تیسرا باب

قوم اور زمانہ کی حالت

اب ہم مسیح کی زندگی کے اس حصہ کے نزدیک آپہنچے ہیںجس کا مفصل حال انجیلوں میں قلمبند ہے۔ مسیح اب کبخ تنہائی کو چھوڑ کر دینا کے سامنے آتا اور اپنا اصل کام اختیار کرتا ہے۔ پس اس موقعہ پر زیبا معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس قوم کے رسم ورواج پر غور کریں جس کے درمیان اسے کام کرتا تھا اور نیز یہ دریافت کریں کر اسے اپنی خدمات کے متعلق کون سے مقاصد مدنظر تھے۔ بزرگوں کی زندگیوں کے وسیلے سے کوئی نہ کوئی نئی طاقت اس دنیا میں داخل ہوتی ہے۔ پس ان کے سوانح عمری تحریر کرنا گویا دو باتوں کو رقم کرنا ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ کونسی نئی بات ان کے وسیلہ سے اس دنیا میں داخل ہوئی اور وہ کیوں کر پرانی طاقتوں سے شیر و شکر ہو کر بعد کے زمانے کا حصہ بن گئی۔ پس ضرور ہے کہ ہر ایک شخص کے سوانح عمری کی تاثیرات کا صحیح اندازہ کرنے کے لئے پہلے ہم اس نئی طاقت کی ماہیت کے سمجھنے کی کوشش کریں جو اس کی زندگی سے صادر ہوئی ، اور نیز اس بات پر غور کریں کہ جس زمانہ میںوہ طاقت نمودار ہوئی اس وقت دنیا کی کیا حالت تھی۔ اگرہم دوسری بات کو نظرانداز کردیں تو پہلی بات کی خصوصتیں سمجھ میں نہ آئیںگی اور نہ ہی یہ عقدہ حل ہو گا۔ کہ کس طرح اس نئی طاقت کو دنیا نے قبول کیا کیا صدائے خوش آمدید بلند کرکے اس دنیا نے اسے سینہ سے لگایا یا دشمنی اور عداوت کا پہلو اختیار کر کے اسے رد کرنا چاہا۔ خدواند مسیح ایسی نئی طاقت اپنے ساتھ لایا تھا جس کا کام یہ تھا۔ کہ انسانی تاریخ کو ایک نئے سانچے میں ڈھال کر نئی صورت میں تبدیل کرے۔ پس جب تک ہم ان لوگوں کے حالات سے واقف نہ ہوں جن کے درمیان اس نے بودوباش اختیار کی تب تک نہ ہم اس کی خصلت کو اور نہ اس بات کو جان سکتے ہیں۔ کہ جس بڑی بخشش کو وہ اپنے ساتھ لایا اس کو تاریخی واقعات کی لڑی میں پڑنے کے لئے اسے کون کون سی مشکلات کا مقابلہ کرنا پڑا۔

جب ہم عہد عتیق کی آخری کتاب کا آخری ورق بند کرکے عہد جدید کو کھول کر اس کا مطالعہ شروع کرتے ہیں۔ تو ہمارے دل میں یہ خیال گزرتا ہے کہ گویا ہم انہیں لوگوں کے درمیان چلتے پھرتے اور اسی قسم کی رسوم کا دور دیکھ رہے ہیں۔ جو ہم نے ملاکی کی کتاب میں چھوڑ ی تھیں۔ لیکن یہ خیال سراسر غلط ہے کیونکہ ملاکی اور متی کے درمیان چار سوسال کا فاصلہ ہے۔ اور جو تبدیلیاں اتنے عرصہ کے اندر کسی ملک میں پیدا ہو سکتی ہیں وہ اس ملک میں واقع ہو چکی تھیں۔ جو زبان ملاکی کے زمانہ میں مروج تھی۔ وہ اب معدوم ہو گئی تھی اور نئی رسمیں نئے رواج نئے خیالات نئے طریقے اور نئے فرقے برپا ہو گئے تھے۔ غرضیکہ ملک ایسی کایا پلٹ گئی تھی کہ اگر ملاکی زندہ ہو کر اپنے ملک اور اپنے لوگوں کو دیکھتا تو حیرت کا پتلا بن جاتا اور مشکل سے ان کو پہچانتا۔

ملکی انتظام میں طرح طرح کی تبدیلیاں ہو چکی تھیں۔ مثلاً اسیری کے بعد یہودی قوم کا انتظام سردار کاہنوں کے ہاتھ آیا اور یہودیوں کا تما م ملک ایک دینی حکومت کی صورت میں تبدیل ہو گیا۔ کئی فتح مند بادشاہوں نے باربار اس پر حملہ کرکے ہر پہلے انتظام کو نیا لباس پہنایا۔ کچھ عرصہ کے لئے دلیر مکابیوں نے موروثی بادشاہی کے قدیم کے اختیارات کو پھر بحال اور آزادی کے لئے جنگ و جدل کرتے ہوئے کبھی شکست کھائی اور کبھی دشمن کو نیچا دکھایا۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد ایک ظالم نے زبردستی تخت نشینی اور حکمرانی کا لطف اڑایا۔ اور اب آخر میں عنان حکومت اہل روم کے ہاتھ آئی جن کا سکہ تمام مہذب دنیا میں جاری تھا۔ انہوں نے ملک کو پانچ حصوں میں تقسیم کرکے کچھ ایسی ہی حکومت جاری کی جیسی اب ہندوستان میں رائج ہے۔ گلیل اور پیریا چھوٹے چھوٹے راجاوں کے ہاتھ میں تھے۔ وہ ہیرودیس کے بیٹے تھے۔ جس کے عہد میں مسیح پیدا ہوا تھا۔یہ راجے قیصر روم کے ساتھ وہی علاقہ رکھتے تھے جو ریاست ہائے ہند کے سردار اور راجے شہنشاہ انگلستان کے ساتھ رکھتے ہیں۔ یہودیہ ایک رومی عامل کے اختیار میں تھا۔ جو سریا کے رومی صوبہ کے فرمانروا کے ماتحت سمجھا جاتا تھا۔ رومی سپاہی یروشلیم کے گلی کوچوں میں پھرتے دکھائی دیتے تھے۔ رومی پھر یرا ہر قلعہ کی چوٹی پر لہرا رہا تھا۔ رومی محصول لینے والے ہر شہر کے پھاٹک پر بیٹھے تھے۔ سنہڈوم (یہودیوں کی مجلس حکام )جسے یہودی اختیارات کا ایک آلہ کہنا چاہےے ، برائے نام ذرا سا اختیار رکھتی تھی مگر در حقیقت اس کے صدر اور سردار کاہن رومیوں کے ہاتھ میں کٹ پتلی سے بڑھ کر نہ تھے۔ چنانچہ جیسا ناچ وہ نچاتے تھے ویسا ناچتے تھے۔ جس قوم کو دیگر اقوام سے ایک قسم کا امتیاز حاصل تھا اور جس کے سامنے دنیا کی تمام سلطنتوں کو سر تسلیم خم کرنا چاہےے تھا۔ اور جس کی حب الوطنی میں دینی اور قومی محبت کا ایک وایسا مادہ موجودہ تھا کہ دوسری قوموں کو ویسا کبھی نصیب نہیں ہوا وہ قوم اس وقت اپنے اعلےٰ پایہ سے گر کر ذلیل ہو رہی تھی۔

اور جب ہم مذہب کی طرف رخ کرتے ہیں۔ تو مذہبی عالم میں بھی بڑی تبدیلی اور عجیب طرح کا تنزل نظر آتا ہے۔ ظاہری کی صورت سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا تنزل کے عوض مذہب بڑے فروغ پر ہے۔ چنانچہ یہودی قوم جیسی اس وقت اپنے عقائد کی پابند تھی ویسی پہلے کبھی ہیں ہوئی تھی۔ ایک وہ وقت تھاکہ بت پرستی کنٹھ مالا بن کر گلے کو ہار ہورہی تھی۔ مگر اسیر ی کے تلخ نسخہ نے اس بیماری کی ایسی بیخ کنی کی کہ اب ہر جگہ کے یہودی بجز خدائے واحد اور کسی کو عبادت کے لائق نہیں سمجھتے تھے۔ انہوں نے بابل سے واپس آکر کاہنی عہد وں کو ازسر نو قائم کیا اور ہیکل کی عبادت اور عیدوں کی حفاظت میں ایسے مشغول ہوئے کہ رسول کی ادائیگی میں سرموفرق نہیں آنے دیتے تھے۔ علاوہ بریں اسی عرصہ میں ایک اور طریق عبادت برپا ہوا جس نے ہیکل اور ہیکل کے کاہنوں کی بھی جوت مدھم کر دی۔ اسے سنیگاگ (عبادت خانہ )کہا کرتے تھے۔ اور اس کے کار پرداز ربی کہلاتے تھے۔ قدیم زمانوں میں سینگاگ کا وجود کہیں نہیں ملتا کیونکہ اس طریق نے اسیری کے بعدجنم لیا اور اس تعلیم کے پہلو میں پرورش پائی جو اس وقت کلام الٰہی کے لئے لوگوں کے دلوں میں موجود تھی۔ جہاں جہاں یہودی آباد ہوئے۔ وہاں یہ عبادت خانے بکثرت برپا ہوئے۔ ہر سبت کے روز یہ عبادت خانے خدا کے پرستاروں کی کثرت سے مونہامنہ بھر جاتے تھے۔ اور ربی حاضرین کو پند نصیحت کیا کرتے تھے۔ عبادت خانہ کے ساتھ ربیوں کا فرقہ بھی پیدا ہوا اور اس کا سبب یہ تھا کہ زبان عبرانی اس وقت بولی نہیں جاتی تھی۔ سواس بات کی ضرورت تھی کہ پرانے عہد نامہ کا جو ایک سرے سے دوسرے سرے تک سال میں ایک مرتبہ ہمیشہ پڑھا جاتا تھا ، مروجہ زبان میں ترجمہ کیا جائے ، علم الٰہی کے مدرسے قائم کئے گئے جہاں ربی تربیت پاتے اور فن تفسیر میں مہارت حاصل کرتے تھے۔

لیکن باوجود اس ظاہر ی دینداری کی گرم بازاری کے مذہب دراصل تنزل کی طرف مائل تھا۔ یعنی خارجی رسوم کی تعداد تو ترقی پر تھی۔ مگر باطنی روح اور زندگی چراغ سحری کی طرح گل ہونے پر تھی گو پرانے زمانہ میںیہ قوم بار بار گناہ کے پھندے میں گرفتار ہوئی تو بھی ہمیشہ اس قابل تھی کہ اپنی تاریخ کے بد ترین زمانوں میں بھی ایسے جلیل القدر اشخاص پیدا کرے جو زندگی کا اعلےٰ سے اعلےٰ نمونہ قائم رکھیں اور اس رابطہ کو مضبوط کریں جو ان کی قوم اور آسمانی بادشاہ کے درمیان موجود تھا۔ پس ہم دیکھتے ہیںکہ وہ انبیاءجو صفاءصدق کی دولت سے مالا مال تھے۔ سچائی کو ہر طرح کی آلائش سے محفوظ رکھتے تھے۔ ان کے سلسلہ میں ان چار صدیوں کے اندر جن کا ذکر اوپر ہوا کوئی بنی برپا نہ ہوا۔ اس میں شک نہیں کہ ان کے مقدس کلام کی محافظت تو ایسی تعظیم سے کی جاتی تھی کہ اس تعظیم میں سے بسا اوقات بت پرستی کی بو آنے جاتی تھی۔ لیکن ایسے آدمی بہت ہی کم تھے۔ جن کے اندرروح پاک کا وہ نور ہدایت درخشاں ہوتا جو نبیوں کے کلا م کا اصل مطلب سمجھنے کے لئے ضروری ہوتا ہے۔

دین کے دائرہ میں جو فرقہ ان دنوں پیشوا سمجھا جاتا تھا۔ وہ فریسیوں کا فرقہ تھا فریسی اس بات پر زور دیا کرتے تھے۔ کہ خدانے قوم یہود کو دیگر اقوام سے امتیاز خاص کے ساتھ جدا کیا ہے۔ اب اگر یہ امتیاز پاکیزگی میں ظاہر ہوتا تا اس پر زور دینا بہت عمدہ اور موزون ہوتا مگر چونکہ لباس اور خوراک اور زبان کے ظاہر ی امتیازات کی نسبت اس اخلاقی امتیاز کا برقرار رکھنا ایک مشکل کام تھا۔ اس لئے لباس اور خوراک کے بیرونی فرق و امتیاز نے رفتہ رفتہ اس اصلی امتیاز کی جگہ لے لی۔ فریسی حب الوطنی کے عجیب جوش سے پُر اور ملکی آزادی کے لئے اپنی جان پرکھیل جانے کو تیار تھے۔ وہ غیروں کی حکمرانی سے دل ہی دل میں جلتے اور دوسری قوموں کو نظر حقارت سے دیکھا کرتے تھے۔ اور اس امید میں محو تھے۔ کہ ہماری قوم کو کچھ عرصہ کے بعد ایک خوش نما اور پرُ جلال زمانہ نصیب ہو گا۔ مگر مدت تک اس راگ کو الاپنے کا یہ نتیجہ ہوا کہ وہ مغرور ہو کر یہ سمجھنے لگ گئے کہ چونکہ ہم ابرہام کی نسل سے ہیں۔ اس لئے خدا کی نظر میں ہم ہی پسندیدہ ہیں اور اس بات کو بھول گئے کہ خدا کی نظر ہیں۔ ہم ہی پسندیدہ ہیں اور اس بات کو بھو ل گئے کہ خدا کی نظر میںجو ہے وہ نسبی شرافت نہیں بلکہ ذاتی خصلت ہے پس وہ یہودی رسموں کو بڑھاتے گئے اور انجام کار دعا اور روزہ اور وہ یکی کی خارجی رسوم نے اس اعلےٰ امتیاز کی جگہ لے لی جو انسان اور خدا کی محبت میں جلوہ گر ہونا چاہےے تھی۔

فریسیوں کے فرقہ کے ساتھ کئی فقیہہ بھی ملحق تھے۔ ان کو اس لئے فقیہہ کہتے تھے۔ کیونکہ پاک نوشتوں کی تشریح اور کتابت ان کے سپرد تھی۔ اور وہی لوگوں کے لئے وکالت کا کام کیا کرتے تھے۔ کیونکہ یہودیوں کے ملکی قوانین کا مجموعہ پاک نوشتوں ہی میں داخل تھا۔ اس لئے علم فقہ علم الہیات کی ایک شاخ سمجھا جاتا تھا۔ عبادت خانوںمیں کلام الٰہی کی شرح اکثر وہی کیا کرتے تھے۔ اگرچہ ہر شخص کو اجازت تھی کہ اگر بولنا چاہے تو بولے، وہ نوشتوں کے ایک ایک لفظ اور حرف کی تعظیم کا دم بھرتے تھے۔ اور واقعی پرانے عہد نامے کے مذہبی اصول کو لوگوں کے درمیان پھیلانے اور اس کے بڑے بڑ ے اولوالعز م بہادوں میں بونے کا نمونہ ان کے سامنے رکھنے اور نبیوں کے کلام کو بیج کی طرح دلوں میں بونے کا عمدہ موقع ان کو حاصل تھا کیونکہ اس کام کو انجام دےنے کے لئے عبادت خانہ ایک عمدہ مقام تھا۔ کیونکہ اس کام کو انجام دےنے کے لئے عبادت خانہ ایک عمدہ مقام تھا۔ لیکن انہوں نے اس عمدہ موقع کو بالکل کھو دیا اور مذہبی حاکموں اور متکلموں کی پھیلی سی گروہ بننے پر اکتفائی اور اپنے اعلےٰ مرتبہ کو اپنے ذاتی اغراض کو پورا کرنے کا وسیلہ بنایا ، اور ان لوگوں کو جنہیں وہ روٹی کے عوض پتھر دیا کرتے تھے۔ جاہل اور بے علم سمجھ کر نظر حقارت سے دیکھنا شروع کیا۔ پاک نوشتوں میںجو جو باتیں روحانی اور زندگی بخش تھیں۔ اور انسانی بہبودی کے لئے اکسیر تھیں ان کو نظر انداز کر دیا۔ پشت در پشت مشاہیر مفسرین ، کی تفسیریں بڑھتی گئیں۔ اور وہ تفسیر ی حاشیوں کو متن پر ترجیح دینے لگے۔ مزید برآں یہ خیال مروج ہو گیا۔ کہ صحیح تفسیر کو وہی رتبہ دیا جائے جو کلام اﷲ کو حاصل ہے اور چونکہ بڑے بڑے مشہور معلموں کی تفسیریں صحیح سمجھی جاتی تھیں۔ لہذا یہ نتیجہ ہوا کہ ہزار ہا رائیں جو بائبل کی طرح مستند اور بیش قیمت سمجھی جاتی تھیں۔ روز بروز بڑھنے لگیں یہاں تک کہ ان کا شمار بہت زیادہ ہو گیا۔ رفتہ رفتہ یہاں تک نوبت پہنچی کہ ہر کوئی اپنی مرضی کے مطابق تشریح کرنے لگا اور یوں ہر قسم رائے کلام اﷲ کی کسی نہ کسی آیت سے مربوط کرنا یا اس کو جائز قرار دینے کے لئے الٰہی سند ڈھونڈھنا آسان کام ہو گیا۔

پس اس طرح فریسیوں کی ہر نئی ایجاد نے ناجائز ہونے کا رتبہ حاصل کیا اور ان نئی ایجادوں کا شمار اس قدر بڑھ گیا کہ زندگی کے دائرہ میںکوئی ایسی جگہ نہ تھی جہاں ان کا سایہ نہیں پڑتا تھا۔ شخصی اور خاندانی غرضیکہ زندگی کے ہر پہلو پر ان لوگوں کی نو ایجادیاں حکمران تھیں۔ ان کے شمار کی کثرت کے سبب سے ان کے سیکھنے کے لئے مدت العمر کی ضرورت تھی اور ان فقہقوں کی تربیت کا بھی بڑا جزو یہی تھا۔ کہ وہ ان مختلف خیالات سے واقف ہوں اور بڑے بڑے ربیوں کے مفتیانہ کلام کا علم رکھیں۔ اور تفسیر کے ان طریقوں کو ضبط کریں جن کی بناپر ربیوں نے اپنے خیالات کو جائز ٹھہرایا تھا۔ یہی وہ بھوسہ تھا جس سے وہ عبادت خانہ میںآنے والوں کو سیرو آسودہ کرنا چاہتے تھے۔ ضمیر کی گردن پر ایسی بے شمار چھوٹی چھوٹی باتوں کو بوجھ ڈالتے تھے جن میں سے ہر ایک کو دس احکام کی مانند خدا کی طرف سے بتاتے تھے یہی وہ ناقابل برداشت بوجھ تھا۔ جس کی نسبت پطرس نے کہا کہ نہ ہم اور نہ ہمارے باپ دادا اسے اٹھا سکتے ہیں۔ یہی وہ بوجھ تھا جس نے خواب پریشان کی طرح پولوس کی ضمیر کو دبارکھا تھا۔ اس سے بہت سے برُے نتیجے پیدا ہوئے۔یہ ایک مسلمہ تاریخی حقیقت ہے کہ جب رسوم کو وہی جگہ دی جاتی ہے جو اخلاقی صداقت کا حق ہے تو اخلاق کی رونق کا نور ہوتی ہے فقہقہ اور فریسی اس فن میں طاق تھے کہ اپنی خود رائی کے موافق شرح کرکے اور ضمیری معاملا ت پر اپنی مرضی کے مطابق بحث کرکے بڑے بڑے اخلاقی فرائض کی بنیادی ہلا دیں اور نئے نئے دستوروں کی پابندی کے ستون برپا کریں۔ اس طرح یہ لوگ ہاتھی کے دانتوں کی طرح ظاہر میں کچھ اور باطن میں کچھ اور ہی تھے۔ دیکھنے میں سراپا پاکیزگی مگر خلوت میںخود غرضی کے عاشق اور نفساتی خواہشات کے نشے میں چور تھے۔ اور یہی حال قوم کا تھا۔ وہ بھی قبر کی طرح اوپر سے آراستہ پر اندر بدی کی عفونت سے سڑرہی تھی۔

ان کے مقابل ایک اور فرقہ مخالفت میں ڈٹا کھڑا تھا۔ وہ صدوقیوں کا فرقہ تھا۔ صدوقی بزرگوں کی روائتوں کو سند نہیں مانتے تھے بلکہ برعکس اس کے یہ چاہتے تھے۔ کہ بائبل کے فیصلے مستند سمجھے جائیں اور بغیر اس کے اور کسی رائے کی قدر نہ کی جائے اور نہ ہی وہ یہ چاہتے تھے کہ اخلاق کی جگہ خارجی رسوم کو دی جائے مگر اس مخالفت کا باعث مذہبی اصول کی پابندی نہ تھی بلکہ ان کی منکرانہ طبیعت اس کی موجد تھی۔ یہ لوگ سرمایہ ایمان سے خالی اور شیر گرمی اور دینوی مزاج سے پُر تھے۔ اگرچہ وہ اخلاقی صداقتوں کی تعریف میں بڑی سرگرمی دکھایا کرتے تھے۔ تو بھی ان کا عالم اخلاق کچھ اور ہی تھا۔ ان کے اخلاق میں حقیقی جوش اور روشنی جلوہ نمانہ تھی۔ کیونکہ وہ الٰہی قدرت کی ان اعلےٰ منازل سے ناواقف تھے جہاں سے سچی اخلاقی زندگی کی مذیاں جاری ہوتی ہیں وہ فریسیوں کی دستور پر ستی سے اپنی ضمیر کو زیر بار کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ مگر اس کا اصل سبب یہ تھا۔ کہ وہ چاہتے تھے کہ عیش و عشرت سے زندگی بسر کریں اور ہر روز روز عید اور ہر شب شب برات ہو۔ وہ فریسیوں کی اس خصوصیت کو ہنسی میں اڑایا کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے تیئں اوروں سے الگ رکھتے تھے۔ مگر صدوقی اس ایمان اور ان قومی امیدوں سے بھی اپنے ہاتھ دھو بیٹھے تھے جو فریسی فرقہ کا خاصہ تھیں۔ سووہ غیر قوموں کے ساتھ کھلم کھلا ، ملتے جلتے ،یونانی تہذیب و شائستگی کی پیروی کرتے اور غیر ممالک کے مشاغل سے دل بہلاتے تھے۔ ملکی آزادی کے لئے لڑنا ان کو ناپسند تھا۔ اس فرقے کی ایک شاخ ان خیالات میں اس درجہ تک پہنچ گئی تھی۔ کہ ان کو ہیر و دی کہتے تھے۔ انہوں نے ہیرودیس غاصب کی مد دکی اور اب خوشامد کی وجہ سے اس کے بیٹوں کے منہ لگے ہوئے تھے۔

یہ صدوقی بیشتر اعلےٰ خاندانوں اور دولت مند گھرانوں سے علاقہ رکھتے تھے۔ اور فقیہہ اور فریسی زیادہ تر درمیانہ درجہ کے لوگوں میںسے تھے گو کئی ان میں سے بھی عالی خاندانوں سے علاقہ رکھتے تھے۔ ادنیٰ درجہ کے لوگوں اور دیہاتی باشندوں کو دولت نے امیروں سے جدا کر رکھا تھا۔ مگر وہ فریسیوں پر فریفتہ ہو کر انہیں کا دم بھرتے تھے۔ کیونکہ یہ قاعدہ ہے جاہل لوگ جس طرف گرم جوشی دیکھنے ہیں اسی طر ف ہو جاتے ہیں۔ سب سے آخری درجہ پر ایک کثیر جماعت موجو د تھی۔ جس نے مذہب اور مروجہ سوسائٹی سے ہر طرح کا رشتہ منقطع کر لیا تھا۔ وہ محصول لینے والے اور کسبیاں اور گنہگار کہلاتے تھے اور کوئی ان کی روحوں کی پروانہ کرتاتھا۔

ہم نے دیکھا کہ قوم یہود کی اس وقت دینی اور اخلاقی حالت نہایت ردی ہو رہی تھی۔ اب یہ سوال پیش آتا ہے۔ کہ کیا یہی لوگ خدا کے لوگ ہیں؟ ہاں یہی لوگ ابرہام اور اضحاق اور یعقوب کی اولاد اور وعدوں کے وارث تھے، اگرچہ ضلالت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اگر ہم اس زمانہ سے قطع نظر کر کے پیچھے کی طرف دیکھیں۔ تو کئی صدیاں پہلے قدیم بزرگوں کی نورانی صورتیں اور ان بادشاہوں کے جلالی چہرے جو خدا کے ہم خیال اور ہم مزاج تھے۔ ہماری نظروں سے گزریں گے اور کئی دیندار زبور نویس اور سچے نبی دکھائی دیں گے۔ اور کئی ایسی پشتیں دیکھنے میں آئیں گی جو اپنے ایمان اور امید کے سبب مشہور تھیں اور اسی طرح اگر آئندہ زمانے کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھیں تو ادھر بھی بزرگی اور فضیلت کا دور دورہ نظر آئے گا۔ خدا کا وہ کلام جو آسمان نازل ہوا اور نبیوں کے وسیلے سے بیان کیا گیا۔ کبھی بے انجام نہیں رو سکتا تھا۔ اس نے فرما دیا تھا۔ کہ میرا کامل مکاشفہ اسی قوم کو عطا کیا جائے گااور انسانیت کا بے نقص اور کامل نمونہ اسی قوم میں سے نکلے گا اور اسی میں سے وہ چشمہ جاری ہو گا۔ جو بنی آدم کو نئی زندگی اور تازگی اور نئی طاقتیں دے گا۔ پس اس قول کے مطابق ابھی عجیب زمانہ ظاہر ہونے والا تھا یا یوں کہیںکہ یہودی تاریخ کا دریا اس وقت کچھ عرصہ کے لئے ریگستانی خطوں میں جذب ہو کر غائب ہو گیا تھا۔ لیکن تھوڑ ی دیر کے بعد پھر زور و شور کے ساتھ خدا کی مقر ر کر دہ راہ میں بہنے کو تھا۔ اگرچہ اس وقت زمانہ کے ظاہری حالات کسی قدر ناموافق سے معلوم ہوتے تھے۔ تو بھی خدا کا فرمان پورا ہونے کا وقت آپہنچا تھا۔ چنانچہ کئی خدا پرست دیندار اس وقت آپس میں کہتے تھے۔ کہ کیا موسیٰ سے لے کر سب بنی ایک بزرگ کے آنے کی خبر دیتے ہوئے یہ نہیںبتاتے رہے کہ وہ عین اس وقت آئے گا۔جبکہ اخلاقی تاریکی تاریک رات کے اندھیر ے سے بھی بڑھ جائے گی۔ اور قومی ابتری انتہا درجہ کو پہنچ جائے گی؟ وہ زمانہ ہائے گذشتہ کے کھوئے ہوئے جلال کو دوبارہ روشن کرے گا۔ یادرہے کہ بدترین زمانوں میں میں بھی نیک اشخاص کا وجود معدوم نہیں ہوتا لہذا اس وقت بھی یہودیوں کے خود غرض اور بداخلاق فرقوں میں بعض بعض صاحب دل باقی تھے۔ لیکن ایسے زمانوں میں حقیقی دینداری زیادہ ترکم حیثیت لوگوں کی جھونپڑیوں میں بسیرا کرتی ہے۔ اور جس طرح ہم کو امید ہے کہ رومن کیتھولک کلیسیاءمیں بھی بہت ایسے لوگ ہیں۔ جو ان رسوم کوجومسیح اور ان کے درمیان پردہ کرتی ہیں۔ ترک کرکے حیات کے چشمہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ اور روحانی مذاق کی امداد سے لغویات سے کنارہ کش ہو کر صداقت کو مضبوطی سے پکڑ لیتے ہیں۔ اسی طرح ہم یہ امید بھی رکھتے ہیں۔ کہ فلسطین کے عام لوگوں میں بھی کئی ایسے لوگ تھے۔ جو خدا کے کلام کو عبادت خانوں میں سن کر یا اپنے گھروں میں پڑھ کر اپنے استادوں کی بھاری اور بے شمار تشریحوں کو نظر انداز کر دیتے ہوں گے۔ اور گذشتہ زمانوں کے جلا ل یعنی پاکیزگی کی رونق اور خدا کے کمال کو دیکھتے ہوں گے۔ جن کے نظارے سے فقیہہ محروم تھے۔

لیکن فقیہہ بھی نوشتوں کی پیشن گوئیوں سے بے پروانہ تھے۔ وہ بھی ایک طرح ان کی چھان بین میں لگے ہوئے تھے۔ اور فریسیوں کی توبہ ایک خصوصیت ہی تھی۔ کہ وہ مسیح کے آنے کی امیدوں پر فریضتہ ہو رہے تھے۔ مگر قباحت یہ تھی کہ انہوں نے اپنی بے ڈھب تشریحوں سے نبیوں کے کلام پر پردہ ڈال رکھا تھا۔ اور آنے والے زمانہ یعنی مسیح کے عہد کی شان و شوکت اور جاہ جلال کی ایک فرضی تصویر اپنے قیاس کے مطابق کھینچ رکھی تھی۔ مسیح کو خدا کا بیٹا اور اس کے آنے کو خدا کی بادشاہت کا آغاز سمجھا کرتے تھے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس بات کے بھی معتقد تھے کہ کہ جب مسیح آئیگا۔ تو وہ بڑے بڑے معجزوں اور اپنی قدرت سے یہودی قوم کو غلامی کی قید سے آزاد کرکے دینوی عزت اور شوکت کے اعلیٰ درجہ تک پہنچائے گا اور اس امید کے نشے سے بھی مسرور ہو رہے تھے۔ کہ ہم جو چنی ہوئی قوم کے شریک ہیں، اس کی بادشاہی میں اعلیٰ منصبوں اور مرتبوں پر مامور کئے جائیں گے۔ بر کبھی نہ نہیں سوچتے تھے۔ کہ یہ بھی ضروری امر ہے۔ کہ اس کی ملاقات کے لئے ہماری زندگی میں باطنی تبدیلیاں پیدا ہوں اور اس کا سبب یہ تھا۔ کہ دنیاوی جلال کی جھلک نے پاکیزگی اور محبت کے روحانی عنصروں کو ان سے چھپا دیا تھا۔

جب اس قوم کے اصل مدعا یا انجام کے پورا ہونے کا زمانہ آیا تو یہودی تاریخ کی ایسی صورت تھی جیسی کہ بیا ن ہوئی اور اس صورت اس کام کو جسے مسیح موعود کو انجام دینا تھا۔ پیچ در پیچ الجھنوں سے بھر دیا۔ امید تو یہ ہوئی چاہےے تھی کہ جب مسیح آئے تو وہ تمام قوم کو گذشتہ نبیوں کے خیالوں اور روائتوں کے حقیقی معانی سے بھر پور پائے اور اسے اپنے تابع کرکے اس سے ایسی امداد حاصل کرے جو جوش اور تاثیر سے پُر ہو مگر ایسا نہ ہوا بلکہ برعکس اس کے یہ دیکھنے ہیں کہ جب وہ آیا اس وقت تمام قوم اپنے اعلیٰ تصورات کو کھو بیٹھی اور ان کے عوض ادنیٰ خیالات پیدا ہو گئے تھے۔ پس وہ ایک ایسی قوم کے عوض میں جو پاکیزگی سے بہرہ ور اور خدا کے مقرر کردہ انتظام کے مطابق دوسری قوموں کو برکت پہنچانے کے لئے تیار ہوتی او ر اس کی پیروی اختیار کرکے درجہ کمال تک پہنچتی اور پھر تما م دنیا پر روحانی فتح پانے میں اس کی مدد کرتی وہ ایسی قوم سے دوچار ہوا جس سے ان باتوں میں سے کسی کی امید نہیں کی جا سکتی تھی۔ لہذا اسے پہلے اپنے ہی ملک کی اصلاح کا بیڑا اٹھانا اور ان تعصبات کا نشانہ بننا پڑا جو سالہا سال کی پست حالی سے پیدا ہو گئے تھے۔