February 2017

فصل ہشتم

عیاشی اور معجزہ نبوت

اب ہم بس کرتے ہیں گو حضرت کی عیاشی کا اعمال نامہ کوتاہ نہیں ۔ یہ سب ایسی شرم کی باتیں ہیں جن کو مسلمانوں نے بڑے ادب پر بڑےفخر کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مگر اُس زمانہ میں ہم اپنی قلم سے یہ نقل کفر بھی نہ کرتے اگر یہ واقعات اس پیشوادین کی زندگی کے جزواعظم نہ ہوتے۔ اگر ان واقعات سے اُس کےپیرومعزز اور حق گو مورخین و معترضین کو جھٹلانے اور اپنے نبی کی عیب پوشی کر کے اس کو ضرورت اور حقیقت سے زیادہ پاک باز ٹھہرانے کی غرض سے قطعا ًانکار نہ کرتے۔ ہم بھی اس ناگفتہ بہ بے شرمی کے کارخانہ کو نہ کھولتے بلکہ اُس پر مٹھی خاک ڈالنے کو راضی ہوتے ۔ پر ہم مجبور ہیں ،مخالف کو جو اب دینا فرض ہے۔ حضرت ﷺکی سیرت لکھنے والےایمانداروں نے حضرت کی جورؤوں کے حال مفصل تحریر کئے ہیں اور اسکے ساتھ حضرت کےوہ تعلقات بھی جن کو بجز زوجہ شوہر کے کسی کو نہ جا ننا چاہئے۔ خود زبانی اُن کی ازواج مطہرات کے بیان کئے ہیں۔ مسلمانوں نے حضرت کی عیاشی کو بھی بفقدان دیگر معجزات میں سے ایک معجزہ نبوت سمجھا ہواہے ۔اور وہ معذور ہیں کیونکہ خود حضرت نے اُنکو یہ دھوکا دیا بلکہ یہ سمجھا دیا کہ اُن کو آسمان سے قوت باہ وامساک کے نسخے ہاتھ لگے ہیں۔اور حضرت کے اس نمونہ نے اُن کی اُمت کے اخلاق کہاں تک برباد کر دیئے ہیں۔ میں بعض ثقہ دراز ریش مولویوں کو شاہدبناتا ہوں۔ چنانچہ ترجمہ مدارج النبوۃ جلد اول صفحہ ۷۲۷میں ہے:

’’ابن سعد نے طاؤس اور مجاہد سےروایت کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو چالیس آدمیوں کی قوت جماع میں دی گئی تھی۔۔۔ اور صفوان بن مسلم سے مروی ہے کہ جبرائیل میرے پاس ایک دیگ پکی ہوئی لائے پس میں نے اس دیگ میں سے کھایا پس چالیس مردوں کی قوت مجھ کو جماع میں دی گئی‘‘۔

حضرت جبرائیل کو بجز قوت باہ و امساک کی دیگ بنانے کےاور تو کوئی کام رہا نہیں۔ شاید یہی جبرائیل ہیں جن کو یہوداپنا دشمن کہتے تھے اور جو حضرت پر وحی لاتے تھے۔ یہیں سے طب نبوی میں معجون ہاشمی کی ایجاد ہوئی۔ اسلام پر اس کا اثر یہ ہوا کہ:

’’ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نکاح کروکیونکہ بہتر اس امت میں سے وہ شخص ہے جس کی بیبیاں بہت ہیں۔۔۔ اور بالاتفاق اہل عرب کی خوشی اور فخر اور فضیلت مردوں میں جماع کی قوت میں ایک امر مقرر ہے اور اس پر اس سے زیادہ اور دلیل کیا ہوگی کہ سید انبیا صلے اللہ علیہ والہ وسلم اس کا م کے کرنے والے تھے اور نکاح کا حکم کہ چار عورتوں کے ساتھ تک کرنے کا ہے آپ کو اس سے زیادہ مباح ہوا۔۔۔ اور آنحضرت نے فرمایا میں صبر کرتا ہوں کھانے اور پینے سے اور نہیں کرتا ہوں عورتوں سے۔۔۔ اور حضرت کو جو جماع کی قوت تھی وہ بھی معجزہ میں داخل ہے۔ کیونکہ ایک شب میں وہ سب بیبیوں سے مباشرت فرماتے تھے‘‘(صفحہ۷۲۷۔۲۲۹)۔

کہو ہمارے مخاطب کا کلام کیسا صادق آیا’’ فعل کا اثر ہمیشہ قول سے زیادہ ہوتا ہے ( اور یہاں قول سے زیادہ فعل دراصل بھی تھا)۔ لہٰذا جب بادشاہوں کے متعدد محلات ہوئے تب رعایا اُن کی تقلید سے کب چوکتی تھی‘‘(صفحہ۳۰۲) اور یہاں تقلید نہیں بلکہ سنت نبوی ہے۔ اس پر اس سے زیادہ دلیل کیا ہوگی کہ ’’سید انبیا ﷺ اس کا م کے کرنے والے تھے‘‘۔پس اب قرآن مجید و حدیث و سنت نبوی اور کلام اصحاب و تفاسیر معتبر ہ کو چھوڑ کر ہم اس انگریزی خواں نیم مغربی حامی اسلام کا قول کیسے مانیں جو کہتا ہےکہ بہر کیف حکم تعداد ازواج کو ازقسم نواہی سمجھنا چاہئے۔ مولوی محمد حسین صاحب بھی اس کثرت جماع کے معجزہ کی طرف اشارہ تو کرتے ہیں ،مگر اس کے بیان سے شرماتے ہیں۔آپ داؤداورسلیمان کی کثرت ازواجی کےمذکور کے بعد رقمطرازہیں کہ:

’’ ایسا ہی آنحضرت ﷺ کو سمجھنا چاہئے۔ انبیا میں یہ قوت بطور خرق عادت پائی گئی ہے جس کا عقلی مرہم اس خوف سے بیان نہیں کرتے کہ مخاطبین کےمقول اس کے فہم سے اپنی قاصر ہیں‘‘(صفحہ ۱۹۵)۔

داؤداور سلیمان کی کثرت ازواجی ان کی آہنی شریعت کے خلاف نہ تھی جس کا مذکور آگے آئے گا ۔ حضرت کی کثرت ازواجی شرع اسلام کے خلاف تھی ۔پھر بادشاہوں کا بہت سی عورتوں کو فراہم کرنا یہ قدیم رواج کے موافق تھا۔ لوگ اس کو شان بادشاہی سمجھتے تھے اور اسلامی سلاطین اب تک سمجھتے ہیں۔ ہم اس کو معیوب جانتے ہیں اور داؤد اور سلیمان کی حمایت اس بارے میں کرتے شرماتے ہیں اور ہم کو جرات نہیں کہ ہم اس عیاشی کومعجزہ یا خرق عادت کہیں۔ آگے جو آپ نے یہ کفر بکا ہے کہ آنحضرت نے عالم شباب سے لے پچاس سال تک صرف حضرت خدیجہؓ پر قناعت اختیار کی اور حضرت مسیح سے فی الجملہ مشابہت ثابت کی اور ان کی وفات کے بعد مردانہ قوت طرف توجہ فرمائی اور حضرت داؤد سے مشابہت ظاہر کی اور کہ آنحضرت اوصاف انبیا کے جامع تھے(صفحہ۱۹۶،۱۹۵)۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آنحضرتﷺ ابتدائی عمر سے ہی عشق بازی کرنے لگے تھے اور آپ نے گھر میں شکار کھیلنا شروع کردیاتھا۔ ام ہانی کا قصہ ہم آپ کو سنا چکے ہیں اور اسکے بعد آپ خدیجہؓ کی چاکری کرنےلگے اور بچے جنانا شروع کردئیے۔ ان ایام میں آپ کو شبہ ہو اکہ آپ کاہن ہوگئے ۔انہی ایام میں آپ خود کشی کے درپے ہوئے اور پھر آپ حضرت مسیح کی مشابہت کا دعویٰ کرتے ہیں ۔رہی داؤد کی مشابہت ،کیسی شرم کی بات ہے کہ کوئی خدا کی نافرمانی کرے اور آدم کا مثل نبی قتل کرےاو ر موسیٰ کی نظیربنےجھوٹ بولے اور ا براہیم کا مقلد بنے۔ اس معنی میں حضرت اوصاف انبیا سابقین کے جامع تھے۔تو یہ حق ہے آپ بھول گئے کہ قرآن مجید میں حضرت یحییٰ کے محامد بیان ہوئے ہیں کہ وہ حصور یعنی عورتوں سے پر ہیز کرنے والے ہوں گے( ال عمران رکوع۴)۔ حضرت ان کے او صاف کے جامع کیوں نہ بن سکے ۔ محمداور مشابہت مسیح’’ چہ نسبت خاک رابا عالم پاک ‘‘(چھوٹے کا بڑے سے مقابلہ کیا جانا)۔

فصل نہم

حضرت کی کثرت ازواجی کی معذرت

حضرت کی کثرت ازواجی کی معذرت میں لوگوں نےبہت کچھ کہا ہے، مگر وہ کل عذرات بدتر ازگناہ ہیں اور معتر ضین کی گرفت بصد اق ’’زنند جامہء ناپاک گازراں برسنگ‘‘(عیب دار کا عیب دور کرنے کے لئے سختی کی ضرورت ہے) ہے ۔

دفعہ اول

خواہش اولاد وذکور

چنانچہ سید صاحب فرماتے ہیں ’’شاید بعض عقد آپ نے اولاد ذکور کی خواہش سے کئے ہوں ‘‘۔اولاد ذکور کی خواہش کوئی شرعی خواہش نہیں۔ حضرت ہندو نہ تھےکہ فرزند نرینہ کاوجود اپنی نجات اُخروی کے لئے لازمی سمجھتے ۔او رپھر آپ یہ بھی تسلیم نہیں کرتے کہ حضرت اپنے لئے کوئی بادشاہت پیدا کر رہے تھے، تخت نشینی کے واسطے فرزند چاہتے تھے۔ اگر یہ ہوتا تو اس کے لئے بھی فرزند لازمی نہ تھا۔ پھر قرآن مجید میں کفار عرب کی رسم کی مذمت آئی ہے کہ وہ لوگ مثل ہندوؤ ں کے لڑکوں کو مبارک اور لڑکیوں کو منحوس جانتے تھے۔ حضرت ﷺاس وقت ہر گز بے اولاد نہ تھے۔ آپ کی بیٹی فاطمہ زندہ تھی ۔علی آپ کا داماد موجود تھا ۔ نواسے موجود تھے ۔ اگر اب بھی آپ کو فرزند کی حرص تھی تو آپ بوالہوس تھے۔ بے اولادی کی حالت میں شاید آپ کا عذر کسی درجہ تک سموع ہوتا۔ مولوی محمدحسین صاحب کہتے ہیں:

’’ اولاد خصوصاَ نرینہ جس کو پہلے انبیا نے بھی چاہا ہے اور ہر ایک انسان بالطبع اس کی خواہش رکھتا ہے ان نکاحوں سے آپ کو مطلوب تھے‘‘(اور آپ ہم کو یاد دلاتے ہیں کہ)’’ حضرت زکر یاہ نے اپنے لئےخدا سے فرزند نرینہ کی دعا کی تھی‘‘ (صفحہ۱۹۱)۔

ہمارا اعتراض یہ ہے کہ ان تمام حرص و ہوا کو پورا کرنے کےلئے حضرت نے موافق شرع اسلام چار جورؤوں پر اکتفا کیوں نہ کیا۔ کوئی نیک مرد اولاد ذکور کی آرزو میں مر تکب منہیات(منہی کی جمع۔منع کی گئی) نہ ہوگا۔ جب شریعت چار کی موجود تھی تو چارسے زیادہ کر کے اولاد کی خواہش کرنا کے کیا معنی ؟کیا دنیا میں حرام زادوں کی کثرت متصور ہے۔ آپ بتائیں کہ کس نبی نے اولاد ذکور کی خواہش میں اپنی شریعت کا عدول جائز رکھا۔ سچ ہے کہ زکریاہ نے فرزند کی خواہش کی ، مگر کس حالت میں جبکہ وہ بڈھا ہو گیا تھا اور اس کی عورت بانجھ ثابت ہوئی ۔وہ بالکل لاولد تھا۔ بیٹی یا نواسے نہ رکھتا تھا۔ اُس کی خواہش حق بجانب تھی۔ مگر اس آرزو کو پورا کرنے کی تجویز زکریاہ نے کثرت ازواجی کے ذریعے نہ چاہی۔ حنت العمر خدا پر شاکر رہا اور خدا نے اُس کی آرزو پوری کی ۔تو ا س کی ایک ہی بیوی کو جو اس کی جوانی کی رفیق تھی بارور کیا اوربرکت دی۔ اگر حضرت مثل زکریاہ کے خدا پر شاکر رہتے اور خد ا سے فرزند چاہتے تو بہتر ہوتا مگر حضرت کو اس کی ضرورت نہ تھی۔ آپ نے اولاد نہ تھے اور اگر آرزو کی تھی تو اپنی شریعت کے اندرر ہتے اِس سے تجاوز کیوں کیا۔ اس کا جواب نہ سید صاحب سے بن آتا ہے، نہ مولوی صاحب سے ۔اس کا جواب وہی ہے کہ حضرت شہوت پرست تھے، عیش اُڑاتے تھے۔

دفعہ دوم

صلح واتحاد خاندانی

دوسرا عذر سید صاحب یوں کرتے ہیں’’واقعات کو بحیثیت کذائی دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان نکاحوں سے عمدہ نتائج پیدا ہوئے یعنی انہیں کی بدولت قبائل عرب میں باہمی جنگ وجدل موقوف ہوا اور گونہ موافقت اور اتحاد پید ہوا‘‘(صفحہ۳۱۱)۔ کتنا لغوسخن ہے، سراسر خلاف۔واقعہ بتایئے کس قبیلہ سے اور کب اور کیونکر کسی ایک نکاح کی وجہ سے صلح وآشتی کی بنیاد پڑی؟ ’’ باہمی جنگ و جدل موقوف ہونا‘‘ آپ کس خواب خرگوش میں ہیں ۔ خانہ جنگیاں پیدا ہوئیں ،حضرت کا ناک میں دم آگیا۔موئیا ڈاہ نے تمام امورتہ وبالا کردئیے تھے ۔خاندان کو مٹادیا ۔ حفصہ و عائشہؓ نے اولاد حضرت کو تمام حقوق سے محروم کرادیا۔ جنگ جمل کے حالات تو خود آپ نے انگریزی کتاب میں تسطیر فرمائے ۔حضرت کی جورؤوں کی باتو ں نے خلافت کو دبا کر اور آل محمدﷺ کو محروم کر کے معرکہ کربلا کی بنیاد ڈالی تھی اور وہ جنگ و جدل وشور و شغب برپا کرایا جس کی نظیرصفحہ تاریخ جہان پر نہیں مل سکتی ۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اُن نکاحوں نے حضرت کے ایوان نبوت کو خاک میں ملادیا ہے اور حضرت کو جوروئیں جمع کر نے والا، عورتوں کے عشق میں مبتلا، صحبت اور جماع سے عدیم الفرصت (جسے بالکل فرصت نہ ہو) ثابت کردیا ہے ۔ ان نکاحوں کی کثرت وحقیقت نے عائشہؓ پر سے الزام زنا ہٹانے کےلئے سورہ نور کونازل کرایا۔ طلحہ وزبیر کے ہاتھ میں عنان حکومت دےدی ۔ علی کو خراب کیا۔ فاطمہ کو غم زدہ گور میں اُتارا۔ حسن و حسین اورا سکی اولاد کا خون بہایااور کیا کیا کِیا چھپا نہیں گو آپ نہ دیکھیں ۔ اگر کوئی حضرت سے پوچھتا تو وہ آپ فرمادیتے ’’شامت احمال مامورت ناور گرفت‘‘۔

مگر حضرت اپنی زندگی میں اپنے کئے کی کافی پاداش پا چکے ہیں۔ چنانچہ مدارج والا لکھتا ہے(صفحہ۶۵۱)جلد۲’’ حضرت نے ازواج سے بہت آزار کھینچےاور ملول ہوئے ۔پھر سو گند کی کہ ایک مہینہ تک ان کے پاس نہ جائیں اور دوسرا سزا دیں تاکہ اپنے کئے سے پشیمان ہوں‘‘ ۔آخر حضرت خود اپنے کئے سے پشیمان ہوئے۔ ایک ماہ پورا بھی نہ ہوا تھا کہ آپ جورؤں سے ملنے کو آئے ۔ نوجوان عائشہؓ نے اس بے صبری پر طنہ مارا ہے توکہا ’’ یا رسول اللہ آپ نے قسم کی تھی کہ ایک ماہ تک ہمارے پاس نہ آؤ گےاور حال یہ کہ میں نے شمار کئے کہ ۲۹ روز سے زیادہ نہیں ہوتا ‘‘۔ فرمایا ’’ ایسا بھی ہوتا ہےکہ مہینہ ۲۹ روز سے زیادہ نہیں ہوتا‘‘ (منہاج،صفحہ۷۵۴) ۔ہم حضرت کی تاویل کی داد دیتے ہیں حضرت نے سچ فرمایا تھا میں عورتوں سے صبر نہیں کر سکتا ۔ حضرت اس عائشہؓ کی نسبت ہمیشہ بدظن رہے۔ اُنکو ڈرتھا کہ کہیں عائشہؓ مجھ کو چھوڑ نہ دے۔ چنانچہ جب آیت تخیر سنائی تو آپ کو غم عائشہؓ کی وصلت کا اور فراق دامن گیر حال ہو اکہ عائشہؓ دنیا کو اور’’اور زینت دنیاکو اختیار کرے‘‘(منہاج، صفحہ۷۵۵)۔ ہم کو اُمید کرنا چاہئے کہ بہرحال مسلمان بیٹیاں ممالک مغربی و شمالی کی اُمہات مومنین سے زیادہ وفادار اور تابعدار شوہر کی ہوتی ہیں اور ان کے شوہر اُ ن سے ’’بہت آزادرنہیں کھینچتے‘‘۔ شکر ہے اگر وہ جیسی ماں ویسی بیٹی کی مصداق نہیں اور انہوں نے حضرت کی ازواج کے اخلاق نہیں سیکھے ۔ ہم اس طوفان بدتمیزی کے افسانہ کو کہاں تک بیان کریں۔

دفعہ سوم

بیو ہ پروری

ہمارا مخاطب یہ بھی کہتا ہے کہ حضرت نے ’’غریب ونادار و بیوہ زنوں کو جوکوئی ذریعہ معاش نہ رکھتی تھیں۔۔۔اپنےحرم متحرم میں داخل کرکے اُنکی پرورش اور دستگیری کی‘‘۔ اس کی تردید تو سابق میں کما حقہ ہو چکی مگر یہ قول بھی غضب کا ہے۔ قول کیا کشت زعفران ہے اور صرف آپ ہی کا حصہ ہے ۔’’ اُس زمانہ اور اس قوم کے حالات کےموافق صرف یہی طریقہ ان بیچاریوں کی پرورش کا تھا‘‘۔ بیوہ پروری کا طریقہ اس زمانہ میں جو رو بنا نا تھا! صرف یہی طریقہ تھا،اے حضرت ۔زینب بنت جحش کی بابت جو لکھا ہے کہ ’’وہ پالنے والی یتیموں اور بیوہ عورتوں کی تھی‘‘(منہاج، صفحہ ۸۶۷)تو کیا اس سے ہم یہ سمجھیں کہ حضرت کی جورو زینب رانڈ،بیواؤں کواپنی جورو بنا لیتی تھی؟ ورنہ کوئی طریقہ بین بیوہ پروری کا تھا۔ اور اگر نہ ہوتا تو حضرت اہل عرب سے کیوں فرماتے ہیں کہ ’’بیوہ محتاج کی پرورش میں ساعی کا ثواب مجاہد کے ثواب کے برابر ہے‘‘(مشارق الانوار حدیث نمبر۱۳۹۳)۔ ہمارے مولوی بٹا لوی کو اس بیوہ پروری کے عذ ر نےبہت ستایا ہے ۔چنانچہ مخالفین کا یہ اعتراض نقل کرتے ہیں:

’’ اغراض نکاح تو اور ہی ہیں جن کا بیان تمہارے کلام میں ہوچکا ( یعنی تسکین و عفت نفس اور اولاد صالح کی طلب ۱۴۷ ) ۔ آنحضرت کو اُن نکاحوں سے صرف یتیم و بیوہ پروری اور دوست یا دشمن نوازی منظوری تھی تو یہ یوں بھی ہو سکتی تھی کہ ان لوگوں کی تنخواہ مقرر کردیتے یا اورسبیل سے احسان کر تے ،اُن عورتوں کونکاح میں کیوں پھنسالیا اگر اتنا ہی مقصود تھا ‘‘ (صفحہ ۱۹۱)۔

اس کا جواب مولوی صاحب سے کچھ نہیں بن آتابجز اس کے کہ ’’اولاد خصوصاً نرینہ۔۔۔ان نکاحوں سے آپ کو مطلوب تھی ‘‘۔ پس بیوہ پروری کا خیال تو دھرارہ گیا۔ یہ عورتیں ضرور اس قسم کی ہوں گی جن سےا ولاد کی توقع کی جاسکتی تھی۔ پس بڑھاپے کو رونابے سود ہےاور اولاد کی تمنا کے بارے میں آئندہ عرض کیا جائے گا۔

مگر بیوہ پروری پر حضرت کےدوسرے وکیل حکیم نورالدین صاحب کو ایک باکرہ برہان سوجھی ہے اور انہوں نےجج صاحب اور نیز مولوی صاحب کو مات کردیا ۔ آپ فرماتے ہیں’’ ان ایام میں چند بیوہ عورتوں کی پرورش اگر بدون نکاح حضور متکفل ہوتے تو پادری اور الزام پر کمر باندھتے‘‘ (فصل الخطاب جلد اول ، صفحہ۲۹) یعنی حضرت نے پادریوں کے ڈر کے مارے بہت سے نکاح کرلئے! بھئی یہ بھی ایک ہی ہوئی۔ میرا گمان توہے کہ محمدﷺ کو ڈر کسی کا نہیں تھا ۔ جورؤوں کےمعاملہ میں وہ تو خدا سے بھی نہیں ڈرے۔مگر ہاں انکے وکیل ’’ پادریوں کے اعتراضات کو دیکھ کر حیران ہیں اور مضطرب و پریشان ‘‘( ایضاً، صفحہ۲) اور یہ کچھ بے ہوشی کی ہانک رہے ہیں۔ بہر کیف سید صاحب کو بھی معلوم ہو گیا اور حکیم صاحب کو بھی کہ بیوہ پروری کا حیلہ کیسا باطل تھا۔ کیونکہ اگر حضرت کو بیوہ پروری کا خیال ہوتا اور اس فیاضی کے آگے عرب میں کوئی پیچیدگی حائل ہوتی تو حضرت ان رانڈوں سے اپنی اُمت کی بال بچہ دار رنڈوں کی دستگیری فرمانا زیادہ مناسب سمجھتے ۔ مگر ہم تو کبھی یہ صلائے کرم نہیں سنتے کہ ’’بخشیدم اگرچہ مصلحت ندیدم‘‘۔

دفعہ چہارم

تبلیغ اسلام و تعلیم نسواں

بعض مولویوں نے حضرت کی کثرت ازواجی کی معذرت میں ایک یہ امر بھی پیش کیا ہے کہ ’’جب اسلام خوب پھیلنے لگا اور بہت سے مرد و عورتیں مسلمان ہوگئیں تو ضرور ہو ا کہ اسلام کی باتیں سکھانے والے بھی زائد ہوں۔ مردوں کےلیے مرد اور عورتوں کےلیے عورتیں تاکہ تبلیغ احکام الٰہی اچھی طرح انجام پائے۔ ظاہر ہے کہ جس طرح عورت سے عورت ہر ایک امر کہہ سکتی ہے اور دریافت کرسکتی ہے ،مرد سے ہر گز نہیں کرسکتی ۔اس لئے ضرور تھاکہ آپ کی ہم صحبت عورتیں بھی ہو جائیں تا کہ وہ عورتوں کو احکام شرعی پہنچائیں ۔اور یہ امر ممکن نہ تھا بغیر اس کےکہ آنحضرت متعد د نکاح کریں کیونکہ شریعت محمدیہ میں غیر عورت کا ہم صحبت رہنا جائز نہیں۔ البتہ شریعت عیسوی میں غیر عورتوں سے خلاملا درست ہے۔ اور شاید اس وجہ سے عیسائیوں کی عورتیں بے تکلیف اور بے روک ٹوک غیر مرد کے پاس خلوت و جلوت میں جاتی ہیں۔ ۔ ۔ مگر اس کی وجہ سے جو کچھ فتنہ متصور ہے، وہ ظاہر ہے‘‘( مولوی محمدﷺ علی کا نپوری کے تلبیسات ، صفحہ۴۳،۴۱)۔ اے کاش کہ اس معذرت کا کوئی ایک جملہ بھی تو سچ ہوتا۔ ہم کہتے ہیں کیاکوئی استثناکسی مسلمان کے لئے اس حکم شریعت میں کہ چار عورات سے زیادہ کوئی شخص ایک وقت میں نکاح نہ کرے روارکھی گئی ہے ؟ چاہے کیسی ہی ضرورت در پیش ہو۔

۱۔کوئی مسلمان ۴ سے زیادہ نکاح نہیں کرسکتا۔ پس اب شریعت اسلام نے محمدﷺ کےاس فعل کو(اس کےلئے چاہے وہ آپ کی معذرت والی ضرورت تسلیم ہی کی جائے) حرام ٹھہرایا۔پس کیا محمدﷺ تبلیغ اسلام سے حلال فعل کے لئے ۴ سے زیادہ جوروئیں رکھنے کے حرام فعل کو جائز رکھیں گے اور اگرجائز رکھیں تو کیونکرحرام کار نہ کہلائیں گے۔

۲۔عورتوں کی تبلیغ کے لئے کیا مسلمان شوہر کافی نہ تھے ۔کیا وہ اب کافی نہیں؟ہم آپ کوبلکہ محمدﷺ کو ایک بہتر صلاح دیں۔محمدﷺ مردوں کو تبلیغ اسلام کریں مرد اپنی جورؤوں کو ،اپنی ماوں کو، اپنی بہنوں کو، اپنی بھانجیوں کو،اپنی بہو بیٹیوں کوتبلیغ اسلام کریں۔

۳۔پردہ کی رسم عرب میں ویسی نہ تھی جیسی مسلمان اب ہند میں کرتے ہیں۔ عورتیں مسجدوں میں مردوں کے ساتھ نماز کرتی تھیں۔احکام شرعی پوچھنے کے واسطے فقیہوں کےپاس آتی تھیں ۔ خود حضرت کی جورو پر دہ کرتی ہوئی فوج کی سرداری کرتی تھی۔ جنگ جمل میں احکام نافذ کرتی تھی۔

۴۔پردہ کی رسم کی ابتدا زمانہ محمدﷺ میں نہیں ہوئی بلکہ جب حضرت ۱۸ برس تک نبو ت کا دعویٰ کر چکے اور ایک عمر تبلغ اسلام بسر کرچکے تب حکم پردہ نافذ کیا ۔ جبکہ آپ ایک ساتھ چھ جورؤوں کےخصم بن چکے تھے اور وہ بھی جبکہ آپ زینب کوغسل کرتے ہوئے ننگا دیکھ کر اس پر عاشق ہوچکےتھے ۔اور المَرءُیَقِیسُ عَلیٰ نَفسِہٖ (ہر شخص دوسرے کو اپنے پر قیاس کرتا ہے)اس ڈر کےمارے کہ شاید سب مسلمان ویساہی کریں آپ نے۵ ہجری میں اپنی عورت کی بابت پردہ کی آیت اتاری ۔چنانچہ زینت کے قصہ میں مدارج والا کہتا ہے کہ’’ شریعت حجاب بھی اس قصہ میں واقع ہوئی‘‘(صفحہ۲۶۶)۔نبض البہاری والا لکھتا ہے کہ’’امت کی عورتوں کے پردہ کا حکم حدیث صحیح صریح سے ثابت نہیں ہوا ‘‘ (صفحہ ۹۴، مطبوعہ لاہور)۔

۵۔حضرت عورتوں سے ایسی شرم کی باتیں بیان کرکے تبلیغ اسلام کرتے اور عورتیں ایسی ایسی بےحیائی کی باتیں ان سے دریافت کرتی تھیں کہ مجھ کو حیرت ہے کہ یا ان میں وہ کون ساحکم شریعت اسلام کاتھا کہ کوئی عورت بے جھجک حضرت سے خود نہ پوچھ سکتی تھی اور جس کے بتانے میں حضرت کو سر موتامل ہوتا ۔چنانچہ پارہ اول صحیح بخاری میں باب الحیا فی العلم میں ہے کہ’’ ام سلیم آئی رسول اللہ پاس، سو اس نے کہا یا رسول اللہ مقر ر خدا حق بات سے شرماتا نہیں کیا عورت پر غسل واجب ہے جو۔۔۔ ہو پس فرمایا حضرت نے اگر۔۔۔دیکھے‘‘(اس وقت تک عورت منہ کھولئے ہوئے حضرت سے ہم کلام تھی۔ اب حضرت نے ایک بے شرمی کی طرف اشارہ کیا کہ عورت شرماگئی)’’ پس ام سلیم نے اپنا منہ ڈھانک لیا اور کہا یارسول اللہ کیا عور بھی۔۔۔ ہوتی ہے فرمایا’’ ہاں ‘‘(اور شاید منہ ڈھانکنے پر خفا ہوئےفرمایا)’’ خاک آلودہ ہو تیرا دہنا ہاتھ‘‘( جس سے چادر منہ پرلے آئی تھی)’’ پس کس لئے ہم شکل ہوتا ہے اس سے بچہ اس کا ‘‘۔حضرت تو اس بےحجابی کی باتوں سے بھی حجاب کرنےسے خفا ہوتے ہیں اور آپ پردہ داری کرتے ہیں۔ شاید اس بے حیائی کی گفتگو کی نظیر مسیلمہ اور سجاحتہ کی گفتگو ہو ) ذراسمجھئے تو یہ مسلمان عورت اور مسلمانوں کے نبی کیسے بے تکلف وبے روک ٹوک خلوت و جلوت کر رہےہیں اور آپ عیسائی عورتوں پر طعن کرتے ہیں؟ شرم !یہ تو ایک غیر عورت نے حضرت سے مسئلہ شرعی پوچھا۔ اب میں ایک اَور نظیر اس بات کی دیتا ہوں کہ حضرت کی زوجہ ایک غیر مرد سےکس طرح مسئلہ شرعی بیان کرتی ہے۔ اسی پارہ صحیح بخاری کے آخر میں ہےکہ’’ مسلمان بن یسار سے روایت سے کہ میں نے عائشہؓ سے اس ۔۔۔ کا حال پوچھا جو کپڑے پر لگ جائے ،کہا میں دھوتی تھی۔۔ ۔ کپڑے سے نبی کےپس نمازکو جاتے اور کپڑے میں تیری رہتی تھی‘‘۔ لیجیے،مردعورت کو وہ بتاتا ہے جو عورت ہی خوب جانتی ہے اورعورت مرد کا حال ایسا بتاتی ہے کہ مرد شرماجائے ۔اسی طرح صحیح بخاری پارہ ثانی میں’’ عائشہؓ سے روایت ہے کہ جب حضرت کی جورؤوں میں سے کسی کو حیض آتا اور حضرت اس کے ساتھ اسی حالت میں مباشرت کرنا چاہتے( آگے بڑی بےشرعی کے عمل کا مذکور ہے ۔ ہم ترک کرتے ہیں) جوچاہے کتاب پڑھ لے( فیض الباری ،ترجمہ اُردو بخاری مطبو عہ لاہور،صفحہ۱۷۳)۔ آخر کچھ بے شرمی کی انتہابھی ہے؟ حیض میں مباشرت اورام المومنین کا اس کو یوں علانیہ بیان کرنا اورامام بخاری کااس سے مسائل اخذ کرنابرین ریش فش !

اور اگر ان مسائل کے سیکھنے کےلئے عورتیں ضروری تھیں تو لا کلام’’ ضرور تھا کہ حضرت کی ہم صحبت عورتیں بھی ہو جائیں تاکہ عورتوں کو احکام شرعی پہنچائیں ا وریہ امرممکن نہ تھابغیر اس کے کہ آنحضرت متعد و نکاح کریں‘‘ بیشک، کیونکہ ان مسائل بتانے کے لئے پورا تھیڑہونا چاہئے تھا۔ مگر اب تک ہم نہ سمجھے کہ کیا صرف بی بی عائشہؓ کافی نہ تھیں کہ تمام عورتوں کوبتادیں کہ حضرت کس طرح صحبت کرتے تھے، کون کون سی حرکات عمل میں لاتے تھے، کپڑ ا کیسے صاف کرتے تھے ، ایام میں کس طرح مباشرت کرتے تھے ۔کیا ضرور تھا کہ ان گند گی کے مسائل کی تبلیغ کے لئے چار سے زیادہ عورتیں حضرت کی ہم صحبت ہوں۔ پس یہ کیا عذر بد تراز گناہ ہے۔

۶۔آپ کو یہ بھی معلوم ہو کہ مثل مردوں کے حضرت عورتوں کو بھی وعظ سنایا کرتے تھے ۔ چنانچہ پار اول صحیح بخاری میں ہے کہ ’’ابن عباس سے روایت ہےکہ تحقیق نبی بلال کے ساتھ نکلے اورگمان کیا کہ عورتوں نے وعظ نہیں سنا ۔سو حضرت نے ان کو وعظ سنایا‘‘ ۔ اور دوسری حدیث اسی جگہ یوں مرقوم ہے ’’ابی سعید حذری سے روایت ہے کہ عورتوں نےنبی سے کہا کہ آپ کےپاس مردہم پر غالب آگئے۔ پس آپ ایک دن خاص ہمارے واسطے مقرر فرمائیں۔ سو حضرت نے عورتوں سے ایک دن کا وعدہ کیاجس اُن سے ملا قات کی اور وعظ سنایا اُن کو اور حکم دیااُن کو‘‘۔ پس جناب مولوی صاحب آپ تبلیغ اسلام کے لئے حضرت کو متعد دنکاح کرنے پر مجبور نہ کریں ۔ وہ تبلیغ اسلام بغیر نکاح کے کررہےہیں اور نکاح بغیر تبلیغ اسلام کے ۔

دفعہ پنجم

کثرت ازواجی حضرت قبل آیت نکاح غلط

ایک اور معذرت ہمارے مخاطب نے حضرت کی کثرت ازواجی پر پیش کی ہے ۔وہ کتاب انگریزی میں اس طرح مرقوم ہے’’ کثرت ازواجی کی حد کی تلقین مدینہ میں چند سال بعد ہجرت کے ہوئی۔۔ ۔ تمام نکاح حضرت کے قبل نزول آیت تعددکثرت ازواجی عمل میں آچکے تھے اور اس کے ساتھ دوسری آیت نازل ہوئی جس سے تمام حقوق حضرت کے ساقط ہوگئے۔ اور گو کہ تابعین چار تک نکاح کرنے کے مجاز تھے اور اختیار طلاق کی وجہ سے نئے نکاح بھی کرسکتے تھے۔ حضرت نہ تواپنی کسی زوجہ کو طلاق دے سکتے تھی اورنہ کسی نئی کونکاح میں لاسکتےتھے‘‘(صفحہ۳۴۳)۔جھوٹ ہو توایسا ’’این کاوازتو آید و مردان چنین کنند‘‘۔ آیت حد نکاح سورہ نسامیں وارد ہوئی ہے اور سورہ نسا کو مکی سورۃ بھی کہا گیا ہے (دیکھواتقان ن جلد اول شروع)۔ حضرت نے جورؤوں کی بھر مار مدینہ میں جاکر بعد ہجرت کی۔ پس اس بیرونی شہادت سے آیت حد نکاح کا وجود قبل کثرت ازواجی آپ کے پیغمبر کے ثابت ہے۔ مگر ہم آپ کو اس کی تاکید میں اندرونی شہادت قرآن مجید بھی سنائیں کیونکہ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’کثرت ازواجی کی حد‘‘ کی آیت بہت پہلے سے سنائی جاچکی تھی ۔اور جس وقت حضرت عورتوں پر عورتیں کرتے جاتے تھے اس وقت ان کو معلوم تھا کہ شریعت اسلام میں صرف چار عورتیں حلال ہیں۔چنانچہ سورہ احزاب میں جس میں زینب کےساتھ حضرت کے نکاح کی کیفیت مندرج ہےحضرت کو وہ عورتیں گنائی گئئ ہیں جن کووہ جورو بناسکتےتھے۔یعنی وہ عورتیں جن کونکاح کے مہردئیے جائیں یا لونڈ یاں یا چچا اور پھوپھی اور ماموں اور خالہ کی بیٹیاں جنہوں نے ہجرت کی یا کوئی عورت مسلمان جو اپنی جان بخش دے نر ی تجھی کو سوائے سب مسلمانوں کے اور اسی شریعت کے ساتھ کہا جاتا ہے’’ ہم کو معلوم ہے جو ہم نے ٹھہرا دیا مسلمانوں پر اُنکی عورتوں میں اور اُ ن کے ہاتھ کے مال میں تانہ رہے تجھ پرتنگی‘‘ (رکوع۷)۔ پس جومسلمانوں پر ٹھہرا یا کہ چا ر جوروان اور لونڈیاں حلال ،وہ ان واقعات سے بہت قبل ہے اور فراخی صرف حضرت کو دی جاتی ہے سوائے سب مسلمان کے تانہ ر ہے محمدﷺ پر تنگی‘‘ ۔

۴ہجری تک حضرت ۴ جوروان کر چکے تھے ۔۵ ہجری میں حضرت نےپانچویں جوروکی زینب زوجہ زید ۔ اس کا قصہ سورہ احزاب میں وار د ہوا ۔ اس قصہ کے بیان میں حضرت کو فراخی دی گئی اور بتایا گیا کہ ’’ہم کو معلوم ہے جو ٹھہر ا دیا مسلمانوں پر‘‘ جس سے اظہر ہے کہ آیت حد کثرت ابتدا میں ہو چکی ہے اور حضرت کی کثرت ا زواجی اس آیت کےبعد۔ چنانچہ زینب کے نکاح کے بعد حضرت نے جو یر یہ ، ام حبیبہ، حفصہ، میمونہ، مار یہ وغیرہ وغیرہ کو جوروان بنایا۔ پس حضرت کاجوروان کرناقبل آیت حد کےبتانا جھوٹ بولنا ہے ۔ آیت حد قبل ہے اور جوروان کرنا بعد میں اور اسی غرض سے کہ ’’محمد پر تنگی نہ رہے‘‘ ۔ اب وہ آیت جس پر آپ استدلال کرتے ہیں یہ ہے:

لَّا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ رَّقِيبًا ’’ (اے پیغمبر) ان کے سوا اور عورتیں تم کو جائز نہیں اور نہ یہ کہ ان بیویوں کو چھوڑ کر اور بیویاں کرو خواہ ان کا حسن تم کو (کیسا ہی) اچھالگے مگر وہ جو تمہارے ہاتھ کا مال ہے (یعنی لونڈیوں کے بارے میں تم کو اختیار ہے) اور خدا ہر چیز پر نگاہ رکھتا ہے ‘‘(احزاب رکوع۶آیت ۵۱)۔’’ اس پیچھے‘‘ ابی بن کعب وغیر ہ نےاس کے معنی یہ بتائےہیں کہ اس کا اشارہ ان چار قسم کی عورتوں کی طرف ہے جن کا ذکر اوپر ہوا جو محمدﷺ کو حلال تھیں یعنی’’ حلال نہیں تجھ کو عورتیں سوائے ان اقسام مذکورہ کے‘‘اور بسند ترمذی ابن عباس سے بھی یہی مروی ہے ۔ لایحل نُک من بعدالا جنا س الار بعتہ ۔جلالین معہ مالین حاشیہ اور فتح الرحمٰن شاہ ولی اللہ صاحب میں بھی یہی وارد ہوا ہے۔ پس اس سے حضرت کےلئے کوئی حد معین ہوئی بلکہ قسم عورات معین ہوئی ہے یعنی اُن چار قسموں میں اختیار ہے چاہے حضرت ہزار کر لیں یا بارہ سو۔چنانچہ شاہ عبد القادر بھی اپنے فائدہ میں بتاتے ہیں’’ یعنی جتنی قسمیں کہہ د یں اس سے زیادہ حلال نہیں ۔۔۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا یہ منع آخر کو موقوف ہو ا سب عورتیں حلال ہوگئیں۔ پس کہو حضرت کی شہوت زنی کےلئے یہ آیت کیسے روک ٹھہر سکتی ہے۔اس میں تو حد مقرر نہیں اور جو حد اقسام عورات کی مقرر معلوم ہوتی ہے وہ بھی موقوف و منسوخ ہوئی یا یوں کہیں کہ اس حد کو بھی حضرت نے مثل قسم تحر یم ماریہ کے توڑا ۔

پراگر ہم آپ کےاس جھوٹے بہانے کو کچھ دیر کےلئے تسلیم کر لیں کہ دراصل حضرت اپنی ۹ یا ۱۰ جوروان قبل آیت حد کر چکے تھے تو بھی حضرت کی صفائی نہیں ہوسکتی ۔ کیا اس سے یہ لازم آتا ہےکہ حضرت وہ زیادہ نکاح جوبقول جناب اُس آیت کےقبل کر چکے اپنے اوپر حلال کر سکتے ہیں ۔اگر اُس آیت کی پابندی کسی طر ح فرض تھی تو زائد نکاحوں کامابعد فسخ کرنا لازم تھا ،جس طرح کہ اگر کوئی شخص قبل اسلام ماں سے۔۔۔ نکاح کر چکا ہوتا توا سلام میں آنے سے اس پر ماں ۔۔۔کارکھنا حرام ہوجاتا اور نکاح فسخ ہوتا اور جس طرح یہ حدیث ہے کہ اگر کوئی دس جورؤوں کا شوہر مسلمان ہوجائے تو اُس کو ۶ جورؤوں کو طلاق دینا چاہئے (جامع تر مذی مترجم کتاب النکاح،صفحہ۳۴۷ نو لکشوری)۔ پس حضرت کو لازم تھا کہ اگر وہ شریعت حد نکاح کے قبل ایک فعل کر چکے تھے تو اسلام کی شریعت کے اعلان پر اُس کی پابندی مثل ہرمسلمان کے کرتے ۔

آپ کایہ کہنا بےجاہے کہ اس آیت حدنکاح کےساتھ ہی دوسری آیت بھی نازل ہوئی جیسا ہم دیکھا چکے۔ پر تھوڑی دیر کےلئےہم یہ بھی مان لیتے ہیں اور آپ غور کریں کہ اگر اس آیت حد نکاح سے تمام مسلمانوں کو ان کی زائد جوروان جائزنہیں تھیں توحضرت نےدراصل اپنے واسطے اس آیت کے جواز سے وہ جائز رکھا جس کے مستحق نہ تھے کیونکہ اپنی جورؤوں کو جدا کرنا ان پر شاق گزرا۔ اپنی رعایت کی گو دوسروں کی رعایت نہ کرسکے ۔ اب رہی اپنے اوپر طلاق کو نا جا ئز کرنے کی صورت توپہلےتوآپ اپنی جورؤوں کو مسلمانوں پر حرام کر چکے تھے اور اُن کو ڈرا چکے تھے کہ کوئی تم سے شادی نہ کر ےگا جو مجھ کو چھوڑدوگی ۔ آخر ایک جورو نکل گئی پس آپ نے اپنےاوپر طلاق ہی ناجائز کر لیاتاکہ کوئی جورو نکل نہ جائے کیونکہ ان کی جوروان اُن کو ڈرایا کرتی تھیں کہ ہم چاہیں تو نکل جائیں’’ کلینی بسند ہائے معتبر بسیا رروایت کرددبست ازامام محمد باقر وامام جعفرصادق کہ گفت بعضے از زنان محمد گمان میکند کہ اگر مارااخلاق بگوید ماکغو خودرانخوہم یافت از قوم خود کہ ماراتز ویج تماید و بروایت دیگر زینب گفت کہ تو عدالت نمی کنی میاں مابآ نکہ پیغمبر خدائی و حفصہ گفت کہ اگر مارا طلاق بگویدہمتائے خودرا اخواہم یافت ازقوم خود کہ مارا تزویج تمایدوبروایت دیگر این ہر دو سخن رازینب گفت‘‘( حیات القلوب باب۵۳، صفحہ۵۸۲) بلکہ حضرت کو نکل جانے کابڑا اندیشہ خود اپنی پیاری بی بی عائشہؓ کی نسبت بھی رہا کرتا تھا ۔چنانچہ جب آپ نے آیت تخیر سنائی’’ تب حضرت کو بھی غم عائشہؓ کی وصلت کااور فراق دامن گیر حال ہو اکہ ایسا نہ ہو عائشہؓ دنیا کو اور زینب دنیا کو اختیا ر کرے‘‘ یعنی میرے پاس سے نکل جائے (منہاج جلد۲، صفحہ۶۵۵)۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر حضرت کوئی ضرورت درپیش آتی تو وہ اس آیت کی اصلاًپر وانہ کرتے بلکہ حرف غلط کی طرح مٹادیتے ۔ یہ سب خود غرضی پر مبنی تھا کیو نکہ اگر اس آیت سے مطلق منع طلاق وغیرہ نکلتا ہے تو اُس واقعہ کے بعد ماریہ کےساتھ پکڑ ےجانے پر آپ نے اپنی ازواج کو دھمکایا کیسے تھا ۔’’ابھی اگر نبی طلاق دے تم سب کو اُس کا رب بدلے میں دے عورتیں تم سے بہتر‘‘ (سورہ تحریم رکوع۱) ۔یہاں طلاق دینے کا اختیار بھی ثابت ہے’’اگر نبی چاہے‘‘ اور دوسری عورتیں کرنے کا اختیار بھی ۔خداجانے یہ مولوی قرآن مجید کو کس طرح پڑھتے ہیں ۔ حضرت اپنے عمل سے جابجابار بار اسی کو توڑتے ہیں جس کو وہ کلام خدا بتاتے ہیں ۔ مگر خیر ہم مولویوں کو راضی کئےلیتے ہیں، اُن کی خاطر ایک دم کو مانے لیتے ہیں کہ حضرت پر جورؤوں کی تعداد محد ود ہوگئی تھی اور یہ بھی کہ وہ کسی جورو کو طلاق نہ دیں تو بھی آپ گوش ہوش سے سنیں کہ اس آیت میں مما نعت ہے تو جورؤوں کی نہ مطلق عورتوں کی کیونکہ آخر فقرہ میں’’ جو مال ہے تیر ےہاتھ کا‘‘ اس قید سے مستثنیٰ ہے۔پس حضرت نے دراصل اپنے اوپر آسانی کی کہ عیاشی بھی کرتے جائیں۔نت نئی عورتوں سے صحبت کریں کیونکہ یہ وقت عروج اسلام کا ہے۔ ہز ارہا لونڈیاں ایک سے ایک بڑھ کر حور تمثال حضرت کےہاتھ آتی ہیں اور جوروئیں کرنے کی سردردی بھی نہ اٹھائیں۔ چنانچہ مدار ک سے معلوم ہوتا ہے اس آیت کی تفسیر میں کہ اس آیت کےبعد ماریہ لونڈی سے حضرت ملے۔ محمدﷺ علی صاحب نے بھی اپنی تلبیسات میں اس آیت سے استدلال کیا ہے اور حضرت کی گویا مصیبتیں بیان کرکے روئے ہیں۔ مگر ہم نے دکھایا کہ کیسی کچھ آسانی حضرت نےاپنے نفس پر روا رکھی ہے ۔ مگر ایک بات اور ہے کہ یہ آیت جیسا ہم کہہ چکے برائے بیت ہے ،حضرت کےلئے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ ان کے اعمال اس کے خلاف ہر طرح سے ہیں ۔چنانچہ ملا نوں نےاس کو قرآن مجید سے بھی منسوخ بتایا ہے اور حدیث سےبھی۔ مدارک میں ام سلمہ و عائشہؓ کی حدیث کا حوالہ ہے اور آیت ماسبق سے بھی اس کی تنسیخ ہوتی ہے ۔ یہ بھی مدارک ہی سے ظاہر ہے۔ مگر ہم اُس پر ایک اور شہادت خود ہندوستان کی لاتے ہیں ۔صاحب تفسیر حقانی اپنے مقد مہ (صفحہ۱۳۶) بیان فرماتے ہیں ’’ آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ میں بھی تنا سخ واقع ہوتا ہے یا نہیں؟ مجہور کہتے ہیں واقع ہوتا ہے اور ا سکی دو قسم میں اقل نسخ الکتاب بالسنتہ جیسا کہ یہ آیت لائیحل لک النسا الّا۔یہ حدیث عائشہؓ سےمنسوخ ہے کہ آنحضرت صلعم نے ان کو خبردی ہے کہ خدانے اُن کو جس قد ر عورتیں چاہئیں مباح کردیں۔ رواہ عبدالرزاق و النسائی واحمدو التر مذی والحاکم ۔اقول فیہ نظر کس لئے کہ اس آیت کی ناسخ اس سے پہلی آیت ہے‘‘۔ پس معلوم ہو ا کہ ہمارےیار ایک آیت منسوخ سے استدلال کرکے حضرت کی پردہ پوشی کرتے ہیں۔ چنانچہ صاحب تفسیر حقانی نےان لوگوں کی نسبت خوب فرمایا ہے(حاشیہ) ’’بعض خفیہ کرسچن آنحضرت علیہ اسلام کےلئے نکاح محددو نہ ہونےکو عیب سمجھتے ہیں اور اس حد یث کو یہ پیر ایہ خیر خواہی اسلام بلاقاعد ہ محدثین جھوٹی بتاتے ہیں‘‘۔ ہم اُن خفیہ کر سچنوں کو کیا کہیں جب ایک ڈنکے کی چوٹ پر بولنے والا مسلمان ’’تفسیر فتح الحنان میں اُن کی یوں خبر لیتا ہے۔ پس معلوم ہو ا کہ اس آیت نے حضرت کو بچایا نہیں بلکہ اور بگاڑا کیونکہ حضرت نے عین اس کے خلاف عمل کیا ۔

دفعہ ششم

سنت انبیا وسابقین

ایک معذرت اور باقی رہی جاتی ہے۔ محمدعلی صاحب فرماتے ہیں’’جب انبیا سابقین نےموافق رضا خدائے تعالیٰ کے یہ فعل کیا تو حضرت سرور انبیا محمدﷺ مصطفیٰ بھی اسی زمرہ میں ہیں۔ اُن کےلئے کوئی نئی اجازت کی ضرورت نہیں ہے ۔وہی انبیا سابقین کی اجازت کافی ہےجب ۱۰۰بیبیوں کا کرنا منصب نبوت کے خلاف اور قابل طعن ہو جائے گا‘‘(پیغام محمدی ،صفحہ۱۷۵)۔ اور مولوی محمدحسین بھی حضرت کو اسی برتے پرمثل داؤد، سلیمان کھینچتے ہیں ۔محمدﷺ کو انبیا سابقین کے زمرہ میں تسلیم کو ن کرتا ہے کہ آپ اُس تسلیم کی بنا پر استدلال کرتے ہیں ۔انبیا سابقین کے زمرہ میں حضرت کو بٹھانا یہ آپ کی زبردستی ہے اور بےبا کی مان نہ مان میں تیر ا مہمان، مگر جواب سنئے ۔

اعتراض یہ ہے کہ کسی نبی یا غیر نبی کو شریعت کےلحاظ سے عاصی و خاطی ثابت ہوگا۔ آپ خود فرماتے ہیں کہ’’ اس میں شک نہیں کہ تعد دازوج کو غیر محدود چھوڑ دینا جیساکہ شریعت موسوی میں کیا گیا حداعتدال سے خارج ہے‘‘(صفحہ ۱۷۳)۔پس آپ کومعلوم ہے کہ شریعت موسوی میں تعددازواج کو غیر محد ود چھوڑ دیاگیا۔ پس اگر کسی نبی یا غیر نبی نےاُس شریعت کی متابعت میں غیر محد ود جوروان کیں تو وہ اُس شریعت کے اعتبار سے پاک ہے پر اگربر خلاف اس کے اُس شریعت کے خلاف کوئی فعل کیا جائے چاہے اُس شریعت کے قبل وہ فعل مستحسن ہی کیوں نہ رہا ہو کرنیوالاگنہگار ہے ۔ جیسے شریعت موسوی کے قبل دو بہنوں کا ایک وقت نکاح ۔شریعت موسوی میں دو بہنوں کا رکھنا حرام ہوا۔پس اگر کوئی شخص اب دو بہنیں نکاح میں لائے حرام کرتا ہے ۔ایسا ہی غیر محد ود ازواج کا رکھنا شریعت موسوی میں حلال تھا مگر اب فرماتے ہیں کہ ’’شریعت محمدیہ نے ایسا نافع اور عمدہ حکم دیا کہ پہلی شریعت اور اس وقت کے رواج نے جو بلاحصر وتعین جواز تعدد کا فتویٰ دے رکھا تھااول تو اُسے چارمیں محدود کر دیا ۔ مگر اس جواز میں بھی عدل کی ایک سخت قید لگا دی‘‘(صفحہ۱۷۳) تو اب آپ بتائیں کہ محمدﷺ نے جنہوں نے شریعت موسوی کے اصلاح میں دم مار کر بقول جناب ’’ایسا نافع اور عمدہ حکم دیا‘‘ اپنی شریعت کےخلاف ’’ایسےنافع اور عمدہ حکم ‘‘کا کیوں عدول کیا۔

انبیا سابقین نےموسوی شریعت پر ہو کر غیر محد ود تعد دازواج کو جائز رکھا۔ شریعت اسلام نے اُس کو جائز نہیں رکھا اور تعدد کو محد ود کیا حتی ٰ کہ اگر کوئی مسلما ن پانچ جوروان ایک ساتھ رکھ لے تو وہ زناکارکہلائے اورانبیا سابقین کی سنت یا شریعت موسوی کاجواز اُس کی حمایت میں دم نہ مار سکے۔ حضرت نے ’’ایسا نافع اور عمدہ حکم ‘‘شریعت محمدیہ سے خلاف کر کے کس طرح ۱۵یا ۱۶ یا۲۰ یا زیادہ جوروئیں کیں۔ اعتراض ہے سویہ ہے آپ بہکیں نہیں۔ یا تو محمدﷺ کو تعد ادازواج میں شریعت موسوی کا پابند بنائیں اور تعدد کےمحد ود کرنے کو ناجائز ٹھہرائیں اور اُسے’’ نافع اور عمدہ ‘‘حکم نہ فرمائیں۔ یامحمدﷺ صاحب کو شریعت اسلام اور قرآن مجید کا عدول کرنے والاعیاش اور شہوت پر ست مانیں او رسمجھ جائیں کہ کیوں سو (۱۰۰) بیبیون کا کرنا منصب نبوت کے خلاف نہیں ہو سکتا ۔مگر نو بیبیون کا کرنا منصب نبوت کے خلاف ہےبلکہ منصب معمولی شرافت اور دینداری اسلام کے خلاف بھی ۔یہ آپ کے عذرات تے ۔سچ ہے’’ پائی چوبیس سخت بے تمکبین بود ‘‘۔

سید امیر علی صاحب اعتراضوں سے بچنے کےلئے فرماتے ہیں کہ’’ غالباًیہ کہا جائےگا کہ آنحضرت کو نہ چاہئے تھا کہ کسی ضرورت سے خواہ کیسی ہی شدید ہو تعددازواج کی رسم قبیح کو خود عمل میں لاتے یا اُس کو مباح کردیتے ‘‘(صفحہ ۲۱۳)۔یقیناًیہ ہر گزنہ کہا جائیگا۔ حضرت نے خوب کیا جو تعدد ازواج کو عمل میں لائے۔ ہم ان سے کوئی بہتر امید نہیں رکھتی ہیں ۔ مگرہا ں اگراس رسم قبیح کو ’’مباح‘‘ کیا تھا تو اپنے لئے صرف اس قدر مباح رکھتے جو اور وں کےلئے مباح رکھا تھا۔ اُس سے تجاورنہ کرتے پس صرف یہ کہاجائیگا کہ’’آنحضرت کو نہ چاہئے تھا کہ کسی ضرورت سے خواہ وہ کیسی ہی شدید ہو تعد دازواج کی رم قبیح کو ‘‘اپنےلئے اُس حدسے زیادہ روا رکھتے جو انہوں نے اپنی شرعات میں آپ مباح قراردی تھی ۔جب کسی امتی کےلئے کسی ضرورت کی خواہ وہ کیسی ہی شدید ہو رعایت نہ رکھی تھی تو اپنے نفس کےلئے رعایت رکھنا کیا معنی تھی اوریہیں آپ صم ویکم ہیں اور اب معلوم ہوگیا کہ’’ جن مورخین عیسائی نے آنحضرت پر طعن کیاکہ آنحضرت نے تعددازواج کر کے اپنے نفس سے وہ رعایت کی جس کے مستحق آپ شرع شریف کے مو جب نہ تھے‘‘(صفحہ۲۰۶) ۔ ہمارے ذی علم وشہرہ آفاق مسلمان جج نےلاکھ سرمارا کہ اُس طعن کو اُ ٹھائے مگر اُس طعن کا ایک ایک حرف ہزار زور کےساتھ حضرت پر اور چسپاں ہوگیا اور اس کا ایک ذرہ بھی ہمارے مخاطب کےاُٹھانے سے نہ اٹھ سکا ۔

فصل دہم

متعتہ النسا

عورات کی نسبت صرف اسی قدر کارروائی اسلام کی شریعت میں نہیں اگر اتنی ہی ہوتی تو صبر کیاجاتا ۔ حضرت کی شریعت میں متعہ بھی حلال ہے ۔ متعہ صریح رنڈی بازی ہے۔ خرچی دے کر کسی عورت سے رات دورات تعلق پیدا کرنا اور چلتے پھرتے نظر آنا نہیں بلکہ وضع دار لوگ رنڈی بازی میں متعہ کرنے والوں سے زیادہ وفاداری وآدمیت برتتےہیں ۔مولوی محمدعلی کہتے ہیں کہ’’ متعہ کو جواز تو قرآن مجید سے ثابت نہیں ہوتا بلکہ کسی مقام سے اس کا حرام ہونا اظہر میں الشمس ہے ۔ اب اگر احادیث سے ا س کا ثبوت ہوتا ہو تو عیسائیوں کو اس پر اعتراض کرنا ہرگز نہیں پہنچتا‘‘ اور پھر یہ کہ’’ کیا متعہ کا ثبوت قرآن مجید سے ہوتا ہے ہرگز نہیں کیاایسی آئتیں قرآن مجید میں نہیں ہیں جن سے صاف صاف متعہ کی حرمت ثابت ہوتی ہے ،بے شک ہیں۔ دیکھو سرغام الشیا طین وغیرہ ‘‘(پیغام محمدی ،صفحہ ۱۷۹،۱۷۵)۔بے شک متعہ کا ثبوت قرآن مجید سے ہوتا ہےاور ایسی کوئی آیت قرآن مجید میں نہیں ہے جس سے صاف صاف متعہ کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔ دیکھو ضربت حید ریہ وغیرہ ۔مسئلہ متعہ کےاثبات میں نص قرآن موجود ہے۔فمااستَمتَعتُم بہ منھن فاتُو مٰن اجورھُن فریفتہً پھر جو کام میں لائے تم اُن عورتوں کو دےدو اُن کاا جورہ جو مقرر ہوا( سورہ النسا رکوع ۴)۔ضربت حیدر یہ میں نہایت قاطع دلائل سےثابت کر دیا ہے کہ یہ آیت متعہ پر نص ہے اور سنی علما کو بھی اس سے جیسا شیعوں نے ثابت کیا ہے انکا رنہیں ہو سکتا ۔چنانچہ تفسیر ثعلبی میں منقول ہے کہ:

’’عمران بن حصین کہتا ہے کہ نازل ہوئی آیت المتعہ بیچ کتاب اللہ تعالیٰ کی ،نہیں نازل ہوئی بعد اُس کےکوئی آیت جو منسوخ کرے اُس کو۔ پس امر کیا ہم کو رسول اللہ صلعم نے اُس کا متعہ کیا ہم نے ساتھ رسول ﷺ کے اور وہ مر گئے اور نہیں منع کیا ہم کو اس سے اور کہا ایک شخص نےاپنی رائے سےجو چاہا ‘‘۔

(یہ اشارہ ہے عمر کے حکم منع متعہ کی طرف )اور تبیا ن الحقائق شرح کنیز الاقائق میں کتاب النکاح محرمات میں مذکور ہے کہ ابن عباس حلت متعہ میں اس آیت سے استدلال کرتے تھے۔اور یہ تو سب کو معلوم ہے کہ ہدایہ میں امام مالک کی نسبت منسوب کیا گیا کہ وہ متعہ کےجواز کا قائل ہے۔ پس اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ قرآن مجید میں آیت متعہ موجود ہے۔سنّی ناحق اس کو منسوخ بتاتے ہیں۔ کوئی قرینہ اُس کے منسوخ ہو نیکا نہیں ہے۔ شیعوں نے بڑے بڑے قطعی دلایل تاریخ وحدیث سے ثابت کر دیا ہے کہ اسلام میں خود بحکم محمدﷺ متعہ حلال تھا اوراس وقت بھی حلال ہے ۔چنانچہ جملہ امامیہ اس پرکار بند ہیں ۔پس آپ کا یہ کہنا کہ متعہ کا جواز قرآن مجید سے نہیں ثابت مردود ہے اور یہ حیلہ کہ چونکہ احادیث میں اس کا ثبوت ہے اس لئے عیسائیوں کو اس پر اعتراض کرناہر گز نہیں پہنچتا ابلہ فریبی ہے ۔ ہم اسلام پر اعتراض کرتے ہیں اور اسلام کی بنیاد تم خودقرآن مجید اور احادیث دونوں کو تسلیم کرتے ہو۔ پس اگر قرآن مجید میں مسئلہ متعہ کاثبوت نہ ہوتا بلکہ صرف حدیث میں ہوتا تو بھی اسلام ہمارے اعتراض سے محفوظ نہیں رہ سکتا ہے ۔ مگر اب توقرآن مجید کی نص موجود ہے اور کوئی امر منافی متعہ قرآن مجید میں نہیں اور احادیث بھی موجود ہیں جو قطعی ہیں اور اس پر مسلماناں طبقہ اولےٰ وثانی کےعمل بھی موجود ہیں جن پر تواریخ شاہد ہے۔ پس متعہ سے انکا ر کرنا اور اسلام کو ماننا ممکن نہیں۔سنیّوں نے اب متعہ کو باوجود تسلیم سند حدیث حرام ٹھہرایا ہے اور کچھ اُسی بنا پر جس بناپر ہمارے سید صاحب کثر ت ازواجی سےبیزار ہیں اور اس کو اب زناکاری کا تعلق فرماتے ہیں ۔ دراصل متعہ نہایت ہی بے حیائی، بداخلاقی وعیاشی کامسئلہ ہے ۔عورتوں کو یہ خود دےکر کا م میں لانا ہے۔مگر قرآن مجید کی آیت مذ کورہ صاف صاف اس کی مویدہے۔سنّی اس متعہ کو یہ نہیں کہتے کہ اسلام میں حلال نہ تھا بلکہ صرف یہ کہ حضرت نے آخر زمانہ میں اس کو حرام ٹھہرا دیا۔ حضرت کےوقت میں وہ حرام نہ تھا ۔بھئی تمہارے حضرت بھی بڑے حضرت تھے۔ چنانچہ متر جم موطاامام مالک نکاح المتعہ کےفائدہ میں یوں رقمطراز ہے کہ:

’’اوائل اسلام میں درست تھا پھر۔۔۔ فتح مکہ کے روز حرام ہو ا۔پھر جنگ وطاس میں درست ہوا ،پھر حرام ہو ا،پھر تبوک میں درست ہوا، پھر حجتہ الوداع میں حرام ہوا۔اس بار بار کی حرمت اور رحلت سے لوگوں کو شبہ باقی رہا بعض لوگ متعہ کرتے تھے بعض نہیں کرتے تھے ۔یہاں تک کہ آنحضرت ﷺ کی وفات ہوئی اور حضرت ابوبکر کی خلافت میں ایسا ہی رہا اور حضرت عمر کی اوائل خلافت میں بھی یہی حال رہا بعد اس کے حضرت عمر نے اُس کی حرمت بر سر منبربیان کی۔ جب لوگوں نے متعہ کرنا چھوڑدیا مگر بعض صحابہ اُس کے جوا ز کے قائل رہے جیسے جابربن عبد اللہ اور عبداللہ بن مسعو د اور ابوسعید اور معاویہ اور اسمابنت ابی بکر اور عبداللہ بن عباس اور عمر بن حو یرث اور سلمہ بن الاکوع اور ایک جماعت تابعین میں سے بھی جواز کی قائل ہوئی ہے (ملخص زرقانی، کشف العظامطبو عہ مطبع مرتضوی دہلی ۱۲۹۶ھ جلد ثانی ،صفحہ ۳۴۱)۔

غزوہ خیبر ۷ہجری میں واقع ہوا یعنی دعویٰ نبوت کے ۲۰ برس بعد۔ حضرت اس کے ۳ بر س بعد مرگئے۔ فتح مکہ ۸ ہجری میں ہوئی۔ غزوہ تبوک ۹ ہجری میں ہوا اور آخری حرمت متد عویہ حجتہ الوداع میں ہوئی جو آخری سال حضرت کی عمر کاتھا ۔ پس کم سے کم ۲۰ برس زمانہ نبوت محمدﷺ میں متعہ کا حلال رہنا خود مخالفین متعہ کے اقوال سے ثابت ہے اور سال سوا سال قبل وفات حضرت متعہ کے حرام ہو نیکا شبہ تاریخی قرینہ سے باطل ہے۔ کیونکہ سنّی اس سے بھی انکار نہیں کرتے کہ حضرت عمر نے پہلا حکم دیا تھا کہ جو شخص متعہ کر یگا میں اُس کو رجم کر وں گا۔ مگر خلیفہ اول ابوبکر کے زمانہ میں متعہ ہو تا رہا اور اس عمر کے فیصلہ کو خود اُس کے بیٹے نے خلاف شرح کہا ۔چنانچہ جلا ل الد ین سیوطی تاریخ الخلفا میں عمر و کو اول من حرم المتعہ اول شخص جس نے متعہ کو حرام ٹھہر ایا لکھتے ہیں۔ پس خلیفہ اول ابو بکر کے زمانہ میں متعہ حرام ہو ا۔ اگر محمدﷺ اپنی حین حیات متعہ کو حرام کر گئے تھے تو خلیفہ اول ککے عہد میں حلا ل کیسے ہوگیاتھا کہ حرمت کا حکم عمر کو دینا پڑا۔ حقیقت یوں ہے کہ متعہ حرام کبھی نہیں ہوا آیت متعہ قرآن مجید میں موجود ہے ۔ اس کا ناسخ کوئی حکم قرآن مجید میں نہیں اور اگر قرآن مجید میں کوئی آیت حرمت متعہ پر ہوتی تو آخراختلاف صحابہ کےلئے گنجائش نہ تھی ۔ اور اگر قرآن مجید میں صریح آیت متعہ واردہوتی تو عبد اللہ بن مسعو د ساقرآن دان متعہ پر اصرار کیو نکرکر سکتا ہے۔ چنانچہ صحابہ کے عمل کی یہ کیفیت ہے جیسا جابر سے اوپر منقو ل ہواوہ کہتا تھا کہ ’’ہم نے متعہ کیا عہدرسول اللہ صلعم میں اور عہدابوبکر اور نصف خلافت عمر میں، پھر منع کیا اُس نے لوگوں کو اُس سے‘‘۔ یہ ایک پرانا مسئلہ ہے جس کے طرح بہ طرح کے اثبات شیعہ مقابلہ میں سنیوں کے دے چکے اور سنیوں سے کوئی جواب نہ بن پڑا جو شخص چاہے طرفین کی کتب مناظر ہ ا س باب میں دیکھ لے۔

پس اہل سنت کا متعہ کو حرام ٹھہر اناقرآن مجید و سنت سے درگزر کرنا ہے ۔شیعے حق پر ہیں ورنہ اس کی حرمت ایسی ہے جیسی کہ کثرت ازواجی کی جس کو ہمارے سید صاحب مخالف منشا قرآن و تعلیم محمدی سمجھ کر’’ زناکاری کا تعلق ‘‘فرماتے ہیں۔

فصل یا زدہم

تقویم پار ینہ

ہم نے حضرت کی ازواج کے حالات مفصل پر تحقیق کےساتھ نظر ڈالی اور ان کے ساتھ حضرت کی بے حیائی کے تعلقات دیکھے ۔ ہم یہ کہےبغیر نہیں رہ سکتے( گو وہ بمصداق الحق مر انکے تابعین کو کیساہی ناگوار کیوں نہ معلوم ہو) کہ حضرت شہوت پر ست وعیا ش پر لے درجہ کے تھے۔خدیجہؓ کی وفات کے دو ماہ بعدہی حضرت نے دو عورتوں سے یعنی سودہ اور عائشہؓ سے نکاح کر لیا اور اُن کی جورؤوں کا روزنامچہ جس سے مسلمان انکا ر نہیں کرسکتے ہم ہدیہ ناظرین کرتے ہیں ۔

سن حضرت کی عمر شریف نام ازواج مطہرات مختصر کیفیت ازواج مطہرات کی
۱۰ نبو ی ۵۱ سال سودہ حضرت سودہ کو جب تک عائشہؓ تیار نہ ہوئی مثل پر تل کے رکھتے رہے۔ مابعد کبرسنی کے باعث حضرت نے اُن کو بالکل پنشن دےدی تھی اور اُن کی جگہ عائشہؓ کو قبول فرمایا اور محمدحسین بٹالوی کےقول پلاؤ اور جو کی سو کھی روٹی کی داد دی ۔
    عائشہ اس وقت اُن کی عمر کل سات(۷) سال کی تھی۔ پہلے ہی سے حضرت نے اُن کو اپنےواسطے رکھ چھوڑا ۔
۱ ہجری ۵۳سال عائشہ دو برس بعد جب عائشہؓ ۹ برس کی ہوئیں حضرت نے ان سے زفاف فرمایا۔ یہ حضرت کی بڑی چہیتی بی بی تھیں کیونکہ کنواری صرف یہی تھیں یعنی منکوحہ عورتوں میں۔ ماریہ لونڈی بھی کنواری تھی بعد عائشہؓ کے حضرت اس پر بھی دل دادہ تھی اور یوں توتمام جوان عورتوں کو چاہتے تھے۔
۳ ہجری ۵۵ سال حفصہ یہ بڑی قبول صورت پر ی تمثال عورت ۱۷ سال کی نوجوان تھی ۔
۳ہجری ۵۵سال ام المساکین یہ بہت جلد فوت ہوگئی ۔
۴ ہجری ۵۶ سال ام سلمہ کوئی ۲۷ سا ل کی عمر والی عورت تھی ۔
۵ ہجری ۵۷سال زینب بنت جحش یہ زید حضرت کے فرزند متبنیٰ کی جورو تھی مگر بڑی حسین ماہ پارہ عابد فریب تھی۔ آخر حضرت نے اس کو اپنی جورو بنا لیا۔
۵ ہجری ۵۷ سال ریحانہ حضرت نے اس کو بہت سی عورتوں میں سے چھا نٹ کر اپنی جورو بنا یا ۔
۶ہجری ۵۸ سال جویریہ ازحد حسین، عمر اس کی ۲۰ سا ل تھی ۔
۷ ہجری ۵۹سال ماریہ قبطی گورے رنگ والی بڑی صاحب جمال تھی۔حضرت اس پر فدا تھے حتیٰ کہ عائشہ رشک کھاتی تھی ۔آپ کو تحفہ میں ملی تھی اور کنواری تھی۔
۷ہجری ۵۹ سال صفیہ ازحد حسین تھی۔ نوعروس ۱۷ سا ل کی ۔
۷ہجری ۵۹ سال ام حبیبہ اس کو حضرت نے اپنے واسطے حبش سے بلوایا تھا ۔اُس کی عمر تیس سا ل تھی۔ حضرت اس کو ایک ملکی غرض سی بھی نکاح میں لائےتھی ۔
۷ ہجری ۵۹ سال میمونہ انہوں نے حضرت کو اپنا نفس بخش دیا تھا’’ بر گ ِسبز اَست تحفہء درویش‘‘(سبز پتا فقیر کا ہدیہ ہے) اور حضرت نے جودو کرم کو کام فرما کر ان کو ’’گر قبول افتدزہی عرذشرف‘‘ قبول فرمایا لیا اور اس میں ایک بڑی غرض یہ بھی تھی کہ آپ اس کےرشتہ واروں کو جو مخالفت کرتے تھے ٹھنڈا کرنا چاہتے تھے ۔

اب حضرت کے جوروئیں فراہم کرنےکے آگے بجزموت کے کوئی روک باقی نہ رہی تھی۔ آخر حضرت ہجرت کےدس برس بعدمرگئے اور مرتے مرتے نکاح کر گئے۔ چنانچہ حیات القلوب والا کسی شنیاہ دختر ضلت کا ذکر کرتا ہےکہ’’ حضرت اور اتنرویج نمودوپیش ازان کر اور بخد مت حضرت بیادندحضرت زوارفانی رحلت نمود‘‘(صفحہ ۵۶۸)جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بستر مرگ ہی پر جس کو وہ بستر مرگ نہ جانتے تھی حضرت نےیہ نکاح کیاتھا مگر نوبت صحبت کی نہ آنے پائی۔ یہ انتہائی بو الہوسی (بہت زیادہ حرص۔نفسانی خواہشات پر بہت زیادہ چلنا)ہے ۔

اس روزنامچہ سے جو مکمل نہیں کیونکہ ا س میں حضرت کی چار لونڈیوں میں سے دو کا تذکرہ نہیں کیا گیاصاف عیا ں ہے کہ علاوہ بی بی خدیجہؓ کے جن کا انتقال قبل ہو گیاتھا ،حضرت کے پا س کم سے کم کوئی چو د ہ جوروئیں تھیں اور حضرت نےیہ نکاح وغیرہ بعد وفات خدیجہؓ شروع کئے تھے۔ خدیجہؓ ۱۰سن دعویٰ نبوت میں مری اور اس کے بعد حضرت ۱۳ برس اور جئے ۔ اگر آنحضرت اس ۱۳ برس کے زمانہ میں صرف ۱۳ عورتیں کرتے تو وہ شیخ سعدی کے اُس لطیفہ کے مصداق ہوتے ’’ زنے نو کن اسے دوست ہرنوبہار۔ کہ تقو یم پاری نباید بکار‘‘ ۔ مگر حضرت نے اُ س کو نافذکر دیا۔

ہمارے مخاطب اول تو حضرت کے حرم سرا کی تعد اد میں قطع برید کرتے رہے پھر حضرت کی جورؤوں کو بڈھی سے بڈھی ثابت کرتے ہے اور یہی کہتی گئے کہ بیکس بیوا ؤں کی پرورش کرنے کے لئے حضرت جوروئیں رکھتے تھے۔ گویا حرم سرا کیاایک محتاج خانہ تھا۔ مگر ہم نے دکھایا کہ حضرت شہوت زنی و عیاشی کرتے تھی ۔ہر عمر کی ایک عورت حضرت رکھتے تھے۔ یہاں ۷سے ۹ برس تک کی باکرہ بھی ہے۔ ۱۷ برس کی نوعروس بھی، دو تین ۲۰ سا ل والی بھی، ۲۷ سال والی بھی، ۳۰ والی بھی، ۳۵ والی بھی، ۴۰ والی بھی اور پچاس والی بھی تاکہ ہوس کم نہ ہو اورتجربہ زیادہ ہو۔ فرنگی محل، چینی محل،حبشی محل والوں نے حضرت ہی کو اپنا استاد مانا ہوگا ۔یہ سو جھ بوجھ مرحباسید مکی مدنی والعربی ہی کوتھی اورعورتو ں کا انتخاب حضرت یوں کرتے تھےجیسا حیات القلوب والے نے لکھا ہے’’ کلینی بسند معتبر روایت کردہ است کہ چون حضرت رسول ارادہ خواستگار ی زنے می نمودوزنے افرستاد کہ نظر کندبسوی ادومی فرمود کہ بوکن گردنش راا گر گرونش خوش بوست ہمہ بدنش خوش بوست وغورک پایش راملاخطہ کن کہ اگر آنجاپر گوشت است ہمہ جائے تن اوپر گوشت است وجوہ ‘‘عورتوں کی پر کھ تو شاید کسی ریئس اودہ کو بھی نہ معلوم تھی ۔اے سید صاحب شرم کیجیئے اور ایسے بے تکی نہ ہانکیے۔حضرت عیاش تھے پر گوشت عورتوں کو تلاش کر اکراور جبرائیل کےلائے ہوئے ایسےاور حبوب امساک کھاکھا کریا شہد اور کیکر کارس پی پی کر جس کاپتا مولانا عمادالدین نےدیا ہے (تاریخ محمدی ، صفحہ ۲۳۲)رات بھر عیاشی کیا کرتے تھے ۔جیسا خود محمد حسین قبول کرتے ہیں کہ’’ حضرت ایک ہی ساعت میں رات یادن کےسبھی ازواج سے ہم بستر ہوتے‘‘(صفحہ ۱۹۴)۔ پس بیوہ پرور ی کا خیال تو جانے دیجیے۔ محمدحسین کہتے ہیں کہ’’ مخالف بھی تجویز نہیں کر سکتا کہ آپ کا کثرت تعدد نکاح شہوت پرستی ونفس پروری کی غرض سے تھا۔۔۔ آپ نفسانی ا غراض رکھتی اور ان اغراض سے عیش چاہتے تو عالم شباب میں رسم ورواج قوم کےمطابق بہت سی عورتیں نکاح میں لاسکتے تھے۔ سو بھی جوان اور باکرہ جونفسانی اغراض کا اصل محل ہیں‘‘(صفحہ ۱۷۲،۱۷۱)۔اس کا جواب ہم دے چکے کہ عالم شباب میں زرنیست عشق ٹیں ٹیں تھا ۔ حضرت کوا یک جوروڈھو نڈے نہ مل سکتی تھی اور جب خدیجہؓ سے آپ نے نکاح کیا تو آپ اس کی زندگی بھر اس کےحلقہ بگوش طو عاًو کر ہاًرہے۔ کان بھرنے کا ابھی کوئی ظاہری موقع نہ تھا۔ پھر مولوی صاحب فرماتےہیں اگر کوئی اس بات کونہ مانے (اور مانے کیسے) تو وہ یہی خیال کرلے کہ اس تکثرو تعد دازواج پر باعث آپ کو نفسانی اغراض ہوتے تو جس وقت آپ صاحب سلطنت اور ملک عرب ویمن وشام کےمالک و متصرف ہوگئےاور اس تعداد نکاح کے مرتکب ہوئے تھے اسی وقت آپ جوان باکرہ عورتوں سے نکاح کرتے ۔مولوی صاحب کو نہیں معلوم کہ یوں ہی حضرت نےاپنے آپ کوصاحب سلطنت دیکھا۔ملک الموت نےرگ جان کو کاٹا۔ حضرت کو جینے کی مہلت ہی نہ ملی اور کوئی نئی کلی دل کی نہ کھلی۔امید بستہ برآمدوے چھ فاید ہ زان ۔امید نیست کہ عمر گذشتہ باز آید ۔

مگر آپ ہماری تقویم کا مطالعہ کریں اور حضرت کی حرم سرا کا تماشہ دیکھیں۔ حفصہ جوان بھی ہے اور خوبصورت، زینب حسن وجمال کی موہنی مورت ،صفیہ نوعروس ۱۷سال ،جویر یہ نئی عمر پری تمثال ،ریحانہ کو حضرت نے چھانٹ کر پسند کر لیا ہے اور عائشہؓ کی کم سنی نےآپ کو اپنا پائے بند۔ جوروش ماریہ شہرہ آفاق ہے۔ جدائی اس کی حضرت کو شاق ہے۔ مگر آپ کو جوان اور باکرہ عورتوں کا پتا نہیں لگتا۔ عائشہؓ بھی باکرہ ہے اور کیاچاہئے ۔دوسری عورتیں جوانی کا نمونہ ہیں، اگر باکرہ نہیں تو کیامضائقہ۔ جہانگیر ایک غیر باکرہ بیوہ عورت کی طلب میں کیوں دیوانہ تھااور پھر یہ حضرت کی ازواج کس رنگ ڈھنگ کی تھیں۔ہم بتاتے ہیں بلکہ آپ کو اپنا کہایاددلاتے ہیں ۔سورہ احزاب رکوع۴میں خدا کوآپ کہناپڑا’’ اے نبی کی بیو یوتم اور عورتوں کی طرح نہیں تم خدا سے ڈرنےوالی ہو تو اجنبی مرد سے لچک اور پیار کی بات نہ کرو۔ اس سے بیمار دل والے طمع کریں گے۔دستور کے موافق بات کیا کرو۔ گھرمیں پڑی رہو، نادانی کے زنانہ کی طرح اپنی زینت سب مردوں کو نہ دکھاؤ‘‘(خطبہ، صفحہ ۳۲۸) ۔ان عورتوں کوآپ بڑھیانا حق کہتے ہیں ،حرمت کو اُن کی جوانی کا اس درجہ اندیشہ تھا۔

اور یہ جو آپ نے ارشاد فرمایا کہ’’ عقلی وطبعی قاعدہ ہے کہ جس عورت کا جمال وشباب کسی مرد کو مرغوب ومعشوق ہوتا ہے وہ ا س کے ہوتے دوسری عورت کا جو جمال و شباب میں اس سے کمتر ہو ہرگز طالب وراغب نہیں ہوتا‘‘(صفحہ۱۷۸)۔ اس کی تصد یق بھی سودہ اور عائشہؓ کے حالات میں ہم دکھا چکے ۔جو عیاش بہت سی نمائشی عورتوں جمع کررکھتے ہیں وہ بھی کسی ایک پر دلدادہ رہتے ہیں۔ ہمارے حضرت علیہ السلام بھی بنت ابوبکر پر گرویدہ تھے کیونکہ یہ بھی با کرہ تھیں اور کم سن بھی ۔بعد ان کے یعنی دوسرے درجہ پر آپ سفید پوست ماریہ پر شیداتھے۔ یہ بھی عائشہؓ کی مثیل تھی۔ اس کے بعد جویرپر پھر صفیہ پر پھرحفصہ پرعلیٰ ہٰذاالقیاس ہر جوان پر سودہ عمر میں بڑی تھی حضرت نےاس کو پنشن عطا فرمائی۔ میمونہ اور ام جیبہ وغیرہ جو عمر میں کچھ زیادہ تھیں حضرت کے دل میں کم جگہ پاتی تھی۔ مگر یہ عورتیں بھی بڈھی نہ تھیں بلکہ جس کوآپ بڑھیا سمجھتے ہیں اُس پر بھی جناب کا یہ سخن چسپا ں ہوتا ہےکہ’’ بن ٹھن زینت وسنگار سے بڑھیا بھی جوان معلوم ہوتی ہے اور وہ شدت کے حریصوں کی محل طع ہو جاتی ہے‘‘(خطبہ،صفحہ ۳۲۹)۔اس لئے حضرت بیمار دل لوگوں سے اندیشہ لاک تھے اور ان ازواج کو ارشادتھا کہ ان سے لچک اور پیار کی بات نہ کرو اور نہ اُن کو اپنی زینت دکھاؤ۔ مولوی صاحب کس کس بات کا انکار کروگےحضرت اپنی کرنی کر توت کےکافی سے زیادہ ثبوت اپنی تاریخ میں لکھاگئے ہیں۔

فصل د وا زدہم

طلاق

ہم نے ابتد ا میں بیان کیا کہ طلاق و کثرت ازواجی لازم وملزوم ہیں بلکہ ہمیشہ ہمدوش چلنے والے ۔ایک برائی کی صلاح دوسری برائی سے ہوتی ہے۔ اس لیے شرع عیسوی نے کثرت ازواجی کو حرام ٹھہر ا کر طلاق کو حرام ٹھہرا یا اور ایک حالت میں یعنی زنا کی حالت میں ا س کو جائز رکھا ۔ عہد عتیق میں کثرت ازواجی حلا ل ومباح تھی ۔طلاق بھی حلال ومباح تھی اور خداوند مسیح نےطلاق کو انسان کی سخت دلی کا نتیجہ بتایا ۔ اسلام میں جب کثرت ازواجی حلال ومشروع بلکہ ایک مستحسن امرٹھہرا تو اس حال میں کوئی الزام اسلام پر اس و جہ سے عائد نہیں ہوسکتا کہ اُس نےطلاق کو کیوں جائز رکھا۔ مگر یہ امر کہ دراصل طلاق ایک خرابی ہے اور خداوند کو نا پسند پیغمبر اسلام کے ناموافق اقوال بھی اس کی تائید کرکے عیسوی شریعت منع طلاق کی تصدیق کرتے ہیں۔ چنانچہ سید صاحب ایک حد یث نقل کرتے ہیں ’’ آنحضرت نےفرمایا خدا نے کوئی چیز دنیا میں ایسی نہیں پیدا کی جس کو وہ طلاق سے زیادہ ناپسند کرتا ہو‘‘(صفحہ۲۱۶) اورمولوی محمد علی صاحب بھی ایک حدیث سناتےہیں کہ ’’حلال چیزوں میں خدا کو زیادہ غصہ میں لانے والی طلاق ہے‘‘(پیغام محمدی ،صفحہ۱۶۴) ۔ پس بیان سےا ظہر ہے کہ طلاق خدا کو نا پسند اور اُس کی مرضی کے خلاف بلکہ اُس کو غصہ میں لانے والی ہے ۔اب یہ جرات اسلام کو ہی ہو سکتی تھی کہ وہ ایسے امر کو جس کو ان کا پیغمبر صریح خدا کے مباح قرار دیکر خدا کے غضب کو بھڑکائے ۔ مگر اس اسلامی طلاق کو اسلام کے حامی بہت رنگ دے کرپیش کرتے ہیں۔ سید صاحب فرماتے ہیں:

’’ آنحضرت طلاق کے مفہوم ذہنی کو بہت ناپسند فرماتے تھے اور اس کے وجود خارجی یعنی کل کو قانع بنیا ن (جو کچھ ہو اسی پر قناعت کرنا)تمدن جانتے تھے۔ ( شکر ہے) مگر بایں ہمہ ایک حکیمانہ قانون طلاق منضبط کرکے آپ نے اُن ضرورتوں کا تدارک کامل فرمایا جو تمام اوقات میں اور سب خاندانوں میں اس وقت تک ضرور پیش آئیں گےجب تک کہ انسان جامہ بشریت پہنے رہے گا‘‘(صفحہ۲۱۵)۔

محمدعلی صاحب فرماتے ہیں کہ:

 ’’شریعت محمدیہ نےاس بات میں ایسے احکام نافذ کئے جس سے شریعت کا پابند بجزحالت ضرورت اور مجبوری کے کسی طرح بیوی کو علیحدہ نہیں کر سکتا‘‘(صفحہ۱۶۴)۔

اور پھر بزرگ مولوی صفدر علی صاحب کے اس قول کی کہ’’ قرآن و حد یث لوگوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ جب تمہاری خواہش ہوا کرے جورؤوں کو طلاق دےدیا کرو‘‘ تردید کرتے ہیں ۔پیغام محمدی (صفحہ ۱۶۵)میں ایک عملی دلیل سے اس امر کو ثابت کئے دیتا ہوں کہ دراصل قرآن وحدیث کا منشادہی ہے جو مولوی صفدر علی صاحب نے بیان کیا ۔بلا کسی وجہ کےبھی جب چاہئے مرد جورو کو طلاق دےدے اور دوسری جو رو کرے ۔اسلام کے اماموں نے ایسا کِیا۔ پیغمبر اسلام کے پیاروں نے ایسا کِیا ۔وہ جو بہشت کے سردار سمجھے جاتے ہیں انہوں نے ایسا کِیا۔ جو پیشوا ئے امت محمد یہ ہیں انہوں نے ایسا کِیا ،جو اسلام اور قرآن مجید اور حدیث اور سنت نبی کے مناد ہیں انہوں نے ایسا کِیااور خوب ضرور سے کیا بڑےمزے سےکِیا ۔ پوری طرح شریعت کاپابند ہو کر کِیا اور کوئی اصول شریعت محمدیہ اُنکو اس بے اعتدالی فطرتی سے روکنےوالا نہ تھا اور نہ کسی نے ان کو بے ایمان مسلمان کہا ، نہ شریعت کاتو ڑنےوالا۔سید امیر علی صاحب نے بڑی دلیری سے فرمایا ہے کہ:

’’ حضرت علی اور اُن کے صاحب ز اد وں نے کیسی عالی ہمتی ظاہر فرمائی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حرمت نسواں کا ایک غیر مکتوب قانون مسلمانوں میں علیحدہ مقرر ہوگیا‘‘(صفحہ۲۲۰)۔

میں حضرت علی کے صاحبزادوں میں سے ایک کی نظیر پیش کرتا ہوں تاکہ’’ حرمت نسوان کاغیر مکتوب قانون ‘‘ظاہر ہوجائے ۔حضرت امام حسن کومحمدصاحب نے جوانان بہشت کا سردار فرمایا ہے۔’’ آپ سینہ لےکر سر تک رسول خدا سے مشابہ تھے اور جسمانی مشابہت کے موافق آپ کو اخلاقی مشابہت بھی تھی۔ مراۃ الکائنات میں ہے کہ تمام توا ریخوں میں مذکور ہے کہ حضرت امام حسن بڑے کثرت سے نکاح کرنے والے اور طلاق دینےوالے تھے۔ حتی ٰ کہ اپنے والد کے حین حیات انہوں نے ۹۰ یا ۱۱۰ نکاح کئے اور باوجود حسن اخلاق کے ادنیٰ ادنیٰ وجہ پر ان میں سے ہر ایک کو طلاق دے دی۔ فاطمہ کا نکاح حضرت علی کے ساتھ ۲ہجری میں ہو ا اور حضرت علی۰ ۴ہجری میں مقتول ہوئے ۔پیدائش امام حسن ۳ہجری کی ہے اور اگر فرض کیا جائے کہ انہوں نے شروع سن سے عیاشی کرناشروع کی تھی اور اس سن کو ابتدائی زمانہ ۱۷ برس کا فرض کریں جو ۲۰ ہجری میں ہوتا ہے تو اُن کےوالد کی وفات تک ۲۰ برس باقی رہتے ہیں تو اس حساب سے ۲۰برس میں حضرت نے(۹۰یا۱۱۰ کا اوسط قریب)۱۰۰ جوروئیں کیں۔ مگر کبھی چار سے زیادہ ایک آن میں نہیں رکھیں بپابندی شرع محمد یہ۔ پس صاف ظاہر ہے کہ حضرت امام حسن بحساب۵ جوروئیں فی سا ل طلاق دیتےتھے یعنی ہر ڈھائی ماہ میں ایک نئی جو روکرتے تھے اور پرانی کو طلاق دیتے تھے ۔ بعد وفات علی امام حسن ۹ برس اور جئے کیونکہ ۴۹ہجری میں اُن کواُن کی جورونے زہردےکرمارڈالا ۱۱ ۔ اس ۹ برس کے عرصہ میں۵*۹= ۴۵ نکاح اور طلاق حضرت نےاور اورکئے ہوں گے یانہ کئےہوں قبل ہی آسودہ ہوگئے ہوں۔ مگرا س میں شک نہیں کہ وہ سوا سو جوروئیں جن کاذکر اوپر کیاگیا علاوہ اُن بے شمار لونڈیوں کےہیں جو کسی حساب میں نہیں آسکتی مگر ناظرین ان کا بھی خیال رکھیں ۔ اب آپ فرمائیں یہ امام عیاش بلا کسی وجہ کے محض خط نفس کی غرض سے نکاح پر نکاح کرتاجاتا ہے اور طلاق پر طلاق دیتا ہے اور آپ نہیں کہہ سکتی کہ اُس نےشریعت محمدیہ کا عدول کیا یاوہ اس کے اعتبارسے گنہگار و عیاش ٹھہر ا ۔ اور اگر آج کوئی مسلمان اس امام کی طرح نکاح وطلاق کو روارکھے تو کو ن اس کو برا کہہ سکتاہے۔ حضرت علی زندہ ہیں ،امیر المومنین ہیں۔ ان کی آنکھوں کے سامنے صاحب زاوہ بلنداقبال یہ کررہے ہیں اور کوئی حکم شرع اُن کے عمل کے خلاف وہ نہیں پاتے بلکہ صحابہ بھی یہی کہتے ہیں ’’بہتر اس امت میں سے وہ شخص ہے جس کی بیبیاں بہت ہیں‘‘ (منہاج ، صفحہ ۷۲۷)اور بہت جوروان تبھی ہوں جب بہت طلاق ہوں اور بہت طلاق ویسی ہی ہوں جیسےامام حسن نےدئیے۔ ہم اس حیوانی حرکت کو کیا کہیں اور اس کے مرتکب کو کس موضوع نام سے یاد کریں۔ اگر مسلمان انصاف کریں تو خود سمجھ سکتے ہیں۔ چنانچہ مولوی محمدحسین صاحب اس شخص کی نسبت جو چارجورؤوں سے بھی آسودہ نہیں ہوتا اور زیادہ عورتیں چاہتا ہےیہ ارشاد فرماتے ہیں:

’’ اگر کوئی ایسا چھپا رستم نکل آئے جو چار قوی اور تواناعورتوں کاکام تمام کرکے بھی خو دناکام رہے تو اس کی حاجت روائی کےلئے پانچویں یا چھٹی عورت کی اجازت دینے کی نسبت کم مضرت لو ۔ سہل العمل یہ تر کیب ہے کہ وہ پہلی چار آسامیوں کوپنشن دےکر یکے بعددیگرے یا یکبارگی ریٹائر کردے اور ان کی جگہ چار اور بھرتی کرلے۔ ان کو بھی وہ چھپارستم ہر ا دے تو ان کو چھوڑ کر چار اور کرلے وعلیٰ ہٰذاالقیاس ایسے شخص مفروض الوجودو الصفات کو چار کی موجودگی میں پانچویں کی اجازت دی جائے تو اس میں دیندار بدمعاشوں و عیا شوں کو ایک حیلہ و بہانہ ہاتھ آجائےگا ۔وہ اس بہانہ سے بہت سی عورتوں کوگھیر لیں گےاور مخلوق خدا کی حق تلفی کریں گے۔ دیند ار ان کو اُن کے دعویٰ کے بموجب کہا اور حقیقت میں وہ بدمعاش ہیں‘‘(صفحہ ۱۶۶)۔

مولوی صاحب کو ہر گزنہیں یاد تھا کہ ایسا شخص ’’مفروض الوجودالصفا ت ‘‘نہیں ہے بلکہ خود امام حسن صاحب ہیں اور وہ ہی صلاح پر کاربندرہے۔ اگر یہ معلوم ہوتا تو آپ ایسے لوگوں کو’’ دیند ار بدمعاش وعیاش ‘‘نہ فرماتے ۔بہرحال ان دیندار بدمعاشوں کی سرپرست شریعت اسلام ہے۔ مگربا ینمہ حیف کےیہ مولوی صاحبان صفد ر علی صاحب کو یہ نہیں کہنے دیتے کہ’’ قرآن و حدیث لوگوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ جب تمہاری خواہش ہوا کرے جورؤوں کو طلاق دیدیا کر و‘‘۔ ان مولویوں کو امام حسن جھٹلائیں جو فعل سردار جوانان بہشت اور امیر المومنین کو خلاف شریعت ٹھہرا رہے ہیں اور نہیں سوچتے ’’چو کفراز کعبہ بر خیز دکجا ماند مسلمانی‘‘۔


۱۱. حاشیہ تاریخ الا یمہ مصنف سید وزیر حسین خاں صاحب بہادر قائم مقام سب جج مطبوعہ نو لکشوری صفحہ۷۴ عین کتاب کنز المصائب سے منقول ہے کہ معاویہ نے ایک پارچہ زہر آلودہ زوجہ امام حسن مسماۃ جعدہ بنت شعث کو اس ہدایت سے بھجوایا کہ’’جب امام حسن تیرے پاس آئیں تو بعد انفراغ خلوت اس رومال زہر آلودہ سے آپ کے جسم اطہر کو پاک کرنا کہ زہر اس کےجسم امام حسن میں اثر کرے گا اور پھر جان بر نہ ہو پائیں گے۔چنانچہ اس لمعونہ نے ایسا کیا اور بوجہ اس صدمہ کے ۴۰ روز تک آپ تکلیف میں رہے‘‘جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب نے جان بھی عیاشی کے ذہان کی اور خدا جانے کسی مرض اور میں مبتلا ہو کر مرے جس کے لئے اس قسم کے قصوں کی ضرورت پیدا ہوئی۔

فصل شیر دہم

عورات کی حیثیت

اس بے باک مصنف نےاس بارے میں جو غلط بیانیاں اور منہ زور یا ں کیں ہیں اس سے ثابت ہوتاہے کہ اُس نے عورات کی حیثیت اسلام میں یہودیت اور عیسایت سےا فضل ظاہر کرنا چاہی ہے۔ کوئی کلام نہیں کہ اسلام کی حمایت نے ہمارےمخاطب کی آنکھوں پرپردہ ڈال دیا ہے اور اُس کی زبان کو بےلگام کر دیا۔ اب اس کو سفید کو سیاہ اور کھرے کو کھوٹا کہنے میں سرموتامل نہیں رہا۔ وائے بربے انصافی اور ہم کو وہ یہ سناتا ہےاور مہذب دنیا کو اپنے اوپر ہنساتا ہے ۔’’ دین مسیحی نے عورتوں کی شقاوتیں اور ان کی برائیاں اور اُن کی کینہ پروری اور کینہ جوئی پر بہت کچھ لکھا تھا‘‘ (صفحہ۲۱۹)۔ اگر اس قول میں ہم بجائے دین مسیحی کے اسلام اور بجائے قدماءعلماءمسیحی کے محمد اور صحابہ داخل کریں تو یہ لفظاً درست ہوتا ۔ دین مسیحی نے !ہم نکار کےاُس سے اور اُس کےہم خیالوں سے کہتےہیں ۔انجیل مقدس سے کوئی ایک کلمہ تو نکال دو جس میں عورتوں کو’’ ملعون اور مطعون‘‘ کیا گیا ہے یا تم ہم سے سن لو کہ قرآن و حدیث عورتوں کوکس طرح ذلیل کرتے ہیں۔ کثرت ازواجی سے اُن کےدلوں کو جلاتے ہیں۔ اُن کی غیر ت کو کھوتے، ان کی زندگی کو وبال کرتے ہیں طلاق وغیر ہ سے جیسا کہ حضرت امام حسن کا عمل تھا۔ عورتوں کومردوں کے لئے شہوت زنی کا ایک آلہ بنا کر اُن کو دکھاتے ہیں کہ نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ عورتیں تمہاری کھیتی ہیں ۔ پس جاؤاپنی کھیتی میں جہاں سے چاہو(سورہ بقرہ رکوع ۲۸آیت ۲۵۳)۔شارع اسلام نہ کوئی اور جس کی شر یعت پر آپ ناز کررہے ہیں عورت کو ’’صور ت شیطان ‘‘فرماتے ہیں ۔

صحیح مسلم ۔ جلد دوم ۔ نکاح کا بیان ۔ حدیث ۹۱۴

راوی: عمر بن علی , عبدالاعلی , ہشام بن ابی عبداللہ , ابی زبیر , جابر

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَی امْرَأَةً فَأَتَی امْرَأَتَهُ زَيْنَبَ وَهِيَ تَمْعَسُ مَنِيئَةً لَهَا فَقَضَی حَاجَتَهُ ثُمَّ خَرَجَ إِلَی أَصْحَابِهِ فَقَالَ إِنَّ الْمَرْأَةَ تُقْبِلُ فِي صُورَةِ شَيْطَانٍ وَتُدْبِرُ فِي صُورَةِ شَيْطَانٍ فَإِذَا أَبْصَرَ أَحَدُکُمْ امْرَأَةً فَلْيَأْتِ أَهْلَهُ فَإِنَّ ذَلِکَ يَرُدُّ مَا فِي نَفْسِهِ

عمر بن علی، عبدالاعلی، ہشام بن ابی عبد اللہ، ابی زبیر، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک عورت کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیوی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئے اور وہ اس وقت کھال کو رنگ دے رہی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حاجت پوری فرمائی پھر اپنے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی طرف تشریف لے گئے تو فرمایا کہ عورت شیطان کی شکل میں سامنے آتی ہے اور شیطانی صورت میں پیٹھ پھیرتی ہے پس جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو دیکھے تو اپنی بیوی کے پاس آئے۔

اور ’’انہیں چھوڑ اپنے اپنے بعد کوئی فتنہ جوزیادہ ضرر پہنچانےوالا ہو مردوں پر عورتوں سے‘‘ ۱۲ ۔پھرحضرت عورت کو ’’شوم ‘‘نجس فرماتے ہیں اور اس کی شومی کی گھوڑی کی شومی میں نظیر ڈھونڈتے ۱۳ ۔ پھر فرماتے ہیں’’ نماز کو قطع کرتے ہیں کتا اور عورت اور گدھا‘‘

سنن ابن ماجہ ۔ جلد اول ۔ اقامت نماز اور اس کا طریقہ ۔ حدیث ۹۵۰

جس چیز کے سامنے سے گز رنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے

راوی: زید بن احزم ابوطالب , معاذ بن ہشام , ہشام , قتادہ , زرارة بن اوفیٰ , سعد بن ہشام , ابوہریرہ

حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ أَبُو طَالِبٍ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَی عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَقْطَعُ الصَّلَاةَ الْمَرْأَةُ وَالْکَلْبُ وَالْحِمَارُ

زید بن احزم ابوطالب، معاذ بن ہشام، ہشام، قتادہ، زرارة بن اوفیٰ، سعد بن ہشام، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا عورت کتا اور گدھا نماز کو توڑ دیتے ہیں ۔

دیکھئے عورت کو کتے اور گدھے کے بیچ میں بٹھا نے سے نہیں شرماتے۔ان کی پلیدی کو قاطع نماز فرماتے ہیں اور انتہا اُس کی یہ ہے کہ جب حضرت نےدوزخ اور بہشت کی سیر فرمائی تو دوزخیوں میں عورتوں کی کثرت دیکھی ۔

جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ جہنم کا بیان ۔ حدیث ۵۰۹

اس بارے میں کہ جہنم میں عورتوں کی اکثریت ہوگی

راوی: احمد بن منیع , اسماعیل بن ابراہیم , ایوب , ابورجاء عطاردی , ابن عباس ما

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ أَبِي رَجَائٍ الْعُطَارِدِيِّ قَال سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اطَّلَعْتُ فِي الْجَنَّةِ فَرَأَيْتُ أَکْثَرَ أَهْلِهَا الْفُقَرَائَ وَاطَّلَعْتُ فِي النَّارِ فَرَأَيْتُ أَکْثَرَ أَهْلِهَا النِّسَائَ

احمد بن منیع، اسماعیل بن ابراہیم، ایوب، ابورجاء عطاردی، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے جنت میں جھانکا تو اس میں غریبوں کو زیادہ دیکھا اور جب دوزخ میں دیکھا تو عورتوں کی اکثریت تھی۔

ا ور فرمایا کہ’’ البتہ براکنین جنت میں عورتیں سب سے کم ہوں گی ‘‘ ۱۴ بلکہ حق یوں ہے کہ نہ صرف حضرت عورت کو’’ صورت شیطان سمجھتے تھے بلکہ مکاری اور فریب کے لحاظ سے وہ عورت کو شیطان سے بڑی بلکہ شیطان کی خالہ جانتے تھی ۔ چنانچہ سورہ نسا(رکوع ۱۰آیت ۷۶) میں آیا ہے کہ الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا ترجمہ: ’’جو مومن ہیں وہ تو خدا کے لئے لڑتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ بتوں کے لئے لڑتے ہیں سو تم شیطان کے مددگاروں سے لڑو۔ (اور ڈرو مت) کیونکہ شیطان کا فریب ضعیف ہے‘‘۔ مگر سورہ یوسف(رکوع۳آیت ۲۸) میں وار د ہوا ہے فَلَمَّا رَأَىٰ قَمِيصَهُ قُدَّ مِن دُبُرٍ قَالَ إِنَّهُ مِن كَيْدِكُنَّ إِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيمٌ ترجمہ: ’’اور جب اس کا کرتا دیکھا (تو) پیچھے سے پھٹا تھا (تب اس نے زلیخا سے کہا) کہ یہ تمہارا ہی فریب ہے۔ اور کچھ شک نہیں کہ تم عورتوں کے فریب بڑے (بھاری) ہوتے ہیں‘‘ ۔

اور ایک فریب کے واقعہ پر جس سے ان کی عورتوں نے ایک عورت کو حضرت کے ہاتھ نہ لگے دیا حضرت نے اپنی ازواج مطہرات کو اُس کا مصدق بنایا تھا(دیکھو منہاج البنوۃجلد ۳، صفحہ ۸۷۹)۔ہمارا مخاطب اپنے گریبان میں سرنہیں ڈالتااور بغیر سنددین مسیح کو بدنام کرتاہے اور بقول شخصے کوہ کندن وکاہ بر آور دن قدمامین سے ٹرٹولین کےقول کو نقل کرتا ہے اور نہیں جانتا یا نہیں سمجھتا کہ دین مسیحی کی بنیاد انجیل مقدس ہےنہ کہ اقوال ٹر ٹولین وکریساسٹم جن کو متر جم غلطی سے ’’ ایمہ کلیسیا‘‘ کہتا ہے ۔آپ فرماتےہیں’’چنانچہ ٹرٹو لن نے ایک رسالہ قبائح نسواں میں تصنیف کیا تھا اور کریسٹم جسکو عیسائی لوگ ولی سمجھتے ہیں بقول لیکے صاحب مورخ کے متقدمین علمائے انصاری کی رائے عموماً بیان کر دی ہے کہ عورت ایک ایسی بلا ہے جس سے گریز ممکن نہیں ہے اور ایک قدرتی مغوی اور ایک مرغوب آفت اور ایک خانگی فتنہ اور ا یک جنگ صحرادریک رنگین بلا ہے ‘‘۔ پھر بھی یہ حضرت سے کم رہے جن کو مسلمان لوگ سید الانبیاخیر الانام اورکیا کچھ نہیں سمجھتے۔ یہ حضرت ہی کا حصہ تھا کہ عورت کو شوم ونجس، کُتے اور گدھے کی طرح پلید، سب سے مضرفتنہ، شیطان کی خالہ ،شیطان سے بڑھ کر مکار، شیطان کی صورت اور جہنمی اور گویا بجائے رنگین بلا کے کالی فرمائیں۔ آپ اپنے قول کو نقل فرماکر یوں رطب اللسان ہوتے ہیں’’ سبحان اللہ یہ کلمات عورت کی شان میں ایک عیسائی ولی نے اُس زمانہ میں فر مائے ہیں جبکہ ماور حضرت مسیح کی عبادت فرائض دینی میں داخل سمجھے جاتے تھے‘‘۔ ہم کہتے ہیں عیاذاًبااللہ ۔ وہ کلمات عورت کی شان میں مسلمانوں کے خاتم النبیین نے اس زمانہ میں فرمائے ہیں جبکہ بی بی فاطمہ کو خاتون جنت بنانے کی کوشش ہو رہی تھی۔ پھر بھی آپ کہتے ہیں ’’ شارع اسلام نے عورتوں کی عزت کرنے کا حکم قطعی فرمایا ہے‘‘۔ اے حضرت کہاں غالبا آپ سیل صاحب کی غلطی میں دیدہ و دانستہ مبتلا ہو نا چاہتے ہیں۔ انہوں نے سورہ نساء کے پہلے رکوع میں ایک جملہ کا ترجمہ یہ کردیا ہے(Respect  women) ’’عورتوں کی عزت کرو‘‘۔ اصل مضمون یہ ہے واتقواللّٰہ الذی تسا دلون یہ والا رحام جس کا بہت درست ترجمہ نواب محمد حسین قلی خان صاحب نےاردو ترجمہ اہل تشیعہ میں کیا ہے۔ ’’ ڈرو اُس خدا سے کہ جس کےنام سے اُس میں مانگ جانچ لیتے ہو اور قطع رحم سے ‘‘۔ حسینی میں بھی یہی ہے’’ بپرہیز یداز قطع رحم‘‘ اور عبدالقادر کے ترجمہ میں ہے ’’ خبردار رہو نا تو ان سے‘‘ اور اس کے فائدہ میں ہے’’یعنی بد سلوکی مت کروآ پس میں ‘‘۔پس حضرت قرآن مجید میں سے عورتوں کی عزت تو ایسے اُڑگئی جیسے گدھے کے سر سے سینگ اور شارع اسلام نے جو جو عورت کے فضائل احادیث میں بیان فرمائے ہیں ۔ اُس سے بےچارے ٹرٹو لین بھی تھراگئے ۔ اب ہم آپ کویہاں سنا ئیں کہ دین مسیحی نےیعنی انجیل مقدس نےعورت کی نسبت کیا بتایا ہے اور اُنکی منزلت کیا مقر ر کی۔

یہ تو آپ نے بھی بڑی خندہ پیشانی سے اپنی انگریزی کتاب میں تسلیم کیا ہے کہ ’’ مسیح نے عورات کے ساتھ انسانیت کا سلوک کیا تھا۔ اُس کے پیروؤں نے انکو انصاف سے خارج کردیا‘‘(صفحہ ۲۰۷)۔ خیر آپ اُن پیروؤں کو معاف فرمادیں اور پیروؤں کے مقتدا کی سنیں یعنی مسیح کی۔ جو سلوک اُنہوں نے عورتوں سے کیا وہی سلوک دین مسیحی کی شرع ہے۔ مگر پیروؤں میں اگر آپ ٹرٹولین سے لوگوں نے جو ہمارے یہاں کے کوئی امام حسن یا صحابہ کرام نہیں اور جن کو ہمارے یہاں کا ولی بتانا گویا ہم کو بد نام کر نا ہے سند پکڑ یں تو یہ بھی آ پ کی خامی ہے۔ حقیقی پیرو مسیح کے اس کےحواری تھے جن کے و سیلہ مسیح کی تعلیم ہم کو پہنچی، اُن پر بھی آپ حر ف نہیں لاسکتے۔ اب آپ عورتوں کی عزت کے بارے میں انجیل کا فرمان سُنیں ۔ ’’۔۔۔عورت کو نازک پیدائش سمجھ کر عزت دو‘‘(۱۔ پطرس ۷:۳)۔ اس سے زیادہ آپ کیاچاہتے ہیں۔’’۔۔۔ عورت مرد کا جلال ہے‘‘( ۱۔کرنتھیوں ۷:۱۱) ۔ آپ بالکل خلاف کہتے ہیں کہ ’’اسلام نے عورتوں کو مواجب و حقوق بخشے اور اُنکو مرد وں کا ہم پا یہ کر دیا‘‘۔ ان کے مواجب و حقوق تو ہم فصل سوم قرآن و تعد د ازواج اور عدل میں بیان کرچکے اور مردوں کے ساتھ مساوات کے بارے میں جو حکم انجیل کا ہے وہ ہم آپ کو سنائے دیتے ہیں۔ ’’۔۔۔خداوند میں نہ عورت مرد کے بغیر ہے نہ مرد عورت کے بغیر کیونکہ جیسےعورت مرد سے ہے ویسے ہی مرد بھی عورت کے وسیلہ سے ہے مگر سب چیزیں خدا کی طرف سے ہیں‘‘ (۱۔کرنتھیوں ۱۲،۱۱:۱۱) ۔شوہر جورو کا حق جیسا چاہئے ادا کرےاور ویسا ہی جورو شوہر کا جو رواپنے بدن کی مختار نہیں بلکہ شوہر مختار ہے۔ اس طرح شوہر بھی اپنے بدن کا مختار نہیں بلکہ جوروہے (۱۔کرنتھیوں ۴،۳:۷)۔’’ مواجب اور حقوق ‘‘ انہیں کہتے ہیں۔ آپ ہم کواب اس کے مقابل میں کوئی شریعت اسلامی بھی سنائیں آخر آپکو اسلام اور عیسویت کی تعلیم کے اثر کو جسے آپ دہم اپنی آنکھوں سے مشاہد ہ کررہے ہیں دیکھ کر یہ اتنا ہی پڑا کہ’’ جو حیثیت عیسائی عورات کی اس وقت ہے اسلامی عورات ایک صدی میں اس حیثیت کو حاصل کریں گی‘‘(انگریزی، صفحہ۳۶۲)۔ہنوز دلّی دور است پہلے اسلامی مرد اپنی ملی و دیگر حیثیتیں درست کر لیں تب یہ سبز باغ عورات کو دکھائیں۔ہاں اگر ۔۔۔ ایک صدی میں اسلام نہ ر ہے اور اس پر وہ اثر پڑ جائے جو آپ پر پڑا ہے تو بے شک ہے یہ سننے کو بھی تیار ہو جاتے۔اسلام اپنی اصلاح اسلام سے مخالفت کر کے سکتا ہے۔ برخلاف دین عیسوی کے کہ جہاں تک اس کی پیروی کی جائے،جہاں تک اس کے احکام کو مانا جائے اصلاح ہوتی جاتی ہے کیونکہ وہ دین اصلاح کا منبع ہے۔جو مسیح کی سنے گا وہ عورت کی عزت کرے گا،جو محمد کی سنے گا وہ عورت کو’’فتنہ ،پلیدگی‘‘اور’’ صورت شیطان‘‘ اور ’’مکار ‘‘مانے گا۔تو کیا ایک صدی کے بعد محمد صاحب کی کوئی نہ سنے گا۔ہاں اگر ایسی امید ہے تو ہم بھی تمہارے ساتھ امید کرتے ہیں۔ فا تنظر وا انیّ معکم من المنتظرین۔ 

تَمّتَ

اعلان

جناب ڈاکٹر احمد شاہ صاحب شائق ولایت تشریف لے گئے ہیں۔بوجوہ چند در چند کتاب کی تیاری میں برابر دیر ہوتی رہی حتیٰ کہ اس کی اشاعت ان کے سامنے نہ ہو سکی۔لہٰذا انہوں نے ہندوستان میں اس کتاب کی اشاعت کے واسطے مجھ کو اپنی طرف سے ایجنٹ مقرر کر دیا ہےجس خدمت کو میں نے خوشی سے قبول کیا۔آئندہ کو اس کتاب کے متعلق درخواستیں اور ہر قسم کے خطوط وغیرہ میرے نام اس پتہ پر آنےچاہیئں۔

پنڈت پرشو تم داس،دفتر کرسچن ایڈووکیٹ،گوجرانوالہ پنجاب۔ کتاب شہادت قرآنی بجواب رسالہ عصمت انبیا جس کا ذکر شروع کتاب میں آیا ہے عنقریب شائع ہونے والی ہے۔محمدی واعظین و مناظرین کو رسالہ امہات مومنین اخیر ماہ اپریل ۱۸۹۸ء تک بلا قیمت ملے گا۔

الراقم پنڈت پرشو تم داس

جنوری۱۸۹۸ء


۱۲. مسلم اور بخاری ایضاًنمبر۸۹۱۔

۱۳. مسلم اور بخاری ایضاً نمبر۱۲۹۵۔

۱۴. مسلم ایضاً نمبر۳۲۰۔

Pages