فصلِ اول

عدم ضرورتِ قرآن از روئے امور ِ اخلاقیہ

اس سے پیشتر ہم کسی نبی نوزاد کی ضرورت اور عدم ضرورت کا عموماً تذکرہ کر چکے ہیں۔اب مناسب ہے کہ جس خصوصیت کے لیے وہ عمومیت گویا تمہیداً اختیار کی گئی تھی ،وہ واضح کی جائے ۔تخصیص کا قرعہ بایں مو جب قرآن پر پڑتاہے کہ باوجود گی کتب انبیائے ملہم کے اس کا مصنف الہام کا دعویٰ کر کے اپنی تصنیف خلق اللہ کی ہدایت کے لیے پیش کرتا ہے۔لہٰذا ہم انصاف سے دریافت کرنا چاہتے ہیں اور کریں گے کہ کیا ضرورت تھی۔ضرورت تھی یا نہ تھی۔ اس تحقیقات میں لازم ہے کہ یہ امر ذہن نشین ہو کہ جب کسی مذہب کی اصلیت سے واقف ہو نے کی آرزو ہوتو فقط اس کے فروعات (فروع کی جمع۔جزئیات ۔غیر اہم امور) نو ایجاد اور بے ہودہ کو دیکھ کر پھولنا اور کہنا کہ وہ کتاب جس کی تقلید کے یہ یا وہ لوگ مدعی ہیں جھوٹی اور بے ہودہ ہے ،اس کتاب کی ماہیت حقیقی کی واقفی سے ہمیشہ محروم رہے گا،مثلاً دین عیسوی کو رومن کا تھلکوں وغیرہ کی ایجا د و ترمیم میں او ر زائد الغرض رسومات میں لپٹا ہو ا دیکھ کر کہنا کہ عیسوی مذہب بے ہودہ طریق ہے یا یہ کہ بائبل ایک ایسی کتاب ہو گی جو بے ہودگی سے پر ہواور یا اگر محمدی مذہب کی صرف خرابیوں کے سبب جو اس کے مقلدوں نے وارد کر لی ہیں، کوئی یہ گما ن کرے کہ یہ بڑاخراب مذہب ہے یا قرآن میں یوں اوروُوں (اِس طرح یا اُس طرح) ہو گا تو ایسے کم اندیش محققوں کو ہم بے خبر اور بے انصاف کہنے میں ذراتامل نہ کریں گے۔ ایسے شخصوں کو لازم ہے کہ اصل کتب کی طرف رجوع کریں اور ان کی عمدگی یا بے ہودگی سے استدلال پکڑیں۔اس قسم کے اتہام سے بری رہنے کی غرض سے ہم نے فقط بائبل اور قرآن ہی پر زور دیا ہے۔

پھر ہم نے کسی نبی کی ضرورت کی نسبت یہ بیان کیا تھا کہ یہ ضرورت، ضرورت پر موقوف ہے۔ اب ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی امر انبیائے سلف سے رہ گیا جو انسان کی دفعیہ(دفع کرنے کی تدبیر)حاجات کے لیے ضرورتھا تو محمدصاحب کی ضرورت تھی ۔دیا اگر ان سے کسی امر میں خطا ہو گئی ہو تو اس کی تصحیح کے لئے محمدصاحب کے آنے کی ضرورت کی گنجائش تھی ۔مگر بائبل میں نہ کوئی امر باقی رہ گیا اور نہ کسی امر میں خطا ہی ہوئی اس لئے قرآن کی ضرورت نہیں تھی ، محمدصاحب بے فائدہ نبی بنے۔

اس مضمون کے ضمن میں یہ بھی بیان ہو ا ہے کہ بہ لحاظ بت پرستی وغیرہ کےالہام کی ضرورت تھی۔مگر چونکہ بائبل مقدس میں ذات اور صفات ایزدی کے ایسےاظہار درج ہیں جو عقل کی ہر قسم کی آوارگی کے قلع قمع کے لیے مکتفی ہیں ۔لہٰذا اس بارے میں قرآن کی حاجت نہ تھی،غور کرو۔ جب احمق اپنے دل میں کہتا ہے کہ خدا نہیں تو خداوند یوں فرماتا ہے کہ ’’میں ہوں جو ہوں ‘‘میر ا نام ہے۔ جب کوئی فیلسوف اشیائے ذاتی کو ہر نتیجہ کا سبب بتا کر مسبب الاسباب کے وجود سے منکر ہونے پر آمادہ ہو تو ایسے بیدار مغز کی فہمائش (ہدایت ۔نصیحت)کے لئے بائبل سلسلہ اظہار الہٰی کا شروع ہی یوں کرتا ہے’’ خدا نے ابتدا میں زمیں و آسمان کوپیدا کیا‘‘ (پیدائش۱:۱)۔جب انسان علیٰ العموم اس مقنن قادر کی جگہ قوانین قدرت کو ماننے لگے او ر واجب الوجود کے عوض وجود ساختہ کو اور اس حی القیوم کے مقابل میں ہر جاندار مخلوق کو حق عبادت کا ادا کرنے لگے، تب الہام بائبل نے صاف صاف کھلا کھلی متنبہ کیا کہ تو اپنے لیے کوئی مورت یا کسی چیز کی صورت جو آسمان پر یا زمیں پر یا زمیں کے نیچے ہو مت بنا اور نہ ان کے آگے سجدہ کر کیونکہ میں غیور خدا ہوں(خروج۵،۴:۲۰) ۔ جب شریر شرارت میں زندگی گزارتے اور کہتے ہیں کہ کوئی نہیں دیکھتا ،کیے جاؤ تو الہام بائبل نے خدا کو حاضر وناظر بتایا ،جیسا ایک سو انتالیس زبور میں مرقوم ہے۔جب انسان بار گناہ سے ملول خاطر ہوتا ہے تو بائبل میں یہ تسلی موجود ہے کہ خاطر جمع رکھ ،ایمان لا،خدا محبت ہے۔جب شریر شرارت میں خوش ہوتے اور باز پرس کا خیال تک نہیں کرتے تو خداوند بائبل کے ذریعہ سے ایسوں کو اور (عبرت کے لیے سب کو) اُنہیں کے محاورات میں خوب طرح آگاہ کرتا ہے کہ حاکم الحاکمیں راستی سے دنیا کی عدالت کرے گا ،شریر گھمنڈی کو بھسم کر دے گا ۔جب کوئی خوش فہم گمان کرتا ہے کہ خدا نظر نہیں آتا،یہی موجوادت خدا ہے،اس میں حلول ہو رہا ہے،اس سے جدا نہیں تو بائبل صاف صاف منکشف کرتی ہیں کہ یہ موجودات اس کی دستکاری ہیں۔ اس نے اس کی بنا ڈالی۔یہ اس کی قدرت کا ظہور ہے۔ خدا روح ہے،ہیو لانی مادہ نہیں۔

ایڈیٹر صاحب صفات الہٰی کا بیان تو بائبل میں مثل سیلاب کے موج زن ہے تو کہاں تک یہ کلک (قلم)دوزبان صفات ایزدی کی نسبت اظہار بائبل کا بیان کرے ،اتنے ہی پر اکتفا کر۔ اصل مدعا کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے کہ وہ کون سی صفت باقی ہے جو بائبل میں نہیں حتٰی کہ اس کے انکشاف کے لیے قرآن کی ضرورت ہوئی، ایک بھی نہیں۔ مصنف قرآن خو د علم صفات الہٰی کے لیے اسی بائبل کا دین دار ہے ۔ان صفات کے قرآن میں پائے جانے کے سبب نہ تو وہ الہامی ٹھہرتا ہے اور نہ اس کی ضرورت لاحق تھی۔بغیر قرآن کے بائبل نے صفات الہٰی کا خوب چرچا کر رکھا تھا اور اب بھی کر رہی ہیں۔جن ملکوں کی آب و ہوا کا مزہ قرآن نے چکھا ہی نہیں، وہاں بائبل نے دیکھو ان صفات کے علم سے مجہول دلوں کو کیسا روشن کر دیا ہے۔لوجہاں قرآن پہنچا وہاں نہ تو بائبل کو بر طرف کیا اور نہ اس پر فضیلت دکھائی۔پس جس حال کہ نہ نقص نکالا،نہ فضیلت دکھائی(فضیلت کیا برابر بھی نہیں اترا) تو اس کی حاجت ہی کیا تھی۔ خوانخواہ الہام پر الہام کے کیا معنی،کچھ معنی نہیں،بے معنی خیال ہے۔

اس بات پر ناظرین اہل اسلام مطلقاً نازاں نہ ہوں کہ مسیحی کمال نادانی سے یسوع مسیح کو جو ایک مقبول پیغمبر تھے،خدا اور خدا کا بیٹا کہتے تھے اس لئے ایسے نبی کی ضرورت ہوئی کہ اس فرق سے لوگوں کو آگاہ کرے ۔ ایسے آگاہ کرنے والے کئی محمدصاحب سے پہلے بھی ہو گزرے تھے۔مگر حقیقت حال یہ ہے کہ مولف قرآن نے مسیح کی دو ذاتوں کا خیال نہ کیا اور یا کہ خیال کرنے کا ملکہ نہ تھا اور اس لئے اس کی انسانیت سے اس کی الوہیت پر حملہ کیا ۔چنانچہ لوازمات انسانی کو بار بار پیش کر کے اس کی الوہیت سے انکار کیا ،جیسے کھانا کھانا اور بی بی مریم سے تولد ہونا۔ بائبل خود ہی اس قسم کی باتوں سے اس کی انسانیت کا کامل ثبوت پہنچاتی ہے اور مسیح خود اپنے تیئں ابن آدم کہتا ہے۔ مگر الہٰی لوازمات کا بھی بائبل بار بار ذکر کرتی ہےجو اس کی الوہیت پر بے کم و کاست(بالکل درست۔کمی بیشی کے بغیر) دال کرتے ہیں۔پہلے الہام کو نہ سمجھنا اور عدم واقفیت کے سبب مسیح کی الوہیت سے انکار کرنا بھولنے کا موجب نہیں۔بلا سمجھے کسی کلام پر کلام کرنا ناظرین خود ہی کہیں کہ نادانی ہے یا کچھ اور ،اورکس کے ذمے لگتی ہے۔یونی ٹیری ان (توحید پرست)بھی بائبل سے انسانی عرضات مسیح کی الوہیت کے خلاف پیش کر کے نازاں ہوتے ہیں ۔ محمدصاحب نے ان سے کچھ بڑھ کر نہیں کیا ۔ہمیں یقین ہے کہ اگر زیادہ دریافت کرتے تو واقف ہوتے کہ انجیل اس وجود جسمانی کو جو تولد ہوا، وجود الہٰی نہیں کہتی۔ہر د و میں صریح امتیاز کرتی ہے۔پس ایسی آگاہی کی ہر گز ضرورت نہ تھی۔

پھر انکار تثلیث بھی عبث ہے۔ محمدصاحب نے بائبل کی تثلیث سے انکار نہیں کیااو ر جس تثلیث فی التوحید کا حضرت نے انکار کیا بائبل خود پیشتر ہی اس کی مبطل ہے یعنی مریم،عیسیٰ(ابن مریم) اور خدا۔یہ بدعتیوں کی تثلیث تھی۔وہی اس کے موجد تھے۔بائبل ایسی تثلیث کی روادار نہیں اور وہ تثلیث جس کا بائبل اظہار کرتی ہے محمدصاحب صاحبِ کے علم سے خارج رہی۔اس کا قرآن میں کہیں ذکر نہیں۔اب جس حال کہ بعض امور کی نسبت بے خبر ہے اور بعض کی نسبت ساکت ،تو ہادی ثانی اور مصحح (صحیح کرنے والا)کن باتوں کے تھے ۔یہ باتیں تو ان کی عدم ضرورت کی عین مصدق ہیں۔

پھر اس بات پر بھی افتخار(فخر) بے جا ہی ہے کہ محمدصاحب علم توحید بحال کرنے آئے تھے۔ہم کہتے ہیں کہ اگر بائبل اس امر میں قاصر ہوتی تو آپ کی ضرورت لاحق تھی، لیکن چونکہ یہودی اور عیسائی توحید کو دلی تعویذ کئے بیٹھے تھے اور ان کی کتب الہامیہ علم توحید کے انکشاف سے بھر پور تھیں۔ لہٰذا اس بحال کرنے کے کیامعنی۔ توضیح کی خاطر ہم چند مقامات شان توحید میں نقل کئے دیتے ہیں۔۲۔سموئیل ۳۲:۲۲ میں ہے ’’کیونکہ خُداوند کےسوا اَور کَون خُدا ہے؟اورہمارے خُدا کو چھوڑکراَورکون چٹان ہے ؟‘‘ استثنا ۴:۶میں لکھا ہے ’’ سُن اے اسرائیل! خُداوند ہمارا خداایک ہی خُداوند ہے‘‘۔ اس قول کا خداوند عیسیٰ نے بھی حوالہ دیا(مرقس۳۲:۱۲) ۔پھر پہلے کرنتھیوں۶:۸ میں موجود ہے کہ ہمارا ایک خدا ہے جو باپ ہے،الخ(تمام۔جب کسی عبارت کا تھوڑا حصہ لکھ کر باقی بخوف طوالت نہیں لکھتے تو الخ لکھ دیتے ہیں)۔ اگر بائبل اظہار توحید سے بیگانہ ہوتی تو قرآن لاریب(بلاشبہ) یگانہ ٹھہرتا۔ مگر اس حال میں تو اس کا وہی حال ہے جو ہم بیان کر رہے ہیں ۔پس اظہار صفات الہٰی میں قرآن بائبل کو برطرف نہیں کرتا اور نہ اس پر فضیلت دکھاتا ہے۔بائبل اپنے آپ میں کامل ہے اور کسی صفت کے بیان میں قاصر نہ تھی جس سے الہام مزید کی ضرورت ہوتی۔پس بایں جہت قرآن کی ضرورت نہ تھی ۔اب ذیل میں ہم سلسلہ وار بائبل اور قرآن کے امور اخلاقیہ کو پیش کرتے ہیں جس سے معلوم ہو گا کہ ایک دوسرے سے کیا نسبت ہے اور ایک کے مقابل میں دوسرے کی کیا حیثیت اور ضرورت ہے۔

امور اخلاقیہ بائبل مقدس امور اخلاقیہ قرآن مجید
۱۔انسانوں کے فرائض خدا کی طرف
بت پرستی کی ممانعت
استثنا ۱۴:۶ تُم اورمعبودوں کی یعنی اُن قوموں کے معبودوں کی جوتمہارےآس پاس رہتی ہیں پیروی نہ کرنا۔ سورہ بقر
آیت۶۶
اور بعض لوگ ہیں جو پکڑتے ہیں اللہ کے سوا اوروں کو دوست محبت رکھتے ہیں ان کی جیسے محبت اللہ کی اور ایمان والوں کو اس سے زیادہ محبت ہے اللہ کی اور کبھی دیکھیں بے انصاف اس وقت کو جب دیکھیں گے عذاب کہ زور سارا اللہ کو ہے اور اللہ کی مار سخت ہے ۔
استثنا۲۸:۱۱ اورلعنت اُس وقت جب تُم خُداوند اپنے خُدا کی فرمانبرداری نہ کرو اور اُس راہ کو جس کی بابت مَیں آج تُم کو حکم دیتا ہوں چھوڑ کر اَور معبودوں کی پیرو ی کروجن سے تُم اب تک واقف نہیں۔   تو نے نہ دیکھے جن کو ملا ہے کچھ حصہ کتاب کامانتے ہیں بتوں کو اور شیطانوں کوا ور کہتے ہیں کافروں کو کہ انہوں نے زیادہ پائی ہے مسلمانوں سے راہ۔
یرمیاہ۶:۲۵ اور غَیر معبُودوں کی پیروی نہ کرو کہ اُن کی عبادت و پرستش کرو اور اپنے ہاتھوں کے کاموں سے مُجھے غضبناک نہ کرو اور مَیں تُم کو کُچھ ضرر نہ پُہنچاؤں گا۔ سورہ انعام
آیت۱۰۲
وہی ہیں جن کو لعنت کی اللہ نے۔یہ اللہ ہے رب تمہارا اس کے سوا کسی کو بندگی نہیں ۔ کن کو شریک بتاتے ہیں جو پیدا نہ کریں ایک چیز اور آپ پید اہوتے ہیں اور نہ کر سکتے ہیں ان کی مدد اور نہ اپنی مدد کریں؟ اور اگر ان کو پکارو راہ پر نہ چلیں تمہاری پکار پر۔
زبور۳:۱۱۵۔۸ ہمارا خُدا تو آسمان پر ہے۔ اُس نے جو کچھ چاہا وہی کیا۔اُن کے بُت چاندی اور سونا ہیں یعنی آدمی کی دستکاری۔ اُن کے منہ ہیں پر وہ بولتے نہیں آنکھیں ہیں پر وہ دیکھتے نہیں۔ اُن کے کان ہیں پر وہ سُنتے نہیں۔ ناک ہیں پر وہ سونگھتے نہیں۔اُن کے ہاتھ ہیں پر وہ چھوتےنہیں۔ پاؤں ہیں پر وہ چلتے نہیں اور اُن کے گلے سے آواز نہیں نکلتی۔اُن کے بنانے والے اُن ہی کی مانند ہو جائیں گے۔ بلکہ وہ سب جو اُن پر بھروسا رکھتے ہیں۔   برابر ہے تم کو کہ ان کو پکارو یا چپکے رہو۔جن کو تم پکارتے ہو اللہ کے سوائے بندے ہیں تم جیسے بھلا پکارو ان کو تو چاہیئے قبول کریں تمہارا پکارنا اگر تم سچے ہو۔ کیا ان کے پاؤں ہیں جس سے چلتے ہیں ؟یا ان کے ہاتھ ہیں جس سے پکڑتے ہیں؟ یا ان کی آنکھیں ہیں جس سے دیکھتے ہیں ؟ یا ان کے کان ہیں جس سے سنتے ہیں ،الخ ۔
جس حال کہ بائبل مقدس میں یہ باتیں موجود تھیں تو اس تکرار قرآنی کی کیا حاجت تھی۔
عباد ت الہٰی
استثنا۱۳:۱۱۔۱۷ اوراگرتُم میرے حکموں کو جوآج مَیں تُم کو دیتا ہُوں دِل لگا کر سُنو اور خُداونداپنے خُدا سے محبّت رکھّو اوراپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان سے اُس کی بندگی کرو۔تو مَیں تُمہارے مُلک میں عَین وقت پر پہلا اور پچھلامیں ہ برساؤں گا تاکہ تُو اپنا غلّہ اور مَے اور تیل جمع کرسکے۔ اور مَیں تیرے چوپایوں کے لیے میدان میں گھاس پیدا کروں گا اورتُو کھائے گا اور سیر ہوگا۔سوتُم خبردار رہنا تا اَیسا نہ ہو کہ تُمہارے دِل دھوکا کھائیں اور تُم بہک کر اور معبودوں کی عبادت اورپرستش کرنے لگو۔اورخُداوند کا غضب تُم پر بھڑکے اور وہ آسمان کو بندکردے تاکہ مینہ نہ برسے اور زمیں میں کچھ پیداوارنہ ہو اورتُم اِس اچھّے مُلک سے جو خُداوند تُم کو دیتا ہے جلد فنا ہوجاؤ۔ سورہ نسا
آیت۳۵
اور بندگی کرو اللہ کی۔
استثنا۱۵:۳۰۔۱۶ دیکھ مَیں نے آج کے دِن زِندگی اور بھلائی کو اور مَوت اور بُرائی کو تیرے آگے رکھّا ہے۔ کیونکہ مَیں آج کے دِن تجھ کو حکم دیتا ہوں کہ تُو خُداوند اپنے خُدا سے محبّت رکھّے،الخ۔   اور تھام رکھ آپ کو ان کے ساتھ جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح اور شام ،الخ ۔
زبور۱۱:۴۵ اور بادشاہ تیرے حُسن کا مشتاق ہو گا کیونکہ وہ تیرا خداوند ہے تُو اُسے سجدہ کر۔ سورہ یس
آیت۲۱
اور مجھ کو کیا ہے کہ بندگی نہ کروں اس کی جس نے مجھ کو بنایا؟ اور اس کی طرف پھر جاؤ۔
زبور۷،۶:۹۵ آؤ ہم جھکیں اور سجدہ کریں اور اپنے خالق خُداوندکےحضور گھٹنےٹیکیں۔کیونکہ وہ ہمارا خُداہے اور ہم اُس کی چراگاہ کے لوگ اور اُس کے ہاتھ کی بھیڑیں ہیں۔ کاشکہ آج کے دِن تُم اُس کی آواز سُنتے۔   اللہ اس کےسوا کسی کی بندگی نہیں ۔
زبور۷:۹۷ کھدی ہوئی مُورتوں کے سب پُوجنے والے جو بُتوں پر فخر کرتے ہیں شرمِندہ ہوں۔ اَے معبودو! سب اُس کو سجدہ کرو۔زبور کی کل کتاب عبادت الہٰی کے نصائح سے پُر ہے۔ہم صرف انہیں جوابوں پر اکتفا کریں گے۔ سور ہ انعام
آیت۱۰۲
یہ اللہ ہے رب تمہارا اس کے سوا کسی کی بندگی نہیں بنانے والا ہر چیز کا۔سو اس کی بندگی کرو۔
خد ا سے محبت رکھنا
استثنا۵:۶ تُو اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے خُداوند اپنے خُداسے محبّت رکھ۔ اگر یہ تعلیم قرآن میں کہیں ہے یا ایسی تاکید و تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہے جیسی بائبل مقدس میں موجود ہے تو اس امر سے مطلع کیا جائے ،قرنہ قرآن شریف کے قاصر ہونے میں کلام ہی نہیں ۔(دیکھو ضمیمہ فصل ہذا اور فصل ہفتم)
زبور۲۳:۳۱ خُداوند سے مُحبّت رکھّو اَے اُس کے سب مُقدّسو! خُداوند اِیمانداروں کو سلامت رکھتا ہے اور مغرُوروں کو خُوب ہی بدلہ دیتا ہے۔
استثنا۱۲:۱۰ پس اَے اِسرائیل !خُداوند تیرا خُدا تجھ سے اِس کے سِوا اور کیا چاہتا ہے کہ تُو خُداوند اپنے خُدا کا خَوف مانے اور اُس کی سب راہوں پر چلے اور اُس سے محبّت رکھّے اور اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان سے خُداوند اپنے خُدا کی بندگی کرے۔

یاد رہے کہ شرع اخلاقی یعنی دس احکام جو کوہ سینا پر حق تعالیٰ نے نہایت رعب وداب کے ساتھ فرمائے، ان کا پہلا حصہ ان سب باتوں کو شامل کرتا ہے جن کااب تک ہم نے عہد عتیق سے اقتبا س کیا ۔کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہمارے جوابوں سے اس میں باقی کچھ نہیں رہا ۔اس قسم کی باتوں سے حکم، احکام اور نصائح سے وہ تو معمور ہے۔ہم نے توصرف بانگی (نمونہ) دکھائی ہے اور پھر یاد رہے کہ عہد جدید امور ہٰذا کی اور بھی زیادہ تاکید کے ساتھ شرح کرتا ہے۔خدا محبت ہے۔ خدا کو سارے دل و جان اور زور سے پیار کر۔خدا روح ہے۔روح اور راستی سے اس کی بندگی کر۔

اےاہل انصاف اب کہو کیا ان امور کی نسبت بائبل میں کچھ کمی تھی ،نقص تھا یا کیا تھا جو لوگ قرآن کی ضرورت درمیان میں لاتے ہیں۔ کسی امر میں بھی قرآن بائبل پر ترجیح پاتا ہے؟ وہی باتیں ، وہی تعلیم ہے ۔قرآن نے کچھ نقصان نہیں بتایا اور نہ فضلیت دکھائی تو آیا کیوں ؟ضرروت کیا تھی؟ عدم ضرورت اسی کو کہتے ہیں اور اسی طرح عائد ہو تی ہے۔

۲۔ انسانوں کے فرائض باہمی
بائبل مقدس قرآن مجید
خون کرنا
استثنا ۱۷:۵ تو خُون نہ کرنا۔ سورہ بنی
اسرائیل
آیات۳۵،۳۳
اور نہ مارڈالو اپنی اولاد ڈر سےمفلسی کے ہم روزی دیتے ہیں ان کو اور تم کو بے شک ان کا مارنا بڑی چوک ہے اور نہ مارو جان جو منع کی اللہ نےمگر حق پر اور جو مارا گیا ظلم سے تو دیا ہم نے اس کے وارث کو زورسو اب ہاتھ نہ چھوڑے خون پر اس کومدد ہوتی ہے۔
متی ۲۲،۲۱:۵ تُم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا تھا کہ خُون نہ کرنا اور جو کوئی خُون کرے گا وہ عدالت کی سزا کے لائِق ہوگا۔لیکن میں تُم سے یہ کہتا ہُوں کہ جو کوئی اپنے بھائی پر غصّے ہو گا وہ عدالت کی سزا کے لائق ہو گا، الخ۔   اور مسلمان کا کام نہیں کہ مارڈالے مسلمان کو مگر چوک کر۔اور جو کوئی مارے مسلمان کو قصد کر کے تو اس کی سزا دوزخ ہے۔پڑا رہے اسی میں اور اللہ کا اس پر غضب ہو ا اور اس کو لعنت کی اور اس کے واسطے تیار کیا بڑا عذاب۔
۱۔یوحنا۱۵:۳ جو کوئی اپنے بھائی سے عداوت رکھتا ہے وہ خُونی ہے ا و ر تُم جانتے ہو کہ کسی خُونی میں ہمیشہ کی زِندگی مَوجُود نہیں رہتی۔  
چوری کرنا
خروج۱۵:۲۰ تُوچوری نہ کرنا۔ سورہ انفال
آیت ۲۷
اے ایمان والو چوری نہ کرو اللہ سےاور رسول سے یا چوری کرو آپس کی امانتوں میں جان کر۔
زنا کرنا
خروج۱۴:۲۰ تُو زِنا نہ کرنا۔ سورہ نسا
آیت۱۴
اور جو کوئی بدکاری کرے تمہاری عورتوں میں تو شایدلاؤ ان پر چار مرد اپنوں میں سے۔پھر اگروہ گواہی دیں تو ان کو بند رکھو گھروں میں جب تک پھر لے ان کو موت یا کردے اللہ ان کی کچھ راہ۔
استثنا۱۷:۳۳ اسرائیلی لڑکیوں میں کوئی فاحِشہ نہ ہو اور نہ اِسرائیلی لڑکوں میں کوئی لُوطی ہو۔
امثال ۲۱،۲۰:۵ اَے میرے بیٹے! تجھے بیگانہ عورت کیوں فریفتہ کرے اور تُو غیر عورت سے کیوں ہم آغوش ہو ؟کیونکہ اِنسان کی راہیں خُداوند کی آنکھوں کے سامنے ہیں اور وہی اُس کے سب راستوں کو ہموار بناتاہے۔
متی۲۸:۵ لیکن مَیں تُم سے یہ کہتا ہُوں کہ جِس کسی نے بُری خواہش سے کسی عورت پر نِگاہ کی وہ اپنے دِل میں اُس کے ساتھ زِنا کر چُکا۔
جھوٹ اور فریب
احبار۱۱:۱۹ تُم چوری نہ کرنا اور نہ دغا دینا اورنہ ایک دُوسرےسےجھوٹ بولنا۔   اور مت جھگڑو ان کی طرف سے جو اپنے جی میں دغا رکھتے ہیں ۔اللہ کو خوش نہیں آتا جو کوئی ہو دغاباز گناہ گار۔
احبار۳۵:۱۹ مَیں خُداوندتمہارا خُداہُوں۔ تم اِنصاف اور پَیمایش اور وزن اور پَیمانہ میں ناراستی نہ کرنا ۔
احبار۱۳:۱۹ تُو اپنے پڑوسی پر ظُلم نہ کرنا نہ اُسے لُوٹنا۔ مزدُور کی مزدُوری تیرے پاس ساری رات صُبح تک رہنے نہ پائے۔
افسیوں ۲۵:۴ پس جھوٹ بولنا چھوڑ کر ہر ایک شخص اپنے پڑوسی سے سچ بولے کیونکہ ہم آپس میں ایک دُوسرے کے عُضو ہیں۔ سور ہ احزاب
آیت۵۸
اور جو لوگ تہمت لگاتے ہیں مسلمان مردوں کو اور مسلمان عورتوں کو بن کئے کام کے تو اٹھایا انہوں نے بوجھ جھوٹ کا اور صریح گناہ کا۔
باہمی محبت
احبار۱۸،۱۷:۱۹ تُو اپنے دِل میں اپنے بھائی سے بغض نہ رکھنا ۔۔۔۔۔اپنے ہمسایہ سے اپنی مانند محبّت کرنا۔ مَیں خُداوند ہُوں۔   قرآن میں ندارد ہے۔اگر ہے تو بتایا جا ئے درج کردیں گے۔(دیکھو بفصل ہٰذا اور فصل ہفتم)
متی ۴۴،۴۳:۵ تُم سُن چُکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ اپنے پڑوسی سے محبّت رکھ اور اپنے دُشمن سے عداوت۔ لیکن مَیں تُم سے یہ کہتا ہُوں کہ اپنے دشمنوں سے محبّت رکھّو اور اپنے ستانے والوں کے لِئے دُعا کرو۔
اس تعلیم سے انجیل پُر ہے کہاں تک اقتباس کریں۔
انتقام لینا
امثال ۳۲:۶ جو قہر کرنے میں دِھیما ہے پہلوان سے بہِتر ہے اور وہ جو اپنی رُوح پر ضابِط ہے اُس سے جو شہر کو لے لیتا ہے سورہ حج
آیت۶۱
یہ سن چکے ۔اور جس نے بدلہ دیا جیسا اس سے کیا تھا پھر اس پر کوئی زیادتی کرے تو البتہ اس کی مدد کرے گا اللہ۔
امثال ۱۱:۱۹ آدمی کی تمیز اُس کو قہر کرنے میں دھیما بناتی ہے۔ اور خطا سے درگزر کرنے میں اُس کی شان ہے۔
متی ۳۹،۳۸:۵ تم سُن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت۔ لیکن مَیں تُم سے یہ کہتاہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا جو کوئی تیرے دہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اُس کی طرف پھیر دے۔ سورہ بقر
آیت۱۹۴
پھر جس نے تم پر زیادتی کی تم اس پر زیادتی کرو جیسے اس نے زیادتی کی تم پر اور اگر بدلہ تو بدلہ دو اس قدر جتنی تم کو تکلیف پہنچی اور اگر صبر کرو تو یہ بہتر ہے صبروالوں کو۔
امثال ۲۹:۲۴؛
۱۔تھسل۵:۵
یوں نہ کہہ مَیں اُس سے وَیسا ہی کرُوں گا جیسا اُس نے مجھ سے کیا۔ مَیں اُس آدمی سے اُس کے کام کے مُطابِق سُلُوک کروں گا۔
رومیوں
۱۹:۱۲۔۲۰
اے عزیزو! اپنا اِنتقام نہ لو بلکہ غضب کو مَوقع دو کیونکہ یہ لکھا ہے کہ خُداوند فرماتا ہے اِنتقام لینا میرا کام ہے۔ بدلہ مَیں ہی دُوں گا۔بلکہ اگر تیرا دُشمن بھُوکا ہو تو اُس کو کھانا کھِلا۔ اگرپیاسا ہو تو اُسے پانی پِلا کیونکہ اَیسا کرنے سے تُواُس کے سر پر آگ کے انگاروں کا ڈھیر لگائے گا۔ سورہ نحل
۱۲۸،۱۲۷
اور تو صبر کر اور تجھ سے صبر ہوسکےاللہ کی مدد سے اور ان پر غم نہ کھا اور نہ خفا رہو ان کے فریب سے۔
کلسیوں
۱۳،۱۲:۳
پس خُدا کے برگُزیدوں کی طرح جو پاک اور عزیز ہیں دردمندی اور مہربانی اور فروتنی اور حلم اورتحمل کا لباس پہنو۔اگر کسی کو دُوسرے کی شکایت ہو تو ایک دوسرے کی برداشت کرے اور ایک دُوسرے کے قصُور مُعاف کرے۔ جیسے خُداوند نے تُمہارے قُصور معاف کئے ویسے ہی تُم بھی کرو۔

اےناظرین بائبل مقدس ان احکام اور شریعتوں سے معمور ہے ۔تو کیا محمدی ہم سے بائبل رکھوا کر اس کے عوض میں یہ قرآن پکڑاتے ہیں۔ اگر دونوں کا پورا پورا مقابلہ کیا جائے تو منصف مزاج قرآن کی تلاوت کا خیال تک نہ کریں ۔ہم نے تو آپ کو تھوڑے ہی میں دکھادیا کہ قرآن مجید کی مطلق ضرورت نہ تھی۔قرآن میں کون سی بات متعلق اخلاق کے بائبل سے بڑھ کر بیان کی گئی ہے۔ کون سا نقص نکالا، کس امر اخلاقیہ کو قاصر ٹھہرایا،کوئی نہیں ، کسی ایک کو بھی نہیں۔ اکثر انہیں قدیم احکام کی نقل کی ہے اور بعض امور میں خود ہی قاصر ہے۔لہٰذا اس کی ضرورت کا خیال تک نہ کرنا چاہیئے، وہ ایک فضول کتاب ہے۔

 

ضمیمہ نمبر ۱- فصل اول

 

اخبار مہر درخشاں دہلی مطبوعہ۲۱ جون۱۸۸۰ء میں امام فن مناظرہ اہل کتاب سید ناصر الدین محمد ابو المنصور نے کم ترین کے مسلسل مضامیں بعنوان قرآن کی عدم ضرورت کے نمبر ۲ مطبوعہ دہم جون ۱۸۸۰ ءپر بطور جواب کے کچھ لکھا تھا۔ مولوی صاحب کے جواب پر واجبی نظر ثانی نذر ناظرین کی گئی تھی۔

قَولُہ‘۔ صفحہ۱۹۰ میں پادری صاحب فرماتے ہیں کہ خد ا سے محبت رکھنا کہیں قرآن میں نہیں آیا، اس وجہ سے قرآن کے قاصر ہونے میں کلام نہیں۔ناظرین اس صفحہ کو پھر دیکھیں اور معلو م کریں کہ ہم نے کیا لکھا ہے یعنی اگر یہ تعلیم قرآن میں کہیں موضوع ہے یا ایسی تاکید اور تفصیل کے ساتھ بیان ہو ئی ہے جیسی بائبل مقدس میں موجود ہے تو اس امر سے مطلع کیاجائے،ورنہ قرآن کے قاصر ہونے میں کلام ہی نہیں۔مولوی صاحب نے تاکید اورتفصیل تو نہ دکھائی مگر اس آیت کا حوالہ دیا ہے جو ہم نے صفحہ ۱۸۹ میں کالم قرآنی کے شروع ہی میں لکھا ہےاور نیز سورۂ عمران رکوع ۴ کا حوالہ دیا ہے یعنی اگر تم محبت رکھتے اللہ کی تو میری راہ چلو۔واضح ہو کہ ان آیات سے ہمارا مدعا ضائع نہیں ہوتا، بائبل مقدس میں یہ آیات عدم ضرورت کی حیثیت رکھتی ہیں۔پھر اگر اسی قدر بیان پُر زور ہے تو بھی بائبل کے حضور قاصر ہی ہیں۔بائبل میں یہ مقدم تعلیم ہے مگر قرآن میں پایہ تقدیم (مقدم سمجھنا۔ترجیح ) پر نہیں ہے،ایک سرسری ذکر ہے۔

قَولُہ‘۔ صفحہ ۱۹۱ میں بھی پادری صاحب فرماتے ہیں کہ باہمی محبت کا ذکر قرآن میں ندارد(نہیں ۔غیر حاضر) ہے۔ یہاں بھی پادری صاحب دھوکا کھا گئے۔قرآن کی سورہ شوریٰ رکوع۳ میں باہمی محبت کا بھی حکم ہے یعنی قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ ۔یہ آیت جس کا مولوی صاحب حوالہ دیتے ہیں یہ معنی رکھتی ہے یعنی تو کہہ میں مانگتا نہیں تم سے اس پر کچھ نیک مگر دوستی چاہیئے ناتے میں۔سیل صاحب میرے ناتے میں ترجمہ کرتے ہیں۔ارے صاحب کہاں ناتے سے دوستی اور کہاں پڑوسی سے دوستی اور دشمنوں سے محبت اور لعنت کنندوں کے لئے برکت اور کینہ ور سے نیک سلوک اور ستم گر کے لئے دعائے خیر۔جب تک یہ باتیں نہ ہوں باہمی محبت ہر ایک سے (نہ فقط ناتے سے ) محال ہے۔ بائبل باہمی محبت میں ناتے کی قید نہیں لگاتی کُل کے ساتھ یکساں فرض ٹھہراتی ہے۔اس لئے ہمیں افسوس ہے کہ مولوی صاحب کا یہ چیدہ حوالہ باہمی محبت میں داخل ہونے کے لائق نہیں۔پھر جب سورہ بقر کے رکوع۲۴ آیت ۱۹۴ کا خیال آتا ہے اور جس کا حوالہ ہم انتقام لینے کے بارے میں دے چکے ہیں یعنی ’’جس نے تم پر زیادتی کی تم اس پر زیادتی کرو جیسی اس نے زیادتی کی تم پر‘‘ ،قرآن میں باہمی محبت کو ندارد کہنے میں تامل نہیں ہے۔پس صاحب دھوکا کم ترین نے کھایا یا قرآن والے نے جسے ایک موقع کی کہی ہوئی دوسرے موقع پر یا د ہی نہیں رہتی ۔ آپ کی ان باتوں سے بھی قرآن کی عدم ضرورت ظاہر ہے۔

قَولُہ‘۔ اب اس کا جواب سنو جو کہتے ہو کہ منصف مزاج قرآن کی تلاوت کا خیال تک نہ کریں ، الخ۔ اگرقرآن میں نیک تعلیمات بائبل سے کم بھی ہوتیں تب بھی جبکہ قرآن میں تحریف و تبدل کا کسی کو گمان تک نہیں (رسالہ تحریف قرآن طبع دوم مصنف ماسٹر رام چندر صاحب دیکھنا چاہیئے)۔پس ایسی کتاب کو چھوڑ کر ان کتابوں کی تلاوت کرنا جن میں تحریف و تبدل کا بقول علمائے اہل کتاب پایان تک نہیں ہے،کوئی مصنف مزاج تجویز نہ کرے گا۔

تعجب ہے کہ وہ کتابیں محرف ہو کر پھر بھی تعلیمات میں قرآن سے بدرجہ اولیٰ ہوں۔اس حال میں قرآن کی کیا حیثیت ٹھہری کہ ایسی کتابوں کے مقابل میں بھی عدم ضرورت سے موصوف ہے۔اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ نیک تعلیمات میں تحریف و تبدیل نہیں ہوئی اور تحریف کا دعویٰ تو علمائے مسیحی خصوصاً ڈاکٹرفنڈر صاحب نے مردود ثابت کر دیا ہے۔ لیکن اگر اسے قائم کرنے کی آپ کے پاس کوئی نئی طرز ہو تو کا ہیکو(کا ہے کو۔کس لئے) اور کس وقت کے لئے چھپا رکھی ہے۔ ابھی شاید زندگی کے کچھ دن باقی ہیں ان میں اس کی نسبت ہی تسلی کرو اور تلاوت قرآن کا خیال بہر صورت متروک کرواور بائبل مقدس کو جو نیک تعلیم اور طریق الحیات سے پُر ہے دل سے تسلیم کرو۔ یہ بھی خیال رہے کہ قرآن کی عدم ضرورت سے کسی طرح رہائی نہیں ہے۔چنانچہ آپ کے جوابوں سے بھی یہی مشرح (واضح )ہے۔

 

ضمیمہ نمبر ۲- فصل اول

 

اخبار منشو ر محمدی مطبوعہ ۱۵ شعبان ۱۲۹۷ ہجری نمبر ۲۳ جلد ۹ میں حافظ عبدا لرحیم صاحب نے بندہ کی تحریر پراپنی دانست میں خداسے محبت رکھنے اور انسان کی باہمی محبت کی نسبت چند نسخے لکھے ہیں۔ آپ کی ابتدائی بکواس سے طرح دے کے اصل مطلب کی طرف رجوع کرنا انسب ہے۔ ہمارے نزدیک ان نسخوں کی رو سے بھی قرآن کی عدم ضرورت میں مطلق کسر نہیں آتی اور آپ نے پادر ی صاحب کی خاطر خدا کی محبت(خدا سے محبت رکھنے ) کی نسبت کئی ایک نسخے لکھے ہیں۔ بندہ نہایت مشکور ہے مگر افسوس ہے کہ نسخے مجرب(آزمودہ) نہیں۔

قَولُہ‘۔ (پہلا نسخہ) قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ ۔ کہہ د ے اے نبی صاحب اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو میری تابع فرمانی کرو۔ خدا تم کو دوست رکھے گا(سورہ عمران آیت۳۱)۔واضح رہے کہ خدا سے محبت رکھنا کسی انقیادی (مطیع ہونا ۔فرماں برداری) امر سے مقید نہ ہونا چاہیئے۔خدا سے محبت رکھنا سرشت گبدوں(گبد۔بےوقوف،کم عقل) لحاظ کسی محض انسان یا رسول بھیا ئے انسان پر واجب ہے کیا اگر محمدصاحب کی فرماں برداری نہ کی جائے تو خدا سے محبت نہیں رکھ سکتے ۔یہ کیا بات ہے۔پس یہ مشروط محبت بائبل کے مقابل میں قاصر ہے جو تصریحاً فرماتی ہے کہ’’۔۔۔خُداونداپنے خُدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبّت رکھ۔ بڑا اور پہلا حکم یہی ہے ‘‘ (متی ۳۸،۳۷:۲۲)۔

پھر یاد رہے کہ جو نتیجہ حافظ صاحب اس آیت قرآنی سے پیش کرتے ہیں وہ ہمارے مدعا سے خارج ہے ۔چنانچہ آپ لکھتےہیں کہ اگر پادر ی صاحب بھی چاہیں کہ خدا مجھ کو دوست رکھے تو ہمارے پیغمبر اسلام کی فرماں برداری کریں ۔ ہماری غرض یہ نہ تھی کہ خدا انسان سے محبت رکھے یا نہ رکھے مگر یہ کہ انسان خدا سے محبت رکھے ۔پس آپ کا نتیجہ غیر ہے اور پھر چونکہ خداوند مسیح محمدصاحب سے بدرجہ ہااکمل اور افضل ہے ،لہٰذا پیغمبر اسلام کی تابع داری عدم ضرورت میں داخل ہے۔ پس دیکھئے آپ کےپہلے ہی نسخہ کا ہر جزو غیر مجرب ہے۔

قَولُہ‘۔ (دوسرانسخہ) فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَن يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ ۔ اس برآمدے میں وہ لوگ رہتے ہیں جو پاک ہونے کو دوست رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پا ک رہنے والو ں کو دوست رکھتا ہے(سورہ توبہ آیت ۱۰۸)۔پادری صاحب کو بھی مناسب ہے کہ آب دست ( استنجا۔طہارعت) و غسل جنابت (ناپاکی) وغیرہ کر کے پاک و صاف رہا کریں، ورنہ خدا کی دوستی سے محروم رہیں گے ۔ آپ کے اس حوالہ سے تو کچھ اورہی حاصل ہے، نہ وہ بات جس کے آپ ساعی ہیں۔اول ، اس میں یہ مصرح نہیں کہ انسان خدا سے محبت رکھے ،مگر یہ کہ خدا ایسوں تیسوں کو دوست رکھتا ہے ۔دوم ،یہ کہ وہ پاکیزگی جس کا خدا دوست ہے آب دست و غسل جنابت ہے۔ صاحب من ایسی پاکیزگی پر تو آپ جانتے ہوں گے کہ ہنود محمدصاحب سے بڑھ کر زور دیتے ہیں اور اَور ملکوں میں بھی یہ دستور پا ک ہو نے کا تھا تو اس حالت میں وہ لوگ قرآن کی عدم ضرورت کے مضبوط مدعی ہو سکتے ہیں۔مگر یہ جسمانی پاکیزگی ہے ،خدا دلی طہارت کو دوست رکھتا ہے ۔کہاں بائبل مقدس کا یہ فرمان عمیم(سب پر حاوی۔عام) کہ’’ خداوند کے پہاڑ پر کون چڑھ سکتا ہے اور اس کے مکان مقدس پر کون کھڑا رہ سکتا ہے۔وہی جس کے ہاتھ صاف ہیں اور جس کا دل پاک ہے‘‘ (زبور ۴،۳:۲۴)،پاکیزگی کی پیروی کرو جس کے بغیر خداوند کو کوئی نہ دیکھے گا (متی ۸:۵؛عبرانیوں ۱۴:۱۲) اور کہاں قرآن کا فرمان آب دست اور غسل جنابت جسے موجب حب یزدانی ٹھہرایا ہے ۔ارے صاحب طہارت دلی اور جسمانی میں امتیاز کر کے انصاف سے کہیے کہ اس تذکرہ کی رو سے بھی ( اِلاّ جو ہماری بحث سے خارج ہے) بائبل قرآن کو فضول ٹھہراتی ہے یا نہیں ۔مکرر(دوبارہ ،پھر) اس بات کا خیال رکھنا کہ آپ کا دوسرا نسخہ بھی ہمارے مطلب سے بعید اور غیر مجرب ہے۔

قَولُہ‘۔ (تیسرانسخہ) یہ ہے کہ تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا توبہ کرو طرف اللہ کے پوری توبہ کرو۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

حافظ صاحب آپ کا یہ حوالہ بھی ہمارے نزدیک بے معنی ہے کیونکہ ہمارے مدعا کو تو آپ نےنظر غائب کر رکھا ہے اور لکھتے ہیں کہ توبہ کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے ، حالانکہ پیش نظر یہ بات تھی کہ انسان عموماً اور تائب خصوصاً اللہ تعالیٰ سے محبت رکھیں۔ اگر اس بات کا خیال رکھتے تو ہمارے ساتھ اس قول میں متفق ہوتے کہ قرآن میں خدا سے محبت رکھنے کا حکم ایسی تاکید اورتفصیل کے ساتھ موجود نہیں جیسا بائبل میں پایا جاتا ہے اور اس لئے اس کے مقابل میں قرآن قاصر ہے ۔بایں موجب آپ کا یہ نسخہ بھی مجرب نہ ٹھہرا۔ آپ نے تثلیث پرستوں کی خاطر تین نسخے لکھے ہیں۔مگر تثلیث پرست اس بات کے عادی ہیں کہ اس قسم کے نسخوں کو خوب طرح تحقیق کر لیا کرتے ہیں اور سچ کو اختیار کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔اب آپ پر بھی ان کا یہ وتیرہ ظاہر ہو گیا ہے۔ اس لئے آیندہ لکھتے وقت یہ نہ سمجھ لینا چاہیئے کہ کچھ لکھنے سے غرض ہے خواہ مطلب سے بعید ہی ہو۔

باہمی محبت

قَولُہ‘۔ خداوند تعالیٰ نے ہمارے دلوں میں محبت پیدا کردی ہے اور ہم کو ایک دوسرے کابھائی فرمایا ہے۔ دیکھو   إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ ۔ ’’بے شک مسلمان بھائی ہیں‘‘۔ وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ ’’اور محبت ڈال دی ان کے دلوں میں اگر تو اے محمدصاحب خرچ کرتا جو کچھ کہ زمیں میں ہے نہ الفت دے سکتا ان کے دلوں میں مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں الفت پید اکردی ‘‘۔دیکھو یہاں کیسی باہمی محبت کی تعریف ہے۔

ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ کیسی محبت کی تعریف ہے اور آپ کے حوالوں کو تسلیم کرتے ہیں ۔مگر ان کاانسان کی باہمی محبت کے لئے حکم ہونے سے تحقیقاً انکار کرتے ہیں ۔بباعث آنکہ یہ صرف محمدیت میں باہمی محبت کا تذکرہ ہے ،نہ کہ کل انسانوں میں ۔ قرآ ن میں ایسے مقام بھرے پڑے ہیں جن سے باہمی محبت محدود ٹھہر چکی ہے اور وہ باہمی محبت جس کا بائبل مشاہدہ کرتی ہے قرآن میں ندارد ہے۔

چنانچہ سورہ عمران رکوع ۳آیت ۲۸   لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ     ’’نہ پکڑیں مسلمان کافروں کو رفیق مسلمانوں کے سوا، الخ‘‘   ۔سور ہ نسا آیت ۱۴۴ میں ہے   يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَتُرِيدُونَ أَن تَجْعَلُوا لِلَّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُّبِينًا     ’’ اے اہل ایمان! مومنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بناؤ کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے اوپر خدا کا صریح الزام لو؟ ‘‘   ۔سور ہ مائدہ آیت۵۷   يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ أَوْلِيَاءَ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ     ’’اے ایمان والوں! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتابیں دی گئی تھیں ان کو اور کافروں کو جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل بنا رکھا ہے دوست نہ بناؤ اور مومن ہو تو خدا سے ڈرتے رہو، الخ‘‘۔   سورہ الممتحنہ۱۳آیت   يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ قَدْ يَئِسُوا مِنَ الْآخِرَةِ كَمَا يَئِسَ الْكُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِ     ’’مومنو! ان لوگوں سے جن پر خدا غصے ہوا ہے دوستی نہ کرو (کیونکہ) جس طرح کافروں کو مردوں (کے جی اُٹھنے) کی امید نہیں اسی طرح ان لوگوں کو بھی آخرت (کے آنے) کی امید نہیں،   الخ‘‘۔ سورہ الممتحنہ کی آیت ۸   إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَىٰ إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ     ’’اللہ تو منع کرتاہے تم کو ان سے جو لڑے تم سے دین پر اورنکا لا تم کو تمہارے گھروں سے اور میل باندھا تمہارے نکالنے پر کہ ان سے دوستی کرو اور جوکوئی ان سے دوستی کرے سو وہ لوگ وہی ہیں گناہ گار‘‘۔   دیکھو رفتہ رفتہ دائرہ محبت سے ہر ایک کو خارج کر دیا۔یہ انسانی خیالات ہیں جو اس کی طبیعت کے عین موافق ہیں۔ہر قسم کی لڑائی ، دشمنی اور جدائی جو آدم سے آج تک دنیا میں وارد ہوئی ایسے ہی خیالوں اور ار ادوں کا نتیجہ ہے ۔اپنی اپنی قوم کے لوگوں کے ساتھ تواکثر رفاقت رہی ہے۔اس حب مقید کے بر خلاف دیکھو۔

بائبل یہ فرماتی ہے کتاب احبار۱۸:۱۹ ’’تو انتقام نہ لینا اورنہ اپنی قَوم کی نسل سے کیِنہ رکھنا بلکہ اپنے ہمسایہ سے اپنی مانند محبّت کرنا۔ مَیں خُداوند ہُوں‘‘۔انجیل متی ۳۹:۲۲ ،۴۰میں خداوند نے پہلا اور بڑا حکم بیان کر کے فرمایا کہ دوسر ا حکم اس کی مانند ہے کہ’’۔۔۔اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبّت رکھ۔ انہی دو حکموں پر تمام توریت اور انبیا کےصحیفوں کامدار ہے‘‘۔اور یہ معلوم کر نے کے لیے کہ پڑوسی کون ہے اس شخص کو یاد کرو جو یریحو کو جاتے ہوئے ڈاکوؤں سے زخمی ہوا (لوقا۲۹:۱۰۔۳۷) ،جو ہم مذہب کی قید کو خارج کرتا ہے اور بھی دیکھو رومیو ں کا خط۱۰،۸:۱۳۔پھر لکھا ہے’’بدی کے عِوض کسی سے بد ی نہ کرو۔۔۔جہاں تک ہوسکے تُم اپنی طرف سے سب آدمیوں کے ساتھ میل مِلاپ رکھّو۔اَے عزیزو! اپنا اِنتقام نہ لو بلکہ غضب کو مَوقع دو کیونکہ یہ لکھا ہے کہ خُداوند فرماتا ہے اِنتقام لینا میرا کام ہے۔ بدلہ مَیں ہی دُوں گا۔بلکہ اگر تیرا دُشمن بھُوکا ہو تو اُس کو کھانا کھلا۔ اگرپِیاسا ہو تو اُسے پانی پِلا کیونکہ اَیسا کرنے سے تُواُس کے سر پر آگ کے انگاروں کا ڈھیر لگائے گا۔ بدی سےمغلُوب نہ ہو بلکہ نیکی کے ذریعہ سے بدی پر غالِب آؤ ‘‘( رومیوں ۱۷:۱۲۔۲۱)۔’’ لیکن مَیں تُم سے یہ کہتا ہُوں کہ اپنے دشمنوں سے محبّت رکھّو اور اپنے ستانے والوں کے لِئے دُعا کرو۔تاکہ تُم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے بیٹے ٹھہرو کیونکہ وہ اپنے سُورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راستبازوں اور ناراستوں دونوں پرمینہ برساتا ہے۔ کیونکہ اگر تُم اپنے محبّت رکھنے والوں ہی سے محبّت رکھو تو تُمہارے لئے کیا اجر ہے ؟ کیا محصول لینے والے بھی اَیسا نہیں کرتے؟‘‘ (متی ۴۴:۵۔۴۶) ۔یہ سب باتیں ان امور کو جو محبت باہمی کے مزاحم ہیں دور ودفع کرتی ہیں ۔لاریب باہمی محبت اسی کو کہتے ہیں۔اے حافظ صاحب! اگر کبھی حالت انصاف اور عدم تعصب کا تجربہ کیا ہو تو آیات قرآنی مذکورہ بالا کو اس تعلیم ربانی سے مقابلہ دے فرمایئے کہ قرآن میں یہ تعلیم ندارد ہے یا نہیں ۔ذرا سوچو کہ جو محبت عنادو دشمنی کی گنجائش رکھتی ہے وہ کیسی محبت ٹھہر ے گی۔اس کے ساتھ دیکھو توضیح عدم ضرورت قرآن فصل ہفتم۔