(۲)

روح کے متعلق عقائد

یوں تورُوح کے وجود کے متعلق دنیا میں بے شمار عقائد ہیں۔ اوراُن سب کو بحث میں لانا محال بھی ہے اور غیر ضروری بھی۔ اگر ان تمام عقائد کو اجمالی طورپر دیکھا جائے توتین قسم کے خیال معلوم ہوتے ہیں۔ یعنی ایک خیال کے مطابق رُوح مُرکب امتزاجی ہے۔ دُوسرے خیال کے مطابق ازلی وابدی اور بالذاتہ ناقابل فنا ہے۔ اور تیسرے عقیدہ کے مطابق روح حادث ہے۔ اور اپنی فنا یا بقا کے معاملہ میں ذات واجب کی محتاج ہے۔اب ہم ان ہرسہ عقائد پر مختصر طورپر کریں گے۔

روح مرکب امتزاجی ہندوستان میں چار واکئے اس خیال کے قائل ہیں کہ روح مُرکب امتزاجی ہے۔ اس عقیدہ کا بانی برہسپتی تھا۔یہ لوگ خدا کی ہستی سے قطعی مُنکر ہیں اور اُن کا خیال ہے کہ جسم وروح میں کوئی مغائرت نہیں۔ اجزائے مادی کی ترکیب سے اجسام بنتے ہیں اور وہی اجزاء روح کا مادہ ہے جسم کے فنا ہونے سے رُوح بھی فنا ہوجاتی ہے۔ جیسے ریکارڈ کے ٹوٹنے پر اُس کی آواز بھی مٹ جاتی ہے۔ اگریہ درست مان لیا جائے تورُوح مادی شئے ٹھہری اور روح کی صفت ادراک ہے۔ پس درک مادہ کی صفت میں شامل ہوجائے گا۔ اور کوئی مادی شئے غیر مُدرک نہ رہے گی بلکہ مُدرک وغیرہ مُدرک کی تفریق اُڑجائے گی۔ مندرجہ ذیل دلائل سے بھی اس خیال کا ابطال ظاہر ہوتاہے۔

  1. علم حکمت اس حقیقت پر شاہد ہے کہ سات برس کے بعد جسم کے تمام پُرانے ذرات زائل ہوکر اُن کی جگہ نئے ذرات لے لیتے ہیں اور وہ جسم بالکل نیا جسم ہوجاتاہے۔ اسی طرح اسی برس کی عمر تک گیار دفعہ جسم انسانی قطعی بدل کر ہر دفعہ نئے ذرات سے ایک نیا جسم مرتب ہوتا رہتا ہے۔ اگر ادراک وعلم وغیرہ ذرات مادیہ کی صفت ہوتی تولازم تھا کہ ہرہفت سالہ معلومات پُرانے زائل شدہ ذرات کے ساتھ ہی زائل وناپید ہو جاتیں۔کیونکہ اُن معلومات کے سرمایہ دار جوذرات تھے جب وہ نہ رہے تو معلومات کا قائم رہنا محال ہوتا۔ اوراس طرح چودہ بردس کی عمر کے واقعات اکیس برس کی عمر میں۔اکیس برس کے اٹھائیس برس میں اور اٹھائیس برس کے پنتیس برس میں بھول جانے چاہئیں۔لیکن مشاہدہ اس کے خلاف ہے اوراگر یہ کہا جائے کہ پُرانے ذرات جدید ذرات کواپنے اثرات سپُرد کرجاتے ہیں اور یوں پُرانی معلومات وواقعات یادرہتے ہیں تواس صورت میں کسی بیمار کوکبھی تندرست نہ ہونا چاہیے۔ اور نہ ہی جاہل کو عالم۔لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوتا ۔ پس جسم کے ذرات کے باربار تبدیل وتحلیل ہوتے رہنے ۔ اورکسی عضو کے کٹ جانے کے باوجود بھی جس حقیقت کے علم وادراک وحافظہ وغیرہ میں سرموفرق نہیں آتا وہی روح ہے۔ اور وہ وغیر مادہ ہے۔ جبکہ ذرات کے تحلیل ہونے سے وہ زائل نہیں ہوتی۔ کسی عضو کے کٹ جانے سے کٹ نہیں جاتی۔ تواس میں شک نہیں کہ اگرجسم یکدم فنا ہوجائے توبھی وہ قائم رہے گی۔ پس وہی روح ہے۔ اور غیر مادی ومجرد وجود ہے۔
  2. واحد حقیقی وہ ہے جس کا کسی طرح سے قسمت وتجزیہ نہ ہوسکے اور نفس ناطقہ جسم ہو توجسم قابل قسمت وصاحب تجزیہ ہے۔ اورظاہر ہے کہ محل کی قسمت سے حال کا تقسیم ہونا لازم آتاہے۔ پس جسمیت نفس ناطقہ کی چاہتی ہے قسمت کو اور قسمت نفس ناطقہ کی چاہتی ہے قسمت معنی واحد حقیقی کو۔ اور واحد حقیقی کا انقسام محال ہے ۔ پس ثابت ہواکہ روح جسم نہیں بلکہ غیر مادی شے ہے۔
  3. جسم وہ ہے جو ابعاد ثلاثہ رکھے۔ (یعنی ۔طول۔ عرض وعمق) مگر عقل وعلم جوانسان میں موجود ہیں اُن کی نہ کوئی مقدار ہے اورنہ امتداد۔تمام اجسام مُرکبات قسمت وتجزیہ کوچاہتے ہیں۔ مگرعلم کا تجزیہ وقسمت محال ہے۔ لہذا علم خاصہ جسم نہیں۔ اگر کوئی غیر مادی ظرف ہمارے جسم میں اُس کے قیام کے لئے نہیں ہے توغیر مادی مظروف (علم) کا وجود بھی محال ہوگا۔ پس ثابت ہواکہ جو شئے غیر مادی علم کا ظرف ہےوہ روح ہے ۔لہذا رُوح غیر مادی ہے۔
  4. ترکیب امتزاجی کے اجزا عناصر ہیں۔ اور عناصر ہیں ادراک ۔علم کی استعداد مفقود ہے۔ پس جو صفت اجزا میں موجود نہ ہو وہ مُرکب میں کیسے پیدا ہوجائے گی۔ کوئی مُرکب شئے اپنے اجزا کی کیفیت سے الگ کوئی صفت پیدا نہیں ہوسکتی ۔ اگر پانچ گرم دوائیں ملا کر کسی کو کھلائی جائیں تواُس کے مزاج میں سردی پیدا نہ ہوگی ۔ اورنہ ہی سرد دواؤں کی ترکیب میں گرمی۔ کانچ کے ایک ذرے میں شیرینی نہیں توایک من بھر کا کانچ میں بھی شیرنی نہ ہوگی۔ ایک ریزہ سنگ میں علم نہیں توایک پہاڑ میں بھی علم نہیں ہے۔ درک اور عدم درک آپس میں نقیض ہیں۔ اوراس صورت میں ایک نقیض کودُوسرے نقیض کی علت ماننا پڑے گا۔ اوریہ محال ہے۔ لہذا یہ عقیدہ خلاف عقل اور بے بنیاد ہے۔

روح قدیم وقائم بالذات دوسرے خیال کے مطابق رُوح ازلی وابدی ۔ قائم بنفسہ اور مُتصف بصفاتہ ہے۔ ویدانیتوں کے کئی فرقے ہیں۔ اُن میں سے ایک فرقہ توروُح کے جداگانہ وجود کا قائل ہی نہیں۔ یعنی وہ اربعہ نہیں بلکہ خمسہ عناصر سے الگ کسی لطیف وجود کو نہیں مانتے ۔ اورجو ویدانتی رُوح کی ہستی کے قائل ہیں تووہ کثرت ارواح کے قائل ہی نہیں۔ بلکہ تمام مرئیات وغیرمرئیات میں ایک ہی رُوح مانتے ہیں ۔ اوراُسے برہم (خدا ) کا جزجانتے ہیں ۔ وہ تمام اشیاء مادی وغیر مادی کو خدا میں سے نکالتے ہیں۔ اس خیال کے حامی خدا کو مُرکب ثابت کرتے ہیں۔ چارواکئے وغیرہ توروُح کومُرکب امتزاجی مانتے ہیں۔ اور ویدانتی خدا کو مُرکب مانتے ہیں۔ آریہ لوگ بھی رُوح کوقدیم مانتے ہیں اوراُس کی قدامت کےاثبات میں بہت سے دلائل پیش کیا کرتے ہیں۔ لیکن ہم قدامت رُوح کے عقیدہ کی بطالت کومبرہن کرکے آخری اورصحیح عقیدہ پیش کریں گے۔

  1. امر مسلمہ ہے کہ ہرقسم کا علم وفہم اورعقل وادراک روح ہی کا خاصہ ہے اوریہ خاصہ رُوح کا ذاتی ہے۔ اورخاصہ ذاتی کا انفکاک اپنی ذات سے محال ہے۔ پس اگرروح قدیم ہے تواُس کی اپنی قدامت کا علم ضرور ہونا چاہیے ۔۔ لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کسی کی بھی رُوح کو اپنی قدامت اورازلیت کا نہ تو تفصیلی اورنہ اجمالی علم ہے۔اگر کہا جائے کہ رُوح کو اپنےحدوث کا بھی تو علم نہیں تو وہ حادث کس طرح ہوسکتی ہے۔ تو واضح ہو کہ حدیث و مذامت کا عدم علم ہی تورُوح کے حدوث کی سب سے زبردست اورمسکت دلیل ہے۔ خدامت کے لئے علم لازمی ہے۔ لیکن حدوث کے لئے لازمی نہیں۔ سوامی دیانند کا قول ملاحظہ ہو۔ جو اشیاء بدامی ہیں اُن کی صفات وفعل فطرت مدامی ہیں۔ اورغیدامی جوہروں کے غیر مدامی ہوتے ہیں۔ سوستیارتھ پر کاش ہے۔ صفحہ ۸۱۔ پس اگر رُوح انادی (قدیم )۔ ہے تو اس کا علم وگیان بھی مدامی ہونا چاہئے اورازیں جہت اُس کو اپنی قدامت کا بھی علم ضرور ہونا چاہئے۔ لیکن یہ بات نہیں ہے۔لہٰذا رُوح قدیم نہیں ہوسکتی۔ بلکہ حادث اورمخلوق وجو دہے۔
  2. رُوح کے تمام علوم وافعال تحصیلی (اکتسابی ) محدود متناہی ہیں۔ تو رُوح محل حوادث ہوکر خود حادث ٹھہری۔
  3. اگر کہا جائے کہ مرض نسیان یاجون ہونے پر طفیلی کے حالات یا د نہیں رہتے۔ یا یہ کہ کوئی یہ نہیں بتاسکتا کہ اُس نے گذشتہ سال ماہ مارچ کی دس تاریخ کے ساڑھے دس بجے کیاکیا تھا وغیرہ۔ تواول تو ان دلائل سے خود دیانند صاحب کا مندرجہ بالا قائم کردہ معیار قدامت ٹوٹ جاتا ہے۔ اور دوم یہ کہ ہم تفصیلی علم نہیں بلکہ اجمالی علم کا تقاضا کرتے ہیں۔رُوح کواپنی قدامت یا کم از کم کسی گذشتہ جنم کا اجمالی علم تو ضرور ہونا چاہئے۔ اگرماں کے رِحم میں بچے کو گیان نہیں ہوتا تو اُس وقت رُوح کا تعطل اوربے صفات ہونا ثابت ہے۔ حالانکہ مدامی اشیاء کے صفات وفعل وفطرت بھی مدامی مسلم ہیں۔ اب ذرا انصاف سے کہئے کہ حدوث ِرُوح میں کیا کَسر رہی؟
  4. رُوح کی تمام معلومات اکتسابی اورتحصیلی ہیں۔ یہ نہیں کہ کوئی بلااکتساب علم عالم ہوجائے۔ ہم اس مکتب فطرت میں رُوح کو بتدریج علوم وفنون کی تحصیل کرتے ہوئے پاتے ہیں۔ اُس کا عل لُدنی نہیں بلکہ اکتسابی ہے۔ اگر وہ قدیم ہوتی تو اُس کا علم ضرور لُدنی ہوتا۔ اورعلم لُدنی کی رُو سے جو معلومات ایک رُوح کی ہوتیں وہی فطرتی دلدلی طورپر تمام اَرواح انسانی کی ہوتیں۔ لیکن سب کے خیالات و آراء میں مختلف حقائق کے متعلق اختلاف بدیہی ہے۔ جس سے ثابت ہوا کہ رُوح کا علم لُدنی نہیں اورازیں جہت وہ قدیم بھی نہیں بلکہ حادث ومخلوق ہے۔

رُوح مخلوق وحادث

رُوح کے وجود کے متعلق آخری صحیح عقیدہ کی آئینہ دار بائبل مقدس ہے۔ اور یہ عقیدہ مندرجہ بالا دو عقائد کے بین بین رہتا ہے۔ اگر رُوح کو مُرکب امتزاجی ماننے ہیں تفریط ہے تو اُس کو قدیم اور قائم ماند ماننے اس  افراط ہے۔ اور افراط تفریط معیوب ہے۔ مسیحیت رُوح کو اُس کے اصل منصب ہے نہ تو گراتی ہے۔ اورنہ اُس کے جائزدرجہ سے اُس کو بلند کرنی ہے۔ بلند ہمارے مسلمات کے مطابق رُوح مخلوق وحادث وجود ہے۔ اس لئے کہ میرے حضور رُوح اورجانیں جو میں نے پیدا کی ہیں بیتا ب ہوجاتی ہیں۔ (یسعیاہ ۵۷: ۱۶) اورپھر خُدا کو ارواح کا خالق (پیدا کرنے والا ) ہونے کی حیثیت سے رُوحوں کا باپ کہا گیا ہے۔(عبرانی ۱۲: ۹) اورجیسے وہ خالق ہونے کی جہت سے تمام مصنوعات سفلیہ وعلویہ اورمرئیہ وغیر مرئیہ کا مالک ہے ویسے ہی وہ اَرواح کا بھی مالک ہے۔ خُداوند سارے بشر کی رُوحوں کا خُدا (گنتی ۱۶: ۲۲ ؛۲۷: ۱۶) اور رُوح صرف انسان میں ہے۔ لیکن انسان میں رُوح ہے (ایوب ۳۲: ۸)۔ حیوانات میں رُوح موجود نہیں ہے میصری تو انسان ہیں خُدا نہیں۔ اوراُن کے گھوڑے گوشت ہیں روح نہیں (یسعیاہ ۳۱: ۳)۔ حیوانات صرف جان اورجسم کا مجموعہ ہیں۔ اورانسان کا امتیاز حیوان سے اس طرح ظاہر ہے کہ اُس میں جان وبدن کے علاوہ رُوح بھی موجود ہے(ا۔تھسلینکوں ۵: ۲۳)۔

جس طرح جسم سے جسم پیدا ہوتاہے۔ اُس طرح رُوح سے رُوح پیدا ہوتا ہے۔ یعنی قانون ارثی کے مطابق بچے اپنے والدین سے پیدائش کے لحاظ سے جسم ورُوح دونوں حاصل کرتے ہیں۔ اوررُوح حادث ہے قدیم نہیں۔ یعنی ازلی تو نہیں بلکہ ابدی ہے۔ اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ باازتہ ابدی اورہنفسہ غیر فانی ہے ہرگز نہیں۔ بلکہ اُس کو ابدیت اس صوت میں مانی جاسکتی ہے۔ کہ جس طرح جسم رُوح کے سہارے زندہ رہتا ہے۔ اُسی طرح رُوح خُدا کے سہارے زندہ رہتی ہے جسم ورُوح کی جُدائی کا نام جسمانی موت ہے۔ اوررُوح سے جُداہوکر جسم تو فنا ہوجاتا ہے۔ مگر رُوح قائم رہتی ہے۔ اسی طرح رُوح اورخُدا کی جُدائی کا نام رُوحانی موت ہے۔ اسی کو مکاشفہ ۲۱: ۸ میں دوسری موت کہاگیا ہے۔ اورخُدا سے جُدا ہوکر رُوح فنا ہوجاتی ہے۔ مسیحی مسلمات کے مطابق اَبدی ہلاکت  سے یہی مُراد ہے کہ مخالفین خُدا کی اَرواح بیاعث تناقض وتخالف طبائع اُس سے جُدا ہونے کے باعث معدوم دفنا ہوجائیں گی۔ اسی طرح راستبازوں کی ارواح خُدا کے ساتھ مطابقت و مناسبت طبعی رکھنے کے باعث تاابد زندہ رہیں گی۔ ملاحظہ ہو متی ۲۵: ۳۱- ۴۱ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ ادنی ٰ وجود ہمیشہ اشرف وجود کے سہارے قائم وباقی رہتا ہے۔ ادنی ٰ کے فساد فنا سے اشرف کی فنا لازمی نہیں۔ مثلاً پتے اورشاخیں اگرجڑ کے ساتھ قائم رہیں تو فنا نہیں ہوتے۔ اگر الگ ہوجائیں توجڑ تو قائم رہے گی مگر پتے اور شاخیں فنا ہوجائیں گے۔ اسی طرح جڑ اگرزمین میں قائم رہے تو فنا سے محفوظ رہے گی۔ اوراگر الگ ہوجائ تو جڑ توفنا ہوجائے گی مگر زمین قائم رہے گی۔ ایک اورمثال لیجئے۔جسم کے تمام اعضا ء میں دماغ سب سے اشرف مسلم ہے۔ اگر کسی کی ٹانگ بازو ناک وغیرہ کٹ جائیں یا آنکھیں جاتی رہیں یا دانت نکل جائیں تو بھی وہ زندہ رہے گا۔ اورہزاروں لاکھوں لنگڑے ےلوے۔نکٹے اندھے لوگوں کا زندہ اورموجود ہونا بدیہی ہے۔ لیکن کبھی کسی نے کوئی ایسا انسان نہ دیکھا ہوگا کہ جس کا سرکٹ گیا ہو اوروہ بقید حیات ہو۔  اس سے یہ ثابت ہوا کہ اشرف کے فساد فنا سے ادنی ٰ کا فساد لازم آتا ہے نہ کہ اس کے برعکس۔اسی طرح جسم کا وجود منحصر ہے۔ رُوح پر اور رُوح کا قیام خُدا پر اس عام بحث سے نتیجہ یہ حاصل ہوا کہ تبدل پذیر حقیقتیں لاتبدیل وجود کے ساتھ متعلق ہونے سے لاتبدیل اورغیر فانی ہوجاتی ہیں۔ تو ریت شہادت دیتی ہے کہ وادیتی سینا میں جب ایزد تعالیٰ حضرت موسیٰ سے ہمکلام ہوا تو اُس کا ظہور جھاڑی میں لگی ہوئی آگ کی صورت میں ہوا۔اورلاتبدیل وجود خُدا تعالیٰ کی موجودگی کی تاثیر سے جھاڑی آگی سے جل نہیں گئی بلکہ قائم رہی۔ آریہ لوگ اکثریہ معارضہ پیش کیا کرتے ہیں کہ جو پیدا ہوا ہے وہ ضرور مریگا۔اورجس کی ابتد ا ہے اُس کی نیستی ضروری ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ ازروئے منطق جس کی فنا دنیستی ضروری ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ ازروئے منطق جس کی فنا ونیستی ضروری ہے۔ وہ ممتنع الوجود ہے نہ کہ ممکن الوجود واجب الوجود وہ ہے جس کا ہونا ضروری ہے۔ ممتنع الوجود وہ ہے  جس کی نیستی(زہونا) ضروری ہے لیکن ممکن الوجود وہ ہے جس کا نہ عدم ضروری اورنہ وجود ضروری ہے پس ممکنات ومحدثات اپنے وجود عدم کے بارہ میں ذات ِواجب کے محتاج ہیں۔ پس ارواح انسانی ممکن وحادثات اپنے وجود عدم کے بارہ میں ذات واجب کے محتاج ہیں۔پس ارواح انسانی ممکن وحادثات اپنے وجود وعدم کے بارہ میں ذات ِواجب کے محتاج ہیں۔پس ارواح انسانی ممکن وحادثات ہیں۔ اگروہ (خُدا ) اُنہیں قائم رکھنا چاہئے تو وہ قائم رہتی ہیں۔ اوراگر مٹانا چاہئے تومٹ جاتی ہیں۔ خُدا کی رُوح کی تاثیر ممکنات کو ابدیت میں قائم رکھ سکتی اوررکھتی ہے۔ اس کے متعلق کلام ِمقدس کی تائیدبلامقہ ہو۔ تیری نگہبانی نے میری رُوح سلامت رکھی(ایوب ۱۰: ۱۲)۔ اُسی کے ہاتھ میں یہ جاندار کی جان اورکل بنی آدم کا دم ہے (ایوب ۱۲: ۱۰) اگروہ اپنی رُوح اوراپنے دم کو واپس لے لے تو تمام بشر اکٹھے فنا ہواجائینگے (ایوب ۳۴: ۱۴- ۱۵)۔  ااورکوئی رُوح اپنی بقا میں مختار نہیں ہے بلکہ خُدا تعالیٰ کی مریضی کے زیر ہے۔ کسی آدمی کو رُوح پر اختیار نہیں کہ اُسے روک سکے اورمرنے کادن بھی اُس کے اختیار سے باہرہے۔ (واعظ ۸:۸)۔ پھر رُوح کی غیر فانیت وابدیت کے متعلق بھی ملاحظہ ہوتااور خاک خاک  سے جاملے جس طرح آگے ملی ہوئی تھی اوررُوح ِخُدا کے پاس جس نے اُسے دیا تھا واپس جائے (واعظ ۱۲: ۷)۔ اورجناب خُداوند مسیح کے قول سے بھی ثابت ہے کہ رُوح حادث بحدوث بدن نہیں بلکہ غیر فانی وابدی ہے جو بدن کو قتل کرتے ہیں اوررُوح کو قتل نہیں کرسکتے اُن سے نہ ڈرو(متی ۱۰: ۲۸)۔اورسلیمان نبی کا قول بھی دیکھو لیکن صادق مرنے پر بھی اُمیدوار ہے (امثال ۱۴: ۳۲ ایوب ۱۰: ۲۶)۔ اگررُوح کی طبیعت خُدا کی طبیعت سے متضاد ہوتو خُدا اُسے فنا کرسکتا ہے۔ بلکہ اُسی سے ڈر وجو رُوح اوربدن دونو ں کو جنہم میں ہلاک کرسکتا ہے۔ بلکہ اُسی سے ڈرو جو رُوح اوربدن دونوں کو جہنم میں ہلاک کرسکتا ہے۔ متی ۱۰: ۲۸ ریکارڈنگ کمپنی ماہرین موسیقی کی آوازوں کو ریکارڈوں میں بند کرلیتی ہے۔ آواز غیر مادی شے ہے۔ اگر گویا مر بھی جائے تو بھی ریکارڈ میں اُس کی آواز باقی رہتی ہے لیکن آواز کو ریکارڈ میں بند رکھنا ریکارڈ ساز کی مرضی پر منحصر ہے۔ اگر چاہئے تو اُس کو تادیر قائم رکھے اورچاہے تو ریکارڈ کو توڑ کو ایکد م معدوم کردے۔ اورریکارڈ وہی قائم رکھے جاتے ہیں جن میں بھر ا ہواراگ اصول موسیقی کے فنی نکتہ نگاہ سے درست ہو۔ ورنہ توڑدئے جاتے ہیں۔ پس واجب تعالیٰ ازلی وابدی ہے۔رُوح ازلی نہیں پر صرف ابدی ہے۔ اورجسم نہ ازلی ہے نہ ابدی اور اجسام جو راستباز رُوحوں کو روز ِقیامت حاصل ہونگے۔ وہ زندگی کی اعلیٰ سرشت میں تبدیل ہوکر غیر فانی ہوجائیں گے (ا۔ کرنتھیوں ۱۵: ۵۲- ۵۳)۔ اورخُدا کےسامنے نیستی یاعدم کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔کیونکہ اُس کے نزدیک سب زندہ ہیں(لوقا ۲۰: ۳۸)۔ اورارواح ومادہ کی قدامت خُدا کے خالق ہونے میں کوئی مددگار نہیں ہے۔ بلکہ وہ قادر مطلق اورازلی وابدی خُدا ہے۔ جب اُس نے ایک زمانے میں کائنات کو پیدا کیا اورانسان کو خلاصہ کائنات بنایا تو کیا وجہ ہے کہ وہ مردوں کو زندہ نہ کرسکے۔ جس مادہ کو اُس نے پیدا کیا۔ اُس کو مِٹانا اورقائم رکھنا اُسی کے قبضہ اقتدار میں ہے۔ اُمید ہے کہ ناظرین رُوح کے متعلق اس بیان سے کافی فائدہ اُٹھائیں گے۔