دوسرا حصّہ

محمد صاحب مدینہ میں

پہلاباب

تمدّنی اور دینی شرع

 

Rev. William Goldsack

 

مکّہ صحرائے عرب کے وسط میں واقع ہے۔اس کے چاروں طرف بنجر زمین  اورپتھر یلی پہاڑیاں ہیں جن پر سبزی کا نام و نشان  تک پایا نہیں جاتا۔یہ ایسا ڈراؤنا  اور روکھا نظارہ پیش کرتی ہیں کہ اس سے بڑھ کر احاطہ خیال میں نہ آیا  ہوگا  ۔برعکس اس کے مدینہ سر سبز میدان ہے ۔ اس کے چاروں طرف خوشنما باغات اور پھلدار نخلستان پائے جاتے ہیں ۔آج تک کھجوروں کی زراعت وپرورش وہاں کے باشندوں کا عام پیشہ ہے۔

محمد صاحب کے زمانے سے پیشتر اہل مدینہ عموماً دو حصوں پر منقسم تھے :بت پرست عرب اور موحد یہودی ۔ گو قرب و جوار کے دیہات میں معدودے چند (بہت تھوڑی تعداد میں)  مسیحی  فرقے بھی پائے جاتے تھے،مگر شمالی شہر میں اسلام کے قائم ہونے کے جلد بعد وہاں کے لوگ چارحصوں میں منقسم پائے جاتےہیں ۔

اول۔ تو مدینہ کے غیر مسلم عرب تھے جن کی بڑی آرزو یہ تھی کہ اس زبردست پیشوا کے ساتھ جو ان کے درمیاں آبسا تھا رشتہ اتحاد پیدا کریں ۔ لیکن وہ اسلام قبو ل کرنا نہ چاہتے تھے مسلمان مورخ ان لوگوں کو ’’منافق‘‘ کہتے تھے۔

 دوم ۔وہ مسلمان تھے جو محمد صاحب کے ساتھ مکہ سے ہجرت کرکے مدینے کو چلے گئے تھے۔ یہ لوگ مدینہ میں کم وبیش افلاس کی حالت میں تھے۔ ان کو ’’مہاجرین ‘‘کہتے تھے۔ لیکن مابعدزمانہ میں یہ لوگ بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ۔ محمد صاحب کو بھی ان سے بڑا اُنس تھا کیونکہ انہوں نے اسلام کی خاطر سب کچھ ترک کیا تھا اور مکہ سے ہجرت کرنے میں ہر طرح کی تکلیف اور خطرہ کا سامنا کیا تھا۔ ان کے لئے محمد صاحب ہمیشہ مشکور رہے۔

سوم ۔مدینہ میں تیسرا فریق ’’انصار ‘‘کا تھا۔ یہ مدینہ کے وہ لوگ تھے جنہوں نے پہلے خود اسلام قبول کیا اور پھر محمد صاحب اور اس کے مکی پیروؤں کو مدینہ میں بلا کر ان کی مدد کی ۔یہ ’’انصار‘‘چونکہ مدینے کے پہلے مسلمان تھے، اس لئے ان کی بہت بڑی عزت تھی اور جن لوگوں کو’’انصار‘‘ کا لقب ملا اُن کی بہت تعریف اور مدد کی جاتی تھی۔

چہارم ۔چوتھا فریق بالکل الگ تھلگ تھا ۔ یہ یہودیوں کے دولت مند بے شمار مختلف فریق  تھے جو مدینہ کے گرد ونواح میں بستے تھے ۔کچھ عرصے تک تو محمد صاحب ان یہودیوں پر مہربان رہے اور حمایت وحفاظت کا عہد و پیمان کر لیا۔ لیکن یہ عہد و پیمان دیر تک قائم نہ رہا اور جیسا تیسرے باب میں ذکر ہے ۔ وہ وقت جلد آگیا جب کہ محمد صاحب نے ان یہودیوں کو جو اہل کتاب  کہلاتے ہیں،اس علاقہ سے خارج کر دینا مصلحت ملکی و لازمی سمجھا۔

مدینہ میں پہنچنے کے بعد محمد صاحب نے جو پہلا کام کیا وہ یہ تھاکہ مسلمانوں کو جمع کر کے ان کو تاکید کی کہ نماز عام کے لئے ایک مسجد تعمیر کریں۔ کہتے ہیں کہ اس کام میں محمد صاحب نے اپنے ہاتھوں سے مدد دی اور تھوڑے عرصے ہی میں اینٹوں کی ایک عمارت کھڑی کر دی  اور کھجور کی لکڑیوں کی چھت ڈال دی۔مسلمانوں کی دینی سرگرمی کی یہ یادگار تھی۔ اس مسجد کے ساتھ چند حجرے بھی تعمیر ہوئے جن میں محمد صاحب اور ان کی بیویاں رہا کرتی تھیں۔

اس کا ذکر ہم کر آئے ہیں کہ محمد صاحب نے پہلے پہل تو یہ کوشش کی کہ یہودیوں کو اپنا  مطیع بنا لے اور اس مقصد کے لئے ان کو ’’اہل کتاب‘‘ کہا اور ان کی عزت بھی کی ۔ فی الحقیقت جو تاریخ ہم  تک پہنچی ہے اُس سے یہ ظاہر ہے  کہ محمد صاحب نے اُن کے چند ایک دستوروں کو بھی اختیار کیا  اور اپنی  شریعت میں اُن کو داخل کیا ۔جس خاص وسیلے سے محمد صاحب نے یہودیوں کی تالیف قلوب کرنا چاہی وہ یہ تھا کہ یروشلیم کو اپنا قبلہ قرار دیا۔ یہودیوں کا یہ عام دستور تھا کہ یروشلیم  کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے۔کہتے ہیں کہ مسلمان مکہ کے کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے،لیکن اب محمد صاحب کے حکم سے اور کچھ عرصے تک مسلمان جنوب کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کی بجائے شمال کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے۔مگر جب محمد صاحب نے دیکھا کہ یہودی اپنی ہٹ  سے باز نہیں آتے اوراسلام کو قبول نہیں کرتے تو محمد صاحب نے پھر یہی قرار دیا کہ مکہ کے کعبہ ہی کو اپنا قبلہ ٹھہرائیں۔چنانچہ ایک روز نماز پڑھتے پڑھتے محمد صاحب نے اپنا منہ کعبہ کی طرف پھیر لیا اور اُسی طرف نماز پڑھنے لگے۔یہ دیکھ کر سارے مسلمان حیران ہوئے ۔اس تبدیلی کی وجہ وحی سے منسوب کی اور اپنے پیروؤں کی تسلی کے لئے یہ آیت آسمان سے نازل شدہ قرار دی۔

سورہ بقرہ آیت ۱۴۳

قَد نَریٰ تَقَلُّبَ وَجھکَ فِی السَّمَاء فَلَنُوَلّیَنَّکَ قِبلَۃً تَرضٰہَا فَوَلّ وَجھَکَ سَطَرَ المَسجِدِ الحَراَمِ وَحَیْتُ مَا کُنْتُم فَوَ لُّوْا وُجُوْ ھَکُمْ شَطَرَہ‘ط۔

ترجمہ:’’ہم نے اے محمد صاحب تجھے آسمان کی ہر سمت رخ کرتے  دیکھا لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ تو اُس قبلہ کی طرف رُخ کرے جو تجھے پسند ہے۔پس تو اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کر اور جہاں کہیں تم ہو تم اُسی کی طرف منہ پھیرا کرو‘‘۔

جلال الدین نے اس آیت کی یہ تفسیر کی کہ  محمد صاحب:

كان صلى إليها فلما هاجر أمر باستقبال بيت المقدس تألفاً لليهود فصلى إليه سنة أو سبعة عشر شهراً ثم حول

ترجمہ:’’اس کی (کعبہ کی)  طرف منہ کر کے نما زپڑھا کرتے تھے لیکن (مدینہ کی طرف)  ہجرت کرنے کے بعد اُنہوں نے  (اپنے پیروؤں کو)  یروشلیم کی ہیکل کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا تا کہ وہ     یہودیوں کو رضا مند کر ے ۔پس وہ اُس کی طرف منہ کر کے ایک سال یاسترہ    ما  ہ تک نماز پڑھتے رہے،پھر انہوں نے قبلہ  بدل دیا‘‘۔

عبد القادر نے اپنی تفسیر کے صفحہ ۲۲ پر یہ مرقوم کیا:

’’ چاہتے تھے کہ کعبہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم آوے سو آسمان کی طرف منہ کر کے راہ دیکھتے تھے کہ شاید فرشتہ حکم لاوے کہ کعبے کی طرف نماز پڑھو‘‘۔

جب صورت حال یہ ہو تو تعجب نہیں کہ محمد صاحب کی یہ آرزو جلد پوری ہو گئی اور وحی سماوی کے ذریعے اس تبدیلی کی منظوری ہو گئی۔احادیث  میں محمد صاحب کی نمازوں کا بہت ذکر آیا ہے اور اس کی تفصیل آئی ہے کہ کس وقت اور کس طریقے سے  وہ نماز پڑھا کرتے تھے ۔ان حدیثوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ محمد صاحب کے پیرو جو اُن کی تقلید میں  وضو اور طہارت کی ہر رسم کے بڑے پابند تھے جب محمد صاحب کو اپنے ہی مقرر کر دہ قوانین کی خلاف ورزی کرتے دیکھتے تو حیران رہ جاتے تھے ،مثلاً محمد صاحب نے اُن کو یہ حکم دیا تھا:

إنّ الله لا يقبل صلاة بغير طهور

ترجمہ:’’تحقیق خدا طہارت کے بغیر نماز قبول نہیں کرتا‘‘۔

تو بھی مِشکوٰۃ المصابیح کتاب الاتامہ میں عمر بن عمیہ سے یہ روایت آئی ہے:

أنه رأى النَّبيَّ الله صلى الله عليْه وسلم يَحتزُّ مِن كَتِفِ شاةٍ في يَدهِ، فدُعي إلى الصَّلاة، فألْقَاهَا والسكين التي كان يَحْتزُّ بها، ثمَّ قام فصلَّى ولم يَتوضَّأ

ترجمہ:’’تحقیق اُس نے نبی کو بھیڑی کا شانہ کاٹتے دیکھا جو اُن  کےہاتھوں میں تھا ۔پھر وہ نماز  کے لئے بلائے گئے تو جس چھری سے وہ شانہ کاٹ رہے تھے اُسے اور شانہ کو چھوڑ کر وہ نماز پڑھنے کھڑے  ہو گئے اور انہوں نے وضو نہ کیا‘‘۔

ترمذی سے روایت ہے کہ وہ مسجد میں داخل ہوتے وقت یہ کہا کرتے تھے:

جامع ترمذی ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث ۳۰۲

راوی: علی بن حجر , اسماعیل بن ابراہیم , لیث , عبداللہ بن حسن , اپنی والدہ فاطمہ بنت حسین سے اور وہ اپنی دادی فاطمہ کبری

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ لَيْثٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ أُمِّهِ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْحُسَيْنِ عَنْ جَدَّتِهَا فَاطِمَةَ الْکُبْرَی قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ صَلَّی عَلَی مُحَمَّدٍ وَسَلَّمَ وَقَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ

علی بن حجر، اسماعیل بن ابراہیم، لیث، عبداللہ بن حسن، اپنی والدہ فاطمہ بنت حسین سے اور وہ اپنی دادی فاطمہ کبریٰ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مسجد میں داخل ہوتے تو درود پڑھتے اور یہ دعا پڑھتے اے اللہ میری مغفرت فرما اور میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول ۔

پھر وہاں سے رخصت ہوتے وقت یہ کہا کرتے تھے:

وَقَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ فَضْلِكَ

ترجمہ:’’اے میرے رب میرے گناہوں  کو معاف کر اور اپنے فضل کے د ر و ازے میرے لئے کھول دے‘‘۔

محمد صاحب کی دعاؤں کے متعلق بخاری نے یہ بھی بیان کیا کہ تکبیر کے وقت اور قرآن مجید کی تلاوت کے عرصے میں وہ خاموش رہا کرتے تھے۔آخر کار آنحضرت کے دوست اور رفیق ابو ہریرہ نے اُن سے پوچھا’’اے رسول خدا تکبیر اور تلاوت کےوقت جب آپ خاموش رہتے ہیں تو اپنے دل میں کیا کہا کرتے ہیں؟ محمد صاحب نے  یہ جواب  دیا:

سنن دارمی ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث ۱۲۱۶

أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ الْقَعْقَاعِ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْكُتُ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ إِسْكَاتَةً حَسِبْتُهُ قَالَ هُنَيَّةً فَقُلْتُ لَهُ بِأَبِي وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ إِسْكَاتَتَكَ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ مَا تَقُولُ قَالَ أَقُولُ اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنْ خَطَايَايَ كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنْ الدَّنَسِ اللَّهُمَّ اغْسِلْنِي مِنْ خَطَايَايَ بِالثَّلْجِ وَالْمَاءِ الْبَارِدِ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں نبی اکرم تکبیر اور قرأت کے درمیان خاموشی اختیار کرتے تھے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں تکبیر اور قرأت کے درمیان خاموشی میں آپ کیا پڑھتے ہیں نبی اکرم نے جواب دیا میں یہ پڑھتا ہوں۔ اے اللہ میرے اور گناہوں کے درمیان اتنا فاصلہ کردے جتنا تونے مشرق اور مغرب کے درمیان فاصلہ رکھا ہے۔ اے اللہ مجھے گناہوں سے اس طرح پاک کردے جیسے سفید کپڑے کو میل سے پاک رکھا جاتا ہے اے اللہ میری خطاؤں کو برف اور ٹھنڈے پانی کے ذریعے دھو دے۔

محمد صاحب کی روز مرہ زندگی کے بارے میں جو حدیثیں آئی ہیں اُن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ رسمیات کا جو بوجھ اس نے اپنے پیروؤں پر لادا تھا، وہ خود اس کی برداشت سے نالاں تھے اور اس لئے مورخوں نے ایسے موقعوں کا ذکر بار بار کیا جب محمد صاحب نے اُن رسمیات کی خلاف ور زی کی ۔

چنانچہ ابن مسعود سے جو صحابہ میں سے تھے روایت ہے کہ ایک دن محمد صاحب نے:

صَلَّى الظُّهْرَ خَمْسًا فَقِيلَ لَهُ أَزِيدَ فِي الصَّلَاةِ فَقَالَ وَمَا ذَاكَ قَالَ صَلَّيْتَ خَمْسًا فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ بَعْدَ مَا سَلَّمَ. ورواية أخرى قال: إنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مثلكم أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ فإذا أنْسيْتَ فَذَكّروني

ترجمہ:’’ ظہر کی نماز میں پانچ رکعتیں پڑھیں۔اس لئے بعضوں نے اُن سے پوچھا کہ کیا رکعتیں (چار کی جگہ پانچ) بڑھ گئی ہیں۔اُنہوں نے کہا تمہارا کیا مطلب ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا آپ نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں پھر سلام کے بعد  اُنہوں نے دو رکعتیں پڑھ کر یہ کہا۔’’فی الحقیقت میں  بھی تو تمہاری مانند ہوں اور تمہاری طرح بھول جاتا ہوں۔اس لئے جب میں بھولوں تو مجھے یا د دلایا کرو‘‘ (مِشکوٰۃ المصابیح۔کتاب الصلوٰۃ) ۔

محمد صاحب نے اپنے  پیروؤں کی ہدایت کے لئے  عبادت کی بہت طویل تفصیل دی۔لیکن مدینہ کی نئی  مسجد میں اُس نے سارے زمانوں کے لئے ایک شرع بھی دی اور شریعت کا ایسا ضابطہ مقرر کیا جو زندگی کے ہر صیغے کے لئے خواہ تمدنی ہو یا سیاست یا دین کار آمد ہو سکے۔یہ تو ماننا پڑتا ہے کہ اسلام سے پیشتر عربوں میں جس  شریعت کا رواج تھا اُس سے اسلامی شریعت بہت بہتر تھی۔لیکن محمد صاحب نے ایسی شریعت کو دینی جامہ پہنا کر اس کو دوامی بنا دیا۔پس اہل اسلام ایسی شرع کے ہمیشہ کے لئے پابند ہو گئے جو ساتویں صدی کے لائق تھی۔اس لئے اعلیٰ نصب العین تک ان کا ترقی کرنا محال ہو گیا۔چونکہ محمد صاحب نے ساتویں  صدی میں غلامی اور کثرت از د واج  کو جائز ٹھہرایا،پس وہ سارے زمانوں کے لئے جائز ہو گیا۔

محمد صاحب کے برپا ہونے سے پیشتر عربوں میں کثرت ازدواج کی کوئی حد نہ تھی اور اس کے ساتھ ایسی خرابیاں ملحق تھیں جن کا بیان کرنا مشکل ہے۔محمد صاحب ایسے رواج کو بیخ وبن سے تو اکھاڑ نہ سکے،البتہ اس پر حد لگا کر اُس کی برائیوں کو محدود کر دیا۔یہ اصلاح تو بذات خود اچھی تھی لیکن لونڈیوں کی غیر محدود اجازت دے کر  اس خوبی کا اثر بھی زائل کر دیا۔لونڈیاں یا جو عورتیں جنگ میں پکڑی جائیں خواہ اُن کے خاوند بھی موجود ہوں،وہ مسلمانوں کو رکھنی جائز ہو گئیں اور زمانہ حال کی تہذیب کسی حالت میں ایسی برائی کی اجازت نہ دے گی۔قرآن مجید کی جن آیات میں یہ اجازت پائی جاتی ہے ،وہ یہ ہیں:

وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا

ترجمہ:’’اگر تمہیں اندیشہ ہوکہ تم یتیموں سے ٹھیک سلوک نہ کر سکو گے تو اُن عورتوں میں سے  جو تمہاری نظر میں اچھی ہوں دو یا تین یا چار کر لو او ر اگر تم کو خوف ہو کہ تم عدل نہ کر سکو گے تو صرف ایک ہی کرو یا لونڈیاں جو تمہارے داہنے ہاتھ نے حاصل کی ہیں‘‘ (سورۃ النسا۳:۴) ۔

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُوا دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَن تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ  إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ 

ترجمہ:’’تم کو حرام ہیں شادی شدہ عورتیں سوائے اُن کے جو تمہارے ہاتھوں میں بطور لونڈیوں کے ہیں‘‘ (سورۃ النسا۲۴،۲۳:۴) ۔

محمدصاحب کی وفات کے بعد مسلمانوں کی فتوحات کی تاریخ مذکورہ بالا شریعت پر کافی روشنی ڈالتی  ہے اور آج کےدن تک آرمینی مسیحیوں کا ترکوں کے ہاتھ سے بار بار قتل ہونا اس اَمر کا بھی شاہد ہے کہ کس قدر آرمینی مسیحی عورتوں کے ننگ و ناموس کو انہوں نے خراب کیا اور مسلمانوں نے اپنے گھروں میں اُن کو ڈال لیا۔

محمدصاحب کے زمانے کی ایک بڑی خرابی جس کی اصلاح کی انہوں نے کوشش بھی کی غلامی کا دستور تھا۔ محمدصاحب نے اپنے پیروؤں کو حکم دیا کہ اپنے غلاموں سے مہربانی کے ساتھ پیش آئیں اور غلاموں کے آزاد کرنے کو ایسا فعل قرار دیا جو خدا کو پسند تھا۔لیکن انسانوں کی خریدو فروخت کی تو اجازت دی اور مسلمان اُس وقت سے لے کر آج تک شرع نبوی کے مطابق اس بے رحم تجارت میں مصروف ہیں۔

مسلمان مہاجرین نے مدینہ میں پہنچ کر پہلے پہل تو کچھ تنگی اٹھائی۔ان میں سے اکثر تو بے زر تھے۔خود محمدصاحب کو فاقہ اٹھانا پڑا۔ترمذی نے بیان کیا ہے کہ اکثر مسلمان کھجوروں اور جَو پر گزران کرتے تھے۔ محمدصاحب کے ایک بے موقعہ اعلان کے باعث مہاجرین کو اَور بھی تکلیف ہوئی جو اپنی روزانہ روٹی کے لئے مدینے کے ایمانداروں پر حصر رکھتے تھے۔ہم یہ ذکر کر آئے ہیں کہ مدینہ اور اس کی نواح کے اکثر باشندے کھجور کی زراعت و پرورش کا کام  کرتے تھے اور اسی پیشہ میں اُن  کوکمال حاصل تھا۔پیوند کے مصنوعی طریقوں سے بھی وہ واقف تھے اور اس طرح سے انہوں نے بہت کچھ کما لیا تھا۔لیکن مِشکوٰۃ المصابیح میں یہ بیان آیا ہے کہ جب محمدصاحبمدینے میں آئے تو اُنہوں نے اس پیشے  کو منع کیا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب کھجور کی فصل کا وقت آیا تو ان مایوس مسلمانوں نے اپنی کھجوروں کو بے پھل پایا اور غیر مسلم باشندوں کو کثرت سے پھل حاصل ہوا۔ا س پریشانی کی حالت میں مسلمان محمدصاحب کے پاس جا کر اپنی حالت بتانے لگے۔کہتے ہیں کہ محمدصاحب نے یہ جواب دیا:

إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، إِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ دِينِكُمْ، فَخُذُوا بِهِ، وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ رَأْيٍ، فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ.

ترجمہ:’’میں صرف بشر ہوں ۔اس لئے جب میں تمہیں دین کے بارے میں حکم دو ں تو تم مان لو اور جب میں تمہیں صرف اپنی رائے بتاؤں تب میں صرف بشر ہی ہوں‘‘ (مِشکوٰۃ المصابیح۔کتاب الاایمان) ۔

اس اَمر کے بتانے کی ضرورت نہیں کہ محمدصاحب کے اس جواب سے ان کے بھوکے  محمدیوں کے پیٹ تو نہ بھرے اور نہ وہ مصیبت ٹل گئی جو اُن کو پیش آئی تھی۔اگلے باب میں ہم یہ ظاہر کرنے کی کوشش کریں گے کہ محمدصاحب نے اس مسئلے کو کس طرح سے حل کیا اور اپنے پیروؤں کے افلاس کو دولت سے بدل دیا۔