ایک اعتراض کا جواب

Why Christians Believe Jesus is the Son of God

A reply to a Muslim Objection

Published in Nur-i-Afshan April 14, 1881
By. Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

ایک اعتراض کا جواب

ایک محمدی ملقب شوریوں تحریر فرماتے ہیں کہ عیسائی اپنی نادانی سے مسیح کو خدا کہتے ہیں حالانکہ انجیل سے آدم زاد پر بھی بھی اُنکی فضیلت ثابت نہیں پھر فرشتونکا کیا زکر چنانچہ متی باب ۱۱ ۔ آیت ۱۱ میں مسیح یوں اقرار کرتا ہے کہ میں تم سے سچ مچ کہتا ہوں کہ اُنمیں سے جو عورتوں سے پیدا ہوئے یوحنا بپتسمہ دینیوالے سے کوئی بڑا نہیں ظاہر نہیں ہوا اگر مرد کی قید ہوتی تو مسیح منشیٰ ہو جاتے مگر ابتو عورت کی قید ہے جسمیں مسیح بھی شامل ہیں کیونکہ وہ بے باپ مریم سے پیدا ہوئے اسلئیے یوحنا کو مسیح پر بھی فوقیت ہے بس اسحال میں جب انکی انسانیّت بھی کامل نٹھہری تو انکی الوہیّت کا کیا ٹھکانا اسیواسطے حضرت مسیھ کی تعلیم اکثرناقص اور تکمیل طالب تھی جسکی تکمیل قرآن مجید نے کر دی آئینہ اسلام نے یہہ ٍامر بخوبی ثابت کر دیا ہے۔

شور صاحب تو عیسایونکی نادانی ثابت کرتے ہیں لیکن دیکھنا چاہیئے کہ کیا لکھا ہے اول تو اُسی باب ۱۱ ۔ آیت ۱۱ میں یوں لکھا ہے لیکن جو آسمان کی بادشاہت میں چھوٹا ہے وہ اُس (یوحنا) سے بڑا ہے پھر مرقس ۹ باب ۴۵ آیت میں ہے اگر کوئی چاہے کہ پہلے درجہ کا ہو وہ سب میں پچھلا اور سب کا خادم ہو گا۔ مگر اس کام خاکساری اور حلیمی کی صفت سوائے مسیح کے اور کسی میں نہیں مل سکتی وہ کہتا ہے میں حلیم اور دلسے خاکسار ہوں ۔ متی ٍ ۱۱باب ۲۹آیت ابن آدم اس لیے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ کرے ۔ متی ۲۰ باب ۲۸ آیت اُسنے اس درجہ تک خاکساری اختیار کی کہ اپنے شاگردوں کے پیر دھوئے اور اُنکو پونچا ۔ یوحنا باب ۱۳۔ اُس نے خدا کی صورت میں ہو کے خدا کے برابر ہونا غنیمت نہ جانا لیکن اُسنے آپکو نیچ کیا اور خادم کی صورت پکڑی اور انسان کی شکل بنا اور آدمی کی صورت میں ظاہر ہو کے آپکو پست کیا اور مرنے تک بلکہ صلیبی موت تک فرمانبردار رہا فلپی ۲ باب آیت ۸پس مسیح ایسی صفت سے موصوف ہو کر یو حنا سے جو تمام جہان سے افضل ہے بڑا اور بزرگ ٹھہرا۔

دویم (۲) اسی باب کی آیت ۱۰ ۔ میں مسیح یوحنا کی نسبت کہتا ہوں کہ یہہ وہ جسکی بابت لکھا ہئ کہ دیکھو میں اپنا رسول تیرے آگے بھیجتا ہوں جو تیرے آگے تیری راہ درست کریگا یہا ں یوحنا مسیح کے آگے راہ درست کرنیوالا ٹھہرا پس بتلایئے کہ کون افضل ہے آیا وہ جو راہ صاف کرتا ہے یا وہ جلال کا بادشاہ جسکی آمد کے لیے ایسا جلیل القدر راہ صاف کرے اور کون بڑا ہے وہ جو کھانے بیٹھا یا وہ جو خدمت کرتا ہے کیا وہ نہیں جو کھانے بیٹھتا ہے۔

سویم (۳) اُسنے یعنے مسیح نے تو درحقیقت یو حنا باپٹسٹ کو سب انبیا در سل سے افضل و اعلیٰ بتلایا مگر یوحنا باوجود اس عظمت و شرف کے جو اسکو کل آدم زاد پر حاصل ہو یہہ گواہی دیتا ہے۔ یہہ (مسیح ) وہی ہے جسکا زکر میں کرتا تھا کہ وہ جو میرے پیچھے آنیوالا ہے مجھ سے مقدم ہے کیونکہ و ہ مجھسے پہلے تھا اور اُسکی بھر پوری سے ہم سب نے پایا بلکہ فضل پر فضل جسکے جوتے کا تسمہ بھی میں کھولنے کے لایٔق نہیں۔ یو حنا باب اول اب بتلائیے کہ یوحنا جو تمام آدم زاد سے بڑا ٹھہرنے پر بھی اپنے آپکو مسیح کے جوتے کا تسمہ کھولنے کے لائیق نہ سمجھے وہ مسیح سے بڑا کیونکر ٹھہر سکتا ہے نہ معلوم یوحنا کو مسیح سے افضل بتلا تا کس منطق کے موافق ہے شائید اپنے انجیل نہیں دیکھی۔

انجیل ،سیح کو خدا ء مجسم بتلاتی ہے پھر فرشتے کیونکر اُسکے مقابل آسکتے ہیں وہ اُسکی مخلوق اور اُسکے مقدس ہاتھ کی کاری گری ہیں کیونکہ سب چیزیں اُس سے موجود ہوئیں اور کو ئی چیز موجود نہ تھی جو بغیر اُسکے ہوئی یوحنا ۱ باب ۳ آیت وہ تو اُس ماہیت نقش ہو کے سب کچھ اپنی قدرت کی کلام سے سمجھا لتا ہے وہ فرشتوں سے اس قدر بزرگ ٹھہرا جسقدر اُسنے میراث میں اُنکی نسبت بہتر خطاب پایا اُسنے فرشتوں میں سے کسکو کبھی کہا کہ تو میرا بیٹا ہے میں آج تیرا باپ ہو ا وہ فرشتوں کی بابت یوں فرماتا ہے کہ وہ اپنے فرشتوں کو روحیں اور اپنے خدموں کو آگ کے شعلہ بتاتا ہے مگر بیٹے کی بابت کہتا ہے اے خدا تیرا تخت ابد تک ہے راستی کا عصا تیری بادشاہت کا عصا ہے پھر اُسنے فرشتوں میں سے کسکو کبھی کہا کہ تو میرے دہنے بیٹھ ۔ عبرانی باب اول اے شور صاحب مسیح کی عظمت و منزلت کو دریافت کرو۔

پھر انجیل کی تعلیم کو آپکا یا مؤلف آئینہ اسلام کا تکمیل طلب اور قرآن کواُنکا مکمل کہنا تمسخر اور مضحکہ ہے جسنے انجیل کو بغور مطالعہ کیا ہوگا وہ ایسا بے معنے کلام ہر گز نہ نکالیگا اُس کتاب کومینے بھی دیکھا ہے اُسکے مؤلف نے محض دنیا سازی کر کے روپیہ کمانے کی تدبیر نکالی ہے اور اُسکا وہ لمبا چوڑا نام تکمیل الادیان بالاحکام القران کچھ اس گپ سے کم نہیں ہے جیسا کہ امام دہلی کا معیار کی نسبت یہہ لکھنا کہ اس کتاب سے تمام جہاں کے پادری ہار جاتے ہیں۔

میں نے اس آئینہ اسلام کا جواب لکھا ہے انشاءاﷲ جلد ہدیہ احباب کرونگا مگر آپ کیونکر اُس کتاب کی رو سے قرآن کو مکمل انجیل کہتے ہیں۔

انجیل تو الہام الہیٰ ہے اور قرآن الہام و جالی کیونکہ مؤلف آئینہ اسلام محمد صاحب کو جمان کا سردار ٹھہراتے ہیں جسکی نسبت میسح نے پیشین گوئی کی تھی دیکھو صفحہ دس (۱۰) حاشیہ ۱ کا آخر مگر انجیل جہان کا سردار تعب شیطان لعلٔین کا بتلاتی ہے بس اُسکی تعلیم الہیٰ تعلیم کی کیونکر مکمل ٹھہرسکیگی شور صاحب آپکا یہہ شور مچانا عبث ہے۔

ہندوستان کا قومی کبیر ہ گناہ بُت پرستی ہے کو ئی شے انسان کی روحانی طاقتوں کو اُس سے بڑھکر بگاڑنے والی نہیں ہے۔ بُت پرستی صرف یہی نہیں ہے کہ اپنے ہاتھ کی بنائی ہوئی مورتوں یا اجرام فلکی یعنے سورج چاند اور سیاروں کی پوجا کی جاوے یا مرُدہ قبروں اور خانقاہوں کے آگے سجدہ کر کے اُنسے مرُادیں مانگی جاویں بلکہ یہہ لفظ اور بہت سی باتوں پر حاوی ہے جو سب کی سب خدا کی نظر میں گناہ ہیں۔ گناہ کے کام کو خواہ وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو دلسے پیار کرنا اُس سے خط اُٹھانیکا ارادہ کرنا یا اُس سے کسی بہتری کی اُمید رکھنا بُت پرستی ہے۔ کسی مخلوق کو خواہ وہ کیسا ہی اشرف اور افضل کیوں نہ ہو خدا کے برابر پیار کرنا اور اُسپر بھروسہ کرنا ُبت پرستی ہے۔ کو ئی چیز جو خدا کی مخالفت میں ہو مثلاً دہریت الحا د اور بیدینی ایک قسم کی بتُ پرستی ہے۔ مغرور اور شیخی باز آدمی خود اپنا بتُ ہے وہ گویا آپ اپنی پرستش کرتا ہے اور دوسروں سے امید رکھتا ہے کہ وہ بھی مجھکو پوجیں ۔ خود پسند اور نفس پرور آدمی اوروں کی تحسین اور آفرین کو اپنا بتُ بناتا ہے اور خوشامدی اُسکو جسکی خوشامد کرتا ہے۔ کینہ پرور خدا کے ہاتھ سے انصاف کی تلوار چھیننے کی کوشش کرتا ہے۔ لالچی اور دولت کا بندہ دولت کو اپنا معبود سمجھتا ہے اُسیکو پیار کرتا ہے اور اسی سے سچی خوشی حاصل کرنیکی امید رکھتا ہے۔ شہوت پرست ایسی مغلظ مخلوق کو اپنی دیویاں بناتا ہے کہ جنکی غلاظت کا کچھ حد ٹھکانا نہیں۔ حد سے زیادہ متقد چیلے اپنے گردوں کو حد سے زیادہ پیار کت نیوالے والدین اپنی اولاد کو زن مرید شوہر اپنی چاہتی بیبیوں کو اپنے اپنے بت بنانے اور اُنہیں کی پرستش کرتے ہیں۔ انسانی دلسے کو ئی خیال پیدا کرنا اور اُسکو آسمانی مزہب جتانا یا اپنی عقل پر بھروسہ کر کے اُس خدا کا خیال اپنی طبیعت کے مطابق اخز کرنا زرا کی نظر میں ایسا ہی بد ہے جیسا بتخانونمیں بتونکا قائم کرنا کیونکہ ایسا خیال ہماری روحانی طاقتوں اور لیاقتوں کو جو خالق نے ہماری بہتری کے لیے ہم میں مخلوق کی ہیں بالکل بگاڑنا اور زلیل بنا دینا ہے غرض جو چیز زات میں یا صفات میں خدا کے بر بر مانی جاوے یا اُسکی پیدا کی ہوئی چیزونکو خود ہی مانا جاوے یا اُسکے خاص استحقاق یعنے کامل پیا ر شکرگزاری عزت اور پرستش میں کسی دوسرے کو شریک ٹھہرایا جاوے وہ سب بتُ پرستی میں داخل ہے۔ خدا اپنی زات اور صفات میں غیر محدود ہے اُسکو کسی محدود منشا بہت سے تشبیہ دینا گویا اُسکے پاک نام کی تحقیر اور بیعزتی کرنا ہے اور یہہ انسان کا سب سے بھاری خطا ہے۔ کامل نقش پاپوں مصور اگر بہت کوشش کرے تو انسان کی محض بیرونی صورت کی تصویر کھینچ سکتا ہے اور اُسکی روح کی طاقتوں اور خوبیوں کو کسیطرح نہیں دکھا سکتا پھر عجیب نہیں وہ لوگ جو اُن دیکھے خدا کیصورت کو ایسی مورتونمیں جو محض مٹی اور پتھر یا دیگر فانی مادوں سے تیار کیجاتی ہیں صحیح مانتے ہیں اور انکی پوجا کرتے ہیں۔ سچا الہامی مزہب خدا کی شکل کو کسی صورت یا کسی صورت میں بنانیکی کو شش کو شخت گناہ ٹھہراتا ہے اور کسی مخلوق یا بُت یا مورت کی پر ستش کو بڑی شدومد سے روکتا ہے۔ خدا کا حکم ہے کہ تو اپنے لیے کوئی تراشی ہوئی مورت یا کسی چیز کی صورت جو آسمان پر ہے یا نیچے زمین پر یا پانی میں زمین کے نیچے ہے مت بنا۔ مسیح جو اس دنیا میں بتُ پر ستی مٹانے اور سچے واحد خدا کی پر ستش قائم کر نیکے لیے آیا تھا یوں فر ماتا ہے کہ خدا روح ہے اور اسکے پر ستارون کا فرض ہے کہ روح اور راستی سے پر ستش کریں۔

تاریخ سے ثابت ہے کہ بت پرستی نے انسان کی اخلاقی عقلی اور روحانی طبیعت کو بہت سے نقصان پہنچایا ہے اوسکو انسانی تہذیب روحانی طاقت اور اخلاق کی اعلیٰ خوبیوں کو حاصل کرنے سے بالکل روکدیا ہے اورا ُسکو سچے مذہب سے بٹکا کر گویا انسانیت سے بہت دور پھینک دیا ہے۔ بتُ پرستی قوم جہالت کی زلت سے تہزیب کے اعلیٰ درجہ اور خلاق عظمت پر کبھی نہیں پہنچی بحر اُس کے کہ بُت پرستی کی رسمونکے مخالف کو ئی مخفی فعل یا سبب اُسمیں کام کر رہا ہو۔ ہندوستان میں ویدوں کے زمانہ کے لوگ جسکو تین ہزار بر س گزر چکے ہیں واحد خدا کے قائل تھے گو سورج اور ستارونکو جو اُسکی عظمت اور قدرت کے نشان ہیں اُسکا مظہر مانتے تھے لیکن اُنکی اولاد اجرام فلکی کی پر ستش کرتے کرتے عنصروں تک پہنچے اور عنصروں سے نامی اور بہادر آدمیوں کی روحوں اور تمام قسم کی حیوانی اور خیالی مخلوقات کی پوجا کرنے لگ گئے یہانتک کہ دیوی اور دیوتونکی تعداد ۳۳ ۔ کروڑ تک پہنچا دی اور بُت پر ستی میں ایسے محو ہوئے کہ خدائے واحد کا خیال تک بھی دلسے اُٹھا دیا یہہ زلیل اور پست حالت جو ہندوستانکی اب ہے ایک قوم ہمدرد کے لیے نہایت افسوس بلکہ رونے کا مقام ہے۔

اخیر میں ہم اپنے تعلیم یافتہ ہمو طنونکو یاد دلاتے ہیں کہ ج منصب اور عزت انہوں نے حاصل کی ہے اُسکے ساتھ ایک بڑی زمہ داری شامل ہے اُنکا فرض ہے کہ علم کی برکت سے جو خدا نے انکو عطا کی ہے نہ صرف آپ فائیدہ اُٹھائیں بلکہ اپنے جاہل ہموطنوں کو جو ابتک تاریکی کے غار میں پڑے ہوئے ہیں مستفیض کریں۔ یہہ ملک اُنکے باپ دادا کا وطن ہے یہہ اُنکی ولادت اور بودوباش کی جگہ ہے حب الوطنی اسی امر کی متقاضی ہے کہ وہ علمیت کی روشنی سے اپنے ملک کی بتُ پرستی کو معدوم کریں بت پر ستی کی رسم رسوم کو خود چھوڑیں اور اپنے ہموطنوں سے چھوڑائیں اپنا عالمانہ رعب اپنے جاہل بہن بھائیوں پر جما دیں اور بت پرستی کا ہر ایک نشان جو خدا کی نظر میں سخت نفرت انگیز ہے اپنے ملک کی سر زمین سے مٹائیں اور اگر وہ اس فرض کے ادا کر نے میں غفلت کر ینگے تو یقین جانیں کہ خدائے واحد کی نظر میں سخت سزاوار ٹھہر ینگے ۔ ہمارا کام آگاہ کردینا ہے۔ ہر سولاں بلاغ باشد و بس۔