تیسرا باب

پیغام کا اعلان

خدیجہؓ دولت مند بیوہ تھی۔اُس کے ساتھ شادی کرنے سے محمد صاحب کو فارغ البالی کے ساتھ دینی امور پر غور کرنے کا موقعہ مل گیا۔سیّد امیر علی اپنی کتاب   (Life of Muhammad)   میں یہ مرقوم کیا:

’’یا تو اپنے خاندان کی گود میں یا صحرا کے وسط میں اُس نے اپنا وقت غورروفکر میں صَرف کیا۔گوشہ نشینی تو اس کی زندگی کا ایک جزو بن گیا تھا۔ہر سال رمضان کے مہینے وہ اپنے خاندان سمیت کوہ حرا پر چلا جاتا اور اپنا وقت دُعا و نماز میں گزارتا اور جو غریب غربا اور مسافر اس کے پاس آتے اُن کی مدد کرتا تھا‘‘۔

مِشکوٰۃ المصابیح کی کتاب فضائل سیّد المرسلین میں اس کا مفصل بیان پایا جاتا ہے،لیکن اُس بیان کی یہاں گنجائش نہیں۔اس کے متعلق  کہ اس عرصے میں اس نبی کا طرز زندگی کیاتھا؟یہاں اتنا کہنا کافی ہے کہ جب وہ اس غیر مرئی پر سوچ رہا تھا تو پہاڑ کی غار میں فرشتوں کی خیالی تصویریں اور روئتیں اُس کو نظر آنے لگیں اور اُس کو یہ یقین ہوتا گیا کہ آسمانی وحی اور فرشتوں سے وہ بات چیت کر رہا تھا۔ان ابتدائی خیالی رویتوں کا ذکر جابر نے یوں کیا:

جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ قرآن کی تفسیر کا بیان ۔ حدیث  ۱۲۷۶

راوی: عبد بن حمید , عبدالرزاق , معمر , زہری , ابوسلمہ , جابر بن عبداللہ

بَيْنَمَا أَنَا أَمْشِي سَمِعْتُ صَوْتًا مِنْ السَّمَائِ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا الْمَلَکُ الَّذِي جَائَنِي بِحِرَائَ جَالِسٌ عَلَی کُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ فَجُثِثْتُ مِنْهُ رُعْبًا فَرَجَعْتُ فَقُلْتُ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي

ترجمہ: ’’جب میں چلا جارہا تھا تومیں نے آسمان سے ایک آو از سنی اور میں نے آنکھیں اٹھا کر دیکھا ۔ دیکھ ! ایک فرشتہ آسمان وزمین کے مابین تخت پر بیٹھا ہوا میرے پاس کوہ حرا میں آیا ۔اس کو دیکھ کر میں بہت ڈر گیا، تب میں نے اپنے گھر والوں کے پاس آ کر یہ کہا ،مجھے ڈھانپ دو اُنہوں نے مجھے ڈھانپ دیا‘‘ (مِشکوٰۃ المصابیح باب البعث و بعدالوحی) ۔

عائشہ ؓحضرت کی چہیتی بیوی نے یہ خبر خود  محمد صاحب سے سنی ہوگی ۔چنانچہ اس نے اس وحی کے اُترنے کا بیان یوں کیا ہے :

مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ آنحضرت کی بعثت اور نزول وحی کا بیان ۔ حدیث  ۴۲۳

آغاز وحی کی تفصیل :

وعن عائشة رضي الله عنها قالت : أول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه و سلم من الوحي الرؤيا الصادقة في النوم فكان لا يرى رؤيا إلا جاءت مثل فلق الصبح ثم حبب إليه الخلاء وكان يخلو بغار حراء فيتحنث فيه – وهو التعبد الليالي ذوات العدد – قبل أن ينزع إلى أهله ويتزود لذلك ثم يرجع إلى خديجة فيتزود لمثلها حتى جاءه الحق وهو في غار حراء فجاءه الملك فقال : اقرأ . فقال : " ما أنا بقارئ " . قال : " فأخذني فغطني حتى بلغ مني الجهد ثم أرسلني فقال : اقرأ . فقلت : ما أنا بقارئ فأخذني فغطني الثانية حتى بلغ مني الجهد ثم أرسلني فقال : اقرأ . فقلت : ما أنا بقارئ . فأخذني فغطني الثالثة حتى بلغ مني الجهد ثم أرسلني فقال : [ اقرا باسم ربك الذي خلق . خلق الإنسان من علق . اقرأ وربك الأكرم . الذي علم بالقلم . علم الإنسان ما لم يعلم

ترجمہ:’’نبی کو جو مکاشفے ابتدا میں ملے وہ سچے خوابوں کی صورت میں تھے۔ ۔ ۔ اس کے بعد خلوت نشینی کے دل دادہ ہوگئے اور کوہ حراکی ایک غار میں جا کر تنہا بیٹھا کرتے تھے اور رات دن عبادت میں لگے رہتے تھے۔ ۔ ۔  حتیٰ کہ ایک روز فرشتے نے اس کے پاس آ کر یہ کہا ’’پڑھ ‘‘نبی نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ۔ محمد صاحب نے کہا کہ اس کے بعد فرشتے نے مجھے پکڑ کر ایسے زور سے دبایا کہ میں مشکل سے برداشت کر سکتا تھا اور چھوڑ کر پھر مجھے یہ کہا ’’پڑھ‘‘ میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں اور پھر پکڑ کر مجھے ایسے زور سے دبایا کہ میں مشکل  سے برداشت کر سکا اورپھر مجھے چھوڑکرکہا  کہ’’پڑھ‘‘ میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں اور پھراس نے تیسری دفعہ پکڑ کر  زور سے دبایا کہ میں مشکل  سے برداشت کر سکا اور مجھے کہا ’’اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھ جس نے پیدا کیا آدمی کو، گوشت کے لوتھڑے سے بنایا  اور پڑھ تیرا پروردگار بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا‘‘۔

ایک خاص وقفے کے سوا اس وقت سے لے کر تقریباً ۲۳سال تک حسب  موقعہ کئی مکاشفے محمد صاحب سناتا رہاجو دینی بھی تھے اور تمدنی اور ملکی بھی ۔ ان کی نسبت اس نے یہ اعلان کیا کہ وہ جبرائیل فرشتہ کے وسیلے اس کو ملے تھے ۔اس نبی کی زندگی کا غور سے مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہو جائے گا کہ پہلے پہل تو اس نے سچے دل سے یہ یقین کر  لیا کہ خدا نے اس کو چن کر اپنا  رسول مقرر کیا ہے تا کہ وہ اپنے  ہم وطنوں کو ان کی بت پرستی سے چھڑائے۔لیکن جوں جوں زمانہ گزرتا گیا اور زور و طاقت حاصل کرنے کی اشتہا بڑھتی گئی، تب بے شک انہوں نے بعض مکاشفات کو اپنے مقصد کی تائید کے لئے منجانب اللہ ٹھہراکر  پیش کیا ہو گا۔

حدیث نویسوں نے ایک خاص عرصے کا ذکر کیا ہے جس میں کہ الہام نازل ہونا موقوف رہا ۔بعض کے نزدیک یہ عرصہ تین سال کا تھا اور بعض کے نزدیک صرف چھ ماہ کا ۔ خواہ کچھ ہی ہو،مسلم اور بخاری دونوں نےبیان کیا ہے کہ کچھ عرصے تک فرشتوں کا دکھائی دینا معطل رہا۔ اس سے محمد صاحب کے دل پر  ایسی چوٹ لگی کہ ایک وقت خود کشی پر آمادہ ہو گئے۔

مسند احمد ۔ جلد نہم ۔ حدیث  ۵۸۸۲

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی مرویات

وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ وَفَتَرَ الْوَحْيُ فَتْرَةً حَتَّى حَزِنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا بَلَغَنَا حُزْنًا غَدَا مِنْهُ مِرَارًا كَيْ يَتَرَدَّى مِنْ رُءُوسِ شَوَاهِقِ الْجِبَالِ فَكُلَّمَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ لِكَيْ يُلْقِيَ نَفْسَهُ مِنْهُ تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام فَقَالَ لَهُ يَا مُحَمَّدُ إِنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا فَيُسْكِنُ ذَلِكَ جَأْشَهُ وَتَقَرُّ نَفْسُهُ عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَامُ فَيَرْجِعُ فَإِذَا طَالَتْ عَلَيْهِ وَفَتَرَ الْوَحْيُ غَدَا لِمِثْلِ ذَلِكَ فَإِذَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام فَقَالَ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ

ترجمہ: کچھ ہی دنوں بعد ورقہ کا انتقال ہو گیا اور سلسلہ وحی بند گیا، فترتِ وحی کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنے دل گرفتہ ہوئے کہ کئی مرتبہ پہاڑ کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو نیچے گرانے کا ارادہ کیا، لیکن جب بھی وہ اس ارادے سے کسی پہاڑی کی چوٹی پر پہنچتے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام سامنے آجاتے اور عرض کرتے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اللہ کے برحق رسول ہیں، اسے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جوش ٹھنڈا اور دل پر سکون ہو جاتا تھا، اور وہ واپس آجاتے ، پھر جب زیادہ عرصہ گذر جاتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پھر اسی طرح کرتے اور حضرت جبرائیل علیہ السلام انہیں تسلی دیتے تھے۔

مورخوں نے ا س اَمر  کو بخوبی واضح کر دیا  کہ محمد صاحب کو کچھ مرگی جیسی بیماری تھی اور اُن پر غشی طاری ہو جاتی تھی اور ا س حالت  میں ہاتھ پاؤں مارا کرتے تھے۔مسلمانوں کی کتابوں میں اُن کی اس بیماری کا کئی بار ذکر آیا ہے اور جب ایسی غشی  کی حالت طاری ہوتی تواُن کے پیرو اُن پر پانی کے چھینٹے مارا کرتے تھے۔چنانچہ بخاری میں محمد صاحب سے روایت ہے:

صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ تفاسیر کا بیان ۔ حدیث  ۲۱۳۷

راوی: یحیی , وکیع , علی ابن مبارک , یحیی بن ابی کثیر

يْتُ خَدِيجَةَ فَقُلْتُ دَثِّرُونِي وَصُبُّوا عَلَيَّ مَائً بَارِدًا قَالَ فَدَثَّرُونِي وَصَبُّوا عَلَيَّ مَائً بَارِدًا

ترجمہ:’’میں نے خدیجہؓ کے پاس جا کر کہا مجھے ڈھانپ دے ،اس لئے انہوں نے مجھے ڈھانپ دیا اور مجھ پر ٹھنڈا پانی ڈالا‘‘۔

مِشکوٰۃ المصابیح کی کتاب فضائل المرسلین میں عبادہ بن الصامت سے روایت ہے:

إِذَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ كُرِبَ لِذَلِكَ وَتَرَبَّدَ وَجْهُهُ

ترجمہ: ’’جب اُس پر وحی نازل ہوئی تو اس کی وجہ سے اُن کو تشویش ہوئی اور اُن کا چہرہ گھبرا گیا‘‘۔

جو حالات ہم تک پہنچے اُن سے ظاہر ہے  کہ ان غشیوں کی وجہ سے اُس کے پیروؤں کو بہت فکر پیدا ہو گئی۔بعضوں کو تو یہ اندیشہ ہو گیا کہ اُسے دیو کا آسیب ہے۔بعضوں نے خیال کیا کہ کسی جادو کا اثر ان پر ہو گیا۔خود محمد صاحب اسے جادو کی تاثیر سمجھتے تھے۔اگرچہ انہوں نے اس مرض سے بھی اپنی غرض نکالی اور ان غشیوں کو جبرائیل فرشتہ کی تاثیر سے منسوب کیا۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ احادیث میں بار بار  ذکر ہوا ہے کہ محمد صاحب پر جادو کیا گیا تھا اور مسلمان علما کو اس میں   کچھ نقص معلوم نہیں ہوتا کہ پیغمبر  خدا جادو سے موثر ہو۔مِشکوٰۃ الصابیح میں باب معجزات میں اس عجیب اَمر کا مفصل بیان آیا ہے۔چنانچہ مفصلہ ذیل حدیث مسلم اور بخاری دونوں میں پائی جاتی ہے:

مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ معجزوں کا بیان ۔ حدیث  ۴۸۱

وعن عائشة قالت سحر رسول الله صلى الله عليه و سلم حتى إنه ليخيل إليه أنه فعل الشيء وما فعله حتى إذا كان ذات يوم وهو عندي دعا الله ودعاه ثم قال أشعرت يا عائشة أن الله قد أفتاني فيما استفتيته جاءني رجلان فجلس أحدهما عند رأسي والآخر عند رجلي ثم قال أحدهما لصاحبه ما وجع الرجل قال مطبوب قال ومن طبه قال لبيد بن الأعصم اليهودي قال في ماذا قال في مشط ومشاطة وجف طلعة ذكر قال فأين هو قال في بئر ذروان فذهب النبي صلى الله عليه و سلم في أناس من أصحابه إلى البئر فقال هذه البئر التي أريتها وكأن ماءها نقاعة الحناء ولكأن نخلها رءوس الشياطين فاستخرجه متفق عليه

ترجمہ:’’عائشہ سے روایت ہے کہ اُس نے کہا کہ رسول خدا پر کسی نے جادو کر دیا جس کا اثر یہاں تک ہو ا کہ وہ خیال کرنے لگے کہ میں نے فلاں کام کیا، حالانکہ اُنہوں نے نہیں کیا تھا‘‘۔  پھر عائشہ نے کہا کہ محمد صاحب نے فرمایا کہ دو آدمی میرے پاس آئے ۔ایک تو میرے سر ہانے بیٹھ گیا اور ایک میرے پائے تانے۔ اس کے بعد ایک نے اپنے رفیق سے کہا کہ اس آدمی  (محمد صاحب)  کی بیماری کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا کہ اس پر جادو کیا گیا ہے۔پہلے  نے پوچھا کہ اس پر جادوکس نے کیا؟ اُس نے جواب دیا کہ لبید العاصم یہودی نے۔اُس نے پھر پوچھا کہ کیسے کیا؟ اُس نے  جواب دیا کہ کنگھی اور اُن بالوں کے ذریعے جو اُس میں سے  گرتے ہیں اور ایک مادہ کھجور کے پھول کے ساتھ۔پہلے نے پوچھا کہ وہ کہاں ہے؟اُس نے جواب دیا کہ ضاروان کنوئیں میں۔یہ سن کر محمد صاحب  اپنے چند اصحاب کو ساتھ لے کر اس کنوئیں پر گئے اور کہا کہ یہ کنواں مجھے بتا یا گیا ہے۔کنوئیں کا پانی حینہ میں جذب ہو گیا تھا اور کھجور کے درختوں کا عکس اس میں شیاطین کے سروں کی  طرح نظر آتا تھا۔پھر  محمد صاحب نے وہ چیزیں کنوئیں میں سے نکالیں،کہتے ہیں کہ  اس کنوئیں میں محمد صاحب کی ایک مورت موم کی بنی رکھی تھی جس میں سوئیاں پروئی ہوئی تھیں اور ایک دھاگہ جس میں گیارہ گرہیں تھیں اُس کے ارد گرد لپٹا ہوا تھا ۔تب جبرائیل ایک سورۃ لائے جس میں حفاظت کی درخواست تھی اور اُس سورۃ کی ہر آیت کے پڑھنے پر ایک ایک گِرہ کھلتی جاتی تھی اور جو جو سوئی نکالی جاتی تھی،اُسی قدر محمد صاحب کو آرام ہو تا جاتا تھا۔حتیٰ کہ اُن کو اُس جادو سے بالکل آرام ہو گیا۔ (بخاری جلد چہارم، صفحہ۱۸،۱۷)  میں اس مضمون کا مفصل ذکر ہے جس سے بخوبی واضح ہے کہ محمد صاحب بھی اپنے ہم عصر لوگوں کی طرح جادو کو مانتے تھے۔الغرض اگر جادو،بدنظری اور شگون وغیرہ کے متعلق اسلامی کتابوں سے محمد صاحب کے عقیدہ کا بیان لکھا جائے تو ورقوں کے ورقے لکھے جا سکتے ہیں۔ ثبوت کے طور  ایک دو مثالیں دینا بے  موقعہ نہ ہوگا۔مِشکوٰۃ المصابیح کے کتاب الطب والرقعہ میں مسلم نے انس سے ایک روایت قلم بند کی ہے:

رَخَّصَ رسول الله صلى الله عليه وسلم فِي الرُّقْيَةِ مِنَ الْعَيْنِ وَالْحُمَّةِ وَالنَّمْلَةِ

ترجمہ:’’نظر بد،بچھو کے کاٹے اور پھوڑوں کے لئے محمد صاحب  نے جادو کی اجازت دی‘‘ ۔

مسلم نے ایک اَور حدیث کا بھی اُسی باب میں ذکر کیا کہ اُم سلمہ نے کہا:۔

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَی فِي بَيْتِهَا جَارِيَةً فِي وَجْهِهَا سَفْعَةٌ فَقَالَ اسْتَرْقُوا لَهَا فَإِنَّ بِهَا النَّظْرَةَ

ترجمہ:’’تحقیق محمد صاحب  نے ایک لونڈی کو اپنے گھر میں دیکھا ۔اس کے منہ پر ایک زرد رنگ کا نشان تھا۔اس کی نسبت محمد صاحب نے کہا یہ تو نظر بد کا اثر ہے ،اس کے تعویذ استعمال کرو ۔

جامع ترمذی ۔ جلد اول ۔ طب کا بیان ۔ حدیث  ۲۱۵۴

أَنَّ أَسْمَائَ بِنْتَ عُمَيْسٍ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ وَلَدَ جَعْفَرٍ تُسْرِعُ إِلَيْهِمْ الْعَيْنُ أَفَأَسْتَرْقِي لَهُمْ فَقَالَ نَعَمْ فَإِنَّهُ لَوْ کَانَ شَيْئٌ سَابَقَ الْقَدَرَ لَسَبَقَتْهُ الْعَيْنُ

ترجمہ: ’’اسمہ بنت عمیس نے کہا اے رسول خدا اولاد جعفر پر نظر کا اثر بہت جلد ہو جاتا ہے تو کیا میں (اس کو د ور کرنے کے لئے) تعویذ استعمال کروں ؟ انہوں نے کہا ہاں کیونکہ اگر کوئی شئے تقدیر کی حریف ہے تو یہ نظر بد ہے‘‘۔

اس طرح کے توہمات کا محمد صاحب کی زندگی پر بہت اثر تھا۔ چلتے پھر تے ،کھاتے پیتے،  جنات اور آدمیوں کی نظر بد سے محفوظ رہنے کے لئے اس قسم کے  بہت سے ٹوٹکے استعمال کیا کرتے تھے۔ چنانچہ مسلم و بخاری دونوں نے اس مطلب کی حدیث بیان کی کہ محمد صاحب نے ایک موقعہ پر اپنے پیروؤں سے یوں خطاب کیا :

مشکوۃ شریف ۔  جلد دوم ۔  مختلف اوقات کی دعاؤں کا بیان ۔  حدیث ۹۵۱

وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إذا سمعتم صياح الديكة فسلوا الله من فضله فإنها رأت ملكا وإذا سمعتم نهيق الحمار فتعوذوا بالله من الشيطان الرجيم فإنه رأى شيطانا "

ترجمہ :’’جب تم مرغ کو بانگ دیتے سنو تو خدا سے رحمت کی دعا کرو کیونکہ فی الحقیقت اس نے فرشتے کو دیکھا، لیکن جب تم گدھے کو رینکتے سنو تو شیطان الرجیم سے خدا کے پاس پناہ مانگو فی الحقیقت  اس نے شیطان کو دیکھا ہے‘‘۔

ایک دوسرے موقعے پر محمد صاحب نے آدمیوں کے اس بڑے دشمن کے حیلوں سے بچنے کا یہ علاج بتایا کہ بائیں  کندھے پر تین دفعہ تھوک لو ،چونکہ محمد صاحب کو جنات کی ہستی کا یقین تھا، اس لئے ان کی ساری زندگی خوف اور دہشت میں گزری اور یہی حال ا ٓج  تک اس کے پیروؤں کا ہے۔ اہل قریش میں سے بعض لوگ محمد صاحب پر یہ طعن کیا کرتے تھے کہ اس پر کوئی جِن چڑھا تھا۔ یہ شہادت بھی کالعدم نہیں کہ ایک وقت ان کی زندگی میں ان کو خود یہ یقین ہو گیا تھا ۔

پہلے پہل محمد صاحب  چپ چاپ پوشیدہ طور سے اپنی تعلیم کی تلقین کرتے رہے اور سب سے پہلے خدیجہؓ نے مسلمان ہونے کا اقرار کیا۔ اس کے بعد دوسروں نے اپنے ایمان کا اظہار کیا اور چند ماہ کے عرصے میں  علی ،ابو بکر ،زید اور چند دیگر اشخا ص بھی ایمان لائے ۔یوں دو تین سال کے عرصے میں چالیس یا پچاس اَہالیان  (اَہل کی جمع۔صاحبان) مکہ مرد و زن ملا کر اس نئے دین میں شریک ہوگئے ۔ جب یہ فریق کچھ زور پکڑ گیا  تو محمد صاحب نے خدا کی وحدت اور اپنی رسالت کا اعلان برملا کرنا شروع کیا ۔پہلے پہل تو اہل قریش نے ان کو  ہنسی میں اڑا دیا ۔لیکن جب اس نئے واعظ نے ان کے قومی دیوتاؤں کوبُرا بھلا کہنا شروع  کیا اور ان کے پرانے عقائد کی مذمت شروع کی تو ان کی طرف سے لاپروائی ظاہر کرنے کی بجائے ان کی مخالفت شروع کر دی   اور اس چھوٹے گروہ کو دکھ دینے لگے ۔ ان مخالفوں سے محمد صاحب کی ان کے چچا ابوطالب نے حفاظت کی ،لیکن اس کے پیروؤں  کی حفاظت مشکل تھی ۔اس لئے قریش کا سارا نزلہ ان پر گرا ۔جب محمد صاحب نے دیکھا کہ نہ تو وہ اپنے پیروؤں کی حفاظت کر سکتا تھا اور نہ ان کو کھونا چاہتا تھا ، اس لئے قریش کے غضب سےبچانے کی اس کو یہ راہ سوجھی۔تفسیر البیضاوی (صفحہ ۳۶۷)   میں مذکور ہے کہ:

’’ ایک نو مسلم عمر بن یسار کو قریش نے ایسا عذاب دیا کہ وہ آخر کار مرتد ہوگیااور اپنی برگشتگی کی صداقت ظاہر کرنے کی خاطر اس نے محمد صاحب کو برا بھلا کہنا شروع کیا۔ لیکن بعد ازاں جب وہ پھر محمد صاحب کے سامنے آیا تو اس نے بیان کیا کہ اس کا ارتداد  تو محض دکھاوے کی خاطر تھا تا کہ وہ دشمنوں کے  عذاب سے بچ جائے اور  محمد صاحب کو ا س نے یقین دلایا کہ  میرا دل تو ٹھیک ہے‘‘ ۔

اس پر محمد صاحب نے کہا کہ ایسی حالتوں میں تقیہ (ڈر کی وجہ سے حق پوشی کرنا)   جائز تھا اور اپنے اس شاگرد کو خوش کر کے واپس کیا  اور یہ کہا :

إن عادوا لك فعد لهم بما قلت

ترجمہ: ’’ اگر وہ تجھے پھر ایذا دیں تو پھر ان کی طرف عود کر جا اور جو تو نے پہلے کہا تھا وہی پھر کہہ دے‘‘۔

محمد صاحب کی طرف سے ایسا بیان صداقت کے معیار سے ایسا بعید تھا کہ اس کا یقین دلانے کی خاطر خاص وحی کی ضرورت پڑی۔ پس ہمیشہ کے لئے قرآن  کے اور اق میں اس ریا کی اجازت کا دھبّہ رہے گا۔ سورۃالنحل  (۱۰۸:۱۶) میں یہ بیان پایا جاتا ہے :

مَن كَفَرَ بِاللَّهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَٰكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ

ترجمہ:’’جو شخص خدا پرایمان لانے کے بعد اس کا انکار کر ے ۔اگر وہ اس پر مجبور کیا گیا اور اس کا دل ایمان میں مطمئن رہا  (وہ بے قصور ہے)  لیکن جس نے اپنا سینہ کفر کے لئے کھول دیا ان پر خدا کا غضب اور سخت عذاب نازل ہوگا‘‘۔

صرف اسی موقعہ پر محمد صاحب نے اپنے پیروؤں کو جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں دی ۔مِشکوٰۃ المصابیح کی کتاب الادب  میں تین موقعوں پر جھوٹ بولنے کی اجازت پائی جاتی ہے۔ ترمذی نے اس حدیث کی تصدیق کی ہے:

  قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَحِلُّ الْكَذِبُ إِلَّا فِي ثَلَاثٍ كذب الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ لِيُرْضِيَهَا وَالْكَذِبُ فِي الْحَرْبِ وَالْكَذِبُ لِيُصْلِحَ بَيْنَ النَّاسِ.

ترجمہ:’’رسول خدا نے فرمایا جھوٹ کی سوائے  تین موقعوں کے اجازت نہیں ۔اگرکوئی اپنی بیوی کو خوش کرنے کے لئے جھوٹ بولے ، جنگ میں جھوٹ بولے اور آدمیوں کے درمیان صلح کرانے کی خاطر جھوٹ بولے‘‘۔

باوجود ان شرائط کے بھی ان مظلوم مسلمانوں کو دیر تک آرام نہ ملا اور قریش کا غصہ روز بروز بڑھتا گیا ۔حتیٰ کہ اسلام کی اشاعت کے پانچ سال کے بعد محمد صاحب کو یہ صلاح دینی پڑی کہ نو مسلم ابی سینا کو بھاگ جائیں ۔ اس لئے پندرہ مسلمان ابی سینا کی طرف روانہ ہوئے اور بعد ازاں کچھ  دوسرے مسلمان اُن میں جا شامل ہوئے ۔ وہاں کےمسیحی بادشاہ نے اُن کے دشمنوں کے غیض وغضب سے اُن نو مسلموں کو پناہ دی۔