اسلام

Islam

آ نر یبل سیدّ احمد خان بہادر

Are Nature and Islamic beliefs the Same?

Published in Nur-i-Afshan April 24, 1884
By. Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

حال کے سفیر میں  آزبیبل سید نے بمقام لاہور ایک لیکچر محمدیوں کے سامنھے محمدی مذہب کی صداقت پر دیا ہے جو اخبار وں میں چھپ گیا گیا ہے اور بھی بطوررساِلہ بھی نکلنے والا ہے ہم دیکھنا چاہتے  ہیں کہ وہ صداقتیں اور حقیقتیں کہاں تک تسلیم کرنے کے لائق ہیں۔

(۱)  بڑا  زور سیّد صاحب کا اس امر پر ہے کہ نیچراور محمدی  عقا ئد ایک ہیں اور آج کل اسی قسم کے دلائل کی ضرورت ہے ۔ اسپر ہم لیکچر ار  سے سوال کرتے ہیں کہ کیا  ایسے دلائل کی ضرورت  ابھی پیدا ہوئی ہے اور پہلے اس قسم کی ضرورت نہ تھی۔ سید صاحب   فرماتے ہیں کہ وہ ضرورت  ابھی پیدا  ہوئی ہے اورپہلے اس قسم کی ضرورت نہ تھی۔  نیچر تو پہلے بھی تھا  اب بھی پھر کیا وجہ ہے کہ یہہ ضرورت  پہلے نہ تھی جتنے شارح گزرے ہیں کسی کے دل میں یہہ  شرح  نہیں آئی  جواب کی  جاتی ہیں۔ ہم اس امر پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہیں کہ سید صاحب  جو سب شارحوں کے برخلاف چلتے ہیں وہ اپنے دلائل کو وضاحت کے ساتھ بیان کریں۔

(۲)  لیکچر میں بیان ہے کہ میں جاہل محمدی کی طر ح عقائد اسلام پر قائم ہوں لیکن اسی لیکچر میں یہہ ظاہر کیا ہے کہ میں بطور اجنبی کے اسپر نظر ڈالتا ہوں۔ ناظرین  خود ہی اس تناقص کو پرتال کرلیں۔

(۳)  سید صاحب نے مان لیا ہے کہ محمد صاحب  کی سوسائیٹی چالیس برس تک کن لوگوں کے ساتھ رہی ہم پر کوئی  بدگمان نہ ہو اُس لیکچر میں لکھا ہے کہ چوروں اور لیٹروں کے ساتھ اُنہوں نے اپنی زندگی کا زیادہ حصہ  (اور جوانی کا حصہ) خرچ کیا۔

(۴)  تصدیق  نبوت میں صرف  اسقدر بیان کیا ہے کہ ایسی ساسائیٹی کے شخص نے کسطرح کہہ دیا کہ  لاالہ اﷲ محمد الرسول اﷲ پھر کہتے  ہیں  کہ وہ کسی کالج کے تعلیم یا فتہ  نہ تھے۔ ہم کہتے ہیں کہ  جاہلوں پر غلبہ حاصل کرنے کے واسطے کالج کی تعلیم کی ضرورت نہیں اُنکو قابو کرنے کے واسطے صرف اُنکے خیالات کی تائید کرنی چاہیے اور اُنکے عملوں میں اُنکے ساتھ اپنی شمولیت ظاہر  کرنی چاہیے  سو محمد صاحب نے ایسا کیا ہے ۔ اِس دنیا مین کثرت ازدواج کا فتویٰ دیا  اُس دنیا میں حور اور لونڈوں کا  وعدہ دیا۔ ایک شخص اُنکے پاس آیا جو شتر کو زیادہ پیار کرتا تھا اُسکو  کہا کہ بہشت میں ایسے اچھے اونٹ ہیں کہ سینکڑوں کو س بے آپ چلتے  ہیں اور تھکتے نہیں عورتوں کو بطور ذراعت استعمال کرنے کا حکم دیا۔ افسوس ہے کہ سید صاحب اب تک اُسی اصول کی تعلیم جاری رکھتے ہیں ۔ حضرت جی وہ تو کالج کے تعلیم یافتہ نہ تھے مگر آپ نے تع کالج جاری کیا ہے زرا مہربانی کر کے بتلاؤ تو سہی کہ مرد کی روح اور آزادی کے کسطرح کم ہے۔ اسمین اگر نیچر اور قرآن کو مطابق  کر کے بتلاویں تو ہم بھی اس امر پر غور  کریں کہ آپ اپنی کوشش میں کامیاب  ہونگے یا نہیں۔

(۵)  سید صاحب یہہ بھی بتلاویں کہ کثرت ازدؔواج  جہاؔد۔ کسطرح نیچر کے مطابق ہیں اور عورتوں کو بطور کھیتی استعمال کرنا  کس قانون قدرت کا طریقہ ہے معلوم نہیں کہ آ پ کے انگریزی خوان محمدی کسطرح ان اصول  کو تسلیم کرینگے ۔ حضرت دل میں تو آپ بھی اس اصول کو (غالباً)  نہ مانتے ہوں گے مگر کوئی پولٹیکل حکمت آپ کو ایسا بیان کرنے کی اجازت نہیں دیتی ۔ کوئی آدمی جوان اصول مقدم الزکر کا  قائل ہو زمانہ حال کے مہذب شخص کے ساتھ ان اصول میں گفتگو نہیں کر سکتا۔

(۶)  لکھا ہے اور محمدی تسلیم کرتے ہیں کہ محمد صاحب کی پیدائش کے وقت کیخسرو کے محل نے جنبش کھائی اور دنیا کے بت  گر گئے اس کو بھی مہربانی  سے زرا نیچر کے مطابق کردیں اور پھر کہ جس کی پیدائش کا یہہ حال  ہے  وہ شخص کس طرح چالیس برس تک ایسی سوسائٹی میں رہا۔

(۷)  لیکچر میں یہہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ بباعث عمدگی تعلیم خدا تعالیٰ کے بعد یہی شخص ہے۔ سید صاحب بتلاویں توریت کے دس احکام اور مسیح یسوع کے پہاڑ کی تعلیم سے افضل کو نسے احکام محمد صاحب نے بیان کئے ہیں جنکے سبب وہ خدا  سے دوسرے  درجہ پر قبول کرنے کے لائق ہیں۔ کیا وہ بہشت کی تعلیم ہے؟ یا متعلق طلاق اور اُ س خونریزیکے ہے جو دنیاوی سلطنے بڑھانے کیواسطے ہوئی؟

(۸)  بڑی بات اس لیکچر میں یہہ ہے کہ محمدی تعلیم کس علم یا فلسفہ کے خلاف نہیں ہے وہ کونسا علم یا فلسفہ ہے جسکے مطابق  محمدی تعلیم ہے قرآن مین کونسے ہدایات ایسے ہیں جنکے برابر کوئی ہدایت نہیں ہو سکتی ۔ تعجب  کی بات ہے کہ ایک طرف تو سید بہادر تورات انجیل کو خدا کا کلام مانتے ہیں دوسری طرف محمد صاحب کو ایسا شخص  بتلاتے  ہیں جو خدا سے دوسرے درجہ پر ہے اور اُسکی  تعلیمات کو  افضل  بتلاتے ہیں۔ اسکا فیصلہ وہ شخص اچھی طرحسے کر سکتا ہے جو توریت و انجیل اور قرآن کو مقابلہ  کرے۔ سید بہادر کا عقیدہ اور تعلیم صدوقیوں کے  موافق معلوم ہوتا ہے جو حضرت موسیٰ کی پانچ  کتابوں میں استثنا کی کتاب پر زور دیتے اور مانتے تھے مگر قیامت و فرشتے و ارواح کے قائل نہ تھے  ایسا ہی سید صاحب الہامی کتابوں کو مانتے ہیں ( جہانتک اُنکی مرضی ہے)  مگر معجزہ اور فرشتگان کا وجود نہیں مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جسطرح صدوقیوں کا منُہ بند ہے(بمقابلہ تعلیم نصاری) مگر بولتے جاتے ہیں اور کہتے ہیں (لیکچر میں) کہ کون عیسائی یقین کر سکتا ہے کہ  یو شع کے لیے  سورج تھم  گیا مگر اس کا جواب کیا  ہے کہ محمد صاحب کی پیدائش کے وقت کیخسرو کا محل ہل گیا وغیرہ۔

(۹)  آگے چلکر حضرت سید فرماتے ہیں کہ نماز حجؔ روزہ کے وہ قائل ہیں مگر ہم نے بہت نوٹس کیا کہ وہ خود نماز پنچگانہ پڑھتے ہیں یا نہیں اور ولائت انگلنڈ کو تشریف لے گئے مگر حج نہ کیا اور اُنکا صاحبزادہ ایک بار سے زیادہ مکہّ کے پاس سے گزر گیا مگر حج نہ کیا اس سے نتیجہ یہہ نکلتا ہے کہ وہ زبان سے تو ماشااﷲ  قائل  ہیں مگر عملاً قائل  ہونا حکمت خیال نہیں کرتے۔ غرض اس اظہار سے یہہ ہے کہ غور کرنے والے لوگ (بعض محمدی اور دیگر اقوام کے لوگ) کہتے ہیں ٍجو اظہار رائے تہذیب الاخلاق اور توریت و قرآن کی شرح میں کیا ہے یہہ لیکچر اُسکے خلاف ہے (بعض امور میں) سو یا تو سید صاحب کی رائے بدل گئی ہے یا  عوام اُنکی  تصانیف  اور تالیفات کا مطلب نہیں  سمجھے۔ بہتر ہے کہ سید صاحب  اپنی کتابوں  کی تشریح  لکھیں  اور واضح طور پر اپنی رائے کو ظاہر کریں۔ اب تک جسقدر معلوم ہوا ہے یہہ ہے کہ اُنکی رائے تذبذب ہے یا یہہ کہ اصلی رائے کا  اظہار  خلاف مصلحت عام ہے پس اگر یہہ سچ ہے تو لڑائی حاصل  نہیں ہوئی۔

(۱۰)  جب تک ہم نے دیکھا نہ تھا ہم سمجھتے تھے کہ وہ عمدہ سپیکر ہیں سو وہ بھی ہم نے نہ پایا ہمارا خیال تھا کہ اُنکو لبرٹی  کی طاقت حاصل ہے مگر ہم نے دیکھا کہ آزادانہ اظہار رائے اُنہوں نے نہیں کیا۔ ہمکو معلوم تھا کہ وہ  کل ہندوستان کے  خیرخواہ ہیں مگر بتالہ کے سٹیشن پر اُنہوں نے ظاہر کیا کہ وہ صرف محمدی  گروہ کے خیرخواہ ہیں  ہم مناسب نہین سمجھتے کہ وہ الفاظ  ظاہر کریں جو بٹالہ کے سٹیشن پر اُنہوں نے فرمایا  تھے کیونکہ ہمارا رائے یہہ ہے کہ ملک ہندوستان ہمدردی مین ایک ہو۔ الگ الگ فرقوں کا ہونا طاقت کو کم کرتا ہے اور ہم اخلاقی اور تمدنی ترقی اس حالت میں  حاصل نہیں کر سکتے۔ 

نبی معصوم

رسالہ ۔عصمت الانبیاء ۔من تصنیف جناب مولوی غلام  نبی صاحب امرتسری
بجواب رسالہ

Sinless Prophet

Published in Nur-i-Afshan June 26, 1884
By. Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

نبی معصوم ۔  مصنفہ پادری۔ اِی۔ ایم۔ ویری ؔ  صاحب۔ پر ایک نظر

ہمارے  بزرگ اور لائق پادری ای۔ ایم ۔ ویریؔ  صاحب نے کئی  سال ہوئے کہ رسالہ نبی معصوم تصنیف کیا تھا۔ اور جہانتک ہمارا علم ہے اہل اسلام ومسیحی اسباتکے منتظر تھے  کہ اسکا جواب کب اور کسکی طرف سے نکلے  ہمارے کئی ایک ناواقف اور کم علم محمدی احباب نے بھی زبانی یہی کہا تا پورا کرنا  چاہا تھا مگر نہ کر سکے ۔ ہماری دانست میں یہہ پہلا جواب  ہے کہ محمدی صاحبونکی طرف سے اُس  نادر  تصنیف  کے باب میں شایعٔ ہوا ہے۔ ہم اس رسالہ کو  بنظر تعمق دیکھکے حیران ہو گئے کہ مولوی  غلام نبی صاحب نام کے تو مولوی اور اُنکی تصنیف ایسی ۔ ہم اِس رسالہ پر منصفانہ یہہ رائے قایم کرتے ہیں کہ یہہ حقیقی جواب نہیں ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ مخالف  ہماری رائے کو کب ہم مصنف  رسالہ نبی معصوم  پر ہی چھوڑتے  ہیں یا اگر مصنف ِ رسالہ نبی معصوم اسباب میں ہم سے مخاطب  ہوں تو ہم خود ہی ( بشرط فرصت)  دیکھ لینگے  الھال ایک سرسری نظر ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔

ہم مسیحی لاگ انبیا علیہم السلام  کو گناہ سے پاک  تو  نہیں مانتے مگر سمجھتے ہیں پاک کئے گئے ہیں یعنے بذاتہ خود  قدوّس نہیں بلکہ مقدس ہیں۔ اور فرق یہہ ہے کہ گو وہ خدا کے مقرب  ہیں اور اُسکے برگزیدہ وسائل  ہیں جنسے وقتاً فوقتاً خدائے  قدوس  اپنے لوگوں کے ساتھ ہمکلام  ہوا۔ لیکن وہ بھی اپنی ذات میں گناہ  آلودہ اور اُسی آدم کی اولاد ہیں جس سے  کہ سب لوگ پیدا ہوئے۔ مگر جس مسیح کے وسیلہ ہم گنہگار  پاک کئے گئے  ہیں اُسی کے وسیلہ اور اُسی کے کفارہ سے وہ بھی راستباز ٹھہرائے گئے۔ پس اُنکی عصمت  ہماری  ( جوکہ مسیحی ہیں) عصمت سے بدین لحاظ کچھ زیادہ وقعت  نہیں  رکھتی۔ وہ آنے والے مسیح پر نظر  کر کے گناہوں سے مخلصی پا چکے اور ہم  آچکے ہوئے مسیح پر نظر  کر کے معافی حاصل  کر چکے۔ صفحہ ۴ میں مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ الہام  سے علیحدہ انبیاء سے تقاضائے  بشریت لغزش  ہو جایا کرتی ہے۔ ہم بھی اسبات کے قائل ہیں ۔ مگر مولوی صاحب لفظ خفیف پر بہت  ذور دیتے ہیں۔ چنانچہ  صفحہ ۵ سطر ۷ ۔ صفحہ ۱۲ ۔ سطر ۷ ، و ۸ ۔ صفحہ ۲۳ ۔ سطر ۱۱ وغیرہ میں لفظ خفیفؔ پر ٹراز وردیا گیا ہے۔  اور پھر اُنکے گناہونکو  خواہ وہ کیسے ہی قبیح کیوں نہوں لفظ  لغزش سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ہم اُنکی اس رائے کے ساتھ اتفاق نہیں کر سکتے۔

ہماری دانست میں لفظ خفیفؔ ایک نسبتی لفظ ہے۔ جیسا کہ لفظ صغیرؔ و کبیرّ کلمہ قاعدہ ہے کہ جتنا زیادہ کسیکو علم  ہوتا ہے اُتنا ہی زیادہ  اُسکا  گناہ قبیح سمجھا جاتا ہے مثلاً سپاہی چوکہ چور کے گرفتار  کرنے کو مقرر کیا گیا ہے اگر خود چوری کرے تو زیادہ سزا یاب ہوتا ہے بہ نسبت اُس شخص  کے جو کہ عام چور ہو۔ ویسا  ہی مہذب اور تعلیم یافتہ شخص اگر کسی جرم کا مرتکب  ہو تو عدالت اور عام  لوگوں کی نظر وں میں  بہ نسبت اُس شخص کے جو نادان  ہے زیادہ حقیر و بے عزت شمار کیا جاتا ہے ۔ اب ظاہر ہے کہ انبیاء خدا کے مقرب اُسکی خوبی قدرت وغیرہ  سے واقف  ہو کے بھی اگر کسی گناہ کے مرتکب  ہوں خواہ  وہ کیسا  ہی خفیف کیوں نہو تو انصاف  کی رو سے اُنکو زیادہ حقارت کے لائق سمجھنا چاہئے۔ پس ہم سمجھ نہیں سکتے کہ لفظ  خفٔیف کا اطلاق  کیوں انپر زیبا ہے اور ہم پر نہیں۔ انصاف نہیں کہ ایک شخص جو کہ خدا سے بہت  کم واقف  ہو اگر زنا کرے  تو اُسکا زنا گناہ  کبیرہ کہا جاعے اور جو شخص  خدا کی حضوری  میں رہے اور زنأ کی بدی سے خوب واقف ہو اگر وہ زنا کرے تو اُسکے اِس فعل کو الفاظ  خفیف سی لغزش سے تعبیر کیا جائے  مصنف صاحب خود دیکھ لیں۔

علاوہ ازیں ہماری  دانست میں گناہ  کو صغؔیرہ یا کؔبیرہ خفیؔف یا قبیحؔ وغیرہ  الفاظ سے تعبیر کرنا ہی نادرست ہے۔ ان الفاظ کا اطلاق ہم انسانی خیال  کیطرف کر کے انکا استعمال  کیا کرتے ہیں ۔ مثلاً  چوری ؔ اور قتلؔ  عمد میں لوگوں کے نزدیک بڑا فرق ہے۔ جھؔوٹھہ اور زؔنا میں بھی بہت فرق کیا جاتا ہے۔  الا خدا کے نزدیک ہم ساف کہہ سکتے ہیں کہ سب گناہ ایک ہی سے ہیں۔ کیونکہ گناہ اُسکے احکام کے خلاف  کرنا ہے۔ جنسے زناؔ کیا  اُنسے بھی اور جو جھوٹھہ بولا وہ بھی برابر عدول حکمی کے سزاوار  ہیں۔ ویسا  ہی سارقؔ وزانی بھی برابر ہے اُسکے حکم کے خلاف کرنے والے ہیں۔ تو مصنف صاحب کی دلیل کا  زور  کہاں گیا۔ وہ خود ہی انصاف کریں۔

بس جن گناہوں کو وہ خفیف سی لغزش کہتے ہیں
وہ فی الحقیقت بڑے بھاری گناہ ہیں

اِس لیے کہ حضرات ِانبیا خدا کےعارف تھے۔
مگر اِس پر ہمکو اور زیادہ کہنا کچھ ضرور نہیں۔

مولوی صاحب کا دوسرا اصول یہہ ہے کہ انبیاؔ اور عالم لوگوں میں فرق یہہ ہے کہ وہ اپنے گناہونسے متنبہ اور خبردار ہو کر تائیب ہوتے تھے اسلیۓ گنہگار نہیں اور عام لوگ ایسا نہیں کرتے۔ ہم صاحب  موصوف سے با ادب التماس کرتے ہیں کہ آپکو یہہ سب لوگوں کا حال کیونکر معلوم ہو گیا۔ بیشتر انسان تو گناہ کو گناہ جانتے  اور اُس سےتنبہ اور خبردار بھی ہو جاتے ہیں تو بھی گنہگار رہتے ہیں۔  اور ہم سمجھ بھی نہیں سکتے کہ کسطرح یہہ ہو سکتا ہے کہ جب کوئی آدمی اپنی بیماری سے واقف ہو جائے تو اُسے تندرست خیال کرنا چاہئے۔ گنہگار خواہ نبی ہو خواہ کوئی اور اگر اپنے گناہ سے واقف ہو تو کس واسطے ضرور ہے کہ اسکا علم ہی اُسکو گناہ سے مخلصی بخشدے۔ ورنہ معاملہ کچھ اور کا اور ہو جائیگا۔ اگر آپ فرمائیں  کہ توبہ کر لی تو ہم اِس پر یہہ عرض کرتے ہیں کہ حضرت توبہ سے یہہ مراد ہوتی ہے کہ پیچھے جو ہوا سو ہوا۔ میں اب اُس سے بچتا ہوں۔ آئیندہ  ایسا نہوگا۔ مگر ہمکو معلوم نہیں کہ گناہونکی مغفرت کا خیال توبہؔ میں کیونکر داخل ہے ۔ روزمرہ کی بات ہے کہ چور گرفتار  ہو کے روتا   بچھپتاتا اور بلُبلاتا اور کہتا کہ توبہ میری اب انسانہ کرونگا۔ کیا اُسکا چھوڑنا عدل کے خلاف نہوگا اسکو ایسے موقعونپر یہہ کہا جاتا  کہ نہ تم ایسا کروگے نہ تم کو سزا ملیگی اب تو سزا لے لو۔ ویسا ہی اگر  اُس حقیقی عادل کے دربار بھی ہو تو کیا اعتراض ہے ہم کہتے ہیں کہ توبہ سفید تو ہے مگر آیندہ گناہوں کیواسطے پچھلے گناہونکی معافی اس سے ہر گز  نہیں ہو سکتی پس جن نبیوں نے گناہ  کئے وہ صرف توبہ کرنے سے ہی راستباز نہ ٹھہرائے گئے بلکہ کسی اور طرح سے۔ اور وہ یہہ ہے کہ اُنکو بھی ایک بیگناہ شفیع کی ضرورت ہے جسکے وسیلہ وہ اپنے گناہوں کی معافی حاصل کریں ہم کہتے اور خدا کا کلام گواہی دیتا ہے کہ وہ  ربنا یسوع مسیح ہے۔

صفہ ۸ ۔ پر مولوی صاحب نجات کو شفاعت یا فضل محض پر موقوف  کرتے ہیں۔ یہی خیال اور موقعوں سے بھی  تشریح ہو تا ہے۔ مگر شاید  محمدی احباب صفت عدل کو خدا کی زات بابرکات کی صفات حمیدہ میں سے بالکل خارج کر دیتے ہیں۔ اور کریں کیوں نہیں سامنے  دوزخ جو نظر  آتا ہے۔ شُترؔمرغ کیطرح شکاری سے بچنے کو جھاڑی میں سے چھپاتے ہیں اے صاحب زرہ شفاعتؔ یا فضلؔ محض کے ساتھ عدل کا بھی خیال رکھئے دوزخ نصیب ہو تو کیا ہے انصاف شرط ہے۔

پس پادری  ویری صاحب  کایہہ اصول باندھنا کہ گنہگار کی شفاعت نہیں کر سکتا اسیطرح درست ہے جسطرح کہ ایک چور دوسرے چور کی ضمانت نہیں دے سیکتا اور پھر یہہ بھی یاد رکھو کہ اگر کوئی دنیاوی حاکم محض سفارش سے کسی مجرم کو رہا کر دے تو بے انصاف اور ظالم ہوتا ہے ویسا ہی احکمالحامین اور سچا عادل کیونکر اپنے عدل اور قدوسیّت کے خلاف محض شفاعت سے گناہ بخش سکتا ہے۔

مزید بران قرآن تو یوں کہتا ہے وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ اور مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ اب اگر آپ  انبیا صالحین وغیرہ پر خواہ نخواہ  شفاعت کا بوجھ ڈالدین تو آپکی مرضی شایدٔ یہہ خیال کیا ہوگا خدا ایک انبوہ کثیر سے ڈرجائیگا۔ یا آکر ایک کا نہیں تو دوسریکا  (علی ہذا القیاس) کہنا ضرور مان لیگا۔ اگر یہہ درست ہے تو اہل ہنود کے بہت سے دیؤتے  بھی یہی کام کرینگے۔

اب حضرات انبیائے و مرسلین کی عصمت پر جو کچھ کہہ سکتے تھے  سو کہہ چکے اور دعوی بلا دلیل  ثابت کر دیا۔ آخر میں اُس قدّوس کی نسبت بھی الزام گناہ عاید کئے۔ اسلیۓ کہ اُنہوں نے یوحناؔ سے بپتسمہ پایا حالانکہ صاف خود ہی قائل  ہیں کہ یوحنا اُنسے بپتسمہ پانے کا  محتاج  تھا دیکھو صفحہ ۲۷۔ سطر ۱۰۔ ہم آپکے ہی انصاف اور عقل پر اس امر کو موقوف کرتے ہیں۔ پھر حضرت مسیح کا گناہ  یوں پیش کرتے ہیں۔ کہ اُنہوں نے یہودیونکو  حرامکار وغیرہ کہا۔ (حالانکہ وہ سچ مچ ایسے ہی تھے)۔ ۲۔ خرید و فروخت کرنے والوں کو ہیکل میں سے نکال دیا ( جہاں اُنکا بازار لگانا گناہ اور ہیکل  کو بیعزت کرنا تھا)۔ ۳۔ سورؤں کو غارت کرنا (جنکا ہونا یہودی زمین پرنا جائیز تھا)۔ ۴۔ انجیرکے درخت  کو سوکھانا (حالانکہ لوگ سیکڑوں درختونکو کاٹ ڈالتے ہیں اور گناہ  نہیں گنا جاتا)  ناظرین خود دیکھ لیں کہ یہہ اُنکے گناہ ہیں سچ ہے چشم معترض کور۔

بخوب ِ طوالت اب ہم اِس مضمون کو ختم  کرتے ہیں اور آخر میں اپنی رائے کا اظہار یوں کرتے ہیں کہ رسالہ نبی معصوم ابتک بیجواب باقی ہے اور اِس لچر اور بے ُتکہ کتاب کی اُس نادر تصنیف کے روبرو کچھ حقیقت نہیں۔ الراقم بندہ حنیف از امرتسر

مرُاسلات

اسحاق یا اسمٰعیل

علامہ اکبر مسیح

Isaac or Ishmael

Published in Nur-i-Afshan October1891
By. Rev. Akbar Masih

دو تین ہفتوں سے نور افشاں  میں بحث ہو رہی ہے کہ حضرت ابراہیم نے اسحاق کو قربانی گزرانا  یا اسمٰعیل کو۔ یہہ امر گو غیر متنازعہ ہے۔ کہ توریت میں حضرت اسحاق  کے قربانی کئے جانیکا بہت مفصّل  مذکور ہے۔ رہا قرآن  کا بیان  اگروہ  مطابق  توریت نہ ہو تو اُسکا نقصان ہے کیونکہ تواریخ توریت قرآن سے تر ہے۔ اُس کے مقابل قرآن  کےسخن کو کسیطرح بھی دقعت نہیں۔  مگر  واقعی یہہ امر بھی تحقیق  طلب ہے کہ قرآن کسکی قربانی کا زکر کرتا ہے۔ اسمٰعیل کی یا اسحاق کی؟

جہاں تک قرآن پر میں غور کرتا ہوں ۔ مجھکو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں اگر حضرت ابراہیم کے کسی لڑکے کی قربانی  کا مذکور ہے ۔ تو وہ اسحاق ہے۔ نہ کہ اسمٰعیل۔ قربانی  کے معاملہ کا تزکرہ قرآن میں سورۃ صافات رکوع  ۰۳  میں آیا ہے اور وہ یوںہے۔ کہ حضرت ابراہیم نے خدا سے دُعا کی کہ ‘‘ اے رب بخش مجھکو کوئی نیک بیٹا  پھر خوشخبری دی ہم اسکو ایک  لڑکے کی۔جو ہوگا تحّمل والا۔ پھر جب پُہنچا  اُسکے ساتھ دوڑنیکو ۔ کہا اے بیٹے میں دیکھتا ہوں خواب میں ۔ کہ تجھکو ذبح کرتا ہوں ۔ پھر دیکھ تو کیا دیکھتا ہے ۔ بولا اے باپ کر ڈال جو تجھ کو حکم  ہوتا ہے  تو مجھکو پاویگا اگر اﷲ نے  چاہا سہارنیوالا۔ پھر جب دونوں  نے حکم مانا ۔ اور پچھاڑا اُسکو ماتھے کے بل۔ اور ہم نے اُسکو پکارا یوں ۔ کہ اے ابراہیم تو نے سچ کر دکھایا خواب۔ ہم یوں بدلہ دیتے ہیں نیکی کرنیوالوں کو۔ بیشک یہی ہے صریح جاچنا اور اُس کا بدلہ دیا ہم نے ایک جانور ذبح کو بڑا اور باقی  رکھا ہم نے اُسپر پچھلی خلق میں کہ سلام ہے ابراہیم پر ہم یوں دیتے ہیں بدلہ نیکی کرنیوالوں کو ۔ وہ ہے ہمارے بندوں ایماندار میں۔اور خوشخبری دی ہم نے اسکو اسحاق کی جونبی ہوگا نیک بختوں میں اور برکت  دی ہم نے اُسپر  اور  اسحاق  پر اور دونوں کی اولاد میں نیکی  والے ہیں۔ اور بدکار بھی نہیں اپنے حق میں صریح ً۔

میرے نذدیک اس بیان سے اسحاق کی قربانی  کا ثبوت بہت وضاحت  کے ساتھ نکلتا ہے ۔ مگر محمدی گمان کرتے ہیں کہ۔ آخر آیت ( اور خوشخبری دی ہم نے اُس کو اسحاق کی جو نبی ہوگا نیک بختوں میں ) میں اسحاق کی  پیدایش کی خبر ہی ۔ جو بعد گذراننے قربانی کے ملی ۔ اور یہاں سے سمجھتے ہیں کہ قربانی قبل ولادت اسحاق واقع ہوئی ۔ پس ضرور اسمٰعیل جو پیشتر اسحاق کے تھے قربان کئے گئے ۔

مگر یہہ حال  بالکل باطل  ہے۔ کیونکہ اول تو  وہ بیان ایسا  ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بشارت کیوقت  اسحاق  موؔجودتھا۔دویم  توریت میں اور نیز قرآن میں بہت  صاف ذکر ہے کہ ابراہیم کو ولادت  اسحاق  کی خبرنہ بؔعد  قربانی۔ بلکہ قبل  ہلاکت اُمت لوط کے ملی تھی۔ چنانچہ یہہ قصہ سورۃ ہوؔد  و حجؔر و زاریات میں مرقوم ہے۔ کہ جو فرشتے  قوم لوط کو ہلاک کرتے جاتے تھے اثنا راہ میں انہوں نے ابراہیم کی مہمانی قبول کی اور کہا ‘‘ ہم تجھکو خوشی سناتے ہیں ایکم ہوشیار لڑکے کی ’’ ُسنے اور اُسکی بی بی سارہ نے اپنی ضعیفی کا خیال کر کے باور نہ کیا ۔ اور بہت تعجب ہوئے۔ تب فرشتے نے اُن دونوں کا اطمینان کیا ۸ حجررکوع ۳ دیکھو پس یہہ خیال کہ بعد ولادت اسحاق کی خبر دیگئی بالکل باطل ہے یہہ خبر تو اُن کو مدت قبل مل چکی تھی۔

اب دیکھٔے کہ سورہ صافات سے کیونکر قربانی اسحاق کا ثبوت ملتا ہے۔

۱۔ ذبیحاﷲ فرزند موعود حضرت ابراہیم کا تھا۔

اسکے تولد کی بشارت بجواب اُنکی دعا انکو دیگئی ۔قرآن میں وعدہ تولد اسحاق کا بہت ہی صاف الفاظ میں مسطور ہے۔ مگر  تولد اسمٰعیل کی کوئی بشارت قرآن میں نہیں۔ حضرت ابراہیم نے اُس فرزند کو نذر کیا جسکی بشارت انکو دیگئی۔

۲۔ جب حضرت ابراہیم نے دعا کی ‘‘ اے رب بخش مجھکو کوئی نیک بیٹا۔’’ (اسیکو بعدہً اُنہوں نے نذرگزراننا) تو وہ ضرور کو ئی بیٹا اُنکی حقیقی بی بی سارہ کے بطن سے چاہتے تھے کیونکہ یوں تو اُنکے کئی بیٹے تھے ایک ہاجرہ سے ۶ قطورہ سے ۔ مگر یہہ سب حرمون کے بطن سے تھے جنکو وہ مرتبہ نہیں حاصل ہوسکتا تھا۔ جو اسحاق کو حاصل تھا۔

۳۔ اسمیں یہہ بھی لکھا ہے کہ جب ابراہیم نے اپنے بیٹے سے اپنے خواب کا تذکرہ کیا۔ تو اُسنے بڑی خوشی سے اپنی جان خدا کی راہ میں نثار کرنے پر مستعدی ظاہر کی اور کہا ‘‘اے باپ کر ڈال جو تجھکو حکم ہوتا ہے۔ ’’ مفسریں نے اس پر اور ضافہ کیا ہے کہ اس نے اپنے باپ سے یہہ بھی کہا کہ تو میرے ہاتھ پیر باندھ دے۔ تانہ ہو کہ وقت ذبح میرے تڑپنے سے تیرے کپڑے خون آلودہ ہوں۔ اور کہ مجھکو پٹ کراوے ۔ تاکہ میرا چہرہ  دیکھ کر تجھپر مہر پرری غالب نہ ہو۔ اور کہ بعد قربانی واسطے تشفیّ اور کے میرا پیراہن اُسے دیدینا ۔ پس واقعی اگر یہہ سب درست ہے تو اسمیں فرزند موعود یعنی اسحاق کے اوصاف نمایاں ہیں یہہ سب بڑی دانائی و ہوشیاری کی باتیں تھیں۔ ضرور یہہ ذبیح اﷲ وہی ‘‘ ہوشیؔارلڑکا’’  ہے جسکی ولادت کی خبر سارا کو دیگئی تھی۔ علاوہ اس کے ایک اور صنعت بھی اِس ذبیح اﷲ کی بتلائی گئی ‘‘ وہ ہوگا تحّمل والا (حلیم)’’ اِن صفتوں سے ابراہیم کا کوئی لڑکا موصوف نی تھا۔ مگر جسکو قربانی گزرانا۔ اور بھی صفات اسحاق میں ملتی ہیں پس کوئی کلام نہیں کہ یہہ ذبیح اﷲاسحاق ہی تھا جو ‘‘نیک’’ بھی تھا ‘‘ہوشیار’’ بھی تھا۔ اور ‘‘حلیم’’بھی تھا۔ اور بوقت قربانی اِن تمام صفات کا اظہار  ہو گیا۔ برخلاف اسکے اسمٰعیل کی شان میں توریت میں بھی مرقوم ہے کہ وہ ایک وحشی جنگجو شخص ہو گا۔ پیدایش ۱۶۔۱۲۔ پس اسمٰعیل ہر گز حلیم نہ تھا۔ اُسکے ‘‘ حلیم ہوشیار ’’ ہونیکی کوئی خبر ابراہیم کو نہیں دیگئی ۔

۴۔ اب اور سنئے۔ اگرچہ حضرت ابراہیم بموجب حکم  خدا  بیٹے کو نذر کرنے پر مستعد ہوئے۔ مگر اُس بیٹے نے بھی زیادہ جان نثار ہی دکھلائی۔ کہ خدا کی راہ میں ذبح ہونے سے مطلق ملال نہ کیا مگر اب قرآن میں اِن دونؔوں کے پاس اس بینظیر کام کا صلہ کیا ہے؟ ابراہیم سے تو بعد قربانی کہا گیا ‘‘ باقی رکھا ہم نے اسبر پچھلی خلق میں کہ سلام ہے ابراہیم پر۔ یوں بدلا دیتے ہیں نیکی کرنیوالوں کو۔ وہ ہے ہمارے بندوں ایماندار ہیں’’یہہ صلہ ابراہیم کا ہے ۔ اب ذبیح اﷲ کو اُسکی فرمانبرداری کا کیا اجر؟ اگر  یہہ ذبیح اﷲ اسمٰعیل تھا۔تو مطلق کچھ بھی نہیں۔ اُس کا نام تک یہاں نہیں لیا۔ اسکی کوئی تعریف نہیں۔ حالانکہ لکھا ہے ‘‘ دونوں نے حکم مانا’’۔ سچ تو  یوں ہے کہ ذبیح اﷲ نے ابراہیم سے بھی برھکر کام کیا۔  ابراہیم تو قربان کرنیکے لیے آمادہ ہوئے۔ مگر وہ قربان ہونےکےلیےآمادہ ہوا۔ اور باپ کی آخر تک تسّلی اور تشّفی کرتارہا۔ کیا اسکا کوئی اجر اس جگہ بیان نہ ہو؟ حالانکہ ابراہیم کا اجر مرقوم ہے۔ حقیقت یوں ہے کہ دوسری خوشخبری بعد زکر ابراہیم کے دراصل ذبیح اﷲ اسحاق تھا۔ اور اسکے حق میں کہا گیا ‘‘ اور خوشخبری دی ہم نے اسکو اسحاق کی جو نبی ہوگا نیک بختوں میں اور برکت دی ہم نے اسپر اور اسحاق پر’’ یہہ خبر تولد اسحاق ہرگز نہیں۔ بلکہ صریح خبر نبوؔت اسحاق ہے۔ تولد کی خبر تو ابراہیم اور سارہ مدت قبؔل پاچکے تھے۔ یہاں ذبیح اﷲ کی فرمانبرداری کے صلہؔ میں اسکو نبؔوت عطا ہوئی۔ اور علاوہ اسکے اور بھی برکت ملی۔

۵۔  ایک اور حیلہ اسحاق کاذبیح اﷲ کے ساتھ ملتا ہے اور ابراہیم نے یہہ دعا کی تھی‘‘رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ۔ اے میرے رب! مجھے ایک صالح (لڑکا) عطا کر’’ اس دعا کے جواب میں انکو فرزند عطا ہوا جسے انہوں نے بعدہ نذر گزرانا۔ بعد قربانی کے اسحاق کی بھی صفت بیان ہوئی’’ وہ نبی ہو گا نیک بختوں میں  وَبَشَّرْنَاهُ بِإِسْحَاقَ نَبِيًّا مِّنَ الصَّالِحِينَ۔ اور ہم نے اسے اسحاق کی بشارت دی کہ وہ نبی (اور) نیک لوگو ں میں سے ہوگا ’’ کہو یہہ کیسی صریح مطابقت ہے ؟ جس سے ذبیح اﷲ کا اسحاق ہونا بالکل ثابت ہے۔ جو اسحاق کے اوصاف ہیں وہی ذبیح اﷲ کے اوصاف ہیں چنانچہ اسحاق کو ‘‘غلام حلیم ہوشیار لڑکا’’ کہا  ذبیح اﷲ کی یہی صفت ثابت ہے۔ ذبیح اﷲ کو مِّنَ الصَّالِحِينَ کہا اسحاق مِّنَ الصَّالِحِينَ ہے ۔ ابراہیم اوراسحاق دونوں کو نسبت لکھا ‘‘ دونوں نے حکم مانا’’۔یہاں بعد قربانی دونوں  کی فرمانبرداری کو ایک ساتھ یاد کیا اور کہا‘‘برکت دی ہم نے اسپراور اسحاق پر’’۔

۶۔ اب ایک اور امر غور طلب ہے۔ کہ قرآن اس قربانی کو  ‘‘ صریح جانچنا’’ یعنی برُی آزمایش کہتا ہے۔  اگر دراصل یہہ اسحاق کی قربانی تھی۔ تو یہہ بیشک ‘‘ صریح جانچنا’’ تھا۔ ورنہ نہیں۔ کیونکہ یہہ اسحاق ابراہیم اور سارہ کا ایسا ہی پیار تھا  جیسے یوؔسف یعقؔوب کا۔ یا یحٰؔیی زکریاؔ کا۔ جب ابراہیم اور سارہ دونوں بہت ہی ضعیف ہو گئے تھے۔ اور اولاد کی اُمید اس عمر میں نہیں کیجا سکتی تھی۔ اسوقت نا     اُمیدی میں اسحاق پیداہوا   اور ابھی جوان بھی نہ ہوا تھا۔ کہ اُسکی قربانی کا حکم ہوا۔ اب کہو اِس لخت جگر کو اپنے ہاتھوں ذبح کرنا ۔ اور اپنے شجر اُمید کی جڑ کاٹنا اور  صریح جانچنا ’’ ہو سکتا تھا یا اسمٰعیل سے کیس حرم کے بیٹے کا بحکم خدا نذر گزرانتا؟ جسکی محبت ابراہیم کو اسقدر بھی نہ تھی کہ جب اُنکی بی بی کے اُسکو اور اُسکی ما کو نکال دینے کا قصد کیا تو انکو کوئی بڑا صدمہ ہی ہوتا یا اُسکے نکال دینے میں تامل کرتے۔

۷۔ علاوہ اسکے اس قربانی کا بیان یہودی و عیسائیوں کے روبرو کیا گیا۔ قیاس یہی چاہتا ہے کہ وہ مطابق توریت کے ہو۔ کیونکہ اسحاق کی قربانی کی نسبت نہ عیسائیوں میں اور نہ یہودیوں میں کبھی کوئی تنازعہ رہا۔ اگر محمد صاحب خلاف اُس بیان کے اسمٰعیل کو زبیح اﷲ مانتے تو ضرور وہ روایات سابقہ کا صریح انکار کرتے ۔ جیسا کہ انہوں نے بعض روایات کا درباب تعداد اصحاب کہف کے انکار کیا۔

یہہ چند دلایل قرآنی نسبت قربانی اسحاق کے بیان ہوئیں اب اگر اسمعیٰل کی قربانی مانو  تو اسمٰعیل کی فرمانبرداری کا وہاں کوئی اجر منقول نہیں ہوا۔ نہ اُسکا کوئی زکر آیا۔ اور یہہ بات صریح خلاف انصاف ہے۔ پھر قرآن میں کسی مقام پر اسمعیٰل کے تولد کی کوئی بشارت نہیں ہے۔ حالانکہ ذبیح اﷲ وعدہ کا فرزند ہے۔

اب ناظرین انصاف کریں کہ جب محمد صاحب اسمٰعیل کی قربانی کا کوئی ذکر نہ کریں۔ نہ اِس تعلق میں اسکا نام   لیں۔ اور نہ اسحاق کی قربانی سے کوئی انکار کریں۔ تو دلایل مذکورہ بہ ثبوت قربانی اسحاق۔ اگر قطعی نہیں تو کیا ہیں؟ کو ئی مولوی صاحب قرآن سے اسطرح کے دلایل اسمٰعیل کے زبیح اﷲ ہونیکے باب میں اگر پیش کر سکتے ہیں تو پیش کریں ۔ ہمیں یقین ہے کہ یہہ ‘‘ بھونڈی غلطی’’ مولویوں کی ہے۔ نہ کہ محمد صاحب کی۔ اور اگر محمد صاحب نے ایسی غلطی کی ہے تو ہم افسوس کرتے ہیں۔

راقم ۔ اکبر مسیح مختار باندہ

Pages