دوسرا باب

جہاد کا اعلان

 

 

یہ ذکر ہو چکا ہے کہ اہل مدینہ کھجوروں  کے بونے اور پرورش کرنے میں اکثر مصروف و مشغول رہتے تھے۔لیکن بر عکس اس کے اہل مکہ عموماً تاجر لوگ تھے اور اُن کے قافلے تجارت کے لئے برابر شام اور دیگر ممالک کو جاتے رہتے تھے ۔ محمدصاحب نے بھی اپنے عالم شباب میں ان قافلوں کے ہمراہ کئی بار شام اور دیگر ملکوں کی سیر کی تھی اور ہر سال اہل قریش کے قافلے قیمتی مال ومتاع سے  لدے شمال کی طرف بصرہ،دمشق اور دیگر شہروں کی منڈیوں کی طرف جاتے  نظر آتے تھے۔اہل مکہ کے یہ تجارتی قافلے عموماً اُس شاہراہ سے گزرا کرتے تھے جو مدینے کے قریب سے گزرتی تھی۔لیکن بعض اوقات اُس دوسری راہ سے بھی سفر کرتے جو بحیرہ قلزم کے مشرقی ساحل سے گزرتی تھی۔ محمدصاحب کو اب یہ خیال آیا کہ قریش کے ان قافلوں کو لوٹ  کر اپنی اور اپنے رفیقوں کی تنگی وتکلیف کو رفع کرے۔اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے انہوں نے چند مسلح دستے تیار کئے اور اُن کو ہدایت کی کہ اُن قافلوں کو لوٹ لیں جن کے اُدھر سےگزرنے کی خبر اُسے ملی تھی۔ان مہموں کا شروع میں یہی مقصد تھا کہ مدینے میں مہاجرین کے افلاس کو دور کرے ۔بعد ازاں دین اسلام کی اشاعت کی غرض بھی داخل ہو گئی اور جنگ و جدل جاری ہوگئے،نہ محض لوٹ کی خاطر بلکہ دین اسلام کی اشاعت کی خاطر۔اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ خدا نے ہماری کمزوری اور بے کسی پر نظر کر کے اس جنگ و جدل کو ہم پر جائز کر دیا (مِشکوٰۃ المصابیح۔کتاب الجہاد) ۔ محمدصاحب کے ان الفاظ کے معنی بخوبی واضح ہیں اور ان سے کچھ شک باقی نہیں رہتا کہ محمدصاحب کا ارادہ لوٹنے کا تھا اور اس کے لئے وحی کےذریعے اجازت حاصل کر لی۔

پہلے پہل تو مسلمان ناکام رہے اور ایک یا دو دستوں کو کچھ لوٹ نہ ملی۔ایسی ایک مہم کا ذکر عبداللہ بن حوالہ نے یوں کیا ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسْولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فلَمْ تَحِلَّ الْغَنَائِمُ لِأَحَدِ مِنْ قَبْلِنَا ذلِكَ بأن اللهَ رأى ضعْفَنَا وعَجزنا فيطيَّبها لنا.

ترجمہ:’’ رسول خدا نے ہمیں پیدل لوٹنے کے لئے بھیجا لیکن ہم بغیر لوٹ حاصل کئے واپس آ گئے‘‘ (مِشکوٰۃ المصابیح۔کتاب الفتان) ۔

پہلے پہل تو محمدصاحب ان مہموں میں مسلمانوں کے ساتھ نہ گئے،لیکن اپنے پیروؤں کی ناکامی سے تنگ آکر اُن کا جوش بڑھانے کے لئے خود اُن کے  ہمراہ ہو لئے اور لوٹ کی تلاش کرنے لگے۔واقدی مورخ نے کم از کم انیس ایسی مہموں کا ذکر کیا ہے جن میں محمدصاحب بہ نفس نفیس حاضر تھے۔ جس پہلی مہم میں مسلمانوں کو فتح  نصیب ہوئی وہ ایک چھوٹی سی مہم تھی جس میں محمدصاحب خود حاضر نہ تھے۔قدیم زمانوں سے اہل عرب کا یہ دستور رہا کہ سالانہ حج کے مہینے کو مقدس مانتے تھے۔اس مہینے میں ہر طرح کی لڑائی ناجائز سمجھی جاتی تھی اور  عرب کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہر ایک شخص کا جان و مال محفوظ  رہتاتھا۔اسی دستور کی وجہ سے مکہ میں محمدصاحب کو موقعہ ملا تھا کہ جو لوگ حج کےلئے دورنزدیک سےآتے  تھےاُن کو تبلیغ اسلام کرتے رہے۔ مگر یہ بھی لکھا ہے کہ ایک موقعے پر محمدصاحب نے اپنا ایک مسلحہ دستہ ایک مقام بنام ’’نخلہ ‘‘کو روانہ کیا تاکہ قریش کے قافلے پر حملہ کرے جس کی خبر انہیں ملی تھی۔مسلمانوں کا یہ دستہ قریش کے ڈیروں کے پاس پہنچ گیا اور یہ مقدس مہینہ تھا جس میں خونریزی حرام تھی ۔لیکن مسلمانوں نے اپنے بھیس کو اتار پھینکا اور ان بے خبر مسافروں پر حملہ کر دیا۔ان میں سے بعضوں کو مسلمانوں نے قتل کیا اور بعضوں کو بھگا دیا اور غنیمت کے مال سے لدے مدینے کو واپس آئے۔مسلمان مورخ کہتے ہیں کہ محمدصاحب کے پیروؤں نے یہ پہلی غنیمت حاصل کی۔اس سے اُن کا حوصلہ دو بالا ہو گیا اور مال دار  قافلوں کو جو شام اور دیگر ممالک کو مال  لے کر جاتے تھے برابر لوٹنے لگے۔

مذکورہ بالا واقعات سے تھوڑی دیر بعد محمدصاحب کو یہ خبر ملی کہ قریش کا ایک بڑا قافلہ جس کا سردار ابو سفیان تھا شام سے تجارت کا  کثیر مال لے کر واپس آ رہا تھا۔ محمدصاحب نے اس موقعہ کو ہاتھ سے جانے نہ دیا اور بلا تامل خو د سرلشکر  بن کر قافلے کو لوٹنے کے لئے روانہ ہوئے۔بخاری نے صاف طور سے اس کا بیان کیا کہ مسلمان ابو سفیان کے قافلے کو لوٹنے کے لئے گئے تھے۔لیکن یہ قافلہ بھی چوکنا ہو رہا تھا اور مسلمانوں کے حملے کے ارادے سے آگاہ ہو کر ایک سانڈنی سوار مکہ کو روانہ کیا اور خود ایک دوسری راہ سے اپنے قافلے کو لے کر روانہ ہوا اور یوں محمدصاحب کے ہاتھوں سے بال بال بچ گیا۔اس اثنا میں مکہ سے ایک بڑا گروہ اس قافلے کی تلاش میں نکلا اور اُس کی مٹ بھیڑ مسلمانوں سے بمقام بدر ہو گئی اور سخت جنگ ہوئی۔مسلمان گو شمار میں تھوڑے تھے لیکن فتح یاب ہوئے اور بہت سے آدمیوں کو اسیر کرکے اور مال غنیمت لے کر مدینے کو واپس گئے۔بہت اسیروں کو باوجود اُن کی منت سماجت کے مسلمانوں نے بری طرح سے تہ تیغ کیا اور اُن کی لاشوں کو کنوئیں میں پھینک دیا۔مِشکوٰۃ میں اس واقعہ کا ذکر یوں آیا ہے:

مسند احمد ۔ جلد ششم ۔ حدیث ۲۱۷۱

حَدَّثَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ ذَكَرَ لَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ عَنْ أَبِي طَلْحَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ يَوْمَ بَدْرٍ بِأَرْبَعَةٍ وَعِشْرِينَ رَجُلًا مِنْ صَنَادِيدِ قُرَيْشٍ فَقُذِفُوا فِي طَوِيٍّ مِنْ أَطْوَاءِ بَدْرٍ

ترجمہ:’’قتادہ سے  یہ روایت ہے کہ اُ س نے کہا انس ابن مالک نے ہم سے ابو طلحہ سے روایت  کی کہ بدر کے دن رسول خدا نے  قریش کے چوبیس سردار وں کو موت کا حکم صادر کیا اور ان کی لاشیں بدر کے ایک کنوئیں میں پھینک دی گئیں‘‘۔

جو آدمی قتل ہوئے ان میں ایک شخص عقبہ بن ابو معیطہ تھا۔ابن مسعود بھی اس جنگ میں موجود تھا۔اُس نے عقبہ کے بارے میں یہ حدیث بیان کی  جو مِشکوٰۃ المصابیح کے باب جہاد میں مندرج ہے:

 وَعن ابْن مَسْعُودٍ إنّ رَسْولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لمّا أَراَدَ قَتْلِ عُقْبَة بن أَبيْ معيط قَالَ: مَنْ لِلصِّبْيَةِ يَا مُحَمَّدُ؟ قَالَ: النَّارُ

ترجمہ:’’ ابن مسعود سے روایت ہے کہ تحقیق جب رسول خدا نے عقبہ بن ابو معطیہ کو قتل کرنا چاہا تو عقبہ نے کہا’’میرے بچوں کی خبر گیری کون کرے گا‘‘۔ محمد صاحب نے جواب دیا کہ دوزخ کی آگ‘‘۔

یہ کہہ کر محمدصاحب نے  اُس کے فی الفور قتل کرنے کا حکم دیا۔بدر کی لڑائی کا جو احوال ہم تک پہنچا ہے  (اور وہ کثرت سے ہے) اور جو واقعات اس جنگ  کے بعد وقوع میں آئے اُن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس ہنگامے کو  فرو  (دبانا) کرنے کے لئے محمد صاحب کو وحی کی  مدد کی ضرورت پڑی۔چنانچہ فوراً یہ وحی خدا کی طرف سے آنازل ہوئی:

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ  قُلِ الْأَنفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ

ترجمہ:’’وہ تم سے غنیمتوں کے بارے میں پوچھیں گے تو کہہ دے کہ غنیمتیں خدا  او  ر رسول کی ہیں‘‘۔

جو مسلمان صاحبان یہ کہا کرتے ہیں کہ قدیم مسلمانوں کو اپنی حفاظت کے لئے جنگ کرنا پڑا وہ قرآن مجید اور احادیث کی شہادت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔اَمر واقعی تو یہ ہے کہ اس زمانے کے سارے لٹریچر پر غنیمت کا لفظ بڑے حروف میں لکھا ہے۔ہدایا،مِشکوٰۃ المصابیح اور دیگر کتابوں میں غنیمت کے مال کی تقسیم کی نسبت چھوٹی چھوٹی تفصیل بھی مندرج ہے جو ان خونریزی کی مہموں میں مسلمانوں کو حاصل ہوئی تھی۔مگر محمد صاحب نے اس لوٹ مار  اور قتل و غارتگری کے الزام  کو اپنے اوپر عائد نہیں ہونے دیا کیونکہ انہوں نے یہ سب کچھ خدا کے حکم سے سر انجام دیا تھا۔چنانچہ انہوں نے یہ کہا:

إِنَّ اللَّهَ فَضَّلَنِي عَلَى الْأَنْبِيَاءِ أَوْ قَالَ فَضّل أُمَّتِي عَلَى الْأُمَمِ وَحَلَّ لنا الْغَنَائِمَ

ترجمہ:’’ تحقیق خدا نے مجھے دوسرے انبیا پر فضیلت دی یا  (بقول ایک دوسری حدیث) یہ کہا اُس نے میری امّت کو دوسری امّتوں پر اس اَمر میں فضیلت دی کہ اُس نے لوٹ ہمارے لئے جائز کر دی‘‘۔

انس نے محمد صاحب کے دستور العمل کا بھی ذکر ایک حدیث میں کیا جو مسلم میں مندرج ہے:

كَانَ النَّبيُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُغَيِّرُ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرَ، وَكَانَ يَسْتَمِعُ الْأَذَانَ، فَإِنْ سَمِعَ أَذَانًا أَمْسَكَ وَإِلَّا أَغَارَ

ترجمہ:’’رسول خدا علیٰ الصباح لوٹا کرتے تھے اور نماز کے لئے اذ ان کی آو  از سننے کے منتظر رہتے جب اذ  ان کی آو  از سنتے تو لوُٹنے سے با ز رہتے،ورنہ لوٹتے رہتے‘‘۔

دیہات کے لُوٹتے وقت بعض اوقات اس سارے مال ومتاع کو بے رحمی سے جلا کر خاک سیاہ کر دیتے تھے ،جسے وہ اپنے ساتھ لے جا نہ سکتے تھے۔چنانچہ ابو داؤد نے اس مضمون کی ایک حدیث کا ذکر کیا ہے:

عَنْ عُرْوَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي أُسَامَةُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَهِدَ إِلَيْهِ قَالَ: أَغِرْ عَلَى أُبْنَى صَبَاحًا وَحَرِّقْ

ترجمہ:عروہ سے روایت ہے کہ اُس نے یہ کہا’’اسامہ نے مجھے خبر د ی کہ رسول خدا نے ابنا نامی ایک گاؤں  پر علیٰ الصباح  حملہ کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ پھر  اُس کو جلادو‘‘ (مِشکوٰۃ المصابیح۔کتاب الجہاد) ۔

مِشکوٰۃ  کے اردو مفسر نے مذکورہ بالا حدیث کے بارے میں  یہ رقم کیا:

’’اس سے معلوم ہوا کہ جائز ہے غارت کرنا اور جلانا کفار کے شہروں کا‘‘۔

اسلام کی تاریخ جنگ بدر سے لے کر وفات رسول تک اسی قسم کے لوٹ مار کی تاریخ ہے ۔ان لٹیرے دستوں کے سر لشکر بعض اوقات خود محمد صاحب ہوا کرتے تھے اور بعض اوقات اپنے معتبر اصحاب میں سے کسی کو سر لشکر بنا کر بھیجا کر تے تھے۔  اس قسم کے دھاوے ہمیشہ تو کامیاب نہ ہوئے،لیکن جن میں کامیابی ہوئی ان کے غنیمت کے مال سے مسلمان مالا مال ہونے لگے۔ یہ دیکھ کر تو باقی عربوں کے منہ میں بھی پانی بھر آیا اور محمد صاحب کے زیر علم جوق د ر جوق جمع ہونے لگے ۔اس سے مکہ کے قریش کو خوف پیدا ہوگیا اور جب مسلمانوں نے ان کے ایک دولت مند قافلے کو لوٹا جو مدینے کے مشرق کی طرف سے ہوکر شام کو جانا چاہتا تھا۔ تب تو وہ اس خطرے کو دیکھ کر گھبرا اُٹھے ۔ اب انہوں نے یہ ارادہ کیا کہ کو ئی ایسی سڑک تلاش کریں جس سے کہ وہ شمالی ممالک کی منڈیوں کو پہنچ سکیں ۔اس غرض کو حاصل کرنے کے لئے انہوں نے مدینے کے مسلمانوں پر فوج لے کر حملہ کرنا چاہا۔ چنانچہ تقریباً تین ہزار کی فوج جمع کر لی اور مدینے کے نزدیک بمقام اُحد پرمسلمانوں کو شکست فاش دی ۔اس جنگ میں محمد صاحب کو بھی چند زخم آئے۔اس شکست  سے مسلمانوں میں چہ مگوئیاں شروع ہوئیں اور کہنے لگے کہ بدر کی فتح کے وقت تو محمد صاحب کی مدد کے لئے ہزار ہا فرشتے آگئے، اب ان کو  یہ شکست کیوں ہوئی اور  کیوںوہ  زخمی ہوئے۔ایسے سوالوں کے جواب دینے کے لئے چند ایک مکاشفے  ( وحی)  پیش کئے اور جن مسلمانوں کے عزیز و اقارب اس جنگ میں مقتول ہوئے تھے اُن کی تسلی کے لئے یہ کہا گیا کہ جو کوئی راہ خدا میں جان دیتا ہے ،وہ شہید ہوتا ہے اور وہ اب بہشت کی نعمتوں کا مزہ اٹھا رہے ہیں۔ایسے مکاشفات میں سے ہم ایک مکاشفہ بطور نمونہ یہاں نقل کرتے ہیں:

جامع ترمذی ۔ جلد اول ۔ جہاد کا بیان ۔ حدیث ۱۷۳۰

راوی: عبداللہ بن عبدالرحمن نعیم بن حماد بقیہ بن ولید , بحیر بن سعد , خالد بن معدان , مقدام بن معدیکرب

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي کَرِبَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلشَّهِيدِ عِنْدَ اللَّهِ سِتُّ خِصَالٍ يُغْفَرُ لَهُ فِي أَوَّلِ دَفْعَةٍ وَيَرَی مَقْعَدَهُ مِنْ الْجَنَّةِ وَيُجَارُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَيَأْمَنُ مِنْ الْفَزَعِ الْأَکْبَرِ وَيُوضَعُ عَلَی رَأْسِهِ تَاجُ الْوَقَارِ الْيَاقُوتَةُ مِنْهَا خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا وَيُزَوَّجُ اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ زَوْجَةً مِنْ الْحُورِ الْعِينِ وَيُشَفَّعُ فِي سَبْعِينَ مِنْ أَقَارِبِهِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

ترجمہ:’’شہید کو خدا کی طرف سے  چھ حقوق  حاصل ہوتے ہیں۔اُس کے خون کے پہلے قطرے کے نکلنے پر ہی اُس کے گناہ  معاف ہو جاتے ہیں۔ پھر بہشت میں اُس کے تکیہ کی جگہ بنائی جاتی ہے۔عذاب قبر سے وہ بچ جاتا ہے۔دوزخ کے خوف عظیم سے وہ محفوظ رہتا ہے۔سونے کا تاج اُس کے سر پر دھرا جاتا ہے جس کا ایک ایک موتی کل دنیا اور اُس کی مافیہا سے زیادہ قیمتی ہے۔۷۲ حوریں اُس کو نکاح میں ملتی ہیں اور اُس کے ستر رشتے دار وں کے لئے اس کی سفارش مقبول ہوتی ہے‘‘۔

جنگ بدر اور اُحد سے لے کر محمد صاحب کی تعلیم میں ایک عجیب تبدیلی پیدا ہوگئی ۔جنگ بدر سے پیشتر اور جب ان کے پیروؤں کا شمار تھوڑا تھا، اُس وقت تک تو اُن کو اپنے قرب و جوار کے لوگوں کا ڈر تھا اس لئے فروتنی اور اور صلح جوئی سے برتاؤ کرتا رہا اور لا اکراہ فی الدین (دین میں سختی یا جبر نہیں) کی تعلیم دیتا رہا اور اپنے پیروؤں کو یہ نصیحت کرتا رہا کہ جو لوگ دین میں تم سے اختلاف رکھتے ہیں اُن سے مہربانی کے ساتھ کلا م کیا کرو۔لیکن جب اُن کے اردگرد جنگجو عرب جمع ہو گئے اور ان کو بڑی جمعیت حاصل ہوتی گئی تو دین کے لئے جنگ کا مطالبہ روز بروز بڑھتا گیا۔ان دینی جنگوں کو وہ جہاد کہنے لگے اور محمد صاحب نے اپنی تعلیم میں ان پر زور دینا شروع کیا۔مسلم اور بخاری میں اس مضمون کی ایک حدیث آئی ہے کہ ابوضری نے:

صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ حدیث ۲۴۱۴

راوی: عبیداللہ بن موسیٰ ہشام بن عروہ عروہ ابومرواح ابوذرع

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَی عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي مُرَاوِحٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ قَالَ إِيمَانٌ بِاللَّهِ وَجِهَادٌ فِي سَبِيلِهِ

ترجمہ:’’کہا کہ میں نے رسول سے پوچھا کہ سب سے  افضل فعل کیا تھا؟اُس نے جواب دیا کہ خدا پر ایمان لانا اور خدا کی راہ میں جہاد کرنا‘‘۔

قرآن مجید کی جو سورتیں اس وقت اور اس کے بعد نازل ہوئیں وہ سراسر اسی مضمون سے پُر ہیں اور باربار ایمانداروں کو یہ نصیحت کی گئی کہ وہ لڑتے جائیں جب تک کہ ایک ہی  دین نہ  ہو جائے۔چنانچہ یہ لکھا ہے :

فَاِذَا انۡسَلَخَ الۡاَشۡہُرُ الۡحُرُمُ  فَاقۡتُلُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ حَیۡثُ وَجَدۡتُّمُوۡہُمۡ وَ خُذُوۡہُمۡ وَ احۡصُرُوۡہُمۡ وَ اقۡعُدُوۡا لَہُمۡ کُلَّ مَرۡصَدٍ ۚ فَاِنۡ تَابُوۡا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ  فَخَلُّوۡا سَبِیۡلَہُمۡ  اِنَّ اللّٰہَ  غَفُوۡرٌ  رَّحِیۡمٌ ۔

ترجمہ:’’جب مقدس مہینے گزر جائیں تو ان لوگوں کو قتل کرو جو خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں جہاں کہیں تم انہیں پاؤ۔اُن کو پکڑو اُن کا محاصرہ کرو اور ہر طرح سے اُن کے لئے کمین میں بیٹھو۔لیکن اگر وہ توبہ کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تب اُن کو چھوڑ دو کیونکہ خدا بخشنے والا رحیم ہے‘‘ (سورۃتوبہ۵:۹) ۔

یہودیوں اور مسیحیوں کو بھی اس سے بچاؤ کی صورت کوئی  نہ تھی اور تلوار کی دھار سے بچنے کی صر ف یہ راہ تھی کہ اسلام قبول کریں  یا جزیہ دیں۔سورۃ توبہ۳۰:۹ میں یہ متعصبانہ شریعت مندرج ہے:

قَاتِلُوا الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ لَا بِالۡیَوۡمِ  الۡاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوۡنَ مَا حَرَّمَ  اللّٰہُ  وَ رَسُوۡلُہٗ  وَ لَا  یَدِیۡنُوۡنَ دِیۡنَ  الۡحَقِّ مِنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ  حَتّٰی یُعۡطُوا  الۡجِزۡیَۃَ  عَنۡ ‌یَّدٍ  وَّ ہُمۡ  صٰغِرُوۡنَ ۔

ترجمہ:’’ایسوں کو قتل کرو جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے نہ یوم الآخر پر اور نہ اُس کوحرام ٹھہراتے ہیں جسے خدا اور اُس کے رسول نے حرام ٹھہرایا اور جو دین حق کا اقرار نہیں کرتے جب تک کہ اپنے ہاتھ سے جزیہ نہ  اد ا نہ کریں اور عجز نہ دکھائیں‘‘۔

محمد صاحب نے یہ اعلان کیا کہ جہاد لازمی ودائمی فرض تھا ،کیونکہ اُس نے یہ بیان کیا:

الجهاد ماض إلى يوم القيامة

ترجمہ:’’جہاد ر وز قیامت تک جاری رہے گا‘‘۔

اور محمد صاحب نے تاکید  کی کہ جہاد کیا کریں کیونکہ اس کے صلے میں اُن کو بہشت ملے گی۔چنانچہ یہ الفاظ اُن سے منسوب ہیں:

من جاهد في سبيل الله وجبت له الجنة

ترجمہ:’’جو کوئی خدا کی راہ میں  جہاد کرے بہشت اُس پر واجب ہو گیا‘‘۔

جنگ کرنے کی غرض  بہت جلدبدل گئی۔ شروع میں تو یہ خالص لوٹ کی آرزو تھی جس سے مسلمان جان توڑ کر لڑتے رہے اور جنگ کرنے کے لئے یہ  بڑی تحریص تھی۔لیکن بعد ازاں اسلام کی اشاعت کے لئےجنگ ہونے لگی۔اُن کو اس وقت تک لڑنے کا حکم تھا جب تک کہ سارا دین خدا کا نہ ہوجائے۔

اگر کوئی مذہب سے برگشتہ ہوجائے تو وہ مارا جائےاور بعض اوقات محمد صاحب نے غصے میں آکر بعضوں کو بڑی بے رحمی سے قتل کرایا۔چنانچہ مِشکوٰۃ المصابیع کے باب الانتقام میں مندرج ہے کہ :

کسی خاص موقعے  پربعض مسلمان اپنے دین سے برگشتہ ہو گئے اور مدینے سے بھاگتے وقت محمد صاحب کے بعض اونٹوں کو بھی ساتھ لے گئے اور جو لوگ ان اونٹوں کو چرا رہے تھے اُن میں سے ایک کو قتل بھی کر گئے۔آخر کار یہ لوگ پکڑے گئے اور محمد صاحب کے سامنے پیش ہوئے تاکہ وہ اُن کی واجبی سزا کا فیصلہ کرے۔

یہ جرم تو سنگین تھا اور وہ سخت سزا کے مستوجب تھے لیکن جو سخت سزا اُن کو دی گئی وہ سنگ دل سے سنگ دل مسلمان کو بھی شاق گزری۔چنانچہ یہ لکھا ہے:

فَقَطَعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ وَسَمَلَ أَعْيُنَهُمْ ثُمَّ لَمْ يَحْسِمْهُمْ حَتَّى مَاتُوا

ترجمہ:’’اُن کے ہاتھ اور پاؤں کاٹے اور اُن کی آنکھیں نکال ڈالیں اور ان کا خون بند نہ کیا جب تک کہ وہ مر نہ گئے‘‘۔

اس خوفناک ظلم کا ایک دوسری حدیث میں یہ ذکر ہے کہ:

اُن کی آنکھوں میں  لوہے کی گرم گرم سلاخیں کھبوئی گئیں اور اس کے بعد اُن کو جھلستی دھوپ میں چٹانوں پر پھینکوا دیا اور جب اُن لوگوں نے شدت پیاس سے پانی مانگا تو اُن کو دیا نہ گیا حتّٰی کہ وہ تڑپ تڑپ کر مر گئے۔

جو کچھ ہم نے اوپر بیان کیا وہ محض مسلمانوں کی کتابوں سے لیا گیا ہے اور یہ کتابیں بھی اُن  میں اعلیٰ درجہ کی مستند مانی جاتی ہیں۔اس لئے حامیان اسلام کا یہ رٹتے جانا کہ اسلام آزادی کا دین ہے اور یہ کہ محمد صاحب  نے اپنے دین کی اشاعت میں زور زبردستی سے کبھی کام نہیں لیا فضول ہے۔امور واقعی اس کے خلاف ہیں۔گو مکی اور اوائل مدنی سورتوں کے بعض حوالے اُن کے دعویٰ کے کچھ ممد معلوم ہوں، لیکن قرآن مجید کے مابعد حصوں  کے گہرے مطالعے سے اور مستند حدیثوں سے کچھ شک و شبہ  باقی نہیں رہتا کہ محمد صاحب نے اپنے دین کے پھیلانے میں تشدد کی تعلیم بھی دی اور اُس پر عمل بھی کیا۔