یہی فرق نقلی اوراصلی مسیحی کا ہے۔ پس بعض نام نہاد نقلی مسیحیوں کی بُری یسرت کو ملحوظ رکھتے ہوئے لاکھوں دیندار مسیحیوں کو بھی ویسے ہی گندم نما جو فروش سمجھنا جائز نہیں۔ ایک ضعیف البصر کی قدتِ بصارت کے لحاظ سے اصحاب ِ بصارت قویہ کے مرئیات سے انکار سے ایک صاحب ِ سماعت صحیحہ کی قوت ِ سماعت کا انکار لازم نہیں آتا۔ کھوٹے اورکھرے روپے میں بناوٹ وزن ، مقدار اورچہرہ شاہی کے لحاظ سے مطلق فرق نہیں ہوتا۔ لیکن اُن کی آوازوں سے اُن کا کھوٹا یاکھر ا ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح نقلی اور مسیحی میں وجہ امتیاز اُن کی بدسیرتی اورخُوش سیرتی ہے۔اچھا درخت پھل لاتا ہے۔ا وربُرا درخت بُرا پھل لاتا ہے (متی ۷: ۱۷ )۔

      علاوہ ازیں ایسے مسیحی بھی ہیں جو مسیح کے ساتھ اچھی طرح پیوند ہوچکے۔ اوراُس کی پیوند کی تایثر واقعی اُن کی عملی زندگیوں سے ظاہر ہوتی ہ ے۔ تبدیل شُدہ ہیں لیکن بعض وففہ پُرانی طبیعت کا خفیف سااثر اُن میں باقی رہ جاتا ہے۔ اوراُسی اثر کے ماتحت و شازونادر ناکردنی افعال کے مرتکب بھی ہوجاتے ہیں۔ مسیح کے ساتھ پیوند ہوجانے کے بعد بھی اکثر اُن میں پرانی طبیعت کی کوئی جڑ پھوٹ نکلتیت ہے۔ جیسا پولوس رسول فرماتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی کڑوی جڑپھوٹ کرتمہیں دُکھ دے اوراُس کے سبب سے اکثر لوگ ناپاک ہوجائین (عبرانیوں ۱۲: ۱۵ ؛استثنا ۲۹: ۱۸ ) اگرچہ چراغ بجھا دیا جائے تاہم اُس کی کالک کانشان چراغدان پررہ جاتا ہے۔ لیکن جب مکان کی سفیدی کرنے کا وقت آتا ہے تو وہ کالک بھی مٹ جاتی ہے۔ اگرچہ ایک قلعہ توڑدیا جائے تاہم اُس کے کھنڈرات کچھ دیر تک پڑے رہتے ہیں۔ لیکن کھنڈرات میں قلعہ کی شان موجود نہیں ہوتی۔ ایک وقت آتا ہے کہ وہ کھنڈرات بھی اُٹھادئے جاتے ہیں۔ اگر چہ کمان میں تیرے نکل جاتا ہے پر کچھ دیر تک سابقہ وقت کے اثر سے پھر بھی چلا متحرک رہتا ہے۔ وقت پاکر خود ہی ساکن ہوجاتا ہے۔پیوند لگانے کے بعد اُسی روز درخت تبدیل ہوکر اچھے پھل دینے نہیں لگ جاتا بلکہ اُس کی تبدیلی بتدریج ہوتے ہوئے ایک خاص اورمقررہ وقت میں انجام کو پہنچتی ہے۔ اس حال انسانی طبیعت کی تبدیلی کا ہے۔ نجات ایک مسلسل تدریحی حالت حام ہے۔ جس طرح کوئی شخص اپنی تمام عمر ایک ہی دن میں بسر نہیں کر سکتا۔ اُسی طرح روحانی کمالیت کامل پاکیزگی اورالوہیت نما انسانیت بات یافتہ لوگوں کے اندر فوراً پیدا نہیں ہوجاتی۔ نجات کے بھی مدراج ہیں۔ مگر جب ہم سب کے بے نقاب چہروں سے خُداوند کا جلال اس طرح منعکس ہوتا ہے جس طرح آئینے میں تو اُس خُداوند کے وسیلےل سے جو رُوح ہے ہم اُسی جلالی صورت میں درجہ بدرجہ بدلتے جاتے ہیں (۲۔ کرنتھیوں ۳: ۱۸ )۔

      نجات کے مدارج

      انسان کے اندر چار قوتیں مسلم ہیں۔ یعنی قوت ِ شہوانی۔قوت ِ بہمی قوت ِ ملکی مسیح پر ایمان لانے سے پیشتر اُس کی قوت ِ ملکی ہرسہ قوتوں سے یہاں تک دبی ہوئی ہوتی ہے کہ اصلی نیکی وپاکیزگی کی صورت اُس سے پوشیدہ رہتی ہے۔ اور وہ بت پرستی گورر پرستی ،عناصر پرستی اور فطرت پرستی کاوالا و شیدا اورخالص توحید پرستی سے کوسوں دور ہوتا ہے۔ اور ایسی باطل پرستی اورہرقسم کا گناہ اُس کا مرغوب معلوم ہوتا ہے۔ اورایسی مکروہ زندگی بسرکرتے ہوئے بھی وہ اپنے آپ کو پاک سمجھا کرتا ہے۔ لیکن مسیح پر ایمان لاتے ہی اُس کی زندگی میں ایک انقلاب ِعظیم برپا ہوجاتا ہے اوراُس کی زندگی بتدریج مندرجہ ذیل چار مدراج کو طے کرتی ہے۔

      درجہ اول۔ اس پہلے درجہ میں ایماندار کے اندر نیکی ایک حصہ اورگناہ تین حصہ ہوتا ہے۔اور وہ ہمیشہ یہ محسوس کرتارہتا ہے کہ مَیں بڑا گنہگار ہوں۔ یہاںتک کہ جس نیکی کا ارادہ کرتا ہوں وہ تو نہیں کرتا۔ مگر جس بدی کا ارادہ نہیں کرتا اُسے کرلیتا ہوں (رومیوں ۷: ۱۹ ) وہ اپنی گناہ آلود مکروہ زندگی سے نفرت کرتا اور اپنے آپ کو سب سے بڑا گنہگار سمجھتا ہے (۱۔تمتھیس ۱: ۱۵ ) اورمسیح کی نزدیکی میں رہنا زیادہ پسند کرتاہے۔

      درجہ دوم۔اس درجہ میں ایماندار کے اندر نیکی دو حصہ اورگناہ بھی دو حصہ ہوتا ہے۔ یعنی نیکی اورگناہ کا میزان مساوی ہوتا ہے۔ اور ایماندار مسیح کے ساتھ پیوند ہوکر اپنے اندر پہلے کی بہ نسبت زیادہ قوت محسوس کرتاہے۔ اوررگناہ پر غالب آنے کے لئے رُوح القدس کی امداد حاصل کرتا ہے (رومیوں ۸: ۲۶ ) اورکمزوری میں زور آور ہوتا جاتا اورگناہ کی کراہیت کو بزور محسوس کرتاہے۔ اس درجہ میں رُوح کے اندر ِسفلی وعلوی عناصر میں جنگ ہوتی ہے۔ اوروہ گا ہے گناہ ہر غالب اورگاہے اُس سے مغلوط ہوتا رہتا ہے۔

      درجہ سوم۔اس درجہ میں ایماندار کے اندر نیکی تین حصہ اورگناہ صرف ایک حصہ رہ جاتا ہے۔یعنی مسیح کی قوت کی تایثر سے وہ روحانی طورپر کافی قوی ہوجاتا اوربہت شازو ناد ہی گنا سے مغلوب ہوتا ہے۔ اورجب  کبھی کسی خفیف سے خفیف گناہ کا ارتکاب بھ اُس سے ہوجاتا ہے تو اُس کے دل میں ا س قدر اضطراب پشیمانی اورپچھتاوا پیدا ہوتا ہےکہ وہ پھر کبھی اُ س گناہ کے نزدیک نہیں پھٹکتا۔ اوررُو ح القدس ضمیر کو گناہ کے زنگ سے صاف کرکے اس قدر ذکی الحس بنادیتا ہے کہ وہ معمولی کوتاہیوں پر بھی اپنے فرائض کو نہایت سختی سے انجام دینے لگتا ہے۔ اس درجہ میں پہنچ کر ایماندار کو خیالی گناہوں سے بھی جنگ کرناپڑتا ہے۔اُس کی نفسانی خواہش قریب قریب مردہ ہوجاتی ہے۔ اُس کا میلان ِطبع گناہ کی طرف سے ہٹ کر نیکی کی طر ف لگ جاتا ہے۔پھر اُس س عملی گناہ تو شاز ونادرہی سزد ہوتا ہے۔ صرف خیالی گناہ کبھی کبھی اُس کی ضمیر کو ٹھوکر لگاتا ہے۔ اورضمیر بدی کے خیال ہی چونک اُٹھتا ہے۔ اورا س قدر قوی اورسریع الحس ہوجاتا ہے ک انسان کو کبھی دائرہ جائز سے نکل کر دائزہ ناجائز وناواجب میں جانے نہیں دیتا۔ اورانسا ن کی ہرسہ سفلی قویٰ قوت ِ ملکی کے تابع ہو جاتی ہیں۔ اوروہ اپنی زندگی کو ایک غالب زندگی سمجھتا ہے۔ تو بھی پُرانی انسانیت کا خفیف سااثر اُس کے اندر باقی رہ جاتا اور اکثر اوقات اُس کی رُوح پر خلش لگاتا ہے۔لیکن ایماندار اب گناہ کا غلام نہیں بلکہ راست بازی کاغلام ہوجاتا ہے۔اوردیگر گناہ زدہ رُوحوں کو بچانے کی تڑپ اُس کے اندر بہت بڑھ جاتی ہے۔

      درجہ چہارم۔ اس درجہ میں ایماندار کے اندر نیکی چار حصہ اورگناہ صفر ہوتا ہے۔ یعنی وہ سراسر پاک وراست بن کرخُدا کی طبیعت پر مطبوع ہوجاتا اورگناہ ونفسانیت کی غلامی سے کلی طورپر آزاد ہوجاتا ہے۔ اب خیالی گناہ کا بھی امکان مٹ جاتا ہے۔ بداندیشی اوربدخیالی کے لئے اُس کے دل میں مطلق گنجائش ہی نہیں رہتی اور وہ کامل ِ انسان اورخُدا کے بیٹے کا ہم شکل بن جاتا ہے۔تمام سفی طاقتیں اُس کی قوت ِ ملکی کے تابع ہوجاتی ہیں۔ اورخیالی یاعملی گناہ کا پھر کوئی امکان نہیں رہتا۔ اوراس چوتھے درجہ کے کامل ایماندار کے متعلق کلام یہ فرماتا ہے جو کوئی خُدا سے پیدا ہوا ہے وہ گناہ نہیں کرتا۔ کیونکہ اُس کا تخم اُس میں بنا رہتا ہے بلکہ وہ گناہ کرہی نہیں کرسکتا۔ کیونکہ خُدا سے پیدا ہوا ہے (۱۔ یوحنا ۳: ۹ ) وہ الوہیت نما انسانیت یا خُدا کی صورت جو گناہ کے باعث مٹ چکی تھی۔ ایسے ایمانداروں کو پوری کمالیت کے ساتھ حاصل ہوجاتی ہے۔ اوروہ پھر خُدا کی مانند اورخُدا کی صورت پربن کر اُس کے فرزند کہلاتے اوروصال ِالہٰی وہ مقاربت ِ وجود لامتناہی سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ یہ نجات کا کمال ہے۔

      کفارہ مسیح کی وسعت بلحاظ تاثیر

      خُداوند مسیح نے تمام جہان کے گناہوں کی معافی کی خاطر کفارہ دیا۔ یہ نہیں کہ اُس کی قربانی کے وقت سے لے کر قیامت کے زمانے تک کے درمیانی عرصہ کی دُنیا کے لئے بلکہ آدم سے لے کریوم الحشر تک کی تمام دُنیا کے لئے اُس نے اپنی قیمتی قُربانی دی۔ کوئی ایسا زمانہ نہیں جس کے گناہوں پر اُس کی قُربانی اثر انداز نہ ہوسکے۔ یعنی اُس کا کفارہ آفرینش ِ عالم سے لے کر روز ِ عدالت تک کے گناہوں کو ڈھانپ دینے اور دھودینے کے لئے خُدا ئے حکیم وقدیر کے ازلی ارادہ میں موجود تھا۔ لیکن اُس کا ظہور ایک خاص زمانہ میں ہوا۔ چونکہ تقدم وتاخر زمانی خُدا کے لئے بے حقیقت ہیں۔ یہ تین زمانے تو محدودات ومحدثات ہی سے متعلق ہیں۔ خُدا کے لئے ہمیشہ حال ہی حال ہے۔ اس لئے اُس کی وسیع العلمی کے مطابق مسیح کا کفارہ ازل سے ہوچکا تھا۔ اورزمین کے وہ سب رہنے والے جن کے نام اُس برے (مسیح کی کتاب ِ حیات میں لکھے نہیں گئے جو بنائے عالم کے وقت سےذبح ہوا ہے۔ اُس حیوان (ابلیس ) کی پرستش کریں گے۔ (مکاشفہ ۱۳: ۸ ) جس نے ہمیں نجات دی اورپاک بُلاوے سے بلایا۔ ہمارے کاموں کے موافق نہیں بلکہ اپنے خاص ارادے اوراُس فضل کے موافق جو مسیح یُسوع میں ہم پر ازل سے ہوا۔ مگر اب ہمارے منجی مسیح یُسوع کے ظہور سےظاہر ہوا جس نے موت کو نیست اورزندگی اوربقا کو اُس خُوش خبری (انجیل ) کے وسیلے سے روشن کردیا (۲۔ کرنتھیوں ۹: ۹–۱۰ ؛ ۱۔ پطر س ۱: ۲۰ ؛کلیسوں ۱: ۲۶ ؛رُومیوں ۱۶: ۲۵- ۲۶ ؛ افیسوں ۳: ۹ ؛ ططس ۱: ۲ ؛ افسیوں ۱: ۹-۱۰ ؛رُومیو ں ۳: ۲۵ )۔

      کفارہ مسیح کے تحقق خارجی سے پیشتر خارجی سے پیشتر کی دُنیا اُس الہٰی انتظام پر جواُن کی مغفرت ونجات کے لئے خُدا کی رحمانیت عامہ اورفیضان تامہ سے ظہور پذیر ہوا ایمان لاکر اپنے گناہوں کی بخشش اورتقرب الہٰی کو حاصل کرسکتی ہے۔ اُسے خُدا نے اُس کے خون کے باعث ایک ایسا کفارہ ٹھہرایا جو ایمان لانے سے فائدہ مندہو تاکہ جو گناہ پیشتر (قبل از کفارہ مسیح ) ہوچکے تھے۔ اورجن سے خُدا نے تحمل کرکے طرح دی تھی اُن کے بارے میں وہ اپنی راستبازی ظاہر کرے۔ بلکہ اسی وقت اُس کی راستبازی ظاہر ہو۔ تاکہ وہ خود بھی عادل رہے ۔ اوریُسوع پرا یمان لائے اُس کو بھی راستباز ٹھہرانے والا ہو (رُومیوں ۳: ۲۵- ۲۶) اب کوئی سوال کرے گا کہ مسیح کے ظہور سے پہلے کی دُنیا اُس کے کفارہ پر کیسے ایمان لاسکتی ہے جس حال کہ وہ اُن کے زمانہ میں موجود ہی نہ تھا۔ واضح ہو کہ ہم مسیحی یہ مانتے ہیں اورکلام بھی اس کی شہادت دیتا ہے کہ خُداوند مسیح نے مُردوں میں سے زندہ ہوکر اورعالم ِ ارواح میں پہنچ کر اپنے ظہور سے پہلے کی تمام دُنیا کو بشارت دی۔ اِسی میں اُس نے جاکر اُن قیدی رُوحوں میں مُنادی کی جو اُس اگلے زمانہ میں نافرمان تھیں۔ جب خُدا نُوح کے وقت میں تحمل کرکے ٹھہرارہا تھا (۱۔ پطرس ۳: ۱۹- ۲۰ ؛ ۴: ۶ ) چُنانچہ اُن روحوں میں سے جو خُداوندمسیح کے پاک کفارہ پر ایمان لائی ہوں گی وہ بچ جائیں گی اورنجات پائیں گی۔ اورجوایمان نہ لائیں وہ سزائے عدالت کی مستوجب ٹھہریں گی۔ عدالت کا ایک خاص دن ہے اُس میں تمام باغی اورنافرمان رُوحیں سزا پائیں گی۔ یہ نہ سمجھ جائے کہ ازمنہ سالفہ کیارواح نیست ہوچکیں ہرگز نہیں۔ بلکہ خُدا نے ہرزمانے کی ارواح کوعدالت کے دن کے لئے قائم رکھا ہے۔ مگر اس وقت کے آسمان اورزمین اُسی کلام (کلمتہ اللہ ) کے ذریعے سے اس لئے رکھے ہیں کہ جلائے جائیں۔ اوروہ بے دین آدمیوں کی عدالت اورہلاکت کے دن تک محظوظ رہیں گے (۲۔ پطرس ۳: ۷ ) وہ بدکاروں کو عدالت کے دن تک سزا میں رکھنا جانتا ہے (۲۔ پطرس ۲: ۹ ؛ ۲: ۴ یہوداہ ۱: ۶ ) پس خُداوند مسیح کی قُربانی تمام زمانوں کے گنہگاروں کے واسطے دی گئی اورجیسے ایک قیمتی لعل اکیلا ہی لاکھوں روپے کے قرض سے سبکدوش کردیتا ہے اُسی طرح اُس واحد پاکیزہ اوربیش بہاالہٰی شخصیت کا فدیہ تمام زمانوں اورجہانوں کے قرضوں اورگناہوں کے لئے کافی ٹھہرا۔جس طرح ایک ہی شخص کی نافرمانی سے بہت سے لوگ گنہگار ٹھہرے اُسی طرح ایک کی فرماں برداری سے بہت سے لوگ راستباز ٹھہریں گے (رومیوں ۵: ۱۹ )۔

      خُداوند مسیح کی قُربانی میں دُنیا کی و ہ سب قُربانیاں جوکسی نیک اورراست اصول کی وفادری اورحمایت میں دی گئیں ایسے چھپپ جاتی ہیں جیسے آفتاب کے لااتنہا نُور میں ستاروں کی ننھی ضیا پاشی چھپ جاتی ہے۔ مسیح کی موت میں ابدی اورغیر فانی زندگی کا راز سربستہ تھا جو اُس کے زندہ ہونے پر بے نقاب ہوگیا۔ جو موت نالائق حرکات اورناراست افعال کے ارتکاب کانتیجہ ہو وہ واقعی قابل ِ نفرت اورلعنتی موت ہوسکتی ہے لیکن وہ موت جو ناراستوں اورگنہگاروں کو بچانے کے لئے ایک راست باز پرآتی ہے وہ بذاتہ ِ لعنتی موت  نہیں جو زر ِ فدیہ کسی قیدی کی آزادی کی خاطر دیاجاتا ہے۔ وہ روپیہ لعنتی نہیں ہوتا بلکہ اُس کی لعتن کو دھودینے اورمٹادینے والا۔لعنت بلحاظ جُرم کے ہوتی ہے نہ کہ فدیہ کے لحاظ سے۔مسیح کی موت کو لعنتی حالت کی نسبت سے کہا گیا ہے۔ لعنت کے اصل مفہوم کا اُس کی ذات پاک پر اطلاق مطابقی اورواقعی نہیں ہے۔ اُس راست باز نے ناراستوں کی خاطر دُکھا اُٹھایا (۱۔ پطرس ۳: ۱۸ ) نہ کہ اپنی کسی ناراستی کے باعث۔ اسی واسطے موت کا دُکھ سہنے کے سبب جلال اورعزت کاتاج اُسے پہنایا گیا ہے (عبرانیوں ۲: ۹ ؛فلپیوں ۲: ۹–۱۱ ) پس اَے مریضان گناہ ! اورعاصیان بے پناہ ! آج ہی بنیہ غفلت کانوں سے نکالئے۔ اورذرا ہوش سنبھالئے۔ دیکھو اب قبولیت کا وقت ہے دیکھو یہ نجات کا دن ہے (۲۔ کرنتھیوں ۶: ۲ )۔

      ابدی زندگی اورابدی سزا

      اکثر غیر مسیحی لوگ ہمارے متعقدات ومسلمات سے عدم وافقیت کے باعث ابدی زندگی اورابدی سزا(بہشت ودوزخ ) کے مسئلہ کے متعلق غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں۔ ہم نہایت اختیصار سے اس مسئلہ لاجواب اورطریق ِصواب پر روشنی ڈالیں گے۔ جس سے شکوک وشہبات کی تاریکی دور ہوکر مطلع صاف ہوجائے گا۔ بشرطیکہ معرضین ومشککین تعصب وہٹ دھرمی کی سیاہ عینکوں کو چشم بصیرت سے اُتار کو امور ِ غیبیہ اورحقاق مخفیہ کی جستجو صدق دلی سے کریں۔

      واضح ہوکر جولو گ اس لائق ٹھہریں گے کہ اُس جہان کو حاصل کریں اورمردوں میں سے جی اُٹھیں اُن میں بیاہ شادی نہ ہوگی۔ کیونکہ وہ پھر مرنے کے بھی نہیں۔ اس لئے کہ فرشتوں کے برابر ہوں گے اورقیامت کے فرزندہ ہوکر خُدا کے بھی فرزند ہوں گے (لوقا ۲۰ : ۳۵- ۳۶ ) اوراُن کی سکونت کے لئے نیا آسمان اورنئی زمین ہوگی جن میں راستبازی بستی رہے گی۔ (۲۔ پطرس ۳: ۱۳ ) اُن کو بھوک اورپیاس نہ لگے گی۔ نہ دھوپ اورگرمی ستائے گی (مکاشفہ ۷: ۶ ) پھر وہاں موت نہ ماتم نہ درد نہ آہ نالہ رہے گا۔ پُرانی چیز یں جاتی رہیں گی اور کچھ نیا ہی ہوگا(مکاشفہ ۲۱: ۳- ۴ ) وہان اس مادی دُنیا کے لذائذوہ حظا ء خواہشات وعادات گناہ وظلمت مصائب وشدائد اوررنج وآلام وغیر اکی لازوال ابدی اورغیرفانی رُوحانی خوشیوں میں رخنہ اندازہی نہ کرسکیں گے۔ بلکہ اِلی تمام کدورات ِ سفلیہ۔ اغثیہ جسمانیہ اوراہویہ نفسانیہ کا وہاں قطعی امکان وگنجائش نہ ہوگی۔ اورراستباز جنتی لوگ خُدا کی عین ذات نہ ہوں گے بلکہ غیر ذات اور طبائع قدسیہ وصفات ِ ملکوتیہ کے باعث خُدا ئے قدوس سے مشابہت ومماثلت قریبی رکھیں فے۔ اُس وقت راستباز اپنے باپ کی بادشاہت میں آفتاب کی مانند چمکیں گے (متی ۱۳: ۴۳) اوردو تاابد خُدا کی مقاربت ومجالست میں رہیں گے اوراُس کی عبادت کریں گے (مکاشفہ ۲۲: ۳- ۵ ) جب راستباز اس فانی زندگی کو چھوڑ کر ابدیت کی پُرسر ولاانتہا عملداری میں داخل ہو کراس جسمانی زمانہ کی طرف دیکھیں گے تو وہ ایسا ہی مختصر نظر آئے گا گا جیسا وہ دواڑ ھائی گھنٹہ کا عرصہ سنیں میں فہلم کے اد کار ایک طول طویل زندگی کے واقعات دکھا ِ کر ڈراپ سین کرد یتے ہیں۔ اورتما اشیاء غیرفانی ہوکر خُداوند مسیح میں اُن کا مجموعہ ہوجائے گا (افسیوں ۱: ۱۰ ) لیکن خبیث الطنت وشریر النفس لوگ اسفل السافلین میں گرِ ائے جائیں گے۔ اورارستبازوں سے بالکل الگ رہ کر ابدی عذاب میں دانت پیسیں گے اورروئیں گے۔ اور کلام ِ مقدس میں جو دوزخ کی ہولناک تصویر آگ گندھگ اوردیگر ضرو ر رساں اشیاء کے پیرائے پیش کی گئی ہے۔ وہ محض تشبیہی بیانات ہیں۔ دراصل منکر ان خُدا کی طبائع کدورار تِ سفلیہ اورخواہشات ذمیمہ وقبیحہ کے باعث خُدا کی پاکیزہ طبیعت کے مخالف ومتضاد ہوں گی۔ اُن کا دُکھ وعذاب ہوگا کہ جس طرح تو اورچمگا دڑ بیاعث ِ تخایف طبائع آفتاب کے طلوع خوش نہیں ہوتے بلکہ بہت دکھ محسوس کرتے اور اندھیرے میں چھپ ہیں۔ اسی طرح بلکہ اس سے بدرجہا زیادہ سیاہ کار لوگ اپنی چُغد طینتی وخفاش فطرتی کے باعث خُدا کے جلال کی تجلی کی برداشت نہ کرسکیں گے۔ جیسے جب موسیٰ کا چہرہ خُدا کی حضوری میں رہنے کے باعث نہایت نورانی ہوگیا تھا تو لوگ اُس سے دہشت کھاتے تھے۔ یہاں تک موسیٰ کو اپنے چہرے پرنقاب ڈالنا پڑا۔ (خروج ۳۴: ۲۹ -۳۵ ؛ ۲۔ کرنتھیوں ۳: ۷ ) اورخُداوند مسیح کی شبیہ مبارک جب کوہ جرمون پر نورانی ہوگئی تو شاگرد بہت ڈرگئے تھے۔ (متی ۱۷: ۶ ؛ مرقس ۹: ۶) اسی طرح راست بازوں کے نورانی چہرے بھی ہلاکت  کے فرزندوں کے خرمن ِ امن وطمانیت پر بجلیاں گرائیں گے۔ خُدا کی زندگی سے خارج ہونا ہی اُن کی ہلاکت ہے۔ اورخُدا کی طبیعت کے اُن کی طبائع کا مخالف ہونا ہی اُن کا انتہائی دُکھ ہے۔ اسی وجہ سے خُدا کی تشہیاً بھسم کرنے والی آگ کہا گیا ہے۔ملاحظہ ہو استثنا ۴: ۲۴ ؛ ۹: ۳ ؛خرون ۲۴ : ۱۷؛ یسعیاہ ۳۳: - ۱۴ ؛عبرانیوں ۱۲: ۲۹ ) وہی آگ تھی جو جھاڑی میں لگی ہوئی موسیٰ کو نظر آئی۔ وہی آگ کا ستون بدلی میں ہوکر رات کو بنی اسرائیل کی رہبری کرتا تھا وہی آگ تھی جس کے متعلق مسیح نے فرمایا کہ مَیں دُنیا میں آگ لگانے آیا ہوں۔ وہی آگ عید ِ پنتکوست کے دن شاگردوں پر ظاہر ہوئی۔ اُسی نور نے دمشق کی راہ پر ظاہر ہوکر پولوس رسول کی ہدایت فرمائی تھی۔ وہی آگ تھی جر جزیرہ پتمس میں یوحنا پر ظاہر ہوئی۔ اوراُسی آگ (خُدا کی تجلی ) کا بیان منکر ان ِ خُدا کے خلاف یوں ہے۔ ہاں عدالت کا ایک ہولناک انتطام اورغضب ناک آتش باقی ہے جو مخالفوں کو کھائے گی (عبرانیوں ۱۰: ۲۷ ) صرف تضاد طبائع کی بات ہے ورنہ درزخ کسی آگ کی بھتی کا نام نہیں ہے۔ بندہ ان خیالات کا خود ذمہ داری ہے اوراس تعلیم کی جواز یا عدم جواز کی ذمہ داری میرے سوا اورکسی پر عائد نہیں ہوتی۔

      آخری التماس

      پیارے ناظرین ! آپ نے اس کتاب نے اس کتاب کے مطالعہ سے انجیل کے اسرار ِ سربستہ اوررموز دقیقہ کو کافی طورپر سمجھ لیا۔ اب نہایت غور طلب امریہ ہے کہ جس قدر رُوح جسم سے اعلیٰ ہے اُسی قدر رُوحانی بھی جسمانی غلامی سے بڑی ہے۔ جسمانی امراض تو جسم کے فنا ہونے پر مِٹ جاتے ہیں۔ لیکن رُوح غیر فانی ہے۔ اس لئے رُوحانی مر ض (گناہ ) رُوح کے ساتھ تاابدرہ کر اُس کو خُدائے قدوس سے ہمیشہ کے لئے جُدا رکھے گا۔ اورابدی سزا کا مستوجب ٹھہرایگا۔ تمام مذاہب کی غرض ِمُشترک نجات ہے۔ اور سب نجات نجات پکارتے بھی ہیں۔ لیکن حقیقی نجات دلانے کی صلاحیت سے بے نصیب ہیں۔ جس طرح ہماری مادی وجسمانی زندگی کو قائم رکھنے کے لئے خُدائے قدیروحکیم نے کار خانہ فطرت  میں ایک ہی سے سامان پیدا کردئے ہیں۔ اوروہ ہماری جسمانی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اس قدر مکتفی ہیں کہ  سے بہتر کی حاجت نہیں۔ اُسی طر ح ہماری رُوحانی زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بھی ایک ہی ایسا کافی ودانی اورکامل اتنظام ہونا چاہئے کہ جس سے بہتر کو امکان نہ ہو۔ اوروہ مسیحیت اوراُس کا ہیرو خُداوند مسیح ہے۔ واضح ہوکہ گھڑی اپنے بگڑے ہوئے پُرزوں کو خود ہی درست نہیں کرسکتی بلکہ گھڑی ساز جس کے ہاتھوں نے اُس کو بنایا۔ اسی طرح جس قدرت نے اس انسانی مشینری کو بنایا وہی قدرت اُس کے بگڑے ہوئے پرزوں کو درست کرسکتی ہے۔پس کلمتہ اللہ (مسیح ) تمام کائنات کا آفرنیندہ ہے (یوحنا ۱: ۱-۳ ؛کلیسوں ۱: ۱۵- ۱۷ ) اوروہی انسانی مشینری کے زنگ خوردہ (گناہ آلودہ ) پُرزوں کو درست کرکے دوبارہ اُس کو شبیہ اللہ پر بحال اورخُدا کی طبیعت پر مطبوع کرنے والا ہے (فلپیوں ۳: ۲۱؛ ۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۴۹ ) مُردہ نیبوں اورپیغمبروں اوراوتاروں سے اپنی نجات وشفاعت کی اُمید رکھنا ایسا ہی عبث ہے جیسے کوئی مجرم مردہ وکیل کی قبر پر جاکر اُس سے اپنے مقدمے کی پیروی کی التجا ئیں کیا کرے۔ مُردہ زندہ کی وکالت نہیں کرسکتا۔ خُداوند مسیح ابد تک گنہگاروں کی شفاعت ورستگاری کے لئے زندہ ہے۔ اسی لئے جو اُس کے وسیلے سے خُدا کے پاس آتے ہیں۔ وہ اُنہیں پوری پوری نجات دے سکتا ہے کیونکہ وہ اُن کی شفاعت کے لئے ہمیشہ زندہ ہے (عبرانیوں ۷: ۲۵ )

      پس اَے مُتلا شیان ِ جادہ حق اورطالبان راہ ِ نجات صحرائےضلالت کی بادیہ پیمائی سے باز آیئے۔ تعصب ،بٹ دھر می اورفضول کی نکتہ چینیوں کی گرد وغبار کو اپنے دامن دل سے جھاڑ یئے۔ اورمسیحیت کی مخالفت ہمیشہ اندھے ہوکر نہ کیجئے۔کب تک آپ سچائی کی تحقیرپر کمربستہ رہیں گے اورملک کی یہ ذلیل وپست ذہنیت کب تک فضائے امن کو مُکدر بنائے رکھے گی۔ یاد رکھو مسیحیت کی مخالفت کرنا خُداکی ہستی سے مُنکر ہونے کے مترادف ہے۔ آیئے اوراپنے گناہوں سے توبہ کیجئے۔ خُداوند مسیح پر جو خُدا کے رَحم وفضل کا ظہور ہے صدق ِ دل سے ایمان لاکر بپتسمہ پایئے۔ تو آپ نجات پائیں گے اورکسی دوسرے کے وسیلے سے نجات نہیں کیونکہ اس آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا۔ جس کے وسیلے سے ہم نجات پاسکیں (اعمال ۴: ۱۲ ) خُدا آپ کی ہدایت ورہنمائی فرمائے۔

      آمین !