اسلام

Islam

Eradication of the Taliqat

Eradication  of Taliqat by Dr. Imad ul-din Lahiz

تعلیقات التعلیقات

یہ مختصر جواب ہے منشی چراغ علی صاحب کی تعلیقات کا جو

پنجاب رلیجیس بک سوسائٹی پنجاب کے واسطے چھاپی گئی ہے۔


Dr. Imad ul-din Lahiz

پادری مولوی عماد الدین لاہز صاحب

نے فروری 1869 میں درمیان امرتسر کے لکھا اور اب فائدہ عام کے لئے


ہرایک زبان اقرار کے کہ یسوع مسیح خداوند ہے!

(انجیل مقدس خط فلپیوں ۲باب ۱۱آیت)


Taqliatul Taliqat

The Eradication of the Taliqat

Rev. Mawlawi Dr.Imad ud-din Lahiz

1830−1900

A reply to Taliqat (Suspensions),
a controversial work by Munshi Chiragud Din of Awadh
called forth by the author’s Tawrikh-i-Muhammadi.


Every tongue acknowledge that Jesus Christ is Lord!

(Philippians 2:11)


تعلیقات التعلیقات

دیباچہ

واضح ہو کہ منشی چرا غ علی صاحب  نے ملک اودہ میں ذرا جوش خروش کے ساتھ اسلام کی حمایت کے لئے تواریخ محمدی کے برخلاف ایک رسالہ لکھا ہے جس کا نام تعلیقات ہے ۔ میں نے منشی صاحب کی بہت تعریف سُنی تھی اس لئے اُس رسالہ کو اِن ایام میں منگو اگردیکھاتاکہ منشی صاحب کے خیالات سے کچھ فائدہ اوٹھاؤں مگر دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اُس میں کچھ بھی نہیں ہے صرف شور ہی تھا۔

منشی صاحب وہی چال چلے ہیں جو سب اہل اسلام اپنی تحریروتقریر میں چلتے ہیں۔ ارادہ تھاکہ اُن کےفقرے فقرے پر کچھ مناسب باتیں لکھوں مگر اس کام کی نسبت زیادہ مفید کام میں مصروف ہوں پس مفصل جواب کی فرصت نہ پاکر یہ مختصر جواب لکھا جس کا نام تقلیعات التعلیقات ہے ۔ تاکہ ناظرین کم استعداد منشی صاحب کی چکنی چٹری باتوں سے دھوکانہ کھائیں کیونکہ انھوں نے خوب ہی مغالطے دیئے ہیں اوراُس خبر کا مضمون کچھ کچھ پورا کیا ہے کہ اگر ممکن ہوتا تو برگزیدوں کو بھی گمراہ کرتے ۔ پر دنیا وی حکمت کی کیا طاقت ہے کہ الہٰی حکمت کا مقابلہ کرے ناممکن ہے کہ دین عیسائی کے سامنے کوئی دنیاوی مذہب ٹھہر سکے کیونکہ خُدا آپ اس دین کا بانی اور حمایتی  ہے ۔

پہلی بات

منشی صاحب نے اپنے رسالہ کے شروع ہی میں چند اقوال مغربی مورخوں وغیرہ کے محمد صاحب کی نسبت نقل کئے ہیں جن  کو وہ محمد صاحب کی صحتِ نبوت کی دلالت اور مخالفوں کی شہادت بتلاتے ہیں۔

میرے گمان میں یہ بات مہمل ہے کیونکہ قطع نظر اس کے کہ منشی صاحب نے اُن کی رائے  کا صحیح ترجمہ کیا ہے یا نہیں میں یوں کہتاہوں۔ کہ ان اقوال میں سے ایسی کوئی بھی رائے نہیں ہے جس سے محمد صاحب  کی نبوت ثابت ہو۔ کسی مورخ نے نہیں کہا کہ وہ اپنے دعویٰ نبوت کواپنی زندگی کے واقعات میں ضرور ثابت کرتے ہیں۔ پر یہ اوربات ہے کہ وہ نیکی کرنا چاہتے تھے یا عرب کی بت پرستی کے دفع میں ساعی تھے یا ایک بہادر اور اولوالعزم شخص تھے۔ اس میں کیا شک ہے کہ ان باتوں میں سے بعض رائے  درست ہیں مگر بندہ کی رائے خاص اُن کی نبوت کی نسبت ہے اوراُن مورخوں کی رائے جن کا منشنی صاحب نے ذکر کیا ہے عام طوپر ہے خواہ باعتبار دنیا کے اورسپہ سالا روں کے یا اُن کے اخلاق کے پس اُن کی رائے اورمعاملہ میں ہے اورمیری رائے اورمعاملہ میں ہے ۔

اس کے سوا یہ بات ہے کہ میں ان مورخوں کا مقلدنہیں ہوں میں نے محمد صاحب کے حالات پر خودغور کی ہے اور کچھ میرے ذہن میں آیا اورمحمد ی کتابوں سے مجھے معلوم ہوا وہ سب راستی اورنیک نیتی کے ساتھ میں نے لکھ دیا ہے کہ محمد صاحب ہر گز خُدا کے نبی نہ تھے اورکچھ ہوا کریں مجھے کیا ہزار  فضیلتیں دنیا کی اُن میں ہوں یا  نہ ہوں میری بحث تو صرف نبوت کے معاملہ میں ہے ۔

علاوہ ازیں ایک اوربات ہے کہ انگریزی مورخوں کی رائے بے تامل میں ہرگز  قبول نہیں کرسکتا کیونکہ انہوں نے یا تو انگریزی تواریخیں پڑھ کر رائے  لکھی ہے یا کسی کسی نے کچھ عربی زبان بھی پڑی  ہے اوربعض کتب سیر بھی دیکھی ہیں اورکسی مولوی صاحب کی مدد سے کچھ انگریزی میں ترجمہ بھی کردیا ہے ۔ لیکن انہوں نے محمدی تعلیم کی تاثیرات اپنے اندر کبھی نہیں دیکھیں نہ محمدی مذہب کے دقائق سے کبھی واقف ہوئے کیونکہ وہ کبھی مسلمان نہ تھے میں نے تو ۳۵ برس تک اُن کی تعلیمات کے  دقائق کی تایثر کو اپنے میں اوراقارب میں اوربڑے بڑے محمدی معلموں میں محمد صاحب کا حلقہ بگوش غلام بن کر آزمایا اورجب میں ہلاکت کے قریب تھا خُدا کے فضل نے مجھے مسیح یسوع میں بچالیا۔

اب خواہ ہزار مغربی مورخوں کے لکچروں  یاکتابوں کے فقرےچُن چُن کر کوئی مجھے سنائے میں قبول نہیں کرسکتا کیونکہ میں اس معاملہ میں خود باتجربہ ہوں میں سچ کہتاہوں کہ اُن کی رائے میں بہت غلطیاں ہیں۔

ناظرین کو سوچنا چاہئے کہ اب مسلمانوں کے پاس محمدصاحب کی نبوت پر اورکچھ تو باقی نہیں رہا مگر اہل لندن کے لکچروں کے دُم بریدہ فقرے اب وہ لاکر سناتے ہیں سابق زمانہ میں آیات قرآن پیش کیاکرتے تھے اب لکچروں کے درمیانی فقرے مثل لا تقربولصلوۃ کے پیش کرکے محمدصاحب پر ایمان قائم کرانا چاہتے ہیں پہلے اُن لکچروالوں سے تو کہیں کہ محمدصاحب کو قبول کیوں نہیں کرتے دیکھو ہو کیا سُناتے ہیں اوران اپنے فقروں کے کیا معنی بتلاتے ہیں۔

پر منشی صاحب نے اپنے فقرات پیش کردہ کے آخر میں یہ کیا خوب فقرہ نقل کیا ہے کہ (تو گٹیا وکا رلیل اوراسپر نگر واماری ونولدیک ومیور صاحبان نے تمام جہان پر یہ بات اچھی طرح ثابت کی ہے کہ اسلام ایک زندگی بخشنے والی چیز ہزار وں سودمندجوہروں سےمشحون ہے اوریہ کہ محمدصاحب نے مروت کی سنہری کتاب میں اپنے لئے جگہ حاصل کی ہے )

یہ فقرہ منشی صاحب نے لندن کے کسی کو ارٹرلی ریویو ‎(Quarterly Review)‎ کے آرٹیکل سے نکا لا ہے ۔ اب میں جناب منشی صاحب ہی کو منصف بنا کر پوچھتا ہوں کہ کیا یہ بات صحیح ہے اورآپ کی تمیز اسےقبول کرتی ہے کہ اسلام ایک زندگی بخش چیز ہے اہل اسلام میں کچھ زندگی آپ کو نظر آتی ہے ممالک اسلام میں کچھ زندگی ہے عرب ترک ایران کابل وغیرہ ممالکِ اسلام کا کیا حال ہے خودہندوستان میں مشائخ وعلماء محمدیہ کا کیا حال ہے اُن میں کچھ زندگی ہے اس کاجواب آپ ہی خُدا کو دیں صاحب اہل اسلام نے توکبھی زندگی کا مُنہ بھی نہیں دیکھاہاں اگروہ زندگی کو چاہتے ہیں تو مسیح کے کفارہ کو اورمردوں میں جی اُٹھنے کو مانیں ایمان کے وسیلہ سے اُس کے ساتھ تقرب حاصل کریں کیونکہ جس کے ساتھ بیٹا ہے اُس کےساتھ زندگی ہے جس کے ساتھ بیٹا نہیں اُس کے ساتھ زندگی نہیں ہے ۔ آدمی کو اختیار ہے کہ جو چاہے مُنہ سے بول اُٹھے مگر ہر بات کا خُدا کو جواب دینا ہوگا۔

ہاں دنیا میں ایسا توکوئی بھی مذہب نہیں ہے جس میں کچھ بھی اچھی باتیں نہ ہوں سب جھوٹے معلم اپنے بُری تعلیم پر عمدہ باتوں کا ملمع چڑھا کر سکھلایا کرتے ہیں ورنہ اُن کی بات مطلق قبول نہیں ہوسکتی ہے پر سچا دین وہ ہے جس میں سب کچھ سچ ہے ۔ ہاں اسلام میں ایک جسمانی حرارت ضرور موجود ہے اوراس لئے اُس کی نسبت کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ جاندار چیز ہے پر روحانی زندگی کو اُس سے مطلب نہیں ہے اگر منشی صاحب اس فقرے کو لکھنے کے عوض اسلام ہزار وں سوز مند جوہر وں میں سے ایک دو جو ہر ی نکال کےدکھلاتے تو بہتر تھا۔

حاصل کلام یہ ہے کہ لندن کے لکچروں  ا ورتواریخ کے بعض دُم بریدہ فقروں سے نبوتِ محمدی ثابت نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ وہ کچھ چیز نہیں ہیں اسلام کی ذاتی خوبی دکھلانا چاہے اورمحمد صاحب کی خوش چلنی جس کا تواریخ ِمحمدی انکار کرتی ہے ظاہر کرنا چاہے پر یہ محال ہے اگر ہوسکتا تو اہل اسلام کبھی درگذر نہ کرتے ۔ اس کے بعد منشنی صاحب نے ۱۶ تعلیقین لکھی ہیں اور اپنے ساری دنیا وی حکمت کا زور لگا کر دین عیسائی پر حملہ کیا ہے میں نے اُنہیں بھی دیکھا مگر ایک تعلیق بھی لایق نہ پائی چنانچہ ذیل میں مختصراً دکھلاتا ہوں مگر پہلے تین باتیں سُنانا  مناسب ہے ۔

(۱)منشی صاحب نے اپنی ہر تعلیق کی عبارت میں اس قدر جملے معترضی بھری ہیں کہ اُن کی عبارت ایک جنجال ہوگئی ۔ یہ دنیا وی دانائی اوراِنشا پر دازی کی خوبی ہے پر میں جملے معترضوں کا جواب بہت ہی کم دونگا صرف تعلیق کے منشا پر میری توجہ ہوگی۔

(۲)ناظرین کو چاہئے کہ اگر کتاب مل سکے تو اُن کی ہر تعلیق کو پہلے دیکھ لیں پھر تقلیع کی مختصر عبارت پر غور کریں۔

(۳)منشی صاحب مہربانی کرکے بندہ سے ناراض نہ ہوں کیونکہ میں ایذادینے کی راہ سے نہیں مگر انصاف سے راستی کو ظاہر کرنے کے لئے یہ باتیں لکھتا ہوں اورمیں خود منشی صاحب سے بہت خوش ہوں کہ اُنہوں نے تعلیقات لکھی جس سے عوام پر بھی ظاہر ہوگیا کہ محمدی عالموں کے پاس تورایخِ محمدی کے جواب میں یہی کچھ تھا جو تعلیقات میں بیان ہوا اس کا شکریہ سلام کی ساتھ میری طرف سے پہنچیں۔

۱۔ تعلیق

اس تعلیق کا نام منشی صاحب نے عمادالدین کی تلبیس رکھا ہے یعنی عمادالدین کی مکاری یا عمادالدین کا شیطان پن ۔ یہاں سے ظاہر ہے تعلیقات کی تصنیف کے وقت منشی صاحب کے دل میں غصہ ہے اور غصہ  والے دل میں سے جو باتیں نکلتی ہیں اکثر ناراست ہوتی ہیں کیونکہ محقق اورحقیقت کے درمیان یہ غصہ مثل پردہ کے حائل ہوجایا کرتا ہے ۔

تعلیق اول کا خلاصہ یہ ہے

کہ احادیث کے اقسام اورمحدثوں کے بیان عمادالدین نے محض فریب اورتلبیس کے طورپر کیئے ہیں کیونکہ اُس نے اصول علم حدیث کےضابطہ موافق احادیث کے راویوںپر  بحث نہیں کی۔

توضیح

منشی صاحب نے احادیث اورمحدوثوں کا ذکر تواریخ کے اول میں پڑھا تو اُنہیں یہ توقع ہوئی کہ تورایخ کا لکھنے والا مسلمان مجتہدون  کی مانند ہر ہر حدیث کو اصول حدیث مقررہ اہل اسلام کے مانند اُس کا درجہ دکھلا  کے لکھے گا یعنی اُسے پُرانے دستو ر کے موافق وہی علما ء محمدیہ والی چال چلے گا۔

۱۔ تقلیع

میں حیران ہوں کہ منشی صاحب کو ایسی توقع کہاں سے پیدا ہوئی جس کے برنہ آنے کے سبب حدیثوں کے اقسام سُنا کر عمادالدین مکار بن گیا۔ دیکھو تواریخ کے اول میں ایک دیباچہ ہے جس میں تین سبب تالیف اورماخذ تالیف کا ذکر ہے اورطورِاخذ کا بھی مفصل بیان ہے ۔ اب وہ کون آدمی ہے جو یہ دیباچہ پڑھ کے یہ توقع پیدا کرے گا جو منشی صا حب کو پیداہوئی ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب حدیثوں کا بیان شروع ہوا تو اُسکے اول میں قریب دو صفحہ تک جو لکھا ہے وہ یہ ہے کہ احادیث کا سلسلہ جس کو مسلمان سند کہتے ہیں وہ خود سند کا محتاج ہے پس اُس میں بحث کرنا وقت کو خراب کرنا ہے ۔ اب یہ عبارت اُس کی توقع پیدانہیں کرتی ہے یا مطلق دفع کرتی ہے پس تواریخ سے   تو یہ  توقع پیدا نہیں ہوتی ہے پر اپنے ذہن سے منشی صاحب یہ توقع نکال کے  بے مناسب الزام دیتے ہیں۔تیسری بات سرورق پرلکھا ہے کہ یہ تلخیص الا حادیث کا پہلا حصہ  ہے دیباچہ  میں لکھا ہے کہ یہ کتاب خلاصہ ہے روضتہ الاحباب کا جو اہل اسلام میں  مسلم کتاب ہے یہاں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ احادیث اورمحدثیں کا ذکر شاید دوسرے حصہ میں کار آمد ہوگا کیونکہ وہاں تعلیم کا ذکر آتا ہے اورچونکہ تعلیم ناقص ہے اس لئے ضرور ہے کہ حدیث کا درجہ بھی ساتھ ہی دکھلا یاجائے اورپہلے حصہ میں احادیث ومحدثیں کا ذکر کرکے اتنا کہنا بس تھاکہ محمد ی تواریخ اہل اسلام نے ان سب قسم کی روایتوں سے تالیف کی ہے ۔

منشی صاحب تواریخ محمدی کے لئے اسے استخراج کی توقع کیوں کرتے ہیں یہ تو قع تواب دنیا میں سے اُوٹھ گئی ہے نہ کوئی اہل اسلام ایسا کرسکتا ہے نہ غیر ٹھیک تواریخ ِمحمدی وہی ہے جو محمدی علماء مشا ہیرلکھ کے ہاتھ میں دےگئے ہیں جس کا خلاصہ بندہ نے نکالاہے ۔

۲۔ تعلیق

مُولف نےجس ژرف نگاہی سے علم حدیث پر نظر ڈالنا مناسب سمجھا تھا تو کیا اُس کی مناسب کی رعایت کی ہے ۔ یعنی نہیں کی ۔

 ۲۔ تقلیع

ا س تعلیق میں جو کچھ منشی صاحب نے لکھا ہے بے فائدہ ہے کیونکہ یہی مطلب اُن کی تعلیق اول کا بھی تھا ہاں لفظ جُدابولے ہیں اورکچھ باتیں اور بھی لکھی ہیں جو تعلیق سے علاقہ نہیں رکھتیں سب باتوںکا مختصر جواب یہ ہے کہ تواریخ ِمحمد صفحہ ۶ سطر۱۱ سے ۱۵ تک دیکھیں کہ لکھنے کا طرز کیا اختیار کیاگیا ہے اوراسی طرز کی کیاضرورت بتلائی گئی ہے پس جس مطلب سے وہ طرز اختیار کیاگیا ہے وہ پورا کرنا ضرور ہے منشی صاحب کو یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ مخالف اس طرح سے کیوں اعتراض کرتا ہے اور اس طرح سے کیو ں نہیں کرتا مخالف کو اختیار ہے جس طرح سے چاہئے اعتراض کرے اور مجیب کو بھی مناسب ہے کہ اعتراض کےموافق جواب دے جن باتوں کو منشی صاحب بدگمانیاں اور جھوٹے اعتراض اورباطل شہبات بتلاتے ہیں اُن میں سے ایک بات کا بھی جواب اُنہوں نے نہیں دیا اُن باتوں کا بطلان ثابت کرنا مناسب تھا بے د لیل اُ نھیں باطل بتلانا جائز نہ تھا تعجب کی بات ہے کہ منشی صاحب اُنہیں بے دلیل باطل بتلاتے ہیں حالانکہ جن باتوں کووہ باطل شہبات کہتے ہیں ان کے ساتھ دلائل بھی مذکور ہیں پر جواب میں صرف دعویٰ ہی دعویٰ ہے بے دلیل۔

یہ کیسی بات ہے کہ اعتراض بادلیل کے مقابلہ میں جواب بے دلیل سُنا کر منشی صاحب عمادالدین کی بے ضابطہ گی اوربے راہ روی ثابت کرتے ہیں۔ہاں خوب یاد آیا کہ منشی صاحب نے دو دلیلیں بھی یہاں پر سنائی ہیں پہلی دلیل اُن کی یہ ہے کہ عیسائی مولف بے علم اوربے وقوف ہوتے ہیں اوردوسری دلیل یہ ہے کہ عیسائی زبان دراز لوگ ہوتے ہیں۔

مگر یہ اُن کی دونوں دلیلیں عمادالدین کی بے راہ روی ثابت نہیں کرسکتیں جب تک کہ مطاعن کے پورے جواب منشی صاحب نہ سُنادیں۔

بھلا صاحب ہم نے فرض کیاکہ عیسائی لوگ نادان کم عقل بے علم اورحرص وہوس میں مبتلا ہیں اوراس لئے محمد صاحب پر قرآن حدیث سے نکال کے بیجا اعتراض کیاکرتے ہیں اورآپ کی اصل اصیل اورماخذ جلیل فن ورایت کے اصول وقواعد کے موافق استدلال نہیں کرتے  اوراُن کی تصنیفات کا منشا بقول آپ کی عدم اطلاع اورقلت معلومات ہے اوراسی طرح سے تواریخ ِمحمدی بھی ایک نادان آدمی نے لکھ ماری۔

تو کیا اس کا جواب یہی ہے کہ آپ ہمیں موٹی موٹی عربی کے الفاظ ہی بول کر سُنا دیں اورہزار اعتراضوں میں سے ایک کا بھی جواب نہ دیں۔

اگر ہم لوگ قواعد وضوابطہ اسلامیہ کے پابند ہوکے اعتراض نہیں کرتے تو آپ ہی ہمیں اپنے قواعد کے موافق استدلال کرکےجواب دےدیا کریں۔ میں نے تواریخِ محمدی میں جابجا اپنے گمان میں مناسب اعتراض بھی بہت سے کیئے ہیں  اس امیدسے کہ انکا کچھ جواب آپ لوگوں  سے سُنوں مگر جواب میں میں نے صرف یہ لفظ آپ سے سُنے ۔ ژرف نگاہی ۔ضوابطہ و قواعد ،مستند ات مطاعن ، تشنیعات،باطل شہادت ،اصل اصیل ماخذ جلیل وغیرہ۔ ایسی باتوں کو ہم لوگ عربی خوانوں کی دہمکیاں جانتےہیں۔ اورجس علم حدیث کو منشی صاحب فن عظیم الشان بتلاتے ہیں ہم اُسے بڈھوں کی کہانیاں جانتے ہیں اوراُس کا چنداں اعتبار بھی نہیں کرتے بار بار منشی صاحب نے ہماری کتابوں میں پڑھا ہوگا کہ حدیث کچھ نہیں ہے اُسنے ہزاروں روحوں کو برباد کیا ہے صرف خُدا کا کلام انسان کے لئے بس ہے اور وہ حدیث کا محتاج نہیں ہے جیسے قرآن حدیث کا محتاج ہے ۔

اسی حدیث کی پابندی سے یہودی گمراہ ہوئے اوراسی سے رومن کیتھولک لوگ بُت پرستی گمراہ میں پھنس گئے اگر منشی صاحب اس فن کو عظیم الشان اورایک عمدہ چیز جانتے ہیں اور اس میں بہتر کا دعویٰ رکھتے ہیں تو پہلے چاہئے کہ تمام کتب احادیث میں سے انتخا ب کرکے ایک صحیح حدیثوں کی کتا ب اپنے ضوابط اورقواعد کے موافق تیار کریں اورتمام زمین کے علما  اسلام سے اُس کی تصدیق کروایں اورپھر اشتہار دیں کہ اگلے اہل اسلام کتب سابقہ کی پابندی کرکے غلطی میں مرگئے اب ہم تیر ہویں صدی میں کامل محقق اوراسلام کی مرمت کرنے والے پیدا ہوئے ہیں چاہئے کہ قرآن اورہماری یہ نئی کتاب اسلام اوربانی اسلام کے بارےمیں معتبر سمجھی جائے اورسب کتب سابقہ میں رطب ویا بس بہرے ہیں۔

یہ کیسی شرم کی بات ہے کہ منشی صاحب اپنابوجھ مخالف پر ڈالتے ہیں اُس کی اس تعلیق کا حال یہی ہے کہ خبردار کوئی  آدمی اسلام پر اعتراض نہ کرے اگر کرے توعلم حدیث کا عالم وفاضل ہوکے اُن کے قواعد وضوابط کی موافق کرے ورنہ اُسے جواب نہ ملے گا یا جاہل وزبان دراز کہاجائے گا اورعربی کے موٹے موٹے لفظ اُسے سُنائے جائینگے ۔

۳۔ تعلیق

مُولف کو خاص اپنے اعتراض والی حدیثوں کے اسناد پر بالا نفر اد نظر چاہی تھی نہ کہ روضتہ الاحباب اورمدارج النبوت میں لکھا ہے ۔

۳۔ تقلیع

یہ وہی بات ہے کہ میرا واجب تجھے ادا  کرنا چاہئے تھا صاحب اگرچہ مُولف نے اعتراض والی حدیثوں کی اسناد پر بالا نفراد نظر کرکے اعتر اض نہیں کیا بلکہ اُن کوآپ کی معتبر حدیثیں جانکر اعتراض کردیا اور یہ اُس کی غلطی ہوئی توآپ اُنکی اسناد پر بالا نفراد نظر کرکے اعتراضات کو دفع کرتے جس سے مولف کی غلطی ثابت ہوتی اُس نے توآپ کو جواب کا اچھا موقع دیا تھا مگر آپ کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ وہ حدیثیں ضرور ثابت ہیں۔

میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اہل اسلام کے اسناد کا طریقہ ہی ناکارہ ہے دیکھو (تواریخ محمدی صفحہ ۹ سطر۳ سے ۸) پر اُس ناکارہ قاعدہ کا استعمال ہی آپ مجھ سے طلب کرتے ہیں میرا اتنا بتلانا بس ہے کہ اہل اسلام کے علمااپنے محمد صاحب کا احوال یوں سناتے ہیں اوراُس پر ہم یوں اعتراض کرتے ہیں۔ یہ ہمارا کام ہر گز نہیں ہے کہ ہم ان احادیث کے اسناد پر بالا نظر اد نظر کریں علمااسلام جو آپ کے فن ورایت کو خوب جانتے ہیں اوراسلام میں بڑی احتیاط کے لوگ گنے جاتے ہیں جب اُنہوں نے بعد تنقیح ان روایات کو اپنی کتابوں میں درج کرلیا ہے تب اُ ن کی کتابو ں میں دکھلانا ہماری طرف سے کافی ہے تعجب کی بات  ہے کہ منشی صاحب  کے نزدیک روضتہ الاحباب اورمدارج النبوت کچھ معتبر چیز نہیں ہیں اورمولوی رحمت اللہ صاحب جو حقیقت میں اس وقت اہل اسلام کے ایک مستعداد اورمعتبر عالم ہیں ان کتابوں کو معتبر بتلا کے ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔

اورروضتہ الاحباب کا مُولف اپنی تالیف کا ماخذ یوں بتلاتا ہے کہ (از کتب تفاسیر وسیر وحدیث وموالید وتواریخ انچہ ثبوت پیوستہ از سیرت حضرت ومقدمات وممتمات وماتیعلق بہاوازاحوال مشاہیر اہل البیت وصحابہ وتابعین وتبع تابعین وایئہ حدیث الخ۔

پھر شا ہ عبدالحق محدث دہلوی نے نہایت احتیاط کے ساتھ اپنے گمان میں صحیح استخراج کرکے اُسے روضتہ الاحباب وغیرہ سے اپنے مدارج النبوت لکھی  ہے۔ اوریہ دونوں مُولف ایسے معتبر محمدی عالم ہیں کہ منشی صاحب اوردیگر علما محمد یہ جو اس وقت ہندو ستان میں ہرگز اُن کی ہم پایہ نہیں ہیں پھر منشی صاحب کیونکر ان کتابوں کو حقیر بتلاتے ہیں۔

ہم یہ کہتے کہ تواریخ محمدی کے لکھنے میں جس استخراج کی اُمید منشی صاحب ہم سے رکھتے تھے اُن کی امید کا منشا ان مولفوں نے پورا کرکے اپنی کتابیں لکھی ہیں اوراس لئے میں نے اُن کی کتابوں کو اپنا ماخذ بنایا ہے ۔ یہ کیا بات ہے  اپنے بزرگ عالمو ں کے استخراج کو حقیر جانتے ہیں اورخود استخراج کی طاقت نہیں رکھتے اورعیسائیوں کو تکلیف دیتے ہیں کہ وہ اُن کے لئے استخراج جدید سے دین محمدی کو ثابت کریں۔

میں نے تواریخ لکھتے وقت اگرچہ کئی کتابوں پرنظر رکھی ہے خصوصاً اُس عربی کتاب پربھی جو شفا اوراُس کے شروع معتبرہ  سے ہشامی و شامی اورحلبی وغیرہ سے صحت کے ساتھ انتخاب کرکے ایک مشہور عالم احمد وحلان نے ۱۲۷۸ہجری میں درمیان مدینہ شہر کے لکھی ہے جس کا نام سیرت النبی ہے اور ۱۲۸۵ ہجری میں درمیان دوجلد کے شہر مصر میں چھاپی گئی ہے تو بھی میں نے اُس کا حوالہ اس لئے نہیں دیا کہ عام لوگوں کو وہ کتاب ہر کہیں ہاتھ نہیں آسکتی ہے پر یہ فارسی کتابیں معتبر محمدی بزرگوں کی ہرکہیں مل سکتی ہیں اوریہ دونوں کتابیں عطر ہیں تمام سیر کی کتابوں کا۔

کیا منشی صاحب شاہ عبدالحق محدث دہلوی سے بھی بڑے محقق ہیں کیا اُن کی نسبت زیادہ احتیاط کے شخص ہیں یاعلم حدیث وسیر میں اُس  سے زیادہ واقف ہیں پھر کیا اُس سے زیادہ اسلام کے حمایتی ہیں اس کا انصاف ناظرین کی تمیز کرسکتی ہے پس جبکہ اسلام کے معتبر حمایتی نے جو خود محدث ہے اور جس کی خوشیہ چینی سب علماء ہند کرتے ہیں روضتہ الاحباب کو معتبر ماخذ جان کے اپنےمدراج اُس سے لکھی ہے توہمارے لئے بحث کے مقام پر اورکوئی بھی کتاب ایسی معتبر نہیں ہوسکتی جیسی روضتہ الاحباب ہے ۔

منشی صاحب اتنی درد سری ناحق کرتے ہیں جبکہ صرف قرآن سے جو اسلام میں سب فرقوں کی متفق علیہ کتاب ہے یہ بات خوب ثابت ہوچکی ہے کہ محمدصاحب خُدا کی طرف سے رسول نہ تھے اور کہ اُن کا چلن قرآن سے ہرگز اچھا ثابت نہ ہوا اوراُن کی تعلیم میں نقصان  پایا گیا چنانچہ ہدایت المسلمین کی آخری فصلوں میں بیان ہوچکا ہے جس کا جواب منشی صاحب نے اب تک نہیں دیا تو پھر ہمیں حدیثوں میں جو پیچھے قلمبند ہوئی ہیں اتنی بڑی تحقیقات کی کیا ضرورت ہے جو کچھ اُن کے بزرگوں کی کتابوں میں دیکھتے ہیں وہی ہم بھی نیک نیتی سے  دکھلاتے ہیں جناب منشی صاحب اپنا ہی پیسہ کھوٹا توپر کھنے والے کا کیا دوش۔

باقی اسپرنگر صاحب کا قول جو آ پ نے نقل کیا ہے اگر آپ کو پسند ہے تو مانیں میں تو اُسے نادرست جانتا ہوں کیونکہ خلاف عقل بھی ہے شاید منشی صاحب نے درست ترجمہ نہ کیاہوگا۔

کیا کوئی منصف حاکم کسی مقدمہ میں متعدد گواہوں کی گواہی کو رد کرکے صرف اپنے خیال پر یا ایک کی گواہی پر جو سب کے خلاف ہے فتوی دے سکتا ہے ہر گز نہیں۔

لطف یہ ہے کہ منشی صاحب اپنے اصول حدیث پر بہت زور دیتے ہیں اورپھر اسپر نگر صاحب کا قول جو اصول حدیث کی خلاف ہے پیش کرکے اُس کی تعمیل بھی کرواناچاہتے ہیں۔ طرق متعدد ہ سے جو حدیث آتی ہے اصول اُسے معتبر حدیثوں میں شمار کرتا ہے اسپر نگر صاحب کا قول اُس کے خلاف ہے۔

منشی صاحب کی اس تعلیق سوم کا منشا یہ ہے کہ جو جو مقام مورد اعتراض تھےاُن کی اسناد پر مُولف کو بالا نفراد نظر چاہئے تھی اورجو مقام مورداعتراض نہ تھے اُنہیں یوں ہی نقل کرتا چلا جاتا تو مضائقہ نہ تھا یعنی میری بھلائیو ں کو بے تامُل قبول کرلے اورمیری برائیوں پر کسی طرح تاویلات کا پردہ ڈالے پر یہ منصف آدمی سے کب ہوسکتا ہے یہ اعتراض منشی صاحب کا اُنہیں کے بزرگوں پر عاید ہے نہ اُس پر جو اُن کے اقوال نقل کرتا ہے ۔

۴۔تعلیق

اس تعلیق میں وہی بات ہے جو اوپر کی تعلیق میں منشی صاحب نے بیان کی ہے کتاب بڑھانے کو وہی بات پھر دوسری عبارت میں لکھدی ہے ۔

۴۔ تقلیع

اس تعلیق کا جواب بھی وہی ہے جو اوپر بیان ہوا ہاں ایک بات اس میں نئی ہے کہ روضتہ الاحباب کو منشی صاحب نے ایک قصہ کی کتاب بتلایا ہے۔میں بھی ایسی ہی سمجھتا ہوں کہ سب محمدی کتابیں قصہ ہیں پر تعلیقات قصہ نہیں ہے وہ قصہ پر جھگڑا ہے پر جھگڑے کا فیصلہ میں یوں کرتا ہوں کہ محمدی عالموں نے محمدصاحب کے بہت سے قصے سنائے حلبی ہشامی واقدی وغیرہ بھی لیکن اُن سب قصوں میں سے انتخاب کیاہوا یک قصہ روضتہ الاحباب بھی ہے اوراُس قصہ میں یوں یوں لکھا ہے اوراُس پر ہمارے یہ اعتراض ہیں اُن کا جواب کوئی مسلمان دئے منشی صاحب یوں جواب دیتے ہیں کہ ۔ روضتہ الاحباب غیر معتبر قصہ ہے ہم کہتے ہیں کہ جو باتیں روضتہ الاحباب میں لکھی ہیں وہی باتیں ادنیٰ فرق کے ساتھ سب کتب سیر میں لکھی ہیں اگر روضتہ الاحباب کی باتیں غیرمعتبر ہیں توکل کتابیں علم سیر کی بھی غیر معتبر ہیں کیونکہ سب کا بیان یکساں ہے ۔

پہلے تو منشی صاحب اُس قصہ کو مانے بیٹھےتھے جب اُس پر اعتراض سنے تو معترض سے جھگڑا کرنے کو اُٹھے اورجھگڑا یوں کرتے ہیں کہ ہمارے بزرگ جھوٹ سچ سب کچھ لکھتے آئے ہیں تم سُننے والوں کو چاہئے کہ جہاں تک اعتراض وار دنہ ہو مان لیا کرو اورجہاں اعتراض کی جگہ آئے اُس کی صحت میں فکر کرو اور تحقیق یوں کرو کہ خود محدث بنو اور محمد صاحب کی نسبت نیک گمان کرکے تاویلات کرو کیونکہ وہ فرضاً بھلے ہیں۔

منشی صاحب کی تحریر سے ایک اچھا خیال میرے ذہن میں آیا کہ اگر خُدا فرصت بخشے تو صرف قرآن سے ایک تواریخ محمدی نکالنا چاہئے پر وہ بھی تواریخ محمدی کے نسبت اہل اسلام کے لئے زیادہ مضر ہوگی اور وہاں بھی منشی صاحب ایک جھگڑا کرسکتے ہیں کہ اس آیت کی اس تفیسر کو نہ مانو اُس تفسیر کو مانو۔

۵۔ تعلیق

مُولف نے ارباب سیر کا ذکر نہیں کیا محدثیں کا ذکر کیا ہے جو فقہہ کے طورپر احادیث کی ترتیب کرنے والےہیں۔

۵۔ تقلیع

محدثین کا ذکر جو دیباچہ میں ہے وہ دوسرے حصے کی رعایت سے لکھا گیا ہے جو فقہہ یا تعلیم محمدی ہے اوروہ تصنیف تو ہوچکا ہے پر اب تک چھپانہیں اُمید ہے کہ ا ب چھپے گا اورارباب سیر کی فہرست اس لئے نہیں لکھی گی کہ تواریخ محمدی کوئی نئی کتاب نہیں ہے وہ انتخاب اورخلاصہ ہے خاص ایک معتبر محمدی کتاب کا پس یہ تعلیق بھی منشی صاحب کی ناجائزہے۔

۶۔ تعلیق

حدیثوں کا مرتبہ نہیں دکھلایا کہ کونسی معتبر اورکونسی کم معتبر ہیں اوراپنی کتاب کے مضامین ہر قسم کے ساتھ منسوب کرکے نہیں بتلائی ۔

۶۔ تقلیع

حدیثوں کے مراتب اعتبار اُ ن کی تعریفات سے جو مذکور ہیں خود ظاہر ہیں فضول عبارت بڑھانےسے کیا فائدہ تھا اور جس مطلب سےاحادیث کا ذکر آیا ہے جہاں وہ مطلب آئیگا یعنی حصہ دوم میں تو وہاں تعلیمات کو کسی نہ کسی حدیث کی طرف آپ منسوب ہی پاینگے کیونکہ تعلیم محمدی کی بحث اس بات کی محتاج ہے اہل اسلام کے لئے پر تواریخ ِمحمد ی کے مضمون اس انتساب کے محتاج نہ تھے کیونکہ وہ خلاصہ اورانتخاب ہے ایک اہل اسلام کی عمدہ کتاب کا۔

۷۔ تعلیق

محمدصاحب کا احوال دریافت کرنے کےلئے صرف دو ماخذ ہیں یعنی قرآن اورحدیث ۔

۷۔تقلیع

انہیں دو ماخذوں سے تواریخِ محمدی لکھی گئی ہے پر میں نے آپ جرات کرکے ان ماخذوں میں ہاتھ بھی نہیں ڈالا اس خیال سے کہ محمدی لوگ یوں نہ کہیں کہ تونے عناد کے طورپر اخذ کیا ہے پر میں نے احتیاط کی راہ سے اہل اسلام کے بزرگوں کے اخذ سے انتخاب کیااور یہ دیکھلایا کہ محمد صاحب کے حالات کی جو دو معتبر ماخذ ہیں یعنی قرآن اورحدیث اُن سے خود محمدی  بزرگوں نے یہ اخذ کیا ہے اورخود محمدیوں نے ہمیں یہ اخذ دیا ہے اس پر ہمارے  یہ اعتراض ہیں جن کے جواب سے وہ لاچار ہیں۔

کوئی تیسرا ماخذ میں نے نہیں بنایا مگر خود منشی صاحب نے اپنے تعلیقات میں ایک تیسرا ماخذ بھی دکہلایا ہے یعنی انگریزوں کے قول جو نہ حدیث ہیں نہ قرآن ۔

۸۔ تعلیق

جناب سیر میور صاحب لکھتے ہیں کہ محدثیں اپنے کام میں دیانتدار تھے لیکن عمادالدین اُنہیں بے دیانت بتلاتا ہے اوراُن کی بات کا اعتبار نہیں کرتا۔

۸۔ تقلیع

صاحب میں اُنہیں اُن کے کام میں ہر گز بے دیانت نہیں کہتا اور چور یا  جعلسازبھی ہر گز نہیں بتلاتا ۔

مگر یہ کہتا ہوں کہ یہ فن ہی ناکارہ شئے ہے جن قواعد اصولیہ اپنے سے اُنہوں نے بڑی محنت اوردیانت کے ساتھ تحقیق کی ہے ۔ وہ قواعد ہی ایسے نہیں ہیں کہ آدمی کو غلطی سے بچایں دیکھوتواریخ ِمحمدی ۹ صفحہ سطر ۳سے ۸۔

۹۔تعلیق

(۱)متواتر اورمعتبر اخبارات ہی سے تواریخیں جہاں کی لکھی گئی ہیں ۔

(۲)اخبار احاد بھی کچھ مفید ہیں۔

(۳)تعددطریق احادیث بھی اسناد کی بناوٹ کو باطل کرتا ہے۔

(۴)ایسا شبہ ْجُز واحدپرہوسکتا ہے نہ سب قسم کی حدیثوں پر۔

۹۔ تقلیع

بیشک متواتر ومعتبر بلکہ ہر قسم کے اخبارات سے تواریخیں دُنیا میں لکھی جاتی ہیں اوربادشاہوں کے حالات اسی طرح سے قلم بند ہوتے ہیں اوریہ بھی سچ ہے کہ اخبارات احاد بھی کسی قدر مفید ہیں ۔ مگر یہ سب علم جو اس طریقہ سے حاصل ہوتا ہے اس کے یقین کا ایک اور ہی عام درجہ ہے جس میں احتما ل صدق وکذب قائم رہتا ہے اسناد میں یا واردات کے وقوع میں یا نہج وقوع میں امکان غلطی کے سبب سے اوراسی سبب سے منشی صاحب علمِ سیرمیں خود رطب ویا بس کے قائل ہیں پس اسی طرح سب بادشاہوں کے تواریخیں بھی جو اُن کا علم سیر ہے رطب یا بس سے بچاہوا نہیں ہے ۔

پر وہ علم اوروہ اخبارات یا وہ علم سیر جس پر انسان کی رُوح کی زندگی کا مدار ہے یعنی دینیات کے واقعات اس دنیا وی تواریخات کے مرتبہ کی معلومات نہیں ہوتی ہیں تواریخات کے یقینیات کی نسبت یہ یقینات دینیہ زیادہ ترثبوت کے محتاج ہیں کیونکہ رُوح کی آبادی یا بربادی کے موقوف علیہ ہیں۔

یہاں معتبر گواہوں کے دید اورشنیدبلاواسطے اوراُن  کی اپنی تحریر اورزبردست تحریر درکار ہے نہ عام تواریخوں کے موافق ۔ دیکھومنشی صاحب محمدی دین کے علوم یاحالات کو دنیا کے دیگر علوم تواریخیہ کے مانند بتلاتے ہیں میں اسے مانتا ہوں کیونکہ ایسا ہی ہے لیکن دین عیسائی کے علوم علم تواریخ کے عام درجہ سے زیادہ ترممتاز یقینا ت ہیں اورانہیں کی نسبت محمدی دین کے واقعات کے یقینا ت کوہم کمتر بتلاتے ہیں۔

عیسائی دین کے یقینات معتبر گواہوں کی دید اورشنیداوراُن کی اپنے تحریرات سےجو نہایت زبردست تحریر ہے یہ علوم مسیحیہ اس اعلیٰ درجہ کو پہنچے ہوئے ہیں کہ کامل یقین رُوح میں پیدا کرکے احتمال کذب کا مطلق دفع کرتے ہیں اورصدق کا نہ صرف احتمال دکھلاتے ہیں مگر عین الیقین بخشتے ہیں۔

پھر منشی صاحب کہتے ہیں کہ تعدد طرق بھی اسناد کی بناوٹ کو باطل کرتا ہے یہ سچ بات ہے مگر میں نے نہیں کہا کہ اسناد کا طریقہ مطلق باطل ہے پر اہل حدیث کے اسناد کے طریقہ پر میرا اعتراض ہے میں جانتا ہوں کہ وہ شُنیدہے بالاواسطہ اوراحتمال صدق وکذب کا جاتا نہیں رہتا ہے ۔

اورتعدد طرق اگرچہ سند میں کچھ جان ڈالتا ہےتو بھی نفس حدیث بامتن حدیث کو سقم کو دور نہیں کرسکتا اوروہ حدیثیں جو تعدد طرق سے ثابت ہیں نہایت کم ہیں اوریہ کچھ بات بھی نہیں ہے ۔

پھر منشی صاحب فرماتے ہیں کہ بناوٹ کا شُبہ جُزواحد پر ہوسکتا ہے نہ ہر قسم کی حدیث پر ۔

جواب یہ ہے کہ ہرقسم کی حدیث حدیث ہے اورہر حدیث اگر زیادہ سے زیادہ فائدہ بخشے تووہی درجہ دکھلادیگی جو علم ِتواریخ کا درجہ ہے اورعلمِ تواریخ کے درجہ پر تو ہم احادیث محمدیہ کو مان سکتے ہیں اوراسی واسطے ہمیں یقین بھی کچھ ہے کہ محمدصاحب کی تواریخ یہی ہے جوبندہ نے لکھ دی ہے ۔

پر فضیلت میں مبالغی اورمعجزات کا بیان اگرچہ محدثین کرتے ہیں پروہ دوسری قسم کے دلائل سے ردکئے جاتے ہیں نہ صرف حدیث ہونے کے سبب سے اگرچہ ایک سبب یہ بھی ہے ۔

۱۰۔تعلیق

محمد صاحب کے معجزے تین قسم کے ہیں قرآنی جوقرآن سے ثابت ہیں تو اتری جو احادیث متواترہ سے ثابت ہیں احاؔدی جو روایات احاد سے ثابت ہیں ہر عقلمند اس بات کو مانے گا۔

پرمعجزات کے ردمیں  عمادالدین نے جو ۶ دلیلیں سُنائی ہیں اُنہیں میں سے (۵،۴،۳)دلیل اخبار احاد پر واقع ہے نہ دوسری قسم کی احادیث پر ۔

اور(۶،۲،۱)دلیل تواریخی واقعات پر ناکارہ ہے وہ اعتقادی باتیں ہیں کہ ہر مخالف اپنے مخالف کے حق میں کہہ سکتا ہے ۔

۱۰۔ تقلیع

اس تعلیق کا سار ا بیان ناکارہ ہے یہاں سے خوب ثابت ہوگیایا کہ اُن چھ دلیلوں کے جواب اہل اسلام کےپاس کچھ نہیں ہیں ناظرین پہلے خود اُن جملہ دلیلوں کو تواریخِ محمدی میں غور سے دیکھ لیں اُس کے بعد منشی صاحب کا بیان اس تعلیق میں سُنیں۔

(۵،۴،۳)دلیل کا منشی صاحب نے یہ جواب دیا کہ یہ دلیلیں ہمارے اخبار احاد پر واقع ہیں یہ کیا عمدہ جواب ہے منشی صاحب بہت ہی جلدی ان دلیلوں  کے جواب کی بوجہ سے سبکبار ہوگئے ۔

کیا حقیقت میں یہ اخبار احادپر واقع ہیں ناظرین آپ ہی انصاف کرسکتے ہیں شاید منشی صاحب نے غور نہیں کی یاغصہ کے سبب اُن دلیلوں کا مطلب ذہن میں نہ آیا۔

(۶،۲،۱)دلیل کو منشی صاحب نے امر اعتقادی بتلادیا اوریوں ان کی بوجہ کے نیچے سے نکلے ۔ منشی صاحب کو امر اعتقادی اورامر عقلی میں فرق کرنا چاہئے تھاپس اب میں کہتاہوں کہ جناب منشی صاحب یہ دلیلیں امور عقلیہ میں سے ہیں نہ صرف اعتقادیات ہیں ہاںمنشی صاحب نے وہاں لفظ قرآن یا کلام اللہ کا لکھا پایا توفوراً یہ خیال کیا کہ یہ امر اعتقادی ہیں مگر دلیل کے حاصل پر نہیں سوچا کہ وہ عقلی حاصل ہے مقدمات دلائل کو امور اعتقادی جان لیا نہ امور عقلی پس یہ سمجھ کا پھیر  ہے کیونکہ اگر کلام یا قرآن کو حوالہ وہاں سے نکال د یا جائے اوروہی بات اُنہیں دوسری عبارت میں کہی جائے تب منشی صاحب جانیں گے کہ یہ عقلی دلیلیں ہیں۔

پھر کہا کہ ہر کوئی اپنے مخالف کو یہ دلیلیں سُنا سکتا ہے میں کہتا ہوں کہ بھلاآپ ہی ان دلیلوں کو ہماری مخالفت میں پیش تو کریں دیکھو ہم کیا جواب دیتے ہیں صاحب یہ تو آپ ہی کی جان کھانےوالے ہیں۔ ایک اور بڑے مزہ کی بات ہے جو منشی صاحب نے اس تعلیق میں بیان کی ہے کہ محمدصاحب کے معجزے تین قسم کے ہیں قرآنی تواترؔی احاؔدی اوراس اپنے بیان کو وہ امر عقلی جانتے ہیں نہ امر اعتقادی کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ اس کو عقلا جہاں قبول کرینگے اورعقلا ءجہاں قبول کرینگے اورعقلا ءجہاں اُن کے گمان میں وہی مسلمان ہیں جو عربی پڑھےہوئے ہیں اورمحمدصاحب کو خوب مانتے ہیں بیشک یہ عقلا توضرور اس بیان کو عقلی اورمعقول جانیں گے کہ محمدی معجزات تین قسم کے ہیں۔

میری اُمید تھی کہ ان تین قسم کے معجزات کی مثالیں بھی منشی صاحب کچھ دینگے پر کچھ بھی مثالیں نہیں دیں اوراپنے اس بھاری دعوے کے نیچے سے آپ ہی نکل گئے تو بھی میں اُن کے ان تین قسم کےمعجزات کی کچھ تشریح کردیتا ہوں۔

شاید اُن کی مراد معجزات احادی سے وہ معجزات ہوں گے جو شواہد النبوقہ وغیرہ میں صد ہا معجزے لکھے ہوئے ہیں جنکے ساتھ راویوں کا سلسلہ بھی نہیں ہے۔ اچھا صاحب وہ یا اُن کی مانند اورمعجزے احادہی ہیں اورمیری (۵،۴،۳) دلیل باقرار آپ کی اُن پر واقع ہے بھلا صاحب یہ تو آپ مان گئے کہ ان دلیلوں  سے آپ کی تیسری قسم کے محمدی معجزات برباد ہوگئے ہیں اورضرور ہے کہ آپ کے دل میں سے بھی اُن کا اعتقاد نکل گیا ہوگا یہاں میں آپ کو شاباش کہتا ہوں۔

مگردوسرے قسم کے معجزات جن کو آپ تو اتری کہتے ہیں اورمیری چھ دلیلوں کے الزام سے بچے ہوئے بتلاتے ہیں لازم تھا کہ اُن  کو معرض بیان میں لاتے اوراُن کا تواتر دکھلاتےلیکن منشی صاحب ایسے معجزے کہاں سے لائیں ایک بھی ایسا معجزہ نہیں ہے جو تواتر سے ثابت ہو اور اِسی واسطے منشی صاحب مثال نہیں دے سکے وہ جان گئے کہ اگر کوئی معجزہ حدیث کا تواتر کے دعوےٰ سے  پیش بھی کرونگا تو عیسائی تو اتر کا ثبوت طلب کرینگے جو دینا محال ہے اوراس بارہ سو برس میں کسی محمدی کی مجال نہیں ہوئی کہ تواترسے کوئی معجزہ ثابت کردئے اس لئے منشی صاحب صرف تقریری میں دعوےٰ کرکے چُپ رہ گئے اورچُپ رہنا مناسب بھی تھا (ف) ناظرین کو خوب معلوم ہوجائے کہ مسلمانوں کے علم اصول حدیث کے موافق متواتر حدیثیں چند ہیں مثل الاعمال بالنیات) وغیرہ کے اوروہ جُدا کرکے بیان بھی کی گئی ہیں مگر اُن  میں کوئی بھی حدیث معجزات کے بارے میں نہیں ہے یہ ملانی ناحق ڈراتے ہیں ان سے بے خوف کہنا چاہئے کہ دکھلاؤ یاوہ کونسے معجزے ہیں جو تواتر سے ثابت ہیں ۔ان لوگوں نے تواتر کے معنی تو اپنے اصول میں دیکھے  ہیں مگر کبھی معجزات کے حدیثوں کے سلسلہ میں توا تر پر فکر نہیں کیا تو اتر کا ثابت کرنا  آسان بات نہیں ہے اب دیکھو احادی معجزے منشی صاحب کے (۵،۴،۳)دلیل سے برباد ہوگئے اورتواتری کا وجود ہی جہاں میں نہیں ہے اب دو قسم کے معجزے تو اُڑ گئے۔ رہے قرآنی معجزے تو اُن پر غور کرنا چاہئے ۔

منشی صاحب نے اپنے قرآنی معجزوں میں سے ۱۳ معجزے بیان کئے مگر نہایت دبے دبے الفاظ میں باریک قلم سے حاشیہ کے درمیان لکھے ہیں کیونکہ رکیک باتوں کا جلی عبارت میں لکھنا ذرا مشکل تھا مگر میں تواُنکے حاشیہ کو بھی متن ہی جان کے پڑہونگا۔

(۱)

(الصفات آیت۱۵)
وَقَالُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ

کہتے ہیں کہ یہ تو صاف جادو ہے ۔

منشی صاحب کو خیال گذرا کہ حضرت نے کوئی معجزہ دیکھلایا ہوگا جسے لوگوں نے سحر کہا ہے پس معجزہ نامعلوم پر ایمان لائے ۔ شاید اس کو بھی اُنہوں نے کوئی بھید سمجھا جو انسان پر ظاہر نہیں ہوسکتا ہے اورمعجزہ کا خیال لفظ سحر سے آیا پر جس علم اصول حدیث پر نازاں ہیں وہا ں لفظ مشترک المعنی کو مطلب واحد پردلیل قطعی بنانا نا جائز ہے اور یہ عقلی قاعدہ ہے پر معجزہ نامعلوم ہاتھ سے نہ جانے پائے اس لئے یہاں کچھ پر واہ اصول کے نہیں کی سحر کے معنی ہیں جاود گری اورعمدہ دلچسپ بیان اورشعبدہ بازی ۔ مکاری دھوکا وغیرہ ۔

(۲)

(سورہ يس آیت۴۶)
وَمَا تَأْتِيهِم مِّنْ آيَةٍ مِّنْ آيَاتِ رَبِّهِمْ إِلَّا كَانُوا عَنْهَا مُعْرِضِينَ

اورجو حکم اُنہیں پہنچتاہے اپنے رب کے حکمو ں میں سے وہ اُسے ٹلادیتے ہیں ۔

پس آیات کے معنی یہاں فقرات یا احکام کے ہیں نہ معجزات کے ۔

(۳)

( سورہ قمر آیت۲)
سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ

قدیمی جادو

یعنی وہ جادو جو ہمیشہ سے چلا آتا ہے یعنی کوئی خرق عادت نہیں ہے اُسی قسم کے کام میں جو ہم عرب کے لوگ ہمیشہ مکاروں میں دیکھتے ہیں یعنی وہ عام دغا بازی کی قدرت جوہمیشہ عرب میں دیکھی گےیہ آیت نص ہے اس بات پر کہ جو کام اُنہوں نے دیکھا تھا وہ خرق عادت نہ تھی بلکہ کوئی شعبدہ بازی تھی جس کے دیکھنے سے نہ حیرت ہوئی مگر صاف کہاگیا کہ معمولی بات ہے عام شعبدہ بازی ہے نہ خر ق عادت لفظ مستمر نے یہاں بھی سحر کی کیفیت اوڑادی۔ اگر کہا جائے کہ اُس پر لفظ شق القمر کا موجود ہے سوجاننا چاہئے کہ ا نشق بمعنی سنیشق ہے یعنی قیامت کو پھٹے گا کیونکہ الف لام الساعتہ کا بتلاتاہے کہ عین دن قیامت کا مراد ہے اور دو فعل ماضی یعنی اقترب وانشق بھی ملکر استقبال کا ذکر کرتے ہیں اوروہ روایت حدیث کی کہ پھٹ گیا تھامتواتر نہیں ہے بلکہ قول احادمیں ہے جومنشی صاحب کے نزدیک بھی ردہیں اوردلیل اس کی کہ روایت متواتر نہیں ہے یہ عبارت مدارک کی ہے کہ لوظہر عندہم لنقلو امتواتر اً لان الطباع جبلت علے نشراالعجائب لانہ یجوزان یحجب الیہ عنہم بغہیم یعنی کوئی نہ کہیں کہ اگر چاند پھٹ جاتا تواہل اقطار پر چھپانہ رہتا اوراگر اُنہیں معلوم ہوتا تومتواتر نقل بھی کرتے (حالانکہ متواتر روایت اس کی نہیں ہے کیونکہ انسان کی جبلت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ عجائب باتوں کو مشہور کردیتا ہے پس جواب یہ ہے ممکن ہے کہ خُدا نے بادل کر کےاُن سے اس معجزہ کو چھپایا ہو یعنی کونے میں چُپکے سے یہ معجزہ کیاہوگا۔

(۴ )

(سورہ صف آیت ۶ )
فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ

بعض قرآنوں میں ہے ساحر مبین ترجمہ حضرت عیسیٰ کہہ گئے تھے کہ میرے بعد ایک نبی آئے گا اُس کا نام احمد ہوگا پر جب وہ آیا کُھلی نشانیاں لیکر تو کہنے لگے کہ یہ جادو ہے ظاہر ۔لفظ سحر کےمعنی پہلے معجزہ میں مذکور ہوچکے ہیں پر یہاں ایک لفظ بینات کے اور ہے اُس کے معنی ہیں کھُلی ہوئی باتیں عام ہے کہ فقرات قرآن جو ظاہر ہیں وہ بینات ہیں یاوہ دلیلیں ہیں جن میں سے ایک کا ذکر اُوپر ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ نے بشارت دی تھی حالانکہ محض غلط ہے حاصل آنکہ بینات سے مراد معجزات تو ہرگز نہیں ہیں کیونکہ کوئی بھی معجزہ ظاہر نہیں ہے اگر معجزات ہیں بھی بقول منشی صاحب کے تونامعلوم اورمبہم گول گول معجزے ہونگے جن پرلفظ بینات صادق نہیں آتا ہاں اُن کا یہ کہنا کہ یہ جادو ہے ظاہر یا محمد جادو گر ہے ظاہر اس کے معنی یہ ہیں کہ اُس کی باتیں صاف مکاری کی ہیں یا وہ صاف مکار ہے جس میں معجزہ کااحتمال بھی نہیں ہوسکتا۔

(۵)

(سورہ بقرہ آیت ۱۱۸)
قَدْ بَيَّنَّا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ

ہم نے بیان کی ہیں قرآن کی آیتیں واسطے اُس قوم کے جو یقین کرتی ہے ۔

یا آنکہ ا گلے پیغمبروں کے معجزا ت کا ذکر ہم نے سنایا ہے اُ س قوم کے لئے جو یقین رکھتی ہے پس یہاں سے کیونکہ  معلوم ہوا کہ حضرت صاحب معجزات تھے۔

(۶ )

(سورہ بقرہ آیت ۹۹)
وَلَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ  وَمَا يَكْفُرُ بِهَا إِلَّا الْفَاسِقُونَ

اورہم نے اُتارے تیری طرف کھُلے فقرے قرآن کے اورنہ مُنکر ہوں گے اُن سے مگر فاسق لوگ ۔

یہاں لفظ آیات بمعنی فقرات ہے نہ معجزات ۔

(۷)

( آل عمران۔ آیت ۸۶)
كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ وَشَهِدُوا أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ

کیونکہ اللہ ہدایت کرے گا ایسی قوم کو جو ایمان لاکر کافر ہوگئی اورگواہی دے چُکی تھی کہ رسولِ حق اورپہنچ چُکی تھیں اُنہیں نشانیاں ۔

بینات کے معنی جلالین میں لکھے ہیں (الحجج الظاہرات ) یعنی کھلیں حجُتیں مگر معلوم نہیں ہے کہ وہ کیاکیا حجتیں تھیں بظاہر وہی حُجتیں ہونگی جو اب اہل اسلام سُناتے ہیں مثلاً فضاؔحت قرآٓن غلبہ شمشیر ملک گیری استقامت پر دعوے یا شاید کوئی معجزہ بھی ہو جو نامعلوم ہے پھر بینات کے مغی مدارک میں لکھے ہیں (الشواہد کا لقران وسائر المعجزات) یعنی لفظ بینات کے معنی ہیں قرآن اورسب محمدی معجزات یعنی کل معجزات محمد یہ کا مجموعہ وہ لوگ انکار سے پہلے ہی دیکھ چُکے تھے جس کی تفصیل کوئی نہیں جانتا ۔

پھر تفسیر حسینی میں ہے (وجاء ہم البنیات ) وامدہ بود بدیشان ایت ہائے روشن یعنی قرآن یا معجزات پیغمبر ۔ پس ناظرین کو انصاف کرنا چاہئے ۔ خُدا کو جان دینی ہے کہ جب تک ٹھیک معلوم نہ ہو کہ آیا و ہ معجزات تھے یا دوسری حجتیں تھیں اوراگر معجزات تھے تو کیا کیا تھے اورکیونکر وقوع میں آئے تھے جب تک صاف بات معلوم نہ ہو تب تک قطعیت کا حکم دینا منشی صاحب ہی کاکام ہےہمارا کام نہیں ہے کیونکہ ہم لوگ اپنا ایمان ہر وہمی بات پر نہیں رکھتے ہیں۔

(۸)

(انعام آیت ۱۲۴)
وَإِذَا جَاءَتْهُمْ آيَةٌ قَالُوا لَن نُّؤْمِنَ حَتَّىٰ نُؤْتَىٰ مِثْلَ مَا أُوتِيَ رُسُلُ اللَّه

جب آتی ہے اُنکے پس کوئی آیت تو کہتے ہیں کہ ہم گز نہ مانیں گے جب تک ہمیں نہ ملے جیساپاتے ہیں اللہ کے رسول ۔

یعنی جب قرآن کی آیت اُن کو سُنائی گئی تو وہ کہنے لگے ہم نہ مانے گے جیسے قرآن محمد پر اُترتا ہے ایسی ہم پر کیوں نہیں اُتر تا پس ہم اس آیت کو یعنی قرآن کے فقرہ کو جو محمد لایا ہے کلام ا للہ نہیں جان سکتے یہاں کچھ ذکر معجزہ کا نہیں ۔

حسینی میں لکھا ہے چون بیاید بکفار قریش آیتے از قرآن یا معجزہ دراثبات نبوت ۔ یعنی درست معلوم نہیں ہے کہ آیت سے مراد کیا ہے مدارک میں ہے (آیتہ )ان معجزہ اوایتہ من القرآن یعنی ٹھیک معلوم نہیں ہے پس کیا اب منشی صاحب کی خاطر سے آیتہ من القرآن کو چھوڑ کر معجزہ ہی ماننا چاہئے ۔

(۹ )

(یونس ۔آیت ۲)
قَالَ الْكَافِرُونَ إِنَّ هَٰذَا لَسَاحِرٌ مُّبِينٌ

یعنی جب محمد کو ہم نے بھیجا ڈرانے اورخوشخبری سُنانے کو توکافروں نے کہا یہ تو صریح جاود گر ہے

یعنی سحربیان شخص ہے یا صاف صاف مکار ہے یعنی اُس کی مکاری ایسی صاف ہے کہ معجزہ کا احتمال نہیں ہوسکتا جلالین میں لکھا ہے (قال الکافرون ان ہذا لقران المشتمل علے ولک وسحر مبین بین وفی قراۃ لسا حرو مشار الیہ) النبی تفسیر بیضیادی میں لکھا ہے (ان ہذا) یعنون الکتاب وماجاء بہ الرسول یعنی یہ سحر بیان شخص ہے یا اسکی تقریری جادو کی تقریر ہے جیسے سب خوش بیان لوگوں کی نسبت کہا کرتے ہیں۔

(۱۰)

(ص۔ آیت ۴)
وَقَالَ الْكَافِرُونَ هَٰذَا سَاحِرٌ كَذَّابٌ

کہا کافروں نے کہ محمد جاود گر ہے بڑا جھوٹھا۔

(۱۱ )

(حدید۔ آیت۹)
هُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ عَلَىٰ عَبْدِهِ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ لِّيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ

خُدا وہی ہے جو اُتارتا ہے اپنے بندہ پر صاف فقرے قرآ ن کے تاکہ نکالے تمکو اند ھیرے سے طرف روشنی کے۔

آیات بینات کے معنی جلالین نے قرآن بتلاے ہیں معجزہ کا یہاں کچھ ذکر نہیں ہے ۔

(۱۲)

(بقرہ۔رکوع ۲۵)
فَإِن زَلَلْتُم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَتْكُمُ الْبَيِّنَاتُ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

اگر تم گمراہ ہو جاؤبعد اس کے کہ پہنچ چکے تمکو صاف حکم تو جان رکھو کہ اللہ ہے زبردست حکمت والا۔

یہاں کچھ ذکر معجزہ کا نہیں ہے۔

(۱۳)

( زخرف آیت۰ ۳)
وَلَمَّا جَاءَهُمُ الْحَقُّ قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ وَإِنَّا بِهِ كَافِرُونَ

یعنی جب پہنچا اُن کے پاس سچا دین تو کہنے لگے کہ یہ جادو ہے ہم اس کو نہ مانیں کے یعنی مکاری کی  باتیں ہیں

یہا ں بھی معجزہ کا کچھ ذکر نہیں ہے ۔

اب منشی صاحب کے ۱۳ معجزے قرآنی بھی تمام ہوگئے یہ وہ اعلیٰ درجہ کے معجزے تھے جو متواتر معجزوں سے بھی بلند تھے ۔ ہم ان کے بارے میں زیادہ نہیں لکھتے مگر اتنا تو کہتے ہیں کہ منشی صاحب نے پہلے خود قرآن میں اورتفسیر وں میں اُن کی بابت نہیں دیکھ لیا۔ اگر کسی آدمی کی تمیز ان کو معجزات سمجھ کر قبول کرتی ہے تو وہ اپنا بیش بہا ایمان محمد صاحب کے حوالہ کرےپر ہم تو ان کو توہمات کہتے ہیں۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ لفظ سحر یا آیات بینات سے کبھی معجزہ  پر اشارہ نہیں ہوسکتا ہو تو سکتا ہے پر جب کہ اوپر کسی معجزہ کا صاف صاف بیان ہویاکوئی قرینہ قوی ہو پر آیات مذکورہ میں ایسا کہیں نہیں ہے ۔

مثلاً یہاں آیات کا لفظ خاص معجزات کے معنی میں ہے کہ (مامنعنا اِ ن ترسلہ بالآیات الاان کذب بھا الاولون) ۔یعنی ہم نے محمد کو اس لئے معجزے دیکر نہیں بھیجا کہ پہلے لوگوں نے اگلے پیغبروں کے معجزات کی تکذیب کی تھی۔ پس ہم نے کہا کہ معجزات سے کیا فائدہ ہے آگے دنیا میں اُن سے کچھ فائدہ نہیں ہوا اب بھی نہ ہوگااس لئے محمد صاحب کو بغیر معجزہ کا رسول بنا کر ہم نے بھیج دیا ۔ یہاں لفظ آیات معجزات کے معنی پر قطعی ہے کیونکہ دوسرے معنی اُس کے بیان ہو نہیں سکتے اورالف لام یہا ں الا یاؔت کااستغراق کے لئے پس کوئی بھی معجزہ حضرت میں نہ تھا۔

صاحب جبکہ یہ آیت صریح معجزہ کا مطلق انکار کرتی ہے تو وہ کونسا آدمی ہے کہ لفظ سحرو بینات وآیات کے معنی معجزہ قرار دےکے  وہمی معجزے جن کی کیفیت بھی معلوم نہیں ہے کہ کیا کیا تھے مان بیٹھے گا۔

اوروہ کون ہے جو ان مشترک المعنی لفظوں سے جبکہ خود مفسر انہیں مشترک لفظ  بتلاتے ہیں توقطعیت کا فتویٰ معجزوں  کی نسبت ان الفاظ سے دے گا اوراصول فقیہ وہی مانے گاجو توضیح تلویح میں لکھا ہے ۔

(ف)فائدہ ناظرین کو معلوم ہوجائے کہ اب مسلمانوں نے فصاحت وبلاغت کے معجزے کا ذکر کرنا اکثر چھوڑ دیا ہے کیونکہ اب اُنہیں بھی کچھ کچھ معلوم ہوا ہے کہ وہ معجزہ نہیں ہے اوراسی سبب سے دیکھو اب منشی صاحب نے اُس کا ذکر نہیں کیا۔

(ف) یہ بھی معلوم ہوجائے کہ منشی صاحب نے جو معجزات محمد یہ کی معقول تقسیم کی تھی اُس  میں سے اُن کی احادی معجزے جو مشہور میں منشی صاحب اُن دلائل سے آپ ہی کٹتے ہوئے مان گئے ہیں جیسے اُوپر بیان ہوچکااور تواتری معجزے جو بتلائے تھے وہ معدوم ہیں اُن کا کہیں وجود ہی نہیں ہے اوراِسی لئے منشی صاحب اُنہیں پیش بھی نہیں کرسکتے تھے پس وہ یوں گئے ۔ باقی قرآنی معجزے رہے تھے سو وہ بیان بالاسے توہمات ثابت ہوئے اب محمد صاحب بغیر معجزے کے بنی رہ گئےاسی واسطے میں نے تواریخ میں اُن چھ دلیلوں سے ثابت کردیا تھا کہ معجزات کا مضمون احادیث میں محض غلط ہے۔

اا۔ تعلیق

مسیح کے حالات کی کوئی اُن کی ہمعصر تحریر موجود نہیں ہے مسیح نے اپنے کلمات ومواعظ وحالات نہ توآپ لکھے نہ اپنے زمانہ قیام میں  لکھوائے اورنہ حواریوں نے مسیح کے عہد میں اپنے مشاہدات قلم بند کیئے ۔

اا۔ تقلیع

منشی صاحب نے بعض باتیں اس تعلیق میں بے فائدہ لکھی ہیں جن کی کچھ اصل نہیں ہے یا اور طرح پر ہے ۔

منشی صاحب کو دین عیسائی کے ثبوت کی دلائل سے کچھ مس بھی نہیں ہے شاید اُنہوں نے ہمیشہ مخالفوں کی تحریریں اورتقریریں دیکھی اورسُنی ہیں اورکبھی عیسائیوں کے نزدیک آکے صحیح باتیں دریافت نہیں کہیں منشی صاحب عیسائیوں پر قلِت معلومات کا داغ لگاتے ہیں (۲ تعلیق) اوراپنی معلومات کی یہ خوبیاں ظاہر کرتے ہیں۔

منشی صاحب نے اس تعلیق میں بے سروپادست اندازی کی ہے اورایسی چالاکی کام میں لائے ہیں کہ ناواقف آدمی کہے گا کہ منشی صاحب کو بہت باتیں معلوم ہیں۔ بات میں بات اعتراض پر اعتراض کرکے خوب انشا پردازی کی ہے اورایک بے اصل بات پر دوسری بے اصل بات بلکہ تیسری وچوتھی بھی جمائی ہے اوریوں ایک جال بنایا ہے تاکہ اُس میں بعض روحوں کو پھنسا کے ہلاک کریں اس مقام پر اُن کی انشا پردازی کی توہین تعریف کرتا ہوں ہاں اُنکے تہ بر تہ اعتراضوں کے جواب میں وقت خرچ کرنا فضول ہے پر اُن باتوں کے جواب دوں گا جو اُنکی زبان درازی کے اصول ہیں۔

پہلی بات

مسیح کے وقت کی کوئی تحریر موجود نہیں ہے ۔

منشی صاحب کیسی سُرخروئی کے ساتھ یہ فقرہ لکھتے ہیں جبکہ عثمان کاقران اور محدثین کی مجُلدات ہاتھ  میں لے رہے ہیں۔میں کہتاہوں کیوں صاحب ایسی تحریرکی کیا حاجت ہے جبکہ حواریوں کی تحریرات موجود ہیں جو مسیح کے ساتھ موجود تھے اور اُسی کے رسول ہیں جو انبیا سابقین سے کہیں زیادہ معزز بھی ہیں اور جوالہام اور قدرت کے ساتھ ممتاز بھی  نظر آتے ہیں  اور دنیاوی شوکت اور مزدوری کے خواہاں بھی نہ تھے پر جانثار تھے۔اگرچہ شروع میں ناچیز تھے مگرمسیح کے شاگرد اور رسول ہو کر کوئی نئی قسم کے آدمی ہو گئے تھےاور ایسے اچھے اور دانا ہو گئے کہ وہ ضرور اپنی تعلیمات کی بابت اور اپنے چلن کی بابت نہایت ہی ممتاز ہوگئے تھے۔نہ صرف ہم عیسائیوں  کے سامنے پر سارے جہان کے داناوں کے سامنے بھی اگر غور سے اُنکی طرف دیکھیں۔اُن کی تعلیم نے سارے جہاں کے معلموں کی تعلیم کو ضرور دبالیا ہے بلکہ جہاں کو اُلٹا دیا ہے اور یہ بات نہایت سچ ہے منشی صاحب پھر کہتے ہیں کہ مسیح نے خود کیوں نہ لکھا۔

صاحب خُدا نے خود توریت کیوں نہ لکھی موسیٰ سے کیوں لکھوائی یاقرآن محمد صاحب پرکیوں نازل کیاآپ خُدا نے لکھ کے کیوں نہ دیا۔

منشی صاحب یسوع مسیح  خُداوند خُدا ہے وہ انسان بن  کے انسانوں کا واجب پورا کرنے کو اورمہربانی سے صلیب پر مرکے اورمردوں میں سے جی اُٹھ کے لوگوں کو الہٰی زندگی عطا کرنے کو آیا تھا (اور لاکھوں آدمیوں نے اُس سے وہ زندگی پائی بھی ہے )۔

پس جن لوگوں کے سامنے اُس نے یہ کام کیا یعنی موا اورجی اُٹھا اورخُدا کے دہنے جا بیٹھا صعود فرما کے اُنہی سے اس واردات کا لکھوانا بھی واجب تھا تاکہ گواہوں کی گواہی کے ساتھ اپنی انجیلِ مبارک کی بشارت منشی صاحب تک بھی پہنچائے۔

پھر منشی صاحب کہتے ہیں کہ حواریوں نے مسیح کے عہد میں کیوں نہ لکھا ؟جواب یہ ہے کہ صاحب جب تک مسیح مرکے جی نہ اُٹھے اورصعود نہ فرمائےاورپیشگوئی کی تکمیل نہ کرچکے تو حواری کس طرح سے پہلے ہی لکھ دیتے جو بات اب تک واقع ہی نہیں ہوئی ہے اُسے پہلے ہی سے کس طرح بیان کریں۔ ضرور ہے کہ پہلے کوئی امر واقع ہو تب تو گواہ اُس کے وقوع یا عدم وقوع پرگواہی دیں۔ منشی صاحب چاہتے ہیں کہ گواہ وار دات کے دیکھنے سے اوراُس کے وقوع سے پہلے ہی گواہی لکھ رکھا کریں صاحب یہ دستور عیسائیوں کے اصول کا نہیں ہے ۔

دوسری بات

عین زمانہ خُداوند مسیح میں تحریر ہونے کی وجہ منشی صاحب نے یوں انشا کی ہے ۔

کہ حواری مغالطہ میں پھنس گئے تھے کہ مسیح ابھی آنے والا ہے ابھی اسرائیل کی بادشاہت کو بحال کرے گا۔ ابھی بارہ شاگرد بارہ تختوں پر بیٹھیں گے پس تحریر کی کیا ضرورت ہے دُنیا تو جلدی ہی اُلٹ پُلٹ ہونے والی ہے۔

دیکھو یہ کیسی واہیات وجہ منشی صاحب نے بنائی ہے یا ملحد کی  بات میں سے نکالی ہے تاکہ برا حملہ کریں لیکن وہ عمدہ اورسچی اورمعقول وجہ جو اوپر مذکورہے کہ (مسیح ابھی مرکے جی نہیں اُٹھے تھے اور واقعات پورے وقوع میں نہ آچکےتھے ) ذہن شریف میں نہ گذرے کیونکہ تعصب ذہن کو راستی کی طرف جانے نہیں دیتا۔

اُن آیتوں کے معنی جو منشی صاحب نے اپنے صفحہ ۲۵ پر لکھے ہیں اوراُن کی باطل نتائج اپنے متن میں بیان کیئے ہیں چاہئے کہ ناظرین بندہ کے خزانتہ الاسرار کتاب میں دیکھ لیں۔

یہ منشی صاحب کا مبالغہ بالکل غلط ہے کہ حواریوں کو ایسا اعتقاد تھا کہ اسی زمانہ میں قیامت آنے والی ہے دیکھو حواری لوگ اپنا اعتقاد قیامت کی بابت اپنی تحریر میں اپنے قلم سے اورطرح لکھتے ہیں اورمنشی صاحب اُنہیں کچھ اور ہی الزام لگاتے ہیں ۔

(متی ۲۵۔۱۹)بہت مدت کے بعد اُن نوکر وں کا مالک آیا۔ (متی ۲۵۔۵) جب دولہا  نے دیر کی سب اُونگنے لگیں اورسوگئیں ۔ پس مسیح نے تو اُنہیں سکھلایا کہ میں بہت مدت کے بعد آونگا اوروہ آپ لکھتے ہیں کہ ہمیں یوں سکھلایا۔

(متی ۲۴۔۶، ۴۸)پر اب تک آخر نہیں (اعمال ۱۔۶ سے ۸)پس اُنہوں نے جو اکٹھے تھے اُس سے یہ کہہ کے پوچھا کہ اب خُداوند کیا تو اسی وقت اسرائیل کی بادشاہت پھر بحال کرتا ہے اُس نے اُنہیں کہا کہ تمہار ا کام نہیں اُن وقتوں اورموسموں کو جنہیں باپ نے اپنے ہی اختیار میں رکھا ہے جانو لیکن جب رُوح القدس تم پر آئیگا تو تم قوت پاو گے اوریروشلم اورسارے یہودیہ اورسامریہ میں بلکہ زمین کی حدتک میرے گواہ ہوگے ۔(اعمال ۳۔۲۱) میں دیکھو کہ رسول لوگ اُس کی آمدثانی کی بابت اپنا کیااعتقاد بتلاتے ہیں یعنی یہ کہ ضرور ہے کہ آسمان اُس لئے رہے اُس وقت تک کہ سب باتیں جن کا خُدا نے اپنے سب مقدس نبیوں کی زبانی قدیم سے ذکر کیا بحال ہو ویں (۲۔پطرس ۳۔۸سے ۱۰)میں ہے کہ پر یہ بات تم پر اے پیار وچھپی نہ رہے کہ خُداوند کے نزدیک ایک دن ہزار برس اورہزار برس ایک دن کے برابر ہے ۔ پس مسیح خُداوند صاف صاف اور بار بار فرماتا ہے کہ میں بہت دیر میں آونگا اوررسول بیان کرتے ہیں کہ وہ دیر میں آئےگا اورپہلے سب نبیوں کی باتیں پوری ہوں گی اوریہ کہ دنیا کی حدتک اُس کی انجیل پر گواہی دی جائے گی۔ پھر منشی صاحب اُنہیں یہ الزام کیوں لگاتے ہیں  کہ وہ لوگ اُنہیں  دنوں میں اُس کی آمد کے منتظر تھے ا س لئے کتاب کے لکھنے میں سُست ہوگئے تھے۔

دیکھو باوجود ایسی خبروں کے جن کا ذکر اوپر ہوا کون کہہ سکتا ہے کہ اُنہیں ایسا خیال تھا کہ ابھی قیامت آنے والی ہے ۔ ۔۔۔۔

البتہ قیامت کے لئے بہت ہی تیارتھے جیسے ہم بھی اس وقت بہت ہی تیار ہیں اورہر وقت اُس کی آمد پر نظر لگی ہے کیونکہ صرف وہ ہمارا حقیقی دوست ہے ہم اُسے ہر وقت رُوح میں تاکتے ہیں پس یہ انتظاری اورتیاری اوربات ہے اوراسی وقت قیامت آنے کا یقین باندھنا  اوربات ہے جو باطل ہے ۔

دیکھو جبکہ مسیح خُداوند نے یہاں تک قیامت کی بابت فرمایا کہ قیامت کے دن کا علم کسی فرشتہ یا کسی انسا ن کو نہیں دیاگیابلکہ میری انسانیت بھی اس علم سے معرا ہے صرف میری الوہیت میں وہ علم ہے تو اب حواریوں کی انسانیت میں کہاں سے آگیا تھا کہ حوار ی یہ باتیں آپ ہی قلمبند کرکے بھول گئے تھے ہر گز نہیں یہ خیال حواریوں کا کبھی نہ تھا یہ منشی صاحب کی انشا ہے ۔ 

تیسری بات

منشی صاحب کہتے ہیں کہ جب زمانہ ممتدگذ ر گیا اورزبانی روایتوں میں ضعف آگیا اُس وقت لوگوں نے تحریری تذکروں پر توجہ کی۔

اس انشا پردازی پر غور  کرنا چاہئے کہ ایسی عبار ت بولتے ہیں جس سے کچھ معلوم نہیں ہوتاکہ آیا احادیث کی نسبت کہتے ہیں یا کلام الہٰی کی نسبت بولتے ہیں ایسی گول گول بات لکھتے ہین جس سے جاہلوں کو کلام کی نسبت شک پڑجائے ۔

پس معلوم کرنا چاہئے کہ اگر وہ احادیث مسیح کی نسبت ایسا بولتے ہیں تو سچ ہے کہ اُن کی نسبت عیسائیوں کی توجہ نہایت کم ہے اورمناسب بھی تھا کہ اُن کی نسبت توجہ کم کرتے کیونکہ حدیثیں بُری بلاہیں اورمسیح خُدا وند نے انہیں حدیثوں کی بابت یہودیوں کو الزام بھی دیا ہے کہ تم اپنی روایتوں کی سبب خُدا کے کلام کو ٹال دیتے ہو پس عیسائیوں کو نہیں چاہیے کہ حدیثوں کے بہت درپے ہوں دیکھو حدیثوں نے یہود کو اور مسلمانوں کو کس درجہ پر پہنچا رکھا ہے کیسی غلطی میں ہیں۔

ہاں اگر منشی صاحب کلام ِالہٰی کی نسبت ایسا خیا ل کرتے ہیں تو بالکل ناواقف ہیں کیونکہ حواریوں نے حدیثیں جمع کرکے یارواتیوں  کی ضعف اورسلسلے تلاش کرکے اناجیل اورخطوط نہیں لکھی ہیں یہ اُس قسم کی باتیں نہیں ہیں حواری خود پیغمبر خُدا تھے اورخُدا کے اکلوتے بیٹے کے ساتھ تھے جب وہ دنیا میں جسم کے ساتھ حاضر تھا اوراُس کے صعود کے بعد حواریوں میں خُدا کی رُوح آگئی تھی جو خود خُدا ہے پس اُنہوں نے نہ محدثوں کی مانند احادیث کی کتابیں لکھیں نہ عثمان کی مانند قرآن کو مرمت کیا بلکہ اپنے دید اورشنید رُوح سے اناجیل اور خطوط لکھےاُن کا کلام رب کا کلام ہے کیونکہ رب آپ اُن میں بستا تھا اُن کی قوت سے ظاہر ہے ۔

اسی واسطے ابتدا سے اُن کی تحریرات کو جواناجیل اورخطوط مندرجہ انجیل ہیں کلیسیا ء نے کلام اللہ مانا ہے اورحقیقت میں وہی کلام اللہ ہے ۔

منشی صاحب محمدی قرآن توقبول کرتے ہیں جسے عثمان نے لکھا جو خود پیغمبر نہ تھا اورجس نے محمد صاحب کے زمانہ کا لکھا ہوا قرآن اورابوبکر کا جمع کیا ہوا دوسرا قرآن اوربعض متفرق اورق جلا دیئے اورجب قاریوں کی کثرت دفع ہونے لگی اُس وقت قاریوں کی  زبان سے اپنی رائے کی موافق ایک قرآن انتخاب کرکے عرب کو دیا جس پر آج تک شیعوں کا تکرار بھی ہے اورخود منشی صاحب کے ہمسایہ یاہم شہر یعنی لکھنو کے مجتھد صاحب قرآن کے نظم کو نظم عثمانی بتلا کر اُس کے سیاق کو قبول بھی نہیں کرتے ہیں پس یہ قرآن کومنشی صاحب بلا حجت مانتے ہیں کیونکہ اسلام میں پیداہوئے ہیں اور اس قرآن کے ماننے کے خوگر ہیں ۔

مگر مسیح کے رسولوں کی انجیلوں پرشک کرتے ہیں جنہوں نے  اپنے قلم سے یا اپنی زبان سے اُسی عہد میں کہ ہزار ہزار آدمی مسیح کے دیکھنے والے جیتے تھے لیکن اوراُسی عہد میں اُنہیں رواج بھی دیا۔ ان پاک اوربرحق کتابوں پر منشی صاحب اپنی حدیثوں کا وبال ڈالکر اُن کی خوبی کو  داغ لگانا چاہتے ہیں اس سبب سےکہ قرآن کی چمک ا نکی روشنی کے سامنے تاریک ہوگئی ہے یہی اہل اسلام کا انصاف ہے ۔

چوتھی بات

ابھی یہ لوگ تو ا س آمد موہوم کے خیالی پلاو پکاہی رہے تھے کہ اس پر طرہ ہوا کہ یوحنا حواری نے بڑی ہی عمر پائی اورا س کے زیادہ معمر ہونے سے اس اعتقاد کے ایجاد ہوئے کہ مسیح کے قول کی تصدیق کے لئے خُدا نے یوحنا کی عمر بے حد بڑھادی ہے ۔

دیکھو منشی صاحب کیسے بیباک شخص ہیں جنہیں نہ خُدا کا خوف ہے نہ آدمیوں کا یا اُنہوں نے انجیل نہیں پڑی میں پوچھتا ہوں کہ کیا ان فقروں کی ترتیب درست ہے ان سے کیا معلوم ہوتا ہے نیک نیتی یا ٹھٹھہ بازی کیا (یوحنا ۲۳،۲۲،۲۱) کا یہی مطلب ہے جو منشی صاحب نے نکالا ہے ناظرین انجیل یوحنا میں دیکھیں ۔ میں پوچھتا ہوں کہ ابھی تو مسیح خُداوند نے صعود بھی نہیں کیا تھا صرف مردوں میں سے جی اُٹھے ہیں اورابھی دنیا ہی میں ہے چندر وز بعد جانے والے ہیں ۔پہلے ہی آمد موہوم کا خیالی پلاؤ بھی پک گیا اوریوحنا کا معمر ہونا بھی پہلے ہی ہوگیا اورمعمر ہوجانےکے سبب اس خیال کا ایجاد بھی ہوگیا اورابھی روایات میں ضعف بھی آگیا ۔ یہ واہیات باتیں ہیں یہ خیالی پلاؤ عیسائیوں نے کبھی اپنی ذہن میں نہیں پکایا مگر یہ تو منشی صاحب کے انشا کی کھچڑی ہے۔

پانچویں بات

اس عرصہ تک بہت سی جھوٹی تحریریں انجیلوں اورحواریوں کے خطوط کے نام سے جمع ہوکر ایک انبار ہوگئی تھیں۔

اِس کا جواب یہی ہے کہ ہزار انبار ہو جائیں کچھ پروا نہیں ہے کیونکہ کچھ نقصان نہیں ہے دیکھو جب موسیٰ اورانبیاء دنیا سے چلےگئے تواُن کی حدیثوں اورقصوں کے یہودیوں میں کیسے انبار ہوگئے تھے اورجب محمد صاحب چلے گئے تو سُنی شیعوں اورخارجیوںوغیرہ کی حدیثوں کے کیسے انبار ہوگئے ہیں کیا یہودیوں کے انباروں کے سبب عہد عتیق کی الہٰی کتابیں لایقِ اعتبار نہ رہیں یا محمدی انباروں کے سبب قرآن لائق اعتبار نہ رہا۔ صاحب لاکھ انبار ہوجائیں جو کتابیں رسولوں سے کلیسیا نے دست بدست خود پائی تھیں  اُنہیں کی حفاظت قدیم سے نسلاً بعدنسلاً جماعتیں کرتی آئیں اوروہ انبار کبھی کلام ِالہٰی نہ سمجھے گئے وہ ہمیشہ جدار ہے ۔ اوراب تک جو بربادی سے محفوظ ہیں جدا ہیں۔ آپ کےمحمد وزیر خان اورمولوی رحمت اللہ صاحب نے بھی بعد تحقیق لاچار ہوکے اقرار کیا ہے کہ قدیمی کتب مسلمہ عیسائیوں کی وہی ہیں جوا نجیل کی جلدی میں ہیں۔

چھٹی بات

ہر چند کہ یہ قدح ِاجمالی اناجیل اربعہ کے صحیح السندنہ  ہونے کے ثبوت میں کافی ہوگا مگر ہم ان پر فرادی فرادی نظر کرینگے ۔

جواب کیا خوب قدح ِاجمالی ہے جس کا سر ہے نہ پیرا اورقدح ِاجمالی بھی کیا خوب مقدمات منشیا نہ سے مرکب ہے جس کا فقرہ فقرہ بحث طلب ہے اور جس میں بہت سے صریح البطلان مقدمے شامل ہیں۔

مگر اُس قدح ِاجمالی کا نتیجہ منشی صاحب یہ نکالتے ہیں کہ اناجیل اربعہ کے صحیح السند نہ ہونے کے ثبوت میں کافی ہوگا ۔ یہ کیاعمدہ تحقیق ہے ایسی باتوں کو منشی صاحب کافی دلائل جانتے ہیں پروہ بھی معذور ہیں کیونکہ اسلام کا ثبوت اسی قسم کے دلائل سے ہوا ہے تب ہی تو مخالف کی تردید میں وہ اس قسم کی باتوں کو کافی جانتے ہیں کیونکہ ایسی باتوں سے وہ تسلی کے خوگر ہیں۔

مگر جبکہ وہ اس اپنی قدح ِ اجمالی کو انجیل کی تردید کی دلیل جانتے ہیں اورا بھی اُن کا قدح اجمالی قرآن پر اچھی  طرح گرتا ہوا اُنہیں دکھلایا گیا ہے تو کیا اب وہ قرآن کے صحیح السند نہ ہونے کے لئے بھی اس اپنے قدح اجمالی کو کافی جانیں گے یا نہیں صاحب یہ قدح آپ کا نہ اناجیل کے حق مضر ہے نہ قرآن کے کیونکہ باطل تقریر وں کا ڈھکو سلا ہے جو اپنے غصہ میں لکھ مارا ہے ۔

ساتویں بات

لوقا کی انجیل کی نسبت فرماتے ہیں کہ اُس نے اپنے مشاہدہ سے نہیں لکھی وہ حواری  نہ تھا طبقہ ثانی کا  آدمی تھا۔

جواب ۔ہم کب کہتے ہیں کہ لوقا حواری تھااس تحصیل حاصل سے کیا فائدہ ہے ہم لوقا کو اُس انجیل کا مُولف اورمرتب اورمحرر جانتے ہیں وہ پولوس رسول کی خدمت ہیں رہتا تھا اور اُس نے کئی ایک حواریوں کو بھی دیکھا ہے اوراُس نے کوشش کے ساتھ ان باتوں کو دریافت بھی کرکے لکھا ہے آپ کہتا ہے کہ کلام کے خادموں سے یعنی حو اریوں سے اورواقعات کے دیکھنے والوں سے میں نے کوشش کے ساتھ دریافت کرکے لکھا ہے پس یہ انجیل اگرچہ خود  کسی حواری نے نہیں لکھی مگر اُنہیں کی زندگی میں اُنہیں سے پوچھ کر اُنہیں کے ہم خدمت نے اُسی عہد میں جب لکھی ہے تو پھر یہ کیا بات ہے کہ وہ خود حواری نہ تھا اس لئے اُس کی تحریر کو نہ مانیں اوراُسی طبقہ ثانی کا آدمی بتلانا کیا معنی رکھتا  ہے وہ تورسولوں سے باتیں کرتا ہے اُن کے عہد میں موجود ہے پس وہ اُسی طبقہ حواریوں  کے عہد کا شخص ہے ۔ پھر منشی صاحب فرماتے ہیں کہ بعد محاصرہ یروشلم لوقا کی انجیل لکھی گئی ہے یہ غلط بات ہے کیونکہ اعمال کی کتاب سے پہلے لوقا نے یہ انجیل لکھی ہے بموجب (اعمال ۱۔۱ ) کے اوراعمال کی کتاب لوقا نے روم میں جاکے تمام کی ہے ۶۳ ء میں اور یروشلم کا محاصرہ ہوا ہے ۷۰ء میں پھر یہ انجیل بعد محاصرہ یروشلم کیونکر لکھی گئی تھی اس  کے بعد منشی صاحب نے لوقا کی انجیل پر کچھ گول گول اعتراض بھی کیئے ہیں یعنی آیات کے مضامین پر وہ مہمل عبارت میں لکھے ہیں اس لئے توجہ کے لائق نہیں ہیں۔

آٹھویں بات

یوحنا کی انجیل یوحنا کی نہیں ہے۔ کیونکہ پاپیاس Papias of Hierapolis نے اور پویکارب Polycarp نے اس انجیل کا ذکر نہیں کیا ہاں ارنیوس Irenaeus نے کیا ہے جو پولیکارب کا شاگرد تھا پس شاگردوں نے ذکر کیا اوراُستاد نے نہیں کیا تو سلسلسہ متصل نہ رہا  ا س لئے یوحنا کی انجیل نہ رہی۔

جواب

ارنیوس Irenaeus اورتھیاؔ فلس انطاکیہ والے Theophilus of Antioch نے اوررتر تلیان Tertullian نے اورکلیمنؔٹ اسکندر یہ والے نے Clement of Alexandria اورہیو لیؔس نے اورارؔیجن Origen نے اورڈیو ؔینیسوس نے جو سکندریہ والا ہے Pope Dionysius of Alexandria اور یوسیبوس Eusebius of Caesarea نے یوحنا کی انجیل پر گواہی دی ہے ۔

اورمخالفین میں سے بھی جولیؔن نے اور پورؔفری بت پرست فیلسوف Porphyry ‎(philosopher)‎ نے بھی گواہی دی ہے ۔

اوریوحنا کی انجیل کا سریانی ترجمہ جو دوسری صدی کا ہے بقول الفور ڈتفسیرکے  وہ بھی ابتک گواہ ہے ۔

پس کلیسیاء میں اس کا دست بدست آنا ہے اوراتنے معتبر اشخاص کی گواہیاں جن کا ذکر اوپر ہے اگر اس کے حق میں کافی دلیل نہیں ہے تواوراس سے زیادہ ہم کچھ کہہ نہیں سکتے ۔

ہاں پاپیاؔس Papias of Hierapolis نے اور پولی ؔکارپ Polycarp نے اُس کا ذکر نہیں کیا بلکہ برنباؔس وکلمینؔٹ رومی نے Clement of Rome اوراگنا ؔشیوس نے Ignatius of Antioch بھی اس انجیل کا ذکر نہیں کیا۔

تو بھی سلسلہ متصل باقی ہے منشی صاحب سلسلہ متصل کی تعریف اپنے گھر میں تجویز کرکے دنیا کو اُس کے موافق ٹٹولتے ہیں اور جب اپنی تعریف کے موافق نہیں پاتے تو سلسلہ متصل کے عدم کا فتویٰ دیتے ہیں صاحب سارا جہاں آپ کے اصول حدیث کا غلام نہیں ہے۔ 

پس معلوم کرناچاہیے کہ پاپیاؔس Papias of Hierapolis اورپولیکاؔرپ Polycarp کا نہ لکھنا ۔ اورارنیوس Irenaeus کا لکھنا سلسلہ متصل میں مخل نہیں ہے کیونکہ پاپیاس Papias of Hierapolis کی کتاب ہی دُنیا میں موجود نہیں ہے جس سے لکھنا یانہ لکھنا ثابت ہو ۔ ہا ں یوسیبؔوس Eusebius of Caesarea نے پاپیاؔس ‎ Papias of Hierapolis ‎ کی باتوں کا کچھ انتخاب کیا ہے پس پاپیاس کے اقوال ملتے ہیں نہ اُس کے مجلدات۔

اور پولیکاؔرب کی کونسی کتاب موجود ہے جس سے لکھنا یا نہ لکھنا ثابت ہو اُس کا صرف ایک چھوٹا ساخط ہے جو فلپیوں کو اُس نے لکھا تھا پس جبکہ ان لوگوں کی تحریرات ہی موجود نہیں ہیں تو کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ اُنہوں نے لکھا ہے یا نہیں لکھا پولیکاؔرپ نے تو لوقا کی انجیل کا ذکر نہیں کیا صرف متی اورمرقس کی انجیل کا ذکر کیا ہے ا س لئے کہ خط میں ہر بات کے ذکر کا موقع نہیں ہوا کرتا ہے ۔

پھر دیکھو بالفرض پاپیؔاس نے یوحنا کی انجیل کا ذکر نہیں کیا تو بھی اُس نے یوحنا کے پہلے خط کاذکر کیا ہے اورضرور یوحنا کا پہلا خط خلاصہ ہے یوحنا کی ساری انجیل کا اُسے ذرا غور سے پڑھ کر دیکھنا۔

حاصل کلام حالانکہ  کلیسیا ء نے تحقیقات کرکے مانا ہے کہ یہ انجیل اورسب اناجیل  بلکہ ساری بائبل  اُنہیں مصنفوں کی  ہے جنکے نام پر اس کے حصے منسوب ہیں تب ہمیں کیا پرواہ ہے کہ پولیکارپ نے ذکر کیا ہے یانہیں جب ارنیؔوس کی گواہی موجود ہے جو اُن کے ساتھ ملنے والا معتبر بزرگ اسقف ہے کلیسیاء کی گواہی ہزار گواہیوں سے بہتر ہے ۔ افسوس کی بات ہے کہ اب تک اہل ہند میں سے پرانے خیالات دفع نہیں ہوئے ۔

نویں بات

متی و مرقس کی انجیل کا زمانہ گوقیا ساً قرار پایا ہے تو بھی ان کا انتساب طرف ان مصنفوں کے دو سو برس تک سلسلہ اسناد سے ثابت نہیں ہے ۔

جواب

ہر بات جو قیاس سے ثابت ہومنشی صاحب کے نزدیک شاید لائق اعتبار نہیں ہے پر جس علم دینی کو منشی صاحب مانے بیٹھیں ہیں اُس کی بنیاد ادلؔہ اربعہ پر رکھی ہوئی ہے اوروہاں چوتھی قسم کی دلیل قیاس شمار ہوا ہے صد ہامسلی قیاسی اسلام میں ہیں جوعبادات اورعقائد کے رتبہ میں بھی پہنچ جاتے ہیں وہاں وہ قیاس کو مکرو ہ چیز نہیں جانتے ۔مگر انجیل کے زمانہ تحریر میں بھی قیاس سے کچھ بولنا اُنہیں اچھا معلوم نہیں ہوتا ہے کیونکہ انجیل کے لئے ذرا ذرا سی باتیں بھی کتاب اللہ سے ثابت ہونی چاہئیں پر قرآن اوراسلام کے لئے دلائل اربعہ ہیں یہ منشی صاحب کا انصاف ہے ۔

پھر یہ جو وہ فرماتے ہیں کہ اُن کا سلسلہ متصل نہیں ہے میں کہتا ہوں کہ اگر آپ کے محدثوں کی اصطلاح کے موافق نہیں ہے تونہ ہو مگر عقل اورانصاف کے موافق تو ہے نام بنام ہے آدمیوں کو شمار کرنے کا نام عقل کے نزدیک سلسلہ متصل نہیں ہے لیکن قرینہ اور وقت مابینی بھی ہماری عقل کے اصول میں سلسلہ متصل کے منافی نہیں ہے پس جبکہ سلسلہ متصل کی اصطلاح ہی میں ہمارے تمہارے درمیان فرق ہے تو اپنی اصطلاح سے غیر پر حملہ کرنااوراُس سے درخواست کرناکہ میری اصطلاح کے موافق بول اورمیری تجویز کے موافق چل نہیں تو تو نادان ہے یہ کونسی دانائی ہے ۔

حاصل کلام حالانکہ سلسلہ متصل تو ضرور ایک عمدہ چیز ہے مگر اُس کے معنی جو آپ لوگوں نے تصنیف کیئے ہیں اُس میں سقم ہے اوراُس سُقم کے سبب آپ ہماری کتابوں پر سقم لگاتے ہیں یہ غلطی آپ لوگوں کی ہے ۔

اور یہ بات منشی صاحب کی بالکل افترا ہے کہ دو سو برس  بعد انتساب ہوا ہے  یہ  کتابیں شروع  سے اپنے مصنفوں کی طرف کلیسیاء میں منسوب ہیں۔

دسویں بات

مشائخ متقدمین کے کلام سے جو چند فقرے ان اناجیل کے نکال کر عیسائی کہتے ہیں کہ مشا  ئخ  مذکورہ نے ان اناجیل سے سندلی ہے اس لئے یہ کتابیں برحق ہیں  یہ بات  تین دلیلوں سے باطل ہے ۔ (ا)مشائخ یوں نہیں لکھتے کہ یہ بات متی یا مرقس یا لوقا یایوحنا یوں فرماتاہے یا اُن کی کتاب میں یوں لکھا ہے معلوم نہیں کہ وہ کہاں  سے کہتے ہیں۔ (۲) وہ اقوال زبانی آئے تھے نہ ان کُتب سے (۳) بعض تحریرات ان مشائخ کی بھی موضوعات میں شامل  ہیں تو یہ بھی موضوع ہوں گے ۔

جواب

منشی صاحب کی تینوں دلیلیں ناکارہ ہیں اور اُن کا حاصل منشی صاحب کا منشا ہرگز پورا نہیں کرتا (ا) یہ کہنا کہ مشائخ متقدمین  اناجیل کے نام یا اُن کے لکھنے والوں کے نام بتلا کے حوالہ نہیں دیتے ہیں اگر چہ باتیں وہی  بولتے ہیں جوا ن اناجیل میں پائی جاتی ہیں اس صورت میں منشی صاحب کہتے ہیں کہ معلوم نہیں کہ وہ کہاں سے کہتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہمیں معلوم ہے کہ وہ کہاں سے کہتے ہیں وہ اُن کتابوں میں سے کہتے ہیں جو اُن کی پیدائش سے پہلے لکھی گئی ہیں اورجواُس جماعت میں مروج ہیں جن میں وہ مشائخ بھی شامل ہیں اوروہ کتابیں اُن بزرگوں کی طرف منسوب بھی ہیں جو اُن مشائخ کے بھی بزرگ ہیں اوریہ مشائخ ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلنا اپنی سعادت داریں جانتے ہیں پس اب کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ معلوم نہیں کہ وہ کہاں سے کہتے ہیں۔

(۲)یہ کہنا کہ وہ اقوال زبانی آئے تھے اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے تو منشی صاحب  کو معلوم نہ تھا  کہ کہاں سے کہتے پر اب دوسری دلیل میں معلوم ہوگیا قطعاً کہ وہ زبانی روایات سے کہتے تھے اس کا حاصل یہ ہے کہ منشی صاحب کہہ گئے کہ ہماری پہلی دلیل بھی غلط ہے جہان کہا تھاکہ معلوم نہیں ہے اب معلوم ہوا کہ زبانی اقوال سے کہتے ہیں۔

بالفرض اگرزبانی اقوال سے بھی کہتے ہیں تو کیسی خوبی کی بات ہے کی تحریری اقوال زمانہ قدیم کی زبانی اقوال کی بعینہ مطابق ہیں تب یہ زیادہ تر مضبوط دلیل حقیقت ان کتب کی ہوگی ۔

(۳)یہ کہنا کہ بعض تحریرات ان مشائخ کی بھی موضوعات میں شامل ہیں تو یہ بھی موضوع ہوں گے۔

کیا اچھی دلیل ہے جومنشی صاحب نے نکالی ہے اُس کے بار ے ہمیں اتنا کہنا بس ہے کہ اگر ابوہریر ہ صحابی کی طرف کوئی شریر آدمی اپنے دل سے ایک حدیث بنا کر منسوب کرئےکہ اُس نےیوں کہا ہے اورعلماء محمد یہ یوں کہیں کہ یہ حدیث ہرگز اُس کی نہیں ہے فلاں فلاں وجہ سے تو منشی صاحب کی تیسری دلیل سے یوں کہا جائے گا کہ جو حدیث ابوہریرہ کی ہمیں کہیں نظر آئے شاید وہ بھی موضوع ہے کیونکہ پہلے ایک حدیث اُس کی موضوع ثابت ہوچکی یہ بے جا قیاس ہے ۔

۱۲ ۔تعلیق

عمادالدین نے نہیں بتلایا کہ ایسا جھوٹ  بنانے سے محمدصاحب کی کیاغر ض تھی ۔

۱۲ ۔تقلیع

تواریخ  ِ محمدی صفحہ ۳۰۹ میں رائے مُولف لکھی ہے اوراُس رائے میں سب کچھ اختصار کے ساتھ مندرجہ ہے ہاں مجھ سے اس قدر ضرور کوتاہی ہوئی کہ میں نے خوب کہو لکھے نہیں کہا کہ اس دعو ی سے حضرت کی کیا غرض تھی لیکن یہ کوتاہی میں نے اس لئے کی تھی کہ تواریخ کے واقعات سے خود ظاہر ہے کہ بادشاہ بنے کا حضرت کہ شوق تھا اورکوئی صورت بادشاہ ہونے کی نہ تھی تب نبوت کا دعویٰ کرکے اُمت  پیدا کی  اوراُمت کو فوج بنایا اورخُد اکے نام سے جہادکرنا امر ضروری بتلا کے بادشاہت حاصل کی اوربہت  مزے بھی اُڑے اس غرض سے یہ دعویٰ کیا تھا اوریہ  غرض بھی حاصل ہوگئی تھی ۔

۱۳۔تعلیق

محمد صاحب کے تقلب احوال سے ثابت ہے کہ وہ دعوی ٰ نبوت میں سچے تھے ۔ اُنہوں نے چالیس برس کی عمر میں دعویٰ نبوت کیاا ور اپنے آباؤ اجدا  کے مذہب کو بلکہ سب دنیا کی مذہبوں کو باطل بتلا یا اوربرسوں تک مصیبتیں اُٹھا کے اپنے دعوے ٰ پر موت تک ثابت قدم رہے اوراُن کا مال دولت اورعزت بھی خاک میں مل گئی ۔ اگر باطل دعویٰ تھا تو اُنہیں ایسی تکلیف اورنقصان اُٹھانے سے کیا حاجت تھی وہ برابر نماز روزے پر قائم رہے اوردنیا وی سلطنت میں  بھی دنیا وی آمیزش سے  الگ رہے ۔ اگرکہو کہ وہم ہوگیا تھا تو وہم اوردھوکے کا اثر کچھ اورہوتا ہے  اورادراک واحساس کا اثر کچھ اورہوتا ہے ۔

۱۳۔ تقلیع

اس مقام پر بھی منشی صاحب نے اپنی تحریر میں بڑا زور لگایا ہے اورخوب انشاکی ہے لیکن اُن کی ساری تقریر کا خلاصہ یہی ہے جو اوپر لکھا گیا ۔ پر یہ سب بیانات اُن کے مغالطوں سے بھرے ہوئے ہیں پر میں اُن کی اصلی باتوں کاجواب دونگا ہر فقرہ کا

پہلی بات

منشی صاحب کہتے ہیں کہ اُنہوں نے چالیس برس کی عمر میں دعویٰ نبوت کیا۔

یہ بات سچ ہے لیکن اس سن ِ وسال میں دعوےٰ کرنے سے کیا خوبی نکلتی ہے ہاں اس عمر میں آدمی ذرا تجربہ کا ر تو ہوجاتا ہے مگر جاہل آدمی کے تجربات بھی ذراا چھے نہیں ہوا کرتے ۔

محمدصاحب نے ضرور اس عمر میں کچھ عاقبت کا فکر اورکچھ دنیا کا فکر اورکچھ حصول شوکت کا  فکر ذہن میں جمع کیا تھا اوراُس کا یہ نتیجہ دکھلایا جو تواریخ ِمحمدی میں مرقوم ہے توریت میں خُدا کا حکم تھا کہ (۳۰)برس کی عمر میں کاہن خُدا کے خیمہ کی خدمت کا کام شروع کرئے۔ سومسیح نے عین وقت پر ۳۰ برس کی عمر میں کام  شروع کیا اگر سن وسال کی کچھ فضیلت ہے تو مسیح کو ہے نہ محمد صاحب کو کیونکہ مسیح نے شریعت کے موافق کام کیا محمد صاحب نے شریعت سے تجاوز فرمایا۔

دوسری بات

محمد صاحب موت تک اپنے دعوے ٰ پر ثابت قدم رہے اس کا کیاباعث تھا یعنی بیس برس  اپنے دعوےٰ پر ثابت قدمی دکھلاکے انتقال فرمایا تب وہ اپنے دعوے ٰمیں ضرور سچے نبی تھے ۔

جواب

جناب منشی صاحب مطلق ثابت قدمی کو ئی عمدہ وصف نہیں ہے کہ جس شخص میں جس قسم کی ثابت قدمی پائی جائے تو وہ ضرور سچا ہی ہوتا ہے ہزاروں شریر اورجاہل اورفریب خوردہ اشخاص اپنی بُری حالت میں بھی ثابت قدم رہ کر اوربڑے بڑے دُکھ بھی اُٹھا کر دنیا میں مرگئے ہیں تو کیا اُن کی ثابت قدمی یہ بات ثابت کریگی کہ وہ اپنے خیالات وعقائد میں سچے تھے ہر  گز نہیں مگر حالانکہ اپنے نادانی کو خوب پکڑا تھا۔

یہ ثابت قدمی اگر محمد صاحب کی نبوت پر دلیل کافی ہے تواُن بے چارے لوگوں نے کیا قصور کیا ہے ۔

ثابت قدمی اُسی شخص کی محمود ہے جس کی تعلیم اورچلن اورپاکدامنی نے جہاں کو مجبور کردیا ہے اوروہ مسیح خُداوند یسوع ہے سوپہلی محمد صاحب کی نسبت ان امور ضرور ی کودکھلانا چاہئے اس کے بعد ثابت قدمی بھی محمود اورمقبول ہوسکتی ہے اب تو ہمیں اُن کی طرف سے افسوس ہے کہ کیسی بُری حالت میں ثابت قدم رہ کر انتقال فرمایا جس بات پر ہمیں افسوس ہے اُسی بات کو منشی صاحب دلیل ثبوت بنا لائے ہیں۔

صاحب مدینہ میں جاکر دس برس تک ثابت قدمی دکھلا کے مرنا تو اُنہیں نہایت ہی ضرور تھا کیونکہ جس دعوےٰ کے وسیلے سے یہ شوکت ہاتھ آئی تھی اُس دعوی میں اور بھی گرمجوشی آئے گی یا اُس سے کنارہ کشی ہوگی جو ساری کمائی کی بربادی کا باعث ہے ۔ ہاں دعویٰ نبوت سے ہجرت کے وقت تک زلزلہ آنا ممکن تھا پر کوئی سخت سبب زلزلہ کا بھی نہ تھا ایک دو یا زیادہ کم آدمی کبھی کبھی ضرور مرید ہوتے  رہتے تھے اُنہیں امید نظر آتی تھی کہ اگرچہ ابھی کچھ تکلیف ہے مگر میں آہستہ آہستہ قوت پاسکتا ہوں کیونکہ بت پرستی  عقلا کچھ چیزنہیں ہے جوکوئی عرب ذرا بھی فکر کرے گا وہ ضرور میرے مجرد وحدت کی نسبت بت پرستی کو بُرا جانے گااورمیں پیر مرشد ہوجاونگا اوراگر میں مربھی گیا تو کیا مضائقہ ہے آخر سب کو مرنا ہے میرا نام تو عرب میں مشہور رہے گا اورضرور ایسی کوشش کہ بت پرستی دفع ہو اورمجرد وحدت جاری ہوہر کسی کی موٹی عقل میں بھی محمود ہے پس یہ باتیں ذہن میں تھیں اورہر طرف مدد کے لئے بھی تاک  رہے تھے اورساعی بھی ازحد تھے یہاں تک کہ اہل مدینہ کا قافلہ آگیا جو اہل مکہ کے ساتھ عداوت رکھتے تھے پس محمد صاحب نے اُن کے ساتھ نصف شب میں سازش اور وہ وہ سازش بھی  نہایت ہی مفید پڑی ۔ خود مدینہ کے انصار نے جنگ حنین کی لوٹ کے تقسیم کے وقت ان سب باتوں کا ذکر کیا ہے کہ ہم نے تجھے کیا سے کیا بنادیا اورمحمد صاحب نے قبول بھی کیا دیکھو تواریخِ محمد ی میں اورروضتہ الاحباب وغیرہ میں بھی کہ کیا لکھا ہے ۔

تیسری بات

منشی صاحب کا یہ کہنا کہ محمد صاحب اس دعویٰ کے سبب ایک امیر آدمی سے غریب بن گئے اوراُن کا بہت سادنیا وی نقصان ہوگیا۔ یہ بات درست نہیں ہے وہ ہرگز ایسے امیر اوردولتمند نہ تھے جیسے منشی صاحب بتلاتے ہیں اُن کی ریاست ایسی تھی جیسے دیہات میں چوہدری ہوتے ہیں یااس سے بھی کم ہاں عبدالمطلب کے زمانہ میں کچھ دنیاوی طاقت تھی مگر اُس کے دس بیٹے ہوئے تھے اوروراثت تقسیم ہوئی اورکھانے کو روٹی بھی نہ رہی تھی حضرت محتاج تھے دیکھو سیرت النبی کتاب کا (صفحہ۶۲)لکھا ہے باب سفرہ صلعم اے الشام ثانیا مع میسرۃ غلام خدیجتہ وذلک لما بلغ صلعم خمساً و عشرین سنتہً وسبب ذلک ان عمہ ا با طالب قال یا ابن اخی انارجل لامال لی وقد اشتد علینا الزمان والحت علینا سنون منکر ۃ ولیس لنا مادہ ولاتجارۃ الخ۔

اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت کے چچا نے کہا اے بھتیجے ہم نہایت تنگ حال ہیں دیر سے ہمارے اوپر تنگی آگئی ہے فقر فاقہ ہم پر غلبہ کرگیا ہے بہتر ہے کہ تو خدیجہ سے کچھ قرض لیکر شا م کی طرف تجارت کو جائے ۔

اس کے سوا باپ کا ترکہ جو حضرت نے پایا تھا وہ یہ تھا ایک لونڈی پانچ اونٹ اورایک گلہ بکریوں کا اورشاید ایک گھربھی جو محمد ابن یوسف بزاز کا گھر مشہور تھا جہاں حضرت پیدا ہوئے تھے دیکھو یہ بڑےرئیس کی ریاست تھی ۔

اوربظاہر معیشت یہ تھی کہ کعبہ کاچڑھا وا لیتے ہوں گے اوراُن ایام میں چڑھا وابھی بہت نہ تھا کیونکہ اُس وقت کعبہ کی زیارت کو صرف عرب ہی آتے تھے نہ اس وقت کے موافق کہ ہرطرف سے مسلمان جاتے ہیں اورچڑھاوا بھی اپنے حصہ کے موافق پاتے ہونگے ۔ اگر منشی صاحب کہیں کہ خدیجہ کا مال لیکر حضرت بڑے سوداگر ہوگئے تھے تو یادرکھنا چاہئے کہ اس زمانہ کی سوداگری کے مانند اُس وقت عرب کی سوداگری نہ تھی فارغ البالی سے کھانا کپڑا حاصل کرنا وہاں اُس وقت بڑے سوداگر  کے لئے بس تھا اور محمدصاحب کچھ سوداگر نہ تھے مگر ایک قسم کے بیوپاری تھے ۔

یہ حضرت کی دولت سابقہ اورریاست کا حال ہے مگر بعد دعوےٰ نبوت کے چند برس کی تکلیف مناسب کے پیچھے ہم اُنہیں اتنا بڑا بادشاہ عرب کا دیکھتے ہیں کہ اُن کے آباء اجداد مین کبھی کوئی ایسا نہیں ہوا پس اب ہم پوچھتے ہیں کہ اس دعویٰ نبوت کے سبب سے نقصان اُٹھا یا فائدہ ناظرین کی تمیز انصاف کرے منشی صاحب ایسے مغالطے دیتے ہیں۔

چوتھی بات

پھر منشی صاحب کہتے ہیں کہ حضرت نے یہ تکلیف کیوں اُٹھائی نقد فائدہ تو اُس وقت کچھ نظر نہ آتا تھا۔

جواب

اول تو اس میں کلام ہے کہ کونسی بے حد تکلیف اُٹھائی ہاں شروع میں کچھ تکلیف اُٹھائی کہ شہرکے لوگ دشمن ہوگئے تھے جیسے اس وقت نے عیسائیوں کے دشمن ہوجاتے ہیں پرحضرت کاکوئی نہ کوئی چچا یا رشتہ دار ضرور حمایتی بنا رہا تھا اور اگر اتنی بھی  تکلیف نہ اُٹھاتے  جو ہر مجد ومذہب کو اُٹھا لازم ہے تو یہ لطف جس کی امید تھی کیونکر حاصل ہوسکتا دنیا میں بغیر تکلیف کے کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا ہے ۔

پھر دیکھو کہ باعث تکلیف اُٹھانے کا کیا تھا یہ کہ بُت پرستی سے منع کرتے تھے اوربُت پرستی سے منع کرنا نبوت ہی پر منحصر نہیں ہے بلکہ ہر دانا کی تمیز بھی کہتی ہے کہ اس کی بیخ کنی ہیں جو تکلیف اُٹھائی جائے عین نیکی ہے دیکھو گور ونانک نے کیسی کوشش کرکے پنچاب کے ہندوں میں سے بُت پرستی کو نکالا۔

اورجب اس کے ساتھ ایک اُمید بھی دل میں قائم ہوجائے توکتنی جرات اورہمت دُکھ اُٹھانے میں آجاے گی۔

محمد صاحب کے ذہن میں یہ بات خوب جم گئی تھی کہ بُت پرستی نہایت مکروہ چیز ہے اوریہ کہ ابراہیم جس کے ہم بھی نسل کہلاتے ہیں  ہر گز بُت پرست نہ  تھا بلکہ وہ خُدا تعالیٰ کا پیغبر تھا ۔

اب کیا کروں اہل کتاب کی طرف دیکھتا ہوں تو وہ خود آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہیں یہودی منتظر ہیں کسی مسیح موہوم کے عیسائی مسیح کو خُدا کا بیٹا بتلاتے ہیں جو سمجھ میں نہیں آتا اب میں کیا کروں تحقیقات کتب کا میں علم نہیں رکھتا اور دنیا کی طرف سے بھی روزگار کی تنگی ہے۔

بہتر ہے کہ خُدا کی وحدت مجرد کو خوب پکڑوں اورعبادت بھی اپنی مرضی کے موافق کروں اورجو کچھ خُدا ذہن میں ڈالے میں اُسی کو الہام سمجھوں گا۔ جب اس مرتبہ پر خیال آگیا تو اُس روح نے جوسب کے درپے ہے اپنی تایثر کے لئے اچھا موقع پایا اورایسی حالت دیکھ کے اُس نے حضرت کو دعویٰ نبوت پر برانگخیتہ کیااور ذہن نے اس دعوےٰ کو خوب پکڑ بھی لیا اورجب یہ دعویٰ مُنہ سے نکلا تو پھر اُس کے پیچھے بھی زور شو ر سے آگُھسی اورکچھ کچھ شاگرد بھی ہونے لگے تب اُمید قوی ہوئی اور اپنے دعوی ٰ نبوت کی تصدیق بھی اپنے ذہن میں آئی اوردنیا وی شرکت کا خیال اورتنگدستی کی تکلیف بھی اس کے معاون اورمدد گار ہوگئی اس طور سے اس دعویٰ کی تصمیم ذہن میں آگھُسی ۔

اور اس دعویٰ کی بابت جو قدرےتکلیفات آنے لگیں اُن کی برداشت کی طاقت بھی اب مضبوطی سے پیدا ہوگئی اورا س لئے ایک غیرت مندی بھی خُدا کے لئے دل میں جوش زن ہوئی مگر کوئی نہ سمجھےکہ ہر کوئی جو خُدا کے لئے غیر ت مند نظر  آتا ہے وہ حقیقت میں راہ راست پر ہے کیونکہ خُدا کے لئے تین قسم کی غیر ت مندی جہاں میں نظر آتی ہے ۔

(ا)نادانی کی غیر ت مندی۔ یہ وہ غیر ت مندی ہے جس میں دل خالص ہے پر ذہن میں تاریکی ہے ایک وقت پولو س رسول بھی اس حالت میں تھا۔

(۲)نادانی بالطمع کی غیر ت مندی۔ یہ وہ ہے جس میں دل کے اندر طمع اورذہن میں نادانی ہے یہ اُن میں پائی جاتی ہے جو خُدا اوردُنیا دونوں کے طالب ہیں۔

(۳)خالص دانائی کی غیر ت مندی۔ یہ وہ ہے جس میں دل پاک اورذہن صاف ہے یہ غیر ت مندی  سب سچے دیندار وں میں ہے اوردوسرے وقت پولوس میں بھی آگئی تھی ۔

پس محمد صاحب میں اگرچہ خُدا کے لئے ایک غیر ت مندی ہم دیکھتے ہیں مگر دل میں پاکیزگی اورذہن میں روشنی ہم نہیں دیکھتے اس لئے ہم اُن کی غیر ت مندی پر فریفتہ نہیں ہوسکتے جیسے کہ منشی  صاحب اُس پر فریفتہ ہیں اور ہمارے سامنے اس حضرت کی غیر ت مندی کوایک دلیل نبوت بھی بنا کر پیش کرتے ہیں۔

پانچویں بات

محمد صاحب دنیاوی سلطنت میں بھی دنیاوی آمیزش سے الگ رہے ۔

جواب

دنیا کی آمیزش سے منشی صاحب کا کیا مطلب ہے ؟آیا شراب کباب ناچ راگ رنگ کر و پھرعیش وعشرت فلسفانہ یاکچھ اور مطلب ہے ہم جانتے ہیں کہ ضروریہی مطلب ہوگا اوربیشک محمد صاحب ان باتوں سے الگ رہے اورکیوں نہ الگ رہیں اگر ان باتوں میں دھس جائیں تو پھر پیری کہاں اورلوگوں کے اعتقاد جو بمشکل کچھ بند ہی ہیں کیونکہ کر قائم رہیں گے پھر تو ایک دم میں سلطنت ہی اُڑ جائے گی سلطنت کی طرف سے کیا کچھ اطمینان ہے جو ایسی حالت میں قدم رکھیں منشی صاحب ایسا مغالطہ نہ  دیجئے ۔

اس مقام پر محمد صاحب کی چالاکی کو خیال فرمانا چاہئے کہ جب عروج ہوا توایسی چال اختیار کی سانپ بھی مرجائے اورلاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔

ناچ راگ رنگ شراب کباب کچھ استعمال میں نہ لائے مگر دینداری کے پیرائے میں آیتیں اُتار اُتار کرنفسانی خواہشوں کو خوب ہی پورا کیا اوراُمت کے لئے بھی اسی پیرائے میں ایک کشادہ دروازہ کھول دیا اورجہاں تک قابو چلا ایک بھی دشمن نہ چھوڑا جہاد کے حیلہ سے خوب تلوار چلائی اورلوٹا اورلوگوں کی  عورتیں پکڑ کر استعمال میں لائے تعجب کی بات ہے کہ کُتب سیر تو یہ کچھ دکھلاتی ہیں پر منشی صاحب یہ فرماتے ہیں کہ وہ نبی برحق تھے ایسے منطق کو بھی سلام ہے اورایسی نبوت کو بھی سلام ہے پھر وہ جو بعض انگریزوں کے اقوال منشی صاحب نکال کے دکھلاتے ہیں اوراُن کے ساتھ اپنی اگر مگر ملاتے ہیں۔ ہم اُن باتوںمیں بحث نہیں کرتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اُن کے اقوال کچھ صحیح اورکچھ غلط ہیں  محمد صاحب ایشیا کے باشندے تھے اُن کی نسبت ایشیا کے لوگ باتیں کرینگے نہ اہل یورپ چنانچہ مسیح کی نسبت بھی ایشیا کے لوگوں کے اقوال زیادہ تر معتبر ہیں۔

۱۴۔تعلیق

جس زمانہ میں محمد صاحب تھے وہ زمانہ بڑی جہالت کا تھا اورحضرت نے نہ علم پڑہا اور نہ کسی سے کچھ سُنا اورنہ حضرت کسی باہر کے ملک میں کچھ سیکھنے کوگئے تو بھی حضرت  نے الہٰی معرفت کے بھید ایسے بیان کیئے کہ تمام عقلاء جہاں حیران ہیں۔

۱۴۔ تقلیع

ا س با ت کا جواب ہم منشی صاحب کو کیا دیں حیران ہیں کیونکہ یہ نہایت تحقیق وتدقیق کی باتیں ہیں جو منشی صاحب نے ظاہر کی  ہیں۔

ہاں میں اتنا کہتا ہوں کہ میری تمیز قبول نہیں کرتی کہ اس درجہ کی تاریکی اُس وقت عرب میں تھی کیونکہ اُس عہد کے مصنفوں اورشاعروں کے خیالات ہمیں خوب معلوم ہیں ہاں کسی قدر تاریکی تھی مگر نہ اتنی جتنی منشی صاحب بتلاتے ہیں کیونکہ منشی صاحب نے کتب اسلامیہ میں اسلام سے پہلے زمانہ کا نام ایام جاہلیت سُنا ہے جوعرب کی نسبت محمدیوں نے ایک اصطلاح ٹھہرائی تھی  مگر وہ لوگ اپنی شریعت کی عدم موجودگی کے زمانہ کو زمانہ جہالت کہتے تھے نہ حالانکہ  عرب محض بے وقوف تھے معاملات دنیاوی میں بھی ۔اور میں یہ بھی قبول نہیں کرسکتا کہ محمد صاحب استفادہ سے اسقدر محروم ہوں جس قد رمنشی صاحب اُنہیں محروم ،ٹھہراتے ہیں۔

کیونکہ جب دنیا کا یہ دستور ہے کہ ادنے اعلیٰ جس قدر قدرت کا آدمی ہے اُس قدر کچھ نہ کچھ استفادہ اپنے احباب کی  صحبت سے اوراعدا واجانب کے معاملہ سے اورواقعات روز مرہ  کی دید سے اور دینداروں اوربددینوں کے بحث کے سُننے سے اور دوسرے  ممالک کے باشندوں اوراُن کے عقاید و دستورات  کے سُننے سے اور دیکھنے سے اور بزرگوں کی کہانیوں سے اور دنیا کی مصیبتوں سے اور خوشیوں سے کچھ نہ کچھ فائدہ ہر آ دمی ضرور ہی حاصل کرتا ہے یعنی کچھ نہ کچھ اُسکے سر میں بھر جاتا ہے بُرایا بھلا وہ آدمی خواہ خواندہ یانا خواندہ  ہو ۔ہر ایک اپنے ظرف اور اپنی استعداد کے موافق آ پ کو خود بخود پیدایش ہی سے بھرنا  شروع کرتا ہے ۔

اور عزت دار آدمیوں کے بچے ضرور عوام کے بچوں سے زیادہ  تر ہوشیار اور ذکی و شایستہ ہوتے ہیں۔پس نا ممکن ہے کہ محمدصاحب  ایسے سخت محروم ہوں جیسے کہ منشی صاحب نے اُنہیں محروم بنا کے اُنکی عزت خراب کی ہے کیونکہ وہ عقلا ایسے سخت محروم نہیں ہو سکتے ہیں۔ مگر یہ بات منشی صاحب کی شاید ہنسی کی ہے کہ محمدصاحب نے اسقدر معرفت الَہی کے دقائق دکھلائے ہیں کہ تمام جہان کے عقلا حیران ہیں۔

اِسکا جواب یہ ہے کہ وہ عقلا جو تعلیم ِمحمدی سے حیران ہیں اُنکی عقل اور ہماری عقل میں بہت فرق ہے ۔پس چونکہ ہمارے اندر وہ عقل نہیں ہے اسلئے ہم اِس بات کو قبول کرنے سے معذور ہیں۔اور ہم اِن عقلا کی تقلید کرنا بھی  نہیں چاہتے  کیونکہ  اُنکی راہ میں ہمیں موت نظر آتی ہے ۔منشی صاحب کا دل چاہتا ہے کہ جو بات بائیبل کی نسبت ہر طرف سے بولی جاتی ہے وہی بات  قرآن کی نسبت  بھی میں بولوں شاباش شاباش حمایت اِسی کا نام ہے۔صاحب کوئی جاہل آدمی  اگر قدرت الَہی  سے ایسا ہو جائے جیسے حواری ہوگئے تھے  توضرور قیاس چاہتا ہے کہ اُس نے خُدا سے سیکھا مگر محمد صاحب ایسے نہیں ہیں کیونکہ اُن کی تعلیم اس درجہ کی نہیں ۔

۱۵۔تعلیق

ضرور  محمد صاحب اُمی تھے اوراُنہو ں نے ہر گز کسی سے تعلیم نہیں پائی ۔ اورمخالفین بھی حضرت  کو دنیوی کا مونمین دانا اورماہر تسلیم کرتے ہیں مگر ہماری زمانہ کے عیسائی صاف باتوں کا بھی انکار کرتے ہیں تو بھی یہ قبول کرتے ہیں کہ حضرت اُمی تھی اورعبرانی یونانی نہیں جانتے تھے اورتوریت انجیل نہیں پڑھی تھی مگر یوں کہتے ہیں کہ اہل کتاب سے خواہ بعض سفروں میں خواہ غلاموں وغیرہ سے اپنی وطن ہی میں کلام ِمقدس سُنا تھا۔ پس یہ عیسائیوں کی غلطی ہے کیونکہ حضرت نے کبھی اہل کتاب سے کچھ نہیں سُنا ذیل کے دس امور سے ثابت ہے ۔

۱۵۔ تقلیع

منشی صاحب ناحق ایک ناکارہ بات میں اس قدر درد سری کرر ہے ہیں  اُن  کا مختصر جواب یہ ہے ک بیشک محمد صاحب اُمی تھے لیکن اُمی کے کیا معنی ہیں اُم والدہ کوکہتے ہیں یا نسبتی کے ساتھ اُمی یعنی ماں کا  یعنی جیسے ماں کے  پیٹ سے نکلا ویسا آدمی مراد ہے جس نے دنیا میں کچھ نہیں سیکھا ۔ اگر ان معنی سے محمد صاحب اُمی کہلاتے ہیں  تو محض باطل بات ہے عقلاً کیونکہ چالیس برس تک ایسے ہی مضغہ گوشت رہنا قیاس میں نہیں آسکتا ۔

دوسرے معنی اُمی کے اُن پڑھ آدمی کے ہیں سومحمد صاحب بیشک  اُن پڑھ آدمی تھے مگر چالیس برس تک جس قدر سب ان پڑھ آدمی بھی ہوشیار ہوسکتے ہیں اُس قدر توہوشیاری اورواقفی حضرت نے ضرور ہی حاصل کی تھی کیونکہ لاکھوں اُمی اس وقت بھی دنیا میں موجود ہیں وہ محض مضغئہ  گوشت نہیں ہیں کچھ نہ کچھ اُنہو ں نے بھی سیکھا ہے بلکہ ہزاروں  اُمی ایسے ہیں کہ پڑھوں  کی نسبت زیادہ چالاک اورہوشیار ہیں کیونکہ  اُن میں استعداد ہے اگرچہ تربیت نصیب نہیں ہوئی تو بھی اُنہوں نے زمانہ سے تربیت پائی ہے اس لئے کہ  (الدہر فصح المادبین ) مشہور کہاوت ہے پس محمد صاحب بھی ایسی ہی تھے اور اُن کی تعلیم اورچلن اورخیالات بھی اسی درجہ کے ہیں یعنی جیسے وہی اُمی  تھے تو آدمیوں کے لائق قرآن کےمضامین  بھی ہیں قرآن کونسی عمدہ اورعجیب تعلیم ہے جو اُمی کے تصنیف ہونے  سے تعجب کیا جائے  وہ تو اُمی کے درجہ کے موافق اپنے اندر بیان رکھتا ہے اُس کی بیانات میں کہیں حقیقی تناقض ہے ناواقفی بھی ہے اوربعض سچےبیان بھی غلطی کے ساتھ منقول ہیں اور بعض وہی باتیں ہیں جو اُس زمانہ میں اہل عرب اورگردنواح کے خاص وعام کے ذہنوں میں اوردستورات میں تھیں اور کوئی گہری پُر مغزر وحانی تعلیم بھی اُس میں نہیں ہے نہ کوئی نئی خوبی تعجب انگیز اُس میں ہے اورانسان کے واجبی ضروری دلی سوالوں کا جواب بھی اُس میں  نہیں ہے اوراس سبب سے وہ اوربھی تسلی بخش چیز نہیں  ہے پھراس معاملہ میں اس قدر زور دینے سے کیا فائدہ ہے منشی صاحب ناحق اس میں کوشش کرتے ہیں پر اُن کے وہ دس امور بھی دیکھ لینا چاہئے ۔

امر اول

اگر حضرت اہل کتاب کی کتب سے کچھ اخذ کرتے تو ضرور یہ بات ظاہر ہوجاتی اوراس کا چرچا اُس وقت عرب میں ہوجاتا مگر اس کا ذکر کچھ  بھی نہیں ہے ۔

جواب

ہمیں اورسب اہل انصاف کوپورا یقین ہے کہ حضرت نے ضرور  کتب اہل کتاب سے کچھ اخذ کیا ہے اورایسا اخذ کیا ہے جیسےسب جاہل ان پڑھ بھی سمعیات سے کیا کرتےہیں اوراس کا چرچا بھی اُس وقت عرب میں ہوگیا تھا اورایسا سخت چرچا ہوا تھا کہ محمد صاحب کو لاچار ہوکے قرآن میں اس کا جواب دینا پڑ تھا اوروہ جواب بھی ناقص تھا۔

سورۃ نحل کی ۱۰۳آیت میں لکھا ہے (وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ لِّسَانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ وَهَٰذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُّبِينٌ) ترجمہ خُدا کہتاہے ہم کو معلوم ہے کہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ محمد کو سکھلاتا ہے ایک آدمی جس آدمی کو وہ سکھلانے والا خیال کرتے ہیں اُس آدمی کی زبان تو عجمی ہے اوریہ قرآن تو صاف فصیح عربی زبان ہے ۔ پس اُس عجمی نے یہ فصیح عربی کیونکر سکھلائی ۔

تفسیر جلالین میں لکھا ہے (وہوقین نصرانی کان النبی یدخل علیہ ) یعنی وہ آدمی ایک عیسائی لوہا رتھا پیغمبر صاحب اُس کے پاس جایا کرتے تھے ۔

(تفسیر مدارک میں لکھا ہے) ارادبہ غلا ماً کان لخولطیب قداسلم وحسن اسلامہ واسمہ عایش اویعش دکان صاحب کتب اوہو جبر غلام رومی اوعبدان جبر ویسا ر کانا یقرآن التور اۃ والا نجیل وکان رسول اللہ یسمع مایقران اورسلمان الفارسی ۔ترجمہ بشر سے مراد ہے ایک غلا م جو خولطیب کا غلا م تھا وہ مسلمان ہوگیا تھا اوراچھا مسلمان بنا تھا اُس کا نام عایش یا یعیش اوراُس کے پاس بہت کتابیں تھیں ۔ یا ایک اور رومی غلام تھا جس کا نام جبر تھا یا دو غلام تھے جبر ویساریہ دونوں توریت اورانجیل پڑھا کرتے تھے اورنبی صاحب سُنا کرتے تھے اُن کا پڑھنا ۔ یا سلمان فارسی مراد ہوگا ۔تفسیر حسینی میں لکھا ہے درخبراست کہ غلامی رومی بود مرعامربن خفرمی رامیگو یند کہ جبر گفتند ے وگویند کہ دو غلام بودند جبر یسا رکہ شمشیر ہارا صیقل مے زوندے واہل کتاب بود ندہ پیوستہ توریت وانجیل خواندندے چون رسالت پنا ہ بر الیشان بگذشتے استماع قرات الیشان فرمود ی و گفتہ اند خولطیب راغلامی عایش نام بوداز اہل کتاب یا یعیش یا بعلام یا نحیس یا عداس واصح السنت کہ اورابو فکیہ گفتندے شبہا پیش حضرت پیغمبر آمدی وقرآن تعلیم گرفتی قریش گفتندی کہ محمد ازین غلام کلامے مے آموزدوباما میگویند ۔

منشی صاحب کہتے ہیں کہ ہمارے زمانہ کے عیسائی ایسے عیب لگاتے ہیں دیکھو یہ اُس زمانہ کے عیسائیوں کی بات ہے یا عین محمدصاحب کے مُنہ پر قریش کا بیان تھا۔ اورپھر منشی صاحب کس طرح کہتے ہیں کہ ایسی بات کا کبھی چرچا نہیں ہوا کیا منشی صاحب نے قرآن نہیں پڑھا  ناظرین آپ ہی انصاف کریں ۔

(و) ناظرین کو یہ بھی معلوم ہو جائے کہ محمد صاحب نے ان قریش کے معترضوں کو جواب بھی درست نہیں دیا بلکہ فتح معترضوں کی رہی تھی ۔ اعتراض یہ تھا کہ اُس شکستہ زبان نصرانی سے مضامین کتب مقدسہ کے حضرت سُنتے ہیں اوراپنی فصیح عربی میں ہمیں سناتے ہیں ۔ جواب یہ ملا کہ اُس کی زبان غیر فصیح ہے پر ہم فصیح قرآن سکھلاتے ہیں یہ تو وہ پہلے ہی کہتے  تھے کہ مضامین اُس کے ہیں عبارت حضرت کی ہے اوراسی کا اقرار جواب میں بھی ہوا۔

دوسرا امر

ملک شام کو جانا کئی بار یہ بات جھوٹ ہے مگر دوبار جانا ثابت ہے  تو بھی جلدی آئی تھی اورسریانی زبان نہ جانتے  تھےپس ایسی جلد ی اوراس قدر علوم کیونکر سیکھ لئے ۔

جواب

جانا توکئی بار ہوا ہے پر خیر منشی صاحب دوسفر تومانتے ہیں ۔اورہم یہ نہیں کہتے کہ وہاں جاکے علوم پڑھے  تھے کیونکہ محمدصاحب کے قرآن میں کچھ علوم اورمعارف نہیں ہیں مگر بات یہ ہے کہ اہل کتاب سے کچھ موقع باتوں کا ملا اورکچھ کچھ سُنا بھی اورغلط پلط یا دبھی رہا۔ مگر یہ کہنا کہ سریانی نہ جانتے تھے بھلا سریانی کی کیاحاجت تھی ہندوستان کے دیہاتی لوگ شہروں کے مسلمانوں میں آتے ہیں اگرچہ عربی نہیں جانتے تو بھی اسلام کی باتیں اپنی زبان میں اُن سے سُن جاتے ہیں جس زبا ن سے محمدصاحب بیو پار کا معاملہ اُن سے کرسکتے تھے اُسی زبان سے اُن کی تقریر بھی سن سکتے تھے اوراتنی زیادہ حجت کی کیا ضرورت ہے گھر  میں سکھلانے والی اورتوریت اورانجیل بھی موجود تھی جس کا ذکر اوپر ہوگیا ہے ۔

تیسرا امر

یمن جانا قطاً غیر صحیح ہے کیونکہ اگرچہ ڈاکٹر ویل لکھتے ہیں کہ ۱۶ برس کی عمر میں محمد صاحب اپنے زبیر  کے ساتھ یمن کو گئے مگر اسپر نگر صاحب کہتے ہیں کہ مجھے ا سکی کوئی سند نہیں ملتی پس نتیجہ یہ ہوا کہ یمن میں جانا قطعاً غلط ہے ۔

جواب

اسپر نگر صاحب کا قول شاید منشی صاحب نے وحی سمجھا ہے جس پر قطیعت کا فتویٰ دیتے ہیں۔ صاحب اس پر نگر صاحب کی کتاب اورڈاکٹر ویل وغیرہ کی کتاب کی نسبت زیادہ معتبر سیرؔۃ النبی ہے وہاں لکھا ہے (دسافرصلعم الے الیمن وعمرہ بضع عشرۃ سنتہ وکان مُعہ فی ذلک السفر عمہ الزبیر) ۔ یعنی محمدصاحب نے سفر کیا یمن کی طرف اور اس سفر میں اُن کا زبیر ساتھ تھا اوردس برس سے اوپر کی برس اُن کی عمر تھی لفظ بضع آپ لوگ کہتے ہیں کہ نوتک حدرکھتا ہے پس کیا مضایقہ ہے کہ ۱۶ برس کی عمر میں گئے ہوں ۔

پھر اُسی کتاب کے صفحہ ۶۳ کے آخر میں ہے (نقلہ الجلی فی سیرہ وذکر فہیا ان خدیجتہ استاجرت النبی ایضا سفر تین الی جرش و ہوموضع بالیمن و ہو المراد بقول بعضہم سوق حباشیتہ وذلک یفید انہ صلعم سافر لہا سفرات

یہاں سے ثابت ہے کہ جوانی میں بھی یمن کے سفر کو گئے تھے حَلبی  سے زیادہ اسپر نگر صاحب کا قول نہیں ہے جس پر قطیعت کا فتوی منشی صاحب دیتے ہیں۔

چوتھا  امر

ماسٹر رام چندر  صاحب باربار لکھتے ہیں کہ خدیجہ نے توریت انجیل پڑھی  تھی اورحوالہ طبری کا دیتے ہیں۔ مگر میور صاحب اس پر نگر صاحب کا قول یوں نقل کرتے ہیں کہ یہ مضمون طبری کے فارسی ترجمہ میں ہے نہ عربی میں ۔

جواب

یہ کچھ بڑی بات نہیں ہے اور نہ اس وقت میرے پاس طبری موجود ہے کہ عربی میں دیکھ کر تصدیق یا تکذیب کُروں بالفرض اگر ترجمہ فارسی میں ہے تو وہ ترجمہ  بھی آپ ہی لوگوں کا ہے ماسٹر صاحب نے ترجمہ نہیں کرلیا ہے ۔ اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ خدیجہ کو بہت سی باتیں اہل کتاب کی معلوم تھیں  اوراس کے بعض احباب نصرانی تھے خواہ اُس نے پڑھا یا نہ پڑھا ہو اس سے کیا نکلتا ہے بے پڑھے آدمی بھی دین کی موٹی  باتو ں سے اکثر واقف ہوتے ہیں۔

پھر یہ بھی منشی صاحب کہتے ہیں کہ ساتویں یاگیارہویں  صدی میں کلام کے ترجمے عربی میں ہوئے ہیں  پہلے عربی میں ترجمہ نہ تھا اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ بالا ستعاب ترجمہ پہلے نہ ہو مگر کسی کسی ٹکڑے  کے ترجمے ضرور تھے اوریہودی وعیسائی لوگ عرب میں بھی رہتے تھے بلکہ اُس ملک میں کہیں کہیں زمیندار اوررجاگیردار بھی تھے خود مکہ اورمدینہ میں بھی رہتےتھے یہ ناممکن ہے کہ اپنے دین کی باتیں اپنی زبان میں کچھ بھی نہ رکھتے ہوں اوروہ  جو مدینہ میں جاکر یہودیوں کے مقدمہ کے وقت حضرت نے توریت منگوائی تھی اورعمر کو توریت پڑھتا دیکھ کر غصہ کیا تھا وہ کیا تھا؟

پانچواں امر

ورقہ بن نوفل عیسائی نے محمد صاحب کو کچھ تعلیم نہیں دی ۔

جواب

جس قدر تعلیم دینا حدیثوں میں لکھا ہے اُس قدر تو ضرور ہی دی تھی اور اِ س پر ہمارا زور نہیں ہے کہ اُستاد بن کر اُسنے حضرت کو سبق پڑ ھایا ہاں بزرگوں کی صحبت سے جس قدرفائدہ کبھی کبھی کی ملاقات میں پڑھے اور اَن پڑھے  لوگ بھی حاصل کیا کرتے ہیں اُ سی قدر اپنی استعداد کے موافق محمد صاحب نے بھی ورقہ بن نوفل بزرگ عیسائی کی باتیں سُن کر حاصل کیا تھا اور یہ ہمارابیان سیر و حدیث کی کتابوں کے موافق ہے ۔منشی صاحب بے دلیل بولتے  ہیں کہ وہاں سے کچھ نہیں سیکھا۔

چھٹا امر

بحیرہ راہب عرب میں کبھی نہیں آیا ۔اسپر  نگر صاحب کا استدلال فقرہ (ردہ ابو طالب معہ) سے باطل ہے ہاں عرصہ قلیل تک حضرت نے بحیرہ راہب  سے ملاقات کی تھی اس عرصہ قلیل کی ملاقات وہ راہب سارے قرآن کی تعلیم کیونکر کر سکتا۔

جواب

کوئی نہیں کہتا کہ سارے قرآن کی  تعلیم اُسنے دی  ہے مگر یہ کہتے ہیں کہ کچھ کچھ باتیں اُس سے بھی سُنیں اور وہ قرآن کی تالیف میں کام آئیں۔

ساتواں امر

سلمان فارسی ہجرت کے بعد مدینہ میں آکر مسلمان ہوا تھا۔راوڈیل صاحب کہتے ہیں کہ بہشت کی باتیں اُس نے  بتلائیں تھیں یہ غلط ہے کیونکہ ہجرت سے پہلے محمد صاحب نے بہشت کا ذکر سنایا تھا۔

جواب

میں نہیں کہتا کہ بہشت کا ذکر سلمان فارسی نے سکھلایا بلکہ میں جانتا ہوں کہ بہشت کی باتیں جو حضرت نے سُنائیں وہ نفسِ اماَرہ کی سکھلائی ہوئی تھیں کیونکہ اُن کا بہشت ہر نفسانی آدمی کی خواہشوں کے مطابق تجویز ہوا ہے۔سلمان فارسی نے بھی کچھ مدد کی ہو گی اور اپنے ملک فارس کے خیالات تذکرۃً یا صلا حاً کچھ سنائے ہوں گے پر میرا یہ بیان نہیں ہے ۔میرا بیان تمام جہان کے سامنے  یہی ہے کہ نفسِ اماَرہ نے نفسانی بہشت تجویز کیا ہے اور ہر گز ایسا بہشت خُدا کا نہیں ہے ۔وہاں پر ہر گز ہم لوگ جانا بھی پسند نہیں کرتے۔

آٹھواں امر

یہ کہنا کہ بعض  غلاموں نے سکھلایا ہے یہ بھی غلط ہے کیونکہ غُلام لڑکے تھے جب پکڑے آئے جوانی میں لڑکپن کی باتیں بھُول گئے تھے۔

جواب

منشی صاحب کی اسی بات میں بڑی کوشش ہے کہ نہیں سکھلایا مگر جناب منشی صاحب ضرور سکھلایا ہے ۔ امر اول  کے جواب پر پھر  غور فرمائیے۔منشی صاحب کہتے ہیں کہ غلام جب پکڑے آئے  تب وہ لڑکے تھے  پر  یہ کہاں سے  ثابت ہوا جوان لوگ بھی بلکہ بعض وقت بڈھے آدمی بھی اور لڑکے بھی پکڑے آتے تھے پر یہ غلام لڑکے ہی تھے جب پکڑے آئے اِس کا ثبوت کیا ہے؟ دوسرا یہ کہ جوانی میں لڑکپن  کی باتیں بھُول  جایا کر تے ہیں یہ کیسی بات ہے  صاحب بڑ ھاپے تک بلکہ موت تک بھی نہیں بھولتے شاید منشی  صاحب  لڑکپن کی باتوں کو بھُول گئے ہوں گے ناظر ین آپ  انصاف کرلیں کہ وہ غُلام پڑہے ہوئے آدمی تھے اور کتابیں بھی پاس رکھتے تھے اور پڑھکر حضرت کو سُنا تے بھی تھے پر اِسکے کیا معنی ہیں کہ بھُول گئے تھے۔

نواں امر

محمد صاحب کا دین مسیحی سے استفادہ کرنا بھی باطل سند ہے  کیونکہ اُس زمانہ کی مسیحیت بت پرستی سے کم نہ تھی۔

جواب

صاحب دین مسیحی کے اقوال وہی تھے جو اسوقت ہیں مگر اُن کے ساتھ روایتوں اور حدیثوں کی مکروہ تعلیم کے سبب کچھ تصویر بُت پرستی کی بھی رائج ہو گئی تھی اور لوگ ایسے تھے جیسے اسوقت محمدیوں میں بدعتیوں یا پیر پرستوں کا فرقہ ہے یعنی جو حال رومن کتیھولک لوگوں کا اسوقت ہے وہی حال اُس وقت بھی تھا آپ پروٹسٹنٹ لوگوں کی حالت کواُس وقت کی رومن کیتھولک کی حالت سے  مقابلہ کرکے یہ کہتے ہیں مگر اس تکلیف کی کیاضرورت ہے رومن کیتھولک ابتک کثر ت سے موجود ہیں اوراُسی حالت میں بھی ہیں اورمحمد صاحب نے جو کچھ دین عیسائی کا بیان قرآن میں لکھوایا ہے یا اپنے حدیثوں میں سُنا یا ہے وہ سب بیان موافق ہے انہیں رومن  کیتھولک کی حالت کی پس ضرور اُن سے استفادہ کیاگیا دیکھو منشی صاحب وجہ ثبوت کو وجہ نفی بناتے ہیں اورانصاف نہیں کرتے ۔

دسواں امر

نظم قرآن تخالف تناقض  سے بچ کر  باہم توفیق وتطبیق  دکھلاتی ہے اس سے ثابت ہے کہ اُس کی تصنیف میں کسی کی شراکت نہ تھی ۔ اس دلیل کو منشی صاحب ایک نہایت عمدہ اورگہری دلیل بتاتے ہیں اور اس پر خاتمہ کرتے ہیں۔

جواب

قرآن کی نظم بے ربط ہے اور وہ حدیثوں سے ربط پانے کی  بہت ہی مختاج ہے  اور حدیثیں ہر فرقہ کے پاس جد اہیں  ہرفرقہ اپنے حدیثوں کے موافق اُس کی عبار ت کو پھیر  کر ایک دوسرے کے  خلاف بولتا ہے اور اسی واسطہ شیعہ لوگ اُس کی نظم کو نظم عثمانی بتلا کے قبول نہیں کرتے اس کے  سوا قرآن کی ساری عبارت کی خوبیاں اورتخالف وتناقض ہدایت المسلمین کے آخری فصلوں میں دکھلاتے بھی گئے ہیں اور اُن کا تطابق بدون تاویلا ت قریبہ اوربعید کے  ہو نہیں سکتا اورمنشی صاحب  نے ابتک اُن میری فصلو ںکا جواب بھی نہیں دیا ہے جس سے تسلی ہوجائے کہ بدون تاویلات بعیدہ کی وہ تناقض رفع ہوگیا ہے پس اس لئے یہ بیان منشی صاحب کا باطل ہے بلکہ تناقض ہے اورجب ہے  تو شراکت بھی ثابت ہے بموجب بیان منشی صاحب کے ۔

اس  کے بعد منشی صاحب فرماتے ہیں کہ (تلک عشرہ کا ملہ ) یعنی یہ دس امر دس دلیلیں کامل  ہیں محمد صاحب کی نسبت میں کہتا ہوں کہ یہ تو نہایت ناقص اورمہمل باتیں ہیں اور ان کا بطلان اُنھیں  چند اوراق میں ثابت ہوگیا ہے ہر منصف مسلمان  کے نزدیک بھی پس ان دس امور کو۔ (تلک عشرہ باطلہ ) کہنا چاہئے ۔ ہاں ایک بات سچ ہے کہ  جس قسم کے محمد صاحب نبی کامل ہیں اُسی قسم کے یہ امور عشرہ بھی کامل ہیں۔

۱۶ ۔تعلیق

عمادالدین نے اپنی تواریخ کی آخر میں جو ایک فصل خصایص  محمد یہ کی نسبت لکھی ہے یہ بھی اچھا نہیں  کیا کیونکہ یہ حدیث کی باتیں ہیں۔

۱۶ ۔تقلیع

صاحب میں بھی جانتا ہوں اورسب ناظرین بھی جانتے ہیں کہ یہ حدیث کی باتیں ہیں جیسے  ساری تواریخ بھی حدیث کی باتیں ہیں۔ مگر میں یہ کہتا ہوں کہ آپ کے  بزرگوں نے محمد صاحب کی خصایص یوں لکھی ہیں اورآپ کے  بزرگان خصایص کو خصایص محمد یہ بتلاتے ہیں اب آپ کو اختیار ہے چاہیں انہیں خصایص مانیں چاہیں اپنے اسلام کی مرمت کریں پر میں نے تو آپ کی کتابوں میں سے نقل کیا ہے ۔

حاصل ِکلام

تواریخ َمحمدی میں سب کچھ درست لکھا ہوا ہے جیسے مسلمانوں کی سب تواریخوں میں بھی مذکورہ ہے ۔ اورجس قد ر اعتراضات تواریخ میں بند ہ  نےلکھے  ہیں منشی  صاحب نے کسی ایک بات کا  بھی جواب نہیں دیا بے فائدہ تعلیقات لکھی اُن کی سب تعلیقین ناکارہ ہیں۔ اورعیسائی لوگ جو کچھ محمد صاحب کی نسبت لکھتے اوربولتے  ہیں سب درست اوربجا ہے ۔ مگر محمد ی لوگ فکر نہیں کرتے اوراگر فکر بھی کرتے ہیں تو محض یہ فکر کرتے ہیں کہ کس طرح محمدی نبوت ثابت کریں حقیقیت میں خواہ ثابت ہو یا نہ ہو جہاں تک ہوسکے طرفداری کی جائے خواہ مناسب دلائل سے خواہ نامناسب دلائل سے پس ان لوگوں کوحق جو ی منظور نہیں ہے پر طرفداری  منظور ہے ہاں اُن میں بھی بعض روحیں  ایسی ہیں جو خُدا سے ڈرتی ہیں اور ہدایت کی طالب ہیں اُنہیں پر خُدا کی برکت بھی ہوتی ہے ۔ اب جو کوئی اپنی جان بچانی چاہتا ہے وہ ان مولویوں  اورمنشیوں اورجھگڑ الوں کی  تقریر ں سے کنارہ کش ہوکے سب کچھ اپنے حوصلہ کے موافق بے طرفداری کی انصاف سے آپ دریافت کر ےاورعیسائیوں کی تقریر وں کو ان صاحبوں کی تقریرو ں  کو بھی اپنے دلی انصاف کی ترازومیں تولے اوراپنی جان کو  بربادنہ کرے ۔ کیونکہ عیسائی دین ضرور خُدا تعالیٰ کا دین ہے اورسب مذہب دنیا میں باطل  اوربناوٹی ہیں ۔ میری دعا جناب منشی صاحب کے حق میں  اورسب ناظرین کی لئے بھی یہی ہے کہ یسوع مسیح خُدا  کے بیٹے کا فضل تم سب کے شامل حال ہوجائے تاکہ سب زندگی پائیں اورخُدا سب کی آنکھیں کھو ل دے  کہ اُس کو جو برحق ہے پہچا نیں اوراس  کے سامنے سجدہ کریں آمین ۔

Account of the Hafizabad Debate

Religion of Islam

مناظرہ حافظ آباد

An Account of the Hafizabad Debate

مرتبہ

ایم۔ کے ۔ خان

علامہ حاجی پادری عبدالحق صاحب پروفیسر تھیالوجیکل کالج
سہارنپور
اور
علامہ حاجی پادری سلطان محمد خان پال صاحب پروفیسر عربی فورمین کالج لاہور
سے
توحید محضہ اوراسلامی نجات
مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری مدیر اہلحدیث
کے

انکاروفرار کی دلچسپ کیفیت

ایم ۔ کے ۔ خان ۔ مہاں سنگھ باغ ۔ لاہور

M. K. KHAN

MAHAN SINGH BAGH, LAHORE

۱۹۲۸

Religion of Islam

دیباچہ

مسلمانانِ پنجاب میں مولانا ثناء اللہ صاحب کے پایہ کا اور کوئی کہنہ مشق وتجربہ کارمناظر نہیں۔ بجا طورپرآپ کو " شیرپنجاب" کہا جاتاہے۔ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے مباہلہ اور موت نے آپ کی شہرت کو تمام ہندوستان میں عام کردیا اور اس سے مولانا مالا مال بھی ہوگئے۔ پھر مرزا جی کے مرُیدوں نے آپ سے بمقام لدھیانہ شکست  کھاکر آپ کے " فاتح قادیاں" ہونے پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ نیز آریوں اور شیعوں کے بالمقابل بھی آپ اکثر ظفریاب رہتے ہیں۔

اب پیرانہ سالی میں آپ کو مسیحیوں سے واسطہ پڑا۔ پادری عبدالحق سے اسلامی توحید پر آپ مناظرہ کرسے ہمیشہ کتراتے رہتے ہیں۔۱۹۲۶ میں پادری سلطان محمد خان صاحب نے اس موضوع پر آپ کو بمقام گوجرانوالہ خاموش کردایا تھا چنانچہ نور افشاں اوراہل حدیث اُس کے شاہد ہیں۔ اب مسلمانان حافظ آباد نے آپ کو بُلایا۔ مگر جب اسلامی معتقدات کو زیر بحث لانے کی نوبت آئی تو آپ نے بحث ہی بند کرادی اور ہزاروں آدمیوں کے ہجوم کو تحقیق مذہبی کے استفادہ سے محروم ومایوس کردیا۔ افغانِ " شیرافگن ۱ " (پادری پال صاحب) نے چیلنج پر چیلنج کیا کہ اسلامی نجات پر مباحثہ کرلو مگر آپ ایسے دہشت زدہ ہوئے کہ پھر کھڑے ہونے کی جرات ہی نہ ہوئی۔ جب آپ طرح بہ طرح کے حیلوں سے بحث سے گریز اور فرار کی تیاریاں کررہے تھے توپادری عبدالحق صاحب نے آپ کو شرائط سے آزاد چیلنج دیا جسے پہلے آپ نے منظور کرلیا مگر جب تاریخ مباحثہ کے  تعین کی نسبت دریافت کیا توآپ نے خاموشی میں پناہ لی۔ " اسلامی نجات" اور" اسامی توحید" حسرت بھی نگاہوں سے آپ کے چہرہ کودیکھتی رہ گئیں مگر آپ اُن کو بیکسی کی حالت میں چھوڑ کر امرتسر آگئے۔ یہاں آکر تحفظ شہرت کی خاطر حافظ آباد کی غلط رپورٹ اہل حدیث میں چھاپی۔ جب ہم  نے پادری صاحب کا جواب آپ کوبغرض اشاعت بھیجا توشائع کرنے سے انکار کردیا۔ اب ہماری کشادہ دلی دیکھئے کہ فریقین کے تمام مضامین اور خطوط وکتابت کو اس رسالہ میں مرتب کردیا ہے تاکہ آپ پبلک یک طرفہ بیان سُنا سُنا کر مغالطہ میں نہ ڈالتے رہیں۔

مولانا صاحب! یہ سب کچھ اس لئے ہواہے کہ آپ حق کی قوت کا اندازہ کریں اور عبرت پکڑیں۔

" سب کو آزمائیں اور بہتر کو اختیار کریں"۔

من از ہمدردیت گفتم ۔ توہم خود فکر کن بارے

خرواز بہرایں روز ست اے داناوہشیارے

(خان)

۸ دسمبر ۱۹۲۸

حافظ آباد پنجاب میں مناظرہ

مابین مسیحیاں واہلحدیثاں

"حافظ آباد کی جماعت اہلحدیث اوراُن کے امام مولوی حافظ عبدالمجید  صاحب بڑے مشتاق وخواہشمند تھے کہ اسلام اور مسیحیت کے متعلق تبادلہ خیالات مناظرہ کی صورت میں ہو۔ چنانچہ و ہ کئی بار پاسٹر کلیسیا حافظ آباد اورمسیحیوں کے پاس آئے اوراُنہیں چیلنج دیاکہ ہمارے ساتھ مناظرہ کی تاریخ مقرر کریں۔اورجہاں تک ممکن ہو جلدی کریں ہر چند کہ اُن کو سمجھایا گیا کہ مناظرہ سے باز رہیں۔ مگر وہ اپنی بات پر اڑے رہے ۔ اورکہا کہ ہم سے ضرور ہی مناظرہ کریں۔خیر ہم نے طوعاً وکرہاً ان کے چیلنج کو منظور کرلیا اور فریقین کی صلاح مشورہ سے ۲ اور ۳ دسمبر ۱۹۲۸ء کی تاریخیں برائے مناظرہ مقرر کی گئیں۔ اور مناظرین کے بلانے کا انتظام کیا گیا۔اور شرائط وغیرہ طے ہوگئیں۔ہم مسیحیوں نے اس بات پر زور دیا کہ دو منصف برائے فیصلہ آریاؤں یا سکھوں سے منتخب کئے جائیں۔ ایک کا نام ہماری جانب سے ہو اور دوسرے کا نام آپ کی جماعت اہلحدیث کی جانب سے پیش کیا جائے۔ پہلے تو وہ منظور کرتے رہے مگر آخر کار کہا کہ فیصلہ پبلک خود کرلیگی ہم کوئی منصف وغیرہ مقرر نہ کرینگے۔

فریقین کی جانب سے مندرجہ ذیل مضامین برائے مناظرہ منظور کئے گئے۔

منجانب مسیحیاں: ( ۱)کیا موجودہ بائبل تحریف وتنسیخ سے مبرا ہے؟ (۲) اثبات التوحید (۳) نبوتِ محمد صاحب۔ (۴) اسلامی نجات۔

بتاریخ یکم ستمبر ۱۹۲۸ء فریقین کے مناظرین بخیریت تمام حافظ آباد پہنچ گئے اور بتاریخ ۲ ستمبر ۱۹۲۸ء بوقت ۸بجے صبح ایم ۔ بی ۔ سکول حافظ آباد کے کمپونڈ میں جلسہ شروع ہوا ۔ سب سے ہمارے مقرر طرار۔ جناب ریورنڈ عبدالحق صاحب فاتح قادیاں پروفیسر تھیولاجیکل کالج سہارن پور مصنف رسالہ" اثبات التثلیث" نے تحریف بائبل کے مضمون پر ایک عالمانہ تقریر بڑی فصاحت وبلاغت سے فرمائی پُرانے نسخہ جات ۔تورایخ عالم ۔ کتبہ جات اور پُرزور دلائل وبراہین سے ثابت کردکھایا کہ موجودہ بائبل تحریف وتنسیخ سے مبُرا ہے۔

بعداز لکچرمولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری معترض ہوکر اٹھے اورسوال کیا کہ سب سے پہلی کتاب کس نے لکھی ہے؟ اوریہ کہہ کر بیٹھ گئے (ان کے لئے ۱۰ منٹ برائے تقریر مقرر تھے)۔

پادری عبدالحق صاحب نے کہاکہ لازم تویہ تھا کہ آپ میری دلائل کو رد کرتے کیونکہ بحث طلب بات یہ ہے کہ موجودہ بائبل محرف ہے؟ اورمیں نے ثابت کیا ہے کہ محرف نہیں ہے۔ لہذا آپ ثابت کریں کہ یہ تحریف شدہ ہے۔

مولوی صاحب۔ بہادر توآپ تب ہونگے اگر نام لینگے کہ پہلی کتاب کس نے لکھی ہے؟ سمجھ کے قدم رکھنا کہ سامنے کون کھڑا ہے۔ اہلحدیث کا زبردست جرنیل ہے۔ اسی طرح کئی دفعہ اٹھ اٹھ کر چند اشعار پڑھ کر اور چند تمسخر  آمیز الفاظ کہہ کر اپنی جماعت کوخوش کرتے رہےمگر مضمون کوچھوا تک نہیں اورنہ کسی آیت کو پیش کیا کہ فلاں فلاں آیت تم لوگوں نے نکال دی ہوئی ہے۔ جیسے کہ اکثر اوقات کہا کرتے ہیں۔ خیر آخرکارپادری صاحب موصوف نے جواب دیا کہ پہلی کتاب حضرت موسیٰ نے لکھی ہے۔ اور پھر مولوی صاحب استشنا ۳۴باب کی ۵تا ۸آیت کو پیش کرکے یوں گویا ہوئے کہ دیکھو بھائیو۔ موسیٰ اپنی موت وغیرہ کا حال خود لکھتا ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ یہ آیات ثابت کرتی ہیں کہ یہ پیچھے بڑھائی گئی ہیں۔ اورحضرت موسیٰ کی تصنیف نہیں ہیں۔ پادری صاحب نے اُن کی تسلی کردی کہ یہ کتاب تتمہ ہے اور عزرا فقیہ نے اس کو الہام سے درج کیا ہے۔ پھر مولوی صاحب نے دوسرا پہلو اختیار کیا کہ رومن کیتھولک لوگوں کی کتابیں اپاکریفل کئی دفعہ بڑھتی گھٹتی رہی ہیں۔

پادری صاحب نے جواب دیا کہ ہم بائبل کی ۶۶ کتابوں کوا لہامی مانتے ہیں آپ اُن میں سے کسی کو تحریف شدہ ثابت کرکے دکھادیں۔

مولوی صاحب نے اصلی مسئلہ زیربحث کو چھوا تک نہیں اور نہ پادری صاحب کی کسی دلیل کا ردکیا اور نہ کچھ بائبل میں سے جعلی اور تحریف شدہ ثابت کرسکے۔ خداوند کے داؤد کے سامنے بیچارہ بڈھا جرنیل مات کھا گیا اور بمشکل تمام اپنا پیچھا چھڑایا۔

بعد ازاں جناب مولانا ثناء اللہ صاحب نے تحریف قرآن پر فقط ۱۵ منٹ تقریر فرمائی (حالانکہ ) بیس برائے تقریر مقرر تھے) جس کا لُب لباب یہ تھا کہ موجودہ قرآن متواتر سینہ بسینہ قرآن کے حافظوں کے سینوں میں محفوظ چلا آتاہے۔ اورمحمد صاحب کے زمانہ سے اب تک بغیر کسی قسم کے ردوبدل کے موجود ہے۔

بعد از تقریر جناب پادری مولوی سلطان محمد پال صاحب افغان سلطان المناظرین علامہ دہر معترض  ہوئے کہ موجودہ قرآن حضرت عثمان کا ہے نہ کہ حضرت محمد صاحب کے زمانہ کا کیونکہ پہلے قرآن جو اکٹھے کئے گئے تھے وہ آپس میں متفرق تھے اور حضرت عثمان نے اُن کو جلادیا تھا اوراپنے قرآن کو قائم رکھا تھا۔میں بڑے دعوے اور بڑے زور سے کہتاہوں کہ موجودہ قرآن حضرت محمد صاحب کے زمانہ کا نہیں ہے حضرت محمد کے قرآن کا نام ونشان صفحہ ہستی پر موجود نہیں ہے بلکہ یہ حضرت عثمان کا جمع کردہ ہے دیگر یہ کہ اُس زمانہ کا رسم الخط علیٰحدہ علیٰحدہ حروف میں تھا جیسے کہ انگریزی حروف علیٰحدہ علیٰحدہ چھاپے جاتے ہیں۔ اور بعد ازاں کوفی رسم الخط جاری ہوا۔ اُس زمانہ کے رسم الخط کا کوئی قرآن صفحہ دنیا پر آج کل موجود نہیں ہے۔ بلکہ یہ حضرت عثمان کے زمانہ کا ہے جو کہ تحریف شدہ ہے۔

شیر پنجاب (مولانا ثناء اللہ صاحب) جواب کے لئے اٹھتے تو رہے مگر کابلی شیر (پادری سلطان محمد پال صاحب افغان) کے سامنے اُن کے اشعار کارگر نہ ہوئے۔ اور نہ وہ ثابت کرسکے کہ موجودہ قرآن محمد صاحب کے زمانہ کا قرآن ہے۔ نہ وہ کسی کتبہ ۔پرانے نسخہ یا تاریخِ دنیا کواپنی شہادت میں پیش کرسکے۔ مولانا صاحب کا سب دارومدار بیچارے حافظوں کے سینوں پر تھا کہ حافظوں کے سینوں میں محفوظ چلا آتاہے اوربس۔ دونوں لکچروں کے بعد ہندوپبلک نے فیصلہ دیا کہ " واقعی پادری صاحبان کے دعوے اور دلائل زبردست ہیں۔ اورمولوی صاحب اُن کے مقابلہ میں بالکل عاجز رہ گئے ہیں۔ اور سوائے تمسخر اور شعر گوئی کے اُن کے پلے کچھ بھی نہیں۔

۲ ستمبر شام کی کارروائی۔ ۲ ستمبر کی شام کو مولوی حافظ محمد صاحب گوندلانوالہ نے اثبات توحید پر لکچر دیا(اس نام کا ایک رسالہ مولوی صاحب نے تصنیف بھی کیا ہوا ہے) دورانِ لکچر میں وہ اسلامی توحید کو ثابت تونہ کرسکے فقط تثلیث ہی کارد کرتے ہوئے منطق اور فلسفہ کی اصطلاحیں تومولوی صاحب نے بہت پیش کیں مگر جناب پادری عبدالحق صاحب نے اٹھ کر اُن کی سب اصطلاحات پر پانی پھیر دیا۔ اور بجز نقیوں کے مولوی صاحب کے پلے کچھ نہ رہا۔ اور وہ بالکل ثابت نہ کرسکے کہ اسلامی توحید کیا ہے۔

پادری صاحب موصوف نے ثابت کرکے دکھادیا کہ خدا کی ذات ِ واحد میں کثرت ہے۔

بعد ازاں اثبات التثلیث پر جناب پادری سلطان محمد پال صاحب نے گوہر افشانی کی اور بڑی صفائی اور وضاحت سے اندرونی اور بیرونی دلائلِ قویہ سے تثلیث جیسے اوق مضمون کو روز روشن کی طرح ثابت کردیا اور" رسالہ اثبات التوحید فی ابطال اثبات التثلیث " مصنفہ مولوی حافظ محمد صاحب کی ایسی  دھجیاں اڑائیں کہ خدا کی پناہ۔ طرفہ ترماجرا یہ ہے کہ پادری صاحب موصوف نے مولوی صاحب کے رسالہ ہی سے تثلیث کو ثابت کرکے دکھادیا۔ بیچارے مولوی صاحب سن کر پانی پانی ہورہے تھے اور مناظرہ کے آخرتک سناٹے کے عالم میں رہے۔

بعد ازتقریر مولانا ثناء اللہ صاحب معترض ہوکر اٹھے (مقررہ وقت دس منٹ تھا) اورآنجناب نے یہ سوال کیاکہ کیا آپ مقدس اتھانسیس کے عقیدہ کو مانتے ہیں؟ اور بیٹھ گئے۔

پادری صاحب۔ جنا ب مولانا صاحب !آپ کو لازم تھا کہ میرے دلائل کو رد کرتے مگر خیر میں آپ کو آپ کے سوال کا جواب دئیے دیتاہوں کہ ہم اس عقیدے کوالہامی نہیں مانتے ۔ لیکن آپ اس میں سے جواعتراض پیش کرنا چاہتے ہیں سوکریں۔

مولوی ثناء اللہ صاحب۔ عقیدہ میں لکھا ہے کہ خدا باپ ازلی۔ خدا بیٹا ازلی اور خدا روح القدس ازلی۔ پھر بھی یہ تینوں ازلی نہیں بلکہ ایک ازلی ۔

پادری پال صاحب۔ میں اس کو مانتاہوں کہ مگریہ کہہ سکتاہوں کہ آنجناب کو اس کی سمجھ نہیں آئی ورنہ آپ اسکو تثلیث کے رد میں پیش نہ کرتے پہلے اس کوسمجھئے۔ مولانا صاحب ۔ اس میں تثلیث کا ثبوت ہے نہ کہ رد۔

لیکن مولوی صاحب اپنے وقت میں عقیدہ اتھاناسیس کی تفسیر ہی کو پیش کرتے اور دعویٰ کرتے رہے کہ میں پُرانا جرنیل ہوں ۔ میرے مقابلہ پر کون کھڑا ہوسکتاہے۔؟ مگر افسوس  ہے کہ پُرانے جرنیل صاحب نے میدان جنگ میں سیدنا مسیح کے بہادر سپاہی کے سامنے اپنا کوئی بھی جوہر نہ دکھایا۔ نہ تو پادری صاحب کے دلائل وبراہین کو رد کرسکے۔  اورنہ بائبل یا قرآن کی کسی آیت یا تعلیم کو اس مضمون کے رد میں پیش کرسکے۔مولوی صاحب نے یہی غنیمت سمجھا کہ مقدس اتھاناسیس کے عقیدہ ہی میں پناہ لینی چاہیے۔ اگرمیں اس سے باہر نکلا توخیر نہیں۔ اوریہ بات اُن کی تجربہ کاری اور عقلمندی پر دلالت کرتی تھی۔

اثبات التثلیث اور اثبات التوحید فی الحقیقت دونوں مشکل مضامین تھے۔عوام الناس بہت کم سمجھے مگرجوسمجھتے تھے اُن کا یہ فیصلہ تھاکہ مولوی صاحبان پادری صاحبان کے آگے عاجز رہ گئے۔

۳ ستمبر کی کارروائی۔۳ ستمبر کو مضمون کفارہ مسیح پر جناب پادری عبدالحق صاحب نے سلیس اُردو میں عالمانہ تقریر کی۔ اورنہایت خوبی اور واضح طور سے مضمون مذکور کو ادا کیا اور ثابت کیاکہ تمام بنی نوع انسان گناہ کےلاعلاج مرض میں مبتلا ہیں۔" کوئی نیک نہیں ۔ ایک بھی نہیں" اور کوئی بشر اپنے اعمال حسنہ اور توبہ سے بچ نہیں سکتا۔ فقط سیدنا مسیح کے فضل پر نجات منحصر ہے  کہ سیدنا مسیح کے فدا کار ہونے سے تیار ہوئی ۔ مثال کے طورپر انہوں نے حضرت ابراہیم کو پیش کیا کہ سیدنا مسیح نے اُن کے بیٹے حضرت اضحاق کے بدلے خود فدیہ دیا۔ حضرت ابراہیم نے اپنے مال یعنی بھیڑ بکری سے نہیں دیا۔ بلکہ سیدنا مسیح نے خود فدیہ دیا۔ اسی طرح خدا باپ نے گنہگاروں کے لئے تمام دنیا کا باپ ہوکر اپنے بیٹے سیدنا مسیح کو فدیہ میں دیا ہے تاکہ " جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔

نیز آنجناب نے لفظ کفارہ کی تشریح کی کہ کفارہ کے معنی ڈھانپنا ہے۔ اوراس مضمون کو ایسی خوبی سے پیش کیاکہ سامعین کے ذہن نشین ہوگیا۔ مگر افسوس ہے کہ جب مناظرے کا وقت آیا تو صاحب موصوف کے مقابلہ پرایک ایسے شخص کو کھڑا کردیا جوایک لاعلم شخص تھا اورپادری صاحب کے مقابلہ میں کچھ حقیقت نہ رکھتا تھا۔اُس نے اٹھ کرایک قدم سینکڑوں اعتراضات پیش کردئیے جو کہ مضمون سے بے تعلق تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اُس نے وہ تمام اعتراضات مرزائی صاحبان کی پاکٹ بُک میں سے رٹے ہوئے تھے۔ وہ بیچارہ نہ تو مضمون ہی کو سمجھا اورنہ ہی فن مباحثہ سے واقف تھا۔ وہ صرف اُٹھ کر شورمچانا اور جوکچھ منہ میں آجائے وہ کہہ چھوڑنا ہی جانتا تھا۔

پادری صاحب نے کہا کہ یہ کوئی مناظرہ کا طریقہ نہیں ہے ۔ بلکہ اب میں یہ سمجھونگا کہ انجیل کی تبلیغ کررہا ہوں۔ سوجناب نے تمام اعتراضات کے بعد دیگرے تسلی بخش جواب دے دئیے۔

بعد ازاں مسئلہ نجات پر مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری نے تقریر فرمائی جس کا لب لباب یہ تھا کہ تمام دارومدار اعمال حسنہ اور توبہ پر ہے۔ آنجناب نے کہا کہ اسلامی نجات قدرتی طورپر علم طب سے موافق ہے کہ جس طرح گرم اشیاء مثلاً گڑ وغیرہ کے کھانے سے اگرگرمی ہوجائے اوراُس پر کوئی سرد چیز مثلاً لسی شربت نیلوفر وغیرہ پی لیں توکسی طرح کی گرمی نہیں رہتی۔ بلکہ خود بخود قدرتی طورپر علاج ہوجاتاہے اسی طرح سے جو بدی اور گناہ ہم سے سرزد ہوتے ہیں اُن کا ازالہ ہماری نیکیوں سے خود بخود ہوتا رہتاہے اور خدا اُن کا حساب نہیں لے گا یعنی ہماری نیکیوں سے ہمارے گناہ دور ہوجاتے ہیں۔

اوراگر کوئی گناہ کبیرہ ہوجائے توپھر توبہ کرلینے سے اُس کی معافی ہوجاتی ہے جیسے کہ اگر بہت ثقیل(سخت) غذاؤں سے پیٹ خراب ہوجائے توپھر جلاب لینے سے صفائی ہوجاتی ہے۔

بعد از الیکچر پادی سلطان محمد پال صاحب نے اسلامی نجات کا طبی اصول قرآن شریف اور حدیث کو پیش کرکے ایسا ردکردیا اور ثابت کردکھایا کہ اسلام میں کوئی نجات ہے ہی نہیں۔ اورکوئی انسان اپنے اعمال حسنہ اور توبہ سے نجات حاصل کرہی نہیں سکتا۔ اور نیز یہ کہا کہ میں بڑے دعوےٰ سے کہتاہوں کہ کوئی شخص دنیا میں ہے جوکہ اسلام میں نجات ثابت کرسکے۔ اگراسلام میں نجات ہوتی تو تومیں کیوں مسیحی ہوجاتا۔

پھر مولوی صاحب نے اٹھ کر کہا کہ میں اس پر مسلسل سارادن بحث کرنے کے لئے تیار ہوں ۔ افغانی شیر نے اپنا کوٹ اُتار کر جواب دیاکہ میں تیار ہوں۔ مولوی صاحب  کہنے لگے کہ کوئی منصف ہونا چاہیے ۔ جوکہ فیصلہ دے۔ پادری صاحب نے فرمایا کہ میں پنڈت رام چندر دہلوی کا نام منصف کے لئے پیش کرتاہوں اگر آپ کہیں تواُن کو آج ہی تار دیدوں اور کل اسی جگہ مناظرہ ہوجائے۔

مولوی صاحب ۔ میں چاہتاہوں کہ منصف برہمو سماج میں سے ہواور مباحثہ تحریری ہو۔

پادری پال صاحب۔ اگرآپ تحریری مباحثہ کرنا چاہتے ہیں تومیرے رسالہ " میں کیوں مسیحی ہوگیا" کا جواب لکھ دیں(یہ کہہ کر رسالہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی جانب پھینک دیا) یہ رسالہ سات سال سے لکھا ہواہے ۔ جب آپ اُس وقت تک جواب نہیں دے سکے تواب کیا لکھیں گے؟

میں چاہتاہوں کہ کہ مناظرہ دونو صورتوں میں ہو۔یعنی تحریری اور تقریری اور دونو کے منصف پنڈت رام چندر دہلوی ہوں اور تقریری مباحثہ اسی جگہ حافظ آباد میں ہو۔

اورمیں یہ بطور چیلنج مولوی ثناء اللہ صاحب کو تحریر کرتاہوں (چیلنج لکھ کر مولوی ثناء اللہ صاحب کو بھیج دیاگیا)۔ اور اگر میں اپنے ثبوت پیش نہ کرسکوں اور پنڈت صاحب موصوف فیصلہ دے دیں کہ میں جواب دینے سے قاصر رہ گیا ہوں تومیں محمدی ہوجاؤنگا۔

مولوی صاحب نے چیلنج منظور کرلیا اور تحریری جواب لکھ کر بھیجدیا کہ مناظرہ تحریری ہوگا ۔ اورآپ کے رسالہ کا جواب لکھ کر پنڈت صاحب موصوف کوبھیج دونگا اور جو فیصلہ وہ دیں گے مجھے منظور ہوگا۔ (مولوی صاحب نے بھی بعد ازاں پنڈت رام چندر دہلوی کا نام بطور منصف منظور کرلیا تھا)پادری صاحب نے تحریری جواب دیاکہ مجھے یہ منظور ہے کہ مناظرہ تحریری اور تقریری ہو۔ اور تقریری بمقام حافظ آباد ہو۔آپ  تقریری سے کیوں گریز کرتے ہیں؟ منصف پنڈت صاحب موصوف ہونگےاورجو وہ فیصلہ دیں گے مجھے منظور ہوگا۔ اوراگرمیں جواب الجواب دینے سے رہ گیا تومیں محمدی ہوجاؤنگا اوراس سے آپ کی بڑی شہرت ہوگی۔ مگر ساتھ ہی ایمانداری اس میں ہے کہ اگر آپ جواب نہ دے سکیں اور پنڈ ت صاحب موصوف کا فیصلہ میرے حق میں ہوتو آپ مسیحی ہوجائیں اور مناظرہ ۱۵ ستمبر ۱۹۲۸ء سے پیشتر ہو۔

اسی اثناء میں پادری عبدالحق صاحب نے بھی ایک چیلنج مولوی ثناء اللہ صاحب کے نام بھیج دیا کہ آپ میرے ساتھ ۵ ستمبر ۱۹۲۸ء سے پیشتر اسلامی توحید پر مناظرہ کرلیں۔

اب تو جناب مولوی صاحب اور جماعت اہل حدیث کے چھکے چھوٹ گئے۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کا معاملہ تھا ۔ جواب دیں توکیا دیں۔ سنگ آمد سخت آمد اب بصد مشکل یہ تدبیر سُوجھی کہ اپنے منبر پر ہی سے جواب دیا جائے اورکچھ نہ کچھ سنادیا جائے۔ لیکن جب اُن سے یہ طلب کیا گیا کہ براہ مہربانی آپ اپنا تحریری جواب بھیج دیں تومولوی صاحب نے یہ کیا نہیں۔ برعکس اس کے نعرہ تکبیر شروع کردیا اور اسلامی دنیا نے تالیاں بجانی اور شور کرنا شروع کردیا جیسے کہ اُن کی عادت ہے اوریوں مولوی صاحب  امرتسری نے اپنا پیچھا چھڑایا اور سب مسلمان میدان چھوڑ کرچلے گئے۔ اس جگہ میدانِ مناظرہ میں اہل حدیث حافظ آباد اوراُن کے بڑے مشہور ومعروف جرنیل مناظرہ جناب مولوی ثنا ء اللہ صاحب امرتسری کوشکستِ فاش ہوئی اورمیرا خیال ہے کہ اگر اُن کو یہ دن یاد رہا توپادری سلطان محمد پال صاحب افغان اور پادری  عبدالحق صاحب کے روبرو آئندہ میدانِ مناظرہ میں کبھی نہ آئینگے۔

شہر حافظ آباد میں اب تک اس مناظرہ کا بہت چرچا ہے اور ہندوپبلک اور غیر متعصب مسلمان یہ کہہ رہے ہیں کہ مولوی صاحبان پادری صاحبان سے شکست فاش کھاگئے اور جواب دینے سے عاجز رہ گئے ۔ یہ فتح ہمارے آقا ومولا سیدنا عیسیٰ مسیح کی ہے۔ اُن کا نام اب سے لے کر ابد تک مبارک ہو۔

خدا کا شکر ہے کہ اس جلسہ میں کسی قسم کا نقص امن نہیں ہوا بلکہ ساری کارروائی دوستانہ اور برادرانہ طور سے ہوتی رہے"۔ (مندرجہ نور افشاں)۔ راقم ۔ بی سیموئیل از حافظ آباد

پادری عبدالحق صاحب کے چیلنج کا اثر

جب جناب پادری عبدالحق صاحب  فاتح قادیاں نے دیکھا کہ مولوی صاحب اس موقعہ پر بحث سے گریز وفرار کی راہیں تلاش کرنے کی خاطر لیت ولعل اور عذروبہانہ کررہے ہیں توآپ نے تمام شرائط کی قیود کو دورکرکے مولوی صاحب کی اُسی وقت مباحثہ کا چیلنج دیا تاکہ اسلامی طریق نجات کی اصلیت اور توحید کی حقیقت اُس مجمع پر واضح ہوجائے۔ چیلنج کی نقل درج ہے۔ (خان)


" جناب مولوی ثناء اللہ صاحب۔ تسلیم۔ میں آپ کو اسلامی مسئلہ توحید کے متعلق چیلنج دیتاہوں کہ آپ اس مبحث پر میرے ساتھ تحریری اور تقریری مناظرہ کرلیں۔ منصف پنڈت رام چندر دہلوی ہونگے"۔

مورخہ ۳ ستمبر ۱۹۲۸ء حافظ آباد ۔

عبدالحق (پروفیسر ) نارتھ انڈیا یونائٹیڈ تھیولاجیکل کالج سہارن پور۔


مولوی صاحب موصوف نے اس کا جواب یہ دیاکہ:

چیلنج منظور


" پادری عبدالحق صاحب ۔ تسلیم۔ آپ نے جو چیلنج دیا ہے منظور مگر آپ نے یہ نہیں بتایا کہ فیصلہ میرے حق میں ہونے کی صورت میں آپ اسلام قبول کرینگے"۔

مورخہ ۳ ستمبر ۱۹۲۸ء حافظ آباد ۔

ابوالوفاء ثناء امرتسری ۔


پادری عبدالحق صاحب موصوف نے اس کا جواب یہ دیا کہ:


" جناب مولوی ثناء اللہ صاحب تسلیم۔ آپ مہربانی فرما کر تاریخ اورجگہ کی بابت فیصلہ کریں۔جگہ حافظ آباد ہوگی اور تاریخ ۱۵ ستمبر سے پیشتر جوآپ چاہیں بالتفصیل تحریر فرمائیں کہ کون سی تاریخ کو تقریری مناظرہ ہوگا اور کونسی تاریخ کو تحریری۔ آپ کے " مگر" کا جواب اُس وقت دونگا جب آپ یہ تحریر فرمائیں گے کہ اگر فیصلہ آپ کے برخلاف ہوگا توآپ مسیحی ہوجائیں گے۔ "۔

مورخہ ۳ ستمبر ۱۹۲۸ء حافظ آباد ۔

عبدالحق (پروفیسر ) نارتھ انڈیا یونائٹیڈ تھیولاجیکل کالج سہارن پور۔


جب مولوی صاحب کو یہ چیلنج پہنچا تو اس قدر گھبرائے اورتمام عذر حیلے بھول گئے کہ اُن کی طرف سے اِس کا جواب ہی نہ آیا۔ ہم مولوی صاحب سے مخلصانہ مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ نے پادری صاحب کے اس چیلنج کا کیوں جواب نہ دیا؟

اب ہم آپ کے ہی الفاظ میں یہ پوچھتے ہیں کہ آپ نے اور" اہل حدیث کمپنی" نے " صداقت اور دیانت کواُلٹی چُھری سے ذبح کیا یا نہیں؟ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ مباحثہ تو ہو مذہبی مگر اس کے اندر اور باہر جو کارروائی ہو وہ مذہب اور دیانت کے سراسر خلاف ہو"۔

(خان)


حافظ آباد میں مباحثہ عیسائیوں کے ساتھ

اب ہم اخبار اہل حدیث سے وہ روئداد نقل کرتے ہیں جو" اہل حدیث کمپنی" کی طرف سے اس مناظرہ کے متعلق شائع ہوئی تاکہ ناظرین طرفین کے بیانوں کو بغور مطالعہ کرکے خود فیصلہ کرسکیں کہ اہل حدیث کس قد دیانت کا خون کرتے ہیں۔  (خان)


" ضلع گوجرانوالہ پنجاب میں ایک مقام حافظ آباد اس کی تحصیل ہے وہاں متہروں کی ایک جماعت عیسائی ہوچکی ہے۔ اُن کے سمجھانے یا ترقی کرنے کو پادری لوگ آتے رہتے ہیں۔ مسلمانوں سے بات چیت ہوتے ہوتے مباحثہ تک نوبت پہنچی ۔ مسلمانوں نے مولانا ابوالوفاء ثناء اللہ صاحب ۔ مولانا حافظ محمد صاحب۔ مولوی احمد دین صاحب  وغیرہ علماء کو تکلیف دی ۔ عیسائیوں کی طرف سے پادری سلطان محمد پال صاحب اور پادری عبدالحق صاحب وغیرہ میدان مباحثہ میں آئے۔ مباحثہ ۲۔ ۳ ستمبر کوتھا۔ اورمضامین میں مباحثہ ۱ تحریف بائبل ۔۲ تحریف قرآن۔ ۳اسلامی توحید۔ ۴تثلیث ۔ ۵کفارہ مسیح۔۶اسلامی راہ نجات۔ ہرایک مضمون کے لئے ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹہ وقت مقرر تھا۔

پہلا۔ دوسرا۔ چوتھا اور چھٹا مضمون مولانا ابوالوفاء نے بیان کیا۔ تیسرا مضمون حافظ محمد صاحب اور پانچواں مولوی احمد دین صاحب گکھڑی نے بیان کیا۔

پادری صاحب نے پہلی تقریر متعلق بائبل پر کی۔ اوراپنی تقریر میں بڑا زور اس بات پر دیا کہ توریت وانجیل کے پُرانے نسخے مل گئے ہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ وہ یہی ہیں جوہمارے پاس ہیں۔ نصف گھنٹہ تک پادری عبدالحق نے یہ تقریر ادا کی ۔ مولانا ابوالوفاء نے نہایت متانت سے کھڑے ہوکر صرف اتنا پوچھا کہ اس توریت کا لکھنے والایا لانے والا کون تھا؟ پہلے تواس کی تحقیق ہولے۔ ایک دومنٹوں میں سوال ختم کرکے بیٹھ گئے ۔ خدا جانے اس سوال میں کیا قوت تھی اور پُرانے مناظر نے اس میں کیا مخفی راز رکھا تھا کہ پادری صا حب نے اٹھ کر بہت لمبی تقریر کی مگر اس سوال کو نہ چھوا۔ پادری صاحب کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ میری پیش کردہ دلیلوں کو مولوی صاحب نے چھوا نہیں ۔ بس ایک سوال کردیا جس کا میں جواب نہ دونگا۔ مولانا ہنستے ہوئے کھڑے ہوئے حاضرین کو مخاطب کرکے فرمایا بھائیو!میں نے جو سوال کیا وہ چینی زبان میں تھا یا کشمیری میں جس کو پادری نے سمجھا نہیں؟ لیجئے میں پھر دُہراتا ہوں کہ موجودہ توریت کولکھنے والے کون صاحب ہیں؟ پادری صاحب نے دوسری مرتبہ بھی وہی کہا جو پہلی مرتبہ کہا تھا۔ مولانا نے اپنے سوال کو دُہراکر یہ شعر پڑھا ۔

بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ توہے جس کی پردہ داری ہے

مجلس میں عجب سماں تھا۔ لوگ حیران تھے کہ مولانا نے اپنی عادت کے موافق ہنستے ہوئے ایک ایسی چٹکی لی ہے کہ پادری صاحب سخت پیچ وتاب کھارہے ہیں اورجواب نہیں دیتے۔ آخر تنگ آکر جواب دیا کہ تورات کے لکھنے والے حضرت موسیٰ تھے۔ یہ کہنا تھاکہ مولانا نے کھڑے ہوکر تورات ہی سے عبارت پڑھی جس میں مذکور تھا کہ موسیٰ کی مرنے کے وقت ایک سو بیس برس عمر تھی۔ اس کی قبر کا کسی کو پتہ نہیں وغیرہ۔فرمایا اگر حضرت موسیٰ نے یہ کتاب لکھی ہوتی تویہ الفاظ اس میں کیسے ہوسکتے ہیں؟ پادری صاحب نے جواب دیا کہ موسیٰ کی موت کا مضمون یشوع نبی نے پیچھے لگایا ہے۔ مولانا نے فرمایا پیچھے لکھے حصے کو علیحٰدہ کرکے دکھائیے یہاں توکلام برابر متصل جارہا ہے ۔ پھر ہم کیونکر باور کرلیں کہ اتنا حصہ کسی اور کا لکھا ہواہے اور وہ کون ہے۔ اسی پر وقت ختم ہوگیا۔

اس کے بعد قرآنی حفاظت کا مسئلہ تھا جس میں مولانا بحیثیت  مدعی تھی۔ آپ نےفرمایا مسلمانوں میں خدا کے فضل سے ایک جماعت حافظانِ قرآن کی ہے جو آنحضرت تک  برابر اپنا سلسلہ پہنچاتے ہیں۔ اور آنحضرت خود حافظ قرآن تھے۔ بس یہی قطعی دلیل ہے حفاظ قرآن کی۔ اس پر پادری پال صاحب نے بعض روائتیں بیان کیں جن میں ذکر تھا کہ فلاں آئت قرآن میں تھی وہ اب نہیں۔ مولانا نے اس روایت کومطابق کرکے دکھایا اور وقت پورا ہوگیا۔

تیسرا مضمون حافظ محمد صاحب نے بیان کیا ۔ آپ کے جواب دینے کو پادری عبدالحق کھڑے ہوئے دونوں صاحبوں کی تقریر منطقی اصول پر مبنی تھی۔

آپ کے بعد مسئلہ تثلیث پر تقریر کرنے کو پادری پال صاحب کھڑے ہوئے۔مگر سارا وقت آپ نے حافظ محمد کے رسالہ" اثبات التوحید" کی تردید میں خرچ کردیا۔ مسلم پریذیڈنٹ نے آپ کو ٹوکا کہ مضمون تثلیث پر تقریر کیجئے۔ مگر آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نے  بزور یہی کہا کہ آپ مجھ کو روک نہیں سکتےمیں جو چاہوں بیان کروں۔جواب کے لئے مولانا ابوالوفاء کھڑے ہوئے آپ نے فرمایا ۔ رسالہ محمدی کا جواب تو یہ ہے کہ مصنف ممدوح اعلان کریں کہ جو چاہے مجھ سے پڑھے۔باقی اصل مضمون کے متعلق پھر ایک ہی سوال کیاکہ تثلیث کے تیسرے رکن مسیح کی حقیقت کیا ہے؟ عیسائیوں کا عقیدہ اتھاناسیس کہ جس طرح جسم اور روح کا مجموعہ انسان ہے اسی طرح خدا اور انسان کا مجموعہ مسیح ہے یہ ہے عیسائیوں کا مذہب کہ مسیح خدا اور انسان سے مرکب ہے۔ اس پر پادری صاحب بہت جھنجھلائے یہی کہتے رہے کہ اس تقریر کا تثلیث سے تعلق نہیں مگر حاضرین نے سارا تعلق سمجھ لیا۔

پانچواں مضمون کہ کفارہ مسیح ثابت کرنے کو پادری عبدالحق صاحب کھڑے ہوئے۔ جن کا جواب مولوی احمد دین صاحب نے اپنے خاص رنگ میں دیا ۔ جس کو دیہاتی حاضرین نے بہت پسند کیا۔

چھٹا مضمون اسلامی راہ نجات مولانا امرتسری نے نصف گھنٹہ بڑی خوبی سے بیان فرمایا آپ نے اپنی تقریر میں اسلامی راہ نجات کو ڈاکٹری اورطبی اصولوں سے عجیب طرز سے مطابق کرکے دکھایا۔ پادری پال صاحب نے جواب میں وہ روایات پڑھیں جن میں ذکر ہے کہ ہر شخص خدا کے رحم کے ساتھ نجات پائے گا عمل سے نہیں ۔ مولانا موصوف جواب کی تقریر کررہے تھے ابھی پانچ منٹ ہوئے اور پانچ باقی تھے کہ عیسائیوں کی طرف سے آواز آئی" وقت ختم ہوگیا" مسلم صدر نے کہا ابھی پانچ منٹ باقی ہیں۔ اس پر تکرار ہونے لگی۔ مولانا توکرسی پر بیٹھ گئے پادری سلطان محمد پال صاحب نے بڑے جوش میں اپنا رسالہ" میں کیوں مسیحی ہوا" مولانا کی طرف پھینک کر کہا کہ مولوی ثناء اللہ اس کا جواب دیں تومیں مسلمان ہوجاؤ نگا۔فیصلہ کے لئے پنڈت رام چندر صاحب آریہ دہلوی کا نام پیش کیا ۔ منصف کی بابت چند منٹ ردوبدل ہوتا رہا آخرکار مولانا نے بلند آواز سے اعلان کردیاکہ میں اس رسالہ کا جواب دونگا ۔ اس کے فیصلے کے لئے پنڈت رام چندر صاحب مجھےمنظور ہیں میں جواب لکھ کر مع رسالہ پنڈت صاحب موصوف کے پاس بھیج دونگا جو فیصلہ آئیگا وہ شائع کردیا جائے گا۔ مولانا کے اس اعلان کا جلسہ پر خاص اثر تھا حاضر ین حق کی قوت کا اندازہ کررہے تھے تاہم جن لوگوں کواسلامی فتح میں کچھ تردد تھا خدا نے اُن کا تردد رفع کرنے کوخاص صورت پیدا کردی پادری پال صاحب اپنے اس بیان سے پھر گئے اوراعلان کیا کہ مولوی صاحب کے جواب کا جواب پھر لکھونگا اور مباحثہ تقریری یہاں ہی ہوگا اور پنڈت جی یہاں مباحثہ میں بیٹھیں گے ۔ جب مسلمانوں نے پادری صاحب کا یہ جواب سنا تو خوشی میں نعرہ تکبیر بلند کیا۔سیکرٹری انجمن اہل حدیث حافظ آباد (اہل حدیث ۴ ستمبر)۔

مولوی ثناء اللہ صاحب نے جس نمبر میں سیکرٹری انجمن اہل حدیث حافظ آباد کی مندرجہ بالا کیفیت درج کی اسی اشاعت میں اپنی طرف سے پادری سلطان محمد خان صاحب کے نام ایک کھلا مکتوب شائع  کیا جسے ہم درج ذیل کرتے ہیں۔ (خان)


کھلا مکتوب

بخدمت پادری سلطان محمد پال صاحب

تسلیم ۔ آپ نے مباحثہ حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ (پنجاب) میں بتاریخ ۳ ستمبر ۱۹۲۸ء  اپنی مذہبی تحقیق کا اظہار کرتے ہوئے اپنا رسالہ " میں کیوں مسیحی ہوا" میری طرف پھینک کر کہا تھا اگرآپ اس کا جواب دیں تومیں مسلمان ہوجاؤنگا۔چنانچہ اُس وقت بہت سی قیل وقال کے بعد تقرر منصف بھی ہوا۔ پھر کیا ہوا؟ میں اس کا ذکر چھوڑتا ہوں تاکہ سلسلہ کلام اور طرف نہ ہوجائے۔ بلکہ درد بھرے دل سے آپ کو مخاطب کرتاہوں اور صرف ایک بات نہایت ہی مخلصانہ رنگ میں پوچھتاہوں کہ آپ اس رسالہ کا جواب پاکر منتہائے کلام قرار دیتے ہیں اور فیصلہ کی صورت کیا فرماتے ہیں؟

میں اُمید کرتاہوں کہ آپ میرے اس محبت نامہ کا جواب مودت کے رنگ میں معقول دینگے"۔

آپ کا باوفاء ابوالوفاء ثناء اللہ " (اہل حدیث ۱۴ستمبر ۱۹۲۸)۔


 


کھلا خط

مولوی ثناءصاحب کے خط کے جواب میں

مولوی ثناء اللہ صاحب نے یہ پرچہ ہمیں بھیج دیا۔ اورہم نے پادری صاحب موصوف کو دیکر درخواست کی کہ اس کا جواب لکھیں تاکہ ناظرین اہل حدیث آپ کے جواب کو بھی ملاحظہ فرمالیں۔پادری صاحب نے فوراً جواب لکھ کر ہمارے حوالہ کیا اورہم نے اس کی نقل ایبٹ آباد سے ۱۹ ستمبر ۱۹۲۸ء کو بذریعہ رسید طلب رجسٹری (نمبر ۶۳) مولوی صاحب کوبغرض  اشاعت بھیجدی۔ جسے ہم لفظ بلفظ ذیل میں درج کرتے ہیں۔ روئداد مندرجہ ذیل کی تصدیق  حافظ آباد کے معزز ہندوؤں نے بھی کی ہے جن کے دستخط ہمارے پاس اصل پر موجود ہیں۔ (خان)

من درگزر میدان وافراسیاب


بخدمت مولوی ثناء اللہ صاحب  امرتسری۔ تسلیم ۔ آپ کا کھلا مکتوب جس کو آنجناب نے اپنے اخبار اہل حدیث مورخہ ۱۴ ستمبر ۱۹۲۸ میں کمترین کے نام شائع کیا ہے نظر سے گزرا جس کو پڑھ کر مجھ کو اس امر کا یقین ہوگیا ہے کہ درحقیقت دنیا سے مسلمانی اٹھ چکی ہے۔ اور بجز چند کرم خوردہ کتابوں کے صفحات اور چند قبرستانوں کی بوسیدہ ہڈیوں میں کہیں بھی اس کا نام ونشان نہیں  ملتا کسی کہنہ مشق اُستاد نے خوب کہا ہے کہ مسلمان درگورو مسلمانی درکتاب  جس مذہب کی یہ حالت ہو کہ اس کے ممتاز وسربرآدروہ پیروؤں کو جھوٹ بولنے میں دریغ نہ ہو اس پر وہ سچائی کا دعویٰ کرنے والا مری ہذا عجیب ۔ آپ جیسے مولوی فاضل فاتح قادیاں مفسرِ قرآن ۔ سرآمد اہل حدیثاں کی جب یہ کیفیت ہے کہ صداقت اور دیانت کے نام سے اس قدر متنفر ہیں جس طرح ہندولحم البقر سے توباقی  عوام کا لانام مسلمانوں سے کیونکر یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ  شعائر اسلام کے پابند اور اخلاق محمدی کے مجسم نمونے ہوکر جئیں۔ چنانچہ" اہل حدیث" کے اسی نمبر میں ایک اور" اہل حدیث" کا نمونہ ہمارے سامنے موجود ہے جس نے اس قدر دروغ بانی اور کذب بیانی سے کام لیا ہے کہ مسلم کذاب بھی پناہ مانگتا ہے۔ اور تعجب تویہ ہے کہ یہ شخص کوئی معمولی اہل حدیث بھی  نہیں بلکہ انجمن اہل حدیث حافظ آباد کے سیکرٹری ہیں۔ اس ننگ اسلام کو اس کا بھی خیال نہیں آیاکہ جب  حافظ آباد میں اس کا مضمون پہنچیگا جو سراسر دروغ مصلحت آمیز کا آئینہ ہے تواگرچہ مسلمانانِ حافظ آباد   اسلام کی عزت کے نام پر اس سے چشم پوشی کریں تو اُن ہندوؤں کو کیا منہ دکھائیں گے جو اُن جلسوں میں ازاول تا آخر موجود تھے اور اُن پر اس کھلے جھوٹ کا کیا اثر ہوگا! جناب مسیح نے کیا خوب کہا ہے کہ " درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے"۔ سچ سچ عرض کررہا ہوں کہ اگر اسلام کی بطالت کے لئے میرے پاس ایک بھی دلیل نہ ہوتو آپ دونو کا طرز عمل آپ کے اسلام کے برحق نہ ہونے کے لئے نہایت ہی شافی اورکافی دلیل ہے۔

مطالبہ بیان حلفیہ

اب میں اُن اصلی واقعات کی طرف متوجہ ہوتاہوں جن سے آپ نے دیدہ ودانستہ اغماض کیا ہے اوراپنی ذاتی مصلحت کی بناء پر اُن کی اشاعت سے گریز کیا ہے لیکن قبل اس کے کہ میں ان تمام واقعات کو پوست کندہ بیان کروں اور پبلک کو اس امر کا یقین دلادوں کہ جوکچھ میں لکھ رہا ہوں راست بلاکم وکاست ہے۔ میں آپ ہی کو اس معاملہ میں منصف مقرر کرتاہوں۔ جس کی صورت یہ ہوگی کہ جس جس امر کے متعلق میں نے ذیل کی سطور میں آپ کو بدیں الفاظ مخاطب کیا ہو کہ حلفیہ کہئے کہ یہ

واقع سچ ہے یا جھوٹ

اُس کی نسبت آپ جو فیصلہ دیں اپنے حلف نامہ کے ساتھ جومندرجہ ذیل الفاظ پر مشتمل ہوا اپنے اخبار میں شائع کردیں کہ:

" میں ابوالوفاء۔ مولوی ثناء اللہ مولوی فاضل ۔ شیر پنجاب ۔ فاتح قادیاں ۔ جمیع القاب خود

قرآن مجید کو ہاتھ میں لے کر خدا کو حاضر وناظر جان کر یہ فیصلہ دیتاہوں"۔

میں اس پر آپ ہی کے فیصلہ کو تسلیم کرلونگا۔ ہاں البتہ میں حافظ آباد کے اُن ہندوؤں کے جوجلسوں میں موجود تھے دستخط شائع کراکے دنیا کو یہ دکھادونگا کہ

منصفی دنیا سے ساری اٹھ گئی      اے بُتو ایمان داری اٹھ گئی

جس واقعہ پر آپ نے اپنے خط میں بدیں الفاظ پردہ ڈالنا چاہا ہے کہ" چنانچہ اُس وقت بہت سی قیل وقال کے بعد تقرر منصف بھی ہوا۔ پھر کیا ہوا؟ میں اس کا ذکر چھوڑتاہوں تاکہ سلسلہ کلام اور طرف نہ ہوجائے"۔ اُسی واقعہ کو میں جُو ں کا تُوں  ہدیہ ناظرین کرتاہوں اگرچہ میں بذات خود ہرگز اس کا روادارنہ تھا کہ میں ایک ایسے واقعہ کا ذکر کروں جس سے اس پیرانہ سالی میں آپ کو خفت ہو اورآپ کی شہرت پر بٹہ لگے۔ لیکن آ پ  کے اس طرز عمل نے مجھ کو مجبور کیاکہ اُس غلط فہمی کا ازالہ کیا جائے جس کی آڑ میں آپ اپنی شہرت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

کل کا بدلہ

امر واقعہ یہ ہے کہ حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ میں مباحثہ کے آخری مضامین یہ تھے۔ (۱) مسیحیت میں طریق نجات جس کے مقرر پادری عبدالحق صاحب تھے اور معترض منجانب مسلماناں ایک شخص مسمٰی احمد دین جس کے لب ولہجہ سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ وہ ایک دیہاتی اور تہذیب سے فرسخوں دور تھا۔ جب یہ شخص پادری عبدالحق صاحب کی تقریر پر اعتراض کرنے کو کھڑا ہوا توایسا بے سروپا ہانکنے اور مغلظات بکنے لگا جس سے مجھے بہت رنج ہوا اور پادری عبدالحق صاحب سے میں نے کہا کہ اس شخص سے آپ کا مباحثہ کرنا آپ کی ہتک ہے اور پریزیڈنٹ کی اجازت سے میں نے آپ کو مخاطب کرکے کہا کہ مولوی صاحب یہ مباحثہ نہیں ہے بلکہ آپ کل کا بدلہ پادری عبدالحق  صاحب سے لینا چاہتے ہیں اس لئے ایک ایسے شخص کو جو پادری صاحب کے ایک جملہ کو سمجھنے کی بھی قابلیت نہیں رکھتا اُن کے بالمقابل لا کھڑا کردیا۔ اس کی غرض بجز اس کے اورکیا ہوسکتی ہے کہ پادری صاحب کی بے عزتی ہو؟ آپ نے اس کا کچھ بھی جواب نہ دیا اورخاموش بیٹھے رہے۔

مولوی ثناء اللہ صاحب حلفیہ کہہ دیں کہ یہ واقع سچ ہے یا جھوٹ

ناظرین سطور بالا کوپڑھ کر ضرور معلوم کرنا چاہتے ہونگے کہ" کل کا بدلہ" کیا مطلب رکھتا ہے ۔ بجائے اس کے کہ عین اپنا قلم گندہ کروں ۔ بہتر ہے کہ ناظرین مولوی صاحب کو مجبور کریں کہ وہ خود اس کا مطلب بیان کریں لیکن میں ناظرین کو یقین دلاتاہوں کہ خواہ مولوی صاحب کی جان پر بھی آن پڑے وہ ہر گز ہرگز " کل کا بدلہ" کا ذکر نہیں کرینگے۔

پادری عبدالحق صاحب کی تقریر اور مباحثہ کے بعد خود بدولت" اسلام میں طریق نجات" پر تقریر کرنے کھڑے ہوئے۔ اور بازاری دوا فروشوں کی طرح چلانے لگے کہ" جس طرح ہر مرض کے لئے ایک دوا ہوتی ہے۔ مثلاً بخار کے لئے کونین قبض کے لئے جلاب۔ اسی طرح اسلام میں بھی ہرگناہ کی ایک دوا ہے"۔ جس کی تارپود کو میں نے قرآن مجید واحادیث کے شواہد سے اس طرح بکھیر کر رکھ دیا کہ تمام مسلمانوں کا چہرہ فق اور خود جناب پرایک سکتہ کا عالم طاری تھا۔ جس کی دو دلیلیں ہیں۔ اول یہ کہ جب میں دوسری بار کھڑا ہوا تو تین منٹ تقریر کرنے کے بعد آپ کے پریذیڈنٹ صاحب نے مجھ کو اعتراض کرنے سے روکا اور کہاکہ" وقت ہوچکا ہے اب مباحثہ بند ہے"۔

مولوی ثناء اللہ صاحب حلفیہ کہہ دیں کہ یہ واقع سچ ہے یا جھوٹ

اہل حدیث کا افترا

اب آپ اپنے مفتری  اور دردغ گو سیکرٹری کا مضمون بھی دیکھ لیں جو اسی نمبر میں شائع ہوچکا ہے کہ کس طرح اس واقعہ کو بالکل برعکس اور سراسر جھوٹ کی صورت میں اس طرح بیان کیا ہے کہ " مولانا موصوف جواب کی تقریر کررہے تھے۔ ابھی پانچ  ہی منٹ ہوئے اور پانچ منٹ باقی تھے کہ عیسائیوں کی طرف سے آواز آئی۔ وقت ختم ہوگیا۔ مسلم صدر جلسہ نے کہا ابھی وقت باقی ہے"۔ مولوی ثناء اللہ صاحب!کیا مسلمانی کے یہی معنی ہیں؟ کیا ایمانداری اسی کو کہتے ہیں ؟ اگرآپ میں ذرہ بھر بھی اسلام کی بُو ہوتی تواس مضمون کو ہرگز ہرگز اپنے اخبار میں شائع نہ کرتے کیونکہ یہ کھلا ہوا جھوٹ ہے اورجب شائع کیا توایمانداری یہ تھی کہ اس کی کذب بیانیوں کی تردید بھی کرتے۔لیکن آپ سے کیا توقع ہوسکتی تھی ! ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔

آپ کی شکست اورحواس باختگی کی دوسری دلیل یہ ہے جس کو آپ کے مفتری سیکرٹری صاحب کے قلم سے حق تعالیٰ نے اس طرح نکلوایا ہے جس طرح نمرود کی آگ سے ابراہیم علیہ السلام کو۔لکھتے ہیں کہ " تاہم جن لوگوں کو اسلامی فتح میں کچھ تردد تھا خدا نے اُن کا تردد رفع کرنے کو خاص صورت پیدا کردی"۔ (اہل حدیث ۱۴ ستمبر ۱۹۲۸ء)۔

مولوی صاحب کیا میں آپ سے پوچھ سکتاہوں کہ اگرآپ شکست یافتہ اورحواس باختہ نہ ہوگئے تھے تواس تردد کے کیا معنی ہیں کیا فتح مندوں کوبھی کچھ دردد ہوا کرتا ہے؟

تین منٹ میں گیارہ بج گئے

اب میں اُس صورت کو پیش کرنا چاہتاہوں جو" خدا نے پیدا کردی تھی"۔ جب مسلمانوں کے صدر نے مجھ کو روکنا چاہا توہمارے صدر صاحب نے اُن کو مخاطب کرکے فرمایا کہ" جناب آپ کیا فرماتے ہیں ابھی توپادری صاحب نے تین ہی منٹ تقریر کی ہے"۔ اس پر مسلمانوں کے صدر نے کہا کہ " مباحثہ کا وقت گیارہ بجے تک تھا۔ اب گیارہ بج چکے ہیں"۔ اس پر میں نے کہا کہ پریذیڈنٹ صاحب!اس حیلے اوربہانے سے کیا ہوتا ہے؟ ابھی تومیں نے صرف ایک ہی حدیث پڑھ کر سنائی ہے۔ آپ صاف طور پر کیوں نہیں کہتے کہ مولوی ثناء صاحب میرے اعتراضات کا جواب نہیں دے سکتے "۔

مولوی ثناء اللہ صاحب حلفیہ کہہ دیں کہ یہ واقع سچ ہے یا جھوٹ

اختیار راہ فرار

اس پر آپ کے صدر صاحب نے چیں بجیں ہوکر کہا کہ" کیوں مولوی صاحب جواب نہیں دے سکتے؟ اگرآپ کا یہی خیال ہے توچلو آج دن بھر اسی مسئلہ پر مباحثہ سہی"۔جس کو سن کر عیسائی مارے خوشی کے اچھل پڑے اور میں نے کہا کہ مجھے بسروچشم منظور ہے۔

مولوی ثناء اللہ صاحب حلفیہ کہہ دیں کہ یہ واقع سچ ہے یا جھوٹ

میری منظورمی کو سن کر آپ کا چہرہ زرد ہوگیا اوراپنے پریذیڈنٹ صاحب سے کچھ پھسپھسانے لگے جس کے بعد پریزیڈنٹ صاحب نے کہا کہ دن بھر تومباحثہ نہیں ہوسکتا کچھ وقت مقرر ہونا چاہیے جس  کے جواب میں میں نے کہا کہ پریزیڈنٹ صاحب آپ  کوکم از کم ہندوؤں کو خیال کرنا چاہیے کہ وہ آپ کے اس عمل کو دیکھ کر کیا سوچتے ہونگے۔ کبھی تو آپ مجھ کو روکتے ہیں کہ وقت ہوچکا اورکبھی پورا دن مباحثہ کرنے کو کہتے ہیں اوراب آپ تھوڑا وقت چاہتے ہیں اچھا یہ بھی منظور ہے کہ کم از کم تین گھنٹے اسی مضمون پر مباحثہ ہو۔

مولوی ثناء اللہ صاحب حلفیہ کہہ دیں کہ یہ واقع سچ ہے یا جھوٹ

کوئی منصف بھی ہو

اس پر آپ نے کھڑے ہوکر فرمایا کہ ایک منصف ہوتاکہ فیصلہ کرے میں نے کہا کہ میں تو خدا سے یہی چاہتا تھا چلو یہ بھی منظور ہے۔ پھر آپ نے کہا کہ اس منصف کا نام لو میں نے کہا پنڈت رامچندر دہلوی منصف ہوں۔ کیونکہ نہ تو وہ عیسائی ہیں اورنہ مسلمان اور نیز عربی دان ہیں اور طرفین کے مذہب سے واقف ۔ اُن کے اخراجات طرفین کے ذمہ ہونگے اگرآپ کو منظور ہے تومیں ابھی ان کو تار دونگا۔

مولوی ثناء اللہ صاحب حلفیہ کہہ دیں کہ یہ واقع سچ ہے یا جھوٹ

اس پر آپ نے کہا کہ رام چندر ہمیں منظور نہیں بلکہ دیال سنگھ کالج کا کوئی پروفیسر یا کوئی برھمو ہو۔ میں نے کہا کہ مجھ کو یہ بھی منظور ہے بشرطیکہ وہ عربی دان ہو۔

مولوی ثناء اللہ صاحب حلفیہ کہہ دیں کہ یہ واقع سچ ہے یا جھوٹ

بحث سے گریز

پھر آپ نے اخراجات کی ذمہ داری سے انکار کیا۔ جب ہم نے بہت مجبور کیا توایک مسلمان نے جلسہ میں سے کہا کہ میں مسلمانوں کی طرف سے اخراجات کا ذمہ وار ہوں۔ جب آپ نے دیکھا کہ آپ کی شیخی کرکری ہوئی جاتی ہے۔ تب آپ نے کہاکہ مباحثہ تحریری ہو جس کے جواب میں  میں نے کہا کہ مجھ کو تو تقریری اور تحریری دونوں منظور ہیں لیکن اس وقت تو تقریری مباحثہ پر گفتگو ہے لہذا اول تو تقریری ہو۔ یہ سُن کر آپ کُرسی پر سے اٹھ کر کہیں پیچھے جا بیٹھے۔

مولوی ثناء اللہ صاحب حلفیہ کہہ دیں کہ یہ واقع سچ ہے یا جھوٹ

مولانا غائب

جب عیسائیوں نے آپ کو پلیٹ فارم سے غائب دیکھا توانہوں نے شور مچایا کہ مولوی ثناء اللہ بھاگ گئے۔ ہم کسی اور سے بات چیت نہیں کرینگے ۔ اُنہی کو بلاؤ۔ اس پر مسلمانوں نے آپ کوسمجھابجھا کر پھر کرسی پر لابٹھایا۔

مولوی ثناء اللہ صاحب حلفیہ کہہ دیں کہ یہ واقع سچ ہے یا جھوٹ

جب میں نے آپ کو پھر کرسی پر بیٹھا ہوا دیکھا توللکار کر کہا کہ آپ مجھے یہ بتائیں کہ تقریری مباحثہ سے آپ کیوں بھاگتے ہیں ؟ اورآپ یہی کہتے رہے کہ مباحثہ تحریری ہو۔ اس پر میں نے اپنےرسالہ " میں کیوں مسیحی ہوگیا" کوآپ کی طرف پھینک کر کہاکہ اگر آپ کو تحریری مباحثہ کا اس قدر شوق ہے تویہ میرا رسالہ ہے جس میں نجات ہی پر بحث ہے۔ اورسات سال سے آپ کی چھاتی پر مونگ دل رہا ہے۔ آپ  اس کا جواب لکھد یں پبلک خود ہی فیصلہ کریگی۔اگرآپ کا جواب ایسا معقول ہو کہ میرا قلم پھر اس پر نہ اٹھ سکے تومیں مسلمان ہوجاؤنگا۔ لیکن آپ کیا اگردنیا بھر کے مسلمان مل جائیں تب بھی اس کا جواب نہ دے سکیں گے۔ اگرآپ میں کچھ بھی دم ہوتا تو اس سات سال کے عرصہ میں اس کا جواب ضرور شائع کرتے اور آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ آپ اس رسالہ سے بے خبر ہیں کیونکہ آپ کے اخبار میں اس کا تذکرہ ہوچکا ہے۔ اورمیں نے یہاں سنگھ کے قلعہ میں بھی جوگوجرانوالہ کے متصل ہے آپ کو انہی  الفاظ میں بھری مجلس میں چیلنج دیا تھا جس کے جواب میں آپ آج تک خاموش ہیں ۔ اوریہ بھی کہا تھا کہ دیکھئے مولوی صاحب اس موقعہ کو ہاتھ سے نہ جانے دیں کیونکہ میرے مسلمان بنانے میں آپ کی بے حد شہرت ہوگی اور آمدنی میں اضافہ ۔ اس پر مسلمانوں کی طرف سے ایک طوفان بدتمیزی برپا ہوا یہ دیکھ کر پادری عبدالحق صاحب نے کھڑے ہوکر یہ کہا کہ ہم ہر کس وناکس سے گفتگو کرنا نہیں چاہتے ہیں اور مولوی ثناء اللہ صاحب سے جب تک کہ اب جو گفتگو ہو وہ قید تحریر میں نہ لائی جائے اورہم بھی جوکچھ کہیں گے لکھ کر دینگے۔

مولوی ثناء اللہ صاحب حلفیہ کہہ دیں کہ یہ واقع سچ ہے یا جھوٹ

جب ہم نے تحریری گفتگو پر آپ کو بے حد مجبور کیا تب یہ ہزار لیت ولعل اسی جلسہ میں ذیل کا خط آپ کی طرف سے میرے نام موصول ہوا۔

"بخدمت  جناب پادری سلطان محمد پال خان صاحب ۔ تسلیم۔ آپ نے جو رسالہ " میں کیوں مسیحی ہوگیا" کے متعلق تحدی کی ہے کہ مولوی ثناء اللہ اس کا جواب دینگے تومیں مسلمان ہوجاؤنگا اورجواب کی صحت کے لئے پنڈت رام چندر جی دہلوی کو منصف پیش کیا ہے مجھے منظور ہے۔ اس کا جواب لکھ کر پنڈت جی کے پاس بغرض فیصلہ بھیج دونگا۔ اور فیصلہ فریقین کے خرچ سے شائع ہوگا۔ پس آپ بھی اس خط پر دستخط کرکے بھیج دیں۔(ابوالوفاء ثناء امرتسری ۳ ستمبر ۱۹۲۸ء)۔

اس خط کا جواب اسی وقت میں نے لکھ کر آپ کے حوالے کیا جو ذیل  میں درج ہے۔

"بخدمت مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری ۔ تسلیم آپ کا یہ لکھنا کہ آپ نے رسالہ " میں کیوں مسیحی ہوگیا" کے متعلق تحدی کی سراسر غلط ہے اور تعجب ہے کہ اس قدر جم غفیر کے سامنے اس خلاف واقعہ امر کے لکھنے کی جرات ہوئی درحقیقت میرا اپنے رسالہ" میں کیوں مسیحی ہوا" کا دنیا آپ کے چیلنج کا جواب تھا کہ جب آپ نے تقریری مباحثہ سے گریز کیا اور تحریری مباحثہ پر اصرار کیا تب میں نے اس رسالہ کوپھینک کر اس کے ساتھ یہ کہا کہ اگر آپ کو تحریری مباحثہ پر اصرار ہے توآپ اس  رسالہ کا جواب لکھیں پبلک خود فیصلہ کرلیگی۔ اگرآپ کا جواب معقول ہوگا اورمیں جواب نہ دے سکوں تومیں مسلمان ہوجاؤنگا۔ جس پر اب تک قائم ہوں اور تحدی کے ساتھ کہتاہوں کہ جب سات سال سے آپ اس کا جواب نہ دے سکے تو اب کیا دینگے؟ تاہم اگر پنڈت رام چندر دہلوی مجھ کو یہ لکھ دیں کہ وہ میرے جواب الجواب کے بغیر فیصلہ دینگے تو ان کا فیصلہ بھی مجھے منظور ہوگا۔ اب میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتاہوں کہ آپ تقریری مباحثہ سے کیوں گریز کرتے ہیں۔میرا چیلنج توآپ کے ساتھ تقریری مباحثہ پر ہے اورپھر میں آپ کو چیلنج دیتاہوں کہ تقریری مباحثہ میں اگر آپ یہ ثابت کرسکیں کہ اسلام میں نجات مکمل طورپر موجود ہے اور پنڈت رام چندر بھی فیصلہ دیں کہ مولوی ثناء اللہ نے اسلام میں نجات ثابت کردی تومیں خوشی کے ساتھ مسلمان ہوجاؤنگا اورمیرے مسلمان بنانے میں آپ کی بڑی شہرت ہوگی اور اگر رام چندر جی فیصلہ دیں کہ ثناء اللہ اسلام میں نجات ثابت کرنے سے قاصر رہے توایمانداری یہ ہے کہ آپ دینِ برحق مسیحیت اختیار کریں اور اسلام کو ترک کریں ۔ پنڈت رام چندر جی کے اخراجات طرفین کے ذمہ ہونگے اور یہ تقریری مباحثہ ۱۵ ستمبر سے پیشتر حافظ آباد میں ہوگا۔

فقط سلطان محمد افغان حافظ آباد ۳ ستمبر ۱۹۲۸ ء

مولانا لاجواب ہوگئے

آپ اس خط کو لے کر اٹھ کھڑے ہوئے اور ہر چند ہم نے اصرار کیا کہ اس کا جواب ہمیں لکھ کر دے جائیے۔ پر آپ نے زبانی یہ کہا کہ ہماری کونسل جواب کی اجازت نہیں دیتی۔ اور چلے گئے۔

مولوی ثناء اللہ صاحب حلفیہ کہہ دیں کہ یہ واقع سچ ہے یا جھوٹ

جس کے بعد مسیحی بھی " یسوع مسیح کی جے" کے فلک شگاف نعروں کے ساتھ اٹھ کر چلے گئے۔ یہ ہیں وہ واقعات جن کا ذکر آپ چھوڑتے ہیں تاکہ سلسلہ کلام اور طرف نہ ہوجائے" آپ کے سیکرٹری  کا یہ لکھنا کہ " مسلمانوں نے خوشی میں نعرہ تکبر بلند کیا" سراسر جھوٹ ہے بلکہ جب مسیحی " یسوع مسیح کی جے" کے نعرے لگانے لگے تب چند مسلمان جو اِدھر اُدھر کھڑے تھے ہمارے جواب میں چلانے لگے۔

اب انصاف ناظرین اہل حدیث پر ہے کہ وہ واقعات مندرجہ صدر پر غور کرکے فیصلہ دیں۔ والسلام

سلطان محمد افغان لاہور ۱۷ ستمبر ۱۹۲۸ء

تصدیق

اس مضمون میں مبالغہ سے بالکل کام نہیں لیا گیا اور حرف بحرف درست ہے۔ (دستخط)

بیلی رام۔ ہری کشن۔ گوکل چند۔ جیون داس ۔ گیان سنگھ۔ ساکنان حافظ آباد"۔

ہماری درخواست

پادری صاحب کے جواب مذکورہ بالا کے ہمراہ ہی ہم نے مولانا صاحب سے یہ درخواست بھی کردی تھی کہ

"مکرم بندہ جناب مولوی ثناء اللہ صاحب بالقابہ۔ السلام علیکم۔

جناب نے میری معرفت پادری سلطان محمد خان صاحب افغان ۔ مصنف ہمارا قرآن کواپنے اخبار اہل حدیث  مورخہ ۱۴ ستمبر ۱۹۲۸ء کا جوایک پرچہ ارسال بذریعہ ڈاک کیا وہ مل گیا ہے۔ باوجود کثرت مشاغل پادری صاحب موصوف نے آپ کے کھلے مکتوب  اور سیکرٹری صاحب انجمن اہل حدیث حافظ آباد کے بیان مندرجہ اہل حدیث ۱۴ ستمبر کا جواب لکھ کر مجھے بدیں غرض دیا ہےکہ میں اس کی نقل لے کر آپ کو بھیج دوں اور درخواست کروں کہ اسے من وعن اورپہلے ہی ہفتہ میں اپنے اخبار اہل حدیث میں درج کرکے شائع کردیں تاکہ پبلک واقعات سے آگاہ ہوجائے۔ اوراس مضمون کو رجسٹری اس وجہ سے کررہاہوں کہ آپ پر حجت  تمام ہوجائے اور اب ڈاکخانہ کی رسید اور مضمون مندرجہ صدر کی نقل کو اپنی تحویل میں رکھتا ہوا آپ پر نہایت  ہی واضح طورپر جتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر آج کی تاریخ سے پندرہ دن کے اندر اندر آپ کے اخبار میں اسے شائع ہوتے نہ دیکھا تومیں جیسا کہ پادری صاحب موصوف کا ارشاد ہے دوسرے اخباروں میں اس کی نقل شائع کراؤنگا اوراگر مناسب سمجھا تو مستقل رسالہ کی صورت میں شائع کردونگا تاکہ آپ کے کھلے مکتوب کی حقیقت اور سیکرٹری صاحب انجمن اہل حدیث حافظ آباد کے خلافِ واقعہ بیان کی اصلیت دنیا پر ظاہر ہوجائے۔ مہربانی سے فوراً اطلاع دیں کہ مضمون مل گیا اور اشاعت کے لئے آپ کا ارادہ کیا ہے۔ شکر گزار ہونگا۔ فقط ۱۹ جولائی ۱۹۲۸ء

نیاز مند۔ ایم ۔کے۔ خان ۔ مہاں سنگھ باغ لاہور۔

رسید وجواب

ہمارا یہ خط مولوی صاحب کو ۲۱ستمبر  ۱۹۲۸ء کو مل گیا جس کے ثبوت میں ڈاکخانہ کی رسیدیں اور مولوی صاحب کا خط مورخہ ۳ اکتوبر ۱۹۲۸ء موجود ہیں۔ مگر مولوی صاحب نے پادری صاحب کے جواب شائع کرنے کی بجائے اس کی نقل ہمیں واپس کردی۔ ہم نے  اتمام حجت واطلاع کی خاطر نور افشاں مورخہ ۵ اکتوبر میں مندرجہ ذیل "کھلا خط" شائع کرایا۔(خان)

کھلا خط بجواب کھلا مکتوب

بنام
مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری

جناب مولوی صاحب ۔ السلام علیکم۔ آپ کا مرسلہ اہل حدیث مجریہ ۱۴ ستمبر ۱۹۲۸ء مل گیا ۔ جس میں آپ کا ایک "کھلا مکتوب" بنام پادری مولوی سلطان محمد خان صاحب درج تھا۔ پادری صاحب  نے اس کا جواب لکھ کر مجھے دیا۔ اورمیں نے اُن کے ایما سے اس کی نقل جناب کی خدمت میں ۱۹ ستمبر ۱۹۲۸ء کوبذریعہ رسید طلب رجسٹری روانہ کردی۔ ڈاک خانہ کی رسید بھی مل چکی ہے جواس بات کا ثبوت ہے کہ میرا وہ مراسلہ جناب کو وصول ہوگیا ہے۔ میں نے مطالبہ کیا تھا کہ یہ آپ کے "کھلے مکتوب " کا" کھلا جواب" ہے۔ آپ اسے اپنے اخبار میں فوراً شائع کردیں تاکہ ناظرین اہل حدیث جواب سے آگاہ ہوجائیں۔ اوراگرآپ پہلی ہی دواشاعتوں میں اسے درج نہ کرینگے تومیں اسے دوسرے یعنی قادیانی اور آریہ اخباروں میں شائع کرادونگا۔ اور اگر ضرورت ہوئی تو مستقل رسالہ کی صورت میں چھپوا کر تقسیم کراؤ نگا۔

آج اُس کے بعد پہلا پرچہ اہل حدیث ۲۸ ستمبر ۱۹۲۸ء  دیکھا مگر اس میں وہ مراسلہ درج نہیں ہے۔ دوسرا پرچہ ۳ اکتوبر۱۹۲۸ء کو شائع ہوگا۔ اگر اس میں بھی وہ درج نہ ہوگا تومیں سمجھ لونگا کہ آپ اسے چھاپنا نہیں چاہتے چونکہ وقت تنگ ہے ۔ بذریعہ اخبار ہذا جناب کی خدمت میں عرض گزار ہوں کہ اگر چاہیں توایک ہفتہ کی اور مہلت لے لیں اور ۱۰ اکتوبر ۱۹۲۸ء کے اہل حدیث میں اسے شائع کردیں۔ لیکن اگر ۳ اکتوبر ۱۹۲۸ء تک نہ آپ کا جواب آئیگا اورنہ وہ مضمون ہی اہل حدیث میں چھپے گا توجان لیجئے کہ ۱۴ اکتوبر کو میں دوسرے اخباروں میں اسے درج کرانے پر مجبور ہونگا۔اورآپ کو شکایت کی گنجائش نہ ہوگی اورپبلک جان لیگی کہ" شیر پنجاب" میدانِ قرطاس اہل حدیث میں ہی " کھلے مکتوب" کے ہوائی تیر چلاسکتے ہیں۔ مگر " افغان شیر" کے مقابل آنے کی جرات نہیں کرسکتے۔اتمام حجت کی غرض سے یہ اعلان شائع کردایا ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ لیکن میں خوب جانتاہوں کہ آپ کُنج خاموشی میں پناہ گزیں ہونے کو ہی ذریعہ عافیت سمجھیں گے اور نہ مضمون کو اخبار میں درج کریں گے اورنہ جواب ہی دینگے اجی حضرت!

نہ خنجر اٹھیگا نہ تلوار اُن سے      یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں

(نور افشاں ۵ اکتوبر ۱۹۲۸ء)

(آپ کا خادم ۔ ایم۔ کے ۔ خان)

جب ہم نے دیکھ لیا کہ مولانا صاحب" اسلامی توحید اوراسلامی نجات" کومسیحیوں کی ناقدانہ وعالمانہ ضربِ تحقیق سے بچانے کے لئے ہر ممکن حیلہ وعذر کررہے ہیں توہم نے مندرجہ ذیل چیلنج دے کر اس قضیہ کو ختم کرنے کی تجویز کی۔ چنانچہ ہمارے گمان کے مطابق مولوی صاحب نے اس کا آج تک کوئی جواب نہ دیا اورنہ اُمید ہے کہ دیں گے ۔چلو قصہ ختم۔ (خان)

مکتوب مفتوح

بنام مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری

جناب مولوی صاحب بالقابہ ۔ تسلیم ۔ کمال ادب واحترام کے ساتھ گذارش یہ ہے کہ اوائل ماہ گذشتہ میں آپ حافظ آباد (پنجاب) میں اس غرض سے تشریف فرما ہوئے کہ مسیحیوں سے مباحثہ کریں۔ آپ نے وہاں اسلامی طریق نجات کو پیش کیا اور پادری سلطان محمد خان صاحب پروفیسر عربی نے بھرے جلسہ میں تحدی کی کہ اگر آپ یہ ثابت کردیں کہ اسلام میں نجات ہے تومیں مسلمان ہوجاؤ نگا اورآپ کی تمام ہندوستان میں بہت شہرت ہوجائیگی۔ اس پر آپ نے دور اندیشی اورمصلحت کی راہ سے یہی مناب جانا کہ اسلامی طریقِ نجات پر بحث نہ ہواور طرح طرح کے حیلوں اور بہانوں سے گریز کیا۔ اس پر جناب پادری عبدالحق صاحب نے جن کی تعریف میں آپ کا اخبار کئی سالوں سے لبریز رہتا ہے آپ کو کھلا چیلنج کیا تاکہ کسی طرح سے بھی آپ کو راہ فرار روئے گریز نہ مل سکے۔ مگر دور اندیشی نے آپ کا دامن پکڑا اور مصلحت نے کچھ کان میں کہا اور آپ نے پھر بھی انکار ہی کیا۔ پادریوں کے چیلنج پر چیلنج اورآپ کے گریز وفرار کا مسیحیوں  ہندوؤ ں اور بالخصوص مسلمانوں پر خاص اثرپڑا جس کے ثبوت میں آپ کا اپنا اخبار موجود ہے۔

وہ جب آئینہ دیکھیں گے توہم اُن کو بتادینگے۔ اس پر پادری صاحبان نے آپ سے کہا کہ اسی مقام پر ۱۵ ستمبر ۱۹۲۸ء تک اسی مسئلہ پر آپ مباحثہ کرلیں اورآپ وعدہ کرکے وہا ں سے روانہ ہوئے۔

امرتسر جاکر آپ نے اپنے اخبار اہل حدیث  میں پادری سلطان محمد خان صاحب کے نام ایک" کھلا مکتوب" لکھا جس کا جواب میں نے آپ کی خدمت میں ارسال کرکے درخواست کی کہ اسے اہل حدیث میں چھاپ دیں تاکہ ناظرین اہل حدیث آپ کے "کھلے مکتوب" کا جواب بھی ملاحظہ کرلیں۔مگر آپ نے ابتک اسے شائع نہیں کیا اور لکھ دیا کہ میں اسے شائع نہیں کرسکتا۔ اب میں پبلک کے تقاضا سے تنگ آکر اسکو مستقل ٹریکٹ کی صورت میں شائع کررہا ہوں تاکہ پبلک آگاہ ہوجائے۔ کھُلے گا راز سارا ضبط الفت کے نہ ہونے سے چونکہ نجات کا مسئلہ بنیاد ی مسئلہ ہے۔ اس لئے اس پر فیصلہ کن مباحثہ کرنے سے کروڑوں مسلمانوں اور مسیحیوں کو روحانی فائدہ حاصل ہوسکتاہے۔ پس پادری صاحب کے ایماء اور مشورہ سے جناب سے مطالبہ کرتاہوں کہ آپ اُن سے پنجاب کے کسی بڑے شہر میں اسی موضوع پر تقریری مناظرہ کرلیں اور پنڈت رام چندر دہلوی ثالث ہوں۔ جنہیں آپ منظور کرچکے ہیں۔ چونکہ پادری موصوف  ایف سی کالج میں پروفیسر ہیں ۔ اس لئے اُن تاریخوں میں مناظرہ ہو جن میں کالج مذکورہ بند ہو۔ آپ مدعی  ہونگے کہ اسلام میں نجات ہے۔ مہربانی سے جواب بذریعہ  اخبار ڈاک بھیج کر متشکر فرمائیں۔

(ایم۔کے خان)


Religion of Islam

Religion of Islam
Religion of Islam

Religion   of   Islam   in   Urdu

مصنف

پادری۔ای۔ایم۔ویری صاحب ڈی۔ڈی

جسکو

منشی محمد اسمعٰیل نے انگریزی زبان سے بامحاورہ اور سلسیس اردو میں ترجمہ کیا

اور

امریکن ٹریکٹ سوسائٹی کی طرف سے شائع ہوا
۱۹۰۵

The  Religion  of  Islam

Rev. Elwood  Morris  Wherry

(1843–1928)

Translated   By

Rev. Munshi  Muhammad  Ismail

دین اسلام

باب اول

تعریفِ اسلام

معمولی مسیحی کے خیال میں اسلام کل کا بچہ ہے۔ اسلام کی نسبت وہ بزرگی وعظمت کا خیال پیدا نہیں ہوتا جو ہندو اور بدھ مذاہب کے حق میں اُن کی قدامت کی وجہ سے پیدا ہوگیا ہے۔مسیحی کے نزدیک دینِ اسلام عربی نبی کا دین ہے۔ وہ اس میں اپنے یا اپنے آباؤ اجداد کے دین سے کوئی بڑا تعلق نہیں دیکھتا۔ اُس کے نزدیک عقائد اسلامیہ کی خاص باتیں صرف یہ ہیں (۱) اللہ اوراُس کے نبی محمد صاحب پر ایمان لانا(۲) کثیر الازدواجی کی رسم کو برحق جاننا اور (۳) منکروں سے جہاں کرنے میں متعصبانہ جوش دکھانا۔ لیکن مسلمان کے نزدیک صرف اسلام ہی اکیلا سچا مذہب ہے۔ اُس کے خیال واعتقاد کے مطابق یہ وہ مذہب ہے جو پہلے آدم شیت اورحنوک کو پھر ابراہیم  ۔ موسیٰ اور دیگر بزرگوں اور بعد ازاں داؤد اور تمام نبیوں کو اور عیسیٰ اوراُس کے رسولوں کے اور آخرکار خاتم الانبیاء محمد صاحب کو عنایت کیا گیا۔ اُسکے نزدیک اِس دین میں خدا کی مرضی پورے طور سے مشتمل اور متضمن ہے۔ جنِوں اور فرشتوں کا یہی دین ہے اور عاقبت میں بہشت کی خوشیوں میں پہنچ کر اس کا خاتمہ ہوگا۔ علاوہ بریں اسلام اطاعتِ الہٰی کا دین کہلاسکتا ہے۔ چنانچہ علمائے اسلام کہتے ہیں کہ مسلمان وہ ہے جس نے اپنی گردن الہٰی جوئے کے نیچے رکھدی ہے۔

پس اسلام بھی یہودی اور مسیحی دین کی طرح ایک جدا دین ہے۔  وہ کسی دوسرے دین کو سچا نہیں مانتا۔ وہ کسی کو اپنا ہم حیثیت اورہم رتبہ تسلیم نہیں کرتا ۔ بعض مسیحی مصنفین کا خیال ہے کہ دین اسلام اور دین عیسوی اپنے اپنے ایمان واعتقاد کے نشانوں کی بے تعصبانہ تشریح کرنے کے بعد اس خاص غرض سے قائم ہوئے ہیں کہ ہاتھ میں ہاتھ لئے ہوئے نہایت اتفاق سے کفار سے جہاد کریں لیکن یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے۔ ایسا میل ہرگز نہیں ہوسکتا۔ یہ ہمیشہ  ایک دوسرے کے تنزل سے خوش ہونگے۔ جہاں تک مشنری معاملے کا تعلق ہے اُس سے صاف اور صحیح نتیجہ یہی اخذ ہوسکتا ہے کہ ہمیشہ لڑائی جاری رہیگی لیکن یہ لڑائی روحانی ہے جسمانی ہتھیاروں سے کام لینا ٹھیک نہیں۔روح القدس کی تلوار کا اسلامی  تلوار سے مقابلہ ہے اور مناسب ہے کہ ہم اسلامی عقائد کوسمجھنے کی خاطر اسلام کے بنیادی اُصول پر غور کریں۔

مسلمان مصنف اسلام کے چار رکن یا ستون بیان کرتے ہیں۔ (۱)قرآن (۲) احاد یث یا روائتیں (۳)اجماعِ امت یا علماء کی متفق رضامندی اور (۴) قیاس یعنی دلیل جوقرآن واحا دیث اوراجماع پر مبنی ہو ۔ پس اِن ارکان پر جُدا جُدا غور کرنا ضروری معلوم ہوتاہے۔

فصل اول

قرآن

مسلمان اس کو قرآن المجید۔ قرآن الشریف۔ فرقان او رکلام اللہ کہتے ہیں۔ اصل کی نسبت بیان کرتے ہیں کہ خدا کے تخت کے نیچے لوحِ محفوظ پر مرقوم ہے۔ وہاں سے نقل کرکے جبرائیل فرشتہ کی معرفت محمد صاحب پر نازل کیا گیا۔ اِس سے صاف یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ محمد صاحب اپنے معتقدوں کے خیال میں اُن تمام باتوں کو بیان کرنے میں جو اُس نے لوگوں کے سامنے پیش کیں گویا خدا کا ترجمان تھا۔

بہت سے خوش اعتقاد مسلمان بڑے وثوق سے بیان کرتے ہیں کہ محمد صاحب قرآن سنانے کے لئے بلا ئے گئے۔ شہر مکہ کے قریب چند ہفتوں تک خلوت نشین کی طرح ایک غار میں رہا۔ ایک روز نہایت خوف زدہ ہوکر کانپتا ہوئے اپنی بیوی خدیجہ کے پاس گئے اور کہا کہ مجھے چھپادو۔ جب تک اُن کا خوف  موقوف نہ ہوا خدیجہ نے اُنہیں کپڑے سے چھپائے رکھا۔ کچھ دیر بعد محمد صاحب نے تھراتھراتے اور کانپتے ہوئے بیان کیاکہ جبرائیل فرشتہ میرے پاس آیا تھا اورمجھ سے کہنے لگا کہ " پڑھ"  میں نے کہا" میں ان پڑھ ہوں"۔ پھر اُس نے مجھے پکڑا اورمیری برداشت کی حد تک مجھے دبایا اور چھوڑ کر کہا "پڑھ" میں نے کہا " میں ان پڑھ ہوں" ۔ اس پر اُس نے پھر مجھے دبایا اور چھوڑدیا۔ پھر تیسری مرتبہ ایسا ہی کیا اورکہا "پڑھ" اپنے رب کے نام سے جو انسان کا خالق ہے۔ پڑھ کیونکہ تیرا خدا نہایت ہی کریم ہے۔ اُس نے آدمیوں کو قلم کا استعمال سکھایا۔ اُس نے انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا"۔

یہ قصہ سن کر وفادار خدیجہ اپنے شوہر کو تسلی دینے کے لئے مستعد ہوئی۔ اُس کے خوف کو دور کرنے کی غرض سے اوراِس لئے کہ کہیں وہ خوف سے مر نہ جائے یا کہیں شیطان کے بس میں نہ ہوجائے وہ یوں کہنے لگی کہ" میں خدا کی قسم کھاتی ہوں کہ وہ کبھی تم کو اُداس یا رنجیدہ نہ کریگا کیونکہ فی الحقیقت تم اپنے رشتہ داروں پر مہربان ہو۔ تم سچ بولنے والے اور امانتدار ہو۔ تم لوگوں کی تکلیفوں میں ہمدرد ہوتے ہو اورکچھ تجارت سے کماتے ہو سب کا سب اچھے کاموں میں صرف کرتے ہو۔مہمان نواز اوراپنے ہم جنسوں کی مدد کرنے والے ہو" ۔ اس کے بعد خدیجہ محمد صاحب کو اپنے عم زاد بھائی ورقہ کے پاس لے گئی۔ ورقہ ایک مقدس آدمی سمجھا جاتا تھا اور یہودی نوشتوں سے واقفیت رکھتا تھا۔ ورقہ نے کہا " اے میرے  بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو"؟ اس پر محمد صاحب نے جو کچھ دیکھا تھا بیان کیا اور ورقہ نے کہا کہ" یہ وہی عزت ہے جو خدا نے موسیٰ کو عنایت فرمائی تھی"۔ اس سے یہ ظاہر کیا کہ اُسے الہام ہوتا ہے۔

محمد صاحب کی نبوت کا شروع یہی تھا۔ اِس وقت سے بیس برس تک برابر اس عجیب وغریب شخص کے اظہار اور بیانات بڑی ہوشیاری سے لکھے گئے اور کلام اللہ کے طورپر پیش کئے گئے ۔ تمام قرآن تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہوا اور نبی کے تجربوں اور مومنین کے حالات کے رنگ میں رنگا گیا۔ قرآن کے مختلف حصوں کا مختلف موقعوں پر حسب ضرورت اظہار اور استعمال کیا گیا۔ جب کبھی نبی کو کوئی ضرورت  پیش آئی اور کوئی ذاتی فائدہ ملحوظ اور مدنظر فوراً   آسمانی  الہام وضع  کیا گیا۔

اس نبوت کی روح کے جوش نے مکہ میں قومی بتوں کے بُت خانہ اور بتوں پر لعنت کی اور خلقت اور انسانی ضمیر کی شہادت سے خدا کی وحدت کو قائم کیا۔ قبیلہ قریش جوشہر مکہ میں ایک نہایت زبردست فرقہ تھا اور کعبہ کے مقدس مقام کا محافظ تھا  اس تبلیغ  سے نہایت ناراض اور برا فروختہ ہوگیا۔ چنانچہ اُنہوں نے محمد صاحب کو پاگل اورمجنوں ودیوانہ سمجھ کر ٹھٹھوں میں اڑایا اوراُس کے تمام پیروؤں کو ستایا۔محمد صاحب کواپنے زبردست رشتہ داروں کے باعث حفظ وامن نصیب ہوا۔ قرآن اِن واقعات کا بڑی خبرداری اور شرح وبسط کے ساتھ بیان کرتاہے اور ستانے والوں کوخوب ملامت کرکے ڈراتا ہے۔ نیز گزشتہ زمانہ کے انبیاء کے حالات کو پیش کرتا ہے کہ کس طرح بے ایمانوں اور کافروں نے اُن کو ستایا اور ٹھٹھوں میں اڑایا۔ کس طرح خدائے کریم نے اُن کو معجزے عنایت کئے اور تمام دشمنوں پر غلبہ عطافرمایا۔لیکن وہ بدبخت سنگدلی کے باعث آنکھیں بند کئے ہوئے ہلاکت کی طرف دوڑے چلے گئے ۔ بعض کی ہلاکت کے لئے زمین متزلزل ہوکر پھٹ گئی اور وہ زندہ درگور سے بدتر ہوکر غرق ہوگئے اور بعض طوفان میں ڈوب مرے۔ بسا اوقات رات کے وقت بادِ سموم چلی اور تمام باشندوں کو ہلاک کردیا۔ خدا کے انبیاء کے دشمنوں پر اُنہیں ہلاک کرنے کے لئے وبائیں آئیں۔ جب یہودیوں نے مخالفت کی تو گذشتہ زمانہ کے منکرین کی ہلاکت وبربادی کے حالات پیش کرکے اُنہیں متنبہ کیا گیا۔

مدینہ میں نبی کی حالت بالکل تباہ ہوگئی اور قرآن الہام کے طرز بیان میں بھی بہت کچھ فرق آگیا۔ شروع میں تونبوت نہایت دلکش تھی۔ یہودیوں کی بہت کچھ چاپلوسی اور خوشامد کی گئی ۔ مسلمانوں کو حکم ملا کہ یروشلیم کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کریں۔ عہد عتیق کے بزرگوں کی بہت کچھ تعریف کی گئی ۔ اس طرح سے محمد صاحب نے بنی اسرائیل کواپنے  ساتھ ملالینے کی کوشش کی لیکن وہ اِس نئے رسول کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوئے۔ اُنہوں نے اُس کے نبیوں کو ستایا اور قتل کیا۔ بیت المقدس واقعہ یروشلیم کے عوض میں کعبہ قبلہ مقرر ہوا۔ مسلمانوں کو حکم ہوا کہ آئندہ مکہ کی طرف منہ کرکے نماز ادا کیا کریں۔ مسیحیوں کا ذکر نہایت نرمی اور ملائمت سے کیا گیا۔ عیسیٰ کو خدا کا نہایت بھاری اور الوالعزم  نبی تسلیم کیا۔ اُس کے چال چلن کی پاکیزگی اوراُس کے عجیب وغریب معجزات کا ذکر اذکار ہونے لگا۔

اِ س عرصہ میں بہت سے لوگ اِس نئے دین کے پیرو ہوگئے۔ عربی ۔ یہودی اور عیسائی بھی اس میں شامل ہوئے۔ اب ایک  نیا مخالف یعنی عبداللہ نامی ایک شخص برپا ہوا۔ یہ شخص مدینہ کے ایک نہایت زبردست فرقہ کا سردار تھا۔ یہ محمد صاحب کے روز افزوں اقتدار واختیار پر بہت حسد کرنے اور شک کھانے لگا۔

اس وقت سے محمد صاحب کے الہامات نے عبداللہ اوراُس کے فریق کی طرف رُخ کیا۔ الہامات کی ضروریات بہت بڑھ گئیں  اور آنحضرت کے کانوں میں ہر وقت جبرائیل فرشتہ کی آواز سنائی دینے لگی۔ بقول حضرت محمد بعض اوقات تو یہ آواز گھنٹے کی آواز کی سی تھی اور بعض وقت رعد اور گرج کی سی۔اس کی سندمیں ہم ایک حدیث بھی پیش کرتے ہیں۔

راوی : عبداللہ بن یوسف , مالک , ہشام بن عروہ , عروہ , عائشہ

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِکٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ کَيْفَ يَأْتِيکَ الْوَحْيُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْيَانًا يَأْتِينِي مِثْلَ صَلْصَلَةِ الْجَرَسِ وَهُوَ أَشَدُّهُ عَلَيَّ فَيُفْصَمُ عَنِّي وَقَدْ وَعَيْتُ عَنْهُ مَا قَالَ وَأَحْيَانًا يَتَمَثَّلُ لِي الْمَلَکُ رَجُلًا فَيُکَلِّمُنِي فَأَعِي مَا يَقُولُ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَلَقَدْ رَأَيْتُهُ يَنْزِلُ عَلَيْهِ الْوَحْيُ فِي الْيَوْمِ الشَّدِيدِ الْبَرْدِ فَيَفْصِمُ عَنْهُ وَإِنَّ جَبِينَهُ لَيَتَفَصَّدُ عَرَقًا۔

ترجمہ: عبداللہ بن یوسف، مالک، ہشام بن عروہ، عروہ، ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ حارث بن ہشام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے پاس وحی کس طرح آتی ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کبھی میرے پاس گھنٹے کی آواز کی طرح آتی ہے اور وہ مجھ پر بہت سخت ہوتی ہے اور جب میں اسے یاد کر لیتا ہوں جو اس نے کہا تو وہ حالت مجھ سے دور ہو جاتی ہے اور کبھی فرشتہ آدمی کی صورت میں میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے اور جو وہ کہتا ہے اسے میں یاد کر لیتا ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے سخت سردی کے دنوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتے ہوئے دیکھا پھر جب وحی موقوف ہو جاتی تو آپ کی پیشانی سے پسینہ بہنے لگتا۔(صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ وحی کا بیان ۔ حدیث ۲)

ایک دفعہ کا ذکر کیا جاتاہے کہ جبرائیل آنحضرت کے خادموں میں سے ایک شخص دہیاہ کی مانند ہوکر ایسی آواز سے ہم کلام ہوا جو صاف سنائی دیتی تھی۔ کبھی یہ حکم سنایا گیا کہ کاروانِ مکہ سے جنگ کرو۔ کبھی مسلمانوں کے اپنے معاملات کی نسبت احکام آئے۔ اِن احکام سے غالباً اُن کی باہمی راہ ورسم کا انتظام مقصود تھا۔ شاید اُن کی زوجات اورہمسایوں سے برتاؤں کرنے کے متعلق ہدایات تھیں یا اس امر کی تشریح تھی کہ مومنین آنحضرت سے کیسا سلوک کریں۔ کبھی نماز اور روزوں کی تعلیم دی گئی۔ کبھی اہل عرب کے بعض قدیم دستورات موقوف کئے گئے ۔ مثلاً قدیم دستور کے مطابق کوئی عرب اپنے متنبیٰ بیوی سے نکاح نہیں کرسکتا تھا لیکن جب آنحضرت نے اپنے متنبیٰ زید کی حسین بیوی زینب پر عاشق ہوگئے تویہ دستور منسوخ کردیا گیا۔ زید نے آنحضرت کو زینب کا شیفتہ وفریفتہ دیکھ کر اُس طلاق دیدی۔ اگر چہ آنحضرت طلاق دینے سے زید کو ظاہرا منع فرماتے رہے لیکن بمصداقِ " عشق ومشک را نہتواں نہفتن"۔ چونکہ زید حقیقتِ حال کو تاڑ گیا تھا اس لئے اُس نے آنحضرت کو زینب کی ہم آغوشی سے محروم نہ رکھا۔ اگرچہ محمد صاحب کے محبتی بچے اُن کے اس افعل سے ناخوش نہ تھے توبھی اہلِ عرب کا دستور اس کے خلاف تھا۔ اُن کے نزدیک کسی شخص کا اپنے متنبیٰ کی مطلوقہ بیوی سے نکاح کرنا نہایت ہی مکروہ اور معیوب تھا۔ اس موقعہ پر فوراً وحی آسمانی نے آپ کی حمایت کی۔ فی الفور قرآنی وحی آپ کی بریت کی آیت لئے ہوئے لپکتا ہو آیا۔ آنحضرت نے بیان فرمایا کہ یہ اس لئے ہواہے تاکہ آئندہ کے لئے وہ پرانا نامناسبت دستور جومومنین کواپنے لیپالکوں کی مطلوقہ بیویوں سے نکاح کرنے سے منع کرتا اور روکتاہے موقوف کیا جائے۔ مَّا كَانَ عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيمَا فَرَضَ اللَّهُ لَهُ سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَّقْدُورًا پیغمبر پر اس کام میں کچھ تنگی نہیں جو خدا نے ان کے لئے مقرر کردیا۔ اور جو لوگ پہلے گزر چکے ہیں ان میں بھی خدا کا یہی دستور رہا ہے۔ اور خدا کا حکم ٹھیر چکا ہے(سورہ احزاب آیت ۳۸)۔

ایک دفعہ مقدس مہینوں میں جنگ کرنے پر فساد بپا ہوا۔ کیونکہ عرب کے قدیم دستور کے مطابق ان مہینوں میں جنگ کرنا بالکل منع اور ناجائز تھا۔ تلواریں میان میں کی جاتی تھیں اور ڈھالیں اور تیروکمان وغیرہ خیموں کے اندر لٹکائے جاتے تھے اور دشمن جان ومال کے خطرہ سے بے خوف ہوکر آپس میں ملتے جلتے تھے۔کسی کے باپ یا بھائی کا خونی بھی انتقام سے بے خوف ہوکر اُسکی صحبت میں رہ سکتا تھا۔ ان مقدس مہینوں کے شروع میں ایسا ہوا کہ مسلمان ڈاکوؤں کی ایک چھوٹی سی جماعت نے یہ دیکھ کر کہ ایک کاروان مکہ ایک چاہ کے قریب نہایت بے فکری اور اطمینان سے خیمہ زن ہے اُس پر فوراً حملہ  کیا اور چونکہ وہ کاروان کسی طرح کے مقابلہ کے لئے تیار نہیں اس لئے بآسانی  مسلمان لٹیروں کا شکار ہوا۔ چنانچہ مومنین تمام مال واسباب لوٹ کر اور غنیمتِ جنگ  کے طورپر اپنا حق سمجھ کر بمصداقِ

چوپیروزشد دزد تیرہ رواں
چہ غم داردانہ گریہ کاروان

خوشی خوشی اپنے مآرب ومراصد کی طرف روانہ ہوئے۔ اس پر تمام منکرین ومنافقین مکہ نے شور مچایا اور مسلمان بھی اس سے بہت شرمندہ ہوئے اور چونکہ  یہ سرق ونہب محمد صاحب کے حکم سے وقوع میں آیا تھا اس لئے آنحضرت پر بھی رہزنی اور لوٹ مار کا الزام لگا اور آپکا اختیار نہایت ہی معرض خطر میں آگیا۔ آپ نے عوام کی تسلی کے لئے ڈاکوؤں کو حراست میں رکھا اور مال غنیمت بھی آسمانی فیصلہ کی انتظاری میں کچھ دنوں تک تقسیم نہ کیا لیکن یہ انتظاری دیر تک نہ رہی ۔چنانچہ جبرائیل فرشتہ فوراً پیغام لایا کہ ان مہینوں میں بھی تمام کافروں اور منکروں کو لوٹنا اور قتل کرنا جائز ہے کیونکہ کفراِن مہینوں  میں جنگ کرنے سے زیادہ بُرا ہے۔ پس ڈاکوؤں کو آزاد کردیا اور اُنہیں خوب انعامات تحسین وآفرین سے خوش کیا اور تمام مالِ غنیمت  مومنین میں تقسیم کیا گیا۔

پھر ایک موقعہ پر حسب الحکم قرآن یہودیوں پر چڑھائی کی گئی۔ بعض گستاخ عرب غیر مناسب بے تکلفی کے ساتھ محمد صاحب سے ملے اور اس پر فوراً قرآنی آیات نازل ہوئیں اور آنحضرت سے ملاقات کرنے کے طریق اورآپ کے حضور میں حاضر ہونے کے قواعد بیان کئے گئے ۔پھر آنحضرت  کی پیاری بیوی عائشہ پر الزام لگایا گیا اوراس سے سخت بے عزتی اور بدنامی ہوئی لیکن قرآن نے فوراً  عائشہ کو ان الزامات سے بری کردیا اور الزام لگانے والوں اور بدنام کرنے والوں کے لئے سزا تجویز کی گئی۔ وحی قرآن کا یہ ایک خاصہ نظر آتا ہے کہ وہ آنحضرت کی ضروریات اور تمام کارروائیوں کے حسب حال خوب ہی زمانہ سازی کرتاہے۔ قرآنی الہامات اور آنحضرت کی کارروائیوں میں ایک نہایت ہی گہرا تعلق ہے۔ قرآن کو بخوبی سمجھنے کے لئے آنحضرت کے سوانحِ عمری اورحالات زندگی سے واقفیت حاصل کرنا از حد ضروری ہے۔

محمد صاحب کی وفات کے بعد قرآن کے مختلف حصے ایک صندوق میں پائے گئے جو آنحضرت کی زوجات میں سے ایک کے سپرد کیا گیا تھا۔ یہ قرآنی آیات اور سورتیں کھجور کے پتوں اور سفید پتھروں پر مرقوم تھیں۔ اس کے علاوہ بہت سے مسلمانوں کے پاس بھی قرآن کے بعض حصوں کی نقلیں تھیں اور اُن میں سے بعض نے اُن کو ازبرکیا ہواتھا۔ایسے لوگوں کو حافظ کہتے ہیں۔ جنگ وجدل اور کشت وخون سے حافظوں کی تعداد بہت کم ہوگئی۔ آخرالامران ہی وجوہات سے خلیفہ ابوبکر نے زید ابن ثابت کو قرآن کو مرتب کرنے پر مقرر کیا ۔زید نے اس کام کو سرانجام تک پہنچایا اور وہ تمام حصے جو کھجور کے پتوں اور پتھروں پر لکھے ہوئے تھے اور بعض جو مومنین نے حفظ کئے ہوئے تھے نہایت احتیاط اور خبرداری سے مرتب کئے ۔ چنانچہ موجودہ قرآن وہی ہے جو زید ابن ثابت نے جمع کیا تھا۔یہ تو سچ ہے کہ خلیفہ عثمان کے عہد میں بھی قرآن میں کچھ ردوبدل اور تغیر و تبدل ہوا لیکن یہ ردوبدل صرف اس حدتک تھا کہ محاورات واصطلاحات مکی عربی اور قبیلہ قریش کے محاورات کے مطابق ہو۔

کل قرآن میں ایک سوچودہ سورتیں ہیں لیکن اِن ابواب یاسورتوں  کا سلسلہ ترتیب تواریخی نہیں ہے بلکہ کسی قدر یہودی نوشتوں اوراُن کے انبیاء کے صحیفوں کی طرز پر ہے۔ لمبی لمبی سورتوں کوشروع میں درج کیاہے اور چھوٹی چھوٹی سورتیں آخر میں رکھی ہیں۔ تمام سورتوں کے پہلے بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ مندرج ہے اور جو سورت شروع میں رکھی گئی ہے اس کا نام فاتحہ ہے اوراُس کا مضمون دعائیہ ہے۔ چنانچہ وہ سات آیات پر یوں مشتمل ہے۔

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ترجمہ: شروع الله کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا مہربان ہے۔ سب تعریف واسطے اللہ کے ہے جو پروردگار ہے تمام جہان کا۔ بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا۔ روزجزا کا مالک ۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ ہم کو راہ مستقیم کی ہدایت عنایت کر۔ اُن لوگوں کی راہ پر چلا جن پر تونے فضل کیا ۔ جن پر تو غضبناک ہے اور جوگمراہ ہیں اُن کی راہ سے ہمیں بچالے۔(سورہ فاتحہ)۔

قرآن کا یہ مضمون قرآن کی تمام عبارت سے زیادہ موثر ہے۔ بیس کروڑ (اُس کی وقت آبادی) بنی آدم کے دلوں پر قرآن کے پر تاثیر ثابت ہونے کے کم از کم دو سبب ہیں۔ اول یہ کہ قرآن کی عبارت نہایت عمدہ ہے اور اصل زبان کا لہجہ بہت ہی شیریں  ہے۔ جب کوئی قرآن پڑھتا ہے توسننے والے کو ایسا معلوم ہوتاہے کہ کوئی خوش الحان کوئی دلکش سرودسنا رہا ہے۔ہزارہا لوگ ایسے ہیں جوقرآن کا شاید ایک حرف بھی نہیں سمجھتے لیکن سنتے وقت عبارت ولہجہ کی خوبی کے باعث بالکل مجذوب ہوجاتے ہیں۔ دوم اس کتاب میں توحید پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے اورخدا کی وحدت کی سچائی اورنجات کے باب میں خدا پر توکل کرنے کے بیانات عموماً لوگوں کواسلام کی طرف کھینچتے اورمائل کرتے ہیں۔

قرآن کے متعلق جومسلمانوں کا اعتقاد ہے اُس میں یہ تین باتیں قابل لحاظ ہیں:

(۱)قرآن کے ازلی ہونے کی تعلیم۔اس تعلیم کے رو سے قرآن غیر مخلوق ہے۔ کاغذ اورسیاہی وغیرہ اجزائے کتاب مخلوق مانے جاتے ہیں۔ حروف کی شکلیں بھی مخلوق تسلیم کی جاتی ہیں لیکن کلام اللہ جواُس میں اشکال حروف کے وسیلہ سے ظاہر کیا جاتاہے تمام دیندار اورخوش اعتقاد مسلمانوں کے خیال میں ازل ہی خدا کے ذہن میں موجود تھا۔ باعتبار اپنے وجود کے قرآن ازلی ہے اور اگرچہ خدا نہیں لیکن خدا سے جُدا بھی نہیں ہے۔

(۲) اس عقیدہ پر شہادت بھی قرآنی ہے۔ جس تعلیم کا اوپر بیان ہوچکا ہے اُس کی روشنی میں ہم اس بات کوبخوبی سمجھ سکیں گے کہ قرآن کے ایک ایک نقطہ اور شوشہ کی مسلمانوں کے نزدیک کہاں تک قدرومنزلت  ہے۔ صرف پاک اور مطہرہی قرآن کو پڑھ سکتے ہیں۔ کسی آیت میں کسی طرح کی تبدیلی جائز نہیں۔ بہت سے خوش اعتقاد مسلمان قرآن کو حفظ کرتے ہیں اور تمام معتقدات قرآن ہی کی تعلیم سے درست یا نادرست قرار دئیے جاسکتے ہیں۔ مسئلہ ایمان کے لئے ایک ہی آیت کافی ہے۔

(۳) قرآن کی تعلیم میں مسئلہ " ناسخ ومنسوخ" بھی موجو دہے۔ محمد صاحب کے ایام حیات ہی میں اس مسئلہ کا وجود پایا جاتاہے۔ نبوت کے دعاوی کی ضروریات نے اس مسئلہ کو اختراع کیا۔ وقتاً فوقتاً  حالاتِ زمانہ کے مطابق الہامات میں تبدیلیاں واقع ہوئیں اوریہ نیا مسئلہ وضع کیا گیا کہ نیا الہام پُرانے الہام کو اُس کے موافق نہ ہونے کی حالت میں منسوخ کردیتاہے۔

یہ نسخ کی تعلیم ہوتے ہوتے اہل اسلام کے علمِ الہٰی کی ایک شاخ ہوگئی۔چنانچہ اب یہ تعلیم زمانہ حال کے مسلمانوں کے نزدیک اگلی کتابوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ مسلمان بے تامل اور بغیر کسی طرح کے پس وپیش کے کہتے ہیں کہ یہ یہودیوں کی کتابیں عیسائیوں کی کتابوں سے منسوخ ہوگئیں  اور پھر اسی طرح عیسائیوں کی کتابوں کوقرآن نے منسوخ کردیا۔

اگر فاخر مسلمان کے ہاتھ میں قرآن ہوتواُسے کسی دوسری کتاب کی ضرورت نہیں۔اُس کے لئے قرآن میں نہ سچائی ہی ہے بلکہ روایتوں کو شامل کرکے جہاں تک مذہب سے علاقہ ہے اُس میں پوری سچائی موجود ہے۔

خلیفہ عمر کی نسبت یہ قصہ بیان کیا جاتاہے کہ جب اُس سے پوچھا گیاکہ " سکندریہ کے مشہور کتب خانہ کی نسبت کیا کیا جائے  یعنی اُسے تلف کیا جائے یا محفوظ رکھا جائے؟ تو اُس نے جواب دیا کہ اگر وہاں کی کتابیں قرآن سے مطابقت رکھتی ہیں تواُن کی کچھ ضرورت نہیں اور اگر وہ قرآن کے خلاف ہیں تو ضرور اُنہیں برباد کردینا چا ہیے"۔ اس قصہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے نزدیک عیسائی نوشتوں کی کیا قدرومنزلت ہے۔ جہاں کہیں وہ قرآن سے اتفاق نہیں کرتے فوراً محرف قرار دئیے جاتے ہیں۔اُن کو وہیں تک صحیح تسلیم کیا جاتاہے جہاں تک کہ وہ قرآن سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہے کہ باوجود یکہ قرآن بائبل کی صحت ودرستی اوراُس کے منجانب اللہ ہونے پر گواہی دیتا ہے توبھی مسلمان یہی رائے قائم کئے بیٹھے ہیں کہ موجودہ بائبل قابل اعتبار نہیں اور چونکہ اُس میں قرآنی تعلیم کی مخالفت پائی جاتی ہے اس لئے اُسے رد کرنا ضرور ہے۔

فصل دوم

احادیث

اسلام کا دوسرا رکن اگرچہ قرآن سے بہت قریبی رشتہ رکھتا ہے تاہم اسکی نسبت  کچھ متفرق اورمختلف ہے۔ یہ رکن احادیث یا روایات کا ہے۔ احادیث کی آیات کو سنت کے نام سے بھی نامزد کرتے ہیں۔ مختلف معاملات میں محمد صاحب کے کلام واحکام اورکام کا ذکر پایا جاتاہے۔ یہ تمام روایات محمد صاحب کی وفات سے دو تین سوبرس بعد تحریر ہوئے اور اُن تمام باتوں کا بیان مندرج ہے: (۱) وہ باتیں جو محمد صاحب نے کی(۲) وہ باتیں جومحمد صاحب اپنے مریدوں کے سامنے عمل میں لائے(۳) وہ باتیں جو مرید عمل میں لائے اور آنحضرت نے اُن پر کسی طرح سے نامنظوری ظاہر نہ کی اور(۴) وہ باتیں جو مرید آنحضرت کے سامنے عمل میں لائے اور آنحضرت نے اُن کی تردید کی اوراُنہیں ناجائز قرار دیا۔ یہ ُکل مضامین  چھ بڑی بڑی کتابوں میں جمع کئے گئے ہیں اوراُن  کتابوں کو " الصحاح الستہ" یعنی چھ صحیح کتابیں کہتے ہیں۔

صحیح اور وضعی احادیث کے درمیان امتیاز کے قواعد نہایت ہی عجیب وغریب ہیں۔ اِن احادیث کو جمع کرنے والوں نے احادیث کی متعلقہ شہادتوں کو بغور آزمانے اور دیکھنے کی نسبت اُن کے روایوں کا زیادہ خیال رکھاہے۔اگر تمام راوی دیندار مسلمان ۔ دانا۔ صاحب اختیار اور پرہیزگار ودوراندیش تھے توروایت قابل قبول اور حدیث صحیح قرار دی گئی اوراگرایک دوراوی ایسے تھے جن کی شہادت کوہرحالت میں تسلیم نہیں کیا جاسکتا اور اُن پر اعتماد نہیں ہوسکتا توایسی احادیث کمزور یا مشکوک متصور ہوتی تھی۔ لہذا یہ بات صاف ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں احادیث کی تفسیر کرنا علمائے اسلام  کے لئے کوئی ہلکا ساکام نہیں ہے۔

اِ س جگہ مثال کے طورپر احادیث کی ایک مشہور کتاب سے جس کا نام ترمذی  ہے خلاصتًہ کچھ درج کیا جاتاہے۔ اِس سے صاف پتہ لگ جائے گا کہ احادیث کا طرزِ عمل بیان کیا ہے اوراُن کی روایات کے سلسلہ کا کیا ڈھنگ ہے۔"ابوکریب نے ہم سے بیان کیا کہ ابراہیم ابن یوسف ابن ابی اسحاق نے ہم سے کہا کہ میرے باپ نے روایت کی ابواسحاق سے اور ابواسحاق نے روایت کی طلاطہ ابن مصارف سے کہ سنا ابن مصارف نے عبدالرحٰمن سے  یہ کہتے سنا کہ میں نے رسول صلعم سے کہ جوکوئی دودھ دینے والی گائے خیرات کرے گا یا چاندی یا پانی کی مشک خیرات میں دے گا اُسے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ملیگا"۔ اس مقام پر یہ بات قابلِ یاد ہے کہ سلسلہ روایت محمد صاحب سے لے کر آخری راوی تک پورے اورکامل طورسے پایا جاتاہے۔

جس طرح قرآن اپنی تعلیم کے لحاظ سے اعلیٰ اعتماد اور خاص اعتبار کا رتبہ رکھتاہے اُسی طرح احادیث روزمرہ کے کاروبار کے عملی عمل کا ایک خاص چشمہ خیال کی جاتی ہے۔ احادیث نہ صرف اُن رسومات اور دستورات ہی سے تعلق رکھتی ہیں جو روزانہ اور مقرر پنجگانہ نمازوں ۔ ماہِ رمضان کے روزوں اور محرم کی تقریب اور خیرات وحج کے بارے میں ہیں بلکہ بیاہ شادی اور پیدائش واموات۔ زیورات وپوشاک اورمجالس ومحافل کے تمام دستورات احادیث میں بالتشریح پائے جاتے ہیں۔ حتی کہ داڑھی تراشنے بالوں کو رنگنے اورمسواک کے لئے خاص قسم کی لکڑی استعمال کرنے کے قواعد بھی مندرج ہیں ۔ طہارت اور غسل کے بارے میں جس قدر مسائل ہیں وہ سب کے سب احادیث ہی سے حل ہوتے ہیں ۔ مثلاً اگر کوئی کتا چاہ میں گر کر ڈوب مرے تو فوراً یہ سوال پیش آتاہے کہ اب چاہ کا پانی کس طرح پاک وصاف کیا جائے؟ ایسے موقعہ پر علما سے صلاح لی جاتی ہے اور وہ کتاب کھول کر بتاتے ہیں کہ اتنے من یا اتنے پیمانے پانی نکال دو۔ اس سے چاہ کا پانی بالکل پاک وصاف ہوجائے گا۔

یہودی فقیہ ہاتھ دھونے اور دیگچیوں کو صاف کرنے کے مسائل کے ثبوت میں اپنے ربیوں اور عالموں کی تعلیم پیش کرکے کبھی اپنی علمیت کا اس قدر اظہار نہیں کرتے جس قدر مسلمان مولوی اس قسم کے چھوٹے چھوٹے امور پر بحث کرتے وقت کرتے ہیں۔

فصل سوم

اجماع

اسلا م کا تیسرا رکن اجماع ہے۔ اہل اسلام کے ذہن میں لفظ اجماع کا مفہوم وہی ہے جو مسیحیوں کے نزدیک بزرگوں کی متفق رائے  Consensus    of    the    Fathers   سے مراد ہے۔ اجماع سے اُن عالموں اور مجتہدین  کی رایوں کا مجموعہ مقصود ہے جومحمد صاحب کے اصحاب اور انصار ومددگار تھے جو آنحضرت کے ایامِ رسالت میں مدینہ میں مسلمان ہوئے۔ان لوگوں کے شاگردوں اور ساتھیوں کی رایوں کا مجموعہ بھی ایسا ہی خیال کیا جاتاہے اوران سب کے حق میں یہ گمان ہے کہ وہ قرآن کا مطلب سمجھنے کی زیادہ قابلیت رکھتے تھے اور خصوصاً آنحضرت کے اقوال یعنی احادیث کو وہی بخوبی سمجھ سکتے تھے باوجود اِس سب کے یہ بات ازحد ضروری ہے کہ اجماع کسی صورت میں قرآن اوراحادیث کی مخالفت نہ کرے اور ہر حالت میں اُن کی تعلیم کے موافق ہو۔اگر اجماع قرآن واحادیث سے متفق ہو تو شرع وتفسیر کے تمام مسائل پر سب سے بڑی شہادت اجماع ہی ہے۔

فصل چہارم

قیاس

اسلام کا چوتھا رکن قیاس ہے اوراس سے علمائے اسلام کی وہ بحث  اور تحقیقات مراد ہے جو قرآن وحدیث اور اجماع کی تعلیم کے مطابق ہو۔ اہل اسلام کے لئے صرف یہی پہلا موقعہ ہے جہاں عقل کو کام میں لانے کی گنجائش ہے لیکن یہ گنجائش بھی بہت ہی کم ہے۔ اسلام کی پہلی تین صدیوں کے علما وائمہ اورمجہتدین  نے چند تقریریں کیں۔ یہ تقریریں قرآن اور احادیث پر مبنی ہیں اور مومنین کی ہدایت کے لئے قلم بند کی گئی ہیں۔ پھر بعد ازاں صدہاں سال تک ان علماء اور ائمہ ومجتہدین کا کوئی جائے نشین نہیں ہوا۔ مسلمان فاضلوں نے یہ دریافت کرنیکی کوشش ہی نہیں کی کہ دراصل قرآن اور احادیث کی تعلیم کیا ہے بلکہ صرف اسی قدر دریافت کرنے پر اکتفا کی ہے کہ قرآن واحادیث کی تعلیم کی نسبت علماء کیا کہتے ہیں ۔ یہ لوگ اپنی عقل سے کچھ کام نہیں لیتے بلکہ ان کے نزدیک عقلی مداخلت ناجائز ہے۔ خودنمائی نے اُنکے دلوں پر ایسا اختیار جمایا ہوا ہے کہ ان علماء وفضلا ء کی حکومت رومی کلیسیا کے پوپ اور بشپ کے اختیار سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہے۔ اسلامی امامت دنیاوی حکومت واختیار کے جابرانہ لباس سے ملبس ہوکر اس قابل ہے کہ اُن تمام اشخاص کے لئے جو اسلامی تعلیم اور دینی معاملات کے باب میں کسی طرح کی مخالفت کریں سخت سے سخت سزا تجویز کرے۔ اگراسلام کی اس اصولی تعلیم پر غور کیا جائے تو اس بے حد سختی اور جوروستم کا صاف پتہ لگ جائیگا ورنہ ہرایک بات گویا معدنی صورت اختیار کئے ہوئے ہے اوراُس کے برآمد ہونے کی کوئی اُمید نہیں اوراسلام میں ترقی کی کوئی صورت نہیں رہتی۔مسلمان مولوی ہمیشہ گذشتہ  کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اپنی عقل کا دخل ناجائز سمجھتے ہیں۔ یہ ہرگز نہیں بتاتے کہ اُن کے اپنے خیال میں کتب مقدسہ کی تعلیم کیا ہے لیکن قدیم زمانہ کے فریسیوں کی طرح خوش الحانی سے پڑھ کر صرف وہی بات بتاتے ہیں جو ہزاربرس پیشتر کسی قدیم عالم نے سکھائی تھی۔

ترکی اور ہندوستانی مسلمانوں کے بعض خیر خواہ بڑے وثوق سے اُمید کئے بیٹھے ہیں کہ اہل مغرب سے ملنے جُلنے اوراُن کی شائستگی  سے واقفیت  حاصل کرنے سے اُن کے مذہب میں ضرور اصلاح ہوگی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سرگرم خیر خواہ ہزار برس کی صلح بخش اور امن وچین کی اسلامی سلطنت  کی راہ دیکھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اُس وقت مستورات کی واجبی  عزت ملحوظ رکھی جائیگی۔کثیر الازدواجی  موقوف ہوجائیگی۔ غلام آزاد کئے جائینگے۔ بردہ فروشی  کی لعنتی رسم کا خاتمہ ہوجائیگا۔ عقل وضمیر آزاد ہونگے اورمسلمان اورمسیحی کمال محبت سے بغلگیر ہوکر تخت ورحمت کے سامنے سرنگوں ہونگے۔ ایسے خیالی پلاؤ پکانے والے دین اسلام کی حقیقت کونہیں سمجھتے ۔ جوبرائیاں اسلامی ممالک میں مشہور اوربکثرت پائی جاتی ہیں جن کا ابھی ذکر ہوچکا ہے اُن سب کا رواج اور جواز اسلام ہی کی طرف سے ہے۔ جب تک قرآن کا اختیار باقی ہے تب تک غلامی اور غلاموں کی گریہ وزاری کی ذلت اور کثر الازدواجی  کی قباحت قائم رہیگی۔ جب تک اسلامی علماء احادیث  وروایات  اوراجماع کے بس میں ہیں تب تک اسلامی ممالک میں عقل وضمیر بیکاری اور غلامی کی حالت میں ہیں اور رہینگے۔ جب تک مسلمان بردہ فرشوں اور ترکوں اور عربوں کی بردہ فروشی سے قطعی طورپر باز نہ رکھا جائیگا تب تک افریقہ کے زخم بھر نہیں سکتے۔ اونٹ کٹارے سے انگور توڑنا بالکل ناممکن ہے۔

باب دوم

عقائدِ اسلام

اب ہم اسلامی ایمان واعمال پر نظر کریں جوکہ عقائد اسلام پر مبنی ہیں۔ اسلام کی معتبر شہادتوں کے بموجب اسلامی ایمان میں سات باتیں شامل ہیں اور اُن کو صفاتِ ایمان کے نام سے نامزد کرتے ہیں۔ چنانچہ یوں مرقوم ہے کہ آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنزَلَ مِن قَبْلُ وَمَن يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ والقدر خیرہ وشرہ والبعث بعد الموت ترجمہ: میں ایمان لاتاہوں خدا پر اُس کے فرشتوں  پر اُس کی کتابوں پر اُس کے رسولوں پر آخری دن پر اندازہ خیروشر پر  اور بعد ازموت زندہ ہونے پر۔

خدا پر ایمان رکھنے سے نہ صرف شخصی خدا کا یقین مراد ہے بلکہ خصوصاً اُس کی کامل وحدانیت بھی ملحوظ ہے اوریہ وحدانیت صرف معبود مِن دُونِ اللَّهِ ہی کی تردید نہیں کرتی بلکہ واحد خدا کے وجود اجتماع اقانیم اور تجسم کے ہرایک خیال کو رد کرتی ہے۔ چنانچہ تثلیث فی التوحید اور مسیح میں خدا کے مجسم ہونیکے مسائل کے بالکل برخلاف ہے۔

پھر خدا کی سات صفات یوں بیان کی ہیں ۱(۱)حی القیوم (۲) علیم(۳) قدیر(۴) سمیع(۵) بصیر(۶)کلیم اور (۷) مرضی۔ اہل اسلام کے نزدیک خدا دانائی اورمحبت کی صفات سے اس قدر متصف نہیں ہے جس قدر کہ لاانتہا اور غیر محدود قدرت کی صفت سے۔ ایک مقام پر یوں مندرج ہے کہ وہ عالموں کا خداوند اور آسمان وزمین کا خالق ومالک ہے۔ اُسی نے زندگی اور موت کوخلق کیا اور کل جہان کی حکومت اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ اُ س سے صبح نمودار ہوتی  ہے اور رات دن کو ڈھانپ لیتی ہے۔ خداوند ہی قادر مطلق اور جلالی تخت کا مالک ہے۔ گرج اُس کے کمالات کا اشتہار دیتی ہے۔ کل زمین  اُس کی مٹھی میں ہے اور آسمان اُس کے دائیں ہاتھ میں طے کئے جائیں گے۔ وہ اپنی قدرت کاملہ سے اُس علم کو اخذ کرتا ہے جو راست اور صحیح مقصد کی طرف اُس کی ہدایت کرتاہے۔ خدائے تعالیٰ عاقل ۔ راست سچا اور اندازہ کرنے میں نہایت ہی تیز ہے۔ وہ تمام بنی آدم کے سارے چھوٹے بڑے نیک  وبداعمال کو جانتاہے اور مومنین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔

قادر مطلق کی قدرت کا خیال ایسا وسیع الفضا ہے کہ مخلوق کی مرضی کو ذرہ بھر بھی گنجائش نہیں۔ مسلمانوں کے دلوں پر آخرکار اس قسم کے خیالات مسلط ہوگئے ہیں کہ خدا گویا انسانی مہروں سے شطرنج کھیلتاہے اور مہروں کے ہلاک ہونے یا مارے جانے سے بالکل لاپرواہ ہوکر بازی جیتنے کی کوشش کرتا ہے۔

لیکن ساتھ ہی اس کے برخلاف خدا کو رحیم بھی مانا ہے۔ خدا کو رحیم ماننا اسلام کا اعلیٰ خیال نہیں ہے کیونکہ مسلمان بجائے محبت کی کشش کے زیادہ تر خوف ودہشت سے ہدایت حاصل کرتے ہیں۔اسلام کا خدا تو بیشک سچا خدا ہے لیکن اُس کی ماہیت کے متعلق اسلامی خیالات قابِل اعتراض ہیں۔ ہمارا اعتراض صرف اِسی  بات پر نہیں ہے کہ اسلام تثلیث کو رد کرتا ہے بلکہ اس پر بھی ہے کہ اُس نے خدا کے قادر مطلق ہونے کی صفت پر بہت زور دیا ہے اوراُسے دیگر صفات پر ترجیح دے کر اُس کی پاکیزگی کے درجہ کو گھٹا دیا ہے۔ قرآن میں خدا کی پاکیزگی کی نسبت جو کچھ مندرج ہے وہ ایک مقدس انسان کے حق میں بھی کہا جاسکتاہے۔ خدا کے رحم اور مہربانی کی صرف مسلمانوں کے لئے محدود اور مخصوص  کرنا خواہ اُن کے اعمال کیسے ہی کیوں نہ ہوں۔ کافروں کے بچوں کوبھی دوزخ میں بھیجنا ۔ گناہ کے کفارہ کی ضرورت سے انکار کرنا ۔ اپنی حفاظت اوراسلام کی ترقی کے لئے جھوٹ بولنے کو جائز سمجھنا اور خداکی سچائی کومحدود کرنا وغیرہ ساری باتیں سخت اعتراض کے قابل ہیں۔ اس مقام پر یہ بھی یادر ہے کہ اسلام کا خدا نہ صرف وہ اللہ ہے جس کا قرآن میں بیان پایا جاتاہے بلکہ وہ ووہ خدا ہے جوقرآن کے ہرایک لفظ اور حرف میں بولتاہے۔ قرآن کی تعلیم سے جو خیال خدا کی نسبت پیدا ہوتاہے اُس کو اُس خیال سے جُدا نہیں کرنا چاہیے جو محمد صاحب نے اپنی نفسی یا ملکی مقاصد کی ترقی وتحصیل کے لئے ہمیشہ مدنظر رکھا۔ کیونکہ ازروئے اسلام آنحضرت محض خدا کا منہ تھے۔پس اگر ہم اسلامی اللہ کا صحیح تصور اپنے ذہن میں قائم کرنا چاہیں تونہایت ضروری ہے کہ ساتھ ہی اُن تمام افعال واعمال کا بھی خیال کریں جو محمد صاحب نے اُس قرآنی اللہ کی منظوری سے کئے۔ ایسا کرنے سے صاف ظاہر ہوجائے گا کہ جو کچھ ہم نے کہا ہے اُس میں کسی طرح کا مغالطہ یا زیادتی نہیں ہے۔

جن کتابوں کومسلمان اعتقادی طورپر مانتے ہیں اُن کی نسبت یہ کہا جاتاہے کہ وہ تعداد میں ایک سوچار(۱۰۴) ہیں اورسب کی سب الہامی ہیں۔ وہ سب کی سب وقتاً فوقتاً انبیاء پر نازل ہوئیں اوراُن میں سے سب سے آخری قرآن ہی کہتے ہیں کہ اِن کتابوں میں سے ایک سوغائب ہوگئیں۔ یہ وہی کتابیں ہیں جو آدم۔ شیث۔ حنوک اور ابراہیم کو ملیں۔ جو چار کتابیں ابتک موجود ہیں وہ یہ ہی ہیں۔(۱) توریتِ موسیٰ(۲) زبورِ داؤد(۳) انجیل عیسیٰ اور(۴) قرآنِ محمد۔ قرآن اِن تمام کتابوں کو کلام اللہ مانتاہے اور اُن کی نسبت یوں بیان کرتاہے کہ یہ کتابیں بنی آدم کو نوروہدایت اورنجات بخشنے کے لئےنازل ہوئیں۔ لیکن جیسا ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں زمانہ  حال کے مسلمان قرآن کے سوا باقی تمام کتب سماوی کو تحریف شدہ سمجھتے ہیں۔ پس جب کوئی مسلمان کہتاہے کہ " میں کتب یہود ونصاریٰ پر ایمان لاتا ہوں" تویہ کہنے سے اُس کا مطلب صرف یہ ہوتاہے کہ یہ کتابیں کسی زمانہ میں انبیاء پر نازل ہوئی تھیں لیکن اب تحریف وتخریب کی وجہ سے قابل اعتبار نہیں رہیں۔صرف وہ حصص صحیح تسلیم کئے جاسکتے ہیں جن کی قرآن تصدیق کرتا ہے۔

انبیاء کے بارے میں مسلمان خیال کرتے ہیں کہ اُن کا شمار ایک لاکھ چوالیس ہزار ہے۔ لیکن قرآن میں اٹھائیس سے  زیادہ کے نام مندرج نہیں ہیں۔ علاوہ بریں مسلمان یہ بھی اعتقاد رکھتے ہیں کہ تین سو پندرہ(۳۱۵) رسول خاص پیغام کے ساتھ بھیجے گئے۔ ۹  نئے الہٰی احکام کے اجرا کی غرض سے ہادی کے عہدہ پر ممتاز کئے گئے۔ ان میں سے ۶ انبیاء عظام کہلاتے ہیں یعنی (۱) آدم(۲) نوح(۳) ابراہیم(۴) موسیٰ (۵) عیسیٰ اور (۶) محمد۔ اِن میں  سے ہر ایک ایک خاص لقب سے ملقب ومشہور ہے۔ چنانچہ آدم صفی اللہ۔ نوح نبی اللہ ۔ ابراہیم خلیل اللہ اور  موسیٰ کلیم اللہ ۔عیسیٰ روح اللہ اورمحمد رسول اللہ کے لقب سے ملقب ہیں۔اس سلسلہ میں یہ امر نہایت ہی عجیب ہے کہ اگرچہ عام اعتقاد کی رو سے تمام انبیاء بے گناہ اور معصوم ہیں توبھی قرآن اور احادیث کی تعلیم کے لحاظ سے صرف عیسیٰ  ہی اسلام کا اکیلا بیگناہ نبی ہے۔ دیگر انبیاء کی نسبت قرآن میں مرقوم ہے کہ اُنہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا اور اُن سے توبہ کی ۔ احادیث سے بھی ایسا ہی معلوم ہوتاہے ۔ خصوصاً محمد صاحب کو توتوبہ کرنے کا حکم ملا اورآنحضرت نے ایک ہی دن میں ۷۰ مرتبہ اپنے گناہوں کا اقرار کیا۔ لیکن عیسیٰ کے حق میں کوئی اس قسم کی عبارت نہیں پائی جاتی جس سے وہ گنہگار ثابت ہو۔اُس کے توبہ واستغفار کے باب میں کہیں اشارہ تک بھی نہیں ملتا۔ اُس پر کسی صورت میں گناہ کا الزام نہیں لگ سکتا ۔ وہی اسلام کا اکیلا بیگناہ نبی ہے۔

روز قیامت یا روز انصاف کی تعلیم کی مانند اہل اسلام کے دل پر کوئی اور تعلیم موثر نہیں ہوتی۔ اُن کے نزدیک یہ عدالت کا بڑا دن ہے اور کم از کم ہزار برس  کے عرصہ تک رہے گا۔ اس دن کے قریب ہونے پر بہت سے بڑے بڑے نشانات ظاہر ہونگے۔ لوگوں کے ایمان کمزور ہوجائیں گے شرارت اور بدکاری بہت بڑھ جائیگی سب سے رذیل لوگ بڑے بڑے اعلیٰ رتبوں اور عہدوں پر ممتاز کئے جائینگے۔ تمام جہان میں فساد وبغاوت اور طرح طرح کی مصیبتوں کا زور ہوگا۔ آفتاب مغرب سے طالع ہوگا۔ زمین پر ایک حیوان ظاہر ہوگا جوشہر مکہ میں خانہ کعبہ میں نمودار ہوگا۔ اُس کا سرسانڈ کا آنکھیں سور کی ۔ کان ہاتھی کے سینگ ہرن کے ۔ گردن شُتر مرغ کی۔ سینہ شیرببر کا ۔ رنگ چیتے کا ۔ پیٹھ بلی کی۔ دم مینڈھے کی ٹانگیں اونٹ کی اور آواز گدھے کی سی ہوگی۔ اسی زمانہ میں دجال ظاہر ہوگا۔ وہ کانا ہوگا اوراُس کی پیشانی پر کفر کا لفظ کندہ ہوگا۔ وہ بڑے آرام سے ایک گدھے پر سوار ہوکر نکلیگا اور ستر ہزار یہودی اُس کے ساتھ ہونگے ۔ چودہ مہینوں تک بڑی فتحمندی سے تاخت وتاراج کرتا پھریگا۔ آخر کار عیسیٰ آسمان سے اُتر کر اُسے ہلاک کریگا اور دین اسلام کو تمام جہان میں رائج کریگا اوراُس کے بعد امام مہدی ظاہر ہوگا۔ پھر قیامت کے ہولناک دن کے قریب اور بہت سے نشانات اُس دن کی خبر دینگے۔ آخرکار فرشتہ نرسنگا پھونکیگا پہلی آواز سے زمین وآسمان کے تمام رہنے والوں کے دلوں پر ہول چھاجائیگا  اور دوسری آواز سے تمام مخلوقات پر موت وارد ہوگی۔ بعد ازاں پھر وہی فرشتہ زندہ ہوکر تیسری مرتبہ نرسنگا پھونکیگا اور اس تیسری آواز سے تمام مردہ مخلوقات پھر زندہ ہوجائیگی۔ پھر عدالت شروع ہوگی۔ وہ تمام جانور جنہوں نے اس دنیاوی زندگی میں اپنے مالکوں کے ہاتھ دکھ اورظلم وستم کو برداشت کیا ہوگا وہ اپنے  مالکوں کے جسم کو اپنے پاؤں سے کچلیں گے اور پائمال کرینگے۔ تمام شریر لوگ سیاہ روے کرکے عدالت میں حاضر کئے جائینگے۔ چغلخور بندروں کی شکل میں۔ ظالم سورؤں کی شکل میں۔ ریاکارزمانوں کو چباتے ہوئے اورمکار اور شیخی باز رال سے لتھڑی ہوئی پوشاکیں پہن کر نکلینگے ۔ ان سب کو پل صراط سے گذرنا پڑیگا (پل صراط دوزخ پر ایک ایسا پُل بیان کیا جاتاہے جو بال سے باریک اور تلوار سے تیز ہے بدکار لوگ اس پُل پر سے گذر نہیں سکیں گے بلکہ نیچے دوزخ میں گر پڑینگے۔ راستباز  یعنی ہر زمانہ اور ملت کے ایماندار نہایت بُراق اور نورانی  لباس پہن کر اور سفید پر دار اور زرین کچاووں والے اونٹوں پر سوار ہوکر بڑی عزت کے ساتھ حاضر ہونگے۔ اُن کے لئے فردوس کے پھاٹک کھولے جائینگے۔ وہ اندر داخل ہوکر ریشمی اور قیمتی جواہرات سے مرصع مندوں پر بیٹھ کر گوری اور سیاہ آنکھوں والی حوران بہشتی کی صحبت سے محظوظ ہونگے۔بہشت کے خوشرنگ اور لذیذ پھلوں کو کھائینگے۔ زرین پیالوں میں حوضِ کوثر کا خوشبودار پانی پینگے۔ چنانچہ  اسی عشر تکدہ بہشت کی اُمیدمیں آتش مزاج عرب تاجِ شہادت کوحاصل کرنے کے لئے اپنی جان بلا توقف یقینی  موت کے حوالے کردیتے ہیں اوریہی اُمید افغانستان کے غازیوں اور سوڈان کے دیوانے دوریشوں کی فوج کے دستوں کی بھرتی رہتی ہے۔ اُن کے نزدیک  کافروں  سے لڑنا بڑی فضیلت  کی بات ہے اورایسی لڑائی میں مرنا بہشت میں داخل ہونیکا شاہی پروانہ ہے۔

باب سوم

اسلامی فرائض

اب ہم دین اسلام کے اعمال پر غور کرینگے۔ اسلامی اعمال یا فرائض میں یہ پانچ باتیں شامل ہیں(۱) کلمہ پڑھنا(۲) مقررہ نماز وں کو ادا کرنا(۳) رمضان کے روزے رکھنا(۴) حسب الحکم شریعت خیرات دینا اور (۵) مکہ جاکر کعبہ کا حج کرنا۔

کلمہ پڑھنے سے یہ عقیدہ مراد ہے کہ خدا کے سوا کوئی دوسرا معبود نہیں اور محمد خدا کا رسول ہے۔ چنانچہ کلمہ کے الفاظ لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ سے یہ بات صاف ظاہرہے کہ کم از کم ایک مرتبہ بلند آواز صدق دل سے کلمہ پڑھنا ضروری ہے۔

فرضِ نماز اس امر کا مقتضی ہے کہ ہرروز نماز پنجگانہ وقت پر ادا کی جائے ۔ علی الصباح طلوعِ آفتاب سے پیشتر موذن نماز فجر کی اذان دیتا ہے۔ پھر بعد از دوپہر نماز ظہر ادا کی جاتی ہے اور نماز عصر قریباً بوقت تین چار بجے قبل از غروب آفتاب پڑھی جاتی ہے۔ پھر آفتاب غروب ہوتے ہی نماز مغرب ادا کی جاتی ہے اور غروب آفتاب کے قریباً دوساعت بعد نماز عشا کا وقت ہوتاہے۔یہ تمام نمازیں عربی زبان میں پڑھی جاتی ہیں اور اگر ممکن ہو تو ہرایک نماز کے لئے مسجد میں جمع ہونا ضرور ی ہے۔ لیکن صرف مرد مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے جمع ہوتے ہیں اور عورتوں کومسجد میں حاضر ہونے سے معذور رکھا گیا ہے۔نماز کے وقت جس جگہ مسلمان جمع ہوں وہیں نماڑ پڑھ سکتے ہیں۔ یعنی مسجد سے باہر بھی نماز جائز ہے۔ جب مسلمان نماز کے وقت دنیاوی کاروبار سے دست بردار ہوکر مصلے بچھاکر جائے نماز پر کھڑے ہوتے ہیں تو یہ منظر قابِل دید ہوتاہے۔ برسرراہ اور ریلوے اسٹیشنوں پر بھی مسلمان مسافر نماز پڑھتے ہیں اوراُنہیں اپنے ارد گرد کے لوگوں کا نماز کے وقت کچھ خیال نہیں ہوتا۔اہلِ اسلام کے اعتقاد وایمان کی گواہی بالکل صاف وصریح ہے اور وہ اپنے اعتقاد پر بہت نازاں  ہیں۔ جمعہ کے روز مسلمان جامع مسجد میں جمع ہوکر اپنے مقدس دن کی نماز ادا کرتے ہیں۔ بعض اوقات نماز سے پیشتر یا بعد کچھ دینی گفتگو اور وعظ بھی کرتے ہیں اور جب نماز اور وعظ سے فرصت  وفراغت ہوتی ہے تو پھر اپنے اپنے کاروبار پر چلے جاتے ہیں اور  معمولی دینوی دھندوں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔

روزہ رکھنے کا فرض خاص کر کے ماہِ رمضان کے روزوں سے تعلق رکھتا ہے۔ ماہِ رمضان ایک مقدس مہینہ ہے جس میں ہرایک بالغ اور تندرست مسلمان پر ہر روز طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک روزہ رکھنا فرض ہے۔صبح سے لے کر شام تک پارہ نان یا قطرہ آب روزہ دار کے حلق سے نیچے نہیں اُتر سکتا۔ گرم ممالک میں موسمِ گرما کے لئے لمبے دنوں میں روزوں سے سخت تکلیف ہوتی ہے۔ چنانچہ بہت سے روزہ دار بیمار ہوجاتے ہیں اور عموماً جانبر نہیں ہوتے۔ بیمار اور کمزور ماہِ رمضان میں روزے رکھنے سے اس شرط پر معذور رکھے جاسکتے ہیں کہ وہ کسی اور موقع پر اسی قدر روزے رکھیں۔ رات کے وقت مسلمان جس قدر چاہیں کھاپی سکتے ہیں ۔ کسی قسم کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔اگر کوئی دینوی طبیعت والا مالدار ہو تو دن کو راست سے تبدیل کرنے سے روزوں کی سختی سے بچ سکتا ہے۔

زکواۃ ایک قسم کا شرعی محصول ہے جو قوم یہود کی دہیکی سے ملتا جلتا ہے۔ زکواۃ دینے والے کی آمد نی کے مطابق  زکواۃ کا وجوب  مختلف طورپر ہے۔ نفع یا آمدنی کا چالیسواں حصہ زکواۃ میں دیا جاتاہے اور دینی امور وغربا پروری میں خرچ کیا جاتاہے۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالنا چاہیے کہ مسلمانوں کی خیرات زکواۃ ہی میں محدود ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں  کہ مسلمان غریبوں کے حق میں بڑے فیاض اور مہربان ہیں۔ پردیسیوں اورمسافروں کی خوب مہمان نوازی کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں میں جب ترکوں اور۔۔کے درمیان لڑائی ہوئی تھی اُس میں ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے بیماروں اورمجروحوں کے لئے چندہ کی ایک بڑی معقول رقم جمع کی تھی۔ ایک تومستورات نے اپنے سونے چاندی کے زیورات کوبھی اُتار کر چندہ کی تھیلی میں ڈال دیا تھا۔

نماز اور روزہ زکواۃ کی طرح حج کعبہ کی بھی قرآن میں تاکید کی گئی ہے کے نمونہ سے اس قرآنی تاکید وتعلیم کی تصدیق ہوگئی ہے۔ جومسلمان تندرست اور دولتمند ہو اور حج کے اخراجات کا متحمل ہوسکتا ہو اُس پر کم از کم  عمرہ ایک مرتبہ اور حج کرنا فرض ہے۔ وہ رسومات جو حج سے تعلق رکھتی ہیں عربی رسومات کی بقیہ معلومات ہوتی ہیں لیکن بُت پرستی کے خیالات سے بالکل پاک ہیں۔ بت پرستی کے قریب قریب ہے وہ سنگ اسود کو چومنا ہے۔ سنگ اسود خانہ کعبہ کے ایک گوشے میں لگا ہوا ہے۔ ایک حدیث میں مرقوم ہے کہ خلیفہ عمر نے اسلام قبول کرنے کے بعد جب پہلا حج کیا تواُس پتھر سے مخاطف ہوکر یوں کہا"

صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ حج کا بیان ۔ حدیث ۱۵۳۴

ان روایتوں کا بیان جو حجر اسود کے بارے میں منقول ہیں ۔

راوی : محمد بن کثیر , سفیان , اعمش , ابراہیم , عابس بن ربیعہ , عمر

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِيرٍ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ جَائَ إِلَی الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ فَقَبَّلَهُ فَقَالَ إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُکَ مَا قَبَّلْتُکَ

محمد بن کثیر، سفیان، اعمش، ابراہیم، عابس بن ربیعہ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حجر اسود کے پاس آئے اور اس کو بوسہ دیا پھر فرمایا کہ کہ میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ تو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع پہنچانا تیرے اختیار میں ہے، اگر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھتا تو تجھے کبھی بھی بوسہ نہ دیتا۔

باب چہارم

جہاد

اسلام کے جن عملی فرائض کا تیسرے باب میں ذکر ہوا ہے ہم اُن میں جہاد یا جنگ مقدس کا بھی اضافہ کرسکتے ہیں۔یہ فرض محمد صاحب کے زمانہ میں شروع ہوگیا تھا اور دراصل اسی فرض کو ادا کرنے سے آنحضرت کے کاروبار میں اس قدر کامیابی ہوئی۔ اسلام کی تعلیم کے لحاظ سے ہرایک کو چاہیے کہ خدا کی راہ میں لڑنے کے لئے ہمیشہ تیار رہے۔ اسکامطلب یا تویہ ہے کہ دین اسلام کی حفاظت کے لئے جنگ کرے یا یہ کہ کافی ہدایت حاصل کرکے کفارہ کے ساتھ اس غرض سے لڑے کہ وہ اسلام کو قبول کریں اور اگر اسلام کوقبول نہ کریں تونیست ونابود ہوجائیں۔اسی تعلیم کی پناہ میں ہوکر اہل اسلام نے کسی منکر قوم یا فریق پر حملہ آور ہونے کے لئے اپنے آپ کو آزاد سمجھ رکھاہے۔ اسی تعلیم کے سہارے پر عربی بردہ فروش وسط افریقہ میں اپنی خونخوار کاگذاری عمل میں لاتے ہیں اور آرمینیا میں ترک مسیحیوں کو قتل کرتے ہیں۔

آرمینیا میں جوجورجفا اورظلم وستم ترکوں اور کردوں نے مسیحیوں پر کئے ہیں وہ ہمارے سامنے ہولناک بے رحمی اور پرکینہ ظلم اورجدال وقتال کی ایک ایسی عجیب مثال پیش کرتے ہیں جودین کے نام سے جہاد کے ساتھ ایک شرط لازمہ ہے۔ اس میں کچھ شک وشبہ نہیں کہ ملک آرمینیا  کے تمام کشت وخون مذہبی جوش کے بھڑکنے اورسلطان روم اوراُس کے مشیروں کی تحریک سے وقوع میں آئے ہیں۔ ایک محمدی افسر نے اُن تمام مظالم اورکشت وخون کی جوابوکیر اور حارپوت میں ہوئے بڑی تحقیقات  کی ہے اوراُس کے بیان کا خلاصہ ہمارے اس بیان کی تائید کرتاہے۔

اہل آرمینیا نے والیانِ یورپ سے اپنی تباہ حالت کی اصلاح وبہتری کے مضمون پر درخواست کی اورایک شاہی فرمان جاری ہواکہ شاہان یورپ کی صلاح کے مطابق اصلاح کی جائے۔ اس پر اہل ترکستان بہت بگڑے اوراس خیال سے کہ مبادا کہیں آرمینیا کی حکومت قائم ہوجائے اُنہوں نے بیچارے آرمینیوں کی سخت مخالفت کی جو بیچارے چھ سو بیس برس سے برابر اُن کے مطیع اوراُن کے ساتھ صلح سے رہتے چلے آئے تھے۔ ترکوں کے غضب وغصہ کے ساتھ سرکار کی اجازت اور مدد بھی مل گئی۔ پیشتر از انکہ تجاویز اصلاح پر کچھ عمل کیا جائے اور مدد بھی مل گئی۔ پیشتر ازانکہ تجاویز اصلاح پر کچھ عمل کیا جائے تمام ترکستان اس امر پر آمادہ اور کمربستہ ہوگیاکہ ارمنی نام کو صفحہ ہستی سے بالکل بالکل محو اور نیست ونابود کر ڈالے۔ چنانچہ ہزارہا ترکوں نے کُردوں سے مل کر اوراُن ہتھیاروں کو پہن کر جن کی اجازت سوائے فوجی سپاہیوں کے اورکسی کوبھی نہیں ہے ترکی افسروں کی حمایت اورہدایت سے دن کے وقت ارمنی مکانوں۔ دوکانوں۔ گوداموں۔ راہب خانوں۔ گرجوں اور مدرسوں پر علانیہ حملہ کیا اور کشُت وخون کا بازار گرم کردیا۔

اِن مقامات کولوٹنے کے بعد مٹی کا تیل ڈال کے آگ لگادی اور جلا کر راکھ کردیا۔ جن گرجوں کی عمارت سنگین تھی وہ آگ سے نہ جل سکے لیکن اُنہیں اور طرح سے برباد کیا گیا۔بعض گرجے مسجدوں میں تبدیل کئے گئے اوراسلامی عبادت کے لئے مقرر ہوئے۔ مسیحیوں کی مقدس کتابیں پھاڑ کر پُرزہ پُرزہ کی گئیں۔ بہت سے پادری ۔ کلیسیا کے بزرگ ۔ عورتیں اور چھوٹے بچے جبراً مسلمان بنائے گئے۔ مردوں کو سفید پگڑیاں پہنائیں اور عورتوں کے بال کتر کے مسلمان عورتوں کے بالوں کی مانند بنادئیے اوراُن سے جبراً اسلامی نماز پڑھوائی۔ شادی شدہ عورتوں اور لڑکیوں کی خلافِ شریعت بے حرمتی کی۔بعض سے جبراً نکا ح کئے گئے۔ چنانچہ وہ ابتک ترکوں کے گھروں میں موجود ہیں۔ خصوصاً طالو۔ سبودک ۔ ملیشیا ۔ ابوکیر اور چونکو ش میں سپاہی بہت سی عورتوں اورلڑکیوں کوپکڑ کر اپنی بارکوں میں لے گئے اوراُنہیں بے عزت کیا۔بہتوں نے ایسی بے عزتی سے بچنے کے لئے دریا میں ڈوب کر جان دی اور بعض نے اور طریقوں سے خودکشی کرلی۔

جہاد کی اس سینکڑوں برس کی تعلیم کا اثر مسلمانوں کی سخت بے پروائی میں ہرجگہ پایا جاتاہے۔ یہ بات نہایت ہی عجیب ہے کہ شاید چند ہی ایسے مسلمان ہونگے جن کو ایسے کاموں سے کچھ نفرت ہو۔ بہت سے سمجھدار اورتعلیم یافتہ مسلمان اِن کاموں کو بڑے اطمینان سے دیکھتے ہیں۔ آرمینیا کے کشت وخون کے وقت سے لے کر ابتک مسیحیوں کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ مدت سے تمام مسیحی قومیں ان مظالم پر شور مچارہی ہیں مگر ہم نے کسی مسلمان کے منہ سے کبھی اس بے رحمی اور جوروجفا کے خلاف ناراضگی کا ایک لفظ بھی نہیں سنا۔

دین اسلام کی اشاعت وترقی کا عمدہ ذریعہ ہمیشہ یہی رہا ہے۔ جب اسلام کے حامی اسلامی اور مسیحی مشنوں کی ترقی کا باہم مقابلہ کرتے ہیں تواُن پر واجب ہے کہ ٹھیک طور سے اور بڑی ہوشیاری سے مقابلہ کریں اوربے رعایت ہوکر طرفین کے وسائل ترقی کو محققانہ اور منصفانہ جمع کریں اوراُن کے اخلاق اور نتائج کو بھی بنظر غور دیکھیں۔

باب پنجم

اسلامی فرقے اور بدعتیں

دین اسلام اپنے بنیادی اصول کے لحاظ سے ویسا ہی ہے جیسا کہ بیان ہوچکا ہے۔ دیگر ادیان کی طرح اس کے جان نثاروں کے طرز زندگی اور دستورات سے اس پر بھی بہت تاثیر ہوئی ہے۔ چنانچہ دین عیسوی کی طرح دین اسلام میں بہت سے جھگڑے اور جدائیاں ہیں۔

اہلِ اسلام کے کم از کم ایک سو پچاس (۱۵۰) فرقے ہیں۔ اُن میں سے بعض توملکی تدابیر کے لحاظ سے ہیں اور بعض تعلیم یافلسفہ کے لحاظ سے۔سنی اور شیعہ فریق کے درمیان شروع ہی سے بڑا بھاری تفرقہ چلا آتاہے۔ اس تفرقہ کی بنیاد یہ ہے کہ محمد صاحب کی وفات پر اُن کے جانشین یا خلیفہ کے بارے میں جھگڑا ہوا۔ شیعہ چاہتے تھے کہ محمد صاحب کی بیٹی فاطمہ کا شوہر علی خلیفہ مقرر ہو۔ چنانچہ اسی لئے وہ پہلے تین خلیفوں یعنی ابوبکر ۔ عمر اور عثمان کو غاصِب سمجھ کر رد کرتے ہیں۔ ملکی فرقہ بندی کے باعث بہت سی تباہی خیز لڑائیاں  ہوئیں۔ فارس اور ترکستان کا جھگڑا ایسا بھاری ہے کہ ابتک طے نہیں ہوا اورنہ اُس کے طے ہونے کی کچھ اُمید ہی کی جاسکتی ہے۔ ایک جدید اور طاقتور فرقہ وہابیوں کا ہے جنہوں نے عرب اور ہندوستان میں بہت اصلاحوں کی تجویز کی ہیں اور بہت سی خرابیوں کودور کرنے کی کوشش کی ہے اوراسلام کو اُس کی اصل پاکیزگی کی طرف لانا چاہاہے۔محمد علی مرحوم مصری نے اس فرقہ کی ملکی طاقت کو بالکل توڑدیا ہے۔

علم الہٰی کی بنا پر اسلام کے بہت سے فرقے ہیں۔ علی الہٰی فرقہ کے لوگ مانتے ہیں کہ تمام الہامی زمانو ںمیں علی کے زمانہ تک جو کہ آخری تھا خدا مختلف اماموں اور ہادیوں میں مجسم ہوتا چلا آتاہے۔ اہل اسلام خدا کی وحدانیت کے بڑے پکے معتقد ہیں لیکن توبھی یہ معلوم کرنا کہ اُن کے دلوں میں خدا کے مجسم ہونے کا خیال کس طرح داخل ہوا نہایت ہی عجیب معلو م ہوتاہے۔ ایک فرقہ کا یہ اعتقاد تھاکہ خدا انسانی صورت رکھتاہے۔ علاوہ اس کے ایک فرقہ کا اعتقاد یہ بھی ہے کہ اگرچہ خدا انسانی صورت رکھتاہے توبھی اس کا جسم غیر معمولی اور نورانی ہے۔

الہٰی صفات کے اُس مباحثہ سے مذکورہ بالا بدعتیں قائم ہوئیں اور نتیجہً فرقہ معتزلہ پیدا ہوا۔ یہ فرقہ تمام فرقہائے اسلام میں  اکیلا آزاد اور عقلی دلائل کا ماننے والا قرار دیا جاسکتاہے۔ ہندوستان میں بعض عالم اس فرقہ کو بحال کررہے ہیں۔

صوفیوں یا عارفوں  کے فرقے نے ہمہ اوست کے فلسفہ کواختیار کیا ہے اور اسی کے مطابق قرآن کی تفسیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ ایک طرف تواعلیٰ درجہ کی روحانی عبادت ہے اور دوسری طرف مسئلہ تقدیر جودہریت تک پہنچاتاہے اسکے پھندے میں پھنسے ہوئے ہیں۔

خاتمہ

مسلمانوں کے دلوں میں ایسی ایسی مختلف راویوں کے خیال کا اثر ایسا ہے جو مسیحی مذہب کوپھیلانے کے لئے قابل لحاظ ہیں۔ اہل اسلام میں قومی جوش کے اصول مسیحی مبشروں کی کوشش کے لئے ایک بھاری امید پیدا کرتے ہیں ۔ علم الہٰی کے لحاظ سے اسلام کو بہت سی علمی کتابوں اورالہٰی عرفان کی باقاعدہ تعلیم سے بہت کچھ مدد ملتی ہے۔ علاوہ اس کے ہزاروں عقلمند مسلمان اپنی زندگی علم الہٰی کے مطالعہ اور دین کی اشاعت میں بسر کرتے ہیں۔ تعلیم کے لئے بڑے بڑے مدرسے قائم کئے گئے ہیں۔ اور شہزادوں اور بادشاہوں کی فیاضی سے اُنہیں بہت مدد ملتی ہے۔عموماً جومسلمان اُن مدرسوں میں تعلیم پاتے ہیں دیگر مذاہب کی تاثیرات سے بچے رہتے ہیں ۔ یہ مذہب کرہ ارض کے آٹھویں حصہ پر حکمراں ہے۔ اور دنیا بھر میں مسیحی مذہب سے دوسرے درجہ پر خیال کیا جاتاہے ۔ مشرقی ممالک میں بڑے بڑے سلاطین اُس کے معتقد اورحامی ہیں۔ جیسا ہم اُوپر ذکر کرچکے ہیں۔ اس مقام پر پھر یاد دلانا مناسب ہے کہ مذہب اسلام ہمارے پاک اور مقدس دین کا اول درجہ کا رقیب ہے۔

پس کیا یہ ایک عجیب بات معلوم نہیں ہوتی کہ ہماری کلیسیاؤں ن جس طرح مارمین اور یہودیوں کے لئے مشن کھولے ہیں۔ مسلمانوں کے لئے اکثر خاطر خواہ انتظام نہیں کیا؟اس میں شک نہیں کہ بہت سے شتری ہندوستان  مصر ترکستان اور فارس میں بھیجے جاتے ہیں جوعموماً مسلمانوں ہی میں کام کرتے ہیں ۔ تاہم ہماری کلیسیاؤں میں مسلمانوں کے لئے مشنریوں کوخاص خیال اور خاص تیاری کی ضرورت ہے۔ جومشنری اسلامی ممالک میں بھیجے جاتے ہیں اُن کا اس قابل ہونا نہایت ضروری ہے کہ وہ محمد صاحب کے پیروؤں کے خیالات اور حالات کو بخوبی سمجھ سکیں اور عقلمندی کے ساتھ اُنہیں انجیل کی سچائی کی طرف جس کی شہادت قرآن میں بھی موجود ہے لانے کی کوشش کریں اور اُس نجات دہندہ کے دعوؤں کی طرف لائیں جواسلام کا اکیلا بے گناہ نبی ہے جس کی نسبت اہل اسلام یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ آسمان پر سرفراز ہے اورخدا کے سچے دین کو مقرر کرنے کے لئے پھر زمین پر آئیگا۔

ہمارے اس مندرجہ بالا بیان سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم مشنریوں کے اُس کام کی جو مسلمانوں میں کیا جاتاہے بے قدری کرتے ہیں۔ ہماری خواہش صرف یہی ہے کہ موجودہ انتظام میں کچھ ترقی کی جائے اور اس امر کا انتظام کیا جائے کہ جو لوگ اہل اسلام میں کام کرنے کے لئے جائیں اُن کی اچھی طرح  سے تربیت اور تیاری میں کامل اور باقاعدہ کوشش ہو۔

بعض اوقات یہ سوال کیا جاتاہے کہ اہل اسلام کے اخلاقی چال چلن پر دین اسلام کی کیا تاثیر ہوتی ہے؟ اِس سوال کے جواب میں اس قدر تو ضرور ماننا پڑتاہے کہ جہاں کہیں اسلام بت پرستوں کواپنی اطاعت کے دائرہ میں لاتاہے اُن کی اخلاقی حالت کو بالکل بدل ڈالتاہے۔ عموماً تواریخ سے اس امر کی شہادت ملتی ہے کہ حیوانات اورجن بھوت کے پجاریوں ۔ آدم خوروں اور بچہ کشوں میں اسلام کے آنے سے یہ قباحتیں موقوف ہوجاتی ہیں۔ بُت پرستوں کے بداخلاق اور دستورات منسوخ کئے جاتے ہیں۔ سوسائٹی اور سلطنت کے بارے میں چند قوانین جبراً  منوائے جاتے ہیں۔ چوروں اور خونیوں کوسخت سزا ئیں ملتی ہیں۔ منشی اشیاء کا استعمال اگرچہ بالکل موقوف تونہیں ہوتا تاہم بہت کم ہوتاہے۔ بچے کسی قدر تعلیم حاصل کرتے اور سچے خدا کی پرستش  کے لئے تربیت پاتے ہیں۔ عزت اور دلیری اور رریاضت کے کچھ خیالات اُن کے دلوں پر نقش کئے جاتے ہیں۔ اس طرح اخلاقی پیمانہ بہت کچھ  وسیع کیا گیا ہے لیکن پھر بھی اسلامی اخلاق کی ترقی ایک خاص حد تک محدود ہے اورمسیحی اخلاق سے پیچھے ہے۔ کثیر الازدواجی  اورطلاق کے بارے میں قرآن کی اجازت  پر بردہ فروشی اورجہاد کی منظوری اور خود محمد صاحب کا نمونہ اورایسے اصول کا ماننا کہ دین کی خاطر ہر طرح کا جھوٹ اور فریب اور ظلم وزبردستی  سب کی سب ایسی باتیں ہیں جن سے اخلاقی ترقی نہ صرف رُکتی  ہے بلکہ خود اخلاق از بیخ برآوردہ اور تباہ ہوجاتاہے۔ اسلامی اقوام اخلاقی  پاکیزگی کی اُن حدود تک نہیں پہنچ سکتیں جوکہ دین عیسوی میں ادنٰی درجہ کے مسیحیوں کے اخلاق قرار دئے جاسکتے ہیں۔ بداخلاق مسیحی اور بداخلاق مسلمان کا باہمی فریق یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ مسیحی باوجود اپنے دین کی پاکیزگی کے بداخلاق ہیں اور مسلمان اپنے دین کے سبب سے بداخلاق ہیں۔ فی الحقیقت یہی ایک خاص سبب ہے کہ سلاطین اسلام میں تحمل اور بردباری بالکل مفقود ہے اوراُن کی قومی اور مجلسی زندگی مہلک بیماری سے تباہ وخستہ ہورہی ہے۔

پھر بعض اوقات یہ سوال پیش آتاہے کہ اسلام نے دنیا کو کونسا فائدہ پہنچایا ہے؟ اگر اس اصلی اور حقیقی دلیل سے قطع نظر کریں کہ آسمان اور زمین کا کل اختیار سیدنا مسیح کے ہاتھ میں ہے اور وہ اپنی کلیسیا کی بہتری اور بہبودی کے لئے تمام عالم پر حکمران ہے توہماری سمجھ میں یہ بات تورایخ  سے صاف ظاہر ہوتی ہے کہ اگرچہ اسلام نے جس قوم کو فتح کیا اُسے پوری بربادی اور تباہی کا  مود بنایا توبھی دنیا کی روحانی اور ذہنی ترقی کے لئے اسلام خدا کے ہاتھ میں ایک بڑا وسیلہ بنا۔ چنانچہ وہ بُت پرستی کا سخت مخالف رہا خواہ وہ مسیحی کلیسیا میں پائی گئی ہو یا غیر اقوام میں۔ بُت پرست  قوموں میں پُشت  درپُشت  زندہ شخصی خدا کی شہادت دیتا چلاآیا ہے اوراُن کی زبان اور خیالات کو خدا کی وحدانیت کے سانچہ میں ڈھال کر بُت پرستی کی رسوم کو چکنا چور کر ڈالا ہے اورایک طرح سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ خداوند کے لئے راہ تیار کی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خداوند نے اسلام کے ذریعہ سے بھی اپنا مقصد پورا کیا ہے۔ تواریخ کلیسیا کا ہرایک  پڑھنے والا جانتا ہے کہ دینی اصلاح  کی ترقی کس قدر ترکوں کے قسطنطنیہ میں ہونے پر موقوف تھی۔ اسلام گویا قادر مطلق خدا کے ہاتھ میں ایک ہتھوڑا بن کر اُس کے دشمنوں کو مارتا رہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ جوقومیں مسلمانوں کی حکومت میں آکر اپنی ناموری کو کھوبیٹھی ہیں بہت جلد مسیحی سلطنتوں کے ماتحت ہوجائینگی۔ اُن کے ہلاک کرنے اور ستانے کی طاقت بہت گھٹ گئی ہے۔ قریباً دنیا کے نصف مسلمان اب مسیحی سلاطین  کی حکومت میں ہیں۔ اُن کے درمیان مسیح کے صلح کل قاصد بے خوف  ہوکر انجیل کی تبلیغ کرتے ہیں۔اکثر ممالک میں جو اسلام کو ترک کرنا چاہتے ہیں وہ بغیر کوڑوں یا موت کے خوف کے مسیح پر ایمان لانے کا اقرار کرسکتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اسلام پر ایسی تاثیرات اثر کررہی ہیں جن کے سبب سے بہت سے مسلمانوں کے دلوں میں شکوک پیدا ہوگئے ہیں۔ مثلاً فارس کے بابیوں اور عرب کے وہابیوں اور ہندوستان کے سید احمدیوں اور مصر اور وسط افریقہ کے مہدویوں کے باہمی جھگڑوں نے اسلام کو بہت کمزور اور خستہ حال بنادیا ہے۔

علاوہ بریں پروٹسنٹ مسیحیوں کی تاثیر بھی جو کے مشنوں اور تعلیمی مدرسوں کے ذریعہ سے ہوتاہے کچھ کم نہیں ہے۔ سوریہ۔ ترکستان مصر اور فارس میں بہت سے سمجھدار مسلمان خدا کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جواگرچہ اس قابل تونہیں کہ اپنے ایمان کا خلاصہ اقرار کریں لیکن دل سے بالکل قائل ہیں۔ ہندوستان میں سینکڑوں مسلمان اسلام کو ترک کرکے مسیحی کلیسیا میں شامل ہوگئے ہیں۔ ہزاروں مسلمان نوجوان مسیحی مدرسوں میں تعلیم پاتے ہیں اوران مندرسوں کے بہت سے اُستاد کلیسیا کے دیسی خادم الدینوں میں سے ہیں جوکسی وقت اسلام کے معتقد  اور عالم اشخاص  میں شمار کئے جاتے تھے۔ اس  گروہ میں مسیحی خمیر نے اپنا کام شروع کردیا ہے اورہمیں پختہ اُمید ہے کہ بہت جلد کل روٹی کو خمیر کردیگا۔

اہلِ اسلام میں ایک روایت ہے کہ "جب مسیح الدجال یعنی مخالف مسیح مسلمانوں کو بہت ستائیگا تویکایک نمازیں شروع ہونگی اور عیسیٰ ابن مریم آسمان سے اُتریگا اور اہل اسلام کا امام یا ہادی بنے گا۔ جب دجال عیسیٰ کودیکھیگا تواُس سے خوف کھائیگا اوراُس نمک کی مانند جوپانی میں گر پڑے گذار ہوجائے گا۔ وہ بیشک ہلاک ہوگا اور عیسیٰ کے ہاتھ سے مارا جائیگا"۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ وہ دن بہت دور نہیں ہے جب عیسیٰ فی الحقیقت ان گروہوں کا ہادی ہوگا اور  مخالف مسیح کی فوجیں نمک درآب کی ماننداس کی روح کی تلوار اوراُس کی آمد کی تجلی سے نیست ونابود ہوجائیگی۔


۱. مسٹر سٹینلے لین پول کی کتاب مسمی بہ سلیکشنز فروم قرآن — Lane's  Selection  From  the  Koran, 1879

Pages