اسلام

Islam
Göreme

 

مسلمان غور کرکے جواب دیں

Muslims Consider Your Answer Carefully

Published in Nur-i-Afshan October 15, 1897

وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ یعنی اُتاری ہم نے طرف تیری کتاب(قرآن) ساتھ حق کے تصدیق کرنے کو اُس کتاب کے جواُس سے پہلے تھی اوراُس کی حفاظت کرنے کو۔(سورہ مائدہ آیت ۴۸)۔

اس وقت ہماری بحث لفظ وَمُهَيْمِنًا پر ہے۔ وَمُهَيْمِنًا کے معنی حفاظت کرنے کے ہیں اس کے ثبوت میں تمام عربی لغات موجود ہیں۔ غیاث الغات میں اس لفظ کی اس طرح تحقیق کی ہے کہ مہمین بصم میم وفتح ہاد سکون تحتانی وکسرمیم ثانی آنکہ ایمن کند دیگر انرالاز خوف دیک تحقیقات این است کہ اسم فاعل ست از مہیمنہ کہ بمعنی حفاظت اسد دریں صورت ہا اصلی است ویا برائے الحاق وایں مختار صاحب شمس العلوم وجلالین ست ویکی ازاسمائے الہی ست۔ پس فقرہ مذکورہ سے صاف ثابت ہے کہ قرآن انجیل کی حفاظت کرتا ہے کیونکہ ۴۵ اور ۴۶ آیت میں انجیل کی نسبت اس طرح ذکر ہے۔

وَقَفَّيْنَا عَلَىٰ آثَارِهِم بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ وَلْيَحْكُمْ أَهْلُ الْإِنجِيلِ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فِيهِ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ترجمہ: اور ان پیغمبروں کے بعد انہی کے قدموں پر ہم نے عیسیٰ بن مریم کو بھیجا جو اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتے تھے اور ان کو انجیل عنایت کی جس میں ہدایت اور نور ہے اور تورات کی جو اس سے پہلی کتاب (ہے) تصدیق کرتی ہے اور پرہیزگاروں کو راہ بتاتی اور نصیحت کرتی ہے اور اہل انجیل کو چاہیئے کہ جو احکام خدا نے اس میں نازل فرمائے ہیں اس کے مطابق حکم دیا کریں اور جو خدا کے نازل کئے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے گا تو ایسے لوگ نافرماں ہیں۔

صاف ظاہر ہے کہ مہیمنا علیہ کی مراد یہ ہے کہ قرآن انجیل کی محافظت کرتاہے۔ اب ہمارا سوال صرف یہ ہے مسلمان علماء مہربانی کرکے اس انجیل کو پیش کریں جس کی محافظت کا قرآن خود دعویدار ہے۔ اگر وہ اُس انجیل کو پیش کریں جوہمارے پاس موجود ہے تو تحریف کی نسبت اپنے منہ کو کھولنے کی کبھی جرات نہ کریں گے اگر اُن کے پاس کوئی اور انجیل موجود نہیں ہے تو وہ اس بات پر قائل ہوجائیں  کہ قرآن کا دعویٰ جھوٹا ہے۔ ہم کو اُمید ہے کہ قارئین جن کو وقتاً فوقتاً مسلمانوں سے مباحثہ وغیرہ کا  اتفاق پڑتاہے اس مضمون پر زور دینگے اوراس مذکورۃ الصدر آیات کو پیش کرکر اہل اسلام سے جواب لیں گے نیز مسلم علماء سے بھی ہماری درخواست کہ اس کا جواب دیں کیونکہ یہ وہ مسئلہ ہے جس سے وہ تمام اعتراضات رفع ہوجاتے ہیں جو مسلم علماء تحریف انجیل کی نسب پیش کرتے ہیں۔

Göreme

 

جھوٹی کتابیں اور قرآن

متعلق خداوند یسوع مسیح

False Books and the Qur’an

جس طرح ہم ثابت کر چکے کہ محمد نے یہودی حدیثوں کو بہت کچھ نقل کیا اسی طرح ہم ناظیرین نور افشاں کے فائدہ کے واسطے قلم اُٹھاتے ہیں تاکہ بتلایں کہ محمد نے انجیل مقدس کو چھوڑ کر جھوٹی کتابوں کو کہاں تک نقل کیا۔ صاف ظاہر ہے کہ جب کس نے ان باتوں کا زکر کیا جو انجیل کے زمانہ میں واقعہ ہوئیں تو اکثر انجیل سے بیانات کو اخز کیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بہت سی باتیں ملالیں کیونکہ قرآن اور انجیل میں بہت فرق نظر آتا ہے۔ اس فرق کا ایک سبب یہ بھی کہ وہ خود اَن پڑہ تھا۔ اور انجیل کی باتوں کو زبان سنُا تھا۔ یقین ہے کہ اس کے پاس انجیل نہ تھی اگر ہوتی تو وہ اتنا فرق نہ کرتا۔ اُس نے بار بار لکھا کہ انجیل کو ماننا چاہئے اور محمد لوگ تک انجیل کا ماننا فرض سمجھتے ہیں مگر ساتھ ہی ایسی ایسی باتیں کہیں جو انجیل کے محض برخلاف ہیں مثلاً اُس نے کفارہ کی تعلیم کو رد کیا حالانکہ اِنجیل کی خاص تعلیم یہی ہے۔ یہاں تک اگر اس تعلیم کو علیحدہ کر دیا جاوے تو انجیل کی جان جری رہتی ہے، ممکن ہے اگر آدمی کے ہاتھ پاؤں کاٹے جاویں تو زندہ رہ سکے لیکن اگر اُس کی جان نکال لی جاوے تو زندگی ناممکن ہے۔ اگر صرف چھوٹی باتوں یعنی بیرونی عضو ونمیں اختلاف ہوتا تو بفرض محال محمدیوں کے خیال کے موافق انجیل کی تحریف ہو سکتی لیکن جس حالت میں کہ قرآن انجیل کی جان کو رد کرتا ہے تو اُن کا دعویٰ کسی حالت میں بھی قابًل اعتبار نہیں ہو سکتا کیونکہ اُن کے پاس زرا بھی ثبوت نہیں ہے اور مسیحیوں میں اتنا زور کہاں تھا کہ اس مرُدہ نعش میں جسے محمدی اصلی انجیل ناحق تصور کرتے ہین کفارہ کی تعلیم بنا کر جان ڈالیں پس صاف ثابت ہے کہ محمد انجیل سے قطعی ناواقف تھا ورنہ وہ ایسی تعلیم نہ دیتا جو حقیقت میں اس کے لئے پھانسی کا حکم رکھتی تھی یعنی تعمیل اِنجیل اور تردید کفارہ کی تعلیم بالکل متضاد تعلیم تھی۔ خیر اب ہم وہ باتیں پیش کیا چاہتے ہیں جن کی اصلی اور کتابوں میں پائی جاتی ہے۔ ( ۱) سورہ مریم ۲۳ میں لکھا ہے کہ مریم کو انجیر کے درخت کے پاس درد زہ ہونے لگا۔ بیضاوی کہتا ہے وہ اس درخت کا سہارا لیتی تھی۔ یونانی قوم میں ایک دیوتا مسمّی اپالوؔ تھا۔ اس کی ماں کا نام لتوؔنا تھا۔ ہو مر شاعر کی کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ اپاؔلو کے پیدا ہونے کے وقت جب درد زہ ہوا تو التوؔنا انجیر کے درخت کے پاس گئی اور سہارا لیا۔

( ۲ ) سورہ مریم ۲۸۔ ۳۴ میں پایا جاتا ہے کہ جب مریم کے رشتہ دار اس پر لعنت کرنے لگے کہ تو نے نادرست و بیجاکام کیا تو یسوع نے جھولے سے بولکر کہا کہ نہیں میں خدا کا بندہ ہوں وغیرہ وغیرہ۔ یہکہانی ایک چھوٹی انجیل مسمیّ یسوع کی طفولیت میں پائی جاتی ہے جس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ یسوع جھولے میں پڑا ہوا بول اُٹھا اور مان سے کہنے لگا کہ فی الحقیقت میں یسوع خدا کا بیٹا ہوں یعنی وہ کلام جو تونے جنا جیسا کہ جبرائیل فرشتہ نے تجھکو بتلایا۔ میرے باپ نے دُنیا کے بچانے کے لئے مجھکو بھیجا۔ صاف ظاہر ہے کہ اگرچہ محمد نے یسوع کی باتیں کو بدل دیا۔ پھر جی جھولے میں بالنے کی کہانی اُسی سے نقل کے علاوہ اس کے ہومر شاعر کی کتاب میں اپاؔلو کی بابت لکھا ہے کہ ابھی ماں کے پیٹ میں تھا اور باتیں کیں۔ کون کہ سکتا ہے کہ کچھ اس کا بھی اثر نہ ہوا ہو۔

( ۳ )سورہ عمران ۴۸ میں لکھا ہے کہ مسیح نے مٹی سے چڑیا بنا کر اُن کو زندہ کیا اور وہ اُڑنے لگیں۔ یہ کہانی لفظ بلفظ کتاب مذکور یعنی مسیح کی طفولیت اور نیز ایک اور جھوٹی انجیل میں جسے تھوما کی انجیل کہتے ہیں پائی جاتی ہے۔ ہمکو پہلی کتاب دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا مگر دوسری کتاب ہماری نظر سے گزری ہے۔

(۴) سورة النسا ۱۵۶ میں لکھا ہے کہ یہودیوں نے یسوع کو صلیب نہیں دی لیکن ایک اور شخص کو۔ یہ بدعتی فرقہ مسیحیوں مسمی دو کتیا ؔ کا ایک عقیدہ تھا اور چند کتابوں میں درج ہے مثلاً کتاب مسمے رسولوں کا سفر میں۔س٫۱۸۹۰میں ایک اور جھوٹی کتاب کا نسخہ پایا گیا مسمی پطرس کی انجیل جس میں یہی بات پائی جاتی ہے۔

پس ظاہر ہے کہ انہیں کتابوں سے نقل ہوا ہے۔ ہم ایک اختلاف پر توجہ دلاتے ہیں کہ بیان مذکورہ بالاا سے نتیجہ نکلتا ہے کہ خدا نے زندہ مسیح کو اُٹھایا لیکن قرآن کی دوسری آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح فوت ہوا مثلاً سورہ المریم ۳۴ میں لکھا ہے کہ عیسیٰ نے جھولے سے کہا کہ میں مرجاوں گا اور جس روز زندہ کیا جا‍‍‍ؤنگا سلامتی مچھر ہو گی دیکھو سورة النسا ۵۴۔

( ۵) سورة المائدہ ۱۱۶ سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد کی سمجھ میں مسیحی لوگ مریم کی تثلیث کا ایک اقنوم سمجھتے تھے۔ اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ انجیل سے کہا ں تک ناواقف تھاجس کا دعویٰ یہ ہے کہ باپ بیٹا اور روح القدس تثلیث کے تین اقنوم ہیں۔ ہم سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ اُس نے یہ خیال کہانسے لیا۔ عرب میں مسیحیوں کا ایک فرقہ مسمی کلا روی انز تھا جو مریم کو ایک اقنوم سمجھتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد نے انہیں سے یہ بات لیلی۔ آخر مین ہم ناظرین کو توجہ دلاتے ہیں کہ ہر چند قرآن سے خداوند یسوع مسیح کی الوہیت کے رد کرنے کی حتی الامکان کوشش کی گئی پھر نور تاریکی پر ظفر یاب ہوا۔ اور قرآن ہی سے خداوند کی اُلوہیت ثابت ہو جاتی ہے۔ ہم اُس کا مفصل حال بیان نہین کرتے لیکن اشارتاً یہ بتلاتے ہیں کہ روح اللہ اور قول الحق نیز اور ناموں سے جن سے خداوند یسوع مسیح نامزد کیا گیا ہے بخوبی ثابت بقیہ مضمون ہذا صفحہ ۱۴ میں دیکھو۔

Taftishul Auliya

Sufi Saints in Islam

تفتیش الاولیا

یہ کتاب  صوفیہ  اور ان کے تصوف اور ان کے ولیوں کی کفیت  کے بارے میں


پادری مولوی عماد الدین لاہز

۱۸۳۰ - ۱۹۰۰


نےاس مراد سے لکھی ہےکہ اہلِ فکر صوفی اس سے فائدہ اٹھائیں

اور درمیان ۱۸۸۹ء

رلیجیس بک سوسائٹی کی منظوری سے
ریاض ہینڈ پریس میں طبع ہوئی


 

Dr. Imad ul-din Lahiz

اے تو جوسوتا جاگ اور مردوں میں سے اٹھ کہ مسیح تجھے روشن کرے گا۔

(انجیل  مقدس خط افسیوں ۱۴:۵)


Taftishul Auliya

Researches about Islamic Saints

An inquiry into the origin of Sufi Saints in Islam

By

Rev. Mawlawi Dr.Imad ud-din Lahiz

1830−1900


Wake up, sleeper, rise from the dead, and Christ will shine on you.

Ephesians 5:15


 

فہرستِ مضامین تفتیش الاولیا
دیباچہ
۱۔ فصل زمانہ گذشتہ و حال کی کیفیت میں ۷
۲۔ فصل اسلام اور تصوف کے بیان میں ۹
۳۔فصل صوفی کی وجہ تسمیہ کیے بیان میں ۱۱
۴۔فصل اقسام صوفیہ کے بیان میں ۱۴
۵۔فصل ولی اور ولایت کے بیان میں ۱۷
۶۔فصل ان صوفی ولیوں کے اختیارات کے بیان میں ۱۹
۷۔فصل مجذوب ولیوں کے بیان میں ۲۰
۸۔فصل قلندروں کے بیان میں ۲۱
۹۔فصل سالکین کے بیان میں ۲۳
۱۰۔فصل ان ولیوں کے عہدوں کے نام بجب اختیارات ۲۵
۱۱۔فصل صوفی ولیوں کی مشابہت با نبیاء کے بیان میں ۳۰
۱۲۔فصل تقسیم عالم یا مقامات عالم کے بیان میں ۳۱
۱۳۔فصل معرفت کے بیان میں ۳۲
۱۴۔فصل شریعت طریقت حقیقت کے بیان میں ۳۳
۱۵۔فصل یقین کے بیان میں ۳۵
۱۶۔فصل وحدت وجودی اور شہودی کے بیان میں ۳۵
۱۷۔فصل اطوار تقرب صوفیہ کے بیان میں ۳۹
۱۸۔فصل علم سینہ اور سفینہ کے بیان میں ۴۲
۱۹۔فصل بیعت یعنی پیری مرید ی کے بیان میں ۴۳
۲۰۔فصل تصورِ شیخ کے بیان میں ۴۴
۲۱۔فصل نفی اثبات کے بیان میں ۴۵
۲۲۔فصل حبس کے بیان میں ۴۶
۲۳۔ فصل روزوں اور شب داریوں کے بیان میں ۴۷
۲۴۔فصل چلہ کشی کے بیان میں ۴۸
۲۵۔فصل صوفیہ کے ورد وظائف کے بیان میں ۴۹
۲۶۔فصل نقشبندیہ کی بعض اصطلاحات کے بیان میں ۵۰
۲۷۔فصل لطائف خمسہ کے بیان میں ۵۲
۲۸۔فصل حلقہ اور توجھ کے بیان میں ۵۳
۲۹۔فصل مراقبہ کے بیان میں ۵۵
۳۰۔فصل شجروں اور اجازت کے بیان میں ۵۶
۳۱۔فصل صوفیہ کے بعض خاص دعوؤں کے بیان میں ۵۷
۳۲۔فصل تناسخ کے بیان میں ۵۸
۳۳۔فصل صوفیوں کی وہ کیفیت جو اب ہے ۶۲

 

دیباچہ

پیروں کے نام لیتے ہیں کہ فلاں فلاں بزرگ ہمارے درمیان ایسے ولی اللہ ہوئے ہیں۔اور جب مسیح خداوند کے معجزوں کا بیان سنتے ہیں تواپنے پیروں کی کرامتوں کاایسا ذکر کرتے ہیں کہ گویامسیح کے معجزوں سے زیادہ تر قدرتیں اور تاثیریں ان کے پیرو  ں سے ظہور میں آئیں ہیں بلکہ پیغمبروں کے معجزے ان کےولیوں کی کرامتوں کے سامنے حقیر ہیں۔ان لوگوں نے نہ پیروں کو پہچانا  نہ پیغمبروں  کو نہ کرامتوں اور معجزوں کی ماہیت کو سمجھا۔

یہ تو اندھی اونٹنی کی مانند دنیا  کے  جنگل میں چرتے ہیں۔میرے ساتھ ایسے لوگوں کی بہت باتیں ہوئیں اورہوا  کرتی ہیں کیونکہ ایک وقت تھا کہ میں ان میں سے تھا۔اس لئے میں ان کے خیالوں کو سمجھتا اور پہچانتا ہوں۔کہ وہ کس رنگ میں ہیں یہ لوگ صوفیہ مشرب کے ہیں۔

اور مجھے معلوم ہے کہ ان میں بکواسی اور متعصب  اور قبر پرستی کےسبب مردہ دل لوگ بہت ہیں تو بھی بعض شخص اُن میں خدا کی قربت کے طالب ہوتے ہیں۔اوران کے اخلاق بھی اچھے ہوتے ہیں۔اور وہ دنیا کے کسی فرقے کے ساتھ عداوت نہیں رکھتے بے تعصب ہو کر صلحٔ  کل کا دم بھرتے ہیں۔اور حصولِ قربتِ  الٰہی  کی غرض سے بڑی ریاضتیں اور  مشقتیں خفیہ طور پر کرتے ہیں۔اور یہی خوبی ضرور اُن بعض میں ہے۔لیکن افسوس کہ وہ سادہ لوح اور فریب خوردہ غلطی میں پھنسے ہوئے  بے راہ چلے جاتےہیں۔اگرچہ بعض میں تحقیقات کی طاقت ہے۔لیکن عادت نہیں اور بعض میں طاقت ہی نہیں ہے کہ از دخود دریافت کرکے  غلطی کو چھوڑیں اور درست طور کو اختیار کریں تاکہ فی الحقیقت سچے خدا کی رفاقت اور قربت حاصل ہواوروہ سچ مچ ولی اللہ ہو جائیں۔

اور یہ ہی ظاہر ہے کہ اس ملک میں  اب تک خدا کی پاک کلیسیا کی طرف سے ان کو ا یسی کتاب نہیں دی گئی کہ جو ان کے خیالوں کوہلائےاور ان کو زندہ خدا  کی طرف بلائےاور ان کے خیالوں میں روشنی کا باعث ہواوراُس جنجال  کو جس میں وہ پھنسے ہوئے ہیں سلجھائےاوران کئے گور کھ دھند ے کو ہلائےاور ان کی غلطیوں کو ان پر ظاہر کرکے ان کے سامنے راہ راست کو پیش کرے۔شاید ان میں کچھ جانیں اور ہلاک ہونے سے بچیں۔

لہذا میں نے ارادا کیا کہ ایک مختصر کتاب ان کے لیے لکھوں جن میں خاص ان باتوں کا ذکرہوجو اس بارہ میں تنقیح طلب ہیں اور فضول باتوں کا کچھ ذکر نہ ہو۔پس میں نے اس کتاب کو لکھ دیا اور اس کا نام  تفتیش الاولیا رکھا کیونکہ اس میں صوفیوں کے ولیوں کی تفتیش ہوئی ہے۔کہ وہ کیسے لوگ ہیں اور ان میں کیا کچھ ہے ؟خدا کرے کہ سب صوفی اسےغور سے پڑھیں اور فائدہ اٹھائیں۔وبااللہ اتوفیق۔

Pages