۳۰
بہشت کا پیشگی نظارہ

دنیا کے بے شمار لوگ گناہ کے بارے میں اُوٹ پٹانگ نظریہ رکھتے ہیں۔ ہم اِس کی وضاحت چین کے فلسفہ یِین یانگ ( yin-yang ) کی مدد سے کر سکتے ہیں۔ یِین ( yin ) کا مطلب ہے ”سایہ دار“ اور یانگ ( yang ) کا مطلب ہے ”دھوپ والا“ (جہاں دھوپ ہو)۔ اِس فلسفے کا نشان ایک دائرہ ہے جس میں کالے اور سفید کی عجیب سی آمیزش کا رنگ ہے۔ اِس قدیم چینی فلسفے میں سچائی تو ہے لیکن اِس میں نیکی اور بدی، غلط اور صحیح، زندگی اور موت کے درمیان فرق یا امتیاز کو دُھندلا کر دیا گیا ہے۔ اِس نظریے کے مطابق نیکی اور بدی انسان کے وجود کی ایک کبھی نہ ختم ہونے والی فطری خصوصیت ہے۔

ہم نے دیکھا ہے کہ بائبل مقدس نیکی اور بدی کا بالکل مختلف تجزیہ پیش کرتی ہے۔ وہ اِس نظریے کی حمایت نہیں کرتی کہ رنج و غم اور اُداسی کائنات کا لازمی حصہ ہے — ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ تک رہے گا۔ پاک کلام بالکل واضح ہے کہ وہ دن آ رہا ہے جب بدی، دکھ درد اور موت (سٹیج کے اداکاروں کی طرح) آخری بار جھکیں گے اور تاریخ کی سٹیج سے ہمیشہ کے لۓ غائب ہو جائیں گے۔

مندرجہ ذیل خاکہ خدا کے لاتبدیل پروگرام کو ظاہر کرتا ہے:

ابدیت [ زمان/ وقت ] ابدیت
کامل اچھی [ ںیکی/ بدی ] کامل اچھی

حالیہ نیکی اور بدی کو قوسین میں رکھا گیا ہے۔ یہ ہمیشہ تک موجود نہیں رہیں گی (دیکھئے متی ١٣ : ٢٤ ۔ ٣٠ )۔ اِس تمثیل سے یسوع نے بتایا ہے کہ نیکی اور بدی کا آمیزہ عارضی اور محدود عرصے کے لۓ ہے۔

بائبل مقدس کے پہلے دو اور آخری دو باب گناہ سے مبرا— گناہ سے خالی دنیا پیش کرتے ہیں— وہ دنیا جس میں خدا کے ساتھ صحیح محبت رکھی جاتی ہے اور اُسے صحیح طور سے بزرگی دی جاتی ہے، اُس کی مناسب طور سے تمجید کی جاتی ہے۔ اِن پہلے اور آخری ابواب کے درمیان ہم دیکھتے ہیں کہ خدا گناہ اور اِس کے باعث لعنت کے بارے میں اپنے پروگرام پر عمل درآمد کر رہا ہے۔ اور فدیہ دے کر وہ اُمت تیار کر رہا ہے جو اُسے جانتی ہے، اُس سے محبت رکھتی ہے اور ابد تک اُس کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔

ہر اچھی کہانی کی طرح خدا کی فدیہ دینے کی تاریخ کا شروع، درمیان اور اخیر ہے۔

شروع: پیدائش کی کتاب باب ١ اور ٢

گناہ کے داخل ہونے سے پہلے — کامل دنیا

درمیان: پیدائش باب ٣ تا مکاشفہ باب ٢٠

برگشتہ، بگڑی ہوئی دنیا — خدا کی مداخلت

اخیر: مکاشفہ باب ٢١ اور ٢٢

گناہ کے قلع قمع کے بعد — کامل دنیا

اِختتامات کی کتاب

جیسے بائبل مقدس کی پہلی کتاب ”شروعات“ کی کتاب ہے اِسی طرح بائبل مقدس کی آخری کتاب ”اِختتامات“ کی کتاب ہے۔

پیدائش بمقابلہ مکاشفہ

پیدائش مکاشفہ
◊   سب چیزوں کا شروع √   سب چیزوں کا کمال کو پہنچنا
◊   آسمان اور زمین کی تخلیق √   نۓ آسمان اور نئی زمین کی تخلیق
◊   خدا زمین کے لئے سورج پیدا کرتا ہے۔ √   خدا فردوس کا نور ہے۔
◊   شیطان کی طرف سے انسان کی پہلی آزمائش √   شیطان کی طرف سے انسان کی آخری آزمائش
◊   خدا کی پہلی آفتیں √   خدا کی آخری آفتیں
◊   گناہ اور موت کا داخلہ √   گناہ اور موت کا قلع قمع
◊   "پہلا آدم" حکمرانی کھو دیتا ہے۔ √   "پچھلا آدم" حکمرانی بحال کرتا ہے۔
◊   خدا شیطان کو کچلنے کا وعدہ کرتا ہے۔ √   شیطان کو آگ کی جھیل میں ڈالا جاتا ہے۔
◊   پہلا برّہ قربان کیا جاتا ہے۔ √   خدا کا برّہ جلال پاتا ہے۔
◊   انسان زمینی بہشت سے نکال دیا جاتا ہے۔ √   انسان آسمانی بہشت میں داخل ہوتا ہے۔
◊   انسان حیات کے درخت سے دُور کر دیا جاتا ہے۔ √   انسان حیات کے درخت سے کھاتا ہے۔
◊   بنی نوع انسان کا خدا سے رشتہ منقطع ہو جاتا ہے۔ √   مخلصی یافتہ انسان ہمیشہ کے لئے خدا کے ساتھ۔

یہ فہرست اَور بھی طویل ہو سکتی ہے، لیکن اِتنے ہی سے خاص بات آپ کی سمجھ میں آ جاتی ہے۔

مکاشفہ

ہمارا یہ ایک ساتھ سفر ختم ہونے کو ہے۔ہم خدا کی کہانی کے ”اختتام“ پر غور کرنا چاہتے ہیں۔ یہ اختتام دراصل ایک نۓ آغاز یا شروع کا افتتاح ہے۔

بائبل مقدس کی آخری کتاب اِن الفاظ سے شروع ہوتی ہے:

” یسوع مسیح کا مکاشفہ جو اُسے خدا کی طرف سے اِس لۓ ہوا کہ اپنے بندوں کو وہ باتیں دکھاۓ جن کا جلد ہونا ضرور ہے اور اُس نے اپنے فرشتہ کو بھیج کر اُس کی معرفت اُنہیں اپنے بندہ یوحنا پر ظاہر کیا جس نے خدا کے کلام اور یسوع مسیح کی گواہی کی یعنی اُن سب چیزوں کی جو اُس نے دیکھی تھیں شہادت دی۔ اِس نبوت کی کتاب کا پڑھنے والا اور اُس کے سننے والے اور جو کچھ اِس میں لکھا ہے اُس پر عمل کرنے والے مبارک ہیں کیونکہ وقت نزدیک ہے۔۔۔ جس نے اپنے خون کے وسیلہ سے ہم کو گناہوں سے خلاصی بخشی۔۔۔ اُس کا جلال اور سلطنت ابدلآباد رہے۔ آمین! دیکھو، وہ بادلوں کے ساتھ آنے والا ہے اور ہر ایک آنکھ اُسے دیکھے گی اور جنہوں نے اُسے چھیدا تھا وہ بھی دیکھیں گے اور زمین کے سبب قبیلے اُس کے سبب سے چھاتی پیٹیں گے۔ بے شک۔ آمین!

” خداوند خدا جو ہے اور جو تھا اور جو آنے والا ہے یعنی قادرِ مطلق فرماتا ہے کہ مَیں الفا اور اومیگا ہوں (یونانی حروفِ تہجی کا پہلا اور آخری حرف — مطلب یہ ہے کہ مَیں شروع اور آخر ہوں)“ (مکاشفہ ١: ١ ۔ ٣ ، ٥۔ ٨ )۔

مکاشفہ کی کتاب کے پہلے باب کا بقیہ حصہ خداوند یسوع کی ذات کا ایسا رعب دار اور حیرت افزا بیان کرتا ہے جو اُس کے بارے میں کتابوں، فلموں اور دوسرے مذاہب کے مقابلے میں نہایت فرق اور چونکا دینے والا بیان ہے۔

خدا نے یہ باتیں ”اپنے بندہ یوحنا“ کو بتائیں۔ یوحنا اُن بارہ شاگردوں میں شامل تھا جو یسوع کی زمینی خدمت کے دوران اُس کے ساتھ ساتھ رہے (مرقس ٣: ١٤ ۔ ١٩ ؛ یوحنا ١٩ :٢٦ ،٢٧ )۔ خداوند کے آسمان پر واپس جانے کے ساٹھ سال بعد اُس کے روح القدس نے یوحنا کو تحریک دی، الہام دیا اور اُس نے خدا کے مجموعہ کتب (لائبریری) کی یہ آخری کتاب لکھی۔ اِس کے علاوہ اُس نے یہ کتابیں بھی قلم بند کیں: یوحنا کی انجیل، یوحنا کا پہلا، دوسرا اور تیسرا خط۔ یہ ساری کتابیں بائبل مقدس میں موجود ہیں۔

”مکاشفہ“ کا مطلب ہے” اِنکشاف“، ”ظاہر کرنا“ ، ”نقاب کشائی“۔ یہ مسحور کن کتاب اُن واقعات کا انکشاف کرتی ہے جو کسی انسان کے خواب و خیال میں بھی نہیں آ سکتے تھے۔ یہ کتاب مختصراً بیان کرتی ہے کہ خداوند یسوع اپنے نام کو کس طرح تمام الزامات سے پاک ثابت کرے گا اور اُس حکمرانی اور اختیار کو بحال کرے گا جسے انسان نے گناہ کے باعث کھو دیا۔ یہ کتاب فردوس کا پیشگی نظارہ بھی کراتی ہے۔

بڑا سفید تخت

خدا کے چند برگزیدہ نبیوں اور رسولوں کو خدا کی سکونت گاہ کی جھلک دکھائی گئی، لیکن ایسا صاف اور تفصیلی نظارہ کسی کو نہیں کرایا گیا جیسا یوحنا رسول کو۔ یوحنا لکھتا ہے:

”اِن باتوں کے بعد جو مَیں نے نگاہ کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ آسمان میں ایک دروازہ کھلا ہوا ہے اور جس کو مَیں نے پیشتر نرسنگے کی سی آواز سے اپنے ساتھ باتیں کرتے سنا تھا وہی فرماتا ہے کہ یہاں اوپر آ جا، مَیں تجھے وہ باتیں دکھاؤں گا جن کا اِن باتوں کے بعد ہونا ضرور ہے۔ فوراً مَیں روح میں آ گیا اور کیا دیکھتا ہوں کہ آسمان پر ایک تخت رکھا ہے اور اُس تخت پر کوئی بیٹھا ہے اور جو اُس پر بیٹھا ہے وہ سنگِ یشب اور عقیق سا معلوم ہوتا ہے اور اُس تخت کے گرد زمرد کی سی ایک دھنک معلوم ہوتی ہے“ (مکاشفہ ٤ : ١۔ ٣ )۔

[سنگِ یشب اور عقیق دو قیمتی پتھر ہیں۔ سنگِ یشب کئی رنگوں میں ملتا ہے۔ عقیق عموماً شفاف یا نیم شفاف سرخ رنگ کا ہوتا ہے۔ روشنی پڑنے پر اس کا رنگ گہرا اور جاذبِ نظر ہو جاتا ہے۔]

یوحنا آسمان کی تخت گاہ کا بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے جو ناقابلِ بیان حد تک شاندار اور پُرشکوہ ہے۔ خدا کے تخت کے اِرد گرد فرشتگان اُڑتے پھرتے ہیں اور لگاتار پکارتے رہتے ہیں ”قدوس، قدوس، قدوس۔ خداوند خدا قادرِ مطلق جو تھا اور جو ہے اور جو آنے والا ہے“ (مکاشفہ ٤: ٨ )۔

یوحنا نے جو کچھ دیکھا اُسے وہ صرف اُن چیزوں کے حوالے سے بیان کر سکتا ہے جو اُس نے زمین پر دیکھی ہیں اور اُن آسمانی چیزوں سے تھوڑی بہت مشابہت رکھتی ہیں۔ مگر وہاں کی ہر چیز بے انتہا خوبصورت اور خوش نما ہے۔ وہ چندھیا دینے والی روشنی اور فوق الفطرت رنگوں سے مزین جگہ کو بغور دیکھ رہا تھا۔ اُس نے بادلوں کی گرج جیسی آوازیں اور بے شمار دوسری آوازیں سنیں جو نہایت خوشی سے حمد و ثنا کر رہی تھیں۔ لیکن جس نے یوحنا کو سب سے زیادہ متوجہ اور مسحور کیا وہ تخت پر بیٹھا ہوا شخص تھا۔

[غور کریں تخت پر کون ہے۔ یسعیاہ باب ٦ کا موازنہ یوحنا ١٢ : ٣٦ ۔ ٤١ سے کریں۔ یسعیاہ باب ٦ والا رَویا اِس کتاب کے باب ١٥ میں بھی زیرِ غور آیا تھا۔]

تجسس آمیز جوش

اِس دنیا کے مذہب بہشت کی کئی مختلف تصویریں پیش کرتے ہیں۔

اِن میں سے بعض تصویریں تو بالکل اُکتا دینے اور بیزار کرنے والی ہیں۔ شاید آپ نے کارٹون دیکھے ہوں کہ لوگ بادلوں پر بیٹھے ہیں اور بڑی فرض شناسی سے بربطیں بجا رہے ہیں۔ لیکن بائبل مقدس خدا کی شاہانہ سکونت گاہ کی ایسی تصویر پیش نہیں کرتی۔

کئی لوگ جنت کو ایک باغ کی صورت میں پیش کرتے ہیں جہاں مردوں کو مرکزیت حاصل ہے اور وہ لگاتار نفسانی اور شہوانی لذت اُٹھانے میں مصروف ہیں۔ یہ تصور بھی غلط ہے۔ جب خداوند اِس دنیا میں تھا تو اُس نے سکھایا کہ بہشت میں مخلصی یافتہ لوگوں میں ”بیاہ شادی نہ ہو گی بلکہ لوگ آسمان پر فرشتوں کی مانند ہوں گے“ (متی ٢٢ : ٣٠ )۔

فردوس وہ جگہ ہے جہاں خدا کو مرکزیت، سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اور بے کراں محبت اور حکمت کی حضوری میں رہنے کی خوشی اور جوش ہے جو کبھی ختم نہ ہو گا۔ فردوس وہ جگہ ہے جہاں باہمی تعلقات ایسی ارفع و اعلی' سطح پر ہیں جس کا زمین پر کبھی سوچ بھی نہیں سکتے۔ خدا نے زمین پر بیاہ شادی کے رواج سے اُس اعلی' اور جلالی تعلق کا ایک ہلکا سا تصور دیا جو خدا اور اُس کے مخلصی یافتہ لوگوں کے درمیان ابد تک رہے گا۔ بلکہ یہ زمینی شادی بھی اُس زبردست خوشی اور پاکیزہ تعلق کی وضاحت کرنے اور پوری تصویر پیش کرنے سے قاصر ہے جو مسیح کے ساتھ پیوستہ لوگوں کو حاصل ہو گی۔ پاک کلام میں اِسے ”بڑا بھید“ کہا گیا ہے (افسیوں ٥: ٣٢ )۔ کلام مزید کہتا ہے کہ ”مبارک ہیں وہ جو برّہ کی شادی کی ضیافت میں بلاۓ گۓ ہیں!“ (مکاشفہ ١٩ :٩ )۔

خداوند کے ساتھ رہنا ہی فردوس ہے!

فرشتے جو لاکھوں کروڑوں سال پہلے پیدا کۓ گۓ تھے وہ ہمیشہ کی نسبت آج خدا کی حضوری سے زیادہ ہیبت زدہ ہیں۔ یہی حال آدم کی مخلصی یافتہ اولاد کا ہو گا!

خداوند اپنے خدا کے جلال، حکمت اور کاملیت کو سمجھنے میں، اُس کا ادراک کرنے میں پوری ابدیت درکار ہو گی:

”اے خدا! تیرے خیال میرے لۓ کیسے بیش بہا ہیں۔
اُن کا مجموعہ کیسا بڑا ہے!
اگر مَیں اُن کو گنوں تو وہ شمار میں ریت سے بھی زیادہ ہیں۔
جاگ اُٹھتے ہی مَیں تجھے اپنے ساتھ پاتا ہوں“ (زبور ١٣٩ : ١٧ ، ١٨ )۔

خداوند کے ساتھ ہونے کی خوشی اور شادمانی کبھی دھیمی نہ پڑے گی، کبھی پرانی نہ ہو گی۔ سوال یہ نہیں کہ کیا ہم اِس سے کبھی اُکتا جائیں گے، بلکہ یہ ہے کہ کیا ہم اپنی نظریں اُس (خدا) سے ہٹا پائیں گے؟

”تیرے حضور کامل شادمانی ہے تیرے دہنے ہاتھ میں دائمی خوشی ہے“ (زبور  ١٦ : ١١ )۔

بڑا ہجوم

یوحنا رسول نے نہ صرف تخت پر بیٹھے ہوۓ خداوند کی جھلک دیکھی بلکہ اُس نے مخلصی یافتہ لوگوں کی بہت بڑی بھیڑ بھی دیکھی۔

” اِن باتوں کے بعد جو مَیں نے نگاہ کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ہر ایک قوم اور قبیلہ اور اُمت اور اہلِ زبان کی ایک ایسی بڑی بھیڑ جسے کوئی شمار نہیں کر سکتا سفید جامے پہنے ۔۔۔ تخت اور برّہ کے آگے کھڑی ہے اور بڑی آواز سے چلّا چلّا کر کہتی ہے کہ نجات ہمارے خدا کی طرف سے ہے جو تخت پر بیٹھا ہے اور برّہ کی طرف سے“ (مکاشفہ ٧: ٩، ١٠ )۔

کیا آپ کو یاد ہے کہ خدا نے وعدہ کیا تھا کہ ساری قومیں اُس منجی کے وسیلے سے برکت پائیں گی جو ابرہام، اضحاق اور یعقوب کی نسل سے ہو گا (پیدائش ١٢ : ٢، ٣ ؛ متی باب ١ )؟ ابرہام کے ساتھ وعدوں کے بارے میں ”ایک خدا، ایک پیغام“ کا باب ٢٠ دوبارہ ملاحظہ کریں۔

خدا نے یوحنا رسول کو اعزاز بخشا کہ مستقبل پر نگاہ ڈالے اور اُس (خدا) کے وعدہ کو پورا ہو چکا دیکھے۔

زمین کے ہر قبیلہ، ہر قوم اور اہلِ لغت میں سے لوگ خدا کے تخت کے آگے کھڑے ہوں گے۔ مخلصی یافتہ گنہگاروں کی بھیڑ اِتنی بڑی ہو گی کہ کوئی شمار نہیں کر سکتا۔ وہ سب شکرگزاری اور خوشی کے ساتھ بلند آواز سے برّہ کی حمد اور تعریف کرتے رہیں گے جس نے اُنہیں ابدی موت سے چھڑانے اور ہمیشہ کی زندگی دینے کے لۓ اپنا خون بہایا۔

” اور وہ یہ نیا گیت گانے لگے کہ تُو ہی ۔۔۔ لائق ہے ۔۔۔ کیونکہ تُو نے ذبح ہو کر اپنے خون سے ہر ایک قبیلہ اور اہلِ زبان اور اُمت اور قوم میں سے خدا کے واسطے لوگوں کو خرید لیا اور اُن کو ہمارے خدا کے لئے ایک بادشاہی اور کاہن بنا دیا اور وہ زمین پر بادشاہی کرتے ہیں۔ اور جب مَیں نے نگاہ کی تو اُس تخت اور اُن جانداروں اور بزرگوں کے گردا گرد بہت سے فرشتوں کی آواز سنی جن کا شمار لاکھوں اور کروڑوں تھا اور وہ بلند آواز سے کہتے تھے کہ ذبح کیا ہوا برّہ ہی قدرت اور دولت اور حکمت اور طاقت اور عزت اور تمجید اور حمد کے لائق ہے۔“ (مکاشفہ ٥: ٩ ۔ ١٢ )

میرا مخلصی دینے والا

چار ہزار سال پیشتر ایوب نبی نے شادمانی کا اظہار کیا تھا:

”۔۔۔ مَیں جانتا ہوں کہ میرا مخلصی دینے والا زندہ ہے۔ اور آخرکار وہ زمین پر کھڑا ہو گا۔ اور اپنی کھال کے اِس طرح برباد ہو جانے کے بعد بھی مَیں اپنے اِس جسم میں سے خدا کو دیکھوں گا۔ جسے مَیں خود دیکھوں گا اور میری ہی آنکھیں دیکھیں گی نہ کہ بیگانہ کی۔ میرے گُردے میرے اندار فنا ہو گۓ ہیں“ (ایوب ١٩ : ٢٥ ۔ ٢٧ )۔[ آخری جملے کا مطلب ہے کہ میرا دل بے حد مشتاق ہے۔ میرے دل میں بڑی آرزو ہے۔]

ایوب کے دل کی طرح کیا آپ کے دل میں بھی ”خدا کو دیکھنے“ کی بڑی آرزو ہے؟ کیا آپ اُسے مخلصی دینے والے کی حیثیت سے جانتے ہیں؟

سارے ایمان دار ایوب کی یقینی اُمید میں شریک ہیں۔ میرے دوست! مَیں آپ کے لۓ تو بول نہیں سکتا، لیکن مَیں جانتا ہوں کہ مَیں اپنے مخلصی دینے والے کو روبرو دیکھوں گا! ”خدا کا بیٹا۔۔۔ جس نے مجھ سے محبت رکھی اور اپنے آپ کو میرے لۓ موت کے حوالہ کر دیا“ (گلتیوں ٢: ٢٠ ) مَیں اُس کے ساتھ چلوں پھروں گا اور باتیں کروں گا۔

ہاں، مَیں اُس شاندار وقت کا انتظار کرتا ہوں جب ہر زمانے کے خدا کے لوگوں اور خاندان اور دوستوں کے ساتھ جو خداوند کے پاس پہنچ چکے ہیں میری ملاقات اور رفاقت ہو گی۔ اور مَیں اپنے پورے دل سے اُمید کرتا ہوں کہ آپ بھی اُن میں شامل ہوں گے۔ لیکن سب سے بڑھ کر مَیں یسوع کو دیکھنا چاہتا ہوں!

اُس نے میری خاطر میرا جہنم اُٹھا لیا

بے شک سب سے حیرت انگیز سچائی جس پر میرا دل و دماغ غور کر سکتا ہے یہ ہے کہ:

یسوع چاہتا ہے کہ مَیں ابدیت میں اُس کے ساتھ رہوں!

جس رات یسوع پکڑوایا گیا کہ اُس پر الزام لگا کر مصلوب کیا جاۓ اُس نے فرمایا:

”اے باپ! مَیں چاہتا ہوں کہ جنہیں تُو نے مجھے دیا ہے جہاں مَیں ہوں وہ بھی میرے ساتھ ہو ں تاکہ میرے اُس جلال کو دیکھیں جو تُو نے مجھے دیا ہے، کیونکہ تُو نے بناۓ عالم سے پیشتر مجھ سے محبت رکھی“ (یوحنا ١٧ : ٢٤ )۔

یہ خدا کے پیغام کا مرکزی نکتہ ہے۔ اُس کا ارادہ اور منصوبہ تھا کہ انسان میرے ساتھ رہیں۔ لیکن وہ آپ سے زبردستی ایسا نہیں کراۓ گا۔

اُس نے اِنتخاب آپ پر چھوڑ رکھا ہے۔

” جو غالب آۓ مَیں اُسے اُس زندگی کے درخت میں سے جو خدا کے فردوس میں ہے پھل کھانے کو دوں گا“ (مکاشفہ ٢: ٧ )۔

” دنیا کا مغلوب کرنے والا کون ہے سِوا اُس شخص کے جس کا یہ ایمان ہے کہ یسوع خدا کا بیٹا ہے؟“ (١۔یوحنا ٥: ٥)۔

کامل گھر

بائبل مقدس کے آخری دو ابواب ابدی گھر کی اُس جھلک کا بیان کرتے ہیں جو مقدس یوحنا نے دیکھی — وہ مقام جہاں ہر دَور کے ایمان دار اپنے خالق اور مخلصی دینے والے کے ساتھ رہیں گے اور اُن ساری چیزوں میں شریک ہوں گے جو اُس نے اپنے لوگوں کے لۓ تیار کی ہیں۔

”پھر مَیں نے ایک نۓ آسمان اور نئی زمین کو دیکھا کیونکہ پہلا آسمان اور پہلی زمین جاتی رہی تھی اور سمندر بھی نہ رہا۔ پھر مَیں نے شہر مقدس نۓ یروشلیم کو آسمان پر سے خدا کے پاس سے اُترتے دیکھا“ (مکاشفہ ٢١ : ١، ٢)۔

یہ جلالی شہر ”آسمان پر  سے خدا کے پاس سے“ اُترے گا اور ہمارے نۓ تخلیق شدہ کرہ ارض سے پیوستہ ہو گا۔ نئی زمین پر ”سمندر بھی نہیں رہے گا“ اور برِاعظم ایک دوسرے سے جدا اور دُور دُور نہیں ہوں گے۔

”اور وہ (خدا) اُن کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا۔ اِس کے بعد نہ موت رہے گی اور نہ ماتم رہے گا۔ نہ آہ و نالہ نہ درد۔ پہلی چیزیں جاتی رہیں“ (مکاشفہ ٢١ : ٤)۔

سب کچھ کامل ہو گا۔ وہ آسمانی شہر اِتنا جلالی اور شاندار ہو گا کہ تصور نہیں کیا جا سکتا۔ مقدس یوحنا کو اِس کا بیان کرنا مشکل لگا:

” ۔۔۔ وہ شہر چوکور واقع ہوا تھا اور اُس کی لمبائی چوڑائ کے برابر تھی۔ اُس نے اُس شہر کو اُس گز سے ناپا تو بارہ ہزار فرلانگ (٢٤٠٠ کلو میٹر) نکلا۔ اُس کی لمبائی اور چوڑائ اور اونچائی برابر تھی۔ اور اُس نے اُس کی شہر پناہ کو آدمی کی یعنی فرشتہ کی پیمائش کے مطابق ناپا تو ایک سو چوالیس ہاتھ نکلی اور اُس کی شہر پناہ کی تعمیر یشب کی تھی اور شہر ایسے خالص سونے کا تھا جو شفاف شیشہ کی مانند ہو اور اُس شہر کی شہرپناہ کی بنیادیں ہر طرح کے جواہر سے آراستہ تھیں۔۔۔ اور بارہ دروازے بارہ موتیوں کے تھے۔ ہر دروازہ ایک موتی کا تھا۔ اور شہر کی سڑک شفاف شیشہ کی مانند خالص سونے کی تھی۔ اور مَیں نے اُس میں کوئی مقدِس نہ دیکھا اِس لۓ کہ خداوند خدا قادرِ مطلق اور برّہ اُس کا مقدِس ہیں۔ اور اُس شہر میں سورج یا چاند کی روشنی کی کچھ حاجت نہیں کیونکہ خدا کے جلال نے اُسے روشن کر رکھا ہے اور برّہ اُس کا چراغ ہے اور قومیں اُس کی روشنی میں چلیں پھریں گی۔۔۔ اور اُس میں کوئی ناپاک چیز یا کوئی شخص جو گھنونے کام کرتا یا جھوٹی باتیں گھڑتا ہے ہرگز داخل نہ ہو گا مگر وہی جن کے نام برّہ کی کتابِ حیات میں لکھے ہوۓ ہیں“ (مکاشفہ ٢١ :١٦ -٢٤ ، ٢٧ )۔

اِس نہایت وسیع و عریض شہر کا ہر ایک چھوٹے سے چھوٹا حصہ نہایت شاندار اور جلالی ہے، یہاں تک کہ اِس کی سڑکیں بھی شیشے کی طرح شفاف ”خالص سونے“ کی ہیں۔ اِس کا ایک ایک پتھر  اور اِس کی تعمیر میں استعمال ہونے والی ایک ایک چیز ایسے بنائی گئ ہے کہ خداوند کا جلال منعکس کرتی ہے۔

اِس شہر میں نہ مقدِس ہے اور نہ سورج، اِس لۓ کہ خداوند خود اِس شہر کی عبادت کا مرکز اور روشنی کا سرچشمہ ہے۔ ”برّہ اِس کا چراغ ہے۔“

فردوس اُسی ہستی سے منور ہو گا جس نے تخلیق کے پہلے دن کہا تھا کہ ”روشنی ہو جا۔“ اِس شہر کی روشنی وہی چندھیا دینے والی تابانی (درخشانی، جلال) ہو گی جو خیمہ اجتماع اور ہیکل کے پاک ترین مقام میں سکونت کرتی تھی یعنی خود یسوع جس نے فرمایا ” مَیں دنیا کا نور ہوں“ (یوحنا ٨: ١٢ )۔

یہ آسمانی شہر کامل مکعب کی شکل کا ہو گا جیسے خیمہ اجتماع یا ہیکل میں پاک ترین مقام تھا اور جو فردوس کی علامت تھا۔ اِس شہر کی لمبائی اور چوڑائی ہر طرف سے ٢٢٠٠ کلو میٹر ہے اور اِس کی اونچائی بھی اِتنی ہی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ شہر بلندی میں اِس زمین کے کرہ قائمہ سے بھی بہت اوپر خلا تک پہنچے گا۔

اِس شاندار جلالی گھر میں سارے لوگوں کے لۓ، ایک ایک شخص کے لۓ جو کبھی بھی پیدا ہوا جگہ ہو گی۔ تاہم سارے لوگ وہاں نہیں ہوں گے بلکہ صرف ”وہی جن کے ںام برّہ کی کتابِ حیات میں لکھے ہوۓ ہیں۔“ صرف وہی جنہوں نے اپنی زمینی زندگی کے دوران واحد حقیقی خدا اور اُس کی نجات (یسوع) پر ایمان رکھا اور توکل کیا، وہاں ہوں گے۔

بائبل مقدس کا آخری باب اُس باغ کا نقشہ کھینچتا ہے جو اُس آسمانی شہر میں واقع ہے:

”پھر اُس نے مجھے بلور کی طرح چمکتا ہوا آبِ حیات کا ایک دریا دکھایا جو خدا اور برّہ کے تخت سے نکل کر اُس شہر کی سڑک کے بیچ میں بہتا تھا۔ اور دریا کے وار پار زندگی کا درخت تھا۔ ۔۔ اور پھر لعنت نہ ہو گی اور خدا اور برہ کا تخت اُس شہر میں ہو گا اور اُس کے بندے اُس کی عبادت کریں گے اور وہ اُس کا منہ دیکھیں گے اور اُس کا نام اُن کے ماتھوں پر لکھا ہوا ہو گا ۔۔۔ اور وہ ابدالآباد بادشاہی کریں گے“ (مکاشفہ ٢٢: ١۔ ٥ )۔

لاجواب اور کامل کہانی

خدا کی کہانی نے پورا چکر مکمل کر لیا ہے!

اِس شہر کے بیچ میں دریا اور دریا کے وار پار زندگی کا درخت ہے۔ جو بات ایک خوبصورت اور خوش منظر باغ میں شروع ہوئ تھی اُس کا اختتام ایک نہایت نادر ، آراستہ پیراستہ شہر کے رفیع الشان باغ میں ہوتا ہے۔ عدن کے برعکس آسمانی فردوس میں نیک و بد کی پہچان کا درخت نہیں ہو گا بلکہ اُس میں ”زندگی کا درخت“ ہو گا جس سے آدم اور حوا کو دُور کر دیا گیا تھا جب اُنہوں نے گناہ کیا تھا۔ آسمانی شہر میں کامل پاکیزگی اور دائمی زندگی ہی واحد انتخاب ہو گا۔

آزمائش یا جانچ پرکھ کا زمانہ اور ایمان سے جیتا رہنا تاریخ پارینہ بن جائیں گے۔

”خدا اور برّہ کا تخت اُس شہر میں ہو گا اور اُس کے بندے اُس کی عبادت کریں گے اور وہ اُس کا منہ دیکھیں گے۔۔۔ اور وہ ابدالآباد بادشاہی کریں گے“ (مکاشفہ ٢٢ : ٣ ۔ ٥ )۔

وہاں کی دائمی خصوصیت یہ ہے کہ خداوند کے درمیان نہایت شیرین اور نہ ٹوٹنے والا رشتہ ہو گا۔ خدا ہمارے ساتھ اور ہم خدا کے ساتھ رہیں گے۔ یہ حالت اُس بات سے بھی زیادہ دلکش اور عجیب ہو گی جو آدم اور حوا کو کبھی میسر  آتی اگر وہ گناہ نہ کرتے۔

یہ زیادہ دلکش اور عجیب کیوں ہو گی؟

اِس کا جواب لفظ مخلصی (فدیہ) میں ہے۔

” اُسی نے ہم کو تاریکی کے قبضہ سے چھڑا کر اپنے عزیز بیٹے کی بادشاہی میں داخل کیا جس میں ہم کو مخلصی یعنی گناہوں کی معافی حاصل ہے“ (کلسیوں ١: ١٣ ، ١٤ )۔

شریعت کی نافرمانی کرنے پر انسان کو گناہ اور موت کی تاریک کوٹھڑی میں رہنے کی سزا ہو چکی تھی، لیکن اُنہیں وہاں سے نکال کر خدا کی نور اور محبت کی بادشاہی کے مقبول شہری بنا دیا گیا۔ اِس سے زیادہ شاندار اور عجیب بات کیا ہو سکتی ہے؟

یہ کام ہے جو ہمارے خالق اور مخلصی دینے والے نے اُن سب کے لئے کیا ہے جو نجات کے لۓ صرف اُسی پر ایمان اور توکل رکھتے ہیں۔ اپنی بے انتہا محبت کے باعث اور اپنے بیش قیمت خون کے وسیلے سے اُس نے ناچار اور بے بس گنہگاروں کو جہنم سے چھڑا کر بہشت کے لائق بنا دیا ہے۔

یہ ہے کامل کہانی — فدیہ اور مخلصی کی کہانی جس پر پوری ابدیت میں غور کیا جاتا رہے گا اور جس کی تعریف کی جاۓ گی۔

”اِن باتوں کے بعد جو مَیں نے نگاہ کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ہر ایک قوم اور قبیلہ اور اُمت اور اہلِ زبان کی ایک ایسی بڑی بھیڑ جسے کوئی شمار نہیں کر سکتا سفید جامے پہنے اور کھجور کی ڈالیاں اپنے ہاتھوں میں لۓ ہوۓ تخت اور برّہ کے آگے کھڑی ہے اور بڑی آواز سے چلّا چلّا کر کہتی ہے کہ نجات ہمارے خدا کی طرف سے ہے جو تخت پر بیٹھا ہے اور برّہ کی طرف سے“ (مکاشفہ ٧: ٩ ، ١٠ )۔

”اور وہ یہ نیا گیت گانے لگے کہ تُو ہی ۔۔۔ لائق ہے کیونکہ تُو نے ذبح ہو کر اپنے خون سے ہر ایک قبیلہ اور اہلِ زبان اور اُمت اور قوم میں سے خدا کے واسطے لوگوں کو خرید لیا۔۔۔ جو تخت پر بیٹھا ہے اُس کی اور برّہ کی حمد اور عزت اور تمجید اور سلطنت ابدالآباد رہے“ (مکاشفہ ٥: ٩ ، ١٣ )۔

اِس کے بعد ہمیشہ خوشی و خرمی

ساری دنیا میں لوگ رومان اور شجاعت اور کسی کو دوسروں کے قبضے سے چھڑانے کی داستانیں اور کہانیاں پسند کرتے ہیں کیونکہ اُن کا اختتام خوشی و خرمی کی حالت پر ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر سنڈریلا کی دیومالائی کہانی جو سب سے پہلے چین میں کہی گئ۔ اِس کے تراجم یورپ، امریکہ، ایران، عراق، مصر، کوریا، برِصغیر پاک و ہند کی زباںوں میں ہوۓ۔ اِس کے علاوہ ہر ملک یا خطے کی اپنی اپنی رومانی داستانیں بھی ہیں مگر سب کا موضوع ایک ہی ہے، یعنی کسی گرفتارِ بلا کو چھڑانا اور رہائی دلانا۔ گناہ سے رہائی اور ہمیشہ کی زندگی کی آرزو دنیا بھر کے اور ہر زمانے کے لوگوں کے دلوں میں جاگزین رہی ہے۔ حضرت سلیمان نے لکھا ہے ”اُس نے ہر ایک چیز کو اُس کے وقت میں خوب بنایا اور اُس نے ابدیت کو بھی اُن کے دل میں جاگزین کیا ہے اِس لۓ کہ انسان اُس کام کو جو خدا شروع سے آخر تک کرتا ہے دریافت نہیں کر سکتا“ (واعظ ٣: ١١ )۔

خواہ گاؤں کی چوپال میں الاؤ کے گرد بیٹھے ہوۓ لوگوں کو کوئی داستان ڈرامائی انداز میں کوئی قصہ سنا رہا ہو، یا والدین سونے سے پہلے بچوں کو کوئی کہانی پڑھ کر سنا رہے ہوں، مگر ہر کہانی یا داستان کا پلاٹ کم و بیش ایک ساہی اور کچھ یوں ہوتا ہے:

ایک خوبصورت جوان لڑکی یا شہزادی مصیبت میں پھنس جاتی ہے۔ کوئی بدقماش شخص یا جن اُسے قید کر لیتا ہے۔ کوئی ہیرو اُسے چھڑانے نکلتا ہے۔ اُسے غیبی اور فوق الفطرت مدد  حاصل ہو جاتی ہے اور انوکھے واقعات اُس کا ساتھ دیتے ہیں۔ اور بانکا سجیلا ہیرو اُسے رہائی دلانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ پھر دونوں کی شادی ہو جاتی ہے اور ایک شاندار مکان میں ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔

دیکھا، کہانی کا اختتام کیسے ہوتا ہے؟

۔۔۔ اور وہ ہنسی خوشی رہنے لگے!

لوگ ایسی کہانیاں کیوں سناتے ہیں؟

اِس لۓ سناتے ہیں کہ خدا نے انسان کے دل و جان میں یہ آرزو جاگزین کر رکھی ہے کہ ہم بدی اور گناہ سے چھٹکارا پائیں۔ ہم سے محبت رکھی جاۓ اور ہم ہمیشہ تک خوش و خرم رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بچے بوڑھے سب ہی کہانیاں پسند کرتے ہیں۔

لیکن خدا کی کہانی کوئی خیالی افسانہ نہیں ہے۔

خیالی باتوں کی جڑیں تاریخ میں نہیں ہوتیں اور نہ آثارِ قدیمہ اُن کی تصدیق کرتے ہیں۔ من گھڑت کہانی پندرہ صدیوں کے دوران درجنوں افراد نہیں لکھتے اور نہ اُس کی تفاصیل کے لئے سینکڑوں پیش گوئیاں کی جاتی ہیں۔ افسانوی ہیرو یسوع جیسی آسمانی حکمت سے باتیں نہیں کر سکتا۔ اور جن کو بچانے آیا ہے اُن سے یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ ”دیکھو ہم یروشلیم کو جاتے ہیں اور جتنی باتیں نبیوں کی معرفت لکھی گئی ہیں ابنِ آدم کے حق میں پوری ہوں گی کیونکہ ۔۔۔ لوگ اُس کو ٹھٹھوں میں اُڑائیں گے اور بے عزت کریں گے اور اُس پر تھوکیں گے اور اُس کو کوڑے ماریں گے اور قتل کریں گے اور وہ تیسرے دن جی اُٹھے گا“ (لوقا ١٨ : ٣١ ۔ ٣٣ )۔ افسانوی یا خیالی باتیں دوزخی گنہگاروں کو پاک صاف ضمیر اور ہمیشہ کی زندگی مہیا نہیں کر سکتا۔ سرابِ خیال ہمارے خالق کے ساتھ ہمارا شخصی تعلق قائم نہیں کر سکتا اور نہ ہمارے گناہ آلود اور خود غرض اور مطلب پرست دلوں کو بدل کر اُن میں خدا کی تمجید کرنے اور دوسروں کی خدمت کرنے کا جذبہ پیدا کر سکتا ہے۔

صرف خدا کی کہانی ایسا کر سکتی ہے!

کیونکہ یہ حقیقی چیز ہے۔

مختصراً  یہ کہ واحد حقیقی خدا کی کہانی اور پیغام اپنے ازلی بیٹے کے بارے میں ہے جو بشر بنا، جس نے کامل زندگی گزاری، اپنا کامل اور بے عیب خون بہایا اور مُردوں میں سے جی اُٹھا، بے بس اور مجبور گنہگاروں کو شیطان، گناہ، موت اور جہنم سے چھڑایا تاکہ جو لوگ ایمان لائیں اُنہیں اپنے باپ کے گھر کی دائمی حکمت، محبت اور جلال کی ابدی خوشیوں میں شریک کرے۔

یہ ہے مصیبت زدہ دنیا کے لئے خدا کی خوش خبری۔

جو کچھ اُس نے ہماری خاطر کیا ہے اُسی سے ہم ہمیشہ تک ہنسی خوشی جی سکتے ہیں۔

”مجھ کو یقین ہے کہ سب کچھ جو خدا کرتا ہے ہمیشہ کے لئے ہے“ (واعظ ٣: ١٤ )۔

دعوت اور اِنتباہ

خدا کی کتاب کا اختتام اِن الفاظ کے ساتھ ہوتا ہے:

”مجھ یسوع نے اپنا فرشتہ اِس لۓ بھیجا ۔۔۔ کہ تمہارے آگے اِن باتوں کی گواہی دے ۔۔۔ میں الفا اور اومیگا۔ اوّل اور آخر۔ ابتدا و انتہا ہوں“ (مکاشفہ ٢٢: ١٣ ، ١٦ )۔

”اور روح اور دُلھن (مخلصی یافتہ گنہگار) کہتی ہیں آ اور سننے والا بھی کہے آ۔ اور جو پیاسا ہو وہ آۓ اور جو کوئی چاہے آبِ حیات مفت لے۔

مَیں ہر ایک آدمی کے آگے جو کتاب کی نبوت کی باتیں سنتا ہے گواہی دیتا ہوں کہ اگر کوئی آدمی اِن میں کچھ بڑھاۓ تو خدا اِس کتاب میں لکھی ہوئی آفتیں اُس پر نازل کرے گا۔ اور اگر کوئی اِس نبوت کی کتاب کی باتوں میں سے کچھ نکال ڈالے تو خدا اُس زندگی کے درخت اور مقدس شہر میں سے جن کا اِس کتاب میں ذکر ہے اُس کا حصہ نکال ڈالے گا۔

جو اِن باتوں کی گواہی دیتا ہے وہ یہ کہتا ہے کہ بے شک مَیں جلد آنے والا ہوں۔ آمین۔ اے خداوند یسوع آ۔

خداوند یسوع کا فضل مقدسوں کے ساتھ رہے۔ آمین!“ (مکاشفہ ٢٢ : ١٧ ۔ ٢١ )

کتاب کا مصنف جو بے زمان ہے اِس آخری ”آمین“ کے ساتھ کتاب کو ختم کرتا ہے۔ ”آمین“ کا مطلب ہے” معتبر اور سچا“۔

خدا اور انسان اکٹھے

باغِ عدن میں خدا نے آدم کو پکارا اور پوچھا ”تُو کہاں ہے؟“ کیا آپ کو یاد ہے کہ آدم نے کیا جواب دیا تھا؟

آدم نے بڑی شرمندگی کے ساتھ جواب دیا تھا۔

” مَیں نے باغ میں تیری آواز سنی اور مَیں ڈرا“ (پیدائش ٣: ١٠ )۔

آدم اور حوا نے اپنے خالق سے چھپنے کی کوشش کی کیونکہ اُنہوں نے گناہ کیا تھا۔

لیکن اب تاریخ کے اختتام پر ایمان دار مردوں، عورتوں اور بچوں کا اپنے خالق اور فدیہ دینے والے کے اِس وعدے پر کیا ردِ عمل ہے کہ مَیں آؤں گا اور تمہیں ساتھ لے جاؤں گا تاکہ ہمیشہ تک میرے ساتھ رہو۔

وہ خوشی اور شادمانی کے ساتھ جواب دیتے ہیں:

”آمین! — ایسا ہی ہو — اے خداوند یسوع آ“ (مکاشفہ ٢٢: ٢٠)

یہ تبدیلی کیونکر آئی؟ کیا وجہ ہے کہ اب آدم کی اولاد میں سے بہت سے لوگ اپنے خداوند سے چھپنا نہیں چاہتے؟ بلکہ اِس وجہ سے وہ خوشی اور جوش کا اظہار کیوں کرتے ہیں کہ اُسے رُوبرو دیکھیں گے؟

جواب واحد حقیقی خدا کے اِس پیغام میں ملتا ہے کہ

” خدا نے “ ہمیں نجات دی اور پاک بلاوے سے بلایا، ہمارے کاموں کے موافق نہیں بلکہ اپنے خاص ارادہ اور اُس فضل کے موافق جو مسیح یسوع سے ہم پر ازل سے ہوا، مگر اب ہمارے منجی مسیح یسوع کے ظہور سے ظاہر ہوا جس نے موت کو نیست اور زندگی اور بقا کو اُس خوش خبری کے وسیلہ سے روشن کر دیا“ (٢۔تیمتھیُس ١: ٩، ١٠ )۔

ایک ہی حکم

زمین پر  فردوس (باغِ عدن) میں خدا نے آدم کو ایک واضح حکم دیا تھا۔ اُسی طرح فردوس کے آسمانی شہر کے بارے میں بھی اُس نے آدم کی اولاد پر ایک حکم واضح کر دیا ہے:

”اُس میں کوئی ناپاک چیز یا کوئی شخص جو گھنونے کام کرتا یا جھوٹی باتیں گھڑتا ہے ہرگز داخل نہ ہو گا، مگر وہی جن کے نام برّہ کی کتابِ حیات میں لکھے ہوۓ ہیں“ (مکاشفہ ٢١ : ٢٧ )۔

کیا آپ کا نام برّہ کی کتابِ حیات میں لکھا ہوا ہے؟ اگر ہے تو اُس کی طرف سے خاص آپ کے لۓ اُس کا ذاتی پیغام یہ ہے:

” تمہارا دل نہ گھبراۓ۔ تم خدا پر ایمان رکھتے ہو مجھ پر بھی ایمان رکھو۔ میرے باپ کے گھر میں بہت سے مکان ہیں۔ اگر نہ ہوتے تو مَیں تم سے کہہ دیتا کیونکہ مَیں جاتا ہوں تاکہ تمہارے لۓ جگہ تیار کروں۔ اور اگر مَیں جا کر تمہارے لۓجگہ تیار کروں تو پھر آ کر تمہیں ساتھ لے لوں گا تاکہ جہاں مَیں ہوں تم بھی ہو۔۔۔“ (یوحنا ١٤ : ١ ۔ ٣ )۔

” راہ اور حق اور زندگی مَیں ہوں۔ کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا“ (یوحنا ١٤ : ٦ )۔