(۸)

تجسم الہٰی

کلام مجسم ہوا (یوحنا ۱: ۱۴)

عقل اورمذہب کے زیر عنوان ہم نے یہ ثابت کیا کہ عقل طبعی خُدا کے صحیح اوریقینی علم کے حصول میں قطعی قاصر ہے ۔ اورموجودات کے محدود دائرہ میں ہزار رہاسال سے گردش کرنے کے بعد اُس کی تحقیق و تدقیق کے حاصلات ونتائج وہی ہیں۔ اوراُس کے بعد الہام کی ضرورت کے زیر عنوان یہ ثابت کیاگیا کہ جب محدود متنزل عقل کے ذریعے خُدا کی ہستی کا صحیح علم حاسل نہ ہو سکا تو خُدا نے الہام کے ذریعے یہ مقصد حل کردایا۔ اب یہاں پر ہم دلائل یقینیہ وبراہین قطعیہ سے ثابت کریں گے کہ عقل محض اورالہام محض سے بھی خُدا کی ماہیت و حقیقت کا یقینی علم حاصل نہیں ہوسکتا ۔ او ر پھر وہ آخری اورصحیح طریقہ پیش کریں گے جس سے یہ مطلب کُلی طورپر حاصل ہوسکتا ہے ۔ اور سلسلہ وارتینوں مسائل پر مختصر پر  بحث بھی کریں گے ۔

موجودات اورخُدا کا علم

جب ہم موجودات کی تمام اشیاٰ پر ایک تحقیقی اورہمہ گیر نظر ڈالتے ہیں ۔ تو اتنا معلوم ہوا ہے کہ اس قطر فطرت کاضرور کوئی معمار ہے ۔ اورہم بطور استدلال اِنی معلول سے علت اورمصنوع سے صانع کا تصور کرسکتے ہین۔ کیونکہ جو کچھ خُدا کی نسبت معلوم ہوسکتا ہے وہ اُن کے باطن میں ظاہر ہے ۔ اس لئے کہ خُدا نے اُس کو اُن پر ظاہر کردیا ۔ کیونکہ اُس کی اَن دیکھی صفتیں یعنی اُس کی ازلی قدرت اورالوہیت دُنیا کی پیدائش کے وقت سے بنائی ہوئی چیزوں کے ذریعے سے معلوم ہوکر صاف نظر آتی ہیں ۔یہاں تک کہ اُن کوکچھ عذر باقی نہیں ۔(رومیوں ۱: ۱۹- ۲۰ ) لیکن مشاہد ہ فطرۃ سے صرف اُس کی موجودگی ہی ثابت ہوتی ہے نہ کہ ماہیت اورحقیقت ۔مثلا ً کسی جنگل میں ہاتھی کے نقش  پا دیکھ کر کوئی عقلمند یہی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس جنگل میں ہاتھی ضرور موجود ہے ۔ لیکن اُس ہاتھی کے قدوقیامت ۔قوت وضعف اوررنگ اورتذکیر وتانیث اوردیگر کئی امور کے متعلق اُن آثار پا سے کچھ علم حاصل نہیں ہوسکتا ۔ بلکہ صرف ہاتھی کی موجود گی ہی ثابت ہوسکتی ہے ۔ کسی عالیشان عمارت کے دیکھنے سے اُس کے بنانے والے معمار کی محض ہستی ہی ثابت ہوگی مگراُس کی شکل وشباہت ۔خدوخال ۔ عادات وخصائل اور طبعیت ومزاج کا علم عمارت کے مشاہد ہ ہی سے حاصل ہونا ناممکن وبحال ہے ۔ اسی طرح مشاہد ہ دُنیا مافیہا سے من حیث الآثار صرف اتنا ہی ثابت ہوتا ہے کہ خُدا موجود ضرور ہے ۔ پر یہ نہیں جان سکتے کہ وہ کیسا ہے ؟ مصنوعات کے مشاہد ہ سے اگر خالق کا یقینی اورقطعی تصور حاصل ہوسکتا تو دُنیا میں خُدا کی ہستی وماہیت کے متعلق مختلف ومتضا د عقائد وجود میں نہ آتے ۔ جہاں تک انسان نے اپنی عقل ناقصہ وفکر وفکر محدود و پر بھروسہ کرکے خُدا کی ماہیت وحقیقت کی تحقیق کی وہاں تک وہ ضلالت وگمراہی میں پڑگیا۔ یعنی اُن کے بے سمجھ دلوں پر اندھیر اچھاگیا۔ وہ اپنے آپ کو دانا جتا کربے وقوف بن گے ۔ (رومیوں ۱: ۲۱- ۲۲) مشہور یونانی حکیم سینکا کا عندیہ اس عقلی گمراہی کے نتیجہ کے طورپر یوں ہے ۔ ایک طرح پرفلاسفر کا مرتبہ خُدا سے کم نہیں ۔ پھر آرین کا عندیہ انسانی عقل کی گمراہی کا یوں آئینہ دار ہے ۔ جہاں تک عقلی واخلاقی زندگی کا تعلق ہے دانشمند شخص خُدا سے کم نہیں ہوتا ۔ پس ثابت ہوا کہ عقل دور بین مشاہد ہ فطرت سے اُس ذالت ِالہٰی اوروجود لامتناہی کو جوفوق الفہم والعقل ہے جان نہیں سکتی۔

الہام اورخُدا کا علم

لیکن جب دُنیا ئے اپنی حکمت سے خُدا کو نہ جانا (۱۔ کرنتھیوں ۱: ۲۱ ) تو خُدا نے بذریعہ الہام اپنی ذات صفات کو انسان پر ظاہر فرمایا۔ اورجو حقدہ عقل مشاہد ہ کا ئنات سے حل نہ کر سکی وہ الہام نے حل کروایا ۔ یعنی جس منزل پر پہنچ کر عقل دور بین دنگ اورفہم تیز رو لنگ ہوگئی اُس سے آگے مشعل الہام نے اُس کی رہبری ورہنمائی فرمائی ۔ یعنی جو چیز یں نہ آنکھوں نے دیکھیں ، نہ کانوں نے سُنیں نہ آدمی کے دل میں آئیں وہ سب خُدا نے اپنے محبت رکھنے والوں کے لئے تیار کردیں ۔ لیکن ہم پر خُدا نے اُن کو رُوح کے وسیلے (بذریعہ الہام) ظاہر کیا  (۱۔ کرنتھیوں ۱: ۹- ۱۰) عقل کی روشنی میں تو انسان حقائق روحانیہ اوردقائق غیر مرئیہ کی تفہیم وتعقیل میں قاصر رہا۔ کیونکہ عقل کا دائرہ تحقیق محسوسات ومرئیات تک ہی محدود ہے ۔ لیکن خُدا تعالیٰ نے نادیدنی رُوحانی حقیقتیں بذریعہ الہام انسان پر ظاہر فرمائیں۔ اب الہام چونکہ حقائق الہٰی کا محض لفظی بیان ہے ۔ اورالفاظ انسان کے وضع کئے ہوئے اورمحدود وہیں۔ اس لئے الہام سے بھی اُس کی ماہیت وکنہ کا ثبوتی تصور اوریقینی علم حاصل نہیں ہوسکتا ۔ لفظ خُدا سے خُدا کے متعلق کچھ علم اس کے سوا حاصل نہیں ہوسکتا کہ لغت کے واضح نے یہ لفظ آفر ینند ہ کا ئنا ت کے لئے وضع کردیا ہے ۔ اگر کسی ایسے شخص کو جس نے کبھی شیر نہیں دیکھا ایک کا غذ پر لفظ شیر لکھ کر دکھائیں تو کیا اُس شہزور رندہ کا صحیح تصور اُس کو ہو جائے گا۔ ؟ اگر ایسا ہونا ممکن ہوتا تو کبھی کسی کو شیر ہ دیکھنے کی ضرورت ہی نہ رہتی بلکہ ان تین حروف میں بشکل اصلی نظر آجا یا کرتا ۔ اوربچے جو جماعت اول میں پڑھتے ہیں وہ خ دا کے مُرکب سے خُدا کو جان لیتے اوریوں بے علم لوگوں کے سوا کوئی بھی دُنیا میں خُدا کا مُنکر نہ ہوتا۔ جس طرح جغرافیہ کی کتاب میں امریکہ ۔جرمن ۔ آسٹریلیا ۔ انگلینڈ اوردیگر صد ہا ممالک کے نقشے اورحالات موجود ہیں ۔ مگر باوجود اس کے جغرافیہ کے مطالعہ سے ہم اُن ممالک کی بابت کمال علم حاصل نہیں کرسکتے ۔ اورنہ کتاب کے ذریعے اُن کی سیرہی ہوسکتی ہے ۔ اور جیسے جغرافیہ کے علم کے باوجود انسان میں یہ زبردست خواہش پائی جاتی ہے کہ کسی صورت اُن ممالک کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر لطف اُٹھائے۔ اُن کی سیر وسیاحت سے بہرہ اندوز ہو اور اپنے جغرافیائی علم میں اپنے ستجرباتی علم کا اضافہ کرے ۔ اسی طرح الہام محض سے عالم لانبوت اورخُدا کی ماہیت وکنہ کا تجربی علم انسان کو حاصل نہیں ہوسکتا۔ اوراُس کے دل میں دیدار الہٰی کی زبردست خواہش بے قرار ہوکر ویٹں لیا کرتی ہے۔الہام سے صرف وہ فیوض غیبی اورحقائق لاریبی لفظی طورپر معلوم ہوسکتے ہیں۔ جن کے جاننے میں عقل مجرد معطل ثابت ہوتی ہے ۔پس ثابت ہوا کہ خُدا کا یقینی اورصحیح تصور دلانے میں الہام بھی قاصر رہتا ہے ۔ انسانی فطرت ایک متشکل ومتشخص وجود میں خُدا بینی کاتقاضا کرتی ہے ۔ اورنظریات سے آسودہ نہیں ہوسکتی۔

ایک سعید ہ خواہش   

خُدا ئے حکیم وقدیر وقادر نے انسا ن کی ذات میں خواہش بھی پیدا کردی ہے ۔ اورجتنی خواہشات انسان رکھتا ہے اُن کے پورا کرنے کے لئے نیچر میں سامان بھی ویسے ہی پیدا کردئے ہیں ۔اگر کسی کو علم کی خواہش ہے تو علم موجود ہے ۔ اگر کوئی سیم وزر چاہئے تو وہ بھی موجود ہے ۔ اگر کچھ سننا چاہے تو کان بھی ہیں راگ اوراصوات بھی ہیں ۔ اگر اعلیٰ مراتب کی خواہش ہوتو وہ بھی موجود ہیں۔ غرضیکہ جیسی جیسی انسان کی خواہش ہیں ویسے ویسے اُن کے جواب بھی فطرت کے عجائب خانہ میں موجود ہیں ۔ایسی کوئی بھی خواہش نہیں کہ جس کا جواب نہ ہو۔ خواہش کا وجود اشیاء خواہیدہ کے وجود پر دلالت کرتا ہے ۔ اب انسان فطری وجبلی طورپر یہ خواہش اپنے دل میں رکھتا ہے کہ وہ کسی صورت اپنے معبود حقیقی ابدی وازلی کے دیدار فیض آثار سے اپنی تشنئہ دید آنکھوں کی ضیافت کرسکے ۔ الہامی صحائف خُدا کی چھٹیاں ہیں لیکن خطوط ومراسلات انسان کی خُدا بینی ویزداں پذدہی کی زبردست خواہش کی تسکین کو موجب نہیں ہوسکتے ۔ یہ جذبہ سعیدہ انسانی نیچر کا وہ جبلی خاصہ ہےہے جس کے معصوم وکیف آگیں اثرات سے مسحور ہوکر انسان اپنے پردہ نشین محبوب کے اشتیاق ویدار میں تڑپ جاتا۔ اوراُس کے تخیل وتصور کی معصوم وسحر آگیں تجلی میں اپنے آپ کو کھو دیتا ہے  ۔اور اُس کے خیالی حسن وجمال کے کیف زاتا ثرات اُس کے لطیف جذبات پرکھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ وہ جذبہ ہے جو انسان کے روحانی وجسمانی قویٰ کو سیکڑ کر ایک مرکز پر جمع کردیتا ہے ۔ اورجب انسان کسی صورت اپنی اس عزیز ترین آروز کو پورا ہوتے ہوئے نہیں دیکھتا تو ناکام تمنا ہو کر یہ سمجھنے لگتا ہے کہ گویا وہ پھٹ جائے گا۔ چنانچہ اسی پاکیزہ جذبہ کی ترجمانی موسیٰ چند الفاظ میں یوں کرتا ہے ۔ مَیں تیری منت کرتا ہوں مجھے اپنا جلال دِکھادے۔ (خروج ۳۳: ۱۸ ) پھر داود نبی اپنی ہستی کو خُدا کی محبت کی قربان گاہ پر نثار کرکے یوں یوں اُٹھتا ہے جیسے ہرنی پانی کے نالوں کو ترستی ہے  ۔ویسے ہی اَے خُدا! میری روح تیرے لئے ترستی ہے۔ میری روح خُدا کی ۔ زندہ خُدا کی پیاسی ہے (زبور ۴۲: ۱-۲) صبح کا انتظار کرنے والوں سے زیادہ ہاں صبح کا انتظار کرنے والوں سے کہیں زیادہ میری جان خُداوند کی منتظر ہے (زبور ۱۳۰: ۶) پھر فلپس خُداوند مسیح سے یہی سوال کرتا ہے ۔ اَے خُداوند باپ کو ہمیں دِکھا یہی ہمیں کافی ہے ۔ (یوحنا ۱۴: ۸) جبکہ انسان کی تمام جسمانی اورروحانی خواہشات کا جواب اُس قادر وکریم نے اسی فطرت کے کارخانے میں دے دیا ہے  تو نہایت مناسب اورضروری ہے کہ وہ انسان کی اس نیک ترین اورواجبی خواہش کا بھی کوئی تسلی بخش جواب دے ۔

مظہر اورخُدا کا علم

قبل ازیں ہم اچھی طرح سےثابت کرآئے ہیں کہ موجودات کے مشاہد ہ سے صرف خُدا کے وجود باجود ہی کا علم حاصل ہوتا ہے ۔ یعنی صرف ہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ ہے ۔ لیکن یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیسا ہے ۔ اورالہام سے صرف لفظی اورتمثیلی علم اُس کی حقیقت کا حاصل ہوتا ہے ۔ لہذا ان دونوں صورتوں میں وہ ایک نامظہور اورنامعلوم خُدا رہتا ہے ۔ اس لئے جو لوگ موجودات کے مشاہد ہ سے بطور استدلال انی یا الہام محض سے لفظی وتمثیلی طورپر خُدا کا ناکامل اوردھندلا ساتصور لے کر اُس کی عبادت کرتے ہیں۔ ۔ وہ یقیناً ایک نامعلوم خُدا کی پرستش کرتے ہیں۔ اورنامعلوم کی پرستش کسی حقیقت کی نہیں بلکہ ایک وہم کی پرستش ہے ۔ جیسے مقدس پولوس رسول اتھینے والوں کو فرماتا ہے ۔ مَیں نے سیر کرتے اورتمہارے معبودوں پر غور کرتے وقت ایک ایسی قربان گاہ بھی پائی ۔ جس پر لکھا تھا کہ نامعلوم خُدا کے لئے ۔ پس جس کو تُم بغیر معلوم کئے پوجتے ہو۔ مَیں تمہیں اُسی کی خبردیتا ہوں (اعمال ۱۷: ۲۳) اورخُداوند مسیح نے سامری عورت کو فرمایا ۔ تم جسے نہیں جانتے اُس کی پرستش کرتے ہو۔ ہم جسے جانتے ہیں اُس کی پرستش کرتے ہیں (۱۔ یوحنا ۴: ۲۲) پس لامحالہ انسان کی خُدا طلبی اورخُدا بینی کی فطری خواہش کا جواب دینے اورخُدا کی ماہیت وحقیقت کے یقینی علم کے حصول کے لئے مظہر کی ضرورت ہے ۔تاکہ ایک تو انسان اُس کے دیدار فیض آثار سے لطف اندوز ہوکر اپنی خواہش کا جواب پائے ۔اوردوسرے اس لطف وادق اورنادیدہ وجود کی خصائص ذاتیہ اورشمائل باطینہ سے بحد امکان واقفیت حاصل کرسکے ۔ اب  یہ ظاہر ہے کہ انسان محدود العلم اورناقص العقل تو اپنے محدود قویٰ سے اس بے حد ومحیط کُل وجود کو جان نہیں سکتا ۔ اس لئے ضرور ہے کہ خُدا تعالیٰ اپنے آپ کو کسی دیدنی اورمحدود مظہر میں ظاہر فرمائے ۔ اوروہ مظہر انسان اورخُدا کے درمیان برزخ کامل ہوکر رشتہ حادث بالقدیم قائم کرے ۔ چنانچہ وہ مظہر الہٰی خُداوند مسیح ہے ۔ اُس نے فلپس کے جواب میں فرمایا۔ اَے فلپس میں اتنی مدت سے تمہارے ساتھ ہوں کیا تو مجھے نہیں جانتا؟ جس نے مجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا ۔ تو کیونکر کہتا ہے کہ باپ کو ہمیں دِکھا ؟ کیا تویقین نہیں کرتا کہ مَیں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے ؟(یوحنا ۱۴: ۹-۱۰ ) یوحنا رسول فرماتا ہے کہ خُدا کو کسی نے بھی نہیں دیکھا ۔ اکلوتا بیٹا جو باپ کی گود میں ہے اُسی نے ظاہر کیا (یوحنا ۱: ۱۸) بعض حضرات کہا کرتے ہیں کہ تجسم مستلزم قبائح عقلیہ ہے ۔ یعنی کہ خُدا ئے بے حد ۔ محیط کُل ،ازلی ، ابدی  اورقدیم کیونکر حدو حدوث میں آسکتا ہے ۔یعنی لامحدود خُدا محدود کیسے ہوسکتا ہے ۔ اس کے متعلق اس قدر عرض ہے کہ اگر خُدا ئے بیحد کا کسی حد میں آجانا ممتنع ہے ،تو انسان محدود کابے حد ہوجا نا اُس سے زیادہ محال ہے ۔ اوراُس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسان اورخُدا کا ملاپ محال ہے ۔محدود انسان اُس لامحدود ہستی کے دیدار سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا ۔ جب تک وہ کسی دیدنی مظہر میں ظاہر ہوکر حڈوحیز کی قیود میں نہ آئے ۔ ملاپ کی ان دوصورتوں میں سے ایک صورت ہی ممکن ہے ۔یعنی کہ یا تو محدود بے حد ہو جائے یا بے حد محدود ہوجائے ۔ یہ تو عین قرین عقل ہے کہ محدود ومتناہی وجود تو کبھی بے حد ہو نہیں سکتا۔ اورذات نے حد کی قدرت واختیار میں ہے کہ حد میں آجائے ۔ دراصل حد اوربے حدی میں خصوص وعموم کی نسبت ہے ۔ اورخصوصیت عمومیت کی ایک فرد ہے ۔ خصوصیت ایک خاص کُلی ہے اورعمومیت عام کُلی ہے۔حد میں خصوصیت ہے اوربے حدی میں عمومیت ۔ ازیں جہت تمام حدود بے حد ی کے حیطہ لامتناہی میں شامل ہیں ۔ اُس سے باہر نہیں ۔ پس بےحد کا کسی حد میں آجانا محا ل ن ٹھہرا ۔

دوم:   جب خُدا کی ذات بے حد ہے تو ضرور اُس کی صفات بھی بے حد ہوں گی۔ اوراُس کی جملہ صفات کا ملہ میں سے ایک صفت قدرت ہے  ۔ اوراُس کی اس بے حدازلی صفت کا نتیجہ یہ محدود اورحادث کائنات ہے ۔ جبکہ اُس کی بے حد صفات کے نتائج محدود وحادث ہوسکتے ہیں۔ تو اُس کی ذات کا حد وحدوث میں آجانا کیسے محال ہوسکتا ہے ؟ اوراُس کی حد میں آنا اُن شرائط کے ماتحت ہوسکتا ہے جن سے اُس کی ذاتی خاصیت وطبیعت میں فرق نہ آئے ۔ اوراگر بے حد کا حد میں آنا امر ممتنع ہے تو اس سے اُس کا نقص قدرت لازم آئیگا ۔ جبکہ محدثات و ممکنات اُس کی بے حد قدرت کے آثار ہیں ۔ تو مسیح خُداوند اُس کے جلال کا پر تو اوراُس کی ذات کا نقش ہے (عبرانی ۱: ۳) جناب رفعت مآب خُداوند مسیح کی رفیع القدر ذات کے ماسوا اورکوئی خُدا تعالیٰ کا مظہر اکمل ،افضل نہیں ہوسکتا ۔ اگر ہوسکتا ہے تو ماہ نخشپ بھی ماہ حقیقی ہوسکتا ہے ۔ اگر ہو سکتا ہے شیر قالین بھی شیر نیستان ہوسکتا ہے ۔ آفتاب کی شعاعیں پتھر لکڑی ،مٹی اوردیگر تمام اجسام پر پڑتی ہیں۔ اورآئنیہ پر بھی پڑتی ہیں۔ لیکن جس خوبی سے تور خورشید آئنیہ میں ظاہر ہوتا ہے اوراُس سے منعکس ہوکر مقابل کی اشیاء پر پڑتا اوراُنہیں محبط انواراوربقہ تجلی بنادیتا ہے ۔ اُس حُسن وخوبی سے اُس کا ظہور اورکسی بھی شئے میں نہیں ہوتا۔ لہٰذا آئینہ ہی اپنی انتہائی آبداری وصفائی کے لحاظ سے سورج کا مظہر کامل ہوسکتا ہے ۔ اسی طرح خُداوند مسیح کی عدیم الہیم ہستی اور فقید المثال ذات اپنی انتہائی پاکیزگی اورخصوصیات کاملہ الہٰیہ کے باعث تمام دیگر افراد عالم سابقہ وموجود ہ سے ممتاز اورافضل واکمل ہے  اور انوار الوہیت کو قبول کرکے اس منصہ شہود پر منعکس کرنے کی قابلیت وصلاحیت تام رکھتی ہے ۔ لہٰذا خُداوند مسیح ہی خُدا کا مظہر جامع ہوسکتا ہے ۔ اورا سی واسطے عقل ِسلیم اُس کے کے اس دعویٰ کی حقانیت وصداقت کو بلاعذر قبول کرتی ہے کہ میرے باپ کی طرف سے سب کچھ مجھے سونپا گیا ۔ا ورکوئی بیٹ کو نہیں جانتا سوائے باپ کے اورکوئی باپ کو نہیں جانتا سوائے بیٹے کے اوراُس کے جس پر بیٹا اُسے ظاہر کیا چاہئے (متی ۱۱: ۲۷) مَیں باپ میں سے نکلا اوردُنیا میں آیا ہوں پھر دُنیا سے رخصت ہوکر باپ کے پاس جاتا ہوں (یوحنا ۱۶: ۲۸ ؛ ۸: ۴۲)۔

ایک بدیہی مثال

خُدائے تعالیٰ الطف وادق اورغیر مرئی وجود ہے اورانسان کی طبعی کثیف آنکھیں اُس حقیقت لطیفہ مخفیہ اوروجود نامظہوری کو تجربہ بصارت میں نہیں لاسکتیں ۔ لیکن انبیاء ومرسلین ومقربین نے اُس کی آواز جانفز ا کو ازمنہ سابقہ میں طرح بطرح سُنا ۔ اوراُس کے پاک پیغام کو صحائف مطہرہ میں قلمبند فرمایا  ۔چنانچہ اُس نامظہور ونادیدہ مگر متکلم وجود کی مثال گراموفون ہے ۔ ا س میں متکلم کی صرف آواز سنائی دیتی ہے مگر صورت نظر نہیں آتی ۔ اس حقیقت کے اظہار کے لئے ایزد تعالیٰ نے فونوگرافر کی عقل کی روشن کیا کہ وہ ایک ایسی ایجاد کرے جو اُس کی نادیدہ مگر متکلم حیثیت کی آئینہ داری کرے ۔ چنانچہ وہ عارضی مظاہر میں کبھی کبھی ظاہر ہوتا رہا ۔ پر وہ ظاہر جامع اورمستقل نہ ہونے کے باعث انسان کی خُدا بینی ویزداں پژوہی کی فطری خواہش کو آسودہ نہ کرسکتے تھے ۔

ٹاکیز فلم میں ادا کاروں کی آواز شکل اورحرکات وسکنات تینوں باتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ چنانچہ خُدا کی حیثیت ظہوری (تجسم) کی مثال ٹاکیز فلم میں اداکاروں کی آواز شکل اورحرکات وسکنات تینوں باتیں ظاہر ہوتی ہیں۔  چنانچہ خُدا کی حیثیت ظہوری (تجسم کی مثال ٹاکیز فلم ہے ۔ وہی حقیقت نامظہوری ملبوس مجاز میں کثیرمعانی کے ساتھ بشریت میں بس گئی ۔ وہی لطیف ہستی مادی ظاہری جسم میں سماگئی ۔ اُسی غیر مرئی لطیف وجود نے انسانی شکل اختیار کی اورانسانوں کے مشابہ ہوگیا (فلپیوں ۲: ۸ ) چنانچہ اس حقیقت کے اظہار کے لئے اُس خُدا نے فلم کے موجود کے ذہن وعقل کو منور کیا کہ ایک ایسی ایجاد کرے جو اُس کے تجسم اورظہور کی ایک واضح مثال قائم کردے ۔ چنانچہ گراموفون اورٹاکیزفلم کے ذریعے ہم خُدا کے بطون وظہور کی حیثیات ِ متناسبہ کا صحیح تصور کرسکتے ہیں۔ بلہ بہیات ومرئیات ہی کے ذریعے نادیدنی روحانی حقیقتوں کا ثبوتی تصور ہم حاصل کرسکتے ہیں۔ کیونکہ یہ آنے والی چیزوں کا سایہ ہیں (کلیسوں ۲: ۱۷) پس مظہر کے ذریعے خُدا کی ذات وصفات کا ثبوتی تصور اورماہیت وحقیقت کا یقینی علم حاصل ہوتا ہے ۔ اس لئے بذریعہ مظہر وہ ایک معلوم خُدا ثابت ہوا ۔ اوراُس کی عبادت ایک معلوم خُدا کی عبادت ہے ۔ اورذات ِمظہر چونکہ مراۃ الحق ہے ۔ (یوحنا ۱۴: ۹؛ کلیسوں ۱: ۱۵) اس لئے خُدا کی صفات ِ کاملہ وبالغہ کا ظہور اُسی سے ہوتا ہے ۔ چنانچہ ہم خُدا وند مسیح کی الوہی صفات کو بھی مجملاً حیطہ تحریر میں لاتے ہیں تاکہ ناظرین بخوبی سمجھ سکیں کہ کلمتہ اللہ (مسیح ) کن معانی میں خُدا کا مظہر جامع و کامل ہے ۔

قدرت واختیار

خُداوند مسیح نے اپنے اختیار وقدرت کو خُدائی قدرت و اختیار کے ساتھ ملایا اوریہ دعویٰ کیا ۔ کیونکہ جس طرح باپ مردوں کو اُٹھاتا اورزندہ کرتا ہے ۔ اُسی طرح بیٹا بھی جنہیں چاہتا ہے زندہ کرتا ہے (یوحنا ۵: ۲۱ ) اوراُس نے اپنے اس دعویٰ کو عملی طورپر ثابت بھی کیا۔ یعنی اُس نے بعد اکو اپنی قدرت اوراختیار سے زندہ کیا۔ اور یہ کہکر اُس نے بلند آواز سے پکار کہ اَے لعذر نکل آ (یوحنا ۱۱: ۴۳) اوروہ چاردن کا مردہ ایکدم قبر سے باہر نکل آیا۔ اورعبادتخانے کے سردار یائر کی مُردہ لڑکی کو یہ الفاظ کہہ کر زندہ کیا۔ اَے لڑکی میں تجھ سے کہتا ہوں اُٹھ (مرقس ۵: ۴۱ ) پھر نائن شہر کی ایک بیوہ عورت کے مُردہ بیٹے کو یہ کہہ کر زندہ کیا۔ اَے جوان مَیں تجھ سے کہتا ہوں اُٹھ (لوقا ۷: ۱۴) اور وہ لڑکا فوراً زندہ ہوگیا اورسبت کے روز کفر نحوم کے عبادت خانے میں ایک شخص میں بدروح کو یہ کہکر نکالا ۔ چپ رہ اور اس میں سے نکل جا (مرقس ۱: ۲۵ ) اورجب بدروح اُس  میں سے نکل گئی تو لوگ حیران ہوکر بحث کرنے لگے کہ یہ کہ ہے ؟ یہ تو نئی تعلیم ہے وہ ناپاک روحوں کو بھی اختیار کے ساتھ حکم دیتا ہے ۔ اور وہ اُس کا حکم مانتی ہیں (لوقا ۱: ۲۷) اور بھی دیکھو  ، یہ کیساکلام ہے ؟ کیونکہ وہ اختیار اورقدرت سے ناپاک روحوں کو حکم دیتا اوروہ نکل جاتی ہیں (لوقا ۴: ۳۶) نہ صرف وہ آپ ہی ایس اخیتار رکھتا تھا بلکہ دوسروں کو بھی وہ اختیار دے سکتا اوردیتا تھا ۔ ملاحظہ ہو۔ پھر اُس نے اپنے بارہ شاگردوں کو پاس بلا کر انہیں ناپاک روحوں پر اختیار بخشا کہ اُن کو نکالیں ۔ اورہر طرح کی بیماری اورہر طرح کی کمزوری کودور کریں (متی ۱۰: ۲) اور انہوں نے مسیح کے دئے ہوئے اختیار کو ہمیشہ اُسی کی ذات قدرت سمجھ کر استعمال کیا۔ اوراُسی کے نام سے معجزات کئے ۔ چنانچہ پطرس اوریوحنا ایک جنم کے لنگڑے کو تندرست کرتے وقت یہ کہتے ہیں۔ یسوع مسیح ناصری کے نام سے چل پھر (اعمال ۳: ۶) اورجب اس معجزہ کے باعث اُن کی مخالفت ہوئی ۔ اوریہودی سردار فقہیہ اورکاہن اُن سے پوچھنے لگے کہ تُم نے یہ کام کس قدرت اورکس نام سے کیا ؟ اُس وقت پطرس نے رُوح القدس سے معمور ہوکر اُن سے کہا ۔ ۔۔۔۔ تُم سب اوراسرائیل کی ساری اُمت کو معلوم ہو کہ یسوع مسیح ناصری جس کو تُم نے صلیب دی اورخُدا نےمُردوں میں سے جلایا ۔ اُسی کے نام سے یہ شخص تمہارے سامنے تندرست کھڑا ہے (اعمال ۴: ۷- ۱۰) اوراس معجزہ کی تاریخی حیثیت یہ ہے کہ مخالفین ِمسیح بھی اُس کا انکار نہیں کرسکے ۔ اوراُن کو گواہی یہ ہے ۔ کہ ہم ان آدمیوں کے ساتھ کیا کریں ؟ کیونکہ یروشلیم کے سب رہنے والوں پر روشن ہے کہ اُن سے ایک صریح معجزہ ظاہر ہوا۔ اورہم اُس کا انکار نہیں کرسکتے (اعمال ۴: ۱۷ ) خُداو ند مسیح کے معجزات سے بھی کبھی کسی مخالف نے انکار نہ کیا تھا ۔ جب اُس لعذر کو قبر سے زندہ کیا تو عوام الناس متعجب ہوکر اُسے دیکھنے آئے ۔ لیکن سردار کاہنوں نے مشورہ کیا کہ لعذر کو بھی مارڈالیں۔ کیونکہ اُس کے باعث بہت سے یہودی چنے گئے اوریسوع پر ایمان لائے ۔(یوحنا ۱۲: ۱-۱۱ ) پس فریسوں  نے آپس میں کہا۔ سوچو تو کہ تُم سے کچھ نہیں بن پڑتا۔ دیکھو جہان اُس کا پیرو ہو چلا۔(آیت ۱۹ ) وہ اُس کے کلام کو انسانی طاقت سے بالا سمجھتے تھے ۔ (یوحنا ۷: ۴۰) اگر عہد ِعتیق کے انبیاء نے معجزات کئے تو خُدا کے نام سے لیکن مسیح نے اپنے ذاتی اختیار وقدرت سے اورمسیح کے شاگردوں نے مسیح کے نام سے اوربھی بہت سی مثالیں اور نظریں مسیح کے خُداوند نہ اختیار وقدرت کے متعلق پیش کی جاسکتی ہیں۔ لیکن ہم اسی قدر بیان کوکافی سمجھ کر تے ہیں۔

محبت

جو محبت نہیں رکھتا وہ خُدا کو نہیں جانتا ۔ کیونکہ خُدا محبت ہے (۱۔ یوحنا ۴: ۸؛۱۹)اورالہٰی محبت کا مظہر خُداوند مسیح ہے ۔ کسی راستباز کی خاطر مشکل سے کوئی اپنی جان دے گا۔ مگر شاہد کسی نیک آدمی کے لئے کوئی اپنی جان تک دے دینے کی جرات کرے لیکن خُدا اپنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم گنہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر ہوا (رومیوں ۵: ۷ ؛یوحنا ۳: ۱۶ ) کلام کی گواہی یہی ہے کہ خُدا اپنی محبت کی خوبی کو ہم پر مسیح کے ذریعے ظاہر کرتا ہے ۔ اورمحبت کی انتہا اورکمال قربانی ہے ۔چنانچہ خُداوند مسیح نے اپنی پاک قربانی کے ذریعے الہٰی محبت کے کمال کی آئینہ داری کی۔ ہم نے محبت کو اسی سے جانا ہے کہ اُس نے ہمارے واسطے اپنی جان دے دی۔ (۱۔یوحنا ۳: ۱۶ ) خُداوند مسیح نے اپنی زبان حقائق ترجمان سے فرمایا۔ اچھا چرواہا مَیں ہوں ۔ اچھا چرواہا بھیڑوں کے لئے اپنی جان دیتا ہے ۔ اورمَیں بھیڑوں کے لئے اپنی  جان دیتا ہوں (یوحنا ۱۰: ۱۱ ؛۱۰ ) کیونکہ ابن ِ آدم بھی اس لئے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ خدمت کرے ۔ اوراپنی جان بہتروں کے بدلے فدیہ میں دے ۔

  1. مرقس ۱۰ : ۴۵ ،متی ۲۰ : ۲۸ اس سے زیادہ محبت کوئی شخص نہیں کرتا کہ اپنی جان اپنے دوستوں کے لئے دیدے (یوحنا ۵: ۱۳ ) اگر خُدا وند مسیح کی بے غرض پاک اور کامل قربانی خُدا کی محبت کا ظہور ہے ۔ توتجسم محبت کے خُدا کا ظہور ہے ۔ اورقربانی کے لئے تجسم ضروری ہے ۔ خُدا کی محبت یہی کیا کم ہے کہ وہ انسان کی خاطر جسم اختیار کرتا ہے ۔ قربانی دینے میں توا لہٰی ایثار کی حد ہے ۔ مسیح کی محبت بے غر ض تھی ۔ پاک تھی بلاوے دال تھی ۔ دوست ودشمن کے لئے مساوی تھی ۔ راست وناراست دونوں پر حادی تھی ۔ کامل تھی۔ اُس سے بہتر محبت کا نمونہ عظیم سے عظیم شخصیت نہ قدیم سے قدیم کتا ب اورنہ کسی اور معبود میں پایا گیا ۔ جس طرح تمام ستاروں کی مجموعی روشنی خورشید خاور کے بالمقابل ہیچ اورماند ہے ۔اُسی طرح تمام افراد ِعالم کی محبتوں کو مسیح کی لاثانی وغیر فانی محبت کے سامنے کوئی قد ر وقعت نصیب نہیں۔
  2. مشہور کہاوت ہے کہ کُند ہم جنس باہم جنس پرواز کبوتر یا کبوتر باز یباز ۔ یہ قدرت کا مسلمہ اصول ہے کہ محبوب اورمحب کا ہم جنس ومساوی لمرتبت ہونا ضروری ہے ۔ خُدا کی ذات سراپا لطیف اوروار الور اء اورفہم وادرک انسانی سے باہر ہے اورانسان خاکی ہے ۔ یعنی ذات ِ الہٰی اورذات ِ انسانی میں جنسی مغائرت ہے ۔ اوریہی امر محبت وملاپ کے مانع ہے ۔ محبت کے لئے ہم جنسی ضروری ولازمی ہے ۔ بغیر ہم جنسی کے میل ملاپ اورمحبت کا وجود محال ہے ۔ بلکہ ہم جنسی کے ساتھ ہی ہم مرتبہ ہونا بھی ضروری ہے ۔ ایک شہر یا ر کامگار کے ساتھ ایک دردیش بوریہ نشیں کی دلی محبت اوردوستی ہوسکے ۔ دل ماننے کو تیار نہیں ۔ خُدا اورانسان کے درمیان رشتہ محبت وملاپ قائم کرنے کے لئے خُداوند مسیح اپنی شان الہٰی کو چھوڑ کر انسانوں کے مشابہ ہوگیا۔

انسانوں کا ہم جنس بن گیا۔ ابن ِ خُدا ہوتے ہوئے ابن ِ آدم بن گیا۔ اسی باعث وہ اُنہیں بھائی کہنے سے نہیں شرماتا (عبرانیوں ۲ : ۱۱ ) پھر وہ انسانی شکل اختیار کرکے کسی شاہا نہ تجمل اوردنیوی شان وشوکت کے ساتھ نہیں آیا۔ بلکہ نہایت مفلس گھرانے میں پیدا ہوا ۔ اُس کے سرپرست معاشرت وتمدن کے لحاظ سے مشہور نہ تھے ۔ بلکہ لوگ حیرت سے کہتے تھے  کہ کیا ناصرۃ سے کوئی اچھی چیز نکل سکتی ہے ؟ اُس کے سردھرنے کے لئے جگہ نہ  تھی ۔ اُس نے اپنی تمام زندگی فقیری حیثییت میں بسر کی ۔ غرباومسکین اورروحانی وجسمانی دردمندوں کی ہمدردی اورخدمت کو اپنی زندگی کا واحد نصب العین بنایا ۔ اوربالآخر تمام جہان کے گناہوں کے عوض میں اپنی قیمتی جان کو عدل کے مذبح پر قربان کرکے الہٰی محبت کے کمال کو بے نقاب کردیا۔ محبت اس میں نہیں کہ ہم نے خُدا سے محبت کی بلکہ اس میں ہے کہ اُس نے ہم سے محبت کی ۔اورہمارے گناہوں کے کفارے کے لئے اپنے بیٹے کو بھیجا (۱۔ یوحنا ۴: ۱۰) ۔

قدوسیت

یہ صفت خُدا کی تمام صفات کاملہ بلیغہ کی درۃ التاج ہے ۔ اور وہ پاکیزگی جو خُدا ہی کی ذات سے خاص ہے خُداوند مسیح میں جو خُدا کی ذات کا نقش ہے کامل طورپر پائی جاتی ہے ۔ جبرائیل فرشتے ےکی گواہی ۔ اورفرشتے نے جواب میں اُس (مریم ) سے کہا کہ رُوح القدس تجھ پر نازل ہوگا۔ اورخُدا تعالیٰ کی قدرت تجھ پر سایہ ڈالنے گی۔ اوراس سبب سے وہ پاکیزہ جو پیدا ہونے والا ہے ۔ خُدا کا بیٹا کہلائے گا (لوقا ۱: ۳۵) خُداوند مسیح کا اپنا اقرار ۔ تُم میں کون مجھ پر گناہ ثابت کرتا ہے (یوحنا ۴: ۴۶) پطرس رسول کی گواہی ۔ نہ اُس نے گناہ کیا۔ اور نہ اُس کے مُنہ سے کوئی مکر کی بات نکلی۔(۱۔پطرس ۲ : ۲۲ ) پولوس رسول کی گواہی ۔ ہمارا ایسا سردار کاہن نہیں جو ہماری کمزوریوں میں ہمارا ہمدرد نہ ہوسکے ۔ بلکہ ساری باتوں میں ہماری طرح آزمایا گیا ۔ تاہم بے گناہ رہا۔(عبرانیوں ۴: ۱۵ ) رُومیوں گورنر پیلاطوس کی گواہی ۔ مَیں اس راستباز کے خون سے بری ہوں ۔ تم جانو ۔ (متی ۲۷: ۲۴ ) پیلاطوس کی بیگم کی شہادت ۔ اس راستباز سے کچھ کام نہ رکھ۔ کیونکہ مَیں نے آج خواب میں اس کے سبب سے بہت دُکھ اُٹھایا ہے ۔ (متی ۲۷: ۱۹ ) پہرہ داروں اوررومی صوبہ دار کی گواہی ۔ بہت ہی ڈرے اور بولے کہ بے شک  یہ خُدا کا بیٹا تھا۔(متی ۲۷: ۵۴ ) بدروح کی گواہی ۔ مَیں تجھے جانتا ہوں کہ تُو کون ہے ۔ خُدا کا قدوس ہے ۔ (مرقس ۱: ۲۴) اَے یسوع خُدا تعالیٰ کے بیٹے مجھے تجھ سے کیا کام (مرقس ۵: ۷ ) نہ صرف آپ پاکیزگی اورتنزہ تام میں خُدا تعالیٰ کے بیٹے مجھے تجھ سے کیا کام (مرقس ۵: ۷) نہ صرف آپ پاکیزگی اورتنزہ تام میں خُدا کے ہمسر تھے ۔ بلکہ گناہوں کی معافی کا بھی اختیار رکھتے تھے ۔ ایک دفعہ ایک گنہگار عورت حقیقی تائب دلی سےآپ کے پاک قدموں پر آکر گرہی تو آپ نے فرمایا۔ تیرے گناہ معاف ہوئے (لوقا ۷: ۴۸ ) پھر ایک دفعہ چند آدمی ایک مفلوج کو آپ کے پاس لائے ۔ آپ نے اُن کا ایمان دیکھ کر اُس مفلوج سے کہا۔ اَے ادمی تیرے گناہ معاف ہوئے ۔ لیکن شرع کے علماء اورفقہا ء نے اس حکم کو کفر سے تعبیر کیا۔ اورکہا کہ سوا خُدا کے کون گناہوں کو بخش سکتا ہے ؟ اس پر خُداوند نے اُن سے سوال کیا کہ '' آسان کیا ہے ؟ یہ کہنا کہ تیرے گناہ معا ف ہوئے ۔ یایہ کہنا کہ اُٹھ اورچل پھر ؟ لیکن اس لئے کہ تُم جانو ک ابن آدم کو زمین پر گناہوں کے معاف کرنے کا اختیار ہے(اُص مفلوج سے کہا ) مَیں تجھ سے کہتاہوں اُٹھ ! اوراپنا کھٹولا اُٹھا کراپنے گھر جا(لوقا ۵: ۲۰–۲۴) جب آپ نے اپنے فوق العاد ت فعل کے ذریعے اپنے پہلے قول کو ثابت کردیا۔ تو وہ سب بڑےحیران ہوئے ۔اورخُدا کی بڑائی کرنے لگے ۔اوربہت ڈرگئے اورکہنے لگے کہ آج ہم نے عجیب باتیں دیکھیں (آیت ۲۶) ابتدائے آفرینش سے از آدم تاایں دم کسی بھی ہستی نے سوائے خُداوند مسیح کے یہ خُدا وند انہ دعویٰ نہیں کیا۔ اس سے آپ کے الہٰی اختیار ،قدرت اورقدوسیت کا بین ثبوت ملتا ہے ۔ اسی واسطے آپ نے یہ فرمایا۔ مَیں راست بازوں کو نہیں بلکہ گنہگاروں کو بُلانے آیا ہو(متی ۹: ۱۳ ؛ مرقس ۲: ۱۷ ) اوراسی واسطے مقدس یوحنا رسول کا قول آپ کی عدیم النظیر ذات کے متعلق کیا ہی موزوں تھا کہ '' دیکھو یہ خُدا کا برہ ہے جو دُنیا کا گناہ اُٹھا لے جاتا ہے ۔(یوحنا ۱: ۲۹) پس ایزو تعالیٰ کی قدوسیت کے کمال کو بنی نوع انسان پر ظاہر کرنے کے لئے خُداوند مسیح مظہر تھا اور ہے ۔ 

تمام انبیاء کرام پر فضلیت

بمقامیکہ رسیدی نرسد پیچ نبی انجیل کی تعلیم کا سرمایہ غرائب ونا دردُنیائے مذہب میں اس لئے ایک انوکھی شان اورامتیازی حیثیت رکھتا ہے کہ اس کی ہیرو وہ عدیم لنظیر اورفقید المثل ہستی ہے ۔ جس نے زینت افزائے کا شانہ گیتی ہو کر مذاق روحانیت کے لذت شنا سوں  اورخُدا بینی کے طالبوں کی سب سے عزیز خواہشات کوجواب دے کر اُن کے دلوں کو گہوار ہ مسرت بنا دیا۔ اورخُدا کےدُھند لے تصور کو اپنے ظہور پر نور سے ایسے روشن کردیا جس طرح پرانے مبہم مخطوطات پر قلم پھیر کر اُنہیں پھر سے روشن کیا جائے ۔ حقائق ومعارف روحانیہ اورشمائل وخصائل قدسیہ تامہ ۔ حرکات وافعال پسندیدہ ،خیالات وجذبات سعیدہ اورالوہیت کے تمام سربستہ اسرار وانوار اور ذات ِحق تعالیٰ کا پاک ترین حُسن آپ کے نقاب ِانسانیت میں سے رہ رہ کر چھنتا رہتا تھا۔ آپ کی پر محبت اوروقف ایثار زندگی الہٰی محبت کا ایک حسین وجمیل مرفع تھی ۔ آپ کی مقدس وپاک ترین اورمعصوم رفتار وگفتار الہٰی حُسن ِ تقدس کی ایک عریاں تصویر تھی ۔ اورحضرت انسان کی ابتدائی پاکیزہ حالت اورمعصومیت کا بے نقاب مجسمہ ۔ آپ کے پیکر خاکی میں ملکوتی صفات کا عکس صاف نظر آتا تھا۔ اسی واسطے آپ کی جامع الصفات زندگی میں ایک ہمہ گیر جاذبیت تھی ۔ وہ قدرت ِکاملہ اورحکمت بالغہ جو صرف خُدا ہی کی ذات سے خاص ہے آپ کی پُرحکمت وجلال جسمانی زندگی سے فوق العادت اظہارات کی صورت میں ایسے پھوٹ نکلا کرتی تھی جیسے سحاب مشکیں میں سے برق خاطف کے نورانی ڈورے ۔ وہ نور کا ستون جو ابرسیاہ کے نقاب میں ہوکر شب کے وقت بنی اسرائیل کی رہبری فرمایا کرتا تھا اُسی سرور کائنات اورسرچشمہ اکرام وحسنات کے جامہ انسانیت کو مشرف ومفتخرفرمانے کی ایک تشبیہ تھی ۔ اور آپ نے اپنی زبان ِحقائق ترجمان سے بارہا فرمایا۔ مَیں دُنیا کا نور ہوں ۔جو میری پیروی کرے گا وہ اندھیرے میں نہ چلیگا بلکہ زندگی کا نور پائے گا۔ یوحنا ۸: ۱۲ اُس کی نورانی وجلالی زندگی نے واقعی اس عالمِ آب وگل کو مہبط انوار بنادیا۔ یہی الہٰی صفات ہیں جو آپ کو تمام انبیاء ومرسلین اورمقدسین ومتامہین سے ممتاز کردیتی ہیں ۔ اگران صفات ِ قُدسیہ الٰہیہ اورخصائص لطیفہ روحانیہ کو آپ کی ذات پاک سے الگ کردیا جائے تو آپ صرف ایک نبی یا رسول ہی رہ جاتے ہیں۔ اورہم رسولو ں اورنبیوں کو معصوم مطلق اورمنزہ عن الخدا نہیں مانتے اورنہ ہی ماننے کی کوئی وجہ ہے ۔ کیونکہ اُن کے گناہوں اورتوبہ واستغفار کا بیان صحائف مطہرہ میں بالتصر یح موجود ہے ۔ البتہ وہ اپنے اپنے زمانے کے عم لوگوں کی بہ نسبت خُدا ترسی اورنیکی کے لحاظ سے بہترین اشخاص تھے ۔ اسی واسطے خُدا کی طرف سے اُنہیں نبوت ورسالت کے فضائل ومدارج حاصل ہوئے ۔ خُدا وند مسیح نے اپنے آپ کو تمام انبیاء سے افضل اورقدیم ثابت کیا۔ اوراپنی پیش ہستی وقدامت کا یوں دعویٰ کیا۔ مَیں تُم سے سچ سچ کہتاہوں ۔ پیشتر اس کے کہ ابراہیم پیدا ہوامَیں ہوں (یوحنا ۸: ۵۸ ) اوراب اَے باپ تو اس جلال سے جو مَیں دُنیا کی پیدائش سے پیشتر تیرے ساتھ رکھتا تھا مجھے اپنے ساتھ جلالی بنادے (یوحنا ۱۷: ۵ ) موسیٰ پر فضیلت ۔وہ موسیٰ سے اس قدر زیادہ عزت کے لائق سمجھا گیا ۔ جس قدر گھر کا بنانے والا گھر سے زیادہ عزت دار ہوتا ہے ۔ موسیٰ گھر کا خادم اورمسیح گھر کامختار (عبرانیوں ۳: ۳؛ ۵- ۶) داود نبی پر فوقیت (مرقس ۱۲: ۳۵- ۳۷ ) سُلیمان نبی پر فضیلت یہاں وہ ہے جو سلیمان سے بھی بڑا ہے (متی ۱۲: ۴۲ ) پونس نبی پر فضیلت یہاں وہ ہے جو یونس سے بھی بڑا ہے (متی ۱۲: ۴۱ )یوحنا اصطباغی کی گواہی میرے بعد وہ شخص آنے والا ہے جو مجھ سے زور آور ہے ۔ مَیں اس لائق نہیں کہ جھک کر اُس کی جوتیوں کا تسمہ کھولوں ۔ مَیں نے تو تمہیں پانی سے بپتسمہ دیا۔ مگرو ہ تمہیں روح القدس سے بپتسمہ دے گا۔ (مرقس ۱: ۷- ۸ ) اورجب مسیح ظاہر ہوا تو اسی یوحنا نے اُس کی پیش ہستی کی گواہی دی ۔حالانکہ پیدائش جسمانی کےلحاظ سے یوحنا مسیح سے چھ ماہ پہلے پیدا ہوا تھا۔ تو بھی وہ مسیح کو اپنے سے قدیم کہتا ہے ۔ یہ وہی ہے جس کی بابت میں نے کیا تھا کہ ایک شخص میرے بعد آتا ہے ۔ جو مجھ سے مقدم ٹھہرا ۔ کیونکہ وہ مجھ سے پہلے تھا (یوحنا ۱: ۳۰ ) یوحنا رسول کی گواہی ۔ابتدا میں کلام تھا اورکلام خُدا کے ساتھ تھا اور کلام خُدا تھا ۔ یہی ابتدا میں خُدا کے ساتھ تھا۔ ساری چیزیں اُس کے واسطے سے پیدا ہوئیں ۔ ۔۔۔۔(یوحنا ۱: ۱- ۳) و ہ لاتبدیل ہے ۔ یسوع مسیح کل اورآج بلکہ ابد تک یکساں ہے (عبرانیوں ۱۳: ۸ ) یوحنا اُس کو اول وآخر اورابدالآ باد زندہ رہنے والا ۔اور موت وعالم ارواح کی کنجیوں کا مختار کہتا ہے (مکاشفہ ۱: ۱۷–۱۸ ؛ ۲: ۹) وہ قدوس اوربرحق ہے (۳: ۷ ) وہ آمیں اورسچا اوربرحق گواہ اورخُدا کی خلقت کا مبداء ہے (۳: ۱۴ ) وہ اَن دیکھے خُدا کی صورت اورتمام مخلوقات سے پہلے مولود ہے ۔ تمام آسمانی وزمینی مرئی وغیر مرئی چیزوں کا میل خُدا کے ساتھ اُسی کے ذریعے ہوسکتا ہے (کلسیوں ۱: ۱۵–۲۱) وہ خُدا کا بھید ہے ۔اور خُدا کے بھید یعنی مسیح کو پہچانین ۔ جس میں حکمت و معرفت کے سارے خزانے چھپے ہوئے ہیں (کلیسوں ۲: ۲- ۳ ) وہ تمام دُنیا کی نجات صرف اُس ہی کے ذریعے ہوسکتی ہے ۔ اوربغیر اُس کے نجات محال ہے ۔ (اعمال ۴: ۱۲ ) وہ تمام دُنیا کی عدالت کرنے والا اکیلا منصف ہے ۔ باپ کسی کی عدالت نہیں کرتا ۔ بلکہ اُس نے عدالت کا سار ا کام بیٹے کے سپردکیا ہے (یونا ۵: ۲۲ ) خُدا کے ملاپ لئے مسیح  ضروری وسیلہ ہے ۔ راہ اورحق اورزندگی مَیں ہوں ۔ کوئی میرے وسیلے کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا (یوحنا ۱۴: ۶ ) جس طرح عہد عتیق کے زمانہ میں انبیاء پر خُدا کی طرف سے الہام ہوتا تھا ۔اُسی طرح نئے عہد کے رسولوں پر خُداوند مسیح کی طرف سے الہام ہوتا ہے ۔ چنانچہ مقدس پولوس رسول فرماتا ہے ۔ اَے بھائیو مَیں جتائے دیتا ہوں کہ جو خوشخبری (انجیل ) مَیں نے سُنائی وہ انسان کی سی نہیں ۔ کیونکہ وہ مجھے انسان کی طرف سے نہیں پہنچی ۔ اورنہ مجھے سکھائی گئی ۔ بلکہ یسوع مسیح کی طرف سے مجھے اُس کا مکاشفہ ہوا (گلیتوں۱: ۱۱- ۱۲ ) پس ہم مسیح کے ایلچی ہیں (۲۔ کرنتھیوں ۵: ۲۰ ) پولوس کی طرف سے جو خُدا کی مرضی سے مسیح یسوع کا رسول ہے (۲۔ کرنتھیوں ۱: ۱ ؛ ۱۔ کرنتھیوں ۱: ۱؛ افسیوں ۱: ۱ ؛ کلیسوں ۱: ۱ ؛ ۱۔ تمتھیس ۱: ۱ ؛ ۲۔ تموتھی ۱: ۱ ططس ۱: ۱ ) پطرس رسول کی گواہی پطرس کی طرف سے جو یسوع مسیح کا رسول ہے (۱۔ پطرس ۱: ۱ ؛ ۲۔ پطرس ۱: ۱) خُداوند مسیح کے اپنے الفاظ ۔ اَے باپ وہ گھڑی آپہنچی ۔ اپنے بیٹے کاجلال ظاہر کر تاکہ بیٹا تیرا جلال ظاہر کرے ۔ چنانچہ تونے اُسے ہر بشر پر اختیار دیا ہے ۔ تاکہ جنہیں تونے اُسے بخشتا ہے اُن سب کو وہ ہمیشہ کی زندگی دے ۔ اورہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خُدائے واحد اوربرحق  کو اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا ہے جانیں۔ (یوحنا ۱۷: ۱- ۳ ) تاکہ سب لوگ بیٹے کی عزت کریں جس طرح باپ کی عزت کرتے ہیں۔ جو بیٹے کی عزت نہیں کرتا وہ باپ کی جس نے اُسے بھیجا عزت نہیں کرتا (یوحنا ۵: ۲۳ ) اورامثال ۸: ۲۲- ۳۱ ) میں کلمتہ اللہ کی قدامت وازلیت کابیان خوب واضح الفاظ میں موجود ہے ۔وہاں پر لفظ دانائی مستعمل ہے اور یونانی لفظ لوگاس (کلمہ ) کے معنی دانائی اورکلام کے ہیں۔ اوریہ مسیح کا خطاب ہے ناظرین مذکورہ بالا بیان سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ خُداوند  مسیح صرف نبی اوررسول ہی نہ تھے بلکہ نبیوں کو الہام دینے والے  دُنیا کے خالق ومالک ۔نجات دہندہ اورقابل پرستش ۔جب اس قسم کے الہٰی القاب ۔الہٰی اقوال وافعال ،الہٰی قدرت واختیار ۔الہٰی صفات وحسنات اورپاکیزگی وقدوسیت تام اُس کی ذات ِ مقدس کے ساتھ وابستہ ہیں۔ تو کیا وجہ ہے کہ اُسے مظہر ِخُدا اورمراۃ الحق تسلیم کرکے سرنیاز اُس کے پاک ومبارک قدموں پر نہ رکھ دیا جائے ۔

عہد عتیق ایک کشفی سلسلہ ہے جس میں مکشوفات ِ قدسیہ الہٰیہ ملہمین پر مختلف طرح ظاہر ہوئے ۔ اورعہد جدید میں اُسی حقیقت کشفی مگر نا ۔ مظہوری کا ظہوری تجسم ظاہری اورتجسم بجسد عنصری موجود ہے ۔ اگرچہ خُدا تعالیٰ نے اُس وقت بھی مختلف عارضی مظاہرات میں ظاہر ہوتا رہا ۔ لیکن وہ خُدا بینی کے خواہشمندوں کی چشم اشتیاق کا خاطر خواہ جواب نہ تھے ۔ کوئی مستقل وجامع مظاہر نہ تھے ۔ خُداوند مسیح وہ مستقل وجامع مظہر ہے جس میں حق تعالیٰ کی تمام صفات ِقدسیہ اوررموز روحانیہ سجدا مکان ظہور پذیر ہوئیں۔ گوایا حقیقت برنگ ِمجاز منصہ ء شہود پر جلوہ فگن ہوئی ۔ اورانسان کے اس جذبہ سعیدہ اورآرزوئے پسندیدہ کا جواب دیا۔ کہ

کبھی اَے حقیقت منتظر نظر آلباس ِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجد ے تڑپ رہے ہیں میر ی جبین ِنیاز میں

ہم کہاں تک اُس کے شمائل حسنہ وخصائل قدسیہ کی آئینہ داری کریں ۔ اُس سراپا نور کی لاثانی اوربے مثل زندگی کے چہرے کا ایک گوشہ بے نقاب کرنا بھی طاقت قلم سے باہر ہے ۔ ہماری مندرجہ بالا تمام تحریر شاعرانہ حمد و سپاس نہیں ہے ۔ بلک برخلاف اس کے انجیل مقدس کے بحربے کنار کو کوزے میں بند کرنے کی ایک ناکام سی کوشش ہے ۔ کلام ہماری تحریر سے بدرجہا زیادہ اُس کے لئے وقف ِمحامدت ہے ۔ بلکہ کلام بھی یہ اعتراف کرتا ہے ۔ کہ خُداوند مسیح کی جامع انصفات زندگی اوررفیع القدر ذات کا پورا بیان نہیں کرسکا (یوحنا ۲۰ : ۳۰؛ ۲۱: ۲۵ )

ایک اعتراض کاجواب

اکثر مکدر الطبع اورمحجوب الفہم لوگ مقلدان آنخداوند کے ایمان ویقان کی بنیاد کو جنبش دینے کی نیت سے آپ کی عصمت تامہ پر کہنے ہتھیاروں سے حملہ کر نا موجب ِحسنات ِ کثیرہ سمجھتے ہیں۔ اورآفتا ب کی طرف خاک دھول اڑالے یعنی مسیحیت کامقابلہ کرنے کو اپنے عقائد کے استحکام کی وجہ تسلیم کئے بیٹھے ہیں۔ اورشیر قالین کو شیر نیستان کے بالمقابل کھڑا کرکے اصل کونقل اورنقل کو اصل ثابت کرنے کی ناکام کو ششوں پر فتحمند انہ نعرے لگاتے ہیں۔ ہم یہاں پر اُن کو جواب دینے میں اختصار سے کام لیں گے ۔ کیونکہ اس کتاب کا اختصار جو ہمیں منظور ہے اجازت نہیں دیتا کہ مخالفین کے تمام اعتراضات کو رفع کریں۔ اورطول بیانی وتصنیع اوقات کے علاوہ سردرد مول لیں۔ مسیحی مصنفین نے اس امر میں کوئی دقیفہ اُٹھا نہیں رکھا۔ مخالفین خُداوند مسیح کے اس بیان کی بنا پر اعتراض اُٹھا یا کرتے ہیں کہ یسوع نے اُس سے کہا تومجھے کیوں نیک کہتا ہے ے؟ کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خُدا (مرقس ۱۰ : ۱۸ ؛ لوقا ۱۸: ۱۹ ؛ متی ۱۹ : ۱۶ )

اول ۔

اس مقام میں خُداوند مسیح نے اپنی نیکی کا نہ تو اقرار کیا اورنہ انکار ۔ کیونکہ خُدا کے نیک ہونے اورانسان کے نیک ہونے میں بڑا فرق ہے ۔ خُدا ا س معنی میں نیک نہیں کہ وہ بے گناہ ہے ۔ بلکہ وہ قدوس اوربالذاتہ پال ہے اورتمام نیکیوں کا سرچشمہ ہے ۔پس الہٰی نیکی کا اقرار انسانی نیکی کا انکار نہیں ہوسکتا ۔ دوسری بات یہ ہے کہ خُدا کی نیکی اورمسیح کی نیکی کوئی دو باتیں نہیں ہیں۔ بلکہ مسیح خُدا کی راست بازی ہے (۱۔ کرنتھیوں ۱: ۳۰ ) الہٰذا مسیح نے اپنے نیک ہونے کا انکار نہیں کیا۔

دوم۔

وہ سائل مسیح کو دیگر مذہبی اُستادوں اورعالموں کی طرف محض ایک استاد ہی مانتا تھا ۔ اسی لئے وہ کہتا ہے ۔ اَے نیک اُستا د ۔اور جیسے بعض استادوں کے متعلق لوگ کہا کرتے ہیں کہ وہ بڑا شریف النفس ہے ۔ وہ بہت نیک ہے لیکن اُس نیکی سے مراد معصومیت تام نہیں ہوتی بلکہ اُن میں بعض اوصاف عامتہ الناس کی بہ نسبت اچھے ہوتے ہیں ۔ جب کسی استاد یا ہادی کو نیک کہا جاتا ہے تواس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ وہ نیکی میں خُدا کاہمسر ہے ۔اورجب کسی استاد کو عالم فاضل کہا جاتا ہے تواُس سے یہ مُراد نہیں ہوتی کہ وہ خُدا کی مانند علیم کُل یاہم دان ہے ۔ پس اسی طرح اُس سائل نے عام استادوں کی طرح نیک استاد کہا۔ اورآپ نے اس ظاہری ناکامل اورعام نیکی کوا پنی کو اپنی ذات کے متعلق قبول نہ کیا۔ کیونکہ آپکی بے نقص اورکامل نیکی کو انسان کی سی ناکامل اورناقص نیکی کے زاویہ نگا ہ سے دیکھنا بے انصافی ہے ۔ کیونکہ انسان کی ادھوری نیکی کے متعلق تو کلام یہ گواہی دیتا ہے ۔ کیونکہ زمین پر کوئی ایسا راستباز انسان نہیں کہ نیکی ہی کرے اورخطا نہ کرے ۔ (واعظ ۷: ۲۰ ) اس لئے مسیح نے اُسے گویا یوں کہا۔ کہ اگر تو مجھے دیگر مذہبی استادوں کی طرح محض انسان سمجھ کر ہی نیک استاد کہتا ہے ۔ تو کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خُدا تاکہ سائل یہ غلط خیال اپنے دل سے نکال دے کہ مذہبی اُستاد بھی نیک مطلق ہوسکتے ہیں۔ اوراُس کا اس عام لقب سے مسیح کو خطاب کرنا ایسا ہی تھا جیسے کوئی حضور وائسرائے کوکہے ۔ سلام تھا بیدارجی ۔

سوم۔

متی ۱۹: ۱۶  کو پڑھیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ خُداوند نے نہ تو اپنی نیکی کا اقرار کیا اور نہ انکار ۔ بلکہ صرف ایک طر ح سے نیکی کے معنی بتائے۔اورفرمایا کہ '' تو مجھے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے ۔یعنی کہ اعمال حسنہ چن کو تُم نجات اورہمیشہ کی زندگی کی شرط سمجھے ہوئے ہو خُدا کی نظر میں پورے نہیں۔ اورایسی ادھوری نیکیوں سے ہمیشہ کی زندگی کی اُمید رکھنا عبث ہے ۔ حقیقی نیکی تو گناہ آلودہ طبیعت سے ہو ہی نہیں سکتی بلکہ سراپا نیک وپاک طبیعت سے صاد ر ہوا کرتی ہے ۔ کیونکہ '' کیا انجیر کے درخت میں زیتون اورانگور میں انجیر  پیدا ہو سکتے ہیں ؟ اسی طرح کھاری چشمے سے میٹھا پانی نہیں نکل سکتا (یقوب ۳: ۱۲ ) اوراگرنیک بن جانا اپنی ذاتی کوشش سے ممکن ہے تو '' کامل بنو جیسے تمہار ا آسمانی باپ کامل ہے (متی ۵: ۴۸ ؛ افسیوں ۵: ۱) ایسی کمالیت ہی ہمیشہ کی زندگی کے لائق انسان کو بنا سکتی ہے ۔ لیکن انسانی کوشش کا یہ حال ہے ۔ مَیں جانتا ہوں کہ مجھ میں یعنی میرے جسم میں کوئی نیکی بسی ہوئی نہیں ۔ البتہ ارادہ تو مجھ میں موجود ہے مگر نیک کام مجھ سے بن نہیں پڑتے (رومیوں ۷: ۱۸ ) اعلیٰ درجہ کی بے نقص نیکی کا تو کیا ذکر اُس سائل سے تو معمولی درجہ کی نیکی بھی نہ ہوسکی۔ یعنی جب مسیح نے فرمایا کہ '' جا اپنا سارا مال غُربا کوبانٹ دے ۔ اورمیرے پیچھے ہولے۔ تو وہ جواب یہ بات سُن کر غمگین ہوکے چلاگیا ۔ کیونکہ بڑا مالدار تھا (آیت ۲۱؛ ۲۲) اُس کی اس روش سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ آپ کی بتائی ہوئی معمولی اورمُمکن العمل نیکی کو ناممکن العمل سمجھا ۔ اور نتیجہ یہ حاصل ہو اکہ وہ معمولی کاموں کو جن پر سینگ لگے نہ پھٹکڑی نیکیاں سمجھتا تھا ۔ اسی زاویہ نگا ہ سے اُس نے آپ کو '' اَے نیک اُستاد '' کہا ۔ اور آں خُداوند نے اس قسم کی ظاہری اوررسمی ورواجی نیکی کوا پنے اُوپر عائد ہونے نہ دیا۔ اورا س لئے مسنیک اُستاد کے الفاظ کو اپنے حق میں قبول نہ فرمایا۔

چہارم۔

اگر آپ اس قسم کی ادنیٰ کا اطلاق اپنی ذات پر جائز ٹھہرا لیتے تو یہودی گند م نما جو فروش اُستادوں اورربیوں کو ملامت وتنبیہ نہ کرسکتے ۔ بقول خود کو فضیحت اوروں کو نصیحت اول درجہ کی حماقت ہےہ ۔ کیونکہ خٖتہ راخفتہ کے کند بیدار ۔ اور اسی واسطے آپ ایسے درس دے سکے ۔ کہ  کیا اندھے کو اندھا راہ دکھا سکتا ہے ؟ کیادونوں گڑھے میں نہ گریں گے ؟ (لوقا ۶: ۳۹ ) اورجس کی آنکھ میں شہتیر ہے وہ اپنے بھائی کی آنکھ کے تنکے کو نہیں نکال سکتا (متی ۷: ۱- ۵) یہ باتیں آپ کی عصمت تامہ کی گارنٹی ہیں۔

پنجم۔

اگر آپ کا دامن عصمت گناہ کے گرد غبار سے ذرابھی آلودہ ہوتا تو آپ دوسروں کے گناہ معاف کرنے کا اختیار نہ رکھتے ۔ آپ نے گنہگاروں کے گناہ بخشے (لوقا ۵: ۲۰–۲۴ ؛ ۷ : ۴۸ ) اور گناہ سے حاجت توبہ کی لازم آتی ہے ۔ لہٰذا مخالفین اپنے اس ردی دعویٰ کے ثبوت میں آپ کی توبہ واستغفار کے متعلق کوئی مقام انجیل ِجلیل سے پیش کریں ۔ ورنہ سورج پر تھوکنے سے باز رہیں ۔ وہ اپنے ہی منہ پر پڑے گا

ششم ۔

قرآن شریف اوراحادیث معتبر ہ خُداوند کی عصمت تامہ پر زبردست گواہی دیتے ہیں۔ جو تحقیقات کا شائق ہو اسلامی لٹریچر کی درق گردانی کردیکھئے ۔ اورمسیحی صحائف مطہرہ کو بھی اچھی طرح مطالعہ کرے ۔ اگرچہ مسیح کی الوہیت و قدوسیت کو ثابت کرنے کے لئے مخالفین کی آراء ضروری نہیں۔ کیونکہ انجیل مقد س کی تائید وتصدیق ہی کافی سے زائد ہے ۔ اورمحتاج نہیں کہ غیر مسیحی علماء کی تائید ہمارے دعویٰ کو تقویت دے۔تو بھی ہم مصلحتا ً اسلام کے ایک جید عالم کی رائے مسیح کے متعلق یہاں قلمبند کرتے ہیں ۔ مولوی سید وحید الدین خان آزاد اپنی کتاب '' حد تحقیق بہ مشرب ِ سُنی '' کی فصل ۳ صفحہ ۴ میں اپنا شخصی اعتقاد خُداوند مسیح کے متعلق یوں قلمبند فرماتے ہیں۔ مختصر اً اپنا اعتقاد ہم یہ لکھتے ہیں۔ کہ کتاب ِبائبل یعنی مجموعہ توریت وانجیل وغیرہ کابہت حق ہے ۔ اورسلسلہ انبیاء بنی اسرائیل میں خصوصا ً ذات حضرت مسیح علیٰہ السلام کی ایسی ملکی صفات ہیں۔ کہ اگر ہم اُن کو خُدا نہ کہیں تو اُن کو مجرد آدمی بھی نہیں کہہ سکتے ۔ کہ اُن کی صفات عام ظاہر اقوت ِبشری سے بہت زائد ہیں۔ اورسوائے اس کے چارہ نہیں کہ اُن کو ہم ایک آدمی معہ اللہ تسلیم کرلیں۔ اورقرآن شریف میں جو ذکر اُن کا بلفظ کلمتہ اللہ روح اللہ کے ہے ۔ سواس سے زیادہ ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔ اورتوریت و زبور وغیرہ میں پیشن گوئیاں نسبت اُن کی اس کثرت سے ہیں کہ قوم یہود کو خود انتظار ایک مسیح کا ہے ۔

کیا تجسم خُدا کی کسِر شان ہے

اُس نے اگرچہ خُدا کی صورت پرتھاخُدا کے برابر ہونے کو قبضے میں رکھنے کی چیز نہ سجھا ۔ بلکہ اپنے آپ کو خالی کردیا۔ اورخادم کی صورت اختیار کی اورانسانوں کے مشابہ ہوگیا۔ اورانسانی شکل میں ظاہر ہوکر اپنے آپ کو پست کردیا(فلپیوں ۲: ۶-۱۸ )

مسیحیت کے عظیم الشان اورمایہ ناز مسئلہ تجسم کو غیر معقول  ثابت کرنے کی غرض سے غیر مسیحی لوگ اس پر بہت سے لچر پوچ اعتراضات اُٹھایا کرنے ہیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ '' تجسم خُدا کی کبر شان ہے ۔ یہ اعتراض بہت دفعہ ہمارے سُننے میں آتا ہے ۔ لیکن ہم مخالفین کی اس اچھی ذہنیت پر حیران میں کہ انہوں نے ۔۔

  1. طبقہ جمادات میں پتھر کو خُدا کا مظہر تسلیم کیا۔ اورپتھر کی مورتیوں کو مظہر خُدا سمجھ کر اُن کی پرستش پرضمیر فروشی کی ۔ اہل اسلام حجراِ سود کو جو خانہ کعبہ میں ہے چومتے ہیں۔ اورہندوں کا توجہ کر ہی کیا۔ اُن کے سر بفلک سنگین صنم خانے کروڑ ہا پتھر کے بُت اس حقیقت پر شاہد ہیں۔ یہاں تک کہ عابدوں کی تعداد سے معبودوں کی تعداد بڑھی ہوئی ہے ۔ بھلا پتھروں سے خُدا کی ذات وصفات کا ظہور کیسے ہوسکتا ہے ۔ اور اصنا م سنگین کو انسان کی نجات سے کیا واسطہ ۔
  2. طبقہ نباتا ت میں خُدا کے مظاہر مانتے ۔ اورخاص خاص درختوں کی پرستش کرتے ہیں۔ یہ کور اعتقادی تاحال زوروں پر ہے ۔ حالانکہ درخت خُدا کی صفات کا ملہ کے مظہر نہیں ہوسکتے ۔ اورنہ ہی وہ انسان کا خُدا کے ساتھ ملاپ کرواسکتے ہیں ۔کہاں مظہر اورنجات انسانی اورکہاں نباتا ت !
  3. طبقہ حیوانات میں خُدا کے مظاہر مانے ۔گئو ۔بیل اورسانپ وغیرہ کی پرستش ہورہی ہے ۔ اورمصری میفس کے متبرک سانڈ کو پوجتے تھے ۔ ہند میں بھی متبرک سانڈ پوجے جاتے ہیں۔ کیاکوئی عقلمند آدمی مان سکتا ہے کہ حیوان خُدا کی ذات ِ کاملہ اورصفات ِ قدسیہ الہٰہ کے مظہر ہوسکتے ہیں۔ پھر اُن کوتعظیم الہٰی کی جگہ دینا کفر وشرک نہیں تواور کیا ہے ؟
  4. طبقہ انسانی میں سینکڑوں مظاہر مانے ۔ راجاوں ،سور بیروں ۔ بزرگوں ، رشیوں ،مینوں کو اوتار (مظہر خُدا) تسلیم کیا ۔ اوراُن کی پرستش ممانوں سے ہوتی چلی آرہی ہے ۔ اُن کے سنگین مجسمے قریب قریب ہر شہر اور اورمند ر میں موجود ہیں ۔ اور کروڑوں کی تعداد میں خلق خُدا اندھا دھند شبانہ روزاُن کی عبادت میں مصروف ہوکر موردعتاب الہٰی ہورہی ہے ۔ جس طرح ہر ایک ہرن کی ناف میں کستوری نہیں ہوتی۔ ہر ایک سیپی میں موتی نہیں ہوتا ۔ ہر دھات سونا نہیں ہوتی ہرشفاف شے آئینہ نہیں ہوتی ۔ اُسی طرح ہر انسان خُدا کا مظہر نہیں ہوسکتا ہے ۔ بلکہ وہی جس میں میں الہٰی صفات اورالہٰی طبعیت موجود ہو۔ دُنیا دار عیش پرست اورجنگجو لوگ خُدا کے مظہر نہیں ہوسکتے ۔ ذات ِ مظہر میں انسانی والہٰی ہر دو طرح کی صفات کا وجود ضروری ہے ۔ اُس کی ایک حیثیت خُدا سے اور دوسری حیثیت انسان سے مقرون ہو۔ تاکہ ربط حادث بالقدیم قائم کرسکے ۔ مظہر خُدا میں ان دوحیثیات کا اجتما ع لابدی ہے ۔ اُس کا انسان کامل اورخُدا کامل ہونا ضروری ہے ۔

واضح ہو کہ تجسم اختیار کر نا خُدا کی کسر شان تب ہو اگر وہ جمادی ، نباتاتی اورحیوانی طبقات میں مجسم ہو۔ انسان خُدا کی صورت پر پیدا کیا گیا ہے ۔ اور مظہر خُدا سے استفاد ہ بھی وہی کرسکتا ہے ۔ نجات کا انتظام بھی اُسی کے لئے کیاگیا ہے ۔ خُدا کا ملاپ بھی صرف طبقہ انسانی کے ساتھ ہوسکتا ہے تو اندریں صورت اگر خُدا مجسم ہرکر انسانی جامہ پہنے تو اس میں خُدا کی شان نہیں گھٹتی ۔ بلکہ برعکس اس کے انسانیت کی شان بڑھ جاتی ہے ۔ یہ ایک مسلمہ حقیقیت ہے ۔ کہ اگر اشرف وجود ادنی ٰ وجود کے ساتھ متحدو مقرون ہوجائے توادنیٰ کی قدر وقیمت بڑھ جاتی ہے ۔ مثلاً رُوح کے ساتھ اتحاد رکھنے کے باعث ہمارے جسم کی اس قدر قدر وقیمت ہے ۔ اگر روح جسم کو چھوڑ جائے تو اس کی ساری قدرومنزلت یکسر جاتی رہے ۔

  1. اگر لعل یا جواہر کاایک ننھا ساذرہ پیتل کی انگوٹھی پر بطور رنگینہ لگایا جائے تو اُس انگوٹھی کی قیمت کس قدر بڑھ جاتی ہے ۔ ایک دریتیم کی وجہ سے ایک صدف کی قدروقیمت کس قدر زیادہ ہوجاتی ہے ۔ لیکن جب وہ در بے بہا اُس میں سے نکال لیا جاتا ہے تو خالی سیپی کام کی نہیں رہتی ۔ اسی طرح خُداو ند مسیح جب مجسم ہوکر انسانیت سے مقرون ہوگئے تو انسانیت کا مرتبہ بڑھ گیا۔
  2. پرانے زمانے میں بعض بادشاہ فقیرانہ بھیس بدل کر رات کے وقت اپنی رعیت کے پست ومظلوم طبقہ کے دُکھ درد جاننے کی خاطر ادھر اُدھر اُن کی جھونپڑیوں میں گشت لگایا کرتے تھے ۔ اور اُن کی مظلومیت ومصیبت کے موجبات کا سراغ لگا کر اگلے روز تخت ِ عدالت پر بیٹھ کر اُن کا انصاف کردیتے تھے ۔ اگر بادشاہ شاہی شان وتجمل میں اُ ن کے پاس جاتا تو وہ حواس باختہ ہی ہو جاتے ۔ اُن میں کب یہ حوصلہ رہتا کہ بادشاہ کو بلاخوف اُن مظالم ومصائب سے آگاہ کرتے جو زبردستوں کی طرف سے اُن پرروار رکھے جاتے تھے ۔ اب ظاہر ہے کہ فقیرانہ بھیس بدلنے سے بادشاہ کے اختیار ومرتبہ میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی تھی ۔ بلکہ بے کس ومظلوم لوگوں کے حق میں اُس کا یہ ایثار کثیر المنفت اورمصائب سے نجات دلانے کا موجب ہوجاتا تھا۔ اسی طرح مسیح کے جسم ِانسانی میں اس عالم آب وگل پر ظہور فرمانے سے ابزد تعالیٰ کا حد درجہ ایثار ظاہر ہوتا ہے ۔ جس سے دُنیا کے تھکے ماندے اوربوجھ سے دے ہوئے لوگوں کے لئے آرام ومسرت اورحقیقی آزادی کا دروازہ کھل گیا ۔
  3. ایک لعل وجواہر کے سوداگر (جوہری ) کے پاس ایک نہایت خوبصورت ہنس تھا جس کو وہ بہت عزیز رکھتا تھا۔ بہت لوگوں نے اُسے خریدنے کی کوشش کی مگر اُس سوداگرنے ہمیشہ اُس کے بیچنے سے انکار کیا۔ اُس کے کئی دوست ناراض ہرکر چلے گئے ۔ ایک روزہ اُس نے سوچا کہ اس ہنس کی وجہ سے میرے کئی دوست مجھ سے نارا ہوگئے ہیں ۔ کیونکہ میں نے اس کو اُن کے ہاتھ بیچنے سے انکار کیا ۔مناسب ہے کہ مَیں اس کی قیمت دوہزار روپیہ ٹھہرالوں۔ نہ کوئی اتنے دام دے گا اور نہ ہنس لے جائے گا۔ بھلا دوہزار روپیہ دے کر اس مشت پر کا کوئی کیا بنائے گا؟ ایک روز ایک ایک جوہر ات کا گاہک کوئی قیمتی جو اہر خریدنے کے لئے اُس کی دوکان پر آیا۔ سوداگر اُس وقت دوکان کے اندرونی حصے میں کوئی کام کررہاتھا۔ گاہک کے دیکھتے دیکھتے اُس ہنس نے ایک لاکھ روپیہ کا ایک قیمتی لعل نگل لیا۔ جب سوداگر باہر آیا تواُس نے گاہک سے پوچھا کہ آپ کیا خریدیں گے ؟ اُس نے کہا کہ '' یہ ہنس'' سوداگر نے جو اصل حقیقت سے ناواقف تھ اکہ کہ اس کی قیمت دوہزار روپیہ ہے ۔ گاہک نے فوراً دو ہزار روپیہ ڈھیری کردیا۔ اورہنس اُٹھا لیا۔ سوادگر بہت خوش تھا کہ اچھا بے وقوف ملا ہے ۔ جو پانچ د س روپے کی چیز کے دوہزار روپےدے کر چلاگیا ہے ۔ چلو کیا خسار ہے ۔ سراسر نفع ہی ہے ۔دیکھئے اُ س لاکھ روپے کے لعل نے اس ہنس کی قدروقیمت کوبڑھا دیا۔ اگر اُس کے پیٹ کے اندر وہ قیمتی لعل نہ ہوتا تو کون اُس کو اتنی گراں قیمت پر خرید نا ؟ اورہنس کے پیٹ میں پڑنے سے لعل کی قیمت گھٹی نہیں بلکہ قائم رہ ۔ کلمتہ اللہ (مسیح ) وہ لعل بہشتی تھا۔ (امثال ۸: ۱۱؛ ۱۹ ؛متی ۱۳: ۴۵،۴۶ ) جو مقدسہ مریم کے بطن میں پڑا تو اُس کی قدروقیمت بڑھ گی ۔ آج اُس نادار عورت کو کروڑوں نفوس مسیح کی ماں سمجھ کر نہایت عزت واحترام سے یاد کرتےہیں۔ مریم کا اپنا اقرار ملاحظہ ہو۔'' میری جان خُداوند کی بڑائی کرتی ہے ۔ اورمیری روح میرے منجی خُدا سے خوش ہوئی ۔کیونکہ اُس نے اپنی بند ی کی پست حالی پر نظر کی ۔اور دیکھ اب سے ہرزمانے کے لوگ مجھ کو مبارک کہیں گے (لوقا ۱: ۴۶-۴۸) وہ جب اس عالم سفلی میں انسانوں کے مشابہ ہو کر آیا تو اُس وقت جتنوں نے اٰسے قبول کیا اُس نے اُنہیں خُدا کے فرزند ننے کا حق بخشا (یوحنا ۱: ۱۲ ) وہ ابن ِآدم بن گیا تاکہ انسانوں کو خُدا کے بیٹے بنائے ۔ وہ خاکی بن گیا تاکہ ہم خاکیوں کو افلاکی بنائے ۔ وہ اپنی اُس قوت کی تایثر کے موافق جس سے سب چیزیں اپنے تابع کرسکتا ہے ۔ ہماری پست حالی کے بد کی شکل بدل کر اپنے جلال کے بدن کی صورت پربنائے گا ۔ (فلپیوں ۳: ۲۱ ) وہ صلیب پر چڑھا تو اُس لعنت کے نشان کو برکت کا نشان بنا کر اُس کی شان کر بڑھا گیا ۔ اُس کو پسماندہ لوگ قبول کریں تو اُ ن کی شان بڑھ جاتی ہے ۔ وہ اگرچہ دولت مند تھا مگر تمہاری خاطر غریب بن گیا ۔ تاکہ تُم اُس کی غریبی کے سبب سے دولتمند ہوجاو(۲۔ کرنتھیو ں ۸: ۹ ) وہ مرگیا تاکہ گناہ وہ موت ہمیشہ کے لئے نیست ہوجائیں وہ زندہ ہوگیا تاکہ ہم حیا تِ ابدی کو حاصل کریں۔

پس اَے ناظرین ! تجسم خُدا کی کسِر شان نہیں ہے بلکہ ہم عالم خاکی کے باشندوں کی قدروقیمت کو بڑھانے اورہمیں خاک ِ مذلت سے اُٹھا کر عرش بریں پر پہنچانے کے لئے خُداتعالیٰ کی حکمت پر دلالت کرتا ہے خُداوند مسیح عرش ِ بریں کو چھوڑ کر اس عالم سفلی میں آیا تاکہ ہم الوہیت (خُدا ) سے متحد ہوکر حیات ِ ابدی اورراحت ِ سرمدی کو حاصل کریں۔ آمین !

مسیح کامل انسان

انجیل کی رُو سے انسان ِ کامل وہ ہے جس کی ذات ارثی ، متعدی ، کسبی ،عملی اورخیالی ہر قسم کے گناہ سے بکلی آزاد ہو۔ اورعمد وسہو کے گناہ سے قطعی مبرا ومنزہ ہو۔ گنہگاروں کی صحبت میں رہے پر گناہ اُس کی پاک طبیعت پر مطلق اثر انداز  نہ ہو۔ اورخُداوند مسیح اس معیار کے مطابق انسان کا مل ہے ۔ کیونکہ ہمارا ایسا سردار کاہن نہیں جوہماری کمزوریوں میں ہمارا ہمدرد نہ ہوسکے ۔ بلکہ ساری باتوں میں ہماری طرح آزمایا گیا ۔ تاہم بے گناہ رہا (عبرانیوں ۴: ۱۵ ) اور اُس کی ذات میں گناہ نہیں (۱۔ یوحنا ۳- ۵ ) اُس بیٹے کو مقرر کرتا ہے جو ہمیشہ کے لئے کامل کیاگیا ۔ (عبرانیوں ۷: ۲۸ ) اسی واسطے ہر مسیحی ایماندار کو اُس کے قد کے انداز ے تک پہنچنے  کاحکم ہے ۔ جب تک ہم سب کے سب خُدا کے بیٹے کے ایمان اوراُس کی پہچان میں ایک نہ ہوجائیں ۔ اورکامل انسان نہ بنیں ۔ یعنی مسیح کے پورے قدکے انداز ے تک نہ پہنچ جائیں (افیسوں ۴: ۱۳ ) ۔

خُدا نے انسان کو اپنی صورت پر پاک وراست پیدا کیا تھا ۔ لیکن حضرت انسان نے گناہ کی کالک سے اپنی وہ فطری جلالی صورت بگاڑلی ۔ اور الہٰی صورت کے وہ نورانی خدوخال اورنقش ونگار گناہ نے اُس کے حافظ سے مٹادئیے ۔ اب دوبارہ وہ خُدا کی صورت کے ساتھ مشاہبت  پیدا کرے تو کیونکر کرے ؟ اورمشکل یہ ہے کہ جس کی صورت پر (مشابہ ) وہ بنا تھا وہ نادیدہ ہے ۔ وہ اُس نور میں رہتا ہے جس تک کسی کی گذر نہیں ہوسکتی نہ اُسے کسی انسان نے دیکھا اورنہ دیکھ سکتا ہے (۱۔ تمیتھیس ۶: ۱۶ ) پس جس جال کہ اُس شبیہ  اللہ کا کوئی مرئی نمونہ ہی انسان کے سامنے نہیں تو نادیدہ کی صورت پر کیسے اپنی صوررت کوبنائے ؟ انسان کی اس بھاری مشکل کو حال کرنے کے لئے کلمتہ اللہ نے ملبوس ِ انسانی اختیار کیا ۔ اوراُس کی کامل انسانیت میں اُس کھوئی ہوئی الہٰی صورت کا پورا پورا سراغ ملتا ہے  ۔کیونہ الوہیت کی ساری معموری اُسی میں مجسم ہوکر سکونت کرتی ہے (کلیسوں ۲: ۹) وہ اندیکھے خُدا کی صورت ہے (کلسیوں ۱: ۱۵ ) الٰہذا وہ نادیدنی خُدا دیدنی نمونہ ہے ۔ اوراُس کی صورت پر بحال ہونا ہی خُدا کی صورت پر بننا ہے ۔ لازم ہے کہ ہم اُس کے بیٹے کے ہم شکل ہوں (رومیوں ۸: ۲۹ ) وہ اُس گمشدہ الہٰی صورت کانمونہ ہے جس کے مطابق انسان بنایا گیا تھا ۔ اورجس طرح ہم اُس خاکی کی صورت پر ہوئے ۔ اُسی طرح اُس آسمانی کی صورت پر بھی ہوں گے (۱۔ کرنتھیوں ۱۵: ۴۹ ) ۔

علامہ جامی شرح خصوصی الحکم میں ایک بہت ہی جامع معیار انسان کامل کا پیش کرتے ہیں ۔ اورفرماتے ہیں کہ انسان ِ کامل میں تین نشایتں ہیں۔ اول نشاۃ روحانی ۔دوم نشاۃ عنصر ی ، سوم نشاۃ مراء تی (ماخوداز انسان کامل یا مظہر خُدا ) چنانچہ اس بیان کر دہ معیار کے مطابق بھی خُدوند مسیح کے سوا اورکوئی انسان کامل نہیں ہوسکتا ۔ اورانجیل مقدس سے خُداوند کے متعلق یہ دعویٰ پورے طورپر ثابت ہے ۔ملاحظہ فرمائے ۔

اول ۔نشاۃ روحیہ :  مَیں اورباپ ایک ہیں (یوحنا ۱۰ : ۳۰ ) مَیں باپ میں سے نکلا اوردُنیا میں آیاہوں (یوحنا ۱۶: ۲۸ ؛ ۸: ۴۲ ) روہ حق اورزندگی مَیں ہوں (یوحنا ۱۴: ۶) الوہیت کی ساری معموری اُسی میں مجسم ہوکر سکونت کرتی ہے(کلسیوں ۲: ۹) ۔

دوم ۔نشاۃ عنصر یہ ۔   اب سے ابن ِ آدم قادر مطلق خُدا کی داہنی طرف بیٹا رہے گا ۔ (لوقا ۲۲: ۶۹ ؛۱۷۲۲ ؛۲۴؛۲۶؛۳۰)

سوم۔ نشاۃ مرائتیہ :   جس نے مجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا ۔ (یوحنا ۱۴: ۹ وہ اندیکھے خُدا کی صورت ہے (کلسیوں ۱: ۱۵)

خُداوند مسیح کی نشاۃ روحیہ ونشاۃ عنصریہ کا قرآن شریف بھی مصدق ہے ۔ اوراُسے روح اللہ اورانسان بھی کہتا ہے ۔ پس خُداوند مسیح کے سوا اورکوئی نبی رسول ۔ آوتار ۔ بھگت ۔گرو رشی مُنی اورمہاتما وغیرہ انسان کامل نہیں ہوا۔ اگر کوئی دعویٰ کرے بھی تو بے ثبوت ہوگا۔ لوگ انپی مذہبی کتابوں کے دعویٰ سےبڑھ کر دعوے کرکے حق کو چھپاتے  ۔خود گمراہ ہوتے اور دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں ۔ اوریونہی لفظی کھینچا تانی سے بانیاں ِ مذاہب کو اُ ن کے شخصی دعادی سے بڑھ کر دکھانے کی فضول کوشش کرتے ہیں۔ واضح ہوکہ اس بیسویں صدی کے مسیحی خُداوند مسیح کی زمینی زندگی کے ایام میں موجود نہ تھے ۔ اس لئے وہ اپنے نجات دہندہ کے چشم دید گواہ نہیں ہوسکتے ۔ اسی طرح اس زمانہ کے تمام حامیان ِمذہب اورمقدان اویان بھی اپنے اپنے بانیاں ِ مذہب کے ایام ِزندگی میں موجود نہ تھے ۔ وہ بھی اُن کے چشم دید گواہ نہیں ہیں۔ اس لئے ہم سب کے دعادی کی بنیاد مذہبی کُتب ہی ہوسکتی ہیں۔ لہٰذا صدقِ دلی اورانصاف پروری سے برائے انفصال اورتحقیق ِصداقت اپنی اپنی کُتب کی ورق گردانی کریں تو ثابت ہوجائے گا کہ آپ کے اپنے مذہبی بانیوں کے متعلق دعادی خوش فہمی وہٹ دھرمی کے مبالغ اورشاعرانہ محامد سے زائد نہیں ہیں۔ ہم نے تو خُداوند مسیح کا انسان کا مل ہونا اپنے صحائف ِ مطہر ہے سے ثابت کردیا ہے ۔ اورآیند ہ کوجوکچھ ثابت کریں گے اپنے معتقدات سے سنددے کرکریں گے ۔

مسیح کن معانی میں خُدا کا بیٹا ہے :

وہ پاکیزگی کی رُوح ک اعتبار سے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے سبب قدرت کے ساتھ خُدا کا بیٹا ٹھہرا (رومیوں ۱: ۴ ) بیٹے کے بغیرباپ باپ نہیں کہلا سکتا۔ یہاں تک کہ بیٹے کے بغیر باپ کا لفظ بے معنی ہے ۔ اس لفظ میں معنی ڈالنے کے لئے بیٹے کا وجود لازمی ہے ۔ اس صورت میں بیٹا گویا باپ کے اظہار کا ذریعہ ہے ۔ بغیر بیٹے کے باپ کا تعارف لوگوں سے کروانا محال ہے ۔ پس خُدا کا دُنیا پر باپ کی حیثیت میں ظاہر کرنے کے معنی میں بھی مسیح خُدا کا بیٹا ہے ۔ '' خُدا کو کسی نے کبھی نہیں دیکھا ۔ اکلوتا بیٹا جو باپ کی گود میں ہے اُسی نے ظاہر کیا ۔ (یوحنا ۱: ۱۸ ) وہ فرمانبرداری کے اعتبار سے خُدا کا بیٹا ہے ۔ مَیں اپنی مرضی نہیں بلکہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی چاہتا ہوں (یوحنا ۵: ۳) انسانی شکل میں ظاہر ہوکر اپنے آپ کو پست کردیا ۔اوریہاں تک فرمانبردار رہا کہ موت بلکہ صلیبی موت گوارا کی (فلپیوں ۲: ۸) اسی واسطے باپ نے فرمایا کہ '' یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہوں (متی ۳: ۱۷) وہ الہٰی ذات ہونے کے سبب سے خُدا کا بیٹا ہے ابتدا میں کلام تھا اورکلام ِ خُدا کے ساتھ تھا اورکلام ِ خُدا تھا ۔ یہی ابتدا میں خُدا کے ساتھ تھا۔ (یوحنا ۱: ۱- ۲) وہ اندیکھے خُدا کی صورت اورتمام مخلوقات سے پہلے مولود ہے ۔ (کلیسوں ۱: ۱۵ ) وہ اُس کے جلال کا پر تو اور اُص کی ذات کا نقش ہے ۔ (عبرانیوں۱: ۳) خُدا سرچشمہ کلام ہونے کی حیثیت سے باپ کہلاتا ہے ۔اور کلام (مسیح ) اُس سے صادر ہونے کی حیثیت سے بیٹا کہلاتا ہے ۔ یہ روحانی اصطلاح ہے ۔ اس لئے باپ اوربیٹے کے اس رشتہ کو روحانی طورپر پرکھنا چاہئے ۔ اورکلام جب تک متکلم کی ذات میں مخفی رہے حکمت (لوگاس ) کہلاتا ہے اور جب ظاہر ہوتو کلام ۔ وہ کلام نفسی (حکمت ) ہوکر خُدا کی واحد ذات میں خفی رہتا اورکلام لفظی ہوکر مظہر ِخُدا اورمخلوقات کی پیدائش کی علت ٹھہرتا ہے ۔ باپ ازلی و ابدی حقیقت ِ مخفیہ ہے ۔ اوربیٹا اُسی کی حیثیت ِ ظہوری ۔

بہت سے کوتاہ نظر لوگ مسیح کو خُدا کا بیٹا کہنے میں خُدا کی جو رُو کو وجود لازمی سمجھتے ہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر اُ ن کے اس خیال کی غیر معقولیت کو مبرہن کرکے مسیحی مسلمات کے مطابق ابن اللہ کی حقیقت پر مزید روشنی ڈالی جائ ۔ سب سے پہلے ہم یہ پوچھ لینے کا حق رکھتے ہیں۔ کہ اگر جو رُو کے بغیر بیٹا ہونا ممتنع ہے ۔ توحضرت ابوالبشر (آدم ) کی ماں کون تھی ۔ باپ کون تھا ؟ جیسے آدم کی ماں اورباپ نہ تھے۔ ویسے  ہی مسیح کا باپ جسمانی طورپر کوئی نہ تھا کیونکہ وہ مریم باکرہ سے پیدا ہوئے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر ابن اللہ کہنے میں خُدا کی جورو کا وجود لازمی ہے ۔ تو عربی محارو میں ابن البیل(سٹرک کا بیٹا ) کہنے سے سڑک کی جوروکا وجود بھی ضروری ہے ۔چونکہ مسافر کو سٹرک کے ساتھ خاص تعلق اورمناسبت ہوتی ہے ۔ اس لئے عربی محاورہ میں مجازی طورپر اُس کو ابن السبیل کہتے ہیں۔ نہ یہ کہ سٹرک کی بھی کوئی جورُو ہے۔ جس سے مسافر پیدا ہوتا ہے ۔ اسی طرح مسیح کو خُدا کا بیٹا کہنے میں خُدا کی جو رُو کا جود ضروری نہیں ۔ پھر یہ مسلمات سے ہے کہ خُدا اورانسان کی صفات میں بجز مشارکت لفظی کے اورکوئی حقیقی اشتراک نہیں ہے۔ مثلاً خُدا سمیع ہے ۔ بصیر ہے ۔ عقیل ہے مُرید ہے ۔ اورانسان بھی سامع ،باصر۔ عاقل ۔صاحب ارادہ اوربادشا ہ ہے ۔ انسان کانوں سے سنُتا ۔ آنکھوںن سے دیکھتا ۔ دماغ سے سوچتا ۔ دل میں ارادہ کرتا اورتخت پربیٹھ کر عدالت کرتا ہے ۔ تو کیا خُدا بھی انسان کے سے کان ۔ آنکھ ،دماغ ، دل اورجسم رکھتا ہے ؟ ہر گز نہیں ۔ اس سے ظاہر ہے کہ خُدا سُنتا دیکھتا سوچتا اوراراد کرتا اورعدالت کرتا انسان سے بالکل مختلف ہے ۔ اورانسان کے ساتھ وہ ان اُمور میں محض مشارکت لفظی رکھتا ہے ۔ اسی طرح خُدا کا بیٹا ہونے اور انسان کا بیٹا ہونے میں بہت فرق ہے ۔ انسان کا بیٹا بغیر جو رُو کے نہیں ہوسکتا جس طرح بغیر آنکھوں کے انسان نہیں دیکھ سکتا خُدا کا بیٹا بغیر جو رو کے ہوسکتا ہے ۔ جیسے وہ بغیر اعضاء کے یہ سارے کام کرتا ہے ۔

دراصل خُدامصدر ہونے کے لحاظ سے باپ ہے ۔ اوربیٹا صادر ہونے کے لحاظ سے بیٹا ہے ۔ خُداوند مسیح کاقول ملاحظہ ہو۔ مَیں باپ میں سے نکلا اوردُنیا میں آیا ہوں (یوحنا ۱۶: ۲۸ ؛۸: ۴۲) اورابن اللہ مخلوق نہیں بلکہ مولود ہے ۔ وہ اندیکھے خُدا کی صورت اورتمام مخلوقات سے پہلے مولود ہے (کلسیوں ۱: ۱۵) اگروہ محض ابن آدم ہی ہوتا تو لازم تھا کہ قانون ارثی کے مطابق اُس میں دنیوی والدین کی سی عادات وخصائل پائی جاتیں ۔ لیکن ہم خوب دکھاچکے کہ اُس کی زندگی بھر کے تمام افعال واقوال اورعادات وخصائل الہٰی زندگی ۔ الہٰی خصلت اورالہٰی صفات کے عین مشابہ تھے ۔ اسی لئے وہ    جبرائیل کی گواہی کے مطابق خُدا کا بیٹا تھا۔      اس سب سے وہ پاکیزہ جو پیدا ہونے والا ہےخُدا کا بیٹا کہلائے گا (لوقا ۱: ۳۵)

  • یوحنا اصطباغی کی گواہی ۔   چنانچہ مَیں نے دیکھا اورگواہی دی ہے ۔ کہ یہ خُدا کا بیٹا ہے (یوحنا ۱: ۳۴)
  • یوحنا رسول کی گواہی ۔   یسوع  ہی خُدا کا بیٹا مسیح ہے ۔(یوحنا ۲۰ : ۳۱ ) نتن ایل کی گواہی ۔ اَے ربی تو خُدا کا بیٹا ۔ تُو اسرائیل کا بادشاہ ہے (یوحنا ۱: ۴۹) شاگردوں کی گواہی اُنہوں نے اُسے سجدہ کرکے کہا ۔یقینا ً تُو خُدا کا بیٹا ہے (متی ۱۴: ۳۳)۔
  • پطرس کی گواہی ۔   تُو زندہ خُدا کا بیٹا مسیح ہے (متی ۱۶: ۱۶) 
  • رومی صوبہ دار کی گواہی ۔   یہ آدمی بےشک خُدا کا بیٹا تھا۔(مرقس ۱۵: ۳۹)
  • پولوس رسول کی گواہی ۔   اورفوراً عبادت خانوں میں یسوع کی منادی کرنے لگا کہ وہ خُدا کا بیٹا ہے (اعمال ۹: ۲۰ )
  • شیاطین کی گواہی ۔   اَے یسوع خُدا تعالیٰ کے بیٹے (مرقس ۵: ۷ ؛ متی ۸: ۲۹ ؛لوقا ۸: ۲۸ )
  • مسیح کا اپنا اقرار ۔   مَیں خُدا کا بیٹا ہوں (یوحنا ۱۰ : ۳۶ )
  • خُدا کی گواہی ۔   یہ میرا پیارا  بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں( متی ۱۷: ۵ )

پس خُداوند مسیح ابن اللہ کی ابنیت کو جسمانی وانسانی طورپر قیاس کرنا کفر اورجہالت ہے ۔ اگرچہ مسیحی ایماندار لوگ جنہوں نے نئی پیدائش حاصل کی ہو خُدا کی بیٹے کہلاتے ہیں۔ مگر مجازی معنی ہیں۔ اورمجاز حقیقت کی فرع ہے ۔ ازیں جہت اگر خُدا کا کوئی حقیقی بیٹا نہ ہو تو مجازی کبھی نہیں ہوسکتا ۔ اورحقیقی بیٹا مسیح ہے جس کو اکلوتا بیٹا کہا گیا ہے ۔ اورر الفاظ اکلوتا بیٹا ہی سے بخوبی ثابت ہے کہ جس معنی میں مسیح خُدا کا بیٹاہے اُس معنی میں اور کوئی شریک نہیں۔ (یوحنا ۱: ۱۴ ؛ ۱۸؛۳: ۱۶ ) اورایماندار لوگ تو مسیح پر ایمان لاکر اُس کی معرفت خُدا کے بیٹے کہلاسکتے ہیں۔ لیکن جتنوں نے اُسے قبول کیا اُس نے اُنہیں خُدا کے فرزند بننے کا حق بخشا (یوحنا ۱: ۱۲ ) اورمسیح کی معرفت ایماندار خُدا کے نے پالک (لے کر پالے ہوئے ) فرزند بن جاتے ہیں نہ کہ حقیقی (گلیتوں ۴: ۵) اب جو کوئی بیٹے کا انکار کرتا ہے اُس کے پا  س باپ بھی نہیں ۔ اورجو بیٹے کا اقرار کرتا ہے اُص کے پاس باپ بھی ہے(۱۔یوحنا ۲: ۲۳) جو بیٹے پرایمان لاتا ہے ہمیشہ کی زندگی اُس کی ہے ۔ لیکن جو بیٹے کی نہیں مانتا زندگی کو نہ دیکھے گا ۔بلکہ اُس پر خُدا کا غضب رہتا ہے ۔ (یوحنا ۳: ۳۶) یہ ہیں ابن اللہ کے صحیح معنی جو مسیحی لوگ مانتے ہیں۔ اورچغد طینت لوگ خواہ مخواہ کی بھونڈی اورکُفر آمیز تاویلیں اس مبارک مسئلہ ک کرکے اپنی اوچی ذہنیت کااظہار کیا کرتے ہیں۔ دراصل وہ نور کے مخالف ہونے کے باعث ایسا کرتے ہیں۔ کیونکہ نوردنیا میں آیا ہے  اورآدمیوں نے تاریکی کو نور سے زیادہ پسند کیا۔ اس لئے کہ اُن کے کام بُرے تھے ۔ کیونکہ جو کوئی بدی کرتا ہے وہ نور دشمنی رکھتا ہے ۔ اورنور کے پاس نہیں آتا ۔ ایسا نہ ہوکہ اُس کے کاموں پر ملامت کی جائے (یوحنا ۲: ۱۹- ۲۰ ) ۔

مسیح انسان ۱ اورخُدا کا برزخ کامل

خُدا ئے واجب الوجود اورالامحدود ومحیط ِکُل کا ممکنات ومحدثات اورمحدودات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوسکتا جب تک ایک واسطہ فی مابین الواجب وممکن نہ ہو۔ اورواسطہ بھی وہی ہوسکتا ہے جوبوجہ حادث اوربوجہ قدیم ہوکر ربط حادث بالقدیم قائم کرنے کی صلاحیت رکھے ۔ اس مسئلہ کے متعلق کہ آیا واجب وممکن میں واسطہ کی ضرورت ہے یا نہیں ؟تین فریق ہیں۔ اورسب کےخیالات میں اختلاف ہے ۔

  • واحدۃ الوجود کے قائلین کے نزدیک توواسطہ کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ وہ دوئی کے مطلق قائل نہیں ۔ چنانچہ جب دوئی نہ ہوئی تو واسطہ کی ضرورت نہ رہی۔
  • وہ لوگ ہیں جو واسطہ کو تو ضروری مانتے ہیں۔ مگراُن کاماننا اورنہ ماننا دونوں برابر ہیں۔ جیسا کہ ابھی ظاہر ہوجائے گا۔ اوروہ واسطہ کی تین صورتیں مانتے ہیں۔

اول ۔ واسطہ فی العروض۔   کسی صفت کے ساتھ حقیقتاً وبالذات واسطہ ہی متصف ہو۔ اور ذی واسطہ میں وہ صفت مطلقاً نہ ہو۔مگر چونکہ واسطہ وذی واسطہ میں ایک طرح کا تعلق وملبس ہے اس بنا پر ذی واسطہ کی طرف بھی اُس صفت کی نسبت کرسکتے ہیں ۔ مثلاً ریل گاڑی کے بیٹھنے والے حقیقت میں متحرک نہیں ہیں۔ بلکہ ریل گاڑی متحرک ہے ۔ لیکن ایک خاص مناسبت کے لحاظ سے ہم ریل گاڑی کے بیٹھنے والوں کو بھی متحرک کہہ سکتے ہیں۔

دوم ۔واسطہ فی الاثبات ۔   کوئی صفت ذی واسطہ میں موجود ہو اور واسطہ میں اصلا موجود نہ ہواور واسطہ میں اِصلا موجود نہ  ہو۔ بلکہ ذی واسطہ کے موصوف کردینے میں سقیر محض ہو۔ مثلا ً رنگریز واسطہ ہے ۔ لیکن صفت رنگینی ذی واسطہ یعنی کپڑے میں پائی جاتی ہے ۔ لیکن خود رنگریز میں یہ صفت موجود نہیں ہوتی ۔ ہاں یہی ممکن ہے کہ وہ خوداپنے آپ کو کلا یا جزا رنگین کردے ۔ مطلب یہ کہ جو صفت مستقل طورسے ذی واسطہ یعنی کپڑے میں موجود ہے وہ بعینہ واسطہ یعنی رنگریز میں موجود نہیں ہے ۔

سوم ۔ واسطہ فی الثبوت ۔   وہ صفت واسطہ و ذی واسطہ دونوں میں حقیقیہ موجود ہو ۔لیکن واسطہ میں بطور عِلت اورذی واسطہ میں بطور معلول ہو۔ مثلاً لکھتے وقت قلم کی حرکت سے پیدا ہوتی ہے ۔ پس ہاتھ حرکت میں واسطہ اور قلم ذی واسطہ ہے۔ حرکت دونو ں کے ساتھ قائم ہے۔ لیکن ہا تھ کی حرکت علت اور قلم کی حرکت معلول ہے۔وسائط  ثلاثہ کی  تشریح و تفصیل سے خوب ر وشن کہ خدا کا واسطہ ہو تاعالم کی ذات و صفات میں بمعنے فی العرو ض الثبوت ممکن نہیں۔ اس لئے کہ واسطہ فی العروض سے لا زم اآتاہے کہ جتنی صفات مخلوقات میں ہیں حقیقتہً خداہی کی صفات ہیں۔ اور مخلوقات کی طرف ان کی نسبت محض مجازی ہے۔ اس کے ماننے میں یہ قباحت ہے کہ مخلوقات میں اکثر صفات ِذمیمہ اور او صاف ِدُنیہ ایسی ہیں جن کی نسبت خدا کی ذات کی طرف کر ناسراسر کفر و گستا خی ہے۔ واسطہ فی الثبوت ہو نا اس لئے غلط ہے کہ اول تو اس میں وہی قباحت پا ئی جا تی ہے جس کی تر دید ا بھی کی جاچکی ہے۔ دوسری خرابی یہ لا زم اآتی ہے ، کہ چونکہ معلول تخلف علت سے محال ہے ، اس لئے مخلوقات کی صفات قدیم اتنی پڑیں گی ، اور یہ عقلی و نقلی طور پر باطل ہے۔ پس واسطہ فی الا ثبات میں کسی قدر گنجائش ہے ، یعنی کی باری تعالی ٰجو صفات اپنی مخلوقات کو دیتاہے خود ان صفات سے مبرہ ہے۔ اور خالق و مخلوق کی صفات میں بحبز مشارکت لفظی کے اور کو ئی منا سب و مشابہت نہیں ہے۔ لیکن اس قسم کا واسطہ صرف خالق کے وجو د کی ثابت کر تاہے۔ جیسے مصنوع اپنے صانع اور مکتوب اپنے کا تب پر دلا لت کر تاہے ، اس قسم کے واسطہ کو مظہر ناقص کہتے ہیں۔ اور یہ اسلئے مفید مطلب نہیں کہ یہ ہم پہلے ہی مانتے ہیں۔ واسطہ تو ایسا چاہیے جوحادث و قدیم اور ممکن و واحب دونو ں کو ملا ئے۔

  • وہ فریق ہے۔ جو واجب اور ممکن کے درمیا ن ایک ایسے واسطہ کے قائل ہیں جس میں وجو ب اور امکا ن دونو ں صفتیں موجو د ہوں۔تاکہ ربطِ حادث  با لقدیم قائم کرسکے۔اور اس واسطہ کو وہ انسان کا مل اور مظہرجامع اور برزح کبری کہتے ہیں۔

لیکن اس میں یہ نقص ہے کہ "انسان کا مل :مخلوق اور حادث ہے۔ اور واجب و ممکن کے درمیان برزخ و ہ ہو سکتاہے جو وجو ب و امکان ہر دو طرح کی صفات سے متصف ہو۔ چنانچہ حکمامتفسفین اور ماہرین طبعیا ت دور ِحاضرہ نے تجربیات کی بنا پر مو جو د ات کے ہر طبقہ کو دوسرے طبقہ کےساتھ ربط دینے کے لئے برزخ کے وجود کو لا بدی ماناہے۔ مثلا ً

  • البتہ جمادات و نباتات کا برزخ مر جان(مو نگا)کوما نا ہے۔ مونگا پتھر ہو  نے کے لحاظ جہا زی خاصیت رکھتاہے۔ اورقوت ِنامیہ رکھنے کے با عث نباتی خاصیت بھی رکھتاہے۔ لہٰذا جمادی و نباتی خصا ئص کا اس میں اجتما ع ہے۔ اس لئے وہی ان برنہ و طبقات کا برزخ ہے۔
  • زمانہ حاضرہ میں بعض مغربی ممالک میں ایک گوشت خور درخت دریا فت ہو اہے جو حیوانو ں اور پر ند وں کا گوشت ایسے ہی کھاتاہے ، جیسے شکاری درندے گوشت کھانا درندوں کی خاصیت ہے۔ پس یہ درخت طبقات ِنباتات و حیوانا ت ہر دو کی خصائص رکھتاہے۔اس  لئے یہی ان ہر د و طبقات کا برزخ ہے۔
  • طبقہ حیوانا ت طبقہ انسانی کا برزخ بندرما نا گیا ہے۔ اس جانو ر میں بعض ایسی صفات پا ئی جا تی ہیں۔ جن کو خواہ مخواہ خصائص فوق الحیوانا ت کہناپڑتاہے۔ ایک طرف تواس کی معمولی حیوانی خاصیات دیگر تما م حیوانا ت سے ملتی ہیں۔ اور دوسری طرف اس کی خاص اعلے ٰ صفات ہیں۔ انسانی طبقہ کی دانی ٰخاصیتوں کے مشابہت کو دیکھ کر ہی ڈارون صاحب نے بند ر سے انسان کا ہو ناثابت کر نے کی کو شش کی۔
  • اب طبقات انسانی و الہٰی کے درمیاں "انسان کا مل "کو برزخ ما ناجاتا ہے لیکن یہ سراسر غلط ہے۔ کیونکہ انسان کا مل کا وجوب وقدامت سے کوئی تعلق نہیں وہ محض ممکن اورحادث ہے۔ وہ اگر چہ بدرجہ انتہا کمالیت کوحاصل کرلے تو بھی وہ مخلوق اورحادث ہی رہے گا۔ اس صورت وہ گڑھا جو حدوث وقدامت اوروجوب وامکان کے درمیان حائل ہے کس طرح بھرا جاسکتا ہے ؟ چنانچہ انسان وخُدا کا برزخ وہی ہو سکتا ہے جو بوجہ حارث اوربوجہ قدیم ہوکر ربطِ حادث بالقدیم قائم کرنے کی کامل واکمل صلاحیت رکھے۔ یعنی وہ کامل انسان اورکامل خُدا ہو۔ پس کلمتہ اللہ جو تکوین کائنات کی علت ہے۔ اوربحثیت تخلیق خُدا اور کائنات کا درمیانی ہے وہی جسم دھار کرانسانوں کے مشابہ ہوگیا۔ تاکہ وہ خُدا کامل ہونے کے ساتھ انسان کامل بھی ہوسکے اوربرزخیت کے فرض کو بطریق احسن انجام دے سکے۔ چنانچہ خُداوند مسیح کے سوا اور کوئی انسان و خُدا کا برزخ نہیں ہوسکتا۔

کیونکہ خُدا ایک ہے اورخُدا اورانسانوں کے بیچ میں درمیانی بھی ایک یعنی مسیح یسوع جو انسان ہے (۱۔ تمیتھیس ۲: ۵)۔

بالفرض محال اگرانسان کامل بھی برزخ ہوسکتا ہے تو پھر بھی خُدا وند مسیح کے سوا کسی انسان کامل کا وجود نابود ہے۔ جیسا ہم پیشتر نشاۃ ثلاثہ میں علامہ جامی کا نظریہ دربارہ انسان کا مل پیش کرکے ثابت کرچکے ہیں۔ اُس معیار کے مطابق سوائے مسیح کے کسی اورکوانسان کامل ثابت کرنا ناممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے۔ پس انجیل کا دعویٰ ہے کہ خُدا وند مسیح کامل انسان اورکامل خُدا ہیں اورخُدا اوردُنیا کے حقیقی درمیانی۔چنانچہ آپ نے فرمایا۔ راہ حق اورزندگی میں ہوں۔ کوئی میرے وسیلے کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا (یوحنا ۱۴: ۶)۔ یہ ایک کھلی اورناقابل تردید حقیقت ہے کہ جب تک کسی شخص کے ساتھ واقفیت نہ ہو۔ اُس سے محبت کرنا ناممکن ہے۔ واقفیت اورمحبت دونوں لازم وملزوم ہیں۔ ایک کے بغیر دوسری کاوجود محال ہے۔ جہاں واقفیت ہوگی وہاں محبت ہوسکے گی اورجہاں محبت ہوگی وہاں ضرور پہلے ہی سے واقفیت ہوگی۔ دُنیا میں سینکڑوں ایسے شہر ہیں جن کے میں نام سے بھی واقف ہوگی۔ دُنیا میں سینکڑوں اسیے شہر ہیں جن کے میں نام سے بھی واقف نہیں ہوں۔ اور نہ اُن کے باشندوں کو جانتا ہوں۔ اس لئے میں اُن سے محبت نہیں کرسکتا۔ جب تک کوئی شخص میرا جان پہچان نہ ہو۔ روشناس نہ ہو میری اوراُس کی کبھی ملاقات ہی نہ ہوئی ہو۔ تو بھلا کس صورت مَیں اُس سے محبت کرسکتا ہوں ؟ پس اسی طرح اگر ہم خُدا سے واقف نہیں اور اُس کو جاننے نہیں۔ تو اُس کی عبادت جو محبت پر مبنی ہے کیسے کرسکتے ہیں ؟ اگر کرسکتے ہیں تو ایک نامعلوم خُدا کی اور ایسی عبادت کسی حقیقت کی نہ ہوگی بلکہ وہم کی۔ ناواقف ہستی کی نامعلو م خیالی خُدا کی پس خُدا سے محبت کرنے اوراُس کی عبادت کرنے کے لئے اُس سے واقفیت پیدا کرنا ضروری ہے۔ اوراُس سے واقفیت نہ تو محض مشاہد ہ فطرۃ سے ہوسکتی ہے۔ نہ عقلی دلائل اُس نادید ہ پردہ نشین ہستی سے ہمارا تعارف کرواسکتی ہیں اورنہ ہی الہام کے لفظی وتمثیلی بیانات اُس کا یقینی علم ہمیں حاصل کرواسکتے ہیں اُس سے واقفیت حاصل کرنے۔ اُس کی ماہیت اورصفات کا صحیح تصور کرنے کے لئے مظہر ِخُدا کی ضرورت ہے۔ اوربغیر مظہر کے خُدا کا صحیح اوریقینی تصور ہی محال ہے۔ اوروہ مظہر ِ جیسا ہم پہلے یقینی دلائل اسے ثابت کرچکے خُداوند مسیح ہے جس نے فرمایا جس  نے مجھے دیکھا اُس نے باب کو دیکھا۔ پس جو کوئی خُداوند مسیح ( مظہرِ خُدا ) میں ہوکر خُدا کی عبادت کرتا ہے۔ وہ یقینا ایک معلوم ایک واقف خُدا کی عبادت کرتا ہے۔

اب شاہد کوئی یہ سوال کرے کہ خُداوند مسیح اگر نادیدہ خُدا کی ظاہری صورت ہے۔ جس کو دیکھ کر ہم خُدا سے روشناس ہوسکتے ہیں۔اورہماری خُدا بینی کی خواہش کا جواب مل سکتا ہے۔ تو اب صدیوں سے مسیح بھی زادیدہ ہے۔ وہ ظاہری مادی صورت میں ہمارے سامنے موجود نہیں ہے۔ دوہزار برس قبل جب وہ مجسم صورت میں موجود تھااُسی وقت لوگ اُس میں خُدا کو دیکھ سکتے تھے۔ اب اس زمانے کے لوگوں کے لئے خُدا پھر نامعلوم ہے۔ اس سوال کے جواب میں مندرجہ ذیل ! مور قابل ِ غور ہیں۔

  • فوق العادت امور میں استمرار ودوام جائز نہیں۔ ورنہ وہ اپنے اعلیٰ مقاصد میں ناکام رہیں گے۔ اورفطرت کے عام معمولی واقعات میں شامل ہوکر فوق الفطرت نہ رہیں گے۔ اورلوگوں کو اُن سے حیرت و استجاب بھی ہوگا۔ مثلاً سورج کا وجود اگر چہ سرمایہ غرائب وہ نوادرہے۔لیکن چونکہ ہم اُسے روز دیکھتے ہیں اس لئے نہ تو اُس کے طلوع وغروب سے کچھ دلچسپی رکھتے ہیں اورنہ ہی اُس سے حیران ہوتے ہیں۔ مظہر ِخُدا (مسیح ) کا زینت افزائے کا شانہ گیتی ہونا سب سے بڑا نادر اورفوق العادت واقعہ تھا۔ اگر وہ ہمیشہ ظاہری ودیدنی صورت میں قائم رہتا تو لوگوں کی دلچسپی کا باعث نہ ہوتا۔ دُنیا نے آگے ہی اُس کی کیا قدر کی کہ وہ اوراس دنیا میں رہتا۔ خُدا اپنے بیٹے کو ہمیشہ جسمانی صورت میں اس خرابستان میں رکھ کر اپنی بے قدری اورتحقیر گوارا نہیں کر سکتا۔ کیونکہ وہ غیور خُدا ہے۔
  • خلقت اورخُدا کے درمیان بہت سے واقعات کا ظہور اُس کے صعود فرمانے کے ساتھ وابستہ اورمشروط ہے۔ اس لئے اگر وہ اس دیدنی عالم کو چھوڑ کر صعود نہ فرماتا تو وہ واقعات ظہور میں نہ آتے۔ علاوہ ازیں عہد عتیق وجدیدی میں اُس کے دوبارہ اس دنیا میں آنے کے متعلق پیشین گوئیاں موجو د ہیں اُن کا پورا ہونا بھی ضروری تھا۔
  • انجیل ِ مقدس اُس کا مکمل فوٹو ہے۔ اُس کے مطالعہ سے اُس کا دیدار حاصل کیا جاسکتا ہے۔
  • خُدا کا مظہر مسیح اورمسیح کا مظہر اُس کی کلیسیاہے۔ نادیدہ مسیح کی دیدنی صورت کلیسیاء ہے۔

لیکن موجود ہ کلیسیاء مسیح کی ناقص حیثیت ہے۔ اس لئے وہ اُس کے نورانی خدوخال کو زیادہ صفائی کے ساتھ دُنیا کے سامنے پیش نہیں کرسکتی یعنی پورے طورپر یہ نہیں کہہ سکتی کہ جس نے مجھے دیکھا اُس نے مسیح کو دیکھا۔ دُھند لے آئینے کی طرح مسیح کی کامل مظہر نہیں ہے۔ اب ہم کو آئینے میں دھندلا سا دکھائی دیتا ہے۔ اورجب کلیسیاء اُس جلالی صورت پر درجہ بدرجہ بدلتی اورترقی کرتی جائے گی۔ تو ایک دن اُس کے چہر ے سے مسیح کا جلال ایسے منعکس ہوگا جیسے صاف آئینے میں (۲۔ کرنتھیوں ۳: ۱۸ ) ایک مصور ایک تصویر کو جوفنی نکتہ نگاہ سے نہایت اعلیٰ ہے سامنے رکھ کر اُس کی نقل ایک دوسرے کا غذ پر بناتا ہے۔ اُس کا خاکہ کھینچتا ہے۔ گاہے مٹاتا اورگاہے پھر بناتا ہے۔ اگر اُس کی اُس نامکمل تصویر کو دیکھ کر کوئی کہے کہ یہ تصویر اچھی نہیں بہت بھدی ہے تو اس سے اصل تصویر کا نقص ثابت نہ ہوگا۔ اورعقلمند آدمی فوراً سوچ لے گا کہ یہ نقل ابھی نامکمل ہے۔ کسی وقت یہ ہوبہو اصل کے مطابق بن جائے گی۔ اسی طرح کلیسیاء کا اصل نمونہ مسیح ہے  جس کے سانچے میں وہ ابھی دھل رہی ہے۔ اورتاحال ناقص حالت میں ہے۔ لیکن جب کامل آئیگا تو ناقص اتا رہیگا (۱۔ کرنتھیوں ۱۳: ۱۰ ) پس کلیسیا ء مسیح کا مظہر ہے اور درجہ بدرجہ اُس کی ہم شکل بن رہی ہے۔

خُداوند مسیح کی آمد نے خُدا کے وجود باجود کے متعلق پیدا شد ہہ ہتمام توہمات ِفاسدہ اوراظانین باطلہ کو خرقہ پارنیہ کی طرح تار تار کرکے رکھ دیا۔ اگر کوئی گوشئہ تنہائی میں یکسوئی قلب کے ساتھ بیٹھ کر اپنی فُرصت کی قیمتی گھڑیوں میں اس تعلیم سعادت تنظیم پر صفا باطنی اورمنصف مزاجی سے غور وخوض کرے تو وہ بغیر ضمیر سے جنگ کئے خُداوند مسیح کو مظہر ِخُدا اوربرزخ کُبری تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔ اس طریق پر ثواب اورمسئلہ لاجواب کو سمجھنے کے لئے دیدہ بینا اورذہن رسا چاہئے۔ چونکہ تعصب اورمسئلہ تجسم باہم ضدین ہیں۔ اس لئے ایک ہی وقت میں یہ دونوں اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ پس غرض ہے کہ تعصب کو چھوڑ کر اس پر غور فرمایئے اوریونہی کسی نااہل شخصیت کو کُرسی برزخیت پر زبر دستی بٹھانے کی سعی نہ فرمایئے۔

کلام مجسم کی تین صورتیں

کلام مجسم کی تین صورتیں ہیں۔ اوراُنہیں کو ہم ن اس کتاب کےگوایا عضا ئے رئیسہ ٹھہرا کراب تک بحث کی ہے۔ اب ان کی اجمالی طورپر معرض تحریر میں لانا مناسب اورگویا کتاب کے منتہائے مقصود کو خلاصہ بیا  ن کرناہوگا۔ وہ تین صورتیں یہ ہیں۔

  • کائنات کلام مجسم ہے خُدا نے کہا اوروہ موجود ہوگئی۔ یعنی جو کلام اُس کے منہ سے صادر ہوا اُس نے کائنات کی صورت میں جسم اختیار کرلیا۔ اس کا مفصل بیان عقل اور مذہب کے زیر عنوان کیا جاچکا ہے۔ اور تجسم الہٰی کے بیان میں چھوتی سرُخی موجودات اورکُدا کا علم کے ماتحت اجمالی طورپر اس پر بحث کی جاچکی ہے۔
  • بائبل مقدس کلام مجسم ہے۔ کلام نفسی جو ذات ِالہٰی میں خفی تھا کلام لفظی کی صورت میں ظاہر  ہو کر کتابی شکل میں مرتب ہو ا۔ اس کو الہام کہتے ہیں۔ الہام کی ضرورت کے زیر عنوان اس کو بالثفصیل بیا ن کیاگیا۔ اورتجسم الہٰی کے بیان میں چھوٹی سرخی الہام اورخُدا کا علم کے ماتحت اجمالی طورپر اس پر بحث ہوچکی ہے۔
  • کلام مجسم کے تیسرے معنی ہیں کہ ذات ِ الہیی کے اقنوم ثانی نے جسم اختیار  کیا جس کا مظہرِخُدا کہا جاتا ہے۔ یہ کلام مجسم کی انتہائی کمالیت ہے جس سے خُدا کی ذات وصفات کا ثبوتی تصور اوریقینی علم حاصل ہوتا ہے۔ چنانچہ تجسم الہٰی کے زیر عنوان اس پر مفصل بحث کی گئی ہے۔

تجسم کے فوائد

  • خُدا کی ذات وصفات کا یقینی اورصحیح علم حاصل ہوتا ہے۔ اور وہ ایک معلوم خُدا ثابت ہوتا ہے۔
  • انسان فطرتی طوپر پنکر محسوس کاخوگر ہے۔ اس لئے اُس کی خُدا بینی کا جواب مظہر دیتا ہے۔
  • جنسی مغائرت محبت کی مانع ہے۔ خُدا اورانسان میں جنسی مغائرت مسلم ہے۔ تجسم کے ذریعے یہ وقت دور ہوتی اور انسان صیح معنوں میں خُدا سے محبت کرسکتا ہے۔
  • تجسم کے ذریعے ذات ِالہٰی کے اقانیم ثلاثہ کا سربستہ راز رکھلتا ہے  جو بصورت دیگر محال ہوتا ہے۔
  • تجسم کے ذریعے انسان کی نجات کا انتظام ہوتا ہے۔ چونکہ یہ تقاضا ہے عدل الہٰی انسان کی جان کے عوض میں ایک عوضی قربانی کی ضرورت تھی۔ تاکہ انسان کی جان موت سے رہائی پائے۔ اورقربانی کے لئے جسم کی ضرورت ہے۔ پس اقنوم ثانی جسم میں ظاہر ہوا تاکہ انسان کی جان کا مبادلہ ٹھہرے۔
  • خُدا نے انسان کو اپنی صورت بگاڑیلی اورضرور ہے کہ وہ دوبارہ خُدا کی صورت پر بنے۔ مگر جس کی صورت پر اُس کو بننا چاہئے وہ نادیدہ ہے۔ اس لئے نادیدہ کی صورت پر کیسے ہے ؟ ضرور ہے کہ الہٰی صورت کا کوئی ظاہری ودیدنی نمونہ اُس کے سامنے ہو۔ پس وہ نمونہ مظہر ِ خُڈا (مسیح ) میں ملتا ہے۔ اُس کی صورت پر بننا ہی خُدا کی صورت پر بحال ہونا ہے۔
  • خُدا ئے واجب الوجود اورانسان ممکن الوجود محدود کے درمیان حد فاصل ہے۔ جو دونوں کو ایک دوسرے سے جُدا رکھتی ہے۔ ان دونوں کے ملاپ کے لئے ایک واسطہ کی ضرورت ہے۔ اور واسطہ وہی ہو سکتا ہےجو بوجہے حادث اوربوجہے قدیم ہو۔ تاکہ ربط ِحادث بالقدیم قائم کرسکے۔ پس یہ مشکل بھی تجسم کے ذریعے دور ہوتی ہے۔ اورانسان کا اُس کے ذریعیے سے خُدا  سے ملاپ ہوجاتا ہے۔
  • تجسم کے ذریعے انسان کی قدرومنزلت بڑھ جاتی ہے۔ مظہر کے ایک معنی ہیں '' انسانیت نما الوہیت '' جس نے ایمانداروں کو الوہیت نما انسان بنا دیا۔ وہ انسانوں کے مشابہ ہوگیا جس سے ایماندار انسان خُدا ک مشابہ ہوگئے۔

اب دُنیا کی عقلیں گناہ کی شدت سے اس قدر فاسد اورتاریکک ہوگئی ہیں کہ وہ کسی صورت اس تعلیم سعادت تنظیم کو تسلیم نہیں کرتیں۔ اگر خُدا نادیدہ وپوشیدہ اورفوق الفہم وادراک رہے تو لوگ اُس کو کسی دیدنی وہ ظاہری اورممکن الفہم صورت میں دیکھنا چاہتے ےہیں۔ اوراگروہ کسی صورت ظاہری میں ظاہر نہ ہو تو اُس کی ہستی کے متعلق شکوک میں پڑ کر آخر اُس سے مُنکر ہوجاتے ہیں۔ اوراگروہ کسی دیدنی صورت میں تجسم اختیار کرکے مرئ ومجسم اورممکن الفہم ہوجائے اوراُن کی خُدا بینی کی فطری خواہش کا جواب دے تو لوگ اُس کو محض ایک خُدا رسیدہ اورراستباز آدمی سمجھ کر اُس کی الوہیت وخُدا ئی کا یکسر انکار کرتے ہیں۔ اب بتایئے ان دوصورتون کے علاوہ اورکون سی تیسری صورت ممکن ہے جس سے خُد ا انسا  ن کی خُدا بینی کی خواہش کو پورا کرے ؟

مَیں نے تیری خبرکا ن سے سُنی تھی۔پر اب میری آنکھ تجھے دیکھتی ہے۔(ایوب ۴۲ : ۵ ) ۔


۱. اس عقلی فلسفہ کے لئے ہم علامہ ایس۔ ایم پال صاحب کی تصنیف " انسان کامل یا مظہر خدا" کے قرضدار ہیں۔ اوراُس کو نقل کرنے میں بعض جگہ معمولی سی لفظی تبدیلی اختصار کے لئے ۔ پورا تذکرہ اُن کی تصنیف میں ملے گا" (مصنف)